خودکشی کا اقدام

اقبال کے خلاف یہ الزام تھا کہ اُس نے اپنی جان کو اپنے ہاتھوں ہلاک کرنے کی کوشش کی، گو وہ اس میں ناکام رہا۔ جب وہ عدالت میں پہلی مرتبہ پیش کیا گیا تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موت سے مڈبھیڑ ہوتے وقت اس کی رگوں میں تمام خون خشک ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام طاقت سلب ہو گئی ہے۔ اقبال کی عمر بیس بائیس برس کے قریب ہو گی مگر مُرجھائے ہوئے چہرے پر کھنڈی ہوئی زردی نے اُس کی عمر میں دس سال کااضافہ کر دیا تھا اور جب وہ اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ رکھتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ واقعی بوڑھا ہے۔ سُنا گیا ہے کہ جب شباب کے ایوان میں غربت داخل ہوتی ہے تو تازگی بھاگ جایا کرتی ہے۔ اس کے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں سے یہ عیاں تھا کہ وہ غربت کا شکار ہے اور غالباً حد سے بڑھی ہوئی مفلسی ہی نے اسے اپنی پیاری جان کو ہلاک کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس کا قد کافی لمبا تھا جو کاندھوں پر ذرا آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس جھکاؤ میں اُس کے وزنی سر کو بھی دخل تھا جس پر سخت اور موٹے بال، جیل خانے کے سیاہ اور کھر درے کمبل کا نمونہ پیش کررہے تھے۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں جو بہت گہری اور اتھاہ معلوم ہوتی تھیں۔ جھکی ہوئی نگاہوں سے یہ پتا چلتا تھا کہ وہ عدالت کے سنگین فرش کی موجودگی کو غیر یقینی سمجھ رہا ہے اور یہ ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ ناک پتلی اور تیکھی، اس کے ماتھے پر تھوڑا سا چکنا میل جما ہوا تھا جس کو دیکھ کر زنگ آلود تلوار کا تصور آنکھوں میں پھر جاتا تھا۔ پتلے پتلے ہونٹ جو کناروں پر ایک لکیر بن کر رہ گئے تھے۔ آپس میں سلے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ شاید اس نے ان کو اس لیے بھینچ رکھا تھا کہ وہ اپنے سینے کی آگ اور دُھوئیں کو باہر نکالنا نہیں چاہتا تھا۔ میلے پائجامے میں اُس کی سوکھی ہوئی ٹانگیں اوپر کے دھڑکے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا دو خشک لکڑیاں تنور کے منہ میں ٹھنسی ہوئی ہیں۔ سینہ چوڑا چکلا تھا مگر ہڈیوں کے ڈھانچے پر جس کی پسلیاں پھٹے ہوئے گریبان میں سے جھانک رہی تھیں گوشت سانولے رنگ کی جھلی معلوم ہوتا تھا سانس کی آمد و شد سے یہ جھلی بار بار پھولتی اور دبتی تھی۔ پیروں میں کپڑے کا جاپانی جوتا تھا جو جگہ جگہ سے بے حد میلا ہورہا تھا۔ دونوں جوتے انگوٹھوں کے مقام پر سے پھٹے ہوئے تھے ان سوراخوں میں سے اُس کے انگوٹھوں کے بڑھے ہوئے ناخن نمایاں طور پر نظر آرہے تھے وہ کوٹ پہنے ہوئے تھا جو اُس کے بدن پر بہت ڈھیلا تھا اس میلے اور سال خوردہ کوٹ کی خالی پھٹی ہوئی جیبیں بے جان مردوں کی طرح منہ کھولے ہوئے تھیں۔ وہ کٹہرے کے ڈنڈے پر ہاتھ رکھے اور سر جھکائے جج کے سامنے بالکل خاموش اور بے حس و حرکت کھڑا تھا۔

’’تم نے ۲۰ جون کو ہفتے کے دن مانا نوالہ اسٹیشن کے قریب ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر اپنی جان ہلاک کرنے کی کوشش کی اور اس طرح ایک شدید جرم کے مرتکب ہوئے۔ جج نے ضمنی کاغذات پڑھتے ہوئے کہا ٗ بتاؤ یہ جرم جو تم پر عائد کیا گیا ہے کہاں تک درست ہے؟‘‘

’’جرم!‘‘

اقبال اپنے گہرے خواب سے گویا چونک سا پڑا لیکن فوراً ہی اس کا وزنی سر جو ایک لمحے کے لیے اُٹھا تھا پھر بیل کی پتلی ٹہنی کے بوجھل پھل کی طرح لٹک گیا۔

’’بتاؤ یہ جرم جو تم پر عائد کیا گیا ہے کہاں تک درست ہے؟‘‘

جج نے سکول کے استاد کی طرح وہی سوال دہرایا جو وہ اس سے پہلے ہزار ہا لوگوں سے پوچھ چکا تھا۔ اقبال نے اپنا سر اُٹھایا اور جج کی طرف اپنی بے حس آنکھوں سے دیکھنا شروع کر دیا پھر تھوڑی دیر کے بعد دھیمے لہجے میں کہا

’’میں نے آج تک کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا‘‘

عدالت کے کمرے میں کامل سکوت طاری تھا شاید اس کا باعث اقبال کا دشت نما سراپا تھا جس میں بلا کی ہیبت تھی، جج اُس کی نگاہوں کے خوفناک خلا سے خوف کھا رہا تھا۔ کورٹ انسپکٹر نے جو جنگلے سے باہر بلند کرسی پر بیٹھا تھا کمرے کے سکوت کے دہشت ناک اثر کو دور کرنے کے لیے یوں ہی دو تین مرتبہ اپنا گلا صاف کیا ریڈر نے جو پلیٹ فارم پر بچھے ہوئے تخت پر جو جج کے قریب بیٹھا تھا مثلوں کے کاغذات اِدھر اُدھر رکھتے ہوئے اپنی پریشانی اور ڈر دُور کرنے کی سعی کی۔ جج نے ریڈر کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور ریڈر نے کورٹ انسپکٹر کی طرف اور کورٹ انسپکٹر جواب میں اپنا حلق صاف کرنے کے لیے دو مرتبہ کھانسا جب کمرے کا خوف آمیز سکوت ٹُوٹا تو جج نے میز پر کہنیاں ٹکا کر سامنے پڑے ہوئے قلم دان کے ایک خانے میں سے لوہے کی چمکتی ہوئی پن نکال کر اپنے دانتوں کی ریخ میں گاڑتے ہوئے اقبال سے کہا :

’’کیا تم نے خودکشی کا اقدام کیا تھا؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

یہ جواب اقبال نے ایسے لہجے میں دیا کہ اس کی آواز ایک لرزاں سرگوشی معلوم ہوئی۔ جج نے فوراً ہی کہا

’’تو پھر اپنے جرم کا اقبال کرتے ہو؟‘‘

’’جرم!‘‘

وہ پھر چونک پڑا اور تیز لہجے میں بولا‘‘

آپ کس جرم کا ذکر کررہے ہیں؟ اگر کوئی خدا ہے تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ہمیشہ اس سے پاک رہا ہوں۔ ‘‘

جج نے اپنے لبوں پر زور دے کر ایک بیمار مسکراہٹ پیدا کی تم نے خودکشی کا اقدام کیا اور یہ جرم ہے۔ اپنی یا کسی غیر کی جان لینے میں کوئی فر ق نہیں۔ ہر صورت میں وار انسان پر ہوتا ہے۔ اقبال نے جواب دیا اس جرم کی سزا کیا ہے؟ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر ایک طنزیہ تبسم ناچ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سان پر چاقو کی دھار تیز کرتے وقت چنگاریوں کی پھوار گر رہی ہے۔ جج نے جلدی سے کہا

’’ایک دو یا تین ماہ کی قید۔ ‘‘

اقبال نے یہی لفظ تول تول کر دہرائے، گویا وہ اپنے پستول کے میگزین کی تمام گولیوں کو بڑے اطمینان سے ایک نشانے پر خالی کرنا چاہتا ہے

’’ایک دو یا تین ماہ کی قید!۔ ‘‘

یہ لفظ دہرانے کے بعد وہ ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد تیز و تند لہجے میں بولا

’’آپ قانون صریحاً موت کو طویل بنانا چاہتا ہے ایک آدمی جو چند لمحات کے اندر اپنی دکھ بھری زندگی کو موت کے سکون میں تبدیل کرسکتا ہے آپ اُسے مجبور کرتے ہیں وہ کچھ عرصے تک اور دُکھ کے تلخ جام پیتا رہے۔ جو آسمان سے گرتا ہے آپ اُسے کھجور پر لٹکا دیتے ہیں آگ سے نکال کر کڑاہی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ کیا قانون اسی ستم ظریفی کا نام ہے؟‘‘

جج نے بارعب لہجے میں جواب دیا

’’عدالت ان فضول سوالات کا جواب نہیں دے سکتی‘‘

’’عدالت ان فضول سوالات کا جواب نہیں دے سکتی، تو بتائیے وہ کن متین اور سنجیدہ سوالوں کا جواب دے سکتی ہے؟ اقبال کے ماتھے پر پسینے کے سرد قطرے لرزنے لگے‘‘

کیا عدالت بتا سکتی ہے کہ عدالت کے معنی کیا ہے؟۔ کیا عدالت بتا سکتی ہے کے ججوں اور مسجد کے مُلاؤں میں کیا فرق ہے جو مرنے والوں کے سرہانے رٹی ہوئی سورہ ءِ یٰسین کی تلاوت کرتے ہیں؟ کیا عدالت بتا سکتی ہے کہ اس کے قوانین اور مٹی کے کھلونوں میں کیا فرق ہے؟۔ عدالت اگر ان فضول سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی تو اس سے کہیے کہ وہ ان معقول سوالوں کا جواب دے؟‘‘

جج کے تیوروں پر خفگی کے آثار نمودار ہوئے اور اس نے تیزی سے کہا

’’اس قسم کی بے باکانہ گفتگو عدالت کی توہین ہے جو ایک سنگین جرم ہے‘‘

اقبال نے کہا

’’تو گفتگو کا کوئی ایسا انداز بتائیے جس سے آپ کی نیک چلن عدالت کی توہین نہ ہو‘‘

جج نے جھلا کر جواب دیا

’’جو سوال تم سے کیا جائے صرف اُسی کا جواب دو، عدالت تمہاری تقریر سننا نہیں چاہتی‘‘

’’پوچھیے! آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘

اقبال کے چہرے پر یاس کی دُھند چھارہی تھی اور اس کی آواز اس گجر کی ڈوبتی ہوئی گونج معلوم ہوتی تھی جو رات کی تاریکیوں میں لوگوں کو وقت سے باخبر رکھتا ہے۔ یہ سوال کچھ اس انداز سے کیا گیا تھا کہ جج کے چہرے پر گھبراہٹ سی پیدا ہو گئی اور اُس نے ایسے ہی میز پر سے کاغذات اُٹھائے اور پھر وہیں کے وہیں رکھ دئیے اور دانت کی ریخ میں سے پن نکال کر

’’پن کُشن میں گاڑتے ہوئے کہا

’’تم نے اپنی جان لینے کی کوشش کی اس لیے تم ازروئے قانون مستو جب سزا ہو۔ کیا اپنی صفائی میں تم کوئی بیان دینا چاہتے ہو؟‘‘

اقبال کے بے جان اور نیلے ہونٹ فرط حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے اُس نے کہا بیان! آپ کس قسم کا بیان لینا چاہتے ہیں؟ کیا میں سراپا بیان نہیں ہوں؟۔ کیا میرے گالوں کی اُبھری ہوئی ہڈیا ں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ غربت کی دیمک میرے گوشت کو چاٹتی رہی ہے؟۔ کیا میری بے نُور آنکھیں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ میری زندگی کی بیشتر راتیں لکڑی اور تیل کے دُھوئیں کے اندر گزری ہیں؟ کیا میرا سوکھا ہوا جسم یہ بیان نہیں دے رہا کہ اُس نے کڑے سے کڑا دُکھ برداشت کیا ہے؟۔ کیا میری زرد بے جان اور کانپتی ہوئی اُنگلیاں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ وہ ساز حیات کے تاروں میں اُمید افزا نغمہ پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں؟۔ بیان!۔ بیان!۔ صفائی کا بیان!۔ کس صفائی کا بیان؟۔ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہا تھا اس لیے کہ مجھے جینے کی خواہش نہ تھی اور جسے جینے کی خواہش نہ ہو جوہر جینے والے کو تعجب سے دیکھتا ہو کیا آپ اس سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس سنگین عمارت میں آ کر دو تین برس کی قید سے بچنے کے لیے جھوٹ بولے؟۔ جج صاحب آپ اُس سے بات کررہے ہیں جس کی زندگی قید سے بد تر رہی ہے!‘‘

جج پر زرد رُو اقبال کی بے جوڑ جذباتی گفتگو کچھ اثر نہ کرسکی اور چار پانچ پیشیؤں کی یک آہنگ سماعت کے بعد اسے دو ماہ قید محض کا حکم سُنا دیا گیا سزا کا حکم مجرم نے بڑے اطمینان سے سُنا لیکن یکا یک اُس کے استخوانی چہرے پر زہریلی طنز کے آثار نمودار ہوئے اور اُس کے باریک ہونٹوں کے سرے بھنچ گئے، مسکراتے ہوئے اُس نے جج کو مخاطب کر کے کہا:

’’آپ نے مقدمے کی تمام کارروائی میں بہت محنت کی ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مقدمہ کی روئداد کو آپ نے جس نفاست سے ان لمبے لمبے کاغذوں پر اپنے ہاتھوں سے ٹائپ کیا ہے وہ بھی داد کے قابل ہے اور آپ نے بات بات میں تعزیرات کی بھاری بھر کم کتاب سے دفعات کا حوالہ جس پھرتی سے دیا ہے اس سے آپ کے حافظے کی خوبی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ قانون جہاں تک میں نے اندازہ کیا ہے ایک پردہ نشین خاتون ہے جس کی عصمت کے تحفظ کے لیے آپ لوگ مقرر کیے گئے ہیں اور مجھے اعتراف ہے کہ آپ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ ایک ایسی عورت کی حفاظت کررہے ہیں جسے ہرچالاک آدمی اپنی داشتہ بنا کر رکھ سکتا ہے۔ ‘‘

’’یہ لفظ عدالت کی توہین خیال کیے گئے اور اس جرم کے ارتکاب میں اقبال کی زندانی میں دو ماہ اور بڑھا دئیے گئے۔ یہ حکم سُن کر اقبال کے پتلے ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اقبال نے زیرِ لب کہا

’’پہلے دو ماہ تھے، اب چار ہو گئے‘‘

اور پھر جج سے مخاطب ہو کر پوچھا آپ کو تعزیرات ہند کے تمام دفعات از بریاد ہیں۔ کیا آپ مجھے کوئی اسی توہین کی قسم کا بے ضرر جرم بتا سکتے ہیں۔ جس کے ارتکاب سے آپ کی عدالت میری گردن جلاد کے حوالے کرسکے۔ میں اس دنیا میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ جہاں غریبوں کو جینے کے لیے ہوا کے چند پاکیزہ جھونکے بھی نصیب نہیں ہوتے اور جس کے بنائے قانون میری سمجھ سے بالاتر ہیں کیا آپ کا یہ قانون عجیب و غریب نہیں جس نے اس بات کی تحقیق کیے بغیر کہ میں نے خودکشی کا اقدام کیوں کیا، مجھے جیل میں ٹھونس دیا ہے؟۔ مگر ایسے سوال پوچھنے سے فائدہ ہی کیا۔ تعزیراتِ ہند میں غالباً ان کا کوئی جواب نہیں۔ ‘‘

اقبال نے اپنے تھکے ہوئے مُردہ کاندھوں کو ایک جنبش دی اور خاموش ہو گیا۔ عدالت نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔

سعادت حسن منٹو

خودکشی

زاہد صرف نام ہی کا زاہد نہیں تھا‘ اس کے زہد و تقویٰ کے سب قائل تھے‘ اس نے بیس پچیس برس کی عمر میں شادی کی‘ اس زمانے میں اُس کے پاس دس ہزار کے قریب روپے تھے‘ شادی پر پانچ ہزار صرف ہو گئے‘ اتنی ہی رقم باقی رہ گئی۔ زاہد بہت خوش تھا‘ اُس کی بیوی بڑی خوش خصلت اور خوبصورت تھی‘ اُس کو اُس سے بے پناہ محبت ہو گئی‘ وہ بھی اُس کو دل و جان سے چاہتی تھی‘ دونوں سمجھتے تھے کہ جنت میں آباد ہیں۔ ایک برس کے بعد اُن کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جو ماں پر تھی‘ یعنی ویسی ہی حسین‘ بڑی بڑی غلافی آنکھیں‘ ان پر لمبی پلکیں‘ مہین ابرو‘ چھوٹا سا لب دہن۔ اس لڑکی کا نام سوچنے میں کافی دیر لگ گئی۔ زاہد اور اُس کی بیوی کو دوسروں کے تجویز کیے ہوئے نام پسند نہیں آتے تھے‘ وہ چاہتی تھی کہ خود زاہد نام بتائے۔ زاہد دیر تک سوچتا رہا لیکن اُس کے دماغ میں ایسا کوئی موزوں و مناسب نام نہ آیا جو وہ اپنی بیٹی کے لیے منتخب کرتا۔ اُس نے اپنی بیوی سے کہا

’’اتنی جلدی کیا ہے۔ نام رکھ لیا جائے گا‘‘

بیوی مصر تھی کہ نام ضرور رکھا جائے

’’میں اپنی بیٹی کو اتنی دیر بے نام نہیں رکھنا چاہتی‘‘

وہ کہتا

’’اس میں کیا حرج ہے۔ جب کوئی اچھا سا نام ذہن میں آئے گا تو اس گل گوتھنی کے ساتھ ٹانک دیں گے‘‘

’’پر میں اسے کیا کہہ کر پکاروں؟۔ مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے‘‘

’’فی الحال بیٹا کہہ دینا کافی ہے‘‘

’’یہ کافی نہیں ہے۔ میری بٹیا کا کوئی نام ہونا چاہیے‘‘

’’تم خود ہی کوئی منتخب کر لو‘‘

تو تھوڑے دن انتظار کرو۔ میں اُردو کی لغت لاتا ہوں۔ اس کو پہلے صفحے سے آخری صفحے تک غور سے دیکھوں گا۔ یقیناًکوئی اچھا نام مل جائے گا‘‘

’’میں نے آج تک یہ کبھی نہیں سُنا تھا کہ لوگ اپنے بچوں بچیوں کے نام ڈکشنریوں سے نکالتے ہیں‘‘

’’نہیں میری جان‘ نکالتے ہیں۔ میرا ایک دوست ہے‘ اُس کے جب بچی پیدا ہوئی تو اس نے فوراً اُردو کی لغت نکالی اور اس کی ورق گردانی کرنے کے بعد ایک نام چن لیا‘‘

’’کیا نام تھا‘‘

’’نکہت‘‘

’’اس کے معنی کیا ہیں‘‘

’’خوشبو‘‘

’’بڑا اچھا نام ہے۔ نکہت۔ یعنی خوشبو‘‘

’’تو یہی نام رکھ لو‘‘

زاہد کی بیوی نے اپنی بچی کو جو سو رہی تھی‘ ایک نظر دیکھا اور کہا

’’نہیں۔ میں اپنی بٹیا کے لیے پُرانا نام نہیں چاہتی۔ کوئی نیا نام تلاش کیجیے۔ جائیے ڈکشنری لے آئیے‘‘

’’زاہد مسکرایا‘‘

لیکن میرے پاس پیسے کہاں ہیں‘‘

زاہد کی بیوی بھی مسکرائی

’’میرا پرس الماری میں پڑا ہے ‘ اس میں جتنے روپے آپ کو چاہئیں ‘ نکال لیجیے‘‘

زاہد نے

’’بہت بہتر‘‘

کہا اور الماری کھول کر اُس میں سے اپنی بیوی کا پرس نکالا اور دس روپے کا ایک نوٹ لے کر بازار روانہ ہو گیا کہ لغت خرید لے۔ وہ کئی کتب فروش دکانوں میں گیا۔ کئی لغت دیکھے‘ بعض تو بہت قیمتی تھے جن کی تین تین جلدیں تھیں۔ کچھ بڑے ناقص۔ آخر اُس نے ایک لغت جس کی قیمت واجبی تھی خرید لیا اور راستے میں اُس کی ورق گردانی کرتا رہا تاکہ نام کا مسئلہ جلد حل ہو جائے۔ جب وہ انارکلی میں سے گزر رہا تھا تو اُس کو ایک دوست مل گیا‘ وہ اُسے اپنی بوٹوں کی دکان میں لے گیا۔ وہاں اُسے قریب قریب ایک گھنٹے تک بیٹھنا پڑا کیونکہ بہت دیر کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی تھی جب اُس کے دوست کو دورانِ گفتگو میں پتہ چلا کہ زاہد کے ہاں لڑکی ہوئی ہے تو وہ بہت خوش ہوا۔ تجوری میں سے گیارہ روپے نکالے اور زاہد سے کہا :

’’یہ اُس بچی کو دے دینا کہنا تمہارے چچا نے دیے ہیں۔ نام کیا رکھا ہے اس کا؟‘‘

زاہد نے لغت کی طرف دیکھا جس کی جلد لال رنگ کی تھی

’’ابھی تک کوئی اچھا نام سوجھا نہیں‘‘

اُس کے دوست نے جوتے کو کپڑ ے سے صاف کرتے ہوئے کہا :

’’یار نام رکھنے میں دقّت ہی کیا پیش آتی ہے۔ ثمینہ ہے‘ شاہینہ ہے‘ نسرین ہے‘ الماس ہے‘‘

زاہد نے جواب دیا

’’یہ سب بکواس ہے‘‘

اُس کے دوست نے جوتا ڈبے میں رکھا

’’تو اب جو بکواس تم کرو گے وہ بھی ہم سُن لیں گے‘‘

اس کے بعد اُٹھ کر اُس نے زاہد کو گلے سے لگایا۔ خدا اُس کی عمر دراز کرے۔ نام ہو نہ ہو‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘

زاہد جب دکان سے باہر نکلا تو اُس نے سوچنا شروع کیا کہ واقعی نام میں کیا رکھا ہے۔ خیراتی کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ بڑی خیرات کرتا ہے‘ عیدن کیا بلا ہے۔ اور گھسیٹا۔ کیا اسے لوگ گھسیٹنا شروع کر دیں۔ اور یہ رُلدو۔ شبراتی؟ اُس کے جی میں آئی کہ لغت کسی گندی موری میں پھینک دے اور گھر جا کر اپنی بیوی سے کہے

’’میری جان! نام میں کچھ نہیں پڑا‘ بس یہ دُعا کرو کہ بچی کی عمر دراز ہو۔ ‘‘

وہ مختلف خیالات میں غرق تھا۔ لیکن معلوم نہیں کیوں اس کا دل غیرمعمولی طور پر دھڑک رہا تھا‘ اُس نے سوچا کہ شاید یہ اُس کی پراگندہ خیالی کا باعث ہے۔ تھوڑی دُور چلنے کے بعد اس کی طبیعت بہت زیادہ مضطرب ہو گئی‘ وہ چاہتا تھا کہ اُڑ کر گھر پہنچے اور اپنی بچی کی پیشانی چومے۔ بغل میں لغت تھی۔ اِس کو اُس نے کئی بار دیکھنے کی کوشش کی مگر اُس کا دل و دماغ متوازن نہیں تھا۔ اُس نے تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ مگر تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہی بہت بُری طرح ہانپنے لگا اور ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک خالی تانگہ آیا اُس نے اس کو ٹھہرایا اور اس میں بیٹھ کر تانگے والے سے کہا :

’’چلو مزنگ لے چلو۔ لیکن جلدی پہنچاؤ ‘ مجھے وہاں ایک بڑا ضروری کام ہے‘‘

مگر گھوڑا بہت ہی سست رفتار تھا‘ یا شاید زاہد کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کو عجلت تھی۔ وہ برق رفتاری سے گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ اُس نے کئی مرتبہ تانگے والے سے سخت سست الفاظ کہے جو وہ برداشت کرتا گیا‘ آخر جب اس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو اس نے زاہد کو تانگے سے اُتار دیا۔ ہائیکورٹ کے قریب‘ اس نے زاہد سے کرایہ بھی طلب نہ کیا۔ زاہد اور زیادہ پریشان ہوا‘ وہ جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا‘ وہ کچھ دیر چوک میں کھڑا رہا‘ اتنے میں ایک پشاوری تانگہ آیا اس میں بیٹھ کر وہ مزنگ پہنچا۔ کرایہ ادا کیا اور گھر میں داخل ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ صحن میں کئی عورتیں کھڑی ہیں جو غالباً ہمسائی تھیں‘ وہ دروازے کے پاس رُک گیا‘ ایک عورت دوسری عورت سے کہہ رہی تھی‘ مشکل ہی سے بچے گی بیچاری۔ تشنج کے یہ دورے بڑے خطرناک ہیں‘‘

زاہد اُن عورتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دیوانہ وار اندر بھاگا اور اُس کے کمرے میں پہنچا جہاں وہ اور اُس کی بیوی رہتے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی کی فلک شگاف چیخ سنی۔ اُس کی بٹیا دم توڑ چکی تھی‘ اور اُس کی بیوی بیہوش پڑی تھی۔ زاہد نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ ہمسائیاں پردے کو بھول کر بے اختیار اندر چلی آئیں اور زاہد کو اُس کمرے سے باہر نکال دیا۔ ایک ہمسائی کے شوہر کے پاس موٹر تھی وہ ایک ڈاکٹر لے آیا۔ اس نے زاہد کی بیوی کو ایک دو انجکشن لگائے جن سے وہ ہوش میں آ گئی۔ زاہد ایک ایسے عالم میں تھا کہ اس کے سوچنے سمجھنے کی تمام قوتیں معطل ہو گئی تھیں۔ وہ صحن میں ایک کرسی پر بیٹھا بغل میں لغت دبائے خلا میں دیکھ رہا تھا جیسے وہ اپنی بچی کے لیے کوئی نام تلاش کرنے میں محو ہے۔ بچی کو دفنانے کا وقت آیا تو زاہد باہوش ہو گیا‘ اُس نے کوئی آنسو نہ بہایا۔ کفن میں پڑی بچی کو اُٹھایا اور اپنے دوستوں اور ہمسایوں کے ہمراہ قبرستان روانہ ہو گیا۔ وہاں قبر پہلے ہی سے تیار کرا لی گئی تھی۔ اُس میں اُس نے خود اُسے لٹایا اور اُس کے ساتھ لغت رکھ دی۔ لوگوں نے سمجھا‘ قرآن مجید ہے ‘ انھیں بڑی حیرت ہوئی کہ مُردوں کے ساتھ قرآن کون دفن کرتا ہے‘ یہ تو سراسر کفر ہے‘ لیکن ان میں سے کسی نے بھی زاہد سے اس کے متعلق کچھ نہ کہا‘ بس آپس میں کھسر پھسر کرتے رہے۔ بچی کو دفنا کر جب گھر آیا تو اُسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی کو بہت تیز بخار ہے‘ سرسام کی کیفیت ہے۔ فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا‘ اُس نے اچھی طرح دیکھا اور زاہد سے کہا

’’حالت بہت نازک ہے۔ میں علاج تجویز کیے دیتا ہوں ‘ لیکن میں صحت کی بحالی کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘

زاہد کو ایسا محسوس ہوا کہ اس پر بجلی آن گری ہے لیکن اُس نے سنبھل کر ڈاکٹر سے پوچھا

’’تکلیف کیا ہے؟‘‘

ڈاکٹر نے جواب دیا

’’بہت سی تکلیفیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ انھیں بہت صدمہ پہنچا‘ دوسری یہ کہ ان کا دل بہت کمزور ہے۔ تیسری یہ کہ انھیں ایک سو پانچ ڈگری بخار ہے‘‘

ڈاکٹر نے چند ٹیکے تجویز کیے ‘ دو نسخے پلانے والی دواؤں کے لکھے اور چلا گیا۔ زاہد فوراً یہ سب چیزیں لے آیا‘ ٹیکے لگائے‘ دوائیں بڑی مشکل سے حلق میں ٹپکائی گئیں۔ لیکن مریضہ کی حالت بہتر نہ ہوئی۔ دس پندرہ روز کے بعد اسے تھوڑا سا ہوش آیا‘ ہذیانی کیفیت بھی دُور ہو گئی۔ زاہد نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کی پیاری حسین بیوی نے اُسے بلایا اور بڑی نحیف آواز میں کہا

’’میرا اب آخری وقت آ گیا ہے۔ میں چند گھڑیوں کی مہمان ہوں۔ ‘‘

زاہد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘

’’کیسی باتیں کرتی ہو تم۔ تمھیں خدانخواستہ اگر کچھ ہو گیا تو میں کہاں زندہ رہوں گا۔ زاہد کی بیوی نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا

’’یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ میں مر گئی‘ کل دوسری آ جائے گی۔ خدا آپ کی عمر دراز کرے۔ اور۔ اور۔ ‘‘

اُس نے ہچکی لی اور ایک سیکنڈ کے اندر اندر اُس کی رُوح پرواز کر گئی۔ زاہد نے بڑے صبر وتحمل سے کام لیا ‘ اس کے کفن دفن سے فارغ ہو کر وہ رات کو گھر سے باہر نکلا اور ریلوے ٹائم ٹیبل دیکھ کر ریلوے لائن کا رُخ کیا۔ رات کو ساڑھے نو بجے کے قریب ایک گاڑی آتی تھی‘ وہ مغل پورہ کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ وہاں پٹڑی پر لیٹ جائے اور اُسے کوئی دیکھ نہ سکے۔ گاڑی آئے گی تو اُس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مجھے لمبی عمر کی کوئی خواہش نہیں۔ یہ جتنی جلدی مختصر ہو ‘ اتنا ہی اچھا ہے‘ میں اب اور زیادہ صدمے برداشت نہیں کر سکتا۔ جب وہ ریلوے لائن کے پاس پہنچا تو اُسے گاڑی کی تیز روشنی جو انجن کی پیشانی پر ہوتی ہے‘ دکھائی دی۔ لیکن ابھی وہ دُور ہی تھی۔ اُس نے انتظار کیا کہ جب قریب آئے گی تو وہ پٹڑی پر لیٹ جائے گا۔ تھوڑی دیر کے بعد گاڑی قریب آ گئی۔ زاہد آگے بڑھا مگر اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی کہیں سے نمودار ہوا اور پٹڑی کے عین درمیان کھڑا ہو گیا۔ گاڑی بڑی تیزرفتار سے آ رہی تھی اور قریب تھا کہ وہ آدمی اُس کی جھپٹ میں آ جائے‘ وہ تیزی سے لپکا اور اُس آدمی کو دھکا دے کر پٹڑی کے اُس طرف گرا دیا۔ گاڑی دندناتی ہوئی گزر گئی۔ اُس آدمی سے زاہد نے کہا

’’کیا تم خودکشی کرنا چاہتے تھے؟‘‘

اُس نے جواب دیا :

’’جی ہاں‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس۔ صدمے اُٹھاتے اُٹھاتے اب جینے کو جی نہیں چاہتا‘‘

زاہد ناصح بن گیا

’’بھائی میرے! زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے‘ اس کو اچھی طرح استعمال کرو‘ خودکشی بہت بڑی بزدلی ہے۔ اپنی جان خود لینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اُٹھو‘ اپنے صدموں کو بھول جاؤ۔ انسان کی زندگی میں صدمے نہ ہوں تو خوشیوں سے کیا حظ اُٹھائے گا۔ چلو میرے ساتھ‘‘

۲۵، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

خود فریب

ہم نیوپیرس اسٹور کے پرائیویٹ کمرے میں بیٹھے تھے۔ باہر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو اس کا مالک غیاث اٹھ کر دوڑا۔ میرے ساتھ مسعود بیٹھا تھا اس سے کچھ دور ہٹ کر جلیل دانتوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں کے ناخن کاٹ رہا تھا اس کے کان بڑے غور سے غیاث کی باتیں سن رہے تھے وہ ٹیلی فون پر کسی سے کہہ رہا تھا۔

’’تم جھوٹ بولتی ہو۔ اچھا خیر آج دیکھ لیں گے۔ تو یہ کیا کہا، تمہارے لیے تو ہماری جان حاضر ہے۔ اچھا تو ٹھیک پانچ بجے۔ خدا حاف٭۔ کیا کہا؟۔ بھئی کہہ تو دیا کہ تمہیں مل جائے گی۔ ‘‘

جلیل نے میری طرف دیکھا۔

’’منٹو صاحب عیش کرتا ہے یہ غیاث!‘‘

میں جواب میں مسکرا دیا۔ جلیل انگلیوں کے ناخن اب تیزی سے کاٹنے لگا۔

’’کئی لڑکیوں کے ساتھ اس کا ٹانکہ ملا ہوا ہے۔ میں تو سوچتا ہوں ایک اسٹور کھول لوں۔ لیڈیز اسٹور۔ خواہ مخواہ پریس کے چکر میں پڑا ہوں۔ عورت کا سایہ تک بھی وہاں نہیں آتا۔ سارا دن گڑگڑاہٹیں سنو۔ اُلّو کے پٹھے قسم کے گاہکوں سے مغز ماری کرو۔ یہ زندگی ہے؟‘‘

میں پھر مسکرا دیا۔ اتنے میں غیاث آگیا۔ جلیل نے زور سے اس کے چوتڑوں پر دھپا مارا اور کہا۔

’’سنائیے، کون تھی یہ جس کے لیے تو اپنی جان حاضر کررہا تھا۔ ‘‘

غیاث بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔

’’منٹو صاحب کے سامنے ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ ‘‘

جلیل نے اپنی عینک کے موٹے شیشوں میں سے گھور کرغیاث کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’منٹو صاحب کو سب معلوم ہے۔ تم بتاؤ کون تھی؟‘‘

غیاث نے اپنی نیلے شیشے والی عینک اتار کر اس کی کمانی ٹھیک کرنی شروع کی۔

’’ایک نئی ہے۔ پرسوں آئی تھی، ٹیلی فون کرنے۔ کسی سے ہنس ہنس کے باتیں کررہی تھی۔ فون کرچکی تومیں نے اس سے کہا، جناب فیس ادا کیجیے۔ یہ سن کر مسکرنے لگی۔ پرس میں ہاتھ ڈالکر اس نے دس روپے کا نوٹ نکالا اورکہا۔

’’حاضر ہے‘‘

۔ میں نے کہا

’’شکریہ۔ آپ کا مسکرا دینا ہی کافی ہے۔ بس دوستی ہو گئی۔ ایک گھنٹے تک یہاں بیٹھی رہی، جاتے ہوئے دس رومال لے گئی۔ ‘‘

مسعود جو بالکل خاموش تھاغالباً اپنی بے کاری کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اٹھا۔

’’بکواس ہے۔ محض خود فریبی ہے‘‘

یہ کہہ کر اس نے مجھے سلام کیا اور چلا گیا۔ غیاث اپنی باتوں سے بہت خوش تھا۔ مسعود جب یکلخت بولا تو اس کا چہرہ کسی قدر مرجھا گیا۔ جلیل تھوڑی دیر کے بعد غیاث سے مخاطب ہوا۔

’’کیا مانگ رہی تھی؟‘‘

غیاث چونکا

’’کیا کہا؟‘‘

جلیل نے پھر پوچھا۔

’’کیا مانگ رہی تھی؟‘‘

غیاث نے کچھ توقف کے بعد کہا

’’میڈن فورم بریسٹر‘‘

جلیل کی آنکھیں عینک کے موٹے شیشوں کے عقب سے چمکیں۔

’’سائز کیا ہے۔ ‘‘

غیاث نے جواب دیا

’’تھرٹی فور!‘‘

جلیل مجھ سے مخاطب ہوا

’’منٹو صاحب یہ کیا بات ہے انگیا دیکھتے ہی میرے اندرہیجان سا پیدا ہو جاتا ہے۔ ‘‘

میں نے مسکرا کر اس سے کہا

’’آپ کی قوت متخیلہ بہت تیز ہے۔ ‘‘

جیلیل کچھ نہ سمجھا اور نہ وہ سمجھناچاہتا تھا۔ اس کے دماغ میں کھدبد ہورہی تھی وہ اس لڑکی کے متعلق باتیں کرنا چاہتا تھا جس کے ساتھ غیاث نے ٹیلی فون پرباتیں کی تھیں۔ چنانچہ میرا جواب سن کر نے اس غیاث سے کہا۔

’’یار ہم سے بھی تو ملاؤ اسے‘‘

غیاث نے کمانی ٹھیک کرکے عینک لگائی

’’کبھی یہاں آئے گی تو مل لینا‘‘

کچھ نہیں یار تم ہمیشہ یہی غچہ دیتے رہتے ہو۔ پچھلے دنوں جب وہ یہاں آئی تھی۔ کیا نام تھا اس کا؟۔ جمیلہ۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے بات کرنی چاہی تو تم نے ہاتھ جوڑ کر مجھے منع کردیا۔ میں اُسے کھا تو نہ جاتا‘‘

یہ کہہ کر جمیل نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑ لیں۔ جلیل اور غیاث دونوں میں بچپنا تھا۔ دونوں ہر وقت لڑکیوں کے متعلق سوچتے رہتے تھے، خوبصورت، موٹی، دبلی، بھدی لڑکیوں کے متعلق۔ ٹانگے میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں کے متعلق۔ پیدل چلتی اور سائیکل سوار لڑکیوں کے متعلق۔ جلیل اس معاملے میں غیاث سے بازی لے گیا تھا۔ دفتر سے کسی ضروری کام پر موٹر میں نکلتا، راستے میں کوئی ٹانگے میں بیٹھی یا موٹر میں سوار لڑکی نظر آجاتی تو اس کے پیچھے اپنی موٹر لگا دیتا۔ یہ اس کا محبوب ترین شغل تھا لیکن اس نے کبھی بدتمیزی نہ کی تھی۔ چھیڑ چھاڑ سے اسے ڈر لگتا تھا۔ جہاں تک گفتار کا تعلق ہے اسے غازی کہنا چاہیے۔ بڑے بڑے مضبوط قلعے سر کرچکا تھا۔ پرائیویٹ کمرے میں جب باہر اسٹور سے کوئی نسوائی آواز آتی تو غیاث اچھل پڑتا اور پردہ ہٹا کر ایک دم باہر نکل جاتا۔ مرد گاہکوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ان سے اس کا ملازم نبٹتا تھا۔ دونوں اپنے کام میں ہوشیار تھے۔ اسٹور کس طرح چلایا جاتا ہے اس کو کیوں کر مقبول بنایا جاتا ہے، اس کا غیاث کو بڑا اچھا سلیقہ تھا اسی طرح جلیل کو پریس کے تمام شعبوں پر کامل عبور تھا لیکن فرصت کے اوقات میں وہ صرف لڑکیوں کے متعلق سوچتے تھے۔ خیالی اور اصلی لڑکیوں کے متعلق۔ اسٹور میں کسی دن جب کوئی بھی لڑکی نہ آتی تو غیاث اداس ہو جاتا۔ یہ اداسی وہ جلیل سے ٹیلی فون پر ان لڑکیوں کے متعلق باتیں کرکے دور کرتا جو بقول اسکے جال میں پھنسی ہوئی تھیں۔ جلیل اسے اپنے معرکے سناتا۔ دونوں کچھ دیر باتیں کرتے۔ اسٹور میں کوئی گاہک آتا یا ادھر پریس میں کسی کوجلیل کی ضرورت ہوتی تو یہ دلچسپ سلسلہ گفتگو منقطع ہو جاتا۔ اس لحاظ سے نیو پیرس اسٹور بڑی دلچسپ جگہ تھی۔ جلیل دن میں دو تین مرتبہ ضرور آتا۔ پریس سے کسی کام کے لیے نکلتا تو چند منٹوں ہی کے لیے اسٹور سے ہو جاتا۔ غیاث سے کسی لڑکی کے بارے میں چھیڑ چھاڑ کرتا اور انگلی میں موٹر کی چابی گھماتا چلا جاتا۔ جلیل کوغیاث سے یہ گلہ تھا کہ وہ

’’اپنی لڑکیوں‘‘

کے متعلق انتہائی رازداری سے کام لیتا ہے ان کا نام تک نہیں بتاتا۔ چھپ چھپ کر اُن سے ملتا ہے اُن کو تحفے تحائف دیتا ہے اور اکیلے اکیلے عیش کرتا ہے یہی گلہ غیاث کو جلیل سے تھا۔ لیکن دونوں کے دوستانہ تعلقات ویسے کے ویسے قائم تھے۔ ایک روز اسٹور میں ایک سیاہ برقعے والی عورت آئی۔ نقاب الٹا ہوا تھا۔ چہرہ پسینے سے شرابور تھا آتے ہی اسٹول پربیٹھ گئی۔ غیاث جب اسکی طرف بڑھا تو اس نے برقعہ سے پسینہ پونچھ کر اس سے کہا۔

’’پانی پلائیے ایک گلاس‘‘

غیاث نے فوراً نوکرکوبھیجا ایک ٹھنڈا لیمن لے آئے۔ عورت نے چھت کے ساکن پنکھوں کو دیکھا اورغیاث سے پوچھا

’’پنکھا کیوں نہیں چلاتے آپ؟‘‘

غیاث نے سرتاپا معذرت بن کر کہا

’’دونوں خراب ہو گئے ہیں۔ معلوم نہیں کیا ہوا۔ میں نے آدمی بھیجا ہوا ہے‘‘

عورت اسٹول پر سے اٹھی

’’میں تو یہاں ایک منٹ نہیں بیٹھ سکتی‘‘

یہ کہہ کر وہ شوکیسوں کو دیکھنے لگی

’’آدمی خاک شوپنگ کرسکتا ہے اس دوزخ میں۔ ‘‘

غیاث نے اٹک اٹک کرکہا

’’مجھے افسوس ہے۔ آپ۔ آپ اندر تشریف لے چلیے۔ جس چیز کی آپ کو ضرورت ہو گی میں لا کر دوں گا۔ عورت نے غیاث کی طرف دیکھا

’’چلیے‘‘

غیاث تیز قدمی سے آگے بڑھا۔ پردہ ہٹایا اور اس عورت سے کہا

’’تشریف لائیے۔ ‘‘

عورت اندر کمرے میں داخل ہو گئی اور ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ غیاث نے پردہ چھوڑ دیا۔ دونوں میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ چند لمحات کے بعد غیاث نکلا۔ میرے پاس آکر اس نے ہولے سے کہا

’’منٹو صاحب کیا خیال ہے آپ کا اس لڑکی کے بارے میں؟‘‘

میں مسکرا دیا۔ غیاث نے ایک خانے سے مختلف اقسام کی لپ اسٹکیں نکالیں اور اندرکمرے میں لے گیا۔ اتنے میں جلیل کی موٹر کا ہارن بجا اور وہ انگلی پر چابی گھماتا نمودار ہوا۔ آتے ہی اس نے پکارا

’’غیاث۔ غیاث، آؤ بھئی سنو وہ کل والا معاملہ میں نے سب ٹھیک کردیا ہے۔ ‘‘

پھر اس نے میری طرف دیکھا۔ اوہ منٹو صاحب، آداب عرض۔ غیاث کہاں ہے؟‘‘

میں نے جواب دیا

’’اندر کمرے میں‘‘

’’وہ میں نے سب ٹھیک کردیا منٹو صاحب۔ ابھی ابھی پٹرول پمپ کے پاس ملی۔ پیدل جارہی تھی میں نے موٹر روکی اور کہا جناب یہ موٹر آخر کس مرض کی دوا ہے اسے مزنگ چھوڑ کر آرہا ہوں۔ ‘‘

پھر اس نے کمرے کے پردے کی طرف منہ کرکے آواز دی۔

’’غیاث باہر نکل بے!‘‘

جلیل نے انگلی پر زور سے چابی گھمائی

’’مصروف ہے۔ اب اس نے اندر مصروف ہونا شروع کردیا ہے‘‘

کہہ کر اس نے آگے بڑھ کر پردہ اٹھایا۔ ایک دم اس کے جیسے بریک سی لگ گئی۔ پردہ اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔

’’سوری‘‘

کہہ کر وہ الٹے قدم واپس آیا اور گھبرائے ہوئے لہجہ میں اس نے مجھ سے پوچھا

’’منٹو صاحب کون ہے؟‘‘

میں نے دریافت کیا

’’کہاں کون؟‘‘

’’یہ۔ یہ جو اندر بیٹھی لبوں پر لپ اسٹک لگا رہی ہے‘‘

میں نے جواب

’’معلوم نہیں گاہک ہے!‘‘

جلیل نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے آنکھیں سکیڑیں اور پردے کی طرف دیکھنے لگا۔ غیاث باہر نکلا۔ جلیل سے

’’ہلو جلیل‘‘

کہا اور آئینہ اٹھا کر واپس کمرے میں چلا گیا۔ دونوں دفعہ جب پردہ اٹھا تو جلیل کو اس عورت کی ہلکی سی جھلک نظر آئی۔ میری طرف مڑ کر اس نے کہا۔ عیش کرتا ہے پٹھا، پھر اضطراب کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پردہ اٹھا۔ عورت ہونٹوں کو چوستی ہوئی نکلی۔ جلیل کی نگاہوں نے اسکو اسٹور کے باہر تک پہنچایا پھر اس نے پلٹ کر کمرے کا رخ کیا۔ غیاث باہر نکلا۔ رومال سے ہونٹ صاف کرتا۔ دونوں ایک دوسرے سے قریب قریب ٹکرا گئے۔ جلیل نے تیز لہجے میں اس سے پوچھا

’’یہ کیا قصہ تھا بھئی‘‘

غیاث مسکرایا

’’کچھ نہیں‘‘

یہ کہہ کر اس نے رومال سے ہونٹ صاف کیے۔ جلیل نے غیاث کے چٹکی بھری

’’کون تھی؟‘‘

’’یار تم ایسی باتیں نہ پوچھا کرو‘‘

غیاث نے اپنا رومال ہوا میں لہرایا۔ جلیل نے چھین لیا غیاث نے جھپٹا مار کرواپس لینا چاہا۔ جلیل پینترہ بدل کر ایک طرف ہٹ گیا۔ رومال کھول کر اس نے غور سے دیکھا جگہ جگہ سرخ نشان تھے۔ عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکیڑ کر اس نے غیاث کو گھورا۔

’’یہ بات ہے۔ ‘‘

غیاث ایسا چور بن گیا۔ جس کو کسی نے چوری کرتے کرتے پکڑ لیا ہے

’’جانے دو یار۔ ادھر لاؤ رومال۔ ‘‘

جلیل نے رومال واپس کردیا۔

’’بتاؤ تو سہی کون تھی‘‘

اتنے میں نوکر لیمن لے کر آگیا۔ غیاث نے اسکو اتنی دیر لگانے پر جھڑکا

’’کوئی مہمان آئے تو تم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہو۔ ‘‘

غیاث نے جلیل سے پوچھا۔

’’یہ لیمن اسی کے لیے منگوایا گیا تھا۔ ‘‘

’’ہاں یار۔ اتنی دیر میں آیا ہے کم بخت۔ دل میں کہتی ہو گی پیاسا ہی بھیج دیا۔ ‘‘

غیاث نے رومال جیب میں رکھ لیا۔ جلیل نے شوکیس پر سے لیمن کا گلاس اٹھایا اور غٹا غٹ پی گیا۔

’’ہماری پیاس تو بجھ گئی۔ لیکن یاربتاؤنا تھی کون؟۔ پہلی ہی ملاقات میں تم نے ہاتھ صاف کردیا۔ غیاث نے رومال نکال کر اپنے ہونٹ صاف کیے اور آنکھیں چمکا کر کہا۔

’’چمٹ ہی گئی۔ میں نے کہا دیکھو ٹھیک نہیں۔ دکان ہے۔ زبردستی میرے ہونٹوں کا چما لے گئی۔ ‘‘

ایک دم مسعود کی آواز آئی

’’سب بکواس ہے۔ محض خود فریبی ہے۔ ‘‘

غیاث چونک پڑا۔ مسعود اسٹور کے باہر کھڑا تھا اس نے مجھے سلام کیا اورچل دیا۔ جلیل فوراً ہی غیاث سے مخاطب ہوا۔

’’چھوڑو یار تم یہ بتاؤ پھر کیا ہوا؟۔ یار چیز اچھی تھی۔ کیا نام ہے؟‘‘

غیاث نے جواب نہ دیا۔ مسعود کی آواز کے اچانک حملے سے وہ بوکھلا سا گیا تھا۔ جلیل کو ایک دم یاد آیا کہ وہ تو ایک بہت ہی ضروری کام پر نکلا ہے۔ انگلی پر چابی گھما کر اس نے غیاث سے کہا

’’لڑکی کے متعلق پھر پوچھوں گا۔ اچھا منٹو صاحب السلام علیکم‘‘

اور چلا گیا۔ میں نے مسکرا کرغیاث سے پوچھا

’’غیاث صاحب اتنی جلدی پہلی ہی ملاقات میں آپ نے۔ ‘‘

غیاث جھینپ گیا میری بات کاٹ کر اس نے کہا

’’چھوڑئیے منٹو صاحب۔ آپ ہمارے بزرگ ہیں۔ چلیے اندر بیٹھیں۔ یہاں گرمی ہے۔ ‘‘

ہم اندر کمرے کی طرف چلنے لگے تو اسٹور کے باہر جلیل کی موٹر رکی۔ اس نے زور زور سے ہارن بجایا۔ غیاث نہ گیا تو وہ خود اندر آیا۔

’’غیاث اندر آؤ۔ بس اسٹینڈ کے پاس ایک بڑی خوبصورت لڑکی کھڑی ہے۔ ‘‘

غیاث اس کے ساتھ چلا گیا۔ میں مسکرانے لگا۔ اس دوران میں جلیل نے بڑی مشکلوں سے اپنے باپ کو راضی کرکے ایک کرسچین لڑکی ملازم رکھ لی۔ اس کو وہ اپنی اسٹینو کہتا تھا۔ کئی بار موٹر میں اسکو اپنے ساتھ لایا، لیکن اس کو موٹر ہی میں بٹھائے رکھا۔ غیاث کو اس بات کا بہت غصہ تھا۔ ایک بار اس اسٹینو کے سامنے غیاث نے جلیل کو مذاق کیا تو وہ بہت سٹ پٹایا، اس کے کان کی لویں سرخ ہو گئیں۔ نظریں جھکا کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ بقول جلیل کے یہ اسٹینو شروع شروع میں تو بڑی ریزرو رہی۔ لیکن آخر اس سے کھل ہی گئی۔

’’بس اب چند دنوں ہی میں معاملہ پٹا سمجھو۔ ‘‘

غیاث اب زیادہ ترجلیل سے اس اسٹینو کی باتیں کرتا۔ جلیل اس سے اس لڑکی کے متعلق پوچھتا جس نے چمٹ کر اس کو چوم لیا تھا تو غیاث عموماً یہ کہتا

’’کل اس کا ٹیلی فون آیا۔ پوچھنے لگی آؤں؟۔ میں نے کہا یہاں نہیں۔ تم وقت نکالو تو میں کسی اور جگہ کا انتظام کرلوں گا۔ ‘‘

جلیل اس سے پوچھتا

’’کیا کہا اس نے؟‘‘

غیاث جواب دیتا۔

’’تم اپنی اسٹینو کی سناؤ‘‘

اسٹینو کی باتیں شروع ہو جاتیں۔ ایک دن میں اورغیاث دونوں جلیل کے پریس گئے مجھے اپنی کتاب کے گردوپوش کے ڈیزائن کے بارے میں دریافت کرنا تھا۔ دفترمیں اسٹینو ایک کونے میں بیٹھی تھی لیکن جلیل نہیں تھا۔ اسٹینو سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی ابھی باہر نکلا ہے۔ میں نے نوکرکو بھیجا کہ اس کو ہماری آمد کی اطلاع دے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد جلیل آگیا۔ چک اٹھا کر اس نے مجھے سلام کیا اورغیاث سے کہا۔

’’ادھر آؤ غیاث‘‘

ہم دونوں باہر نکلے غیاث کو ایک کونے میں لے جا کر جلیل نے اُچھل کرغیاث سے کہا

’’میدان مار لیا۔ ابھی ابھی تمہارے آنے سے تھوڑی دیر پہلے‘‘

یہ کہہ کر وہ رک گیا اور مجھ سے مخاطب ہوا

’’معاف کیجیے گا منٹو صاحب‘‘

پھر اس نے غیاث کو زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔

’’میں نے آج اس کو پکڑ لیا۔ بالکل اسی طرح۔ اور اسی جگہ۔ اس ٹریڈل کے پاس۔ ‘‘

غیاث نے پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

جلیل جھنجھلا گیا

’’ابے اپنی اسٹینو کو۔ قسم خدا کی مزا آگیا۔ یہ دیکھو‘‘

اس نے اپنا رومال پتلون کی جیب سے نکال کر ہوا میں لہرایا۔ اس پر سرخی کے دھبے تھے۔ ایک دم مسعود کی آواز آئی

’’بکواس ہے۔ محض خود فریبی ہے۔ ‘‘

جلیل اور غیاث چونک اٹھے۔ میں مسکرایا۔ ٹریڈل کے توے پر سرخ روغن کی پتلی سی ہموار تہ پھیلی ہوئی تھی۔ ایک جگہ پونچھنے کے باعث کچھ خراشیں پڑ گئی تھیں۔ 8جون1950ء

سعادت حسن منٹو

خوابِ خرگوش

ثُریا ہنس رہی تھی۔ بے طرح ہنس رہی تھی۔ اُس کی ننھی سی کمر اس کے باعث دہری ہو گئی تھی۔ اُس کی بڑی بہن کو بڑا غصہ آیا۔ آگے بڑھی تو ثُریا پیچھے ہٹ گئی۔ اور کہا

’’جا میری بہن، بڑے طاق میں سے میری چوڑیوں کا بکس اُٹھالا۔ پر ایسے کہ امی جان کو خبر نہ ہو۔ ‘‘

ثُریا اپنی بڑی بہن سے پانچ برس چھوٹی تھی۔ بلقیس اُنیس کی تھی۔ ثریا نے جھنجھلاہٹ سے ہنستے ہوئے کہا۔

’’اور جو میں نہ لاؤں تو؟‘‘

بلقیس نے جل کر اُسے کہا۔

’’ایک فقط تو مجھ اللہ ماری کا کام نہیں کرے گی نگوڑیاں ہمسائیاں چاہے تم سے اُپلے تک تھپوالیں‘‘

ثریا کو اپنی بہن پر پیار آگیا۔ اُس کے گلے سے چمٹ گئی۔

’’نہیں باجی، ہمسائیاں جائیں جہنم میں۔ میں تو تمہاری خدمت کے لیے بھی تیار ہوں۔ میں چوڑیوں کا بکس ابھی لاتی ہوں۔ ‘‘

ثریا یوں چٹکیوں میں بکس اُٹھا لائی اور بلقیس سے بڑے جاسوسانہ انداز میں کہا۔

’’آپ ضرور سنیما دیکھنے جارہی ہیں۔ ‘‘

’’ثریا تو اب زیادہ بک بک نہ کر۔ تیری قسم میں سنیما نہیں جارہی۔ ‘‘

ثریا نے بچپنے کے سے انداز سے پوچھا۔

’’تو پھر یہ تیاریاں کیوں ہو رہی ہیں۔ ؟‘‘

’’یہ تو میرا امتحان لینے کیا بیٹھ گئی ہے۔ اور میں بے وقوف نہیں جو تیری ہر بات کا جواب دیے چلی جاؤں۔ سُن ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچ جانا چاہیے۔ نئی چوڑیاں جائیں جہنم میں، نہیں پہنوں گی تو کون سا آفت کا پہاڑ ٹُوٹ پڑے گا۔ تیری بحث تو پھر ختم نہیں ہو گی کم بخت۔ ‘‘

ثریا بے حد افسردہ ہو گئی۔ ننھی جان تھی۔ اُس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اُس نے اپنی بہن کا ہاتھ پکڑلیا

’’آپ ناراض ہو گئیں مجھ سے۔ ؟‘‘

’’چل دُور ہو۔ ‘‘

بلقیس اپنے آپ سے بلکہ ہر چیز سے بیزار ہو رہی تھی۔

’’آج مجھے ضروری ایک کام سے باہر جانا ہے۔ پر مصیبت یہ ہے کہ امی جان اجازت نہیں دیں گی۔ کہیں گی متواتر تین شاموں سے تو باہر جارہی ہے۔ اور میں اُن سے وعدہ کرچکی ہوں کہ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے پہنچ جاؤں گی۔ ‘‘

ثریا نے پوچھا

’’کس سے؟‘‘

بلقیس نے غیر ارادی طور پر جواب دیا۔

’’لطیف صاحب سے‘‘

یہ کہہ کر وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ ثریا سوچنے لگی کہ یہ لطیف صاحب کون ہیں۔ اُن کے ہاں تو کبھی اس نام کا آدمی نہیں آیا تھا۔ ثریا نے اس شش و پنج میں اپنی بہن سے پوچھا

’’یہ لطیف صاحب کون ہیں باجی۔ ؟‘‘

’’لطیف صاحب۔ مجھے کیا معلوم۔ کون ہیں ار۔ ار۔ سچ مچ یہ کون ہیں۔ ‘‘

ایک دم سنجیدہ ہوکر

’’ثُریا۔ تو نے آج کا سق یاد کیا؟ تو بہت وہ۔ ہو گئی ہے۔ اس لیے تو اوٹ پٹانگ سوال کرتی رہتی ہے۔ ‘‘

ثُریا کی معصومیت کوٹھیس پہنچی۔

’’باجی میں نے کبھی کوئی واہیات بات نہیں کی۔ آپ نے کس لطیف صاحب سے ملنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ ‘‘

بلقیس اُس کی معصومیت سے تنگ آگئی۔ جھنجھلا کر بولی۔

’’خاموش رہ۔ ‘‘

اتنے میں اندر صحن سے بلقیس کی ماں کی آواز سنائی دی

’’بلقیس۔ بلقیس۔ ‘‘

بلقیس کی آواز دب گئی۔ اُس نے ہولے لہجے میں اپنی بہن سے کہا

’’لے یہ اکنی‘‘

پرس میں سے اُس نے ایک اکنی نکال کر اُس کو دی

’’املی لے لینا۔ ہر روز ایک آنہ دیا کروں گی تجھے املی کے لیے۔ اور دیکھ آدھی آج میرے لیے رکھ چھوڑنا۔ امی مجھے بُلا رہی ہیں۔ اور دیکھ جو باتیں ہوئی ہیں۔ ان کو نہ بتانا، لے وہ خود ہی آرہی ہیں‘‘

صحن کے آگے جہاں برآمدہ کے فرش پر بلقیس اپنی ماں کے قدموں کی چاپ سنتی ہے اور ثُریا سے کہتی ہے۔

’’لے بھاگ اب یہاں سے۔ ‘‘

بلقیس کی ماں آتی ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت بہت غصیلی۔ اُس کے چہرے کے خدوخال سے صاف عیاں ہے کہ وہ ایک جابر ماں ہے۔ آتے ہی بلقیس کو ڈانتی ہے۔

’’یہ جو میں دو گھنٹے سے تجھے بلا رہی ہوں تُو نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کیا؟‘‘

بلقیس مسکین بلی کی سی آواز میں جواب دیتی ہے۔

’’نہیں تو۔ ‘‘

بلقیس کی ماں کی آواز اور زیادہ بُلند ہوجاتی ہے۔

’’اور یہ میں نے کیا سنا ہے۔ ‘‘

’’کیا امی جان؟‘‘

’’کہ تو پھر آج باہر جانا چاہتی ہے۔ شریف بہو بیٹیوں کی طرح تیرا گھر میں جی ہی نہیں لگتا۔ دیدے کا پانی ہی ڈھل گیا ہے۔ ‘‘

بلقیس نے آنکھیں جھکا کر بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔

’’آپ تو ناحق بگڑ رہی ہیں۔ ‘‘

بلقیس کی ماں جہاں آرا غضبناک ہو گئی اور کہا

’’ابھی ابھی ایک آدمی تمہاری کسی سہیلی کے یہاں سے آیا تھا۔ کہتا تھا کہ بی بی تیار رہیں۔ کالج کے جلسے میں جانا ہے۔ ‘‘

بلقیس نے یوں جھوٹ موٹ کا اظہار کیا۔

’’ہائے۔ جلسے میں؟۔ میں تو بالکل بھول ہی گئی تھی۔ یہ جلسہ بہت ضروری ہے امی جان۔ میں نہ گئی تو پرنسپل صاحبہ بہت بُرا مانیں گی۔ میرا خیال ہے مجھے فوراً تیار ہوجانا چاہیے۔ ‘‘

ماں کو اس سے کام کرانا تھا۔ اُسے کالج کے جلسے جلوسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

’’تو چل میرے ساتھ اور بیٹھ کے میرے ساتھ آٹا گوندھ۔ ‘‘

بلقیس نے اپنی سجاوٹ ایک نظر دیکھی اور بڑی پُردرد لہجے میں کہا۔

’’لیکن امی جان‘‘

ماں کا لہجہ کڑا ہو گیا۔

’’نہیں آج میری ساتھ کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ سمجھیں۔ ؟‘‘

بلقیس نے ہار مان کر اپنی ماں سے کہا۔

’’آٹا گوندھنے کے بعد تو مجھے اجازت مل جائیگی۔ ؟‘‘

ماں زیرِلب مسکرائی۔

’’دیکھوں گی۔ چل بیٹھ جا میرے سامنے۔ ‘‘

بلقیس وہیں کمرے میں بیٹھنے لگی۔ مگر اُسے ایک دم خیال آیا کہ باورچی خانہ اور صحن باہر ہیں۔ یہاں وہ اپنی ماں کا سر آٹا گوندھے گی۔

’’چلیے امی جان۔ ‘‘

دونوں باورچی خانے میں داخل ہوئیں۔ کچھ اس طرح جیسے آگے آگے پولیس کا سپاہی اور پیچھے ہتھکڑی لگا ملزم۔ اُس کی ماں ایک پیڑھی پر اپنا بھاری بھرکم جسم ڈھیلا چھوڑ کر بیٹھ گئیں کہ پیڑھی کو ضرب نہ پہنچے۔ پھر اُس نے بلقیس کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’ٹکر ٹکر میرا منہ کیا دیکھتی ہے، بیٹھ جا یہاں میرے سامنے!‘‘

بلقیس گندے فرش پر ہی پیروں کے بل بیٹھ گئی اور منہ بنا کر پوچھا۔

’’پانی کہاں ہے؟‘‘

پانی پاس ہی پڑا تھا۔ اصل میں اُسے سجھائی کم دینے لگا تھا۔ سامنے پرات میں آٹے کی چھوٹی سی ڈھیری پڑی تھی۔ اس نے ڈھیری میں پاس پڑی گڑوی سے تھوڑا سا پانی بادل ناخواستہ ڈالا اور آٹے پانی کو ملا کر جلدی جلدی مکیاں مانے لگی۔ لیکن اُس نے دیکھا کہ سامنے صحن میں لگے کلاک کی سوئیاں بتا رہی تھی کہ آٹھ بجنے والے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اُس کی مُکیاں تیز ہو جائیں مگر وہ اس سوچ میں غرق تھی کہ جہاں اُسے ساڑھے آٹھ بجے پہنچنا ہے کیا وہ یہ آٹا گوندھنے کے بعد پہنچ سکے گی۔ اُس کی ماں اُس کے سر پر کھڑی تھی۔ ایک دم چلائی۔

’’بلقیس یہ مکیاں ماررہی ہے یا کسی کا سر سہلا رہی ہے۔ ‘‘

بلقیس ابھی سوچ ہی رہی تھی کیا کہے اصل میں وہ یہ چاہتی تھی کہ اپنا گیلے آٹے سے بھرا ہاتھ مکا بنا کر یا اپنی ماں کے سر پر دے مارے یا اپنے سر پر۔ خود کو اتنا پیٹے کہ بے ہوش ہو جائے۔ لیکن اُسے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچنا تھا۔ اس لیے اُس نے جلدی جلدی آٹا گوندھا اور فارغ ہو گئی۔ ہاتھ دھو کر اُس نے ثُریاسے کہا۔

’’جاؤ ایک ٹانگہ لے آؤ۔ ‘‘

ثُریا چلی گئی۔ بلقیس نے آئینے میں خود کو دیکھا۔ لپ اسٹک دوبارہ لگائی۔ کسی قدر بکھرے ہوئے بالوں کو دُرست کیا اور کرسی پر بیٹھ کر بڑے اضطراب میں ٹانگ ہلانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ثُریا آگئی۔ اس نے اپنی بڑی بہن سے کہا۔

’’باجی ٹانگہ آگیا ہے۔ ‘‘

بلقیس کی ٹانگ ہلنا بند ہو گئی۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بُرقع اُٹھایا ہی تھا کہ باہر صحن سے اُس کے بھائی کی آواز آئی۔

’’بلی۔ بلی۔ ‘‘

بلقیس نے کہا۔

’’کیا ہے بھائی جان؟‘‘

اُس کا بھائی خود اندر تشریف لے آیا اور اُس کے ہاتھوں میں اپنی قمیص دے کر کہا۔

’’دھوبی کم بخت نے پھر دو بٹن غارت کر دیئے۔ مہربانی کر کے۔ ‘‘

بلقیس کو ایسا محسوس ہوا کہ دو بٹن اُس کے سر پر دو پہاڑ بن کر ٹُوٹ پڑے ہیں۔

’’نہیں بھائی جان مجھے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے کالج کے جلسے میں پہنچناہے۔ ‘‘

اُس کے بھائی نے بڑے اطمینان اور برادرانہ محبت سے کہا۔

’’تم وقت پر پہنچ جاؤ گی۔ لو یہ دو بٹن ہیں۔ تم تو یُوں چٹکیوں میں ٹانگ دو گی۔ ‘‘

’’نہیں بھائی جان۔ وقت ہو گیا ہے۔ سوا آٹھ ہوچکے ہیں۔ ‘‘

’’امی جان نے تمھیں اجازت دے دی ہے۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’تو بٹن ٹانک دو۔ اجازت میں لے دُوں گا۔ ‘‘

’’سچ۔ ؟‘‘

’’میں نے آج تک تم سے کوئی جھوٹی بات کہی ہے۔ ‘‘

’’لائیے۔ ‘‘

بلقیس نے بٹن لیے اور سوئی میں دھاگہ پرو کر بٹن ٹانکنے شروع کردیے۔ اُس کی انگلیوں میں بلا کی پھرتی تھی۔ دو منٹ سے کم عرصے میں اُس نے اپنے بھائی کی قمیص میں دو بٹن لگا دیے۔ وہ بہت ممنون وہ متشکر ہوا۔ باہر جا کر اُس نے اپنی ماں سے سفارش کی کہ وہ بلقیس کو کالج کے جلسے میں جانے کی اجازت دے دے۔ اس کی یہ سفارش سُن کر اُس کی ماں اُس پر برس پڑی۔

’’تم دونوں آوارہ گرد ہو۔ گھر میں تمہارا جی ہی نہیں لگتا۔ تم کہاں جانے کی تیاریاں کررہے ہو؟۔ دیکھو میں تم سے کہے دیتی ہوں کہ نہ بلقیس کہیں جائے گی نہ تم۔ گھر میں بیٹھو اور کام کرو۔ ‘‘

’’لیکن امی جان، میں تو آپ ہی کے لیے باہر جارہا ہوں۔ ‘‘

’’مجھے کیا تکلیف ہے کہ تم میرے لیے باہر جارہے ہو۔ میرے لیے جب بھی تم گئے ڈاکٹر بُلانے کے لیے گئے۔ ‘‘

’’لیکن امی جان۔ آپ کے زیوروں کا بھی تو پتہ لینا ہے۔ جس سُنار کو آپ نے بننے کے لیے دیے تھے، وہ چار روز سے غائب ہے۔ ‘‘

’’ہائیں۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہ کہا۔ کہاں غائب ہو گیا ہے؟‘‘

’’اب جاؤں گا تو معلوم کروں گا۔ ‘‘

’’جاؤ جلدی جاؤ۔ اور مجھے اطلاع دو کہ وہ واپس آگیا ہے کہ نہیں۔ میرا سونا اُس سے واپس لے آنا۔ ساڑھے چار تولے دو ماشے اور چار رتیاں ہے۔ ‘‘

’’بہت بہتر۔ بلقیس کو اب آپ اجازت دیجیے۔ ‘‘

اُس کی ماں نے بادلِ ناخواستہ کہا کہ چلی جائے۔ مگر مجھے اس کا یہ ہر روز شام کا گھر سے باہر رہنا پسند نہیں۔ بلقیس کا بھائی زیرِ لب مسکرایا اور اندر جاکر اپنی بہن کو خوشخبری سُنائی کے امی جان سے جو اُس نے فراڈ کیا وہ چل گیا اور اُس کو اجازت مل گئی۔ بلقیس بہت خوش ہوئی۔ آٹھ بج کر بیس منٹ ہوئے تھے۔ اُس نے اپنا برقعہ پہنا۔ باہر نکلنے ہی والی تھی کہ اُس کی ماں نے اُسے بُلایا اور اُس سے کہا۔

’’دیکھو بلقیس تم جا تو رہی ہو، لیکن میرا ایک کام کرتی جاؤ۔ ‘‘

بلقیس کو ایسا محسوس ہوا کہ اُس کا ریشمی برقع لوہے کی چادر بن گیا ہے۔

’’بتائیے امی جان۔ ‘‘

’’ایک خط لکھوانا تھا تم سے‘‘

بلقیس نے ایک شکست خوردہ اور غلام کے مانند بدرجہ مجبوری ٹھنڈی سانس بھر کے کہا۔

’’لائیے لکھ دیتی ہوں۔ ‘‘

بلقیس کی آنکھیں تو نہیں بلکہ اُس کے جسم کا رواں رواں رو رہا تھا۔ اُس نے خط مکمل کیا۔ باہر تانگہ کھڑا تھا۔ اُس میں بیٹھی اور اُسے جہاں پہنچنا تھا پہنچی۔ اُس نے دروازے پر دستک دی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ کواڑوں کو غصے میں آکر زور سے دھکیلا۔ ! وہ کھلے تھے، بلقیس گرتے گرتے بچی۔ اندر اُس کا دوست جس سے وہ ملنے آئی تھی۔ خوابِ خرگوش میں تھا۔ اُس نے اُس کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ بیدار نہ ہوا۔ آخری وہ جلی بھنی، بڑبڑاتی وہاں سے چلی گئی

’’میری جوتی کو کیا غرض پڑی ہے کہ یہاں ٹھہروں۔ میں اتنی مصیبت سے یہاں آئی اور جناب معلوم نہیں بھنگ پی کر سو رہے ہیں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

خط اور اُس کا جواب

منٹو بھائی ! تسلیمات! میرا نام آپ کے لیے بالکل نیا ہو گا۔ میں کوئی بہت بڑی ادیبہ نہیں ہوں۔ بس کبھی کبھار افسانہ لکھ لیتی ہوں اور پڑھ کر پھاڑ پھینکتی ہوں۔ لیکن اچھے ادب کو سمجھنے کی کوشش ضرور کرتی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ اس کوشش میں کامیاب ہوں۔ میں اور اچھے ادیبوں کے ساتھ آپ کے افسانے بھی بڑی دلچسپی سے پڑھتی ہوں۔ آپ سے مجھے ہر بار نئے موضوع کی اُمید رہی اور آپ نے درحقیقت ہر بار نیا موضوع پیش کیا۔ لیکن جو موضوع میرے ذہن میں ہے وہ کوئی افسانہ نگار پیش نہ کرسکا۔ یہاں تک کہ سعادت حسن منٹو بھی جو نفسیات اور جنسیات کا امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ موضوع آپ کی کہانیوں کے موضوعات کی قطارمیں ہو اور کسی وقت بھی آپ اسے اپنی کہانی کے لیے منتخب کرلیں۔ لیکن پھرسوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے، سعادت حسن منٹو ایسا بے رحم افسانہ نگار بھی اس موضوع سے چشم پوشی کر جائے۔ اس لیے کہ اس موضوع کو ننگا کرنے سے ساری قوم ننگی ہوتی ہے اور شاید منٹو قوم کو ننگا دیکھ نہیں سکتا۔ آپ کی عدیم الفرصتی کے پیش نظر میں اس خط کو الجھانا نہیں چاہتی اور صاف الفاظ میں کہہ دینا چاہتی ہوں کہ وہ موضوع ہے۔

’’ہمارے ماحول کے مردوں کا کم عمر لڑکوں کے ساتھ غیر فطری تعلق۔ ‘‘

مختصر الفاظ میں آپ کوئی بھی اصطلاح لے سکتے ہیں۔ میرا لبِ لباب یہی تھا۔ میں بہت عرصے سے سوچ رہی تھی کہ اس بارے میں آپ کو خط لکھوں اور آخر جرأت کرلی۔ سوائے منٹو کے اور کوئی اس موضوع کو بے نقاب نہیں کرسکتا۔ اگر میرے قلم میں زور ہوتا تو میں نے کبھی کی کہانی لکھی ہوتی۔ والسلام! آپ کی بہن( میں یہاں اصل نام نہیں دے رہا) نزہت شیریں بی، اے۔ جب مجھے یہ خط ملا تو میں سوچنے لگا کہ یہ لڑکی کون ہے؟ میں کہاں کا ماہر نفسیات اور جنسیات ہوں کہ اس نے مجھ سے رجوع کیا۔ جب یہ خط ملا تو اتفاق سے میرے دست جو علمِ نجوم اور دوست شناسی میں شغف رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ رمل اور جفر کے علم کے بھی طالب ہیں تو میں نے انہیں یہ خط پڑھنے کے لیے دیا اور کہا۔

’’و ارثی صاحب! میں نے اس کے متعلق جورائے قائم کی ہے وہ محفوظ ہے۔ ‘‘

میرے ایک اور دوست جن کا نام دوست محمد ہے۔ ان سے میں اپنی رائے بیان کرچکا تھا۔ وارثی صاحب نے یہ خط پڑھا اور اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر کہا۔

’’یہ عورت اگر واقعی عورت ہے اور شادی شدہ ہے۔ جوکہ ہونا چاہیے تو اس کے خاوند کو اغلام بازی کا شوق ہے۔ ‘‘

میں نے دوست محمد سے یہی کہا تھا۔ اپنی بیوی سے بھی۔ مگر وہ مانتے نہیں تھے۔ میری بہت سی باتیں لوگ نہیں مانتے۔ میں پیغمبر نہیں ہوں، کوئی ولی بھی نہیں۔ لیکن اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کوسمجھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ میں نے بھی وہی نتیجہ اخذ کیا تھا جو میرے دوست وارثی صاحب نے کیا۔ میں نے اُن سے اور دوست محمد سے مشورہ کیا کہ میں اس عورت کے خط کا کیا جواب دوں۔ وارثی صاحب نے کہا۔

’’منٹو صاحب۔ آپ ہم سے پوچھتے ہیں؟ ایسے خطوں کا جواب دینا آپ ہی کا کام ہے۔ ‘‘

میں نے ان سے پوچھا۔

’’وارثی صاحب! میرے لیے یہ بہت مشکل ہے۔ میں کوئی ڈاکٹر حکیم نہیں۔ میں تو صاف صاف لفظوں میں، جو کچھ مجھے کہنا ہو گا، لکھ دُوں گا۔ ‘‘

انہوں نے کہا۔

’’تو لکھ دو‘‘

’’عورت ذات ہے۔ کیسے لکھوں؟‘‘

’’جب وہ لکھتی ہے کہ مردوں کا کم عمر لڑکوں کے ساتھ غیر فطری تعلق ہوتا ہے۔ تو آپ کیوں اس کے جواب میں ایسے ہی الفاظ میں مناسب و موزوں جواب نہیں دیتے‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’مجھے ایسے مناسب و موزوں الفاظ نہیں ملتے جن میں اس کا جواب لکھ سکوں۔ ‘‘

اور یہ حقیقت ہے کہ میں خود کو عاجز سمجھ رہا تھا۔ دوست محمد نے کہا۔

’’منٹو صاحب، آپ تکلف سے کام لے رہے ہیں۔ قلم پکڑیے اور جوابی خط لکھ ڈ الیے۔ ‘‘

میں نے قلم پکڑا اور لکھنا شروع کردیا۔

’’خاتون محترم! میں آپ کو اپنی بہن بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے کہ مجھ پر بہت سے فرائض عائد ہو جائیں گے۔ آپ میرے لیے خاتون محترم ہی رہیں گی۔ اس لیے کہ یہ رشتہ زیادہ مناسب و موزوں ہے۔ مجھے عورتوں سے ڈرلگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کسی مرد کے بھیس میں عورت بنی ہوں۔ لیکن میں آپ کی تحریر پر اعتبارکرکے آپ کو ایک عورت تسلیم کرتا ہوں۔ آپ کے خط سے جو کچھ میں نے اخذ کیا ہے۔ وہ میں مختصراً عرض کیے دیتا ہوں۔ میں یقیناً بے رحم افسانہ نگار ہوں۔ میرے سامنے لاکھوں موضوعات پڑے ہیں اور جب تک میں زندہ ہوں، پڑے رہیں گے۔ سڑک کے ہر پتھر پر ایک افسانہ کندہ ہوتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ اگر کسی خاص جیتے جاگتے موضوع پرلکھوں تو مقدمے کا خوف لاحق ہے۔ آپ کو شاید معلوم ہو کہ مجھ پر اب تک چھ مقدمے چل چکے ہیں۔ فحش نگاری کے سلسلے میں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ فحش نگار کیسے قرار دیا جاتا ہوں۔ جب کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک بھی گالی کسی کو نہیں دی۔ کسی کی ماں بہن کی طرف بُری نظروں سے نہیں دیکھا۔ خیر یہ میرا اور قانون کا آپس کا جھگڑا ہے۔ آپ کو اس سے کیا واسطہ۔ میں یقیناً بے رحم افسانہ نگار ہوں( جن معنوں میں آپ نے

’’بے رحم‘‘

استعمال کیا ہے) آپ نے جس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ میں شاید آپ کے پیش نظر موضوع سے چشم پوشی کر جاؤں تویہ غلط ہے۔ میں علامہ اقبال مرحوم کے اس قول کا قائل ہوں کہ ؂ اگر خواہی حیات اندر خطرزی میں نے تو اپنی ساری زندگی اس شعر کی تولید سے پہلے خطروں میں گزاری ہے اور اب بھی گزار رہا ہوں۔ جو موضوع آپ کے ذہن میں ہے، کوئی نیا نہیں ہے۔ اس پر عصمت چغتائی اپنے مشہور افسانے

’’لحاف‘‘

میں لکھ چکی ہے کہ ایک عورت کے خاوند کو اغلام بازی کی عادت تھی۔ اس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ اس عورت نے دوسری عورتوں سے ہم جنسی شروع کردی۔ جہاں مردوں میں ہم جنسیت ہے، وہاں عورتوں میں بھی ہے۔ میں آپ کو ایک زندہ مثال پیش کرتا ہوں۔ بیگم پارہ (فلم ایکٹرس) کو تو آپ جانتی ہوں گی۔ اس کا تعلق پروتماواس گپتا سے ہے۔ آپ لکھتی ہیں۔

’’ہمارے ماحول کے مردوں کا کم عمر لڑکوں سے غیر فطری تعلق۔ ‘‘

میں آپ سے عرض کروں، جہاں تک میں سمجھتا ہوں، کوئی چیز غیر فطری نہیں ہوتی۔ انسان کی فطرت میں بُرے سا بُرا اور اچھے سے اچھا فعل موجود ہے۔ اس لیے یہ کہنا نا درست ہے کہ انسان کا فلاں فعل غیر فطری ہے۔ انسان کبھی فطرت کے خلاف جا ہی نہیں جاسکتا، جو اس کی فطرت ہے، وہ اسی کے اندر رہ کر تمام اچھائیاں اور برائیاں کرتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں، آپ شادی شدہ ہیں یا کنواری۔ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی تلخ تجربہ ہوا ہے، جس کی بِنا پر آپ نے مجھے یہ خط لکھا۔ امرد پرستی آج سے نہیں، ہزار ہا سال سے قائم ہے۔ لیکن آج کل اس کارجحان قریب قریب غائب ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں میدانِ عمل میں آگئی ہیں۔ جب امردپرستی زوروں پر تھی، تو اس وقت عورتیں آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی تھیں۔ مرد بھٹکتے بھٹکتے بقول آپ کے کم عمر لڑکوں سے غیرفطری تعلقات قائم کر لیتے تھے۔ مگر اب یہ رجحان بہت حد تک کم ہو گیا ہے۔ آپ عورت ہیں۔ اس لیے آپ کو معلوم نہیں کہ یہ کم عمر لونڈے اب آپ کے رقیب نہیں رہے۔ میں آپ سے ایک اور بات کہوں۔ جس چیز کی طلب ہو وہی منڈی میں آتی ہے۔ پہلے طلب چھوکروں کی تھی، اب چھوکریوں کی ہے۔ آپ یقیناً جانتی ہوں گی کہ آج کل حوّا کی بیٹیاں ٹانگے میں سوار شکار میں مصروف ہوتی ہیں؟۔ میں آپ کو ایک اور بات بتاؤں۔ ایک زمانہ تھا( آج سے بیس بائیس برس پیچھے) جب لاہور میں ایک سکھ لڑکا ٹینی سنگھ ہوتا تھا۔ بڑا خوبصورت۔ اس کے خدوخال کے سامنے کسی بھی حسین لڑکی کے نقش ماند پڑ جاتے۔ اُس نے لاہور میں ایک قیامت بپا کررکھی تھی۔ اس کے عاشق نے اس کو ایک موٹر کار لے دی، تاکہ اسے گورنمنٹ کالج جانے اورگھر تک آنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ میں اب آپ کوکتنے قصّے سناؤں۔ امرتسر میں( جہاں کا میں رہنے والا ہوں) میرا ایک ہندو دوست ہے۔ اچھی شکل وصورت کا تھا۔ ہم دونوں بیٹھک میں باتیں کررہے تھے جو اندر گلی میں تھی۔ اس نے ایک دم مجھ سے چونک کر کہا۔

’’یار باہر بہت شور ہورہا ہے۔ چلو‘‘

میں کانوں سے ذرا بہرا ہوں۔ مجھے شور وور کوئی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ بہر حال میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم باہر نکلے تو بازار کی تمام دکانیں بند تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کانگرس کی کسی تحریک کے باعث ہڑتال ہو گئی ہے۔ چند غنڈے ہاتھ میں ہاکیاں لیے پھر رہے تھے۔ وہ ہمارے پاس آئے، ایک غنڈے کو میں نے پہچان لیا۔ بڑا خطرناک تھا۔ اس نے بڑی نرمی سے میرے ہندو دوست منوہر سے کہا۔

’’باؤ جی۔ آپ اندر چلے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کوکوئی نقصان پہنچ جائے۔ ‘‘

منوہر اور میں واپس گھر چلے آئے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ

’’یہ قصّہ کیا ہے، تو اس نے مجھے بتایا کہ دو آدمی اس سے عشق کرتے ہیں‘‘

۔ بڑا صاف گو تھا۔ ایک پٹرنگوں کے محلے کا تھا۔ دوسرا فرید کے چوک کا۔ منوہر پٹرنگ سے راضی تھا۔ اس لیے ان دونوں میں لڑائی ہوئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شام تک گیارہ آدمی زخمی ہو کر ہسپتال میں تھے اور منوہر بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ اب مجھے آپ سے یہ کہنا ہے۔ بلکہ پوچھنا ہے کہ آپ نے

’’مردوں کا کم عمر لڑکوں سے غیرفطری تعلق کیسے جانا؟‘‘

جیسا کہ میں نے اور میرے دوست وارثی صاحب نے سوچا ہے اس کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ آپ کا شوہر ایسے شغل کرتا ہو گا۔ آپ مجھے اس کے متعلق ضرور لکھیے گا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ شادی شُدہ ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی اور بات ہو۔ دیکھیے میں آپ سے ایک بات عرض کروں۔ قریب قریب ہر لڑکا اپنی جوانی کے ایام میں ایسی حرکتیں کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ نے اپنے لڑکے کے متعلق ہی لکھا ہو۔ اسے تنبیہہ کردینا کافی ہے۔ یا اُس کی شادی کردینا چاہیے۔ کیونکہ ہر عادت پک کر طبیعت بن جاتی ہے۔ اور یہ ایک خوفناک چیز ہے۔ جنس کا احساس صرف بالغ آدمیوں ہی میں نہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں میں بھی ہوتا ہے۔ میں اس کے متعلق تفصیل سے کچھ نہیں کہہ سکتا، اس لیے کہ کہ اردو زبان اس کی متحمل نہیں ہو گی۔ آپ نے جو مجھے چیلنج دیا ہے، قبول ہے۔ میں عر صے سے سوچ رہا تھا کہ جو موضوع آپ نے بتایا ہے، اس پر کوئی افسانہ لکھوں۔ اب یقیناً لکھوں گا، چاہے ایک مقدمہ اور چل جائے۔ آپ مجھے اپنے متعلق تفصیل سے لکھیے، تاکہ میں کوئی اندازہ کرسکوں۔ خاکسار سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو

خدا کی قسم

ادھر سے مسلمان اور ادھر سے ہندو ابھی تک آجارہے تھے۔ کیمپوں کے کیمپ بھرے پڑے تھے۔ جن میں ضرب المثل کے مطابق تل دھرنے کے لیے واقعی کوئی جگہ نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود ان میں ٹھونسے جارہے تھے۔ غلہ ناکافی ہے۔ حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہیں۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس کا ہوش کس کو تھا۔ ایک افراط و تفریط کا عالم تھا۔ سن اڑتالیس کا آغاز تھا۔ غالباً مارچ کا مہینہ۔ اِدھر اور اُدھر دونوں طرف رضا کاروں کے ذریعے سے

’’مغویہ‘‘

عورتوں اور بچوں کی برآمدگی کا مستحسن کام شروع ہو چکا تھا۔ سینکڑوں مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں اس کارِ خیر میں حصہ لے رہی تھیں۔ میں جب ان کو سرگرم عمل دیکھتا تو مجھے بڑی تعجب خیز مسرت حاصل ہوتی، یعنی خود انسان انسان کی برائیوں کے آثار مٹانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ جو عصمتیں لٹ چکی تھیں۔ ان کو مزید لوٹ کھسوٹ سے بچانا چاہتا تھا۔ کس لیے؟۔ اس لیے کہ اس کا دامن مزید دھبوں اور داغوں سے آلودہ نہ ہو؟۔ اس لیے کہ وہ جلدی جلدی اپنی خون سے لتھڑی ہوئی انگلیاں چاٹ لے اور ہم اپنے ہم جنسوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر روٹی کھائے؟۔ اس لیے کہ وہ انسانیت کا سوئی دھاگا لے کر جب تک دوسرے آنکھیں بند کیے ہیں، عصمتوں کے چاک رفو کردے؟۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ان رضا کاروں کی جدوجہد پھر بھی قابل قدر معلوم ہوتی تھی۔ ان کو سینکڑوں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہزاروں کھیکڑے تھے جو انھیں اٹھانے پڑتے تھے کیونکہ جنہوں نے عورتیں اور لڑکیاں اڑائی تھیں، سیماب پاتھے، آج اِدھر، کل اُدھر، ابھی اس محلے میں، ابھی اُس محلے میں اور پھر آس پاس کے آدمی بھی ان کی مدد نہیں کرتے تھے۔ عجیب عجیب داستانیں سننے میں آتی تھیں۔ ایک لیا ژاں افسر نے مجھے بتایا کہ سہارن پور میں دو لڑکیوں نے پاکستان میں اپنے والدین کے پاس جانے سے انکارکردیا۔ دوسرے نے بتایا کہ جب جالندھر میں زبردستی ہم نے ایک لڑکی کو نکالا تو قابض کے سارے خاندان نے اسے یوں الوداع کہی جیسے وہ ان کی بہوہے، اور کسی دور دراز سفر پر جارہی ہے۔ کئی لڑکیوں نے راستہ میں والدین کے خوف سے خود کشی کرلی، بعض صدموں کی تاب نہ لا کر پاگل ہوچکی تھیں، کچھ ایسی بھی تھیں جن کو شراب کی لت پڑ چکی تھی، ان کو پیاس لگتی تو پانی کی بجائے شراب مانگتیں اور ننگی ننگی گالیاں بکتیں۔ میں ان برآمد کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کے متعلق سوچتا تو میرے ذہن میں صرف پُھولے ہوئے پیٹ ابھرتے۔ ان پیٹوں کا کیا ہو گا؟ ان میں جوکچھ بھرا ہے اس کا مالک کون ہے؟ پاکستان یا ہندوستان؟ اور وہ نو مہینوں کی بار برداری۔ اس کی اُجرت پاکستان ادا کرے گا یا ہندوستان؟ کیا یہ سب ظالم فطرت یہ بہی کھاتے میں درج ہو گا؟۔ مگر کیا اس میں کوئی صفحہ خالی رہ گیا ہے؟ برآمدہ عورتیں آرہی تھیں، برآمدہ عورتیں جارہی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ یہ عورتیں مغویہ کیوں کہلائی جاتی تھیں؟۔ انھیں اغوا کب کیا گیا ہے؟۔ اغوا تو ایک بڑا رومانٹک فعل ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ تو ایک ایسی کھائی ہے جس کو پھاندنے سے پہلے دونوں روحوں کے سارے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں، لیکن یہ اغوا کیسا ہے کہ ایک نہتی کو پکڑ کر کوٹھری میں قید کرلیا۔ لیکن وہ زمانہ ایسا تھا کہ منطق، استدلال اور فلسفہ بیکار چیزیں تھیں۔ ان دنوں جس طرح گرمیوں میں بھی دروازے اور کھڑکیاں بند کرتے سوتے تھے اسی طرح میں نے بھی، اپنے دل و دماغ کی بھی سب کھڑکیاں دروازے بند کردیے تھے، حالانکہ انھیں کُھلا رکھنے کی زیادہ ضرورت اسی وقت تھی۔ لیکن میں کیا کرتا۔ مجھے کچھ سوجھتا نہیں تھا۔ برآمدہ عورتیں آرہی تھیں، برآمدہ عورتیں جارہی تھیں۔ یہ درآمد اور برآمد جاری تھی۔ تمام تاجرانہ خصوصیات کے ساتھ! صحافی، افسانہ نگار اور شاعر اپنے قلم اٹھائے شکارمیں مصروف تھے۔ لیکن افسانوں اور نظموں کا ایک سیلاب تھا جو اُمڈا چلا آرہا تھا۔ فلموں کے قدم اُکھڑ اُکھڑ جاتے تھے۔ اتنے صید تھے کہ سب بوکھلا گئے تھے۔ ایک لیاژاں افسر مجھ سے ملا، کہنے لگا۔

’’تم کیوں گُم سُم رہتے ہو؟ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے مجھے ایک داستان سنائی۔ مغویہ عورتوں کی تلاش میں ہم مارے مارے پھرتے ہیں۔ ایک شہر، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں۔ پھر تیسرے گاؤں، پھر چوتھے۔ گلی گلی، محلے محلے۔ کوچے کوچے۔ بڑی مشکلوں سے گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے۔ میں نے دل میں کہا۔

’’کیسے گوہر۔ کیسے زاسفتہ۔ یا سفتہ؟ تمہیں معلوم نہیں، ہمیں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں تمہیں ایک بات بتلانے والا تھا۔ ہم بارڈر کے اس پار سینکڑوں پھیرے کرچکے ہیں عجیب بات ہے کہ میں نے ہر پھیرے میں ایک مسلمان بڑھیا کو دیکھا۔ اُدھیر عمر کی تھی۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے جالندھرکی بستیوں میں دیکھا، پریشان حال۔ ماؤف دماغ، ویران ویران آنکھیں۔ گردوغبار سے اٹے ہوئے بال، پھٹے ہوئے کپڑے، اسے تن کا ہوش تھا نہ من کا۔ لیکن اس کی نگاہوں سے یہ صاف ظاہر تھا کہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ مجھے۔ بہن نے بتایا کہ یہ عورت صدمہ کے باعث پاگل ہو گئی ہے۔ پٹیالہ کی رہنے والی ہے۔ اس کی اکلوتی لڑکی تھی جو اسے نہیں ملتی، ہم نے بہت جتن کیے ہیں اسے ڈھونڈنے کے لیے ناکام رہے ہیں۔ غالباً بلوؤں میں ماری گئی ہے لیکن یہ بڑھیا نہیں مانتی۔ دوسری مرتبہ میں نے اس پگلی کو سہارن پور کے لاریوں کے اڈے پر دیکھا، اس کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ ابتر اور خستہ تھی۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی موٹی پپڑیاں جمی تھیں، بال سادھوں کے سے بنے تھے۔ میں نے اس سے بات چیت کی اور چاہا کہ وہ اپنی موہوم تلاش چھوڑ دے۔ چنانچہ میں نے اس سے بہت سنگ دل بن کر کہا۔

’’مائی تیری لڑکی قتل کردی گئی تھی۔ ‘‘

پگلی نے میری طرف دیکھا۔

’’قتل؟۔ نہیں نہیں۔ ‘‘

اس کے بعد لہجے میں فولادی تیقن پیدا ہو گئی۔

’’اسے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ میری بیٹی کوکوئی قتل نہیں کرسکتا۔ ‘‘

اور وہ چلی گئی، اپنی موہوم تلاش میں۔ میں نے سوچا ایک تلاش اور پھر موہوم!۔ لیکن پگلی کوکیوں اتنا یقین تھا کہ اس کی بیٹی پر کوئی کرپان نہیں اٹھ سکتی۔ کوئی تیز دھار یا چُھرا اس کی گردن کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ کیا وہ امر تھی یا اس کی مامتا امر تھی۔ مامتا توخیر امرہوتی ہے۔ پھر کیا وہ اپنی ممتا ڈھونڈ رہی تھی۔ کیا اس نے اسے کہیں کھو دیا۔ ؟ تیسرے پھیرے پر پھر میں نے اسے دیکھا۔ اب وہ بالکل چیتھڑوں میں تھی، قریب قریب ننگی، میں نے اسے کپڑے دیے۔ لیکن اس نے قبول نہ کیے۔ میں نے اس سے کہا۔

’’مائی میں سچ کہتا ہوں، تیری لڑکی پٹیالہ ہی میں قتل کردی گئی تھی۔ ‘‘

اس نے پھر اسی فولادی تیقن کے ساتھ کہا۔

’’تو جھوٹ کہتا ہے۔ ‘‘

میں نے اس سے اپنی بات منوانے کی خاطر۔

’’نہیں میں سچ کہتا ہوں، کافی رو پیٹ لیا ہے تم نے۔ چلو میرے ساتھ میں تم کو پاکستان لے چلوں گا۔ ‘‘

اس نے میری بات نہ سنی اور بڑبڑانے لگی۔ بڑبڑاتے بڑبڑاتے وہ ایک دم چونکی، اب اس کے لہجے میں تیقن فولاد سے بھی زیادہ ٹھوس تھا۔

’’نہیں میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کرسکتا!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

بڑھیا نے ہولے ہولے کہا۔

’’وہ خوبصورت ہے۔ اتنی خوبصورت کہ اسے کوئی قتل نہیں کرسکتا۔ اسے طمانچہ تک نہیں مار سکتا۔ ‘‘

میں سوچنے لگ

’’کیا وہ واقعی اتنی خوبصورت تھی۔ ؟ ہر ماں کی آنکھوں میں اس کی اولاد چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہوتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ لڑکی در حقیقت خوبصورت ہو۔ مگر اس طوفان میں کون سی خوبصورتی ہے جو انسان کے کُھر درے ہاتھوں سے بچی ہے۔ ہو سکتا ہے پگلی اس خیال خام کو دھوکا دے رہی ہے۔ فرار کے لاکھوں راستے ہیں۔ دکھ ایک ایسا چوک ہے جو اپنے گرد لاکھوں بلکہ کروڑوں سڑکوں کا جال بُن دیکھا ہے۔ ‘‘

بارڈر کے اس پار کئی پھیرے ہوئے۔ ہر بار میں نے اس پگلی کو دیکھا۔ اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی۔ بینائی کمزور ہو چکی تھی، ٹٹول کر چلتی تھی، مگر اس کی تلاش جاری تھی بڑی شدومد سے۔ اس کا یقین اسی طرح مستحکم تھا کہ اس کی بیٹی زندہ ہے، اس لیے کہ اسے کوئی مار نہیں سکتا۔ ۔ بہن نے مجھ سے کہا کہ

’’اس عورت سے مغز ماری فضول ہے۔ اس کا دماغ چل چکا ہے بہتر یہی ہے کہ تم اسے پاکستان لے جاؤ اور پا گل خانہ میں داخل کرادو۔ ‘‘

میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں اس کی موہوم تلاش جو اس کی زندگی کا واحد سہارا تھی، میں اس سے چھیننا نہیں چاہتا تھا۔ میں اسے ایک وسیع و عریض پاگل خانے سے، جس میں وہ میلوں کی مسافت طے کرکے، اپنے پاؤں کے آبلوں کی پیاس بجھا سکتی تھی، اٹھا کر ایک مختصر سی چار دیواری میں قید کرانا نہیں چاہتا تھا۔ آخری بار میں نے اسے امرتسر میں دیکھا۔ اس کی شکستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے، میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اسے پاکستان لے جاؤں گا اور پاگل خانے میں داخل کرادوں گا۔ وہ فرید کے چوک میں کھڑی اپنی نیم اندھی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ چوک میں کافی چہل پہل تھی۔ میں بہن کے ساتھ ایک دکان پر بیٹھا ایک مغویہ لڑکی کے متعلق بات چیت کررہا تھا، جس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ بازار صبونیاں میں ایک ہندو بنیے کے گھر موجود ہے۔ یہ گفتگو ختم ہوئی تو میں اٹھا کہ اس پگلی سے جھوٹ سچ کہہ کر اسے پاکستان جانے کے لیے آمادہ کروں کہ ایک جوڑا ادھر سے گزرا۔ عورت نے گھونگٹ کاڑھا ہوا تھا۔ چھوٹا سا گھونگٹ۔ اس کے ساتھ ایک سکھ نوجوان تھا۔ بڑا چھیل چھبیلا، بڑا تندرست اور تیکھے تیکھے نقشوں والا۔ جب یہ دونوں اس پگلی کے پاس سے گزرے تو نوجوان ایک دم کھٹک گیا۔ دو قدم پیچھے ہٹ کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا، کچھ اس اچانک طور پر کہ لڑکی نے اپنا چھوٹا سا گھونگٹ اٹھایا لٹھے کی دھلی ہوئی چادر پہ چوکھٹے میں مجھے ایک ایسا گلابی چہرہ نظر آیا جس کا حسن بیان کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔ میں ان کے بالکل پاس تھا، سکھ نوجوان نے اس حسن و جمال کی دیوی سے اس پگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔

’’تمہاری ماں!‘‘

لڑکی نے ایک لحظے کے لیے پگلی کی طرف دیکھا اور گھونگٹ چھوڑ لیا اور سکھ نوجوان کا بازو پکڑ کر بھینچے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’چلو!‘‘

اور وہ دونوں سڑک سے ادھر ذرا ہٹ کر تیزی سے آگے نکل گئے۔ پگلی چلائی۔

’’بھاگ بھری۔ بھاگ بھری۔ ‘‘

وہ سخت مضطرب تھی۔ میں نے پاس جا کر پوچھا

’’کیا بات ہے مائی؟‘‘

وہ کانپ رہی تھی۔

’’میں نے اس کو دیکھا ہے۔ میں نے اس کو دیکھا ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیسے؟‘‘

اس کے ماتھے کے نیچے دو گڑھوں میں اس کی آنکھوں کے بے نور ڈھلے متحرک تھے۔

’’اپنی بیٹی کو۔ بھاگ بھری کو!‘‘

۔ میں نے پھر سے کہا۔

’’وہ مر کھپ چکی ہے مائی‘‘

اس نے چیخ کر کہا۔

’’تم جھوٹ کہتے ہو۔ !‘‘

میں نے اسم مرتبہ اس کو پورا یقین دلانے کی خاطر کہا۔

’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، وہ مر چکی ہے۔ ‘‘

یہ سنتے ہی وہ پگلی چوک میں ڈھیر ہو گئی۔

سعادت حسن منٹو

خالی بوتلیں، خالی ڈبے

یہ حیرت مجھے اب بھی ہے کہ خاص طور پر خالی بوتلوں اور ڈبوں سے مجرد مردوں کو اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟۔ مجرد مردوں سے میری مراد ان مردوں سے ہے جن کو عام طور پر شادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یوں تو اس قسم کے مرد عموماً سنکی اور عجیب و غریب عادات کے مالک ہوتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انھیں خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کیوں اتنا پیار ہوتا ہے؟۔ پرندے اور جانور اکثر ان لوگوں کے پالتو ہوتے ہیں۔ یہ میلان سمجھ میں آسکتا ہے کہ تنہائی میں ان کا کوئی تو مونس ہونا چاہیے، لیکن خالی بوتلیں اور خالی ڈبے ان کی کیا غمگساری کرسکتے ہیں؟ سنک اور عجیب و غریب عادات کا جواز ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں کہ فطرت کی خلاف ورزی ایسے بگاڑ پیدا کرسکتی ہے، لیکن اس کی نفسیاتی باریکیوں میں جانا البتہ بہت مشکل ہے۔ میرے ایک عزیز ہیں۔ عمر آپ کی اس وقت پچاس کے قریب قریب ہے آپ کو کبوتر اور کتے پالنے کا شوق ہے اور اس میں کوئی عجیب و غریب پن نہیں لیکن آپ کو یہ مرض ہے کہ بازار سے ہر روز دودھ کی بالائی خرید کر لاتے ہیں۔ چولھے پر رکھ کر اس کا روغن نکالتے ہیں اور اس روغن میں اپنے لیے علیحدہ سالن تیار کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح خالص گھی تیار ہوتا ہے۔ پانی پینے کے لیے اپنا گھڑا الگ رکھتے ہیں۔ اس کے منہ پر ہمیشہ ململ کا ٹکڑا بندھا رہتاہے۔ تاکہ کوئی کیڑا مکوڑا اندر نہ چلا جائے، مگر ہوا برابر داخل ہوتی رہے۔ پاخانے جاتے وقت سب کپڑے اتار کر ایک چھوٹا سا تولیہ باندھ لیتے ہیں اور لکڑی کی کھڑاؤں پہن لیتے ہیں۔ اب کون ان کی بالائی کے روغن، ؍ گھڑے کی ململ، انگ کے تولیے اور لکڑی کی کھڑاؤں کے نفسیاتی عقدے کو حل کرنے بیٹھے! میرے ایک مجرو دوست ہیں۔ بظاہر بڑے ہی نورمل انسان۔ ہائی کورٹ میں ریڈر ہیں۔ آپ کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کا رومال سدا ان کی ناک سے چپکا رہتا ہے۔ آپ کو خرگوش پالنے کا شوق ہے۔ ایک اور مجرد ہیں۔ آپ کو جب موقعہ ملے تو نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا دماغ بالکل صحیح ہے۔ سیاسیاتِ عالم پر آپ کی نظر بہت وسیع ہے۔ طوطوں کو باتیں سکھانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ ملٹری کے ایک میجر ہیں۔ سن رسیدہ اور دولت مند۔ آپ کو حُقّے جمع کرنے کا شوق ہے۔ گڑگڑیاں، پیچواں، چموڑے، غرضیکہ ہر قسم کا حقہ ان کے پاس موجود ہے۔ آپ کئی مکانوں کے مالک ہیں، مگر ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے کررہتے ہیں۔ بٹیریں آپ کی جان ہیں۔ ایک کرنل صاحب ہیں۔ ریٹائرڈ۔ بہت بڑی کوٹھی میں۔ اکیلے دس بارہ چھوٹے بڑے کتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر برانڈ کی وسکی ان کے یہاں موجود رہتی ہے۔ ہر روز شام کو چار پیگ پیتے ہیں اور اپنے ساتھ کسی نہ کسی لاڈلے کتے کو بھی پلاتے ہیں۔ میں نے اب تک جتنے مجردوں کا ذکر کیا ہے، ان سب کو حسبِ توفیق خالی بوتلوں اور ڈبوں سے دلچسپی ہے۔ میرے، دودھ کی بالائی سے خالص گھی تیار کرنے والے عزیز، گھر میں جب بھی کوئی خالی بوتل دیکھیں تو اسے دھو دھا کر اپنی الماری میں سجا دیتے ہیں کہ ضررت کے وقت کام آئے گی۔ ہائی کورٹ کے ریڈر جن کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے صرف ایسی بوتلیں اور ڈبے جمع کرتے ہیں، جن کے متعلق وہ اپنا پورا اطمینان کرلیں کہ اب ان سے بدبو آنے کا کوئی احتمال نہیں رہا۔ جب موقعہ ملے، نماز پڑھنے والے، خالی بوتلیں آب دست کے لیے اور ٹین کے خالی ڈبے وضو کے لیے درجنوں کی تعداد میں جمع رکھتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق یہ دونوں چیزیں سستی اور پاکیزہ رہتی ہیں۔ قسم قسم کے حقے جمع کرنے والے میجر صاحب کو خالی بوتلیں اور خالی ڈبے جمع کرکے ان کو بیچنے کا شوق ہے اور ریٹائرڈ کرنل صاحب کو صرف وسکی کی بوتلیں جمع کرنے کا۔ آپ کرنل صاحب کے ہاں جائیں تو ایک چھوٹے، صاف ستھرے کمرے میں کئی شیشے کی الماریوں میں آپ کو وسکی کی خالی بوتلیں سجی ہوئی نظر آئیں گی۔ پرانے سے پرانے برانڈ کی وسکی کی خالی بوتل بھی آپ کو ان کے اس نادر مجموعے میں مل جائے گی۔ جس طرح لوگوں کو ٹکٹ اور سکے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، اسی طرح ان کو وسکی کی خالی بوتلیں جمع کرنے اور ان کی نمائش کرنے کا شوق بلکہ خبط ہے۔ کرنل صاحب کا کوئی عزیز، رشتہ دار نہیں۔ کوئی ہے تو اس کا مجھے علم نہیں۔ دنیا میں تن تہا ہیں۔ لیکن وہ تنہائی بالکل محسوس نہیں کرتے۔ دس بارہ کتے ہیں ان کی دیکھ بھال وہ اس طرح کرتے ہیں جس طرح شفیق باپ اپنی اولاد کی کرتے ہیں۔ سارا دن ان کا ان پالتو حیوانوں کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ فرصت کے وقت وہ الماریوں میں اپنی چہیتی بوتلیں سنوارتے رہتے ہیں۔ آپ پوچھیں گے، خالی بوتلیں تو ہوئیں۔ یہ تم نے خالی ڈبے کیوں ساتھ لگا دیے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ تجرو پسند مردوں کو خالی بوتلوں کے ساتھ ساتھ خالی ڈبوں کے ساتھ بھی دلچسپی ہو؟۔ اور پھر ڈبے اور بوتلیں، صرف خالی کیوں؟ بھری ہوئی کیوں نہیں؟۔ میں آپ سے شاید پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مجھے خود اس بات کی حیرت ہے۔ یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے سوال اکثر میرے دماغ میں پیدا ہو چکے ہیں۔ باوجود کوشش کے میں ان کا جواب حاصل نہیں کرسکتا۔ خالی بوتلیں اور خالی ڈبے، خلا کا نشان ہیں اور خلا کا کوئی منطقی جوڑ تجرو پسند مردوں سے غالباً یہی ہو سکتا ہے کہ خود ان کی زندگی میں ایک خلا ہوتا ہے، لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا وہ اس خلا کو ایک اور خلا سے پُر کرتے ہیں؟۔ کتوں بلیوں خرگوشوں اور بندروں کے متعلق آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ خالی خولی زندگی کی کمی ایک حد تک پوری کرسکتے ہیں کہ وہ بدل بہلا سکتے ہیں، ناز نخرے کرسکتے ہیں۔ دل چسپ حرکات کے موجب ہو سکتے ہیں، پیار کا جواب بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن خالی بوتلیں اور ڈبے دلچسپی کا کیا سامان بہم پہنچاتے ہیں؟ بہت ممکن ہے آپ کو ذیل کے واقعات میں ان سوالوں کا جواب مل جائے۔ دس برس پہلے میں جب بمبئی گیا تو وہاں ایک مشہور فلم کمپنی کا ایک فلم تقریباً بیس ہفتوں سے چل رہا تھا۔ ہیروئن پرانی تھی، لیکن ہیرو نیا تھا جو اشتہاروں میں چھپی ہوئی تصویروں میں نوخیز دکھائی دیتا تھا۔ اخباروں میں اس کی کردار نگاری کی تعریف پڑھی تو میں نے یہ فلم دیکھا۔ اچھا خاصا تھا۔ کہانی جاذب توجہ تھی اور اس نئے ہیرو کا کام بھی اس لحاظ سے قابل تعریف تھا کہ اس نے پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کیا تھا۔ پردے پر کسی ایکٹر یا ایکٹرس کی عمر کا اندازہ لگانا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ میک اپ جوان کو بوڑھا اور بوڑھے کو جوان بنا دیتا ہے، مگر یہ نیا ہیرو بلاشبہ نوخیز تھا۔ کالج کے طالب علم کی طرح تروتازہ اور چاق و چوبند۔ خوبصورت تو نہیں تھا مگر اس کے گٹھے ہوئے جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھا۔ اس فلم کے بعد اس ایکٹر کے میں نے اور کئی فلم دیکھے۔ اب وہ منجھ گیا تھا۔ چہرے کے خط و خال کی طفلانہ نرمائش، عمر اور تجربے کی سختی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا شمار اب چوٹی کے اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں ایکٹر کا فلاں ایکٹرس سے تعلق ہو گیا ہے۔ فلاں ایکٹرس، فلاں ایکٹر کو چھوڑ کر فلاں ڈائریکٹر کے پہلو میں چلی گئی ہے۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ہر ایکٹرس کے ساتھ کوئی نہ کوئی رومان جلد یا بدیر وابستہ ہو جاتا ہے، لیکن اس نئے ہیرو کی زندگی جس کا میں ذکرکررہا ہوں ان بکھیڑوں سے پاک تھی، مگر اخباروں میں اس کا چرچا نہیں تھا۔ کسی نے بھولے سے حیرت کا بھی اظہار نہیں کیا تھا کہ فلمی دنیا میں رہ کر رام سروپ کی زندگی جنسی آلائشوں سے پاک ہے۔ میں نے سچ پوچھئے تو اس بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے کہ مجھے ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی نجی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ فلم دیکھا۔ اس کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کی اور بس۔ لیکن جب رام سروپ سے میری ملاقات ہوئی تو مجھے اس کے متعلق بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئیں۔ یہ ملاقات اس کا پہلا فلم دیکھنے کے تقریباً آٹھ برس بعد ہوئی۔ شروع شروع میں تو وہ بمبئے سے بہت دور ایک گاؤں میں رہتا تھا، مگر اب فلمی سرگرمیاں بڑھ جانے کے باعث اس نے شیواجی پارک میں سمندر کے کنارے ایک متوسط درجے کا فلیٹ لے رکھا تھا۔ اس سے میری ملاقات اسی فلیٹ میں ہوئی جس کے چار کمرے تھے، باورچی خانے سمیت۔ اس فلیٹ میں جو کنبہ رہتا تھا۔ اس کے آٹھ افراد تھے۔ خود رام سروپ۔ اس کا نوکر جو باورچی بھی تھا۔ تین کتے۔ دو بندر اور ایک بلی۔ رام سروپ اور اس کا نوکر مجرد تھے۔ تین کتوں اور ایک بلی کے مقابلے میں ان کی مخالف جنس نہیں تھی، ۔ ایک بندر تھا اور ایک بندریا۔ دونوں اکثر اوقات ایک جالی دار پنجرے میں بند رہتے تھے۔ ان نصف درجن حیوانوں کے ساتھ رام سروپ کو والہانہ محبت تھی۔ نوکر کے ساتھ بھی اس کا سلوک بہت اچھا تھا مگر اس میں جذبات کا دخل بہت کم تھا۔ بندھے کام تھے جو مقررہ وقت پر مشین کی سی بے روح باقاعدگی کے ساتھ گویا خود بخود ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رام سروپ نے اپنے نوکر کو اپنی زندگی کے تمام قواعد و ضوابط ایک پرچے پر لکھ کر دے دیے تھے جو اس نے حفظ کرلیے تھے۔ اگر رام سروپ کپڑے اتار کر، نیکر پہننے لگے تو اس کا نوکر فوراً تین چار سوڈے اور برف کی فلاسک شیشے والی تپائی پر رکھ دیتا تھا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ صاحب رَم پی کر اپنے کتوں کے ساتھ کھیلیں گے اور جب کسی کا ٹیلی فون آئے گا تو کہہ دیا جائیگا کہ صاحب گھر پر نہیں ہیں۔ رم کی بوتل یا سگریٹ کا ڈبہ جب خالی ہو گا تو اسے پھینکا یا بیچا نہیں جائیگا، بلکہ احتیاط سے اس کمرے میں رکھ دیا جائے گا جہاں خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار لگے ہیں۔ کوئی عورت ملنے کے لیے آئیگی تو اسے دروازے ہی سے یہ کہہ کر واپس کردیا جائے گا کہ رات صاحب کی شوٹنگ تھی، اس لیے سو رہے ہیں۔ ملاقات کرنے والی شام کو یا رات کو آئے تو اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ صاحب شوٹنگ پر گئے ہیں۔ رام سروپ کا گھر تقریباً ویسا ہی تھا جیسا کہ عام طور پر اکیلے رہنے والے مجرد مردوں کا ہوتا ہے، یعنی وہ سلیقہ، قرینہ اور رکھ رکھاؤ غائب تھا جو نسائی لمس کا خاصا ہوتا ہے۔ صفائی تھی مگر اس میں کُھرا پن تھا۔ پہلی مرتبہ جب میں اس کے فلیٹ میں داخل ہوا تو مجھے بہت شدت سے محسوس ہوا کہ میں چڑیا گھر کے اس حصے میں داخل ہو گیا ہوں۔ جو شیر، چیتے اور دوسرے حیوانوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ کیونکہ ویسی ہی بو آرہی تھی۔ ایک کمرا سونے کا تھا، دوسرا بیٹھنے کا، تیسرا خالی بوتلوں اور ڈبوں کا۔ اس میں رَم کی وہ تمام بوتلیں اور سگریٹ کے وہ تمام ڈبے موجود تھے جو رام سروپ نے پی کر خالی کیے تھے۔ کوئی اہتمام نہیں تھا۔ بوتلوں پر ڈبے اور ڈبوں پر بوتلیں اوندھی سیدھی پڑی ہیں۔ ایک کونے میں قطار لگی ہے تو دوسرے کونے میں انباہ گرد جمی ہوئی ہے، اور باسی تمباکو اور باسی رَم کی ملی جلی تیز بو آرہی ہے۔ میں نے جب پہلی مرتبہ یہ کمرہ دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ ان گنت بوتلیں اور ڈبے تھے۔ سب خالی ہیں۔ میں نے رام سروپ سے پوچھا۔

’’کیوں بھئی، یہ کیا سلسلہ ہے؟‘‘

اس نے پوچھا۔

’’کیسا سلسلہ؟‘‘

میں نے کہا۔

’’یہ۔ یہ کباڑ خانہ؟‘‘

اس نے صرف اتنا کہا۔

’’جمع ہو گیا ہے!‘‘

یہ سن کر میں نے بولتے ہوئے سوچا۔

’’اتنا!۔ اتنا کوڑا جمع ہونے میں کم از کم سات آٹھ برس چاہئیں۔ ‘‘

میرا اندازہ غلط نکلا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا یہ ذخیرہ پورے دس برس کا تھا۔ جب وہ شیوا جی پارک رہنے آیا تھا تو وہ تمام بوتلیں اور ڈبے اٹھوا کے اپنے ساتھ لے آیا تھا جو اس کے پرانے مکان میں جمع ہو چکے تھے۔ ایک بار میں نے اس سے کہا۔

’’سروپ، تم یہ بوتلیں اور ڈبے بیچ کیوں نہیں دیتے؟۔ میرا مطلب ہے، اول تو ساتھ ساتھ بیچتے رہنا چاہئیں۔ پر اب کہ اتنا انبار جمع ہو چکا ہے اور جنگ کے باعث دام بھی اچھے مل سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تمہیں یہ کباڑخانہ اٹھوا دینا چاہیے!‘‘

اس نے جواب میں صرف اتنا کہا۔

’’ہٹاؤ یار۔ کون اتنی بک بک کرے!‘‘

اس جواب سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اسے خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن مجھے نوکر سے معلوم ہوا کہ اگر اس کمرے میں کوئی بوتل یا ڈبہ اِدھر کا اُدھر ہو جائے تو رام سروپ قیامت برپا کردیتا تھا۔ عورت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میری، اس کی بہت بے تکلفی ہو گئی تھی۔ باتوں باتوں میں مَیں نے کئی بار اس سے دریافت کیا۔

’’کیوں بھئی شادی کب کرو گے؟‘‘

اور ہر بار اس قسم کا جواب ملا۔

’’شادی کرکے کیا کروں گا؟‘‘

میں نے سوچا، واقعی رام سروپ شادی کرکے کیا کرے گا؟۔ کیا وہ اپنی بیوی کو خالی بوتلوں اور ڈبوں والے کمرے میں بند کردے گا؟۔ یا سب کپڑے اتار، نیکر پہن کر رم پیتے اس کے ساتھ کھیلا کرے گا؟۔ میں اس سے شادی بیاہ کا ذکر تو اکثر کرتا تھا مگر تصور پر زور دینے کے باوجود اسے کسی عورت سے منسلک نہ دیکھ سکتا۔ رام سروپ سے ملتے ملتے کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی مرتبہ میں نے اڑتی اڑتی سنی کہ اسے ایک ایکٹرس سے جس کا نام شیلا تھا، عشق ہو گیا ہے۔ مجھے اس افواہ کا بالکل یقین نہ آیا۔ اول تو رام سروپ سے اس کی توقع ہی نہیں تھی۔ دوسرے شیلا سے کسی بھی ہوش مند نوجوان کو عشق نہیں ہوسکتا تھا، کیونکہ وہ اس قدر بیجان تھی کہ دق کی مریض معلوم ہوتی تھی۔ شروع شروع میں جب وہ ایک دو فلموں میں آئی تھی تو کسی قدر گوارا تھی مگر بعد میں تو وہ بالکل ہی بے کیف اور بے رنگ ہو گئی تھی اور صرف تیسرے درجے کے فلموں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی۔ میں نے صرف ایک مرتبہ اس شیلا کے بارے میں رام سروپ سے دریافت کیا تو اس نے مسکرا کر کہا۔

’’میرے لیے کیا یہی رہ گئی تھی!‘‘

اس دوران میں اس کا سب سے پیارا کتا اسٹالن نمونیہ میں گرفتار ہو گیا۔ رام سروپ نے دن رات بڑی جانفشانی سے اس کا علاج کیا مگر وہ جانبر نہ ہوا۔ اس کی موت سے اسے بہت صدمہ ہوا۔ کئی دن اس کی آنکھیں اشک آلود رہیں، اور جب اس نے ایک روز باقی کتے کسی دوست کو دے دیے تو میں نے خیال کہ اس نے اسٹالن کی موت کے صدمے کے باعث ایسا کیا ہے، ورنہ وہ ان کی جدائی کبھی برداشت نہ کرتا۔ کچھ عرصے کے بعد جب اس نے بندر اور بندریا کو بھی رخصت کردیا تو مجھے کسی قدر حیرت ہوئی، لیکن میں نے سوچا کہ اس کا دل اب اور کسی کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ اب وہ نیکر پہن کر رم پیتے ہوئے صرف اپنی بلی نرگس سے کھیلتا تھا۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرنے لگی تھی، کیونکہ رام سروپ کا سارا دن التفات اب اسی کے لیے موقوف ہو گیا تھا۔ اب اس کے گھر سے شیر، چیتوں کی بو نہیں آتی تھی۔ صفائی میں کسی قدر نظر آجانے والا سلیقہ اور قرینہ بھی پیدا ہو چلا تھا، اس کے اپنے چہرے پر ہلکا سا نکھار آگیا تھا مگر یہ سب کچھ اس قدر آہستہ آہستہ ہوا تھا کہ اس کے نقطہ آغا کا پتا چلانا بہت مشکل تھا۔ دن گزرتے گئے۔ رام سروپ کا تازہ فلم ریلیز ہوا تو میں نے اس کی کردار نگاری میں ایک نئی تازگی دیکھی۔ میں نے اسے مبارک باد دی تو وہ مسکرا دیا

’’لو، وسکی پیو!‘‘

میں نے تعجب سے پوچھا۔

’’وسکی؟‘‘

اس لیے کہ وہ صرف رَم پینے کا عادی تھا۔ پہلی مسکراہٹ کو ہونٹوں میں ذرا سکیڑتے ہوئے اس نے جواب دیا۔

’’رم پی پی کر تنگ آگیا ہوں۔ ‘‘

میں نے اس سے اور کچھ نہ پوچھا۔ آٹھویں روز جب اس کے ہاں شام کو گیا تو وہ قمیض پانجامہ پہنے، رم۔ نہیں، وسکی پی رہا تھا۔ دیر تک ہم تاش کھیلتے اور وسکی پیتے رہ۔ اس دوران میں مَیں نے نوٹ کیا کہ وسکی کا ذائقہ اس کی زبان اور تالو پر ٹھیک نہیں بیٹھ رہا، کیونکہ گھونٹ بھرنے کے بعد وہ کچھ اس طرح منہ بناتا تھا جیسے کسی ان چکھی چیز سے اس کا واسطہ پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’تمہاری طبیعت قبول نہیں کررہی وسکی کو؟‘‘

اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’آہستہ آہستہ قبول کرلے گی۔ ‘‘

رام سروپ کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ ایک روز میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ دیکھا، نیچے گراج کے پاس خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار کے انبار پڑے ہیں۔ سڑک پر دو چھکڑے کھڑے ہیں جن میں تین چار کباڑیئے ان کو لاد رہے ہیں، میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، کیونکہ یہ خزانہ رام سروپ کے علاوہ اور کس کا ہو سکتا تھا۔ آپ یقین جانئے۔ اس کو جدا ہوتے دیکھ کر میں نے اپنے دل میں ایک عجیب قسم کا درد محسوس کیا۔ دوڑا اوپر گیا۔ گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا میں نے اندر داخل ہونا چاہا تو نوکر نے خلافِ معمول راستہ روکتے ہوئے کہا۔

’’صاحب، رات شوٹنگ پر گئے تھے۔ اس وقت سو رہے ہیں۔ ‘‘

میں حیرت سے اور غصے سے بوکھلا گیا۔ کچھ بڑبڑایا اور چل دیا۔ اسی روز شام کو رام سروپ میرے ہاں آیا۔ اس کے ساتھ شیلا تھی، نئی بنارسی ساڑھی میں ملبوس۔ رام سروپ نے اس کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہا۔

’’میری دھرم پتنی سے ملو۔ ‘‘

اگر میں نے وسکی کے چار پیگ نہ پئے ہوئے تو یقیناً یہ سن کر بے ہوش ہو گیا ہوتا۔ رام سروپ اور شیلا صرف تھوڑی دیر بیٹھے اور چلے گئے۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ بنارسی ساڑھی میں شیلا کس سے مشابہ تھی۔ دبلے پتلے بدن ہلکے بادامی رنگ کی کاغذی سی ساڑھی۔ کسی جگہ پھولی ہوئی، کسی جگہ دبی ہوئی۔ ایک دم میری آنکھوں کے سامنے ایک خالی بوتل آگئی، باریک کاغذ میں لپٹی ہوئی۔ شیلا عورت تھی۔ بالکل خالی، لیکن ہو سکتا ہے ایک خلا نے دوسرے خلا کو پر کردیا ہو۔

سعادت حسن منٹو

خالد میاں

ممتاز نے صبح سویرے اٹھ کر حسب معمول تینوں کمرے میں جھاڑو دی۔ کونے کھدروں سے سگرٹوں کے ٹکڑے، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اور اسی طرح کی اور چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ جب تینوں کمرے اچھی طرح صاف ہو گئے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کی بیوی باہر صحن میں سورہی تھی۔ بچہ پنگوڑے میں تھا۔ ممتاز ہر صبح سویرے اٹھ کر صرف اس لیے خود تینوں کمروں میں جھاڑو دیتا تھا کہ اس کا لڑکا خالد اب چلتا پھرتا تھا اور عام بچوں کے مانند، ہر چیز جو اس کے سامنے آئے، اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا تھا۔ ممتاز ہر روز تینوں کمرے بڑے احتیاط سے صاف کرتا مگر اس کو حیرت ہوتی جب خالد فرش پر اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کی مدد سے کوئی نہ کوئی چیز اٹھا لیتا۔ فرش کا پلستر کئی جگہ اکھڑا ہوا تھا۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے چھوٹے چھوٹے ذرے پھنس جاتے تھے۔ ممتاز اپنی طرف سے پوری صفائی کرتا مگر کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا جو اس کا پلوٹھی کا بیٹا خالد جس کی عمر ابھی ایک برس کی نہیں ہوئی تھی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتا۔ ممتاز کو صفائی کا خبط ہو گیا تھا۔ اگر وہ خالد کو کوئی چیز فرش پر سے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتے دیکھتا تو وہ خود کواس کا ملزم سمجھتا۔ اپنے آپ کو دل ہی دل میں کوستا کہ اس نے کیوں بداحتیاطی کی۔ خالد سے اس کو پیارہی نہیں عشق تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ جوں جوں خالد کی پہلی سالگرہ کا دن نزدیک آتا تھا اس کا یہ وہم یقین کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا کہ اس کا بیٹا ایک سال کا ہونے سے پہلے پہلے مر جائے گا۔ اپنے اس خوفناک وہم کا ذکر ممتاز اپنی بیوی سے بھی کر چکا تھا۔ ممتاز کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ اوہام کا بالکل قائل نہیں۔ اس کی بیوی نے جب پہلی بار اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو کہا۔

’’آپ اور ایسے وہم۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا بیٹا سو سال زندہ رہے گا۔ میں نے اس کی پہلی سالگرہ کے لیے ایسا اہتمام کیا ہے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔ ‘‘

یہ سن کر ممتاز کے دل کو ایک دھکا سا لگا تھا۔ وہ کب چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ نہ رہے لیکن اس کے وہم کا کیا علاج تھا۔ خالد بڑا تندرست بچہ تھا۔ سردیوں میں جب نوکر ایک دفعہ اس کو باہر سیر کے لیے لے گیا تو واپس آکر اس نے ممتاز کی بیوی سے کہا۔

’’بیگم صاحب، آپ خالد میاں کے گالوں پر سرخی نہ لگایا کریں۔ کسی کی نظر لگ جائے گی۔ ‘‘

یہ سن کر اس کی بیوی بہت ہنسی تھی

’’بے وقوف مجھے کیا ضرورت ہے سرخی لگانے کی۔ ماشاء اللہ اس کے گال ہی قدرتی لال ہیں۔ ‘‘

سردیوں میں خالد کے گال بہت سرخ رہتے تھے مگر اب گرمیوں میں کچھ زردی مائل ہو گئے تھے اس کو پانی کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ وہ انگڑائی لے کر اٹھتا اور دودھ کی بوتل پی لیتا تو دفتر جانے سے پہلے ممتاز اس کو پانی کی بالٹی میں کھڑا کردیتا۔ دیر تک وہ پانی کے چھینٹے اڑا اڑا کر کھیلتا رہتا۔ ممتاز اور اس کی بیوی خالد کو دیکھتے اور بہت خوش ہوتے۔ لیکن ممتاز کی خوشی میں غم ایک برقی دھکا سا ضرور ہوتا۔ وہ سوچتا

’’خدا میری بیوی کی زبان مبارک کرے، لیکن یہ کیا یہ کہ مجھے اس کی موت کا کھٹکا رہتا ہے۔ یہ وہم کیوں میرے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ یہ مر جائے گا۔ کیوں مرے گا؟۔ اچھا بھلا صحت مند ہے۔ اپنی عمر کے بچوں سے کہیں زیادہ صحت مند۔ میں یقیناً پاگل ہوں۔ اس سے میری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت دراصل اس وہم کا باعث ہے۔ لیکن مجھے اس سے اتنی زیادہ محبت کیوں ہے؟۔ کیا سارے باپ اسی طرح بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ کیا ہر بات کو اپنی اولاد کی موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے؟۔ مجھے آخر ہو کیا گیا ہے۔ ؟ ممتاز نے جب حسب معمول تینوں کمرے اچھی طرح صاف کر دیے تو وہ فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ صبح اٹھ کر، جھاڑو وغیرہ دے کر وہ گرمیوں میں ضرور آدھے گھنٹے کے لیے چٹائی پر لیٹا کرتا تھا۔ بغیر تکیے کے اس طرح اس کو لطف محسوس ہوتا تھا۔ لیٹ کروہ سوچنے لگا۔

’’پرسوں میرے بچے کی پہلی سالگرہ ہے۔ اگر یہ بغیر و عافیت گزر جائے تو میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ میرا وہم بالکل دور ہو جائے گا۔ اللہ میاں یہ سب تیرے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘

اس کی آنکھیں بند تھیں۔ دفعتہً اس نے اپنے ننگے سینے پر بوجھ یا محسوس کیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا خالد ہے۔ اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا

’’ساری رات بے چین سا رہا ہے سوتے میں جیسے ڈر ڈر کے کانپتا رہا ہے۔ ‘‘

خالد، ممتاز کے سینے پر زور سے کانپا۔ ممتاز نے اس پر ہاتھ رکھا اور کہا۔

’’خدا میرے بیٹے کا محافظ ہو!‘‘

ممتاز کی بیوی نے خفگی آمیز لہجے میں کہا۔

’’توبہ، آپ کو بس وہموں نے گھیر رکھا ہے۔ ہلکا سا بخار ہے، انشاء اللہ دور ہو جائے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر ممتاز کی بیوی کمرے سے چلی گئی۔ ممتاز نے ہولے ہولے بڑے پیار سے خالد کو تھپکنا شروع کیا جو اس کی چھاتی پر اوندھا لیٹا تھا اور سوتے میں کبھی کبھی کانپ اٹھتا تھا۔ تھپکنے سے وہ جاگ پڑا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور باپ کو دیکھ کر مسکرایا۔ ممتاز نے اس کا منہ چوما۔

’’کیوں میاں خالد کیا بات ہے۔ آپ کانپتے کیوں تھے۔ ‘‘

خالد نے مسکرا کر اپنا اٹھا ہوا سر باپ کی چھاتی پر گرا دیا۔ ممتاز نے پھر اس کو تھپکانا شروع کردیا۔ دل میں وہ دعائیں مانگ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کی عمر دراز ہو۔ اس کی بیوی نے خالد کی پہلی سالگرہ کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا۔ اپنی ساری سہیلیوں سے کہا تھا کہ وہ اس تقریب پر ضرور آئیں۔ درزی سے خاص طور پر اس کی سالگرہ کے کپڑے سلوائے تھے۔ دعوت پر کیا کیا چیز ہو گی، یہ سب سوچ لیا تھا۔ ممتاز کو یہ ٹھاٹ پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سالگرہ گزر جائے۔ خود اس کو بھی پتا نہ چلے اور اس کا بیٹا ایک برس کا ہو جائے۔ اس کو اس بات کا علم صرف اس وقت ہو جب خالد ایک برس اور کچھ دنوں کا ہو گیا ہو۔ خالد اپنے باپ کی چھاتی پر سے اٹھا۔ ممتاز نے اس سے محبت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’خالد بیٹا، سلام نہیں کرو گے ابا جی کو۔ ‘‘

خالد نے مسکرا کر ہاتھ اٹھایا اور اپنے سر پررکھ دیا۔ ممتاز نے اس کو دعا دی

’’جیتے رہو۔ ‘‘

لیکن یہ کہتے ہی اس کے دل پر اس کے وہم کی ضرب لگی اور وہ غم و فکر کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ خالد سلام کرکے کمرے سے باہر نکل گیا۔ دفتر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔ ممتاز چٹائی پر لیٹا رہا اور اپنے وہم کو دل و دماغ سے محو کرنے کی کوشش کرتارہا۔ اتنے میں باہر صحن سے اس کی بیوی کی آواز آئی۔

’’ممتاز صاحب، ممتاز صاحب۔ اِدھر آئیے۔ ‘‘

آواز میں شدید گھبراہٹ تھی۔ ممتاز چونک کر اٹھا۔ دوڑ کر باہر گیا۔ دیکھا کہ اس کی بیوی خالد کو غسل خانے کے باہر گود میں لیے کھڑی ہے اور وہ اس کی گود میں بل پہ بل کھا رہا ہے۔ ممتاز نے اس کو اپنی بانھوں میں لے لیا اور بیوی سے جو کانپ رہی تھی پوچھا

’’کیا ہوا؟‘‘

اس کی بیوی نے خوفزدہ لہجے میں کہا۔

’’معلوم نہیں۔ پانی سے کھیل رہا تھا۔ میں نے ناک صاف کی تو دوہرا ہو گیا۔ ‘‘

ممتاز کی بانھوں میں خالد ایسے بل کھا رہا تھا، جیسے کوئی اسے کپڑے کی طرح نچوڑ رہا ہے۔ سامنے چارپائی پڑی تھی۔ ممتاز نے اس کو وہاں لٹا دیا۔ میاں بیوی سخت پریشان تھے۔ وہ پڑا بل پہ بل کھا رہا تھا اور ان دونوں کے اوسان خطا تھے کہ وہ کیا کریں۔ تھپکا یا، چوما، پانی کے چھپنٹے مارے مگر اس کا تشنج دور نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود بخود دورہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا اور خالد پر بے ہوشی سی طاری ہو گئی۔ ممتاز نے سمجھا، مر گیا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’ختم ہو گیا۔ ‘‘

وہ چلائی۔

’’لا حول ولا۔ کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں۔ کنولشن تھی۔ ختم ہو گئی۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

خالد نے اپنی مرجھائی ہوئی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ممتاز کی ساری دنیا زندہ ہو گئی۔ بڑے ہی درد بھرے پیار سے اس نے خالد سے کہا۔

’’کیوں خالد بیٹا۔ یہ کیا ہوا آپ کو؟‘‘

خالد کے ہونٹوں پر تشنج زدہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ممتاز نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور اندر کمرے میں لے گیا۔ لٹانے ہی والا تھا کہ دوسری کنولشن آئی۔ خالد پھر بل کھانے لگا۔ جس طرح مرگی کا دورہ ہوتا ہے، یہ تشنج بھی اسی قسم کا تھا۔ ممتاز کو ایسا محسوس ہوتا کہ خالد نہیں بلکہ وہ اس اذیت کے شکنجے میں کسا جارہا ہے۔ دوسرا دورہ ختم ہوا تو خالد اور زیادہ مرجھا گیا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں دھنس گئیں۔ ممتاز اس سے باتیں کرنے لگا۔

’’خالد بیٹے، یہ کیا ہوتا ہے آپ کو؟‘‘

’’خالد میاں، اٹھو نا۔ چلو پھرو‘‘

’’خالدی۔ مکھن کھائیں گے آپ؟‘‘

خالد کو مکھن بہت پسند تھا مگر اس نے یہ سن کر اپنا سر ہلا کر ہاں نہ کی، لیکن جب ممتاز نے کہا۔

’’بیٹے، گلو کھائیں گے آپ؟‘‘

تو اس نے بڑے نحیف انداز میں نہیں کے طور پر اپنا سر ہلایا۔ ممتاز مسکرایا اور خالد کو اپنے گلے سے لگا لیا پھر اس کو اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اس سے کہا۔

’’تم اس کا دھیان رکھو میں ڈاکٹر لے کر آتا ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر ساتھ لے کر آیا تو ممتاز کی بیوی کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری میں خالد پر تشنج کے تین اور دورے پڑ چکے تھے۔ ان کے باعث وہ بیجان ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور کہا۔

’’تردو کی کوئی بات نہیں۔ ایسی کنولشن بچوں کو عموماً آیا کرتی ہے۔ اس کی وجہ دانت ہیں۔ معدے میں کرم وغیرہ ہوں تو وہ بھی اس کا باعث ہو سکتے ہیں۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں۔ آرام آجائے گا۔ بخار تیز نہیں ہے، آپ کوئی فکر نہ کریں۔ ‘‘

ممتاز نے دفتر سے چھٹی لے لی اور سارا دن خالد کے پاس بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اس کو دو مرتبہ اور دورے پڑے۔ اس کے بعد وہ نڈھال لیٹا رہا۔ شام ہو گئی تو ممتاز نے سوچا۔

’’شاید اب اللہ کا فضل ہو گیا ہے۔ اتنے عرصے میں کوئی کنولشن نہیں آئی۔ خدا کرے رات اسی طرح کٹ جائے۔ ‘‘

ممتاز کی بیوی بھی خوش تھی۔

’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل میرا خالد دوڑتا پھرے گا۔ ‘‘

رات کو چونکہ مقررہ اوقات پر دوا دینی تھی، اس لیے ممتاز چارپائی پر نہ لیٹا کہ شاید سو جائے۔ خالد کے پنگوڑے کے پاس آرام کرسی رکھ کر وہ بیٹھ گیا اور ساری رات جاگتا رہا، کیونکہ خالد بے چین تھا۔ کانپ کانپ کر بار بارجاگتا تھا۔ حرارت بھی تیز تھی۔ صبح سات بجے کے قریب ممتاز نے تھرما میٹر لگا کے دیکھا تو ایک سو چار ڈگری بخار تھا۔ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے کہا

’’تردو کی کوئی بات نہیں، برونکائٹس ہے میں نسخہ لکھ دیتا ہوں۔ تین چار روز میں آرام آجائے گا۔ ‘‘

ڈاکٹر نسخہ لکھ کر چلا گیا۔ ممتاز دوا بنوالایا۔ خالد کو ایک خوراک پلائی مگر اس کو تسکین نہ ہوئی۔ دس بجے کے قریب وہ ایک بڑا ڈاکٹر لایا۔ اس نے اچھی طرح خالد کو دیکھا اور تسلی دی، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

سب ٹھیک نہ ہوا۔ بڑے ڈاکٹر کی دوا نے کوئی اثر نہ کیا۔ بخار تیز ہوتا گیا۔ ممتاز کے نوکر نے کہا۔

’’صاحب، بیماری وغیرہ کوئی نہیں۔ خالد میاں کو نظرلگ گئی ہے میں ایک تعویذ لکھوا کر لایا ہوں۔ اللہ کے حکم سے یوں چٹکیوں میں اثر کرے گا۔ ‘‘

سات کنوؤں کا پانی اکھٹا کیا گیا۔ اس میں یہ تعویذ گھول کر خالد کو پلایا گیا۔ کوئی اثر نہ ہوا۔ ہمسائی آئی۔ وہ ایک یونانی دوا تجویز کر گئی۔ ممتاز یہ دوا لے آیا مگر اس نے خالد کو نہ دی۔ شام کو ممتاز کا ایک ر شتے دار آیا۔ ساتھ اس کے ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے خالد کو دیکھا اور کہا۔

’’ملیریا ہے۔ اتنا بخار ملیریا ہی میں ہوتا ہے۔ آپ اس میں برف کا پانی ڈالیے۔ میں کونین کا انجکشن دیتا ہوں۔ ‘‘

برف کا پانی ڈالا گیا۔ بخار ایک دم کم ہو گیا۔ درجہ حرارت اٹھانوے ڈگری تک آگیا۔ ممتاز اور اس کی بیوی کی جان میں جان آئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں بخار بہت ہی تیز ہو گیا۔ ممتاز نے تھرما میٹرلگا کر دیکھا۔ درجہ حرارت ایک سو چھ تک پہنچ گیا تھا۔ ہمسائی آئی۔ اس نے خالد کو مایوس نظروں سے دیکھا اور ممتاز کی بیوی سے کہا

’’بچے کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہے۔ ‘‘

ممتاز اور اس کی بیوی کے دل بیٹھ گئے۔ ممتاز نے نیچے کارخانے سے ہسپتال فون کیا۔ ہسپتال والوں نے کہا مریض لے آؤ۔ ممتاز نے فوراً ٹانگہ منگوایا۔ خالد کو گود میں لیا۔ بیوی کو ساتھ بٹھایا اور ہسپتال کا رخ کیا۔ سارا دن وہ پانی پیتا رہا تھا۔ مگر پیاس تھی کہ بجھتی ہی نہیں تھی۔ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کا حلق بے حد خشک ہو گیا۔ اس نے سوچا اتر کر کسی دکان سے ایک گلاس پانی پی لے، لیکن خدا معلوم کہاں سے یہ و ہم ایک دم اس کے دماغ میں آن ٹپکا، دیکھو اگر تم نے پانی پیا تو تمہارا خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز کا حلق سوکھ کے لکڑی ہو گیا مگر اس نے پانی نہ پیا۔ ہسپتال کے قریب ٹانگہ پہنچا تو اس نے سگریٹ سلگایا۔ وہی کش لیے تھے تو اس نے ایک دم سگریٹ پھینک دیا۔ اس کے دماغ میں یہ وہم گونجا تھا

’’ممتاز سگریٹ نہ پیو تمہارا بچہ مر جائیگا۔ ‘‘

ممتاز نے ٹانگہ ٹھہرایا۔ اس نے سوچا۔

’’یہ کیا حماقت ہے۔ یہ وہم سب فضول ہے۔ سگریٹ پینے سے بچے پر کیا آفت آسکتی ہے۔ ‘‘

ٹانگے سے اتر کر اس نے سڑک پر سے سگریٹ اٹھایا۔ واپس ٹانگے میں بیٹھ کر جب اس نے کش لینا چاہا تو کسی نامعلوم طاقت نے اس کو روکا۔

’’نہیں ممتاز، ایسا نہ کرو۔ خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز نے سگریٹ زور سے پھینک دیا۔ ٹانگے والے نے گُھور کے اس کو دیکھا۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ جیسے اس کو اسکی دماغی کیفیت کا علم ہے اور وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپنی خفت دور کرنے کی خاطر نے ٹانگے والے سے کہا۔

’’خراب ہو گیا تھا سگریٹ‘‘

یہ کہہ اس نے جیب سے ایک نیا سگرٹ نکالا۔ سلگانا چاہا مگر ڈر گیا۔ اس کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ گئی۔ ادر اک کہتا تھا کہ یہ اوہام سب فضول ہیں مگر کوئی ایسی آواز تھی۔ کوئی ایسی طاقت تھی جو اس کے منطق اس کے استدلال، اس کے ادراک پر غالب آجاتی تھی۔ ٹانگہ ہسپتال کے پھاٹک میں داخل ہوا تو اس نے سگریٹ انگلیوں میں مسل کر پھینک دیا۔ اس کو اپنے اوپر بہت ترس آیا کہ اوہام کا غلام بن گیا ہے۔ ہسپتال والوں نے فوراً ہی خالد کو داخل کرلیا۔ ڈاکٹر نے دیکھا اور کہا۔

’’برونگو نمونیا ہے۔ حالت مخدوش ہے۔ ‘‘

خالد بے ہوش تھا۔ ماں اس کے سرہانے بیٹھی ویران نگاہوں سے اسکو دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے ساتھ غسل خانہ تھا۔ ممتاز کو سخت پیاس لگ رہی تھی۔ نل کھول کر اوک سے پانی پینے لگا تو پھر وہی وہم اس کے دماغ میں گونجا

’’ممتاز، یہ کیا کررہے ہو تم۔ مت پانی پیو۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز نے دل میں اس وہم کو گالی دی اور انتقاماً اتنا پانی پیا کہ اس کا پیٹ اپھر گیا۔ پانی پی کر غسل خانے سے باہر آیا تو اس کا خالد اسی طرح مرجھایا ہوا بے ہوش ہسپتال کے آہنی پلنگ پرپڑا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جائے۔ اس کے ہوش و حواس غائب ہو جائیں۔ خالد اچھا ہو جائے اور وہ اس کے بدلے نمونیا میں گرفتار ہو جائے۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ خالد اب پہلے سے زیادہ زرد ہے۔ اس نے سوچا، یہ سب اس کے پانی پی لینے کا باعث ہے۔ اگر وہ پانی نہ پیتا تو ضرور خالد کی حالت بہتر ہو جاتی۔ اس کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے خود کو بہت لعنت ملامت کی مگر پھر اس کو خیال آیا کہ جس نے یہ بات سوچی تھی کہ وہ ممتاز نہیں کوئی اور تھا۔ اورکون تھا؟۔ کیوں اس کے دماغ میں ایسے وہم پیدا ہوتے تھے۔ پیاس لگتی تھی، پانی پی لیا۔ اس سے خالد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خالد ضرور اچھا ہو جائیگا۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ انشاء اللہ خوب ٹھاٹ سے منائی جائے گی۔ لیکن فوراً ہی اس کا دل بیٹھ جاتا۔ کوئی آواز اس سے کہتی

’’خالد ایک برس کا ہونے ہی نہیں پائے گا‘‘

۔ ممتاز کا جی چاہتا کہ وہ اس آواز کی زبان پکڑلے اور اسے گدی سے نکال دے مگر یہ آواز تو خود اس کے دماغ میں پیداہوتی تھی خدا معلوم کیسے ہوتی تھی۔ کیوں ہوتی تھی۔ ممتاز اس قدر تنگ آگیا کہ اس نے دل ہی دل میں اپنے اوہام سے گڑگڑا کر کہا۔

’’خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔ کیوں تم مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے ہو!‘‘

شام ہو چکی تھی۔ کئی ڈاکٹر خالد کو دیکھ چکے تھے۔ دوا دی جارہی تھی۔ کئی انجکشن بھی لگ چکے تھے مگر خالد ابھی تک بے ہوش تھا۔ دفعتہً ممتاز کے دماغ میں یہ آواز گونجی

’’تم یہاں سے چلے جاؤ۔ فوراً چلے جاؤ، ورنہ خالد مر جائے گا۔ ‘‘

ممتاز کمرے سے باہر چلا گیا۔ ہسپتال سے باہر چلا گیا۔ اس کے دماغ میں آوازیں گونجتی رہیں۔ اس نے اپنے آپ کو ان آوازوں کے حوالے کردیا۔ اپنی ہر جنبش، اپنی ہر حرکت ان کے حکم کے سپرد کردی۔ یہ اسے ایک ہوٹل میں لے گئیں۔ انھوں نے اس کو شراب پینے کے لیے کہا۔ شراب آئی تو اسے پھینک دینے کا حکم دیا۔ ممتاز نے ہاتھ سے گلاس پھینک دیا تو اور منگوانے کیلیے کہا۔ دوسرا گلاس آیا تو اسے بھی پھینک دینے کے لیے کہا۔ شراب اور ٹوٹے ہوئے گلاسوں کے بل ادا کرکے ممتاز باہر نکلا۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ صرف اس کا دماغ ہے جہاں شور برپا ہے۔ چلتا چلتا وہ ہسپتال پہنچ گیا۔ خالد کے کمرے کا رخ کیا تو اسے حکم ہوا؟

’’مت جاؤ ادھر۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔ ‘‘

وہ لوٹ آیا۔ گھاس کا میدان تھا۔ وہاں ایک بنچ پڑی تھی۔ اس پر لیٹ گیا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ میدان میں اندھیرا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ کبھی کبھی کسی موٹر کے ہارن کی آواز اس خاموشی میں خراش پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی۔ سامنے اونچی دیوار میں ہسپتال کا روشن کلاک تھا۔ ممتاز، خالد کے متعلق سوچ رہا۔

’’کیا وہ بچ جائے گا۔ یہ بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں جنھیں مرنا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کیوں پیدا ہوتی ہے جسے اتنی جلدی موت کے منہ میں جانا ہوتا ہے۔ خالد ضرور۔ ‘‘

ایک دم اس کے دماغ میں ایک وہم پھوٹا۔ بنچ پر سے اتر کروہ سجدے میں گر گیا۔ حکم تھا اسی طرح پڑے رہو جب تک خالد ٹھیک نہ ہو جائے۔ ممتاز سجدے میں پڑا رہا۔ وہ دعا مانگنا چاہتا تھا مگر حکم تھا کہ مت مانگو۔ ممتاز کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ خالد کے لیے نہیں، اپنے لیے دعا مانگنے لگا۔

’’خدایا مجھے اس اذیت سے نجات دے۔ تجھے اگر خالد کو مارنا ہے تو مار دے، یہ میرا کیا حشر کررہا ہے تو‘‘

دفعتاً اسے آوازیں سنائی دیں۔ اس سے کچھ دور دور آدمی کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپس میں باتیں کررہے تھے۔ ‘‘

’’بچہ بڑا خوبصورت ہے۔ ‘‘

’’ماں کا حال مجھ سے تو دیکھا نہیں گیا۔ ‘‘

’’بیچاری ہر ڈاکٹر کے پاؤں پڑ رہی تھی۔ ‘‘

’’ہم نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کی۔ ‘‘

’’بچنا محال ہے۔ ‘‘

’’میں نے یہی کہا تھا ماں سے کہ دعا کرو بہن!‘‘

ایک ڈاکٹر نے ممتاز کی طرف دیکھا جو سجدے میں پڑا تھا۔ اس کو زور سے آواز دی۔

’’اے، کیا کررہا ہے تو۔ اِدھر آ‘‘

ممتاز اٹھ کر دونوں ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ایک نے اس سے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

ممتاز نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر جواب دیا۔

’’میں ایک مریض۔ ‘‘

ڈاکٹر نے سختی سے کہا۔

’’مریض ہو تو اندر جاؤ۔ یہاں میدان میں ڈنٹر کیوں پیلتے ہو؟‘‘

ممتاز نے کہا۔

’’جی، میرا بچہ ہے۔ اُدھر اس وارڈ میں۔ ‘‘

’’وہ تمہارا بچہ ہے جو۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ شاید آپ اسی کی باتیں کررہے تھے۔ وہ میرا بچہ ہے۔ خالد‘‘

’’آپ اس کے باپ ہیں؟‘‘

ممتاز نے اپنا غم و اندوہ سے بھرا ہوا سر ہلایا۔

’’جی ہاں میں اس کا باپ ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر نے کہا۔

’’آپ یہاں بیٹھے ہیں۔ جائیے آپ کی وائف بہت پریشان ہیں۔ ‘‘

جی اچھا۔ کہہ کر ممتاز وارڈ کی طرف روانہ ہوا۔ سیڑھیاں طے کرکے جب اوپر پہنچا تو کمرے کے باہر اس کا نوکر رو رہا تھا۔ ممتاز کو دیکھ کر اور زیادہ رونے لگا۔

’’صاحب خالد میاں فوت ہو گئے۔ ‘‘

ممتاز اندر کمرے میں گیا۔ اس کی بیوی بے ہوش پڑی تھی۔ ایک ڈاکٹر اور نرس اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہے تھے۔ ممتاز پلنگ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ خالد آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سکون تھا۔ ممتاز نے اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرا اور دل چیر دینے والے لہجے میں اس سے پوچھا۔

’’خالد میاں۔ گگو کھائیں گے آپ؟‘‘

خالد کا سر نفی میں نہ ہلا۔ ممتاز نے پھر درخواست بھرے لہجے میں کہا۔ ‘‘

خالد میاں۔ میرے وہم لے جائیں گے اپنے ساتھ؟‘‘

ممتاز کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خالد نے سر ہلا کر ہاں کی ہے۔

سعادت حسن منٹو

حسن کی تخلیق

کالج میں شاہد ہ حسین ترین لڑکی تھی۔ اس کو اپنے حسن کا احساس تھا۔ اسی لیے وہ کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتی اور خود کو مغلیہ خاندان کی کوئی شہزادی سمجھتی۔ اس کے خدوخال واقعی مغلئی تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ نور جہاں کی تصویر جو اس زمانے کے مصوروں نے بنائی تھی، اس میں جان پڑگئی ہے۔ کالج کے لڑکے اسے شہزادی کہتے تھے، لیکن اس کے سامنے نہیں، پر اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ اسے یہ لقب دیا گیا ہے۔ وہ اور بھی مغرور ہو گئی۔ کالج میں مخلوط تعلیم تھی۔ لڑکے زیادہ تھے اور لڑکیاں کم۔ آپس میں ملتے جلتے، لیکن بڑے تکلف کے ساتھ۔ شاہدہ الگ الگ رہتی۔ اس لیے کہ اس کو اپنے حسن پر بڑا ناز تھا۔ وہ اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے بھی بہت ہم گفتگو کرتی تھی۔ کلاس میں آتی تو ایک کونے میں بیٹھ جاتی اور بت سی بنی رہتی۔ بڑا حسین بت۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جن پر گھنی پلکوں کی چھاؤں رہتی تھی، ساکت وصامت رہتیں۔ لڑکے اسے دیکھتے اور جی ہی جی میں بہت کڑھتے کہ یہ حسن خاموش کیوں ہے، اس قدر منجمد کس لیے ہے اسے تو متحرک ہونا چاہیے۔ اس کا رنگ گورا تھا۔ بہت گورا جس میں تھوڑی سی غلط روی بھی گھلی ہوئی تھی۔ اگر یہ نہ ہوتی تو شکر کی بنی ہوئی پتلی تھی جو دیوالی کے تہوار پر بکا کرتی ہیں۔ اس میں مٹھاس تھی، لیکن وہ ظاہر یہ کرنا چاہتی تھی کہ بڑی کڑویلی کسیلی ہے۔ کالج میں اس کا رویہ ہی کچھ اس قسم کا تھا کہ ہر وقت نیم کی نبولی بنی رہتی تھی۔ ایک دن اس کے ایک ہم جماعت لڑکے نے جرأت سے کام لے کر اس سے کہا۔

’’حضور۔ خاکساری میں اپنی جگہ دے کرکبھی کسی کو سرفراز توکریں!‘‘

اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن اس طالب علم کو پرنسپل نے بلایا اور اسے نکال باہر کیا۔ اس حادثے کے بعد تمام لڑکے محتاط ہو گئے۔ انھوں نے شاہدہ کودیکھنا ہی چھوڑ دیا کہ مبادا ان کا وہی حشر ہو، جو اس طالب علم کا ہوا۔ شاہدہ اب بی۔ اے میں تھی۔ خوبصورت ہونے کے علاوہ کافی ذہین تھی۔ اس کے پروفیسر اس کی ذہانت اور خوبصورت سے بڑے مرعوب تھے۔ پرنسپل کی چہیتی تھی۔ اس لیے کہ وہ اس کی بڑی بہن کے بڑے لڑکے کی بیٹی تھی۔ کالج میں چہ میگوئیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ شاہدہ کے متعلق قریب قریب ہر روز طالب علموں میں باتیں ہوتی تھیں۔ وہ اس کے متعلق کوئی بری رائے قائم نہیں کر پاتے تھے، اس لیے کہ اس کا کریکٹر بڑا مضبوط تھا۔ ٹک شاپ میں باتیں ہوتیں اور شاہدہ کا حسن زیر بحث ہوتا۔ سب سوچتے کہ یہ حسین قلعہ کون سر کرے گا۔ شاہدہ کو، جیسا کہ سب کو معلوم تھا، صرف خوبصورت چیزیں پسند تھیں۔ وہ کسی بدصورت چیز کو برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ ایک دن کلاس میں ایک لڑکے کی رینٹھ بہہ رہی تھی۔ شاہدہ نے جب اس کی طرف دیکھا تو فوراً اٹھ کر چلی گئی۔ وہ بڑی نفاست پسند تھی۔ اس کو وہ ہرچیز کھلی تھی جو بدنما ہو۔ کالج میں ایک لڑکی جمیلہ تھی۔ بڑی بدصورت، مگر شاہدہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ذہین۔ اس کو وہ نفرت کی نگاہوں سے دیکھتی تھی۔ ویسے وہ اس کی ذہانت کی قائل تھی اور کوئی رشک محسوس نہیں کرتی تھی۔ کالج کے سب لڑکے سوچتے تھے کہ شاہدہ اگر حسین نہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ وہ اس سے بات چیت تو کرسکتے۔ مگر وہ اپنے حسن کے غرور میں سرشار رہتی اور کسی کومنہ ہی نہیں لگاتی تھی۔ ایک دن کالج میں ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ ایک لڑکا جس کے والد کی تبدیلی ہو گئی تھی، اس کالج میں داخلہ لینے کے لیے آیا۔ لڑکوں اور لڑکیوں نے اسے دیکھا اور ششدر رہ گئے۔ وہ شاہدہ سے زیادہ خوبصورت تھا۔ اس کا نام شاہد تھا۔ اس کو داخلہ مل گیا۔ جس کلاس میں شاہدہ تھی، اسی میں شاہد تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب شاہد پہلے روز کلاس روم میں آیا تو شاہدہ موجود نہیں تھی۔ اس کو زکام ہو گیا تھا اور اس کے باعث اس نے دو روز کے لیے چھٹی لے لی تھی۔ دو دن کے بعد جب شاہد کالج کے باغ میں ٹہل رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت، مگر بے جان سی مورت آرہی ہے۔ اس نے اپنی کتابیں بینچ پر رکھیں اور آگے بڑھا۔ شاہدہ نے اسے دیکھا۔ وہ اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوئی اور تھوڑی دیر کے لیے اس کے قدم رک گئے۔ زمین گیلی تھی، کیچڑ سی ہورہی تھی۔ شاہد جب اس کی طرف بڑھا تو وہ گھبرا سی گئی۔ اس گھبراہٹ میں اس کا پاؤں پھسلا اور وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑی۔ شاہد نے لپک کر اسے اٹھایا۔ شاہدہ کے ٹخنے میں موچ آگئی تھی، مگر اس نے مسکرا کر کہا۔

’’شکریہ۔ آپ کون ہیں؟‘‘

شاہد نے جواب دیا۔

’’خادم!‘‘

’’آپ خادم تو دکھائی نہیں دیتے۔ ‘‘

’’کیا دکھائی دیتا ہوں۔ بعض اوقات صحیح شکلیں غلط دکھائی دیا کرتی ہیں۔ ‘‘

شاہدہ کو یہ بات پسند آئی۔ اس کے ٹخنے میں درد ہورہا تھا مگر وہ اسے چند لمحوں کے لیے بھول گئی۔

’’آپ کا نام؟‘‘

’’شاہد!‘‘

شاہدہ نے سوچا کہ شاید وہ اس کا نام سن چکا ہے اور شرارت کے طور پر شاہد بن رہا ہے۔

’’آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ ‘‘

’’آپ کالج کے رجسٹر سے اس کی تصدیق کرسکتی ہیں۔ ‘‘

’’آپ اس کالج میں پڑھتے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔ آپ یہاں کیسے چلی آئیں؟‘‘

’’واہ۔ میں بھی تو یہیں پڑھتی ہوں۔ ‘‘

’’کس کلاس میں؟‘‘

’’بی اے میں؟‘‘

’’میں بھی تو بی اے میں ہوں۔ ‘‘

’’جھوٹ۔ آپ تو مالی معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’اس شکل کے آدمی واقعی مالی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ میں نے ابھی تک کوئی پھول نہیں توڑا۔ ‘‘

’’پھول کیا توڑنے کے لیے ہوتے ہیں۔ انھیں تو صرف سونگھنا چاہیے۔ ‘‘

شاہد ایک لحظہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے سنبھل کر کہا۔

’’میں آپ کو سونگھ رہا ہوں۔ ‘‘

شاہدہ بھنا گئی۔

’’آپ بڑے بدتمیزہیں۔ ‘‘

شاہد نے بینچ پرسے کتابیں اٹھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔

’’میں نے آپ کو توڑا تو نہیں۔ صرف سونگھ لیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی پنکھڑیوں میں سے غرور کی بو آتی ہے۔ اوہ، معاف کیجیے گا، غرور میں کرسکتا ہوں لیکن مردوں کے ساتھ۔ میں بھی ایک پھول ہوں، پر آپ کلی ہیں۔ میں آپ سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

شاہدہ اپنا ٹخنہ پکڑے بیٹھی تھی۔ ایک دم کراہنے لگی۔

’’ہائے۔ ہائے، بڑا درد ہورہا ہے۔ ‘‘

شاہد نے اس سے اجازت طلب کی۔

’’کیا میں اسے دبا دوں؟‘‘

’’دبائیے۔ خدا کے لیے دبائیے۔ ‘‘

شاہد نے اس کے موچ آئے ہوئے ٹخنے پر اس طور پر مساس کیا کہ پندرہ منٹ کے اندر اندر شاہدہ کا درد دور ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد کالج میں وہ دونوں خالی پیریڈوں میں اکٹھے باہر جاتے اور باغ میں بیٹھ کر جانے کیا باتیں کرتے رہتے۔ شاید وہ یہ کوشش کررہے تھے کہ دونوں گیلی زمین پر پھسلیں اور ان کے دل کے ٹخنوں میں موچ آجائے اور وہ ساری زندگی ان کو سہلاتے رہیں۔ دونوں نے بی۔ اے پاس کرلیا۔ بڑے اچھے نمبروں پر۔ شاہدہ کے نمبر شاہد کے مقابلے میں پانچ زیادہ تھے۔ اس نے اس کا بدلہ لینا چاہا۔

’’شاہدہ! میں یہ پانچ نمبر ابھی لیے لیتا ہوں۔ ‘‘

’’کیسے‘‘

شاہد نے اس کو پہلی مرتبہ اپنی گود میں اٹھایا اور اس کو پانچ مرتبہ چوم لیا۔ شاہدہ نے کوئی اعتراض نہ کیا، وہ بہت خوش ہوئی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد اس نے شاہد سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’ہمارے نمبر پورے ہو گئے۔ لیکن آج کے اس واقعے کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ آپ کی میری شادی ہوجانی چاہیے۔ میں اپنے ہونٹ اب کسی اور کے ہونٹوں سے آلودہ نہیں کروں گی۔ ‘‘

شاہد بہت خوش ہوا۔ اسے یقین ہی نہیں تھا کہ اس کی دلی آرزو کبھی پوری ہو گی۔ اس نے اسی خوشی میں پانچ نمبراور حاصل کرلیے اور شاہدہ سے کہا۔

’’میری جان! میں اسی امید میں تو اب تک جیتا رہا ہوں۔ ‘‘

شاہدہ کے والدین نے اس کی شادی کی ایک جگہ بات چیت کی، مگر شاہدہ نے صاف صاف انکار کردیا کہ وہ کسی بدصورت مرد سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بہت جھگڑے ہوئے۔ آخر شاہدہ نے بتایا کہ وہ اپنے ہم جماعت شاہد کو، جو بہت خوش شکل ہے، پسند کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مرد کو اپنی رفاقت میں نہیں لے گی۔ اس کے ماں باپ شاہد کے والدین سے ملے۔ بڑے شریف اور متمول آدمی تھے۔ روشن خیال بھی۔ شاہد کو جب انھوں نے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت جارہا تھا، لیکن اس کی خواہش تھی کہ پہلے شادی کرے اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر جائے تاکہ وہ بھی باہر کی دنیا دیکھے۔ جب والدین رضا مند ہو گئے تو ان کی شادی ہو گئی۔ وہ بہت خوش تھا۔ پہلی رات شاید نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’ہمارا بچہ۔ لڑکی ہو یا لڑکا۔ جب پیدا ہو گا تو اسے دنیا دیکھنے آئے گی۔ ‘‘

شاہدہ نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

شاہد ہنسا۔

’’میری جان! تم اتنی حسین ہو۔ میں بھی کچھ بدشکل نہیں۔ ہمارا بچہ یقیناً ہم دونوں سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو گا۔ ‘‘

ہنی مون منانے کے لیے وہ سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ وہ یہاں چار مہینے رہے۔ اس کے بعد لندن چلے گئے۔ جہاں شاہد کو پی، ایچ، ڈی کی ڈگری لینا تھی۔ شاہد کے باپ میاں ہدایت اللہ کی وہاں ایک کوٹھی تھی جو ان کی آمد سے پہلے ہی خالی کرالی گئی۔ شاہدہ بہت خوش تھی اور شاہد بھی، اس لیے کہ وہ ایک بچے کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔ شاہدکہتا تھا۔

’’ہمارا بچہ اتنا حسین اور خوبصورت ہو گا کہ اس کا جواب نہ ہو گا۔ ‘‘

شاہدہ کہتی۔

’’خدا نظر بد سے بچائے۔ ضرور گل گوتھنا سا ہو گا۔ ‘‘

پورے دن ہوئے تو بچہ ہونے کے آثار پیدا ہوئے۔ شاہد نے اپنی بیوی کو میٹرنٹی ہوم میں داخل کرادیا۔ لیبر وارڈ کے باہر شاہد بڑے اضطراب میں ادھرسے ادھر ٹہل رہا تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے ایک ایسے بچے کی تصویر تھی جس کے خدوخال اس کے اور اس کی بیوی کے آپس میں بڑے حسین طور پر مدغم ہو گئے ہوں۔ لیبر وارڈ سے نرس باہر آئی۔ شاہد نے لپک کر اس سے پوچھا۔

’’خیریت ہے؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’لڑکا ہوا یا لڑکی؟‘‘

نرس پریشان سی تھی۔ اس نے صرف اتنا کہا۔

’’پتہ نہیں لڑکا ہے یا لڑکی۔ پر ہم نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘

شاہد نے خوش ہو کرپوچھا۔

’’بہت خوبصورت ہے نا؟‘‘

نرس نے منہ بنا کر جواب دیا۔

’’بڑی اگلی ہے۔ اس کے سر پر ایسا معلوم ہوتا ہے سینگ ہیں۔ دانت بھی ہیں۔ ناک بڑی ٹیڑھی ہے۔ دو آنکھیں ہیں پر ایک آنکھ ایسا لگتا ہے ماتھے پر بھی ہے۔ تم لوگ اتنے خوبصورت ہو کر کیسے بچے پیدا کرتا ہے؟‘‘

شاہد اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے نہ گیا۔ لیکن دوسرے دن میٹرنٹی ہوم میں ٹکٹ لگا دی گئی کہ جو آدمی چاہے، اس عجیب الخلقت بچے کودیکھ سکتا ہے۔

سعادت حسن منٹو

حجامت

’’میری تو آپ نے زندگی حرام کر رکھی ہے۔ خدا کرے میں مر جاؤں‘‘

’’اپنے مرنے کی دعائیں کیوں مانگتی ہو۔ میں مر جاؤں تو سارا قصہ پاک ہو جائے گا۔ کہو تو میں ابھی خود کشی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں پاس ہی افیم کا ٹھیکہ ہے۔ ایک تولہ افیم کافی ہو گی۔ ‘‘

’’جاؤ، سوچتے کیا ہو۔ ‘‘

’’جاتا ہوں۔ تم اٹھو اور مجھے۔ معلوم نہیں ایک تولہ افیم کتنے میں آتی ہے۔ تم مجھے اندازاً دس روپے دے دو۔ ‘‘

’’دس روپے؟‘‘

’’ہاں بھئی۔ اپنی جان گنوانی ہے۔ دس روپے زیادہ تو نہیں۔ ‘‘

’’میں نہیں دے سکتی۔ ‘‘

’’ضرور آپ کو افیم کھاکے ہی مرنا ہے؟‘‘

’’سنکھیا بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’کتنے میں آئے گا؟‘‘

’’معلوم نہیں۔ میں نے آج تک کبھی سنکھیا نہیں کھایا۔ ‘‘

’’آپ کو ہر چیز کا علم ہے۔ بنتے کیوں ہیں؟‘‘

’’بنا تم مجھے رہی ہو۔ بھلا مجھے زہروں کی قیمتوں کے متعلق کیا علم ہو سکتا ہے‘‘

’’آپ کو ہر چیز کا علم ہے‘‘

’’تمہارے متعلق تو میں ابھی تک کچھ بھی نہ جان سکا‘‘

’’اس لیے کہ آپ نے میرے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں‘‘

’’یہ صریحاً تمہاری زیادتی ہے۔ پانچ برس ہو گئے ہیں۔ تم ان میں سے کوئی ایسا دن پیش کرو جب میں نے تمہارے متعلق نہ سوچا ہو‘‘

’’ہٹائیے۔ ان پانچ برسوں کے جتنے دن ہوتے ہیں، ان میں آپ مجھ سے یہی خرافات کہتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’تم حقیقت کو خرافات کہتی ہو؟۔ میں اب کیا کہوں‘‘

’’جو کہنا چاہتے ہیں کہہ ڈالیے۔ آپ کی زبان میں لگام ہی کہاں ہے‘‘

’’پھر تم نے بد زبانی شروع کردی‘‘

’’بد زبان تو آپ ہیں۔ میں نے ان پانچ برسوں میں، آپ سر پر قرآن اٹھا کرکہیے، کب آپ سے اس قسم کی گستاخی کی ہے؟ گستاخ ہوں گے آپ کے۔ ‘‘

’’رک کیوں گئی ہو۔ جو کہنا چاہتی ہو کہہ دو‘‘

’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔ آپ سے کوئی کیا کہے۔ آپ تو یہ چاہتے ہیں کہ آدمی کو تکلیف پہنچے، لیکن وہ اف بھی نہ کرے۔ میں تو ایسی زندگی سے گھبرا گئی ہوں‘‘

’’تم چاہتی کیا ہو، یہ بھی تو پتا چلے‘‘

’’میں کچھ نہیں چاہتی‘‘

’’پھر یہ گلے شکوے کیا معنی رکھتے ہیں؟‘‘

’ ان کے معنی آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔ انجان کیوں بنتے ہیں؟ ان گلے شکوؤں کے پیچھے کوئی بات تو ہو گی‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میں کیا جانوں‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ خود ہی پھاڑتی ہو خود ہی رفو کرتی ہو۔ جو صحیح بات ہے اس کو بتاتی کیوں نہیں ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ ہر روز کے جھگڑے ہمیں کہاں لے جائیں گے‘‘

’’جہنم میں‘‘

’’وہاں بھی تو ہمارا ساتھ ہو گا‘‘

’’میں تو وہاں بالکل نہیں جاؤں گی‘‘

’’تو کہاں ہو گی تم؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں‘‘

’’تمہیں بہت سی باتیں معلوم نہیں ہوتیں۔ سب سے بڑی بات میری محبت ہے، جس کا احساس تمہیں ابھی تک نہیں ہوا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یا میں نے اس کے اظہار میں بخل کیا ہے، یا تم میں وہ حس نہیں جو اس جذبے کو پہچان سکے‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’یہ بھی کوئی بات ہے۔ ان پانچ برسوں میں ہر روز۔ ہر روز۔ ‘‘

’’یہی تو میری محبت کا ثبوت ہے۔ ‘‘

’’لعنت ہے ایسی محبت سے کہ آدمی تنگ آجائے‘‘

’’محبت سے کون تنگ آسکتا ہے؟‘‘

’’میری مثال موجود ہے‘‘

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اقرار کیا ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں؟‘‘

’’میں نے کب اقرار کیا ہے‘‘

’’یہ اقرارہی تو تھا‘‘

’’ہو گا‘‘

’’ہو گا نہیں۔ تھا۔ لیکن تم مانو گی نہیں۔ اس لیے کہ ضدی ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کی نفسیات کیا ہیں۔ جب ان سے پیار کیا جائے تو گھبرا جاتی ہیں، اور جب ان سے ذرا بے اعتنائی برتی جائے تو برہم ہو جاتی ہیں‘‘

’’محض بکواس ہے‘‘

’’اس لیے کہ یہ پر خلوص خاوند کی زبان سے نکلی ہے‘‘

’’ہٹائیے۔ آپ کا خلوص میں دیکھ چکی ہوں‘‘

’’جب دیکھ چکی ہو تو ایمان کیوں نہیں لاتی ہو؟‘‘

’’مجھے تنگ نہ کیجیے، میری طبیعت خراب ہے۔ مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ ‘‘

’’اپنے آپ کو بھی اچھا نہیں سمجھتی؟‘‘

’’خدا کی قسم۔ آج نہیں‘‘

’’کل تو اچھا سمجھو گی‘‘

’’مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘

’’یہ عجیب بات ہے کہ تمہیں سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ مگر تمہیں معلوم نہیں ہوتا۔ یہ کیا سلسلہ ہے؟۔ تم صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ تم مجھ سے نفرت کرتی ہو‘‘

’’تو سن لیجیے۔ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں‘‘

’’مجھے یہ سن کر بڑا دُکھ ہوا ہے۔ میں نے تمہاری ہر آسائش کا خیال رکھا۔ ‘‘

’’لیکن ایک بات کا خیال نہیں رکھا‘‘

’’کس بات کا؟‘‘

’’آپ عقل مند ہیں۔ خود سمجھیے۔ میں کیوں بتاؤں‘‘

’’کوئی اشارہ تو کردو‘‘

’’میں ایسی اشارہ بازیاں نہیں جانتی‘‘

’’تم نے ایسی گفتگو کہاں سے سیکھی ہے؟‘‘

’’آپ سے‘‘

’’مجھ سے؟۔ مجھے حیرت ہے کہ یہ الزام تم نے مجھ پر کیوں لگایا ہے‘‘

’’آپ پر تو ہر الزام لگ سکتا ہے‘‘

’’مثال کے طور پر؟‘‘

’’میں آپ کو مثال نہیں دے سکتی۔ خدا کے لیے یہ گفتگو بند کیجیے، میں تنگ آگئی ہوں۔ بس، میں نے کہہ دیا ہے کہ مجھے۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یااللہ میری توبہ!۔ مجھے زیادہ تنگ نہ کیجیے۔ میرا جی چاہتا ہے اپنے سرکے بال نوچنا شروع کردوں‘‘

’’میرا سر موجود ہے۔ تم اس کے بال بڑے شوق سے نوچ سکتی ہو‘‘

’’آپ کو تو اپنے بال بڑے عزیز ہیں‘‘

’’انسان کو اپنی ہر چیز عزیز ہوتی ہے‘‘

’’لیکن مردوں کے سر پر بالوں کے چھتے بھڑوں کے چھتے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ معلوم نہیں بال کٹوانے سے کیوں پرہیز کرتے ہیں‘‘

’’میں پرہیزی آدمی ہوں‘‘

’’اس قدر جھوٹ۔ ابھی پرسوں آپ نے مجھ سے کہا کہ آپ نے ایک پارٹی میں شراب پی تھی‘‘

’’لاحول ولا۔ میں نے تو صرف شیری کا ایک گلاس پیا تھا‘‘

’’وہ کیا بلا ہوتی ہے؟‘‘

’’بڑی بے ضرر قسم کی چیز ہے‘‘

’’تمہاری بد زبانیاں کہیں مجھے بھی بد زبان نہ بنا دیں‘‘

’’جیسے آپ بدزبان نہیں ہیں‘‘

’’بدزبان تمہارا باپ تھا۔ جانتی ہو۔ وہ ہر بات میں مغلظات بکتا تھا‘‘

’’میں کہتی ہوں میرے موئے باپ کے متعلق کچھ نہ کہئے۔ آپ بڑے واہیات ہوتے جارہے ہیں‘‘

’’واہیات کیسے ہوتا جارہا ہوں؟‘‘

’’میں نہیں جانتی‘‘

’’جاننے کے بغیر تم نے یہ فتویٰ کیسے عائد کردیا‘‘

’’میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اتنے بال کیوں بڑھا رکھے ہیں، مجھے وحشت ہوتی ہے‘‘

’’بس اتنی سی بات تھی جس کو تم نے بتنگڑ بنا دیا۔ میں جارہا ہوں۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’بس جارہا ہوں‘‘

’’خدا کے لیے مجھے بتا دیجیے۔ میں خود کشی کرلوں گی‘‘

’’میں نُصرت ہیئر کٹنگ سیلون میں جارہا ہوں‘‘

سعادت حسن منٹو

حجِ اکبر

امتیاز اور صغیر کی شادی ہوئی تو شہر بھر میں دھوم مچ گئی۔ آتش بازیوں کا رواج باقی نہیں رہا تھا مگر دولہے کے باپ نے اس پرانی عیاشی پر بے دریغ روپیہ صرف کیا۔ جب صغیر زیوروں سے لدے پھندے سفید براق گھوڑے پر سوار تھا، تو اس کے چاروں طرف انار چھوٹ رہے تھے۔ مہتابیاں اپنے رنگ برنگ شعلے بکھیر رہی تھیں۔ پٹاخے پھوٹ رہے تھے۔ صغیر خوش تھا۔ بہت خوش کہ اس کی شادی امتیاز سے طے پا گئی تھی جس سے اس کو بے پناہ محبت تھی۔ صغیر نے امتیاز کو ایک شادی کی تقریب میں دیکھا۔ اس کی صرف ایک جھلک اسے دکھائی دی تھی۔ مگر وہ اس پر سو جان سے فریفتہ ہو گیا۔ اور اس نے دل میں عہد کرلیا کہ وہ اس کے علاوہ اور کسی کو اپنی رفیقہ ءِ حیات نہیں بنائے گا، چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر نہ ہو جائے۔ دنیا اِدھر کی اُدھر نہ ہوئی۔ صغیر نے امتیاز سے ملنے کے راستے ڈھونڈ لیے۔ شروع شروع میں اس خوبرو لڑکی کے حجاب آڑے آیا، لیکن بعد میں صغیر کو اس کا التفات حاصل ہو گیا۔ صغیر بہت مخلص دل نوجوان تھا۔ اس میں ریا کاری نام کو بھی نہ تھی۔ اس کو امتیاز سے محبت ہو گئی تو اس نے یہ سمجھا کہ اسے اپنی زندگی کا اصل مقصد حاصل ہو گیا ہے۔ اس کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ امتیاز اسے قبول کرے گی یا نہیں۔ وہ اس قسم کا آدمی تھا کہ اپنی محبت کے جذبے ہی کے سہارے ساری زندگی بسر کردیتا۔ اِس کو جب امتیاز سے پہلی مرتبہ بات کرنے کا موقعہ ملا تو اس نے گفتگو کی ابتدا ہی ان الفاظ سے کی،

’’دیکھو لالی، میں ایک نامحرم آدمی ہوں۔ میں نے مجبور کیا ہے کہ تم مجھ سے ملو۔ اب اس ملاپ کا انجام نیک ہونا چاہیے۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اور خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہارے علاوہ اور کوئی عورت زندگی میں نہیں آئے گی۔ یہ میرے ضمیر اور دل کی اکٹھی آواز ہے۔ تم بھی وعدہ کرو کہ جب تک میں زندہ ہوں مجھے کوئی آزار نہیں پہنچاؤ گی اور میری موت کے بعد بھی مجھے یاد کرتی رہو گی۔ اس لیے کہ قبر میں بھی میری سوکھی ہڈیاں تمہارے پیار کی بھوکی ہوں گی‘‘

امتیاز نے دھڑکتے ہوئے دل سے وعدہ کیا کہ وہ اس عہد پر قائم رہے گی۔ اس کے بعد ان دونوں میں چھپ چھپ کے ملاقاتیں رہیں۔ صغیر اس کو نکاح سے پہلے ہاتھ لگانا بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا۔ ان ملاقاتوں میں ان کا موضوع عشق و محبت نہیں ہوتا تھا۔ صغیر مطمئن تھا کہ امتیاز اس کی محبت کی دعوت قبول کر چکی ہے۔ اس پر اب اور زیادہ گفتگو کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ویسے وہ اپنی محبوبہ سے ملنا اس لیے ضروری سمجھتا تھا کہ وہ اس کے عادات و خصائل سے واقف ہو جائے اور وہ بھی اس کو اچھی طرح جان پہچان لے تاکہ وہ اس کی جبلت کا اندازہ کرسکے، اور اس کو شکایت کا کوئی موقع نہ دے۔ اس نے ایک دن امتیاز سے بڑے غیر عاشقانہ انداز میں کہا

’’تازی میں اب بھی تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم نے مجھ میں کوئی خامی دیکھی ہے، اگر میں تمہارے معیار پر پورا نہیں اترا تو مجھ سے صاف صاف کہہ دو، تم کسی بندھن میں گرفتار نہیں ہو۔ تم مجھے دُھتکار دو تو مجھے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ میری محبت میرے لیے کافی ہے۔ میں اس کے اور ان ملاقاتوں کے سہارے کافی دیر تک جی سکتا ہوں‘‘

امتیاز اس سے بہت متاثر ہوئی اس کا جی چاہا کہ صغیر کو اپنے گلے سے لگا کر رونا شروع کردے، مگر وہ اسے ناپسند کرتا۔ اس لیے اس نے اپنے جذبات اندر ہی اندر مسل ڈالے۔ وہ چاہتی تھی کہ صغیر اس سے فلسفیانہ باتیں نہ کرے۔ لیکن کبھی کبھی اس طور پر بھی اس سے پیش آئے، جس طرح فلموں میں ہیرو، اپنی ہیروئن سے پیش آتا ہے۔ مگر صغیر کو ایسی عامیانہ حرکات سے نفرت تھی۔ بہر حال ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ پہلی رات کو حجلہ ءِ عروسی میں جب صغیر داخل ہوا تو امتیاز چھینک رہی تھی۔ وہ بہت متفکر ہوا۔ امتیاز کو بلاشبہ زکام ہورہا تھا، لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا خاوند اس معمولی سے عارضے کی طرف اتنا متوجہ ہو کہ اس کی تمام امنگوں کو فراموش کردے۔ وہ سر تا پا سپردگی تھی۔ مگر صغیر کو اس بات کی تشویش تھی کہ امتیاز اس کی جان سے زیادہ عزیز ہستی علیل ہے، چنانچہ اس نے فوراً ڈاکٹر بلوایا۔ جو دوائیاں اس نے تجویز کیں بازارسے خرید کر لایا اور اپنی نئی نویلی دلہن کو جس کوڈاکٹر کی آمد سے کوئی دلچسپی تھی نہ اپنے خاوند کی تیمار داری سے، اسے مجبور کیا کہ وہ انجکشن لگوائے اور چار چار گھنٹے کے بعد دوا پِیے۔ زکام کچھ شدید قسم کا تھا، اس لیے چار دن اور چار راتیں صغیر اپنی دلہن کی تیمارد اری میں مصروف رہا۔ امتیاز چڑ گئی۔ وہ جانے کیا سوچ کر عروسی جوڑا پہنے صغیر کے گھر آئی تھی۔ مگر وہ بے کار اس کے زکام کو درست کرنے کے پیچھے پڑا ہوا تھا، جیسے دولہا دلہن کے لیے بس ایک یہی چیز اہم ہے، باقی اور باتیں فضول ہیں۔ تنگ آکر ایک دن اس نے اپنے ضرورت سے زیادہ شریف شوہر سے کہا

’’آپ چھوڑیے میرے علاج معالجے کو۔ میں اچھی بھلی ہوں‘‘

پھر اس نے دعوت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’میں دُلہن ہوں۔ آپ کے گھر آئی ہوں، اور آپ نے اسے ہسپتال بنا دیا ہے‘‘

صغیر نے بڑے پیار سے اپنی دلہن کا ہاتھ دبایا اور مسکرا کر کہا

’’تازی، خدا نہ کرے کہ یہ ہسپتال ہو۔ یہ میرا گھر نہیں تمہارا گھر ہے‘‘

اس کے بعد امتیاز کو جو فوری شکایت تھی رفع ہو گئی۔ اور وہ شیروشکر ہو کر رہنے لگے۔ صغیر اس سے محبت کرتا تھا، لیکن اس کو ہمیشہ امتیاز کی صحت، اس کے جسم کی خوبصورتیوں اور اس کو تروتازہ دیکھنے کا خیال رہتا۔ وہ اسے کانچ کے نازک پھولدان کی طرح سمجھتا تھا جس کے متعلق ہر وقت یہ خدشہ ہو کہ ذرا سی بے احتیاطی سے ٹُوٹ جائے گا۔ امتیاز اور صغیر کا رشتہ دوہرا تھا۔ دوبھائی اصغر حسین اور امجد حسین تھے۔ کھاتے پیتے تاجر۔ صغیر بڑے بھائی اصغر حسین کا لڑکا تھا، اور امتیاز امجد حسین کی بیٹی۔ اب یہ دونوں میاں بیوی تھے۔ شادی سے پہلے دونوں بھائیوں میں کچھ اختلاف تھے جو اس کے بعد دور ہو گئے تھے۔ امتیاز کی دو بہنیں اور تھیں جو اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ امتیاز کا بیاہ ہوا تو ان دونوں کی باری قدرتی طور پر آگئی۔ وہ اپنے گھروں میں آباد بہت خوش تھیں۔ کبھی کبھی امتیاز سے ملنے آتیں اور صغیر کے اخلاق سے بہت متاثر ہوتیں۔ ان کی نظر میں وہ آئیڈیل شوہر تھا۔ دو برس گزر گئے، امتیاز کے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا۔ دراصل صغیر چاہتا تھا اتنی چھوٹی عمر میں وہ اولاد کے بکھیڑوں میں نہ پڑے۔ ان دونوں کے دن ابھی تک کھیلنے کودنے کے تھے۔ صغیر اسے ہر روز سینما لے جاتا، باغ کی سیر کراتا۔ نہر کے کنارے کنارے اس کے ساتھ چہل قدمی کرتا۔ اس کی ہر آسائش کا اسے خیال تھا۔ بہترین سے بہترین کھانے، اچھے سے اچھے باورچی۔ اگر امتیاز کبھی باورچی خانے کا رخ کرتی تو وہ اس سے کہتا

’’تازی انگیٹھیوں پر پتھر کے کوئلے جلتے ہیں۔ اُن کی بُو بہت بُری ہوتی ہے اور صحت کے لیے بھی نامفید۔ میری جان تم اندر نہ جایا کرو، دو نوکر ہیں۔ کھانے پکانے کا کام جب تم نے ان کے سپرد کر رکھا ہے تو پھر اس زحمت کی کیا ضرورت؟‘‘

امتیاز مان جاتی۔ سردیوں میں صغیر کا بڑا بھائی اکبر جو نیروبی میں ایک عرصہ سے مقیم تھا اور ڈاکٹر تھا کسی کام کے سلسلے میں کراچی آیا تو اس نے سوچا کہ چلو لاہور صغیرسے مل آئیں۔ بذریعہ ہوائی جہاز پہنچا اور اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ٹھہرا۔ وہ صرف چار روز کے لیے آیا کہ ہوائی جہاز میں اس کی سیٹ پانچویں روز کے لیے بک تھی۔ مگر جب اس کی بھابھی نے جو اس کی آمد پر بہت خوش ہوئی تھی اصرار کیا تو چھوٹے بھائی صغیر نے اس سے کہا

’’بھائی جان آپ اتنی دیر کے بعد آئے ہیں کچھ دن اور ٹھہر جایئے۔ میری شادی میں آپ شریک نہیں ہوئے تھے، جتنے دن آپ فالتو ٹھہریں گے، انہیں جرمانہ سمجھ لیجیے گا‘‘

امتیاز مسکرائی اور اکبر سے مخاطب ہوئی

’’اب تو آپ کو ٹھہرانا ہی پڑے گا۔ اور پھر مجھے آپ نے شادی پر کوئی تحفہ بھی تو نہیں دیا۔ میں جب تک وصول نہیں کر لُوں گی، آپ کیسے جاسکتے ہیں اور آپ کو میں جانے بھی کب دوں گی‘‘

دوسرے روز اکبر اس کو ساتھ لے کر گیا اور سچے موتیوں کا ایک ہار لے دیا۔ صغیر نے اپنے بھائی کا شکریہ ادا کیا۔ اس لیے کہ ہار بہت قیمتی تھا، کم از کم پانچ ہزار روپے کا ہو گا۔ اسی دن اکبر نے واپس نیروبی جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور صغیر سے کہا کہ وہ ہوائی جہاز میں اس کے ٹکٹ کا بندوبست کرے۔ اس لیے کہ اس کی لاہور شہر میں کافی واقفیت تھی۔ اکبر نے اس کو روپے دیے مگر اس نے برخوردارانہ انداز میں کہا

’’آپ ابھی اپنے پاس رکھیے میں لے لوں گا‘‘

اور ٹکٹ کا بندوبست کرنے چلا گیا۔ اسے کوئی دقت نہ ہوئی، اس لیے کہ ہوائی جہاز سروس کا جنرل منیجر اس کا دوست تھا۔ اس نے فوراً ٹکٹ لے دیا۔ صغیر کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھا گپ لڑاتا رہا اس کے بعد گھر کا رُخ کیا۔ موٹر گراج میں بند کرکے وہ اندر داخل ہوا، لیکن فوراً باہر نکل آیا۔ گراج سے موٹر نکالی اور اس میں بیٹھ کر جانے کہاں روانہ ہو گیا۔ اکبر اور امتیاز دیر تک اس کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ آیا۔ انہوں نے موٹر کے آنے اور گراج میں بند کیے جانے کی آواز سنی تھی مگر انہوں نے سوچا کہ شاید ان کے کانوں کو دھوکا ہوا تھا۔ اس لیے کہ صغیر موجود تھا نہ اس کی موٹر۔ مگر وہ غائب کہاں ہو گیا تھا؟ اکبر کو واپس جانا تھا مگر اس نے پورا ایک ہفتہ انتظار کیا۔ ادھر ادھر کئی جگہ پوچھ گچھ کی۔ پولیس میں رپورٹ لکھوائی مگر صغیر کی کوئی سن گن نہ ملی۔ آخری دن جب کہ اکبر جارہا تھا، پولیس اسٹیشن سے اطلاع ملی کہ پی بی ایل کے 10059 نمبر کی موٹر کار جس کے ایک خانے میں صغیر اختر کے نام کا لائسنس نکلا ہے، ہوائی اڈے کے باہر کئی دنوں سے پڑی ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اکبر امجد حسین نام کے ایک آدمی نے آٹھ روز پہلے ہوائی جہاز میں نیروبی کا سفر کیا ہے۔ اکبر کی سیٹ نیروبی کے لیے بُک تھی۔ امتیاز سے رخصت لے کر جب وہ کینیا پہنچا تو اسے بڑی مشکلوں کے بعد صرف اتنا معلوم ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام اکبر امجد تھا ہوائی جہاز کے ذریعے سے یہاں پہنچے تھے۔ ایک ہوٹل میں دو روز ٹھہرے اس کے بعد چلے گئے۔ اکبر نے بہت کوشش کی مگر پتہ نہ چلا۔ اس دوران میں اس کو امتیاز کے کئی خط آئے۔ پہلے دو تین خطوں کی تو اس نے رسید بھیجی، اس کے بعد جو بھی خط آتا پھاڑ دیتا کہ اس کی بیوی نہ پڑھ لے۔ دس برس گزر گئے۔ امجد حسین، یعنی امتیاز کا باپ بہت پریشان تھا۔ بہت لوگوں کا خیال تھا کہ صغیر مر کھپ چکا ہے مگر امجد کا دل نہیں مانتا تھا۔ کہیں اس کی لاش ہی مل جاتی۔ خود کشی کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟۔ بڑا نیک، شریف اور برخوردار لڑکا تھا۔ امجد کو اس سے بہت محبت تھی۔ ایک ہی بات اس کی سمجھ میں آتی تھی کہ اس کی بیٹی امتیاز نے کہیں اس جیسے ذکی الحس آدمی کو ایسی ٹھیس نہ پہنچائی ہو کہ وہ شکستہ دل ہوکر کہیں رُوپوش ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس نے امتیاز سے کئی مرتبہ اس بارے میں پوچھا مگر وہ صاف مُنکر ہو گئی۔ خدا اور رسول کی قسمیں کھا کر اس نے اپنے باپ کی تشفی کردی کہ اس سے ایسی کوئی حرکت سرزد نہیں ہوئی۔ اکثر اوقات وہ روتی بھی تھی۔ اس کو صغیر یاد آتا تھا۔ اس کی نرم و نازک محبت یاد آتی تھی۔ اس کا وہ دھیما دھیما، نسیم سحری کا سلوک یاد آتا تھا جو اس کی فطرت تھی۔ امجد حسین کا ایک دوست حج کو گیا۔ واپس آیا تو اس نے اس کو یہ خوش خبری سنائی کہ صغیر زندہ ہے اور ایک عرصے سے مکے میں مقیم ہے۔ امجد حسین بہت خوش ہوا۔ اس کو اس کے دوست نے صغیر ہندی کا اتا پتا بتا دیا تھا۔ اس نے اپنی بیٹی امتیاز کو تیار کیا کہ وہ اس کے ساتھ حجاز چلے۔ فوراً ہوائی جہاز کے سفر کا انتظام ہو گیا۔ امتیاز جانے کے لیے تیار نہیں تھی، اس کو جھجک سی محسوس ہورہی تھی۔ بہر حال باپ بیٹی سرزمینِ حجاز پہنچے۔ ہر مقدس مقام کی زیارت کی۔ امجد حسین نے ایک ایک کونہ چھان مارا مگر صغیر کا پتہ نہ چلا۔ چند آدمیوں سے جو اس کو جانتے تھے، صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ آپ کی آمد سے دس روز پہلے، کیونکہ اسے کسی نہ کسی طریق سے معلوم ہو چکا تھا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں، کھڑکی سے کودا اور گِر کر ہلاک ہو گیا۔ مرنے سے چند لمحات پہلے اس کے ہونٹوں پر ایک لفظ کانپ رہا تھا۔ غالباً امتیاز تھا۔ اس کی قبر کہاں تھی۔ وہ کب اور کیسے دفن ہوا، اس کے متعلق صغیر کے جاننے والوں نے کچھ نہ بتایا۔ یہ ان کے علم میں نہیں تھا۔ امتیاز کو یقین آگیا کہ اس کے خاوند نے خود کشی کرلی ہے۔ اس کو شاید اس کا سبب معلوم تھا، مگر اس کا باپ یہ ماننے سے یکسر منکر تھا۔ چنانچہ اس نے کئی بار اپنی بیٹی سے کہا

’’میرا دل نہیں مانتا۔ وہ زندہ ہے۔ وہ تمہاری محبت کی خاطر اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک خدا اس کو موت کے فرشتے کے حوالے نہ کردے۔ میں اس کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ تمہاری جگہ اگر وہ میرا بیٹا ہوتا تو میں خود کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھتا‘‘

یہ سن کر امتیاز خاموش رہی۔ وہ سرزمین حجاز سے بے نیلِ مرام واپس آگئے۔ ایک برس اور گزر گیا۔ اس دوران میں امجد حسین بڑی مہلک بیماری، یعنی دل کے عارضے میں گرفتار ہوا اور وفات پاگیا۔ مرتے وقت اس نے اپنی بیٹی سے کچھ کہنا چاہا، مگر وہ بات شاید بڑی اذیت دہ تھی کہ وہ خاموش رہا اور صرف سرزنش بھری نگاہوں سے امتیاز کو دیکھتے دیکھتے مر گیا۔ اس کے بعد امتیاز اپنی بہن ممتاز کے پاس راولپنڈی چلی گئی۔ ان کی کوٹھی کے سامنے ایک اور کوٹھی تھی۔ جس میں ایک ادھیڑ عمر کا مرد جو بہت تھکا تھکا سا دکھائی دیتا تھا دھوپ تاپتا اور کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ ممتاز اس کو ہر روز دیکھتی۔ ایک دن اس نے امتیاز سے کہا

’’مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے یہ صغیر ہے۔ کیا تم نہیں پہچان سکتی ہو۔ وہی ناک نقشہ ہے، وہی متانت وہ سنجیدگی‘‘

امتیاز نے اس آدمی کی طرف غور سے دیکھا، اور ایک دم چِلائی

’’ہاں ہاں وہی ہے‘‘

پھر فوراً رُک گئی

’’لیکن وہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ وہ تو وفات پا چکے ہیں‘‘

انہیں دنوں ان دونوں کی چھوٹی بہن شہناز بھی آگئی۔ ممتاز اور امتیاز نے اس کو یہ قبل از وقت مُرجھایا اور افسردہ مرد دکھایا جس کی داڑھی کھچڑی تھی۔ اور اس سے پوچھا۔

’’تم بتاؤ، اس کی شکل صغیر سے ملتی ہے یا کہ نہیں؟‘‘

شہناز نے اس کو بڑی گہری نظروں سے دیکھا اور فیصلہ کن لہجے میں کہا

’’شکل ملتی ہے۔ یہ خود صغیر ہے۔ سو فی صدی صغیر‘‘

اور یہ کہہ کر وہ سامنے والی کوٹھی میں داخل ہو گئی۔ وہ شخص جو کتاب پڑھنے میں مشغول تھا، چونکا۔ شہناز جس نے شادی کے موقعے پر اس کی جوتی چرائی تھی، اسی پرانے انداز میں کہا

’’جناب! آپ کب تک چھپے رہیں گے‘‘

اس شخص نے شہناز کی طرف دیکھا اور بڑی سنجیدگی اختیارکرتے ہوئے پوچھا

’’آپ کون ہیں؟‘‘

شہناز طرار تھی۔ اس کے علاوہ اس کو یقین تھا کہ جس سے وہ ہم کلام ہے وہ اس کا بہنوئی ہے۔ چنانچہ اس نے بڑے نوکیلے لہجے میں کہا

’’جناب، میں آپ کی سالی شہناز ہوں‘‘

اس شخص نے شہناز کو سخت ناامید کیا۔ اس نے کہا

’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘

اس کے بعد شہناز نے اور بہت سی باتیں کیں مگر اس نے بڑے ملائم انداز میں اس سے جو کچھ کہا، اس کا یہ مطلب تھا کہ تم ناحق اپنا وقت ضائع کررہی ہو۔ میں تمہیں جانتا ہوں نہ تمہاری بہن کو جس کے متعلق تم کہتی ہو کہ میری بیوی ہے۔ میری بیوی، میری اپنی زندگی ہے اور میں ہی اس کا خاوند۔ شہناز اور ممتاز نے لاکھ سر پٹکا، مگر وہ شخص جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا، مانتا ہی نہیں تھا کہ وہ صغیر ہے۔ اس کو کسی چیز سے دلچسپی نہیں تھی، سوائے کتابوں کے۔ لیکن شہناز اور ممتاز کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ امتیاز کے متعلق تمام معلومات حاصل کرتا ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا، اس پر اسرار مرد کے نوکر کے ذریعے سے کہ وہ راتوں کو اکثر روتا ہے، نمازیں پڑھتا ہے اور دُعائیں مانگتا ہے وہ زندہ رہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کو جو اذّیت پہنچی ہے اس سے دیر تک لطف اندوز ہوتا رہے۔ نوکر حیران تھا کہ انسان کی زندگی میں ایسی کون سی تکلیف ہو سکتی ہے جس سے وہ لُطف اٹھا سکتا ہے۔ سب باتیں امتیاز سنتی تھی اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ مر جائے۔ چنانچہ اس نے جب یہ سنا کہ وہ شخص جس کو امتیاز اچھی طرح پہچانتی تھی، اس کے نام سے قطعاً ناآشنا ہے تو اس نے ایک روز تولہ افیم کھالی اور یہ ظاہر کیا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اکیلی آرام کرنا چاہتی ہے۔ وہ آرام کرنے چلی گئی۔ لیکن شہناز نے جب اس کو غنودگی کے عالم میں دیکھا تو اسے کچھ شبہ ہوا۔ اس نے ممتاز سے بات کی۔ اس کا ماتھا بھی ٹھنکا کمرے میں جا کر دیکھا تو امتیاز بالکل بے ہوش تھی۔ اس کو جھنجھوڑا مگر وہ نہ جاگی۔ شہناز دوڑی دوڑی سامنے والی کوٹھی میں گئی اور اس شخص سے جس کا نام راولپنڈی میں کسی کو معلوم نہیں تھا، سخت گھبراہٹ میں یہ اطلاع دی کہ اس کی بیوی نے زہر کھا لیا ہے، اور مرنے کے قریب ہے۔ یہ سن کر صرف اس نے اتنا کہا

’’آپ کو غلط فہمی ہے، وہ میری بیوی نہیں ہے۔ لیکن میرے ہاں اتفاق سے ایک ڈاکٹر آیا ہوا ہے۔ آپ چلیے میں اسے بھیج دیتا ہوں‘‘

شہناز گئی تو وہ اندر کوٹھی میں گیا، اور اپنے بھائی اکبر سے کہا

’’یہ کوٹھی جو سامنے ہے، اس میں کسی عورت نے زہر کھالیا ہے۔ بھائی جان آپ جلدی جائیے اور کوشش کیجیے کہ بچ جائے‘‘

اس کا بھائی جو نیروبی میں بہت بڑا ڈاکٹر تھا امتیاز کو نہ بچا سکا۔ دونوں نے جب ایک دوسرے کو دیکھا تو اس کا ردِّ عمل بہت مختلف تھا۔ امتیاز فوراً مر گئی اور اکبر اپنا بیگ لے کر واپس چلا گیا۔ صغیر نے اس سے پوچھا۔

’’کیا حال ہے مریضہ کا؟‘‘

اکبر نے جواب دیا۔

’’مر گئی‘‘

صغیر نے اپنے ہونٹ بھینچ کر بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’میں زندہ رہوں گا‘‘

لیکن ایک دم سنگین فرش پر لڑکھڑانے کے بعد گرا اور۔ جب اکبر نے اس کی نبض دیکھی تو وہ ساکت تھی۔

سعادت حسن منٹو

حامد کا بچہ

لاہورسے بابوہرگوپال آئے تو حامد گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ انھوں نے آتے ہی حامد سے کہا۔

’’لو بھئی فوراً ایک ٹیکسی کا بندوبست کرو۔ ‘‘

حامد نے کہا۔

’’آپ ذرا تو آرام کرلیجئے۔ اتنا لمبا سفر طے کرکے یہاں آئے ہیں۔ تھکاوٹ ہو گی۔ ‘‘

بابوہرگوپال اپنی دھن کے پکے تھے۔ نہیں بھائی مجھے تھکاوٹ واوٹ کچھ نہیں۔ میں یہاں سیر کی غرض سے آیا ہوں۔ آرام کرنے نہیں آیا۔ بڑی مشکل سے دس دن نکالے ہیں۔ یہ دس دن تم میرے ہو۔ جو میں کہوں گا تمہیں ماننا ہو گا میں اب کے عیاشی کی انتہا کردینا چاہتا ہوں۔ سوڈا منگواؤ۔ ‘‘

حامد نے بہت منع کیا کہ دیکھئے بابوہرگوپال صبح سویرے مت شروع کیجیے مگر وہ نہ مانے۔ بکس کھو کر جونی واکر کی بوتل نکالی اور اسے کھولنا شروع کردیا۔

’’سوڈا نہیں منگواتے تو لاؤ تھوڑا سا پانی لاؤ۔ کیا پانی بھی نہیں دو گے۔ ‘‘

بابوہرگوپال، حامد سے عمر میں بڑے تھے۔ حامد تیس کا تھا تو وہ چالیس کے تھے۔ حامد ان کی عزت کرتا تھا اس لیے کہ اس کے مرحوم باپ سے بابو صاحب کے مراسم تھے۔ اس نے فوراً سوڈا منگوایا اور بڑی لجاجت سے کہا۔

’’دیکھئے مجھے مجبور نہ کیجیے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ میری بیوی بڑی سخت گیر ہے۔ ‘‘

مگر بابوہرگوپال کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اوراسے ساتھ دینا ہی پڑا۔ جیسی کہ امید تھی، چار پیگ پینے کے بعد بابوہرگوپال نے حامد سے کہا۔

’’لو بھئی اب چلیں گھومنے۔ مگر دیکھو کوئی ایسی ٹیکسی پکڑنا جو ذرا شاندار ہو۔ پرائیویٹ ٹیکسی ہو تو بہت اچھا ہے۔ مجھے ان میٹروں سے نفرت ہے۔ ‘‘

حامد نے پرائیویٹ ٹیکسی کا بندوبست کردیا۔ نئی فورڈ تھی۔ ڈرائیور بھی بہت اچھا تھا۔ بابوہرگوپال بہت خوش ہوئے ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنا چوڑا بٹوا نکالا کھول کر دیکھا۔ سوسو کے کئی نوٹ تھے اور اطمینان کا سانس لیا اور اپنے آپ سے کہا۔

’’کافی ہیں۔ لوبھئی ڈرائیور اب چلو۔ ‘‘

ڈرائیور نے اپنے سر پر ٹوپی کو ترچھا کیا اور پوچھا۔

’’کہاں سیٹھ۔ ‘‘

بابوہرگوپال حامد سے مخاطب ہوئے

’’بولو بھئی تم۔ ‘‘

حامد نے کچھ دیر سوچ کر ایک ٹھکانہ بتایا۔ ٹیکسی نے ادھر کا رخ کیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد بمبئی کا سب سے بڑا دلال ان کے ساتھ تھا۔ اس نے مختلف مقامات سے مختلف لڑکیاں نکال نکال کر پیش کیں مگر حامد کو کوئی پسند نہ آئی وہ نفاست پسند تھا۔ صفائی کا شیدا تھا۔ یہ لڑکیاں سرخی پاؤڈر کے باوجود اس کو گندی دکھائی دیں۔ اس کے علاوہ ان کے چہروں پر کسبیت کی مہر تھی۔ یہ اسے بہت گھناؤنی معلوم ہوتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ عورت کو کسبی ہونے پر بھی عورت ہی رہنا چاہیے۔ اپنے عورت پن کو اپنے پیشے کے نیچے دبا نہیں دینا چاہیے۔ اس کے برعکس بابوہرگوپال غلاظت پسند تھا۔ لاکھوں میں کھیلتا تھا۔ چاہتا تو بمبئی کا پورا شہر صابن پانی سے دھلوا دیتا مگر اپنی ذاتی صفائی کا اسے کچھ خیال نہیں تھا۔ نہاتا تھا تو بہت ہی تھوڑے پانی سے۔ کئی کئی شیو نہیں کرتا تھا۔ گلاس چاہے میلا چکٹ ہو، اٹھا کر اس میں فرسٹ کلاس وسکی انڈیل دیتا تھا۔ غلیظ بہکارن کو سینے کے ساتھ چمٹا کر سو جاتا تھا اور کہتا تھا

’’لطف آگیا۔ کیا چیز تھی۔ ‘‘

حامد کو حیرت ہوتی تھی کہ یہ بابو کس قسم کا انسان ہے۔ اوپر نہایت ہی قیمتی شیروانی ہے نیچے ایسی بنیان ہے کہ اس کو دیکھنے سے ابکائیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ رومال پاس ہیں لیکن کرتے کے دامن سے ناک کا بہتا ہوا رینٹھ صاف کررہا ہے۔ غلیط پلیٹ میں چاٹ کھا کر خوش ہورہا ہے۔ تکیے کے غلاف میلے ہو کر بدبو چھوڑ رہے ہیں مگر اسے ان کو بدلوانے کا خیال تک نہیں آتا۔ حامد نے اس کے متعلق بہت غور کیا تھا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچا۔ اس نے کئی مرتبہ بابوہرگوپال سے کہا۔

’’بابو جی آپ کو غلاظت سے گھن کیوں نہیں آتی۔ ‘‘

یہ سن کر بابوہرگوپال مسکرا دیتے۔

’’کیوں نہیں آتی۔ لیکن تمہیں تو ہر جگہ غلاظت ہی غلاظت نظر آتی ہے۔ اب اس کا کیا علاج ہے۔ ‘‘

حامد خاموش ہو جاتا اور دل ہی دل میں بابوہرگوپال کی غلاظت پسندی پر کڑھتا رہتا۔ ٹیکسی دیر تک اِدھر اُدھر گھومتی رہی۔ دلال نے جب دیکھا کہ حامد انتخاب کے معاملے میں بہت کڑا ہے تو اس نے دل میں کچھ سوچا اور ڈرائیور سے کہا۔

’’شیوا جی پارک کی طرف دباؤ۔ وہ بھی پسند نہ آئی تو قسم خدا کی بھڑواگیری چھوڑ دوں گا۔ ‘‘

