جانتے ہو، کون ہی
جو کاغذوں پر پیشاں لکھ کر سدا
ایک بے میعاد وعدے کی عدالت میں
بُلاتے ہیں تمہیں
اور پھر خود ساختہ انصاف کی جنت دکھاتے ہیں تمہیں
کس قدر مسحور کرتی ہیں شبہیں باغ کی
جس میں سنگھاس پہ بیٹھا بادشاِ آسماں
شادماں۔۔۔۔
شادماں سرو و صنوبر کی کنیزیں
مورچھل تھامے ہوئے
اپنا سایہ ڈالتی ہیں شوکتوں کی دھوپ پر
اور وہ اپنی سخاوت سے رواں کرتا ہے
چشمے کا سیراب
اور تم
داستاں کے شاہ زادے کی طرح
اس نظامِ سحر نا مطمئن
لوٹتے ہو۔۔۔۔اور آگے دیو استبداد کا
فیصلہ در دست آتا ہے نظر
بستیوں کے آہنی پھاٹک کی تالہ بندیاں کرتے ہوئے
کیا کرو گے!
اپنی ناداری کا ترکہ چھوڑ کر مر جاؤ گے
اپنے ظلمت زاد فرزندوں کے نام
یا یہ دستاریں سروں سے کھول کر
دال دو گے خاک پر
تاکہ سمجھوتے کی کالی چیونٹیاں
رفتہ رفتہ۔۔۔۔ذرہ ذرہ کر کے لے جائیں تمہیں
آفتاب اقبال شمیم