بات بنتی نطر نہیں آتی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 159
کوئی ان کی خبر نہیں آتی
بات بنتی نطر نہیں آتی
تلخیٔ شب نہ جس میں شامل ہو
کوئی ایسی سحر نہیں آتی
کس سے پوچھیں بہار کی باتیں
اب صبا بھی ادھر نہیں آتی
اٹھ گئی ہے وفا ہی دنیا سے
بات اک آپ پر نہیں آتی
زندگی ہے وہ آئنہ جس میں
اپنی صورت نظر نہیں آتی
دل پہ کھلتی ہے جب حقیقت غم
پھر ہنسی عمر بھر نہیں آتی
کون سی شے کی ہے کمی باقیؔ
زندگی راہ پر نہیں آتی
باقی صدیقی

تبصرہ کریں