ٹیکسی شوا جی پارک کی ایک بنگلہ نما بلڈنگ کے پاس رکی۔ دلال اوپر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور بابوہرگوپال اور حامد کو اپنے ساتھ لے گیا۔ بڑا صاف ستھرا کمرہ تھا۔ فرش کی ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ فرنیچر پر گرد کا ذرہ تک نہیں تھا۔ ادھر دیوار پر سوامی وولیکانند کی تصویر لٹک رہی تھی۔ سامنے گاندھی جی کی تصویر سوبھاش کا فوٹو بھی تھا۔ میز پر مرہٹی کی کتابیں پڑی تھیں۔ دلال نے ان کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ حامد گھر کی صفائی سے بہت متاثر ہوا۔ چیزیں مختصر تھیں مگر قرینے سے رکھی گئی تھیں۔ فضا بڑی سنجیدہ تھی اس میں کسبیوں کا وہ بے شرم تیکھا پن نہیں تھا۔ حامد بڑی بے صبری سے لڑکی کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ دوسرے کمرے سے ایک مرد نمودار ہوا۔ اس نے ہولے ہولے سرگوشیوں میں دلال سے باتیں کیں۔ بابوہرگوپال اور حامد کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’ابھی آتی ہے۔ نہا رہی تھی، کپڑے پہن رہی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ وہ چلاگیا۔ حامد نے غورسے کمرے کی چیزیں دیکھنا شروع کی۔ میز کے پاس کونے میں بڑی خوبصورت رنگین چٹائی پڑی تھی۔ میز پر کتابوں کے ساتھ دس پندرہ رسالے تھے۔ نیچے بڑے نازک چپل چمکیلے فرش پرپڑے تھے۔ کچھ اس انداز سے کہ ابھی ابھی ان سے پاؤں نکل کر گئے ہیں۔ سامنے شیشوں والی الماری میں قطار در قطار کتابیں تھیں۔ بابوہرگوپال نے فرش پر جب اپنے سگرٹ کا آخری حصہ اپنی گرگابی کے نیچے دبایا تو حامد کو بہت غصہ آیا۔ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے کہ دوسرے کمرے کے دروازے سے اس کے کانوں میں ریشمیں سرسراہٹ پہنچی۔ اس نے زاویہ بدل کر دیکھا۔ ایک گوری چٹی لڑکی، بالکل نئے کاشٹے میں ملبوس ننگے پیر آرہی تھی۔ ۔ کاشٹے کا پلو اس کے سر سے کھسکا۔ سیدھی مانگ تھی۔ جب قریب آکر اس نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا تواس کے چمکیلے جوڑے میں حامد نے ایک پتا اڑسا ہوا دیکھا۔ پتے کا رنگ سفیدی مائل تھا۔ موٹے جوڑے میں جو بڑی صفائی سے کیا گیا تھا یہ پتا بہت خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔ حامد نے پرنام کا جواب اٹھ کر دیا۔ لڑکی شرماتی لجاتی ان کے پاس کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کی عمر حامد کے اندازے کے مطابق سترہ برس سے اوپر نہیں تھی۔ قد درمیانہ، رنگ گورا جس میں ہلکی ہلکی پیاری جھلک تھی۔ جس طرح اس کی ساڑھی نئی تھی اسی طرح وہ خود نئی معلوم ہوتی تھی۔ کرسی پر بیٹھ کر اس نے بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جھکالیں۔ حامد کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ آہستہ آہستہ اس کے وجود میں سرایت کررہی ہے۔ لڑکی بڑی صاف ستھری، بڑی اجلی تھی۔ بابوہرگوپال نے حامد سے کچھ کہا تو وہ چونک پڑا جیسے اس کو کسی نے جھنجھوڑ کر جگا دیا ہے

’’کیا کہابابوہرگوپال؟‘‘

بابوہرگوپال نے کہا۔

’’بات کرو بھئی۔ ‘‘

پھر آواز دھیمی کردی۔

’’مجھے تو کوئی خاص پسند نہیں۔ ‘‘

حامد کباب ہو گیا۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ دھلا ہوا شباب اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ نکھری ہوئی بے دماغ جوانی۔ ریشم میں لپٹی ہوئی اس کی نظروں کے سامنے تھی جس کو وہ حاصل کرسکتا تھا۔ ایک رات کے لیے نہیں، کئی راتوں کے لیے، کیونکہ وہ قیمت ادا کرکے اپنائی جاسکتی تھی، لیکن حامد نے جب یہ سوچا تو اسے دکھ ہوا کہ ایسا کیوں ہے۔ یہ لڑکی بکاؤ مال ہرگز نہیں ہونی چاہیے تھی۔ پھر اسے خیال کہ آیا اگر ایسا ہوتا تو اس کو حاصل کیسے کرتا۔ بابوہرگوپال نے بڑے بھونڈے انداز میں پوچھا۔

’’کیا خیال ہے بھئی۔ ‘‘

’’خیال؟‘‘

حامد پھر چونکا۔ آپ کو تو پسند نہیں، لیکن میں۔ ‘‘

وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بابوہرگوپال بڑے دوست نواز تھے۔ اٹھے اور دلال سے کاروباری انداز میں پوچھا۔

’’کیوں بھئی کیا دینا پڑے گا؟‘‘

دلال نے جواب دیا۔

’’چھوکری دیکھ لیجئے۔ ابھی تازہ تازہ دھندا شروع کیا ہے۔ ‘‘

بابوہرگوپال نے اس کی بات کاٹی۔

’’تم اسے چھوڑے۔ معاملے کی بات کرو۔ ‘‘

دلال نے بیڑی سلگائی، سو روپے ہوں گے۔ پورا دن رکھئے یا پوری رات رکھئے۔ ایک ڈیڑھیا کم نہیں ہو گا۔ ‘‘

بابوہرگوپال حامد سے مخاطب ہوئے۔

’’کیوں بھئی۔ ‘‘

حامد کو بابوہرگوپال اور دلال کی گفتگو بہت ناگوار گزر رہی تھی۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس لڑکی کی توہین ہورہی ہے۔ سو روپے میں یہ دھڑکتا ہوا شباب یہ دہکتی ہوئی جوانی۔ اس کو یہ سن کر بہت کوفت ہوئی کہ مرہٹی حسن کا جو یہ نادر نمونہ اس کے سامنے سانس لے رہا تھا اس کی قیمت صرف سو روپے ہے۔ مگر اس کوفت کے ساتھ ہی اس خیال نے اس کے دل میں چٹکی للی کہ سوروپے دے کر آدمی اس کو حاصل تو کرسکتا ہے۔ ایک دن یا ایک رات کے لیے لیکن پھر اس نے سوچا۔

’’صرف ایک دن یا ایک رات کیلیے۔ اس کے ساتھ تو آدمی کو اپنی ساری عمر بتا دینی چاہیے۔ اس کی ہستی میں اپنی ہستی مدغم کردینی چاہیے۔ ‘‘

بابوہرگوپال نے پھر پوچھا۔

’’کیوں بھئی کیا خیال ہے؟‘‘

حامد اپنا خیال ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بابوہرگوپال مسکرایا۔ جیب سے بٹوہ نکالا اور سو کا ایک نوٹ دلال کو دے دیا۔

’’ایک ڈیڑھیا کم نہ ایک ڈیڑھیا زیادہ۔ پھر وہ حامد سے مخاطب ہوا۔

’’چلو بھئی۔ معاملہ طے ہو گیا۔ ‘‘

حامد خاموش ہو گیا۔ دونوں نیچے اتر کر ٹیکسی میں بیٹھے۔ دلال لڑکی لے کر آگیا۔ وہ شرماتی لجاتی ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ہوٹل میں ایک کمرے کا بندوبست کرکے بابوہرگوپال اپنے لیے کوئی لڑکی تلاش کرنے چلا گیا۔ لڑکی پلنگ پر آنکھیں جھکائے بیٹھی تھی۔ حامد کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ بابوہرگوپال وسکی کی بوتل چھوڑ گیا تھا۔ آدھی کے قریب باقی تھی۔ حامد نے سوڈا منگوا کر ایک بہت بڑا پیگ لگایا۔ اس سے اس میں کچھ جرأت پیدا ہوئی۔ اس نے لڑکی کے پاس بیٹھ کر پوچھ۔

’’آپ کا نام؟‘‘

لڑکی نے نگاہیں اٹھا کر جواب دیا۔

’’لتا منگلاؤں کر۔ ‘‘

بڑی پیاری آواز تھی۔ حامد نے ایک بڑا پیگ اپنے اندر انڈیلا اور لتا کے سر سے کاشٹے کا پلوہٹا کر اس کے چمکیلے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ لتا نے بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جھپکائیں۔ حامد نے ساڑھی کا پلو بالکل نیچے گرا دیا۔ چست چولی کے کھلے گریبان سے اس کو لتا کے سینے کی ابھار کی ننھی سی دھڑکتی ہوئی جھلک دکھائی دی۔ حامد کا سارا وجود تھرا گیا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ چولی بن کر لتا کے ساتھ چمٹ جائے۔ اس کی میٹھی میٹھی گرمی محسوس کرے اور سو جائے۔ لتا ہندوستانی نہیں جانتی تھی۔ اس کومنگلاؤں سے آئے صرف دومہینے ہوئے تھے۔ مرہٹی بولتی تھی۔ بڑی کرخت زبان ہے لیکن اس کے منہ میں یہ بڑی ملائم ہو گئی تھی۔ وہ ٹوٹی پھوٹی ہندوستانی میں حامد کی باتوں کا جواب دیتی تو وہ اس سے کہتا

’’نہیں لتا، تم مرہٹی میں بات کرو۔ مجھے بہت چانگلی لگتی۔ ‘‘

لفظ

’’چانگلی‘‘

سن کر لتا ہنس پڑتی اور صحیح تلفظ اس کو بتاتی، لیکن حامد چے اور سے کی درمیانی آواز پیدا نہ کرسکتا۔ اس پر دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگتے۔ حامد اس کی باتیں نہ سمجھتا لیکن اس نہ سمجھنے میں اس کو لطف آتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس کے ہونٹ چوم لیتا اور اس سے کہتا۔

’’یہ پیارے پیارے بول جو تم اپنے منہ سے نکال رہی ہو میرے منہ میں ڈال دو۔ میں انھیں پینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

وہ کچھ نہ سمجھتی اور ہنس دیتی۔ حامد اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتا۔ لتا کی بانھیں بڑی سڈول اور گوری گوری تھیں ان پر چولی کی چھوٹی چھوٹی آستینیں پھنسی ہوئی تھیں۔ حامد نے ان کو بھی کئی بار چوما لتا کا ہر عضو حامد کو پیارا لگتا تھا۔ رات کو نو بجے حامد نے لتا کو اس کے گھر چھوڑا تو اپنے اندر ایک خلا سا محسوس کیا۔ اس کے ملائم جسم کا لمس جیسے ایک دم چھال کی طرح اترکر اس سے جدا ہو گیا۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح بابوہرگوپال آئے۔ انھوں نے تخلیے میں اس سے پوچھا

’’کیوں کیسی رہی؟‘‘

حامد نے صرف اتنا کہا۔

’’ٹھیک تھی۔ ‘‘

’’چلتے ہو پھر؟‘‘

’’نہیں مجھے ایک ضروری کام ہے۔ ‘‘

’’بکواس نہ کرو۔ میں نے تم سے آتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ دس دن تم میرے ہو۔ ‘‘

حامد نے بابوہرگوپال کو یقین دلایا کہ اسے واقعی بہت ضروری کام ہے۔ پونے جارہا ہوں۔ وہاں اس کو ایک آدمی سے مل کر اپنا کام کرانا ہے۔ بابوہرگوپال انجام کار مان گئے اور اکیلے عیاشی کرنے چلے گئے۔ حامد نے ٹیکسی لی۔ بینک سے روپے نکلوائے اور سیدھا لتا کے ہاں پہنچا۔ وہ اندر نہا رہی تھی۔ کمرے میں ایک مرد بیٹھا تھا، وہی جس نے پہلے دن کہا تھا۔

’’ابھی آتی ہے۔ نہا رہی تھی، کپڑے بدل رہی ہے۔ ‘‘

حامد نے اس سے کچھ دیر باتیں کیں اور سو کا ایک نوٹ اس کے حوالے کردیا۔ لتا آئی پہلے سے بھی زیادہ صاف ستھری اور نکھری ہوئی۔ ہاتھ جوڑ کر اس نے پرنام کیا۔ حامد اٹھا اور اس مرد سے مخاطب ہوا۔

’’میں چلتا ہوں۔ تم لے آؤ انھیں۔ وقت پر چھوڑ جاؤں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا، لتا آئی اور حامد کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کا لمس محسوس کرکے حامد کو بڑی راحت ہوئی۔ وہ اس کو وہیں ٹیکسی میں اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیتا مگر لتا نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔ شام کے ساڑھے سات بجے تک وہ اس کے ساتھ رہی۔ جب اس کے گھر چھوڑا تو ایسا محسوس کیا کہ اس کے دل کی راحت اس سے جدا ہو گئی ہے۔ رات بھر وہ بے چین رہا۔ حامد شادی شدہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے دو بچوں کا باپ تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ سخت حماقت کررہا ہے۔ اگر اس کی بیوی کو پتہ چل گیا تو آفت برپا ہو جائے گی۔ ایک بار سلسلہ ہو گیا ٹھیک ہے، مگر یہ سلسلہ تو اب دراز ہونے کی طرف مائل تھا۔ اس نے عہد کرلیا کہ اب شوا جی پارک کا رخ نہیں کریگا۔ مگر صبح دس بجے وہ پھر لتا کے ساتھ ہوٹل میں لیٹا تھا۔ پندرہ روز تک حامد بلاناغہ لتا کے ہاں جاتا رہا۔ اس کے بینک کے اکاؤنٹ میں سے دو ہزار روپے اڑ چکے تھے۔ کاروبار الگ اس کی غیر موجودگی کے باعث نقصان اٹھا رہا تھا۔ حامد کواس کا کامل احساس تھا مگر لتا اس کے دل و دماغ پر بری طرح چھا چکی تھی۔ لیکن حامد نے ہمت سے کام لیا اور ایک یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ اس دوران میں بابوہرگوپال اپنی میلی اور غلیظ عیاشیاں ختم کرکے لاہور واپس جا چکا تھا۔ حامد نے خود کو زبردستی اپنے کاروباری کاموں میں مصروف کردیا اور لتا کو بھولنے کی کوشش کی۔ چار مہینے گزر گئے۔ حامد ثابت قدم رہا۔ لیکن ایک دن اتفاق سے اس کا گزر شیوا جی پارک سے ہوا۔ حامد نے غیر ارادی طور پر ٹیکسی والے سے کہا۔

’’روک لو یہاں۔ ‘‘

ٹیکسی رکی۔ حامد سوچنے لگا۔

’’نہیں یہ ٹھیک نہیں۔ ٹیکسی والے سے کہو چلے!‘‘

مگر دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا اور اوپر چلا گیا۔ لتا آئی تو حامد نے دیکھا کہ وہ پہلے سے موٹی ہے۔ چھاتیاں زیادہ بڑھی ہیں۔ چہرے پر گوشت بڑھ گیا ہے۔ حامد نے سو روپے دیے اور اس کو ہوٹل میں لے گیا۔ یہاں اس کو جب معلوم ہوا کہ لتا حاملہ ہے تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ سارا نشہ ہرن ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے پوچھا۔

’’یہ۔ یہ حمل کس کا ہے۔ ؟‘‘

لتا کچھ نہ سمجھی۔ حامد نے اس کو بڑی مشکل سے سمجھایا تو اس نے سر ہلا کر کہا۔

’’ہم کو مالوم نہیں۔ ‘‘

حامد پسینہ پسینہ ہو گیا۔

’’تمہیں بالکل معلوم نہیں۔ ‘‘

لتا نے سر ہلایا۔

’’نہیں۔ ‘‘

حامد نے تھوک نگل کر پوچھا۔

’’کہیں۔ میرا تو نہیں؟‘‘

’’مالوم نہیں۔ ‘‘

حامد نے مزید استفسار کیا۔ بہت ہی باتیں کیں تو اسے معلوم ہوا کہ لتا کے لواحقین نے حمل گروانے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ کوئی دوا اثر نہیں کرتی تھی۔ ایک دوا نے تو اسے بیمار کردیا چنانچہ ایک مہینہ وہ بستر پر پڑی رہی۔ حامد نے بہت سوچا۔ ایک ہی بات اس کی سمجھ میں آئی کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کرے اور بہت جلدی کرے کیونکہ بچے کی خاطر لتا کو گاؤں بھیجا جارہا تھا۔ حامد نے اس کو گھر چھوڑا اور ایک ڈاکٹر کے پاس گیا جو اس کا دوست تھا اس نے حامد سے کہا۔

’’دیکھو یہ معاملہ بڑا خطرناک ہے۔ زندگی اور موت کا سوال درپیش ہوتا ہے۔ ‘‘

حامد نے اس سے کہا۔

’’یہاں میری زندگی اور موت کا سوال ہے۔ نطفہ یقیناً میرا ہے۔ میں نے اچھی طرح حسات لگایا ہے۔ اس سے بھی اچھی طرح دریافت کیا ہے۔ خدا کے لیے آپ سوچئے میری پوزیشن کیا ہے۔ میری اولاد۔ میں تو یہ سوچتے ہی کانپ کانپ جاتا ہوں۔ آپ میری مدد نہیں کریں گے تو سوچتا سوچتا پاگل ہو جاؤں گا۔ ‘‘

ڈاکٹر نے اس کو دوا دے دی۔ حامد نے لتا کو پہنچا دی مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ حامد خوشخبری سننے کے لیے بے قرار تھا مگر لتا نے اس سے کہا کہ اس پر پہلے بھی کسی دوا نے اثر نہیں کیا تھا۔ حامد بڑی مشکلوں سے ایک اور دوا لایا مگر یہ بھی کارثر ثابت نہ ہوئی۔ اب لتا کا پیٹ صاف نمایاں تھا۔ اس کے لواحقین اسے گاؤں بھیجنا چاہتے تھے۔ لیکن حامد نے ان سے کہا۔

’’نہیں ابھی ٹھہر جاؤ۔ میں کچھ اور بندوبست کرتا ہوں۔ ‘‘

بندوبست کچھ بھی نہ ہوا۔ سوچ سوچ کر حامد کا دماغ عاجز آگیا۔ کیا کرے کیا نہ کرے۔ کچھ اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔ بابوہرگوپال پر سو لعنتیں بھیجتا تھا۔ اپنے آپ کوکوستا تھا کہ کیوں اس نے حماقت کی۔ یہ سوچا تو لرز جاتا کہ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو وہ بھی اپنی ماں کی طرف پیشہ کریگی۔ ڈوب مرنے کی بات ہے۔ اس کو لتا سے نفرت ہو گئی۔ اس کا حسن اس کے دل میں اب پہلے سے جذبات پیدا نہ کرنا۔ غلطی سے اس کا ہاتھ لتا سے چھو جاتا تو اس کو ایسا محسوس ہوتا کہ اس نے انگاروں میں ہاتھ جھونک دیا ہے۔ اس کو اب لتا کی کوئی ادا پسند نہیں تھی۔ اس کی زبردست خواہش تھی کہ وہ اس کا بچہ جننے سے پہلے پہلے مر جائے۔ وہ اور مردوں کے پاس بھی جاتی رہی تھی، کیا اسے حامد ہی کا نطفہ قبول کرنا تھا؟ حامد کے جی میں آئی کہ وہ اس کے سوجھے ہوئے پیٹ میں چھرا پھونک دے یا کوئی ایسا حیلہ کرے کہ اس کا بچہ پیٹ ہی میں مر جائے۔ لتا بھی کافی فکر مند تھی۔ اس کی کبھی خواہش نہیں تھی کہ بچہ ہو۔ اس کے علاوہ اس کو بہت بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس کو الٹیوں نے نڈھال کردیا تھا۔ اب ہر وقت اس کے پیٹ میں اینٹھن سی رہتی تھی۔ مگر حامد سمجھتا تھا کہ وہ فکر مند نہیں ہے۔

’’اور کچھ نہیں تو کم بخت میری حالت دیکھ کر ہی ترس کھا کر بچہ قے کردے۔ ‘‘

دوائیں چھوڑ کر ٹونے ٹوٹکے بھی کیے مگر بچہ اتنا ہٹ دھرم تھا اپنی جگہ پر قائم رہا۔ تھک ہار کر حامد نے لتا کو گاؤں جانے کی اجازت دے دی لیکن خود وہاں جا کر مکان دیکھ آیا۔ حساب کے مطابق بچہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں پیدا ہونا تھا۔ حامد نے سوچ لیا تھا کہ وہ اسے کسی نہ کسی طرح مروا ڈالے گا، چنانچہ اس غرض سے اس نے بمبئی سے ایک بہت بڑے دادا سے راہ و رسم پیدا کی، اس کو خوب کھلاتا پلاتا رہا۔ اس پراس کا کافی روپیہ خرچ ہوا۔ مگر حامد نے کوئی خیال نہ کیا۔ ‘‘

وقت آیا تو اس نے اپنی ساری اسکیم دادا کریم کو بتادی۔ ایک ہزارروپے طے ہوئے۔ حامد نے فوراً دے دیے۔ دادا کریم نے کہا۔

’’اتنا چھوٹا بچہ مجھ سے نہیں مارا جائے گا۔ میں لاکرتمہارے حوالے کردوں گا۔ آگے تم جانو اور تمہارا کام۔ ویسے یہ راز میرے سینے میں دفن رہے گا۔ اس کی تم کچھ فکر نہ کرو۔ ‘‘

حامد مان گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ بچے کو گاڑی کی پٹڑی پر رکھ دے گا۔ اپنے آپ کچلا جائے گا یا کسی اور ترکیب سے اس کا خاتمہ کردے گا۔ دادا کریم کو ساتھ لے کر وہ لتا کے گاؤں آپہنچا۔ دادا کریم نے بتایا کہ بچہ پندرہ روز ہوئے پیدا ہو چکا ہے۔ حامد کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا جو اپنے پہلے لڑکے کی پیدائش پر اس کو محسوس ہوا تھا مگر اس نے اس کو وہیں دبا دیا اور کریم سے کہا۔

’’دیکھو آج رات یہ کام ہو جائے۔ ‘‘

رات کے بارہ بجے ایک اجاڑ جگہ پر حامد کھڑا انتظار کررہا تھا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک عجیب طوفان برپا تھا۔ وہ خود کو بڑی مشکلوں سے قاتل میں تبدیل کرچکا تھا۔ وہ پتھر جو اس کے سامنے پڑام تھا۔ بچے کا سر کچلنے کے لیے کافی تھا۔ کئی بار اسے اٹھا کر وہ اس کے وزن کا اندازہ کر چکا تھا۔ ساڑھے بارہ ہوئے تو حامد کو قدموں کی آواز آئی۔ حامد کا دل اس زور سے دھڑکنے لگا جیسے سینے سے باہر آجائے گا۔ دادا کریم اندھیرے میں نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھوں میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی۔ پاس آکر اس نے حامد کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں دے دی اور کہا۔

’’میرا کام ختم ہوا۔ میں چلا۔ ‘‘

یہ کہہ وہ چلا گیا۔ حامد بہت بری طرح کانپ رہا تھا۔ بچہ کپڑے کے اندر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ حامد نے اسے زمین پر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر اپنے لرزے پر قابو پانے کی کوشش کی۔ جب یہ کچھ کم ہوا تو اس نے و زنی پتھر اٹھایا۔ ٹٹول کر سر دیکھا۔ پتھر زور سے پٹکنے ہی والا تھاکہ اس نے سوچا، بچے کو ایک نظر دیکھ تو لوں۔ پتھر ایک طرف رکھ کر اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دیا سلائی نکالی اور ایک تیلی سلگائی۔ یہ اس کی انگلیوں ہی میں جل گئی۔ اس کی ہمت نہ پڑی۔ کچھ دیر سوچا۔ دل مضبوط کیا۔ دیا سلائی کی تیلی جلائی۔ کپڑا ہٹایا۔ پہلے سرسری نظر سے پھر ایک دم غور سے دیکھا۔ تیلی بجھ گئی۔ یہ کس کی شکل تھی؟۔ اس نے کہیں دیکھی تھی۔ کہاں؟۔ کب؟ حامد نے جلدی جلدی ایک تیلی جلائی اور بچے کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ ایک دم اس کی آنکھوں کے سامنے اس مرد کا چہرہ آگیا جس کے ساتھ لتا شیواجی پارک میں رہتی تھی۔ ہٹ تیری ایسی کی تیسی۔ ہوبہو وہی شکل۔ وہی ناک نقشہ! حامد نے بچے کو وہیں چھوڑا اور قہقہے لگاتا چلا گیا۔

سعادت حسن منٹو

حافظ حسین دین

حافظ حسین دین جو دونوں آنکھوں سے اندھاتھا، ظفر شاہ کے گھر میں آیا۔ پٹیالے کا ایک دوست رمضان علی تھا، جس نے ظفر شاہ سے اُس کا تعارف کرایا۔ وہ حافظ صاحب سے مل کر بہت متاثر ہوا۔ گو اُن کی آنکھیں دیکھتی نہیں تھیں مگر ظفر شاہ نے یوں محسوس کیا کہ اُس کو ایک نئی بصارت مل گئی ہے۔ ظفر شاہ ضعیف الاعتقاد تھا۔ اُس کو پیروں فقیروں سے بڑی عقیدت تھی۔ جب حافظ حسین دین اُس کے پاس آیا تو اُس نے اُس کو اپنے فلیٹ کے نیچے موٹر گراج میں ٹھہرایا۔ اُس کو وہ وائٹ ہاؤس کہتا تھا۔ ظفر شاہ سید تھا۔ مگر اُس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مکمل سید نہیں ہے۔ چنانچہ اُس نے حافظ حسین دین کی خدمت میں گزارش کی کہ وہ اس کی تکمیل کردیں۔ حافظ صاحب نے تھوڑی دیر بعد اپنی بے نُور آنکھیں گھما کر اُس کو جوا ب دیا۔

’’بیٹا۔ تو پورا بننا چاہتا ہے تو غوث اعظم جیلانی سے اجازت لینا پڑے گی۔ ‘‘

حافظ صاحب نے پھر اپنی بے نُور آنکھیں گھمائیں۔

’’اُن کے حضور میں تو فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ ‘‘

ظفر شاہ کو بڑی نااُمیدی ہوئی۔

’’آپ صاحبِ کشف ہیں۔ کوئی مداوا تو ہو گا۔ ‘‘

حافظ صاحب نے اپنے سر کو خفیف سی جنبش دی۔

’’ہاں چلہ کاٹنا پڑے گا مجھے۔ ‘‘

’’اگر آپ کو زحمت نہ ہوتو اپنے اس خادم کے لیے کاٹ لیجیے۔ ‘‘

’’سوچوں گا۔ ‘‘

حافظ حسین دین ایک مہینے تک سوچتا رہا۔ اس دوران ظفر شاہ نے اُن کی خاطر و مدارات میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ حافظ صاحب کے لیے صبح اٹھتے ہی ڈیڑھ پاؤ بادام توڑتا۔ ان کے مغز نکا ل کر سردائی تیار کرتا۔ دوپہر کو ایک سیر گوشت بھنوا کے اُس کی خدمت میں پیش کرتا۔ شام کو بالائی ملی ہوئی چائے پلاتا۔ رات کو ایک مُرغ مسلم حاضر کرتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ آخر حافظ حسین نے ظفر شاہ سے کہا۔

’’اب مجھے آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ ‘‘

ظفر شاہ نے پوچھا۔

’’کیسی آوازیں قبلہ۔ ‘‘

’’تمہارے متعلق۔ ‘‘

’’کیا کہتی ہیں۔ ‘‘

’’تم ایسی باتوں کے متعلق مت پوچھا کرو۔ ‘‘

’’معافی چاہتا ہوں۔ ‘‘

حافظ صاحب نے ٹٹول ٹٹول کر مرغ کی ٹانگ اُٹھائی اور اُسے دانتوں سے کاٹتے ہوئے کہا۔

’’تم اصل میں منکر ہو۔ آزمانا چاہتے ہو تو کسی کنوئیں پر چلو۔ ‘‘

ظفر شاہ تھرتھرا گیا۔

’’حضور میں آپ کو آزمانا نہیں چاہتا۔ آپ کا ہر لفظ صداقت سے لبریز ہے۔ ‘‘

حافظ صاحب نے سر کو زور سے جنبش دی۔

’’نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں آزماؤ۔ کھانا کھالیں تو ہمیں کسی بھی کنوئیں پر لے چلو۔ ‘‘

’’وہاں کیا ہو گا قبلہ۔ ‘‘

’’میرا معمول آواز دے گا۔ وہ کنواں پانی سے لبا لب بھر جائے گا اور تمہارے پاؤں گیلے ہوئے جائیں گے۔ ڈرو گے تو نہیں؟‘‘

ظفر شاہ ڈر گیا تھا۔ حافظ حسن دین جس لہجے میں باتیں کررہا تھا بڑا پر ہیبت تھا۔ لیکن اُس نے اس خوف پر قابو پاکر حافظ صاحب سے کہا۔

’’جی نہیں۔ آپ کی ذاتِ اقدس میرے ساتھ ہو گی تو ڈر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب سارا مرغ ختم ہو گیا تو حافظ صاحب نے ظفر شاہ سے کہا۔

’’میرے ہاتھ دُھلواؤ۔ اور کسی کنوئیں پر لے چلو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے اُس کے ہاتھ دُھلوائے تولیے سے پونچھے اور اُسے ایک کنوئیں پر لے گیا جو شہر سے کافی دُور تھا ظفر شاہ چادر لپیٹ کر اُس کی منڈیر کے پاس بیٹھ گیا۔ مگر حافظ صاحب نے چلا کر کہا۔

’’پانچ قدم پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں پڑھنے والا ہوں۔ کنوئیں کا پانی لبا لب بھر جائے گا۔ تم ڈر جاؤ گے۔ ‘‘

ظفر شاہ ڈر کر دس قدم پیچھے ہٹ گیا۔ حافظ صاحب نے پڑھنا شروع کردیا۔ رمضان علی بھی ساتھ تھا جس نے ظفر شاہ سے حافظ صاحب کا تعارف کرایا تھا۔ وہ دُور بیٹھا مونگ پھلی کھا رہا تھا۔ حافظ صاحب نے کنوئیں پر آنے سے پہلے ظفر شاہ سے کہا تھا کہ دو سیر چاول، ڈیڑھ سیر شکر اور پاؤ بھر کالی مرچوں کی ضرورت ہے جواس کا معمول کھا جائے گا۔ یہ تمام چیزیں حافظ صاحب کی چادر میں بندھی تھیں۔ دیر تک حافظ حسین دین معلوم نہیں کس زبان میں پڑھتا رہا۔ مگر اُس کے معمول کی کوئی آواز نہ آئی۔ نہ کنوئیں کا پانی اوپر چڑھا۔ حافظ نے چاول، شکر اور مرچیں کنوئیں میں پھینک دیں۔ پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ چند لمحات سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد حافظ پر جذب کی سی کیفیت طاری ہوئی اور وہ بُلند آواز میں بولا۔

’’ظفر شاہ کو کراچی لے جاؤ۔ اُس سے پانچ سو روپے لو اور گوجرانوالہ میں زمین الاٹ کرالو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے پانچ سو روپے حافظ کی خدمت میں پیش کردیے۔ اس نے یہ روپے اپنی جیب میں ڈال کر اُس سے بڑے جلال میں کہا۔

’’ظفر شاہ۔ تو یہ روپے دے کر سمجھتا ہے مجھ پر کوئی احسان کیا۔ ‘‘

ظفر شاہ نے سرتا پا عجز بن کر کہا۔

’’نہیں حضور میں نے تو آپ کے ارشاد کی تعمیل کی ہے۔ ‘‘

حافظ حسین دین کا لہجہ ذرا نرم ہو گیا۔

’’دیکھو سردیوں کا موسم ہے، ہمیں ایک دُھسّے کی ضرورت ہے۔ ‘‘

’’چلیے ابھی خرید لیتے ہیں۔ ‘‘

’’دو گھوڑے کی بوسکی کی قمیص اور ایک پمپ شو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے غلاموں کی طرح کہا۔

’’حضور آپ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔ ‘‘

حافظ صاحب کے حکم کی تعمیل ہو گئی۔ پانچ سو روپے کا دُھسّہ۔ پچاس روپے کی قراقلی کی ٹوپی۔ بیس روپے کا پمپ شو۔ ظفر شاہ خوش تھا کہ اُس نے ایک پہنچے ہوئے بزرگ کی خدمت کی۔ حافظ صاحب وائٹ ہاؤس میں سو رہے تھے کہ اچانک بڑبڑانے لگے۔ ظفر شاہ فرش پر لیٹا تھا۔ اُس کی آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ چونک کر سننے لگا۔ حافظ صاحب کہہ رہے تھے

’’حکم ہوا ہے۔ ابھی ابھی حکم ہوا ہے کہ حافظ حسین دین تم دریا راوی جاؤ اوروہاں چلہ کاٹو۔ چلہ کاٹو۔ وہاں تم اپنے معمول سے بات کرسکوگے۔ ‘‘

ظفرشاہ، حافظ کو ٹیکسی میں دریائے راوی پر لے گیا۔ وہاں حافظ چھیالیس گھنٹے معلوم نہیں کیا کچھ پڑھتا رہا۔ اُس کے بعد اُس نے ایسی آواز میں جو اُس کی اپنی نہیں تھی کہا۔

’’ظفر شاہ سے تین سو روپیہ اور لو۔ اپنے بھائی کی آنکھوں کا علاج کرو۔ تم اتنے غافل کیوں ہو۔ اگر تم نے علاج نہ کرایا تو وہ بھی تمہاری طرح اندھا ہوجائے گا۔ ‘‘

ظفر شاہ نے تین سو روپے اوردیدیے۔ حافط حسین دین نے اپنی بے نُور آنکھیں گھمائیں جس میں مسرت کی جھلک نظر آسکتی تھی۔ اور کہا

’’ڈاک خانے میں میرے بارہ سو روپے جمع ہیں۔ تم کچھ فکر نہ کرو پہلے پانچ سو اور یہ تین سو۔ کُل آٹھ سو ہوئے۔ میں تمھیں ادا کر دُوں گا۔ ‘‘

ظفر شاہ بہت متاثر ہوا۔

’’جی نہیں۔ ادائیگی کی کیا ضرورت ہے۔ آپ کی خدمت کرنا میرا فرض ہے۔ ‘‘

ظفر شاہ دیر تک حافظ کی خدمت کرتا رہا۔ اس کے عوض حافظ نے چالیس دن کا چلہ کاٹا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ظفر شاہ نے ویسے کئی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ پورا سید بن گیا ہے اور اُس کی تطہیر ہو گئی ہے مگر بعد میں اُس کو مایوسی ہوئی کیونکہ وہ اپنے میں کوئی فرق نہ دیکھتا اس کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔ اس نے سمجھا کہ شاید اُس نے حافظ صاحب کی خدمت پوری طرح ادا نہیں کی۔ جس کی وجہ سے اُس کی اُمید برنہیں آئی۔ چنانچہ اُس نے حافظ صاحب کو روزانہ ایک مرغ کھلانا شروع کر دیا۔ باداموں کی تعداد بڑھا دی۔ دودھ کی مقدار بھی زیادہ کر دی۔ ایک دن اُس نے حافظ صاحب سے کہا۔

’’پیر صاحب۔ میرے حال پر کرم فرمائیے میری مراد کبھی توپوری ہو گی یا نہیں۔ ‘‘

حافظ حسین دین نے بڑے پیرانہ انداز میں جواب دیا

’’ہو گی۔ ضرور ہو گی۔ ہم اتنے چلے کاٹ چکے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تم سے ناراض ہیں۔ تم نے ضرور اپنی زندگی میں کوئی گناہ کیا ہو گا۔ ‘‘

ظفر شاہ نے کچھ دیر سوچا۔

’’حضور۔ میں نے۔ ایسا کوئی گناہ نہیں کیا جو۔ ‘‘

حافظ صاحب نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔

’’نہیں ضرور کیا ہو گا۔ ذرا سوچو۔ ‘‘

ظفر شاہ نے کچھ دیر سوچا۔

’’ایک مرتبہ اپنے والد صاحب کے بٹوے سے آٹھ آنے چرائے تھے۔ ‘‘

’’یہ کوئی اتنا بڑا گناہ نہیں۔ اور سوچو۔ کبھی تم نے کسی لڑکی کو بُری نگاہوں سے دیکھا تھا؟‘‘

ظفر شاہ نے ہچکچاہٹ کے بعدجواب دیا۔

’’ہاں پیرو مُرشد۔ صرف ایک مرتبہ۔ ‘‘

’’کون تھی وہ لڑکی؟‘‘

’’جی میرے چچا کی۔ ‘‘

’’کہاں رہتی ہے ؟‘‘

’’جی اسی گھر میں۔ ‘‘

حافظ صاحب نے حکم دیا۔

’’بُلاؤ اُس کو۔ کیا تم اُس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟‘‘

’’جی ہاں۔ ہماری منگنی قریب قریب طے ہوچکی ہے۔ ‘‘

حافظ صاحب نے بڑے پر جلال لہجے میں کہا۔

’’ظفر شاہ۔ بُلاؤ اس کو۔ تم نے مجھ سے پہلے ہی یہ بات کہہ دی ہوتی تو مجھے بیکار اتنا وقت ضائع نہ کرنا پڑتا۔ ‘‘

ظفر شاہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ وہ حافظ صاحب کا حکم ٹال نہیں سکتا تھا اور پھر اپنی ہونے والی منگیتر سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ حافظ صاحب کو ملے۔ بادلِ ناخواستہ اُوپر گیا۔ بلقیس بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی۔ ظفر شاہ کودیکھ کر ذرا سمٹ گئی اور کہا۔

’’آپ میرے کمرے میں کیسے آگئے۔ ‘‘

ظفر شاہ نے دبے دبے لہجے میں جواب دیا۔

’’وہ۔ جو حافظ صاحب آئے ہوئے ہیں نا۔ ‘‘

بلقین نے ناول ایک طرف رکھ دیا۔

’’ہاں ہاں۔ میں نے انھیں کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ کیا بات ہے۔ ‘‘

’’بات یہ ہے کہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

بلقیس نے حیرت کااظہار کیا۔

’’وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اُن کی توآنکھیں ہی نہیں۔ ‘‘

وہ تم سے چند باتیں کرناچاہتے ہیں۔ بڑے صاحب کشف بزرگ ہیں۔ اُن کی بات سے ممکن ہے ہم دونوں کا بھلا ہو جائے۔ ‘‘

بلقیس مسکرائی۔

’’معلوم نہیں۔ آپ اتنے ضعیف الاعتقاد کیوں ہیں۔ لیکن چلیے۔ اندھا ہی تو ہے۔ اُس سے کیا پردہ ہے۔ ‘‘

بلقیس ظفر شاہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں گئی۔ حافظ حسین دین بیٹھا چلغوزے کھا رہا تھا۔ جب اُس نے قدموں کی چاپ سُنی تو بولا

’’آ گئے ظفر شاہ۔ ‘‘

ظفر شاہ نے تعظیماً جواب دیا

’’جی ہاں حضور۔ ‘‘

’’لڑکی آئی ہے۔ ؟

’’جی ہاں‘‘

حافظ صاحب نے اپنی بے نُور آنکھوں سے بلقیس کو دیکھنے کی کوشش کی اور کہا۔

’’بیٹھ جاؤمیرے سامنے۔ ‘‘

بلقیس سامنے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ حافظ صاحب نے ظفر شاہ سے کہا۔

’’اب تمہاری مراد بر آئیگی۔ ہم لڑکی کو وظیفہ بتائیں گے۔ انشاء اللہ سب کام ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘

ظفر شاہ بہت خوش ہوا۔ اس نے فوراً پھل منگوائے اور بلقیس سے کہا۔ حافظ صاحب معلوم نہیں کتنی دیر لگائیں۔ ان کی خدمت کرنا نہ بھولنا۔ ‘‘

حافظ صاحب نے کہا۔

’’دیکھو ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ آج ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ تمیں بھی خوش کردیں۔ جاؤ بازار سے چار تولے نوشادر، ایک تولہ چونا، دس تولے شنگرف اور ایک مٹی کا کُوزا لے آؤ۔ جتنااس کا وزن ہے اتنا ہی سونا بن جائے گا۔ ‘‘

ظفر شاہ بھاگا بھاگا بازار گیا۔ اور یہ چیزیں لے آیا۔ جب اپنے وائٹ ہاؤس پہنچا تو کواڑ کھلے تھے اور اس میں کوئی نہیں تھا۔ اُوپر گیا تو معلوم ہوا کہ بی بی بلقیس بھی نہیں ہے۔

سعادت حسن منٹو

چوہے دان

شوکت کوچُوہے پکڑنے میں بہت مہارت حاصل ہے۔ وہ مجھ سے کہا کرتا ہے یہ ایک فن ہے جس کو باقاعدہ سیکھنا پڑتا ہے اور سچ پوچھیے تو جو جو ترکیبیں شوکت کوچُوہے پکڑنے کے لیے یاد ہیں، ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کافی محنت کی ہے۔ اگر چوہے پکڑنے کا کوئی فن نہیں ہے تو اس نے اپنی ذہانت سے اسے فن بنا دیا ہے۔ اس کو آپ کوئی چوہا دکھا دیجیے، وہ فوراً آپ کو بتا دے گا کہ اس ترکیب سے وہ اتنے گھنٹوں میں پکڑا جائے گا اور اس طریقے سے اگر آپ اسے پکڑنے کی کوشش کریں تو اتنے دن لگ جائیں گے۔ چوہوں کی نسلوں اور ان کی مختلف عادات و اطوار کا شوکت بہت گہرا مطالعہ کرچکا ہے۔ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کس ذات کے چوہے جلدی پھنس جاتے ہیں اور کِس نسل کے چوہے بڑی مشکل کے بعد قابو میں آتے ہیں اور پھر ہر قسم کے چوہوں کو پھانسنے کی ایک سو ایک ترکیب شوکت کو معلوم ہے۔ موٹے موٹے اصول اس نے ایک روز مجھے بتائے تھے کہ چھوٹی چھوٹی چوہیاں اگر پکڑنا ہوں تو ہمیشہ نیا چوہے دان استعمال کرنا چاہیے۔ چوہے دان کی ساخت کسی قسم کی بھی ہو، اس کی کوئی پرواہ نہیں خیال اس بات کا رکھنا چاہیے کہ چوہے دان ایسی جگہ پر نہ رکھا جائے جہاں آپ نے چوہیا یا چوہیاں دیکھی تھیں۔ ٹرنکوں کے پیچھے۔ الماریوں کے نیچے، کہیں بھی جہاں آپ نے چوہیا نہ دیکھی ہو۔ چوہے دان رکھ دیا جائے اور اس میں تلی ہوئی مچھلی کا چھوٹا سا ٹکڑا رکھ دیا جائے۔ ٹکڑا بڑا نہ ہو۔ اگر چوہے دان کھٹ سے بند ہونیوالا ہے تو اس میں خاص طور پر بڑا ٹکرا نہیں لگانا چاہیے کہ چوہیا اندر آکر اس ٹکرے کا کچھ حصہ کتر کر باہر چلی جائے گی۔ ٹکڑا چھوٹا ہو گا تو وہ اسے اتارنے کی کوشش کرے گی اور یوں جھٹ پٹ پنجرے میں قید ہو جائے گی۔ ایک چوہیا پکڑنے کے بعد چوہے دان کو گرم پانی سے دھو لینا چاہیے۔ اگر آپ اسے اچھی طرح نہ دھوئیں گے تو پہلی چوہیا کی بُو اس میں رہ جائے گی جو دوسری چوہیوں کے لیے خطرے کے الارم کا کام دے گی۔ اس لیے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے۔ ہر چوہے یا چوہیا کو پکڑنے کے بعد چوہے دان کو دھو لینا چاہیے۔ اگر گھر میں زیادہ چوہے چوہیاں ہوں اور ان سب کو پکڑنا ہو تو ایک چوہے دان کام نہیں دے گا۔ تین چار چوہے دان پاس رکھنے چاہئیں جو بدل بدل کر کام میں لائے جائیں چوہے کی ذات بڑی سیانی ہوتی ہے، اگر ایک ہی چوہے دان گھر میں رکھا جائے گا تو چوہے اس سے خوف کھانا شروع کردینگے اور اس کے نزدیک تک نہیں آئیں گے۔ بعض اوقات ان تمام باتوں کا خیال رکھنے پر بھی چوہے چوہیاں قابو میں نہیں آتیں۔ اس کی بہت سی وجہیں ہوتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ سے پہلے جو مکان میں رہتا تھا اس نے اسی قسم کا چوہے دان استعمال کیا تھا جیسا کہ آپ کررہے ہیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے چوہے پکڑ کر باہر گلی یا بازار میں چھوڑ دیا ہو اور وہ چند دنوں کے بعد پھر واپس گھر آگیا ہے۔ ایسے چوہے جو ایک بار چوہے دان میں پھنس کر پھر اپنی جگہ پر واپس آجائیں اس قدر ہوشیار ہو جاتے ہیں کہ بڑی مشکل سے قابو میں آتے ہیں۔ یہ چوہے دوسرے چوہوں کو بھی خبردار کردیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوتی ہیں اور چوہے بڑے اطمینان سے اِدھر اُدھر دوڑتے رہتے ہیں اور آپ کا اور آپکے چوہے دان کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔ چوہے کے بِل کے پاس تو چوہے دان ہرگز ہرگز نہیں رکھنا چاہئے، اس لیے کہ اتنی بڑی چیز اپنے گھر کے پاس دیکھ کر جو پہلے کبھی نہیں ہوتی تھی چوہا فوراً چوکنا ہو جاتا ہے اور اس کو دال میں کالا کالا نظرآجاتا ہے۔ جب کسی حیلے سے چوہے نہ پکڑے جائیں تو گردوپیش کی فضا کا مطالعہ و مشاہدہ کرکے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ آس پاس کے لوگ کیسے ہیں، کس قسم کی چیزیں کھاتے ہیں اور ان کے گھروں کے چوہے کس چیز پر جلدی گرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں معلوم کرکے آپکو تجربے کرنا پڑیں گے اور ایسی ترکیب ڈھونڈنا پڑے گی جسکے ذریعہ سے آپ اپنے گھر کے چوہے گرفتار کرسکیں۔ شوکت چوہے پکڑنے کے فن پر ایک طویل لکچر دے سکتا ہے۔ کتاب لکھ سکتا ہے مگر چونکہ وہ طبعاً خاموشی پسند ہے اس لیے اس کے متعلق زیادہ بات چیت نہیں کرتا۔ صرف مجھے معلوم ہے کہ وہ اس فن میں کافی مہارت رکھتا ہے، محلے کے دوسرے آدمیوں کو اس کی مطلق خبر نہیں، البتہ اس کے پڑوسی اس کے یہاں سے کبھی کبھی چوہے دان عاریتاً ضرور منگایا کرتے ہیں اور اس نے اس غرض کے لیے ایک پرانا چوہے دان مخصوص کررکھا ہے۔ پچھلی برسات کی بات ہے۔ میں شوکت کے یہاں بیٹھا تھا کہ اس کے پڑوسی خواجہ احمد صادق صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کا بڑا لڑکا ارشد صادق آیا، میں نے جب اٹھ کر دروازہ کھولا تو اس نے کہنا شروع کیا۔

’’ان کم بخت چوہوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ابا جی سے بار ہا کہہ چکا ہوں کہ زہر منگوائیے ان کو مارنے کے لیے مگر انھیں اپنے کاموں ہی سے فرصت نہیں ملتی اور یہاں ہر روز میری کتابوں کا ستیاناس ہورہا ہے۔ آج الماری کھولی تو یہ بڑا چوہا میرے سر پر آن گرا۔ تمہیں کیا بتاؤں ان چوہوں نے مجھے کتنا تنگ کیا ہے۔ کسی کتاب کی جلد سلامت نہیں۔ بعض بڑی کتابوں کی جلد تو اس صفائی سے ان کم بختوں نے کتری ہے کہ معلوم ہوتا ہے کسی نے آری سے کاٹ دی ہے۔ ‘‘

میں ارشد کو شوکت کے پاس لے گیا اور کہا۔

’’ارشد صاحب تشریف لائے ہیں۔ چوہوں کی شکایت لے کر آئے ہیں۔ ‘‘

ارشد کرسی پر بیٹھ گیا اور پیشانی پر سے پسینہ پونچھ کر کہنے لگا۔

’’شوکت صاحب، میں کیا عرض کروں۔ ابھی الماری کی تمام کتابیں میں باہر نکال کر آیا ہوں۔ ایک بھی ان میں ایسی نہیں جس پرچوہوں نے اپنے دانت تیز نہ کیے ہوں۔ باورچی خانہ موجود ہے، دوسری الماریاں ہیں جن میں ہر وقت کھانے پینے کی چیزیں پڑی رہتی ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ میری کتابیں کُترنے میں ان کو کیا مزا آتا ہے۔ یعنی کاغذ اور دفنی بھلا کوئی غذا ہے۔ اجی صاحب ایک انبار کُترے ہوئے گتے اور دُھنکے ہوئے کاغذوں کا میں نے الماری میں سے نکالا ہے۔ ‘‘

شوکت مسکرایا۔

’’ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے گھر میں چوہے ہر روز سیندھ لگاتے پھریں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

ارشد نے اس مذاق سے لُطف نہ اُٹھایا اس لیے کہ وہ واقعی بہت پریشان تھا۔

’’شوکت صاحب، وہ معمولی چوہے تھوڑے ہیں۔ موٹے موٹے سنڈے ہیں جو کھلے بندوں پھرتے رہتے ہیں۔ میرے پرسرپر ایک آن پڑا۔ خدا کی قسم ابھی تک درد ہورہا ہے۔ ‘‘

شوکت اور میں دونوں کِھلکِھلا کر ہنس پڑے۔ ارشد بھی مسکرا دیا۔

’’آپ تو دل لگی کررہے ہیں اور یہاں غصہ کے مارے میرا بُرا حال ہورہا ہے۔ ‘‘

شوکت نے اٹھ کر ارشد کو سگرٹ پیش کیا۔

’’اپنے دل کا غبار اس کے دھوئیں کے ساتھ باہر نکالیے اور مجھے بتائیے کہ میں آپکی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ ‘‘

ارشد نے سگرٹ سلگایا اور کہا۔

’’میں آپ سے چوہے دان مانگنے آیا تھا۔ امی جان نے مجھ سے کہا تھا کہ شوکت کے گھر میں میں نے دو تین پڑے دیکھے ہیں۔ ‘‘

شوکت نے فوراً نوکر کو آواز دی اور اُس ے کہا۔

’’وہ چوہے دان جو تم نے کل گرم پانی سے دھوکر خوب صاف کیا تھا ارشد صاحب کے گھر دے آؤ اور دیکھو ان کے نوکر سے کہنا کہ اس الماری کے نیچے اس کونہ میں رکھے جہاں ارشد صاحب اپنی کتابیں رکھتے ہیں۔ اس الماری سے دور بھی نہیں۔ اس میں مچھلی یا تیل میں تلی ہوئی کسی چیز کا ٹکڑا لگا کر رکھ دیا جائے۔ ‘‘

پھر ارشد سے مخاطب ہو کرکہا۔

’’آپ بھی اچھی طرح سُن لیجیے گا۔ بازار سے اگرپکوڑے مل جائیں تو ایک پکوڑا کافی رہے گا۔ اور جب چوہا پکڑا جائے تو خدا کے لیے اسے میرے گھر کے پاس نہ چھوڑ دیجیے گا اور بہت جگہیں آپکو مل جائیں گی جہاں سے وہ پھر واپس نہ آسکے۔ ‘‘

دیر تک ارشد ہمارے پاس بیٹھا رہا۔ شوکت اسکو مزید ہدایات دیتا رہا۔ جب نوکر چوہے دان اس کے گھر پہنچا کر واپس آگیا تو اس نے اجازت چاہی اور چلا گیا۔ اس واقعہ کے چار روز بعد ارشد میرے گھر آیا۔ میں اور وہ چونکہ اکٹھے کالج میں پڑھتے رہے ہیں۔ اسی لیے وہ میرے بے تکلف دوست ہیں، شوکت سے اس کا تعارف میں نے ہی کرایا تھا۔ آتے ہی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا جیسے مجھ سے کوئی راز کی بات تخلیہ میں کہنا چاہتا ہے۔ میں نے پوچھا۔

’’کیا بات ہے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟‘‘

’’میں تمہیں ایک بڑی دلچسپ بات سنانے آیا ہوں مگر یہاں نہیں سناؤں گا تم باہر چلو۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور باہر لے گیا۔ راستے میں اس نے مجھے اپنی داستان سنانا شروع کی۔

’’عجیب وغریب کہانی ہے جو میں تمہیں سنانے والا ہوں۔ بخدا ایسی بات ہُوئی کہ میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ یعنی کسے یقین تھا کہ اتنی ضدی اور نفاست پسند لڑکی ایک چوہے دان کے ذریعہ سے میرے قابو میں آجائے گی۔ اُسی چوہے د ان کے ذریعہ سے جو اس روز تمہارے سامنے میں نے شوکت سے لیا تھا۔ ‘‘

میں نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔

’’کون سی لڑکی اُس چوہے دان میں پھنس گئی۔ لڑکی نہ ہوئی چوہیا ہو گئی۔ آخر بتاؤ تو سہی لڑکی کون ہے۔ ‘‘

’’اماں وہی سلیمہ جس کی نفاست پسندیوں کی بڑی دھوم ہے اور جس کی ضدی طبیعت کے بڑے چرچے ہیں۔ ‘‘

میری حیرت اور زیادہ بڑھ گئی۔

’’سلیمہ۔ جھوٹ؟‘‘

’’خدا کی قسم۔ جھوٹ بولنے والے پر لعنت۔ اور بھلا میں تم سے جھوٹ کیوں کہنے لگا۔ یہی سلیمہ، شوکت کے دئے ہُوئے چوہے دان کے ذریعہ سے میرے قابو میں آگئی اور بخدا یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ ایسی آسانی سے پھنس جائے گی۔ ‘‘

میں نے پھر اس سے حیرت بھرے لہجہ میں کہا۔

’’لیکن یہ ہوا کیوں کر۔ تم مجھے پوری داستان سناؤ توکچھ پتا چلے۔ چوہے دانوں سے بھی کبھی کسی نے لڑکیاں پھانسی ہیں۔ بڑی بے تُکی سی بات معلوم ہوتی ہے مجھے۔ ‘‘

میں سلیمہ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ہمارے یہاں اس کا اکثر آنا جانا ہے۔ وہ صرف نفاست پسند ہی نہیں بلکہ بڑی ذہین لڑکی ہے۔ انگریزی زبان پر اسے خوب عبورحاصل ہے۔ تین چار مرتبہ اُس سے مجھے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا تو میں نے معلوم کیا کہ ادب اور شعر کے متعلق اس کی معلومات بہت وسیع ہیں۔ مصور بھی ہے، پیانو بجانے میں بڑی مہارت رکھتی ہے۔ اس کی ضدی اور نفاست پسند طبیعت کے بارے میں بھی چونکہ مجھے بہت کچھ معلوم ہے، اسی لیے مجھے ارشد کی یہ بات سن کر سخت تعجب ہوا۔ وہ تو کسی کو خاطر ہی میں لانیوالی نہیں۔ ارشد جیسے چُغد کو اُس نے کیسے پسند کرلیا۔ یہ معّمہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ارشد بے حد خوش تھا۔ اس نے میری طرف فتحمند نظروں سے دیکھا اور کہا۔

’’میں تمہیں ساراواقعہ سنا دیتا ہوں۔ اس کے بعد کسی قسم کی وضاحت کی ضرورت نہ رہے گی۔ قصّہ یہ ہے کہ پرسوں رات کو امی جان اور ابا جی اور دوسرے لوگ سب سینما دیکھنے چلے گئے۔ میں گھر میں اکیلا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ آرام کرسی میں ٹانگیں پھیلائے لیٹا یہی سوچ رہا تھا کہ ایک موٹا سا چوہا مجھے نظر آیا۔ اس کو دیکھنا تھا کہ مارے غصہ کے میرا خون کھولنے لگا۔ فوراً اٹھا اور اس کو پکڑنے کی ترکیب سوچنے لگا۔ اسے ہاتھ سے پکڑنا تو ظاہر ہے۔ بالکل محال تھا، میں کسی طریقے سے اس کو مار بھی نہیں سکتا تھا، اس لیے کہ کمرے میں بے شمار فرنیچر اور ٹرنک وغیرہ پڑے تھے۔ میں نے شوکت کے دیئے ہُوئے چوہے دان کا خیال کیا جس سے آٹھ چوہے ہم لوگ پکڑ چکے تھے مگر شوکت کی ہدایات کے مطابق اس کو گرم پانی سے دھونا ضروری تھا۔ مجھے کوئی کام تو تھا نہیں اور وقت بھی کافی تھا، چنانچہ میں نے خود ہی سما وار میں پانی گرم کیا اور چوہے دان کو دھونا شروع کردیا۔ ابھی میں نے لوٹے سے گرم پانی کی دھار اس کے آہنی تاروں پر ڈالی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سلیمہ کھڑی ہے۔ میں نے کہا۔

’’آئیے، آئیے۔ ‘‘

وہ اندر چلی آئی اور کہنے لگی۔

’’کیا کررہے ہیں آپ؟‘‘

میں نے جھینپ کر جواب دیا۔

’’جی چوہے دان دھو رہا ہوں۔ ‘‘

وہ بے اختیار ہنس پڑی۔

’’چوہے دان دھو رہے ہیں۔ یہ صفائی آخر کس لیے ہورہی ہے۔ کوئی بڑا چوہا انسپکشن کے لیے تو نہیں آرہا۔ ‘‘

یہ سُن کر میری جھینپ دُور ہو گئی اور میں نے قہقہہ لگا کر کہا۔

’’جی ہاں۔ ایک بہت بڑا چوہا انسپکشن کے لیے آنا چاہتا ہے یہ صفائی اسی سلسلے میں ہورہی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر ارشد خاموش ہو گیا۔ اس پر میں نے اس سے کہا۔

’’سناتے جاؤ۔ رُکو نہیں۔ تمہاری داستان بہت دلچسپ ہے۔ ہاں تو پھر سلیمہ نے کیا کہا۔

’’کچھ نہیں۔ میری بات سن کروہ صحن ہی میں چوکی پر بیٹھ گئی اور کہنے۔

’’آپ صفائی کیجیے۔ اس صفائی کی انسپکشن میں کروں گی۔ ہاں یہ تو بتائیے آج یہ سب لوگ کہاں گئے ہیں۔ ‘‘

میں نے جواب دیا

’’سینما گئے ہیں، میں بے کار بیٹھا تھا کہ ایک چوہا اپنے کمرے میں مجھے نظر آیا۔ میں کیا عرض کروں ہمارے گھر میں کس طرح بڑے بڑے موٹے سنڈے چوہے سیندھ مارتے پھرتے ہیں۔ میری کتابوں کا تو انھوں نے ستیاناس کردیا ہے۔ اب ان کے ظلم و ستم سے میرے اندر ایک انتقامی جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ چوہے دان لے آیا ہوں اس سے ہر روز دو تین چوہے پکڑتا ہوں اور ان کو کالے پانی بھیج دیتا ہوں۔ ‘‘

سلیمہ نے میری گفتگو میں دلچسپی ظاہر کی۔

’’خوب، خوب۔ لیکن یہ تو بتائیے کالا پانی یہاں سے کتنی دور ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’بہت دور نہیں۔ کوتوالی پاس ہی جو گندہ نالا بہتا ہے اسی کو فی الحال میں نے کالا پانی بنا لیا ہے۔ چوہوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا، کیونکہ اس موری کا پانی کالا ہی ہے۔ ‘‘

ہم دونوں خوب ہنسے۔ پھر میں نے لوٹا اٹھایا اور چوہے دان کو برش کے ساتھ دھونا شروع کردیا۔ جب چھینٹے اڑے تو میں نے سلیمہ سے کہا۔

’’آپ یہاں سے اُٹھ جائیے، چھینٹے اُڑ رہے ہیں۔ ویسے بھی یہ میری بڑی بدتمیزی ہے کہ میں آپ کے سامنے ایسی غلیظ چیز صاف کرنے بیٹھ گیا ہوں۔ ‘‘

اس نے فوراً ہی کہا۔ آپ تکلف نہ کیجیے اور اپنا کام کرتے چلے جائیے۔ چھینٹوں کے متعلق بھی آپ کوئی فکر نہ کریں۔ ‘‘

جب میں نے چوہے دان اچھی طرح دھو کر صاف کرلیا تو سلیمہ نے پوچھا۔

’’اچھا، اب آپ یہ بتائیے کہ اس کو دھونے کی کیا ضرورت تھی، بغیر دھوئے کیا آپ اس ظالم چوہے کو نہیں پکڑ سکتے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’جی نہیں۔ اس سے پہلے چونکہ اس چوہے دان میں ہم ایک چوہا پکڑ چکے ہیں اور اُس کی بو اس میں ابھی تک باقی ہے اس لیے دھونا ضروری ہے۔ گرم پانی سے پہلے چوہے کی بُو غائب ہو جائے گی۔ اس لیے دوسرا چوہا آسانی کے ساتھ پھنس جائے گا۔ ‘‘

میری یہ بات سن کر سلیمہ نے بالکل بچوں کی طرح کہا۔

’’اگر چوہے دان میں چوہے کی بو رہ جائے تو دوسرا چوہا نہیں آتا۔ ‘‘

میں نے اسکول ماسٹروں کا سا انداز اختیار کرلیا۔

’’بالکل نہیں، اس لیے کہ چوہوں کی ناک بڑی تیز ہوتی ہے۔ آپ نے سنا نہیں عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ فلاں آدمی کی تو چوہے کی ناک ہے۔ یعنی اس کی قوتِ شامہّ بڑی تیز ہے۔ سمجھیں آپ؟‘‘

سلیمہ نے میری طرف جب دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے ایک بہت بڑی بات اس سے کہہ دی ہے جس کو سن کر وہ بہت مرعوب ہو گئی ہے۔ اس کی نگاہوں میں مجھے اپنے متعلق قدرو منزلت کی جھلک نظر آئی۔ اس سے مجھے شہ مل گئی۔ چنانچہ وہ تمام باتیں جو میں نے شوکت سے اس روز سُنی تھیں۔ ایک لیکچر کی صورت میں دہرانا شروع کردیں اور وہ۔ ‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کرکہا۔

’’یہ سب مجھے افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ تم جھوٹ کہتے ہو۔ ‘‘

’’تم بھی عجیب قسم کے منکر ہو۔ ‘‘

ارشد نے بگڑ کر کہا۔

’’بھئی قسم خدا کی، اس کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔ مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تمہیں حیرت ضرور ہو گی، اس لیے کہ میں خود بہت متحیر ہُوں۔ سلیمہ جیسی پڑھی لکھی اور ذہین لڑکی ایسی فضول باتوں سے متاثر ہو گئی۔ یہ بات مجھے ہمیشہ متحیرّ رکھے گی، مگر بھئی حقیقت سے تو انکار نہیں ہوسکتا۔ اس نے میری اوٹ پٹانگ باتیں بڑے غور سے سنیں جیسے اُسے دنیا کا کوئی راز نہفتہ بتا رہا ہُوں۔ واللہ یہ ذہین لڑکیاں بھی پرلے درجے کی سادہ لوح ہوتی ہیں۔ سادہ لوح نہیں کہنا چاہیے۔ خدا معلوم کیا ہوتی ہے۔ تم اُن سے کوئی عقل کی بات کہوتو بس بگڑ جائیں گی یہ سمجھیں گی کہ ہم نے اُن کی عقل و دانش پر حملہ کردیا ہے اور جب اُن سے کوئی معمولی سی بات کہو جس سے ذہانت کا دُور سے تعلق بھی نہ ہو تو وہ یہ سمجھیں گی کہ اُن کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ تم کسی فلسفہ دان اور بال کی کھال اُتارنے والی عورت سے کہوکہ خدا ایک ہے تو وہ نکتہ چینی شروع کردے گی۔ اگر اُس سے یہ کہو دیکھو میں نے تمہارے سامنے ماچس کی ڈبیا سے یہ ایک تیلی نکالی ہے، یہ ہُوئی ایک تیلی، اب میں دوسری نکالتا ہُوں۔ میز پر ان تیلیوں کو پاس پاس رکھ کر جب تم اس سے یہ کہو گے، دیکھو، اب یہ دو تیلیاں ہو گئی ہیں تو وہ اس قدر خوش ہو گی کہ اٹھ کر تمہیں چُومنا شروع کردے گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر ارشد خوب ہنسا۔ مجھے بھی ہنسنا پڑا اس لیے کہ بات ہی ہنسی پیدا کرنے والی تھی۔ جب ہم دونوں کی ہنسی کم ہوئی میں نے اُس سے کہا۔

’’اب تم نے اپنی بقایا کہانی سناؤ اور ہنسی مذاق کو چھوڑو۔ ‘‘

’’ہنسی مذاق میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں بھائی‘‘

ارشد نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’میں تو اس سے ہنسی مذاق ہی میں باتیں کررہا تھا مگر وہ بڑی سنجیدگی سے سن رہی تھی۔ ہاں تو جب میں نے چوہے پکڑنے کے اصول اس کو بتا دیئے تو اور زیادہ بچہ بن کر اس نے مجھ سے کہا۔

’’ارشد صاحب آپ تو فوراً چوہے پکڑ لیتے ہوں گے؟‘‘

میں نے بڑے فخر کے ساتھ جواب دیا۔

’’جی ہاں، کیوں نہیں‘‘

اس پر سلیمہ نے بڑے اشتیاق کے ساتھ کہا۔

’’کیا آپ اس چوہے کو جو آپ نے ابھی ابھی دیکھا تھا میرے سامنے پکڑ سکتے ہیں؟‘‘

اجی یہ بھی کوئی مشکل بات ہے، یوں چٹکیوں میں اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘

سلیمہ اُٹھ کھڑی ہُوئی۔

’’تو چلیے، میرے سامنے اسے گرفتار کیجیے۔ میں سمجھتی ہوں آپ کبھی اس چوہے کو پکڑ نہیں سکیں گے۔ ‘‘

میں یہ سُن کر یونہی مسکرا دیا۔

’’آپ غلط سمجھتی ہیں۔ پندرہ نہیں تو بیس منٹ میں وہ چوہا اس چوہے دان میں ہو گا۔ اور آپ کی نظروں کے سامنے بشرطیکہ آپ اتنے عرصہ تک انتظار کرسکیں۔ ‘‘

سلیمہ نے کہا۔

’’میں ایک گھنٹے تک یہاں بیٹھنے کے لیے تیار ہوں مگر میں آپ سے پھر کہتی ہوں کہ آپ ناکام رہیں گے؟۔ وقت مقرر کرکے آپ چوہے کو کیسے پکڑ سکتے ہیں؟‘‘

۔ میں اس وقت عجیب و غریب موڈ میں تھا۔ اگر کوئی مجھ سے یہ کہتا کہ تم خدا دکھا سکتے ہو تو میں فوراً کہتا، ہاں دکھا سکتا ہوں۔ چنانچہ میں نے بڑے فخریہ لہجہ میں سلیمہ سے کہا۔

’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ میں ابھی آپکو وہ چوہا پکڑ کے دکھا دیتا ہوں مگر شرط باندھیے۔ ‘‘

اس نے کہا میں ہر شرط باندھنے کے لیے تیار ہُوں، اس لیے کہ ہار آپ ہی کی ہو گی۔ اس پر خدا معلوم مجھ میں کہاں سے جرأت آگئی جو میں نے اس سے کہا۔

’’تو یہ وعدہ کیجیے کہ اگر میں نے چوہا پکڑ لیا تو آپ سے جو چیز طلب کروں گا آپ بخوشی دے دیں گی۔ ‘‘

سلیمہ نے جواب دیا۔

’’مجھے منظور ہے۔ ‘‘

چنانچہ میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چوہے دان میں صبح کی تلی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا لگایا اور اس کو اپنی کتابوں کی الماری سے دور صوفے کے پاس رکھ دیا۔ شرط ورط کا مجھے اس وقت کوئی خیال نہیں تھا۔ لیکن میں دل میں یہ دعا ضرور مانگ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی چوہا ضرور پھنس جائے تاکہ میری سرخروئی ہو۔ نہ جانے کس جذبہ کے ماتحت میں نے گپ ہانک دی۔ بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ شرمندہ ہونا پڑے گا۔ چنانچہ ایک بار میرے جی میںآئی کہ اس سے کہہ دوں، میں تو آپ سے یونہی مذاق کررہا تھا۔ چوہا پندرہ منٹ میں کیسے پکڑا جاسکتا ہے۔ گاندھی جی کا ستیہ گرہ ہی ہوتا تو اُسے جب چاہے پکڑ لیتے مگر یہ تو چوہا ہے۔ آپ خود ہی غور فرمائیں۔ مگر میں اس سے یہ نہ کہہ سکا۔ اس لیے کہ اس میں میری شکست تھی۔ ‘‘

یہ کہہ کر ارشد نے جیب سے سگرٹ نکال کر سلگایا اور مجھ سے پوچھا۔

’’کیا خیال ہے تمہارا اس داستان کے متعلق؟‘‘

میں نے کہا۔

’’بہت دلچسپ ہے، مگر اس کا دلچسپ ترین حصّہ تو ابھی باقی ہے۔ جلدی جلدی وہ بھی سنا دو۔ ‘‘

’’کیا پوچھتے ہو دوست۔ وہ پندرہ منٹ جو میں نے انتظار میں گزارے ساری عمر مجھے یاد رہیں گے۔ میں اور سلیمہ کمرے کے باہر کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ وہ خدا معلوم کیا سوچ رہی تھی۔ مگر میری بری حالت تھی۔ سلیمہ نے میری جیب گھڑی اپنی ران پرر کھی ہوئی تھی۔ میں بار بار جھک کر اس میں وقت دیکھ رہا تھا۔ دس منٹ گزر گئے مگر پاس والے کمرہ میں چوہے دان بند ہونے کی کھٹ نہ سنائی دی۔ گیارہ منٹ گزر گئے۔ کوئی آواز نہ آئی۔ ساڑھے گیارہ منٹ ہو گئے۔ خاموشی طاری رہی۔ بارہ منٹ گزرنے پر بھی کچھ نہ ہُوا۔ سوا بارہ منٹ ہو گئے، ساڑھے بارہ ہُوئے کہ دفعتاً کھٹ کی آواز بُلند ہُوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ چوہے دان میرے سینے میں بند ہُوا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے میرے دل کی دھڑکن بند سی ہو گئی۔ لیکن فوراً ہی ہم دونوں اُٹھے۔ دوڑ کر کمرے میں گئے اور چوہے دان کے تاروں میں سے جب مجھے ایک موٹے چوہے کی تھوتھنی اور اس کی لمبی لمبی مونچھیں نظر آئیں تو میں خوشی سے اچھل پڑا۔ پاس ہی سلیمہ کھڑی تھی، اس کی طرف میں نے فتح مند نظروں سے دیکھا اور جھٹ پٹ اس کے حیرت سے کھلے ہُوئے ہونٹوں کو چُوم لیا۔ یہ سب کچھ اس قدرجلدی میں ہوا کہ سلیمہ چند لمحات تک بالکل خاموش رہی، لیکن اس کے بعد اس نے خفگی آمیز لہجہ میں مجھ سے کہا

’’یہ کیا بیہودگی ہے؟‘‘

اُس وقت خدا معلوم میں کیسے موڈ میں تھاکہ ایک بار میں نے پھر اسی افراتفری میں اس کا بوسہ لے لیا اور کہا۔

’’اجی مولانا آپ نے شرط ہاری ہے۔ ‘‘

اور۔ تیسری مرتبہ اس نے اپنے ہونٹ بوسے کے لیے خود پیش کردیے۔ جس طرح چوہا ہاتھ آیا اسی طرح سلیمہ بھی ہاتھ آگئی، مگر بھئی میں شوکت کا بہت ممنون ہُوں۔ اگر میں نے چوہے دان کو گرم پانی سے نہ دھویا ہوتا توچوہا کبھی نہ پھنستا۔ ‘‘

یہ داستان سُن کر مجھے بہت لطف آیا۔ لیکن افسوس بھی ہُوا، اس لیے کہ شوکت اس لڑکی سلیمہ کی محبت میں بُری طرح گرفتار ہے۔

سعادت حسن منٹو

چوری

سکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کربیٹھ گئے۔ اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے تھا کہنے لگے

’’بابا جی کوئی کہانی سنائیے؟‘‘

مردِ معمر نے جو غالباً کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی لاغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔

’’کہانی!۔ میں خود ایک کہانی ہُوں مگر۔ ‘‘

اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ ہی میں بڑبڑائے۔ شاید وہ اس جملے کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جن کی سمجھ اس قابل نہ تھی کہ وہ فلسفیانہ نکات حل کرسکیں۔ لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر آتشیں شکم کو پُر کررہے تھے۔ شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک عجیب انداز میں رقص کررہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب اُلٹ اُلٹ کر حیرت میں سربُلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔ بوڑھے آدمی نے الاؤ کی روشنی میں سے لڑکوں کی طرف نگاہیں اٹھا کرکہا۔

’’کہانی۔ ہرروز کہانی!۔ کل سناؤں گا۔ ‘‘

لڑکوں کے تمتماتے ہُوئے چہروں پر افسردگی چھاگئی۔ ناامیدی کے عالم میں وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے تھے۔

’’آج رات کہانی سنے بغیر سونا ہو گا۔ ‘‘

یکایک ان میں سے ایک لڑکا جو دوسروں کی بہ نسبت بہت ہوشیار اور ذہین معلوم ہوتا تھا الاؤ کے قریب سر ک کر بلند آواز میں بولا۔ مگر کل آپ نے وعدہ کیا تھا اور وعدہ خلافی کرنا درست نہیں۔ کیا آپ کو کل والے حامد کا انجام یاد نہیں ہے جو ہمیشہ اپنا کہا بھول جایا کرتا تھا۔ ‘‘

’’درست!۔ میں بھول گیا تھا۔ ‘‘

بوڑھے آدمی نے یہ کہہ کر اپنا سر جھکا لیا۔ جیسے وہ اپنی بھول پر نادم ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اس دلیر لڑکے کی جرأت کا خیال کرکے مسکرایا۔

’’میرے بچے! مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھے معاف کردو۔ مگر میں کون سی کہانی سُناؤں؟۔ ٹھہرو۔ مجھے یاد کرلینے دو۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ سر جُھکا کر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ اسے جِن اور پریوں کی لایعنی داستانوں سے سخت نفرت تھی۔ وہ بچوں کو ایسی کہانیاں سُنایا کرتا تھا۔ جو ان کے دل و دماغ کی اصلاح کرسکیں۔ اسے بہت سے فضول قصے یاد تھے جو اس نے بچپن میں سُنے تھے۔ یا کتابوں میں پڑھے تھے۔ مگر اس وقت وہ اپنے بربط پیری کے بوسیدہ تار چھیڑ رہا تھا کہ شاید ان میں کوئی خوابیدہ راگ جاگ اٹھے۔ لڑکے بابا جی کو خاموش دیکھ کر آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگے۔ غالباً اس لڑکے کی بابت جسے کتاب چُرانے پر بید کی سزا ملی تھی۔ باتوں باتوں میں ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا۔

’’ماسٹر جی کے لڑکے نے بھی تو میری کتاب چُرالی تھی۔ مگر اسے سزا ذرا نہ ملی۔ ‘‘

’’کتاب چُرا لی تھی۔ ‘‘

ان چار لفظوں نے جوبلند آواز میں ادا کیے گئے تھے۔ بوڑھے کی خفتہ یاد میں ایک واقعہ کو جگا دیا۔ اس نے اپنا سپید سر اٹھایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے بُھولی بسری داستان کو انگڑائیاں لیتے پایا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہُوئی۔ مگر وہیں غرق ہو گئی۔ اضطراب کی حالت میں اس نے اپنے نحیف جسم کو جنبش دے کر الاؤ کے قریب کیا۔ اس کے چہرے کے تغیر و تبدل سے صاف طور پر عیاں تھا۔ کہ وہ کسی واقعہ کو دوبارہ یاد کرکے بہت تکلیف محسوس کررہا ہے۔ الاؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہی تھی۔ دفعتاً بوڑھے نے آخری ارادہ کرتے ہوئے کہا:

’’بچو! آج میں اپنی کہانی سُناؤں گا۔ ‘‘

لڑکے فوراً اپنی باتیں چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ الاؤ کی چٹختی ہوئی لکڑیاں ایک شورکے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ابھر کر خاموش ہو گئیں۔ ایک لمحہ کے لیے فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔

’’بابا جی اپنی کہانی سنائیں گے؟‘‘

ایک لڑکے نے خوش ہوکرکہا۔ باقی سرک کر آگ کے قریب خاموشی سے بیٹھ گئے۔

’’ہاں، اپنی کہانی۔ ‘‘

یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے اپنی جھکی ہُوئی گھنی بھوؤں میں سے کوٹھڑی کے باہر تاریکی میں دیکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکوں سے پھرمخاطب ہُوا۔

’’میں آج تمہیں اپنی پہلی چوری کی داستان سُناؤں گا۔ ‘‘

لڑکے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ انھیں اِس بات کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ کہ بابا جی کسی زمانہ میں چوری بھی کرتے رہے ہیں۔ بابا جی جو ہر وقت انھیں بُرے کاموں سے بچنے کے لیے نصیحت کیا کرتے ہیں۔ لڑکا جو اِن میں دلیر تھا۔ اپنی حیرت نہ چُھپا سکا۔

’’پر کیا آپ نے واقعی چوری کی؟‘‘

’’واقعی!‘‘

’’آپ اُس وقت کس جماعت میں پڑھا کرتے تھے؟‘‘

’’نویں میں۔ ‘‘

یہ سُن کر لڑکے کی حیرت اور بھی بڑھ گئی۔ اسے اپنے بھائی کا خیال آیا جو نویں جماعت میں تعلیم پارہا تھا وہ اس سے عمرمیں دوگنا بڑا تھا۔ اس کی تعلیم اس سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ انگریزی کی کئی کتابیں پڑھ چکا تھا۔ اور اسے ہر وقت نصیحتیں کیا کرتا تھا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اس عمر کا اور اچھا پڑھا لکھا لڑکا چوری کرے؟۔ اس کی عقل اس معمہ کو حل نہ کرسکی۔ چنانچہ اس نے پھر سوا ل کیا۔

’’آپ نے چوری کیوں کی؟‘‘

اس مشکل سوال نے بڈھے کو تھوڑی دیر کے لیے گھبرا دیا۔ آخر وہ اس کا کیا جواب دے سکتا تھا کہ فلاں کام اس نے کیوں کیا؟ بظاہر اس کا جواب یہی ہوسکتا تھا۔

’’اس لیے کہ اس وقت اس کے دماغ میں یہی خیال آیا۔ ‘‘

اس نے دل میں یہی جواب سوچا۔ مگر اس نے مطمئن نہ ہو کر یہ بہتر خیال کیا کہ تمام داستان من و عن بیان کردے۔

’’اس کا جواب میری کہانی ہے۔ جو میں اب تمہیں سنانے والا ہوں۔ ‘‘

’’سُنائیے؟‘‘

لڑکے اس بوڑھے آدمی کی چوری کا حال سننے کے لیے اپنی اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ گئے۔ جو الاؤ کے سامنے اپنے سپید بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کررہا تھا۔ اور جیسے وہ ایک بہت بڑا آدمی خیال کرتے تھے۔ بڈھا کچھ عرصے تک اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا۔ پھر اس بُھولے ہوئے واقعہ کے تمام منتشر ٹکڑے فراہم کرکے بولا:۔

’’ہر شخص خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتا ہے جس پر وہ تمام عمر نادم رہتا ہے۔ میری زندگی میں سب سے بُرا فعل ایک کتاب کی چوری ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ رک گیا۔ اس کی آنکھیں جو ہمیشہ چمکتی رہتی تھیں۔ دُھندلی پڑ گئیں۔ اس کے چہرے کی تبدیلی سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہُوئے زبردست ذہنی تکلیف کا سامنا کررہا ہے۔ چند لمحات کے توقف کے بعد وہ پھر بولا:۔

’’سب سے مکروہ فعل کتاب کی چوری ہے۔ یہ میں نے ایک کتب فروش کی دکان سے چُرائی۔ یہ اس زمانہ کا ذکر ہے۔ جب میں نویں جماعت میں تعلیم پاتا تھا۔ قدرتی طور پر جیسا کہ اب تمہیں کہانی سننے کا شوق ہے مجھے افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق تھا۔ دوستوں سے مانگ کر یا خود خرید کر میں ہر ہفتے ایک نہ ایک کتاب ضرور پڑھا کرتا تھا۔ وہ کتابیں عموماً عشق و محبت کی بے معنی داستانیں یا فضول جاسوسی قصے ہُوا کرتے تھے۔ یہ کتابیں میں ہمیشہ چھپ چھپ کر پڑھا کرتا تھا۔ والدین کو اس بات کا علم نہ تھا۔ اگر انھیں معلوم ہوتا تو وہ مجھے ایسا ہرگز ہرگز نہ کرنے دیتے۔ اس لیے کہ اس قسم کی کتابیں اسکول کے لڑکے کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ میں ان کے مہلک نقصان سے غافل تھا۔ چنانچہ مجھے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑا۔ میں نے چوری کی اور پکڑا گیا۔ ‘‘

ایک لڑکے نے حیرت زدہ ہو کرکہا۔

’’آپ پکڑے گئے؟‘‘

’’ہاں پکڑا گیا۔ چونکہ میرے والدین اس واقعہ سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ عادت پکتے پکتے میری طبیعت بن گئی۔ گھر سے جتنے پیسے ملتے ہیں انھیں جوڑ جوڑ کر بازار سے افسانوں کی کتابیں خریدنے میں صرف کردیتا۔ اسکول کی پڑھائی سے رفتہ رفتہ مجھے نفرت ہونے لگی۔ ہر وقت میرے دل میں یہی خیال سمایا رہتا کہ فلاں کتاب جو فلاں ناول نویس نے لکھی ہے ضرور پڑھنی چاہیے۔ یا فلاں کتب فروش کے پاس نئی ناولوں کا جو ذخیرہ موجود ہے۔ ایک نظر ضرور دیکھنا چاہیے۔ شوق کی یہ انتہا دوسرے معنوں میں دیوانگی ہے۔ اس حالت میں انسان کو معلوم نہیں ہوتا۔ کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ یا کیا کررہا ہے۔ اس وقت وہ بے عقل بچے کے مانند ہوتا ہے جو اپنی طبیعت خوش کرنے یا شوق پورا کرنے کے لیے جلتی ہوئی آگ میں بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ چمکنے والی شے جسے وہ پکڑ رہا ہے اس کا ہاتھ جلا دے گی۔ ٹھیک یہی حالت میری تھی۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ شعور سے محروم ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بغیر سمجھے بُوجھے بُری سے بُری حرکت کربیٹھتا ہے مگر میں نے عقل کا مالک ہوتے ہُوئے چوری ایسے مکروہ جُرم کا ارتکاب کیا۔ یہ آنکھوں کی موجودگی میں میرے اندھے ہونے کی دلیل ہے۔ میں ہرگز ایسا کام نہ کرتا۔ اگر میری عادت مجھے مجبور نہ کرتی۔ ہر انسان کے دماغ میں شیطان موجود ہوتا ہے۔ جو وقتاً فوقتاً اسے بُرے کاموں پر مجبور کرتا ہے۔ یہ شیطان مجھ پر اس وقت غالب آیا جبکہ سوچنے کے لیے میرے پاس بہت کم وقت تھا۔ خیر‘‘

لڑکے خاموشی سے بوڑھے کے ہلتے ہوئے لبوں کی طرف نگاہیں گاڑے ان کی داستان سن رہے تھے۔ داستان کا تسلسل اس وقت ٹوٹتا دیکھ کر جب کہ اصل مقصد بیان کیا جانے والا تھا۔ وہ بڑی بے قراری سے بقایا تفصیل کا انتظار کرنے لگے۔

’’مسعود بیٹا! یہ سامنے والا دروازہ تو بند کردینا۔ سرد ہوا آرہی ہے۔ ‘‘

بوڑھے نے اپنا کمبل گھٹنوں پرڈال لیا۔ مسعود،

’’اچھا بابا جی۔ ‘‘

کہہ کر اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرنے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

’’ہاں تو ایک دن جبکہ والد گھر سے باہر تھے۔ ‘‘

بوڑھے نے اپنی داستان کا بقایا حصہ شروع کیا۔

’’مجھے بھی کوئی خاص کام نہ تھا۔ اور وہ کتاب جو میں ان دنوں پڑھ رہا تھا ختم ہونے کے قریب تھی۔ اس لیے میرے جی میںآئی کہ چلو اس کتب فروش تک ہو آئیں۔ جس کے پاس بہت سی جاسوسی ناولیں پڑی تھیں۔ میری جیب میں اس وقت اتنے پیسے موجود تھے۔ جو ایک معمولی ناول کے دام ادا کرنے کے لیے کافی ہوں۔ چنانچہ میں گھر سے سیدھا اس کتب فروش کی دکان پر گیا۔ یوں تو اس دکان پر ہر وقت بہت سی اچھی اچھی ناولیں موجود رہتی تھیں۔ مگر اس دن خاص طور پر بالکل نئی کتابوں کا ایک ڈھیر باہر تختے پر رکھا تھا۔ ان کتابوں کے رنگ برنگ سرِورق دیکھ کر میری طبیعت میں ایک ہیجان سا برپا ہو گیا۔ دل میں اس خواہش نے گدگدی کی کہ وہ تمام میری ہو جائیں۔ میں دکاندار سے اجازت لے کر ان کتابوں کو ایک نظر دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ ہر کتاب کے شوخ رنگ سرورق پر اس قسم کی کوئی نہ کوئی عبارت لکھی ہُوئی تھی۔

’’ناممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی طاری نہ کردے۔ ‘‘

’’مصور اسرار کا لاثانی شاہکار۔ ‘‘

’’تمثیل!ہیجان!!رومان!!!۔ سب یکجا۔ ‘‘

اس قسم کی عبارتیں شوق بڑھانے کے لیے کافی تھیں۔ مگر میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس لیے کہ میری نظروں سے اکثر ایسے الفاظ گزر چکے تھے۔ میں تھوڑا عرصہ کتابوں کو الٹ پلٹ کردیکھتا رہا۔ اس وقت میرے دل میں چوری کرنے کا خیال مطلقاً نہ تھا۔ بلکہ میں نے خریدنے کے لیے ایک کم قیمت کی ناول چن کر الگ بھی رکھ لی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دل میں یہ ارادہ کرکے میں دوسرے ہفتے ان ناولوں کو دوبارہ دیکھنے آؤں گا۔ میں نے اپنی چُنی ہُوئی کتاب اُٹھائی۔ کتاب کا اٹھانا تھا کہ میری نگاہیں ایک مجلد ناول پر گڑ گئیں۔ سرِ ورق کے کونے پر میرے محبوب ناولسٹ کا نام سُرخ لفظوں میں چھپا تھا۔ اس کے ذرا اوپر کتاب کا نام تھا۔

’’منتقم شعاعیں۔ کس طرح ایک دیوانے ڈاکٹر نے لندن کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔ ‘‘

یہ سطور پڑھتے ہی میرے اشتیاق میں طغیانی سی آگئی۔ کتاب کا مصنف وہی تھا۔ جس نے اس سے پیشتر مجھ پر راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ ناول کو دیکھتے ہی میرے دماغ میں خیالات کا ایک گروہ داخل ہو گیا۔

’’منتقم شعاعیں۔ دیوانے ڈاکٹرکی ایجاد۔ کیسا دلچسپ افسانہ ہو گا!‘‘

’’لندن تباہ کرنے کا ارادہ۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟‘‘

’’اس مصنف نے فلاں فلاں کتابیں کتنی سنسنی خیز لکھی ہیں!‘‘

’’یہ کتاب ضرور ان سب سے بہتر ہو گی!‘‘

میں خاموش اشتیاق کے ساتھ اس کتاب کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ خیالات یکے بعد دیگرے میرے کانوں میں شور برپا کررہے تھے۔ میں نے اس کتاب کو اُٹھایا اور کھول کر دیکھا توپہلے ورق پر یہ عبارت نظر آئی۔

’’مصنف اس کتاب کو اپنی بہترین تصنیف قرار دیتاہے۔ ‘‘

’’ان الفاظ نے میرے اشتیاق میں آگ پر ایندھن کا کام دیا۔ ایکا ایکی میرے دماغ کے خدا معلوم کس گوشے سے ایک خیال کود پڑا۔ وہ یہ کہ میں اس کتاب کو اپنے کوٹ میں چھپا کر لے جاؤں۔ میری آنکھیں بے اختیار کتب فروش کی طرف مڑیں۔ جو کاغذ پر کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔ دوکان کی دوسری طرف دو نوجوان کھڑے میری طرح کتابیں دیکھ رہے تھے۔ میں سر سے پیر تک لرز گیا۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے بوڑھے کا نحیف جسم اس واقعہ کی یاد سے کانپا۔ تھوڑی دیر تک خاموش رہ کر اس نے پھر اپنی داستان شروع کردی۔

’’ایک لحظہ کے لیے میرے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چوری کرنا بہت بُرا کام ہے مگر ضمیر کی آواز سرورق پر بنی ہوئی لانبی لانبی شعاعوں میں غرق ہو گئی۔ میرا دماغ

’’منتقم شعاعیں‘‘

’’منتقم شعاعیں‘‘

کی گردان کررہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر جھانکا اور جھٹ سے وہ کتاب کوٹ کے اندر بغل میں دبا لی مگر میں کانپنے لگا۔ اس حالت پر قابو پا کر میں کتب فروش کے قریب گیا۔ اور اُس کتاب کے دام ادا کردیئے۔ جو میں نے پہلے خریدی تھی۔ قیمت لیتے وقت اور روپے میں سے باقی پیسے واپس کرنے میں اس نے غیر معمولی تاخیر سے کام لیا۔ میری طرف اس نے گُھور کربھی دیکھا۔ جس سے میری طبیعت سخت پریشان ہو گئی۔ جی میں بھی آئی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کروہاں سے بھاگ نکلوں۔ میں نے اس دوران میں کئی بار اس جگہ پر جو کتاب کی وجہ سے اُبھری ہُوئی تھی نگاہ ڈالی۔ اور شاید اسے چھپانے کی بے سود کوشش بھی کی۔ میری ان عجیب و غریب حرکتوں کو دیکھ کر اسے شک ضرور ہُوا۔ اسے لیے کہ وہ بار بار کچھ کہنے کی کوشش کرکے پھر خاموش ہو جاتا تھا۔ میں نے باقی پیسے جلدی سے لیے اور وہاں سے چل دیا۔ دو سو قدم کے فاصلے پر میں نے کسی کی آواز سنی۔ مڑ کر دیکھا تو کتب فروش ننگے پاؤں چلا آرہا تھا اور مجھے ٹھہرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ میں نے اندھا دھند بھاگناشروع کردیا۔ مجھے معلوم نہ تھا میں کدھر بھاگ رہاہوں۔ میرا رخ اپنے گھر کی جانب نہ تھا۔ میں شروع ہی سے اس طرف بھاگ رہا تھا جدھر بازار کا اختتام تھا۔ اس غلطی کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ ‘‘

بوڑھا اتنا کہہ کر اضطراب کی حالت میں اپنی خشک زبان لبوں پر پھیرنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد وہ ایک لڑکے سے مخاطب ہوا۔

’’مسعود! پانی کا ایک گھونٹ پلوانا۔ ‘‘

مسعود خاموشی سے اُٹھا۔ اورکوٹھڑی کے ایک کونے میں پڑے ہوئے گھڑے سے گلاس میں پانی انڈیل کر لے آیا۔ بوڑھے نے گلاس لیتے ہی منہ سے لگا لیا اور ایک گھونٹ میں سارا پانی پی گیا۔ اور خالی گلاس زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں میں کیا بیان کررہا تھا؟‘‘

ایک لڑکے نے جواب دیا۔

’’آپ بھاگے جارہے تھے۔ ‘‘

’’میرے پیچھے کتب فروش

’’چور چور‘‘

کی آواز بلند کرتا چلا آرہا تھا جب میں نے دو تین آدمیوں کو اپنا تعاقب کرتے دیکھا تو میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ جیل کی آہنی سلاخیں، پولیس اور عدالت کی تصویریں ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ بے عزتی کے خیال سے میری پیشانی عرق آلود ہو گئی۔ میں لڑکھڑایا اور گِر پڑا۔ اُٹھنا چاہا تو ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ اس وقت میرے دماغ کی عجیب حالت تھی۔ ایک تُند دھواں سا میرے سینے میں کروٹیں لے رہا تھا۔ آنکھیں فرطِ خوف سے اُبل رہی تھیں۔ اورکانوں میں ایک زبردست شور برپا تھا۔ جیسے بہت سے لوگ آہنی چادریں ہتھوڑوں سے کوٹ رہے ہیں۔ میں ابھی اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ کتب فروش اور اسکے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ اس وقت میری کیا حالت تھی۔ اس کا بیان کرنا بہت دشوار ہے۔ سینکڑوں خیالات پتھروں کی طرح میرے دماغ سے ٹکرا ٹکرا کر مختلف آوازیں پیدا کررہے تھے۔ جب انھوں نے مجھے پکڑا تو ایسا معلوم ہوا کہ آہنی پنجہ نے میرے دل کو مسل ڈالا ہے۔ میں بالکل خاموش تھا۔ وہ مجھے دُکان کی طرف کشاں کشاں لے گئے۔ جیل خانے کی کوٹھڑی اور عدالت کا منہ دیکھنا یقین تھا۔ اس خیال پر میرے ضمیر نے لعنت ملامت شروع کردی۔ چونکہ اب جوہونا تھا ہو چکا تھا۔ اور میرے پاس اپنے ضمیر کو جواب دینے کے لیے کوئی الفاظ موجود نہ تھے۔ اس لیے میری گرم آنکھوں میں آنسو اُتر آئے اور میں نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دُھندلی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔

’’کتب فروش نے مجھے پولیس کے حوالے نہ کیا۔ اپنی کتاب لے لی اور نصیحت کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔ ‘‘

بوڑھے نے اپنے آنسو کُھردرے کمبل سے خشک کیے۔

’’خدا اُس کو جزائے خیر دے۔ میں عدالت کے دروازے سے تو بچ گیا۔ مگر اس واقعہ کی والد اور اسکول کے لڑکوں کو خبر ہو گئی۔ والد مجھ پر سخت خفا ہُوئے لیکن انھوں نے بھی اخیر میں مجھے معاف کردیا۔ دو تین روز مجھے اس ندامت کے باعث بخار آتا رہا اس کے بعد جب میں نے دیکھا میرا دل کسی کروٹ آرام نہیں لیتا اور مجھ میں اتنی قوت نہیں کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں۔ تو میں شہر چھوڑ کروہاں سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک میں نے مختلف شہروں کی خاک چھانی ہے۔ ہزاروں مصائب برداشت کیے ہیں۔ صرف اس کتاب کی چوری کی وجہ سے جومجھے تا دمِ مرگ نادم و شرمسار رکھے گی۔ اس آوارہ گردی کے دوران میں، میں نے اور بھی بہت سی چوریاں کیں۔ ڈاکے ڈالے اور ہمیشہ پکڑا گیا۔ مگر اُن پر نادم نہیں ہُوں۔ مجھے فخر ہے۔ ‘‘

بوڑھے کی دُھندلی آنکھوں میں پھر پہلی سی چمک نمودار ہو گئی۔ اور اس نے الاؤ کے شعلوں کو ٹکٹکی باندھ کردیکھنا شروع کردیا۔

’’ہاں مجھے فخر ہے۔ ‘‘

یہ لفظ اس نے تھوڑے توقف کے بعد دوبارہ کہے۔ الاؤمیں آگ کا ایک شعلہ بُلند ہوا۔ اور ایک لمحہ فضا میں تھرتھرا کر وہیں سو گیا۔ بوڑھے نے شعلے کی جرأت دیکھی اور مسکرا دیا۔ پھر لڑکوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔

’’کہانی ختم ہو گئی اب تم جاؤ۔ تمہارے ماں باپ انتظار کرتے ہونگے۔ ‘‘

مسعود نے سوال کیا۔

’’مگر آپ کو اپنی دوسری چوریوں پر کیوں فخر ہے؟‘‘

’’فخر کیوں ہے؟‘‘

۔ بوڑھا مسکرا دیا۔

’’اس لیے کہ وہ چوریاں نہیں تھیں۔ اپنی مسروقہ چیزوں کودوبارہ حاصل کرنا چوری نہیں ہوتی میرے عزیز! بڑے ہو کرتمہیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔ ‘‘

’’ہروہ چیز جو تم سے چُرا لی گئی ہے، تمہیں حق حاصل ہے کہ اسے ہر ممکن طریقہ سے اپنے قبضہ میں لے آؤ۔ پر یاد رہے تمہاری کوشش کامیاب ہونی چاہیے۔ ورنہ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذیتیں اُٹھانا عبث ہے۔ ‘‘

لڑکے اٹھے اور بابا جی کو شب بخیر کہتے ہوئے کوٹھڑی کے دروازہ سے باہر چلے گئے۔ بوڑھے کی نگاہیں ان کو تاریکی میں گم ہوتے دیکھتی رہیں۔ تھوڑی دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد وہ اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا:۔

’’کاش کہ یہ بڑے ہو کر اپنی کھوئی ہُوئی چیز واپس لے سکیں۔ ‘‘

بوڑھے کو خدا معلوم ان لڑکوں سے کیا امید تھی؟‘‘

سعادت حسن منٹو

چور

مجھے بے شمار لوگوں کا قرض ادا کرنا تھا اور یہ سب شراب نوشی کی بدولت تھا۔ رات کو جب میں سونے کے لیے چارپائی پر لیٹتا تو میرا ہر قرض خوا میرے سرہانے موجود ہوتا۔ کہتے ہیں کہ شرابی کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے ساتھ میرے ضمیر کا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ وہ ہر روز مجھے سرزنش کرتا اور میں خفیف ہوکے رہ جاتا۔ واقعی میں نے بیسیوں آدمیوں سے قرض لیا تھا۔ میں نے ایک رات سونے سے پہلے بلکہ یوں کہیے کہ سونے کی ناکام کوشش کرنے سے پہلے حساب لگایا تو قریب قریب ڈیڑھ ہزار روپے میرے ذمے نکلے۔ میں بہت پریشان ہوا۔ میں نے سوچا یہ ڈیڑھ ہزار روپے کیسے ادا ہوں گے۔ بیس پچیس روزانہ کی آمدن ہے لیکن وہ میری شراب کے لیے بمشکل کافی ہوتے ہیں۔ آپ یوں سمجھیے کہ ہر روز کی ایک بوتل۔ تھرڈ کلاس رم کی۔ دام ملاحظہ ہوں۔ سولہ روپے۔ سولہ روپے تو ایک طرف رہے، ان کے حاصل کرنے میں کم از کم تین روپے ٹانگے پر صرف ہوجاتے تھے۔ کام ہوتا نہیں تھا، بس پیشگی پر گزارہ تھا۔ لیکن جب پیشگی دینے والے تنگ آگئے تو اُنھوں نے میری شکل دیکھتے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ تراش لیا یا اس سے پیشتر کہ میں ان سے ملوں کہیں غائب ہو گئے۔ آخر کب تک وہ مجھے پیشگی دیتے رہتے۔ لیکن میں مایوس نہ ہوتا اور خدا پر بھروسہ رکھ کر کسی نہ کسی حیلے سے دس پندرہ روپے اُدھار لینے میں کامیاب ہوجاتا۔ مگر یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا تھا۔ لوگ میری عزت کرتے تھے مگر اب وہ میری شکل دیکھتے ہی بھاگ جاتے تھے۔ سب کو افسوس تھا کہ اتنا اچھا مکینک تباہ ہورہاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بہت اچھا مکینک تھا۔ مجھے کوئی بگڑی مشین دے دی جاتی تو میں اُس کو سرسری طورپر دیکھنے کے بعد یوں چٹکیوں میں ٹھیک کردیتا۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں میری یہ ذہانت صرف شراب ملنے کی اُمید پرقائم تھی، اس لیے کہ میں پہلے طے کرلیا کرتا تھا کہ اگر کام ٹھیک ہو گیا تو وہ مجھے اتنے روپے ادا کردیں گے جن سے میرے دو روز کی شراب چل سکے۔ وہ لوگ خوش تھے۔ مجھے وہ تین روز کی شراب کے دام ادا کردیتے۔ اس لیے کہ جو کام میں کردیتا وہ کسی اور سے نہیں ہوسکتا تھا۔ لوگ مجھے لُوٹ رہے تھے۔ میری ذہانت وذکاوت پر میری اجازت سے ڈاکے ڈال رہے تھے۔ اور لُطف یہ ہے کہ میں سمجھتا تھا کہ میں اُنھیں لُوٹ رہا ہوں۔ اُن کی جیبوں پر ہاتھ صاف کررہا ہوں۔ اصل میں مجھے اپنی صلاحتیوں کی کوئی قدر نہ تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ میکنزم بالکل ایسی ہے جیسے کھانا کھانا یا شراب پینا۔ میں نے جب بھی کوئی کام ہاتھ میں لیا مجھے کوفت محسوس نہیں ہوئی۔ البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ جب شام کے چھ بجنے لگتے تو میری طبعیت بے چین ہوجاتی۔ کام مکمل ہو چکا ہوتا مگر میں ایک دو پیچ غائب کردیتا تاکہ دوسرے روز بھی آمدن کا سلسلہ قائم رہے۔ یہ شراب حرامزادی کتنی بُری چیز ہے کہ آدمی کو بے ایمان بھی بنادیتی ہے۔ میں قریب قریب ہر روز کام کرتا تھا۔ میری مانگ بہت زیادہ تھی اس لیے کہ مجھ ایسا کاریگر ملک بھر میں نایاب تھا۔ تار باجا اور راگ بوجھا والاحساب تھا۔ میں مشین دیکھتے ہی سمجھ جاتا تھا کہ اس میں کیا قصور ہے۔ میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں۔ مشینری کتنی ہی بگڑی ہوئی کیوں نہ ہو اُس کو ٹھیک کرنے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگنا چاہیے۔ لیکن اگر اس میں نئے پرزوں کی ضرورت ہو اور آسانی سے دستیاب نہ ہورہے ہوں تو اُس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ میں بلا ناغہ شراب پیتا تھا اور سوتے وقت بلا ناغہ اپنے قرض کے متعلق سوچتا تھا، جو مجھے مختلف آدمیوں کو ادا کرنا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا۔ پینے کے باوجود اضطراب کے باعث مجھے نیند نہ آتی۔ دماغ میں سینکڑوں اسکیمیں آتی تھیں۔ بس میری یہ خواہش تھی کہ کہیں سے دس ہزار روپے آجائیں تو میری جان میں جان آئے۔ ڈیڑھ ہزار روپیہ قرض کا فی الفور ادا کر دُوں۔ ایک ٹیکسی لُوں اور ہر قرض خواہ کے پاس جاکر معذرت طلب کروں اور جیب سے روپے نکال کر اُن کو دے دُوں۔ جو روپے باقی بچیں اُن سے ایک سیکنڈ ہینڈ موٹر خرید لوں اور شراب پینا چھوڑ دُوں۔ پھر یہ خیال آتا کہ نہیں دس ہزار سے کام نہیں چلے گا۔ کم از کم پچاس ہزار ہونے چاہئیں۔ میں سوچنے لگتا کہ اگراتنے روپے آجائیں، جو یقیناً آنے چاہئیں تو سب سے پہلے میں ایک ہزار نادار لوگوں میں تقسیم کر دُوں گا۔ ایسے لوگوں میں جو روپیہ لے کر کچھ کاروبار کرسکیں۔ باقی رہے انچاس ہزار۔ اس رقم میں سے میں نے دس ہزار اپنی بیوی کو دینے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ فکسڈ ڈیپازٹ ہونا چاہیے۔ گیارہ ہزار ہوئے باقی رہے انتالیس ہزار۔ میرے لیے بہت کافی تھے۔ میں نے سوچا یہ میری زیادتی ہے چنانچہ میں نے بیوی کا حصّہ دوگنا کردیا، یعنی بیس ہزار۔ اب بچے انتیس ہزار۔ میں نے سوچا کہ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو دے دُوں گا۔ اب میرے پاس چودہ ہزار رہے۔ ان میں سے آپ سمجھیے کہ دو ہزار قرض کے نکل گئے۔ باقی بچے بارہ ہزار۔ ایک ہزار رُوپے کی اچھی شراب آنی چاہیے۔ لیکن میں نے فوراً تھو کردیا اور یہ سوچا کہ پہاڑ پر چلا جاؤں گا اور کم از کم چھ مہینے رہوں گا تاکہ صحت درست ہوجائے۔ شراب کے بجائے دُودھ پیا کروں گا۔ بس ایسے ہی خیالات میں دن رات گزر رہے تھے۔ پچاس ہزار کہاں سے آئیں گے یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ ویسے دو تین اسکیمیں ذہن میں تھیں۔ شمع دہلی کے معمے حل کروں اور پہلا انعام حاصل کر لُوں۔ ڈربی کی لاٹری کا ٹکٹ خرید لُوں۔ چوری کروں اور بڑی صفائی سے۔ میں فیصلہ نہ کرسکا کہ مجھے کون سا قدم اُٹھاناچاہیے۔ بہرحال یہ طے تھا کہ مجھے پچاس ہزار وپے حاصل کرنا ہیں۔ یُوں ملیں یا وُوں ملیں۔ اسکیمیں سوچ سوچ کر میرا دماغ چکرا گیا۔ رات کو نیند نہیں آتی تھی جو بہت بڑاعذاب تھا۔ قرض خواہ بے چارے تقاضا نہیں کرتے تھے لیکن جب اُن کی شکل دیکھتا تو ندامت کے مارے پسینہ پسینہ ہوجاتا۔ بعض اوقات تو میرا سانس رُکنے لگتا اور میرا جی چاہتا کہ خودکشی کر لُوں اور اس عذاب سے نجات پاؤں۔ مجھے معلوم نہیں کیسے اور کب میں نے تہیہ کرلیا کہ چوری کروں گا۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا کہ۔ محلے میں ایک بیوہ عورت رہتی ہے جس کے پاس بے اندازہ دولت ہے۔ اکیلی رہتی ہے۔ میں وہاں رات کے دو بجے پہنچا۔ یہ مجھے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا وہ دوسری منزل پر رہتی ہے۔ نیچے پٹھان کا پہرہ تھا میں نے سوچا کوئی اور ترکیب سوچنی چاہیے اوپر جانے کے لیے۔ میں ابھی سوچ ہی رہاتھا کہ میں نے خود کو اس پارسی لیڈی کے فلیٹ کے اندر پایا۔ میرا خیال ہے کہ میں پائپ کے ذریعے اُوپر چڑھ گیا تھا۔ ٹارچ میرے پاس تھی۔ اُس کی روشنی میں میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ ایک بہت بڑا سیف تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سیف کھولا تھا نہ بند کیا تھا لیکن اس وقت جانے مجھے کہاں سے ہدایت ملی کہ میں نے ایک معمولی تار سے اُسے کھول ڈالا۔ اندر زیور ہی ز یور تھے۔ بہت بیش قیمت۔ میں نے سب سمیٹے اور مکے مدینے والے زرد رومال میں باندھ لیے۔ پچاس ساٹھ ہزارروپے کا مال ہو گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اتناہی چاہیے تھا۔ کہ اچانک دوسرے کمرے سے ایک بُڑھیا پارسی عورت نمودار ہوئی۔ اُس کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر پوپلی سی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ میں نے اپنی جیب سے بھرا ہوا پستول نکال کرتان لیا۔ اس کی پوپلی مسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پر اور زیادہ پھیل گئی۔ اُس نے مجھے بڑے پیار سے پوچھا۔

