بنتِ براہیم (صعنا کی نذر)

تجھے جاناں!

معطر آنسوؤں کی اوٹ سے آنکھوں نے دیکھا

تُو۔۔۔۔ عروسِ آسماں

اپنے جواں جذبے کے سادہ سے بلاوے پر

شفق کی قِرمزی پوشاک پہنے

گیسوےں میں شام کی چنبیلیاں گوندھے ہوئے

اِقرار کے معبد سے نکلی تھی

قبولِ عشق کا سجدہ ادا کر کے

عجب منظر تھا رونق کا

زمیں نے ان گنت طائر اُڑائے روشنی کے

تیرے رستے میں

چھنا چھن۔۔۔۔ منتشر ہوتی ہوئی خوشبو نے ہر ہر سُو

لُٹائی نقرئی خیرات سپنوں کی

نمو کا شوق جاگا سرمئی مٹی کے سینے میں

کیا طے زندگی سے زندگی تک کا سفر اک جست میں

بخشش کے لمحے نے

شگفت ایسی ہوئی تاریکیوں میں دُور تک اُڑتے شرارے کی

دِل شب میں

اندھیرے کے چٹخنے کی صدا آئی

دھڑکتے بولتے رنگوں نے ہر خیمے میں جا جا کر

منادی کی

اُسے دیکھو!

اشاروں میں بلاتی ہے تمہیں بامِ بلندی سے

تمہیں جو عشق کے میلے میں آئے ہو!

اُسے دیکھو!

ذرا سی خاک

کیسے خوبصورت منظروں کے گلستاں تخلیق کرتی ہے

فنا ہو کر

بقا کی داستاں تخلیق کرتی ہے

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں