مٹی تھا، سو مٹی ہو کر رہ جاؤں گا

یوں ہی اک دن خاموشی سے ڈھہ جاؤں گا
مٹی تھا، سو مٹی ہو کر رہ جاؤں گا
ایسی وحشت، ایسا غم، ایسی بے زاری
میں تو سمجھا تھا میں سب کچھ سہہ جاؤں گا
اس امید پہ مرتا ہوں میں لمحہ لمحہ
شاید کوئی زندہ شعر ہی کہہ جاؤں گا
یہ تکرار_ساعت کچھ دن کی ہے، پھر میں
وقت کنارے کے اس جانب بہہ جاؤں گا
میں عرفان کی کھوج میں ہوں، ٹھہروں گا کب تک
تیرے پہلو میں کچھ دن تو رہ جاؤں گا
عرفان ستار

درد ہے، درد بھی قیامت کا

پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا
یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟
اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟
قتل کردیجیئے روایت کا
نہیں کُھلتا یہ رشتہِٗ باہم
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت
اب زیادہ نہیں عیادت کا
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا
کسرِ نفسی سے کام مت لیجے
بھائی یہ دور ہے رعونت کا
مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا
رات بھی دن کو سوچتے گزری
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں
دیکھ احوال میری وحشت کا
صبح سے شام تک دراز ہے اب
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا
وہ نہیں قابلِ معافی، مگر
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں
مرتبہ درد کی فضیلت کا
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے
آنکھ پر بار ہے امانت کا
اک تماشا ہے دیکھنے والا
آئینے سے مری رقابت کا
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا
ایک تو جبر اختیار کا ہے
اور اک جبر ہے مشیّت کا
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ
خود نمائی کی اِس نحوست کا
جز تری یاد کوئی کام نہیں
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
عرفان ستار

اعلان کر دیا گیا میری شکست کا

امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا
اعلان کر دیا گیا میری شکست کا
سائے سے اپنے قد کا لگاتا ہے تُو حساب
اندازہ ہو گیا ہے ترے ذہنِ پست کا
تجھ کو بدن کی حد سے نکلنا کہاں نصیب
سمجھے گا کیسے روح کو آلودہ ہست کا
تُو ہے۔ کہ کل کی بات کا رکھتا نہیں ہے پاس
میں ہوں کہ پاسدار ہوں عہدِ الست کا
جس سے گروہِ بادہ فروشاں حسد کرے
طاری ہے مجھ پہ نشّہ اُسی چشمِ مست کا
جا شہرِ کم نگاہ میں شہرت سمیٹ لے
یہ کام ہے بھی تجھ سے ہی موقع پرست کا
شاہِ جنوں کا تخت بچھا ہے بہ اہتمام
پہلو میں انتظام ہے میری نشست کا
وسعت ملی ہے ضبط کو میرے بقدرِ درد
بولو کوئی جواب ہے اس بندوبست کا؟
عرفان تیری لاج بھی اللہ کے سپرد
ستّار ہے وہی تو ہر اک تنگ دست کا
عرفان ستار

کچھ اور بات کرو ہم سے شاعری کے سوا

ہنر کے، حسن کے، خواب اور آگہی کے سوا
کچھ اور بات کرو ہم سے شاعری کے سوا
وہ اک خیال جسے تم خدا سمجھ رہے ہو
اس اک خیال میں ہے کیا ہمیشگی کے سوا
یہ زندگی جو ہے، اس روشنی کی قدر کرو
کہ اس کے بعد نہیں کچھ بھی تیرگی کے سوا
لہو کا رنگ ہے، ایسا لہو جو جم گیا ہو
کچھ اور رنگ ہو دل کا بنفشئی کے سوا
یہ بات مان لے پیارے کہ تیرے دل کا نہیں
کوئی بھی کام لہو کی فراہمی کے سوا
ہم اور کچھ بھی نہیں چاہتے سوائے ترے
کمی بھی کوئی نہیں ہے تری کمی کے سوا
یہ کام وہ نہیں فرصت پہ جو اٹھا رکھو
کوئی بھی وقت نہیں عشق کا، ابھی کے سوا
عرفان ستار

یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا

اب میں جو کہہ رہا ہوں یہ اشعار دیکھنا
یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا
پہلے تو ڈھونڈ روح کے آزار کی دوا
پھر آ کے اے طبیب یہ بیمار دیکھنا
جانے یہ کیسا شوق ہے مجھ کو کہ جاگ کر
شب بھر افق پہ صبح کے آثار دیکھنا
اب تک نہیں ہوا ہے تو کیا ہو سکے گا اب
یہ عمر جائے گی یونہی بے کار دیکھنا
اُس سمت دیکھنا ہی نہیں وہ ہو جس طرف
پھر جب وہ جاچکے تو لگاتار دیکھنا
ہے ایسا انہماک و توجہ نگاہ میں
اک بار دیکھنا بھی ہے سو بار دیکھنا
سب سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ ہے یہ
خود کو خود اپنے آپ سے بیزار دیکھنا
اندر سے ٹوٹتے ہوئے اک عمر ہو چکی
اب کچھ دنوں میں ہی مجھے مسمار دیکھنا
کچھ تو کھلے کہ کوئی وہاں ہے بھی یا نہیں
ہے کوئی، جا کے وقت کے اُس پار دیکھنا
ویسے تو سارا شہر ہی دام و درم کا ہے
ہم ذوق مل ہی جائیں گے دوچار دیکھنا
وحشت میں جانے کون سی جانب گیا ہے وہ
اے میرے بھائی دیکھنا، اے یار دیکھنا
کیا مجھ پہ رونے والا نہیں ہے کوئی، ارے
وہ آرہے ہیں میرے عزادار دیکھنا
کوئی گیا ہے مجھ کو یہی کام سونپ کر
در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا
شاعر ہو تم، نہ دیکھنا دنیا کا حالِ زار
تم بس خیالی گیسو و رخسار دیکھنا
گو آندھیوں کی زد میں رہا ہوں تمام عمر
سر سے مگر گری نہیں دستار، دیکھنا
اپنی روایتوں کا کہاں تک منائیں سوگ
اب وقت جو دکھائے سو ناچار دیکھنا
دل اُوب سا گیا ہے اکیلے میں دوستو
میرے لیے کہیں کوئی دلدار دیکھنا
مضمون ہو نیا یہ ضروری نہیں میاں
ہاں شاعری میں ندرتِ اظہار دیکھنا
کوئی تسلی، کوئی دلاسا مرے لیے
جانے کہاں گئے مرے غم خوار دیکھنا
اے عاشقانِ میر کہاں جامرے ہو سب
غالب کے بڑھ گئے ہیں طرف دار، دیکھنا
زریون، یار دیکھ یہ عرفان کی غزل
عارف امام، بھائی یہ اشعار دیکھنا
عرفان ستار

کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا

سب پہ ظاہر ہی کہاں حالِ زبوں ہے میرا
کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا
میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو
ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا
یہ جو ٹھہراوٗ بظاہر ہے اذیّت ہے مری
جو تلاطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا
یہ جو صحراوٗں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری
اور دریاوٗں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا
وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری
یہ جو سب کو نظر آتا ہے، فسوں ہے میرا
بیچ میں کچھ بھی نہ ہو، یعنی بدن تک بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا
رازِ حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان
یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا
عرفان ستار

تو میں بتاوں گا خود کو کہ کیا بنا میرا

اگر بحال ہوا خود سے رابطہ میرا
تو میں بتاوں گا خود کو کہ کیا بنا میرا
ہر ایک روز کہیں چھت مرے مکاں کی گری
ہر ایک روز کوئی شخص مر گیا میرا
کوئی بھی قبر نہیں جس میں میری لاش نہ ہو
کوئی گلی نہیں جس میں نہ خوں بہا میرا
میں روشنی کے سوا کچھ بھی کر نہیں سکتا
ہے اک چراغ کی نسبت سے سلسلہ میرا
میں حل نکال ہی لوں گا کسی طریقے سے
مری سمجھ میں جو آجائے مسئلہ میرا
میں ایک صبح بکھر جاؤں گا مہک بن کر
سراغ ڈھونڈتی رہ جائے گی صبا میرا
تجھے میں خود سے بھی ملواؤں گا مگر پہلے
کسی سے جا کے پتہ پوچھ کر تو آ میرا
عرفان ستار

بھلا کیا ہے سبھی کا، یہ ہے قصور مرا

غموں سے شیشہِ دل اب ہے چور چور مرا
بھلا کیا ہے سبھی کا، یہ ہے قصور مرا
نہ آفتاب تھا، مہتاب تھا، نہ تارے تھے
پھر آسمانِ سخن پر ہوا ظہور مرا
میں اپنے حجرے سے باہر بھی کم نکلتا ہوں
پہنچ رہا ہے مگر شعر دور دور مرا
معاشِ خدمتِ خوباں سے میں تو بھر پایا
حساب آج ہی کردیجیے حضور مرا
مری ہی بیخ کنی کی گٗی سپرد مرے
عجب طریقے سے توڑا گیا غرور مرا
تری خوشی کے لیے تجھ سے مل بھی سکتا ہوں
اگرچہ کرب تو بڑھ جاٗے گا ضرور مرا
نہیں ہے شعر میں تاثیر بے سبب عرفان
چھلک رہا ہے ہر اک لفظ سے وفور مرا
عرفان ستار

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا
ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا
اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا
دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
عرفان ستار

یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا

یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا
یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا
تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے
مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا
ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے؟
اب تمنّا سے گزر میرا مقدّر ہو جا
بے حسی گر تری فطرت ہے تو ایسا کبھی کر
اپنے حق میں بھی کسی روز تُو پتھر ہو جا
اس سے پہلے تو غزل بھی تھی گریزاں مجھ سے
حالتِ دل تُو ذرا اور بھی ابتر ہو جا
میں جہاں پاؤں رکھوں واں سے بگولا اُٹھّے
ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا
اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے
تُو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا
عرفان ستار

کچھ بھی نہیں بگڑا ابھی، عزت سے نکل جا

اچھا ہے اگر شہرِ رقابت سے نکل جا
کچھ بھی نہیں بگڑا ابھی، عزت سے نکل جا
لمحات کئی اور گزرنے کو ہیں بے تاب
ٹھہری ہوئی اس درد کی ساعت سے نکل جا
تُو عشق ہے بےخوف گزر شہرِ جنوں سے
اس مسئلہءِ اذن و اجازت سے نکل جا
ہے عقل کا کہنا کہ کسی طور نبھا لے
دل کہتا ہے بے فیض رفاقت سے نکل جا
جو رنج ترا ہے ہی نہیں اُس سے حذر کر
دنیا کا کہا مان، مصیبت سے نکل جا
ممکن ہے دوبارہ نہ وہ پوچھے تری مرضی
موقع ہے تو اس بابِ رعایت سے نکل جا
اے وارثِ خوشبوئے سخن زارِ حقیقت
اس رزم گہِ قامت و شہرت سے نکل جا
عرفان ستار

فردیات

اِظہارِ آرزُو سے، رَوَیّے بَدَل گئے
حِدَّت بڑھی تو سائے بھی گرمی میں ڈھَل گئے
﴿۔۔۔﴾
جب بھی ہم تم سے مِل کے آتے ہیں
پھول، شاخوں پہ کھِل کے آتے ہیں
﴿۔۔۔﴾
حیرَت ہے، وہی فَردِ مَحاسِن ہے کَم و بیش
اَسمائے اِلٰہی میں مَگَر "ماں” نہیں مِلتا
﴿۔۔۔﴾
کیا زُعم ہے گویا کہ ہُوئی راہِ فَنا بَند
بیٹھا ہُوں کِیے فَخر سے مُٹّھی میں ہَوا بَند
﴿۔۔۔﴾
مَنظَرِ جَذب و فَنا یُوں نَظَر آتا ہے مُجھے
آئینہ بھی تِری تَصویر دِکھاتا ہے مجھے
﴿۔۔۔﴾
سُراغ پا نَہ سَکے کوئی میرے غَم کا کبھی
مِٹاتا جاتا ہُوں نقشِ قَدَم بھی ہاتھ کے ہاتھ
﴿۔۔۔﴾
تُجھ کو نعم البدل کی خواہش ہے
آ مرے دل سے اپنے دل کو بدل
﴿۔۔۔﴾
دامنِ درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آؤ اِک دن دلِ پُر خوں کا ہنر تو دیکھو
﴿۔۔۔﴾
دَستَک بھی کیا کرے کوئی دَر کھولتا نہیں
زِندہ ہے سارا شہر مَگَر بولتا نہیں
﴿۔۔۔﴾
ہجومِ ہَمسَفَراں تھا کہ ایک میلا تھا
فرازِ دار سے دیکھا تَو میں اکیلا تھا
﴿۔۔۔﴾
ہے اَزَل سے پَردَہ دارِعِزَّت و نامُوسِ عِشق
بَن کے چَشمِ مُنتَظِر ہَر زَخمِ دِل اَندَر کُھلا
﴿۔۔۔﴾
گِھرا ہُوا میں شَبِ کَربَلائے عَصر میں ہُوں
ذَرا چراغ بُجھا دُوں کہ کُچھ نَظَر آئے
﴿۔۔۔﴾
بارانِ سَنگ ہے شَجَرِ میوہ دار پَر
بے بَرگ و بار سُوکھے شَجَر خیریَت سے ہیں
﴿۔۔۔﴾
خواہانِ دوستی سے یہ پہلے ہی پُوچھ لو
ترکِ تَعَلُّقات کا کیا اِنتظام ہے
﴿۔۔۔﴾
وقارِ عِشق کو مِلتی نہ گر اَنا ہم سے
ہَر اِک حَسین بَزعمِ خُود اِک خُدا ہوتا
﴿۔۔۔﴾
میں انتقام اندھیروں سے لوں گا جی بھر کے
ہر ایک بزم سے نکلوں گا روشنی کر کے
﴿۔۔۔﴾
میں جیسے کرتا ویسے ہی تُو احترام کر
لَوحِ مَزار! جُھک، اُنہیں جُھک کر سلام کر
﴿۔۔۔﴾
دَشت کی طَرَف بھاگا کہہ کے ایک سَودائی
کِس بَلا کا مَجمَع ہے کِس غَضَب کی تنہائی
﴿۔۔۔﴾
دَورِ جہل میں اِس کو حَق نہیں ہے جینے کا
پِھریہ جی رَہی ہے کیوں آگَہی سے لَڑتاہُوں
﴿۔۔۔﴾
ہَم وہ طَبیِب ہیں کہ مَرَض کُچھ عِلاج کُچھ
کَرنا عِلاجِ کور تھا، مَنظَر بَدَل دِیا
﴿۔۔۔﴾
ضَمِیرِ عَصر کا یہ جَشنِ مَرگ ہے، وَرنہ
بھَرے جَہاں میں کِسی نے تَو کُچھ کَہا ہوتا
﴿۔۔۔﴾
نَظَر و نُطق و سَماعَت سے گَواہی لیں گے
ہَم بھَلا کیوں سَنَدِ ظِلِّ اِلٰہی لیں گے
﴿۔۔۔﴾
بِیا بَخَلوَتَم اَفشائے راز خُواہَم کَرد
دِلَم بَہ سِحرِ نگاہِ تو باز خُواہَم کَرد
﴿۔۔۔﴾
تُم ذَرا میرے سامنے بیٹھو
میں خَلاؤں سے ہو کے آتا ہُوں
﴿۔۔۔﴾
میں، تَصَوُّر میں سَجائے آشیاں
رو رَہا ہُوں ہاتھ میں تِنکے لیے
﴿۔۔۔﴾
کِس ہَوا میں ہو مِیاں؟ پُوچھتی ہے وَقت کی گَرد
کِس کا نَقشِ کَفِ پا میں نے سَدا رَکّھا ہے؟
﴿۔۔۔﴾
مُصحَفِ رُخ پَہ مَیکَدہ آنکھَیں
تُم تَو دَیر و حَرَم اُٹھا لائے!
﴿۔۔۔﴾
حَرف کیا؟ لَفظ اُور معانی کیا؟
"زیر” گر ہو گیا "زَبَر” اِک دِن
﴿۔۔۔﴾
کیا کہیے مجھ میں کون تھا کَل محوِ گُفتُگو
کیا کیا کُھلے ہیں راز شکستِ اَنا کے بعد
﴿۔۔۔﴾
میں پُر خلوص محبّت کا دِل سے قائل ہُوں
کوئی بَتائے تَو لیکن، کہاں سے مِلتی ہے؟
﴿۔۔۔﴾
یہ مَزاروں پَہ دَھماکوں کے بَہانے کَب تَک
اَب کِیے جائیں گے تَعمِیر بَہانوں کے مَزار
﴿۔۔۔﴾
ایک وہ زمانہ تھا موت سے یہ عاجز تھی
موت اب کھلونا ہے زندگی کے ہاتھوں میں
﴿۔۔۔﴾
یہ سَب مَسائلِ مَوت و حَیات و کفر و حَق
خُدا کے ہاتھ میں کچھ اِختیار ہے کہ نہیں؟
﴿۔۔۔﴾
مُمکِن ہے اِتّفاق سے اُٹّھی ہووہ نَظَر
دِل ہے کہ لے اُڑا اُسے کیا کیا سَمَجھ لِیا
﴿۔۔۔﴾
فِکرِ تَعبیر بعد میں کرنا
پہلے آنکھوں میں خواب تَو لاؤ
﴿۔۔۔﴾
دادِ سخن کے شور میں خاموش اِک نظر
حُسنِ غزل کی ہے کہ ہے حُسنِ طلب کی داد
﴿۔۔۔﴾
ہَر نَئے صَدمے پَہ ضاؔمن اِک غَلَط فہمی ہُوئی
لوگ کہتے تھے کہ صَبر آجائے گا، کَب آئے گا؟
﴿۔۔۔﴾
اِک آندھیوں کا رَفیق، ایک بَرق کا ہَمراز
یہ باغباں مِرا گُلشَن جَلا کے چھوڑیں گے
﴿۔۔۔﴾
سکھا دیا ہے بہت کچھ فریبِ منزل نے
سو اب جنوں کو کوئ نقشِ پا پسند نہیں
﴿۔۔۔﴾
ذَرَّہِ خاکِ وَطَن! وَجہِ محبّت مَت پُوچھ
تُجھ میں اسلاف کے پوشیدہ بَدَن ڈُھونڈتا ہُوں
﴿۔۔۔﴾
بارانِ سنگ ہے شَجَرِ میوہ دار پر
بے برگ و بار سوکھے شَجَر خیریت سے ہیں
﴿۔۔۔﴾
بادِ صَبا پہ، خاروں پہ، موسم پہ، اِتّہام
واقف اَگرچہ سَب ہیں کہ صیّاد کون ہے
﴿۔۔۔﴾
جو دَورِ خانہ بَدوشی تھا اِن کا، خَتم ہُوا
ہَر ایک دَرد و اَلَم اَب مِری پَناہ میں ہے
﴿۔۔۔﴾
گردشِ دَوراں پر دو مختلف اشعار
چُپکے سے اَپنی جان بَچا کَر نِکَل گئی
میں پِھر رَہا تھا گَردِشِ دَوراں کے آس پاس
ہِمَّت نہیں ہے اِس میں کہ یہ مجھ کو ڈھونڈ لے
میں رہ رَہا ہُوں گَردِشِ دَوراں کے آس پاس
﴿۔۔۔﴾
مُنہ جو چھپائے پِھرتا ہوں دیوار و در سے میں
ڈرتا ہوں بات کرتے ہوئے اپنےگھر سے میں
﴿۔۔۔﴾
دل و نظر کے مسائل خرَد کے بس میں نہیں
معاملاتِ جنوں ہیں، جنوں سے بات کرو
﴿۔۔۔﴾
نقش بَر آب جِس کو سمجھے ہم
نقش وہ آبِ چشمِ نَم میں ہے
﴿۔۔۔﴾
جمالِ ظرف بہ حَدِّ کمال ہے اُس کا
میں جو بھی سوچُوں وہ پہلے خیال ہے اُس کا
﴿۔۔۔﴾
جادَہِ جستجو پَہ رَہ منزلِ آگہی نہ پُوچھ
ہو گا سفَر تمام کب؟ ایسے سوال بھی نہ پُوچھ
ضامن جعفری

تدفینِ شان الحق حقّی صاحب

جو گل کہ نازِ چمن تھا وہ دے دیا تجھ کو

تجھے اے کنجِ لحد! ہم نے یوں سنوارا ہے

گرفتہ دل تھی بہت خاک اپنی پستی پر

زمیں میں ہم نے ابھی آسماں اُتارا ہے

ضامن جعفری

بیادِفرازؔ

شاہوں میں تھا فرازؔ، فرازوں میں شاہ تھا

دل تھا گدائے حُسن، قَلَم کج کلاہ تھا

کچھ سوچ کس کو چھوڑ کے تُو چل دیا فرازؔ!