’’آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘

میں نے سیدھا سا جواب دیا۔

’’چوری کرنے۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘

بُڑھیا کے چہرے کی جھریاں مسکرانے لگیں۔

’’تو بیٹھو۔ میرے گھر میں تو نقدی کی صورت میں صرف ڈیڑھ روپیہ ہے۔ تم نے زیور چرایا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ تم پکڑے جاؤ گے کیونکہ ان زیوروں کو صرف کوئی بڑا جوہری ہی لے سکتا ہے۔ اور ہر بڑا جوہری انھیں پہچانتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کُرسی پر بیٹھ گئی۔ میں بہت پریشان تھا کہ یا الٰہی یہ سلسلہ کیا ہے۔ میں نے چوری کی ہے اور بڑی بی مسکرا مسکرا کر مجھ سے باتیں کررہی ہے۔ کیوں؟ لیکن فوراً اس کیوں کا مطلب سمجھ میں آگیا جب ماتا جی نے آگے بڑھ کر میرے پستول کی پروانہ کرتے ہُوئے میرے ہونٹوں کا بوسہ لے لیا اور اپنی بانھیں میری گردن میں ڈال دیں۔ اس وقت خدا کی قسم میرا جی چاہا کہ گٹھڑی ایک طرف پھینکوں اور وہاں سے بھاگ جاؤں۔ مگر وہ تسمہ پا عورت نکلی اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ میں مطلقاً ہل جل نہ سکا۔ اصل میں میرے ہر رگ و ریشے میں ایک عجیب و غریب قسم کا خوف سرایت کرگیا تھا۔ میں اسے ڈائن سمجھنے لگا تھا جو میرا کلیجہ نکال کرکھانا چاہتی تھی۔ میری زندگی میں کسی عورت کا دخل نہیں تھا۔ میں غیر شادی شدہ تھا۔ میں نے اپنی زندگی کے تیس برسوں میں کسی عورت کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر پہلی رات جب کہ میں چوری کرنے کے لیے نکلا تو مجھے یہ پھپھا کُٹنی مل گئی جس نے مجھ سے عشق کرنا شروع کردیا۔ آپ کی جان کی قسم میرے ہوش و حواس غائب ہو گئے۔ وہ بہت ہی کریہہ المنظر تھی میں نے اُس سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

’’ماتا جی مجھے بخشو۔ یہ پڑے ہیں آپ کے زیور۔ مجھے اجازت دیجیے۔ ‘‘

اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’تم نہیں جاسکتے۔ تمہارا پستول میرے پاس ہے۔ اگر تم نے ذرا سی بھی جنبش کی تو ڈز کردوں گی۔ یاٹیلی فون کرکے پولیس کو اطلاع دے دُوں گی کہ وہ آکر تمھیں گرفتار کرلے۔ لیکن جانِ من میں ایسا نہیں کروں گی۔ مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ میں ابھی تک کنواری رہی ہوں۔ اب تم یہاں سے نہیں جاسکتے۔ ‘‘

یہ سُن کر قریب تھا کہ میں بے ہوش ہوجاؤں کہ ٹن ٹن شروع ہوئی۔ دُور کوئی کلاک صبح کے پانچ بجنے کی اطلاع دے رہا تھا۔ میں نے بڑی بی کی ٹھوڑی پکڑی اور اُس کے مُرجھائے ہوئے ہونٹوں کا بوسہ لے کر جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔

’’میں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں عورتیں دیکھی ہیں لیکن خدا واحد شاہد ہے کے تم ایسی عورت سے میرا کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ تم کسی بھی مرد کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اپنی زندگی کی پہلی چوری تمہارے مکان سے شروع کی۔ یہ زیور پڑے ہیں۔ میں کل آؤنگا بشرطیکہ تم وعدہ کرو کہ مکان میں اور کوئی نہیں ہو گا۔ ‘‘

بڑھیا یہ سُن کر بہت خوش ہوئی۔

’’ضرور آؤ۔ تم اگر چاہو گے تو گھر میں ایک مچھر تک بھی نہیں ہو گا جو تمہارے کانوں کو تکلیف دے۔ مجھے افسوس ہے کہ گھر میں صرف ایک روپیہ اور آٹھ آنے تھے۔ کل تم آؤ گے تو میں تمہارے لیے بیس پچیس ہزار بنک سے نکلوالوں گی۔ یہ لو اپنا پستول۔ ‘‘

میں نے اپنا پستول لیا اور وہاں سے دُم دبا کر بھاگا۔ پہلا وار خالی گیا تھا۔ میں نے سوچا کہیں اور کوشش کرنی چاہیے۔ قرض ادا کرنے ہیں اورجو میں نے پلان بنایا ہے اُس کی تکمیل بھی ہوناچاہیے۔ چنانچہ میں نے ایک جگہ اور کوشش کی۔ سردیوں کے دن تھے صبح کے چھ بجنے والے تھے۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب سب گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ مجھے ایک مکان کا پتہ تھا کہ اس کا جو مالک ہے بڑا مالدار ہے۔ بہت کنجوس ہے۔ اپنا روپیہ بینک میں نہیں رکھتا۔ گھر میں رکھتا ہے۔ میں نے سوچا اُس کے ہاں چلنا چاہئے۔ میں وہاں کن مشکلوں سے اندر داخل ہوا میں بیان نہیں کرسکتا۔ بہرحال پہنچ گیا۔ صاحب خانہ جو ماشاء اللہ جوان تھے۔ سورہے تھے۔ میں نے اُن کے سرہانے سے چابیاں نکالیں اور الماریاں کھولنا شروع کردیں۔ ایک الماری میں کاغذات تھے اور کچھ فرنچ لیدر۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ یہ شخص جو کنوارا ہے فرنچ لیدر کہاں استعمال کرتا ہے۔ دوسری الماری میں کپڑے تھے۔ تیسری بالکل خالی تھی معلوم نہیں اس میں تالا کیوں پڑا ہوا تھا۔ اور کوئی الماری نہیں تھی۔ میں نے تمام مکان کی تلاشی لی لیکن مجھے ایک پیسہ بھی نظر نہ آیا۔ میں نے سوچا اس شخص نے ضرور اپنی دولت کہیں دبا رکھی ہو گی۔ چنانچہ میں نے اس کے سینے پر بھرا ہوا پستول رکھ کر اُسے جگایا۔ وہ ایساچونکا اور بدکا کہ میرا پستول فرش پر جاپڑا۔ میں نے ایک دم پسول اٹھایا اور اُس سے کہا۔

’’میں چور ہوں۔ یہاں چوری کرنے آیا ہوں۔ لیکن تمہاری تین الماریوں سے مجھے ایک دمڑی بھی نہیں ملی۔ حالانکہ میں نے سُنا تھا کہ تم بڑے مالدار آدمی ہو۔ ‘‘

وہ شخص جس کا نام مجھے اب یاد نہیں مسکرایا۔ انگڑائی لے کر اُٹھا اور مجھے سے کہنے لگا۔

’’یار تم چور ہو تو تم نے مجھے پہلے اطلاع دی ہوتی۔ مجھے چوروں سے بہت پیار ہے۔ یہاں جو بھی آتا ہے وہ خود کو بڑا شریف آدمی کہتا ہے حالانکہ وہ اوّل درجے کا کالا چور ہوتا ہے۔ مگر تم چور ہو۔ تم نے اپنے آپ کو چھیایا نہیں ہے۔ میں تم سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اُس نے مجھے سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد ریفریجریٹر کھولا۔ میں سمجھا شاید میری تواضع شربت وغیرہ سے کرے گا۔ لیکن اُس نے مجھے بُلایا اور کھلے ہوئے ریفریجریٹر کے پاس لے جاکر کہا۔

’’دوست میں اپنا سارا روپیہ اس میں رکھتا ہوں۔ یہ صندوقچی دیکھتے ہو۔ اس میں قریب قریب ایک لاکھ روپیہ پڑا ہے۔ تمھیں کتنا چاہیے؟‘‘

اُس نے صندوقچی باہر نکالی جو یخ بستہ تھی۔ اُسے کھولا۔ اندر سبز رنگ کے نوٹوں کی گڈیاں پڑی تھیں۔ ایک گڈی نکال کر اس نے میرے ہاتھ میں تھمادی اور کہا۔

’’بس اتنے کافی ہوں گے۔ دس ہزار ہیں۔ ‘‘

میری سمجھ میں نہ آیا کہ اُسے کیا جواب دُوں۔ میں تو چوری کرنے آیا تھا۔ میں نے گڈی اُس کو واپس دی اور کہا۔

’’صاحب! مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ مجھے معافی دیجیے۔ پھر کبھی حاضر ہوں گا۔ ‘‘

میں وہاں سے آپ سمجھیے کہ دُم دبا کر بھاگا گھر پہنچا تو سورج نکل چکا تھا۔ میں نے سوچا کہ چوری کا ارادہ ترک کردینا چاہیے۔ دوجگہ کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوا۔ دوسری رات کو کوشش کرتا تو کامیابی یقینی نہیں تھی۔ لیکن قرض بدستور اپنی جگہ پر موجود تھا جو مجھے بہت تنگ کررہا تھا۔ حلق میں یوں سمجھیے کہ ایک پھانس سی اٹک گئی تھی۔ میں نے بالآخر یہ ارادہ کرلیا کہ جب اچھی طرح سوچکوں گا تو اُٹھ کر خود کشی کر لُوں گا۔ سو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اُٹھا۔ دروازہ کھولا۔ ایک بزرگ آدمی کھڑے تھے۔ میں نے اُن کو آداب عرض کیا۔ انھوں نے مجھ سے فرمایا۔

’’لفافہ دینا تھا اس لیے آپ کو تکلیف دی۔ معاف فرمائے گا، آپ سورہے تھے۔ ‘‘

میں نے اُس سے لفافہ لیا۔ وہ سلام کر کے چلے گئے۔ میں نے درواز بند کیا۔ لفافہ کافی وزنی تھا۔ میں نے اُسے کھولا اور دیکھا کہ سو سو روپے کے بے شمار نوٹ ہیں۔ گنے تو پچاس ہزار نکلے۔ ایک مختصر سا رقعہ تھا، جس میں لکھا تھا کہ آپ کے یہ روپے مجھے بہت دیر پہلے ادا کرنے تھے۔ افسوس ہے کہ میں اب ادا کرنے کے قابل ہوا ہوں‘‘

میں نے بہت غور کیا کہ یہ صاحب کون ہوسکتے ہیں جنہوں نے مجھ سے قرض لیا۔ سوچتے سوچتے میں نے آخر سوچا کہ ہوسکتا ہے کسی نے مجھ سے قرض لیا ہو جو مجھے یاد نہ رہا ہو۔ بیس ہزار اپنی بیوی کو۔ پندرہ ہزار اپنی بیوہ بہن کو۔ دو ہزار قرض کے۔ باقی بچے تیرہ ہزار۔ ایک ہزار میں اچھی شراب کے لیے رکھ لیے۔ پہاڑ پر جانے اور دُودھ پینے کا خیال میں نے چھوڑ دیا۔ دروازے پر پھر دستک ہوئی۔ اُٹھ کر باہر گیا۔ دروزہ کھولا تو میرا ایک قرض خواہ کھڑا تھا۔ اُس نے مجھ سے پانچ سو روپے لینا تھے۔ میں لپک کر اندر گیا۔ تکیے کے نیچے نوٹوں کا لفافہ دیکھا مگر وہاں کچھ موجود ہی نہیں تھا۔

سعادت حسن منٹو

چودھویں کا چاند

اکثر لوگوں کا طرزِ زندگی، ان کے حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اور بعض بیکار اپنی تقدیر کا رونا روتے ہیں۔ حالانکہ اس سے حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں اگر حالات بہتر ہوتے تو وہ ضرور دنیا میں کچھ کر دکھاتے۔ بیشتر ایسے بھی ہیں جو مجبوریوں کے باعث قسمت پر شاکر رہتے ہیں۔ ان کی زندگی ان ٹرام کاروں کی طرح ہے جو ہمیشہ ایک ہی پٹڑی پر چلتی رہتی ہیں۔ جب کنڈم ہو جاتی ہیں تو انہیں محض لوہا سمجھ کر کسی کباڑی کے پاس فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایسے انسان بہت کم ہیں۔ جنہوں نے حالات کی پروا نہ کرتے ہوئے زندگی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں سنبھال لی۔ ٹامسن ولسن بھی اسی قبیل سے تھا۔ اس نے اپنی زندگی بدلنے کیلیے انوکھا قدم اُٹھایا۔ پر اُس کی منزل کا چونکہ کوئی پتا نہیں تھا، اس لیے اس کی کامیابی کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اس کے اس انوکھے پن کے متعلق میں نے بہت کچھ سنا۔ سب سے پہلے لوگ یہی کہتے کہ وہ خلوت پسند ہے لیکن میں نے دل میں تہیّہ کرلیا کہ کسی نہ کسی حیلے اُسے اپنی داستانِ زندگی بیان کرنے پر آمادہ کرلوں گا کیونکہ مجھے دوسرے آدمیوں کے بیان کی صداقت پر اعتماد نہیں تھا۔ میں چند روز کے لیے ایک صحت افزا مقام پر گیا، وہیں اس سے ملاقات ہوئی۔ میں دریا کنارے اپنے میزبان کے ساتھ کھڑا تھا کہ وہ ایک دم پُکار اُٹھا۔

’’ولسن‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کہاں ہے؟‘‘

میرے میزبان نے جواب دیا۔

’’ارے بھئی! وہی جو منڈیر پر نیلی قمیص پہنے ہماری طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہے۔ ‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا اورمجھے نیلی قمیص اور سفید بالوں والا سر نظر آیا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ وہ مڑ کر دیکھے اور ہم اسے سیر و تفریح کے لیے ساتھ لے جائیں۔ اُس وقت سورج کا عکس دریا میں ڈُوب رہا تھا۔ سیر کرنے والے چہچہا رہے تھے۔ اتنے میں گرجے کی یک آہنگ گھنٹیاں بجنے لگیں۔ میں اُس وقت قدرت کی دل فریبیوں سے اس قدر مسحور ہو چکا تھا کہ ولسن کو اپنی طرف آتے نہ دیکھ سکا۔ جب وہ میرے پاس سے گزرا تو میرے دوست نے اسے روک لیا اور اس کا مجھ سے تعارف کرایا۔ اس نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا، لیکن کسی قدر بے اعتنائی سے۔ میرے دوست نے اس کو محسوس کیا اور اس کو شراب کی دعوت دی۔ مدعو کیے جانے پر وہ مسکرایا۔ اگرچہ اس کے دانت خوبصورت نہ تھے پھر بھی اس کی مسکراہٹ دلکش تھی۔ وہ نیلی قمیص اور خاکستری پتلون پہنے تھا جو کسی حد تک میلی تھی۔ اس کے لباس کو اس کے جسم کی ساخت سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ اس کا چہرہ لمبوترا، پتلے ہونٹ اور آنکھیں بھورے رنگ کی تھیں۔ چہرے کے خطوط نمایاں، جن سے نمایاں تھا کہ جوانی میں وہ ضرور قبول صورت ہو گا۔ وضع قطع کے اعتبار سے وہ کسی بیمہ کمپنی کا ایجنٹ معلوم ہوتا تھا۔ ہم چہل قدمی کرتے، ایک ریستوران میں پہنچ کر، اس سے ملحقہ باغیچے میں بیٹھ گئے اور بیرے کو شراب لانے کے لیے کہا۔ ہوٹل والے کی بیوی بھی وہاں موجود تھی۔ ادھیڑ پن کی وجہ سے اب اس میں وہ بات نہیں رہی تھی لیکن چہرے کا نکھار اب بھی گزری ہوئی کراری جوانی کی چغلیاں کھا رہا تھا۔ تیس سال پہلے بڑے بڑے آرٹسٹ اس کے دیوانے تھے، اس کی بڑی بڑی شرابی آنکھوں اور شہد بھری مسکراہٹوں میں عجب دل کشی تھی۔ ہم تینوں بیٹھے یوں ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ چونکہ موضوع دلچسپ نہیں تھے۔ اس لیے ولسن تھوڑی دیر کے بعد رخصت مانگ کر چلا گیا۔ ہم بھی اس کے رخصت ہونے پر اداس ہو گئے۔ راستے میں میرے دوست نے ولسن کے بارے میں کہا۔

’’مجھے تو تمہاری سنائی ہوئی کہانی بے سروپا معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’وہ اس قسم کی حرکت کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

اس نے کہا

’’کوئی شخص کسی کی فطرت کے متعلق صحیح اندازہ کیسے لگا سکتا ہے؟‘‘

’’مجھے تو وہ عام انسان دکھائی دیتا ہے۔ جوچند محفوظ کفالتوں کے سہارے کاروبار سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ ‘‘

’’تم یہی سمجھوٖ، ٹھیک ہے۔ ‘‘

دوسرے دن دریا کنارے ولسن ہمیں پھر دکھائی دیا۔ بھورے رنگ کا لباس پہنے، دانتوں میں پائپ دبائے کھڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے چہرے کی جھریوں اور سفید بالوں سے بھی جوانی پھوٹ رہی ہے۔ ہم کپڑے اتار کر پانی کے اندر چلے گئے۔ جب میں نہا کر باہر نکلا توولسن زمین پر اوندھے منہ لیٹا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میں سگریٹ سلگا کر اس کے پاس گیا۔ اس نے کتاب سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا

’’بس، نہا چکے۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’ہاں۔ آج تو لُطف آگیا۔ دُنیا میں اس سے بہتر نہانے کی اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ تم یہاں کتنی مدت سے ہو۔ ‘‘

اُس نے جواب دیا۔

’’پندرہ برس سے۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ دریا کی مچلتی ہوئی نیلی لہروں کی طرف دیکھنے لگا، اس کے باریک ہونٹوں پر لطیف سی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔

’’پہلی بار یہاں آتے ہی مجھے اس جگہ سے محبت ہو گئی۔ تمہیں اس جرمن کا قصّہ معلوم ہے، جو ایک بار یہاں لنچ کھانے آیا اور یہیں کا ہو کے رہ گیا۔ وہ چالیس سال یہاں رہا۔ میرا بھی یہی حال ہو گا۔ چالیس برس نہیں تو پچیس تو کہیں نہیں گئے۔ ‘‘

میں چاہتا تھا کہ وہ اپنی گفتگو جاری رکھی۔ اس کے الفاظ سے ظاہر تھا کہ اس کے افسانے کی حقیقت ضرور کچھ ہے۔ اتنے میں میرا دوست بھیگا ہوا ہماری طرف آیا۔ بہت خوش تھا کیونکہ وہ دریا میں ایک میل تیر کر آرہا تھا۔ اس کے آتے ہی ہماری گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ اور بات ادھوری رہ گئی۔ اس کے بعد ولسن سے متعدد بار ملاقات ہوئی، اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں۔ وہ اس جزیرے کے چپے چپے سے واقف تھا۔ ایک دن چاندنی رات کا لُطف اٹھانے کے بعد، میں نے اور میرے دوست نے سوچا کہ چلو مونٹی سلارو کی پہاڑی کی سیر کریں۔ میں نے ولسن سے کہا کہ

’’آؤ یار تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ ‘‘

ولسن نے میری دعوت قبول کرلی۔ لیکن میرا دوست ناسازی طبع کا بہانہ کرکے ہم سے جدا ہو گیا۔ خیر، ہم دونوں پہاڑی کی جانب چل دیے اور اس سیر کا خوب لُطف اُٹھایا۔ شام کے دُھندلکے میں تھکے ماندے، بھوکے سرائے میں آئے۔ کھانے کا انتظام پہلے ہی کررکھا تھا جو بہت لذیذ ثابت ہوا۔ شراب، انگور کی تھی۔ پہلی بوتل تو سویاں کھانے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ دوسری کے آخری جام پینے کے بعد میرے اور ولسن کے دماغ میں بیک وقت یہ خیال سمانے لگا کہ زندگی کچھ ایسی دشوار نہیں۔ ہم اس وقت باغیچے میں انگوروں سے لدی ہوئی بیل کے نیچے بیٹھے تھے۔ رات کی خاموش فضا میں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ سرائے کی خادمہ ہمارے لیے پنیر اور انجیریں لے آئی۔ ولسن تھوڑے سے وقفے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’ہمارے چلنے میں ابھی کافی دیر ہے۔ چاند کم از کم ایک گھنٹے تک پہاڑی کے اوپر آئے گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’ہمارے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔ یہاں آکر کوئی انسان بھی عجلت کے متعلق نہیں سوچ سکتا۔ ‘‘

ولسن مسکرایا۔

’’فرصت۔ کاش لوگ اس سے واقف ہوتے۔ ہر انسان کو یہ چیز مفت میسر ہوسکتی ہے۔ لیکن لوگ کچھ ایسے بے وقوف ہیں کہ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ کام؟۔ کم بخت، اتنا سمجھنے کے بھی اہل نہیں کہ کام کرنے سے غرض صرف فرصت حاصل کرنا ہے۔ ‘‘

شراب کا اثر عموماً بعض لوگوں کو غورو فکر کی طرف لے جاتا ہے۔ ولسن کا خیال اپنی جگہ درست تھا۔ مگر کوئی اچھوتی اور انوکھی بات نہیں تھی۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور کہنے لگا۔

’’جب میں پہلی بار یہاں آیا، تو چاندنی رات کا سماں تھا۔ آج بھی وہی چودھویں کا چاند آسمان پر نظر آئے گا۔ ‘‘

میں مسکرا دیا۔

’’ضرور نظر آئے گا‘‘

وہ بولا۔

’’دوست، میرا مذاق نہ اڑاؤ۔ جب میں اپنی زندگی کے پچھلے پندرہ برسوں پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ طویل عرصہ ایک مہینے کا دُھندلکا وقفہ سا لگتا ہے۔ آہ، وہ رات، جب پہلی بار، میں نے چبوترے پر بیٹھ کر چاند کا نظارہ کیا۔ کرنیں دریا کی سطح پر چاندی کے پترے چڑھا رہی تھیں۔ میں نے اس وقت شراب ضرور پی رکھی تھی۔ لیکن دریا کے نظارے اور آس پاس کی فضا نے جو نشہ پیدا کیا۔ وہ شراب کبھی پیدا نہ کرسکتی۔ ‘‘

اس کے ہونٹ خشک ہونے لگے۔ اس نے اپنا گلاس اُٹھایا، مگر وہ خالی تھا، ایک بوتل منگوائی گئی، ولسن نے دو چار بڑے بڑے گھونٹ پِیے اور کہنے لگا۔

’’اگلے دن میں دریا کنارے نہایا اور جزیرے میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ بڑی رونق تھی۔ معلوم ہوا کہ حسن و عشق کی دیوی افرو ڈائٹ کا تیوہار ہے۔ مگر میری تقدیر میں سدا بینک کا منتظم ہونا ہی لکھا ہوتا تو یقیناً مجھے ایسی سیر کبھی نصیب نہ ہوتی۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا تم کسی بینک کے منیجر تھے؟‘‘

’’ہاں بھائی تھا۔ وہ رات میرے قیام کی آخری رات تھی کیونکہ پیر کی صبح مجھے بینک میں حاضرہونا تھا۔ پر جب میں نے چاند دریا اور کشتیوں کو دیکھا تو ایسا بے خود ہوا کہ واپس جانے کا خیال میرے ذہن سے اتر گیا۔ ‘‘

اس کے بعد اس نے اپنے گزشتہ واقعات تفصیل سے بتائے اور کہا کہ وہ جزیرے میں پندرہ سال سے مقیم ہے اور اب اس کی عمر انچاس برس کی تھی۔ پہلی بارجب وہ یہاں آیا تو اس نے سوچا کہ ملازمت کا طوق گلے سے اُتار دینا چاہیے اور زندگی کے باقی ایام یہاں کی مسحور کن فضاؤں میں گزارنے چاہئیں۔ جزیرے کی فضا اور چاند کی روشنی ولسن کے دماغ پر اس قدر غالب آئی کہ اس نے بینک کی ملازمت ترک کردی۔ اگر وہ چند برس اوروہاں رہتا تو اسے معقول پنشن مل جاتی۔ مگر اس نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ البتہ بینک والوں نے اسے اس کی خدمات کے عوض انعام دیا۔ ولسن نے اپنا گھر بیچا اور جزیرے کا رخ کیا۔ اس کے اپنے حساب کے مطابق وہ پچیس برس تک زندگی بسر کرسکتا تھا۔ میری اس سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑا اعتدال پسند ہے۔ اسے کوئی ایسی بات گوارا نہیں جو اس کی آزادی میں خلل ڈالے، اسی وجہ سے عورت بھی اس کو متاثر نہ کرسکی۔ وہ صرف قدرتی مناظر کا پرستار تھا۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد صرف اپنے لیے خوشی تلاش کرنا تھا اور اسے یہ نایاب چیز مل گئی تھی۔ بہت کم انسان خوشی کی تلاش کرنا جانتے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا وہ سمجھدار تھا یا بے وقوف۔ اتنا ضرور ہے کہ اپنی ذات کے ہر پہلو سے بخوبی واقف تھا۔ آخری ملاقات کے بعد میں نے اپنے میزبان دوست سے رخصت چاہی اور اپنے گھر روانہ ہو گیا۔ اس دوران میں جنگ چھڑ گئی اور میں تیرہ برس تک اس جزیرے پر نہ جاسکا۔ تیرہ برس کے بعد جب میں جزیرے پر پہنچا تو میرے دوست کی حالت بہت خستہ ہو چکی تھی۔ میں نے ایک ہوٹل میں کمرے کرائے پر لیا کھانے پر اپنے دوست سے ولسن کے متعلق بات ہوئی۔ وہ خاموش رہا۔ اس کی یہ خاموشی بڑی افسردہ تھی۔ میں نے بے چین ہو کرپوچھا۔

’’کہیں اس نے خود کشی تو نہیں کرلی۔ ‘‘

میرے دوست نے آہ بھری۔

’’یہ درد بھری داستان میں تمہیں کیا سناؤں۔ ولسن کی اسکیم معقول تھی کہ وہ پچیس برس آرام سے گزار سکتا ہے۔ پر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آرام کے پچیس برس گزارنے کے ساتھ ہی اس کی قوتِ ارادی ختم ہو جائے گی۔ قوتِ ارادی کو زندہ رکھنے کے لیے کشمکش ضروری ہے۔ ہموار زمین پر چلنے والے پہاڑیوں پر نہیں چڑھ سکتے۔ اس کا تمام روپیہ ختم ہو گیا۔ ادھار لیتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا۔ قرض خواہوں نے اسے تنگ کرنا شروع کیا۔ آخر ایک روز اس نے اپنی جھونپڑی کے اس کمرے میں جہاں وہ سوتا تھا، بہت سے کوئلے جلائے اور دروازہ بند کردیا۔ صبح جب اس کی نوکرانی ناشتہ تیار کرنے آئی تو اسے بے ہوش پایا۔ لوگ اسے ہسپتال لے گئے۔ بچ گیا پر اس کا دماغ قریب قریب ماؤف ہو گیا۔ میں اس سے ملنے گیا لیکن وہ کچھ اس طرح حیران نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے مجھے پہچان نہیں سکا۔ میں نے اپنے دوست سے پوچھا۔

’’اب کہاں رہتا ہے۔ ‘‘

’’گھر بار تو اس کا نیلام ہو گیا ہے۔ پہاڑیوں پر آوارہ پھرتا رہتا ہے۔ میں نے ایک دو مرتبہ اسے پکارا، مگر وہ میری شکل دیکھتے ہی جنگلی ہرنوں کی طرح قلانچیں بھرتا دوڑ گیا۔ ‘‘

دو تین دن کے بعد جب میں اور میرا دوست چہل قدمی کررہے تھے کہ میرا دوست زور سے پکارا۔

’’ولسن‘‘

میری نگاہوں نے اسے زیتون کے درخت کے پیچھے چھپتا دیکھا۔ ہمارے قریب پہنچنے پر اس نے کوئی حرکت نہ کی، بس ساکت و صامت کھڑا رہا۔ پھر ایکا ایکی جوانوں کے مانند بے تحاشا بھاگنا شروع کردیا۔ اس کے بعد میں نے پھر اس کو کبھی نہ دیکھا۔ گھر واپس آیا تو ایک برس کے بعد میرے دوست کا خط آیا کہ ولسن مرگیا۔ اس کی لاش پہاڑی کے کنارے پڑی تھی۔ چہرے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ سوتے میں دم نکل گیا ہے۔ اس رات چودھویں کا چاند تھا۔ میرا خیال ہے، شاید یہ چودھویں کا چاند ہی اس کی موت کا سبب ہو۔

سعادت حسن منٹو

چند مکالمے

’’السلام و علیکم‘‘

’’وعلیکم السلام‘‘

’’کہیے مولانا کیا حال ہے‘‘

’’اللہ کا فضل و کرم ہے ہر حال میں گزر رہی ہے‘‘

’’حج سے کب واپس تشریف لائے‘‘

’’جی آپ کی دُعا سے ایک ہفتہ ہو گیا ہے‘‘

’’اللہ اللہ ہے آپ نے ہمت کی تو خانہ کعبہ کی زیارت کر لی۔ ہماری تمنا دل ہی میں رہ جائے گی دُعا کیجیے یہ سعادت ہمیں بھی نصیب ہو۔ ‘‘

’’انشاء اللہ ورنہ میں گنہگار کس قابل ہوں۔ ‘‘

’’میرے لائق کوئی خدمت‘‘

’’کسی تکلیف کی ضرورت نہیں ہاں دیکھیے ذرا کان کیجیے ادھر میرے ہاں کھانڈ کی دو بوریاں ہیں۔ میری بے شمار لوگوں سے جان پہچان ہے کسی کو ضرورت ہو تو مجھ سے فرما دیجیے۔ آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ دام واجبی ہوں گے‘‘

۔۔۔۔۔

’’لیجیے جناب ہماری خدمات کا صِلہ مل گیا‘‘

’’کیا۔ ویسے مبارک ہو‘‘

’’سو سو مبارک۔ کمپنی نے نوکری سے جواب دیا۔ ‘‘

’’ہائیں۔ یہ کب کی بات ہے‘‘

’’ایک مہینہ ہو گیا ہے‘‘

’’لاحول ولا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔ ‘‘

’’دو سو ملازموں کی چھانٹی ہوئی تھی نا۔ ‘‘

’’بہت افسوس کی بات ہے کوئی احتجاج وغیرہ ہوا تھا۔ ‘‘

’’سینکڑوں ہڑتالیں ہوئیں جلوس نکلے کئی مرتبہ لوگوں نے بھوک ہڑتال کی، وعدے ہوئے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ‘‘

’’تعجب ہے کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی‘‘

’’اللہ رحم کرے۔ ‘‘

’’اللہ رحم نہیں کرے گا۔ وہ دن لد گئے۔ جب وہ مائل بہ کرم ہوا کرتا تھا۔ اتنے آدمی ہیں وہ کس کس کی حاجت روائی کرے۔ میرا تو خیال ہے اُوپر آسمانوں پر بھی راشننگ سسٹم ہو گیا ہے‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔

’’میں اس بد ذات سے کیا کہوں صاف مجھے دغا دے گیا۔ ‘‘

’’کیسے۔ ؟‘‘

’’حرامزادے نے وعدہ کیا۔ اور دونوں گاڑیاں ٹھکانے لگا دیں۔ ‘‘

’’اس کی وجہ‘‘

’’میں نے اُس کا ایک کام کیا تھا اس کے عوض میں اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ایک بیوک کار جو اس کے پاس آنے والی تھی آدھی قیمت پر دے دے گا‘‘

’’اور جو تم نے اُس کا کام کیا تھا وہ لاکھوں کا تھا۔

’’اسی لیے تو کہتا ہوں بلڈی سوائن نے میرے ساتھ دھوکا کیا لیکن میں اس سے بدلہ لوں گا۔ خود بیوک میرے گھر پہنچا کے جائے گا۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔

’’باورچی کو بلاؤ۔ جلدی بلاؤ۔ ہم اس سے بات کرنا مانگتا ہے۔ ‘‘

’’حضور حاضر ہوں‘‘

’’یہ تم نے آج کیسے واہیات کھانے پکائے ہیں‘‘

’’حضور۔ ‘‘

’’حضور کے بچے اس پلیٹ سے بیگم صاحب نے ایک ہی نوالہ اُٹھایا تھا کہ انھیں متلی آگئی۔ ‘‘

’’حضور ممکن ہے کوئی گڑ بڑ ہو گئی ہو۔ معافی چاہتا ہوں‘‘

’’معافی کے بچے۔ اُٹھاؤ سالن باہر پھینک آؤ۔ ‘‘

’’ہم نوکر کھالیں گے سرکار۔ ‘‘

’’نہیں باہر ڈسٹ بن میں ڈال دو۔ اور تم سزا کے طور پر بھوکے رہو۔ ‘‘

’’اٹھیے بیگم ہم کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’اماں۔ اب گزارا کیسے ہو گا یہاں لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے۔ ‘‘

’’تو ٹھیک کہتی ہے بیٹا‘‘

’’سارا بازار ہی مندا ہے‘‘

’’کیوں۔ ؟‘‘

’’لوگوں کے پاس روپیہ جو نہیں‘‘

’’لیکن جو سڑکوں پر اتنی شاندار موٹریں چلتی ہیں۔ یہ جو عورتیں تن پر زرق برق لباس پہنے ہوتی ہیں یہ کہاں سے آتا ہے (اماں )‘‘

’’ان لوگوں کے پاس ہے‘‘

’’تو پھر بازار کیوں مندا ہے‘‘

’’اب ان لوگوں نے اپنے آپس ہی میں ہمارا دھندا شروع کر دیا ہے۔ ‘‘

’’ڈارلنگ۔ ‘‘

’’جی۔ ‘‘

’’ساری دکانیں چھان ماریں مگر تمہارے سائز کی میدم فورم بریز ر نہ مل سکی‘‘

’’اوہ ! ہاؤ سیڈ۔ میرا سائز ہی کیا واہیات سا ہے۔ ‘‘

’’دعوت تو جناب ایسی ہو گی کہ یہاں کی تاریخ میں یادگار رہے گی۔ لیکن ایک افسوس ہے کہ فرانس سے جو میں نے شمپیئن منگوائی تھی وقت پر نہ پہنچ سکے گی‘‘

’’اجی سُنیے تو۔ ‘‘

’’اوہ آپ۔ مجھے بڑا ضروری کام ہے۔ معاف فرمائیے۔ ‘‘

’’معافیاں تم لاکھ مرتبہ مانگ چکے ہو۔ وہ میرا سو روپے کا قرض ادا کرو جو تم نے آج سے قریب قریب ایک سال ہوا لیا تھا۔ ‘‘

’’میں پھر معافی چاہتا ہوں میری بیوی بیمار ہے دوا لینے جارہا ہوں‘‘

’’میں ان گھسوں میں آنے والا نہیں خدا کی قسم اگر آج میرا قرض ادا نہ ہوا تو سر پھوڑ دوں گا تمہارا۔ ‘‘

’’آپ کیوں اتنی زحمت اُٹھائیں میں خود ہی اس دیوار کے ساتھ ٹکر مار کے اپنا سر پھوڑ ے لیتا ہوں۔ یہ لیجیے۔ ‘‘

’’یہ چرس کی لت تمھیں کہاں سے پڑی‘‘

’’کیا بتاؤں یار اب تو اس کے بغیر رہا ہی نہیں جاتا۔ ‘‘

’’میں نے تم سے پوچھا تھا کہ لت کہاں سے پڑی تم نے کچھ اور ہی ہانکتا شروع کر دیا ہے‘‘

’’بھائی یہ لت مجھے جیل میں لگی‘‘

’’جیل میں۔ وہاں تو ایک مکھی بھی اندر نہیں جاسکتی‘‘

’’بھائی میرے وہاں مگر مچھ بھی جاسکتے ہیں ہاتھی بھی جاسکتے ہیں اگر تمہارے پاس دولت ہے تو آپ وہاں ایک دو ہاتھی بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں‘‘

’’پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ بتاؤ یہ چرس وہاں کیسے پہنچ سکتی ہے‘‘

’’ویسے ہی جیسے ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں میرے عزیز جیل خانہ صرف اُن لوگوں کے لیے جیل خانہ ہے جو صاحبِ استطاعت نہیں جو دولت مند مجرم ہیں اُن کو وہاں ہر قسم کی مراعات مل سکتی ہیں اور ملتی ہیں‘‘

’’اگر تم چاہو تو تمھیں وہاں شراب مل سکتی ہے گانجہ مل سکتا ہے افیون دستیاب ہو سکتی ہے۔ اگر تم بڑے رئیس ہو تو اپنی بیوی کو بھی وہاں بُلا سکتے ہو۔ جو رات بھر تمہاری مٹھی چاپی کرتی رہے گی۔ ‘‘

’’جیل خانوں میں ایک

’’خاکی‘‘

مارکیٹ ہوتی ہے جو بلیک مارکیٹ سے زیادہ ایماندار ہے۔ ‘‘

’’کرنل صاحب آپ کی عمر کتنی ہو گی۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے پینسٹھ کے قریب ہو گی۔ آپ کی‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں ماشاء اللہ ابھی جوان ہیں۔ میری عُمر۔ میری عمر یہی پچیس چھبیس برس کے قریب ہو گی۔ ‘‘

’’تو ہم دونوں سچ بول رہے ہیں‘‘

مجھے لپ اسٹک سے نفرت ہے معلوم نہیں عورتیں اسے کیوں استعمال کرتی ہیں اس سے ہونٹوں کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔

’’مجھے خود اس سے نفرت ہے‘‘

’’لیکن تمہارے ہونٹوں پر تو یہ واہیات چیز موجود ہے خون کی طرح سُرخ ہو رہے ہیں۔ ‘‘

’’یہ سرخی میرے اپنے ہونٹوں کی ہے۔ یعنی مصنوعی نہیں‘‘

’’تو آؤ ایک بوسہ لے لُوں۔ ‘‘

’’بڑے شوق سے‘‘

’’پرے ہٹیے اب مجھے نہیں معلوم تھا کہ مرد بھی لپ اسٹک استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘

’’وہ کیسے‘‘

’’ذرا آئینے میں اپنے ہونٹ ملاحظہ فرمائیے‘‘

’’صاحب آپ سے کوئی ملنے آیا ہے‘‘

’’کہہ دو صاحب گھر میں نہیں ہیں‘‘

’’بہت اچھا جناب۔ ‘‘

چلا گیا۔ ‘‘

’’جی نہیں چلی گئی۔ ‘‘

’’کیا مطلب۔ ‘‘

’’جی وہ ایک ایکٹریس تھی جس کا نام۔ ‘‘

’’بھاگو بھاگو جلدی اُس کو بُلا کے لاؤ اور کہو تم نے جھوٹ بولا تھا کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔ ‘‘

’’آپ آج کل کہاں غائب رہتے ہیں‘‘

’’بیگم ایک یتیم بچہ ہے اُس کو دیکھنے کبھی کبھی چلا جاتا ہوں‘‘

’’اُس یتیم بچے سے آپ کو اتنی دلچسپی کیوں ہے‘‘

’’یتیم جو ہوا۔ ‘‘

’’آپ کی جیب میں اس کا فوٹو بھی موجود رہتا ہے‘‘

’’اس لیے۔ اس لیے۔ ‘‘

’’کہ وہ آپ کا یتیم بچہ ہے‘‘

’’نون سنس۔ ‘‘

’’آپ کی قمیص پر سرخ دھبہ کیسے لگا۔ ‘‘

’’میری قمیص پر۔ کہاں ہے‘‘

’’داہنے ہاتھ۔ گریبان کے قریب۔ ‘‘

’’اوہ۔ میں جب دفتر میں کسی ضروری مسئلے پر غور کر رہا ہوتا ہو ں‘‘

تو مجھے کسی بات کا ہوش نہیں رہتا یہ لال پنسل کا نشان ہے جس سے میں نے کھجلا لیا ہو گا۔

’’جی ہاں لیکن اس میں سے تو میکس فیکٹر کی خوشبو آرہی ہے۔ ‘‘

’’تم آج کل کس کی بیوی ہو‘‘

’’کل تو مسٹر۔ کی تھی آج چھٹی پر ہوں‘‘

’’آپ میدان جنگ میں جارہے ہیں خدا آپ کا حافظ و ناصر ہو لیکن مجھے کوئی نشانی دیتے جائیے۔ ‘‘

’’میری نشانی تو تم خود ہو‘‘

’’نہیں کوئی ایسی چیز دیتے جائیے جس کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتی رہوں‘‘

’’میں وہاں سے بھیج دُوں گا۔ ‘‘

’’کیا چیز۔ ‘‘

’’وہ زخم جو مجھے لڑنے کے دوران آئیں گے‘‘

’’آپ کی بیگم کیسی ہیں‘‘

’’یہ تو آپ کو معلوم ہو گا۔ اپنی بیگم کے بارے میں مجھ سے دریافت فرما سکتے ہیں‘‘

’’وہ کیسی ہیں‘‘

’’پہلے سے بہتر اور خوش ہیں۔ اُن کی طبیعت بہت پسند آئی۔ ‘‘

’’یار تم اتنی عورتوں سے یارانہ کیسے گانٹھ لیتے ہو‘‘

’’یارانہ کہاں گانٹھتا ہوں باقاعدہ شادی کرتا ہوں‘‘

’’شادی کرتے ہو‘‘

’’ہاں بھائی میں حرام کاری کا قائل نہیں شادی کرتا ہوں اور جب اُکتا جاتا ہوں تو حقِ مہر ادا کر کے اُس سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہوں‘‘

’’اسلام زندہ باد۔ !‘‘

سعادت حسن منٹو

چغد

لڑکوں اور لڑکیوں کے معاشقوں کا ذکر ہورہا تھا۔ پر کاش جو بہت دیر سے خاموش بیٹھا اندر ہی اندر بہت شدت سے سوچ رہا تھا، ایک دم پھٹ پڑا۔

’’سب بکواس ہے، سو میں سے ننانوے معاشقے نہایت ہی بھونڈے اور لچر اور بے ہودہ طریقوں سے عمل میں آتے ہیں۔ ایک باقی رہ جاتا ہے، اس میں آپ اپنی شاعری رکھ لیجیے یا اپنی ذہانت اور ذکاوت بھر دیجیے۔ مجھے حیرت ہے۔ تم سب تجربہ کار ہو۔ اوسط آدمی کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار ہو۔ جو حقیقت ہے، تمہاری آنکھوں سے اوجھل بھی نہیں۔ پھر یہ کیا حماقت ہے کہ تم برابر اس بات پر زور دیے جا رہے ہو کہ عورت کو راغب کرنے کے لیے نرم و نازک شاعری، حسین و جمیل شکل اور خوش وضع لباس، عطر، لونڈر اور جانے کس کس خرافات کی ضرورت ہے اور میری سمجھ سے یہ چیز تو بالکل بالاتر ہے کہ عورت سے عشق لڑانے سے پہلے تمام پہلو سوچ کر ایک اسکیم بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

چودھری نے جواب دیا۔

’’ہر کام کرنے سے پہلے آدمی کو سوچنا پڑتا ہے۔ ‘‘

پرکاش نے فوراً ہی کہا۔

’’مانتا ہوں۔ لیکن یہ عشق لڑانا میرے نزدیک بالکل کام نہیں۔ یہ ایک۔ بھئی تم کیوں غور نہیں کرتے۔ کہانی لکھنا ایک کام ہے۔ اسے شروع کرنے سے پہلے سوچنا ضروری ہے لیکن عشق کو آپ کام کیسے کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک۔ یہ ایک۔ یہ ایک۔ ۔ میرا مطلب ہے۔ عشق مکان بنانا نہیں جو آپ کو پہلے نقشہ بنوانا پڑے۔ ایک لڑکی یا عورت اچانک آپ کے سامنے آتی ہے۔ آپ کے دل میں کچھ گڑ بڑ سی ہوتی ہے۔ پھر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ ساتھ لیٹی ہو۔ اسے آپ کام کہتے ہیں۔ یہ ایک۔ یہ ایک حیوانی طلب ہے جسے پورا کرنے کے لیے حیوانی طریقے ہی استعمال کرنے چاہئیں۔ جب ایک کتا کتیا سے عشق لڑانا چاہتا ہے تو وہ بیٹھ کر اسکیم تیار نہیں کرتا۔ اسی طرح سانڈ جب بُو سُونگھ کر گائے کے پاس جاتا ہے تو اسے بدن پر عطر لگانا نہیں پڑتا۔ بنیادی طور پر ہم سب حیوان ہیں۔ اس لیے عشق و محبت میں جو دنیا کی سب سے پرانی طلب ہے، انسانیت کا زیادہ دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ شعر و شاعری، مصوری، صنم تراشی یہ سب فنون لطیفہ محض بے کار ہیں؟‘‘

پرکاش نے سگریٹ سلگایا اوراپنا جوش بقدر کفایت استعمال کرتے ہوئے کہا۔

’’محض بے کار نہیں۔ میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتے ہو، تمہارا مطلب یہ تھا کہ فنون لطیفہ کے وجود کا باعث عورت ہے، پھر یہ بے کار کیسے ہُوئے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کے وجود کا باعث خود عورت نہیں ہے، بلکہ مرد کی عورت کے متعلق حد سے بڑھی ہُوئی خوش فہمی ہے۔ مرد جب عورت کے متعلق سوچتا ہے تو اور سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عورت کو عورت نہ سمجھے۔ عورت کو محض عورت سمجھنے سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے! چنانچہ وہ چاہتا ہے اسے خوبصورت سے خوبصورت روپ میں دیکھے۔ یورپی ممالک میں جہاں عورتیں فیشن کی دلدادہ ہیں، ان سے جا کر پوچھو کہ ان کے بالوں، ان کے کپڑوں، ان کے جوتوں کے نت نئے فیشن کون ایجاد کرتا ہے۔ ‘‘

چودھری نے اپنے مخصوص بے تکلفانہ انداز میں پرکاش کے کاندھے پر ہولے سے طمانچہ مارا۔

’’تم بہک ہو گئے ہو یار۔ جوتوں کے ڈیزائن کون بناتا ہے، سانڈ گائے کے پاس جاتا ہے تو اسے لونڈر لگانا نہیں پڑتا۔ یہاں باتیں ہورہی تھیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے وہی رومان کامیاب ہوتے ہیں جو شریفانہ خطوط پر شروع ہوں۔ ‘‘

پرکاش کے ہونٹوں کے کونے طنز سے سکڑ گئے۔

’’چودھری صاحب قبلہ! آپ بالکل بکواس کرتے ہیں۔ شرافت کو رکھیے آپ اپنے سگریٹ کے ڈبے میں، اور ایمان سے کہیے وہ لونڈیا جس کے لیے آپ پورا ایک برس رومالوں کو بہترین لونڈر لگا کر اسکیمیں بناتے رہے، کیا آپ کو مل گئی تھی؟‘‘

چودھری صاحب نے کسی قدر کھسیانہ ہو کر جواب دیا۔

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’وہ۔ وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔ ‘‘

’’کس سے۔ کس اُلو کے پٹھے سے۔ ایک پھیری والے بزار سے جس کو نہ تو غالب کے شعر یاد تھے نہ کرشن چندر کے افسانے۔ جو آپ کے مقابلے میں لونڈر لگے رومال سے نہیں بلکہ اپنے میلے تہمد سے ناک صاف کرتا تھا۔ ‘‘

پرکاش ہنسا۔

’’چودھری صاحب قبلہ، مجھے یاد ہے آپ بڑی محبت سے اسے خط لکھا کرتے تھے۔ ان میں آسمان کے تمام تارے نوچ کر آپ نے چپکا دیے۔ چاند کی ساری چاندنی سمیٹ کر ان میں پھیلا دی مگر اس پھیری والے بزار نے آپ کی لونڈیا کو جس کی ذہنی رفعت کے آپ ہر وقت گیت گاتے تھے، جس کی نفاست پسند طبیعت پر آپ مرمٹے تھے، ایک آنکھ مار کر اپنے تھانوں کی گٹھڑی میں باندھا اور چلتا بنا۔ اس کا جواب ہے آپ کے پاس؟ ؟ چودھری منمنایا:

’’میرا خیال ہے جن خطوط پر میں چل رہا تھا، غلط تھے۔ اس کا نفسیاتی مطالعہ بھی جو میں نے کیا تھا درست ثابت نہ ہوا۔ ‘‘

پرکاش مسکرایا:

’’چودھری صاحب قبلہ! جن خطوط پر آپ چل رہے تھے، یقیناً غلط تھے۔ اس کا نفسیاتی مطالعہ بھی جو آپ نے کیا تھا، سو فیصد نا درست تھا اور جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ آپ کو خط کشی اور نفسیاتی مطالعے کی زحمت اٹھانی ہی نہیں چاہیے تھی۔ نوٹ بک نکال کر اس میں لکھ لیجیے کہ سو میں سو مکھیاں شہد کی طرف بھاگی آئیں گی اور سو میں ننانوے لڑکیاں بھونڈے پن سے مائل ہوں گی۔ ‘‘

پرکاش کے لہجے میں ایک ایسا طنز تھا جس کا رخ چودھری کی طرح اتنا نہیں تھا جتنا خود پرکاش کی طرف تھا۔ چودھری نے سر کو جنبش دی اور کہا:

’’تمہارا فلسفہ میں کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ ‘‘

آسان بات کو تم نے مشکل بنا دیا ہے۔ تم آرٹسٹ ہو اور نوٹ بک نکال کر یہ بھی لکھ لو کہ آرٹسٹ اوّل درجے کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ مجھے بہت ترس آتا ہے ان پر کم بختوں کی بے وقوفی میں بھی خلوص ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مسئلے حل کردیں گے پر جب کسی عورت سے مڈبھیڑ ہو گی تو جناب ایسے چکر میں پھنس جائیں گے کہ ایک گز دُور کھڑی عورت تک پہنچنے کے لیے پشاور کا ٹکٹ لیں گے اور وہاں پہنچ کر سوچیں گے وہ عورت آنکھوں سے اوجھل کیسے ہو گئی۔ چودھری صاحب قبلہ، نکالیے اپنی نوٹ بک اور یہ لکھ لیجیے کہ آپ اوّل درجے کے چغد ہیں۔ ‘‘

چودھری خاموش رہا اور مجھے ایک بار پھر محسوس ہوا کہ پرکاش، چودھری کو آئینہ بنا کر اس میں اپنی شکل دیکھ رہا ہے اور خود کو گالیاں دے رہا ہے۔ میں نے اسے کہا۔

’’پرکاش ایسا لگتا ہے چودھری کے بجائے تم اپنے آپ کو گالیاں دے رہے ہو۔ ‘‘

خلاف توقع اس نے جواب دیا۔

’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو، اس لیے کہ میں بھی ایک آرٹسٹ ہوں، یعنی میں بھی۔ جب دو اور دو چاربنتے ہیں تو خوش نہیں ہوتا۔ میں بھی قبلہ چودھری صاحب کی طرح امرتسر کے کمپنی باغ میں عورت سے مل کر فرنٹیئرمیل سے پشاور جاتا ہوں اور وہاں آنکھیں مل مل کر سوچتا ہوں میری محبوبہ غائب کہاں ہو گئی۔ ‘‘

یہ کہہ کر پرکاش خوب ہنسا۔ پھر چودھری سے مخاطب ہوا۔

’’چودھری صاحب قبلہ، ہاتھ ملائیے۔ ہم دونوں پھسڈی گھوڑے ہیں۔ اس دوڑ میں صرف وہی کامیاب ہو گا جس کے ذہن میں صرف ایک ہی چیز ہو کہ اسے دوڑنا ہے، یہ نہیں کہ کام اور وقت کا سوال حل کرنے بیٹھ جائے۔ اتنے قدموں میں اتنا فاصلہ طے ہوتا ہے تو اتنے قدموں میں کتنا فاصلہ طے ہو گا۔ عشق جو میٹری ہے نہ الجبرا۔ پس بکواس ہے۔ چونکہ بکواس ہے اس لیے اس میں گرفتار ہونے والے کو بکواس ہی سے مدد لینی چاہیے۔ ‘‘

’’چودھری نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’کیا بکواس کرتے ہو؟‘‘

’’توسنو!‘‘

پرکاش جم کر بیٹھ گیا۔

’’میں تمہیں ایک سچا واقعہ سُناتا ہوں۔ میرا ایک دوست ہے، میں اس کا نام نہیں بتاؤں گا۔ دو برس ہُوئے وہ ایک ضروری کام سے چمبہ گیا۔ دو روز کے بعد لوٹ کر اسے ڈلہوزی چلا آنا تھا۔ اس کے فوراً بعد امرتسرپہنچنا تھا مگر تین مہینے تک وہ لاپتہ رہا۔ نہ اس نے گھر خط لکھا نہ مجھے جب واپس آیا تو اس کی زبانی معلوم ہُوا کہ وہ تین مہینے چمبہ ہی میں تھا۔ وہاں کی ایک خوبصورت لڑکی سے اسے عشق ہو گیا تھا۔ ‘‘

چودھری نے پوچھا۔

’’ناکام رہا ہو گا۔ ‘‘

پرکاش کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’نہیں، نہیں۔ وہ کامیاب رہا۔ زندگی میں اسے ایک شاندار تجربہ حاصل ہوا۔ تین مہینے وہ چمبہ کی سردیوں میں ٹھٹھرتا اور اس لڑکی سے عشق کرتا رہا۔ واپس ڈلہوزی آنے والا تھا کہ پہاڑی کی ایک پگڈنڈی پر اس کافر جمال حسینہ سے اس کی مڈ بھیڑ ہُوئی۔ تمام کائنات سکڑ کر اس کی لڑکی میں سما گئی اور وہ لڑکی پھیل کر والہانہ وسعت اختیار کرگئی۔ اس کو محبت ہو گئی تھی۔ قبلہ چودھری صاحب! سُنیے۔ پندرہ دنوں تک متواتر وہ غریب اپنی محبت کو چمبہ کی یخ بستہ فضا میں دل کے اندر دبائے چھپ چھپ کر دور سے اس لڑکی کو دیکھتا رہا مگر اس کے پاس جا کر اس سے ہم کلام ہونے کی ہمت نہ کرسکا۔ ہر دن گزرنے پر وہ سوچتا کہ دوری کتنی اچھی چیز ہے۔ اونچی پہاڑی پر وہ بکریاں چرا رہی ہے۔ نیچے سڑک پر اس کا دل دھڑک رہا ہے۔ آنکھوں کے سامنے یہ شاعرانہ منظر لائیے اور داد دیجیے۔ اس پہاڑی پر عاشق صادق کھڑا ہے۔ دوسری پہاڑی پر اس کی سیمیں بدن محبوبہ۔ درمیان میں شفاف پانی کا نالہ بہہ رہا ہے۔ سبحان اللہ کیسا دلکش منظر ہے، چودھری صاحب قبلہ۔ ‘‘

چودھری نے ٹوکا۔

’’بکواس مت کرو جو واقعہ ہے، اسے بیان کرو۔ ‘‘

پرکاش مسکرایا۔ تو سنیے۔ پندرہ دن تک میرا دوست عشق کے زبردست حملے کے اثرات دُور کرنے میں مصروف رہا اور سوچتا رہا کہ اسے جلدی واپس چلا جانا چاہیے۔ ان پندرہ دنوں میں اس نے کاغذ پنسل لے کر تو نہیں لیکن دماغ ہی دماغ میں اس لڑکی سے اپنی محبت کا کئی بار جائزہ لیا۔ لڑکی کے جسم کی ہر چیز اسے پسند تھی۔ لیکن یہ سوال درپیش تھا کہ اسے حاصل کیسے کیا جائے۔ کیا ایک دم بغیر کسی تعارف کے وہ اس سے باتیں کرنا شروع کردے؟ بالکل نہیں، یہ کیسے ہوسکتا تھا۔ کیوں، ہو کیسے نہیں سکتا۔ مگر فرض کرلیا جائے اس نے منہ پھیر لیا۔ جواب دیے بغیر اپنی بکریوں کوہانکتی، پاس سے گزر گئی۔ جلد بازی کبھی بار آور نہیں ہوتی۔ لیکن اس سے بات کیے بغیر اسے حاصل کیے کیا جاسکتا ہے؟ ایک طریقہ ہے، وہ یہ کہ اس کے دل میں اپنی محبت پیدا کی جائے۔ اس کو اپنی طرف راغب کیا جائے۔ ہاں ہاں، ٹھیک ہے۔ لیکن سوال یہ ہے راغب کیسے کیا جائے۔ ہاتھ سے، اشارہ۔ نہیں، بالکل پوچ ہے۔ سو قبلہ چودھری صاحب! ہمارا ہیرو ان پندرہ دنوں میں یہی سوچتا رہا۔ سولہویں دن اچانک باؤلی پر اس لڑکی نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ ہمارے ہیرو کے دل کی باچھیں کھل گئیں، لیکن ٹانگیں کانپنے لگیں۔ آپ نے اب ٹانگوں کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ لیکن جب مسکراہٹ کا خیال آیا تو اپنی ٹانگیں الگ کردیں اور اس لڑکی کی پنڈلیوں کے متعلق سوچنے لگا جو اٹھی ہوئی گھگھری میں سے اسے نظر آئی تھیں۔ کتنی سڈول تھیں۔ لیکن وہ دن دُور نہیں جب وہ ان پر بہت آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر سکے گا۔ پندرہ دن اور گزر گئے۔ ادھر وہ مسکرا کر پاس سے گزرتی رہی۔ ادھر ہمارے ہیرو صاحب جوابی مسکراہٹ کی ریہرسل کرتے رہے۔ سوا مہینہ ہو گیا اور ان کا عشق صرف ہونٹوں پر ہی مسکراتا رہا۔ آخر ایک دن خود اس لڑکی نے مہر خاموشی توڑی اور بڑی ادا سے ایک سگریٹ مانگا۔ آپ نے ساری ڈبیا حوالے کردی اور گھر آکر ساری رات کپکپاہٹ پیدا کرنے والے خواب دیکھتے رہے۔ دوسرے دن ایک آدمی کو ڈلہوزی بھیجا اور وہاں سے سگریٹوں کے پندرہ پیکٹ منگوا کر ایک چھوٹے سے لڑکے کے ہاتھ اپنی محبوبہ کو بھجوا دیے۔ جب اس نے اپنی جھولی میں ڈالے تو آپ کے دل کو دور کھڑے بہت مسرت محسوس ہوئی۔ ہوتے ہوتے وہ دن بھی آگیا۔ جب دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ کیسی باتیں؟ قبلہ چودھری صاحب بتائیے، ہمارا ہیرو کیا باتیں کرتا تھا اس سے؟‘‘

چودھری نے اس کو اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’مجھے کیا معلوم۔ ‘‘

پرکاش مسکرایا۔

’’مجھے معلوم ہے قبلہ چودھری صاحب۔ گھر سے چلتے وقت وہ باتوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست تیار کرتا تھا۔ میں اس سے یہ کہوں گا، میں اس سے یہ کہوں گا جب وہ نالے کے پاس کپڑے دھوتی ہو گی تو میں آہستہ آہستہ جا کر اس کی آنکھیں میچ لوں گا پھر اس کی بغلوں میں گدگدی کروں گا لیکن جب اس کے پاس پہنچتا اور آنکھیں میچنے اور گدگدی کرنے کا خیال آتا تو اسے شرم آجاتی۔ کیا بچپنا ہے۔ اور وہ اس سے کچھ دور ہٹ کر بیٹھ جاتا اور بھیڑ بکریوں کی باتیں کرتا رہتا۔ کئی دفعہ اسے خیال آیا کب تک یہ بھیڑ بکریاں اس کی محبت چرتی رہیں گی۔ دو مہینے سے کچھ دن اوپر ہو گئے اور ابھی تک وہ اس کے ہاتھ تک نہیں لگا سکا۔ مگر وہ سوچتا کہ ہاتھ لگائے کیسے، کوئی بہانہ تو ہونا چاہیے لیکن پھر اسے خیال آتا بہانے سے ہاتھ لگانا بالکل بکواس ہے، لڑکی کی طرف سے اسے خاموش اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اس کے بدن کے جس حصے کو بھی چاہے ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اب خاموش اجازت کا سوال آجاتا۔ اسے کیسے پتہ چل سکتا ہے اس نے خاموش اجازت دے دی ہے۔ قبلہ چودھری صاحب، اس کا کھوج لگاتے لگاتے پندرہ دن اور گزر گئے۔ ‘‘

پرکاش نے سگریٹ سلگایا اور منہ سے دھواں نکالتے ہوئے کہنے لگا۔

’’اس دوران میں وہ کافی گھل مل گئے تھے۔ لیکن اس کا اثر ہمارے ہیرو کے حق میں بُرا ہوا۔ دوران گفتگو میں اس نے لڑکی سے اپنے اونچے خاندان کا کئی بار ذکر کیا تھا، اپنے اوباش دوستوں پر کئی بار لعنتیں بھیجی تھیں جو پہاڑی دیہاتوں میں جا کر غریب لڑکیوں کوخراب کرتے تھے۔ کبھی دبی زبان میں، کبھی بلند بانگ اپنی تعریف بھی کی تھی۔ اب وہ کیسے اس لڑکی پر اپنی شہوانی خواہش ظاہر کرتا۔ ظاہر تھا کہ معاملہ بہت ٹیڑھا اور پیچدار ہو گیا ہے۔ مگر اس کا جذبہ عشق سلامت تھا اس لیے اسے اُمید تھی کہ ایک روز خود لڑکی ہی اپنا آپ تھالی میں ڈال کر اس کے حوالے کردے گی۔ اس اُمید میں چنانچہ کچھ دن اور بیت گئے ایک روز کپڑے دھوتے دھوتے لڑکی نے جب کہ ہاتھ صابن سے بھرے ہوئے تھے اس سے کہا۔

’’تمہاری ماچس ختم ہو گئی ہے میری جیب سے نکال لو۔ یہ جیب عین اس کی چھاتی کے ابھار کے اوپر تھی۔ ہمارا ہیرو جھینپ گیا۔ لڑکی نے کہا۔

’’نکال لونا‘‘

۔ تھوڑی سی ہمت کرکے اس نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ بڑھایا اور دو انگلیاں بڑی احتیاط سے اس کی جیب میں ڈالیں۔ ماچس بہت نیچے تھی۔ گھبرایا۔ کہیں اور نہ جا ٹکرائیں۔ چنانچہ باہر نکال لیں اور اپنی خالی ماچس سے تیلی نکال کر سگریٹ سلگایا اور لڑکی سے کہا

’’تمہاری جیب سے ماچس پھر کبھی نکالوں گا۔ ‘‘

یہ سن کر لڑکی نے شریر شریر نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ ہمارے ہیرو نے آدھا میدان مار لیا۔ دوسرا آدھا مارنے کے لیے وہ اسکیمیں سوچنے لگا۔ ایک روز صبح سویرے نالے کے اس طرف بیٹھا، دوسری طرف ندی پر اس لڑکی کو بکریاں چراتے دیکھ رہا تھا اور اس کی اُبھری ہوئی جیب کے مال پر غور کررہا تھا کہ نیچے سڑک پر باؤلی کے پاس ایک موٹر لاری رکی۔ سکھ ڈرائیور نے باہر نکل کر پانی پیا اور اس لڑکی کی طرف دیکھا۔

’’میرے دل میں ایک جلن سی پیدا ہوئی۔ باؤلی کی منڈیر پر کھڑے ہو کر اس موبل آئل سے لتھڑے ہوئے سکھ ڈرائیور نے پھر ایک بار ساوتری کی طرف دیکھا اور اپنا غلیظ ہاتھ اٹھا کر اسے اشارہ کیا۔ میرے جی میں آئی پاس پڑا ہوا پتھر اس پر لڑھکا دوں۔ اشارہ کرنے کے بعد اس نے دونوں ہاتھ منہ کے ادھر ادھر رکھ کر نہایت ہی بھونڈے طریقے سے پکارا۔

’’او جانی۔ میں صدقے۔ آؤں؟۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ سکھ ڈرائیور نے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ میرا دل گھٹنے لگا۔ چند منٹوں ہی میں وہ حرام زادہ اس کے پاس کھڑا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر اس نے کوئی بدتمیزی کی تو وہ چھڑی سے اس کی ایسی مرمت کرے گی کہ ساری عمر یاد رکھے گا۔ میں ادھر سے نگاہ ہٹا کر اس مرمت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک دم دونوں میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ میں بھاگا نیچے، سڑک کی طرف باؤلی کے پاس پہنچ کر سوچا کیا حماقت ہے۔ تشویش کیسی؟ لیکن پھر خیال آیا کہیں وہ الو کا پٹھا دراز دستی نہ کر بیٹھے۔ اس لیے پہاڑی پر تیزی سے چڑھنا شروع کیا۔ بڑی مشکل چڑھائی تھی۔ جگہ جگہ خار دار جھاڑیاں تھیں۔ ان کو پکڑ کر آگے بڑھنا پڑتا تھا۔ بہت دُور اوپر چلا گیا پر وہ دونوں کہیں نظر نہ آئے۔ ہانپتے ہانپتے میں نے اپنے سامنے کی جھاڑی پکڑ کر کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ کیا دیکھتا ہوں جھاڑی کے دوسری طرف پتھروں پر ساوتری لیٹی ہے اور اس غلیظ ڈرائیور کی داڑھی اس کے چہرے پر بکھری ہوئی ہے۔ میری۔ میرے جسم کے سارے بال جل گئے۔ ایک کروڑ گالیاں ان دونوں کے لیے میرے دل میں پیدا ہوئیں۔ لیکن ایک لحظے کے لیے سوچا تو محسوس ہوا کہ دنیا کا سب سے بڑا چغد میں ہوں۔ ۔ اسی وقت نیچے اترا اور سیدھا لاریوں کے اڈے کا رخ کیا۔ ‘‘

پرکاش کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمکنے لگیں۔

سعادت حسن منٹو

جُھوٹی کہانی

کچھ عرصے سے اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار ہورہی تھیں۔ ان کو خوابِ گراں سے جگانے والی اکثریتیں تھیں جو ایک مدت سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتی رہی تھیں۔ اس بیداری کی لہر نے کئی انجمنیں پیدا کردی تھیں۔ ہوٹل کے بیروں کی انجمن۔ حجاموں کی انجمن۔ کلرکوں کی انجمن۔ اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کی انجمن۔ ہر اقلیت اپنی انجمن یا تو بنا چکی تھی یا بنا رہی تھی تاکہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکے۔ ایسی ہر انجمن کے قیام پر اخباروں میں تبصر ے ہوتے تھے۔ اکثریت کے حمایتی ان کی مخالفت کرتے تھے اور اقلیت کے طرف دار موافقت۔ غرضیکہ کچھ عرصے سے ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا تھا جس سے رونق لگی رہتی تھی، مگر ایک روز جب اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملک کے دس نمبریے گنڈوں نے اپنی انجمن قائم کی ہے تو اکثریتیں اور اقلیتیں دونوں سنسنی زدہ ہو گئیں۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے خیال کہ بے پر کی اڑا دی ہے کسی نے۔ پر جب بعد میں اس انجمن نے اپنے اغراض و مقاصد شائع کیے اور ایک باقاعدہ منشور ترتیب دیا تو پتا چلا کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ گنڈے اور بدمعاش واقعی خود کو اس انجمن کے سائے تلے متحد اور منظم کرنے کا پورا پورا تہیہ کرچکے ہیں۔ اس انجمن کی ایک دو میٹنگیں ہو چکی تھیں، ان کو روداد اخباروں میں شائع ہوچکی تھی۔ لوگ پڑھتے اور دم بخود ہو جاتے۔ بعض کہتے کہ بس اب قیامت آنے میں زیادہ دیر باقی نہیں۔ اغراض و مقاصد کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی۔ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ گنڈوں اور بدمعاشوں کی یہ انجمن سب سے پہلے تو اس بات پر صدائے احتجاج بلند کرے گی۔ کہ معاشرے میں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بلکہ ان کے مقابلے میں کچھ زیادہ امن پسند شہری ہیں۔ ان کو گنڈے اور بدمعاش نہ کہا جائے اس لیے کہ اس سے ان کی ذلیل و توہین ہوتی ہے۔ وہ خود اپنے لیے کوئی مناسب اور معزز نام تجویز کرلیتے۔ مگر اس خیال کہ اپنے منہ میاں مٹھو کی کہاوت ان پر چسپاں نہ ہو، وہ اس کا فیصلہ عوام و خواص پر چھوڑتے ہیں۔ چوری چکاری، ڈکیتی اور رہزنی، جیب تراشی اور جعل سازی، پتے بازی اور بلیک مارکیٹنگ وغیرہ، افعال قبیجہ کے بجائے فنونِ لطیفہ میں شمار ہونے چاہئیں۔ ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو برا سلوک روا رکھا گیا ہے اس کی مکمل تلافی اس یونین کا نصب العین ہے۔ ایسے ہی کئی اور اغراض و مقاصد تھے جو سننے اور پڑھنے والوں کو بڑے عجیب و غریب معلوم ہوتے تھے۔ بظاہر ایسا تھا کہ چند بے فکر ظریفوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے یہ سب باتیں گھڑی ہیں۔ یہ چٹکلہ ہی تو معلوم ہوتا تھا کہ یونین اپنے ممبروں کی قانونی حفاظت کا ذمہ لے گی اور ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرے گی۔ وہ حکامِ وقت پر زور دے گی کہ یونین کے ہر رکن پر اس کے مقام اور رتبے کے لحاظ سے مقدمہ چلایا جائے اور سزا دیتے وقت بھی اس کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ حکومت لوگوں کو اپنے گھروں میں چوروں کا برقی الارم نہ لگانے دے اس لیے کہ بعض اوقات یہ ہلاکت خیز ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی قیدیوں کو جیل میں اے اور بی کلاس کی مراعات دی جاتی ہیں، اسی طرح یونین کے ممبروں کو دی جائیں۔ یونین اس بات کا بھی ذمہ لیتی تھی کہ وہ اپنے ممبروں کو ضعیف اور ناکارہ یا کسی حادثے کا شکار ہوجانے کی صورت میں ہر ماہ گزارے کے لیے معقول رقم دے گی۔ جو ممبر کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باہر کے ممالک میں جانا چاہے گا اسے وظیفہ دے گی وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اخباروں میں اس یونین کے قیام پر خوب تبصرہ بازی ہوئی۔ قریب قریب سب اس کے خلاف تھے۔ بعض رجعت پسند کہتے تھے کہ یہ کمیونزم کی انتہائی شکل ہے اور اس کے بانیوں کے ڈانڈے کریملن سے ملاتے تھے۔ حکومت سے چنانچہ بار بار درخواست کی جاتی کہ وہ اس فتنے کو فوراً کچل دے، کیونکہ اگر اس کو ذرا بھی پنپنے کا موقعہ دیا گیا تو معاشرے میں ایسا زہر پھیلے گا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہو جائے گا۔ خیال تھا کہ ترقی پسند اس یونین کی طرف داری کریں گے کہ اس میں ایک جدت تھی اور پرانی قدروں سے ہٹ کر اس نے اپنے لیے ایک بالکل نیا راستہ تلاش کیا تھا۔ اور پھر یہ کہ رجعت پسند اسے کمیونسٹوں کی اختراع سمجھتے تھے مگر حیرت یہ کہ اقلیتوں کے یہ سب سے بڑے طرفدار پہلے تو اس معاملے میں خاموش رہے اور بعد میں دوسروں کے ہم نوا ہو گئے اور اس یونین کی بیخ کنی پر زور دینے لگے۔ اخباروں میں ہنگامہ برپا ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں اس یونین کے قیام کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ قریب قریب ہر پارٹی کے نامی و گرامی لیڈروں نے پلیٹ فارم پر آکر اس ننگِ تہذیب و تمدن جماعت کو ملعون قرار دیا اور کہا کہ یہی وقت ہے جب تمام لوگوں کو اپنے آپس کے جھگڑے چھوڑ کر اس فتنہ عظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد، نظم اور یقین محکم کو اپنا موٹو بنا کر ڈٹ جانا چاہیے۔ اس سارے ہنگامے کا جواب یونین کی طرف سے ایک پوسٹر کے ذریعے سے دیا گیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ یہ کہا گیا کہ پریس اکثریت کے ہاتھ میں ہے۔ قانون اس کی پشت پر ہے، مگر انجمن کے حوصلے اور ارادے پست نہیں ہوئے وہ کوشش کررہی ہے کہ بہت سی رقم دے کرکچھ اخبار خرید لے اور ان کو اپنے حق میں کرلے۔ یہ پوسٹر ملک کے درودیوار پر نمودار ہوا، تو فوراً بعد کئی شہروں سے بڑی بڑی چوریوں اور ڈکیتیوں کی اطلاعیں وصول ہوئیں۔ اور اس کے چند روز بعد جب ایکا ایکی دو اخباروں نے دبی زبان میں گنڈوں اور بدکاروں کی یونین کے اغراض و مقاصد میں اصلاحی پہلو کریدناشروع کیا تو لوگ سمجھ گئے کہ پس پردہ کیا ہوا ہے۔ پہلے ان دو اخباروں کی اشاعت ہونے نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہایت ہی گھٹیا کاغذ پر چھپتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سب سے اچھا ایڈیٹوریل اسٹاف ان دو پرچوں کے پاس تھا۔ دفتر میں ایک کے بجائے دو دو ٹیلی پرنٹر تھے۔ تنخواہ مقررہ وقت سے پہلے مل جاتی تھی۔ بونس الگ ملتا تھا۔ گھر کا الاؤنس، ٹانگے کا الاؤنس، سگرٹوں کا الاؤنس، چائے کا الاؤنس، مہنگائی الاؤنس۔ یہ سب الاؤنس مل کر تنخواہ سے دوگنے ہو جاتے تھے۔ جودُختِ رز کے رسیا تھے، ان کو مفت پر مٹ ملتا تھا اور بہترین سکاچ وسکی کنٹرولڈ قیمت پر دستیاب ہوتی تھی۔ عملے کے ہر آدمی سے باقاعدہ کنٹریکٹ کیا گیا تھا جس میں مالک کی طرف سے یہ اقرار تھا کہ اس کے گھرمیں کبھی چورئی ہوئی، یا اس کی جیب کاٹ لی گئی تو اسے نقصان کے علاوہ ہرجانہ بھی ادا کیا جائے گا۔ ان دو اخباروں کی اشاعت سے دیکھتے دیکھتے ہزاروں تک پہنچ گئے۔ تعجب ہے کہ پہلے جب ان کی اشاعت کچھ بھی نہیں تھی تو یہ ہر روز کثیر الاشاعت ہونے کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے، مگر جب ان کی کایا کلپ ہوئی تو ا س معاملے میں بالکل خاموش ہو گئے۔ بیک وقت البتہ ان دونوں اخباروں نے کچھ عرصے کے بعد یہ اعلان چھاپا کہ ہماری اشاعت اس حد تک جاپہنچی ہے کہ اگر ہم نے اس سے تجاوز کیا تو تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی نقصان ہے۔ ان کے علمی و ادبی اڈیشنوں میں عجیب و غریب موضوعات پر مضمون شائع ہوتے تھے، یہ چار پانچ تو بڑے ہی سنسنی خیز تھے۔ بلیک مارکیٹ کے فوائد۔ معاشیات کی روشنی میں معاشرتی اور مجلسی دائرے میں قحبہ خانوں کی اہمیت۔ دروغ گورا حافظہ باشد۔ جدید سائنٹفک تحقیق بچوں میں قتل وغارت گری کے فطری رجحانات۔ سیادت پر سیر حاصل تبرہ دنیا کے خوف ناک ڈاکو اور تقدیسِ مذہب اشتہار بھی کم عجیب و غریب نہیں تھے۔ ان میں مشتہر کا نام اور پتا نہیں ہوتا تھا۔ سرخیاں دے کر مطلب کی مختصر لفظوں میں ادا کردی جاتی تھی۔ چند سرخیاں ملاحظہ ہوں۔ چوری کے زیورات خریدنے سے پہلے ہمارا نشان ضرور دیکھ لیا کریں۔ جو کھرے مال کی ضمانت ہے۔ بلیک مارکیٹ میں صرف اسی فلم کے ٹکٹ فروخٹ کیے جاتے ہیں۔ جو تفریح کا بہترین سامان پیش کرتا ہے۔ دودھ میں کن طریقوں سے ملاوٹ کی جاتی ہے۔ رسالہ دودھ کا دودھ کا پانی کا پانی مطالعہ فرمائیے۔ ٹونے، ٹوٹکے، گنڈے اور تعویذ، عملِ ہمزاد اور تسخیر محبوب کے جنتر منتر سب جھوٹے ہیں۔ خود کو دھوکا دینے کے بجائے معشوق کو دھوکا دیجیے۔ کھانے پینے کی صرف وہ چیزیں خیریدیے جن میں ضرر رساں چیزوں کی ملاوٹ نہ ہوا۔ ایک الگ کالم میں

’’بلیک مارکیٹ کے آج کے بھاؤ‘‘

کے عنوان تلے ان تمام چیزوں کی کنٹرولڈ قیمت درج ہوتی تھی جو صرف بلیک مارکیٹ سے دستیاب ہوتی تھیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان قیمتوں میں ایک پائی کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ جو چھپے چوری، چوری کا خاص نشان لگایا ہوا مال خریدتے تھے انھیں ارزاں قیمت پر سولہ آنے کھرا مال ملتا تھا۔ گنڈوں، چوروں اور بدکاروں کی انجمن جب آہستہ آہستہ نیک نامی حاصل کرنے لگی تو اربابِ بست وکشاد کی تشویش دو چند ہو گئی۔ حکومت نے اپنی طرف سے خفیہ طور پربہت کوشش کی کہ اس کے اڈے کا سراغ لگائے مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ یونین کی تمام سرگرمیاں زیر زمین یعنی انڈر گراؤنڈ تھیں۔ اونچی سوسائٹی کے چند اراکین کا خیال تھا کہ پولیس کے بعض بدقماش افسر اس یونین سے ملے ہوئے ہیں بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر ہیں اور ہر ماہ اپنی ناجائز ذرائع سے پیدا کی ہوئی آمدن کا بیشتر حصہ بطور جزیے کے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کا نشتر معاشرے کے اس نہایت ہی مہلک پھوڑے تک نہیں پہنچ سکا۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر یہ بات قابل غور تھی کہ عوام میں جو اس یونین کے قیام سے بے چینی پھیلی تھی اب بالکل مفقود تھی۔ متوسط طبقہ اسکی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا۔ صرف اونچی سوسائٹی تھی جو دن بدن خائف ہوتی جارہی تھی۔ اس یونین کے خلاف یوں تو آئے دن تقریریں ہوتی تھیں اور جگہ جگہ جلسے منعقد ہوئے تھے، مگر اب وہ پہلا سا جوش و خروش نہیں تھا۔ چنانچہ اس کو ازسرنو شدید بنانے کے لیے ٹاؤن ہال میں ایک عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ قریب قریب ہر شہر کی معزز ہستیوں کو نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا۔ مقصد اس جلسے کا یہ تھا کہ اتفاق رائے سے گنڈوں، شُہدوں اور بدکاروں کی اس یونین کے خلاف مذمت کا ووٹ پاس کیا جائے اور عوام الناس کو ان خوفناک جراثیم سے کماحقہ، آگاہ کیا جائے جو اس کے وجود سے معاشرتی ومجلسی دائرے میں پھیل چکے ہیں اور بڑی سرعت سے پھیل رہے ہیں۔ جلسے کی تیاری پر ہزاروں روپے خرچ کیے گئے۔ مجلس انتظامیہ اور مجلس استقبالیہ نے مندوبین کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کی۔ کئی اجلاس ہوئے اور بڑے کامیاب رہے۔ ان کی رپورٹ یونین کے پرچوں میں من و عن شائع ہوتی رہی۔ مذمت کے جتنے ووٹ پاس ہوئے بلاتبصرہ چھپتے رہے۔ دونوں اخباروں میں ان کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی۔ آخری اجلاس بہت اہم تھا۔ ملک کی تمام مکرم و معظم ہستیاں جمع تھیں۔ امراء و وزراء سب موجود تھے۔ حکومت کے اعلیٰ اعلیٰ افسر بھی مدعو تھے۔ بڑے زور دار الفاظ میں تقریریں ہوئیں اور مذہبی، مجلسی، معاشی، جمالیاتی اور نفسیاتی، غرض کہ ہر ممکن نقہ نظر سے گنڈوں اور بدمعاشوں کی تنظیم کے خلاف دلائل و براہین پیش کیے گئے اور ثابت کردیاگیا کہ اس طبقہ اسفل کا وجود حیاتِ انسانی کے حق میں زہر قاتل ہے۔ مذمت کا آخری ریزولیشن جو بڑے بااثر الفاظ پر مشتمل تھا اتفاق رائے سے پاس ہوا تو ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ جب تھوڑا سکون ہوا تو پچھلے بنچوں میں ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے صدر سے مخاطب ہو کرکہا۔

’’صاحبِ صدر، اجازت ہو تو میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

سارے ہال کی نگاہیں اس آدمی پر جم گئیں۔ صدر نے بڑی تمکنت سے پوچھا

’’میں پوچھ سکتا ہوں آپ کون ہیں؟‘‘

اس شخص نے جو بڑے سادہ مگر خوش وضع کپڑوں میں ملبوس تھا۔ تعظیم کے ساتھ کہا۔

’’ملک وملت کا ایک ادنیٰ ترین خادم‘‘

اور کورنش بجالایا۔ صدر نے چشمہ لگا کر اسے غور سے دیکھا اور پوچھا۔

’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

اس معما نما مرد نے مسکرا کر کہا۔

’’کہ۔ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ ‘‘

اس پر سارے ہال میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ڈائس پر خصوصاً سب کے سب معززین اور قائدین سوالیہ نشان بن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ صدر نے اپنی تمکنت کو ذرا اور تمکین بنا کر پوچھا۔

’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘

’’میں ابھی عرض کرتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک بے داغ سفید رومال نکالا۔ اپنا منہ صاف کیا اور اسے واپس جیب میں رکھ کربڑے پارلیمانی انداز میں گویا ہوا۔

’’صاحب صدر اور معزز حضرات‘‘

۔ ڈائس کے ایک طرف دیکھ کر وہ رک گیا۔

’’معافی کا طلبگار ہوں۔ محترمہ بیگم مرزبان خلافِ معمول آج پچھلے صوفے پر تشریف فرما ہیں۔ صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات!‘‘

بیگم مرزبان نے دے نیسٹی بیگ میں سے آئینہ نکال کر اپنا میک اپ دیکھا اور غور سے سننے لگی۔ باقی بھی ہمہ تن گوش تھے۔

’’حریفِ مطلب مشکل نہیں فسونِ نیاز دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز کچھ دیر رک کر وہ ایک ادا سے مسکرایا۔

’’حضرت غالب!۔ اس اجلاس میں اور اس سے پہلے مجلسی دائرے کے ایک مفروضہ طبقہ اسفل کے بارے میں جو زہر فشانی کی گئی ہے، آپ کے اس خاکسار نے بڑے غور سے سنی ہے۔ ‘‘

سارے ہال میں کُھسر پُھسر ہونے لگی۔ صدر کی ناک کے بانسے پر چشمہ پھسل گیا۔

’’آپ ہیں کون؟‘‘

سر کے ایک ہلکے سے خم کے ساتھ اس شخص نے جواب دیا۔

’’ملک و ملت کا ایک ادنیٰ خادم۔ مجلسی دائرے کے مفروضہ طبقہ اسفل کی جماعت کا ایک رکن جسے اس کی نمائندگی کا فخر حاصل ہے!‘‘

ہال میں کسی نے زور سے

’’واہ‘‘

کہا اور تالی بجائی۔ چوروں، اچکوں اور گنڈوں کی یونین کے نمائندے نے سر کو پھر ہلکی سی جنبش دی اور کہنا شروع کیا۔

’’کیا عرض کروں۔ کچھ کہا نہیں جاتا۔ واں گیا بھی میں تو اُن کی گالیوں کا کیا جواب یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں اس اجلاس میں اس جماعت کے خلاف جس کا یہ خاکسار نمائندہ ہے اس قدر گالیاں دی گئی ہیں۔ اس قدر لعنت ملامت کی گئی ہے کہ صرف اتنا کہنے کو جی چاہتا ہے لو وہ بھی کہتے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے صاحبِ صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات! بیگم مرزبان کی لپ اسٹک مسکرائی۔ بولنے والے نے آنکھیں اور سر جھکا کر تسلیم عرض کیا۔

’’محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں میری جماعت کا کوئی ہمدرد موجود نہیں۔ آپ میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارا طرف دار ہو۔ دوست گر کوئی نہیں ہے جو کرے چارہ گری نہ سہی ایک تمنائے دوا ہے تو سہی ڈائس پر ایک اچکن پوش رئیس گلے میں پان دبا کر بولے۔

’’مکرر!‘‘

صدر نے جب ان کی طرف سرزنش بھری نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہو گئے۔ چوروں اور بدکاروں کی یونین کے نمائندے کے پتلے پتلے ہونٹوں پر شفاف مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’میں اپنی مختصریر تقریر میں جو شعر بھی استعمال کروں گا۔ حضرت غالب کا ہو گا!‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے کہا۔

’’آپ تو بڑے لائق معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

بولنے والا کورنش بجایا لیا اور مسکرا کر کہنے لگا۔

’’سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوری تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے!‘‘

سارا ہال قہقوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ بیگم مرزبان نے اٹھ کر صدر کے کان میں کچھ کہا جس نے حاضرین کو چپ رہنے کا حکم دیا۔ خاموشی ہوئی تو چوروں اور لفنگوں کی یونین کے نمائندے پھر بولنا شروع کیا۔

’’صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات ؂ گرچہ ہے کس کس برائی سے دلے باایں ہمہ ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے۔ لیکن سچ پوچھیے تو اس سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں تاسف کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طبقے کے ساتھ جس کی نمائندگی میری جماعت کرتی ہے نہایت بے انصافی ہوئی ہے۔ اس کو اب تک بالکل غلط رنگ میں دیکھا جاتا رہا ہے اور یہی کوشش کی جاتی رہی کہ اسے معلون و مطعون قرار دے کر خارج از سماج کردیا جائے۔ میں ان مطہر ہستیوں کو کیا کہوں جنہوں نے اس شریف اور معزز طبقے کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے ہیں ؂ ؂

’’آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے‘‘

صدر نے دفعتہً گرج کر کہا۔

’’خاموش۔ بس اب آپ کو مزید بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ ‘‘

مقرر نے مسکرا کر کہا۔

’’حضرت غالب کی اسی غزل کا ایک شعر ہے ؂ دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ صدر نے اجلاس برخاست کرنا چاہا مگر لوگوں نے کہا کہ نہیں چوروں اور گنڈوں کی یونین کے نمائندے کی تقریر ختم ہو جائے تو کارروائی بند کی جائے۔ صدر اور دوسرے اراکین اجلاس نے پہلے آمادگی ظاہر نہ کی لیکن مبں رائے عامہ کے سامنے انھیں جھکنا پڑا۔ مقرر کو بولنے کی اجازت مل گئی۔ اس نے صاحب صدر کا مناسب و موزوں الفاظ میں شکریہ ادا کیا اورکہنا شروع کیا۔

’’ہماری یونین کو صرف اس لیے نفرت و تحقیر کی طرف سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ چوروں، اٹھائی گیروں، رہزنوں اور ڈاکوؤں کی انجمن ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں آپ لوگوں کے جذبات بخوبی سمجھتا ہوں۔ آپ کا فوری رد عمل کس قسم کا تھا، میں اس کا تصور بھی کرسکتا ہوں، مگر چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے حقو ق کیا نہیں ہوتے؟ یا نہیں ہوسکتے؟ میں سمجھتا ہوں کوئی سلیم الدماغ آدمی ایسا نہیں سوچ سکتا۔ جس طرح سب سے پہلے انسان ہیں، بعد میں سیٹھ ہیں، رئیس اعظم ہیں، میونسپل کمشنر ہیں، وزیر داخلہ ہیں یا خارجہ۔ اسی طرح وہ بھی سب سے پہلے آپ ہی کی طرح انسان ہے۔ چور، ڈاکو، اٹھائی گیرا، جیب کترا اور بلیک مارکیٹر بعد میں ہے۔ جو حقوق دوسرے انسانوں کو اس سقفِ نیلوفری کے نیچے مہیا ہیں، وہ اسے بھی مہیا اور ہونے چاہئیں۔ جن نعمتوں سے دوسرے انسان متمتع ہوتے ہیں ان سے وہ بھی مستفیض ہونے کا حق رکھتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک چور یا ڈاکو کیوں شے لطیف سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اسے ایک ایسا شخص متصور کیا جاتا ہے جو معمولی حسیات سے بھی عاری ہے۔ معاف فرمائیے وہ اچھا شعر سن کر اسی طرح پھڑک اٹھتا ہے جس طرح کوئی دوسرا سخن فہم۔ صبحِ بناس اور شامِ اودھ سے صرف آپ ہی لطف اندوز نہیں ہوتے۔ وہ بھی ہوتا ہے۔ سرتال کی اس کو بھی خبر ہے۔ وہ صرف پولیس کے ہاتھوں ہی گرفتار ہونا نہیں جانتا۔ کسی حسینہ کے دامِ الفت میں گرفتار ہونے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے۔ ان کو چوری سے منع کرتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے دل کو بھی صدمہ پہنچتا ہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کسی قدر گلورگیر ہو گئی۔ لیکن فوراً ہی اس نے رخ بدلا اور مسکراتے ہوئے کہا۔

’’حضرت غالب کے اس شعر کا جو مزا وہ لے سکتا ہے، معاف کیجیے آپ میں سے کوئی بھی نہیں لے سکتا ؂

’’نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو!‘‘

سارا ہال شگفتہ ہو کر ہنسنے لگا۔ بیگم مرزبان بھی جو تقریر کے آخری حصے پر کچھ افسردہ سی ہو گئی تھیں مسکرائیں۔ مقرر نے اسی طرح پتلی پتلی شفاف مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا۔

’’مگر اب ایسے دعا دینے والے کہاں!‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن کے ساتھ آہ بھر کر کہا۔

’’اور وہ رہزن بھی کہاں؟‘‘

مقرر نے تسلیم کیا۔

’’آپ نے بجا ارشاد فرمایا بیگم مرزبان۔ ہمیں اس افسوسناک حقیقت کا کامل احساس ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے مل کر اپنی انجمن بنا ڈالی ہے۔ مردر زمانہ کے ساتھ رہزن، چور اور کیب کترے قریب قریب سب اپنی پرانی روش اور وضعداری بھول گئے ہیں۔ لیکن مقام مسرت ہے کہ وہ اب بہت تیزی سے اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ لیکن میں ان حضرات سے جو ان غریبوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں یہ گستاخانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی اصلاح کے لیے اب تک انھوں نے کیا کیا ہے۔ مجھے کہنا تو نہیں چاہیے مگر تقابل کے لیے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں نہایت ذلیل، چوری اور سفاک ڈاکو کہا جاتا ہے، مگر وہ لوگ کیا ہیں۔ کچھ اس عالت مرتبت ڈ ائس پر بھی بیٹھے ہیں جو عوام کا مال و متاع دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔ ‘‘

ہال میں

’’شیم شیم‘‘

کے نعرے بلند ہوئے۔ مقرر نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔

’’ہم چور ی کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، مگر اسے کوئی اور نام نہیں دیتے۔ یہ معزز ہستیاں بدتریں قسم کی ڈاکہ زنی کرتی ہیں مگر یہ جائز سمجھتی ہے۔ اپنی آنکھ کے اس طویل و عریض اور بھاری بھر کم شہتیرکو کوئی نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کیوں؟۔ یہ بڑا گستاخ سوال ہے۔ میں اس کا جواب سننا چاہتا ہوں چاہے وہ اس سے بھی زیادہ گستاخ ہو۔ ‘‘

تھوڑے توقف کے بعد وہ مسکرایا۔

’’وزیر صاحبان اپنی مسندِ و زارت کی سان پر اُسترا تیز کرکے ملک کی ہر روز حجامت کرتے رہیں۔ یہ کوئی جرم نہیں، لیکن کسی کی جیب سے بڑی صفائی کے ساتھ بٹوہ چرانے والا قابل تعزیر ہے۔ تعزیر کو چھوڑیئے مجھے اس پر کوئی زیادہ اعتراض نہیں۔ وہ آپ کی نظروں میں گردن زدنی ہے۔ ‘‘

ڈائس پربہت سے حضرات بے چینی اور اضطراب محسوس کرنے لگا۔ بیگم مرزبان مسرور تھیں۔ مقرر نے اپنا گلا صاف کیا، پھر کہنا شروع کیا۔

’’تمام محکموں میں اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت ستانی کا سلسلہ قائم ہے۔ یہ کسے معلوم نہیں۔ کیا یہ کبھی کوئی راز ہے جس کے انکشاف کی ضرورت ہے کہ خویش پروری اور کنبہ نوازی کی بدولت سخت نااہل، خردماغ اور بدقماش بڑے بڑے عہدے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ معاف فرمائیے گا ادھر ہمارے طبقے میں ایسے افسوسناک حالات موجود نہیں کوئی چور اپنے کسی عزیز کو بڑی چوری کے لیے منتخب کریگا۔ ہمارے ہاں لوگ اس قسم کی رعائتوں سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے کہ چوری کرنے، جیب کاٹنے یا ڈاکہ ڈالنے کے لیے دل گردے اور مہارت و قابلیت کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ ہر شخص کا کام ہی خود اُس کا امتحان ہے جو اس کو فوراً نتیجے سے باخبر کردیتا ہے۔ ‘‘

ہال میں سب خاموش تھے اور بڑے غور سے تقریر سن رہے تھے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد مقرر کی آواز پھر بلند ہوئی۔

’’میں بدکاری معاف کرسکتا ہوں۔ لیکن خامکاری ہرگز ہرگز معاف نہیں کرسکتا۔ وہ لوگ یقیناً قابل مواخذہ ہیں جو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر ملک کی دولت کو لولٹتے ہیں۔ ایسے بھونڈے طریقے پر کہ ان کے کرتوتوں کے بھانڈے ہر دوسرے روز چوراہوں میں پھوٹتے ہیں۔ وہ پکڑے جاتے ہیں مگر بچ نکلتے ہیں کہ ان کے نام دس نمبر کے بستہ الف میں درج ہیں نہ بستہ ب میں۔ یہ کس قدر ناانصافی ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں بیچارے انصاف کا۔ اندھے انصاف کا خون یہیں پر ہوتا ہے۔ نہیں ایسے اور بھی کئی مقتل ہیں۔ جہاں انصاف، انسانیت، شرافت و نجابت، تقدیس و طہارت، دین و نیا، سب کو ایک پھندے میں ڈال کر ہر روز پھانسی دی جاتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں انسانوں کی خام کھالوں کی تجارت کرنے والے ہم ہیں یا آپ۔ میں سوال کرتا ہوں، از منہ، عتیق کی بربریت کی طرف امن پسند انسانوں کو کشاں کشاں کھینچ کر لے جانے والے ہم ہیں یا آپ۔ اور استفسار کرتا ہوں کہ دوسری اجناس کی طرح ملاوٹ کرکے اپنے ایمان کو آپ بیچتے ہیں یا ہم؟‘‘

ہال پر قبر کی سی خاموشی طاری تھی۔ مقرر نے جیب سے اپنا سفید رومال نکال کر منہ صاف کیا اور اسے ہوا میں لہرا کر کہا۔

’’صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات مجھے معاف فرمائیے کہ میں ذرا جذبات کی رو میں بہہ گیا۔ عرض ہے کہ جدھر نظر اٹھائی جائے۔ ایمان فروش ہوتا ہے یا ضمیر فروش، وطن فروش ہوتا یا ہے ملت فروش۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھی کوئی فروخت کرنے کی چیزیں ہیں۔ انسان تو انھیں نہایت ہی مشکل وقت میں ایک لمحے کے لیے گروی نہیں رکھ سکتا۔ مگر میں انسانوں کی بات کررہا ہوں۔ معاف کیجیے۔ میرے لہجے میں پھر تلخی پیدا ہو گئی ؂

’’رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘

یہ کہتا وہ ڈائس کی طرف بڑھا۔

’’صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات! میں اپنی یونین کی طرف سے آپ کا سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے لب کشائی کا موقعہ دیا۔ ‘‘

ڈائس کے پاس پہنچ کر اس نے صدر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

’’میں اب ایک دوست کی حیثیت سے رخصت چاہتا ہوں۔ ‘‘

صدر نے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد اُس نے بیگم مرزبان کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

’’اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ ‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے اپنا ہاتھ پیش کردیا۔ باقی معززین اور رؤسا سے ہاتھ ملا کر جب فارغ ہوا تو خدا حافظ کہہ کر چلنے لگا۔ لیکن فوراً ہی رک گیا۔ اپنی دونوں جیبوں سے اس نے بہت سی چیزیں نکالیں اور صدرکی میز پر ایک ایک کرکے رکھ دیں۔ پھر وہ مسکرایا۔

’’ایک عرصے سے جیب تراشی چھوڑ چکا ہوں آج کل سیف توڑنا میرا پیشہ ہے۔ آج صرف ازراہِ تفریح آپ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کردیا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بیگم مرزبان سے مخاطب ہوا۔

’’خاتون مکرم معاف کیجیے۔ آپ کے وینسیٹی بیگ سے بھی میں نے ایک چیز نکالی تھی۔ مگر وہ ایسی ہے کہ سب کے سامنے آپ کو واپس نہیں کرسکتا۔ ‘‘

اور وہ تیزی کے ساتھ ہال سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

جُھمکے

سُنار کی اُنگلیاں جھمکوں کو برش سے پالش کر رہی ہیں جھمکے چمکنے لگتے ہیں ستار کے پاس ہی ایک آدمی بیٹھا ہے جھمکوں کی چمک دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتما اُٹھتی ہیں بڑی بے تابی سے وہ اپنے ہاتھ ان جھمکوں کی طرف بڑھاتا ہے اور سُنار کہتا ہے

’’بس اب رہنے دو مجھے‘‘

سُنار اپنے گاہک کو اپنی ٹُوٹی ہوئی عینک میں سے دیکھتا ہے اور مسکرا کرکہتا ہے

’’چھ مہینے سے الماری میں بنے پڑے تھے آج آئے ہو تو کہتے ہو کہ ہاتھوں پر سرسوں جما دُوں‘‘

گاہک جس کا نام چرنجی ہے کچھ شرمندہ ہو کر کہتا ہے

’’کیا بتاؤں لالہ کروڑی مل۔ اتنی رقم جمع ہونے میں آتی ہی نہیں تھی تم سے الگ شرمندہ جورو سے الگ شرمندہ عجب آفت میں جان پھنسی ہوئی تھی۔ جانے اس سونے میں کیا کشش ہے کہ عورتیں اس پر جان دیتی ہیں۔ سُنار پالش کرنے کے بعد جھمکے بڑی صفائی سے کاغذ میں لپیٹتا ہے اور چرنجی کے ہاتھوں میں رکھ دیتا ہے۔ چرنجی کا غذ کھول کر جھمکے نکالتا ہے جب وہ جھُمر جھمر کرتے ہیں تو وہ مسکراتا ہے۔ بھئی کیا کاریگری کی ہے لالہ کروڑی مل۔ دیکھے گی تو پھڑک اُٹھے گی۔ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنی جیب سے کچھ نوٹ نکالتا ہے اور سُنار سے یہ کہہ کر

’’کھرے کر لو بھائی‘‘

دکان سے باہر نکلتا ہے۔ ۔ دکان کے باہر ایک تانگہ کھڑا ہے گھوڑا ہنہناتا ہے تو چرنجی اس کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے‘‘

تمھیں بھی دو جھمکے بنوا دُوں گا میری جان فکر مت کرو‘‘

یہ کہہ کر وہ خوش خوش گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے

’’چل میری جان ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے‘‘

چرنجی خوش خوش اپنے طویلے پہنچتا ہے دھیمے دھیمے سروں میں کوئی گیت گنگناتا اور یُوں اپنی خوشی کا اظہارکرتا وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا اور کہتا ہے:

’’ابھی چھٹی نہیں ملے گی میری جان تیری مالکن یہ جھُمکے پہن کر کیا باغ کی سیر کو نہیں جائے گی۔ ‘‘

چرنجی جلدی جلدی گھر کا زینہ طے کرتا ہے اور زور سے آواز دیتا ہے۔ مُنی مُنی ایک چھوٹی سی لڑکی بھاگتی ہوئی اندر سے نکلتی ہے اور چرنجی کے ساتھ لپٹ جاتی ہے چرنجی جھمکے نکال کر اس کی کان کی لوؤں کے ساتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے‘‘

ماں کہاں ہے تیری۔ جواب کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کے سارے کمروں میں ہاتھ میں جھمکے لیے پھرتا ہے مُنی کی ماں۔ مُنی کی ماں کہتا۔ لڑکی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے۔

’’مُنی ماں کہاں ہے تیری۔ لڑکی جواب دیتی ہے۔ وہاں گئی ہے: لڑکی کا اشارہ سامنے بلڈنگ کی طرف تھا۔ چرنجی اُدھر دیکھتا ہے کھڑکی کے شیشوں میں سے ایک مرد اور ایک عورت کا سایہ نظر آتا ہے مرد عورت کے کانوں میں بُندے پہنا رہا ہے لمبے لمبے بُندے یہ منظر دیکھ کر چرنجی کے منہ سے دبی ہوئی چیخ سی نکلتی ہے وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی ننھی بچی کو اُٹھا کر سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ اس کی بچی اس خوفناک سائے کو دیکھے سینے کے ساتھ اس طرح اپنی بچی کو بھینچے وہ آہستہ آہستہ نیچے اُترتا ہے وہ جھمکے جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا اس کے ہاتھوں سے فرش پر گر پڑتے ہیں۔ نیچے طویلے میں آ کر وہ اپنی بچی کو جو کہ سخت پریشان ہو رہی ہے تانگے میں بٹھاتا ہے اور خود گھوڑے کی باگیں تھام کر تانگے کو باہر نکالتا ہے۔ چرنجی بالکل خاموش ہے جیسے اسے سانپ سُونگھ گیا ہے اُس کی ننھی بچی سہمے ہُوئے لہجے میں بار بار پوچھتی ہے

’’ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پِتا جی۔ ماتا جی کے جھمکے کہاں ہیں پتا جی۔ ؟ چرنجی کی بیوی اپنے گھر واپس آگئی ہے اور ایک آئینہ سامنے رکھے اپنے جھمکوں کو پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے اور گارہی ہے۔ آئینہ دیکھتے دیکھتے وہ اپنی بچی کو آواز دیتی ہے مُنی ادھر آ تجھے ایک چیز دکھاؤں۔ کوئی جواب نہیں ملتا کہاں چلی گئی تو۔ یہ کہہ کر وہ اُٹھتی ہے اور اِدھر اُدھر اُسے ڈھونڈتی ہے جب وہ نہیں ملتی تو باہر نکلتی ہے سیڑھیوں کے اختتامی سرے پر جو چبوترہ سا بنا ہے اس پر کھلے ہوئے کاغذ میں دو جھمکے دکھائی دیتے ہیں چرنجی کی بیوی ان کو اُٹھاتی ہے ایک دم اسے خوفناک حقیقت کا احساس ہوتا ہے۔ اِن جھمکوں کو مٹھی میں بھینچ کر وہ چیختی ہے۔ اسے معلوم ہو گیا ہے سب کچھ معلوم ہو گیا ہے دیوانوں کی طرح دوڑی دوڑی اندر جاتی ہے سب کمروں میں پاگلوں کی طرح چکراتی ہے اور مُنی کو آوازیں دیتی ہے جب اس کے دماغ کا طوفان کچھ کم ہوتا ہے تو وہ وہیں بیٹھ جاتی ہے جہاں پہلے بیٹھی تھی۔ سامنے اس کے سامنے آئینہ پڑا ہے اس میں وہ غیر ارادی طور پر اپنی شکل دیکھتی ہے۔ پرنجی کی بیوی جب اپنی شکل اس زاویے میں دیکھتی ہے تو اس سے متنفر ہو کر آئینہ اُٹھاتی ہے اور زمین پر پٹک دیتی ہے آئینہ چکنا چور ہوجاتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی باہر نکلتی ہے۔ ۔ سامنے والی بلڈنگ کا ایک کمرہ۔ یہ کمرہ پُرتکلف طریقے سے سجا ہوا ہے ایک لڑکی اور ایک لڑکا جس کی عُمر میں تقریباً دو برس کا فرق ہے لڑکی چھ برس کی اور لڑکا آٹھ برس کا ہے دونوں اپنے باپ کے پاس بیٹھے ہیں اور اس سے کھیل رہے ہیں اتنے میں دروازے پر ہولے ہولے دستک ہوتی ہے پہلی بار جب دستک ہوتی ہے تو بچوں کا باپ نہیں سنتا۔ جب دوسری بار پھر ہوتی ہے تو وہ چونکتا ہے بچوں کی طرف دیکھتا ہے پھر ان کی آیا کی طرف اور کہتا ہے ان کو باہر لے جاؤ۔ کوئی میرا ملنے والا آیا ہےٗ جلدی جلدی بچوں کو نکال کر دروازہ بند کرتا ہے دوسرے دروازے کی طرف بڑھتا ہے جب دروازہ کھلتا ہے تو چرنجی کی بیوی اندر داخل ہوتی ہے اس کو دیکھ کر بچوں کے باپ کو سخت حیرت ہوتی ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے

’’تم تو کہہ رہی تھیں مجھے جلدی گھر جانا ہے اب واپس کیسے آگئیں۔ چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی۔ ساکت جامد کھڑی رہتی ہے اُس کو خاموش دیکھ کر وہ پھر اُس سے پوچھتا ہے‘‘

وہ ابھی تک واپس نہیں آیا۔ ‘‘

چرنجی کی بیوی کچھ جواب نہیں دیتی وہ پھر اس سے سوال کرتا ہے۔ تم خاموش کیوں ہو۔ جُھمکے پسند نہیں آئے۔ چرنجی کی بیوی کے ہونٹ کھلتے ہیں۔ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہے کیوں نہیں آئے۔ بہت پسند آئے۔ کیا اور لا دو گے مجھے۔ ؟ بچوں کا باپ مسکراتا ہے جتنے کہو ٗ بس یہی بات تھی۔

’’بڑے تلخ لہجے میں چرنجی کی بیوی کہتی ہے بس یہی بات تھی لیکن مجھے صرف جھُمکے ہی نہیں چاہئیں ناک کے لیے کیل۔ ہاتھوں کے لیے کنگنیاں کڑے گلے کے لیے ہار ٗ ماتھے کے لیے جھومر پاؤں کے لیے پازیب مجھے اتنے زیور چاہئیں کہ میرا پاپ ان کے بوجھ تلے دب جائے اپنی عصمت کا زیور تو اُتار چکی ہُوں اب یہ گہنے نہ پہنوں گی تو لوگ کیا کہیں گے۔ بچوں کا باپ یہ گفتگو سن کر سخت متحیر ہوتا ہے اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا وہ چرنجی کی بیوی سے کہتا ہے۔ یہ تو کیا بہکی بہکی باتیں کررہی ہے۔ چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔ بہکی پہلے تھے اب تو ہوش کی باتیں کر رہی ہوں سنو۔ میں تمہارے پاس اس لیے آئی ہوں کہ وہ چلا گیا ہے میری بچی کو بھی ساتھ لے گیا ہے اُسے سب کچھ معلوم ہو چکا ہے اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا جس طرح میری لٹی ہوئی آبرو واپس نہیں آئے گی۔ بولو مجھے پناہ دیتے ہو۔ میں تمھیں اس پاپ کا واسطہ دے کر اِلتجا کرتی ہوں کہ جو تم نے اور میں نے مل کر لیا ہے کہ مجھے پناہ دو۔ بچوں کا باپ چرنجی کی بیوی کی سب التجائیں سنتا ہے مگر وہ کیسے اس عورت کو پناہ دے سکتا ہے جس نے اپنے آپ کو جھُمکے کے بدلے بیچا۔ ایک سودا تھا جو ختم ہو گیا چرنجی کی بیوی کو یہ سُن کر بہت صدمہ ہوتا ہے ناکام اور مایوس ہو کر وہ چلی جاتی ہے۔ چرنجی اب ایک نئے گھر میں ہے رات کا وقت ہے۔ وہ اپنی بچی مُنی کو سُلانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ سوتی نہیں بار بار اپنی ماں کے بارے میں پوچھتی ہے چرنجی اس کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے مگر بچی کی معصوم باتیں اُسے پریشان کر دیتی ہیں آخر میں گھبرا کر اُس کے منہ سے یہ نکلتا ہے

’’مُنی تمہاری ماتا جی مر گئی ہیں راستہ بھول کر وہ ایسی جگہ چلی گئی ہیں جہاں سے واپس آنا بڑا مشکل ہوتا ہے دروازہ کھلتا ہے۔ چرنجی فوراً منی کا چہرہ کمبل سے ڈھانپ دیتا ہے چرنجی کی بیوی داخل ہوتی ہے چرنجی اُٹھتا ہے اور اسے باہر دھکیل کر اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیتا ہے

’’چلی جاؤ یہاں سے۔ ‘‘

وہ اُس سے کہتا ہے چرنجی کی بیوی جواب دیتی ہے۔

’’چلی جاتی ہوں میری بچی مجھے دیدو‘‘

چرنجی غصے اور نفرت بھرے لہجے میں اُس سے کہتا ہے وہ عورت جو مرد کی بیوی نہیں بن سکتی اولاد کی ماں کیسے ہوسکتی ہے اپنے پاپ بھرے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہو کیا تمھیں منی کی ماں کہلانے کا حق حاصل ہے کیا اس دن کے بعد جب تم نے یہ جھمکے لے کر ایک غیر مرد تو ہاتھ لگانے دیا تم اپنی اولاد کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر سکتی ہو کیا تمہاری مامتا اُس دن جل کر راکھ نہیں ہو گئی تھی جب تمہارے قدم ڈگمگائے تھے اپنی بچی لینے آئی ہو وہ جھمکے پہن کر جنہوں نے تمہاری زندگی کے سب سے قیمتی زیور کو اُتار کر گندی موری میں پھینک دیا ہے۔ میں یہ پوچھتا ہوں جب یہ جھمکے ہلتے ہیں تو تمہارے کانوں میں یہ آواز نہیں آتی کہ نہ تم ماں رہی ہو نہ بیوی۔ جاؤ تمہاری مانگ سیندور سے اور تمہاری گود اولاد سے ہمیشہ خالی رہے گی۔ جن قدموں سے آئی ہو انہی قدموں سے واپس چلی جاؤ۔ چرنجی اپنی بیوی کی التجاؤں کو ٹھکرا دیتا ہے تو وہ چلی جاتی ہے افسردہ اور خاموش۔ ۔ تانگے کا پہیہ گھوم رہا ہے یہ بتانے کے لیے کہ وقت گزر رہا ہے اور کئی سال بیت رہے ہیں تانگے کا پہیہ مڑتا ہے اور بڑے دروازے میں داخل ہوتا ہے یہ دروازہ گورنمنٹ کالج کا ہے جس میں کئی لڑکے اور لڑکیاں گزر رہی ہیں تانگہ کالج کے کمپاؤنڈ میں ٹھہرتا ہے چرنجی اب کافی بڈھا ہو چکا ہے۔ تقریباً آدھے بال سفید ہیں۔ اس کی ننھی بچی اب جوان ہے تانگے کی پچھلی نشست پر سے جب اُٹھتی ہے تو چرنجی اس کو بہت نصیحتیں کرتا ہے۔ بڑے صاحب کو ہاتھ جوڑ کر نمستے کہنا جو سوال پوچھیں ان کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔ وغیرہ وغیرہ لڑکی اپنے باپ کی ان باتوں سے پریشان ہو جاتی ہے اور اچھا اچھا کہتی وہاں سے چلتی ہے لیکن فوراً ہی چرنجی اس کو روکتا ہے اور جیب سے برفی نکال کر اس کو دیتا ہے اور کہتا ہے۔ پہلا دن ہے منہ میٹھا کر لو زبردستی وہ اپنی لڑکی کے ہاتھ میں برفی رکھ دیتا ہے۔ ۔ سامنے کالج کے برآمدے میں دو تین لڑکے کھڑے ہیں جو آنے جانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو گھور رہے ہیں جب کرشنا کماری (چرنجی کی بیٹی) برآمدے کی طرف آتی ہے تو ایک لڑکا جس کا نام جگدیش ہے اپنے ساتھی کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھونکا دیتاہے اور کہتا ہے۔

’’لو بھئی ایک فرسٹ کلاس چیز آئی ہے۔ طبیعت صاف ہو جائے گی تمہاری۔ یہ کہہ کر جب وہ کرشنا کماری کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اُس کے دوست سب اُدھر متوجہ ہوتے ہیں مگر انھیں بجائے ایک دیہاتی لڑکا نظر آتا ہے جو بڑا انہماک سے اپنے فارم کا مطالعہ کرتا ہوا ان کی طرف چلا آرہا ہے سب لڑکے اس دیہاتی کو دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں۔ بھئی کیا چیز ہے طبیعت واقعی صاف ہو گئی۔ کرشنا کماری اس دوران میں ایک طرف ہو گئی تھی۔ یہ دیہاتی لڑکا جس کا نام کرشن کمار ہے کا لج کے اِن پرانے شریر طالبعلموں کی طرف بڑھتا ہے جگدیش سے وہ بڑے سادہ لہجے میں پوچھتا ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مجھے کہاں جانا ہے جگدیش ذرا پیچھے ہٹ کر اسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے چڑیا گھر۔ ‘‘

کرشن کمار اسی طرح سادہ لوحی سے جواب دیتا ہے جی نہیں چڑیا گھر میں کل جاؤں گا میں یہاں داخل ہونے آیا ہوں۔ سب لڑکے بے چارے کرشن کمار کا مذاق اُڑاتے ہیں اُسے چھیڑتے ہیں اتنے میں ایک لڑکی کرشنا کماری کو ساتھ لیے ان لڑکوں کے پاس آتی ہے اور ان میں سے ایک لڑکے کو جس کا نام ستیش ہے مخاطب کر کے کہتی ہے ستیش میرا پیریڈ خالی نہیں تم انھیں بتا دو کہ کہاں داخلہ ہو رہا ہے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دے کر وہ تیز قدمی سے چلی جاتی ہے ستیش فارم دیکھتا ہے اور کہتا ہے آپ کا نام کرشنا کماری ہے۔ کرشن کمار بول اُٹھتا ہے جی نہیں میرا نام کرشن کمار ہے سب ہنستے ہیں ستیش کرشن کمار کا فارم بھی لے لیتا ہے اور دونوں سے کہتا ہے آئیے کمار اور کماری صاحبہ میں آپ کو راستہ بتا دوں سب چلتے ہیں۔ اس کمرے کے باہر جہاں داخلہ ہو رہا ہے ستیش ٹھہر جاتا ہے اور ایک فارم کرشن کمار اور دوسرا کرشنا کو دے کر کہتا ہے۔

’’اندر چلے جائیں۔ ‘‘

کرشن کماری اور کرشنا کمار دونوں اندر داخل ہوتے ہیں کرشن کمار ایک میز کی طرف بڑھتا ہے کرشن کماری دوسرے میز کی طرف اِدھر کرشنا کماری کا انٹرویو شروع ہوتا ہے اُدھر کرشن کمار کا۔ کرشن کماری کا نام پڑھ کر پروفیسر کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتے ہیں۔ کشتی لڑتے ہیں، گولہ پھینکتے ہیں۔ ادھر دوسرا پروفیسر کرشن کمار سے کہتا ہے

’’آپ کو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائی کے کام کا شوق ہے کرشن کمار اور کرشنا حیران رہ جاتے ہیں کرشن کماری پروفیسر سے کہتی ہے جی نہیں مجھے تو کشیدہ کاری کروشیئے اور سلائیوں کا شوق ہے اُدھر کرشن کمار پریشان ہو کر پروفیسر سے کہتا ہے جی نہیں مجھے تو کبڈی کھیلنے گولہ پھینکنے اور کشتی لڑنے کا شوق ہے دونوں کے فارم تبدیل ہو گئے تھے ہال میں قہقہے بلند ہوتے ہیں ہال کی کھڑکیوں کے باہر جگدیش اور ستیش اور ان کی پارٹی کھڑی یہ سب تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ ۔ بازار میں تانگہ کھڑا ہے چرنجی اس کو صاف کر رہا ہے اتنے میں ایک پٹھان آتا ہے اور چرنجی سے ان دو سو روپوں کا تقاضہ شروع کر دیتا ہے جو اُس نے قرض لے رکھے ہیں پٹھان روز روز کے وعدوں سے تنگ آیا ہوا ہے چنانچہ وہ چرنجی سے بڑے دُرشت لہجے میں باتیں کرتا ہے چرنجی پٹھان سے معافی مانگتا ہے اور کہتا کہ وہ بہت جلد اس کا قرضہ ادا کر دے گا پٹھان چرنجی سے کہتا ہے کہ وہ تانگہ گھوڑا بیچ کر قرض ادا کر دے گا اس سے چرنجی کو صدمہ ہوتا ہے تانگہ گھوڑا وہ کبھی بیچنے کے لیے تیار نہیں اس لیے کہ وہ اسے بہت عزیز ہے اتنے میں کرشنا کماری کی آواز آتی ہے

’’پتا جی‘‘

میری کتابیں آپ ساتھ لے گئے ہیں نا۔ چرنجی اپنی لڑکی جواب دیتا ہے۔ ہاں بیٹی لے آیا ہوں اپنے ساتھ۔ یہ کہہ کر وہ پٹھان کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتا ہے اور کہتا ہے خان میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے میری لڑکی کے سامنے اپنے روپوں کا تقاضہ نہ کرنا۔ خان کا دل کچھ پسیجتا ہے چنانچہ جب کرشن کماری آتی ہے اور تانگے میں بیٹھتی ہے تو چرنجی سے کچھ نہیں کہتا ٗ خان کو سلام کر کے چرنجی تانگہ چلاتا ہے۔ ۔ دیہاتی لڑکے کرشن کمار کا مذاق اُڑایا جارہا ہے، جگدیش نے اس کے پرانی وضح کے کوٹ کے ساتھ فرسٹ ائیر فول کی چٹ لگا رکھی ہے جدھر سے وہ بے چارہ گزرتا ہے لڑکے اُس کی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں کرشن کمار جب سب کو ہنستے دیکھتا ہے تو خود بھی ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ اس دوران میں چرنجی کا تانگہ اور ایک موٹر آتی ہے اس میں سے ستیش اور اس کی بہن آ نکلتی ہے یہ وہ لڑکی ہے جس نے کرشنا کماری کا فارم ستیش کو دیا تھا ٗ کرشن کماری جب ستیش کی بہن نرملا کو دیکھتی ہے تو اُن کو نمستے کرتی ہے نرملا نمستے کا جواب دیتی ہے اور اپنے بھائی کا تعارف کراتے ہوئے کہتی ہے یہ میرے بھائی ستیش ہیں مگر آپ کی ایک بار پہلے ملاقات ہو چکی ہے ستیش کرشنا کماری کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے اور کہتا ہے آپ کبڈی کھیلتی ہیں، کشتی لڑتی ہیں اور گولہ پھینکتی ہیں، کرشنا کماری اس روزکا واقعہ یاد کر کے شرما جاتی ہے مگر ساتھ ہی ہنس پڑتی ہے تینوں کالج کی طرف بڑھتے ہیں کچھ دُور جاتے ہیں تو ایک شور سُنائی دیتا ہے۔ جُگدیش اور اُس کے ساتھیوں نے کرشن کمار کو کیچڑ بھرے گڑھے میں دھکا دیکر گرا دیا تھا کیچڑ میں بے چارہ لت پت ہے لڑکے چھیڑ رہے ہیں جگدیش آگے بڑھ کر جب اُسے اُٹھانے لگتا ہے تو اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے کرشن کمار سے اب برداشت نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کوٹ اسے بے حد عزیز ہے یہ اُس کے مرحوم باپ کا تھا جو اُس کی ماں نے سنبھال کر اُس کے لیے رکھا ہوا تھا جب اُس کا کوٹ پھٹ جاتا ہے تو وہ دیوانوں کی طرح اُٹھتا ہے اور جُگدیشن کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے کالج میں جُگدیشن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ بہت لڑاکا ہے کوئی اس کے مقابل میں نہیں ٹھہر سکتا مگر جب کرشن کمار اسے بری طرح لتاڑتا ہے تو سب لڑکے حیران رہ جاتے ہیں اور جُگدیش اور کرشن کمار دونوں کشتی لڑتے لڑتے ستیش کرشنا کماری اور نرملا کے پاس آ جاتے ہیں تو زبردست گھونسہ مار کر جب کرشن کمار جُگدیش کو گراتا ہے تو بے اختیار کرشنا کماری کے منہ سے نکلتا ہے

’’یہ کیا وحشیانہ پن ہے‘‘

کرشن کمار یہ آواز سنتا ہے اور اپنا ہاتھ روک لیتا ہے ستیش جُگدیشن کو اُٹھا کر ایک طرف لے جاتا ہے اتنے میں گھنٹی بجتی ہے سب لوگ چلے جاتے ہیں صرف کرشن کمار۔ کرشنا کماری اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں چند لمحات خاموش کھڑے رہتے ہیں آخر میں کرشن کمار ندامت بھرے لہجے میں کرشنا کماری سے کہتا ہے

’’مجھے معاف کر دو۔ آئندہ مجھ سے کبھی ایسی وحشیانہ حرکت نہیں ہو گی کرشنا کماری اس کی سادگی سے بہت متاثر ہوتی ہے جب وہ اس سے کہتا ہے میں کسی سے کچھ نہیں کہتا ٗ لیکن یہ لڑکے میری طرف دیکھ دیکھ کر کیوں ہنستے ہیں۔ کیوں چھیڑتے ہیں کیوں تنگ کرتے ہیں۔ مجھے کیچڑ میں لت پت کر دیا ہے۔ یہ میرا کوٹ پھاڑ دیا ہے۔ جو میرے باپ کا ہے۔ کرشنا کماری اُس سے ہمدردی کرتی ہے اور اُسے بتاتی ہے کہ لڑکے اس کو صرف اس لیے چھیڑتے ہیں کہ اس کا لباس پرانی وضح کا ہے۔ اگر وہ اس طرح کا لباس پہننا شروع کر دے جیسا کہ دوسرے پہنتے ہیں تو اسے کوئی نہیں ستائے گا۔ کرشنا کماری کی باتیں کرشن کمار کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں جُگدیش اور اُس کے ساتھی جھاڑیوں کے پیچھے سے ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ لیتے ہیں۔ ۔ ہوسٹل۔ کرشن کمار اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا ہے اور سُوٹ کا معائنہ کررہا ہے اس دوران میں وہ ایک گانا گاتا ہے بڑے جذبات بھرے انداز میں، اُس کے گانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے۔ ساتھ والے کمرے میں جُگدیش ڈنٹر پیل رہا ہے اور ڈسیل پھیر رہا ہے جب اُسے گانے کی آواز آتی ہے تو وہ بہت حیران ہوتا ہے۔ دروازہ کھول کر وہ باہر نکلتا ہے اور یہ معلوم کرتا ہے کہ ساتھ والے کمرے میں کوئی گا رہا ہے باہر نکلتا ہے اور کمرے کے دروازے پر دستک دیتا ہے اندر سے آواز آتی ہے آ جاؤ۔

’’جُگدیش دروازہ کھول کر اندر داخل ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ کرشن کمار نیا سوٹ پہنے کھڑا ہے جب دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں تو کرشن کمار کہتا ہے۔ آپ لڑنے آئے ہیں تو مہربانی کر کے یہاں سے چلے جائیے کیونکہ میں اب کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھاؤں گا۔ جُگدیش مسکراتا ہے اور اپنے تیل لگے بدن کی طرف دیکھتا ہے۔ نہیں نہیں میں لڑنے نہیں آیا صلح کرنے آیا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ بڑھاتا ہے جسے کرشن کمار قبول کر لیتا ہے اس کے بعد جگدیش اس کے گانے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے دوست ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دل کو لگی ہے آواز میں بہت درد ایسے ہی پیدا نہیں ہوا ضرور کسی کی ترچھی نظر نے تمھیں گھائل کیا ہے۔ کرشن کمار بہت سادہ لوح ہے فوراً ہی اپنے دل کا راز جگدیش کو بتا دیتا ہے

’’اب تم نے دوست کہا ہے تو تم سے پردہ۔ اُس لڑکی کرشنا کماری نے ایسی پیاری پیاری باتیں کی ہیں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میرے دل کو کیا ہو گیا ہے بڑی شریف اور بڑی ہمدرد لڑکی ہے اُس نے مجھے بتایا کہ تم لوگ مجھے کیوں چھیڑتے ہو اب دیکھ لو اُس کے کہنے پر میں نے تین سُوٹ بنوا لیے ہیں۔ جُگدیش اس کا ہمراز بن جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے تمھیں عشق ہو گیا ہے سمجھے یعنی تمہارا دل جو ہے نا وہ اس لڑکی پر آگیا ہے اب تمھیں یہ چاہئیے کہ تم اس لڑکی پر اپنے عشق کا اظہار کر دو اگر تم نے اپنی محبت کو اپنے پہلو میں دبائے رکھا تو اسے زنگ لگ جائے گا اور دیکھو عورت کو اپنی طرف مائل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ تم اُسے کوئی تحفہ دو انگوٹھی بُندے جھمکے کچھ بھی۔ سادہ لوح کرشن کمار جگدیش کی یہ سب باتیں اپنے پلے باندھ لیتا ہے۔ ۔ کالج کے باغیچے میں کرشنا کماری ایک بنچ پر بیٹھی ہے کرشن کمار آہستہ آہستہ اُس کے پاس جاتا ہے جس طرح جگدیش نے کہا تھا اس طرح وہ اس پر اپنے عشق کا اظہار کرتا ہے بڑے خام انداز میں۔ اس کے بعد وہ اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالتا ہے اور کرشنا کماری کو سونے کے جھمکے تحفے کے طور پر پیش کرتا ہے کرشنا کماری یہ ڈبیا غصے میں آ کر ایک طرف پھینک دیتی ہے۔ کرشن کمار کو صدمہ پہنچتا ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے چونکہ وہ بے حد سادہ لوح ہے اس لیے وہ ساری بات کرشنا کو بتا دیتا ہے مجھے جُگدیش نے کہا تھا کہ دل میں کوئی بات نہیں رکھنی چاہیے، مجھے کئی راتوں سے نیند نہیں آئی میں ہر وقت تمہارے متعلق سوچتا رہتا ہوں۔ تم نے کیوں مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا اگر میرے دل میں تمہارے لیے محبت پیدا ہوئی ہے تو یہ تمہار اقصور ہے میرا نہیں۔ یہ جھمکے تو میں نے تمھیں دینے ہیں ان سے میری محبت ظاہر نہیں ہوتی یہ تو مجھ سے جُگدیش نے کہا تھا کہ ایسے موقوں پر تحفہ ضرور دینا چاہیے میں تو اپنی ساری زندگی تمھیں تحفے کے طور پر دینے کے لیے تیار ہوں۔ جب کرشنا کماری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جگدیش نے اسے بیوقوف بنانے کی کوشش کی تھی اور وہ کرشن کمار کی صاف گوئی سے متاثر ہوتی ہے تو وہ جھمکوں کی ڈبیا اُٹھا لیتی ہے اور اپنے پاس رکھ لیتی ہے اور اس سے کہتی ہے مجھے تمہارا یہ تحفہ قبول ہے۔

’’کرشن کمار بہت خوش ہوتا ہے جھمکے لے کر کرشن کماری کچھ اور کہے سُنے بغیر چلی جاتی ہے کرشن کمار چند لمحات خاموش کھڑا رہتا ہے اتنے میں جُگدیش اور ستیش دونوں جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلتے ہیں اور کرشن کمار کو مبارکباد دیتے ہیں کرشن کمار بہت جھینپتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ جُگدیش سے کہتا ہے۔ مگر یار تم نے تو کہا تھا کہ میں یہ بات کسی کو نہیں بتلاؤں گا۔ ستیش کی طرف دیکھ کر وہ پھر کہتا ہے ان کو بھی پتہ لگ گیا ہے جُگدیش کرشن کمار کو تسلی دیتا ہے کہ ستیش اپنا آدمی ہے وہ کسی سے کچھ نہیں کہے گا چنانچہ ستیش بھی کرشن کمار کو ہر ممکن تسلی دیتا ہے کہ وہ اس کے عشق کا راز کسی کو نہیں بتائے گا۔ طویلے میں چرنجی ساز پالش کررہا ہے۔ تانگے کی پیتل کی چیزیں پالش کررہا ہے گھوڑے کو مالش کررہا ہے جب مالش کرتا ہے تو اُس سے پیار و محبت کی باتیں کرتا ہے۔ دوست تم نے میری بہت خدمت کی ہے اگر تم نہ ہوتے تو جانے زندگی کتنی کٹھن ہو جاتی تم نے اور میں نے دونوں نے مل کر مُنی کو پڑھایا ہے اتنے میں اس کے دو تین دوست جو تانگے والے ہیں، آتے ہیں ان میں ایک چرنجی سے کہتا ہے یہ تم گھوڑے سے کیا باتیں کر رہے ہو جیسے یہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ چرنجی گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے اور کہتا ہے انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی۔ انھیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔ غلام محمد تیری جان کی قسم سچ کہتا ہوں اس جانور نے میری بڑی خدمت کی ہے تانگے میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے جوتے رکھا ہے غریب۔ اتنے میں پٹھان آتا ہے چرنجی اس کو سلام کرتا ہے اور اپنے تہمند کے ڈب سے نوٹ نکالتا ہے اور کہتا ہے۔

’’خان صاحب یہ رہے آپ کے سو روپے کھر ے کر لیجیے۔ باقی رہے سو ا س کا بھی بندوبست ہو جائے گا۔ یہ میرا گھوڑا سلامت رہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بڑے فخر سے اپنے گھوڑے کی طرف دیکھتا ہے پٹھان نوٹ لے کر چلا جاتا ہے اتنے میں ایک تانگے والا چرن جی سے کہتا ہے تم لڑکی کو پڑھانا شروع کر کے خواہ مخواہ ایک جنجال میں پھنس گئے ہو۔ کوئی نہ کوئی قرض خواہ تمہارے پیچھے لگا ہی رہتا ہے۔ چرنجی ہنستا ہے سب سے بڑی قرض خواہ میری بیٹی ہے اس کا قرض ادا ہو جائے تو ایسے لاکھ قرض لینے والے میرے پیچھے پھرتے ہیں مجھے کوئی پروانہ نہیں تم میں سے کوئی افیم کا نشہ کرتا ہے کوئی شراب کا مجھے بھی ایک نشہ ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ میری لڑکی دولت مند آدمیوں کی لڑکیوں کی طرح پڑھ رہی ہے تو میرا دل و دماغ ایک عجیب نشے سے جھومنے لگتا ہے عورت کو ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہیے میرے بھائی اس کے قدم مضبوط ہو جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے اور خوش خوش باہر نکلتا ہے تاکہ گھر جائے۔ اندر آئینہ سامنے رکھے کرشنا کماری اپنے کانوں میں کرشن کمار کے دئیے ہوئے جھمکے پہنے بیٹھی ہے اور انھیں پسندیدہ نظروں سے دیکھ رہی ہے گیت گا رہی ہے اور جیسے بے خود سی ہو رہی ہے جھمکے اسے بہت پسند آئے ہیں اس پسندیدگی کا اظہار اُس کی ہر حرکت سے معلوم ہوتا ہے۔ ۔ چرنجی آتا ہے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی وہ گانے کی آواز سنتا ہے۔ ۔ کرشنا کماری بدستور گانے میں مشغول ہے۔ دفعتاً پاگلوں کی طرح چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشن کماری ایک دم گانا بند کر کے دونوں ہاتھوں سے اپنے کانوں کو ڈھانپ لیتی ہے چرنجی آگے بڑھتا ہے زور سے کرشنا کماری کے دونوں ہاتھ نیچے جھٹک دیتا ہے۔ قریب ہے کہ جھمکوں کو اس کے کانوں سے نوچ لے۔ کرشن کماری خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹتی ہے چرنجی پاگلوں کی طرح اُس کی طرف بڑھتا ہے اور چلانا شروع کر دیتا ہے کہاں سے لیے ہیں تو نے جھمکے۔ کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے۔

’’وہ اس قدر زور سے چلاتا ہے کہ ایک دم اسے چکر آ جاتا ہے۔ جذبات سے اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا جاتا ہے اس کی بلند آواز بالکل دھیمی ہو جاتی ہے کہاں سے لیے ہیں یہ جھمکے۔ سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر وہ چارپائی پر بیٹھ جاتا ہے اس کی لڑکی فوراً پنکھا لے کر جھلنا شروع کر دیتی ہے۔ چند لمحات کی خاموشی کے بعد وہ ایک گلاس پانی مانگتا ہے۔ کرشن کماری اس کو پانی پلاتی ہے پانی پینے کے بعد وہ کرشنا کماری سے پھر پوچھتا ہے منی یہ جھمکے تو نے کہاں سے لیے ہیں کرشنا کماری تھوڑے سے توقف کے بعد ذرا حکمت سے جھوٹ بولتے ہوئے جواب دیتی ہے

’’کالج کی ایک سہیلی نے دئیے ہیں۔ چرنجی اپنی لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور کہتا ہے اپنی سہیلی کو واپس دے آؤ۔ لڑکی پوچھتی ہے کیوں پتا جی چرنجی جواب دیتا ہے۔ تمہاری ماں کو یہ زیور پسند نہیں تھا یہ کہہ کر وہ اُٹھتا ہے اور بیماروں کی طرح قدم اُٹھاتا باہر چلا جاتا ہے اُس کی لڑکی اُس سے پوچھتی ہے۔

’’کھانا نہیں کھائیں گے آپ؟‘‘

چرنجی جواب دیتا ہے۔

’’نہیں۔ ‘‘

باہر نکل کر چرنجی گھوڑے کی باگیں تھامتا ہے۔ اور تانگہ چلاتا ہے اور (گھوڑے کو) مخاطب کر کے اُس سے کہتا ہے آج میری لڑکی نے پہلی بار جھوٹ بولا ہے اور افسردگی کے عالم میں وہ تانگے پر کئی بازاروں کے چکر لگاتا ہے حتیٰ کہ رات ہو جاتی ہے۔ ایک نیم روشن بازار میں سے اُس کا تانگہ گزر رہا ہے اچانک ایک عورت چند مردوں کی جھپٹ سے نکل کر تیزی سے چرنجی کے تانگے کی جانب بڑھتی ہے وہ لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے بھاگتی تانگے کی پچھلی نشست پر بیٹھ جاتی ہے یہ عورت شراب کے نشے میں چور ہے۔ زیورات سے لدی ہوئی ہے تانگے میں بیٹھتے ہی وہ چرنجی سے باتیں شروع کر دیتی ہے۔ ‘‘

مجھے چھیڑتے تھے اُلو کے پٹھے پر میں دام لیے بغیر کسی کو ہاتھ لگانے دیتی ہوں۔ کیوں تانگے والے تمہارا کیا خیال ہے۔ دنیا میں پیسہ ہی تو ہے تم کچھ بولتے نہیں۔ مجھے یاد آیا میرا پتی ایک تانگے والا ہی تھا پر اُس کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ مجھے نگوڑے جھمکے لا دیتا لیکن اب دیکھو میری طرف یہ کڑے ٗ یہ گُلوبند ٗ یہ انگوٹھیاں۔ ایک سے ایک بڑھ کر۔ یہ کہہ کر وہ درد بھرے انداز میں ہنستی ہے۔ عصمت کا گہنا اتر جائے تو یہ زیور پہننے ہی چاہئیں۔ چرنجی پہچان لیتا ہے کہ یہ عورت کون ہے اُس کی بیوی تھی جو اس حالت کو پہنچ چکی تھی۔ چرنجی کمبل سے اپنا چہرہ قریب قریب چھپا لیتا ہے اس پر طوائف اُس سے کہتی ہے تم کیوں اپنا چہرہ چھپاتے ہو چھپانا تو مجھے چاہیے یہ چہرہ جس پر کئی پھٹکاریں پڑی ہیں یہ کہہ کر وہ پھر ہنستی ہے تم خاموش کیوں ہو تانگہ روک دو میرا گھر آگیا ہے چرنجی تانگہ روک دیتا ہے طوائف پائیدان پر پاؤں رکھ کر اُترنے لگتی ہے کہ لڑکھڑا کر گرتی ہے اوندھے منہ چرنجی دوڑ کر اُسے اُٹھاتا ہے طوائف ہنستی ہے گرنے والوں کو اُٹھایا نہیں کرتے میری جان یہ کہہ کر جب وہ گھر کی طرف چلنے لگتی ہے تو لڑکھڑا کر پھر گرتی ہے۔ چرنجی اس کو تھام لیتا ہے اور اُس کو اُس کے گھر تک چھوڑ آتا ہے جب چلنے لگتا ہے تو طوائف اس کو کرایہ دیتی ہے چرنچی کرایہ لے لیتا ہے طوائف اس کا بازو پکڑ کر اندر گھسیٹتی ہے

’’آؤ میری جان آؤ۔ آج کی رات میرے مہمان رہو۔ میں تم سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گی۔ آؤ شراب کی پوری بوتل پڑی ہے اوپر۔ آؤ۔ ‘‘

چرنجی تانگے میں بیٹھ کر چلا جاتا ہے۔ طوائف ہنستی ہے اور کہتی ہے بیوقوف کہیں کا۔ مفت کی قاضی بھی نہیں چھوڑتا۔ ۔ چرنجی گھر پہنچتا ہے جب اندر داخل ہوتا ہے تو اُسے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے کمرے میں جا کر دیکھتا ہے کہ اس کی لڑکی بستر پر اوندھے منہ لیٹی ہے اور زار زار رو رہی ہے چرنجی اُس کے پاس جاتا ہے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے اور رونے کا سبب پوچھتا ہے اس کی لڑکی اور زیادہ رونا شروع کر دیتی ہے جب چرنجی دوبارہ اس سے رونے کا سبب پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے مجھے ماں یاد آرہی ہے اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو میں۔ میں۔ وہ اس کے آگے کچھ نہیں کہہ سکی اور باپ کے پاؤں پکڑ کر کہتی ہے مجھے معاف کر دیجیے پتا جی میں نے آج آپ سے جھوٹ بولا ہے۔ چرنجی کہتا ہے مجھے معلوم ہے۔ اس پر اس کی لڑکی کہتی ہے اگر آج میری ماتا جی ہوتیں تو میں نے یہ جھوٹ کبھی نہ بولا ہوتا بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو لڑکیاں صرف اپنی ماؤں کو ہی بتا سکتی ہیں۔ چرنجی اپنی لڑکی کو اُٹھاتا ہے اور اپنے پاس بٹھاتا ہے میں تمہاری ماں ہوں۔

’’بولو کیا بات ہے۔ شرماؤ نہیں۔ کرشنا کماری جھینپ جاتی ہے اور شرما کر کہتی ہے

’’یہ جھمکے مجھے کالج کے ایک لڑکے نے دئیے ہیں پتا جی۔ وہ بہت ہی اچھا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکل جاتی ہے سسکیاں لیتی ہوئی۔ چرنجی بستر پر پڑے ہوئے جھمکوں کو اُٹھاتا ہے اور اُن کی طرف دیکھتا ہے۔ ۔ چرنجی کا تانگہ کالج کے دروازے میں داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اپنی کتابیں لے کر نیچے اُترتی ہے چرنجی اپنی جیب سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتا ہے اور لڑکی کو دے کر کہتا ہے اسے آج واپس کر دینا

’’کرشنا کماری ڈبیا لے کر خاموشی سے چلی جاتی ہے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی وہ کالج کے باغیچے کی طرف بڑھتی ہے۔ باغیچے میں ایک بنچ پر کرشن کمار بیٹھا ہے اور ایک خط پڑھ رہا ہے کرشنا کماری کو دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس سے باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ماتا جی کا خط آیا ہے لو پڑھو۔ نہیں ٹھہرو۔ میں پڑھ کے سُناتا ہوں۔ پر تم ہنسنا نہیں، میری ماں بے چاری سیدھی سادی دیہاتی ہے میں نے ان کو تمہاری بات لکھی ہے میں اُن سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتا سُنو انھوں نے کیا لکھا ہے۔ بیٹا کمار۔ ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اس لڑکی کی بدنامی ہو اس کے ماں باپ سے ملو اور کہو جیسی وہ ان کی بیٹی ہے ویسے ہی تم ان کے بیٹے ہو میری طرف سے اُس کو آشیرواد دینا تم جُگ جُگ جیو۔ اور باقی احوال یہ ہے کہ میں نے خالص گھی کی اپنے ہاتھ سے یہ مٹھائی بنائی ہے جو تمھیں بھیج رہی ہوں اس میں آدھا حصہ تمہاری کرشنا کماری کا ہے۔ کہنا تمہاری ماتا جی نے بھیجا ہے۔ کرشنا کماری دم بخود یہ باتیں سنتی رہتی ہے کرشن کمار اس رو میں باتیں کرتا رہتا ہے اور کرشنا کماری کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ کچھ کہہ سکے۔ دیکھا میری ماں کتنی سیدھی سادھی ہے انھوں نے مٹھائی بھیجی ہے بالکل خراب تھی۔ پر میں ساری کی ساری کھا گیا ہوں۔ کیا کرتا اگر نہ کھاتا تو ناراض ہو جاتیں۔ میں بھی بالکل ان جیسا ہوں۔ اگر تم نے اس روز میرا تحفہ قبول نہ کیا ہوتا تو میرا دل ٹوٹ جاتا جانے میں کیا کر بیٹھتا۔ کرشنا کماری کچھ کہنا چاہتی ہے مگر اس کی آواز رندھ جاتی ہے جھمکے واپس دینا چاہتی ہے نہیں دے سکتی۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں ایک دم تیزی سے مڑتی ہے اور کرشن کمار کو وہیں چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ کرشنا کماری تیزی سے جارہی ہے کہ اس کی مڈ بھیڑ جُگدیش اور ستیش سے ہوتی ہے دونوں اُس کی طرف غور سے دیکھتے ہیں کیونکہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہیں کرشنا کماری چلی جاتی ہے جگدیش اور ستیش ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اُس طرف بڑھتے ہیں جدھر کرشن کمار بیٹھا ہے۔ ۔ جُگدیش اور ستیش دونوں کمار سے ملتے ہیں جُگدیش اُس سے کہتا ہے

’’کمار۔ تم نے یہ کیا غضب کر دیا بے چاری رو رہی تھی۔ بھئی یہ رومانس اچھا رہا مارا وارا تو نہیں تم نے۔ ‘‘

کرشن کمار سادہ لوحی کے ساتھ مسکراتا ہے اور کہتا ہے ایک خاص بات تھی جُگدیش نے اُس سے یہ خاص بات دریافت کی تو کرشن کمار کہتا ہے ایک خاص بات تھی۔ جگدیش پھر اُس سے یہ خاص بات دریافت کرتا ہے کرشن کمار کہتا ہے۔ بھئی سب باتیں تمھیں نہیں بتا سکتا۔ کہہ جو دیا ایک خاص بات تھی یہ کہہ کر وہ چلا جاتا ہے جگدیش اور ستیش دونوں اکیلے رہ جاتے ہیں دونوں بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں اور کرشنا کماری کے متعلق باتیں شروع کر دیتے ہیں جُگدیش کہتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ فلرٹ ہے اُس کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تانگے والے سے بات چیت کی جائے وہ اُس کے سارے بھید جانتا ہو گا باہر ہی باہر معاملہ طے ہو جائے گا اور یہاں کالج میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ ستیش کو یہ بات پسند آتی ہے چنانچہ طے ہوتا ہے کہ جگدیشن تانگے والے سے بات چیت کرے۔ چرنجی کالج کے باہر تانگہ لیے کھڑا ہے پاس ہی پان سگریٹ والے کی دُوکان ہے یہاں جُگدیش کھڑا ہے پان والے سے پان اور سگریٹ لیتا ہے اور چرنجی کی طرف بڑھتا ہے گھوڑے کو تھپکی دیتا ہے پھر اس کی تعریف کرتا ہے اس طرح وہ چرنجی سے آہستہ آہستہ گفتگو شروع کر دیتا ہے آخر میں وہ باتوں باتوں میں چرنجی سے کہتا ہے

’’استاد ہر عیش کرتے ہو ہر روز ایک پٹاخہ سی لونڈیا اس تانگے میں بٹھا کر لاتے ہو اور لے جاتے ہو۔ اچھا میں نے کہا۔ کچھ ہماری دال گل سکتی ہے اور اُستاد تم چاہو تو سب کچھ کرسکتے ہو تمہارے دائیں ہاتھ کا کام ہے ایسا ہی ایک تانگہ گھوڑا بن جائے گا۔ اگر ہمارا کام ہو جائے، چرنجی ہنستا رہتا ہے جگدیش کو اور شہہ ملتی ہے

’’اماں ہم سب جانتے ہیں کہ لونڈیا ایسی نہیں کہ ہاتھ نہ آسکے۔ کالج میں اس کا ایک لڑکے سے سلسلہ جاری ہے۔ چرنجی اب کچھ دلچسپی لیتا ہے اور جگدیش سے چند باتیں دریافت کرتا ہے جگدیش اسے بتاتا ہے کہ اس لڑکی کرشنا کماری پر کالج میں ایک لڑکا جو بہت بدمعاش ہے ڈورے ڈال رہا ہے اور اُس لڑکے سے وہ کانوں کے جھمکے بھی لے چکی ہے۔ یہ سب باتیں بتانے کے بعد جگدیش چرنچی سے کہتا ہے‘‘

دیکھو اگر اس کو زیوروں کا ہی شوق ہے تو ہم بڑھیا بڑھیا چیز دے سکتے ہیں تم یہ باتیں اپنے طور سے اس کے ساتھ کرنا سمجھے۔ اس قسم کی چند باتیں ہونے کے بعد طے ہوتا ہے کہ جگدیش شام کو کمپنی باغ کے پاس فلاں فلاں مقام پر چرنجی کا انتظار کرے جب لڑکی جھٹ مان جانے والی ہے تو چرنجی سارا معاملہ ٹھیک کر دے گا۔ ۔ اسی روز شام کو جُگدیش مقررہ جگہ پر پہنچ جاتا ہے کھمبے کے ساتھ کھڑا سگریٹ پی رہا ہے اتنے میں عین وقت پر چرنجی کا ٹانگہ سڑک پر نمودار ہوتا ہے چرنجی کھمبے کے پاس اپنا تانگہ روکتا ہے جگدیش بہت خوش ہو کر چرنجی سے کہتا ہے۔ ‘‘

بھئی بالکل انگریز ہو۔ ٹھیک وقت پر آئے ہو نہ ایک منٹ اُدھر نہ ایک منٹ ادھر۔ چرنجی مسکراتا ہے اور کہتا ہے، اب آپ وقت ضائع نہ کیجیے اور بیٹھ جائیے تانگے میں میں آپ کو سیدھا راستہ بتا دُوں جُگدیش خوش خوش تانگے میں بیٹھ جاتا ہے اور چرنجی کو ایک سگریٹ پیش کرتا ہے تانگہ چلتا ہے۔ جُگدیش چرنجی کے ساتھ لڑکی کی باتیں کرتا رہتا ہے تانگہ مختلف سڑکیں طے کرنے کے بعد ایک ویران سی جگہ پر پہنچتا ہے چرنجی باگیں کھینچ کر گھوڑا ٹھہرا تا ہے بڑے اطمینان سے اپنا کمبل اور پگڑی اتار کر اگلی نشست پر رکھتا ہے اور آستینیں چڑھا کر جگدیش سے کہتا ہے آئیے آپ کی لڑکی سے ملاقات کرا دوں

’’جُگدیش چرنجی کی طرف شک کی نظروں سے دیکھتا ہے مگر چرنجی اس کا بازو پکڑ تا ہے اور کھینچ کر جھاڑیوں کے پیچھے لے جاتا ہے چند لمحوں کے بعد جُگدیش کا ہیٹ سڑک پر آگرتا ہے۔ ۔ کالج کا ہوسٹل۔ جُگدیش کا کمرہ۔ باہر دروازے پر جُگدیش کا نام پیتل کے بورڈ پر لکھا ہوا ہے ستیش آتا ہے اور دروازے پر دستک دیتا ہے دروازہ کھلتا ہے ستیش اندر داخل ہوتا ہے کیا دیکھتا ہے کہ جُگدیش کا سر منہ سُوجا ہوا ہے اور کئی پٹیاں اس کے جسم پر بندھی ہیں۔ ستیش اس سے پوچھتا ہے یہ کیا ہو گیا ہے تمھیں۔ جُگدیش اسے کرسی پر بٹھاتا ہے اور سارا قصہ سُناتا ہے بھئی یہ تو برسوں کی ورزش کام آگئی ورنہ بندے کا تو کل کام تمام ہو گیا ہوتا۔ میں نے تانگے والے سے تمام معاملہ طے کر لیا چنانچہ وہ مجھے کمپنی باغ میں ملا لڑکی وہاں موجود تھی اُس سے باتیں بھی ہوئیں لیکن ستیش کے ہمراہ وہاں تین چار اور چاہنے والے آگئے۔ مجھے اُس کے ساتھ دیکھ کر جل ہی تو گئے اُن میں سے ایک نے مجھ پر کوئی ریمارکس کسا۔ لڑکی میرے ساتھ تھی میں نے دل میں کہا جُگدیش یہاں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ میں اُٹھا اور ایک ایسا گھونسہ اُس سالے کی ٹھوڑی کے نیچے جمایا کہ دن کو تارے ہی نظر آ گئے ہوں گے بچہ جی کو ٗ بس پھر کیا تھا۔ باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ چاروں مجھ پر پل پڑے مگر ستیش میں نے بھی وہ ہاتھ دکھائے کہ یاد ہی کرتے ہوں گے ایک ایک کو فرش کر کے رکھ دیا۔ کچھ چوٹیں مجھے بھی آگئیں ساتھ والے کمرے میں یہ سب باتیں کرشن کمار سنتا ہے کیونکہ دونوں کمروں کے درمیان لکڑی کا ایک پردہ ہے جو اوپر سے خالی ہے ستیش جُگدیش کی سب باتیں سُن کر کہتا ہے اور بھائی ایسے موقعوں پر کون کس کی مدد کرتا ہے تم کیا بچوں ایسی باتیں کرتے ہو اتنے میں جُگدیش کے کمرے کا دروازہ کھلتا ہے اور کرشن کمار غصے میں بھرا ہوا داخل ہوتا ہے جُگدیش سے کہتا ہے۔

’’تم نے جو کچھ کہا ہے جھوٹ ہے تم ایک شریف لڑکی پر بہتان باندھ رہے ہو جُگدیش سنتا ہے اور کہتا ہے

’’میرا کچومر نکل گیا ہے اور تم کہتے ہو بہتان باندھ رہا ہوں۔ یقین نہ ہو تو تانگے والے سے پوچھ لو جو مجھے لے گیا تھا غصے میں آکر چونکہ اُس کی محبوبہ کی عزت پر حملہ کیا گیا ہے کرشن کمار زور سے ایک چانٹا جُگدیش کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے بکواس مت کرو۔ لیکن فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے

’’مجھے معاف کر دو جُگدیش یہ چانٹا تمہارے منہ پر نہیں اس تانگے والے کے منہ پر مارنا چاہیے تھا جو اس کی زندگی تباہ کررہا ہے۔ یہ کہہ کر چلا جاتا ہے۔ ‘‘

کرشن کمار اپنے کمرے میں آتا ہے میز پر بیٹھتا ہے کاغذ لے کر خط لکھنا شروع کر دیتا ہے مگر چند سطریں لکھ کر کاغذ پھاڑ دیتا ہے کرسی پر سے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کمرے میں اضطراب کے ساتھ ادھر ادھر زور سے ٹہلتا ہے سامنے کھونٹی پر اپنا سُوٹ دیکھتا ہے اُسے اُتار کر اپنے پیروں میں روند دیتا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تو پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے پھر اٹھ کر کھڑا ہوتا ہے اور کھڑکی کے پاس جا کر درد بھری دھن میں کوئی گیت گاتا ہے چرنجی کھانا کھا رہا ہے پاس ہی اس کے اس کی لڑکی بیٹھی ہے چرنجی منہ میں نوالہ ڈالنے ہی والا تھا کہ اسے کوئی بات یاد آتی ہے چنانچہ وہ اپنی لڑکی سے پوچھتا ہے

’’مُنی تم نے جھمکے واپس کیے، کرشنا کماری جھوٹ نہیں بولتی‘‘

پتا جی میں اس کو واپس دینے گئی پر دے نہ سکی۔ چرنجی نوالہ وہیں تھال میں رکھ دیتا ہے اور پوچھتا ہے

’’کیوں؟ کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں وہ صرف اتنا کہہ سکتی ہے مجھے معلوم نہیں

’’چرنجی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کھانا کھائے بغیر باہر چلا جاتا ہے۔ ایک آدمی عینک لگائے ڈیسک کے ساتھ بیٹھا ہے چرنجی سے کہتا ہے یہاں انگوٹھا لگاؤ۔ چرنجی اپنا انگوٹھا آگے بڑھا دیتا ہے اس پر وہ آدمی سیاہی لگاتاہے اور پکڑ کر کاغذ پر جما دیتا ہے انگوٹھا لگانے کے بعد وہ ڈیسک سے نوٹ نکالتا ہے اور چرنجی کے حوالے کر دیتا ہے چرنجی نوٹ لے کر باہر نکلتا ہے۔ ۔ باہر ایک شیڈ کے نیچے اس کا ایک تانگہ گھوڑا کھڑا ہے چرنجی اپنے انگوٹھے کی سیاہی دیکھتا اس کی جانب بڑھتا ہے ایک ہاتھ میں اس نے نوٹ پکڑے ہوئے ہیں آہستہ آہستہ گھوڑے کے پاس جاتا ہے اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر گلو گیر آواز میں کہتا ہے

’’بیچ آیا ہوں تجھے دوست۔ یہ دیکھ اپنی قیمت‘‘

یہ کہہ کر وہ گھوڑے کے منہ کے آگے اپنا وہ ہاتھ پھیلا دیتا ہے جس میں نوٹ ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو ہیں لوگ اپنا ایمان بیچتے ہیں میں تجھے بیچ آیا ہوں تو جو کہ میرا سچا دوست تھا آواز چرنجی کے گلے میں رندھ جاتی ہے تو بول نہیں سکتا تو تیری زبان ہوتی تو میں تیرے منہ سے سُنے بغیر کبھی نہ جاتا کہ چرنجی تو جھوٹا ہے مطلبی ہے۔ دغا باز ہے جس طرح وقت پڑنے پر لوگ گلے کا کنٹھا اُنگلی کی انگوٹھی بیچ دیتے ہیں اس طرح تو نے مجھے بیچ دیا ہے لعنت ہے تجھ پر یہ کہہ کر وہ اپنا انگوٹھا دیکھتا ہے اور گھوڑے سے کہتا ہے یہ سیاہی دیکھی تم نے اس سودے کی مالک ہے مگر میں تیرے ساتھ کیوں باتیں کروں تو اب میرا نہیں مجھے تجھ پر کوئی حق نہیں رہا۔ آخری بار چرنجی منہ پر ے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دیتا ہے۔ رات کا وقت ہے چرنجی کمبل اوڑھے پیدل چلا آرہا ہے راستے میں ایک تانگے والا تانگہ ٹھہرا کر اس سے پوچھتا ہے

’’آج تانگہ گھوڑا نہیں جوتا چرنجی۔ چرنجی جواب دیتا ہے آج نہیں جوتا۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ یہ کہہ کر وہ چلنا شروع کر دیتا ہے۔ گھر میں چرنجی کی لڑکی کرشنا کماری لالٹین جلائے انتظار کررہی ہے۔ کبھی اُٹھتی ہے کبھی بیٹھتی ہے اسے کسی پہلو چین نہیں اتنے میں دروازہ پر دستک ہوتی ہے وہ اُٹھ کر دروازہ کھولتی ہے چرنجی اندر داخل ہوتا ہے کرشنا کماری اُس سے پوچھتی ہے پتا جی آج آپ اتنی دیر سے آئے ہیں کہاں چلے گئے تھے۔ چرنجی اپنے کمبل سے ایک پوٹلی نکالتا ہے اور اُسے کھول کر اپنی لڑکی کو دیتا ہے یہ زیور لانے گیا تھا تیرے لیے تجھے شوق جو ہے ان کا اب تو تیرا دل نہیں للچائے گا تو کہے گی تو میں ایسے اور زیور بھی لا دوں گا اپنا آپ بھی بیچ ڈالوں گا تیرے دل میں للچاہٹ پیدا نہ ہونے دُوں گا۔ کرشنا کماری کبھی زیوروں کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے باپ کی طرف۔ آخر میں کہتی ہے کوئی چیز بیچی ہے آپ نے یہ گہنے خریدنے کے لیے اگر آپ نے ایسا کیا ہے تو سخت غلطی کی ہے یہ کہتے ہوئے اُس کے ہاتھ سے زیور فرش پر گر پڑتے ہیں پتا جی میں نے کبھی ان چیزوں کو للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ مجھے ان چیزوں کا شوق ہے چرنجی اُس سے کہتا ہے تو نے وہ جھمکے واپس کیوں نہیں کیے۔ ‘‘

کرشنا کماری کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کاش میری ماں ہوتی اور میری بات سمجھ سکتیں کہ آپ سمجھتے ہیں کہ میں سونے چاندی کے لیے اپنا آپ بیچ دُوں گی آپ نے مجھے تعلیم دی ہے میرے قدم مضبوط کیے ہیں پتا جی میں آپ کی بیٹی ہُوں آپ نے میرا نہیں اپنا اپمان کیا ہے یہ کہہ کر وہ روتی روتی پاس پڑے ہوئے صندوقچے سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتی ہے اور اپنے باپ کو دے کر کہتی ہے

’’لیجیے یہ جھمکے جس نے مجھے دیے تھے اُس کو آپ ہی واپس دے آئیے اگر آپ کہیں گے تو میں اُس کی یاد کو بھی اپنے دل سے نکال کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گی یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ چرنجی فرش پر پڑے ہوئے زیوروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ ۔ کالج کا صدر دروازہ کرشن کمار خاموشی سے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اُس کی نظریں دروازہ پر جمی ہوئی ہیں جُگدیش اور ستیش آتے ہیں ستیش اس سے پوچھتا ہے بڑی دیر سے یہاں خاموش کھڑے ہوکیا بات ہے۔ کرشن کمار ایک عزم کے ساتھ جواب دیتا ہے اُس بدمعاش تانگے والے کا انتظار کررہا ہوں آج اُس کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ ساری عُمر یاد رکھے گا۔ جُگدیش کرشن کمار کو تانگے والے کے خلاف اور زیادہ مشتعل کرتا ہے دفعتاً سب کی نظریں دروازے کی طرف اُٹھتی ہیں تانگے والا چرنجی کرشنا کماری دونوں پیدل اندر داخل ہوتے ہیں جُگدیش یہ دیکھ کر کہتا ہے آج تانگہ کہاں گیا اور کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر چرنجی اپنی لڑکی کو کتابیں دیتا ہے کرشنا کماری دُور سے کرشن کمار کو دیکھتی ہے اور اُس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ چرنجی سر ہلا دیتا ہے کرشن کمار کرشنا کماری کا اشارہ دیکھ لیتا ہے کرشنا کماری ایک طرف چلی جاتی ہے کرشن کمار غصے میں بھرا سیدھا تانگے والے کی طرف بڑھتا ہے چرنجی بھی اُس کی طرف آرہا ہوتا ہے چرنجی کے پاس پہنچ کر کرشن کمار نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ کھینچ کر ایک چانٹا چرن جی کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے کہ اشارے ہو رہے تھے میری طرف کیا مجھے بھی تم اپنے جیسا بدمعاش سمجھتے ہو۔ ایک چانٹا وہ چرنجی کے منہ پر جما دیتا ہے۔ اُلو کے پٹھے۔ شرم نہیں آتی تجھے پرائی لڑکیوں کو بُرے راستے پر لگاتے ہوئے کیا تیری کوئی لڑکی نہیں جو پیسے کے لالچ میں آ کر بھڑوے بنے ہوئے ہو چرنجی کے منہ سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے وہ آگے بڑھتا ہے کرشن کمار یہ سمجھ کر کہ وہ اُسے مارنا چاہتا ہے گھونسے بازی شروع کر دیتا ہے چرنجی اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیتا ہے کرشن کمار گھونسے چلاتا رہتا ہے اتنے میں بہت سے لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں جن میں جُگدیش بھی شامل ہے ایک دو پٹیاں ابھی تک اسی کے سر پر بندھی ہوئی ہیں کرشنا کماری چیختی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور کرشن کمار سے کہتی ہے

’’کمار۔ یہ تم کیا کررہے ہو۔ یہ میرے پتا جی ہیں

’’کرشن کمار متحیر ہو کر کہتا ہے

’’پتا جی۔ چرنجی کے منہ سے خون جاری ہے وہ مسکراتا ہے ہاں بیٹا میں اس کا پِتا ہوں اور تمہارا بھی یہ کہہ کر وہ کرشن کمار کو سینے سے لگا لیتا ہے جیتے رہو۔ میں نے تم سے مار کھائی ہے لیکن اس جوان سے پوچھو کہ وہ جُگدیش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ میرے بازوؤں میں کتنا بل ہے جُگدیش وہاں سے کھسک جاتا ہے کرشن کمار ندامت بھرے لہجے میں چرنجی سے معافی مانگتا ہے اپنی لڑکی اورکرشن کمار کے سر پر پیار کا ہاتھ پھیر کر چرنجی جیب سے جھمکوں کی ڈبیا نکالتا ہے اور کرشنا کماری کو دے کر کہتا ہے لو اسے اپنے پاس رکھو۔ ‘‘

شہنائیاں بج رہی ہیں کرشنا کماری اور کرشن کمار کی شادی ہو چکی ہے چرن جی اپنی لڑکی اور کرشن کمار کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیر رہا ہے اپنی لڑکی سے کہتا ہے تم اپنی ماں کو یاد کیا کرتی تھیں تمھیں ماں بھی مل گئی ہے یہ کہہ کر وہ کرشنا کماری کی ماں کی طرف دیکھتا ہے جو ایک سیدھی سادھی دیہاتن ہے وہ مسکراتی ہے اور کرشنا کماری کی طرف ہاتھ بڑھا کر سر پر ہاتھ پھیرتی ہے اور بڑی سادہ لوحی کے ساتھ کہتی ہے بیٹی میں نے تیرے لیے اپنے ہاتھ سے مٹھائی بنا کر بھیجی تھی کیا تو نے کھائی تھی۔ کرشنا کماری ذرا جھینپ کر کہتی ہے کھائی تھی ماتا جی۔ بہت ہی مزے دار تھی۔ ایک تانگے میں چرنجی کی بیوی شراب کے نشے میں دُھت بیٹھی ہے تانگہ چل رہا ہے اُس کے ساتھ ہی ایک مرد بیٹھا ہے۔ چرنجی کی بیوی پان تھوک دیتی ہے بہت بد مزہ ہے۔ اتنے میں تانگہ وہاں پہنچتا ہے جہاں کرشنا کماری اور کرشن کمار کی شادی ہو رہی ہے۔ تانگے والا تانگہ ٹھہرا دیتا ہے اور اپنے گاہک سے کہتا ہے معاف کیجیے گا میں ابھی حاضر ہوا۔ چرن جی کی بیوی پوچھتی ہے کہاں جارہے ہو تم تانگے والا کہتا ہے جرنجی تانگے والے کی لڑکی کی شادی ہو رہی ہے میں اُسے مبارکباد دے آؤں۔ یوں چٹکیوں میں آیا۔ یہ کہہ کر تانگے والا چلا جاتا ہے۔ چرنجی کی بیوی چند لمحات کے لیے پتھر کی مورتی سی بن جاتی ہے لیکن لڑکھڑاتی ہوئی اُٹھتی ہے اور تانگے سے اُتر کر اُدھر جاتی ہے جہاں سے شہنائیوں کی آواز آتی ہے۔ بارش ہو رہی ہے چرنجی کی بیوی جو شراب کے نشے میں مدہوش ہے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے شادی منڈل کی طرف بڑھتی ہے بارش ہو رہی ہے باہر تماشائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ دولہا دُلہن کو دیکھتی ہے اچھی طرح دیکھنے کے لیے جب وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے تو ایک آدمی اسے پیچھے ہٹا دیتا ہے اور کہتا ہے اے کیا دیکھ رہی ہے تُو۔ تیری ماں نے کبھی شادی نہیں کی ہو گی۔ چرنجی کی بیوی اس آدمی سے جھگڑنا شروع کر دیتی ہے۔ میں ماں ہوں۔ تو نہیں جانتا میں ماں ہوں۔ سارے تماشائی ہنستے ہیں چرنجی کی بیوی دیکھ رہی ہے کرشنا کماری بھی کسی بات پر ہنس رہی ہے چرنجی کی بیوی کی مامتا جاگ اُٹھتی ہے وہ چلانا شروع کر دیتی ہے مجھے اندر جانے دو مجھے اندر جانے دو۔ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے اتنے میں چرنجی باہر نکلتا ہے اور اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے اور اُس سے کہتا ہے کیا چاہتی ہو۔ تم چرنجی کی بیوی کہتی ہے میں اپنی لڑکی سے ملنا چاہتی ہوں چرنجی کہتا ہے آؤ میں تمھیں اُس سے ملا دیتا ہوں یہ کہہ کر وہ اُسے ایک طرف لے جاتا ہے جہاں اس کا تانگہ کھڑا ہے چرنجی اسے تانگے تک لے جاتا ہے۔ ۔ تانگہ چلا جارہا۔ چرنجی کی بیوی شراب کے نشے میں بار بار چرنجی سے پوچھتی ہے مجھے میری بیٹی سے مِلاؤ۔ مجھے میری بیٹی سے مِلاؤ۔ میں اُس کی ماں ہوں میں اُسے ایک تحفہ دینا چاہتی ہوں۔ چرنجی خاموش رہتا ہے تانگے کی رفتار تیز ہوتی رہتی ہے ایک بار تنگ آ کر وہ چرنجی سے پوچھتی ہے کہاں لے جارہے ہو مجھے‘‘

چرنجی جواب دیتا ہے جہاں پتی اور پتنی کو جانا چاہیے، گھوڑا سرپٹ دوڑتا ایک کھائی میں گرتا ہے۔ ۔ تانگے کے پُرزے اُڑ جاتے ہیں کھائی کے نیچے چرنجی اور اس کی بیوی پڑے ہیں اور دونوں بُری طرح زخمی ہوئے ہیں چرنجی مرچکا ہے مگر اُس کی بیوی ابھی زندہ ہے وہ اپنی آنکھیں کھولتی ہے اُسے اپنی جوانی کا وہ دن یاد آتا ہے جب جھمکے پہنے گا رہی تھی۔ وہ جوان ہے اور جھمکے اپنے کانوں میں دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہے اور گا رہی ہے اپنی بچی کو آواز دیتی ہے۔ اور کہتی ہے مُنی۔ منی آ تجھے ایک چیز دیکھاؤں۔ اس کی بند مُٹھی کھلتی ہے اُس کی ہتھیلی پر وہی جھمکے نظر آتے ہیں جو چرنجی اس کے لیے لایا تھا۔

سعادت حسن منٹو

جنٹلمینوں کا بُرش

یہ غالباً آج سے بیس برس پیچھے کی بات ہے۔ میری عمر یہی کوئی بائیس برس کے قریب ہو گی، یا شاید اس سے دو برس کم۔ کیونکہ تاریخوں اور سنوں کے معاملے میں میرا حافظہ بالکل صفر ہے۔ میری دوستی کا حلقہ ان نوجوان پر مشتمل تھا جو عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے۔ حفیظ پینٹر کی دُکان میں جو بجلی والے چوک سے بائیں ہاتھ ہال بازار کے پاس ہی واقع تھی، ہم سب بیٹھتے اور گھنٹوں گپ بازی ہوتی رہتی۔ میں پڑھائی وڑھائی قریب قریب چھوڑ چکا تھا۔ اسی طرح مبارک اپنی ملازمت پر لات مار کر امرتسر واپس چلا آیا تھا۔ وہ کسی ریاست میں ملازم تھا۔ حفیظ پینٹر کی اپنے باپ سے چخ ہو گئی تھی، اس لیے اس نے علیحدہ ایک بڑی دُکان لے لی جس میں کچھ عرصہ پہلے ایک کمیونسٹ سکھ کی دکان تھی، جو گرامو فون ڈیلر تھا۔ خیر دین کی مسجد سے ملحقہ دکان ہال بازار میں تھی مگر اچھے موقع پر تھی۔ یعنی عین ہال بازار کے وسط میں اورمسجد کے زیر سایہ خرابات مروجہ اصولوں کے ماتحت ہونی ہی چاہیے۔ اس لیے وہ اسے بہت پسند آگئی تھی۔ ادھر اذان ہوتی تو ادھر ریکارڈ بجتے۔ لیکن کوئی دنگا فساد اس بات پر وہاں کبھی نہ ہوا۔ البتہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سینکڑوں خون ہوتے رہتے۔ امروپرستی غنڈوں، رنڈی بازی پر، گنڈوں کی دو مخالف پارٹیوں پر، ایسے مسلم مسلم اور مسلم ہندو فساد عام تھے۔ جو ایک دو دن اپنی دھاک بٹھا کر جھاگ کے مانند غائب ہو جاتے۔ گرمی کی پہلی پیلی بھڑوں کے مانند جو اپنے اردگرد جالا تن لیتی ہیں اوربظاہر بالکل مردہ ہو جاتی ہیں۔ لیکن معلوم نہیں پھر موافق موسم آنے پر زندہ ہو جاتی ہیں، اور بے قصور آدمیوں کو کاٹنے کے شغل میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ امرتسر ایک عجیب و غریب شہر ہے۔ یہاں ہر ایک قسم کی شے اس زمانے میں پائی جاتی تھی۔ بھنگنوں کی لڑائی سے لے کر گورنمنٹ سے پنجہ کشی کرنے تک۔ لوگ بھی بھانت بھانت کے تھے۔ لالے جو اپنی بزازی کی دکانوں پر پادتے رہتے اور کچھ ایسے من چلے بھی تھے جو چھوٹے چھوٹے پٹاخے بنا کر چلاتے تھے کہ لوگوں کے دل ایک لحظے کے لیے دہل جاتے۔ دہشت پسند بھی تھے اور امن پسند بھی۔ نمازی اور پرہیزگار بھی تھے اور اول درجے کے اوباش اور گناہ گار بھی۔ مسجدیں تھیں اور مندر بھی۔ ان میں گناہ کے کام بھی ہوتے تھے اور ثواب کے بھی۔ غرضیکہ انسانی زندگی کے یہ سب دھارے ساتھ ساتھ متواتر بہا کرتے تھے۔ کئی سیاسی تحریکیں ہوئیں۔ کئی غنڈوں کا آپس میں کشت و خون ہوا۔ مسلمانوں اور قادیانیوں میں کئی مباہلے ہوئے، جن میں بڑے جغادری علمائے کرام نے حصہ لیا۔ قحط پڑے، وبائیں آئیں۔ جلیاں والا کا تاریخی حادثہ ہوا، ہزاروں انسان، جن میں مسلمان، سکھ، ہندو سب شامل تھے، موت کے گھاٹ اتارے گئے، لیکن امرتسر جوں کا توں رہا۔ حفیظ پینٹر کی دکان پر یوں تو دنیا بھر کے سیاسی، مجلسی اور معاشی مسائل پر تبادلہ خیالات اور بحث ہوتی رہتی، مگر بڑے خام انداز میں۔ اصل میں وہ سب کے سب آرٹسٹ تھے۔ گو نیم رس۔ ان کو دراصل موسیقی سے شغف تھا۔ کوئی طبلے کی جوڑی اٹھا لیتا، کوئی ستار، کوئی سارنگی اور کوئی تانبورہ ہاتھ میں لے کر میاں کی ٹوڈی، مالکونس یا بھاگیری کا الاپ شروع کردیتا۔ یہاں بھانگ بھی گھوٹی جاتی، چرس بھرے سگریٹ بھی پِیے جاتے، شراب کے دور اکثر چلتے۔ اس لیے کہ دن اتنا بڑا بے باک نہیں تھا۔ ساڑھے آٹھ روپے میں ایک پوری بوتل بڑھیا سے بڑھیا اسکاچ وسکی کی آجاتی تھی۔ حفیظ شام کو اپنی دکان کے بھاری بھر کم کواڑ بند کردیتا اور ہم چٹائیوں پر بیٹھ کر اس مشروب سے آہستہ آہستہ لطف اندوز ہوتے۔ پھر آدھی رات کو جب آس پاس کی ساری دکانیں بند ہوتیں، ہم موسیقی کا دورشروع کردیتے۔ یہاں قریب قریب سب گویّے، بڑے اور چھوٹے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ اس لیے کہ زندہ دل نوجوانوں کی محفل تھی۔ پھکڑ بازی بھی ہوتی تو کوئی برا نہ مانتا تھا۔ ایک دن میں صبح دس بجے کے قریب حفیظ پینٹر کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اس لیے کہ مجھے ذرا آگے چل کر ایک کیمسٹ کی دکان سے اپنے کان کے لیے دوا لینی تھی کہ حفیظ نے برش کان میں اڑس کر مجھے باآواز بلند پکارا اور اسی کان میں اڑے ہوئے برش کو نکال کر اس سے مجھے اشارہ کیا، جس کا یہ مطلب تھا کہ میں اس کی بات سنتا جاؤں۔ میں اس کی دکان کے تھڑے کے پاس کھڑا ہو گیا، اور اس سے پوچھا

’’کیا بات ہے حفیظ صاحب؟‘‘

حفیظ نے برش پھر کان میں اڑس لیا اور جواب دیا

’’بات یہ ہے میری جان کہ آج تو کل کا گانا ہو گا۔ اس کے ساتھ مچھر خان اور بسے خان بھی ہوں گے۔ وہ معاملہ بھی ہو گا۔ چھ بجے سے پہلے پہلے ہی آجانا۔ میں نے تمام دوستوں کو اطلاع دے دی ہے۔ توکل کو میں نے سنا تو نہیں لیکن نئے خیال کے لوگ اسے بہت پسند کررہے ہیں۔ نوجوان ہے۔ کہتے ہیں کہ خاں صاحب عاشق کے مانند بے ڈار گاتا ہے اور حق ادا کرتا ہے۔ ‘‘

میں بہت خوش ہوا

’’آؤں گا اور ضرور آؤں گا۔ مگر یہ مچھر خان کیا بلاہے۔ کیا تم اسے کسی مچھردانی کے اندر بٹھاؤ گے؟‘‘

حفیظ پینٹر کھکھلا کر ہنسا

’’ارے نہیں یار، اس کی عادت ہے کہ جب کوئی تان لیتا ہے اور واپس سم پر آتا ہے اور بڑے زور سے اپنی رانوں پر دوہتڑ مارتا ہے۔ اس لیے اس کا نام مچھر خان پڑ گیا ہے۔ جیسے وہ گا نہیں رہا، بلکہ اپنے بدن پر کاٹنے والے مچھر مار رہا ہے۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا

’’چلو، اس کا تماشا بھی دیکھ لیں گے۔ پر اگر اس نے آج رات کوئی مچھر نہ مارا تو یہ طے ہے کہ تمہارے آرٹ اسٹوڈیو سے وہ زندہ باہر نہیں نکلے گا۔ ‘‘

حفیظ کھکھلا کر ہنسا، کان میں سے اُڑسا ہوا برش نکالا اور سائن بورڈ پینٹ کرنے لگا

’’جاؤ یار جاؤ۔ میرا وقت ہرج کررہے ہو۔ مجھے یہ کام وقت پر مکمل کرنا ہے۔ ‘‘

میں وہاں سے چلا گیا۔ کیمسٹ کی دکان سے دوائی لی۔ باہر نکلا تو شیخ صاحب جو وہاں کے بہت بڑے رئیس تھے، ان سے دو آدمی دکان کے پاس کھڑے باتیں کررہے تھے۔ میں نے شیخ صاحب کو سلام کیا۔ انہوں نے جیسا کہ ان کی عادت تھی، چھڑی بجلی کے کھمبے کے ساتھ ماری۔ جب آواز پیدا ہوئی تو ان کا اطمینان ہو گیا تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے۔

’’کہو بھئی سعادت کیا حال ہے۔ ‘‘

میں نے عرض کی

’’جناب کی دُعا سے سب ٹھیک ہے۔ ‘‘

جن دو آدمیوں سے شیخ صاحب باتیں کررہے تھے، وہ سیاہ فام تھے، لیکن اچکن کا رنگ ان کے رنگ سے کہیں زیادہ کالا۔ دبلا پتلا، لیکن چہرے کے نقش تیکھے۔ شیخ صاحب چلنے لگے تو اس آبنوسی گوشت پوست کے ٹکڑے نے تیزی سے بڑھ کر شیخ صاحب کے کوٹ کی پیٹھ جھاڑنی شروع کی، بڑی نفاست سے، شیخ صاحب نے گرما کر اس سے پوچھا

’’کیا بات تھی؟‘‘

اس آبنوسی آدمی نے بڑی پتلی آواز میں جواب دیا

’’چندبال تھے اور تھوڑی سی گرد۔ ‘‘

شیخ صاحب نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا

’’اچھا تم کل صبح گھر پہ آنا‘‘

اور وہ پھر بجلی کے کھمبے کو اپنی چھڑی سے بجاتے ہوئے غالباً کمپنی باغ کی طرف نکل گئے۔ ایک دن میں نے پھر اسے دیکھا۔ اپنے کٹڑے کے بازار میں وہ دو لالوں کی مصاحبی میں مصروف تھا۔ اس نے صاف ستھرے کوٹوں پر سے کئی مرتبہ غیر مرئی چیزیں جدا کیں۔ اس دن بھی وہ اپنی کالی اچکن پہنے تھا۔ حالانکہ کالے کپڑے پر گردوغبار فوراً نمایاں ہوتا ہے، مگر میں نے غور سے دیکھا، کہ اس پرایسی کوئی چیز بھی نہیں تھی۔ میرا خیال ہے وہ جنٹل مینوں کے برش کے علاوہ اپنا برش خود بھی تھا۔ مجھے راستے میں ایک دوست مل گیا۔ میں نے اس سے پوچھا

’’یہ آبنوسی آدمی کون ہے؟‘‘

اس نے حیرت سے پوچھا

’’کون سا آبنوسی آدمی۔ بن مانس سنے تھے، مگر آبنوسی کہاں سے تم نے گھڑ لیا۔ ‘‘

میں نے اس سے ذرا تیز لہجے میں کہا

’’ارے یہ آدمی جو ہمارے آگے آگے جارہا ہے۔ چغد ہو پرلے درجے کے۔ کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ آبنوس ایک لکڑی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’تو کیا یہ لکڑی ہے جو چل پھر رہی ہے؟‘‘

’’ابے نہیں۔ آبنوس کا رنگ کالا ہوتا ہے، چونکہ اس نے کالی اچکن پہنی ہے اور رنگ بھی اس کا خدا کے فضل و کرم سے خاصا کالا ہے، تو میں نے اسے آبنوسی کہہ دیا۔ ‘‘

میرا دوست ہنسا

’’ارے، تم اسے نہیں جانتے، اس کا نام جنٹل مینوں کا برش ہے۔ ‘‘

’’اتنا تو میں جانتا ہوں۔ ‘‘

’’تو اس سے زیادہ تم اور کیا جاننا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے چِڑ کر کہا

’’یہی کہ اس کا محل وقوع کیا ہے۔ اس کا پیشہ کیا ہے؟‘‘

میرا دوست مسکرایا

’’یہ ذات کا رُبابی ہے، جو دربارصاحب میں چوکی کرتے ہیں۔ مگر یہ وہاں نہیں جاتا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس اس کو امیروں کی صحبت حاصل ہے۔ ان ہی میں اٹھتا بیٹھتا ہے، اور ان کے کوٹوں پر برش کرتا رہتا ہے۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا

’’کھاتا پیتا کہاں سے ہے؟‘‘

جواب ملا

’’جن کی مصاحب داری کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گاتا بہت اچھا ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا

’’تم نے کبھی سنا ہے اس کو؟‘‘

’’نہیں، البتہ تعریف بہت سنی ہے۔ ‘‘

ہم باتوں میں مشغول پیچھے رہ گئے اور وہ جنٹل مینوں کا آبنوسی برش ان دو لالوں کے کوٹ جھاڑتا بہت دور نکل گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میرا دوست بھی مجھ سے جدا ہو گیا۔ اس کو کوئی ضروری کام تھا ورنہ میں اس شخص کے متعلق کچھ اور معلومات حاصل کرتا۔ اتفاق سے مجھے اپنے بہنوئی( جو امرتسر کے آنریری مجسٹریٹ تھے اور خدا معلوم کیا کیا تھے) کے ساتھ ایک تقریب پر جانا پڑا۔ اب مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ وہ تقریب تھی جو نئے ڈپٹی کمشنر کے تقرر کے سلسلے میں تھی۔ وہ شخص وہی کالی اچکن پہنے معزز اور رئیس لوگوں کے اردگرد چکر لگا رہا تھا۔ اس نے بلا مبالغہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر چن چن کر کئی رؤسا کے کوٹ صاف کیے۔ اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے۔ کسی کے کالر پر سے اس نے بال اٹھائے، کس کے کوٹ کی پیٹھ پر سے۔ بعضوں کے کوٹوں کو، جب اس کی سمجھ میں نہ آیا وہ گرد اپنے رومال سے جھاڑ دی اور ہر ایک سے شکریہ وصول کیا۔ بڑی جرأت سے کام لے کر وہ ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس بھی جا پہنچا، اور اس کی پتلون صاف کردی۔ وہ انگریز تھا۔ اس نے جنٹل مینوں کے برش کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد ایک رات جب کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی اور حفیظ پینٹر کی دکان میں ہم معشوق علی فوٹو گرافر سے اس کا گانا سن کر محظوظ ہورہے تھے، اور ساتھ ساتھ وسکی بھی پی رہے تھے، کہ اچانک دکان کا پھاٹک نما دروازہ کھلا اور جنٹل مینوں کا برش نمودار ہوا۔ اس نے ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا

’’میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ گانے کی آواز سنائی دی۔ ماشاء اللہ بڑی سریلی تھی۔ ہے تو یہ تہذیب کے خلاف کہ میں بِن بُلائے چلا آیا۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا تھوڑی دیر کے لیے آپ کی محفل میں شریک ہو سکتا ہوں۔ ‘‘

حفیظ پینٹر اور معشوق علی فوٹو گرافربیک وقت بولے

’’ہاں، ہاں تشریف رکھیے۔ ‘‘

مبارک نے کہا،

’’سر آنکھوں پر۔ یہاں میرے پاس بیٹھیے۔ آپ تو خود بڑے معرکے کے گانے والے ہیں۔ کچھ نوش فرمائیے گا۔ ‘‘

مبارک کی مراد وسکی سے تھی، مگر جنٹل مینوں کے بُرس نے بڑی شائستگی سے کہا

’’جی نہیں۔ میں اس نعمت سے محروم ہوں۔ ‘‘

سب کے اصرار پر اس نے گانا شروع کیا۔ میاں کی ٹوڈی تھی جو اس نے ایسی خوش الحانی سے گائی کہ مزے آگئے۔ اس کے بعد اس نے اجازت چاہی۔ سب نشے میں چور تھے، اس لیے ان کو یہ خبر نہیں تھی کہ باہر زوروں کی بارش ہورہی ہے۔ لیکن جب جنٹل مینوں کے برش نے دروازہ کھولا تو اس نے کہا

’’حضور، باہر بہت بارش ہورہی ہے، کیسے جائیے گا۔ ‘‘

آبنوسی برش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’آپ فکر نہ کریں، ابھی لالہ جگت نارائن کمبل والے کی گاڑی مجھے لینے کے لیے آجائے گی۔ آپ اپنا شغل جاری رکھیے۔ شکریہ!‘‘

یہ کہہ کر اس نے دکان کا پھاٹک نما دروازہ بند کردیا۔ ایک گھنٹے کے بعد بارش تھمی تو محفل برخاست کردی گئی۔ باہر نکل کر ہم نے دیکھا کہ کوئی آدمی بدرو میں اوندھے گرا پڑا ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تو چلایا

’’ارے یہ تو وہی جنٹل مینوں کا برش ہے۔ ‘‘

حفیظ نے لڑکھڑاتے ہوئے لہجے میں کہا

’’جنٹل مینوں کی ایسی تیسی۔ چلو اپنے اپنے گھر۔ ‘‘

سب نے اس فیصلے پر صاد کیا۔ جب وہ چلے گئے تو تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص جو بے داغ کالی اچکن پہنتا تھا اور رؤسا کے کوٹ صاف کیا کرتا ہے، ہوش میں آیا۔ اس کی اچکن کیچڑ سے اٹی ہوئی تھی، مگر اسے صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

سعادت حسن منٹو

جسم اور رُوح

مجیب نے اچانک مجھ سے سوال کیا:

’’کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟‘‘

گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ دنیا میں ایسے کئی اشخاص موجود ہیں جو ایک منٹ کے اندر اندر لاکھوں اور کروڑوں کو ضرب دے سکتے ہیں، ان کی تقسیم کرسکتے ہیں۔ آنے پائی کا حساب چشم زدن میں آپ کو بتا سکتے ہیں۔ اس گفتگو کے دوران میں مغنی یہ کہہ رہا تھا :

’’انگلستان میں ایک آدمی ہے جو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد فوراً بتا دیتا ہے کہ اس قطعہ زمین کا طول و عرض کیا ہے۔ رقبہ کتنا ہے۔ اس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنی اس خداداد صلاحیت سے تنگ آ گیا ہے۔ وہ جب بھی کہیں باہر ٗ کھلے کھیتوں میں نکلتا ہے تو ان کی ہریالی اور ان کا حسن اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور وہ اس قطعہ زمین کی پیمائش اپنی آنکھوں کے ذریعے شروع کر دیتا ہے۔ ایک منٹ کے اندر وہ اندازہ کر لیتا ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا کتنا رقبہ رکھتا ہے ٗ اس کی لمبائی کتنی ہے چوڑائی کتنی ہے ٗ پھر اسے مجبوراً اپنے اندازے کا امتحان لینا پڑتا ہے۔ فیٹر سٹیپ کے ذریعے سے اس خطہ ءِ زمین کو ماپتا اور وہ اس کے اندازے کے عین مطابق نکلتا۔ اگر اس کا اندازہ غلط ہوتا تو اسے بہت تسکین ہوتی۔ بعض اوقات فاتح اپنی شکست سے بھی ایسی لذت محسوس کرتا ہے جو اسے فتح سے نہیں ملتی۔ اصل میں شکست دوسری شاندار فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ میں نے مغنی سے کہا:

’’تم درست کہتے ہو۔ دنیا میں ہر قسم کے عجائبات موجود ہیں۔ ‘‘

میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ مجیب نے جو اس گفتگو کے دوران کافی پی رہا تھا، اچانک مجھ سے سوال کیا :

’’کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟‘‘

میں سوچنے لگا کہ مجیب کس آدمی کے متعلق مجھ سے پوچھ رہا ہے ٗ حامد۔ نہیں ٗ وہ آدمی نہیں میرا دوست ہے۔ عباس ٗ اس کے متعلق کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوسکتی تھی۔ شبیر ٗ اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ آخر یہ کس آدمی کا حوالہ دیا گیا تھا۔ میں نے مجیب سے کہا:

’’تم کس آدمی کا حوالہ دے رہے ہو؟‘‘

مجیب مسکرایا :

’’تمہارا حافظہ بہت کمزور ہے۔ ‘‘

’’بھئی ٗ میرا حافظہ تو بچپن سے ہی کمزور رہا ہے۔ تم پہیلیوں میں باتیں نہ کرو۔ بتاؤ وہ کون آدمی ہے جس سے تم میرا تعارف کرانا چاہتے ہو۔ ‘‘

مجیب کی مسکراہٹ میں اب ایک طرح کا اسرار تھا۔

’’بوجھ لو!‘‘

’’میں کیا بوجھوں گا جبکہ وہ آدمی تمہارے پیٹ میں ہے۔ ‘‘

عارف ٗ اصغر اور مسعود بے اختیار ہنس پڑے۔ عارف نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا :

’’وہ آدمی اگر مجیب کے پیٹ میں ہے تو آپ کو اس کی پیدائش کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘

میں نے مجیب کی طرف ایک نظر دیکھا اور عارف سے مخاطب ہوا: میں اپنی ساری عمر اس مہدی کی ولادت کا انتظار نہیں کرسکتا ہوں۔ ‘‘

مسعود نے اپنے سگریٹ کو ایش ٹرے کے قبرستان میں دفن کرتے ہوئے کہا:

’’دیکھیے صاحبان! ہمیں اپنے دوست مسٹرمجیب کی بات کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے‘‘

یہ کہہ کر وہ مجیب سے مخاطب ہوا

’’مجیب صاحب فرمائیے آپ کو کیا کہنا ہے۔ ہم سب بڑے غور سے سنیں گے۔ ‘‘

مجیب تھوڑی دیر خاموش رہا۔ اس کے بعد اپنا بُجھا ہوا چرٹ سُلگا کر بولا:

’’معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے اس آدمی کے متعلق آپ سے پوچھا جسے آپ جانتے نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا :

’’مجیب تم کیسی باتیں کرتے ہو ٗ بہر حال ٗ تم اس آدمی کو جانتے ہو۔ ‘‘

مجیب نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا!

’’بہت اچھی طرح۔ جب ہم دونوں برما میں تھے تو دن رات اکٹھے رہتے تھے۔ عجیب و غریب آدمی تھا۔ ‘‘

مسعود نے پوچھا !

’’کس لحاظ سے؟‘‘

مجیب نے جواب دیا:

’’ہر لحاظ سے۔ اس جیسا آدمی آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔ ‘‘

میں نے کہا:

’’بھئی مجیب اب بتا بھی دو وہ کون حضرت تھے۔ ‘‘

’’بس حضرت ہی تھے۔ ‘‘

عارف مسکرایا: چلو ٗ قصہ ختم ہوا۔ وہ حضرت تھے ٗ اور بس۔ ‘‘

مسعود یہ جاننے کیلیے بیتاب تھا کہ وہ حضرت کون تھا۔

’’بھئی مجیب ٗ تمہاری ہر بات نرالی ہوتی ہے۔ تم بتاتے کیوں نہیں ہو کہ وہ کون آدمی تھا جس کا ذکر تم نے اچانک چھیڑ دیا!‘‘

مجیب طبعاً خاموشی پسند تھا۔ اس کے دوست احباب ہمیشہ اس کی طبیعت سے نالاں رہتے۔ لیکن اس کی باتیں جچی تلی ہوتی تھیں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا:

’’معذرت خواہ ہوں کہ میں نے خواہ مخواہ آپ کو اس مخمصے میں گرفتار کر دیا۔ بات در اصل یہ ہے کہ جب یہ گفتگو شروع ہوئی تو میں کھو گیا۔ مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ‘‘

میں نے پوچھا:

’’وہ ایسا زمانہ کونسا تھا؟‘‘

مجیب نے ایک لمبی کہانی بیان کرنا شروع کر دی:

’’اگر آپ سمجھتے ہوں کہ اس زمانے سے میری زندگی کے کسی رومان کا تعلق ہے تو میں آپ سے کہوں گا کہ آپ کم فہم ہیں۔ ‘‘

میں نے مجیب سے کہا:

’’ہم تو آپ کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کم فہم ہیں تو ٹھیک ہے۔ لیکن وہ آدمی۔ ‘‘

مجیب مسکرایا :

’’وہ آدمی آدمی تھا۔ لیکن اس میں خدا نے بہت سی قوتیں بخشی تھیں۔ ‘‘

مسعود نے پوچھا:

’’مثال کے طور پر۔ ‘‘

’’مثال کے طور پر یہ کہ وہ ایک نظر دیکھنے کے بعد بتا سکتا تھا کہ آپ نے کس رنگ کا سوٹ پہنا تھا ٗ ٹائی کیسی تھی۔ آپ کی ناک ٹیڑھی تھی یا سیدھی۔ آپ کے کس گال پرکہاں اور کس جگہ تل تھا۔ آپ کے ناخن کیسے ہیں۔ آپ کی داہنی آنکھ کے نیچے زخم کا نشان ہے۔ آپ کی بھنویں منڈی ہوئی ہیں۔ موزے فلاں ساخت کے پہنے ہوئے تھے ٗ قمیص پوپلین کی تھی مگر گھر میں دُھلی ہوئی۔ ‘‘

یہ سن کر میں نے واقعتا محسوس کیا کہ جس شخص کا ذکر مجیب کر رہا ہے عجیب و غریب ہستی کا مالک ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا :

’’بڑا معرکہ خیز آدمی تھا۔ ‘‘

’’جی ہاں ٗ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اس کو اس بات کا زعم تھا کہ اگر وہ کوئی منظر کوئی مرد ٗ کوئی عورت صرف ایک نظر دیکھ لے تو اسے من و عن اپنے الفاظ میں بیان کر سکتا ہے جو کبھی غلط نہیں ہوں گے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اندازہ ہمیشہ درست ثابت ہوتا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا کیا یہ واقعی درست تھا۔

’’سو فیصد۔ ‘‘

ایک مرتبہ میں نے اس سے بازار میں پوچھا یہ لڑکی جو ابھی ابھی ہمارے پاس سے گزری ہے ٗ کیا تم اس کے متعلق بھی تفصیلات بیان کرسکتے ہو؟‘‘

میں اس لڑکی سے ایک گھنٹہ پہلے مل چکا تھا۔ وہ ہمارے ہمسائے مسٹر لوجوائے کی بیٹی تھی۔ اور میری بیوی سے سلائی کے مستعار لینے آئی تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا اس لیے بغرض امتحان میں نے مجیب سے یہ سوال کیا تھا۔ مجیب مسکرایا :۔

’’تم میرا امتحان لینا چاہتے ہو۔ ‘‘

’’نہیں۔ نہیں۔ یہ بات نہیں۔ میں۔ میں۔ ‘‘

’’نہیں تم میرا امتحان لینا چاہتے ہو۔ خیرٗ سنو ! وہ لڑکی جو ابھی ابھی ہمارے پاس سے گزری ہے اور جسے میں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا، مگر لباس کے متعلق کچھ کہنا فضول ہے اس لیے کہ ہروہ شخص جس کی آنکھیں سلامت ہوں اور ہوش و حواس درست ہوں کہہ سکتا ہے کہ وہ کس قسم کا تھا۔ ویسے ایک چیز جو مجھے اس میں خاص طور پر دکھائی دی ٗ وہ اس کے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا تھی۔ اس میں کسی قدر خم ہے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن مضروب تھا۔ اس کے لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آرائش کے فن سے محض کوری ہے۔ ‘‘

مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس نے ایک معمولی سی نظر میں یہ سب چیزیں کیسے بھانپ لیں۔ میں ابھی اس حیرت میں غرق تھا کہ مجیب نے اپنا سلسلہ ءِ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا

’’اس میں جو خاص چیز مجھے نظر آئی وہ اس کے داہنے گال کا داغ تھا۔ غالباً کسی پھوڑے کا ہے۔ ‘‘

مجیب کا کہنا درست تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’یہ سب باتیں جو تم اتنے وثوق سے کہتے ہو ٗ تمہیں کیونکر معلوم ہو جاتی ہیں؟‘‘

مجیب مسکرایا:

’’میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں ہر آدمی کو صاحبِ نظر ہونا چاہیے۔ صاحبِ نظر سے میری مردا ہر اس شخص سے ہے جو ایک ہی نظر میں دوسرے آدمی کے تمام خدو خال دیکھ لے۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا:

’’خدوخال دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’بہت کچھ ہوتا ہے۔ خدو خال ہی تو انسان کا صحیح کردار بیان کرتے ہیں‘‘

’’کرتے ہوں گے۔ میں تمہارے اس نظریے سے متفق نہیں ہوں۔ ‘‘

’’نہ ہو۔ مگر میرا نظریہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔ ‘‘

’’رہے۔ مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بہر حال ٗ میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان غلطی کا پُتلا ہے۔ ہو سکتا ہے تم غلطی پر ہو۔ ‘‘

’’یار ٗ غلطیاں درستیوں سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں‘‘

’’یہ تمہارا عجیب فلسفہ ہے۔ ‘‘

’’فلسفہ گائے کا گوبر ہے۔ ‘‘

’’اور گوبر؟‘‘

مجیب مسکرایا:

’’وہ۔ وہ۔ اُپلا کہہ لیجیے ٗ جو ایندھن کے کام آتا ہے۔ ‘‘

ہمیں معلوم ہوا کہ مجیب ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے پہلی ہی نگاہ میں اس نے اس کے جسم کے ہر خدوخال کا صحیح جائزہ لے لیا تھا۔ وہ لڑکی بہت متاثر ہوئی جب اسے معلوم ہوا کہ دنیا میں ایسے آدمی بھی موجود ہیں جو صرف ایک نظر میں سب چیزیں دیکھ جاتے ہیں تو وہ مجیب سے شادی کرنے کیلیے رضا مند ہو گئی۔ ان کی شادی ہو گئی۔ دلہن نے کیسے کپڑے پہنے تھے ٗ اس کی دائیں کلائی میں کس ڈیزائن کی دست لچھی تھی۔ اس میں کتنے نگینے تھے۔ یہ سب تفصیلات اس نے ہمیں بتائیں۔ ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں میں طلاق ہو گئی۔

سعادت حسن منٹو

جاو حنیف جاو

چودھری غلام عباس کی تازہ ترین تقریر و تبادلہ خیالات ہورہا تھا۔ ٹی ہاؤس کی فضا وہاں کی چائے کی طرح گرم تھی۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ ہم کشمیر لے کررہیں گے، اور یہ کہ ڈوگرہ راج کا فی الفور خاتمہ ہونا چاہیے۔ سب کے سب مجاہد تھے۔ لڑائی کے فن سے نابلد تھے، مگر میدان جنگ میں جانے کے لیے سربکف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ایک دم ہلہ بول دیا جائے تو یوں چٹکیوں میں کشمیر سرہو جائیگا، پھر ڈاکٹر گراہموں کی کوئی ضرورت نہ رہے گی، نہ یو این او میں ہر چھٹے مہینے گڑگڑانا پڑے گا۔ ان مجاہدوں میں، میں بھی تھا۔ مصیبت یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح میں بھی کشمیری ہوں، اس لیے کشمیر میری زبردست کمزوری ہے۔ چنانچہ میں نے باقی مجاہدوں کی ہاں میں ہاں ملائی اور آخرمیں طے یہ ہوا کہ جب لڑائی شروع ہو تو ہم سب اس میں شامل ہوں اور صف اول میں نظر آئیں۔ حنیف نے یوں تو کافی گرم جوشی کا اظہار کیا، مگر میں نے محسوس کیا کہ وہ افسردہ سا ہے۔ میں نے بہت سوچا مگر مجھے اس ا فسردگی کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ چائے پی کر باقی سب چلے گئے، لیکن میں اور حنیف بیٹھے رہے۔ اب ٹی ہاؤس قریب قریب خالی تھا۔ ہم سے بہت دور ایک کونے میں دو لڑکے ناشتہ کررہے تھے۔ حنیف کو ایک عرصے سے جانتا تھا۔ مجھ سے قریب قریب دس برس چھوٹا تھا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ اردو کا ایم۔ اے کروں یا انگریزی کا۔ کبھی کبھی اس کے دماغ پر یہ سنک بھی سوار ہو جاتی کہ ہٹاؤ پڑھائی کو، سیاحی کرنی چاہیے۔ میں نے حنیف کو غور سے دیکھا۔ وہ ایش ٹرے میں سے ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اٹھا اٹھا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کررہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، وہ افسردہ تھا۔ اس وقت بھی اس کے چہرے پروہی افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا موقع اچھا ہے، اس سے دریافت کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’تم خاموش کیوں ہو؟‘‘

حنیف نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا۔ ماچس کی تیلی کے ٹکڑے کرکے ایک طرف پھینکے اور جواب دیا۔

’’ایسے ہی۔ ‘‘

میں نے سگریٹ سلگایا۔

’’ایسے ہی، تو ٹھیک جواب نہیں۔ ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ تم غالباً کسی بیتے ہوئے واقعات کے متعلق سوچ رہے ہو!‘‘

حنیف نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’ہاں!‘‘

’’اور وہ واقعہ کشمیر کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے۔ ‘‘

حنیف چونکا۔

’’آپ نے کیسے جانا؟‘‘

میں نے مسکرا کرکہا۔

’’شرلک ہومز ہوں میں بھی۔ ارے بھئی کشمیر کی باتیں جو ہورہی تھیں۔ جب تم نے مان لیا کہ سوچ رہے ہو۔ کسی بیتے ہوئے واقعے کے متعلق سوچ رہے ہو تو میں فوراً اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اس بیتے ہوئے واقعے کا تعلق کشمیر کے سوا اور کسی سرزمین سے نہیں ہوسکتا۔ کیا وہاں کوئی رومان لڑا تھا تمہارا؟‘‘

’’رومان۔ معلوم نہیں۔ جانے کیا تھا؟۔ بہر حال، کچھ نہ کچھ ہوا تھا جس کی یاد اب تک باقی ہے۔ ‘‘

میری خواہش تھی کہ میں حنیف سے اس کی داستان سنوں۔

’’اگر کوئی امر مانع نہ ہو تو کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ وہ کچھ نہ کچھ کیا تھا؟‘‘

حنیف نے مجھ سے سگریٹ مانگ کر سلگایا اور کہا۔

’’منٹو صاحب! کوئی خاص دلچسپ واقعہ نہیں۔ لیکن اگر آپ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور مجھے ٹوکیں گے نہیں تو میں آج سے تین برس پہلے جو کچھ ہوا، آپ کو من و عن بتا دوں گا۔ میں افسانہ گو نہیں۔ پھر بھی میں کوشش کروں گا۔ ‘‘

میں نے وعدہ کیا کہ میں اس کے تسلسل کو نہیں توڑوں گا۔ اصل میں وہ اب دل و دماغ کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی داستان بیان کرنا چاہتا تھا۔ حنیف نے تھوڑے توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔

