دیوارِ چین

کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک

گزر گیا سیل ہمتوں کا

بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہگزر سی

پہاڑ چلّہ چڑھیح کمانوں سے تیر پھینکیں

تو آسماں گر پڑے زمیں پر

رواں دواں وقت کے بہاؤ میں

ایک لمبی دراڑ جیسے پڑی ہوئی ہے

عظیم دیوار سر اٹھائے کھڑی ہوئی ے

جُھکے ہوئے آسماں کے نیچے

جو اس صحیفے کو عکس در عکس بانٹتا ہے

یہ رزمیہ۔۔۔۔ جو لہو کی شفاف روشنی سے

لکھا گیا ہے

زمیں پہ چنگاریاں اُڑاتے ہوئے وہ آئے

جو بازوؤں سے بلندیوں کا خراج

لیتے رہے

شکم کو اناج دے کر

مشقتّیں جن کی باندھیا ں تھیں

لہو کے نمکین ذائقے

رقص کرتے رہتے تھے

جن کے ہونٹوں کے آستاں پر

یہیں پہ جسموں کے پیڑ گرتے تھے راکھ بن کر

کڑکتی آواز۔۔۔۔ جبر کی چابکوں کی بجلی

انہی پہاڑوں پہ کوندتی تھی

یہیں پہ محنت کے نقش گرنے

لہو کے پانی میں سنگ گوندھے

صدائے یشہ اٹھی تو کہوں سے پھوٹ نکلیں

بقا کی نہریں

زمیں کو اُس کی بلندیوں کی طرف اٹھایا

اُفق کو بابندھا اُفق سے اُس نے

قدیم قوّت کی رخش نے دس ہزار ‘لی’ کی مسافتوں میں فنا کے تاتاریوں کے لشکر کو ماتدے دی

یہیں پہ محنت کے نقش گرنے

سلوں کو پہنا دئیے سلاسِل

بٹے ہوئے خود گرفت قلعوں کی باڑ توڑی

اُسی نے کوہوں کے سر پہ گاڑا

ہزیمتوں، نصرتوں کا پرچم

کشود کر کے جسے اُڑایا

کئی زمانوں کے وارثوں نے

جو اُڑ رہا ہے

نشیب کو آسما ں کی جانب اُڑا رہا ہے

جوکل کو کل سے ملا رہا ہے

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں