دل ترے درد کے سوا کیا ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 248
کیا بتاؤں کہ مدعا کیا ہے
دل ترے درد کے سوا کیا ہے
دور تاروں کی انجمن جیسے
زندگی دیکھنے میں کیا کیا ہے
ہر قدم پر نیا تماشا ہو
اور دنیا کا مدعا کیا ہے
کوئی لائے پیام فصل بہار
ہم نہیں جانتے صبا کیا ہے
درد کی انتہا نہیں کوئی
ورنہ عمر گریز پا کیا ہے
آپ بیٹھے ہیں درمیاں ورنہ
مرگ و ہستی میں فاصلہ کیا ہے
نہ رہا جب خلوص ہی باقیؔ
پھر روا کیا ہے ناروا کیا ہے
باقی صدیقی

تبصرہ کریں