تجھ پر غزل کو ناز تھا، اور بے پناہ تھا

﴿﴾

اِک دردِ مسلسل ہے، کہ گھٹتا ہی نہیں

اِک رنج کا بادل ہے، کہ چھٹتا ہی نہیں

ہنستا ہُوا چہرہ ترا، اے دوست، فرازؔ!

یُوں ذہن پہ چھایا ہے کہ ہٹتا ہی نہیں

ضامن جعفری

بیادِ عزمؔ بہزاد

آفتابِ روایت و اقدار

تھک گیا تھا سو گھر گیا شاید

رو رہی ہے غزل، خبر لینا!

عزمؔ بہزاد مر گیا شاید

ضامن جعفری

بیادِ سیّد ضمیر جعفری

﴿﴾

اے اجل! نابغۂ عصر کو مارا کیسے؟

یہ ستم تو نے کیا ہو گا، گوارا کیسے؟

جس کو احباب نے کاندھوں پہ اُٹھایا تھا سدا

اُس کو مٹّی میں ملانے کو، اُتارا کیسے؟

﴿﴾

دلوں کو مہر و محبت سے تابناک کیا

ضمیرِ اہلِ وطن، نفرتوں سے پاک کیا

وہ ایسا شخص تھا، جو اسم با مسمّیٰ تھا

خبر ہے دوستو! کس کو سپردِ خاک کیا

﴿﴾

ہر انجمن سے دُکھے دلوں کے غم و الم سب بھلا کے اُٹھّا

وہ چشمِ بیخواب کو ہمیشہ ، سکون د ےکر، سُلا کر اُٹھّا

بھلا میں اب کیا کہو نگا ضاؔ من! صفیؔ یہ پہلے ہی کہہ گئے ہیں

"ستم ظریفی تو کوئی دیکھے، ہنسانے والا رُولا کے اُٹھّا”

ضامن جعفری

بیادِ جون ایلیا

اے رونقِ اقلیمِ سخن! یاد رہے گا

وہ علم، وہ احساس، وہ فن یاد رہے گا

ہے ندرتِ فکر اپنی جگہ اس کے علاوہ

جون ایلیا! بیساختہ پن یاد رہے گا

ضامن جعفری

ایک زلزلہ زدہ کی فریاد

وہ مرا نورِ نظر لختِ جگر واپس کر
زندگی بھر کی ریاضت کا ثمر واپس کر
کیسا اِنصاف ہے یہ ماؤں سے تو بچوں کو
کھیلتا چھین لے، پھر خون میں تر واپس کر
جوڑ دے تیری مشیّت سے جو دل ٹوٹے ہیں
اور آنکھوں سے بہے لعل و گہر واپس کر
کیا بھلا تیرے خزانوں کو ضرورت اُن کی
وہ شکستہ مری دیوار وہ در واپس کر
رحمتِ حق کے تصور کا بھرم رکھ ورنہ
اُس سے وابستہ سب اوصاف و ہنر واپس کر
زندگی دی ہے تو پھر اُس کے لوازم بھی ہیں
کھول راہوں کو رفیقانِ سفر واپس کر
اے محافظ مرے اے قادرِ مطلق میرے
دل یہ کہتا ہے عقائد کی سپر واپس کر
مصلحت جو بھی تری ہو مری بربادی میں
یا وہ سمجھا دے مجھے یا مرا گھر واپس کر
ضامن جعفری

غزہ

مَوت کی نیند سے بچّوں کو جگایا جائے
عید کا چاند انہیَں بھی تَو دِکھایا جائے
کوئی اندھوں کو دِکھائے تَو یہ سَیلابِ لہو
شور ان لہروں کا بَہروں کو سُنایا جائے
جب تلک غَزہ میں یہ رَقصِ اَجَل خَتم نہ ہو
عید کا جَشنِ طَرَب خاک مَنایا جائے
دَستِ صہیون ہے دَر پَردۂ خدّامِ حَرَم
وَطَنِ شافعِ محشر کو چھُڑایا جائے
دولتِ زیرِ زمیں پر جو ہیں ظالم قابض
ضامنؔ اَب زیرِ زمیں ان کو بَسایا جائے
ضامن جعفری

شام

میانِ روز و شب چھوٹی سی بستی
بھلا میں کیا ہُوں اُور کیا میری ہستی
تھکی ماندی ،امیدِ صبحِ فردا
سفر سے رایگانی کے بالآخر
مری آغوش میں سر اپنا رکھ کے
اَبھی فردا سے بالکل بیخبر ہے
اور اِس امّید کے معصوم رُخ پر
جمی ہیں مستقل میری نگاہیں
اَگر کچھ دیر کو یہ آنکھ کھولے
کسی طرح سے میں اِس کو بتادوں
مگر اِس کو یقیں آئے نہ آئے
ابھی اِک اور بھی منزل کڑی ہے
نئی امّید کے فردا سے پہلے
ابھی تَو ایک پوری شب پڑی ہے
ضامن جعفری

تَجَسُّس

سَجدَہ مَلائکہ سے کَرایا ہی کیوں گیا
مُجھ کو بلندیوں پہ بِٹھایا ہی کیوں گیا
خَطرَہ نہ تھا بَہِشت میں گَر اِقتدار کو
رائی کا پھِر پَہاڑ بَنایا ہی کیوں گیا
ضامن جعفری

خوابِ جَوانی

قلم سے بیاں ہو نہ ہو مُنہ زبانی
عجب چیز ہوتی ہے آتی جوانی
یہی دل کی ضد ایک گاہے بہ گاہے
میں چاہوں کسی کو کوئی مجھ کو چاہے
محبت کا جویا کوئی دل جو پالوں
دیے سے دیا ایک میں بھی جلا لوں
بیاں مختصر ہو مگر لفظ سچّے
کوئی یہ کہے، آپ لگتے ہیں اچھّے
اِسی کَشمَکَش میں جوانی تھی گُم سُم
کہ اِک دن اچانک نظر آ گئیں تُم
طلسمِ جوانی میں کھوئی ہُوئی سی
’’نہ جاگی ہوئی سی نہ سوئی ہوئی سی ‘‘
نہ منزل تھی کوئی نہ تھی فکرِ جادہ
وَرَق تھا ابھی دل کا سادے کا سادہ
نظر تم نے ملتے ہی فوراً جھکالی
لچک کر جھکے جیسے پھولوں کی ڈالی
یہ لمحہ جو صدیوں کا نعم البدل تھا
ہمیں تحفۂ نقش بندِ ازل تھا
شب و روز پھر احتیاطوں میں گزرے
تخیّل تصور سے باتوں میں گزرے
پھر اِک روزتنہائی میں تُم کو پا کر
کَڑ ا کر کے دل کو ،دبے پاؤں آ کر
جو دل میں تھا سب بر ملا کہہ دیا تھا
تُمہیں یاد ہے کچھ کہ پھر کیا ہُوا تھا
وہ جذبوں پہ صدیوں کی قدروں کا پہرہ
سفید ہو گیا تھا گلابی یہ چہرہ
تَو گھبرا کےچاروں طرف تُم نے دیکھا
مرے مُنہ پہ پھر ہاتھ رکھ کر کہا تھا
خدا کے لئے چُپ رہیں ،لب نہ کھو لیں
کہیِں کوئی سُن لے گا، آہستہ بولیں
ضامن جعفری

محترم شان الحق حقّی صاحب

مردِ بزرگ، صاحبِ تحقیق، خضرِ راہ
علمِ لغت کے واحد و بے تاج بادشاہ
تحفہ دیا ہے رحمتِ پروردگار نے
پیدا ہوئے ہیں گیسوئے اردو سنوارنے
عصرِ کہن کی گود کے پالے ہوئے ہیں یہ
تہذیبِ رفتگاں کو سنبھالے ہوئے ہیں یہ
اَوجِ کمال فکر کا ہے دسترس کا ہے
یہ رنگ یہ رچاؤ ستاسی برس کا ہے
جب طبع نے اشارۂ نوکِ قلم کیا
فکر و خیال نے سرِ تسلیم خم کیا
علم و ادب کی جھیل میں کِھلتا کنول ہیں یہ
صِنفِ غزل یہ کہتی ہے حسنِ غزل ہیں یہ
اشعار ہیں بلا کی روانی لئے ہوئے
ہر لفظ ایک گنجِ معانی لئے ہوئے
ایسا وقارِ لفظ و معانی کہاں سے لاؤں
آئینہ کہہ رہا ہے کہ ثانی کہاں سے لاؤں
شان و شکوہ و دبدبہ و آن بان ہے
اِن سے بہارِ گلشنِ اردو زبان ہے
ضامن جعفری

تحلیلِ نفسی

یہ چاہت ہے؟محبت ہے؟جُنونِ عشق ہے؟کیا ہے؟
زمانہ بھر ہے آمادہ، مری تحلیلِ نفسی پرمگر فرصت کسے اِتنی؟
کہ وہ کچھ فیصلہ کرنے سے پہلے، مجھ سے بھی پوچھے
کہ حسن و عشق کے بارے میں میرا کیا تصور ہے؟
کوئی سننے پہ راضی ہو تو بس یہ عرض کرنا ہے
مرے جذبات کی دنیا میں ، جو آئین نافذ ہے
نگاہِ بے ریا،بے لوث دل اور جرأ تِ اِخلاص نے، مل کر بنایا ہے
مری دنیا میں بس اِن تین کی فرماں روائی ہے
نگاہوں میں کوئی خواہش نہیں ہے، اُس کو پانے کی
غبارِ آرزوسےدامنِ دل پاک ہے میرا
خلوصِ عشقیہ رَس گھولتا رہتا ہے، کانوں میں
اگر دل میں اُسے پانے کی خواہش ہے تو یہ ملحوظِ خاطررکھ
کہ خواہش کو محبت کہہ نہیں سکتے
حریر و شعلۂ جوّالہ کو آپس میں کیا نسبت؟محبت اور خواہش کا ہو سنگم!کیسے ممکن ہے؟
گر ایسا ہے، تو پھر ضامنؔ!
ضرورت نےغرض نےیا، ہَوَس نے بھیس بدلا ہے
یہ زک دینے کی سازش ہے،
خلوصِ عشق کو میرے،
مر ے حسنِ محبت کو
ضامن جعفری

