جمبود ٹوٹے گا جب زمیں کا
تو برق رفتار حادثوں کے سموں سے چنگاریاں اڑیں گی
نہتّے اور پُر غرور لڑکے
اُڑائیں گے کنکروں کی آندھی
کھنڈر میں اپنی ہزیمتوں کے، اُکھڑے جالوت جا گرے گا
کٹیں گی پھر شہر شہر تازہ بشارتوں کی
نئی رتوں کی مہکتی فصلیں
فضا میں بے نام مرنے والوں کی عظمتوں کے عَلم کھلیں گے
مگر یہ مفروضہ وارداتیں ہمارے جانے کے بعد ہوں گی
چلو چلیں منجمد سڑک پر حشیش پینے
طمانیت کی تلاش کرنے
گریں گے آنکھوں سے جب شرارے
اُتر کے آئے گا دیوتاؤں کے آسماں سے
سکوں کا بے سایہ دار لمحہ
چلو چلیں اتقام لینے کسی سے بیٹھک کے معرکے میں
ہدف کو ہم قہقہوں کی بوچھاڑ سے اُڑائیں
فراغ ہو تو
بچھائیں آنگن کے بیچ میں دھوپ سردیوں کی
بڑھتے ہوئے ناخنوں کو کاٹیں
پڑھیں رسالہ
کہ جس کے رنگین سر ورق پر
چھپی ہے تصویر شاعرہ کی
آفتاب اقبال شمیم