دل کے اک متروک گوشے میں وفا کی
خوبصورت راہبہ بیٹھی ہوئی
اپنے گردا گرد
بے برکت دعا کا نور پھیلائے ہوئے
مدتوں سے۔۔۔۔جانے کس کی منتظر
اور باہر
شہر کی دہلیز پر
رات کے نوزائیدہ بچے کے جشنِ تہنیت میں
رقص کرتے ہیجڑے
درد کی فرہنگ کے سارے ورق بکھرے ہوئے
لفظِ نابینا کے آگے درج معنی کا خلا
عشرتِ یک شب کے دلدادہ تماشابیں
بہک کر
جمگھٹوں میں بامِ ثروت کی طرف جاتے ہوئے
نغمہ بے سوز سننے کے لئے
اور کم میعاد کی مانگی ہوئی خوشحالیوں کے پیرہن سے
شوخ’ کچا رنگ۔۔۔۔ ناپختہ چمک اڑتی ہوئی
ایک گوشے میں اکیلا
معرکہ زارِ شکست پے بہ پے میں ایستادہ نوجواں
بے بس و مجبور’ بے دست و کماں
آفتاب اقبال شمیم