تاچائے

احمق بوڑھے کے بیٹوں نے

دھوپ کے رستے میں حائل پربت کے پاؤں

کاٹ دئیے

تختہ اُلٹا آمر کا

میناروں سے قدآور دہقانوں نے

آنکھوں کے ، صبحوں کے پرچم کھولے ہیں

وقت اُڑاتا پھرتا ہے

محنت کی خوشبوئیں دن کے معبد میں

کاہن ہے۔۔۔۔ چھ یونگ کوے جس معبد کا

ہر چوٹی پر، ہر گھاٹی میں

سنکھ کدالوں کے بجتے ہیں

اور عقیدت قطرہ قطرہ

گرم ارادے کے ماتھے سے گرتی ہے

دیکھونا ! بینائی کے اس روزن سے

احمق بوڑھے کے بیٹوں نے

کیا تصویر بنائی ہے

نظم لکھی ہے ہریالی کے رنگوں سے

جو ہم عصر ہے فردا کی

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں