جب کھِلتا ہے اگست کا پورا چاند یہاں
اس چوٹی سے آواز کا جھرنا گرتا ہے
ہر سینے پر دست دیتے اک جھونکا گیت کی خوشبو کا
ساری بستی میں پھرتا ہے
اس دریا پر
جس نے وادی کی دوشیزہ کو
لے رکھا ہے باہوں مایں
بجتا ہے ساز صنوبر کا
گرتے ہیں پھول اناروں کے
گیتوں کی آگ کی پنکھڑیاں
اُس پار کھڑا تنہا سارس
اُس گیت کے موتی چُنتا ہے
جس کی خاطر
وہ جان کی قیمت دے بیٹھی
سفاک خزاں کے ہاتھوں نے
گو برگ زباں کا نوچلیا
تم دکھو تو
کتنی آوازوں کی کلیاں
اظہار کی کتنی مہکاریں
کھل اُٹھی ہیں
کہساروں پر، دریاؤں میں
ہر بستی میں، ہر گاؤں میں
آفتاب اقبال شمیم