دور ابھی ایک شمع جلتی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 242
دیکھئے رات کیسے ڈھلتی ہے
دور ابھی ایک شمع جلتی ہے
آرزو چیت بے کلی ساون
تیری نظرو ں سے رت بدلتی ہے
سبز خوشے تری خبر لائے
اب طبیعت کہاں سنبھلتی ہے
دل کی کشتی کا اعتبار نہیں
تیری آواز پر یہ چلتی ہے
تیری چپ کا علاج کیا باقیؔ
بات سے بات تو نکلتی ہے
باقی صدیقی

تبصرہ کریں