باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 221
قطرے کی آرزو سے گہرا آئنہ بنے
آئنہ ساتھ دے تو نظر آئنہ بنے
منزل کے اعتبار سے اٹھتا ہے ہر قدم
رہرو بقدر ذوق سفر آئنہ بنے
ہم بھی مثال گردش دوراں ہیں بے مقام
پتھر ادھر بنے تو ادھر آئنہ بنے
ہر زخم دل میں زیست نے دیکھا ہے اپنا عکس
ہم آئنہ نہیں تھے مگر آئنہ بنے
ملتی ہے دل کو محفل انجم سے روشنی
آنکھوں میں شب کٹے تو سحر آئنہ بنے
ساحل کی خامشی کا فسوں ٹوٹنے لگے
دریا کا اضطراب اگر آئنہ بنے
باقیؔ کسی پہ راز چمن کس طرح کھلے
جب ٹوٹ کر نہ شاخ شجر آئنہ بنے
باقی صدیقی