’’منٹو صاحب! آج سے دو برس پہلے کی بات ہے جب کہ بٹوارہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ میری طبیعت اداس تھی۔ معلوم نہیں کیوں۔ میرا خیال ہے کہ ہر کنوارا نوجوان اس قسم کے موسم میں ضرور اداسی محسوس کرتا ہے۔ خیر۔ میں نے ایک روز کشمیر جانے کا ارادہ کرلیا۔ مختصر سا سامان لیا اور لاریوں کے اڈے پر جا پہنچا۔ لاری جب کد پہنچی تو میرا ارادہ بدل گیا۔ میں نے سوچا سری نگر میں کیا دھرا ہے، بیسیوں مرتبہ دیکھ چکا ہوں۔ اگلے اسٹیشن بٹوت پر اتر جاؤں گا۔ سنا ہے بڑا صحت افزا مقام ہے۔ تپ دق کے مریض یہیں آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر جاتے ہیں۔ چنانچہ میں بٹوت اتر گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہر گیا۔ ہوٹل بس ایک ہی واجبی سا تھا۔ بہر حال، ٹھیک تھا۔ ۔ مجھے بٹوت پسند آگیا۔ صبح چڑھائی کی سیر کو نکل جاتا۔ واپس آکر خالص مکھن اور ڈبل روٹی کا ناشتہ کرتا اور لیٹ کر کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔ دن اس صحت افزا فضا میں بڑی اچھی طرح گزر رہے تھے۔ آس پاس جتنے دکاندار تھے سب میرے دوست بن گئے تھے، خاص طور پر سردار لہنا سنگھ جو درزیوں کا کام کرتا تھا۔ میں اس کی دکان پر گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ عشق و محبت کے افسانے سننے اور سنانے کا اسے قریب قریب خبط تھا۔ مشین چلتی رہتی تھی اور وہ یا تو کوئی داستان عشق سنتا رہتا تھا یا سناتا رہتا تھا۔ اس کو بٹوت سے متعلق ہر چیز کا علم تھا۔ کون کس سے عشق لڑا رہا ہے۔ کس کس کی آپس میں کھٹ پٹ ہوئی۔ کون کون سی لونڈیا پر پرزے نکال رہی ہے۔ ایسی تمام باتیں اس کی جیب میں ٹھنسی رہتی تھیں۔ شام کو میں اور وہ اترائی کی طرف سیر کو جاتے تھے اور بانہال کے درے تک پہنچ کر پھر آہستہ آہستہ واپس چلے آتے تھے۔ ہوٹل سے اترائی کی طرف پہلے موڑ پر سڑک کے داہنے ہاتھ مٹی کے بنے ہوئے کوارٹر سے تھے۔ میں نے ایک دن سردار سے پوچھا کہ یہ کوارٹر کیا رہائش کے لیے ہیں؟ یہ میں نے اس لیے دریافت کیا تھا کہ مجھے وہ پسند آگئے تھے۔ سردار جی نے مجھے بتایا کہ ہاں، رہائش ہی کے لیے ہیں۔ آج کل اس میں سرگودھے کے ایک ریلوے بابو ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کی دھرم پتنی بیمار ہے۔ میں سمجھ گیا کہ دق ہو گی۔ خدا معلوم میں دق سے اتنا کیوں ڈرتا ہوں۔ اس دن کے بعد جب کبھی میں ادھر سے گزرا، ناک اورمنہ پر رومال رکھ کے گزرا۔ میں داستان کو طویل نہیں کرنا چاہتا۔ قصہ مختصر یہ کہ ریلوے بابا جن کا نام کندن لال تھا، سے میری دوستی ہو گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی بیمار بیوی کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اس فرض کو محض ایک فرض سمجھ کر ادا کررہا ہے۔ وہ اس کے پاس بہت کم جاتا تھا اور دوسرے کوارٹر میں رہتا تھا جس میں وہ دن میں تین مرتبہ فنائل چھڑکتا تھا۔ مریضہ کی دیکھ بھال اس کی چھوٹی بہن سمتری کرتی تھی۔ دن رات یہ لڑکی جس کی عمر بمشکل چودہ برس کی ہو گی اپنی بہن کی خدمت میں مصروف رہتی تھی۔ میں نے سمتری کو پہلی مرتبہ مگونالے پر دیکھا۔ میلے کپڑوں کا بڑا انبار پاس رکھے وہ نالے کے پانی سے غالباً شلوار دھو رہی تھی کہ میں پاس سے گزرا۔ آہٹ سن کر وہ چونکی۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا۔ میں نے اس کا جواب دیا اور اس سے پوچھا۔ تم مجھے جانتی ہو؟۔ سمتری نے باریک آواز میں کہا۔ جی ہاں۔ آپ بابو جی کے دوست ہیں۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ مظلومیت جو سکڑ کر سمتری کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس سے باتیں کروں اور کچھ کپڑے دھو ڈ الوں تاکہ اس کا کچھ بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مگر پہلی ملاقات میں ایسی بے تکلفی نامناسب تھی۔ دوسری ملاقات بھی اسی نالے پر ہوئی۔ وہ کپڑوں پر صابن لگا رہی تھی تو میں نے اس کو نمستے کی اور چھوٹی چھوٹی بٹیوں کے بستر پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ کسی قدر گھبرائی لیکن جب باتیں شروع ہوئیں تو اس کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور اتنی بے تکلف ہو گئی کہ اس نے مجھے اپنے گھر کے تمام معاملات سنانے شروع کردیے۔ بابو جی یعنی کندن لال سے اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئے پانچ برس ہو چلے تھے۔ پہلے برس میں بابو جی کا سلوک اپنی بیوی سے ٹھیک رہا، لیکن جب رشوت کے الزام میں وہ نوکری سے معطل ہوا تو اس نے اپنی بیوی کا زیور بیچنا چاہا۔ زیور بیچ کر وہ جوا کھیلنا چاہتا تھا کہ دگنے روپے ہو جائیں گے۔ بیوی نہ مانی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس نے اس کو مارنا پیٹنا شروع کردیا۔ سارا دن ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بند رکھتا اور کھانے کو کچھ نہ دیتا۔ اس نے مہینوں ایسا کیا۔ آخر ایک دن عاجز آکر اس کی بیوی نے اپنے زیور اس کے حوالے کردیے۔ لیکن زیور لے کر وہ ایسا غائب ہوا کہ چھ مہینے تک اس کی شکل نظر نہ آئی۔ اس دوران میں سمتری کی بہن فاقہ کشی کرتی رہی۔ وہ اگر چاہتی تو اپنے میکے جاسکتی تھی۔ اس کا باپ مالدار تھا اور اس سے بہت پیار کرتا تھا، مگر اس نے مناسب نہ سمجھا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کو دق ہو گئی۔ کندن لال چھ مہینے کے بعد اچانک گھر آیا تو اس کی بیوی بستر پر پڑی تھی۔ کندن لال اب نوکری پر بحال ہو چکا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی دیر کہاں رہا تو وہ گول کرگیا۔ سمتری کی بہن نے اس سے زیوروں کے بارے میں نہیں پوچھا۔ اس کا پتی گھر واپس آ گیا تھا، وہ بہت خوش تھی کہ بھگوان نے اس کی سن لی۔ اس کی صحت کسی قدر بہتر ہو گئی، مگر یہ، ان کے آنے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق، والا معاملہ تھا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ اس اثناء میں سمتری کے ماں باپ کو پتہ چل گیا۔ وہ فوراً وہاں پہنچے اور کندن لال کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو فوراً کسی پہاڑ پر لے جائے۔ خرچ وغیرہ کا ذمہ انھوں نے کہا، ہمارا ہے۔ کندن لال نے کہا چلو سیر ہی سہی، سمتری کو دل بہلاوے کے لیے ساتھ لیا اور بٹوت پہنچ گیا۔ یہاں وہ اپنی بیوی کی قطعاً دیکھ بھال نہیں کرتا تھا۔ سارا دن باہر تاش کھیلتا رہتا۔ سمتری پرہیزی کھانا پکاتی تھی، اس لیے وہ صبح شام ہوٹل سے کھانا کھاتا۔ ہر مہینے سسرال لکھ دیتا کہ خرچ زیادہ ہورہا ہے، چنانچہ وہاں سے رقم میں اضافہ کردیا جاتا۔ میں داستان لمبی نہیں کرنا چاہتا۔ سمتری سے میری ملاقات اب ہرروز ہونے لگی۔ نالے پر وہ جگہ جہاں وہ کپڑے دھوتی تھی۔ بڑی ٹھنڈی تھی۔ نالے کا پانی بھی ٹھنڈا تھا۔ سیب کے درخت کی چھاؤں بہت پیاری تھی اور گول گول بٹیاں، جی چاہتا تھا کہ سارا دن انھیں اٹھا اٹھا کر نالے کے شفاف پانی میں پھینکتا رہوں۔ یہ تھوڑی سی بھونڈی شاعری میں نے اس لیے کی ہے کہ مجھے سمتری سے محبت ہو گئی تھی، اور مجھے یہ معلوم تھا کہ اس نے اسے قبول کرلیا ہے۔ چنانچہ ایک دن جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور آنکھیں بند کرلیں۔ سیب کے درختوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور مگونالے کا پانی گنگناتا ہوا بہہ رہا تھا۔ وہ خوبصورت تھی، گو دبلی تھی مگر اس طور پر کہ غور کرنے پر آدمی اس نتیجے پر پہنچتا تھا کہ اسے دبلی ہی ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ ذرا موٹی ہوتی تو اتنی خطرناک طور پر خوبصورت نہ ہوتی۔ اس کی آنکھیں غزالی تھیں۔ جن میں قدرتی سرمہ لگا رہتا تھا۔ ٹھمکا سا قد۔ گھنے سیاہ بال جو اس کی کمر تک آتے تھے۔ چھوٹا سا کنوارا جوبن۔ منٹو صاحب! میں اس کی محبت میں سر تا پا غرق ہو گیا۔ ایک دن جب وہ اپنی محبت کا اظہار کررہی تھی، میں نے وہ بات جو بڑے دنوں سے میرے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی، اس سے کہی کہ دیکھو سمتری! میں مسلمان ہوں، تم ہندو۔ بتاؤ انجام کیا ہو گا۔ میں کوئی اوباش نہیں کہ تمہیں خراب کرکے چلتا بنوں۔ میں تمہیں اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔ سمتری نے میرے گلے میں بانہیں ڈالیں اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا حنیف! میں مسلمان ہو جاؤں گی۔ میرے سینے کا بوجھ اتر گیا۔ طے ہوا کہ جونہی اس کی بہن اچھی ہو گی، وہ میرے ساتھ چل دے گی۔ اس کی بہن کو کہاں اچھا ہونا تھا۔ کندن لال نے مجھے بتایا کہ وہ اس کی موت کا منتظر ہے۔ یہ بات ٹھیک بھی تھی، گو اس طرح سوچنا اور اس کا علاج کرنا کچھ مناسب نہیں تھا۔ بہرحال، حقیقت سامنے تھی۔ کم بخت مرض ہی ایسا تھا کہ بچنا محال تھا۔ سمتری کی بہن کی طبیعت دن بدن گرتی گئی۔ کندن لال کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔ چونکہ اب سسرال سے روپے زیادہ آنے لگے تھے اور خرچ کم ہو گیا تھا یا خود کم کردیا گیا تھا، اس نے ڈالے بنگلے جا کر شراب پینا شروع کردی اور سمتری سے چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔ منٹو صاحب! جب میں نے یہ سنا تو میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اتنی جرأت نہیں تھی ورنہ میں بیچ سڑک کے اس کی مرمت جوتوں سے کرتا۔ میں نے سمتری کو اپنے سینے سے لگایا۔ اس کے آنسو پونچھے اور دوسری باتیں شروع کردیں جو پیار محبت کی تھیں۔ ایک دن میں صبح سویرے نکلا۔ جب ان کوارٹروں کے پاس پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ سمتری کی بہن اللہ کو پیاری ہو چکی ہے، چنانچہ میں نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر کندن لال کو آواز دی۔ میرا خیال درست تھا۔ بے چاری نے رات گیارہ بجے آخری سانس لیا تھا۔ کندن لال نے مجھ سے کہا کہ میں تھوڑی دیر وہاں کھڑا رہوں تاکہ وہ کریا کرم کے لیے بندوبست کرآئے۔ وہ چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے سمتری کا خیال آیا۔ وہ کہاں تھی۔ جس کمرے میں اس کی بہن کی لاش تھی، بالکل خاموش تھا۔ میں ساتھ والے کوارٹر کی طرف بڑھا۔ اندر جھانک کر دیکھا۔ سمتری چارپائی پرگٹھڑی بنی لیٹی تھی۔ میں اندر چلا گیا۔ اس کا کندھا ہلا کر میں نے کہا، سمتری!سمتری۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی شلوار بڑے بڑے دھبوں سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے پھر اس کا کندھا ہلایا مگر وہ خاموش رہی۔ میں نے بڑے پیار سے پوچھا، کیا بات ہے سمتری۔ سمتری نے رونا شروع کردیا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ کیا بتا ہے سمتری۔ سمتری سسکیوں بھری آواز میں بولی۔ جاؤ، حنیف۔ جاؤ۔ میں نے کہا، کیوں۔ افسوس ہے کہ تمہاری بہن کا انتقال ہو گیا ہے، مگر تم تو اپنی جان ہلکان نہ کرو۔ اس نے اٹک اٹک کر کہا۔ اس کے حلق سے آواز نہیں نکلتی تھی۔ وہ مر گئی ہے، پر میں اس کا غم نہیں کرسکتی۔ میں خود مر چکی ہوں۔ اس کا مطلب نہیں سمجھا۔ تم کیوں مرو۔ تمہیں تو میرا جیون ساتھی بننا ہے۔ یہ سن کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ جاؤ حنیف جاؤ۔ میں اب کسی کام کی نہیں رہی۔ کل رات۔ کل رات بابو جی نے میرا خاتمہ کردیا۔ میں چیخی۔ ادھر دوسرے سے کوارٹر سے جیجی چیخی اور مر گئی۔ وہ سمجھ گئی تھی۔ ہائے، کاش! میں نہ چیختی ہوتی۔ وہ مجھے کیا بچا سکتی تھی۔ جاؤ، حنیف جاؤ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھی، دیوانہ وار میرا بازو پکڑا اور گھسیٹتی باہر لے گئی۔ پھر دوڑ کر کواٹر میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حرامزادہ کندن لال آیا۔ اس کے ساتھ چار پانچ آدمی تھے خدا کی قسم! اکیلا ہوتا تو میں پتھر مار مار کر اسے جہنم واصل کردیتا۔ بس یہ ہے میری کہانی۔ سمتری کی کہانی، جس کے یہ الفاظ ہر وقت میرے کانوں میں گونجتے رہتے ہیں، جاؤ حنیف جاؤ۔ کس قدر دکھ ہے ان تین لفظوں میں۔ حنیف کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’جو ہونا تھا، وہ تو ہو گیا تھا۔ تم نے سمتری کو قبول کیوں نہ کیا؟‘‘

حنیف نے آنکھیں جھکا لیں۔ خود کو ایک موٹی گالی دے کر اس نے کہا۔

’’کمزوری۔ مرد عموماً ایسے معاملوں میں بڑا کمزور ہوتا ہے۔ لعنت ہے اس پر۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

جانکی

پونہ میں ریسوں کا موسم شروع ہونے والا تھا کہ پشاور سے عزیز نے لکھا کہ میں اپنی ایک جان پہچان کی عورت جانکی کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں، اس کو یا تو پونہ میں یا بمبئی میں کسی فلم کمپنی میں ملازمت کرادو۔ تمہاری واقفیت کافی ہے، امید ہے تمہیں زیادہ دقت نہیں ہو گی۔ وقت کا تو اتنا زیادہ سوال نہیں تھا لیکن مصیبت یہ تھی کہ میں نے ایسا کام کبھی کیا ہی نہیں تھا۔ فلم کمپنیوں میں اکثر وہی آدمی عورتیں لے کر آتے ہیں جنہیں ان کی کمائی کھانی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں بہت گھبرایا لیکن پھر میں نے سوچا عزیز اتنا پرانا دوست ہے، جانے کس یقین کے ساتھ بھیجا ہے، اس کومایوس نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سوچ کر بھی ایک گونہ تسکین ہوئی کہ عورت کے لیے، اگر وہ جوان ہو، ہر فلم کمپنی کے دروازے کھلے ہیں۔ اتنی تردّد کی بات ہی کیا ہے، میری مدد کے بغیر ہی اسے کسی نہ کسی فلم کمپنی میں جگہ مل جائے گی۔ خط ملنے کے چوتھے روز وہ پونہ پہنچ گئی۔ کتنا لمبا سفر طے کرکے آئی تھی، پشاور سے بمبئی اور بمبئی سے پونہ۔ پلیٹ فارم پر چونکہ اس کو مجھے پہچاننا تھا، اس لیے گاڑی آنے پر میں نے ایک سرے سے ڈبوں کے پاس سے گزرنا شروع کیا۔ مجھے زیادہ دُور نہ چلنا پڑا کیونکہ سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے ایک متوسط قدکی عورت جس کے ہاتھ میں میری تصویر تھی اُتری۔ میری طرف وہ پیٹھ کرکے کھڑی ہو گئی اور ایڑیاں اونچی کرکے مجھے ہجوم میں تلاش کرنے لگی۔ میں نے قریب جا کر کہا، جسے آپ ڈھونڈ رہی ہیں وہ غالباً میں ہی ہُوں۔ وہ پلٹی۔

’’اوہ، آپ!‘‘

ایک نظر میری تصویر کی طرف دیکھا اور بڑے بے تکلّف انداز میں کہا۔

’’سعادت صاحب! سفر بہت ہی لمبا تھا۔ بمبئی میں فرنٹیر میل سے اُتر کر اس گاڑی کے انتظار میں جو وقت کاٹا۔ اس نے طبیعت صاف کردی۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’اسباب کہاں ہے آپ کا؟‘‘

’’لاتی ہُوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ ڈبے کے اندر داخل ہوئی۔ دو سوٹ کیس اور ایک بستر نکالا۔ میں نے قُلی بلوایا۔ اسٹیشن سے باہر نکلتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا۔

’’میں ہوٹل میں ٹھہروں گی۔ ‘‘

میں نے اسٹیشن کے سامنے ہی اس کے لیے ایک کمرے کا بندوبست کردیا۔ اسے غسل وسل کرکے کپڑے تبدیل کرنے تھے اور آرام کرنا تھا، اس لیے میں نے اسے اپنا ایڈریس دیا اور یہ کہہ کر کہ صبح دس بجے مجھ سے ملے، ہوٹل سے چل دیا۔ صبح ساڑھے دس بجے وہ پربھات نگر، جہاں میں ایک دوست کے یہاں ٹھہرا ہوا تھا، آئی جگہ تلاش کرتے ہوئے اسے دیر ہو گئی تھی۔ میرا دوست اس چھوٹے سے فلیٹ میں، جو نیا نیا تھا موجود نہیں تھا۔ میں رات دیر تک لکھنے کا کام کرنے کے باعث صبح دیر سے جاگا تھا، اس لیے ساڑھے دس بجے نہا دھو کر چائے پی رہا تھا کہ وہ اچانک اندر داخل ہُوئی۔ پلیٹ فارم پر اور ہوٹل میں تھکاوٹ کے باوجود وہ جاندار عورت تھی مگر جونہی وہ اس کمرے میں جہاں میں صرف بنیان اور پاجامہ پہنے چائے پی رہا تھا داخل ہُوئی تو اس کی طرف دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے کوئی بہت ہی پریشان اور خستہ حال عورت مجھ سے ملنے آئی ہے۔ جب میں نے اسے پلیٹ فارم پر دیکھا تھا تو وہ زندگی سے بھرپور تھی لیکن جب پربھات نگر کے نمبر گیارہ فلیٹ میں آئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یا تو اس نے خیرات میں اپنا دس پندرہ اونس خون دے دیا ہے یا اس کا اسقاط ہو گیا ہے۔ جیسا کہ میں آپ سے کہہ چکا ہوں، گھرمیں اور کوئی موجود نہیں تھا، سوائے ایک بے وقوف نوکر کے۔ میرے دوست کا گھر جس میں ایک فلمی کہانی لکھنے کے لیے میں ٹھہرا ہوا تھا، بالکل سنسان تھا اور مجید ایک ایسا نوکر تھا جس کی موجودگی ویرانی میں اضافہ کرتی تھی۔ میں نے چائے کی ایک پیالی بنا کر جانکی کو دی اور کہا۔

’’ہوٹل سے تو آپ ناشتہ کرکے آئی ہوں گی، پھر بھی شوق فرمائیے!‘‘

اس نے اضطراب سے اپنے ہونٹ کاٹتے ہُوئے چائے کی پیالی اُٹھائی اور پینا شروع کی اس کی داہنی ٹانگ بڑے زور سے ہل رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کی کپکپاہٹ سے مجھے معلوم ہُوا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن ہچکچاتی ہے۔ میں نے سوچا شاید ہوٹل میں رات کو کسی مسافر نے اسے چھیڑا ہے چنانچہ میں نے کہا۔

’’آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہُوئی ہوٹل میں؟‘‘

’’جی، جی نہیں!‘‘

میں یہ مختصر جواب سُن کر خاموش رہا۔ چائے ختم ہُوئی تومیں نے سوچا اب کوئی بات کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے پوچھا۔

’’عزیز صاحب کیسے ہیں؟‘‘

اس نے میرے سوال کا جواب نہ دیا۔ چائے کی پیالی تپائی پررکھ کر اُٹھ کھڑی ہُوئی اور لفظوں کو جلدی جلدی ادا کرکے کہا۔

’’منٹو صاحب آپ کسی اچھے ڈاکٹر کو جانتے ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’پونہ میں تو میں کسی کو نہیں جانتا۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں، بیمار ہیں آپ؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ میں نے دریافت کیا۔

’’کیا تکلیف ہے؟‘‘

اس کے تیکھے ہونٹ جو مسکراتے وقت سکڑ جاتے تھے یا سکیڑ لیے جاتے تھے واہوئے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی اور اُٹھ کھڑی ہوئی پھر میرا سگریٹ کا ڈبہ اٹھایا اور ایک سگریٹ سلگا کر کہا۔

’’معاف کیجیے گا میں سگریٹ پیا کرتی ہُوں۔ ‘‘

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ صرف سگریٹ پیا ہی نہیں کرتی بلکہ پھونکا کرتی تھی۔ بالکل مردوں کی طرح سگریٹ انگلیوں میں دبا کر وہ زور زور سے کش لیتی اور ایک دن میں تقریباً پچھتر سگریٹوں کا دھواں کھینچتی تھی۔ میں نے کہا۔

’’آپ بتاتی کیوں نہیں کہ آپ کو تکلیف کیا ہے؟‘‘

اس نے کنواری لڑکیوں کی طرح جھنجھلا کر اپنا ایک پاؤں فرش پر مارا۔

’’ہائے اللہ! میں کیسے بتاؤں آپ کو‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرائی۔ مسکراتے ہوئے تیکھے ہونٹوں کی محراب میں سے مجھے اس کے دانت نظر آئے جو غیر معمولی طور پر صاف اور چمکیلے تھے۔ وہ بیٹھ گئی اور میری آنکھوں میں اپنی ڈگمگاتی آنکھوں کو نہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔

’’بات یہ ہے کہ پندرہ بیس دن اوپر ہو گئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ۔ ‘‘

پہلے تو میں مطلب نہ سمجھا لیکن جب وہ بولتے بولتے رک گئی تو میں کسی قدر سمجھ گیا

’’ایسا اکثر ہوتا ہے۔ ‘‘

اس نے زور سے کش لیا اور مردوں کی طرح زور سے دھویں کو باہر نکالتے ہُوئے کہا۔

’’نہیں۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کچھ ٹھہر نہ گیا ہو۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’اوہ!‘‘

اس نے سگریٹ کا آخری کش لے کر اس کی گردن چائے کی طشتری میں دبائی۔

’’اگر ایسا ہو گیا ہے تو بڑی مصیبت ہو گی۔ ایک دفعہ پشاور میں ایسی ہی گڑ بڑ ہو گئی تھی۔ لیکن عزیز صاحب اپنے ایک حکیم دوست سے ایسی دوا لائے تھے جس سے چند دن ہی میں سب صاف ہو گیا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’آپ کو بچے پسند نہیں؟‘‘

وہ مسکرائی۔

’’پسند ہیں۔ لیکن کون پالتا پھرے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’آپ کو معلوم ہے اس طرح بچے ضائع کرنا جرم ہے۔ ‘‘

وہ ایک سنجیدہ ہو گئی۔ پھر اس نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’مجھ سے عزیز صاحب نے بھی یہی کہا تھا۔ لیکن سعادت صاحب میں پوچھتی ہُوں اس میں جرم کی کونسی بات ہے۔ اپنی ہی تو چیز ہے اور ان قانون بنانے والوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ بچہ ضائع کراتے ہوئے تکلیف کتنی ہوتی ہے۔ بڑا جرم ہے!‘‘

میں بے اختیار ہنس پڑا۔

’’عجیب و غریب عورت ہو تم جانکی!‘‘

جانکی نے بھی ہنسنا شروع کردیا۔

’’عزیز صاحب بھی یہی کہا کرتے ہیں۔ ‘‘

ہنستے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرا مشاہدہ ہے جو آدمی پُر خلوص ہوں۔ ہنستے ہوئے اس کی آنکھوں میںآنسو ضرور آجاتے ہیں۔ اس نے اپنا بیگ کھول کر رومال نکالا اور آنکھیں خشک کرکے بھولے بچوں کے انداز میں پوچھا۔

’’سعادت صاحب! بتائیے، کیا میری باتیں دلچسپ ہوتی ہیں؟‘‘

میں نے کہا۔

’’بہت۔ ‘‘

’’جھوٹ!‘‘

’’اس کا ثبوت؟‘‘

اس نے سگریٹ سلگانا شروع کردیا۔

’’بھئی شاید ایسا ہو۔ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ کچھ کچھ بے قوف ہوں۔ زیادہ کھاتی ہوں، زیادہ بولتی ہوں، زیادہ ہنستی ہوں۔ اب آپ ہی دیکھیے نا زیادہ کھانے سے میرا پیٹ کتنا بڑھ گیا ہے۔ عزیز صاحب ہمیشہ کہتے رہے جانکی کم کھایا کرو پر میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ سعادت صاحب بات یہ ہے کہ میں کم کھاؤں تو ہر وقت ایسا لگتا ہے کہ میں کسی سے کوئی بات کہنا بھول گئی ہوں۔ ‘‘

اس نے پھر ہنسنا شروع کیا۔ میں بھی اس کے ساتھ شریک ہو گیا۔ اس کی ہنسی بالکل الگ قسم کی تھیں۔ بیچ بیچ میں گھنگھرو سے بجتے تھے۔ پھر وہ اسقاط حمل کے متعلق باتیں کرنے ہی والی تھی کہ میرا دوست، جس کے یہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، آگیا۔ میں نے جانکی سے اس کا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ فلم لائن میں آنے کا شوق رکھتی ہے۔ میرا دوست اسے اسٹوڈیو لے گیا کیونکہ اس کو یقین تھا کہ وہ ڈائریکٹر جس کے ساتھ وہ بحیثیت اسسٹنٹ کے کام کررہا تھا، اپنے نئے فلم میں جانکی کو ایک خاص رول کے لیے ضرور لے لے گا۔ پونہ میں جتنے سٹوڈیو تھے، میں نے مختلف ذرائع سے جانکی کے لیے کوشش کی۔ کسی نے اس کا ساؤنڈ ٹسٹ لیا، کسی نے کیمرہ ٹسٹ۔ ایک فلم کمپنی میں اس کو مختلف قسم کے لباس پہنا کر دیکھا گیا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ایک تو جانکی ویسے ہی دن اوپر ہو جانے کے باعث پریشان تھی، چار پانچ روز متواتر جب اسے مختلف فلم کمپنیوں کے اکتا دینے والے ماحول میں بے نتیجہ گزارنے پڑے تو وہ اور زیادہ پریشان ہو گئی۔ بچہ ضائع کرنے کے لیے وہ ہر روز بیس بیس گرین کونین کھاتی تھی۔ اس سے بھی اس کی طبیعت پر گرانی سی رہتی تھی۔ عزیز صاحب کے دن پشاور میں اس کے بغیر کیسے گزرتے ہیں، اس کے متعلق بھی اس کو ہر وقت فکر رہتی تھی۔ پونہ پہنچتے ہی اس نے ایک تار بھیجا تھا۔ اس کے بعد وہ بلاناغہ ہر روز ایک خط لکھ رہی تھی۔ ہر خط میں یہ تاکید ہوتی تھی کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور دوا باقاعدگی کے ساتھ پیتے رہیں۔ عزیز صاحب کو کیا بیماری تھی، اس کا مجھے علم نہیں۔ لیکن جانکی سے مجھے اتنا معلوم ہوا کہ عزیز صاحب کو چونکہ اس سے محبت ہے، اس لیے وہ فوراً اس کا کہنا مان لیتے ہیں گھر میں کئی بار بیوی سے اس کا جھگڑا ہوا کہ وہ دوا نہیں پیتے لیکن جانکی سے اس معاملے میں انھوں نے کبھی چوں بھی نہ کی۔ شروع شروع میں میرا خیال تھا کہ جانکی عزیز کے متعلق جو اتنی فکر مند رہتی ہے، محض بکواس ہے، بناوٹ ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ میں نے اس کی بے تکلف باتوں سے محسوس کیا کہ اسے حقیقتاً عزیز کا خیال ہے۔ اس کا جب خط آیا، جانکی پڑھ کرضرور روئی۔ فلم کمپنیوں کے طواف کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ لیکن ایک روز جانکی کو یہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی کہ اس کا اندیشہ غلط تھا۔ دن واقعی اوپر ہو گئے تھے لیکن وہ بات جس کا اسے کھٹکا تھا، نہیں تھی۔ جانکی کو پونہ آئے بیس روز ہو چلے تھے۔ عزیز کو وہ خط پر خط لکھ رہی تھی۔ اس کی طرف سے بھی لمبے لمبے محبت نامے آتے تھے۔ ایک خط میں عزیز نے مجھ سے کہا تھا کہ پونہ میں اگر جانکی کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو میں بمبئی میں کوشش کروں کیونکہ وہاں بے شمار اسٹوڈیو ہیں۔ بات معقول تھی لیکن میں سیزیو لکھنے میں مصروف تھا، اس لیے جانکی کے ساتھ بمبئی جانا مشکل تھا، لیکن میں نے پونہ سے اپنے دوست سعید جو کو ایک فلم میں ہیرو کا پارٹ ادا کررہا تھا، ٹیلی فون کیا اتفاق سے وہ اس وقت اسٹوڈیو میں موجود نہ تھا۔ آفس میں نرائن کھڑا تھا اسے جب معلوم ہوا کہ میں پونہ سے بول رہا ہوں تو ٹیلی فون لے لیا اور زور سے چلایا۔

’’ہلو، منٹو۔ نرائن اسپیکنگ فرام دس انڈ۔ کہو، بات کیاہے۔ سعید اس وقت اسٹوڈیو میں نہیں ہے۔ گھر میں بیٹھا رضیہ سے آخری حساب کتاب کررہا ہے۔ میں نے پوچھا

’’کیا مطلب؟‘‘

نرائن نے ادھر سے جواب دیا، کھٹ پٹ ہو گئی ہے اصل میں رضیہ نے ایک اور آدمی سے ٹانکا ملا لیا ہے۔ میں نے کہا۔

’’لیکن یہ حساب کتاب کیسا ہورہا ہے؟‘‘

نرائن بولا۔

’’بڑا کمینہ ہے یار، سعید۔ اس سے کپڑے لے رہے ہیں جو اس نے خرید کر دیے تھے۔ ‘‘

بات یہ ہے کہ پشاور سے میرے ایک عزیز نے ایک عورت یہاں بھیجی ہے۔ جسے فلموں میں کام کرنے کا شوق ہے۔ ‘‘

جانکی میرے پاس ہی کھڑی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے مناسب و موزوں لفظوں میں اپنا مدعا بیان نہیں کیا۔ میں تصحیح کرنے ہی والا تھا کہ نرائن کی بلند آواز کانوں کے اندر گھسی۔

’’عورت! پشاور کی عورت خو، بیجو اس کو جلدی۔ خو ہم بھی قصور کا پٹھان ہے۔ میں نے کہا

’’بکواس نہ کرو نرائن سنو، کل دکن کوئن سے میں انھیں بمبئی بھیج رہا ہوں۔ سعید یا تم کوئی بھی اسے اسٹیشن پر لینے کے لیے آجانا، کل دکن کوئن سے۔ یاد رہے۔ نرائن کی آواز آئی۔

’’پر ہم اسے پہچانیں گے کیسے؟‘‘

میں نے جوا بدیا۔

’’وہ خود تمہیں پہچان لے گی۔ لیکن دیکھو کوشش کرکے اسے کسی نہ کسی جگہ ضرور رکھوا دینا۔ ‘‘

تین منٹ گزر گئے۔ میں نے ٹیلی فون بند کیا اور جانکی سے کہا۔

’’کل دکن کوئن سے تم بمبئی چلی جانا۔ سعید اور نرائن دونوں کی تصویریں دکھاتا ہوں۔ لمبے ترنگے خوبصورت جوان ہیں۔ تمہیں پہچاننے میں دقت نہیں ہو گی۔ ‘‘

میں نے البم میں جانکی کو سعید اور نرائن کے مختلف فوٹو دکھائے۔ دیر تک وہ انھیں دیکھتی رہی۔ میں نے نوٹ کیاکہ سعید کا فوٹو اس نے زیادہ غورسے دیکھا۔ البم ایک طرف رکھ کر میری آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈالنے کی ڈگمگاتی کوشش کرتے ہوئے، اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’دونوں کیسے آدمی ہیں؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ دونوں کیسے آدمی ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ فلموں میں اکثر آدمی بُرے ہوتے ہیں۔ ‘‘

اس کے لہجے میں ایک ٹوہ لینے والی سنجیدگی تھی۔ میں نے کہا۔

’’یہ تو دُرست ہے لیکن فلموں میں نیک آدمیوں کی ضرورت ہی کہاں ہوتی ہے!‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں۔ ایک قسم ان انسانوں کی ہے جو اپنے زخموں سے درد کا اندازہ کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان کی ہے جو دوسروں کے زخم دیکھ کر درد کا اندازہ کرتے ہیں۔ تمہارا خیال ہے، کون سی قسم کے انسان زخم کے درد اور اس کی تہ کی جلن کو صحیح طور پرمحسوس کرتے ہیں۔ ‘‘

اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔

’’وہ جن کے زخم لگے ہوتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’بالکل درست۔ فلموں میں اصل کی اچھی نقل وہی اتار سکتا ہے جسے اصل کی واقفیت ہو۔ ناکام محبت میں دل کیسے ٹوٹتا ہے، یہ ناکامِ محبت ہی اچھی طرح بتا سکتا ہے۔ وہ عورت جو پانچ وقت جا نماز بچھا کر نماز پڑھتی ہے اور عشق و محبت کو سُور کے برابر سمجھتی ہے، کیمرے کے سامنے کسی مرد کے ساتھ اظہارِ محبت کیا خاک کرے گی!‘‘

اس نے پھر سوچا۔

’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلم لائن میں داخل ہونے سے پہلے عورت کو سب چیزیں جاننی چاہئیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’یہ ضروری نہیں۔ فلم لائن میں آکر بھی وہ چیزیں جان سکتی ہے۔ ‘‘

اس نے میری بات پر غور نہ کیا اور جو پہلا سوال کیا تھا، پھر اسے دہرایا۔

’’سعید صاحب اور نرائن صاحب کیسے آدمی ہیں؟‘‘

’’تم تفصیل سے پوچھنا چاہتی ہو؟‘‘

’’تفصیل سے آپ کا کیا مطلب؟‘‘

’’یہ کہ دونوں میں سے آپ کے لیے کون بہتر رہے گا!‘‘

جانکی کو میری یہ بات ناگوار گزری۔

’’کیسی باتیں کرتے ہیں آپ؟‘‘

’’جیسی تم چاہتی ہو۔ ‘‘

’’ہٹائیے بھی۔ ‘‘

یہ کہہ وہ مسکرائی۔

’’میں اب آپ سے کچھ نہیں پوچھوں گی۔ ‘‘

میں نے مسکراتے ہُوئے کہا۔

’’جب پوچھو گی تو میں نرائن کی سفارش کروں گا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ وہ سعید کے مقابلے میں بہتر ا نسان ہے۔ ‘‘

میرا اب بھی یہی خیال ہے۔ سعید شاعر ہے، ایک بہت بے رحم قسم کا شاعر۔ مرغی پکڑے گا تو ذبح کرنے کی بجائے اس کی گردن مروڑ دے گا۔ گردن مروڑ کراس کے پر نوچے گا۔ پر نوچنے کے بعد اس کی یخنی نکالے گا۔ یخنی پی کر اور ہڈیاں چبا کر وہ بڑے آرام اور سکون سے ایک کونے میں بیٹھ کر اس کی مرغی کی موت پر ایک نظم لکھے گا جو اس کے آنسوؤں میں بھیگی ہو گی۔ شراب پیے گا تو کبھی بہکے گا نہیں۔ مجھے اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کیونکہ شراب کا مطلب ہی فوت ہو جاتا ہے۔ صبح بہت آہستہ آہستہ بستر پر سے اُٹھے گا۔ نوکر چائے کی پیالی بنا کر لائے گا۔ اگر رات کی بچی ہُوئی رم سرہانے پڑی ہے تو اسے چائے میں انڈیل لے گا اور اس مکسچر کو ایک ایک گھونٹ کرکے ایسے پیے گا جیسے اس میں ذائقے کی کوئی حس ہی نہیں۔ بدن پرکوئی پھوڑا نکلا ہے۔ خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے، مگر مجال ہے جو وہ اس کی طرف متوجہ ہو۔ پیپ نکل رہی ہے، گل سڑ گیا ہے، ناسور بننے کا خطرہ ہے، لیکن سعید کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائے گا۔ آپ اس سے کچھ کہیں گے تو یہ جواب ملے گا۔

’’اکثر اوقات بیماریاں انسان کی جزو بدن ہو جاتی ہیں۔ جب مجھے یہ زخم تکلیف نہیں دیتا تو علاج کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

اور یہ کہتے ہوئے وہ زخم کی طرف اس طرح دیکھے گا جیسے کوئی اچھا شعر نظر آگیا ہے۔ ایکٹنگ وہ ساری عمر نہیں کرسکے گا، اس لیے کہ وہ لطیف جذبات سے قریب قریب عاری ہے۔ میں نے اسے ایک فلم میں دیکھا جو ہیروئن کے گانوں کے باعث بہت مقبول ہوا تھا۔ ایک جگہ اس نے اپنی محبوبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر محبت کا اظہار کرنا تھا۔ خدا کی قسم اس نے ہیروئن کا ہاتھ کچھ اس طرح اپنے ہاتھ میں لیا جیسے کتے کا پنجہ پکڑا جاتا ہے۔ میں اس سے کئی بار کہہ چکا ہوں ایکٹر بننے کا خیال اپنے دماغ سے نکال دو، اچھے شاعر ہو، گھر بیٹھو اور نظمیں لکھا کرو۔ مگر اس کے دماغ پر ابھی تک ایکٹنگ کی دُھن سوار ہے۔ نرائن مجھے بہت پسند ہے۔ اسٹوڈیو کی زندگی کے جو اصول اس نے اپنے لیے وضع کر رکھے ہیں، مجھے اچھے لگتے ہیں۔ 1۔ ایکٹر جب تک ایکٹر ہے، اسے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ شادی کرلے تو فوراً فلم کو طلاق دے کر دودھ دہی کی دکان کھول لے۔ اگر مشہور ایکٹر رہا تو کافی آمدنی ہو جایا کرے گی۔ 2۔ کوئی ایکٹرس تمہیں بھیا یا بھائی صاحب کہے تو فوراً اس کے کان میں کہو، آپ کی انگیا کا سائز کیا ہے۔ 3۔ کسی ایکٹرس پر اگر تمہاری طبیعت آگئی ہے تو تمہیدیں باندھنے میں وقت ضائع نہ کرو۔ اس سے تخلیے میں ملو اور کہو کہ میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں، اس کا یقین نہ آئے تو پوری جیب باہر نکال کر دکھا دو۔ 4۔ اگرکوئی ایکٹرس تمہارے حصے میں آجائے تو اس کی آمدنی میں سے ایک پیسہ بھی نہ لو ایکٹرسوں کے شوہروں اور بھائیوں کے لیے یہ پیسہ حلال ہے۔ 5۔ اس بات کا خیال رکھنا کہ ایکٹرس کے بطن سے تمہاری کوئی اولاد نہ ہو۔ سوراج ملنے کے بعد البتہ تم اس کی اولاد پیدا کرسکتے ہو۔ 6۔ یاد رکھو کہ ایکٹر کی بھی عاقبت ہوتی ہے۔ اسے ریزر اور کنگھی سے سنوارنے کے بجائے کبھی کبھی غیر مہذب طریقے سے بھی سنوارنے کی کوشش کیا کرو، مثال کے طور پر کوئی نیک کام کرکے۔ 7۔ اسٹوڈیو میں سب سے زیادہ احترام پٹھان چوکیدار کا کرو۔ صبح اسٹوڈیو میں آتے وقت اسے سلام کرنے سے تمہیں فائدہ ہو گا۔ یہاں نہیں تو دوسری دنیا میں، جہاں فلم کمپنیاں نہیں ہوں گی۔ 8۔ شراب اور ایکٹرس کی عادت ہرگز نہ ڈالو۔ بہت ممکن ہے کہ کسی روز کانگرس گورنمنٹ لہر میں آکر یہ دونوں چیزیں ممنوع قرار دے دے۔ 9۔ سوداگر، مسلمان سوداگر ہوسکتا ہے۔ لیکن ایکٹر ہندو ایکٹر، یا مسلم ایکٹر نہیں ہوسکتا۔ 10۔ جھوٹ نہ بولو۔ یہ سب باتیں

’’نرائن کے دس احکام‘‘

کے عنوان تلے اس نے اپنی ایک نوٹ بک میں لکھ رکھی ہیں جن سے اس کے کیریکٹر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ان سب پر عمل نہیں کرتا۔ مگر یہ حقیقت نہیں۔ سعید اور نرائن کے متعلق جو میرے خیالات تھے۔ میں نے جانکی کے پوچھے بغیر اشارۃً بتا دیے اور آخر میں اس سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر تم اس لائن میں آگئیں تو کسی نہ کسی مرد کا سہارا تمہیں لینا پڑے گا۔ نرائن کے متعلق میرا خیال ہے کہ اچھا دوست ثابت ہو گا۔ میرا مشورہ اس نے سُن لیا اور بمبئی چلی گئی۔ دوسرے روز خوش خوش واپس آئی کیونکہ نرائن نے اپنے اسٹوڈیو میں ایک سال کے لیے پانچ سو روپے ماہوار پر اسے ملازم کرادیا تھا۔ یہ ملازمت اسے کیسی ملی، دیر تک اس کے متعلق باتیں ہوئیں۔ جب اور کچھ سننے کو نہ رہا تو میں نے اس سے پوچھا۔

’’سعید اور نرائن، دونوں سے تمہاری ملاقات ہوئی، ان میں سے کس نے تم کو زیادہ پسند کیا؟‘‘

جانکی کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ لغزش بھری نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہُوئے اس نے کہا۔

’’سعید صاحب!‘‘

یہ کہہ کروہ ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔

’’سعادت صاحب آپ نے کیوں اتنے پُل باندھے تھے۔ نرائن کی تعریفوں کے؟‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں‘‘

’’بڑا ہی واہیات آدمی ہے۔ شام کو باہر کرسیاں بچھا کر سعید صاحب اور وہ شراب پینے کے لیے بیٹھے تو باتوں باتوں میں میں نے نرائن بھیا کہا۔ اپنا منہ میرے کان کے پاس لاکرپوچھا۔

’’تمہاری انگیا کا سائز کیا ہے۔ ‘‘

’’بھگوان جانتا ہے میرے تن بدن میں تو آگ ہی لگ گئی کیسا لچر آدمی ہے۔ ‘‘

جانکی کے ماتھے پر پسینہ آگیا۔ میں زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس نے تیزی سے کہا۔

’’آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟‘‘

’’اس کی بے وقوفی پر۔ ‘‘

یہ کہہ کر میں نے ہنسنا بند کردیا۔ تھوڑی دیر نرائن کو برا بھلا کہنے کے بعد جانکی نے عزیز کے متعلق فکر مند لہجے میں باتیں شروع کردیں۔ کئی دنوں سے اس کا خط نہیں آیا تھا۔ اس لیے طرح طرح کے خیال اسے ستا رہے تھے۔ کہیں انھیں پھر زکام نہ ہو گیا ہو۔ اندھا دھند سائیکل چلاتے ہیں، کہیں حادثہ ہی نہ ہو گیا ہو۔ پونہ ہی نہ آرہے ہوں، کیونکہ جانکی کورخصت کرتے وقت انھوں نے کہا تھا ایک روز میں چپ چاپ تمہارے پاس چلا آؤں گا۔ باتیں کرنے کے بعد اس کا تردّد کم ہوا تو اس نے عزیز کی تعریفیں شروع کردیں۔ گھر میں بچوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہر روز صبح ان کو ورزش کراتے ہیں اور نہلا دھلا کر سکول چھوڑنے جاتے ہیں۔ بیوی بالکل پھوہڑ ہے، اس لیے رشتہ داروں سے سارا رکھ رکھاؤ خود انہی کو کرنا پڑتا ہے۔ ایک دفعہ جانکی کو ٹائی فائڈ ہو گیا تھا تو بیس دن تک متواتر نرسوں کی طرح اس کی تیمار داری کرتے رہے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے روز مناسب و موزوں الفاظ میں میرا شکریہ ادا کرنے کے بعد وہ بمبئی چلی گئی۔ جہاں اس کے لیے ایک نئی اور چمکیلی دنیا کے دروازے کھل گئے تھے۔ پونہ میں مجھے تقریباً دو مہینے کہانی کا منظر نامہ تیار کرنے میں لگے۔ حقِ خدمت وصول کرکے میں نے بمبئی کا رخ کیا جہاں مجھے ایک نیا کنٹریکٹ مل رہا تھا۔ میں صبح پانچ بجے کے قریب اندھیری پہنچا جہاں ایک معمولی بنگلے میں سعید اور نرائن دونوں اکٹھے رہتے تھے۔ برآمدے میں داخل ہوا تو دروازہ بند پایا۔ میں نے سوچا سو رہے ہوں گے، تکلیف نہیں دینا چاہیے۔ پچھلی طرف ایک دروازہ ہے۔ جو نوکروں کے لیے اکثر کھلا رہتا ہے، میں اس میں سے اندر داخل ہُوا۔ باورچی خانہ اور ساتھ والا کمرہ جس میں کھانا کھایا جاتا ہے، حسبِ معمول بے حد غلیظ تھے۔ سامنے والا کمرہ مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ میں نے اس کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ کمرے میں دو پلنگ تھے۔ ایک پر سعید اور اسکے ساتھ کوئی اور لحاف اوڑھے سو رہا تھا۔ مجھے سخت نیند آرہی تھی۔ دوسرے پلنگ پر میں کپڑے اُتارے بغیر لیٹ گیا پائنتی پر کمبل پڑا تھا، یہ میں نے ٹانگوں پر ڈال لیا۔ سونے کا ارادہ ہی کررہا تھاکہ سعید کے پیچھے سے ایک چوڑیوں والا ہاتھ نکلا اور پلنگ کے پاس رکھی ہوئی کرسی کی طرف بڑھنے لگا۔ کرسی پر لٹھے کی سفید شلوار لٹک رہی تھی۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ سعید کے ساتھ جانکی لیٹی تھی۔ میں نے کرسی پر سے شلوار اٹھائی اور اس کی طرف پھینک دی۔ نرائن کے کمرے میں جا کر میں نے اسے جگایا۔ رات کے دو بجے اس کی شوٹنگ ختم ہوئی تھی، مجھے افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ اس غریب کو جگایا۔ لیکن وہ مجھ سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ کسی خاص موضع پر نہیں۔ مجھے اچانک دیکھ کر بقول اس کے وہ کچھ بے ہودہ بکواس کرنا چاہتا تھا، چنانچہ صبح نو بجے تک ہم بے ہودہ بکواس میں مشغول رہے جس میں بار بار جانکی کا بھی ذکر آیا۔ جب میں نے انگیا والی بات چھیڑی تو نرائن بہت ہنسا۔ ہنستے ہنستے اس نے کہا سب سے مزے دار بات تو یہ ہے کہ جب میں نے اس کے کان کے ساتھ منہ لگا کر پوچھا۔ تمہاری انگیا کا سائز کیا ہے تو اس نے بتا دیا کہا۔

’’چوبیس۔ ‘‘

اس کے بعد اچانک اسے میرے سوال کی بے ہودگی کا احساس ہوا۔ مجھے کوسنا شروع کردیا۔ بالکل بچی ہے۔ جب کبھی مجھ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تو سینے پر دوپٹہ رکھ لیتی ہے۔ لیکن منٹو! بڑی وفادار عورت ہے۔ میں نے پوچھا۔

’’یہ تم نے کیسے جانا؟‘‘

نرائن مسکرایا۔

’’عورت، جو ایک بالکل اجنبی آدمی کو اپنی انگیا کا صحیح سائز بتا دے، دھوکے باز ہرگز نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

عجیب و غریب منطق تھی۔ لیکن نرائن نے مجھے بڑی سنجیدگی سے یقین دلایا کہ جانکی بڑی پُر خلوص عورت ہے۔ اس نے کہا منٹو۔

’’تمہیں معلوم نہیں سعید کی کتنی خدمت کررہی ہے۔ ایسے انسان کی خبر گیری جو پرلے درجے کا بے پروا ہو آسان کام نہیں۔ لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ جانکی اس مشکل کو بڑی آسانی سے نبھا رہی ہے۔ عورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک پر خلوص اور ایماندار آیا بھی ہے۔ صبح اٹھ کر اس خرذات کو جگانے میں آدھ گھنٹہ صرف کرتی ہے۔ اس کے دانت صاف کراتی ہے، کپڑے پہناتی ہے، ناشتہ کراتی ہے اور رات کو جب وہ رم پی کر بستر پر لیٹتا ہے تو سب دروازے بند کرکے اس کے ساتھ لیٹ جاتی ہے اور جب اسٹوڈیو میں کسی سے ملتی ہے تو صرف سعید کی باتیں کرتی ہیں۔ سعید صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں۔ سعیدصاحب بہت اچھا گاتے ہیں۔ سعید صاحب کا وزن بڑھ گیا ہے۔ سعید صاحب کا پل اوور تیار ہو گیا ہے۔ سعید صاحب کے لیے پشاور سے پوٹھوہاری سینڈل منگوائی ہے۔ سعید صاحب کے سر میں ہلکا ہلکا درد ہے۔ اسپرو لینے جارہی ہوں۔ سعید صاحب نے آج مجھ پر ایک شعر کہا۔ اور جب مجھ سے مڈبھیڑ ہوتی ہے تو انگیا والی بات یاد کرکے تیوری چڑھا لیتی ہے۔ ‘‘

میں تقریباً دس دن سعید اور نرائن کا مہمان رہا۔ اس دوران میں سعید نے جانکی کے متعلق مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ ان کا معاملہ کافی پرانا ہو چکا تھا۔ جانکی سے البتہ کافی باتیں ہوئیں۔ وہ سعید سے بہت خوش تھی لیکن اسے اس کی بے پروا طبعیت کا بہت گلہ تھا۔

’’سعادت صاحب! اپنی صحت کا بالکل ہی خیال نہیں رکھتے۔ بہت بے پرواہ ہیں۔ ہر وقت سوچنا، جو ہوا اس لیے کسی بات کا خیال ہی نہیں رہتا۔ آپ ہنسنے لگے، لیکن مجھے ہر روز ان سے پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ سنڈاس گئے تھے یا نہیں۔ ‘‘

نرائن نے مجھ سے جو کچھ کہا تھا، ٹھیک نکلا۔ جانکی ہر وقت سعید کی خبر گیری میں منہمک رہتی تھی۔ میں دس دن اندھیری کے بنگلے میں رہا۔ ان دس دنوں میں جانکی کی بے لوث خدمت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ لیکن یہ خیال بار بار آتا رہا کہ عزیز کو کیا ہوا۔ جانکی کو اس کا بھی تو بہت خیال رہتا ہے۔ کیا سعید کو پا کروہ اس کو بھول چکی تھی۔ میں نے اس سوال کا جواب جانکی ہی سے پوچھ لیا ہوتا اگر میں کچھ دن اور وہاں ٹھہرتا۔ جس کمپنی سے میرا کنٹریکٹ ہونے والا تھا، اس کے مالک سے میری کسی بات پر چخ ہو گئی اور میں دماغی تکدر دُور کرنے کے لیے پونہ چلا گیا۔ دو ہی دن گزرے ہوں گے کہ بمبئی سے عزیز کا تار آیا کہ میں آرہا ہوں۔ پانچ چھ گھنٹے کے بعد وہ میرے پاس تھا۔ اور دوسرے روز صبح سویرے جانکی میرے کمرے پر دستک دے رہی تھی۔ عزیز اور جانکی جب ایک دوسرے سے ملے تو انھوں نے دیر سے بچھڑے ہُوئے عاشق معشوق کی سرگرمی ظاہر نہ کی۔ میرے اور عزیز کے تعلقات شروع سے بہت سنجیدہ اور متین رہے ہیں، شاید اسی وجہ سے وہ دونوں معتدل رہے۔ عزیز کا خیال تھا ہوٹل میں اُٹھ جائے لیکن میرا دوست جس کے یہاں میں ٹھہرا تھا آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے کولہا پور گیا تھا، اس لیے میں نے عزیز اور جانکی کو اپنے پاس ہی رکھا۔ تین کمرے تھے۔ ایک میں جانکی سو سکتی تھی دوسرے میں عزیز۔ یوں تو مجھے ان دونوں کو ایک ہی کمرہ دینا چاہیے تھا لیکن عزیز سے میری اتنی بے تکلفی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس نے جانکی سے اپنے تعلق کو مجھ پر ظاہر بھی نہیں کیا تھا۔ رات کو دونوں سینما دیکھنے چلے گئے۔ میں ساتھ نہ گیا، اس لیے کہ میں فلم کے لیے ایک نئی کہانی شروع کرنا چاہتا تھا۔ دو بجے تک میں جاگتا رہا۔ اس کے بعد سو گیا۔ ایک چابی میں نے عزیز کو دے دی تھی۔ اس لیے مجھے ان کی طرف سے اطمینان تھا۔ رات کو میں چاہے بہت دیر تک کام کروں، ساڑھے تین اور چار بجے کے درمیان ایک دفعہ ضرور جاگتا ہوں اور اٹھ کر پانی پیتا ہوں۔ حسب عادت اس رات کو بھی میں پانی پینے کے لیے اٹھا۔ اتفاق سے جو کمرہ میرا تھا، یعنی جس میں میں نے اپنا بستر جمایا ہوا تھا، عزیز کے پاس تھا اور اس میں میری صراحی پڑی تھی۔ اگر مجھے شدت کی پیاس نہ لگی ہوتی تو عزیز کو تکلیف نہ دیتا۔ لیکن زیادہ وسکی پینے کے باعث میرا حلق بالکل خشک ہورہا تھا، اس لیے مجھے دستک دینی پڑی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا۔ جانکی نے آنکھیں ملتے ملتے دروازہ کھولا اور کہا

’’سعید صاحب!‘‘

اور جب مجھے دیکھا تو ایک ہلکی سی

’’اوہ‘‘

اس کے منہ سے نکل گئی۔ اندر کے پلنگ پر عزیز سو رہا تھا۔ میں بے اختیار مسکرایا۔ جانکی بھی مسکرائی اور اس کے تیکھے ہونٹ ایک کونے کی طرف سکڑ گئے۔ میں نے پانی کی صراحی لی اور چلا آیا۔ صبح اُٹھا تو کمرے میں دُھواں جمع تھا۔ باورچی خانے میں جا کر دیکھا تو جانکی کاغذ جلا جلا کر عزیز کے غسل کے لیے پانی گرم کررہی تھی۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر مسکرائی اور انگیٹھی میں پھونکیں مارتی ہوئی کہنے لگی۔

’’عزیز صاحب ٹھنڈے پانی سے نہائیں تو انھیں زکام ہو جاتا ہے۔ میں نہیں تھی پشاور میں تو ایک مہینہ بیماررہے، اور رہتے بھی کیوں نہیں جب دوا پینی ہی چھوڑ دی تھی۔ آپ نے دیکھا نہیں کتنے دبلے ہو گئے ہیں۔ ‘‘

اور عزیز نہا دھو کر جب کسی کام کی غرض سے باہر گیا تو جانکی نے مجھ سے سعید کے نام تار لکھنے کے لیے کہا۔

’’مجھے کل یہاں پہنچتے ہی انھیں تار بھیجنا چاہیے تھا۔ کتنی غلطی ہوئی مجھ سے انھیں بہت تشویش ہورہی ہو گی۔ ‘‘

اس نے مجھ سے تار کا مضمون بنوایا جس میں اپنی بخیریت پہنچنے کی اطلاع تو تھی لیکن سعید کی خیریت دریافت کرنے کا اضطراب زیادہ تھا۔ انجکشن لگوانے کی تاکید بھی تھی۔ چار روز گزر گئے۔ سعید کو جانکی نے پانچ تار روانہ کیے پر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ بمبئی جانے کا ارادہ کررہی تھی کہ اچانک شام کو عزیز کی طبیعت خراب ہو گئی۔ مجھ سے سعید کے نام ایک اور تار لکھوا کر وہ ساری رات عزیز کی تیمار داری میں مصروف رہی۔ معمولی بخار تھا لیکن جانکی کو بے حد تشویش تھی۔ میرا خیال ہے اس تشویش میں سعید کی خاموشی کا پیدا کردہ وہ اضطراب بھی شامل تھا۔ وہ مجھ سے اس دوران میں کئی بار کہہ چکی تھی۔

’’سعادت صاحب میرا خیال ہے سعید صاحب ضرور بیمار ہیں ورنہ وہ مجھے میرے تاروں اور خطوط کا جواب ضرورلکھتے۔ ‘‘

پانچویں روز شام کو عزیز کی موجودگی میں سعید کا تار آیا جس میں لکھا تھا میں بہت بیمار ہُوں فوراً چلی آؤ۔ تار آنے سے پہلے جانکی میری کسی بات پر بے تحاشا ہنس رہی تھی۔ لیکن جب اس نے سعید کی بیماری کی خبر سنی تو ایک دم خاموش ہو گئی۔ عزیز کو یہ خاموشی بہت ناگوار معلوم ہوئی کیونکہ جب اس نے جانکی کومخاطب کیا تو اس کے لہجے میں تیزی تھی۔ میں اُٹھ کرچلا گیا۔ شام کو جب واپس آیا تو جانکی اور عزیز کچھ اس طرح علیحدہ علیحدہ بیٹھے تھے جیسے ان میں کافی جھگڑا ہوا تھا۔ جانکی کے گالوں پر آنسوؤں کا میل تھا جب میں کمرے میں داخل ہوا تو ادھر ادھر کی باتوں کے بعد جانکی نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور عزیز سے کہا۔

’’میں جاتی ہُوں، لیکن بہت جلد واپس آجاؤں گی۔ ‘‘

پھر مجھ سے مخاطب ہوئی۔

’’سعادت صاحب ان کا خیال رکھیے، ابھی تک بخار دُور نہیں ہُوا۔ ‘‘

میں اسٹیشن تک اس کے ساتھ گیا۔ بلیک مارکیٹ سے ٹکٹ خرید کر اسے گاڑی پر بٹھایا اور گھر چلا آیا۔ عزیز کو ہلکا ہلکا بخار تھا۔ ہم دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے لیکن جانکی کا ذکر نہ آیا۔ تیسرے روز صبح ساڑھے پانچ بجے کے قریب مجھے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اس کے بعد جانکی کی۔ لفظوں کو اوپر تلے کرتی ہُوئی وہ عزیز سے پوچھ رہی تھی کہ اس کی طبیعت اب کیسی ہے اور کیا اس کی غیر موجودگی میں اس نے باقاعدہ دوا پی تھی یا نہیں۔ عزیز کی آواز میرے کانوں تک نہ پہنچی لیکن آدھ گھنٹے بعد جب کہ نیند سے میری آنکھیں مندرہی تھیں، عزیز کی خفگی آمیز باتوں کا دبا دبا شور سُنائی دیا۔ سمجھ میں تو کچھ نہ آیا لیکن اتنا پتہ چل گیا کہ وہ جانکی سے اپنی ناراضی کا اظہار کررہا تھا۔ صبح دس بجے عزیز نے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اور جانکی کا گرم کیا ہوا پانی ویسے ہی غسل خانے میں پڑا رہا۔ جب میں نے جانکی سے اس بات کا ذکر کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ نہا دھو کر عزیز باہر چلا گیا۔ جانکی کمرے میں پلنگ پر لیٹی رہی۔ سہ پہر کو تین بجے کے قریب جب میں اس کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ اسے بہت تیز بخار ہے۔ ڈاکٹر بلانے کے لیے باہر نکلا تو عزیز تانگے میں اسباب رکھوا رہا تھا۔ میں نے پوچھا۔ کہا جارہے ہو۔ تو اس نے میرے ساتھ ہاتھ ملایااور کہا، بمبئی! انشاء اللہ پھر ملاقات ہو گی۔ یہ کہہ کروہ اکے میں بیٹھا اور چلا گیا۔ مجھے یہ بتانے کا موقع ہی نہ ملا کہ جانکی کو بہت تیز بخار ہے۔ ڈاکٹر نے جانکی کو اچھی طرح دیکھا اور مجھے بتایا کہ اسے برونکائٹس ہے، اگر احتیاط نہ برتی تو نمونیا ہونے کا خطرہ ہے۔ ڈ اکٹر نسخہ دے کر چلا گیا تو جانکی نے عزیز کے بارے میں پوچھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ اسے نہ بتاؤں لیکن چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں تھا، اس لیے میں نے کہہ دیا کہ چلا گیا ہے۔ یہ سُن کر اسے بہت صدمہ ہوا۔ دیر تک وہ تکیے میں سر دے کر روتی رہی۔ دوسرے روز صبح گیارہ بجے کے قریب جب کہ جانکی کا بخار ایک ڈگری ہلکا تھا اور طبیعت بھی کسی قدر درست تھی، بمبئی سے سعید کا تار آیا جس میں بڑے درشت لفظوں میں لکھا تھا

’’یاد رہے کہ تم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ ‘‘

میں بہت منع کرتا رہا لیکن وہ تیز بخار ہی میں پونہ ایکسپریس سے بمبئی روانہ ہو گئی۔ پانچ چھ دنوں کے بعد نرائن کا تار آیا

’’ایک ضروری کام ہے، فوراً بمبئی چلے آؤ۔ ‘‘

میرا خیال تھا کہ کسی پروڈیوسر سے اس نے میرے کنٹریکٹ کی بات کی ہو گی، لیکن بمبئی پہنچ کر معلوم ہوا کہ جانکی کی حالت بہت نازک ہے۔ برونکائٹس بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ جب وہ پونہ سے بمبئی پہنچی تھی تو اندھیری جانے کے لیے چلتی ٹرین میں چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے گر پڑی تھی جس کے باعث اس کی دونوں رانیں بہت بری طرح چھل گئی تھیں۔ جانکی نے اس جسمانی تکلیف کو بڑی بہادری سے برداشت کیا۔ لیکن جب وہ اندھیری پہنچی اور سعید نے اس کے بندھے ہوئے اسباب کی طرف اشارہ کرکے کہا

’’مہربانی کرکے یہاں سے چلو جاؤ‘‘

تو اسے بہت روحانی تکلیف ہوئی۔ نرائن نے مجھے بتایا!

’’سعید کے منہ سے یہ برف جیسے ٹھنڈے لفظ سن کر وہ ایک لحظے کے لیے بالکل پتھر ہو گئی میرا خیال ہے اس نے تھوڑی دیر کے بعد یہ ضرور سوچا ہو گا میں گاڑی کے نیچے آکر کیوں نہ مر گئی۔ سعادت تم کچھ بھی کہو مگر سعید عورتوں سے جیسا سلوک کرتا ہے بہت ہی نامردانہ ہے۔ بے چاری کو بخار تھا۔ چلتی ریل سے گر پڑی تھی اور وہ بھی اس خر ذات کے پاس جلدی پہنچنے کے باعث۔ لیکن اس نے ان باتوں کا خیال ہی نہ کیا اور ایک بار پھر اس سے کہا۔ مہربانی کرکے یہاں سے چلی جاؤ۔ اس کے لہجے میں منٹو کسی جذبے کا اظہار نہیں تھا۔ بس ایسا تھا جیسے لنوٹائپ مشین سے اخبار کی ایک سطر ڈھل کر باہر نکل آئے۔ مجھے بہت دکھ ہوا، چنانچہ میں وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ شام کو جب واپس آیا تو جانکی موجود نہیں تھی لیکن سعید پلنگ پر بیٹھا، رم کا گلاس سامنے رکھے ایک نظم لکھنے میں مصروف تھا۔ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور اپنے کمرے میں چلا گیا دوسرے روز اسٹوڈیو سے معلوم ہوا کہ جانکی ایک اکسٹرا لڑکی کے گھر خطرناک حالت میں پڑی ہے۔ میں نے اسٹوڈیو کے مالک سے بات کی اور اسے ہسپتال بھجوا دیا۔ کل سے وہیں ہے، بتاؤ اب کیا کیا جائے۔ میں تو اسے دیکھنے جا نہیں سکتا اس لیے کہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔ تم جاؤ اور دیکھ کر آؤ کس حالت میں ہے۔ میں ہسپتال گیا تو اس نے سب سے پہلے عزیز اور سعید کے متعلق پوچھا۔ جو سلوک ان دونوں نے اس کے ساتھ کیا تھا، اس کے بعد اس کے پرخلوص استفسار نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی حالت نازک تھی۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ دونوں پھیپھڑوں پر ورم ہے اور جان کا خطرہ ہے لیکن مجھے حیرت ہے کہ جانکی اتنی بڑی تکلیف مردانہ وار برداشت کررہی تھی۔ ہسپتال سے لوٹا اور اسٹوڈیو میں نرائن کو تلاش کیا تو معلوم ہوا وہ صبح ہی سے غائب ہے۔ شام کو جب وہ گھر واپس آیا تو اس نے مجھے تین چھوٹی چھوٹی شیشیاں دکھائیں جن کا منہ ربڑ سے بند تھا۔

’’جانتے ہو یہ کیا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔

’’معلوم نہیں۔ انجکشن سے لگتے ہیں۔ ‘‘

نرائن مسکرایا۔

’’انجکشن ہی ہیں لیکن پنسلین کے۔ ‘‘

مجھے سخت حیرت ہوئی کیونکہ پنسلین اس وقت بہت ہی قلیل مقدار میں تیار ہوتی تھی۔ امریکہ اور انگلستان میں جتنی بنتی ہے، تھوڑی تھوڑی ملٹری ہسپتالوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔ چنانچہ میں نے نرائن سے پوچھا۔

’’یہ تو بالکل نایاب چیز ہے، تمہیں کیسے مل گئی؟‘‘

اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’بچپن میں گھر کی تجوری کھول کر روپے چرانا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ آج دائیں ہاتھ سے ملٹری ہوسپٹل کا ریفریجریٹر کھول کر میں نے یہ تین بلب چرائے ہیں۔ چلو جلدی کرو جانکی کو ہسپتال سے ہوٹل میں لے چلیں۔ ‘‘

ٹیکسی لے کر میں ہسپتال گیا اور جانکی کو اس ہوٹل میں لے گیا جس میں نرائن دو کمروں کا پہلے ہی بندوبست کر چکا تھا۔ جانکی نے مجھ سے کئی بار نحیف آواز میں پوچھا کہ میں اسے ہوٹل میں کیوں لایا ہوں۔ ہر بار میں نے یہی جواب دیا۔

’’تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘

اور جب اسے معلوم ہوا۔ یعنی جب نرائن سرنج ہاتھ میں لیے اسے ٹیکہ لگانے کے لیے اس کمرے میں آیا تو نفرت سے ایک طرف اس نے منہ پھیر لیا اور مجھ سے کہا۔

’’سعادت صاحب اس سے کہئے چلا جائے یہاں سے۔ ‘‘

نرائن مسکرایا۔

’’جانِ من غصّہ تھوک دو۔ یہاں تمہاری جان کا سوال ہے۔ ‘‘

جانکی کو طیش آگیا۔ نقاہت کے باوجود اٹھ کر بیٹھ گئی۔

’’سعادت صاحب! میں جاتی ہوں یہاں سے یا آپ اس حرام خور کو نکالیے باہر۔ ‘‘

نرائن نے دھکا دے کر اسے الٹا دیا اور مسکراتے ہوئے کہا۔

’’یہ حرام زادہ تمہیں انجکشن لگا کر ہی رہے گا۔ خبردار جو تم نے مزاحمت کی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک ہاتھ سے مضبوطی کے ساتھ جانکی کا بازو پکڑا، سرنج مجھے دے کر اس نے اسپرٹ میں روئی بھگوئی اور اس کا ڈنڑ صاف کیا۔ اس کے بعد روئی مجھے دے کر اس نے سرنج کی سوئی اس کے بازو کی مچھلی میں داخل کردی وہ چیخی، لیکن پنسلین اس کے جسم میں جا چکی تھی۔ جب نرائن نے جانکی کا بازو اپنی مضبوط گرفت سے علیحدہ کیا تو اس نے رونا شروع کردیا۔ نرائن نے اس کی بالکل پروا نہ کی اور اسپرٹ لگی روئی سے انجکشن والا حصّہ پونچھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ پہلا انجکشن رات کے نو بجے دیا تھا۔ دوسرا تین گھنٹے بعد دینا تھا۔ نرائن نے مجھے بتایا اگر تین کے ساڑھے تین گھنٹے ہو گئے تو پنسلین کا اثر بالکل زائل ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ جاگتا رہا تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اس نے اسٹوو جلایا، سرنج ابالی اور اس میں دوا بھری۔ جانکی خرخراہٹ بھرے سانس لے رہی تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ نرائن نے دوسرے بازو کو اسپرٹ سے صاف کیا اورسرنج کی سوئی اندرکھبو دی۔ جانکی کے ہونٹوں سے پتلی سی چیخ نکلی۔ نرائن نے دوا جسم کے اندر بھیج کر سوئی باہر نکالی اور اسپرٹ سے انجکشن والی جگہ صاف کرتے ہوئے مجھ سے کہا۔

’’اب تیسرا تین بجے۔ ‘‘

مجھے معلوم نہیں اس نے تیسرا چوتھا انجکشن کب دیا۔ لیکن جب بیدار ہوا تو اسٹوو جلنے کی آواز آرہی تھی اور نرائن ہوٹل کے بیرے سے برف کے لیے کہہ رہا تھا کیونکہ اسے پنسلین کو ٹھنڈا رکھنا تھا۔ نو بجے پانچواں انجکشن دینے کے لیے جب ہم دونوں جانکی کے کمرے میں گئے تو وہ آنکھیں کھولے لیٹی تھی۔ اس نے نفرت بھری نگاہوں سے نرائن کی دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ نرائن مسکرایا۔

’’کیوں جان من! کیا حال ہے؟‘‘

جانکی خاموش رہی۔ نرائن اس کے پاس کھڑا ہو گیا۔

’’یہ انجکشن جو میں تمہیں دے رہا ہوں عشق کے انجکشن نہیں۔ تمہارا نمونیہ دُور کرنے کے انجکشن ہیں جو میں نے ملٹری ہوسپٹل سے بڑی صفائی کے ساتھ چرائے ہیں۔ لو، اب ذرا الٹی لیٹ جاؤ اور کولہے پر سے شلوار کو ذرا نیچے کھسکا دو۔ کبھی لیا ہے یہاں انجکشن؟‘‘

یہ کہہ کر اس نے جانکی کے کولہے پر ایک جگہ گوشت کے اندر انگلی کھبوئی جانکی کی آنکھوں میں مرعوب سی نفرت پیدا ہُوئی۔ جب اس نے کروٹ بدلی تو نرائن نے کہا۔

’’شاباش!‘‘

پیشتر اس کے کہ جانکی کوئی مزاحمت کرے نرائن نے ایک ہاتھ سے اس کی شلوار نیچے کھسکائی اور مجھ سے کہا۔

’’اسپرٹ لگاؤ!‘‘

جانکی نے ٹانگیں چلانا شروع کیں تو نرائن نے کہا۔

’’جانکی! ٹانگیں وانگیں مت چلاؤ۔ میں انجکشن لگاکے رہوں گا۔ ‘‘

غرض کہ پانچواں انجکشن دے دیا گیا۔ پندرہ اور باقی تھے جو نرائن کو ہر تین گھنٹے کے بعد دینے تھے اور یہ پینتالیس گھنٹے کا کام تھا۔ پانچ انجکشن سے گو جانکی کو بظاہر کوئی نمایاں فائدہ نہیں پہنچا تھا۔ لیکن نرائن کو پنسلین کے اعجاز کا یقین تھا اور اسے پوری پوری امید تھی کہ وہ بچ جائے گی۔ ہم دونوں بہت دیر تک اس نئی دوا کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ گیارہ بجے کے قریب نرائن کا نوکر میرے نام ایک تار لے کر آیا۔ پونہ سے تھا۔ ایک فلم کمپنی نے مجھے فوراً بلایا تھا اس لیے مجھے جانا پڑا۔ دس پندرہ دنوں کے بعد کمپنی ہی کے کام سے میں بمبئی آیا۔ کام ختم کرکے جب میں اندھیری پہنچا تو سعید سے معلوم ہوا کہ نرائن ابھی تک ہوٹل ہی میں ہے۔ ہوٹل بہت دور، شہر میں تھا اس لیے رات میں وہیں اندھیری میں رہا۔ صبح آٹھ بجے وہاں پہنچا تو نرائن کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ اندر داخل ہوا تو کمرہ خالی پایا۔ دوسرے کمرے کا دروازہ کھولا تو ایک دم آنکھوں کے سامنے کچھ ہوا۔ جانکی مجھے دیکھتے ہی لحاف کے اندر گھس گئی۔ اور نرائن جو اس کے ساتھ لیٹا تھا، مجھے واپس جاتے دیکھ کر کہا۔

’’آؤ منٹو آؤ۔ میں ہمیشہ دروازہ بند کرنا بھول جاتا ہوں۔ آؤ یار۔ بیٹھو اس کرسی پر، لیکن یہ جانکی کی شلوار دے دینا!‘‘

سعادت حسن منٹو

جان محمد

میرے دوست جان محمد نے، جب میں بیمار تھا‘ میری بڑی خدمت کی۔ میں تین مہینے ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں وہ باقاعدہ شام کو آتا رہا‘ بعض اوقات جب میرے نوکر علیل ہوتے تو وہ رات کو بھی وہیں ٹھہرتا‘ تاکہ میری خبرگیری میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ جان محمد بہت مخلص دوست ہے‘ میں قریب قریب بیس روز تک بیہوش رہا تھا‘ اس دوران میں وہ آتا۔ لیکن مجھے اس کا علم نہیں تھا‘ جب مجھے ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت پریشان تھا‘ روتا بھی تھا‘ اس لیے کہ میری حالت بہت نازک تھی۔ جب میں اس قابل ہو گیا کہ بات چیت کر سکوں تو اس نے مجھ سے پوچھا

’’آپ کو تھکاوٹ تو محسوس نہیں ہوتی۔ ‘‘

میرے اعضا بالکل مفلوج ہو چکے تھے‘ معلوم نہیں کتنی دیر ہو گئی تھی مجھے بستر پر پڑے ہوئے۔ میں نے اس سے کہا

’’جان محمد۔ میرا انگ انگ دُکھتا ہے‘‘

اس نے فوراً میری بیوی سے کہا

’’کل زیتون کا تیل منگوا دیجیے۔ میں صبح آ کے مالش کر دیا کروں گا‘‘

زیتون کا تیل آ گیا اور جان محمد بھی۔ اُس نے میرے سارے بدن پر مالش کی‘ قریب قریب آدھ گھنٹا اس کا اس مشقت میں صرف ہوا‘ مجھے بڑی راحت محسوس ہوئی۔ اس کے بعد اس کا معمول ہو گیا کہ ہر روز دفتر جانے سے پہلے ہسپتال میں آتا اور میرے بدن پر مالش کرتا۔ مجھے راحت ضرور ہوتی تھی لیکن وہ اس زور سے اپنے ہاتھ چلاتا کہ میری ہڈیاں تک دُکھنے لگتیں۔ چنانچہ میں اس سے اکثر بڑے درشت لہجے میں کہتا:

’’جان محمد! تم تو میر جان لے لو گے‘‘

یہ سن کر وہ مسکرا دیتا:

’’منٹو صاحب! آپ تو بڑے سخت جان ہیں۔ اس مٹھی چاپی سے گھبرا گئے؟‘‘

میں خاموش ہو جاتا‘ اس لیے اس کی مٹھی چاپی میں کوئی جارحانہ چیز نہیں تھی‘ بلکہ سر تا پا خلوص تھا۔ تین مہینے ہسپتال میں کاٹنے کے بعد گھر آ گیا۔ جان محمد بدستور ہر روز آتا رہا۔ میری اس کی دوستی اتفاقاً ہو گئی تھی۔ ایک روز میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک ناٹے قد کے چھوٹی چھوٹی مونچھوں والے جواں سال مرد نے دروازے پر دستک دی۔ میں جب اس کو اندر کمرے میں داخل کیا تو اُس نے مجھے بتایا کہ وہ میرا مدّاح ہے۔

’’منٹو صاحب۔ میں نے آپ کو صر ف اس لیے تکلیف دی ہے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے قریب قریب آپ کی سب تصانیف پڑھی ہیں‘‘

میں نے اس کا مناسب و موزوں الفاظ میں رسمی طور پر شکریہ ادا کیا تو اس کو بڑی حیرت ہوئی‘

’’منٹو صاحب۔ آپ تو رسوم و قیود کے قائل ہی نہیں‘ پھر یہ تکلّف کیوں؟‘‘

میں نے کہا

’’نوواردوں سے بعض اوقات یہ تکلف برتنا ہی پڑتا ہے‘‘

جان محمد کی مہین مونچھوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی

’’مجھ سے آپ یہ تکلّف نہ برتیے‘‘

چنانچہ یہ تکّلف فوراً دُور ہو گیا۔ اس کے بعد جان محمد نے ہر روز میرے گھر آنا شروع کر دیا۔ شام کو وہ جب دفتر سے فارغ ہوتا تو سیدھا میرے یہاں چلا آتا۔ میری عادت ہے کہ میں کسی دوست کا حسب نسب دریافت نہیں کرتا‘ اس لیے کہ میں اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔ میں تو کسی سے ملوں تو اس سے اس کا نام بھی نہیں پوچھتا۔ یہ تمہید کافی لمبی ہو گئی‘ حالانکہ میں اختصار پسند ہوں۔ جان محمد دیر تک میرے یہاں آتا رہا‘ اس کی معلومات خاصی اچھی تھیں۔ ادب سے بھی اسے خاصا شغف ہے مگر میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ زندگی سے کسی قدر بیزار ہے۔ مجھے زندگی سے پیار ہے لیکن اس کو اس سے کوئی رغبت نہیں تھی‘ ہم دونوں جب باتیں کرتے تو وہ کہتا:

’’منٹو صاحب! آپ میرے لباس کو دیکھتے ہیں‘ یہ شلوار اور قمیص جو ملیشیا کی ہے‘ آپ یقیناً نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہوں گے۔ مگر مجھے اچھے لباس کی کوئی خواہش نہیں۔ مجھے کسی خوبصورت چیز کی خواہش نہیں‘‘

میں نے اس سے پوچھا:

’’کیوں؟‘‘

’’بس۔ میرے اندر یہ حسّ ہی نہیں رہی۔ میں ننگے فرش پر سوتا ہوں۔ نہایت واہیات ہوٹلوں میں کھانا کھاتا ہوں۔ یہ دیکھیے۔ میرے ناخن اتنے بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں کتنا میل بھرا ہوا ہے۔ میرے پاؤں ملاحظہ فرمائیے۔ ایسا نہیں لگتا کہ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ مگر مجھے ان غلاظتوں کی کچھ پروا نہیں۔ ‘‘

میں نے اُس کی غلاظتوں کے متعلق اُس سے کچھ نہ کہا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہر وقت میلا کچیلا رہتا تھا۔ اُس کو صفائی کے متعلق کبھی خیال ہی نہیں آتا تھا۔ ایک دن حسبِ معمول جب وہ شام کو میرے پاس آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اُس کی طبیعت مضمحل ہے۔ میں نے اُس سے پُوچھاکیوں جان محمد!کیا بات ہے آج۔ تھکے تھکے سے معلوم ہوتے ہو‘‘

اُس نے اپنی جیب سے ’بگلے‘ کی ڈبیا نکالی اور ایک سگریٹ سُلگا کر جواب دیا

’’تھکاوٹ ہو ہی جاتی ہے۔ کوئی خاص بات نہیں‘‘

اس کے بعد ہم دیر تک غالبؔ کی شاعری پر گفتگو کرتے رہے۔ اُس کو یہ فارسی کا شعر بہت پسند آیا۔ ؂ مابنوویم بدیں مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آں کرد کہ گردوفِن ما ہم غالبؔ کی شاعری پر تبصرہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ہمارے ایک ہمسائے کی لڑکی میری بیوی سے ملنے چلی آئی۔ چونکہ وہ پردہ نہیں کرتی تھی اس لیے وہ ہمارے درمیان بیٹھ گئی۔ جان محمد نے آنکھیں جھکا لیں اور خاموش ہو گیا۔ اس لڑکی کا نام شمیم تھا۔ دیر تک وہ بیٹھی میری بیوی اور مجھ سے باتیں کرتی رہی، لیکن اس دوران میں جان محمد اُسی طرح آنکھیں جھکائے خاموش رہا۔ کچھ اس طرح کہ اُسے کوئی پہچان نہ لے۔ اس کے بعد دوسرے دن رات کے دس بجے میرے دروازے پر دستک ہوئی‘ نوکر اُوپر سورہا تھا‘ میں دروازہ کھولا تو دیکھا کہ جان محمد ہے۔ نہایت خستہ حالت میں۔ میں بہت پریشان ہوا اور اُس سے پوچھا:

’’کیوں جان محمد۔ خیریت تو ہے‘‘

اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ پیدا ہوئی، جس سے میں بالکل ناآشنا تھا، خیریت ہے۔ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ اس لیے میں آپ کے پاس چلا آیا‘‘

مجھے سخت نیند آ رہی تھی‘ مگر جان محمد ایسے مخلص دوست کے لیے میں اِسے قربان کرنے کے لیے تیار تھا‘ مگر جب اُس نے اوٹ پٹانگ باتیں شروع کیں تو مجھے وحشت ہونے لگی۔ اس کا دماغ غیرمتوازن تھا‘ کبھی وہ آسمان کی بات کرتا‘ کبھی زمین کی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اچانک اسے ہو کیا گیا۔ ایک دن پہلے جب وہ مجھ سے ملا تو اچھا بھلا تھا۔ ایک دم اس میں اتنی تبدیلی کیسے پیدا ہو گئی؟ ساری رات اُس نے مجھے جگائے رکھا۔ آخر صبح میں نے اُس کو غسل کرنے کے لیے کہا۔ اپنے کپڑے اُسے پہننے کے لیے دیے کہ اُس کے میلے چکٹ تھے۔ پھر اُس کو لاریوں کے اڈے پر لے گیا کہ وہ سیالکوٹ اپنے والدین کے پاس چلا جائے۔ غلطی میں نے یہ کی کہ اُس کو لاری میں نہ بٹھایا۔ کرایہ وغیرہ میں نے اُسے دے دیا تھا۔ میں مطمئن تھا کہ وہ اپنے گھر چلاجائے گا، مگر اُسی دن رات کے تین بجے دروازے پر بڑے زور سے دستک ہوئی۔ میں باہر صحن میں سو رہا تھا۔ ہڑبڑا کر اٹھا، سوچا کہ شاید کوئی تار آیا ہو۔ دروازہ کھولا تو سامنے جان محمد۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ سیالکوٹ کیوں نہیں گیا۔ اُس نے اِس سوال کاکوئی معقول جواب نہ دیا۔ اُس کا دماغ پہلے سے زیادہ غیر متوازن تھا۔ فرش پر لیٹ کر اپنی کنپٹیوں پر زور زور سے گھونسے مارنے لگا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا، کیا کروں۔ وہ یقیناً جنون کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے سوچا، پیار محبت سے کام لینا چاہیے، چنانچہ بہت دیر تک میں اُس کا سر سہلاتا رہا۔ اس کے بعد اُس سے پوچھا،

’’جان محمد تمھیں کیا تکلیف ہے؟‘‘

اس نے کوئی جواب نہ دیااور فرش پر میری بچیوں کے جو ماربل پڑے ہوئے تھے‘ اُن سے کھیلنے لگا۔ اس کے بعد اُس نے ہر ماربل کو سجدہ کیا اور رونے لگا۔ میں نے پھر اُس سے بڑی محبت سے پوچھا،

’’جان محمد! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے‘‘

اس کی آنکھیں سرخ انگارہ تھیں جیسے کئی دنوں سے شراب کے نشے میں دُھت ہے۔ اس نے مجھے ان آنکھوں سے دیکھا اور پُوچھا،

’’تم اتنے بڑے نفسیات نگار بنتے ہو۔ کیا یہ نہیں جان سکتے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے؟‘‘

’’میں اپنی کم مائیگی تسلیم کرتا ہوں۔ اب تم خود بتادو‘‘

جان محمد مسکرایا

’’مجھے شمیم ہو گیاہے‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’اب بھی مطلب پوچھتے ہیںآپ‘‘

میں نے اُس سے کہا

’’بھئی شمیم کوئی بیماری تو نہیں‘‘

جان محمد ہنسا

’’بہت بڑی بیماری ہے منٹو صاحب۔ یہ کئی لوگوں کو ہوچکی ہے۔ اُن میں سے میں بھی ایک ہوں۔ پہلے ڈلہوزی میں ہوتی تھی۔ اب یہاں لاہور چلی آئی ہے‘‘

میں سمجھ گیا۔ جان محمد کئی برس ڈلہوزی میں رہ چکا تھا اور شمیم بھی‘ لیکن میں نے اُس سے کہا۔

’’میں ابھی تک نہیں سمجھا۔ تم اب سو جاؤ۔ چلو آؤ۔ اندر صوفے پرلیٹ جاؤ۔ خبردار جو تم نے شور مچایا‘‘

وہ اندر چلاآیا اور صوفے پر لیٹ گیا۔ میں صبح جلدی اُٹھنے کا عادی ہوں۔ ساڑھے چار بجے کے قریب اُٹھا تو دیکھا کہ جان محمد غائب ہے۔ سات بجے پتہ چلا کہ شمیم بھی اپنے فلیٹ میں نہیں ہے۔ کہیں غائب ہو گئی۔ ۱۳ مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

تین میں، نہ تیرہ میں

’’میں تین میں ہوں نہ تیرہ میں، نہ ستلی کی گرہ میں‘‘

’’اب تم نے اُردو کے محاورے بھی سیکھ لیے۔ ‘‘

’’آپ میرا مذاق کیوں اُڑاتے ہیں۔ اردو میری مادری زبان ہے‘‘

’’پدری کیا تھی؟ تمہارے والد بزرگوار تو ٹھیٹھ پنجابی تھے۔ اللہ اُنھیں جنت نصیب کرے بڑے مرنجاں مرنج بزرگ تھے۔ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ اتنی دیر لکھنؤمیں رہے، وہاں پچیس برس اُردو بولتے رہے لیکن مجھ سے ہمیشہ انھوں نے پنجابی ہی میں گفتگو کی۔ کہا کرتے تھے اُردو بولتے بولتے میرے جبڑے تھک گئے ہیں اب ان میں کوئی سکت باقی نہیں رہی۔ ‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں‘‘

’’میں تو ہمیشہ جھوٹ بولتا ہوں۔ کوئی بات بھی تم سے کہوں تم یہی سمجھو گی کہ جھوٹ ہے حالانکہ جھوٹ بولنا عورت کی فطرت ہے۔ ‘‘

’’آپ عورت ذات پر ایسے رکیک حملے نہ کیا کریں۔ مجھے بڑی ہی کوفت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’بہت بہتر آئندہ محتاط رہنے کی کوشش کروں گا۔ ‘‘

’’صرف کوشش کریں گے۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آپ اپنی زبان ایسے معاملوں میں قطعی طور پر بند رکھیں گے۔ ‘‘

’’یہ وعدہ میں نہیں کرسکتا۔ بندہ بشر ہے۔ ہوسکتا ہے سہواً میرے منہ سے کچھ نکل جائے جسے تم حملہ قرار دے دو۔ ‘‘

’’میں یہ سوچتی ہوں آپ۔ آپ کس قسم کے شوہر ہیں بس ہر بات کو مذاق میں اُڑا دیتے ہیں۔ پرسوں میں نے آپ سے کہا کہ منجھلی کو ٹائیفائیڈ ہو گیا ہے تو آپ نے مسکرا کر کہا فکر نہ کرو ٹھیک ہو جائے گی۔ لڑکا ہوتا تو فکر و تردّد کی بات تھی، لڑکیاں نہیں مرا کرتیں۔ ‘‘

’’میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔ سب سے چھوٹی اُوپر کی منزل سے نیچے گری اور بچ گئی۔ دو مرتبہ اسے ہیضہ ہوا، چیچک نکلی، نمونیا ہوا مگر وہ زندہ ہے اور اپنی بڑی بہنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تندرست ہے۔ ‘‘

’’آپ کی یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آتی‘‘

’’یہ میری منطق نہیں میری جان۔ قدرت کو یہی منظور ہے کہ مرد دُنیا میں کم ہو جائیں اور عورتیں زیادہ۔ تمھارا پہلا بچہ جو لڑکا تھا، اسے معمولی سا زُکام ہوا اور وہ دوسرے دن اللہ کو پیارا ہو گیا۔ تمھاری بڑی لڑکی کو تو تین بار ٹائیفائیڈ ہوا لیکن وہ زندہ ہے۔ میرا خیال ہے وہ وقت آنے والا ہے جب اس دنیا میں کوئی مرد نہیں رہے گا ٗ صرف عورتیں ہی عورتیں ہوں گی۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ مردوں کے بغیر تم عورتوں کا گزارا کیسے ہو گا۔ ‘‘

’’یعنی جیسے آپ لوگوں کے بغیر ہمارا گزارا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم بہت خوش رہیں گی۔ مردوں کا خاتمہ ہو گیا تو یہ سمجھیے کہ ہمارے تمام دُکھ درد کا خاتمہ ہو گیا۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ‘‘

’’تم آج محاوروں کو بہت استعمال کر رہی ہو۔ ‘‘

’’آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘

’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض ہو بھی کیا سکتا ہے۔ محاورے میری املاک نہیں۔ میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا کہ تم آج محاورے زیادہ استعمال کررہی ہو۔ ‘‘

’’دو ہی تو کیے ہیں، یہ زیادہ ہیں کیا؟‘‘

’’زیادہ تو نہیں۔ لیکن اندیشہ ہے کہ تم دس پندرہ اور مجھ پر ضرور لڑھکادو گی۔ ‘‘

’’تھوتھا چنا باجے گھنا۔ آج اتنا کیوں گرج رہے ہو۔ آپ کو معلوم نہیں کہ جو گرجتے ہیں برستے نہیں۔ ‘‘

’’دو محاورے اور آ گئے۔ خدا کے لیے ان کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ آج ناراضی کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’ناراضی کا باعث آپ کا وجود ہے۔ مجھے آپ کی ہر حرکت بُری معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں اگر تم سے پیار محبت کی باتیں کرتا ہوں تو وہ بھی تمھیں بُری لگتی ہیں۔ ‘‘

’’مجھے آپ کی پیار محبت کی باتیں نہیں چاہئیں۔ ‘‘

’’تو اور کیا چاہیے‘‘

’’یہ تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ میں کیا جانوں۔ شوہر کو اپنی بیوی کو سمجھنا چاہیے۔ وہ کیا چاہتی ہے، کیا نہیں چاہتی۔ اس کو اس کا علم پوری طرح ہونا چاہیے۔ آپ تو بالکل غافل ہیں۔ ‘‘

’’میں کوئی قیافہ گیر، رمزشناس اور نفسیات کا ماہر نہیں کہ تمھیں پوری طرح سمجھ سکوں۔ اور تمھارے دماغ کے تلوّن کی ہر سلوٹ کے معنی نکال سکوں۔ میں اس معاملے میں گدھا ہوں۔ ‘‘

’’آپ اونٹ ہیں اونٹ‘‘

’’کس لحاظ سے؟‘‘

’’اس لیے کہ آپ کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ ‘‘

’’اچھا بھلا ہوں۔ میری کل سیدھی ہے۔ ابھی تم نے مجھ سے پرسوں کہا تھا کہ آپ چالیس برس کے ہونے کے باوجود ماشاء اللہ جوان دکھائی دیتے ہیں۔ تم نے میرے بدن کی بھی بہت تعریف کی تھی۔ ‘‘

’’وہ تو میں نے مذاق کیا تھا۔ ورنہ آپ تو ایسا جھڑوس ہو چکے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو ایسی بدزبانی مجھے پسند نہیں۔ تم بعض اوقات ایسی بکواس شروع کر دیتی ہو، جو کوئی شریف عورت نہیں کر سکتی۔ ‘‘

’’تو گویا میں شریف نہیں۔ فاحشہ ہوں۔ بازاری عورت ہوں۔ میں نے آپ کو کیا گالی دی جس پر آپ کو اتنا طیش آ گیا کہ آپ نے مجھ کو بدزبان کہہ دیا۔ ‘‘

’’بھئی، میں اب جھڑوس ہو چکا ہوں۔ مجھ سے بات نہ کرو۔ ‘‘

’’میں آپ سے بات نہ کروں گی تو اور کس سے کروں گی۔ ‘‘

’’میں اس کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں۔ تم اپنے بھنگی سے گفتگو کر سکتی ہو۔ اس سے یہ بھی کہہ سکتی ہو کہ میں جھڑوس ہو گیا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کو شرم نہیں آتی۔ آپ نے یہ کیسی بات کہی ہے؟‘‘

’’بھنگی اور مجھ میں کیا فرق ہے! جس طرح تم اس غریب سے پیش آتی ہو، اسی طرح کا سلوک مجھ سے کرتی ہو۔ ‘‘

’’بڑے بیچارے غریب بنے پھرتے ہیں اور اب مجھ سے کہتے ہیں کہ میں بھنگی کے ساتھ بات کیا کروں۔ غیرت کا مادہ تو آپ میں رہا ہی نہیں۔ ‘‘

’’میں نر ہوں۔ مادہ تم ہو۔ ‘‘

’’اس سے کیا ہوا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مرد عورتوں کو اتنا حقیر کیوں سمجھتے ہیں۔ ہم میں کیا برائی ہے۔ کیا عیب ہے۔ یہی نا کہ ہمارے والدین نے غلطی سے آپ کے ساتھ میری شادی کر دی۔ ‘‘

’’شادی تو آخر کسی جگہ ہونی ہی تھی۔ تم کیا کرتیں اگر نہ ہوتی؟‘‘

’’میں بہت خوش رہتی۔ شادی میں آخر پڑا ہی کیا ہے؟‘‘

’’کیا پڑا ہے۔ خاک!۔ میں تو کنواری رہتی تو اچھا تھا۔ اس بک بک میں تو نہ پڑتی۔ ‘‘

’’کس بک بک میں؟‘‘

’’یہی جو آئے دن ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ روز روز کی چخ صرف تمہاری وجہ سے ہوتی ہے ورنہ میں نے ان پندرہ برسوں میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی کہ تمہاری خدمت کروں۔ ‘‘

’’خدمت؟‘‘

’’خدمت نہ کہو، میں اپنا فرض ادا کرتا رہا ہوں۔ خاوند کو یہی کرنا چاہیے۔ تمھیں مجھ سے کس بات کا گلہ ہے؟‘‘

’’ہزار گلے ہیں، ایک ہو تو بتاؤں‘‘

’’ان ہزار گلوں میں سے ایک گلہ تو مجھے بتا دو تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں۔ ‘‘

’’آپ کی اصلاح اب ہو چکی۔ آپ تو ازل سے بگڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’یہ اطلاع تمھیں کہاں سے ملی تھی؟۔ میں تو اس سے بالکل بے خبر ہوں۔ ‘‘

’’آپ کی بے خبری کا تو یہ عالم ہے کہ آپ کو خود اپنی خبر نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’غالب کا ایک شعر ہے: ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی خود اپنی خبر نہیں آتی!‘‘

’’غالب جائے جہنم میں۔ اس وقت تو آپ مجھ پر غالب ہیں۔ ‘‘

’’لاحول ولا۔ میں تو جھڑوس ہو چکا ہوں۔ ازل سے بگڑا ہوا ہوں۔ ‘‘

’’آپ میری ہر بات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ‘‘

’’میں یہ جرأت کیسے کر سکتا ہوں مجھ میں اتنی طاقت ہے نہ مجال۔ لیکن میں کیا پوچھ سکتا ہوں کہ آج آپ کی ناراضی کا باعث کیا ہے؟‘‘

’’میری ناراضگی کا باعث کیا ہو سکتا ہے، یہی کہ آپ۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’آپ خود سوچیے۔ بڑے سمجھدار ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں؟‘‘

’’میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے کانوں کے لیے ’ٹوپس‘ لے کر آؤں گا۔ مگر میں جس دوکان میں گیا وہاں مجھے دل پسند ٹوپس نہ ملے۔ تم نے مجھ سے کہا تھا کہ لٹھے کا ایک تھان لے کر آؤ۔ میں نے شہر بھر میں ہر جگہ کوشش کی مگر ناکام رہا۔ تمہارے ریشمی کپڑے جو لانڈری میں دُھلنے کے لیے گئے تھے۔ میں ان کو وصول کرنے گیا۔ مگر لانڈری والے نے کہا کہ اُس کے دھوبی بیمار ہیں، اس لیے دو دن انتظار کیجیے۔ تمہاری گھڑی جو خراب ہو گئی تھی۔ اس کے متعلق بھی میں نے پوچھا۔ گھڑی ساز نے کہا کہ اس کا ایک پرزہ بنانا پڑے گا جو وہ بنا رہا ہے۔ ‘‘

’’آپ بہانے بنانا خوب جانتے ہیں۔ ‘‘

’’خدا کی قسم سچ کہہ رہا ہوں۔ تمہاری قمیضیں کل درزی سے آ جائیں گی، اس کو میں نے بہت ڈانٹا کہ تم نے اتنی دیر کیوں کر دی۔ اس نے کہا، حضور کل لے جائیے گا۔ ‘‘

’’قمیصیں جائیں بھاڑ میں۔ ‘‘

’’وہ کیوں؟‘‘

’’آپ کو توکچھ ہوش ہی نہیں‘‘

’’میں کیا بے ہوش رہتا ہوں۔ تمھیں جو کہنا ہے کہہ ڈالو۔ اتنی لمبی چوڑی تمہید کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’ضرورت اس لیے تھی کہ آپ پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اگر میں نے ایک جملے میں اپنا مدعا بیان کیا ہوتا۔ ‘‘

’’تو ازراہِ کرم اب تم ایک جملے میں اپنا مدعا بیان کردو تاکہ میری خلاصی ہو۔ ‘‘

’’میری داڑھ اتنی تکلیف دے رہی ہے۔ کئی مرتبہ سے آپ سے کہہچکی ہوں۔ کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلیے مجھے، مگر۔ ‘‘

’’ابھی چلو!۔ داڑھ کیا، تم چاہو تو میں سب دانت نکلوا دوں گا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

تین موٹی عورتیں

ایک کا نام مسز رچمین اور دوسری کا نام مسز ستلف تھا۔ ایک بیوہ تھی تو دوسری دو شوہروں کو طلاق دے چکی تھی۔ تیسری کا نام مس ہیکن تھا۔ وہ ابھی ناکتخدا تھی۔ ان تینوں کی عُمر چالیس کے لگ بھگ تھی۔ اور زندگی کے دن مزے سے کٹ رہے تھے۔ مسز ستلف کے خدوخال موٹاپے کی وجہ سے بھدے پڑ گئے تھے۔ اس کی باہیں کندھے اور کولھے بھاری معلوم ہوتے تھے۔ لیکن اس ادھیڑ عمر میں بھی وہ بن سنور کر رہتی تھی۔ وہ نیلا لباس صرف اس لیے پہنتی تھی کہ اُس کی آنکھوں کی چمک نمایاں ہو اور بناوٹی طریقوں سے اس نے اپنے بالوں کی خوبصورتی بھی قائم رکھی تھیں۔ اسے مسز رچمین اور مس ہیکن اس لیے پسند تھیں کہ وہ دونوں اس کی نسبت موٹی تھیں۔ اور چونکہ وہ عمر میں بھی ان سے قدرے چھوٹی تھی اس لیے وہ اسے اپنی بچی کی طرح خیال کرتیں۔ یہ کوئی ناپسندیدہ بات نہ تھی۔ وہ دونوں خوش طبیعت تھیں۔ اکثر تفریحاً اس کے ہونے والے منگیتر کا ذکر چھیڑ دیتی۔ وہ خود تو اس عشق و محبت کی اُلجھن سے کوسوں دُور تھیں۔ لیکن اس معاملے میں انھیں مسز ستلف سے پور ی ہمدردی تھی۔ انھیں یقین تھا کہ وہ دنوں ہی میں کوئی نیا گل کھلانے والی ہے۔ وہ اس کے لیے کسی اچھے بر کی تلاش میں تھیں۔ کوئی پنشن یافتہ ایڈمیرل جو گاف بھی کھیلناجانتا ہو یا کوئی ایسا رنڈوا جو گھر بار کے جنجال سے آزاد ہو۔ بہرحال یہ ضروری تھا کہ اس کی آمدنی معقول ہو۔ وہ بڑے غور سے اُن کی باتیں سنتی اور دل ہی دل میں ہنس دیتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بار پھر شادی کا تجربہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن شوہر کے انتخاب میں اُس کا مزاج مختلف تھا۔ اُسے کسی سیاہ رنگ چھریرے بدن کے اطالوی کی چاہت تھی، جس کی آنکھیں حد درجہ چمکیلی ہوں یا کوئی ہسپانوی جو اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔ اور اُس کی عمر کسی صورت میں تیس برس سے ایک دن بھی زیادہ نہ ہو۔ یہ سچ ہے کہ تینوں ایک دوسری پر جان دیتی تھیں۔ اور اُن کی آپس میں محبت کی وجہ صرف موٹاپا تھا۔ اور متواتر اکٹھے برج کھیلنے سے دوستی اور گہری ہو گئی تھی۔ اُن کی پہلی ملاقات کر بساد میں ہوئی، جہاں یہ ایک ہی ہوٹل میں ٹھہری تھیں اور ایک ڈاکٹر کے زیرِعلاج تھیں مسز رچمین خوش شکل بھی تھی۔ اُس کی نشیلی آنکھیں، کھردرے گال اور رنگین ہونٹ بہت ہی دلفریب اور دلکشی تھے۔ اُسے ہر وقت کھانے پینے کی فکر رہتی۔ مکھن، بالائی، آلو اورچربی ملی پڈنگ اُس کا من بھاتا کھانا تھا وہ سال میں گیارہ مہینے توجی بھر کر کافی کھاتی اور پھر علاج کے ذریعے دُبلی ہونے کے لیے ایک مہینہ کر بساد چلی جاتی۔ وہ دن بہ دن پھولتی جارہی تھی۔ اُس کا عقیدہ تھا کہ اگر اُسے من مرضی کی خوراک کھانے کو نہ ملے تو زندگی بے کار ہے۔ مگر اُس کے ڈاکٹروں کو اس بات سے اتفاق نہ تھا۔ مسز رچمین کا خیال تھا کہ ڈاکٹر کچھ ایسا قابل نہیں ورنہ کیا عجیب تھا کہ وہ ذرا دُبلی ہو جاتی۔ اُس نے مس ہیکن سے اس بات کا ذکر کیا۔ وہ بس ایک قہقہہ لگا کر خاموشی ہو گئی۔ اس کی آواز بہت گہری تھی۔ اور چپٹا سا چہرہ! اس کی دونوں آنکھوں میں بلی کی آنکھوں ایسی چمک تھی۔ اُسے مردانہ پوشاک زیادہ پسند تھی۔ اور صرف اُس کی خوش مزاجی کی وجہ سے تینوں سہلیاں ایک دوسری سے بہت قریب ہو گئی تھیں۔ وہ تینوں ایک ہی وقت پر کھانا کھاتیں، اکٹھی سیر کو جاتیں اور ٹینس کھیلنے کے وقت بھی ایک دوسری سے کبھی جدا نہ ہوتیں۔ اُس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا وزن کرتیں تو اپنے موٹاپے میں کوئی فرق نہ پاکر اُداس سی ہوجاتیں۔ مس ہیکن کو یہ بات بہت ہی ناگوار گزری کہ بیئرس رچمین طبی علاج سے اپنا وزن بیس پاؤنڈ گھٹا کر بد پرہیزی کی وجہ سے دنوں میں پھر اُسی طرح موٹی ہوجائے اور اُس کے کہنے پر تینوں کربساد چھوڑ کر چند ہفتوں کے لیے کہیں اور چلی جائیں۔ بیئرس کمزور طبیعت تھی اور اُسے ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو اُسے بداعتدالی سے بچا سکے۔ اُسے یقین تھا کہ اب اُسے ورزش کرنے کا خوب موقع ملے گا۔ نہ صرف یہی بلکہ وہاں گھر میں اپنی باورچن رکھ لینے سے اُسے چربی ملی چیزیں کھانے سے نجات مل جائے گی۔ اور کوئی وجہ نہ تھی کہ ان سب کا وزن دنوں میں کم ہو جائے۔ مسزستلف اپنے گھر میں انوکھے ارادے باندھ رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہاں دنوں میں اُس کا رنگ نکھر جائے گا۔ اور اپنے لیے کوئی چھیلا بانکا اطالوی فرانسیسی یا انگریز تلاش کرے گی۔ وہ تینوں ہفتہ میں صرف دو دن اُبلے ہوئے انڈے اور ٹماٹر کھاتیں اور ہر صبح اُٹھ کر اپنا وزن کرتیں۔ مسز ستلف کا وزن ابھی صرف ۱۵۴ پونڈ رہ گیا اور وہ تو گویا اپنے آپ کو ایک جواں سال لڑکی سمجھنے لگی۔ مسز ہیکن اور مسز رچمین کے موٹاپے میں بھی کافی فرق پڑ گیا۔ وہ تینوں مطمئن نظر آتی تھیں۔ لیکن برج کھیلنے کے لیے ایک چوتھے کھلاڑی کی ضرورت نے اُنھیں ایک حد تک پریشان سا کردیا۔ وہ صبح سویرے ڈھیلے ڈھالے پاجامے پہنے چبوترے پر بیٹھی دودھ میں کھانڈ ملائے بغیر چائے پی رہی تھیں اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر برٹ کے تیار کیے ہوئے بسکٹ بھی کھا رہی تھیں، جن کے متعلق یہ گارنٹی دی گئی تھی کہ وہ چربی سے بالکل پاک ہیں۔ ناشتے کے وقت مس ہیکن نے اتفاقاً لینا کا ذکر کیا۔

’’وہ کون ہے۔ ؟ مسز ستلف نے پوچھا۔

’’وہ میرے اس چچیرے بھائی کی بیوی ہے، جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ گزشتہ دنوں اعصاب شکنی کا شکار رہی۔ کیوں نہ اُسے دو ہفتے کے لیے یہاں بُلا لیں؟‘‘

’’کیاوہ برج کھیلنا جانتی ہے۔ ؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ اس کے یہاں آنے سے کسی دوسرے کی ضرورت بھی نہ رہے گی۔ ‘‘

بات طے ہو گئی۔ لینا کو بلانے کے لیے تار بھیجا گیا اور وہ تیسرے دن آ پہنچی۔ مس ہیکن اُسے سٹیشن پر لینے گئی۔ شوہر کی موت کی وجہ سے لینا کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے۔ مس ہیکن نے اسے دو سال سے نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے بڑی گرم جوشی سے اُس کا منہ چوم لیا۔

