کوئی ہم سے خفا تھا پہلے بھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 175
دل قتیل ادا تھا پہلے بھی
کوئی ہم سے خفا تھا پہلے بھی
ہم تو ہر دور کے مسافر ہیں
ظلم ہم پر روا تھا پہلے بھی
دل کے صحراؤں کو بسائے کوئی
شہر تو اک بسا تھا پہلے بھی
وقت کا کوئی اعتبار نہیں
ہم نے تم سے کہا تھا پہلے بھی
ہر سہارا پہاڑ کی صورت
اپنے سر پر گرا تھا پہلے بھی
دل کو باتوں سے ناپتے ہیں لوگ
ذکر اپنا چلا تھا پہلے بھی
باقی صدیقی

تبصرہ کریں