دیو مالائی زمیں
یہ صدائے غیب کا معبد جہاں فطرت کے آزر نے
چٹانوں سے تراشی ہیں مقدس دیویوں کی مورتیں
دارچینی کے درختوں کے معطر جھنڈ اُن کے پنکھ ہوں
جیسے ابھی اُڑ جائیں گی
سو بہ سو آباد ہیں غاروں میں جادو کے نگر
پہروں کے گلستاں میں
وقت کا طاؤس جیسے چھوڑ جائے ان گنت انداز
اپنے رقص کے
چوٹیوں سے جھانکتی آنکھوں کے جلوہ زار میں
بہہ رہا ہے لی چیانگ
جس طرح کُھلتی چلی جائے چٹائی دھوپ کی
رینگتی جاتی ہوں جیسے چمپئی بیلیں نشیبوں کی طرف
کاسیا کے پھول
چاروں موسموں کے یاتری
اس کھُلے مندر میں آ آ کر جلاتے ہیں
عقیدت کے دئیے
گونجتی ہے صبح کے گنبد میں کرنوں کی اذاں
تو انہیں کرتا ہے بپتسمہ سنہری دھوپ کے چھینٹوں سے
دن کا دیوتا
لہلہاتی ہیں ہرے زینہ نما کھیتوں میں
دہقاں لڑکیوں کی ٹولیاں
سازِ محنت سے شعاعیں پھوٹتی ہیں
پھڑپھڑاتے پرچموں کی تھاپ پر
اور صدیوں کے سفر میں روح سے
بچھڑے ہوئے سُر کی صدا
تھرتھراتی ہے ازل کے گیت میں