منصور آفاق کی غزلیں غیر مردّف شام ہے لالی شگنوں والی، رات ہے کالی ماتا لیکن اٹھی نہیں کوئی چشمِ سوالیا میں خدا اور کائنات پانیوں کے جسم پر تھا یخ ہوا کا نرم ہات دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشار آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار اے حادثاتِ وقت کے خالق گزار خیر احتیاط و احتیاط چہرے کے ڈوبتے ہوئے فردوس کو اجال کیا جانے کس اور گئے ہیں خوابوں کے مہمان ہے علم مجھے میں کون سن رہا ہوں شب کی تیرہ ساعتوں کی سسکیاں چلتا رہوں سڑک پہ ابھی یا کہیں رکوں اک مستقل فراق کے پہلو میں کیوں رہوں آدمی ہو گئے ہیں کیوں سستے ا چاند ہے تُو رات کے اسباب سے باہر نہ آ اے سمندر ! مرے آباد جزیروں میں نہ آ رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا میں پیاز ایسی کہیں صفت نہیں چاہتا مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا میں لوٹ کے آؤں گا وہ جاتے ہوئے کہتا کیا اس کی اجازت بھی اسلام نہیں دیتا نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا اک نئی کائنات سے گزرا روح کے اختلاط سے گزرا خواب میں بھی ہراس سے گزرا ہے بہاروں بھرا اک مہینہ مرا قریب آیا ہے میرے وہ یار تھوڑا سا اک تغیر موسموں میں لا رہا ہے نور سا آئینہ دیکھیں تو لگتا ہے تمہارے جیسا دشتِکُن میں چشمۂ حمد و ثنا احمد رضا میں نہیں دیر تلک تلخیاں رکھنے والا تیرا فیضان بے قیاس ملا مجھے سوال کا کیسا حسیں جواب ملا عمر بھرپھڑپھڑاتے بدن کے قفس میں تڑپنا ملا اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا آسماں کے مگر ہے پاس ملا ایک جیسا کر دے مولا پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا ورنہ ہر زخم نصیبِ سر مژگاں نکلا ہر مرد گفتگو میں تلخی پہن کے نکلا ہے لاج تمہیں اے ابرِ کرم دو بوندیں تو برسا جانا مگر کچھ اس کے مسائل کا بھی پتہ کرنا تم نے میری طرف نہیں ہونا عکس میں متصف نہیں ہونا میں آؤں گا پلٹ کر، میرایقین رکھنا قیامت ہے مسلسل زندہ رہنا یہی زندگی ہے اپنی، یونہی آنسوئوں میں رہنا جان اسکی ترے طوطے میں ہے، یاد سے کہنا میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا وہی فانوس مری صبح کی قندیل ہوا یہ مرا دیس مصیبت زدہ کاشانہ ہوا گماں یقین کی ساعت سے سرفراز ہوا دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا برقِ تجلیٰ اوڑھ لی سورج نشیں ہوا سفید رنگ کا دستور کج کلاہ ہوا یہ کون ہیں کہ رکا ہے طواف ہوتا ہوا ہو گا کسی کے ہاتھ سے آخر بنا ہوا ہوتا تھا آسماں کا کوئی در بنا ہوا ہے موت کا نشان گھروں پر بنا ہوا اک پہلوان رِنگ سے باہر پڑا ہوا اس پرلکھا تھا نام بھی چرچل کا کیا ہوا وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا یعنی ہجراں کا بدن مثلِ سحر نازل ہوا پھول اترا شاخ پراور مجھ پہ غم نازل ہوا طلب شکستہ کا آخر ملال ختم ہوا شاید مرا جمال مکمل نہیں ہوا قریہ ء جاں میں اچانک ایک آہٹ سے ہوا بے تحاشا فائروں کی سنسناہٹ سے ہوا ملک اردو میں پڑ گیا ہو گا سفر رستہ رہے گا بس، کبھی منزل نہیں ہو گا تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا مجھے بیدار طالع قبر میں سونے کہاں دے گا یہ الگ پھر زخم پچھلے زخم کے اندر لگا رات بھر نعرئہ تکبیر لگا کوئی طلسمی باڑ لگا فرمانِ چشمِ یار پہ واوین مت لگا جیسے دوزخ میں میرا بستر تھا تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا دیکھتا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا یعنی کہ فلک سارا پتنگوں سے بھرا تھا نسبت تھی کہ پتھر کوئی بوسوں سے بھرا تھا اک ذہن تھا جو توپ کے گولوں سے بھرا تھا نگار خانۂ جاں کا طلسم ایسا تھا مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا وہ جنگ تھی کسی کی وہ جھگڑا کہیں کا تھا صبح کے ماتھے پہ آ کر سج گیا تھا تیر سورج کی نظر میں لگ گیا تھا خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا اس کی آنکھوں میں عزا کا درد تھا مجھ کو خاکِ کربلا کا درد تھا راکھ کو یعنی ہوا کا درد تھا یعنی قربانی کرتا ہوا شیر تھا یاد ہے وصل کی سبز اتوار تھی شام کا پیڑ تھا نیند کی نوٹ بک میں تھا، کچھ تھا سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا سرابِ ذات کا کیسا سموتھ پانی تھا تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج… اور در نہ دکھا وقت پر پاؤں کہانی ختم ہونے پر رکھا میری پیدائش کا لمحہ پھر اسی سن میں رکھا یہ انتظار کدہ ہے، یہ گیٹ پر لکھا آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا تمام رات کوئی میری دسترس میں رہا وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا ہزار ٹوٹ کے بھی طوقِ غم کو توڑ دیا وہ جو مرتبت میں مثال ہے اسی آستاں سے گرا دیا اور پھر شہر کے پاؤں میں سفر باندھ دیا گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا یعنی میرا استعارہ رکھ دیا پانیوں کو چاند نے اشکال کا تحفہ دیا ولولہ کیسا حیرت زدہ دید کی ایک لپ نے دیا ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا سوحریر سرخ اتار دی ،ہے لباسِ خاک پہن لیا آوارگی کی شام مجھے گھر نے آ لیا کبھی گھر کے درویوار سے مل کر رویا آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا ہجر کو وصل پر قیاس کیا رنگ بکھرا دیے پھر تازہ ہوا نے کیا کیا فروزاں خواب کیے تیرہ طاق نے کیا کیا خواب میں جا کر رقص کیا وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا سادہ دلوں کا نامہ ء قسمت بھرو گے کیا گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا آنکھ کا تالاب بد روحوں کا مسکن ہو گیا چلنے لگے تو راستہ تقسیم ہو گیا حادثے سے پہلے ہوٹل سے نکلنا پڑ گیا ب میرے کاہن عینک اور کتاب جنت کے بنگلے کا پھاٹک اور شراب کیا ہے جو دیکھتا ہوں پچھلی گلی کے خواب شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب ناراض ہو گئے مرے ہمدرد بے سبب مارا نہ جاؤں میں بھی کہیں نام کے سبب بنے ہوئے ہیں بڑے راجپوت آخرِ شب پ یہ ابھی جسم سے جھڑے ہیں سانپ کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ کچھ نصیبوں نے بھی دیے ہیں سانپ منصور شامِ غم میں بھی کارِ مباح دھوپ صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ میں موت کی طرف ہوں روانہ بھی اپنے آپ ت میرے ساتھ چلی جاؤ تم یا سورج کے ساتھ۔ ایک ہی بات یک ہزار ماہ سے عظیم رات ہم نے تیری نظر اتاری دوست مرے لیے یہ ذرا سا چراغِ طور بہت ٹ اڑنے کا وسیلہ ہیں امیدوں کے نہ پر کاٹ جو چار لوگوں کے گھر ہے وہ دو تہائی بانٹ ث بہتے پانی کی قسم، گریۂ جاں کارِ عبث ہے کوئی میرے علاوہ حرف کی جاگیر کا وارث ج ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج تبرا مردہ، مخنث امامتوں پر بھیج جواب اپنا زمیں کی شکاتیوں پر بھیج چ گمشدہ بستیوں کے خا کے کھینچ ایک ہی کیوں آدمی ہے سارے دروازوں کے بیچ اور کچھ ٹوٹے ہوئے ناخن بھی تھے زخموں کے بیچ نیند سے بولائی دستک تیری دیواروں کے بیچ ح مجھ کو محسوس کرودوستو خوشبو کی طرح جی رہا ہوں مگر بے کسی کی طرح زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح خ محمدﷺ کی زمینِ پاک کی تاریخ ہاتھ تصویر پہ ملتی ہوئی چیخ د زمیں کو عیدِ میلادِ محمدﷺ پر مبارک باد بڑے ہی نیک خرابوں کے چیف زندہ باد پھر مہرباں ہوئی کسی نا مہرباں کی یاد فلم جاری ہے کہانی ختم شد منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد یہ یاد آئے گا شاید ہزار سال کے بعد دلِ آدمی سے دماغِ خدا تک محمد محمد محمد محمدﷺ ڈ بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ دیکھا ہوا ہے میں نے تیرامنال روڈ ذ یہی ہیں ہر دھرم کے ساتھ کاغذ یہ شاعری ہے صحبتِ شب سے ماخوذ ر یہ مثلث زندگی دو مستطیلوں میں گزار کیکر پہ لگا کرتے ہیں اخروٹ کہیں اور ناموں کے زخم رہ گئے برگد کی چھال پر چاند کا دل جل رہا تھا دور لاکھوں میل پر امید غلط اندازوں پر دو برہنہ شیڈ تھے اک لیمپ والے میز پر ہے بوسہ زن بہار محمدﷺ کے نام پر میلوں لمبا ایک جلوس سڑک پر اس کو بھی اپنی طرح برباد کر رونمائی کی تقریب منسوخ کر اعمال چھوڑ تُو مری نیت پہ رحم کر اپنے ہونے کا سبب معلوم کر کون عریاں ہے نگاہوں میں سیہ جین پہن کر میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں سمندر ہو کر حیراں ہیں اپنی اتنی پذیرائی دیکھ کر یہ خامشی کی غزل سُن، کسی کو یاد نہ کر پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر سفر بخیر ہو ، مل کر کرو دعائے خیر جملہ ہائے عاشقاں را شب بخیر ڑ دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ اب تعلق میں بردباری چھوڑ ز پڑھتی ہے جن کو چوم کے بادِ صبا نماز منہ کو کلیجہ آتا ہے کچھ کیجئے پلیز دیکھتا ہوں ویسی ہی آبِ رواں میں کوئی چیز ژ لکھ کر بکھیرنی ہے وفا کی رپورتاژ س یار کا میں ہوں اور ہے میرا یار لباس وہ جو بولتی تھی سرائیکی بھری اردوئیں نہیں آس پاس اک سمندر میں بدلتی ہنج میرے آس پاس گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس کردار ہم میں تیسرا حارج ہوا تو بس یہ جام ہے برسوں بعد بھرا کچھ اور برس ش ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش ص دریا کو ڈوبنے سے بچاتا تھا کون شخص اور اس کے بعد کمرے میں آتا تھا کون شخص جاڑے میں رنگ و نور کا ایندھن تھا کون شخص کچھ پہلے کائنات سے روشن تھا کون شخص تنہائی کے مکان میں آتا ہے کون شخص جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص ض دو گز زمین چاہیے افلاک کے عوض ط یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط ظ ہم تمہارے نہیں! خدا حافظ پیارے پاکستان! خدا حافظ دائم مری گواہی مرا ایک ایک لفظ ع اور ان میں بھی کڑکتی بجلیوں کا اجتماع غ ظلم عظیم… یار کے دامن پہ ایسا داغ ف جاعدالت میں اُس بے وفا کے خلاف ترے خیال پہ تھو تیرے انتظار پہ تف ہم جہاں سے چلے ، وہاں کی طرف ق ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق الفاظ و معانی سے سنوں شورِ انا الحق ک رات خاموش ہے تکمیلِ ہنر ہونے تک بلب جلتا رہے اذانِ سحر ہونے تک دی ہم نے زبردستی لبِ یار پہ دستک گ چار سو فوراً سراسر اور رنگ آئے نہیں دعائے تہجد کے بعض لوگ زندگی پہ جہاں مرے ہم لوگ بہتی سپردگی بھری ہائے وہ نرم آگ ل میں آ گیا ہوں مجلسِ جانانہ ، آنکھ کھول محبت کے ٹھہرے ہوئے سلسلے چل چاند تاروں کی بارات آہستہ چل ذرا سمیٹ بدن کے گلاب شاخِ گل م بازارِ شام پر نہ ہو بارِ دگر وہ شام زندگی کے پیمبر پہ لاکھوں سلام بجلی کے ہیں چراغ، ہواؤں کا خوف ختم عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم بہتر ہے بجلیوں کو نشیمن بنائیں ہم سپردِ ریگ ہوئے ریت پر اچھل کے ہم ن آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن سمندر کے کنارے ایک کاٹج میں رہوں کچھ دن ں ٹوٹ کر نعت لکھوں داد خدا سے پاؤں کوئی دلچسپی، کوئی ربطِ دل و جاں جاناں ابھی تو کھیت میں دو دن کی گھاس ہے سائیاں پانیوں میں تیرتی شاداب کومل بیریاں رقاصہ کی دکھائی دیں منظوم ایڑیاں خود کو کبھی بوذر کے مدینے سے نکالوں مجھ میں پھر بھی دکھ کسی کے ہیں پنپنے سینکڑوں ایک چہرے کے پسِ منظر میں چہرے سینکڑوں اے زمیں ! ترکِ تعلق کے بہانے سینکڑوں دل شکستے جاں الستے سبز مستے سینکڑوں عکس ابھریں گے وہاں ہر ایک شے سے سینکڑوں تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں الاؤ سا خس و خاشاک پر بناتا ہوں آئینہ دیکھ کے میں حمد و ثنا کرتا ہوں اندھیرا ہے جہاں تک دیکھتا ہوں میں فائل بند کرنا چاہتا ہوں پر اپنے ساتھ گلی کو بھی موڑ دیتا ہوں یہ الگ بات بظاہر تجھے چھوڑ آیا ہوں کہیں بے کسی کا کلام ہوں کہیں دل کے روگ کی چیخ ہوں زندگانی کے مقاصد کچھ تو ہوں پڑا ملنگِ علی کے دلِ فراغ میں ہوں میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے انتظار میں ہوں میں عشق میں ہوں آشفتہ سرو میں عشق میں ہوں اب گلیوں میں اعلان کرو میں عشق میں ہوں اے حرفِ کُن تری ٹھوکر پہ میں ہوں سب پہ اتریں کہکشائیں سب زمانوں میں دیے ہوں عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں شام کے شعلے بھی گنے جائیں اِس بجھتی چتا کے بھی شعلے تو گنے جائیں کہیں تو بلب جلے اور اندھیرے چھٹ جائیں اور وہیں پھر دونوں پتھر بن جائیں ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں نظم میں ہم بیاں ہوئے جائیں آسماں معتبر کیے جائیں جو ہمیں بھول گیا ہے اسے کیا یاد کریں کسی کو کیا دلِ خانہ خراب پیش کریں فاتحہ پڑھ لیں ، تعزیت کر لیں مگر دو ہاتھ پیچھے دیویوں کا رقص تھا پب میں اور میں بالکل اکیلا تھا ڈرائنگ روم میں مری ذات کب ہے مری دسترس میں سورج دکھائی دے شبِ خانہ خراب میں کورٹ سمٹا جا رہا تھا اک ذرا سی بال میں جائز ہوئی دھمال شبِ امتناع میں ہے عکس ریزچہرہ تمہارا گلاس میں چوڑیاں ڈال مردہ ڈالی میں میں جوانی بھول آیا ہوں کہیں پردیس میں ہجر کے آگ میں ڈالا ہوا میں پسند آیا ،ہوا میں دھوپ پھیلاتا ہوا میں خلوصِ زر لٹاتی جائے شہزادی محبت میں پہنچا تاخیر کی طرح میں پھر مصلیٰ پہ ہیں خدا اور میں رو رہے ہیں سرائیکی اور میں اک تھکی ہاری اونٹنی اور میں رو پڑے میری کافری اور میں لمس کی آگ میں جلتا ہوا ساون اور میں انتظارِ خوابِ احمد اور میں اسمِ اللہ کا تصور اور میں تیرا وعدہ تری گلی اور میں ایک مرحوم آدمی اور میں تازہ چھلکوں کی دلکشی اور میں حد سے بڑھی ہوئی مری داڑ ھی تھی اور میں ہر گھڑی غم کا مضمون ہر دور میں تخلیق کرناملک ہے مرضی کا دیس میں ٹھیک رہتی ہیں ثوابوں کی کتابیں شلیف میں رہتا نہیں ہوں دوستو اپنا فراق میں جاری رہا ہے دشت کا جلسہ فراق میں پانیوں پر خرام کرلوں میں ابھی نہ مجھ پہ شجر رو ‘ ابھی ہرا ہوں میں اک خانقاہِ غم کا لبالب کدو ہوں میں بادل کے ساتھ ساتھ یونہی رو رہا ہوں میں پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں کہ راکھ راکھ تعلق میں رہ رہا ہوں میں ایک ہی رابطہ رہنے لگا قائم مجھ میں مجھے جو ولولے دیتا تھا رو دیا مجھ میں جمع ہیں سب التماسیں آنکھ میں ہے ہوا کی نوحہ خوانی آنکھ میں سنا ہے پھر کوئی پھرتی ہے شارک پانی میں بولی وہ تھی خدا کے لہجے میں سنائی دیتا ہے اب تک گٹار کمرے میں ہرا بھرا کوئی قالین ڈال کمرے میں دیکھا نکل گیا نا… تری دسترس سے میں کتنا ناراض تھااُس زود فراموش سے میں مری مجذوب خاموشی کو افسانہ بنانے میں ملتا خود سے بھی تھا اکڑ کے میں قریۂ خوں ریزہے ادراک کی جلتی زمیں عجیب تھا ان پہ سونے والاکہ پاؤں میں کل خدائیاں تھیں اب تو کرتیں ہی نہیں خواب کا وعدہ آنکھیں ڈرائیں گی یہ غمِ ذوالجلال کی آنکھیں نکل آئی ہیں ہرگل سے کئی امید کی آنکھیں بس بدلتے نمازوں کے اوقات ہیں وہ راہ کے ہرہر کاٹنے پر کچھ خونِجگر ٹپکاتے ہیں رنگوں کے ہم ہیں عاشق ، خوشبو کو چاہتے ہیں وہی تمسخر کا اب ہدف ہیں سحر کو جن سے عقیدتیں ہیں گرہ میں اعترافِ جرم ہے اور ہاتھ خالی ہیں نگر زنبیلِ ظلمت رُو میں محو استراحت ہیں یہ برگزیدہ لوگ بھی پتھر پرست ہیں ہم دیدئہ حیرت ہیں ، تحیر کی طرح ہیں آنکھیں کسی جلتے ہوئے منظر کی طرح ہیں ہم ریس کے گھوڑے ہیں ، مقدر کی طرح ہیں ہم لوگ سدھارتھ کے کھلے در کی طرح ہیں جسم کی ہر اک سڑک پر کیمرے موجود ہیں قانون کے جدید دیاروں میں قید ہیں میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافر ہیں کربلا کی رات ہے اور مرثیے ممنوع ہیں پاؤں ہیں بے چین لیکن راستے ممنوع ہیں طلسمِ شب ہے سحر تک بلائیں حاکم ہیں اندھے نگر میں دیکھنے والے ہوئے تو ہیں تم لوگ بڑے لوگ ہو، ہم خاک نشیں ہیں اک مرحلۂ شوق میں ہم جلوہ نشیں ہیں پروازِ مسلسل میں ہیں ، براق نشیں ہیں ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں خاک طیبہ کے خزینے کی طرف آنکھیں ہیں اصل میں نیکیوں کی آنکھیں ہیں ہمارے اور تمہارے خدا علیحدہ ہیں کہیں بجھی سگریٹوں کے ٹکڑے ،کہیں کتابیں کھلی پڑی ہیں دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں عمر کی جیپ کے ٹائر تلے آئے ہوئے ہیں آنکھ کے ایک کنارے پر رک جاتے ہیں جہاں رہنا نہیں ہوتا وہاں پر گھر بناتے ہیں شہر میں گندم و بارود بہم گرتے ہیں نور کے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں قسم خدا کی ۔۔ جہنم رسید ہوتے ہیں یعنی ماہتابوں کے گھر بدلتے رہتے ہیں یہ بغیر تاروں کے بلب آن کیسے ہیں خوف دونوں طرف ایک لمحے کی تا خیر کے ہیں ہو بھی جاؤ جو کسی اورکا ہونا ہے تمہیں کوئی تمہیدِ انقلاب نہیں بندوق کے سلوٹ کوئی دیکھتا نہیں میں ہجومِ ریشم و کمخواب میں رہتا نہیں یہ عمل تو پارسائی میں نہیں تُو جہاں ہے کوئی موجود وہاں ہے کہ نہیں اس جہنم میں کوئی باغ جناں ہے کہ نہیں پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں اور کرنوں کی طرح ہاتھ میں آئے بھی نہیں ایک سناٹا ہے گھر میں اور تو کچھ بھی نہیں کوئی اپنے دئیے جلائے کہیں تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں روشنی سے بنی کوئی شے تھی کہیں و ڈر رہا ہے دریچے تک سے تُو نہیں نہیں میں مسیحا نہیں معافی دو امیرِ شہر! چلو جاؤ اب، معافی دو شجر ایسے تعلق کی ضرورت کم نہ ہونے دو کہے یہ بات غریب الوطن ، وطن والو مرتے ہوئے لوگوں کومسائل سے نکالو ہم نے ابلاغ سے خلاؤں کو کیسے سمجھ لیتا میں اپنا ساتھی اس کو یہ تو منصور کا چہرہ نہیں لگتا مجھ کو کہ آپ چل کے کنواں آئے پاس ایسا ہو محبت کا یہ کم آباد رستہ دیکھتے کیا ہو اک غلط روٹ کی تم تو تاریخ ہو اسمِ جاں اللہ ہو جانِ جہاں اللہ ہو سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو وصل کی پہلی چنبیلی دیکھتی ہو تم لمسِ زندگی کی خرابی سمجھتے ہو ان کے دروازے کھلے ہیں تم طلب کرتے رہو وہ سنوارآیا بگاڑوں کو شہیدوں کا لہو ھ پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ پڑا ہے شیخ کا پھر