انا سے ماورا تک

آخری، اعلیٰ ترین

فعل۔۔۔۔ جس سے پھوٹ کر بہنے لگے

سب سلاخیں ٹوٹنے کی

اور زنجیروں کے گرنے کی صدا

فعل۔۔۔۔ جس کے بعد خود کو جاننے کا اژدھا

ہر کسی کو کاٹ لے

پاؤں میں روندی ہوئی پیلی، پرانی گھاس سے

اُڑنے لگیں

سبز، گہرے سبز موسم کی گلابی خوشبوئیں

فعل۔۔۔۔ جس کے زور سے

کُل زمانے ایک ساعت میں سمٹ آئیں

نئے دن کی گواہی کے لئے

یہ سُلگنے کا عمل

کب تک۔۔۔۔ یہ اپنا قہر اپنے آپ پر

کرگسوں کے نوچنے کا

اور کالے پانیوں کا جبر

خود پر رحم کھانے کی سزا

بند ہیں سائے کے پنجرے میں پرندے

اور باہر سخت کا سورج

پہاڑوں پر کھڑا

ہر کسی سے کہہ رہا ہے آؤ۔ آؤ

فیصلے کی جست سے

تحت الثریٰ کو آسمانوں سے ملاؤ

آؤ۔ آؤ

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں