کس توقع پہ دے صدا کوئی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 152
ہم سخن ہے نہ ہم نوا کوئی
کس توقع پہ دے صدا کوئی
اب تصور بھی ساتھ دے نہ سکے
دور اتنا نکل گیا کوئی
منزلوں سے بھی بڑھ گئے آگے
دو قدم ساتھ جب چلا کوئی
زندگی راستہ ہے یا منزل
چل دیا سوچتا ہوا کوئی
کس توقع پہ آرزو کی تھی
کام آیا نہ آسرا کوئی
آس ٹوٹی کچھ اسطرح باقیؔ
جیسے پردہ سا اٹھ گیا کوئی
باقی صدیقی

تبصرہ کریں