گنبدِ ہوس پہ وہ ہاتھ قرار دیں ہمیں کافر روایتیں پڑھ پڑھ یونہی رات رات غزل میں رو، یونہی شعر شعر سسک کے پڑھ یا مجھے اپنے ڈرائنگ روم تک محدود رکھ ہے ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر تسلی رکھ مہکے ہوئے بدن کے ذرا حاشیے بھی دیکھ صبحِ فلک پہ اب مجھے چلتے ہوئے بھی دیکھ فوٹو گراف ہوتی ہوئی بات کے بھی دیکھ ہ دور تک ہے عزت و ناموس کی قربان گاہ جیپ جنگل میں بناتی جا رہی ہے راستہ روشنی اے روشنی اے روشنی چشم توجہ نقشِ پا اپنے کہیں پر کھوجنا بے فائدہ دل میں ہو غیر تو سجدہِ خاک بے فائدہ آیا ہے نکل کر یہ سمندر سے ستارہ مرے سرمد کی رعنائی ، مرے منصور کا چہرہ یعنی کہیں پانی میں ترا خواب ہمیشہ مت پوچھ ایک پل کی طوالت کا واقعہ ہے لام حرکتِ لا ، لا الہ الا اللہ کلیدِ باغِ جناں لا الہ الا اللہ آ انتظار کے اک اور سال بسم اللہ سحر جب مسکرائے تو کہے ہر پھول بسم اللہ بم گراتا رہا خود اپنی ہی دہلیز پہ وہ آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ تخلیہ اے زندگانی تخلیہ ی ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی آنکھ میں گلستاں کھلے کوئی نہیں ہے اور کہ میرا نہیں بدل کوئی سرِ کہسار مسافت کا پڑاؤ کوئی ہے مرے تعاقب میں ، نیند کے بس سٹاپ سے کوئی عشق فرمائے جہاں میں ہوں وہیں ہے کوئی پھر آنسوئوں کا وہ اسراف کر رہا ہے کوئی روہی دو فرلانگ ہوئی صحن میں اک چنبلی کی بوٹی ہوئی دل کے قہوہ خانے میں بحث بھی بڑی ہوئی پھر مری مجذوبیت افلاک کی گاہک ہوئی جس کی جیب سے سگریٹ نکلے اس کے نام حشیش ہوئی کچھ کہو وہ رت بدلنے پر پلٹ جانے کی عادت کیا ہوئی سب کچھ بدل کے رہ گیا تقصیر کیا ہوئی اک سیہ مورت سے مل کے صبح شرمندہ ہوئی نیندوں کی بستیوں پہ مصیبت بنی ہوئی کہ اوس اوس کلی بے لباسیوں سے ہوئی سفید آگ سیہ جین سے نکل آئی چاندکی شمع آخر بجھائی گئی بمباری نے کرنوں بھری تاریخ بجھا دی جاں لباس مجاز میں رکھ دی اُس جیسی ایک اور قیامت دکھائی دی محبت ہے تو ہو کنفرم تھوڑی سی ہر ایک لمس پہ اتریں مصیبتیں کیسی اٹھ گئے ہم کہ کوئی بات تھی ہونے والی پڑھ کے کلامِ فیض جو پھونکا شفا ملی یعنی کہ میں اکیلا ہوں درویش آدمی یہ عجب تم نے نکالی ہے شریعت اپنی پھر زندگی کی شہر میں تحریک چل پڑی چلتی ہے کتنے پہر کسی ذات کی گھڑی وہ جان دے کے اپنی کسی نے ہے عید کی تاریک مکانوں میں جتنی کہیں حیثیت دیوار کے روزن کی کھلے گلے کی پہن کر قمیض ململ کی بہنے لگی رگوں میں کرن اشتعال کی پھر ایک پوری دیانت سے رات پوری کی یعنی اُس یارِ طرح دار کے کھل جانے کی یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی پھر وہی قوسِ قزح جیسی مصیبت ہو گی یہ لکڑی بھی گیلی ہو گی یعنی ہے ایک کوچۂ ماتم میں زندگی اچھی مجھے اداسی شروعات میں لگی پھر اس کے بعد کسی دن بدل گئے ہم بھی قیام روشنی کرتی رہی صدف میں بھی اسے تھا مسئلہ محفل کے اہتمام پہ بھی ہے اعتراض فلسطین کے مکین پہ بھی میں وہاں سو رہا تھا ویسے بھی کہ خالی بھیج دیا عید کاڈ اُس نے بھی مری طرح سے اٹھائے بتاشے اُس نے بھی بچا جو دیس میں تھوڑا بہت ہے بانٹ ابھی تُو سرد رہنے دے اپنے بدن کی آنچ ابھی شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی ہے یاد مجھے رنگوں بھری سات مئی تھی مجھ سے موسیٰ کو ملاقات کی خواہش کیا تھی ندی کو کچھ پرانے کوہساروں سے شکایت تھی کمرے میں اندھیرا تھا روشنی سڑک پر تھی میری ایسی کبھی دھرتی تو نہ تھی آنکھ کھلی تو فیری ساحل چھوڑ گئی تھی جانے کیوں میری بے گناہی کی پھر بھی بستی گواہی دیتی تھی نجانے کیوں تجھے جڑ سے اکھڑ جانے کی جلدی تھی میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہونی تھی یعنی ہمیں تلاش تمہاری گلی کی تھی کہ جل رہا تھا سرِ بام کچھ زیادہ ہی میں کسی سے ملا ہوں ویسے ہی اس مسافت پر طبعیت شوق سے مائل رہی اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی جسے ہے ترکِ مراسم پہ اعتراض ۔