بام افلاک سے اتر ساقی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 163
پھول بکھرے ہیں خاک پر ساقی
بام افلاک سے اتر ساقی
میکدہ اور مہیب سناٹا
بے رُخی اور اس قدر ساقی
تشنہ کامی سی تشنہ کامی ہے
دل میں پڑنے لگے بھنور ساقی
بجھ رہا ہے چراغ مے خانہ
رگ ساغر میں خون بھر ساقی
بار ہیں اب خزاں کے ہنگامے
فصل گل کی کوئی خبر ساقی
رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح
رنگ محفل پہ اک نظر ساقی
بے ارادہ چھلک چھلک جانا
جام مے ہے کہ چشم تر ساقی
اک کرن اس طرف سے گزری ہے
ہو رہی ہے کہیں سحر ساقی
توڑ کر سب حدود میخانہ
بوئے مے کی طرح بکھر ساقی
جانے کل رنگ زندگی کیا ہو
وقت کی کروٹوں سے ڈر ساقی
رات کے آخری تبسم پر
مئے باقیؔ نثار کر ساقی
باقی صدیقی

تبصرہ کریں