پلَیٹَو نِک لَو

۔۔ پہلا رُخ ۔۔
میں نے چاہا تھا تجھےعام رَوِش سے ہٹ کر
خواہشِ لمس سے آزاد تھی چاہت میری
روح کی ،روح سے
پاکیزہ محبت کی طرح
اِک پجاری کی، کسی بت سے
عقیدت کی طرح
جس طرح سے
کسی نغمے پہ سماعت مچلے
دیکھ کر تاج محل
جیسے بصارت مچلے
ذہن میں جیسے کوئی ایسا تصور اُبھرے
حُسنِ صورت سے پرےاحترام اور محبت کو لئے
آرزو جس میں نہ ہو کوئی نہ خواہش کا وجود
جیسے ہر اَنگ میں رس گھول دے لحنِ داؤد
جانے دنیا میں کہیں ایسی لگن ہے کہ نہیں
کبھی سوچا ہی نہیں تیرا بدن ہے کہ نہیں
۔۔ دوسرا رُخ ۔۔
اب جو ٹھکرایا ہے تو نے
تو خیال آیا ہے
تیری دنیا میں
بھلا کام ہی کیا تھا میرا
میں بھٹکتا ہُوا ،کس سمت نکل آیا ہوں
ایک ناکارہ سی سوغات،اُٹھا لایا ہوں
عشق میرا
ترے پندار سے بھی نازک تر
ایک پودا تھا
جسے چھُو لو، تو مر جاتا ہے
اور اُدھر
رسم و روایت کی روا دار ہے، تُو
روح کو چھوڑ کے
پیکر کی پرستار ہے، تُو
تیرا اصرار ہے یوں تجھ کو نہ چاہا جائے
کرلوں تاراج میں خود اپنی ہی دنیائے خیال
تا کہ رسم و رہِ دنیا کو نباہا جائے
میری بے لَوث محبت کا تقاضا بھی یہ تھا
اپنی خوشیوں کو
تری خوشیوں پہ وارا جائے
جب میسر ہی نہ ہوترکِ تعلق کے سوا
کوئی صورت، کوئی راہ
عشق کو
صرف سِپَر ڈال کے ملتی ہے پناہ
سو، یہی میں نے کیا
زندگی بھرتری اِس ضد کو نباہوں گا میں
تجھ کو بھی علم نہ ہویوں تجھے چاہوں گا میں
اِک اَنوکھی سی مسرّت ہےیہ سمجھوتہ بھی
میں بھی خاموش ہوں اِس جھوٹ پہخوش ہے تو بھی
ضامن جعفری

حفظِ مراتب

احباب و اقربا کا کرم مانتا ہُوں دوست
کس کس کے زیربار ہُوں سب جانتا ہُوں دوست
آئینہ دارِ حفظِ مراتب ہیں زخمِ دل
ہر دست وسنگ و خشت کو پہچانتا ہُوں دوست
بادہ پیماؤں میں نے بادیہ پیماؤں میں
بادہ پیماؤں میں نے بادیہ پیماؤں میں
ہُوں اکیلا ہی میں اَب اَپنے شناساؤں میں
فَرطِ وحشَت میں یہ میری ہی اُڑائی ہوئی ہے
خاک ناپید ہُوا کرتی تھی صحراؤں میں
قحطِ اقدار کے اِس دَور میں حیَرَت کیسی
دھُوپ جیسی ہی تَمازَت ہو اَگَر چھاؤں میں
اِک نظر ڈال دِیا کیجے بَس آتے جاتے
کتنی ترمیم کروں اب میں تمنّاؤں میں
خُود سے بہتر کی نہ تحسیِن پہ مائل ہونا
ناتَوانی کی عَلامَت ہے تَواناؤں میں
ہَم سے مِل لینا کبھی دِل جو پریشان کرے
اُٹّھے بیٹھے ہیں بہت ہَم بھی مسیحاؤں میں
مِل تَو لیتے تھے کَم اَز کَم یُونہی آتے جاتے
ایک پَگڈَنڈی ہُوا کرتی تھی بَس گاؤں میں
مُجھ کو مَنزِل کی لَگَن رُکنے نہ دے گی ضامنؔ
اَب اَگَر پَڑتے ہیں چھالے تَو پَڑیَں پاؤں میں
ضامن جعفری

اُفُقِ عَصر پہ تہذیب کے آثار ہیں ہَم

ہیں رسوماتِ اَزَل زِندہ ہَمارے دَم سے
آج بھی سجدہ و اِنکار کی تَکرار ہیں ہَم
کُچھ نہ ہونے پہ بھی سَرمایہِ تحقیق تَو ہیں
اُفُقِ عَصر پہ تہذیب کے آثار ہیں ہَم
ضامن جعفری

تُو زندگی کے معانی بدل کے دیکھ ذرا

ہمارے کہنے پہ کچھ روز چل کے دیکھ ذرا
تُو اپنے آپ سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
بدل کے دیکھے گا تُو کب تک اور کس کس کو
کسی کی ذات میں خود بھی تَو ڈَھل کے دیکھ ذرا
رہِ حیات کٹھن ہی سہی پر اتنی نہیں
تُو زندگی کے معانی بدل کے دیکھ ذرا
ضامن جعفری

اَب اِختیار ہَمیَں دو ہَمارے بَس میں رَہو

ہَمارے دِل سے نِکَل کَر کَہاں بَسو گے بھَلا
اَب اِس پَہ حُکم چَلاؤ کہ اِس قَفَس میں رَہو
خُود اَپنے کہنے پَہ چَل کَر تَو تُم نے دیکھ لِیا
اَب اِختیار ہَمیَں دو ہَمارے بَس میں رَہو
ضامن جعفری

ہم جو سَمجھے ہَیں کہو اِس میں وہی راز ہے کیا؟

ہم نے کھایا نَہیں لہجَوں کی حَلاوَت کا فَریب
دیکھ لیتے ہیں پَسِ پَردہِ اَلفاظ ہے کیا
جَب کہیں مِلتے ہو کَترا کے نکل جاتے ہو
ہم جو سَمجھے ہَیں کہو اِس میں وہی راز ہے کیا؟
ضامن جعفری

یہ لیجئے! ہم نے رَوِشِ آہ بدل دی

ہم قائلِ تقلید نہیں راہِ جنوں میں
دیکھا جو کوئی نقشِ قدم راہ بدل دی
اک بارِ گراں خاطرِ نازک پہ یہی تھا
یہ لیجئے! ہم نے رَوِشِ آہ بدل دی
ضامن جعفری

خُود غَرَض کِتنا ہو گَیا ہُوں میں

ہَر قَدَم سے لپَٹ گَیا اُس کے
وہ یہ سَمَجھا تھا نَقشِ پا ہُوں میں
اُس کے آئینے سے الجھتا ہُوں
خُود غَرَض کِتنا ہو گَیا ہُوں میں
ضامن جعفری

کوئی تو ہے جسے میں نے یہ سب سنایا ہے

ہر ایک غم کو جو ہنس کر گلے لگایا ہے
ہر اِک کے ساتھ ترے نام کا حوالا ہے
فصیلِ قلب و نظر سے پلٹ تو آیا ہوں
ترے حصار میں لیکن شگاف آیا ہے
حسابِ سود و زیاں میں اُلجھ کے کیا دیکھیں
ہمیں یقین ہے، کھویا نہیں ہے، پایا ہے
کوئی تو ہے یہاں میرا بھی رازداں ضامنؔ
کوئی تو ہے جسے میں نے یہ سب سنایا ہے
ضامن جعفری

میں آئینے کو مُسَلسَل نَظَر میں رَکھتا ہُوں

نہیں کہ دِل ہی فقط رَہگُذَر میں رکھتا ہُوں
میں چَشم و گوش بھی دیوار و دَر میں رکھتا ہُوں
تمام رات ہیں اُس کی شکایتیں خُود سے
پھِر اُس کو اپنی دُعائے سحر میں رکھتا ہُوں
وہ کھویا رہتا ہے آرائشِ جمال میں جب
میں آئینے کو مُسَلسَل نَظَر میں رَکھتا ہُوں
ضامن جعفری

اَزَل سے سب مکرّر ہو رَہا ہے

نہ جانے کہہ دِیا ہے عشق نے کیا
کہ حُسن آپے سے باہر ہو رَہا ہے
حواس و ہوش سے کہہ دو کہ جائیں
حسابِ دل برابر ہو رَہا ہے
اَبَد ممکن ہے لائے کچھ تغیّر
اَزَل سے سب مکرّر ہو رَہا ہے
ضامن جعفری

کُچھ مِری فِکر بھی ہے خوں میں شَرابور بہت

نَفسِ لَوّامہ تُو چُپ کیوں ہے مَچا شور بہت
نَفسِ اَمّارا ہُوا جاتا ہے مُنہ زور بہت
حَرفِ حَق گوشِ سَماعَت سے ہُوا ہے محروم
چَشمِ بینا بھی نَظَر آئی مجھے کور بہت
دیتا رہتا ہے دِلاسا مُجھے یُوں میرا ضَمیِر
آرزوئیں تَو مِری بھی ہیں لَبِ گور بہت
خُونِ دِل بھی ہے مِرے اَشکِ رَواں میں ضامِنؔ
کُچھ مِری فِکر بھی ہے خوں میں شَرابور بہت
ضامن جعفری

خَموشی بولَے تَو پھِر بے تَکان بولتی ہے

نَسَب چھُپاتا ہے جَب کوئی کَم نَسَب اَپنا
رَگوں میں بہتے لہُو کی زبان بولتی ہے
یہ شور ہی ہے جو تھَک کَر خَموش ہوجائے
خَموشی بولَے تَو پھِر بے تَکان بولتی ہے
ضامن جعفری

گُمان ہوتا ہے جِس جا وہیں نہیں ہوتی

میں ہر نَظَر سے زمانے کی خوب واقف ہُوں
کرے جو رُوح میں گھر وہ کہیں نہیں ہوتی
کَہاں کَہاں میں گیا ہُوں تَلاشِ اُلفَت میں
گُمان ہوتا ہے جِس جا وہیں نہیں ہوتی
ضامن جعفری

شاید کوئی کَمال تِرے سَنگِ دَر میں ہے

مَنظَر میں کچھ ہے یا مِرے حُسنِ نَظَر میں ہے
یا کچھ نہیں ہے جو ہے تِری رہگُزَر میں ہے
سَمجھا رَہے ہیں لوگ مِرے دِل کو بار بار
سُنتا کوئی نہیں ہے کہ سَودا تَو سَر میں ہے
سَر پھوڑنے کو آتے ہیں سَب دُور دُور سے
شاید کوئی کَمال تِرے سَنگِ دَر میں ہے
ضامن جعفری

معلوم ہو مجھے بھی کہ کیا کچھ اَثَر میں ہے

منزل میں وہ کہاں ہے مزہ جو سَفَر میں ہے
آنکھیں کُھلیِں تَو زیست کاحاصل نَظَر میں ہے
طوفان کر رہا تھا مِرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھَنوَر میں ہے
اسبابِ کائنات کا منکر نہیں ہُوں میں
پِھر کیوں کَشِش شَجَر سے زیادہ ثَمَر میں ہے
ضامنؔ! مری دعاؤں کی قیمت بھی کم نہیں
معلوم ہو مجھے بھی کہ کیا کچھ اَثَر میں ہے
ضامن جعفری

ہوش و خِرَد کے سارے حوالوں سے دشمنی

منزل کی آرزو ہے، تَو راہوں سے دشمنی
تعبیر کی تلاش ہے، خوابوں سے دشمنی
بھٹکوگے روز و شب، رہ و منزل کی چاہ میں
سورج سے تم کو لاگ، چراغوں سے دشمنی
رائے نہ مشورہ کوئی، ایسا بھی کیا شباب
مہنگی پڑے گی، چاہنے والوں سے دشمنی
دَورِ جنوں نواز میں ضامنؔ! ہے لازمی
ہوش و خِرَد کے سارے حوالوں سے دشمنی
ضامن جعفری

خامشی حُسن کی عادت کے سِواِ کچھ بھی نہیں

مثلِ آئینہ مجھے دیکھ! تردّد کیا ہے؟
چشمِ آئینہ میں حیرت کے سِوا کچھ بھی نہیں !
روح، فریاد کُناں ہے تَو سبب ہے اِس کا
قید خانے میں اذیّت کے سِوا کچھ بھی نہیں
وہ توجہ ہو تغافل ہو تبسّم ہو کہ اشک
اُس کا ہر رُوپ محبت کے سِوا کچھ بھی نہیں
اُن کے اسلوبِ نظر سے یہ عیاں ہے ضامنؔ
خامشی حُسن کی عادت کے سِواِ کچھ بھی نہیں
ضامن جعفری

فنا کی قید سے پابندیِ اَزَل سے نکل

مثالِ شُتر نہ بیٹھا رِہ شُتر کیِنہ لیے
تُو کام عَقل سے لے بندشِ عَقَل سے نکل
گر عَقلِ کُل ہے تَو ہر چیز کو اَبَد کر لے
فنا کی قید سے پابندیِ اَزَل سے نکل
ضامن جعفری

دارالبَقا بَنانے کو معمار چاہیے

مانا کہ ظُلم و جَبر سے اِنکار چاہیے
اِنکار کے لیے بھی تَو کِردار چاہیے
کَھلتا ہے چَشمِ ظُلم کو بہتا ہُوا لہو
زَخموں کو کُچھ سَلیقَہِ اِظہار چاہیے
دارِ فَنا کو، کھود کے ہَر ایک بیخ و بُن
دارالبَقا بَنانے کو معمار چاہیے
ضامن جعفری

مرے اشعار میں اپنے معانی ڈالنے والو

لرزتی ہے سراپا روحِ قرطاس و قلم تم سے
اَدَب کے خون سے نفسوں کو اپنے پالنے والو
تمہیں کس نے دیا یہ حق؟ بھلا تم کون ہوتے ہو؟
مرے اشعار میں اپنے معانی ڈالنے والو
ضامن جعفری

تَسکیِنِ نَظَر تَو ہو گی مَگَر داغَوں کو نُمایاں کَر دیں گے

گَر یہ ہے رَوِش وہ جَب چاہیں گے آئیں گے احساں کَر دَیں گے
اَپنی بھی اَنا ہے ہَم اِظہارِ تَنگیِ داماں کَر دَیں گے
کَے بار خَیال آیا بَیٹھیَں اَوراقِ پَریشاں کو لے کَر
اِک خَوف سا دِل میں بیٹھا ہے اَوراق پَریشاں کَر دَیں گے
اے خواہِشِ دِل چَل دیکھ آئیں پھِر محفِلِ جاناں کے مَنظَر
تَسکیِنِ نَظَر تَو ہو گی مَگَر داغَوں کو نُمایاں کَر دیں گے
ضامن جعفری

لوگ چَلتی ہَوا سے بَد ظَن ہیں

کیسے گلشَن میں رہ رَہا ہُوں میں
پھول بادِ صَبا سے بَد ظَن ہیں
منزلیں قافلوں سے ہیں محروم
لوگ ہر نقشِ پا سے بَد ظَن ہیں
حَبس سا حَبس ہے مگر ضامنؔ
لوگ چَلتی ہَوا سے بَد ظَن ہیں
ضامن جعفری

تیرے اِس خواب کی تَعبیر اِسی خواب میں ہے

کیا کَہوں تُجھ سے بھَلا! سَنگ اُٹھانے والے
تُو بَہَر حال مِرے حَلقۂ احباب میں ہے
خواب میں آ کے چَلے جانے پَر اُس نے یہ کَہا
تیرے اِس خواب کی تَعبیر اِسی خواب میں ہے
ضامن جعفری

جو ہاتھ پَسِ پُشت ہے، اُس ہاتھ میں کیا ہے

کیا صَبر ہے، کیا ضَبط ہے، کیا پاسِ وَفا ہے
کیا جانیے دِل کون سی مٹّی کا بَنا ہے
اِک خَوف سا رہتا ہے مِلائے جو کوئی ہاتھ
جو ہاتھ پَسِ پُشت ہے، اُس ہاتھ میں کیا ہے
ضامن جعفری

یہ میرا نطق ہے اِس کی زباں میں

کہاں یہ عشقِ دنیا اُور کہاں میں
گزارا کر رہا ہُوں بَس جہاں میں
میں اُس ہجرت سے خائف ہُوں کہ جس میں
یقیں بھی جا کے بس جائے گماں میں
یہ حرف اُور میں دلیلِ یک دِگر ہیں
یہ میرا نطق ہے اِس کی زباں میں
ضامن جعفری

جہل ہے آگَہی ہے پھر ہے جنوں

کُشتَہِ آگَہی! مبارک ہو
ہاتھ پھیلائے منتظر ہے جنوں
سرکَشیِ خِرَد، معاذ اللہ!
اَور اتنا ہی مُنکَسِر ہے جنوں
راستہ اِتنا مختصر بھی نہیں !
جہل ہے آگَہی ہے پھر ہے جنوں
ضامن جعفری

فاصلے کِس بَلا کے رکّھے ہیں

کس کے آنے کی ہے یہ تیّاری
زَخم سارے سَجا کے رَکّھے ہیں
چشمِ شوق! انتظار میں کس کے
تُو نے آنسو بچا کے رکّھے ہیں
تُم نے اے عقل و دِل یہ آپس میں
فاصلے کِس بَلا کے رکّھے ہیں
ضامن جعفری

چراغِ حسرتِ دل دوست جل رہے ہیں ہنوز

غمِ حیات کے عنواں بدل رہے ہیں ہنوز
مگر چراغ محبّت کے جل رہے ہیں ہنوز
شکستِ دل کی نمائش بھی دل نے کی نہ قبول
سَرَشکِ غم سَرِ مژگاں مچل رہے ہیں ہنوز
نقوشِ خونِ تمنّا ہیں اب بھی چشم بَراہ
چراغِ حسرتِ دل دوست جل رہے ہیں ہنوز
ضامن جعفری

یہ فَیصلہ تَو مِیاں وَقت کے نَصیِب میں ہے

صلیبِ وقت کے انداز کُچھ عجیب سے ہیں
پَتہ کَرو کوئی عیسٰی کہیِں قَریِب میں ہے
حیات کِس کی اَجَل ہے اَجَل ہے کِس کی حیات
یہ فَیصلہ تَو مِیاں وَقت کے نَصیِب میں ہے
ضامن جعفری

کیا بَڑھ گیا تھا دَست و گریباں کا فاصلہ؟

شَرمندگی سے، آپ کے احساں کا، فاصلہ
یُوں تھا قَضا سے جیسے رَگِ جاں کا فاصلہ
کیوں رہرَوانِ عِشق جُنوں تَک نہ جا سَکے؟
کیا بَڑھ گیا تھا دَست و گریباں کا فاصلہ؟
ضامن جعفری

ہَم کہہ چُکے ہیں تُم بھی ذَرا کہہ کے دیکھ لو

سَیلابِ آرزو میں ذَرا بہہ کے دیکھ لو
کچھ دِن ہَمارے ساتھ رَہو، رہ کے دیکھ لو
سُنتے نہیں کِسی کی یہ دِل کے معاملات
ہَم کہہ چُکے ہیں تُم بھی ذَرا کہہ کے دیکھ لو
ضامن جعفری

کرنی پَڑی ہے ہم کو چراغوں سے معذرت

سب اہلِ ظرف عالی دماغوں سے معذرت
دَورِ خزاں کے عشق میں باغوں سےمعذرت
تاریکیوں سے ربط بڑھانے کے شوق میں
کرنی پَڑی ہے ہم کو چراغوں سے معذرت
ضامن جعفری

حقّا زِ رہروانِ رہِ راستیم ما ۔ قطعہ فارسی

زنہار ہجرِ یار نمی خواستیم ما
ہر آنچہ بگزرد نمی پنداشتیم ما
رفتیم کوبکو کہ ببینیم عکسِ یار
در قلبِ ذات عاقبتش یافتیم ما
دانیم کوئے یار و رہِ مستقیمِ عشق
حقّا زِ رہروانِ رہِ راستیم ما
ضامن جعفری

تلاش کیجیے ضامنؔ یہیں کہیں ہو گا

ڈَسا ہے جِس نے مُجھے، اُس کو کیجیے نہ تَلاش
مَیں مُطمَئِن ہُوں ، کوئی مارِ آستِیں ہو گا
ابھی ابھی وہ یہاں تھے یہیں پَہ تھا دِل بھی
تلاش کیجیے ضامنؔ یہیں کہیں ہو گا
ضامن جعفری

اِس کو فکرِ مآل کیسے دُوں

دل کے ہر زخم میں ہے اِک تصویر
رُخصَتِ اندمال کیسے دُوں
رحم آتا ہے خاطرِ خوش پر
اِس کو فکرِ مآل کیسے دُوں
ضامن جعفری

کچھ اثَر شاید دِکھایا آہِ بے تاثیر نے

دل کو جب تسلیم جاں کی عقلِ با تدبیر نے
تہنیت دی بڑھ کے دامِ حلقہِ زنجیر نے
یاس و حسرت، رنج و غم، سب لکھ دیے میرے لیے
کیا دیا اہلِ جہاں کو کاتبِ تقدیر نے
سُن کے ضامنؔ وہ مِرا احوال تھے تَو مضطرب
کچھ اثَر شاید دِکھایا آہِ بے تاثیر نے
ضامن جعفری

