چار دیواری میں گر گر کر شفق بجھتی ہوئی
دید بانوں سے لگی آنکھوں میں
ننگے خنجروں کے عکس تھرائے ہوئے
اور بے بازو جواں کے سامنے رکھی ہوئی
خالی کماں
مسکنِ تقدیر ۔ ۔ ۔ ۔ ایوانِ سفید
بھیجتا ہے زر نوشتہ حکم روہیلے کے نام
بے بسی کے قصر میں
نوجواں شہزادیوں کے جسم
خوفِ مرگ سے ڈھلکے ہوئے
اورآ نکھوں میں سلائی پھیرتا لمحہ
زوالِ روشنی لکھتا ہوا
سب نے اپنے دوش پر
رکھا ہوا ہے کپکپاتا ہاتھ کل کی آس کا
دےکھ! منظر یا س کا
کس طرح یہ بے ارادہ جرأتیں
طے کریں اک جست میں پس ماندگی کا فاصلہ!
آفتاب اقبال شمیم