کانچ کی کوئی چیز کہیں پر گر کر چکنا چُور ہوئی
نابینا اپنے سائے سے ٹکرایا
آنکھیں، آنکھیں۔۔۔۔ ہر سو آنکھیں
اوپر رات کا گہرا بادل
اُمڈا ہے
پرنالوں سے بہتا ہے
کالا شور اندھیرے کا
کوئی شاید
جسم کا بھاری بوجھ اٹھائے نکلا ہے
خود سے بات کرے تو خود بھی سن نہ سکے
پونچھ رہا ہے
بھیگے ہاتھ سے پیشانی پر
لکھا حرف مقدر کا
جیسے یوں بچ جائے گا وُہ بہنے سے
دھوپوں کی طغیانی میں
آفتاب اقبال شمیم