پھینک دوں آئینے تمام؟ شورِ اَنا کا کیا کروں

خُود ہُوں طبیب خُود مریض اپنی دَوا کا کیا کروں
دَستِ ہَوس دَراز ہے دَستِ دُعا کا کیا کروں
خامشیِ درونِ ذات، پوچھ رہی ہے رات دِن
پھینک دوں آئینے تمام؟ شورِ اَنا کا کیا کروں
ضامن جعفری

اُفق پہ یادوں کے سب وہی ہیں ، پرانے قصے پرانی باتیں

خدا ہی جانے کہاں سے سِکھِیں ہمارے دل نے نرالی باتیں
جہاں بھی جس سے بھی جب بھی ملنا تمہارا ذکر و تمہاری باتیں
یہ کیسی تنہائیاں ہیں ضامنؔ، وہی ہے چہرہ وہی صدا ہے
اُفق پہ یادوں کے سب وہی ہیں ، پرانے قصے پرانی باتیں
ضامن جعفری

دل کو آنکھوں کا اعتبار آیا

(مصرعِ طرح:’’ سرِ منصور ہی کا بار آیا‘‘ ۔ میر تقی میر)ؔ
چند لمحے کہیِں گزار آیا
دل پر اک بوجھ تھا اُتار آیا
تیرا آنکھوں میں دل سجا لینا
ذہن میں میرے بار بار آیا
دیکھ کر اُس کو رو بہ رو ضامنؔ
دل کو آنکھوں کا اعتبار آیا
ضامن جعفری

جی بھر کے پھر اپنے کو دعا دی میں نے

جو چاہے اب آجائے صدا دی میں نے
دیوارِ اَنا آج گِرا دی میں نے
خود کو قَفَسِ ذات سے آزاد کِیا
جی بھر کے پھر اپنے کو دعا دی میں نے
ضامن جعفری

ابھی تو ہوش کو اُڑنا سِکھا رہے ہیں آپ

جنوں کا صرف جنوں سے علاج ہوتا ہے
غضب ہے اس پہ خرَد آزما رہے ہیں آپ
ہر ایک پارۂ دل رقص بھی کرے گا ضرور
ابھی تو ہوش کو اُڑنا سِکھا رہے ہیں آپ
ضامن جعفری

جو ظرف بھی خالی تھا وہ سر بند مِلا

جس دَر پہ بھی دستک دی وہ دَر بند مِلا
ہر شخص خود اپنے میں نظر بند مِلا
میں دولتِ دل بانٹتا کیسے ضامنؔ
جو ظرف بھی خالی تھا وہ سر بند مِلا
ضامن جعفری

ہونا تھا جو وہ ہوچُکا، جیسا بھی فیصلہ ہُوا

جَب کَبھی حُسن و عِشق کا آمنا سامنا ہُوا
جو بھی ہُوا غَلَط ہُوا، جو بھی ہُوا بُرا ہُوا
تُم کو نَوازا حُسن سے مُجھ سے کَہا کہ عِشق کر
ہونا تھا جو وہ ہوچُکا، جیسا بھی فیصلہ ہُوا
ضامن جعفری

اُور عشق میں بھی اب یہ ضرورت نہیں رہی

تھی عشق کو جو حُسن سے نسبت نہیں رہی
اب وجہِ افتخار نجابت نہیں رہی
ذِکرِ بہار قابلِ تعزیر جُرم ہے
کہنا پَڑا بہار سے رَغبَت نہیں رہی
ضامنؔ! ہمیں وفا کے علاوہ بھی کام ہیں
اُور عشق میں بھی اب یہ ضرورت نہیں رہی
ضامن جعفری

برہنہ لوگ مجھ سے لڑ رہے ہیں

تعرّض کیا ہے مجھ گوشہ نشیں سے
جو اہلِ فہم ہیں سمجھے ہوئے ہیں
مِرا ملبوس ہے وجہِ شکایت
برہنہ لوگ مجھ سے لڑ رہے ہیں
ضامن جعفری

تھے ہی قَریبِ مَرگ ہَم آپ نے وار کیوں کِیا

تَذکرہِ خُلوص و پاسِ قَول و قرار کیوں کِیا
ہَم نے خزاں میں جانے یہ ذِکرِ بَہار کیوں کِیا
روزِ اَزَل سے آج تَک، با خَبَر اَور بے نِیاز
حُسن کو دِل نے عِشق کا پَروَردگار کیوں کِیا
رَمَقِ زِندگی حضُور! پہلے ہی تھی بَرائے نام
تھے ہی قَریبِ مَرگ ہَم آپ نے وار کیوں کِیا
ضامن جعفری

میرَفت سُوئے منزل بر دوشِ سوگواراں ۔ قطعہ فارسی

پوشیدہ گر بیائی سُوئے ما گناہگاراں
گویم بتو اے زاہد رہ و رسمِ بادہ خواراں
زَہے شیخِ تو چہ گویم ہمی رفت دوش دیدم
خُم و جامِ مے بَدَستَش سُوئے کوئے گُل عذاراں
چہ زیاں زِ توبہِ ما زِ شکستِ توبہِ ما
کُو وداعِ موسمِ گُل ویں آمدِ بہاراں
آں ضامنِؔ خُجَستہ دیدیم بود خستہ
میرَفت سُوئے منزل بر دوشِ سوگواراں
ضامن جعفری

میری آواز آ رَہی ہے کیا؟

پوچھتی پِھر رہی ہے سب سے اَجَل
زندگی مُسکرا رہی ہے کیا؟
کیا میں قَبروں پَہ جا کے پُوچُھوں اَب
میری آواز آ رَہی ہے کیا؟
ضامن جعفری

کوئی کَشِش مُجھے گُلشَن میں ڈال دیتی ہے

بَلا کی آگ مِرے تَن میں ڈال دیتی ہے
ہر ایک یاد اِک اُلجَھن میں ڈال دیتی ہے
گئے زَمانوں کی زَنجیر کھینچ کَر مُجھ کو
کِسی کی یاد کے آنگَن میں ڈال دیتی ہے
میں سوچتا ہُوں زمانے سے دوستی کَرلُوں
مُنافِقَت مُجھے اُلجھَن میں ڈال دیتی ہے
خزاں رسیدہ ہے لیکن میں کیا کروں ضامنؔ
کوئی کَشِش مُجھے گُلشَن میں ڈال دیتی ہے
ضامن جعفری

کب تَک وداعِ ہوش تَماشا کریں گے ہَم

آئینہِ فراق میں اے عَکسِ حُسنِ یار
دیکھا کریں گے ہم تجھے سوچا کریں گے ہَم
شَوقِ نُمائشِ لَب و رُخسار کچھ سنبھل
کب تَک وداعِ ہوش تَماشا کریں گے ہَم
ضامن جعفری

داند چمن کہ من زِ رقیبَم رمیدہ اَم قطعہ فارسی

اے چشمِ انتظار صدائے شنیدہ اَم
دارم گمان مگر سرِ منزل رسیدہ اَم
زنہار باز می نہ رَوَم زین فضائے خوش
ایمن نشستہ ام زِ درونم رمیدہ اَم
آن بوئے خوش نَیَم کہ بمانم بہ قیدِ گُل
مِثلِ نسیمِ سَحَر بَہ ہر سُو وَزیدہ اَم
ضامنؔ ہزار لالہ و گُل عکسِ یار داشت
داند چمن کہ من زِ رقیبَم رمیدہ اَم
ضامن جعفری

تَو یہ بھی سیکھیں اِسے کس طرح سنبھالتے ہیں

اَنا کا جبر ہے وہ دل میں روگ پالتے ہیں
یہی تَو دُکھ ہے جسے ہم غزل میں ڈھالتے ہیں
وہ دل کو چھیڑنے میں طاق ہیں اگر ضامنؔ
تَو یہ بھی سیکھیں اِسے کس طرح سنبھالتے ہیں
ضامن جعفری

کیا کیفِ بیخودی ہے یہ سَودائیوں میں دیکھ

آغاز و اِختتامِ حیات آئینہ بَنا
رَنگینیِ حیات کی پہنائیوں میں دیکھ
صِدق و صَفا جو چاہے تَو رندوں میں آ کے بیٹھ
کیا کیفِ بیخودی ہے یہ سَودائیوں میں دیکھ
ضامن جعفری

تمہارے ہاتھوں میں خود ہیں خنجر، کہاں ہیں قاتل؟ دِکھاؤ ہم کو

ارے! یہ تم کس سے کہہ رہے ہو؟ کہ راہِ منزل دِکھاؤ ہم کو
ڈبونے والوں سے کوئی کہتا ہے؟ آؤ ساحل دِکھاؤ ہم کو
یقین مانو، تمہارا دشمن بَجُز تمہارے کوئی نہیں ہے
تمہارے ہاتھوں میں خود ہیں خنجر، کہاں ہیں قاتل؟ دِکھاؤ ہم کو
ضامن جعفری

تری محفل میں اب میری بَلا جائے

یہیں گر موت آنی ہے تَو آ جائے
تری محفل میں اب میری بَلا جائے
بکھرتے جا رہے ہیں سارے پتّے
شجر ہے لا تعلّق کیا کِیا جائے
یہ سب یک حال بھی ہیں ہمزباں بھی
یہاں بہتر یہی ہے چُپ رہا جائے
تمہاری بزم کا یہ کیا ہے دستور
کہ جو خوش ہو کے آئے وہ خفا جائے
وہاں محفوظ ہَوں گے ہم زیادہ
چَلو گھر لے کے جنگل میں بَسا جائے
یہ بزمِ یار کی پابندیاں ہیں
یہاں سے کیسے اُٹھ کر چَل دِیا جائے
جدھر چاہے زمانہ جائے ضاؔمن
ہر اِک رستہ سُوئے کوئے فنا جائے
ضامن جعفری

انجمن میں کھا گیا احساسِ تنہائی مجھے

یہ ہُوا مانع کسی کا پاسِ رُسوائی مجھے
انجمن میں کھا گیا احساسِ تنہائی مجھے
اے دیارِ حسن! لے آئی تھی امّیدِ وفا
تیری دنیا میں وہی عنقا نظر آئی مجھے
زندگی بھر ٹھوکریں تھیں مَر کے زیبِ دوش ہُوں
مل گئے کیسے اچانک اتنے شیدائی مجھے
وہ جنوں پَروَر تھے یہ عقدہ تَو آخر میں کھُلا
کر گئی دَر گور ناصح تیری دانائی مجھے
حسن کی پیہم ادائے ناز پر قدغن نہیں
دیتے ہیں ضامنؔ سبھی درسِ شکیبائی مجھے
ضامن جعفری

