کون شیا ما تھی جو گھر کے ساتھ جڑے
سنسان احاطے میں اگتے چنبے کی جھاڑ میں رہتی تھی
کون مُڑے پیروں والی
دھوپ کی سیدھی قامت میں چلتی تھی اُجڑی گلیوں میں
مٹی کے پردے سے کس کی سرخ سنہری جھلکی پر
پہلی بھِڑ کا پہلا ڈنک بند کے اندر کھٹکا تھا
جُھلسی خوشبوؤں میں مِل کر باس گھڑے کے پانی کی
پیلے تنکوں سے لیپی سہ پہروں میں
بان کی پھیکی ٹھنڈک کا احساس بدن کو دیتی تھی
اور وہ شامیں کیسی تھیں
جن کے گیلے آنگن میں اُگتی کائی کے سبزے میں
لیمپ جلا کر پڑھنے والا
لفظوں اور پتنگوں کی گڈمڈ میں بنتی
شکلوں کی اِملا آنکھوں کی تختی پر
سرکنڈے کی بے قط نوک سے لکھتا تھا
اور ابد کے دریا میں بہتے امبر کا بیڑا جواُس وقت وہاں سے، اُس بستی سے گزرا تھا
کیا جانے اب کس ظلمت کے پار
کس بے اِسم سمندر کے ساحل پر اترا ہو
آؤ استفسار کریں
شاید یہ ازلوں کا دریا واقف ہو
اُلٹی سمت میں بہتی لہر کی منزل سے
ساحل کے ناساحل سے