سورج کی خوشبو

مِرا نام۔۔۔۔خوش بخت سورج کی خوشبو،

مِرا شہر۔۔۔۔بے آسماں ملک کے وسط میں

جس کے بازار اشیاء میں آنکھیں جھپکتی ہوئی فاحشہ

اپنی زرّیں ہتھیلی پہ رکھے ہوئے جسم کی عشرتیں

بانٹتی ہے

جہاں لوگ، اِسراع، ‘اِسراع’ کی گونج پر

یک زباں ہو کے، لبیک کہتے ہوئے

سِحر میں چل رہے ہیں

مِرا مشغلہ۔۔۔۔ ایک خواہش، لگاتار خواہش کہ لمحے کی مہمیز کا زخم

کھا کی حسِیں۔۔۔۔بے عناں، ایک ہی جست میں

جسم و جاں کی حدیں پھاند لیں

کش لگے اور روحوں کے پاتال میں جاؤں

بربط بجاتے ہوئے

کیا خبر گمشدہ جل پری میری آواز پر جی اُٹھے

اور میرا پتہ۔۔۔۔ ایک نالے کی نیلی گزرگاہ پر

اک مکاں۔۔۔۔ بے نمود اور بے نام سا

جس کے کمرے میں چُپ چاپ سایہ سا چلتا ہوا

اجنبی اور مفرور۔۔۔۔روپوش گمنامیوں کی پنہ گاہ میں

۔۔۔(دیکھتے ہو اُسے؟)

کل سویرے وہیں۔۔۔۔ دوسرے اور وہ ۔۔۔۔خشت بردار،

اہرام کی جائے تعمیر پر، پائے جائیں گے

آقا کی بھاری صدا اُس سے پوچھے گی کیا نام ہے؟

وہ کہے گا، مِرا نام۔۔۔۔خوش بخت سورج کی خوشبو۔۔۔۔

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں