باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 233
بات کو جرم ناسزا سمجھے
اہل غم جانے تجھ کو کیا سمجھے
اپنے دعوے کو کیا غلط کہتے
تیری نفرت کو بھی ادا سمجھے
چھوڑئیے بھی اب آئینے کا خیال
دیکھ پائے کوئی تو کیا سمجھے
اک ستارہ فلک سے ٹوٹا تھا
ہم جسے صبح کی ضیا سمجھے
اس کے غم کا علاج کیا باقیؔ
جو محبت ہی کو دوا سمجھے
باقی صدیقی