وہی ے کسی پٹرول اسٹیشن کو جیسے آگ لگ جائے وحشت میں مبتلا ہوا انسان کس لئے جان دی خالی شکم کی سربلندی کیلئے اس شہر یک مثال میں کچھ مختلف ہوئے میں تھک گیا ہوں تجھ کو خدا مانتے ہوئے ناخن اکھڑ گئے ہیں اسے کھولتے ہوئے صبح چپ ہے پرندوں کے ہوتے ہوئے عرصہ گزر گیا ہے کسی سے ملے ہوئے کچھ تو کہیے آپ کے ہم کیا ہوئے دار ورسن کی منزل پر کچھ بخت آور آباد ہوئے موج میں لہر میں ہم برہنہ ہوئے رہا نہیں میں ، تجھے اختیار کرتے ہوئے ملا تھا خود سے میں بادِ صبا پہ چلتے ہوئے کچھ سوچتے نہیں ہیں کفن بیچتے ہوئے رہ رہے ہیں رات میں ہم رات کے مارے ہوئے اور ہم مغرور مجنوں اپنے گھر بوڑھے ہوئے یہ اور بات فوج ہے گھیرا لیے ہوئے آدمی خاک سے افلاک پہن کر آئے فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے کچھ بدن پر کپاس اگ آئے مبارک ہو دو عالم کے امیں تشریف لے آئے زندہ ہوئے کچھ اور اجالے مرنا ورنا بھول گئے رُت بدلنے پر پرندے پھر مسافر ہو گئے بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے ادھورے گیت سے حاصل دوام کیا کرتے دید کو بے وضو نہیں کرتے لفظ کے در پر جب آئے ہم سادھو چلتے چلتے جو غلامِ نجف نہیں ہوتے جو آسانی سے کھلتے ہیں بٹن اچھے نہیں ہوتے کہ مرنا تو ہے محبت میں مر گئے ہوتے کیسے نکلتے زخم سے، کیسے پہاڑ کاٹتے چوکور اپنی کار کا پہیہ دکھائی دے جاگا ہوا نگر بھی مجھے شل دکھائی دے زندگی لمسِ رنگ عام کرے مرا دل تو جیسے جنازہ گہ کہیں مرگ ہو تو بسا کرے اُس س کہہ دو کہ مرے ہجر کو رسوا نہ کرے مل گئے اندھیروں سے انہیں میں دیکھتا کیا دیدۂ صحابہ سے ہم آشنا نہیں ہیں ابھی تک پریم سے نکال لایا ہے حرص و ہواکی صحبت سے کہہ رہا تھا کون کیا ساتویں فلور سے میں آشنا نہیں ہوں بدن کے علوم سے بھرا ہوا ہوں سلگتے ہوئے سوالوں سے ڈرے ہوئے ہیں ستارے خود اپنی چالوں سے دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے ہوتی ہے روشنی بھری بارش چراغ سے رسولِ صبح تبسم فروغ کن تم سے ندی بھی ہے سبک رفتار مجھ سے لے گئی ہے اِک سڑک کی تیز رفتاری اسے سوچتا ہوں کیا کروں کیسے کہوں سوری اسے کون سی شے میرے کمرے کی طرف لائی اسے دیکھنے کو جمع ہے ترسی ہوئی بستی اسے بعد از خدا تُو وہ کہ اکیلا کہیں جسے صبحوں کی کالی کملی کا جلوہ کہیں جسے تُو ہے سمندروں کا کنارہ کہیں جسے تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے کس لیے روٹھ گئے ہم سے زمانے والے جانے کس شہر گئے شہر بسانے والے آنشیبوں میں اتر آ اے فرازوں والے تو ورد کرنے لگے لہو میں نزول زندہ کتاب والے گزرتے ہی نہیں جاں سے محرم مانگنے والے اور پاؤں کئی چوکور چلے ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے دھند تھی دنیا شعورِ ذات سے پہلے فکر و نظر تک چھین لئے ہیں رحمتِکل کے قہرو غضب نے بنایا خاص کسی عام کو ترے غم نے اسے بھی چھوڑ دیا شہر کی طرح میں نے یہ اسرارِ نیاز و ناز تم جانو یا وہ جانے چلے فلم کوئی وصال کی دلِ ہجر مند کے سامنے بوند بوند بکھرے تھے جسم پر خیال اپنے فلک پہ تارے زمیں پہ درخت کون گنے یہ کہاں تک آ گئے ہیں ساتھ چل کے آئینے پتھرا گئے ہیں فلم میں منظر