سُنا ہے جگ ہنسائی ہو رہی ہے

یہ کس سے آشنائی ہو رہی ہے
سُنا ہے جگ ہنسائی ہو رہی ہے
تلاشِ بندگی میں تھک چکا ہوں
جہاں جاؤں خدائی ہو رہی ہے
کھڑے ہیں چلچلاتی دھوپ میں سب
دَرَختوں سے لڑائی ہو رہی ہے
ابھی تک رنگ بدلے تھے فَلَک نے
زمیں بھی اب پَرائی ہو رہی ہے
نہ منزل ہے نہ کوئی راہِ منزل
یہ کیسی رہنمائی ہو رہی ہے
نئے پنچھی گرفتارِ بلا ہیں
پُرانوں کی رہائی ہو رہی ہے
وہی سمجھائیں جا کر اُن کو ضامنؔ
وہی جن کی رَسائی ہو رہی ہے
ضامن جعفری

تباہی پر مری راضی زمانہ ہو گیا ہے

یہ سمجھو ختم اب سارا فسانہ ہو گیا ہے
تباہی پر مری راضی زمانہ ہو گیا ہے
یہ سادہ لَوح و ناداں لوگ تیری انجمن کے
بہت خوش ہیں ، چَلو! کوئی ٹھِکانہ ہو گیا ہے
وہ حفظِ ما تَقَدُّم میں کرے گا قتل سب کو
اُسے حاصل نیا اب یہ بَہانہ ہو گیا ہے
جنابِ دل! کسی اب اَور ہی کوچے کو چَلئے
یہاں پر ختم اپنا آب و دانہ ہو گیا ہے
نہ جانے کیوں کبھی بَنتی نہیں حُسن و خِرَد میں
وہاں جو بھی گیا جا کر دِوانہ ہو گیا ہے
پریشاں بھی بہت ہے اَور کچھ اُلجھی ہُوئی بھی
تنازُع کوئی بَینِ زلف و شانہ ہو گیا ہے
ذرا ٹھیَرو! مسیحا کا پیام آیا ہے، ضامنؔ!
ہُوئی تاخیر لیکن اب روانہ ہو گیا ہے
ضامن جعفری

کیا چہرہِ گُل اُترا ہُوا ہے کہ نہیں ہے

یہ دَورِ خزاں ، کس نے کہا ہے کہ نہیں ہے
کیا چہرہِ گُل اُترا ہُوا ہے کہ نہیں ہے
افلاک سے آہیں جو پَلَٹ آئی ہیں ناکام
ہر زخم نے پوچھا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے
مظلوم کی آنکھوں میں جو لکّھا ہے اُسے پڑھ
تیرے لئے پیغامِ قضا ہے کہ نہیں ہے
چہرہ نہ مرا دیکھ، مرے دل پہ نَظَر رکھ
ہر حال میں راضی بہ رضا ہے کہ نہیں ہے
تفصیلِ فرائض تو بتادی گئی مجھ کو
کیا مجھ کو کوئی حق بھی مِلا ہے کہ نہیں ہے
لوگوں کے بندھے ہاتھوں پہ امکاں کی نَظَر ڈال
اِن میں سے ہر اِک دستِ قضا ہے کہ نہیں ہے
کیوں کرتے ہو تم پُرسشِ احوال کی زحمت
جو دل میں ہے چہرے پہ لکھا ہے کہ نہیں ہے
ضامنؔ! مِرا شیوہ ہی محبّت ہے، مجھے کیا
بستی کے مکینوں میں وفا ہے کہ نہیں ہے
ضامن جعفری

لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں

یہ حَسیں جس کو مِرا عجزِ بیاں کہتے ہیں
لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری

نہ کوئی داد نہ فریاد ماجرا کیا ہے

یہ حسن و عشق کا یک طرفہ سلسلہ کیا ہے
نہ کوئی داد نہ فریاد ماجرا کیا ہے
دل و نظر سے ہر اِک اختیار خود لے کر
وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ فیصلہ کیا ہے
صدا پلٹ کے جو آئی ہے اِس میں حیرت کیا
شکستِ دل کے سِوا سنگ کی صدا کیا ہے
یہ سرزنش یہ تغافل یہ سب سر آنکھوں پر
مگر حضور! مرے درد کی دوا کیا ہے
تری نظر کے رویّوں کے نام ہیں ورنہ
حیات و موت کا آپس میں واسطہ کیا ہے
سنا ہے ہوتی تو ہے دل کو دل سے راہ ضرور
سمجھ تو وہ بھی رہا ہے مجھے ہُوا کیا ہے
وہ جانتا ہے تقاضائے مصلحت ضامنؔ
اُسے خبر ہے کہ اچھا ہے کیا برا کیا ہے
ضامن جعفری

چشم و دل کس کو سزا دوں مجھے معلوم نہیں

یاد رکھّوں کہ بھلا دوں مجھے معلوم نہیں
چشم و دل کس کو سزا دوں مجھے معلوم نہیں
اُسی غارت گرِ تسکین سے تسکین بھی ہے
بد دُعا دوں کہ دُعا دوں مجھے معلوم نہیں
جا چکا ہوں میں بہت دُور بتا دو اُس کو
کس طرح خود کو صدا دوں مجھے معلوم نہیں
صِرف قرطاس و قلم رہ گئے ماضی کے اَمیں
اِن کو رکّھوں کہ جَلا دوں مجھے معلوم نہیں
میں ہَر اِک حَرف میں خُود بِکھرا ہُوا ہُوں ضامنؔ
کون سا لفظ مٹا دوں مجھے معلوم نہیں
ضامن جعفری

ایک چھوٹی سی کہانی جو فسانہ ہو گیا

یاد بھی تُم کو نَہ ہو شاید زمانہ ہو گیا
ایک چھوٹی سی کہانی جو فسانہ ہو گیا
تھے حَسیں لیکن نہ تھا تُم کو ہنوز احساسِ حُسن
جو قدم اُٹّھا ادائے کافرانہ ہو گیا
چارَہ گَر! کُچھ تھا مِزاجِ حُسن ہی بَدلا ہُوا
میرا حَرفِ آرزُو تَو بَس بَہانہ ہو گیا
باغباں کا حُکم ہے سو کُوچ کر اے مُرغِ دِل
اِس چمن میں ختم تیرا آب و دانَہ ہو گیا
کون سی نیکی خُدا جانے تِرے کام آگئی
ہو مبارک اُن سے ضامنؔ دوستانہ ہو گیا
ضامن جعفری

پھر جوشِ جنوں بیدار ہُوا پِھر عقل کو ہے جھنجلاہٹ سی

ویرانہِ دل میں کون آیا کانوں نے سنی اِک آہٹ سی
پھر جوشِ جنوں بیدار ہُوا پِھر عقل کو ہے جھنجلاہٹ سی
پھر چشمِ تصوّر نے کھینچا اِک حشر سراپا کا نقشہ
پھر اُس نے دیکھا ہے لے کر آنکھوں میں ایک لگاوَٹ سی
مانا کہ نہیں اب وہ عالم رُخصت بھی خمارِ شب کی ہے
ہے پھر بھی تمنّا ایک نظر کافی ہے ہمیں یہ تلچھٹ سی
وہ عرضِ محبّت پر میری شرمائے ہُوئے سے بیٹھے ہیں
نظریں ہیں جھکی، پلکیں لرزاں چہرے سے عیاں گھبراہٹ سی
یہ کون سا کوچہ ہے یارب ہر گام پہ کیوں سر جھُکتا ہے
کہتے ہیں قرائن سب ضامنؔ لگتی ہے یہ اُن کی چوکھٹ سی
ضامن جعفری

اقرارِ محبت بھی کریں کیوں نہیں کرتے

وہ میری امیدوں کا اگر خوں نہیں کرتے
اقرارِ محبت بھی کریں کیوں نہیں کرتے
یہ چشمِ فسوں گر یہ کھنکتی ہوئی آواز
مُنہ پر تو کہیں میرے ہم افسوں نہیں کرتے
کچھ آپ ہی کی گردِ قدم ہو گئے، ورنہ
ہم لوگ کبھی خاطرِ گردوں نہیں کرتے
xیوں دل میں تو دلجوئی پہ راضی ہیں ہماری
جب وقتِ رضا ہو تو کبھی ہوں نہیں کرتے
بد نامیٔ لیلیٰ کا سبب قیس تمہی ہو
ہم لوگ تو مر جاتے ہیں پر یوں نہیں کرتے
دل توڑنے والوں کو دعا دیجیے ضامنؔ
صدیوں کے طریقوں کو دگرگوں نہیں کرتے
ضامن جعفری

ہر اِک، اظہارِ حیرت کر رہا ہے

وہ مجھ پر کیوں عنایت کر رہا ہے
ہر اِک، اظہارِ حیرت کر رہا ہے
یہ انساں کس لئے، قبل از قیامت
قیامت پر قیامت کر رہا ہے
ہر اِک طاقِ اَنا پر، ایک بُت ہے
ہر اِک اپنی عبادت کر رہا ہے
جسے ، احساسِ عزت ہی نہیں ہے
وہ، کیسے میری عزت کر رہا ہے
ہوئے ہم جب سے رسوائے زمانہ
ہر اِک آ آ کے بیعت کر رہا ہے
ہم اچھے تَو نہیں لگنے لگے ہیں
وہ ہم سے کیوں عداوت کر رہا ہے
نگاہ و دل سمجھتے ہی نہیں ہیں
یقیناً وہ مروّت کر رہا ہے
ہر اِک سُو گرمی ِٔ بازارِ وحشت
ہر اِک اُس سے محبت کر رہا ہے
بُرا مت مان ضامنؔ کی نظر کا
یہ دل اتمامِ حجّت کر رہا ہے
ضامن جعفری

سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے

وہ گِرد و پیش سے تھے بے خَبَر سَنوَرتے ہُوئے
سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے
رَہِ حیات میں ہَم کو بھی کچھ رَہی عُجلَت
اُنہیں بھی دیر لگی بام سے اُتَرتے ہُوئے
ہَمیَں بھَلا کِسی دَیر و حَرَم سے کیا لینا
ہَم آگئے ہیں کِسی کو تَلاش کَرتے ہُوئے
یہ اَور بات کِسی نے سُنا نہیں لیکن
پُکارے سَب کو تھے ہَم ڈُوبتے اُبھَرتے ہُوئے
سوال پوچھتے رہ جائیں گے مسیحا سے
یہ میری ڈُوبتی نَبضیَں یہ خواب مَرتے ہُوئے
نہ جانے کیا غمِ دَوراں کو آ گیا ہے پَسَند
کہ جھانک لیتا ہے اَکثَر یُونہی گذرتے ہُوئے
ہر ایک دَرد ہَماری پَناہ میں آیا
کسی کو دیکھ نہ پائے ہم آہ بھرتے ہُوئے
میں ہاتھ پاؤں لگا مارنے سُوئے ساحل
غَضَب کا طنز تھا اَمواج میں بپھرتے ہُوئے
زباں کے زَخم ہیں ضامنؔ! سو اِتنی عُجلَت کیا
تمام عُمر ہے دَرکار اِن کو بھرتے ہُوئے
ضامن جعفری

تڑپ رہا ہے مرا نام لب پہ آنے کو

وہ کیسے ختم کریں گے ابھی فسانے کو
تڑپ رہا ہے مرا نام لب پہ آنے کو
نہ آرزوئے ملامت نہ حسرتِ تعریض
اب اُن کے پاس رَہا کیا ہے آزمانے کو
ترس رہا تھا جبینِ نیاز کو کب سے
وہ دن بھی یاد ہیں کچھ اُن کے آستانے کو
نہ اُن کو دل سے علاقہ نہ درد کی پہچان
کسے چلے ہیں یہ ہم دردِ دل سنانے کو
نہ آہ کوئی ہوئی بارِ خاطرِ نازک
نہ کانوں کان خبر ہونے دی زمانے کو
بہت ہی فکر ہے احباب و اقرباء کی مجھے
کہ کوئی رہ نہ گیا ہو مجھے ستانے کو
نظر تو اُن کی جھکی دل مرا دُکھا ضامنؔ
نہ مل سکا جب اُنہیں اور کچھ بہانے کو
ضامن جعفری

پہلے ہم سے عشق جتایا اب ہم کو بد نام کریں گے

وہ کہتے ہیں رازِ محبت آپ ہی طشت از بام کریں گے
پہلے ہم سے عشق جتایا اب ہم کو بد نام کریں گے
پڑھ تو لیا اقرارِ محبت آنکھوں میں بس کافی ہے!
حَرف و بیاں تک آئیں گے کیا؟ بات کو اب کیا عام کریں گے؟
میخانے میں بھیڑ ہے، آؤ! اَور کہیں پر بیٹھیں گے
کان کھنکتے بول سنیں گے، آنکھ سے رقصِ جام کریں گے
بسنے دو ہمارے دل میں تم اِن کالی کافر آنکھوں کو
گھر ہے خدا کا وہ خوش ہو گا کفر کو جب اسلام کریں گے
ضامنؔ! وہ مل جائیں کہیں تو کہنا ہم نے پوچھا ہے
کب تک آنکھ میں دم اٹکے گا کس دن پورا کام کریں گے
ضامن جعفری

ہَر اِک زَخم دِیوارِ دِل پَر سَجا دُوں

وہ آئیں تَو سوچا ہے اُن کو سَزا دُوں
ہَر اِک زَخم دِیوارِ دِل پَر سَجا دُوں
پَسِ پَردہِ صَبر طُوفاں بَپا ہے
میں خُود ڈَر رَہا ہُوں قَیامَت نہ ڈھا دُوں
یہ دِل احتیاطوں کا مارا ہُوا ہے
کئی بار سوچا کہ سَب کچھ بتا دُوں
یہ ہوش و حَواس و یہ چیَن و سُکوں سَب
لُٹا دُوں لُٹا دُوں لُٹا دُوں لُٹا دُوں
یہ پہلے بھی گلشَن جَلا تَو چُکے ہیں
میں شُعلوں کو کیوں اَز سَرِ نَو ہَوا دُوں
مُکَمَّل سے شاید کہ شَرمندگی ہو
تُمہیں آؤ آدھی کہانی سُنا دُوں
اِشارے کِنائے سِکھائے ہیں کِس نے
کہو تَو میں سَب اَپنے احساں گِنا دُوں
وہ خاموش بیٹھے ہیں میں کہہ رَہا ہُوں
یہ تصویر دے دو میں دِل میں لگا دُوں
مِرے عشق سے ہے یہ سَب فتح مَندی
تِرے حُسن کو جَب میں چاہُوں ہَرا دُوں
فَقیروں کی بَستی سے آیا ہُوں ضامنؔ
اُنہیں کیا میں جس دَر پہ چاہُوں صَدا دُوں
ضامن جعفری

مکان جس کا ہے وہ ہو گا خود مکیں کب تک

وفورِ شوق رہے دل میں جا گزیں کب تک
مکان جس کا ہے وہ ہو گا خود مکیں کب تک
سکونِ دل کی کرن کب افق سے پھوٹے گی
ترا طواف کروں کعبۂ یقیں کب تک
نشانِ سجدہ سجا تَو لِیا ہے ماتھے پر
اب اِس سے ہو گی منوّر تری جبیں کب تک
علامتِ رَمَقِ جاں ہے یہ غنیمت جان
ترا ضمیر کرے گا نہیں نہیں کب تک
یہیں عذاب ہیں دوزخ کو بھی یہیں لے آ
پڑی رہے گی وہ بیکار اور وہیں کب تک
رہیں گے عرش بَدَر تیرے کب تلک آباد
نظر فلک سے چُرائے گی یہ زمیں کب تک
کب اپنی ذات سے آزاد ہو گا یہ انساں
رہے گی اِس کی اَنا مارِ آستیں کب تک
نہ فلسفہ تری منزل نہ یہ علومِ جدید
نہ آزمائے گا ضامنؔ تُو راہِ دیں کب تک
ضامن جعفری

حالِ دِل پھِر ہَم نے محتاجِ بیاں رہنے دِیا

وعدۂ فَردا کو زیبِ داستاں رہنے دِیا
حالِ دِل پھِر ہَم نے محتاجِ بیاں رہنے دِیا
کون سی چھَت کیسی دیواریں کَہاں کے بام و دَر
سَر چھُپانے کو تھا جیسا بھی مکاں رہنے دِیا
مُدَّتَوں سے اِک خُدائی ہے وہ اَب جیسی بھی ہے
سِلسِلہ ہم نے بھی تا حَدِ گُماں رہنے دِیا
بہرِ تسکینِ غرورِ اِختیار و اقتدار
کِس نے یہ شورِ صَدائے اَلاماں رہنے دِیا
کون ہے پَردے کے پیچھے! ہے بھی کوئی یا نہیں !
ہر گماں ہم نے پَسِ پَردہ نِہاں رہنے دِیا
حیَف! یہ دعوائے ہَم آہَنگیٔ عِلم و ہُنَر!
لوگ اِس پَر خُوش ہیں سَر پَر آسماں رہنے دِیا
وَقت نے بھَر تَو دِئیے سَب زَخمِ یادِ عندلیب
شاخِ گُل پر ایک ہَلکا سا نشاں رہنے دِیا
جِس کو ضامنؔ آشیانہ پھُونکتے دیکھا تھا کَل
تُم نے حیَرَت ہے اُسی کو باغباں رہنے دِیا
ضامن جعفری

پِھر کیسے دِوانے کو دِیوانہ کَہا جائے

وحشَت کا نہ ذِکر آئے صحرا نہ کَہا جائے
پِھر کیسے دِوانے کو دِیوانہ کَہا جائے
یہ کِس کی ضَرورَت ہے معلوم تَو ہو یارو
کیوں پیشِ نَظَر مَنظَر اَفسانہ کہا جائے
کیوں خُون کے قَطروں پَر تحقیق نہ ہو صاحب
کیوں خُون کے قَطرے کو دَریا نہ کَہا جائے
بولے نہ سُنے کوئی یوں تَو تِری بَستی میں
جَب خُود سے کَروں باتیَں دِیوانہ کَہا جائے
ہم خواب بَہاروں کے دیکھیں یہ اِجازِت ہے
قَدغَن یہ ہے خوابوں کو سَچّا نہ کَہا جائے
خُوش ہُوں کہ وہ بَس میری ہی جان کا دُشمَن ہے
اَچّھا نَہیِں لَگتا گَر میرا نہ کَہا جائے
تُم دِل میں تَو رہتے ہو خوابوں میں نہیں آتے
اِس طَرح کے رہنے کو رہنا نہ کَہا جائے
جَب تَک مِری آنکھوں میں وہ جھانک نہ لیں ضامنؔ
صحرا کو نہ وحشت کا پیمانہ کَہا جائے
ضامن جعفری

ہر بے وفا سے عہدِ وفا کر چکے ہیں ہَم

ہیں مُطمئن کہ ترکِ اَنا کر چُکے ہیں ہَم
ہر بے وفا سے عہدِ وفا کر چکے ہیں ہَم
اَفشا ہے ہَم پہ رازِ صَنَم خانۂ حَیات
ہَر بُت کو ایک بار خُدا کَر چُکے ہَیں ہَم
اَب کوئی شَرطِ لُطفِ فَراواں نَہیِں قبول
حقِّ نَمَک کَبھی کا اَدا کَر چُکے ہَیں ہَم
تُو جانے اَور جانے تِری رحمتِ تَمام
اَب تَو دَراز دَستِ دُعا کَر چُکے ہَیں ہَم
اَربابِ فِکر ڈھُونڈ رَہے ہَیں دَوائے دِل
ہَم ہَنس رَہے ہَیں ، زَخم ہَرا کَر چُکے ہَیں ہَم
ضامنؔ! نگاہِ ناز کو نظروں سے دو پیام
ہوش و حواس تجھ پہ فدا کر چکے ہیں ہم
ضامن جعفری

نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ

ہیں مستِ بادہِ حُسنِ صَنَم کیا رُخ کریں سُوئے میخانہ
نظروں کا تصادم ہے ہم کو تمہیدِ شکستِ پیمانہ
تمہیدِ محبّت کیا کہیے شرحِ غمِ ہجراں کیا کیجے
ہر ایک نظر اِک عنواں ہے ہر موجِ نَفَس اِک افسانہ
کیا غمزہِ چشمِ سرمہ سا غارت گرِ ہوش و عقلِ رسا
کیا وصفِ نگاہِ ہوشرُبا کر جائے جو خود سے بیگانہ
پائینِ غبارِ راہِ جنوں پھر شورِ سلاسل سُنتا ہُوں
ہو مژدہ وادیِ نجد تجھے پھر آتا ہے کوئی دیوانہ
اے محرَمِ سرِّ عشق بتا ہوتا ہے جب اُس کوچے سے گذر
آجاتی ہے لغزش چال میں کیوں کیا ڈھونڈے نظر بیتابانہ
اعزازِ کمالِ جذب و جنوں ہُوں عالَمِ وحشَت میں ضامنؔ
مِری مُشتِ خاک آگے آگے مِرے پیچھے پیچھے ویرانہ
ضامن جعفری