لمحے کا سمندر

ہوا پیڑوں میں باتیں کر رہی ہے

جھینگروں کے شور میں ہریالیوں کی نغمگی ہے

لفظ معنی کا اشارا ہے

وہاں دیوار کے پیچھے سمندر سو رہا ہے

آسماں ڈوبا ہوا ہے جس کی نیندوں میں

صدف کو لوریاں دیتی ہوئی لہریں

کونل سے گیت کی خوشبو اُڑتی ہیں

یہ مِلنے کی گھڑی ہے، تم ذرا آنکھیں اٹھاؤنا!

بھری ہیں بادلوں کی جھولیاں

چاندی کے خوشوں سے

فضاؤں میں نمی کی روشنی سی ٹمٹاتی ہے

کسی قربت کی خواہش روح کے اندر

تڑپی، کلبلاتی ہے

یہ لمحہ وصل کا ہے

جسم پر محرومیوں نے کنچلی ماری ہوئی ہے

پیاس کے ٹھہرے اندھیرے میں

ذرا اپنا ہتھیلی پر دیا رکھ کر جلاؤنا!

کسی بے انت خواہش کے بہاؤ میں

دہکتی دوزخوں کو ایک لمحے کی خوشی سے

سرد کر ڈالو

جو ایسا ہو سکے تو کر دکھاؤنا!

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں