ہوا شرارت سے روز آکر بٹن دباتی ہے
اور اندر
ذرا سی آواز گونجتی ہے
وُہ دائیں کھڑکی سے اپنے چوبی بدن پہ رکھا ہوا کسی کا
بناوٹی سرنکالتا ہے
ہمیشہ یکساں جواب دیتا ہے
دیکھ: اے کوہِ سبز کی رہنے والی لڑکی
ابھی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہم حویلی میں
روشنی کو
سکھائیں آداب ظلمتوں کے
ابھی یہ دروازہ بندشوں کا
نہیں کھلے گا
ہم اپنے دشمن نہیں کہ میعادِ تربیت میں
خلل کو تسلیم کی سند دیں
یہاں سے جاؤ
یہ چار دیواریوں کا پہرہ
یہ حبس خائف نہیں کسی سے
جمود۔۔۔۔ ہییت خرابیوں کی
تم اپنے دستِ سبک سے کیسے بدل سکو گی
کہیں سے آندھی کا زور
طواں کا غلغلہ اپنے ساتھ لاؤ
آفتاب اقبال شمیم