چھتیں چھلنی ہیں
کالے موسموں کے زور سے کمرے کی دیواریں لرزتی ہیں
وہ اپنے آپ سے باہر کہاں جائے
کہ سارے راستے آخر یہیں پر لَوٹ آتے ہیں
برہنہ رات کو وہ’فرض کردہ، روشنی سے ڈھانپتا ہے
نیستی کے خوف سے چُھپ کے پنہ گاہوں میں
دن کے حیر کی زنجیر
پتھریلی زباں سے چاٹنا رہتا ہے
بے الزام قیدیں کاٹتا ہے
اور کہتا ہے
سزا ک زہر امرت ہے
یہاں اپنی حدوں کے مُلک میں بھی دوسروں کا دخل
برحق ہے
یہاں جینے کی یہ مشروط آزادی ہمارا خود نوشتہ حُکم نامہ ہے
تو پھر یہ بے دلی کا مُوڈ
اپنے آپ سے یا دوسروں غیر دلچسپی
سُلگتی آگ سے اُٹھتے دُھویں کے گھونٹ
آخر کون سے غم کا مدا وا ہیں
مشاغل، عادتیں، خوش فہمیاں، ہندسہ نما الفاظ
سینے کے پھٹے زخموں کو بھرنے کے لئے کافی۔۔۔۔بہت کافی ہیں
جینے کے تدّبر اور جذبے کا تقاضا ہے
کہ ہم اپنے نشیبوں سے بلندی کی طرف دیکھیں
جہاں کے اوج سے فتحیں
تمنا کی زباں میں ہم سے کہتی ہیں
کہ ہم بونے نہیں ہیں دیوتا ہیں
جو نئی ساعت کی کالی ریل کے نیچے کٹے اعضا کو جمع کر کے
دوبارہ جنم لیتے ہیں۔۔۔۔
اس نوروز پر جینے کا پھر سے عہد کرتے ہیں