گزرا اِدھر سے وُہ
اِک پُر شکوہ سر کشی کے راہوار پر
تھامے ہوئے کرن کو اندھیرے کی سیدھ میں
اُس نے ہوا کو دشت سے
ساحل سے موج کو
آزاد کر دیا
مضمون دہر سے
بے حاشیہ سطور کی چنگاریاں اُڑیں
اِک خواب کی شگفت سے موسم بدل گیا
دیکھا گیا سپہر تصوّر کے اوج پر
منظر طلوع کا
امکان کی منجنیق سے چھینٹے الاؤ کے
برسے فیصل پرتحریر حرفِ گُل ہوا لوحِ بہار پر
الٹا ورق ہوا نے زمیں کی کتاب کا
دیکھا گیا دیارِ تمنا کے آس پاس
لمحے کو بے لباس
اک برق تھی کہ پشتِ سیاہی سے کُود کر
اُتری زمین پر
غائب ہوئی تو چھوڑ گئی شب کے رُو برو
چشمِ ستارہ جُو
آفتاب اقبال شمیم