’’تم بہت دُبلی ہو۔ ‘‘

اس نے کہا۔ لینا مسکرا دی۔

’’گزشتہ دنوں میری طبیعت علیل رہی۔ اور اب تو وزن بھی بہت کم ہو گیا ہے۔ ‘ مس ہیکن نے ایک سرد آہ بھری، لیکن یہ ظاہر نہ ہوسکا کہ اس کی وجہ رشک تھی یا لینا سے ہمدردی۔ وہ اُسے ایک پُر فضا ہوٹل میں لے گئی۔ جہاں دونوں سہیلیوں سے اُس کا تعارف کرایا گیا۔ اُس کی بیکسی دیکھ کر مسز رچمین کا دل بھر آیا۔ اور اُس کے چہرے کی زردی نے مسز ستلف کو بھی بہت متاثر کیا۔ ہوٹل میں تھوڑی دیر تفریح کے بعد وہ لنچ کے لیے اپنی قیام گاہ کو چل دیں۔

’’مجھے کچھ روٹی چاہیے۔ ‘‘

لینا کے یہ الفاظ سہیلیوں کے کانوں پر بہت گراں گزرے۔ وہ تو دس سال ہوئے اُسے چھوڑ چکی تھی حالانکہ مسز رچمین ایسی لالچی عورت بھی روٹی سے پرہیز کرتی تھی۔ مسز ہیکن نے ازراہ مہمان نوازی خانساماں سے کہاکہ فوراً حکم کی تعمیل کرے۔

’’تھوڑا مکھن بھی۔ ‘‘

کسی غیر مرئی قوت نے ایک لمحے کے لیے ان سب کے ہونٹ سی دیے۔

’’غالباً گھر میں مکھن موجود نہیں۔ ابھی خانساماں سے پوچھتی ہوں۔ ‘‘

مس ہیکن نے کسی قدر توقف سے جواب دیا۔

’’مکھن روٹی بہت پسند ہے۔ ‘‘

لینا نے مسز رچمین سے مخاطب ہوکر کہا۔ اور خانساماں سے روٹی لے کر بڑے اطمینان سے اس پر مکھن لگایا۔ مس ہیکن بولی۔

’’ہم یہاں بہت سادہ غذا کی عادی ہیں۔ ‘‘

لینا نے مچھلی کے ٹکڑے پر مکھن لگاتے ہوئے کہا۔

’’مجھے جب تک مکھن، روٹی آلو اور بالائی ملتی رہے بہت مطمئن رہتی ہوں۔

’’افسوس کہ یہاں کہیں بالائی نہیں ملتی۔ ‘‘

مسز رچمین نے کہا۔

’’اوہ۔ ‘‘

لینا بولی۔ لنچ پر بغیر چربی کے کباب چنے گئے۔ اس کے علاوہ پالک تھی اور دم بخت ناشپاتیاں بھی۔ ناشپاتی کھاتے ہی لینا نے متجسس نظروں سے خانساماں کی طرف دیکھا اور اشارہ پاتے ہی خانساماں کھانڈ لے کر حاضر ہو گیا۔ اُس نے اپنی قہوہ کی پیالی میں تین چمچے کھانڈ ڈال دی۔

’’تمہیں کھانڈ بہت پسند ہے۔ ‘‘

مسز ستلف نے کہا۔

’’ہمیں تو سکرین زیادہ مرغوب ہے۔ ‘‘

مس ہیکن نے ایک ٹکیہ اپنی پیالی میں ڈالتے ہوئے کہا۔

’’یہ تو ایک بے لذت شے ہے۔ ‘‘

لینا نے جواب دیا۔ مسز رچمین منہ بنا کر اور للچائی ہوئی نظروں سے کھانڈ کی طرف دیکھنے لگی۔ مس ہیکن نے اُسے زور سے پکارا اور ایک سرد آہ بھر کر اس نے بھی مجبوراً سکرین کی ٹکیہ اُٹھالی۔ لنچ سے فارغ ہونے کے بعد وہ برج کھیلنے لگیں۔ لینا خوب کھیلی۔ سب نے کھیل کا لطف اٹھایا۔ مسز ستلف اور مسز رچمین کے دل میں معزز مہمان کے لیے گہری ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ مس ہیکن کے دل کی مراد بھی برآئی۔ اور وہ یہی تو چاہتی تھی کہ لینا ان کے ساتھ دو ہفتے خوشی سے بسر کرے۔ چند ساعت بعد مس ہیکن اور مسز رچمین گالف کھیلنے چلی گئیں اورمسز ستلف ایک جوان سال، خوش شکل پرنس روکا میر کے ساتھ سیر کو نکل گئی۔ لیکن کچھ دیر سستانے کے خیال سے لیٹ گئی۔ ڈنر سے تھوڑا سا وقت پہلے سب لوٹ آئیں۔

’’لینا پیاری کہو وقت کیسے گزرا۔

’’مس ہیکن نے کہا۔

’’گاف کھیلتے وقت دھیان تمہاری ہی طرف تھا۔ ‘‘

’’اوہ میں تو بڑے مرے سے بستر پر ہی پڑی رہی اور جا کر کاک ٹیل بھی پی اور سنو۔ آج ایک چھوٹا سا قہوہ خانہ میری نظر پڑا۔ جہاں بڑی اچھی بالائی بھی مل سکتی ہے۔ میں نے روزانہ مکان پر با لائی منگوانے کا انتظام کرلیا ہے۔ ‘‘

اُس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور اُسے یقین تھا کہ وہ تینوں اُس کی بات کو سراہیں گی۔

’’تم کتنی اچھی ہو۔ لینا‘‘

مسز ہیکن نے کہا۔

’’لیکن افسوس کہ ہمیں بالائی پسند نہیں۔ ایسی آب و ہوا میں یہ ہمیں راس نہیں آ سکتی۔ ‘‘

’’نہ سہی، میں جو سلامت ہوں۔ ‘‘

لینا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’تمھیں کیا اپنی شکل و صورت کی کوئی پروا نہیں۔ ‘‘

مسز ستلف نے منہ بنا کر کہا۔

’’مجھے تو ڈاکٹر نے بالائی کھانے کو کہا ہے۔ ‘‘

’’کیا اُس نے مکھن، روٹی، آلو اور چاروں ہی چیزیں تجویز کی ہیں؟‘‘

’’بے شک، تمہاری سادی غذا سے میں یہی مُراد لیتی ہوں۔ ‘‘

’’تم یقیناًبہت موٹی ہو جاؤ گی۔ ‘‘

لینا کھلکھلا کر ہنس دی۔ رات کو اُس کے سو جانے پر دیر تک تینوں نکتہ چینی کرتی رہیں۔ آج شام اُن کی طبیعت کتنی شگفتہ تھی لیکن اب مسز رچمین بیزار سی نظر آنے لگی۔ مسز ستلف الگ جلی بیٹھی تھی۔ اور مس ہیکن کا مزاج بھی برہم ہوچکا تھا۔

’’میں قطعاً برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ میرا من بھاتا کھانا میری آنکھوں کے سامنے بیٹھ کر اُڑائے۔ ‘‘

مسز رچمین نے ذرا تلخی سے کہا۔

’’یہ تو کوئی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘

مس ہیکن نے جواب دیا۔

’’آخر تم نے اُسے یہاں بُلایا ہی کیوں۔ ؟

’’مجھے اس بات کی کیا خبر تھی۔ ‘‘

’’اگر اس کے دل میں اپنے مرحوم شوہر کا ذرابھی خیال ہوتا تو وہ کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتی۔ اُسے فوت ہوئے ابھی دو مہینے تو گزرے ہیں۔ ‘‘

’’عجیب مہمان ہے کہ اسے ہماری مرضی کا کھانا ہی پسند نہیں۔ ‘‘

’’سُنا، وہ کل کیا کہہ رہی تھی اُسے ڈاکٹر نے مکھن روٹی، آلو اور بالائی کھانے کو کہا ہے۔ ‘‘

’’اسے تو پھر کسی سینوٹوریم کا رُخ کرناچاہیے۔ ‘‘

’’وہ مہمان ہے تو تمہاری۔ ہمارا تو اس سے کوئی رشتہ نہیں۔ میں تو متواتر دو ہفتے تک اُس پیٹو کا تماشا دیکھتی رہی ہوں۔ ‘‘

’’صرف کھانے پینے کو زندگی کا مقصد سمجھ لینا بڑی بے ہودگی ہے۔ ‘‘

’’تم کیا مجھے بیہودہ پکار رہی ہو۔ ‘‘

مسز ستلف نے کہا۔

’’آپس میں بدگمانی سے فائدہ۔ ؟‘‘

مسز رچمین نے بات کاٹ کر کہا۔

’’میں ہر گز برداشت نہیں کرسکتی کہ تم ہمارے سوتے میں باورچی خانہ میں گھس کر کھاتی پیتی رہو۔ ‘‘

ان الفاظ نے مس ہیکن کے تن بدن میں ایک آگ لگا دی۔ وہ اُچھل کر کھڑی ہو گئی۔

’’مسز ستلف اپنی زبان سنبھالو۔ تم کیا مجھے اتنا ہی کمینہ خیال کرتی ہو۔ ‘‘

’’آخر تمہا را وزن کیوں نہیں کم ہوتا۔ ‘‘

’’بالکل غلط، میرا تو سیروں وزن کم ہو گیا ہے۔ ‘‘

وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اور آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپک ٹپک کر چھاتی پر گرنے لگے۔

’’پیاری تم میرا مطلب نہیں سمجھیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر مسز ستلف گھٹنوں کے بل جھکی اور اُس کے جسم کو اپنی آغوش میں لینے کی کوشش کی۔ اُس کا بھی دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری ہو گئی۔

’’تو کیا میں دُبلی دکھائی نہیں دیتی۔ ‘‘

مس ہیکن نے ہچکی لیتے ہوئے کہا۔

’’ہاں بے شک۔ ‘‘

مستز ستلف نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔ مسز رچمین بھی جو فطرتاً نہایت کمزور طبعیت واقع ہوئی تھی، اب رونے لگیں۔ یہ منظر بہت رقت خیز تھا۔ مس ہیکن ایسی عورت کو آنسو بہاتے دیکھ کر سنگ دل انسان بھی موم ہو جاتا۔ بالآخر اُنھوں نے اپنے آنسو پونچھے اور ایک نے برانڈی اور پانی کے چند گھونٹ پیے۔ وہ اب اس بات پر متفق تھیں کہ لینا ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اپنی من مرضی کی غذا کھائے۔ آخر وہ ان کی مہمان ٹھہری۔ ان کا فرض تھا کہ ہر طرح اس کا کلیجہ ٹھنڈا کریں۔ انھوں نے ایک دوسری کا گرم جوشی سے منہ چوما اور اپنی اپنی خوابگاہوں میں چلی گئیں۔ یہ سچ ہے کہ انسانی فطرت بہت کمزور ہے اور اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ غذا کے معاملے میں اب ہر ایک اپنی مرضی کی مالک تھی۔ اُنھوں نے مچھلی کے کباب شروع کیے تو لینا کی سویاں مکھن اور پنیر پر بسر ہونے لگی۔ وہ ہفتے میں دو بار اُبلے ہوئے انڈے اور کچے ٹماٹر کھاتیں۔ لینا مٹر کے دانے بالائی میں ملا کر کھاتی۔ اسے اُب ٹماٹر کو مختلف مسالوں میں پکا کر کھانے کا شوق چرایا تھا۔ اُس کا خانساماں بھی بڑا بامذاق تھا۔ وہ ہر بار ایک بہتر چیز تیار کرکے میز پر چن دیتا۔ لینا نے ایک موقع پر یہ بھی کہا۔ کہ ڈاکٹر نے اُسے لنچ پر برگنڈی کی ارغوانی شراب اور ڈنر پر شمپئن استعمال کرنے کو کہا ہے۔ ان الفاظ نے تینوں سہلیوں کو دم بخود کردیا۔ وہ ابھی ابھی ہنس کھیل رہی تھیں۔ لیکن یکا یک کیفیت بدل گئی۔ مسز رچمین کا تو گویا رنگ زرد پڑ گیا۔ مسز ستلف کی نیلی آنکھوں میں ایک خوفناک سی چمک پیدا ہو گئی۔ اور مس ہیکن کی آوازبھراگئی۔ برج کھیلتے وقت وہ بڑے نرم لہجے میں ایک دوسرے سے بات کیا کرتیں۔ لیکن اب بات بات پر بگڑنے لگیں۔ لینا نے انھیں بہتیرا سمجھایا بجھایا کہ کھیل کے وقت آپس میں تکرار مناسب نہیں۔ لیکن بے سُود۔ وہ خوش تھی کہ کھیل میں شروع ہی سے اس کا پلہ بھاری رہا ہے۔ اور دنوں میں اس نے ایک بڑی رقم جیت لی ہے۔ تینوں موٹی سہیلیوں کو اب ایک دوسری سے نفرت ہونے لگی۔ وہ اپنے مہمان سے بھی بدظن ہوچکی تھیں۔ اس کے باوجود اکثر ایک دوسری کے خلاف کان بھرتیں۔ لینا کے سامنے وہ ایک دوسری سے ظاہراً ملتی رہیں، لیکن پھر یہ بات بھی نہ رہی۔ وہ ایک دوسری سے بہت مایوس ہوچکی تھیں مس ہیکن لینا کو رخصت کرنے سٹیشن پر گئی۔ گاڑی پر سوار ہوتے وقت وہ بولی۔

’’میرے پاس الفاظ نہیں کہ تمہاری مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرسکوں۔ ‘‘

’’تمہاری صحبت بہت پُر لُطف رہی۔ ‘‘

مس ہیکن نے جواب دیا۔ جب گاڑی روانہ ہوئی تو اُس نے اس زور سے آہ بھری کہ پلیٹ فارم اُس کے پاؤں کے نیچے کانپ کانپ گیا۔ اور وہ

’’اُف اُف‘‘

کا شور بُلند کرتی گھر لوٹی۔ اس نے غسل کرنے کا لباس پہنا اور ہوٹل کی طرف آنکلی۔ ایکا ایکی وہ مچل سی گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مسز رچمین نیا پائیجامہ اور گلے میں موتیوں کی مالا پہنے، بناؤ سنگھار کیے بیٹھی تھی۔ وہ اُس کی طرف بڑھی۔

’’کیا کررہی ہو؟‘‘

اس کے یہ الفاظ دو پہاڑوں میں بادل کی گرج کی طرح سنا ئی دیے۔

’’کچھ کھا رہی ہوں۔ ‘‘

اس کے سامنے مکھن، سیب کا مربہ قہوہ اور بالائی وغیرہ چنے ہوئے تھے، وہ گرم روٹی پر مکھن کی موٹی تہ جما کر اس پر مربہ اور بالائی ڈال رہی تھی۔

’’تم کھانے کی لالچ میں اپنی جان دے دو گی۔ ‘‘

’’کوئی پروانھیں۔ ‘‘

مسز رچمین نے ایک بڑا لقمہ چباتے ہوئے کہا۔

’’تم اور بھی موٹی ہو جاؤ گی۔ ‘‘

بس خاموش، اُس نا بکار کو خدا سمجھے جسے میں متواتر دو ہفتے سے حلق میں رنگا رنگ کے نوالے ٹھونستے دیکھتی رہی ہوں۔ ایک انسان تو اتنا ہضم نہیں کرسکتا۔ ‘‘

مس ہیکن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بالکل بے جان سی ہو گئی۔ اُسے اس وقت شاید ایک مضبوط مرد کی ضرورت تھی جو اُسے گھٹنے پر لگا کر پچکارے۔ وہ خاموشی سے پاس ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔ خادم حاضر ہوا۔ اور اُس نے قہوے کی طرف اشارہ کرکے اُسے لانے کو کہا۔ وہ ہاتھ بڑھا کر کریم رول اٹھانے لگی۔ لیکن مسز رچمین نے رکابی ایک طرف رکھ دی۔ مس ہیکن جل بھن گئی اور اُسے ایک ایسے نام سے مخاطب کیا جو خاص طور پر عورتوں کے شایان شان نہ تھا۔ اتنے میں خادم اُس کے لیے مکھن، مربہ اور قہوہ لیے آیا۔

’’پگلے بالائی لانا بھول گیا‘‘

۔ وہ شیرنی کی طرح بپھر کر بولی۔ اُس نے کھانا شروع کیا اور حلق میں مکھن، مربہ ٹھونسنے لگی۔ ہوٹل میں اب رنگا رنگ کے انسانوں کی چہل پہل نظر آنے لگی۔ مسز ستلف بھی پرنس روکا میر کے ساتھ چہل قدمی کرتی ادھر آ نکلی۔ وہ پہلے اپنے گرد ایک ریشمی لبادہ مضبوطی سے لپیٹے ہوئی تھی۔ تاکہ اس طرح وہ کچھ دبلی دکھائی دے۔ اپنی ٹھوڑی کانقص چھپانے کے لیے اُس نے سر کو اُوپر اُٹھایا ہوا تھا۔ وہ بہت مسرور تھی۔ ایک دوشیزہ کی طرح۔ پرنس اس سے اجازت لے کرپانچ منٹ کے لیے مردانہ کمرے میں اپنے بال سنوارنے گیا اور وہ بھی اپنے رخساروں کو غازہ چمکانے کے لیے زنانہ کمرے کی طرف آئی۔ ایکا ایکی اُس کی نظر اپنی دونوں سہلیوں پر پڑی وہ رُک گئی۔

’’تم پیٹو حیوان۔ ‘‘

وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور خادم کو آواز دی۔ اس کے ذہن سے اب پرنس کا خیال بھی اُتر چکا تھا۔ آنکھ جھپکتے میں خادم حاضر ہو گیا۔

’’میرے کھانے کو بھی یہی لاؤ۔ ‘‘

’’اور میرے لیے سویاں۔ ‘‘

’’مس ہیکن!۔ ‘‘

مسز رچمین پکار اُٹھی۔

’’بس خاموش۔ ‘‘

تو میں بھی یہی کھاؤں گی۔ ‘‘

قہوہ لایا گیا اور کریم رول اور بالائی بھی۔ وہ گرم روٹی پر بالائی تہ جما کر کھانے لگیں۔ مربے کے بڑے چمچے حلق میں ٹھونس لیے۔ وہ گویا ایک خاص اہتمام سے کھا رہی تھیں۔ ایسے موقع پر مسز ستلف کے لیے پرنس سے لگاؤ ایک بے معنی بات تھی۔

’’میں نے پچیس سال سے آلو نہیں کھائے‘‘

مس ہیکن نے دھیمی آواز میں کہا۔ مسز رچمین نے فوراً خادم کو تینوں کے لیے بھنے ہوئے آلو لانے کو کہا۔ ایک لمحہ کے بعد بھنے ہوئے آلو اُن کے سامنے تھے اور وہ بڑے چٹخارے لے کر کھانے لگیں تینوں سہیلیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سرد آہیں بھرنے لگیں۔ اب اِن کے درمیان غلط فہمی رفع ہوچکی تھی۔ اور دلوں میں انتہائی محبت کا جذبہ موجزن تھا۔ انھیں یقین نہ آتا تھا کہ آج سے پہلے وہ ایک دوسرے سے قطع تعلق پرآمادہ ہوچکی تھیں۔ آلو اب ختم ہوچکے تھے۔

’’ہوٹل میں چاکلیٹ تو ضرور ہونگے۔ ‘‘

مسزرچمین نے کہا۔

’’کیو ں نہیں۔ ‘‘

ایک لمحہ بعد مس ہیکن اپنا منہ کھولے حلق میں چاکلیٹ ٹھونس رہی تھی۔ اُس نے دوسرے پر ہاتھ ڈالا۔ اور منہ میں ڈالنے سے پہلے دونوں سہلیوں کی طرف نظر اُٹھائے نابکار لینا کو کوسنے لگی۔ ’‘’ تم جو چاہو کہو۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ برج کھیلنا نہیں جانتی۔ ‘‘

’’بے شک۔ ‘‘

مسز ستلف نے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ مسز رچمین کا ذہن اس وقت کسی لذیذ کیک کی فکر میں تھا۔

سعادت حسن منٹو

تقی کاتب

ولی محمد جب تقی کو پہلی مرتبہ دفتر میں لایا تو اس نے مجھے قطعاً متاثر نہ کیا۔ لکھنو اور ولی کے جاہل اور خود سرکاتبوں سے میرا جی جلا ہوا تھا۔ ایک تھا اس کو جاو بے جا پیش ڈالنے کی بُری عادت تھی۔ موت کو مُوت اور سوت کو سُوت بنا دیتا تھا۔ میں نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ سمجھا۔ اسکو اپنے اہل زبان ہونے کا بہت زعم تھا۔ میں نے جب بھی اس کو پیش کے معاملہ میں ٹوکا اس نے اپنی داڑھی کو تاؤ دے کرکہا۔

’’میں اہلِ زبان ہوں صاحب۔ اسکے تیس سپاروں کا حافظ ہوں۔ اعراب کے معاملہ میں آپ مجھ سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ‘‘

میں نے اسے اور کچھ نہ کہا اور رخصت کردیا۔ اسکی جگہ ایک دلی کے کاتب نے لے لی۔ اور سب ٹھیک ہو گیا مگر اس کو اصلاح کرنے کا خبط تھا، اور اصلاح بھی ایسی کہ میری آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ کوئی مضمون تھا۔ میں نے اس میں یہ لکھا۔

’’اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، اس نے یہ اصلاح فرمائی۔ اس کے ہاتھ پاؤں کے طوطے اڑ گئے۔ ‘‘

میں نے اس کا مذاق اڑایا تو وہ خالص دہلوی لب و لہجہ میں بڑبڑاتا ملازمت سے علیحدہ ہو گیا۔ رام پور کا ایک کاتب تھا۔ بہت ہی خوش خط تھا مگر اس کو اختصار کے دورے پڑتے تھے۔ سطریں کی سطریں اور پیرے کے پیرے غائب کرتا تھا۔ جب اسکو پورا صفحہ دوبارہ لکھنے کو کہتا تو وہ جواب دیتا۔

’’اتنی محنت مجھ سے نہ ہو گی صاحب۔ پوٹ میں لکھ دوں گا‘‘

پوٹ میں لکھوانا مجھے سخت ناپسند تھا چنانچہ رام پوری کاتب بھی زیادہ دن دفتر میں نہ ٹِک سکے۔ ولی محمد ہیڈ کاتب جب تقی کو پہلی مرتبہ دفتر میں لایا تو اس نے مجھے قطعاً متاثر نہ کیا۔ خط کا نمونہ دیکھا۔ خاص اچھا نہیں تھا۔ دائروں میں پختگی ہی نہیں تھی۔ میں گنجان لکھائی کا قائل ہوں۔ وہ چھدرا لکھتا تھا۔ کم عمر تھا۔ اندازِ گفتگو میں عجیب قسم کی بوکھلاہٹ تھی بات کرتے وقت اس کا ایک بازو ہلتا رہتا تھا۔ جیسے کلاک کا پنڈولم۔ رنگ سفید تھا۔ بالائی ہونٹ پر بھورے بھورے مہین بال تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے خود کتابت کی سیاہی سے یہ ہلکی ہلکی مونچھیں بنائی ہیں۔ میں نے اسے چند روز کے لیے رکھا۔ مگر اس نے اپنی شرافت، محنت اور تابعداری سے دفتر میں اپنے لیے مستقل جگہ پیدا کرلی۔ ولی محمد سے میرے تعلقات بہت بے تکلف تھے۔ جنسیات کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے وہ اکثر مجھ سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ اس دوران میں محمد نقی خاموش رہتا۔ عورت اور مرد کے جنسی تعلق کا ذکر کھلے الفاظ میں آتا تو اسکے کان کی لویں سرخ ہوجاتیں۔ ولی محمد جو کہ شادی شدہ تھا، اس کو خالص پنجابی انداز میں چھیڑتا۔

’’منٹو صاحب اس کا مردہ خراب ہورہاہے اس سے کہیے کہ شادی کرلے۔ جب بھی کوئی فلم دیکھ کر آتا ہے۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ ‘‘

تقی عام طور پر جھینپتے ہوئے کہتا

’’منٹو صاحب جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘

ولی محمد کی سیاہ نوکیلی مونچھیں تھرکنے لگیں

’’اور یہ بھی جھوٹ ہے منٹو صاحب کہ یہ چالی بلڈنگ کی یہودی چھوکریوں کی ننگی ٹانگیں دیکھ کر ان کی نقشہ کشی کیا کرتا ہے۔ ‘‘

تقی کی ناک کی چونچ پر پسینے کے قطرے نمودار ہو جاتے

’’میں تو۔ میں تو ڈرائنگ سیکھ رہا ہوں۔ ‘‘

ولی محمد اسے اور چھیڑتا

’’ڈرائنگ چہرے کی سیکھو۔ یہ کس ڈرائنگ ہسٹر نے تم سے کہا کہ پہلے ننگی ٹانگوں سے شروع کرو۔ ‘‘

محمد تقی قریب قریب رو دیتا، چنانچہ میں ولی محمد کومنع کرتا کہ وہ اسے نہ چھیڑا کرے۔ اس پر ولی محمد کہتا۔

’’منٹو صاحب، میں اس کے والد صاحب سے کہہ چکا ہوں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اس لونڈے کی شادی کرادیجیے، ورنہ اس کا مردہ بالکل خراب ہو جائے گا۔ ‘‘

محمد تقی کے باپ سے میری ملاقات ہوئی۔ داڑھی والے بزرگ تھے۔ نماز روزے کے پابند۔ ماتھے پر محراب۔ جھنڈی بازار میں ولی محمد کی شراتک میں گھی کی ایک چھوٹی سی دکان کرتے تھے۔ محمد تقی سے ان کو بہت محبت تھی۔ باتیں کرتے ہوئے آپ نے مجھ سے کہا

’’تقی دو برس کا تھا کہ اسکی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ خدا اسکو غریقِ رحمت کرے۔ بہت ہی نیک بی بی تھی۔ منٹو صاحب یقین جانیے اس کی موت کے بعد عزیزوں اور دوستوں نے بہت زور دیا کہ میں دوسری شادی کرلوں مگر مجھے تقی کا خیال تھا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے کہ میں اسکی طرف سے غافل ہوجاؤں۔ چنانچہ دوسری شادی کے خیال کو میں نے اپنے قریب تک نہ آنے دیا اور اسکی پرورش خود اپنے ہاتھوں سے کی۔ اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھ گنہگار کوسرخرو کیا۔ خدا اس کو زندگی اور نیکی کی ہدایت دے!‘‘

محمد تقی اپنے باپ کے اس ایثار کی ہمیشہ تعریف کیا کرتا۔

’’بہت کم باپ اتنی بڑی قربانی کرسکتے ہیں۔ اباّ جوان تھے۔ اچھا کھاتے تھے۔ چاہتے تو چٹکیوں میں ان کو اچھی سے اچھی بیوی مل جاتی، لیکن میری خاطر انھوں نے تجرد کی زندگی بسرکی۔ اتنی محبت اور اتنے پیار سے میری پرورش کی کہ مجھے ماں کی کمی محسوس ہی نہ ہونے دی۔ ‘‘

ولی محمد بھی تقی کے باپ کا معترف تھا۔ مگر اسے صرف یہ شکایت تھی کہ مولانا ذرا سنکی ہیں۔

’’منٹو صاحب آدمی بہت اچھا ہے کاروبار میں سولہ آنے کھرا ہے۔ تقی سے بہت پیار کرتا ہے۔ لیکن یہ پیار۔ میں اب اپنے احساسات کن الفاظ میں پیش کروں۔ اس کا پیار حد سے بڑھا ہوا ہے۔ یعنی وہ اس طرح پیار کرتا ہے جس طرح کوئی حاسد عاشق اپنے معشوق سے کرتا ہے۔ ‘‘

میں نے ولی محمد سے پوچھا۔

’’تمہارا مطلب؟‘‘

ولی محمد نے اپنی مونچھوں کی نوکیں درست کیں

’’مطلب وطلب میں نہیں سمجھا سکتا۔ آپ خود سمجھ لیجیے۔ ‘‘

میں نے مسکرا کہا۔

’’بھائی تم ذرا وضاحت سے کام لو، تو میں سمجھ جاؤں گا۔ ‘‘

ولی محمد نے سرخیاں لکھنے والے قلم کو کپڑے کے چیتھڑے سے صاف کرتے ہوئے کہا۔

’’مولانا سنکی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔ تقی کہتا ہے کہ پہلے ان کے پیار اور ان کی شفقت کا یہ رنگ نہیں تھا جو اب ہے۔ یعنی پچھلے چند برسوں سے آپ نے اپنے فرزند ارجمند سے پوچھ گچھ کا لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ متناہی ٹھیک استعمال ہے نا منٹو صاحب؟‘‘

’’ٹھیک استعمال ہوا ہے۔ ہاں یہ پوچھ گچھ کا سلسلہ کیا ہے؟‘‘

’’یہی تم رات کو دیر سے کیوں آئے؟۔ سفید گلی میں کیا کرنے گئے تھے۔ وہ یہودن تم سے کیا بات کررہی تھی؟۔ اتنے فلم کیوں دیکھتے ہو۔ پچھلے ہفتے تم نے کتابت کی اجرت میں سے چار آنے کہاں رکھے؟۔ ولی محمد سے تم بائی کلمہ کے پل پر بیٹھے کیا باتیں کررہے تھے؟۔ کیا وہ تمہیں ورغلا تو نہیں رہا تھا کہ شادی کرلو۔ ‘‘

میں نے ولی محمد سے پوچھا۔

’’ورغلانا کیا ہوا؟‘‘

’’معلوم نہیں۔ لیکن مولانا سمجھتے ہیں کہ تقی کا ہر دوست اسے شادی کے لیے ورغلاتا ہے۔ میں اس کو ورغلاتا تو نہیں لیکن یہ ضرور کہتا ہوں اور اکثر کہتا ہوں کہ جانِ من شادی کرلو ورنہ تمہارا مردہ خراب ہو جائے گا۔ اور منٹو صاحب میں آپ کو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ لڑکے کو ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے۔ ‘‘

چار پانچ برس گزر چکے تھے۔ محمد تقی کی مونچھوں کے بھورے بال اب مہین نہیں تھے ہر روز داڑھی مونڈتا تھا۔ ٹیڑھی مانگ بھی نکالتا تھا اور دفتر میں جب جذبات کے متعلق گفتگو چھڑتی تو وہ قلم دانتوں میں دبا کر غور سے سنتا۔ عورت اور مرد کے جنسی تعلق کا ذکر کھلے الفاظ میں ہوتا تو اسکے کانوں کی لویں سرخ نہ ہوتیں۔ محمد تقی کو بیوی کی ضرورت ہو سکتی تھی۔ ایک دن جبکہ اور کوئی دفتر میں نہیں تھا اور اکیلا تقی تخت پر دیوار کے ساتھ پیٹھ لگائے پرچے کی آخری کاپی مکمل کررہا تھا۔ میں نے اس کے خدوخال کا غور سے معائنہ کرتے ہوئے پوچھا۔

’’تقی تم شادی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

سوال اچانک کیا گیا تھا۔ تقی چونک پڑا۔

’’جی؟‘‘

’’میرا خیال ہے تم شادی کرلو۔ ‘‘

تقی نے قلم کان میں اڑسا اور کسی قدر شرما کر کہا۔

’’میں نے ابا سے بات کی ہے۔ ‘‘

’’کیا کہا انھوں نے؟‘‘

تقی تفصیل سے کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر نہ کہہ سکا

’’جی وہ۔ کچھ نہیں۔ وہ کہتے ہیں ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘

’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’جو اُن کا ہے۔ ‘‘

اس جواب کے بعد گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ تقی نے پرچے کی آخری کاپی مکمل کی اور اسے جوڑ کر چلا گیا۔ چند دن کے بعد ولی محمد نے تقی کی موجودگی میں مجھ سے کہا۔ منٹو صاحب۔ کل بڑا لفڑا ہوا۔ مولانا اور تقی میں دھیں پٹاس ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ‘‘

ولی محمد یوں تو اردو بولتا تھا۔ لیکن پنجابی اور بمبئی کی اردو کے کئی الفاظ مزاح پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کا عادی تھا۔ تقی نے اسکی بات سنی اور خاموش رہا۔ ولی محمد نے اپنی تھرکتی ہوئی نوکیلی مونچھوں کو آنکھوں کا زاویہ بدل کر دیکھا، پھر اس زاویے کو بدل اس نے تقی کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا

’’لڑکے کو ایک عدد بیوی کی اشد ضرورت ہے، لیکن باپ اس ضرورت کو مانتا ہی نہیں۔ اس نے بہت سمجھایا منٹو صاحب مگر مولانا نے ایک نہ سنی۔ منٹو صاحب یہ کیا محاورہ ہے ایک نہ سنی۔ مولانا نے سنی تو ہزار تھیں۔ لیکن سنی ا ن سنی کردیں۔ یہ محاورے بھی خوب چیز ہیں!۔ اور مولانا بھی۔ اپنے وقت کے ایک لاجواب محاورے ہیں۔ ‘‘

تقی بھنا کر مجھ سے مخاطب ہوا

’’منٹو صاحب اس سے کہیے خاموش رہے۔ ‘‘

ولی محمد بولا۔

’’منٹو صاحب اس سے کہیے کہ مولانا کے سامنے خاموش رہا کرے۔ وہ شادی کی اجازت نہیں دیتے۔ ٹھیک ہے۔ باپ ہیں وہ اس کا نفع نقصان سوچ سکتے ہیں۔ ‘‘

باپ بیٹے کی چخ ضرور ہوئی تھی۔ تقی نے مولانا سے درخواست کی تھی کہ وہ اسکی شادی کسی اچھے گھرانے میں کر دیں یہ سُن کر وہ چڑ گئے اور تقی کو دوستوں پر برسنے لگے۔

’’تمہارے دوستوں نے تمہاری جڑوں میں پانی پھیر دیا ہے۔ جب میں تمہاری عمر کا تھا۔ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ شادی بیاہ کس جانور کا نام ہے؟‘‘

یہ سن کر تقی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔

’’لیں۔ آپ کی شادی تو چودہ برس کی عمر میں ہوئی تھی۔ ‘‘

مولانا نے اسے ڈانٹا

’’تمہیں کیا معلوم ہے؟‘‘

تقی خاموش ہو گیا۔ وہ بہت ہی کم گو اور فرمانبردار قسم کا لڑکا تھا۔ دو چار مرتبہ اس نے بے تکلف گفتگو کی اور اس کے کھلنے کا موقع دیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اسکو بیوی کی واقعتاً ضرورت ہے۔ اس نے مجھ سے ایک روز جھینپتے ہوئے کہا میرے خیالات آج کل بہت پراگندے رہتے ہیں۔ ولی محمد شادی شدہ ہے۔ وہ جب اپنی بیوی کے ساتھ باہر جاتا ہے تو میرے دل کو جانے کیا ہوتا ہے۔ آپ نے ایک دفعہ احساس کمتری کے متعلق باتیں کی تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں عنقریب اس کا شکار ہونے والا ہوں۔ مگر کیا کروں۔ ابا مانتے ہی نہیں۔ میں شادی کی بات کرتا ہوں تو وہ چڑ جاتے ہیں۔ جیسے۔ جیسے شادی کرنا کوئی گناہ ہے۔ وہ اپنی مثال دیتے ہیں کہ دیکھو تمہاری ماں کے مرنے کے بعد اب تک میں نے شادی نہیں کی۔ لیکن منٹو صاحب۔ اس مثال کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انھوں نے شادی کی اللہ کو یہ منظور نہیں تھا۔ کہ ان کی بیوی زندہ رہتی انھوں نے بہت بڑی قربانی کی جو میری خاطر دوسری شادی نہ کی۔ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ میں کنوارا ہی رہوں‘‘

میں نے پوچھا

’’کیوں؟‘‘

تقی نے جواب دیا

’’معلوم نہیں منٹو صاحب۔ وہ میری شادی کے بارے میں کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ لیکن کل باتوں باتوں میں جذبات سے مغلوب ہو کر میں گستاخی کر بیٹھا۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

تقی نے انتہائی ندامت کے ساتھ کہا۔

’’میں منت سماجت کرتے کرتے اور سمجھاتے سمجھاتے تنگ آگیا تھا۔ کل جب انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ میری شادی کے متعلق کچھ سننے کو تیار نہیں تو میں نے غصے میں آکر ان سے کہہ دیا۔ آپ نہیں سنیں گے تو میں اپنی شادی کا بندوبست خود کرلوں گا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’یہ سن کر انھوں نے کیا کہا۔ ‘‘

ابھی ابھی گھر سے نکل جاؤ۔ چنانچہ کل رات میں یہاں دفتر ہی میں سویا۔ میں نے شام کو ولی محمد کے ذریعے سے مولانا کو بلوایا۔ چند جذباتی باتیں ہوئیں تو انھوں نے تقی کو گلے لگا کر رونا شروع کردیا۔ پھر شکوے ہونے لگے۔ مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ لڑکا جس کی خاطر میں نے تجرد برداشت کیا ایک روز میرے ساتھ ایسی گستاخی سے پیش آئے گا۔ میں نے ماؤں کی طرح اسے پالا پوسا آپ سوکھی کھائی پر اس کے لیے خود اپنے ہاتھوں گھی میں گوندھ گوندھ کر پراٹھے پکائے۔ ‘‘

میں نے بات کاٹ کر کہا۔

’’مولانا، یہ کب آپ کے ان احسانات کو نہیں مانتا۔ آپ کی تمام قربانیاں اس کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔ آپ نے اتنا کچھ کیا۔ کیا آپ اس کی شادی نہیں کرسکتے۔ ماں باپ کی تو سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھیں۔ آپ کے گھر میں بہو آئے گی۔ بال بچے ہوں گے۔ دادا جان بن کر آپ کو پُر فخر مسرت نہ ہو گی؟۔ میرا خیال ہے تقی کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ آپ شادی کے خلاف ہیں۔ ‘‘

مولانا لاجواب ہو گئے۔ رومال سے اپنی آنکھیں خشک کرنے لگے۔ تھوڑے توقف کے بعد بولے۔

’’پر کوئی ایسا رشتہ ہوتو۔ ‘‘

’’آپ ہاں کردیجیے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

ولی محمد نے یہ کچھ ایسے انداز میں کہا۔

’’چلیے انگوٹھا لگائیے۔ ‘‘

مولانا بدل گئے۔

’’لیکن ایسی جلدی بھی کیا ہے؟‘‘

اس پر میں نے بزرگوں کا انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔

’’کار خیر میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ آپ اوروں کو چھوڑیئے، خود اپنی پسند کا رشتہ ڈھونڈھیے۔ ماشاء اللہ ڈونگری میں سب لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ یہاں بمبئی میں پسند نہ ہو تو اپنے پنجاب میں سہی۔ کون سا گالے کوسوں دور ہے۔ ‘‘

مولانا نے سر ہلا کر صرف اتنا کہا۔

’’جی ہاں!‘‘

میں نے تقی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا

’’لو بھئی تقی۔ فیصلہ ہو گیا۔ مولانا کو تم ضدی بچوں کی طرح اب تنگ نہ کرنا۔ میں خود اس معاملے میں ان کی مدد کروں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر میں مولانا سے مخاطب ہوا۔

’’یہاں کچھ خاندان ہیں۔ ان سے میری جان پہچان ہے۔ میں اپنی بیوی سے کہوں گا وہ لڑکیاں دیکھ لے گی۔ ‘‘

تقی نے ہولے سے کہا۔

’’آپ کی بہت مہربانی۔ ‘‘

کئی مہینے گزر گئے مگر تقی کی شادی کی بات چیت کہیں بھی شروع نہ ہوئی۔ ولی محمد اس دوران میں اسے برابر اکساتا رہا۔ وہ اپنے باپ کے پیچھے پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز مولانا میرے پاس آئے اور کہا

’’سانگٹی اسٹریٹ کی تیسری گلی میں نکڑ کی بلڈنگ میں۔ شاید آپ جانتے ہی ہوں۔ یوپی کا ایک خاندان رہتا ہے۔ ‘‘

میں نے فوراً کہا۔

’’آپ کہیے۔ میں جانتا ہوں!‘‘

مولانا نے پوچھا

’’کیسے لوگ ہیں؟‘‘

’’بے حد شریف‘‘

’’جو سب سے بڑا بھائی ہے۔ اسکی بڑی لڑکی۔ ‘‘

میں نے سنا ہے خاصی اچھی ہے!

’’میں پیغام بھجوا دیتا ہوں۔ ‘‘

مولانا گھبرا گئے نہیں نہیں۔ اتنی جلدی نہیں۔ یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ لڑکی شکل و صورت کی کیسی ہے؟‘‘

’’میں اپنی بیوی کے ذریعہ سے معلوم کرلوں گا۔ ‘‘

میری بیوی نے اس لڑکی کو دیکھا تو پسند کیا۔ قبول صورت تھی۔ تعلیم انٹرنس تک تھی طبیعت کی بہت ہی اچھی تھی۔ یہ سب خوبیاں مولانا سے بیان کردی گئیں۔ وہ لڑکی کے باپ سے ملے جہیز اور حق مہر کے متعلق بات چیت ہوئی۔ یہ ابتدائی مراحل بخیر و خوبی طے ہو گئے۔ تقی بہت خوش تھا۔ لیکن تین مہینے گزر گئے اور بات وہیں کی وہیں رہی۔ آخر ایک روز معلوم ہوا کہ لڑکی والوں نے مزید گفتگوسے انکار کردیا ہے کیونکہ وہ تقی کے باپ کی مین میخ سے تنگ آچکے ہیں۔ بار بار وہ ان سے جا جا کر یہ کہتا تھا۔ دیکھیے لڑکی کے جہیز میں اتنے جوڑے ہوں برتنوں کی تعداد یہ ہو۔ لڑکی نے اگر میری حکم عدولی کی تو اس کی سزا طلاق ہو گی۔ فلم دیکھنے ہرگز نہ جائے گی۔ پردے میں رہے گی۔ میں نے جب ان بے جا باتوں کا ذکر تقی سے کیا۔ تو وہ اپنے باپ کی طرف ہو گیا۔

’’نہیں منٹو صاحب۔ لڑکی والے ٹھیک نہیں۔ ابا کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ وہ مجھے رن مُرید بنانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا

’’ایسا ہے تو چھوڑو۔ کسی اور جگہ سہی۔ ‘‘

تقی نے کہا۔

’’ابا کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘

مولانا نے ڈونگری میں اپنے ایک واقف کار کے ذریعے سے بات چیت شروع کی سب کچھ طے ہو گیا۔ نکاح کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی۔ مگر ایک دم کچھ ہوا اور سب کچھ ڈھے گیا۔ لڑکی والوں کو تقی پسند تھا، لیکن جب مولانا سے اچھی طرح ملنے جلنے کا اتفاق ہوا تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اور لڑکی کا رشتہ کسی اور جگہ پکا کردیا۔ تقی نے پھر اپنے باپ کی طرفداری کی اور مجھ سے کہا۔

’’یہ لوگ بڑے لالچی تھے منٹو صاحب۔ ایک دولت مند کا لڑکا مل گیا تو اپنی بات سے پھر گئے۔ ابا شروع ہی سے کہتے تھے کہ یہ لوگ مجھے ایماندار معلوم نہیں ہوتے۔ لیکن میں خواہ مخواہ ان کے پیچھے پڑا رہا۔ کہ جلدی معاملہ طے کیجیے۔ ‘‘

کچھ عرصے کے بعد تیسری جگہ کوشش شروع ہوئی۔ یہاں بھی نتیجہ صفر۔ چوتھی جگہ بات چیت شروع ہوئی تو تقی نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب، وہ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’بڑے شوق سے ملیں۔ ‘‘

میں ان سے ملا۔ آدمی شریف تھے۔ مولانا سے ان کی چند مختصر باتیں ہوئیں۔ میں نے تقی کی تعریف کی۔ معاملے طے ہو گیا۔ لیکن چند ہی دنوں میں گڑ بڑ پیدا ہو گئی۔ لڑکی کے بڑے بھائی نے کسی سے سنا کہ مولانا دکان پر اپنے ایک دوست سے کہہ رہے تھے۔ لڑکی میرے کہنے پر نہ چلی تومیں تقی کی دوسری شادی کردوں گا۔ ‘‘

وہ یہ سن کر میرے پاس آیا۔ میں نے مولانا کو بلوایا۔ ان سے پوچھا تو داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگے۔

’’میں نے کیا برا کہا۔ میں ایسی بہو گھر میں نہیں لانا چاہتا جو میرا کہا نہ مانے۔ میں تقی کی شادی اس لیے کررہا ہوں کہ مجھے آرام پہنچے۔ ‘‘

عجیب و غریب منطق تھی۔ میں نے پوچھا

’’آپ کو آرام ضرور پہنچنا چاہیے۔ مگر آپ کی یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاوند اور بیوی کا رشتہ آپ کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ‘‘

مولانا نے کسی قدر خفگی کے ساتھ کہا

’’میں خاوند رہ چکا ہوں منٹو صاحب۔ آپ کے خیالات میرے خیالات سے بہت مختلف ہیں۔ آپ کے ساتھ کام کرکے مجھے افسوس ہے میرے لڑکے کے خیالات بھی بدل گئے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ تقی سے مخاطب ہوئے۔

’’سنا تم نے۔ میں ایسی لڑکی گھر میں لانا چاہتا ہوں جو میری اور تمہاری خدمت کرے۔ ‘‘

اس کے بعد دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ان سے جو میں نے نتیجہ نکالا وہ میں نے تقی کو بتایا دیا۔

’’دیکھو بھئی۔ بات یہ ہے کہ تمہارے والد صاحب تمہاری شادی نہیں کرنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار کوئی نہ کوئی شوشہ چھیڑ دیتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ نکالتے ہیں تاکہ معاملہ آگے نہ بڑھنے پائے۔ ‘‘

مولانا خاموش اپنی داڑھی پرہاتھ پھیرتے رہے۔ تقی نے مجھ سے پوچھا

’’کیوں۔ یہ میری شادی کیوں نہیں کرنا چاہتے۔ ‘‘

میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔

’’مولانا کا دماغ خراب ہے۔ ‘‘

مولانا کو اس قدر طیش آیا کہ منہ میں جھاگ بھر کر واہی تباہی بکنے لگے۔ میں نے تقی سے کہا

’’جاؤ، مولانا کو کسی ذہنی شفاخانہ میں لے جاؤ۔ اور میری یہ بات یاد رکھو۔ جب تک ان کا دماغ درست نہیں ہو گا۔ تمہاری شادی ہرگز ہرگز نہیں کریں گے۔ ان کے دماغ کی خرابی کا باعث وہ قربانی ہے جو انھوں نے تمہارے لیے کی۔ ‘‘

مولانا نے تقی کا بازو زور سے پکڑا اور مجھے صلواتیں سناتے چلے گئے۔ ولی محمد میرے پاس بیٹھا سب کچھ خاموشی سے سن رہا تھا۔ اتنی دیر وہ اپنی نوکیلی مونچھوں کے وجود سے بالکل غافل رہا۔ جب مولانا اور تقی چلے گئے تو اس نے آنکھوں کا زاویہ درست کرکے ان کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’مردہ خراب ہورہا ہے بیچارے کا۔ لیکن منٹو صاحب آپ نے باون تولہ اور پاؤ رتی کی بات کہی۔ محاورہ درست استعمال ہوا ہے نا؟‘‘

’’تم نے محاورہ درست استعمال ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مولانا کی طبیعت صاف کرتے ہوئے میں نے مناسب و موزوں الفاظ استعمال نہیں کیے۔ ‘‘

’’بڑا ملعون آدمی ہے!‘‘

ولی محمد نے یہ کہہ کر اپنی مونچھ کا ہٹیلا بال بڑے زور سے اکھیڑا اور بڑی سنجیدگی اختیارکرکے مجھ سے پوچھا۔

’’منٹو صاحب، کیا مطلب تھا آپ کا اس سے کہ مولانا کے دماغ کی خرابی کا باعث وہ قربانی ہے جو اس نے تقی کے لیے کی۔ بات ضرور باون تولہ اور پاؤ رتی کی ہے لیکن پوری طرح میرے ذہن میں بیٹھی نہیں۔ ‘‘

میں نے اس کو سمجھایا

’’بیوی کی موت کے بعد ایک وقتی جذبہ تھا جس کے تحت مولانا نے تجرد کے دن گزارنے کا تہیہ کیا۔ یہ جذبہ اپنی طبعی موت مرا تو آپ کے لیے دو سوگ ہو گئے، ایک بیوی کی موت کا، دوسرا اس جذبے کی موت کا۔ وقت گزرتا گیا اور مولانا نیم کے کریلے بنتے گئے۔ مجھے تو بھئی ولی محمد بہت ترس آتا ہے غریب پر۔ ایک شخص جس نے پچیس برس تک اپنے اور عورت کے درمیان ایک دیوار حائل رکھی ہو، وہ کس طرح اپنے جوان بیٹے کے پہلو میں ایک جوان عورت دیکھ سکتا ہے۔ اور وہ بھی نظروں کے بہت قریب!‘‘

دوسرے دن تقی نہ آیا۔ ولی محمد کے ہاتھ اُس نے کتابت کا بل بھجوا دیا جو ادا کردیا گیا۔ تقی کو بہت افسوس تھا کہ میں نے اسکے باپ کو بُرا بھلا کہا۔ میں نے ولی محمد سے کہہ دیا

’’مجھے کوئی افسوس نہیں۔ تقی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس کا باپ ذہنی اور روحانی طور پر بیمار ہے۔ لیکن مجھے یہ افسوس ضرور ہے کہ اس نے کام چھوڑ دیا ہے۔ ‘‘

ولی محمد نے تقی سے واپس آنے کو کہا۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس نے کسی اور دفتر میں ملازمت نہ کی اور دکان پر بیٹھ کر گھی بیچنے لگا۔ ولی محمد نے جب زور دیا تو اس نے وہیں کتابت کا کام بھی شروع کردیا۔ میں ایک کام سے دہلی چلا گیا۔ تین چار مہینے وہاں رہ کر بمبئی لوٹا۔ تو ولی محمد نے پلیٹ فارم ہی پر یہ خبر سنائی کہ تقی کی شادی ایک ہفتہ پہلے بخیرو خوبی ہو چکی ہے۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن ولی محمد نے قرآن کی قسم کھا کر کہا

’’منٹو صاحب، میں جھوٹ نہیں کہتا۔ نکاح کے چھوارے میں نے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ جس کی شادی نہ ہوتی ہو۔ اس کے لیے اکسیر ثابت ہوں گے‘‘

میں نے تقی کو بلایا، مگر وہ نہ آیا۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد ایک دن علی الصبح ولی محمد آیا۔ اسکی نوکیلی مونچھیں تھرک رہی تھیں۔ کہنے لگا منٹو صاحب۔ کل دھیں پٹاس ہو گئی باپ بیٹے میں۔ تقی اپنی بیوی کو لے کر چلا گیا کہیں۔

’’کہاں؟‘‘

’’معلوم نہیں‘‘

یہ کہہ کر آنکھوں کا زاویہ بدل کر ولی محمد نے اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا منٹو صاحب۔ لڑائی کا باعث معلوم نہیں ہوسکا۔ مولانا بالکل خاموش ہیں۔ ‘‘

مولانا بہت دیر تک خاموش رہے اور ان کا بیٹا محمد تقی بھی۔ بمبئی میں ولی محمد اور اس کے ساتھیوں نے تقی کو بہت تلاش کیا۔ مگر اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ بہت دنوں کے بعد دلی سے مجھے تقی کا ایک خط وصول ہوا۔ لکھا تھا

’’۔ بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو خط لکھوں اور حالات سے آگاہ کروں۔ مگر جرأت ساتھ نہ دیتی تھی۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ خط کسی اور کو نہ دکھائیے گا۔ آپ نے میرے والد کے متعلق جو کچھ کہا تھا ٹھیک نکلا۔ میں نے آپکی باتوں کا برا مانا تھا۔ اس لیے کہ مجھے اصلیت کا علم نہیں تھا جو مجھے شادی کے بعد معلوم ہوئی۔ میرے والد کا دماغ واقعی درست نہیں۔ ہو سکتا ہے پہلے ٹھیک ہو۔ لیکن میری شادی کے بعد تو قطعاً انکی دماغی حالت درست نہ تھی۔ ان کی یہی کوشش تھی کہ میں اپنی بیوی سے دور رہوں۔ مجھ اور اس میں دوری پیدا کرنے کے لیے وہ عجیب و غریب طریقے ایجاد کرتے تھے۔ جو ایک دیوانہ ہی کرسکتا ہے۔ میں نے بہت دیر تک برداشت کیا۔ مجھے تمام واقعات بیان کرتے ہوئے بہت شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایک روز میری بیوی غسل خانے میں نہا رہی تھی۔ آپ نے دروازے میں سے جھانک کر دیکھنا شروع کردیا۔ میں اور کیا لکھوں۔ سمجھ میں نہیں آتا۔ ان کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے۔ خدا ان کی حالت پر رحم کرے۔ ‘‘

’’میں یہاں دہلی میں ہوں اور بہت خوش ہوں۔ ‘‘

میں یہ خط پڑھ رہا تھا کہ ولی محمد آیا۔ اس کے پاس تقی کا ایک خط تھا۔ میری طرف بڑھا کر اس نے کہا۔

’’یہ خط تقی نے دہلی سے اپنے باپ کو لکھا ہے۔ صرف چند الفاظ ہیں۔ ‘‘

’’میں نے پوچھا کیا؟‘‘

’’ولی محمد نے کہا پڑھ لیجیے۔ ‘‘

میں نے یہ الفاظ پڑھے۔

’’قبلہ والد صاحب۔ میں یہاں خیریت سے ہوں۔ آپ نے میرا گھر آباد ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی اپنا گھر آباد کرلیں۔ ‘‘

۔ ولی محمد نے آنکھوں کا زاویہ بدل کر اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا اور کہا۔

’’منٹو صاحب۔ لڑکا ہوشیار ہو گیا ہے۔ لیکن مولانا تو اپنی بات پکی کر چکے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں‘‘

ولی محمد کی مونچھیں تھرکیں

’’ایک گھی بیچنے والی سے۔ پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ محاورہ ٹھیک استعمال کیا نہ منٹو صاحب‘‘

میں ہنس پڑا۔ یکم جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

تصویر

’’بچے کہاں ہیں؟‘‘

’’مر گئے ہیں‘‘

سب کے سب؟‘‘

’’ہاں، سب کے سب۔ آپ کو آج ان کے متعلق پوچھنے کا کیا خیال آگیا۔ میں اُن کا باپ ہوں‘‘

’’آپ ایسا باپ خدا کرے کبھی پیدا ہی نہ ہو‘‘

’’تم آج اتنی خفا کیوں ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا‘گھڑی میں رتی گھڑی میں ماشہ ہو جاتی ہو۔ دفتر سے تھک کر آیا ہوں اور تم نے یہ چخ چخ شروع کردی ہے۔ بہتر تھا کہ میں وہاں دفتر ہی میں پنکھے کے نیچے آرام کرتا۔ ‘‘

’’پنکھا یہاں بھی ہے۔ آپ آرام طلب ہیں۔ یہیں آرام فرما سکتے ہیں‘‘

’’تمہارا طنز کبھی نہیں جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ چیز تمہیں جہیز میں ملی تھی‘‘

’’میں کہتی ہوں، کہ آپ مجھ سے اس قسم کی خرافات نہ بکا کیجیے۔ آپ کے دیدوں کا تو پانی ہی ڈھل گیا ہے‘‘

’’یہاں تو سب کچھ ڈھل گیا ہے۔ تمہاری وہ جوانی کہاں گئی؟۔ میں تو اب ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے سو برس کا بڈھا ہوں‘‘

’’یہ آپ کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ میں نے تو خود کو کبھی عمر رسیدہ محسوس نہیں کیا‘‘

’’میرے اعمال اتنے سیاہ تو نہیں۔ اور پھر میں تمہارا شوہر ہوتے ہوئے کیا اتنا بھی محسوس نہیں کر سکتا کہ تمہارا شباب اب روبہ تنزل ہے‘‘

’’مجھ سے ایسی زبان میں گفتگو کیجیے جس کو میں سمجھ سکوں۔ یہ تروبہ نزل کیا ہوا‘‘

چھوڑو اسے۔ آؤ محبت پیار کی باتیں کریں!‘‘

آپ نے ابھی ابھی تو کہا تھا کہ آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سو برس کے بڈھے ہیں‘‘

بھئی دل تو جوان ہے‘‘

آپ کے دل کو میں کیا کہوں۔ آپ اسے دل کہتے ہیں مجھ سے کوئی پوچھے تو میں یہی کہوں گی کہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہے جو اس شخص نے اپنے پہلو میں دبا رکھا ہے اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ اس میں محبت بھری ہوئی ہے۔ آپ محبت کرنا کیا جانیں۔ محبت تو صرف عورت ہی کر سکتی ہے‘‘

’’آج تک کتنی عورتوں نے مردوں سے محبت کی ہے۔ ذرا تاریخ کا مطالعہ کرو۔ ہمیشہ مردوں ہی نے عورتوں سے محبت کی اور اسے نبھایا۔ عورتیں تو ہمیشہ بے وفا رہی ہیں‘‘

’’جھوٹ۔ اس کا اوّل جھوٹ ‘ اس کا آخر جھوٹ۔ بیوفائی تو ہمیشہ مردوں نے کی ہے‘‘

اور وہ جو انگلستان کے بادشاہ نے ایک معمولی عورت کے لیے تخت و تاج چھوڑ دیا تھا؟۔ وہ کیا جھوٹی اور فرضی داستان ہے‘‘

’’بس ایک مثال پیش کر دی اور مجھ پر رعب ڈال دیا‘‘

’’بھئی تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ مرد جب کسی عورت سے عشق کرتا ہے تو وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتا‘ کم بخت اپنی جان قربان کر دیگا مگر اپنی محبوبہ کو ذرا سی بھی ایزا پہنچنے نہیں دے گا‘ تم نہیں جانتی ہو مرد میں جبکہ وہ محبت میں گرفتار ہو کتنی طاقت ہوتی ہے‘‘

’’سب جانتی ہوں۔ آپ سے تو کل الماری کا جما ہوا دروازہ بھی نہیں کھل سکا۔ آخر مجھے ہی زور لگا کر کھولنا پڑا‘‘

’’دیکھو‘ جانم۔ تم زیادتی کر رہی ہو۔ تمھیں معلوم ہے کہ میرے داہنے بازو میں ریح کا درد تھا‘ میں اُس دن دفتر بھی نہیں گیا تھا اور سارا دن اور ساری رات پڑا کراہتا رہا تھا۔ تم نے میرا کوئی خیال نہ کیا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ سنیما دیکھنے چلی گئیں‘‘

’’آپ تو بہانہ کر رہے تھے‘‘

’’لا حول و لا۔ یعنی میں بہانہ کر رہا تھا‘ درد کے مارے میرا بُرا حال ہو رہا ہے اور تم کہتی ہو کہ میں بہانہ کر رہا تھا۔ لعنت ہے ایسی زندگی پر‘‘

’’یہ لعنت مجھ پر بھیجی گئی ہے!‘‘

’’تمہاری عقل پر تو پتھر پڑ گئے ہیں۔ میں اپنی زندگی کا رونا رو رہا تھا‘‘

’’آپ تو ہر وقت روتے ہی رہتے ہیں‘‘

’’تم تو ہنستی رہتی ہو۔ اس لیے کہ تمھیں کسی کی پرواہ ہی نہیں۔ بچے جائیں جہنم میں‘ میرا جنازہ نکل جائے۔ یہ مکان جل کر راکھ ہو جائے مگر تم ہنستی رہو گی۔ ایسی بے دل عورت میں نے آج تک اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی‘‘

’’کتنی عورتیں دیکھی ہیں آپ نے اب تک؟‘‘

’’ہزاروں‘ لاکھوں۔ سڑکوں پر تو آج کل عورتیں ہی عورتیں نظر آتی ہیں‘‘

’’جھوٹ نہ بولیے۔ آپ نے کوئی نہ کوئی عورت خاص طور پر دیکھی ہے‘‘

’’خاص طور پر سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘

’’میں آپ کے راز کھولنا نہیں چاہتی۔ میں اب چلتی ہوں‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’ایک سہیلی کے یہاں۔ اس سے اپنا دکھڑا بیان کروں گی ‘ خود روؤں گی‘ اُس کو بھی رلاؤں گی۔ اس طرح کچھ جی ہلکا ہو جائے گا‘‘

وہ دکھڑا جو تمھیں اپنی سہیلی سے بیان کرنا ہے‘ مجھے ہی بتا دو۔ میں تمہارے غم میں شریک ہونے کا وعدہ کرتا ہوں۔

’’آپ کے وعدے؟۔ کبھی ایفا ہوئے ہیں؟‘‘

’’تم بہت زیادتی کر رہی ہو۔ میں نے آج تک تم سے جو بھی وعدہ کیا پورا کیا۔ ابھی پچھلے دنوں تم نے مجھ سے کہا کہ چائے کا ایک سیٹ لا دو۔ میں نے ایک دوست سے روپے قرض لے کر بہت عمدہ سیٹ خرید کر تمھیں لا دیا۔

’’بڑا احسان کیا مجھ پر۔ وہ تو دراصل آپ اپنے دوستوں کے لیے لائے تھے۔ اس میں سے دو پیالے کس نے توڑے تھے؟ ذرا یہ تو بتائیے؟‘‘

’’ایک پیالہ تمہارے بڑے لڑکے نے توڑا۔ دوسرا تمہاری چھوٹی بچی نے‘‘

’’سارا الزام آپ ہمیشہ انھیں پر دھرتے ہیں۔ اچھا اب یہ بحث بند ہو۔ مجھے نہا دھو کر کپڑے پہننا اور جُوڑا کرنا ہے۔

’’دیکھو‘ میں نے آج تک کبھی سخت گیری نہیں کی‘ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نرمی سے پیش آتا رہا ہوں مگر آج میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ باہر نہیں جا سکتیں‘‘

’’اجی واہ۔ بڑے آئے‘ مجھ پر حکم چلانے والے۔ آپ ہیں کون؟‘‘

’’اتنی جلدی بھول گئی ہو۔ میں تمہارا خاوند ہوں‘‘

’’میں نہیں جانتی ‘ خاوند کیا ہوتا ہے۔ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ میں باہر جاؤں گی اور ضرور جاؤں گی‘ دیکھتی ہوں‘ مجھے کون روکتا ہے‘‘

’’تم نہیں جاؤ گی۔ بس یہ میرا فیصلہ ہے‘‘

’’فیصلہ اب عدالت ہی کرے گی‘‘

’’عدالت کا یہاں کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آج تم کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی ہو‘ تک کی بات کرو۔ جاؤ نہا لو تاکہ تمہارا دماغ کسی حد تک ٹھنڈا ہو جائے‘‘

’’آپ کے ساتھ رہ کر میں تو سر سے پیر تک برف ہو چکی ہوں‘‘

کوئی عورت اپنے خاوند سے خوش نہیں ہوتی‘ خواہ وہ بیچارہ کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو۔ اس میں کیڑے ڈالنا اس کی سرشت میں داخل ہے۔ میں نے تمہاری کئی خطائیں اورغلطیاں معاف کی ہیں‘‘

’’میں نے خدانخواستہ کون سی خطا کی ہے؟‘‘

’’پچھلے برس تم نے شلجم کی شب دیگ بڑے ٹھاٹ سے پکانے کا ارادہ کیا۔ شام کو چولہے پر ہنڈیا رکھ کر تم ایسی سوئیں کہ اُٹھ کر جب میں باورچی خانے میں گیا تو دیکھا کہ دیگچی میں سارے شلجم کوئلے بنے ہوئے ہیں۔ ان کو نکال کر میں نے انگیٹھی سلگائی اور چائے تیار کی۔ تم سو رہی تھیں‘‘

’’میں یہ بکواس سننے کے لیے تیار نہیں‘‘

’’اس لیے کہ اس میں جھوٹ کا ایک ذرّہ بھی نہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ عورت کو سچ اور حقیقت سے کیوں چڑ ہے۔ میں اگر کہہ دُوں کہ تمہارا بایاں گال تمہارے دائیں کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ موٹا ہے تو شاید تم مجھے ساری عمر نہ بخشو۔ مگر یہ حقیقت ہے جسے شاید تم بھی اچھی طرح محسوس کرتی ہو۔ دیکھو یہ پیپر ویٹ وہیں رکھ دو۔ اٹھا کے میرے سر پر دے مارا تو تھانہ تھنول ہو جائے گا‘‘

’’میں نے پیپر ویٹ اس لیے اُٹھایا تھا کہ یہ آپ کے چہرے کے عین مطابق ہے۔ اس کے اندر جو ہوا کے بلبلے سے ہیں وہ آپ کی آنکھیں ہیں۔ اور یہ جو لال سی چیز ہے وہ آپ کی ناک ہے جو ہمیشہ سُرخ رہتی ہے۔ میں نے جب آپ کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے ایسا لگا تھا جیسے آپ کی آنکھوں کے نیچے جو گائے کی آنکھیں ہیں‘ ایک کاکروچ اوندھے منہ بیٹھا ہے‘‘

’’تمہارا جی ہلکا ہو گیا؟‘‘

’’میرا جی کبھی ہلکا نہیں ہو گا۔ مجھے آپ جانے دیجیے۔ نہا دھو کر میں شاید یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں‘‘

’’جانے سے پہلے یہ تو بتا جاؤ کہ یہ جانا کس بنا پر ہے؟‘‘

’’میں بتانا نہیں چاہتی۔ آپ تو اوّل درجے کے بے شرم ہیں‘‘

’’بھئی ‘ تمہاری اس ساری گفتگو کا مطلب ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ معلوم نہیں ‘ تمھیں مجھ سے کیا شکایت ایک دم پیدا ہو گئی ہے‘‘

’’ذرا اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالیے‘‘

’’میرا کوٹ کہاں ہے؟‘‘

’’لاتی ہوں۔ لاتی ہوں‘‘

’’میرے کوٹ میں کیا ہو سکتا ہے۔ وہسکی کی بوتل تھی۔ وہ تو میں نے باہر ہی ختم کر کے پھینک دی تھی۔ لیکن ہو سکتا ہے رہ گئی ہو‘‘

’’لیجیے ‘ آپ کا کوٹ یہ رہا‘‘

’’اب میں کیا کروں؟‘‘

’’اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈالیے۔ اور اُس لڑکی کی تصویر نکالیے جس سے آپ آج کل عشق لڑا رہے ہیں‘‘

’’لا حول و لا‘‘

تم نے میرے اوسان خطا کر دیے تھے۔ یہ تصویر ‘ میری جان‘ میری بہن کی ہے جس کو تم نے ابھی تک نہیں دیکھا‘ افریقہ میں ہے۔ تم نے یہ خط نہیں دیکھا۔ ساتھ ہی تو تھا۔ یہ لو‘‘

’’ہائے‘ کتنی خوبصورت لڑکی ہے۔ میرے بھائی جان کے لیے بالکل ٹھیک رہے گی‘‘

۱۸، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

تانگے والے کا بھائی

سید غلام مرتضیٰ جیلانی میرے دوست ہیں۔ میرے ہاں اکثر آتے ہیں۔ گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ کافی پڑھے لکھے ہیں۔ ان سے میں نے ایک روز کہا !

’’شاہ صاحب ! آپ اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ تو سنائیے!‘‘

شاہ صاحب نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔

’’منٹو صاحب۔ میری زندگی دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کون سا واقعہ آپ کو سناؤں۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا!

’’جو بھی آپ کے ذہن میں آ جائے۔ ‘‘

شاہ صاحب مسکرائے۔

’’آپ مجھے بڑا پرہیز گار آدمی سمجھتے ہوں گے۔ آپ کو معلوم نہیں میں نے دس برس تک دن رات شراب پی ہے اور خوب کھل کھیلا ہوں۔ اب چونکہ دل اچاٹ ہو گیا ہے اس لیے میں نے شغل چھوڑ رکھے ہیں۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کہیں آپ نے شادی تو نہیں کر لی؟‘‘

’’حضرت ٗ میں پانچ برس سے لاہور میں ہوں۔ اگر میں نے شادی کی ہوتی تو آپ کو اس کی اطلاع مل جاتی۔ ‘‘

’’تو کیا آپ ابھی تک کنوارے ہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’بڑے تعجب کی بات ہے !‘‘

شاہ صاحب نے ایک آہ بھری۔

’’چلیے۔ آپ کو ایک داستان سنا دوں۔ آپ اسے لکھ کر اپنے پیسے کھرے کر لیجیے گا‘‘

مجھے پیسے کھرے کرنے تو تھے، پھر بھی میں نے ان سے کہا :

’’نہیں شاہ صاحب۔ آپ اپنی داستان سنائیے ٗ دیکھیں اس کا افسانہ بنتا بھی ہے کہ نہیں۔ ویسے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں نے آپ کی داستان کو افسانے میں ڈھال لیا تو مجھے جو معاوضہ ملے گا، سب کا سب آپ کا ہو گا۔ ‘‘

شاہ صاحب ہنسے۔

’’چھوڑو یار۔ میں اپنی بیتی ہوئی زندگی کے ٹکڑوں کی قیمت وصول نہیں کرنا چاہتا۔ تم افسانہ نگار لوگ عجیب ذہن کے ہوتے ہو۔ داستان سن لو۔ باقی تم جانو۔ مجھے معاوضے وغیرہ سے کوئی سرو کار نہیں۔ ‘‘

شاہ صاحب کے لب و لہجہ سے یہ صاف ظاہر تھا کہ انہیں میری بات پسند نہیں آئی اس لیے میں نے اس کے بارے میں مزید گفتگو کرنا مناسب نہ سمجھی اور ان سے کہا :

’’آپ اپنی داستان بیان کرنا شروع کر دیں۔ ‘‘

شاہ صاحب نے میرے سگریٹ کیس سے سگریٹ نکال کر سلگایا۔ مجھے بڑا تعجب ہوا اس لیے کہ میں نے انہیں چار پانچ برس کے عرصے میں کبھی سگریٹ پیتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا :

’’شاہ صاحب آپ سگریٹ پیتے ہیں !‘‘

شاہ صاحب کے ہونٹوں پر جن میں سگریٹ اٹکا ہوا تھا ٗ عجیب قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’منٹو صاحب! آپ نے اپنی زندگی میں اتنے سگریٹ نہیں پِیے ہوں گے۔ جتنے میں پی چکا ہوں۔ آج آپ نے ایسی بات چھیڑ دی کہ خود بخود میرے ہاتھ آپ کے سگریٹ کیس کی طرف اٹھ گئے۔ وِسکی ہے آپ کے پاس؟‘‘

میں نے جواب دیا :

’’جی ہاں۔ ہے۔ ‘‘

’’تو لاؤ۔ ایک پٹیالہ پیگ۔ میں دس برس کا رکھا ہوا روزہ توڑوں گا۔ تم نے آج ایسی باتیں کی ہیں کہ میرا سارا جسم ماضی میں چلا گیا ہے۔ ‘‘

میں نے اپنی الماری سے وسکی کی بوتل نکالی اور شاہ صاحب کے لیے ایک پٹیالہ پیگ بنا کر حاضر کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی جُرعے میں گلاس خالی کر دیا۔ آستین سے ہونٹ صاف کرنے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئے

’’ہاں تو اب کہانی سنو۔ لیکن یہ بوتل یہاں سے غائب کر دو۔ ‘‘

میں نے وسکی کی بوتل اٹھائی اور اندر جا کر الماری میں رکھ دی۔ واپس آیا تو دیکھا شاہ صاحب دوسرا سگریٹ سلگا رہے ہیں۔ میں کرسی اٹھا کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ مسکرائے۔ لیکن یہ مسکراہٹ کچھ زخمی سی تھی۔ انھوں نے اسی زخمی مسکراہٹ سے کہنا شروع کیا۔

’’جو واقعہ میں اب بیان کرنے والا ہوں۔ آج سے قریب قریب دس برس پہلے کا ہے۔ ہمارا حلقہ ءِ احباب زیادہ تر کھاتے پیتے اور کافی مالدار ہندوؤں کا تھا۔ بڑے اچھے لوگ تھے۔ ہر روز پینے پلانے کا شغل رہتا۔ اس حلقے میں میرے علاوہ کئی اور دوستوں کو شراب کے علاوہ عورتوں کی بھی ضرورت محسوس ہوا کرتی۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی ضرورت پوری کرتے۔ مجھ سے کہتے کہ تم بھی آؤ۔ مگر میں انکار کر دیتا۔ اپنی مرضی کے خلاف۔ میرا دل ویسے چاہتا تھا کہ کسی عورت کی قربت نصیب ہو۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے کہا :

’’آپ نے شادی کیوں نہ کر لی۔ ‘‘

’’شاہ صاحب نے جواب دیا :

’’میں نے۔ سچ پوچھو تو اس کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ‘‘

’’کیوں۔ ‘‘

’’کبھی خیال ہی نہ آیا۔ ‘‘

’’خیر۔ آپ اپنی داستان جاری رکھیے !‘‘

شاہ صاحب نے سگریٹ کوایش ٹرے میں دبایا۔

’’پیارے منٹو! میں نے بہت کوشش کی کہ اپنے دوستوں کے ساتھ شراب نوشی کے سوا کسی اور شغل میں نہ پھنسوں۔ لیکن ان کم بختوں نے آخر ایک دن مجھے آمادہ کر ہی لیا اور یہ طے پایا کہ کسی دلال کے ذریعے خوش شکل لونڈیا منگوائی جائے۔ ہم چار دوست فلیٹ سے باہر نکلے تو ایک تانگے والا جو کہ میرا واقف تھا مجھے دیکھ کر پکار اٹھا۔

’’شاہ جی۔ شاہ جی۔ آؤ۔ آؤ:‘‘

ہم چاروں دوست اس کے تانگے بیٹھ گئے۔ اس وقت میں پورا پورا قائل ہو چکا تھا کہ شراب کے ساتھ عورت ضرور ہونی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنی ساری شرافت اپنی جیب میں ڈال کے اس کے کان میں کہا کہ وہ کسی لونڈیا کا بندوبست کر دے۔ جب اس نے یہ سنا تو وہ بھونچکا سا ہو کر رہ گیا۔ اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں کبھی ایسی واہیات بات کروں گا۔ لیکن جب میں نے اس کے کان میں پھر کہا کہ مجھے واقعی ایک لڑکی کی اشد ضرورت ہے تو اس نے بڑے ادب سے کہا:

’’شاہ جی : تُسیں جو حکم دیو۔ بندہ حاضر اے۔ ایسی تگڑی کُڑی لے کے آواں گا کہ ساری عمر یاد رکھو گے۔ ‘‘

تانگے والا چلا گیا اور ہم واپس اپنے فلیٹ میں آ گئے۔ شام کا وقت تھا جب وہ یہ مہم سر کرنے کے لیے گیا تھا۔ ہم دیر تک انتظار کرتے رہے۔ طرح طرح کے خیالات میرے دل میں آتے تھے وہ لڑکی کس قسم کی ہو گی ٗ کہیں کوئی بازاری عورت تو نہ نکل آئے گی۔ ہم جب انتظار کرتے کرتے تھک گئے تو تاش کھیلنا شروع کر دی۔ رات کے بارہ بج گئے۔ ہم مایوس ہو کر باہر نکلے تو دیکھا کہ تانگے والا گھوڑے کے چابک لگاتا چلا آرہا ہے۔ پچھلی نشست پر ایک برقع پوش عورت بیٹھی تھی۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ تانگے والے نے مجھ سے کہا:

’’شاہ جی! جو مال میں لینے گیا تھا وہ دِساور چلا گیا ہے۔ اب یہ دوسرا مال بڑی کوششوں سے ڈھونڈ کر لایا ہوں۔ ‘‘

میں نے اس کو پانچ روپے دیے۔ پھر ہم چاروں دوست سوچنے لگے کہ اس برقع پوش عورت کو کہاں لے جائیں۔ اپنے فلیٹ میں لے جانا ٹھیک نہیں تھا اس لیے کہ ذمہ داری تھی۔ لوگ چہ میگوئیاں کرتے۔ بات کا بتنگڑ بن جاتا۔ خواہ مخواہ ایک فضیحتا ہو جاتا۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے دوست رحمان کے پاس چلیں۔ رات کے ایک بجے کے قریب ہم اس برقع پوش عورت کے ہمراہ رحمن کے مکان پر پہنچے۔ بہت دیر تک دستک دینے کے بعد اس نے دروازہ کھولا۔ کمبل اوڑھے تھا اسے غالباً بخار تھا۔ میں نے ساری بات دبی زبان میں بتائی تو اس نے بھی دبی زبان ہی میں کہا:

’’شاہ جی۔ آپ کو کیا ہو گیا ہے۔ میرا مکان حاضر ہے ٗ لیکن آپ کو معلوم نہیں کہ اس مہینے کی بیس تاریخ کو میری شادی ہونے والی ہے۔ میرا سالا اندر ہے۔ اس کی موجودگی میں یہ سلسلہ جو آپ چاہتے ہیں ٗ کیسے ہو سکتا ہے۔ ‘‘

کچھ دیر۔ میری سمجھ میں نہ آیا اس سے کیا کہوں۔ لیکن تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس کو ڈانٹا۔

’’یار! تم نرے کھرے بے وقوف ہو۔ اپنے سالے کو چلتا کرو۔ ہم اتنی دور سے تمہارے پاس آئے ہیں۔ کیا تم میں اتنی مروّت بھی باقی نہیں رہی۔ بیس تاریخ کو تمہاری شادی آ رہی ہے ٗ ٹھیک ہے۔ لیکن آج میری شادی ہے۔ یہ میری دلہن برقع پہنے تانگے میں بیٹھی ہے۔ تمہیں اپنے دوستوں کا کچھ تو خیال آنا چاہیے۔ ‘‘

رحمان کو میری حالت پر کچھ ترس آ گیا۔ چنانچہ اس نے اپنے سالے کو جگایا اور اس کو اپنے بخار کیلیے کوئی ضروری دوا لینے کے لیے باہر بھیج دیا ٗ شہر میں قریب قریب کیمسٹوں کی سب دکانیں بند تھیں۔ لیکن اس نے اپنے سالے سے کہا :

’’شہر کی دکانیں دیکھو جہاں سے بھی تمہیں یہ دوا ملے لے کر آؤ !‘‘

لڑکا برخوردار قسم کا تھا۔ نسخہ لے کر آنکھیں ملتا چلا گیا ! اس غریب کو تانگہ بھی شاید نظر نہ آیا۔ جس میں برقع پوش عورت بیٹھی تھی۔ میں نے سوچا۔ کہ ہجوم ٹھیک نہیں ہو گا۔ معلوم نہیں میرے دوست کیا حرکتیں کریں ٗ چنانچہ میں نے ان کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کر لیا کہ وہ تانگے میں واپس چلے جائیں۔ پانچ روپے تانگے والے کو اور دے دئیے مگر اس نے برقع پوش سواری اتاری تو کہا:

’’حضور: اس کی فیس تو دیتے جائیے۔ ‘‘

میں نے پوچھا کتنی ہے۔

’’پچیس روپے‘‘

میں نے جیب سے نوٹ نکالے اور گن کر پانچ پانچ کے پانچ نوٹ اس کے حوالے کر دئیے اور اس برقع پوش عورت کو اپنے دوست کے مکان میں لے آیا۔ ‘‘

رحمان کو بخار تھا۔ وہ علیحدہ کمرے میں جا کر لیٹ گیا میں بہت دیر تک اس برقع پوش عورت سے گفتگو کرتا رہا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اپنے چہرے سے نقاب ہی ہٹایا۔ میں تنگ آگیا۔ اس کو ٹٹولا۔ تو وہ بالکل سپاٹ تھی۔ آخر میں نے زبردستی اس کا برقع الٹ دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب دیکھا کہ وہ عورت نہیں۔ ہیجڑا تھا۔ نہایت مکروہ قسم کا۔ ! مجھے سخت غصّہ آیا۔ میں نے اس سے پوچھا ٗ

’’یہ کیا واہیات پن ہے۔ ‘‘

اس ہیجڑے نے جس کے چہرے پر روؤں کا نیلا نیلا غبار موجود تھا ٗ بڑے نسوانی انداز میں جواب دیا ٗ

’’میں۔ تانگے والے کا بھائی ہوں۔ ‘‘

شاہ صاحب نے اس کے بعد مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب ! اس دن کے بعد مجھے اس سلسلے سے کوئی رغبت نہیں رہی۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پیرن

یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں بے حد مفلس تھا۔ بمبئی میں نو روپے ماہوار کی ایک کھولی میں رہتا تھا جس میں پانی کا نل تھا نہ بجلی۔ ایک نہایت ہی غلیظ کوٹھڑی تھی جس کی چھت پر سے ہزار ہا کھٹمل میرے اوپر گرا کرتے تھے۔ چوہوں کی بھی کافی بہتات تھی۔ اتنے بڑے چوہے میں نے پھر کبھی نہیں دیکھے۔ بلیاں ان سے ڈرتی تھیں۔ چالی یعنی بلڈنگ میں صرف ایک غسل خانہ تھا۔ جس کے دروازے کی کنڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ صبح سویرے چالی کی عورتیں پانی بھرنے کے لیے اس غسل خانے میں جمع ہوتی تھیں۔ یہودی، مرہٹی، گجراتی، کرسچین۔ بھانت بھانت کی عورتیں۔ میرا یہ معمول تھا کہ ان عورتوں کے اجتماع سے بہت پہلے غسل خانے میں جاتا، دروازہ بھیڑتا اور نہانا شروع کردیتا۔ ایک روز میں دیر سے اٹھا۔ غسل خانے میں پہنچ کر نہانا شروع کیا تو تھوڑی دیر کے بعد کھٹ سے دروازہ کھلا۔ میری پڑوسن تھی۔ بغل میں گاگر دبائے اس نے معلوم نہیں کیوں ایک لحظے کے لیے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر ایک دم پلٹی۔ گاگر اس کی بغل سے پھسلی اور فرش پر لڑھکنے لگی۔ ایسی بھاگی جیسے کوئی شیر اس کا تعاقب کررہا ہے۔ میں بہت ہنسا، اٹھ کر دروازہ بند کیا اور نہانا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دروازہ کھلا۔ برج موہن تھا۔ میں نہا کے فارغ ہو چکا تھا اور کپڑے پہن رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’’بھئی منٹو آج اتوار ہے۔ ‘‘

مجھے یاد آگیا کہ برج موہن کو باندرہ جانا تھا، اپنی دوست پیرن سے ملنے کے لیے۔ وہ ہر اتوار کو اس سے ملنے جاتا تھا۔ وہ ایک معمولی سی شکل و صورت کی پارسی لڑکی تھی جس سے برج موہن کا معاشقہ قریباً تین برس سے چل رہا تھا۔ ہر اتوار کوبرج موہن مجھ سے آٹھ آنے ٹرین کے کرائے کے لیے لیتا۔ پیرن کے گھرپہنچتا۔ دونوں آدھے گھنٹے تک آپس میں باتیں کرتے برج موہن اسٹرٹیڈ ویکلی کے کراس ورڈ پزل کے حل اس کو دیتا اور چلا آتا۔ وہ بیکار تھا۔ سارا دن سرنیوڑھائے یہ پزل اپنی دوست پیرن کے لیے حل کرتا رہتا تھا۔ اس کو چھوٹے چھوٹے کئی انعام مل چکے تھے مگر وہ سب پیرن نے وصول کیے تھے۔ برج موہن نے ان میں سے ایک دمڑی بھی اس سے نہ مانگی تھی۔ برج موہن کے پاس پیرن کی بے شمار تصویریں تھیں۔ شلوار قمیض میں چست پاجامے میں، ساڑھی میں، فراک میں، بیڈنگ کسٹیوم میں، فینسی ڈریس میں۔ غالباً سو سے اوپر ہو گی۔ پیرن قطعاًٰ خوبصورت نہیں تھی بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بہت ہی ادنیٰ شکل و صورت کی تھی لیکن میں نے اپنی اس رائے کا اظہار برج موہن سے کبھی نہیں کیا تھا۔ میں نے پیرن کے متعلق کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہے، کیا کرتی ہے، برج موہن سے اس کی ملاقات کیسے ہوئی، عشق کی ابتدا کیوں کر ہوئی۔ کیا وہ اس سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟۔ برج موہن نے بھی اس کے بارے میں مجھ سے کبھی بات چیت نہ کی تھی۔ بس ہر اتوار کو وہ ناشتے کے بعد مجھ سے آٹھ آنے کرائے کے لیتا اور اس سے ملنے کے لیے باندرہ روانہ ہو جاتا اور دوپہر تک لوٹ آتا۔ میں نے کھولی میں جا کر اس کو آٹھ آنے دیے، وہ چلا گیا۔ دوپہرکو لوٹا تو اس نے خلافِ معمول مجھ سے کہا۔

’’آج معاملہ ختم ہو گیا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کونسا معاملہ؟‘‘

مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کس معاملے کی بات کررہا ہے۔ برج موہن نے سوچا جیسے اس کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔

’’مجھ سے کہا۔ پیرن سے آج دو ٹوک فیصلہ ہو گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا۔ جب بھی تم سے ملنا شروع کرتا ہوں مجھے کام نہیں ملتا۔ تم بہت منحوس ہو۔ اس نے کہا بہتر ہے، ملنا چھوڑ دو۔ دیکھوں گی تمہیں کیسے کام ملتا ہے۔ میں منحوس ہوں، مگر تم اول درجے کے نکھٹو اور کام چور ہو۔ سو اب یہ قصہ ختم ہو گیا ہے اور میرا خیال ہے انشاء اللہ کل ہی مجھے کام مل جائے گا۔ صبح تم مجھے چار آنے دینا۔ میں سیٹھ نانو بھائی سے ملوں گا، وہ مجھے ضرور اپنا اسسٹنٹ رکھ لے گا۔ ‘‘

یہ سیٹھ نانو بھائی جو فلم ڈائریکٹر تھا متعدد مرتبہ برج موہن کو ملازمت دینے سے انکار کر چکا تھا۔ کیونکہ اس کا بھی پیرن کی طرح یہی خیال تھا کہ وہ کام چور اور نکما ہے لیکن دوسرے روز جب برج موہن مجھ سے چار آنے لے کر گیا تو دوپہر کو اس نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ سیٹھ نانو بھائی نے بہت خوش ہو کر اسے ڈھائی سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا ہے۔ کنٹریکٹ ایک برس کا ہے جس پر دستخط ہو چکے ہیں پھر اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو روپے نکالے اور مجھے دکھائے۔

’’یہ ایڈوانس ہے۔ جی تو میرا چاہتا ہے کنٹریکٹ اور سوروپے لے کر باندرہ جاؤں اور پیرون سے کہوں کہ لو دیکھو، مجھے کام مل گیا ہے، لیکن ڈر ہے کہ نانو بھائی مجھے فوراً جواب دے دے گا۔ میرے ساتھ ایک نہیں کئی مرتبہ ایسا ہوچکا ہے۔ ادھرملازمت ملی، ادھر پیرن سے ملاقات ہوئی۔ معاملہ صاف۔ کسی نہ کسی بہانے مجھے نکال باہر کیا گیا۔ خدا معلوم اس لڑکی میں یہ نحوست کہاں سے آگئی۔ اب میں کم از کم ایک برس تک اس کا منہ نہیں دیکھوں گا۔ میرے پاس کپڑے بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایک برس لگا کر کچھ بنوالوں تو پھر دیکھا جائے گا۔ ‘‘

چھ مہینے گزر گئے۔ برج موہن برابر کام پر جارہا تھا۔ اس نے کئی نئے کپڑے بنوا لیے تھے۔ ایک درجن رومال بھی خرید لیے تھے۔ اب وہ تمام چیزیں اس کے پاس تھیں جو ایک کنوارے آدمی کے آرام و آسائش کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ایک روز وہ اسٹوڈیو گیا ہوا تھا کہ اس کے نام ایک خط آیا۔ شام کو جب وہ لوٹا تومیں اسے یہ خط دینا بھول گیا۔ صبح ناشتے پر مجھے یاد آیا تو میں نے یہ خط اس کے حوالے کردیا۔ لفافہ پکڑتے ہی وہ زور سے چیخا۔

’’لعنت!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

وہی پیرن۔ اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے چمچ سے لفافہ کھول کر خط کا کاغذ نکالا اور مجھ سے کہا۔

’’وہی کم بخت ہے۔ میں کبھی اس کا ہینڈرائٹنگ بھول سکتا ہوں۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا لکھتی ہے؟‘‘

’’میرا سر۔ کہتی ہے مجھ سے اس اتوار کو ضرور ملو۔ تم سے کچھ کہنا ہے۔

’’یہ کہہ کر برج موہن نے خط لفافے میں ڈ الا اور جیب میں رکھ لیا۔ لو بھئی منٹو، نوکری سے انشاء اللہ کل ہی جواب مل جائے گا۔ ‘‘

’’کیا بکواس کرتے ہو۔ ‘‘

موہن نے بڑے وثوق سے کہا۔

’’نہیں منٹو تم دیکھ لینا۔ کل اتوار ہے۔ پرسوں منٹو بھائی کو ضرور مجھ سے کوئی نہ کوئی شکایت پیدا ہو گی اور وہ مجھے فوراً نکال باہر کرے گا۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’اگر تمہیں اتنا وثوق ہے تو مت جاؤ اس سے ملنے۔ ‘‘

’’یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ بلائے تو مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ملازمت کرتے کرتے کچھ میں بھی اکتا چکا ہوں۔ چھ مہینے سے اوپر ہو گئے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور چلا گیا۔ دوسرے روز ناشتہ کرکے وہ باندرہ چلا گیا۔ پیرن سے ملاقات کرکے لوٹا۔ تو اس نے اس ملاقات کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’مل آئے اپنے منحوس ستارے سے؟‘‘

’’ہاں بھئی۔ اس سے کہہ دیا کہ ملازمت سے بہت جلد جواب مل جائے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کھاٹ پر سے اٹھا۔

’’چلو آؤ کھانا کھائیں۔ ‘‘

ہم دونوں نے حاجی کے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس دوران میں پیرن کی کوئی بات نہ ہوئی۔ رات کو سونے سے پہلے اس نے صرف اتنا کہا۔

’’اب دیکھیے کل کیا گل کھلتا ہے۔ ‘‘

میرا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مگر دوسرے روز برج موہن خلافِ معمول اسٹوڈیو سے جلدی لوٹ آیا مجھ سے ملا تو خوب زور سے ہنسا

’’اور دونوں بھائی۔ میں نے سمجھا مذاق کررہا ہے۔

’’ہٹاؤ جی۔ ‘‘

’’جو ہٹنا تھا وہ تو ہٹ گیا۔ اب میں کیسے ہٹاؤں۔ سیٹھ نانو بھائی پر ٹانچ آگئی ہے۔ اسٹوڈیو سیل ہو گیا ہے۔ میری وجہ سے خواہ مخواہ بیچارے نانو بھائی پر بھی آفت آئی۔ ‘‘

یہ کہہ کر برج موہن پھر ہنسنے لگا۔ میں نے صرف اتنا کہا۔

’’یہ عجیب سلسلہ ہے!‘‘

’’دیکھ لو۔ اسے کہتے ہیں ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ ‘‘

برج موہن نے سگریٹ سلگایا اور کیمرہ اٹھا کر باہر گھومنے چلا گیا۔ برج موہن اب بیکار تھا۔ جب اس کی جمع پونجی ختم ہو گئی تو اس نے ہر اتوار کو پھرمجھ سے باندرہ جانے کے لیے آٹھ آنے مانگنے شروع کر دیے۔ مجھے ابھی تک معلوم نہیں آدھ پون گھنٹے میں وہ پیرن سے کیا باتیں کرتا تھا۔ ویسے وہ بہت اچھی گفتگو کرنے والا تھا۔ مگر اس لڑکی سے جس کی نحوست کا اس کو مکمل طور پر یقین تھا وہ کس قسم کی باتیں کرتا تھا۔ میں نے ایک روز اس سے پوچھا۔

’’برج، کیا پیرن کو بھی تم سے محبت ہے؟‘‘

’’نہیں، وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے۔ ‘‘

’’تم سے کیوں ملتی ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ میں ذہین ہوں، اس کے بھدے چہرے کو خوبصورت بنا کر پیش کرسکتا ہوں۔ اس کے لیے کراس ورڈ پزل حل کرتا ہوں۔ کبھی کبھی اس کو انعام بھی دلوا دیتا ہوں۔ منٹو، تم نہیں جانتے ان لڑکیوں کو۔ میں خوب پہچانتا ہوں انھیں۔ جس سے وہ محبت کرتی ہے، اس میں جو کمی ہے، مجھ سے مل کر پوری کرلیتی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔

’’بڑی چار سوبیس ہے!‘‘

میں نے قدرے حیرت سے پوچھا۔

’’مگر تم کیوں اس سے ملتے ہو؟‘‘

برج موہن ہنسا، چشمے کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑ کر اس نے کہا۔

’’مجھے مزا آتا ہے۔ ‘‘

’’کس بات کا۔ ‘‘

’’اس نحوست کا۔ میں اس کا امتحان لے رہا ہوں۔ اس کی نحوست کا امتحان۔ یہ نحوست اپنے امتحان میں پوری اتری ہے۔ میں نے جب بھی اس سے ملنا شروع کیا، مجھے اپنے کام سے جواب ملا۔ اب میری ایک خواہش ہے کہ اس کے منحوس اثر کو چکمہ دے جاؤں۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

برج موہن نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’میرا یہ جی چاہتا ہے کہ ملازمت سے جواب ملنے سے پہلے ملازمت سے علیحدہ ہو جاؤں، یعنی خود اپنے آقا کو جواب دے دوں اس سے بعد میں کہوں، جناب مجھے معلوم تھا کہ آپ مجھے برطرف کرنے والے ہیں۔ اس لیے میں نے آپ کو زحمت نہ دی اور خود علیحدہ ہو گیا اور آپ مجھے برطرف نہیں کررہے تھے، یہ میری دوست پیرن تھی جس کی ناک کیمرے میں اس طرح گھستی ہے جیسے تیر!‘‘

برج موہن مسکرایا۔

’’یہ میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے، دیکھو پوری ہوتی ہے یا نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’عجیب و غریب خواہش ہے۔ ‘‘

’’میری ہر چیز عجیب و غریب ہوتی ہے۔ پچھلے اتوارمیں نے پیرن کے اس دوست کے لیے جس سے وہ محبت کرتی ہے، ایک فوٹو تیار کرکے دیا۔ الو کی دم اسے کمپی ٹیشن میں بھیجے گا۔ یقینی طور پر انعام ملے گا اسے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔ برج موہن واقعی عجیب و غریب آدمی تھا۔ وہ پیرن کے دوست کو کئی بار فوٹو تیار کرکے دے چکا ہے۔ السٹریٹڈویکلی میں یہ فوٹو اس کے نام سے چھپتے تھے اور پیرن بہت خوش ہوتی تھی۔ برج موہن ان کو دیکھتا تھا تو مسکرا دیتا تھا۔ وہ پیرن کے دوست کی شکل صورت سے ناآشنا تھا، پیرن نے برج موہن سے اس کی ملاقات تک نہ کرائی تھی۔ صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ کسی مل میں کام کرتا ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ ایک اتوار کو برج باندرہ سے واپس آیا تو اس نے مجھ سے کہا۔

’’لو بھئی منٹو، آج معاملہ ختم ہو گیا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’پیرن والا؟‘‘

’’ہاں بھئی۔ کپڑے ختم ہو رہے تھے، میں نے سوچا کہ یہ سلسلہ ختم کرو۔ اب انشاء اللہ دنوں ہی میں کوئی نہ کوئی ملازمت مل جائے گی۔ میرا خیال ہے سیٹھ نیاز علی سے ملوں۔ اس نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کل ہی جاؤں گا۔ تم یار ذرا اس کے دفتر کا پتا لگا لینا۔ میں نے اس کے دفتر کا نیا فون ایک دوست سے پوچھ کر برج موہن کو بتا دیا۔ وہ دوسرے روز وہاں گیا۔ شام کو لوٹا۔ اس کے مطمئن چہرے پرمسکراہٹ تھی۔

’’لو بھئی منٹو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے جیب سے ٹائپ شدہ کاغذ نکالا اور میری طرف پھینک دیا۔

’’ایک پکچر کا کنٹریکٹ۔ تنخواہ دو سو روپے ماہوار۔ کم ہے۔، لیکن سیٹھ نیاز علی نے کہا ہے، بڑھا دوں گا۔ ٹھیک ہے!‘‘

میں ہنسا۔

’’اب پیرن سے کب ملو گے؟‘‘

برج موہن مسکرایا۔

’’کب ملوں گا؟‘‘

میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے اس سے کب ملنا چاہیے۔ منٹو یار، میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک میری چھوی سی خواہش ہے، بس وہ پوری ہو جائے۔ میرا خیال ہے مجھے اتنی جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ ذرا میرے تین چار جوڑے بن جائیں۔ پچاس روپے ایڈوانس لے کر آیا ہوں پچیس تم رکھ لو۔ ‘‘

پچیس میں نے لیے۔ ہوٹل والے کا قرض تھا جو فوراً چکا دیا گیا۔ ہمارے دن بڑی خوشحالی میں گزرنے لگے۔ سو روپیہ ماہوار میں کما لیتا تھا۔ دو سو روپے ماہانہ برج موہن لے آتا تھا۔ بڑے عیش تھے۔ پانچ مہینے گزر گئے کہ اچانک ایک روز پیرن کا خط برج موہن کو وصول ہوا۔

’’لو بھئی منٹو، عزرائیل صاحب تشریف لے آئے۔ ‘‘

صحیح بات ہے کہ میں نے اس وقت خط دیکھ کر خوف سا محسوس کیا مگر برج موہن نے مسکراتے ہوئے لفافہ چاک کیا۔ خط کا کاغذ نکال کر پڑھا۔ بالکل مختصر تحریر تھی۔ میں نے برج سے پوچھا۔

’’کیا فرماتی ہیں؟‘‘

’’فرماتی ہیں، اتوار کو مجھ سے ضرور ملو۔ ایک اشد ضروری کام ہے۔ ‘‘

برج موہن نے خط لفافے میں واپس ڈال کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’جاؤگے؟‘‘

’’جانا ہی پڑے گا۔ ‘‘

پھر اس نے یہ فلمی گیت گانا شروع کردیا۔

’’مت بھول مسافر تجھے جانا ہی پڑے گا!‘‘

مت نے اس سے کہا۔

’’برج مت جاؤ اس سے ملنے۔ بڑے اچھے دن گزر رہے ہیں ہمارے۔ تم نہیں جانتے، میں خدا معلوم کس طرح تمہیں آٹھ آنے دیا کرتا تھا۔ ‘‘

برج موہن مسکرایا۔

’’مجھے سب معلوم ہے، لیکن افسوس ہے کہ اب وہ دن پھرآنے والے ہیں۔ جب تم خدا معلوم کس طرح مجھے ہر اتوار آٹھ آنے دیا کرو گے!‘‘

اتوار کو برج، پیرن سے ملنے باندرہ گیا۔ واپس آیا تو اس نے مجھ سے صرف اتنا کہا۔

’’میں نے اس سے کہا، یہ بارھویں مرتبہ ہے مجھے تمہاری نحوست کی وجہ سے برطرف ہونا پڑے گا۔ تم پر زحمت ہو زرتشت کی!‘‘

میں نے پوچھا۔

’’اس نے یہ سن کر کچھ کہا۔ ‘‘

برج نے جواب دیا۔

’’فقط یہ۔ تم سلی ایڈیٹ ہو!‘‘

’’تم ہو؟‘‘

’’سو فی صدی!‘‘

یہ کہہ کر برج ہنسا۔

’’اب میں کل صبح دفتر جاتے ہی استعفیٰ پیش کردینے والا ہوں۔ میں نے وہیں پیرن کے ہاں لکھ لیا تھا۔ ‘‘

برج موہن نے مجھے استعفے کا کاغذ دکھایا۔ دوسرے روز خلافِ معمول اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور دفتر روانہ ہو گیا۔ شام کو لوٹا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ مجھے ہی بالآخر اس سے پوچھنا پڑا۔

’’کیوں برج، کیا ہوا؟‘‘

اس نے بڑی امیدی سے سر ہلایا،

’’کچھ نہیں۔ سارا قصہ ہی ختم ہو گیا۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’میں نے سیٹھ نیاز علی کو اپنا استعفےٰ پیش کیا تو اس نے مسکرا کر مجھے ایک آفیشل خط دیا۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ میری تنخواہ پچھلے مہینے سے دو سو کے بجائے تین سو روپے ماہوار کردی گئی ہے؟‘‘

پیرن سے برج موہن کی دلچسپی ختم ہو گئی اس نے مجھ سے ایک روز کہا

’’پیرن کی نحوست ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی ختم ہو گئی۔ اور میرا ایک نہایت دلچسپ مشغلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب کون مجھے بیکار رکھنے کاموجب ہو گا!‘‘

27جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

پہچان

ایک نہایت ہی تھرڈ کلاس ہوٹل میں دیسی وسکی کی بوتل ختم کرنے کے بعد طے ہوا کہ باہر گھوما جائے اور ایک ایسی عورت تلاش کی جائے جو ہوٹل اور وسکی کے پیدا کردہ تکدّر کو دُور کر سکے۔ کوئی ایسی عورت ڈھونڈی جائے جو ہوٹل کی کثافت کے مقابلے میں نفاست پسند اور بدذائقہ وسکی کے مقابلہ میں لذیذ ہو۔ فخر نے ہوٹل کی غلیظ فضا سے باہر نکلتے ہی مجھ سے اور مسعودسے کہا۔

’’کوئی دانے دار عورت ہو۔۔۔۔۔۔ اچھے گویّے کے گلے کی طرح اس میں بڑے بڑے دانے ہوں۔۔۔۔ خدا کی قسم طبیعت صاف ہو جائے۔ ‘‘

وسکی دانوں سے بالکل خالی تھی۔ سوڈا بھی بالکل بے جان تھا۔ غالباً اسی وجہ سے فخر دانے دار عورت کا قائل ہو رہا تھا۔ ہم تینوں عورت چاہتے تھے۔ فخر دانے دار عورت چاہتا تھا۔ مجھے ایسی عورت مطلوب تھی جو بڑے سلیقے سے واہیات باتیں کرے۔۔۔۔۔۔ اور مسعود کو ایسی عورت کی ضرورت تھی۔ جس میں بنیا پن نہ ہو۔ اپنی فیس کے روپے لے کر ٹرنک میں جہاں اس کا جی چاہے رکھے اور کچھ عرصے کے لیے بھول جائے کہ سودا کر رہی ہے۔ اس بازار کا راستہ ہم جانتے تھے۔ جہاں عورتیں مل سکتی ہیں۔ کالی، نیلی پیلی، لال اور جامنی رنگ کی عورتیں۔ پیڑوں کی طرح ان کے مکان ایک قطار میں دُور تک دوڑتے چلے گئے ہیں۔ یہ رنگ برنگی عورتیں ان پکے ہوئے پھلوں کے مانند لٹکی رہتی ہیں۔ آپ نیچے سے ڈھیلا مار کر اسے گرا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ عورتیں مطلوب نہیں تھیں۔ دراصل ہم اپنے آپ کو دھوکا دینا چاہتے تھے۔ ہم ایسی عورت یا عورتیں چاہتے تھے۔ جو عرفِ عام میں پرائیویٹ ہوں یعنی جو منڈی کے ہجوم سے نکل کر علیحدہ شریف محلوں میں اپنا کاروبار چلا رہی ہوں۔ ہم تینوں میں فخر سب سے زیادہ تجربہ کار تھا۔ قوتِ ارادی بھی اس میں ہم سب سے زیادہ تھی۔ ایک تانگے والا جب ہمارے پاس سے گزرا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔ اور بغیر کسی جھجک کے معنی خیز لہجے میں اُس سے کہا ہم سیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ چلو گے؟‘‘

تانگے والے نے جو سنجیدہ اور متین آدمی معلوم ہوتا تھا۔ ہم تینوں کی طرف باری باری دیکھا۔ میں جھینپ سا گیا۔ خاموشی ہی خاموشی میں وہ ہم سے کہہ گیا تھا۔

’’تم جوانوں کو شراب پی کر یہ کیا ہو جاتا ہے؟‘‘

’’فخر نے دوبارہ اس سے کہا: ہم سیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو گے؟ پھرتو واقعی اسے کچھ خیال آیا اور اپنا مطلب اور زیادہ واضح کر دیا۔