پڑے پڑے کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے شاعرو! اونچے گھروں میں رتجگے کس کام کے پلکیں سفید کر گئے دو پل ملال کے میرا کمرہ کرے سخن کس کے سلسلے عرش تلک حسنِ پذیرائی کے رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے زندگی ساتھ چل محبت کے دکھائی دے رہے ہیں پھر نئے منظر محبت کے اس نے بچھا دی ریت پہ اجرک اتار کے میں جا رہا ہوں گلی سے معانقہ کر کے پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے دھار گرتی تھی تو رہ جاتی تھی قلفی بن کے بدل رہے تھے تسلسل سے رنگ رنگوں کے جیسے موٹر وے کی سروس پر کچھ دیر رکے لیکن نہ میرے ہاتھ کوئی پنکھڑی لگے آئینہ خانے میں سوبر تو کئی تھے شجر شاخوں کے پر کھولے ہوئے تھے پلٹ کے ہم جو گئے توگلیوں میں چاند تارے پڑے ہوئے تھے جو چاہتے تو اسے جاں سے مار سکتے تھے جگا رہا ہے سحر کا سفید شور مجھے سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے گفتگو کرتی چٹانیں یاد آتی ہیں مجھے جوکھل نہیں سکا دروازہ توڑنا ہے مجھے پر طاقِ شب تنہائی میں اک شمع مسلسل جلتی ہے ایک بزنس جس میں بس نقصان ہے یہی میری خدا شناسی ہے پھر کسی نے سونا ہے چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے اک محمد خدا پہ اترا ہے وہ دیکھنا ہے جسے بار بار کیسا ہے بخار بستہ بدن کا مساج کیسا ہے پہاڑوں کا بھی اب جغرافیہ تبدیل ہونا ہے مرے آگے مرا سجدہ پڑا ہے اس لِونگ روم کا وال پیپر اکھڑنے لگا ہے چیک پہ چلتا ہوا قلم کیا ہے کیا تم نے اجالوں کا سفر بند کیا ہے تم سادہ لوح شخص ہو ، دنیا خراب ہے افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے لفظوں کا کوئی پھول تہجد کا وقت ہے لوگ سب اک چوکھٹے کے عکس میں ہیں موت ہے کوہ کی بازگشتوں میں اک راز موجود ہے زمیں اللہ کی ہے اور سب کا حق برابر ہے علم بس عشق کے سبق پر ہے مگر اب احتجاج جاں فصیلِ آخری پر ہے تری توصیف اک احسان میری شاعری پر ہے منحصر لوگوں کی کمک پر ہے دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے زندگی کا کہیں ہو گیا قتل ہے اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے یعنی خدا ، مقامِ نہیں پر مقیم ہے لبلبی پرانگلیوں کا نیلا پن ہے گاڑی مسافروں کے پھر انتظار میں ہے مگر دماغ کسی جہل کی سپاہ میں ہے اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں ہے اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے آگ میں انسانیت ہے کربلا نیزے پہ ہے اسلام ہے تو یہ ہے، کچھ دین ہے تو یہ ہے ہر ایک چشمِ تماشا سے دشمنی ہوئی ہے ٹوٹے جو شیشہ تو صورت گر جاتی ہے شاخ پر اب بھی کوئی پنکھڑی لگ سکتی ہے تجھ کو آوارہ نظرچاند کی لگ سکتی ہے ساحلوں پر زندگی سن باتھ کرنا چاہتی ہے کسی نے جنگ مری زندگی بنا دی ہے گلی گلی ہیں دھماکے، فساد جاری ہے مری تمثیل کرداروں سے خالی ہے اب زندگی ہماری نہیں مسخروں کی ہے یہ لگ رہا ہے مجھے ناگہاں تباہی ہے یہ مدینے میں اپنی سلامی سے ہے اس میں تُو آباد رہے سلطان صلاح الدیں ایوبی ساتھ رہے دریا میں اک ذرا میرے چھالے پڑے رہے بڑے بڑے بریف کیس شانہء سروش پر پڑے رہے عمر بھر ہم خوابِ شب انگیز کے پیچھے رہے ہم وفا کے برگزیدہ فیض کے پیچھے رہے پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے اور کچھ اس بے وفا کو یاد رکھنا چاہیے Rate this:اسے شیئر کریں: Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on Facebook (Opens in new window) فیس بک پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