خُوبصورت عورت کا خواب

گڑی ہے چوبِ درختِ مُردہ

سبھی زمانوں کے راستے میں

شکست و نصرت کا اِستعارہ

غلام و آقا کے رابطے کی ہمیشگی کا

جسے ہرا پھر سے کر دیا ہے

تمہارے وارے ہوئے لہو نے

بلندیوں پر

تمہارے مصلُوب بازوؤں کے کشودہ پرچم کی پھڑ پھڑاہٹ

تمہارے سُوکھے لبوں کی قوسیں،

فضا میں زندہ پروں کی بست و کشود کے دلنواز

مژدے بکھیرتی ہیں

خموشیاں بولنے لگی ہیں

ابھی وہ دلبر۔۔۔۔ قدیم وعدے کی پالکی میں

تمہیں تمہاری وفا کا انعام دینے آئے گی

اور گھونگھٹ اُٹھا کے

آنکھوں کے آسماں پر ابھرتے تارے

کی روشنی میں

تمہارے دوبارہ لوٹنے کی نوید دے گی

کہ اس نے ہارے ہوئے لہو سے

کشید کر کے

بنا لیا ہے نیا ہیولیٰ

زمیں کی قسمت کا تازہ وارث

جسے وہ اپنے وجود میں پلنے والی

خواہشِ کے دودھ پر پالتی رہے گی

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں