حادثے زاد سفر لے آئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 185
سوز دل، زخم جگر لے آئے
حادثے زاد سفر لے آئے
دست گلچیں ہے کہ شاخ گل ہے
جب اٹھے اک گل تر لے آئے
ننگ ہستی ہے سکوت ساحل
کوئی طوفاں کو ادھر لے آئے
اپنی حالت نہیں دیکھی جاتی
ہم کو حالات کدھر لے آئے
تجھ سے مل کر بھی نہ تجھ کو پایا
غم بہ انداز دگر لے آئے
زندگی اس کی ہے جو دنیا کو
زندگی دے کے نظر لے آئے
دامن لالۂ گل سے باقیؔ
مل سکے جتنے شرر لے آئے
باقی صدیقی

تبصرہ کریں