سب نے محنت کی تقدیس کا اسمِ اعظم پڑھا
چانگ دریا کا پانی سوا نیزہ اوپر اٹھا
بے گیاہ آسماں لہلہلانے لگا
کوہِ عریاں کو بہتی ہوئی روشنی کا کمر بند باندھا گیا
دودھ کے رس سے پھٹتی ہوئی چھاتیاں
سبز پوشاک سے ڈھک گئیں
مسکرایا کساں دیوتا
بھوک کی ڈأینیں مر گئیں، بیلچوں کی
کدالوں کی ضربات سے
اور بچوں کو سوتیلی ماؤں کی غرّاہٹوں سے رہائی ملی
خشک پربت پہ تازہ رگیں پھیل کر
بن گئیں سرخیاں کل کے منشور کی
آفتاب اقبال شمیم