ایک لڑکی ابابیل سی
دھوپ میں دس بجے پر فشاں
ایک خوشبو کے جھونکے کے ہمراہ اڑتے ہوئے
راستے میں ملی اور اک آن میں بے نشاں ہو گئی
آنکھ میں تتلیوں سے چرائے ہوئے رنگ ٹپکا گئی
اک شرارا گرا اس کی جانب لپکتے ہوئے ہاتھ پر
انگلیاں جل گئیں
دن کی آواز مغرب میں ڈھلنے لگی
اور احساس میں
اک دھواں سا، زیاں سا دھند لکے بنانے لگا
کتنی بھاری تھیں اشیاء کی اصلیتیں
کھرورے جسم کے پربتوں پر اُبھرتا کہاں
عکس کھویا ہؤا
اور اب تیز قدموں سے سہ پہر کی
سیڑھیوں سے اترتے ہوئے
دیکھتا ہوں کہ میں ہوں کھڑا
دم بہ دم ڈوبتے شہر کی غیر مانوس شکلوں کے ابنوہ میں
وہ کہیں بھی نہیں، وہ کہیں بھی نہیں
شام ہونے کو ہے۔۔۔۔
ڈوب جا، ڈوب جا
ایک ہی دن میں دو بار سورج نکلتا نہیں
آفتاب اقبال شمیم