کون کرتا ہے کرم دیوانے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 220
کس توقع جئیں ہم دیوانے
کون کرتا ہے کرم دیوانے
پاسِ حالات بجا ہے لیکن
ہو نہ جائیں کہیں ہم دیوانے
اس زمانے میں وفا کا دعویٰ
خود پہ کرتے ہیں ستم دیوانے
زندگی تلخ ہوئی جاتی ہے
کھو نہ دیں اپنا بھرم دیوانے
چونک چونک اٹھے خرد کے بندے
جب بھی مل بیٹھے بہم دیوانے
ڈھونڈتے پھرتے ہیں عنواں کوئی
کر کے افسانہ رقم دیوانے
کھا گئے قحط جنوں میں باقیؔ
بیچ کر لوح و قلم دیوانے
باقی صدیقی

تبصرہ کریں