دریا درویش!

وہ دریا درویش

کسی پربت کی پتھریلی کٹیا میں رہتا ہے

چاندیوں سے دُھلی ہوئی

وادی کی صبحیں

کافیاں گاتے پانی کی

شفاف روانی میں عکسوں کے گجرے پہنے

اُس بے پروا آواز کے دھیمے بھاری لہجے کی

محبوبی میں’

سدا سہاگن رہتی ہیں

میں اُس کو برسوں سے پیاس پرندے کے

پاؤں میں باندھ کے سندیسہ

بھجواتا ہوں

آ ! اِس ہجر کے موسم میں

لہروں کے چمکیلے چمٹے پر بھیگی مٹی کی

اُڑتی خوشبو کے نعمے سے

آس کنارے پر رہنے والوں کی دنیا کو

مہکاتا جا

آ!  تیرا آنا مژدہ ہے تیرے دائم آنے کا

تجھ کو لوٹ کے جاتے کس نے دیکھا ہے

آ! اِن اشکوں کی مقدار بہت کم ہے

اِن کے نم سے کیسے ہم

سورج مکھیوں کے مرجھائے کھیتوں کو سیراب کریں

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں