اے غیر فانی اجنبی!
یہ زندگی، یہ خاکِ یکساں کی زمیں
تیرے لئے موزوں نہیں
تو نے فرازِ خواب سے دیکھا جسے
وہ یوں نہیں
کیا ہے تری میراث میں
کچھ چادرِ ایام کی بوسیدگی، کچھ بستیوں کی بیوگی
کچھ منظروں کی اوٹ میں اڑتی ہوئی
خوشبو گلِ نایاب کی
برجوں میں بجھتی روشنی
محرومیاں۔۔۔۔
ڈوبے ہوئے دن کا سماں۔۔۔۔
اُجڑا ہوا خیمہ جسے چھوڑ آئے پیچھے کارواں
اے غیر فانی اجنبی!
وہ زیرِ نخلاں درس گاہ دوستی
وہ غار جس میں روشنی
شاخِ بشارت پر کھلی
وہ چوب جس پر سُرخیاں اُبھریں نئے امکان کی
نغمہ نما آواز میں روئیدگی نروان کی
وہ زیر دستوں کے لئے منشور
اس روئے زمیں پر خلد کی تعمیر کا
لیکن یہ عادت خاک کی
ایجاد کر لینا بدل زنجیر کا
اے غیر فانی اجنبی!
کل بھی یہاں تو آئے گا
یہ خاکِ یکساں کی زمیں’ نیم آفریں
جلوہ تجھے دکھلائے گی بے انت کا
اس انت میں
کیسی شگفت اُس نام کی
پیغام کی
لکھے جسے دستِ زماں
مایا کے اڑتے رنگ میں
اے ہجر زادِ زندگی!
تیری تمنا کے افق ہیں بے زمیں’ بے آسماں
تیرے ہنر کی انگلیاں
جو لانی ء محدود سے شاید کبھی
پرچھائیوں کو باندھ لیں
لیکن نہیں
یہ خاکِ یکساں کی زمیں
تیری بقاء کی رازداں
اپنی انا تیری انا کے درمیاں
اک فاصلہ قائم رکھے
شاید تجھے یوں مضطرب دائم رکھے