باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 101
ہمہ تن عرض حال ہیں ہم لوگ
اک مجسم سوال ہیں ہم لوگ
اور کس پر یہ حادثے گزرے
آپ اپنی مثال ہیں ہم لوگ
وقت کا فیصلہ ہے چارہ گرو
زخم تم، اندمال ہیں ہم لوگ
موت اپنی نہ زندگی اپنی
کس گماں کا مآل ہیں ہم لوگ
آپ سمجھیں تو ایک حقیقت ہیں
ورنہ خواب و خیال ہیں ہم لوگ
لاکھ پردوں میں بھی نمایاں ہیں
وقت کے خدوخال ہیں ہم لوگ
چارہ سازوں کے سرد ماتھے پر
عرق انفعال ہیں ہم لوگ
زندگی کی بساط پر باقیؔ
موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ
کام لیتا ہے اک جہاں باقیؔ
ہر مصیبت کی ڈھال ہیں ہم لوگ
باقی صدیقی