’’کوئی مال وال ہے تمہاری نگاہ میں؟‘‘

مسعوداور میں دونوں ایک طرف کھسک گئے مسعود نے گھبرا کر مجھ سے کہا۔

’’یہ فخر کیسا آدمی ہے اسے کچھ سمجھاؤ۔ ‘‘

مسعود سے میں کچھ کہنے ہی والا تھا۔ کہ فخر نے آواز دی۔

’’آؤ بھئی آؤ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھو تانگے میں۔ ‘‘

ہم تینوں تانگے میں بیٹھ گئے۔ مجھے اگلی نشست پر جگہ ملی۔ دسمبر کے آخری دن تھے۔ وقت کے آٹھ بج چکے تھے۔ وسکی پینے کے باوجود ہمیں سردی محسوس ہو رہی تھی۔ (میں) چونکہ اگلی نشست پر تھا۔ اور تینوں میں سے سب سے کمزور تھا۔ اس لیے میرے کان سُن ہو رہے تھے۔ جب تانگہ ڈفرن برج کے نیچے اُترا تو میں نے مفلر نکال کر کانوں اور سر پر لپیٹ لیا۔ اور اوورکوٹ کا کالر بھی اونچا کر لیا۔ سانس گھوڑے کے نتھنوں سے بھاپ بن کر باہر نکل رہا تھا ہم تینوں خاموش تھے۔ تانگے والا موٹے اور کُھردرے کمبل میں لپٹا خاموشی سے اپنا تانگہ چلا رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ سنجیدگی اس کے چہرے پر ٹھٹھر سی رہی تھی۔ جو مجھے بہت بُری معلوم ہوئی۔ چنانچہ میں نے فخر سے کہا۔ فخر یہ آدمی کیسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کاسٹرول پی کر بیٹھا ہے۔ ‘‘

تانگے والا میرے اس ریمارک پر بھی خاموش رہا۔ فخر نے کہا۔ زیادہ باتیں کرنے والے آدمی ٹھیک نہیں ہوتے۔ ہمارا مطلب سمجھ گیا ہے۔ لے چلے گا۔ جہاں اچھی چیز ہوئی۔ ‘‘

مسعود سگریٹ سُلگا رہا تھا۔ ایک دم بولا۔ ‘‘

واللہ عورت کتنی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت عورت کم ہے چیز زیادہ ہے۔ میں نے اس کو ذرا اور خوبصورت بنا کر کہا۔

’’مسعود چیز نہیں۔۔۔۔۔۔ چیز سی۔ ‘‘

شاعر آدمی تھا بھڑک اُٹھا۔ واللہ کیا بات پیدا کی ہے۔ چیز نہیں چیز سی۔۔۔۔۔سو میاں تانگے والے چیز اور چیز سی میں جو فرق ہے۔ اس کا دھیان رکھنا۔ ‘‘

تانگے والا خاموش رہا۔ اب میں نے اس کی طرف زیادہ غور سے دیکھا۔ مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ عمر پینتیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ پتلی پتلی مونچھیں تھیں۔ جن کے بال نیچے کو جھکے ہوئے تھے۔ سردی کے باعث چونکہ اس نے کمبل کا ڈھاٹا سا بنا رکھا تھا۔ اس لیے اس کا پورا چہرہ نظر نہ آتا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر فخر سے پوچھا۔ کہاں لے جا رہا ہے ہمیں؟َ‘‘

فخر نے جو زیادہ سوچ بچار کا عادی نہیں تھا۔ جواب دیا۔ اتنے بیتاب کیوں ہوتے ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر کے بعد چیز تمہارے سامنے آ جائے گی۔ ‘‘

مسعود نے اس پر فخر سے کہا۔

’’تم سے کیا بات ہوئی ہے اس کی؟‘‘

فخر نے جواب دیا۔

’’روشن آراروڈ پر۔۔۔۔۔۔۔ کچھ میمیں رہتی ہیں۔ کہتا ہے ہمارے کام کی ہیں۔ ‘‘

میموں کا نام سُن کر مسعود کو اپنے ایک دوست کی نظم یاد آ گئی۔ اس کا حوالہ دیکر اُس نے کہا۔ تو چلو آج لگے ہاتھوں اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام بھی لے لیا جائے گا۔ واللہ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تانگے والا صاحبِ ذوق ہے۔ وہ نظم ضرور پڑھی ہو گئی اُس نے۔ ‘‘

اس کے بعد دیر تک میموں کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ میں اور مسعود میموں کے بالکل قائل نہیں تھے۔ لیکن فخر کو عورتوں کی یہ قسم پسند تھی‘‘

ان کا علم سائنٹیفک ہوتا ہے یعنی یہ عورتیں بڑے سائنٹیفک طریقے پر اپنا کاروبار چلاتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مشرقی عورتوں کو رکھیے تو وہی نظر آئے گا جو ہمارے یہاں کی ریوڑی اور وہاں کی ٹافی میں ہے۔ بھئی دراصل بات یہ ہے کہ ان میموں کا پیکنگ بڑا اچھا ہوتا ہے‘‘

میں نے کہا۔ فخر! ممکن ہے تمہارا نظریہ درست ہو مگر بھائی میں ایسے موقعوں پر زبان کی مشکلات برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اپنے دفتر میں بڑے صاحب کے ساتھ انگریزی بول سکتا ہوں۔ میں یہاں دہلی میں رہ کر اس تانگے والے سے اُردو میں بات چیت کرنا گوارہ کر سکتا ہوں۔ مگر اس موقعہ پر انگریزی میں گفتگو نہیں کر سکتا۔ میری پتلون انگریزی، میری ٹائی انگریزی، میرا شو انگریزی۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب چیزیں انگریزی میں ہو سکتی ہیں۔ مگر خدا کے لیے وہ چیز مجھ سے انگریزی میں کیسے ہو سکتی ہے‘‘

فخر اپنا نظریہ بھول کر ہنسنے لگا۔ مسعود شاید ابھی تک اپنے دوست کی لکھی ہوئی نظم پر غور کر رہا تھا۔ جس میں شاعر نے ایک فرنگی عورت کے ہونٹ چُوس کر اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ دفعتہ چونک کر اُس نے کہا۔ ‘‘

کیوں بھئی یہ تانگہ کب تک چلتا رہے گا؟‘‘

تانگے والے نے ایک دم باگیں کھینچ کر تانگہ ٹھہرا دیا۔ اور فخر سے کہا‘‘

وہ جگہ آ گئی صاحب۔ آپ اکیلے چلیے گا یا۔۔۔۔۔۔۔‘‘

ہم تینوں تانگے والے کے پیچھے پیچھے چل دئیے۔ ایک نیم روشن گلی میں وہ ہمیں لے گیا۔ دلی کی دوسری گلیوں سے یہ گلی کچھ مختلف تھی۔ اس لیے کہ بہت چوڑی تھی۔ دائیں ہاتھ کو ایک منزلہ مکان تھا۔ جس کی کھڑکیوں، دروازوں پر چقیں لٹکی ہوئی تھیں۔ ایک دروازے کی چق اٹھا کر تانگے والا اندر داخل ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد باہر آیا۔ اور ہمیں اندر لے گیا۔ کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔ میں نے جب کہا۔

’’بھائی ہم کہیں اوندھے منہ نہ گر پڑیں‘‘

تو دوسرے کمرے سے کسی عورت کی بھدّی آواز سنائی دی۔ لالٹین تو لے گیا ہوتا تو‘‘

اور تھوڑی ہی دیر کے بعد تانگے والا ایک اندھی سی لالٹین لے کر نمودار ہوا۔ چلیے اندر تشریف لے چلیے۔ ‘‘

ہم تینوں اندر تشریف لے گئے۔ دو کالی بھجنگی انتہائی بدصورت عورتیں نظر آئیں۔ جنہوں نے ڈھیلے ڈھیلے فراک پہن رکھے تھے۔۔۔۔یہ میمیں تھیں۔ میں نے اپنی ہنسی روک کر فخر سے کہا۔

’’کیا لذیذ ٹافیاں ہیں‘‘

میری یہ بات سن کر ان میموں میں سے ایک جس کا سیاہ چہرہ سُرخی لگانے کے باعث زیادہ پکّی ہوئی اینٹ کی سی رنگت اختیار کر گیا تھا۔ ہنسی۔۔۔۔۔ میں بھی ہنس دیا اور بڑے پیار سے پوچھا

’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘

بولی۔

’’لوسی‘‘

شاعر مسعود نے آگے بڑھ کر دوسری سے پوچھا۔

’’آپ کا؟‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’میرؔ ی۔ ‘‘

فخر بھی آگے بڑھ آیا۔

’’کیوں صاحب آپ کام کیا کرتی ہیں؟‘‘

دونوں لجا گئیں۔ ایک نے ادا سے کہا۔

’’کیسا بات کرتا ہے تم؟‘‘

دوسری نے کہا۔ چلو جلدی کرو۔ رہنا مانگتا ہے یا نہیں ہمیں روٹی پکانا ہے‘‘

میں نے اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ تو گیلے آٹے سے بھرے ہوئے تھے۔ اور وہ اس کی مروڑیاں بنا رہی تھی۔ تانگے والا قطعی طور ہمیں غلط جگہ لے آیا تھا مروڑیاں اس کے ہاتھوں سے کچّے فرش پر گر رہی تھیں۔ اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اناج رو رہا ہے اور یہ مروڑیاں اس کے آنسو ہیں۔ ہم تینوں کے تینوں اس مکان میں آکر سخت پریشان ہو گئے۔ مگر ہم اپنی پریشانی ان دو عورتوں پر ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہمیں سخت نااُمیدی ہوئی تھی۔ اگر ہم ان سے صاف لفظوں میں کہہ دیتے کہ تم ہمارے مطلب کی نہیں ہو تو ضرور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی۔ عورت جس کے ہاتھ آٹے سے لتھڑے ہوں ایسے جذبات سے عاری نہیں ہو سکتی۔ میں نے اُن دونوں کی تعریف کی۔ فخر نے بھی میرا ساتھ دیا۔ پھر ہم تینوں جلد واپس آنے کا وعدہ کرکے وہاں سے نکل آئے۔ تانگے والا ہمارا مطلب سمجھ گیا تھا۔ چنانچہ اسے چند لمحات کے لیے وہاں ٹھہرنا پڑا۔ جب وہ باہر نکلا۔ تو فخر نے اس سے کہا۔

’’تم انھیں میمیں کہتے ہو؟‘‘

تانگے والے نے بڑی متانت کے ساتھ جواب دیا۔

’’لوگ یہی کہتے ہیں صاحب‘‘

لوگ جھک مارتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے خیال کیا تھا کہ تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب خدا کے لیے کسی ایسی جگہ لے چلو، جہاں ہم چند گھڑیاں اپنا دل بہلا سکیں۔ ‘‘

مسعود نے تینوں کا اجتماعی مقصد اور زیادہ واضح کرنے کی کوشش کی۔ دیکھو ہم ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں۔ جہاں کچھ عرصے کے لیے بیٹھ سکیں۔۔۔۔۔ ہمیں ایسی عورت کے پاس لے چلو جو باتیں کرنے کا سلیقہ رکھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی ہم کورے نہیں ہیں کسی فوج کے سپاہی نہیں ہیں۔ تین شریف آدمی ہیں۔ جنہیں عورت سے بات چیت کیے برسوں گزر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھے؟‘‘

تانگے والے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’تو چلیے بیٹھیے آپ کو صدر بازار لے چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘

فخر نے پوچھا

’’کون ہے وہاں؟‘‘

تانگے والے نے گھوڑے کی باگیں تھام کر جواب دیا۔ ایک پنجابن ہے بہت لوگ آتے ہیں اُس کے پاس۔ ‘‘

تانگے نے پنجابن کے گھر کا رُخ کیا۔ راستے میں ان دو میموں کا ذکر چھڑ گیا۔ ہم میں سے ہر ایک کو وہاں جانے کا افسوس تھا۔ اس لیے کہ ہم سب سے زیادہ وہ نااُمید ہوئی تھیں۔ میں نے ان کو کچھ روپے دے دئیے ہوتے۔ مگر یہ بھیک ہو جاتی۔۔۔۔۔ فخر نے ہماری اس گفتگو میں زیادہ حصّہ نہ لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان کا ذکر نہ کیا جائے۔ لیکن جب تک تانگہ پنجابن کے گھر تک، نہ پہنچا ان کا ذکر ہوتا رہا۔ تانگہ ایک فراخ بازار میں فٹ پاتھ کے پاس رُکا۔ طویلے کے ساتھ والا مکان تھا۔ جدھر کا ہم چاروں نے رُخ کیا۔ زینہ طے کرکے ہم اوپر پہنچے۔ سامنے پیخانہ تھا۔ دروازے سے بے نیاز۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی پرانی وضع کا مغلئی کمرہ تھا۔ جس میں ہم چاروں داخل ہوئے۔ اس کمرے کے آخری سرے پر چار آدمی بیٹھے فلاش کھیلنے میں مصروف تھے۔ جو ہماری آمد سے غافل رہے۔ البتہ وہ عورت جو ان کے پاس کھڑی تھی۔ اور ایک آدمی کے پتّوں میں دلچسپی لے رہی تھی۔ آہٹ پاکر ہماری طرف آئی۔ یہاں بھی لالٹین کی مدھم روشنی تھی۔ جس کو فلاش کھیلنے والے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ جب وہ فخر کے پاس آئی اور کولھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ تو میں نے غور سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی عمر کم از کم پینتیس برس کے قریب تھی۔ چھاتیاں بڑی بڑی تھیں۔ جو اس نے بیہودہ اور فحش انداز سے اوپر کو اٹھا رکھی تھیں۔ تنگ ماتھے پر نیلے رنگ کا چاند کھُداہوا تھا جب وہ مسعود کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ تو مجھے اس کے سامنے کے دو دانتوں میں سونے کی کیلیں نظر آئیں۔۔۔۔۔ بڑی خوفناک عورت تھی۔ اس کا منہ کچھ اس انداز سے کھلتا تھا۔ جیسے لیموں نچوڑنے والی مشین کا کھلتا ہے۔ اس نے فخر کو آنکھ ماری اور پوچھا۔

’’کہو کیا بات ہے؟‘‘

فخر نے بچے کی طرح کہا۔

’’آپ کا نام؟‘‘

اس نے کولھے پر ہاتھ رکھے ہم تینوں کو باری باری دیکھا۔

’’گلزار‘‘

فخر نے فوراً ہی معذرت کی۔

’’ہم گلاب کے یہاں آئے تھے۔ غلطی سے ادھر چلے آئے۔ معاف کر دیجیے گا۔ ‘‘

یہ سُن کر وہ فخر کے ہاتھ سے سگریٹ چھین کر کش لگاتی فلاش کھیلنے والوں کے پاس چلی گئی۔ جو ابھی تک ہماری آمد سے غافل تھے۔ نیچے اتر کر ہم تینوں نے تانگے والے کو پھر اپنا مطلب سمجھایا اور اس کو بتایا کہ ہم کس قسم کی عورت چاہتے ہیں۔ اس نے ہم تینوں کا لکچر سُنا اور کہا۔

’’آپ تھوڑے لفظوں میں مجھے بتائیے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے تنگ آ کر فخر سے کہا۔

’’بھئی تم ہی اُسے ان تھوڑے لفظوں میں سمجھاؤ جو تمہارے پاس باقی رہ گئے ہیں۔ ‘‘

فخر نے اسے سمجھایا

’’دیکھو ہمیں کسی لڑکی کے پاس لے چلو۔۔۔۔ ایسی عورت کے پاس جو سولہ سترہ برس کی ہو۔ اس سے زیادہ ہر گز نہ ہو۔ سمجھے؟‘‘

تانگے والے نے کمبل کی بُکل مار کے باگیں تھامیں اور کہا۔

’’آپ نے پہلے ہی کہہ دیا ہوتا۔ چلیے۔۔۔۔ اب آپ کو ٹھیک جگہ پر لے چلوں گا۔ ‘‘

آدھے گھنٹے کے بعد وہ ٹھیک جگہ بھی آ گئی۔۔۔۔۔۔ خدا معلوم کونسا بازار تھا دوسری منزل پر ایک بیٹھک سی تھی جس کے دروازے پر موٹا اور میلا ٹاٹ لٹک رہا تھا۔ جب ہم اندر داخل ہُوئے تو سامنے آنگن میں ایک دیہاتی بڑھیا چولھا جھونک رہی تھی۔۔۔۔۔۔ مٹی کے کُونڈے میں گُندھا ہوا آٹا پاس ہی پڑا تھا۔ دُھواں اس قدر تھا۔ کہ اندر داخل ہوتے ہی ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بڑھیا نے چولھے میں لکڑیاں جھاڑ کر ہماری طرف دیکھا۔ اور تانگے والے سے دیہاتی لہجے میں کہا۔

’’انھیں اندر لے جاؤ۔ ‘‘

تانگے والے نے اندھیرے کمرے میں دیا سلائی جلا کر ہمیں داخل کیا اور کیل سے لٹکی ہوئی لالٹین کو روشن کرکے باہر چلا گیا۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ کونے میں ایک بہت بڑا پلنگ تھا جس کے پائے رنگین تھے۔ اس پر میلی سی چادر بچھی ہوئی تھی۔ تکیہ بھی پڑا تھا۔ جس پر سُرخ رنگ کے پُھول کڑھے ہوئے تھے۔ پلنگ کے ساتھ والی دیوار کی کانس پر ایک میلی بوتل اور لکڑی کی کنگھی پڑی تھی۔ اس کے دانتوں پر سر کا میل اور کئی بال پھنسے ہُوئے تھے۔ پلنگ کے نیچے ایک ٹُوٹا ہوا ٹرنک تھا۔ جس پر ایک کالی گرگابی رکھی تھی۔ مسعود اور فخر دونوں پلنگ پر بیٹھ گئے۔ میں کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک پست قد لڑکی اپنے سے دوگنا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کرتی اندر داخل ہوئی۔ فخر اور مسعود اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ جب وہ لالٹین کی روشنی میں آئی۔ تو میں نے اسے دیکھا۔ اس کی عمر بمشکل چودہ برس کے قریب ہو گی۔ چھاتیاں آڑو کے برابر تھیں مگر اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے جسم کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل چکی ہے، بہت آگے۔ جہاں شاید اس کی ماں بھی نہیں پہنچ سکی۔ جو باہر آنگن میں چولھا جھونک رہی تھی۔ اس کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔ اور اس انداز سے اپنا ایک ہاتھ ہلا رہی تھی۔ جیسے مکار دوکاندار کی طرح ڈنڈی مارے گی۔ اور کبھی پورا تول نہیں تولے گی۔ ہم تینوں اُس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ فخر شرم بھی محسوس کر رہا تھا۔ مسعود کی ساری شاعری سمٹ کر شاید اُس کے ناخنوں میں چلی آئی۔ کیونکہ وہ بُری طرح انھیں دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔ میں نے ایک بار پھر اس کی طرف دیکھا۔ جیسے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ٹھنگنی سی لڑکی تھی۔ جو ایک بہت بڑا میلا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ رنگ گہرا سانولا۔ بدن کی ساخت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بڑی تیزی سے چلی ہوئی گاڑی ہے۔ جو اب ایک دم رُک گئی ہے۔ اس پہّیوں میں بریک لگ گئے ہیں۔ اور وہیں کھڑے کھڑے اس کا رنگ وروغن دُھوپ اور بارش میں اُڑ گیا ہے۔ اس عمر میں بھدّی سے بھدّی لڑکی کے جسم پر جو ایک قسم کی شوخ جاذبیت ہوتی ہے اس میں بالکل نہیں تھی۔ کپڑوں کے باوجود وہ ننگی دکھائی دیتی تھی۔ بہت ہی بیہودہ اور ناواجب طریقے پر ننگی۔۔۔۔۔۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ قطعی طور پر غیر نسوانی تھا۔ میں اس سے کچھ کہنے ہی والا تھاکہ اس کے عقب سے ایک بڈھا نمودار ہوا۔ بالکل سفید داڑھی۔ سرضعف کے باعث ہل رہا تھا۔ لڑکی نے دیہاتی زبان میں اس سے کچھ کہا۔ جس کا مطلب میں صرف اس قدر سمجھا کہ وہ بڈھا اس کا نانا ہے۔ ہم تینوں صحیح معنوں میں اُٹھ بھاگے۔ نیچے بازار میں پہنچے تو ہمارا تکدّر کچھ دُور ہُوا۔ بڈھے اور لڑکی کو دیکھ کر ہمارے جمالیاتی ذوق کو بہت ہی شدید صدمہ پہنچا تھا۔ دیر تک ہم چُپ چاپ رہے۔ فخر ٹہلتا رہا۔ مسعود ایک کونے میں پیشاب کرنے کے لیے بیٹھ گیا۔ میں اوورکوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اوپر آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ جہاں نامکمل چاند بالکل اس زرد بیسوا لونڈیا کی طرح جس کے جسم کا نچلا حصّہ قطعی طور پر غیر نسوانی تھا۔ بادل کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اس سے کچھ دور چھوٹا سفید ٹکڑا اس کے نانا کے ضعیف سر کی طرح لرز رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ! میرے بدن پر جھرجھری طاری ہو گئی۔ ہم غالباً دس بارہ منٹ تک بازار میں کھڑے رہے۔ اس کے بعد تانگے والا نیچے اُترا۔ فخر کے پاس جا کر اس نے کہا۔

’’آپ نے آٹھ بجے تانگہ لیا تھا۔۔۔۔۔۔ اب گیارہ بج چکے ہیں۔ تین گھنٹوں کے پیسے دے دیجیے۔ ‘‘

فخر نے کچھ کہے بغیر دو روپے اُس کو دے دئیے۔ روپے لے کر وہ مُسکرایا

’’بابو جی آپ کو کچھ پہچان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی کراری لونڈیا تو شہر بھر میں نہیں ملے گی آپ کو۔۔۔۔۔۔ خیر آپ کو اختیار۔۔۔۔۔۔ تانگے میں بیٹھیے میں ابھی آیا۔ ‘‘

اُس کو اوپر جانے کی زحمت نہ اُٹھانا پڑی۔ کیونکہ سفید ریش بڈھا اُس کے پیچھے پیچھے چلا آیا تھا۔ اور موری کے پاس کھڑا اپنا ضعیف سر ہلا رہا تھا۔ اُس کو دو روپے دے کر جب ٹانگے والے نے باگیں تھامیں تو اس کی سنجیدگی غائب تھی۔ ‘‘

چل بیٹا۔ کہہ کر اس نے اپنی بھدّی مگر مسّرت بھری آواز میں گانا شروع کر دیا۔

’’ساون کے نظارے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لالا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پُھولوں کی سازش

باغ میں جتنے پھول تھے۔ سب کے سب باغی ہو گئے۔ گلاب کے سینے میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کی ایک ایک رگ آتشیں جذبہ کے تحت پھڑک رہی تھی۔ ایک روز اس نے اپنی کانٹوں بھری گردن اٹھائی اور غور و فکرکو بالائے طاق رکھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا:۔

’’کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ ہمارے پسینے سے اپنے عیش کا سامان مہیا کرے۔ ہماری زندگی کی بہاریں ہمارے لیے ہیں اور ہم اس میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کرسکتے!‘‘

گلاب کا منہ غصہ سے لال ہورہا تھا۔ اس کی پنکھڑیاں تھرتھرارہی تھیں۔ چنبلی کی جھاڑی میں تمام کلیاں یہ شور سن کر جاگ اٹھیں اور حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ گلاب کی مردانہ آواز پھر بلند ہوئی۔

’’ہر ذی روح کو اپنے حقوق کی نگرانی کا حق حاصل ہے اور ہم پھول اس سے مستثنےٰ نہیں ہیں۔ ہمارے قلوب زیادہ نازک اور حساس ہیں۔ گرم ہوا کا ایک جھونکا ہماری دنیائے رنگ و بو کو جلا کر خاکستر کرسکتا ہے اور شبنم کا ایک بے معنی قطرہ ہماری پیاس بجھا سکتا ہے۔ کیا ہم اس کانے مالی کے کھردرے ہاتھوں کو برداشت کرسکتے ہیں جس پر موسموں کے تغیر و تبدل کا کچھ اثر ہی نہیں ہوتا؟‘‘

موتیا کے پھول چلائے

’’ہرگز نہیں‘‘

لالہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور کہنے لگا اس کے ظلم سے میرا سینہ داغدار ہورہا ہے۔ میں پہلا پھول ہوں گا جو اس جلاد کے خلاف بغاوت کا سُرخ جھنڈا بلند کرے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ غصہ سے تھرتھر کانپنے لگا۔ چنبیلی کی کلیاں متحیر تھیں کہ یہ شور کیوں بلند ہورہا ہے۔ ایک کلی ناز کے ساتھ گلاب کے پودے کی طرف جھکی اور کہنے لگی

’’تم نے میری نیند خراب کردی ہے۔ آخر گلا پُھلا پُھلا کر کیوں چلاّ رہے ہو؟‘‘

گلِ خیرا جو دُور کھڑا گُلاب کی قائدانہ تقریر پر غور کررہا تھا بولا۔

’’قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ گو ہم ناتواں پھول ہیں لیکن اگر ہم سب مل جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی جان کے دشمن کو پیس کر نہ رکھ دیں۔ ہماری پتیاں اگر خوشبو پیدا کرتی ہیں تو زہریلی گیس بھی تیار کر سکتی ہیں۔ بھائیو! گلاب کا ساتھ دو اور ا پنی فتح سمجھو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اخوت کے جذبے کے ساتھ ہر پھول کی طرف دیکھا۔ گلاب کچھ کہنے ہی والا تھا کہ چنبیلی کی کلی نے اپنے مرمریں جسم پر ایک تھرتھری پیدا کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ سب بیکار باتیں ہیں۔ آؤ تم مجھے شعر سناؤ، میں آج تمہاری گود میں سونا چاہتی ہوں۔ تم شاعر ہو، میرے پیارے آؤ ہم بہار کے ان خوشگوار دنوں کو ایسی فضول باتوں میں ضائع نہ کریں اور اس دنیا میں جائیں جہاں نیند ہی نیند ہے۔ میٹھی اور راحت بخش نیند!‘‘

گُلاب کے سینے میں ایک ہیجان برپا ہو گیا۔ اس کی نبض کی دھڑکن تیز ہو گئی اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی اتھاہ گہرائی میں اُتر رہا ہے۔ اسی نے کلی کی گفتگو کے اثر کو دور کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا۔

’’نہیں میں میدانِ جنگ میں اُترنے کی قسم کھا چکا ہوں۔ اب یہ تمام رومان میرے لیے مہمل ہیں۔ ‘‘

کلی نے اپنے لچکیلے جسم کو بل دے کر خواب گوں لہجہ میں کہا۔

’’آہ، میرے پیارے گلاب ایسی باتیں نہ کرو، مجھے وحشت ہوتی ہے۔ چاندنی راتوں کا خیال کرو۔ جب میں اپنا لباس اتار کر اس نورانی فوارے کے نیچے نہاؤں گی تو تمہارے گالوں پر سُرخی کا اُتار چڑھاؤ مجھے کتنا پیارا معلوم ہو گا اور تم میرے سیمیں لب کس طرح دیوانہ وار چومو گے۔ چھوڑو ان فضول باتوں کو میں تمہارے کاندھے پر سر رکھ کر سونا چاہتی ہُوں۔ ‘‘

اور چنبیلی کی نازک ادا کلی گُلاب کے تھراّتے ہُوئے گال کے ساتھ لگ کر سو گئی۔ گلاب مدہوش ہو گیا۔ چاروں طرف سے ایک عرصہ تک دوسرے پھولونکی کی صدائیں بُلند ہوتی رہیں مگر گُلاب نہ جاگا۔ ساری رات وہ مخمور رہا۔ صبح کانا مالی آیا۔ اس نے گلاب کے پھول کی ٹہنی کے ساتھ چنبیلی کی کلی چمٹی ہُوئی پائی۔ اس نے اپنا کُھر درا ہاتھ بڑھایا اور دونوں کو توڑ لیا۔

سعادت حسن منٹو

پھوجا حرام دا

ٹی ہاؤس میں حرامیوں کی باتیں شروع ہوئیں تو یہ سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا۔ ہر ایک نے کم از کم ایک حرامی کے متعلق اپنے تاثرات بیان کیے جس سے اس کو اپنی زندگی میں واسطہ پڑ چکا تھا۔ کوئی جالندھر کا تھا۔ کوئی لدھیانے کا اور کوئی لاہور کا۔ مگر سب کے سب اسکول یا کالج کی زندگی کے متعلق تھے۔ مہر فیروز صاحب سب سے آخر میں بولے۔ آپ نے کہ۔ امرت سر میں شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو پھوجے حرامدے کے نام سے ناواقف ہو۔ یوں تو اس شہر میں اور بھی کئی حرام زادے تھے مگر اس کے پلے کے نہیں تھے۔ وہ نمبر ایک حرام زادہ تھا۔ اسکول میں اُس نے تمام ماسٹروں کا ناک میں دم کر رکھا تھا ہیڈ ماسٹر جس کو دیکھتے ہی بڑے بڑے شیطان لڑکوں کا پیشاب خطا ہو جاتا پھوجے سے بہت گھبراتا تھا اس لیے کہ اس پر اُن کے مشہور بید کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تنگ آکر انھوں نے اُس کو مارنا چھوڑ دیا تھا۔ یہ دسویں جماعت کی بات ہے۔ ایک دن یار لوگوں نے اُس سے کہا دیکھو پھوجے ! اگر تم کپڑے اتار کر ننگ دھڑنگ اسکول کا ایک چکر لگاؤ تو ہم تمھیں ایک روپیہ دیں گے۔ پھوجے نے روپیہ لے کر کان میں اڑسا کپڑے اُتار کر بستے میں باندھے اور سب کے سامنے چلنا شروع کر دیا، جس کلاس کے پاس سے گزرتا وہ زعفران زار بن جاتا۔ چلتے چلتے وہ ہیڈماسٹر صاحب کے دفتر کے پاس پہنچ گیا پتی اُٹھائی اور غڑاپ سے اندر۔ معلوم نہیں کیا ہوا ہیڈ ماسٹر صاحب سخت بوکھلائے ہوئے باہر نکلے اور چپڑاسی کو بُلا کر اُس سے کہا جاؤ بھاگ کے جاؤ پھوجے حرامدے کے گھر، وہاں سے کپڑے لاؤ اُس کے لیے۔ کہتا ہے میں مسجدکے سقاوے میں نہا رہا تھا کہ میرے کپڑے کوئی چور اُٹھا کر لے گیا۔ دینیات کے ماسٹر مولوی پوٹیٹو تھے۔ معلوم نہیں انھیں پوٹیٹو کس رعایت سے کہتے تھے، کیونکہ آلوؤں کے تو داڑھی نہیں ہوتی۔ ان سے پھوجا ذرا دبتا تھا مگر ایک دن ایسا آیا کہ انجمن کے ممبروں کے سامنے مولوی صاحب نے غلطی سے اس سے ایک آیت کا ترجمہ پوچھ لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خاموش رہتا مگر پھوجا حرامدا کیسے پہچانا جاتا۔ جو منہ میں آیا اول جلول بک دیا۔ مولوی پوٹیٹو کے پسینے چھوٹ گئے ممبر باہر نکلے تو انھوں نے غصہ میں تھر تھر کانپتے ہوئے اپنا عصا اٹھایا اور پھوجے کو دو چار چور کی مار دی کہ بلبلا اُٹھا مگر بڑے ادب سے کہتا رہا کہ مولوی صاحب میرا قصور نہیں مجھے کلمہ ٹھیک سے نہیں آتا اور آپ نے ایک پوری آیت کا مطلب پوچھ لیا۔ مارنے سے بھی مولوی پوٹیٹو صاحب کا جی ہلکا نہ ہوا۔ چنانچہ وہ پھوجے کے باپ کے پاس گئے اور اس سے شکایت کی پھوجے کے باپ نے اُن کی سب باتیں سنیں اور بڑے رحم ناک لہجے میں کہا

’’مولوی صاحب ! میں خود اس سے عاجز آگیا ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی اصلاح کیسے ہوسکتی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے میں پاخانے گیا تو اس نے باہر سے کنڈی چڑھا دی میں بہت گرجا بے شمار گالیاں دیں مگر اُس نے کہا

’’اٹھنی دینے کا وعدہ کرتے ہو تو دروازہ کھلے گا اور دیکھو اگر وعدہ کر کے پھر گئے تو دوسری مرتبہ کنڈی میں تالا بھی ہو گا‘‘

ناچار اٹھنی دینی پڑی اب بتائیے میں ایسے نابکار لڑکے کا کیا کروں۔ ‘‘

اللہ ہی بہتر جانتا تھا کہ اس کا کیا ہو گا۔ پڑھتا وڑھتا خاک بھی نہیں تھا انٹرنس کے امتحان ہوئے تو سب کو یقین تھا کہ بہت بری طرح فیل ہو گا مگر نتیجہ نکلا تو سکول میں اس کے سب سے زیادہ نمبر تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ کالج میں داخل ہو مگر باپ کی خواہش تھی کہ کوئی ہنر سیکھے، چنانچہ یہ نتیجہ نکلا کہ وہ دو برس تک آوارہ پھرتا رہا اس دوران اُس نے جو حرامزدگیاں کیں ان کی فہرست بہت لمبی ہے۔ تنگ آ کر اُس کے باپ نے بالآخر اُسے کالج میں داخل کروا دیا پہلے دن ہی اُس نے یہ شرارت کی کہ میتھے میٹکس کے پروفیسر کی سائیکل اُٹھا کر درخت کی سب سے اونچی ٹہنی پر لٹکا دی۔ سب حیران کہ سائیکل وہاں پہنچی کیونکر۔ مگر وہ لڑکے جو اسکول میں پھوجے کے ساتھ پڑھ چکے تھے۔ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ کارستانی اس کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اس ایک شرارت ہی سے اُس کا پورے کالج سے تعارف ہو گیا۔ اسکول میں اُس کی سرگرمیوں کا میدان محدود تھا۔ مگر کالج میں یہ بہت وسیع ہو گیا۔ پڑھائی میں کھیلوں میں مشاعروں میں اور مباحثوں میں ہر جگہ پھوجے کا نام روشن تھا اور تھوڑی دیر میں اتنا روشن ہوا کہ شہر میں اس کے گنڈپنے کی دھاک بیٹھ گئی۔ بڑے بڑے جگادری بد معاشوں کے کان کاٹنے لگا۔ ناٹا قد مگر بدن کستری تھا اُس کی بھیڈ و ٹکر بہت مشہور تھی۔ ایسے زور سے مد مقابل کے سینے میں یا پیٹ میں اپنے سر ٹکر مارتا کہ اُس کے سارے وجود میں زلزلہ سا آجاتا۔ ایف۔ اے کے دوسرے سال میں اُس نے تفریحاً پرنسپل کی نئی موٹر کے پٹرول ٹینک میں چار آنے کی شکر ڈال دی جس نے کاربن بن کر سارے انجن کو غارت کر دیا پرنسپل کو کسی نہ کسی طریقے سے معلوم ہو گیا کہ یہ خطرناک شرارت پھوجے کی ہے مگر حیرت ہے کہ اُنھوں نے اس کو معاف کر دیا بعد میں معلوم ہوا کہ پھوجے کو اُن کے بہت سے راز معلوم تھے۔ ویسے وہ قسمیں کھاتا کہ اس نے ان کو دھمکی وغیرہ بالکل نہیں دی تھی کہ انھوں نے سزا دی تو وہ انھیں فاش کر دے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس کا بہت زور تھا۔ انگریزوں کے خلاف کھلم کھلا جلسے ہوتے تھے۔ حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کئی ناکام سازشیں ہو چکی تھی۔ گرفتاریوں کی بھرمار تھی۔ سب جیل باغیوں سے پُر تھے۔ آئے دن ریل کی پٹڑیاں اُکھاڑی جاتی تھیں۔ خطوں کے بھبکوں میں آتش گیر مادہ ڈالا جاتا تھا۔ بم بنائے جارہے تھے پستول برآمد ہوتے تھے غرض کہ ایک ہنگامہ برپا تھا اور اس میں اسکول اور کالجوں کے طالب علم بھی شامل تھے۔ پھوجا سیاسی آدمی بالکل نہیں تھا۔ میرا خیال ہے اُس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مہاتما گاندھی کون ہے۔ لیکن جب اچانک ایک روز اُسے پولیس نے گرفتار کیا اور وہ بھی ایک سازش کے سلسلے میں تو سب کو بڑی حیرت ہوئی۔ اس سے پہلے کئی سازشیں پکڑی جا چکی تھیں۔ سانڈرس کے قتل کے سلسلے میں بھگت سنگھ اور دت کو پھانسی بھی ہو چکی تھی اس لیے یہ نیا معاملہ بھی کچھ سنگین ہی معلوم ہوتا تھا الزام یہ تھا کہ مختلف کالجوں کے لڑکوں نے مل کر ایک خفیہ جماعت بنا لی تھی جس کا مقصد ملک معظم کی سلطنت کا تختہ اُلٹنا تھا۔ ان میں سے کچھ لڑکوں نے کالج کی لیبارٹری سے پکرک ایسڈ چرایا تھا جو بم بنانے کے کام آتا ہے۔ پھوجے کے بارے میں شُبہ تھا کہ وہ ان کا سرغنہ تھا اور اس کو تمام خفیہ باتوں کا علم تھا۔ ! اس کے ساتھ کالج کے دو اور لڑکے بھی پکڑے گئے تھے ان میں ایک مشہور بیرسٹر کا لڑکا تھا اور دوسرا رئیس زادہ۔ ان کا ڈاکٹری معائنہ کرایا گیا تھا اس لیے پولیس کی مار پیٹ سے بچ گئے مگر شامت غریب پھوجے حرامدے کی آئی۔ تھانے میں اُس کو الٹا لٹکا کر پیٹا گیا۔ برف کی سلوں پرکھڑا کیاگیا۔ غرض کہ ہر قسم کی جسمانی اذّیت اُسے پہنچائی گئی کہ راز کی باتیں اُگل دے مگر وہ بھی ایک کتے کی ہڈی تھا، ٹس سے مس نہ ہوا۔ بلکہ یہاں بھی کم بخت اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا۔ ایک مرتبہ جب وہ مار برداشت نہ کرسکتا اُس نے تھانے دار سے ہاتھ روک لینے کی در خواست کی اور وعدہ کیا کہ وہ سب کچھ بتا دے گا۔ بالکل نڈھال تھا اس کے لیے اُس نے گرم گرم دُودھ اور جلیبیاں مانگیں۔ طبیعت قدرے بحال ہوئی تو تھانیدار نے کاغذ قلم سنبھالا اور اُس سے کہا لو بھئی بتاؤ۔ پھوجے نے اپنے مار کھائے ہوے اعضاء کا جائزہ انگڑائی لے کر کیا اور جواب دیا

’’اب کیا بتاؤں طاقت آگئی ہے چڑھالو پھر مجھے اپنی ٹکٹکی پر۔ ‘‘

ایسے اور بھی کئی قصے ہیں جو مجھے یاد نہیں رہے مگر وہ بہت پُرلطف تھے۔ ملک حفیظ ہمارا ہم جماعت تھا، اُس کی زبان سے آپ سُنتے تو اور ہی مزا آتا۔ ایک دن پولیس کے دوسپاہی پھوجے کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے لے جارہے تھے۔ ضلع کچہری میں اُس کی نظر ملک حفیظ پر پڑی، جو معلوم نہیں کس کام سے وہاں آیا تھا۔ اُس کو دیکھتے ہی وہ پکارا۔

’’السلام علیکم ملک صاحب۔ ‘‘

ملک صاحب چونکے۔ پھوجا ہتھکڑیوں میں اُن کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

’’ملک صاحب بہت اُداس ہو گیا ہوں، جی چاہتا ہے آپ بھی آجائیں میرے پاس۔ بس میرا نام لے دینا کافی ہے۔ ‘‘

ملک حفیظ نے جب یہ سُنا تو اُس کی رُوح قبض ہو گئی۔ پھوجے نے اُس کو ڈھارس دی۔

’’گھبراؤ نہیں ملک، میں تو مذاق کر رہا ہوں۔ ویسے میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتاؤ۔ ‘‘

اب آپ ہی بتائیے کہ وہ کس لائق تھا۔ ملک حفیظ گھبرا رہا تھا۔ کنی کتراکے بھاگنے ہی والا تھا کہ پھوجے نے کہا

’’بھئی اور تو ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا کہو تو تمہارے بدبودار کنویں کی گار نکلوادیں۔ ‘‘

ملک حفیظ ہی آپ کو بتا سکتا ہے کہ پھوجے کو اس کنوئیں سے کتنی نفرت تھی۔ اس کے پانی سے ایسی بساند آتی تھی جیسے مرنے ہوئے چوہے سے۔ معلوم نہیں لوگ اسے صاف کیوں نہیں کراتے تھے۔ ایک ہفتے کے بعد جیساکے ملک حفیظ کا بیان ہے وہ باہر نہانے کے لیے نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ دو تین ٹوبے کنوئیں کی گندگی نکالنے میں مصروف ہیں۔ بہت حیران ہوا کہ ماجرا کیا ہے۔ اُنھیں بلایا کس نے ہے؟ پڑوسیوں کا یہ خیال تھا کہ بڑے ملک صاحب کو بیٹھے بیٹھے خیال آگیا ہو گا کہ چلو کنوئیں کی صفائی ہو جائے، یہ لوگ بھی کیا یاد رکھیں گے لیکن جب اُنھیں معلوم ہوا کہ چھوٹے ملک کو اس بارے میں کچھ علم نہیں اور یہ کہ بڑے تو شکار پر گئے ہوئے ہیں تو انھیں حیرت ہوئی۔ پولیس کے بے وردی سپا ہی دیکھے تو معلوم ہوا کہ پھوجے حرامدے کی نشاندہی پر وہ کنویں میں سے بم نکال رہے ہیں۔ بہت دیر تک گندگی نکلتی رہی۔ پانی صاف شفاف ہو گیا مگر بم کیا ایک چھوٹا سا پٹاخہ بھی برآمد نہ ہو گا۔ پولیس بہت بھنائی چنانچہ پھوجے سے باز پُرس ہوئی۔ اُس نے مسکراکر تھانیدار سے کہا

’’بھولے بادشاہو! ہمیں تو اپنے یار کا کنواں صاف کرانا تھا سو کرالیا۔ ‘‘

بڑی معصوم سی شرارت تھی مگر پولیس نے اسے وہ مارا وہ مارا کہ مار مار کر ادھ موا کردیا۔ اور ایک دن یہ خبر آئی کہ پھوجا سلطانی گواہ بن گیا ہے اُس نے وعدہ کر لیا ہے کہ سب کچھ بک دے گا۔ کہتے ہیں اس پر بڑی لعن طعن ہوئی اُس کے دوست ملک حفیظ نے بھی جو حکومت سے بہت ڈرتا تھا اُس کو بہت گالیاں دیں کہ حرام زادہ ڈر کے غدار بن گیا ہے معلوم نہیں اب کس کس کو پھنسائے گا۔ بات اصل میں یہ تھی کہ وہ مار کھا کھا کے تھگ گیا۔ جیل میں اُس سے کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا تھا، مرغن غذائیں کھانے کو دی جاتی تھیں مگر سونے نہیں دیا جاتا تھا۔ کم بخت کو نیند بہت پیاری تھی اس لیے تنگ آ کر اُس نے سچے دل سے وعدہ کر لیا کہ بم بنانے کی سازش کے جملہ حالات بتا دے گا۔ یوں تو وہ جیل ہی میں تھا مگر اب اس پر کوئی سختی نہ تھی کئی دن تو اُس نے آرام کیا کہ اُس کے بند بند ڈھیلے ہو چکے تھے اچھی خوراک ملی بدن پر مالشیں ہوئیں تو وہ بیان لکھوانے کے قابل ہو گیا۔ صبح لسی کے دو گلاس پی کر وہ اپنی داستان شروع کر دیتا تھوڑی دیر کے بعد ناشتا آتا۔ اس سے فارغ ہو کر پندرہ بیس منٹ آرام کرتا اور کڑی سے کڑی ملا کر اپنا بیان جاری رکھتا۔ آپ محمد حسین اسٹینو گرافر سے پوچھیے جس نے اس کا بیان ٹائپ کیا تھا۔ اُس کا کہنا ہے کہ پھوجے حرامدے نے پورا ایک مہینہ لیا اور وہ سارا جال کھول کر رکھ دیا جو سازشیوں نے ملک کے اس کونے سے اُس کونے تک بچھایا تھا یا بچھانے کا ارادہ رکھتے تھے اس نے سینکڑوں آدمیوں کے نام لیے۔ ایسی ہزاروں جگہوں کا پتا بتایا جہاں سازشی لوگ چھپ کے ملتے تھے اور حکومت کا تختہ اُلٹنے کی ترکیبیں سوچتے تھے۔ یہ بیان محمد حسین اسٹینو گرافر کہتا ہے فل اسکیپ کے ڈھائی سو صفحوں پر پھیلا ہوا تھا جب یہ ختم ہوا تھا تو پولیس نے اُسے سامنے رکھ کر پلان بنایا۔ چنانچہ فوراً نئی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور ایک بار پھر پھوجے کی ماں بہن پُنی جانے لگی۔ اخباروں نے بھی دبی زبان میں پھوجے کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ اکثر حکام کے خلاف تھی اس لیے اُس کی غداری کی ہر جگہ مذمت ہوتی تھی۔ وہ جیل میں تھا جہاں اُس کی خوب خاطر تواضح ہو رہی تھی۔ بڑی طرّے والی کلف لگی پگڑی سر پر باندھے دوگھوڑے بوسکی کی قمیص اور چالیس ہزار لٹھے کی گھیرے دار شلوار پہنے وہ جیل میں یوں ٹہلتا تھا جیسے کوئی افسر معائنہ کررہا ہے۔ جب ساری گرفتاریاں عمل میں آگئیں اور پولیس نے اپنی کارروائی مکمل کر لی تو، سازش کا یہ معرکہ انگیز کیس عدالت میں پیش ہوا۔ لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی۔ پولیس کی حفاظت میں جب پھوجا نمودار ہوا تو غصے سے بھرے ہوئے نعرے بلند ہوئے۔

’’پھوجا حرام دا امردہ باد۔ پھوجا غدار مردہ باد۔ ‘‘

ہجوم بہت مشتعل تھا خطرہ تھا کہ پھوجے پر نہ ٹُوٹ پڑے اس لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا جس کے باعث کئی آدمی زخمی ہو گئے۔ عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ پھوجے سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ اس بیان کے متعلق کیا کہنا چاہتا ہے جو اُس نے پولیس کو دیا تھا تو اُس نے لا علمی کا اظہار کیا۔

’’جناب میں نے کوئی بیان ویان نہیں دیا۔ ان لوگوں نے ایک پلندہ سا تیار کیا تھا جس پر میرے دستخط کروا لیے تھے۔ ‘‘

یہ سُن کر انسپکٹر پولیس کی بقول پھوجے کے

’’بھنبھیری بھول گئی‘‘

اور جب یہ خبر اخباروں میں چھپی تو سب چکرا گئے کہ پھوجے حرامدے نے یہ کیا نیا چکر چلایا ہے۔ چکر نیا ہی تھا کیونکہ عدالت میں اُس نے ایک نیا بیان لکھوانا شروع کیا جو پہلے بیان سے بالکل مختلف تھا یہ قریب قریب پندرہ دن جاری رہا جب ختم ہوا۔ تو فل اسکیپ کے ۱۵۸ صفحے کالے ہو چکے تھے۔ پھوجے کا کہنا ہے کہ اس بیان سے جو حالت پولیس والوں کی ہوئی ناقابلِ بیان ہے۔ انھوں نے جو عمارت کھڑی کی تھی کم بخت نے اُس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر رکھ دی۔ سارا کیس چوپٹ ہو گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سازش میں جتنے گرفتار ہوئے تھے ان میں سے اکثر بری ہو گئے۔ دو تین کو تین تین برس کی اور چار پانچ کو چھے چھے مہینے کی سزائے قید ہوئی۔ جو سُن رہے تھے ان میں سے ایک نے پوچھا۔

’’اور پھوجے کو؟‘‘

مہر فیروز نے کہا۔

’’پھوجے کو کیا ہونا تھا وہ تو وعدہ معاف یعنی سلطانی گواہ تھا‘‘

سب نے پھوجے کی حیرت انگیز ذہانت کو سراہا کہ اُس نے پولیس کو کس صفائی سے غچہ دیا۔ ایک نے جس کے دل و دماغ کو اس کی شخصیت نے بہت زیادہ متاثر کیا تھا مہر فیروز سے پوچھا

’’آج کل کہاں ہوتا ہے؟‘‘

’’یہیں لاہور میں۔ آڑھت کی دُکان ہے‘‘

اتنے میں بیرہ بل لے کر آیا اور پلیٹ بھر فیروز کے سامنے رکھ دی، کیونکہ چائے وغیرہ کا آرڈر اُسی نے دیا تھا۔ پھوجے کی شخصیت سے متاثر شدہ صاحب نے بل دیکھا اور اُن کا آگے بڑھنے والا ہاتھ رُک گیا کیونکہ رقم زیادہ تھی چنانچہ ایسے ہی مہر فیروز سے مخاطب ہوئے۔

’’آپ کے اس پھوجے حرامدے سے کبھی ملنا چاہیے‘‘

مہر فیروز اُٹھا

’’آپ اس سے مل چکے ہیں۔ یہ خاکسار ہی پھوجا حرامدا ہے۔ بل آپ ادا کر دیجیے گا۔ السلام علیکم‘‘

یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

پُھندنے

کوٹھی سے ملحقہ وسیع و عریض باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے ایک بلی نے بچے دیے تھے، جو بِلّا کھا گیا تھا۔ پھر ایک کتیا نے بچے دیے تھے جو بڑے بڑے ہو گئے تھے اور دن رات کوٹھی کے اندر باہر بھونکتے اور گندگی بکھیرتے رہتے تھے۔ ان کو زہر دے دیا گیا۔ ا یک ایک کرکے سب مر گئے تھے۔ ان کی ماں بھی۔ ان کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی یقینی تھی۔ جانے کتنے برس گزر چکے تھے۔ کوٹھی سے ملحقہ باغ کی جھاڑیاں سینکڑوں ہزاروں مرتبہ کتری بیونتی، کاٹی چھانٹی جا چکی تھیں۔ کئی بلیوں اور کتیوں نے ان کے پیچھے بچے دیے تھے جن کا نام و نشان بھی نہ رہا تھا۔ اس کی اکثر بدعادت مرغیاں وہاں انڈے دے دیا کرتی تھیں جن کو ہرصبح اٹھا کر وہ اندر لے جاتی تھی۔ اسی باغ میں کسی آدمی نے ان کی نوجوان ملازمہ کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ اس کے گلے میں اس کا پھندنوں والا سرخ ریشمی ازار بند جو اس نے دو روز پہلے پھیری والے سے آٹھ آنے میں خریدا تھا، پھنسا ہوا تھا۔ اس زور سے قاتل نے پیچ دیے تھے کہ اس کی آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔ اس کو دیکھ کر اس کو اتنا تیز بخار چڑھا تھا کہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور شاید ابھی تک بے ہوش تھی۔ لیکن نہیں، ایسا کیوں کر ہوسکتا تھا، اس لیے کہ اس قتل کے دیر بعد مرغیوں نے انڈے، نہ ہی بلیوں نے بچے دیے تھے اور ایک شادی ہوئی تھی۔ کتیا تھی جس کے گلے میں لال دوپٹہ تھا۔ مکیشی۔ جھلمل جھلمل کرتا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہیں تھیں، اندر دھنسی ہوئی تھیں۔ باغ میں بینڈ بجا تھا۔ سرخ وردیوں والے سپاہی آئے تھے جو رنگ برنگی مشکیں بغلوں میں دبا کر منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے تھے۔ ان کی وردیوں کے ساتھ کئی پھندنے لگے تھے۔ جنھیں اٹھا اٹھا کر لوگ اپنے ازار بندوں میں لگاتے جاتے تھے۔ پر جب صبح ہوئی تھی تو ان کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ سب کو زہر دے دیا گیا تھا۔ دلہن کو جانے کیا سوجھی، کم بخت نے جھاڑیوں کے پیچھے نہیں، اپنے بستر پر صرف ایک بچہ دیا۔ جو بڑا گل گوتھنا، لال پھندنا تھا۔ اس کی ماں مر گئی۔ باپ بھی۔ دونوں کو بچے نے مارا۔ اس کا باپ معلوم نہیں کہاں تھا۔ وہ ہوتا تو اس کی موت بھی ان دونوں کے ساتھ ہوتی۔ سرخ وردیوں والے سپاہی بڑے بڑے پھندنے لٹکائے جانے کہاں غائب ہوئے کہ پھر نہ آئے۔ باغ میں بلے گھومتے تھے، جو اسے گھورتے تھے، اس کو چھیچھڑوں کی بھری ہوئی ٹوکری سمجھتے تھے حالانکہ ٹوکری میں نارنگیاں تھیں۔ ایک دن اس نے اپنی دو نارنگیاں نکال کر آئینے کے سامنے رکھ دیں۔ اس کے پیچھے ہوکے اس نے ان کو دیکھا مگر نظر نہ آئیں۔ اس نے سوچا اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹی ہیں۔ مگر وہ اس کے سوچتے سوچتے ہی بڑی ہو گئیں اور اس نے ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر آتش دان پر رکھ دیں۔ اب کتے بھونکنے لگے۔ نارنگیاں فرش پر لڑھکنے لگیں۔ کوٹھی کے فرش پر اچھلیں، ہر کمرے میں کودیں اور اچھلتی کودتی بڑے بڑے باغوں میں بھاگنے دوڑنے لگیں۔ کتے ان سے کھیلتے اور آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے۔ جانے کیا ہوا، ان کتوں میں دو زہر کھا کے مر گئے۔ جو باقی بچے وہ ان کی ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کھا گئی۔ یہ اس نوجوان ملازمہ کی جگہ آئی تھی، جس کو کسی آدمی نے قتل کردیا تھا، گل میں اس کے پھندنوں والے ازار بند کا پھندا ڈال کر۔ اس کی ماں تھی۔ ادھیڑ عمر کی ملازمہ سے عمر میں چھ سات بڑی بڑی۔ اس کی طرح ہٹی کٹی نہیں تھی۔ ہر روز صبح شام موٹر میں سیر کو جاتی تھی۔ اور بدعادت مرغیوں کی طرح دور دراز باغوں میں جھاڑیوں کے پیچھے انڈے دیتی تھی۔ ان کو وہ خود اٹھا کرلاتی تھی نہ ڈرائیور۔ اوملیٹ بناتی تھی۔ جس کے داغ کپڑوں پر پڑ جاتے تھے۔ سوکھ جاتے تو ان کو باغ میں جھاڑیوں کے پیچھے پھینک دیتی تھی جہاں سے چیلیں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔ ایک دن اس کی سہیلی آئی۔ پاکستان میل، موٹر نمبر9612 پی ایل بڑی گرمی تھی۔ ڈیڈی پہاڑ پر تھے۔ ممی سیر کرنے گئی ہوئی تھیں۔ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنا بلاؤز اتارا اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ اس کے دودھ ابلے ہوئے تھے جو آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہو گئے۔ اس کے دودھ ٹھنڈے تھے جو آہستہ آہستہ ابلنے لگے۔ آخر دونوں دودھ ہل ہل کے کنگنے ہو گئے اور کھٹی لسی بن گئی۔ اس سہیلی کا بینڈ بج گیا۔ مگر وہ وردی والے سپاہی پھندنے نچانے نہ آئے۔ اس کی جگہ پیتل کے برتن تھے، چھوٹے اور بڑے، جن سے آوازیں نکلتی تھیں۔ گرجدار اور دھیمی۔ دھیمی اور گرجدار۔ یہ سہیلی جب پھر ملی تو اس نے بتایا کہ وہ بدل گئی ہے۔ سچ مچ بدل گئی تھی۔ اس کے اب دو پیٹ تھے۔ ایک پرانا، دوسرا نیا۔ ایک کے اوپر دوسرا چڑھا ہوا تھا۔ اس کے دودھ پھٹے ہوئے تھے۔ پھر اس کے بھائی کا بینڈ بجا۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ بہت روئی۔ اس کے بھائی نے اس کو بہت دلاسا دیا۔ بیچاری کو اپنی شادی یاد آگئی تھی۔ رات بھر اس کے بھائی اور اس کی دلہن کی لڑائی ہوتی رہی۔ وہ روتی رہی، وہ ہنستا رہا۔ صبح ہوئی تو ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ اس کے بھائی کو دلاسا دینے کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔ دلہن کو نہلایا گیا۔ اس کی شلوار میں اس کا لال پھندنوں والا ازار بند پڑا تھا۔ معلوم نہیں یہ دلہن کے گلے میں کیوں نہ باندھا گیا۔ اس کی آنکھیں بہت موٹی تھیں۔ اگر گلا زور سے گھونٹا جاتا تو وہ ذبح کیے ہوئے بکرے کی آنکھوں کی طرح باہر نکل آتیں۔ اور اس کوبہت تیز بخار چڑھتا۔ مگر پہلا تو ابھی تک اترا نہیں۔ ہو سکتا ہے اتر گیا ہو اور یہ نیا بخار ہو جس میں وہ ابھی تک بے ہوش ہے۔ اس کی ماں موٹر ڈرائیوری سیکھ رہی ہے۔ باپ ہوٹل میں رہتا ہے۔ کبھی کبھی آتا ہے اور اپنے لڑکے سے مل کر چلا جاتا ہے۔ لڑکا کبھی کبھی اپنی بیوی کو گھر بلا لیتا ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کو دو تین روز کے بعد کوئی یاد ستاتی ہے تو رونا شروع کردیتی ہے۔ وہ اسے دلاسا دیتا ہے، وہ اسے پچکارتی ہے اور دلہن چلی جاتی ہے۔ اب وہ اور دلہن بھابھی، دونوں سیر کو جاتی ہیں۔ سہیلی بھی، پاکستان میل۔ موٹر نمبر9612پی ایل۔ سیر کرتے کرتے اجنتا جا نکلتی ہیں، جہاں تصویریں بنانے کا کام سکھایا جاتا ہے۔ تصویریں دیکھ کرتینوں تصویر بن جاتے ہیں۔ رنگ ہی رنگ، لال، پیلے، ہرے، نیلے۔ سب کے سب چیخنے والے ہیں۔ ان کو رنگوں کا خالق چپ کراتا ہے۔ اس کے لمبے لمبے بال ہیں۔ سردیوں اور گرمیوں میں اوورٹ کوٹ پہنتا ہے۔ اچھی شکل و صورت کا ہے۔ اندر باہر ہمیشہ کھڑاؤں استعمال کرتا ہے۔ اپنے رنگوں کو چپ کرانے کے بعد خود چیخنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو یہ تینوں چپ کراتی ہیں اور بعد میں خود چلانے لگتی ہیں۔ تینوں اجتنا میں مجرد آرٹ کے سینکڑوں نمونے بناتی رہیں۔ ایک کی ہر تصویر میں عورت کے دو پیٹ ہوتے ہیں۔ مختلف رنگوں کے۔ دوسری کی تصویروں میں عورت ادھیڑ عمر کی ہوتی ہے۔ ہٹی کٹی۔ تیسری کی تصویروں میں پھندنے ہی پھندنے۔ ازار بندوں کا گچھا۔ مجرد تصویریں بنتی رہیں۔ مگر تینوں کے دودھ سوکھتے رہے۔ بڑی گرمی تھی، اتنی کہ تینوں پسینے میں شرابور تھیں۔ خس لگے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی انھوں نے اپنے بلاؤز اتارے اور پنکھے کے نیچے کھڑی ہو گئیں۔ پنکھا چلتا رہا۔ دودھوں میں ٹھنڈک پیدا ہوئی نہ گرمی۔ اس کی ممی دوسرے کمرے میں تھی۔ ڈرائیور اس کے بدن سے موبل آئل پونچھ رہا تھا۔ ڈیڈی ہوٹل میں تھا جہاں اس کی لیڈی سٹینوگرافر اس کے ماتھے پر یوڈی کلون مل رہی تھی۔ ایک دن اس کا بھی بینڈ بج گیا۔ اجاڑ باغ پھر بارونق ہو گیا۔ گملوں اور دروازوں کی آرائش اجنتا اسٹوڈیو کے مالک نے کی تھی۔ بڑی بڑی گہری لپ اسٹکیں اس کے بکھرے ہوئے رنگ دیکھ کر اڑ گئیں۔ ایک جو زیادہ سیاہی مائل تھی، اتنی اڑی کہ وہیں گر کراس کی شاگرد ہو گئی۔ اس کے عروسی لباس کا ڈیزائن بھی اس نے تیار کیا تھا۔ اس نے اس کی ہزاروں کی سمتیں پیدا کردی تھیں۔ عین سامنے سے دیکھو تو وہ مختلف رنگ کے ازار بندوں کا بنڈل معلوم ہوتی تھی۔ ذرا ادھر ہٹ جاؤ تو پھلوں کی ٹوکری تھی۔ ایک طرف ہو جاؤ تو کھڑکی پر پڑا ہوا پھلکاری کا پردہ۔ عقب میں چلے جاؤ۔ کچلے ہوئے تربوزوں کا ڈھیر۔ ذرا زاویہ بدل کر دیکھو ٹماٹو ساس سے بھرا ہوا مرتبان۔ اوپر سے دیکھو تو یگانہ آرٹ۔ نیچے سے دیکھو تو میرا جی کی مبہم شاعری۔ فن شناس نگاہیں عش عش کر اٹھیں۔ دولہا اس قدرمتاثر ہوا تھا کہ شادی کے دوسرے روز ہی اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ بھی مجرد آرٹسٹ بن جائے گا۔ چنانچہ اپنی بیوی کے ساتھ وہ اجنتا گیا۔ جہاں انھیں معلوم ہوا کہ اس کی شادی ہورہی ہے اور وہ چند روز سے اپنی ہونے والی دلہن ہی کے پاس رہتا ہے۔ اس کی ہونے والی دلہن وہی گہرے رنگ کی لپ اسٹک تھی جو دوسری لپ اسٹکوں کے مقابلے میں زیادہ سیاہی مائل تھی۔ شروع شروع میں چند مہینے تک اس کے شوہر کو اس سے اور مجرد آرٹ سے دلچسپی رہی، لیکن جب اجنتا اسٹوڈیو بن ہو گیا اور اس کے مالک کی کہیں سے بھی سن گن نہ ملی تو اس نے نمک کا کاروبار شروع کردیا۔ جو بہت نفع بخش تھا۔ اس کا کاروبار کے دوران میں اس کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی۔ جس کے دودھ سوکھے ہوئے نہیں تھے۔ یہ اس کو پسند آگئے۔ بینڈ نہ بجا لیکن شادی ہو گئی۔ پہلی اپنے برش اٹھا کر لے گئی اور الگ رہنے لگی۔ یہ ناچاقی پہلے تو دونوں کے لیے تلخی کا موجب ہوئی لیکن بعد میں ایک عجیب و غریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی۔ اس کی سہیلی نے جو دوسرا شوہر تبدیل کرنے کے بعد سارے یورپ کا چکر لگا کر آئی تھی اور اب دق کی مریض تھی، اس مٹھاس کو کیوبک آرٹ میں پینٹ کیا۔ صاف شفاف چینی کے بے شمار کیوب تھے جو تھوہر کے پودوں کے درمیان اس انداز سے اوپر تلے رکھے تھے کہ ان سے دو شکلیں بن گئیں تھی۔ اس پر شہید کی مکھیاں بیٹھی رس چوس رہی تھیں۔ اس کی دوسری سہیلی نے زہر کھا کر خود کشی کرلی۔ جب اس کو یہ المناک خبر ملی تو وہ بے ہوش ہو گئی۔ معلوم نہیں بے ہوشی نئی تھی یا وہی پرانی جو بڑے تیز بخار کے بعد ظہور میں آئی تھی۔ اس کا باپ یوڈی کلون میں تھا۔ جہاں اس کا ہوٹل اس کی لیڈی سٹینو گرافر کا سرسہلاتا تھا۔ اس کی ممی نے گھر کا سارا حساب کتاب ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ کے حوالے کردیا تھا۔ اب اس کو ڈرائیونگ آگئی تھی مگر بہت بیمار ہو گئی تھی۔ مگر پھر بھی اس کو ڈرائیور کے بن ماں کے پلے کا بہت خیال تھا۔ وہ اس کو اپنا موبل آئل پلاتی تھی۔ اس کی بھابھی اور اس کے بھائی کی زندگی بہت ادھیڑ اور ہٹی کٹی ہو گئی تھی۔ دونوں آپس میں بڑے پیار سے ملتے تھے کہ اچانک ایک رات جب کہ ملازمہ اور اس کا بھائی گھر کا حساب کتاب کررہے تھے، اس کی بھابھی نمودار ہوئی، وہ مجرد تھی۔ اس کے ہاتھ میں قلم تھانہ برش۔ لیکن اس نے دونوں کا حساب صاف کردیا۔ صبح کمرے میں سے جمے ہوئے لہو کے دو بڑے بڑے پھندنے نکلے جو اس کی بھابھی کے گلے میں لگا دیے گئے۔ اب وہ قدرے ہوش میں آئی۔ خاوند سے ناچاقی کے باعث اس کی زندگی تلخ ہو کر بعد میں عجیب وغریب مٹھاس میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس نے اس کو تھوڑا سا تلخ بنانے کی کوشش کی اور شراب پینا شروع کی، مگر ناکام رہی۔ اس لیے کہ مقدار کم تھی۔ اس نے مقدار بڑھا دی حتیٰ کہ وہ اس میں ڈبکیاں لینے لگی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اب غرق ہوئی مگر وہ سطح پر ابھر آتی تھی۔ منہ سے شراب پونچھتی ہوئی اور قہقہے لگاتی ہوئی۔ صبح کو جب اٹھتی تو اسے محسوس ہوتا کہ رات بھر اس کے جم کا ذرہ ذرہ دھاڑیں مار مار کر روتا رہا ہے۔ اس کے وہ سب بچے جو پیدا ہوسکتے تھے، ان قبروں میں جو ان کے لیے بن سکتی تھیں، اس دودھ کے لیے جو ان کا ہو سکتا تھا، بلک بلک کر رو رہے ہیں۔ مگر اس کے دودھ کہاں تھے۔ وہ تو جنگلی بلے پی چکے تھے۔ وہ زیادہ پیتی کہ اتھاہ سمندر میں ڈوب جائے مگر اس کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔ ذہین تھی۔ پڑی لکھی تھی۔ جنسی موضوعات پر بغیر کسی تصنع کے بے تکلف گفتگو کرتی تھی۔ مردوں کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی، مگر پھر بھی کبھی کبھی رات کی تنہائی میں اس کا جی چاہتا تھا کہ اپنی کسی بدعادت مرغی کی طرح جھاڑیوں کے پیچھے جائے اور ایک انڈہ دے آئے۔ بالکل کھوکھلی ہو گئی۔ صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تو اس سے لوگ دور رہنے لگے۔ وہ سمجھ گئی، چنانچہ وہ ان کے پیچھے نہ بھاگی اور اکیلی گھر میں رہنے لگی۔ سگریٹ پر سگریٹ پھونکتی، شراب پیتی اور جانے کیا سوچتی رہتی۔ رات کو بہت کم سوتی تھی۔ کوٹھی کے اردگرد گھومتی رہتی تھی۔ سامنے کوارٹرمیں ڈرائیور کا بن ماں کا بچہ موبل آئل کے لیے روتا رہتا تھا مگر اس کی ماں کے پاس ختم ہو گیا تھا۔ ڈرائیور نے ایکسیڈنٹ کردیا تھا۔ موٹر گیراج میں اور اسکی ماں ہسپتال میں پڑی تھی۔ جہاں اس کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی تھی، دوسری کاٹی جانے والی تھی۔ وہ کبھی کبھی کوارٹر کے اندر جھانک کر دیکھتی تو اس کو محسوس ہوتا کہ اس کے دودھوں کی تلچھت میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوئی ہے، مگر اس بدذائقہ سے تو اس کے بچے کے ہونٹ بھی تر نہ ہوتے۔ اس کے بھائی نے کچھ عرصے سے باہر رہنا شروع کردیا تھا۔ آخر ایک دن اس کا خط سوئیٹزرلینڈ سے آیا کہ وہ وہاں اپنا علاج کرا رہا ہے، نرس بہت اچھی ہے۔ ہسپتال سے نکلتے ہی وہ اس سے شادی کرنے والا ہے۔ ادھیڑ عمر کی ہٹی کٹی ملازمہ نے تھوڑا زیور، کچھ نقدی اور بہت سے کپڑے جو اس کی ممی کے تھے، چرائے اور چند روز کے بعد غائب ہو گئی۔ اس کے بعد اس کی ماں آپریشن ناکام ہونے کے باعث ہسپتال میں مر گئی۔ اس کا باپ جنازے میں شامل ہوا۔ اس کے بعد اس نے اس کی صورت نہ دیکھی۔ اب وہ بالکل تنہا تھی۔ جتنے نوکر تھے، اس نے علیحدہ کردیے، ڈرائیور سمیت۔ اس کے بچے کے لیے اس نے ایک آیا رکھ دی۔ کوئی بوجھ سوائے اس کے خیالوں کے باقی نہ رہا تھا۔ کبھی کبھار اگر کوئی اس سے ملنا آتا تو وہ اندر سے چلا اٹھی تھی۔

’’چلے جاؤ۔ جوکوئی بھی تم ہو، چلے جاؤ۔ میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔ ‘‘

سیف میں اس کو اپنی ماں کے بے شمار قیمتی زیورات ملے تھے۔ اس کے اپنے بھی تھے جن سے ان کو کوئی رغبت نہ تھی۔ مگر اب وہ رات کو گھنٹوں آئینے کے سامنے ننگی بیٹھ کر یہ تمام زیور اپنے بدن پر سجاتی اور شراب پی کر کن سری آواز میں فحش گانے گاتی تھی۔ آس پاس اور کوئی کوٹھی نہیں تھی اس لے اسے مکمل آزادی تھی۔ اپنے جسم کو تو وہ کئی طریقوں سے ننگا کر چکی تھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ اپنی روح کو بھی ننگا کردے۔ مگر اس میں وہ زبردست حجاب محسوس کرتی تھی۔ اس حجاب کو دبانے کے لیے صرف ایک ہی طریقہ اس کی سمجھ میں آیا تھا کہ پیے اور خوب پیے اور اس حالت میں اپنے ننگے بدن سے مدد لے۔ مگر یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا کہ وہ آخری حد تک ننگا ہو کر سترپوش ہو گیا تھا۔ تصویریں بنا بنا کر وہ تھک چکی تھی۔ ایک عرصے سے اس کا پینٹنگ کا سامان صندوقچے میں بند پڑا تھا۔ لیکن ایک دن اس نے سب رنگ نکالے اور بڑے بڑے پیالوں میں گھولے۔ تمام برش دھو دھا کر ایک طرف رکھے اور آئینے کے سامنے ننگی کھڑی ہو گئی اور انے جسم پر نئے نئے خدوخال بنانے شروع کیے۔ اس کی یہ کوشش اپنے وجود کو مکمل طور پر عریاں کرنے کی تھی۔ وہ اپنا سا منا حصہ ہی پینٹ کرسکتی تھی۔ دن بھر وہ اس میں مصروف رہی۔ بن کھائے پیے، آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بدن پرمختلف رنگ جماتی اور ٹیڑھے بنگے خطوط بناتی رہی۔ اس کے برش میں اعتماد تھا۔ آدھی رات کے قریب اس نے دور ہٹ کر اپنا بغور جائزہ لے کر اطمینان کا سانس لیا۔ اس کے بعد اس نے تمام زیورات ایک ایک کرکے اپنے رنگوں سے لتھڑے ہوئے جسم پر سجائے اور آئینے میں ایک بار پھر غور سے دیکھا کہ ایک دم آہٹ ہوئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک آدمی چھرا ہاتھ میں لیے، منہ پر ڈھاٹا باندھے کھڑا تھا جیسے حملہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر جب وہ مڑی تو حملہ آور کے حلق سے چیخ بلند ہوئی۔ چھرا اس کے ہاتھ سے گر پڑا افراتفری کے عالم میں کبھی ادھر کا رخ کیا کبھی ادھر۔ آخر جو رستہ ملا، اس میں سے بھاگ نکلا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگی۔ چیختی، پکارتی۔

’’ٹھہرو۔ ٹھہرو میں تم سے کچھ نہیں کہوں گی۔ ٹھہرو!‘‘

مگر چور نے اس کی ایک نہ سنی اور دیوار پھاند کر غائب ہو گیا۔ مایوس ہو کر واپس آئی۔ دروازے کی دہلیز کے پاس چور کا خنجرپڑا تھا۔ اس نے اٹھا لیا اور اندرچلی گئی۔ اچانک اس کی نظریں آئینے سے دو چار ہوئیں۔ جہاں اس کا دل تھا، وہاں اس نے میان نما چمڑے کے رنگ کا خول سا بنایا ہوا تھا۔ اس نے اس پر خنجر رکھ کر دیکھا۔ خول بہت چھوٹا تھا۔ اس نے خنجر پھینک دیا اور بوتل میں سے شراب کے چار پانچ بڑے بڑے گھونٹ پی کر ادھر ٹہلنے لگی۔ وہ کئی بوتلیں خالی کر چکی تھی۔ کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔ دیر تک ٹہلنے کے بعد وہ پھر آئینے کے سامنے آئی۔ اس کے گلے میں ازار بند نما گلوبند تھا جس کے بڑے بڑے پھندنے تھے۔ یہ اس نے برش سے بنایا تھا۔ دفعتاً اس کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ گلوبند تنگ ہونے لگا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اس کے گلے کے اندر دھنستا جارہا ہے۔ وہ خاموش کھڑی آئینے میں آنکھیں گاڑی رہی جو اسی رفتار سے باہر نکل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے چہرے کی تمام رگیں پھولنے لگیں۔ پھر ایک دم سے اس نے چیخ ماری اور اوندھے منہ فرش پر گر پڑی۔

سعادت حسن منٹو

پھسپھسی کہانی

سخت سردی تھی۔ رات کے دس بجے تھے۔ شالامار باغ سے وہ سڑک جو ادھر لاہور کو آتی ہے، سنسان اور تاریک تھی۔ بادل گھرے ہوئے تھے اور ہوا تیز چل رہی تھی۔ گردوپیش کی ہر چیز ٹھٹھری ہوئی تھی۔ سڑک کے دو رویہ پست قد مکان اور درخت دھندلی دھندلی روشنی میں سکڑے سکڑے دکھائی دے رہے تھے۔ بجلی کے کھمبے ایک دوسرے سے دور دور ہٹے، روٹھے اور اکتائے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ ساری فضا میں بدمزگی کی کیفیت تھی۔ ایک صرف تیز ہوا تھی جو اپنی موجودگی منوانے کی بیکار کوشش میں مصروف تھی۔ جب دو سائیکل سوار نمودار ہوئے اور ہوا کے تیز و تند جھونکے ان کے کانوں سے ٹکرائے تو انھوں نے اپنے اپنے اوورکوٹ کا کالر اونچا کرلیا۔ دونوں خاموش تھے۔ مخالف ہوا کے باعث انھیں پیڈل چلانے میں کافی زور صرف کرنا پڑرہا تھا۔ مگر وہ اس کے احساس سے غافل ایک دوسرے کا سایہ بنے شالامار باغ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اگر کوئی انھیں دور سے دیکھتا تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ سڑک جو لوہے کی زنگ آلود چادر کی طرح پھیلی ہوئی تھی، ان کی سائیکلوں کے ساکت پہیوں کے نیچے ہولے ہوئے کھسک رہی ہے۔ بہت دیر تک وہ دونوں سنسان فاصلہ خاموشی میں طے کرتے رہے۔ آخر ان میں سے سائیکل سے اتر کر اپنے سرد ہاتھ منہ کی بھاپ سے گرم کرنے لگا۔

’’سخت سردی ہے۔ ‘‘

اس کے ساتھی نے بریک لگائی اور ہنسنے لگا۔

’’بھائی جان!وہ۔ وہ وہسکی کہاں گئی؟‘‘

’’جہنم میں۔ جہاں ساری شام غارت ہوئی، وہاں وہ بھی نہ ہوئی۔ ‘‘

دونوں بھائی تھے، مگر ایسے بھائی جو چاروں عیب شرعی اکٹھے مل جل کے کرتے تھے۔ دونوں نے صبح یہ پروگرام بنایا تھا کہ دفتر سے فارغ ہو کررشوت کے اس روپے کا جو انہیں دو بجے کے قریب ملنا تھا، جائز استعمال سوچیں گے۔ روپیہ انھیں دو بجے سے پہلے ہی مل گیا تھا، اس لیے کہ رشوت دینے والا بہت بے قرار تھا۔ بڑے بھائی نے روپیہ جیب میں رکھنے سے پہلے تمام نوٹ اچھی طرح دیکھ کر اطمینان کرلیا کہ وہ نشان زدہ نہیں تھے۔ رقم زیادہ نہیں تھی۔ دو سو ایک روپے تھے۔ انھوں نے دو سو طلب کیے تھے مگر ایک کا اضافہ رشوت دینے والے نے شگن کے لیے تھا جو بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی سے مشورہ کرکے ایک اندھے بھکاری کو دے دیا تھا۔ اب وہ دونوں ہیرا منڈی کی طرف جارہے تھے۔ چھوٹے بھائی کی جیب میں اسکاچ کی بوتل تھی۔ بڑے کی جیب میں تھری فائیو کے دو ڈبے عام طور پر دونوں گولڈ فلیک پیتے تھے، مگر جب رشوت ملتی تو ایسا برانڈ پیتے تھے جس کے د ام زیادہ ہوں۔ ہیرا منڈی میں داخل ہوا ہی چاہتے تھے کہ بادشاہی مسجد سے اذان کی آواز آئی۔ بڑے نے چھوٹے سے کہا۔

’’چلو یار، نماز پڑھ لیں!‘‘

چھوٹے نے اپنی پھولی ہوئی جیب کی طرف دیکھا۔

’’اس کا کیا کریں بھائی جان؟‘‘

بڑے نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا۔

’’اس کا انتظام کرلیتے ہیں۔ اپنا یار بٹ جو ہے!‘‘

بٹ پان فروش کی دکان قریب ہی تھی۔ چھوٹے نے مہین کاغذ میں لپٹی ہوئی بوتل اس کے حوالے کی۔ بڑے نے اپنی اور اپنے بھائی کی سائیکل دکان کے تھڑے کے ساتھ ٹکائی اور بٹ سے کہا۔

’’ہم ابھی آئے نماز پڑھ کے!‘‘

بٹ نے قہقہہ لگایا۔

’’دو نفل شکرانے کے بھی!‘‘

دونوں بھائیوں نے بادشاہی مسجد میں نماز ادا کی اور دو نفل شکرانے کے بھی پڑھے۔ واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بٹ کی دکان بند ہے۔ ساتھ والے دکاندار سے پوچھا تو اس نے کہا۔ ‘‘

نماز پڑھنے گیا ہے۔ ‘‘

دونوں بھائیوں کو سخت تعجب ہوا۔

’’نماز!‘‘

دکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’سال چھ ماہ ہی میں کبھی کبھی پڑھ لیا کرتا ہے۔ ‘‘

دونوں بہت دیر تک بٹ کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔ جب وہ نہ آیا تو بڑے نے چھوٹے سے کہا۔

’’جاؤ یار۔ ایک بوتل اور لے آؤ۔ میں نے خواہ مخواہ اس حرامزادے بٹ پر اعتبار کیا۔ ‘‘

چھوٹے نے روپے لیے اور بڑے سے کہا۔

’’جیب ہی میں پڑی رہتی تو کیا حر ج تھی؟‘‘

’’چھوڑو یار۔ ہٹاؤ اس قصے کو۔ مجھے بوتل جانے کا اتنا افسوس نہیں۔ کہیں گر کر بھی ٹوٹ سکتی تھی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بڑی بے دردی سے پی رہا ہو گا کم بخت۔ ‘‘

چھوٹے نے پیڈل پر پاؤں رکھا اور پوچھا۔

’’آپ یہیں ہوں گے؟‘‘

بڑے نے بڑے اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’ہاں بھئی، یہیں کھڑا رہوں گا۔ شاید بہک کر ادھر آنکلے۔ لیکن تم جلدی آجانا!‘‘

چھوٹا جلدی واپس آگیا مگر اس کا چہرہ لٹکا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا جو کیریئر پر بیٹھا ہوا تھا۔ بڑا تاڑ گیا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ لیکن اسے زیادہ دیر تک ذہنی کشمکش میں مبتلا نہ رہنا پڑا کیوں کہ چھوٹے نے سائیکل سے اترتے ہی اس کو سارا قصہ سنا دیا۔ شراب کی دکان سے دوسری بوتل لے کر جونہی وہ باہر نکلا تو بارش ہو چکی تھی۔ اسے جلد واپس پہنچنا تھا۔ افراتفری میں اس نے سائیکل پر سوار ہونے کی کوشش کی مگر وہ ایسی پھسلی کہ سنبھالے نہ سنبھلی۔ سڑک پر اوندھے منہ گرا اور دوسری بوتل بھی جہنم میں چلی گئی۔ چھوٹے نے ساری داستان تفصیل کے ساتھ سنا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔

’’میں بچ گیا بھائی جان۔ بوتل کا کوئی ٹکڑا اگر کپڑے چیر کر گوشت تک پہنچ جاتا تو اس وقت کسی ہسپتال میں پڑا ہوتا۔ ‘‘

بڑے نے اللہ کا شکر ادا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ شراب کی دکان سے جو آدمی اس کے بھائی کے ساتھ آیا تھا، اس کو تیسری بوتل کے پیسے دے کر اس نے بٹ پان فروش کی بند دکان کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں ایک بہت ہولناک قسم کی گالی دے کر اس کی دکان کو بھسم کر ڈ الا۔ دونوں کو معلوم تھا کہ انھیں کہاں جانا ہے۔ چوک کے اس طرف نان کباب والے کے اوپر جو بالا خانہ تھا، اسی میں ان دونوں بھائیوں کی بالائی آمدنی کا جائز نکاس تھا، لونڈیا کم گو تھی۔ کھانے پینے والی تھی۔ عادات و اطوار کے لحاظ سے طوائف کم اور کلرک زیادہ تھی۔ اسی لیے ان کو پسند تھی کہ وہ خود بھی کلرک تھے۔ جب دونوں خوب پی جاتے تو دفتری گفتگو شروع کردیتے۔ ہیڈ کلرک کیسا ہے، صاحب کیسا ہے، اس کی گھر والی کی طبیعت کیسی ہے۔ گھنٹوں اپنے اپنے ماتحتوں اور اپنے افسروں کے ماضی اور حال پر تبصرہ کرتے رہتے۔ اور وہ بڑے انہماک سے سنتی رہتی۔ بہت کن سری تھی، مگر دونوں بھائی اس کا گانا سن کر یوں جھومتے تھے جیسے وہ ان کے کانوں میں شہد ٹپکا رہی ہے۔ لیکن آج جب وہ گانے لگی تو ان کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ وہ سر میں ہے نہ تال میں۔ چنانچہ اس کا گانا بند کراکے انھوں نے باقی بچی ہوئی شراب پینا شروع کردی۔ طوائف کا نام شیداں تھا، بہت کم پینے والی، مگر جانے اسے کیا ہوا کہ جب دونوں بھائیوں نے اس کا گانا بند کراکے پینا شروع کیا تو وہ بہک گئی اور ایسی بہکی کہ بوتل اٹھا کر ساری کی ساری سوکھی پی گئی۔ بڑے کو بہت غصہ آیا، مگر وہ اسے پی گیا کیوں کہ چھوٹا مزے میں تھا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس پر یہ کیف طاری نہ رہا کیوں کہ جب اس نے اور پینے کے لیے بوتل اٹھائی تو وہ خالی تھی۔ اب دونوں یکساں طور پر بے مزا تھے۔ بڑے نے چھوٹے سے مشورہ کرنا ضروری نہ سمجھا۔ شیداں کے استاد مانڈو کو روپے دے کر اس نے کہا۔

’’جاؤ، بھاگ کر جاؤاور ایک بوتل جمخانہ وسکی لے آؤ!‘‘

استاد نے روپے گن کر جیب میں رکھے اور کہا۔

’’سرکار! بلیک میں ملے گی۔ ‘‘

بڑا جو پہلے ہی بھنایا ہوا تھا، چلا کر بولا۔

’’ہاں، ہاں۔ جانتا ہوں۔ اسی لیے تو میں نے پانچ زیادہ دیے ہیں۔ ‘‘

جمخانہ آئی۔ دو دور چلے تو بڑے نے محسوس کیا کہ پانی ملی ہے۔ امتحان لینے کی خاطر اس نے تھوڑی سی رکابی میں ڈالی اور اس کو دیا سلائی دکھائی۔ ایک لحظہ کے لیے نیم جان نیلگوں سا دھواں اٹھا اور دیا سلائی شوں کرکے رکابی میں بجھ گئی۔ دونوں بھائیوں کو اس قدر کوفت ہوئی کہ غصے میں بھرے ہوئے اٹھے۔ بڑے نے پانی ملی بوتل ہاتھ میں لی۔ اس کا ارادہ تھا کہ یہ وہ اس شراب فروش کے سر پر دے مارے گا جس نے بے ایمانی کی تھی۔ مگر فوراً اسے خیال آیا کہ ان کے پاس پرمٹ نہیں تھا، اس لیے مجبوراً گالیاں دے کر خاموش ہو گئے۔ چھوٹے کی کوششوں سے بدمزگی کسی حد تک دور ہو گئی تھی کہ شیداں نے جو اس کی مدد کررہی تھی، سب کھایا پیا اگلنا شروع کردیا۔ اب دونوں بھائیوں نے مناسب خیال کیا کہ چلا جائے۔ چنانچہ استاد کی تحویل سے سائیکلیں لے کر وہ ہیرا منڈی کی گلیوں میں دیر تک بے مقصد گھومتے رہے۔ مگر اس آوارہ گردی کے باعث ان کی کوفت دور نہ ہوئی۔ واپس گھر جانے کا ارادہ ہی کررہے تھے کہ انھیں بٹ دکھائی دیا۔ نشے میں دھت تھا اور کوٹھوں کی طرف گردن اٹھا اٹھا کر واہی تباہی بک رہا تھا۔ دونوں بھائیوں کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ آگے بڑھ کر اس کا ٹینٹوا دبا دیں۔ مگر ان سے پہلے ایک سپاہی نے اس کو پکڑ لیا اور تھانے لے لیا۔ چھوٹے نے بڑے سے کہا۔

’’چلیے بھائی جان۔ ذرا تماشہ دیکھیں۔ ‘‘

بڑے نے پوچھا۔

’’کس کا؟‘‘

’’بٹ اور کس کا!‘‘

بڑے کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’پاگل ہوئے ہو۔ تھانے میں اگر اس نے ہمیں پہچان لیا یا کسی نے ہمارے منہ کی بو سونگھ لی تو ہمیں اپنا تماشہ بھی ساتھ ساتھ دیکھنا پڑے گا۔ ‘‘

چھوٹے نے دل ہی دل میں بڑے کی دور اندیشی کی د اد دی اور کہا۔

’’تو چلیے۔ گھر چلیں۔ ‘‘

دونوں اپنی اپنی سائیکل پر سوار ہوئے۔ بارش تھم چکی تھی۔ لیکن سرد ہوا بہت تیز چل رہی تھی۔ ابھی وہ ہیرا منڈی سے باہر نکلے تھے کہ انھیں اس تانگے میں جوان کے آگے آگے چل رہا تھا، اپنے دفتر کا بڑا افسر نظر آیا۔ دونوں نے ایک دم اس کی نگاہوں سے بچنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ کیوں کہ وہ انھیں دیکھ چکا تھا۔

’’ہلو!‘‘

انھوں نے اس ہلو کا جواب نہ دیا۔

’’ہلو!‘‘

اس ہلو کے جواب میں انھوں نے اپنی اپنی سائیکل روک لی۔ افسر نے تانگہ ٹھہرا لیا اور ان سے بڑے مربیّانہ انداز میں کہا۔

’’کہو مسٹر! عیش ہورہے ہیں؟‘‘

چھوٹے نے

’’جی ہاں!‘‘

اور بڑے نے

’’جی نہیں !‘‘

میں جواب دیا۔ اس پر افسر نے قہقہہ لگایا۔

’’میرا عیش تو ادھورا رہا۔ ‘‘

پھر اس نے افسرانہ انداز میں پوچھا۔

’’تمہارے پاس کچھ روپے ہیں؟‘‘

اس مرتبہ بڑے نے

’’جی ہاں!‘‘

اور چھوٹے نے

’’جی نہیں!‘‘

میں جواب دیا جس پر افسر نے دوسرا قہقہہ بلند کیا جو ٹھیٹ افسرانہ تھا۔

’’ایک سو روپے کافی ہوں گے اس وقت!‘‘

بڑے نے بڑے میکانکی انداز میں اپنی جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اپنے چھوٹے بھائی کی طرف بڑھا دیا۔ چھوٹے نے پکڑ کر افسر کے حوالے کردیا جس نے

’’تھینک یو!‘‘

کہا اور تانگے سے اتر کر لڑکھڑاتا ہوا ایک طرف چلا گیا۔ دونوں بھائی تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ بڑے نے تمام حالات پیش نظر رکھ کر اپنے سر کو زور سے جنبش دی۔

’’معلوم نہیں آج صبح صبح کس کا منہ دیکھا تھا۔ ‘‘

چھوٹے کے منہ سے یہ بڑی گالی نکلی۔

’’اسی۔ کا، جس نے دو سو ایک روپے دیے۔ ‘‘

بڑے نے بھی اس کومناسب و موزوں گالی سے یاد کیا۔

’’ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن میں سمجھتا ہوں سارا قصور اس فالتو روپے کا ہے جو اس نے اپنی ماں کی رواں سے شگن کے طور پر دیا تھا۔ ‘‘

’’اس نماز کا بھی جو ہم نے پڑھی!‘‘

’’اور اس حرامی بٹ کا بھی!‘‘

’’میں تو شکر کرتا ہوں کہ پولیس نے اس کو پکڑ لیا، ورنہ میں نے آج ضرور اس کا خون کردیا ہوتا۔ ‘‘

’’اور لینے کے دینے پڑ جاتے۔ ‘‘

’’لینے کے دینے تو پڑ ہی گئے۔ خدا معلوم یہ ہمارا افسر کہاں سے آن ٹپکا۔ ‘‘

’’لیکن میں سمجھتا ہوں اچھا ہی ہوا۔ سو روپے میں سالا کانا تو ہو گیا۔ ‘‘

’’یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن آج کی شام بہت بری طرح غارت ہوئی۔ ‘‘

’’چلو چلیں۔ ایسا نہ ہو کوئی اور آفت آجائے۔ ‘‘

دونوں پھر اپنی اپنی سائیکل پر سوار ہوئے اور ہیرا منڈی سے نکل آئے۔ بڑے نے دفتر سے نکلتے ہی یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اسکاچ کے دو تین دور ہونے کے بعد وہ شیداں سے کہے گا کہ وہ اپنی چھوٹی بہن کو بلائے۔ اس کی وہ بہت تعریفیں کیا کرتی تھی۔ کم عمر اور الہڑ تھی۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس نے گاؤں کی صحت مند فضا میں گزارا تھا اور دھندا شروع کیے اسے بمشکل چند مہینے ہوئے تھے۔ اسکاچ وسکی اور شیداں کی چھوٹی اور طبیعت اس سے بڑھ کر اور کیا عیاشی ہو سکتی تھی۔ مگر اس کا یہ سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور صرف کوفت باقی رہ گئی۔ چھوٹے نے بھی کُھل کھیلنے کی سوچی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ وسکی اور شیداں یقینی طور پر اسے اور بھی خوشگوار بنا دیتے اور وہ اس قدر محظوظ ہوتا کہ پندرہ بیس روز تک اسے اور کسی عیش کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ مگر سارا معاملہ چوپٹ ہو گیا۔ دونوں کے سر بھاری اور دل کڑوے کسیلے تھے۔ دونوں کی ہر بات الٹی ثابت ہوئی تھی۔ اسکاچ کی پہلی بوتل بٹ پان فروش لے اڑا۔ دوسری سڑک کے پتھروں پر ٹوٹ کر بہہ گئی۔ تیسری عین اس وقت داغ مفارقت دے گئی جب کہ سرورگٹھ رہے تھے۔ چوتھی کفایت کی خاطر دیسی منگوائی تو اس میں آدھا پانی نکلا اور سوکا آخری نوٹ افسر نے ہتھیا لیا۔ بڑے کی کوفت زیادہ تھی، یہی وجہ تھی کہ اس کے دماغ میں عجیب عجیب سے خیال آرہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اور بھی کچھ ہو۔ کوئی ایسی بات ہو کہ وہ کتوں کی طرح زور زور سے بھونکنا شروع کردے۔ یا ایسا زچ بچ ہو کہ اپنی سائیکل کے پرزے اڑا دے، اپنے تمام کپڑے اتار کر پھینک دے اور ننگ دھڑنگ کسی کنویں میں چھلانگ لگا دے۔ جس طرح حالات نے اس کا مضحکہ اڑایا تھا، اسی طرح وہ ان کا مضحکہ اڑانا چاہتا تھا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ حالات پیدا ہو کر وہیں ہیرا منڈی میں وفات پاگئے تھے۔ اب نئے حالات اور وہ بھی ایسے حالات پیدا ہوں جن کا وہ حسب منشا مضحکہ اڑا سکے۔ اس کے متعلق سوچنے سے وہ خود کو عاری پاتا تھا۔ ایک صرف گھر تھا جہاں لحاف اوڑھ کر سو سکتے تھے۔ مگر خالی خولی لحاف اوڑھ کر سو جانے میں کیا رکھا تھا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ سو سو کے دو نوٹوں میں چرس ملا تمباکو کو بھرتے اور پی کر انٹاغفیل ہو جاتے اور صبح اٹھ کر شگن کے ایک روپے کا کسی پیر فقیر کے مزار پر چڑھاوا چڑھا دیتے۔ سوچتے سوچتے بڑے نے زور کا نعرہ بلند کیا۔

’’ہٹ تیری ایسی کی تیسی!‘‘

چھوٹے نے گھبرا کر پوچھا۔

’’پنکچر ہو گیا؟‘‘

بڑنے نے جھنجھلا کر جواب دیا۔

’’نہیں یار۔ میں نے اپنا دماغ پنکچر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ‘‘

چھوٹا سمجھ گیا۔

’’اب جلدی گھر پہنچ جائیں۔ ‘‘

بڑے کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ ہو گیا۔

’’وہاں کیا کریں گے۔ بطخوں کے بال مونڈیں گے؟‘‘

چھوٹا بے اختیار ہنسنے لگا۔ بڑے کو یہ ہنسی بہت ناگوار گزری۔

’’خاموش رہو جی!‘‘

دیر تک دونوں خاموشی سے گھر کا فاصلے طے کرتے رہے۔ اب وہ اس سڑک پر تھے جو لوہے کی زنگ آلود چادر کی طرح پھیلی ہوئی تھی، اور ایسا لگتا تھا کہ ان کی سائیکلوں کے پہیوں کے نیچے ہولے ہولے کھسک رہی ہے۔ بڑے نے جب اپنے سرد ہاتھ منہ کی بھاپ سے گرم کیے اور کہا۔

’’سخت سردی ہے۔ ‘‘

تو چھوٹے نے ازارہ مذاق پوچھا۔

’’بھائی جان!وہ۔ وہ وسکی کہاں گئی؟‘‘

بڑے کے جی میں آئی کہ چھوٹے کو سائیکل سمیت اٹھا کر سڑک پر پٹک دے، مگر اس قدر کہہ سکا۔

’’جہنم میں۔ جہاں ساری شام غارت ہوئی، وہاں وہ بھی ہوئی۔ ‘‘

یہ کہہ وہ بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑا ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ اتنے میں چھوٹے نے آواز دی

’’بھائی جان!وہ دیکھیے کون آرہا ہے۔ ‘‘

بڑے نے مڑ کر دیکھا۔ ایک لڑکی تھی جو سردی میں ٹھٹھرتی، کانپتی، قدموں سے راستہ ٹٹولتے ان کی جانب آرہی تھی۔ جب پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کہ اندھی ہے، آنکھیں کھلی تھیں مگر اس کو سجھائی نہیں دیتا تھا کیوں کہ کھمبے کے ساتھ وہ ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔ بڑے نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ جوان تھی۔ عمر یہی سولہ سترہ بس کے قریب ہو گی۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں بھی اس کا سڈول بدن جاذب توجہ تھا۔ چھوٹے نے اس سے پوچھا۔

’’کہاں جارہی ہے تو؟‘‘

اندھی نے ٹھٹھرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔

’’راستہ بھول گئی ہوں۔ گھرسے آگ لینے کے لیے نکلی تھی۔ ‘‘

بڑے نے پوچھا۔

’’تیرا گھر کہاں ہے؟‘‘

اندھی بولی۔

’’پتہ نہیں۔ کہیں پیچھے رہ گیاہے۔ ‘‘

بڑے نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

’’چل میرے ساتھ!‘‘

اور وہ اسے سڑک کے اس پار لے گیا جہاں اینٹوں کا پرانا بھٹہ تھا جو ویرانے کی شکل میں بکھرا ہوا تھا۔ اندھی سمجھ گئی کہ اس کو راستہ بتانے والااسے کس راستے پر لے جارہا ہے، مگر اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ شاید وہ ایسے راستوں پر کئی مرتبہ چل چکی تھی۔ بڑا خوش تھا کہ چلو کوفت دور کرنے کا سامان مل گیا۔ کسی مداخلت کا کھٹکا بھی نہیں تھا۔ اوورکوٹ اتار کر اس نے زمین پر بچھایا وہ اور اندھی دونوں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اندھی جنم کی اندھی نہیں تھی۔ فسادات سے پہلے وہ اچھی بھلی تھی۔ لیکن جب سکھوں نے اس کے گاؤں پر حملہ کیا تو بھگدڑ میں اس کے سر پر گہری چوٹ لگی جس کے باعث اس کی بصارت چلی گئی۔ بڑے نے اوپرے دل سے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس کو اس کے ماضی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دو روپے جیب سے نکال کر اس نے اس کی ہتھیلی پر رکھے اور کہا۔

’’کبھی کبھی ملتی رہا کرنا۔ میں تمہیں کپڑے بھی بنوا دوں گا۔ ‘‘

اندھی بہت خوش ہوئی۔ بڑے نے جب اس کو روشن آنکھوں اور پھرتیلے ہاتھوں سے اچھی طرح ٹٹولا تو وہ بھی بہت خوش ہوا۔ اس کی کوفت کافی حد تک دور ہو گئی، لیکن ایک دم اسے اپنے چھوٹے بھائی کی بھنچی ہوئی آواز سنائی دی۔

’’بھائی جان۔ بھائی جان!‘‘

بڑے نے پوچھا۔

’’کیا ہے؟‘‘

چھوٹا سامنے آیا۔ بڑے خوف زدہ لہجے میں اس نے کہا۔

’’دو سپاہی آرہے ہیں!‘‘

بڑے نے ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے اپنا اوورکوٹ کھینچا جس پر اندھی بیٹھی ہوئی تھی۔ جھٹکے سے وہ اس خندق میں گر پڑی جس میں سے پکی ہوئی اینٹیں نکال لی گئی تھیں۔ گرتے وقت اس کے منہ سے بلند چیخ نکلی۔ مگر دونوں بھائی وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ چیخ سن کرسپاہی آئے تو انھوں نے بے ہوش اندھی کو خندق سے باہر نکالا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسے ہوش آیا تو اس نے سپاہیوں کو یوں دیکھنا شروع کیا جیسے وہ بھوت ہیں۔ پھر ایک دم دیوانہ وار چِلانے لگی۔

’’میں دیکھ سکتی ہوں۔ میں دیکھ سکتی ہوں۔ میری نظر واپس آگئی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ بھاگ گئی۔ اس کے ہاتھ سے جو دو روپے گرے، وہ سپاہیوں نے اٹھا لیے۔

سعادت حسن منٹو

پھاہا

گوپال کی ران پر جب یہ بڑا پھوڑا نکلا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ آم خُوب ہُوئے تھے۔ بازاروں میں، گلیوں میں، دکانداروں کے پاس، پھیری والوں کے پاس، جدھر دیکھو، آم ہی آم نظر آتے۔ لال، پیلے، سبز، رنگا رنگ کے۔۔۔۔۔۔۔ سبزی منڈی میں کھول کے حساب سے ہر قسم کے آم آتے تھے۔ اور نہایت سستے داموں فروخت ہو رہے تھے۔ یوں سمجھیے کہ پچھلے برس کی کسر پوری ہو رہی تھی۔ اسکول کے باہر چھوٹو رام پھل فروش سے گوپال نے ایک روز خوب جی بھر کے آم کھائے۔ اور جیب میں سے ایک مہینے کے بچائے ہوئے جتنے پیسے جمع تھے سب کے سب ان آموں پر خرچ کر دیے۔ جن کے گودے اور رس میں شہد گھلا ہوا تھا۔ اس روز چھٹی کے وقت آم کھانے کے بعد انگلیاں چاٹتے ہوئے گوپال کو اسکول کے حلوائی سے دودھ کی لسّی پینے کا خیال آیا تھا۔ اور اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اس نے گنڈا رام حلوائی سے پاؤ بھر دودھ کی لسّی بنانے کو کہا بھی تھا۔ مگر حلوائی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا۔

’’بابو گوپال، پہلا حساب چُکا دو تو اور اُدھار دوں گا، ورنہ نہیں۔ ‘‘

گوپال نے اگر آم نہ کھائے ہوتے، یا اگر اس کی جیب میں تھوڑے بہت پیسے ہوتے۔ تو وہ وہیں کھڑے کھڑے گنڈا رام کا حساب چکا دیتا۔ اور کچھ نہیں تو نقد دام دے کر لسّی کا وہ گلاس لے لیتا جس میں برف کا ٹکڑا اڈبکیاں لگا رہا تھا۔ اور جسے حلوائی نے بُرا سا منہ بنا کر اپنے پیچھے لوہے کے تھال پر رکھ دیا تھا۔ مگر گوپال کچھ بھی نہ کر سکا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چوتھے روز اس کی ران پر یہ بڑا پھوڑا نکل آیا۔ اور تین چار روز تک اُبھرتا رہا۔ گوپال کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ کہ کیا کرے۔ وہ پھوڑے سے اتنا پریشان نہیں تھا۔ جتنا اس کے درد سے۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ پھوڑا دن بدن لال ہوتا چلا جا رہا تھا۔ اور اس کے منہ پر بدن کی جھلی پھٹنا شروع ہو گئی تھی۔ بعض اوقات گوپال کو یہ معلوم ہوتا کہ پھوڑے کے اندر کوئی ہنڈیا اُبل رہی ہے۔ اور اس کے اندر سب کچھ ایک ہی اُبال میں نکلنا چاہتا ہے۔ یہ چیز اسے بہت پریشان کر رہی تھی۔ اور پھوڑے کی جسامت دیکھ کر ایک مرتبہ تو اسے ایسا معلوم ہوا تھا کہ اس کی جیب میں سے کانچ کی گولی نکل کر اس کی ران میں گھس گئی ہے۔ گوپال نے گھر میں پھوڑے کی بابت کسی سے ذکر نہ کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر پتا جی کو اس کا پتہ چل گیا۔ تو وہ اپنے تھانے کی مکھیوں کا سارا غصہ اسی پر نکالیں گے۔ اور بہت ممکن ہے کہ وہ اُسے اس چھڑی سے پیٹنا شروع کر دیں۔ جو تھوڑے روز ہوئے گردھاری وکیل کے منشی نے وزیر آباد سے انھیں تحفے کے طور پر لا کر دی تھی۔ ماں کا مزاج بھی کم گرم نہ تھا۔ وہ اگر اسے آم کھانے کے جُرم کی سزا نہ دیتی تو اس غلطی پر اس کے کان کھینچ کھینچ کر ضرور لال کر دیتی کہ اس نے گھر کے باہر اکیلے اکیلے آم کیوں اڑائے۔ اس کی ماں کا اصول تھا۔ کہ

’’گوپال اگر تجھے زہر بھی کھانا ہو تو گھر میں کھانا‘‘

گوپال اچھی طرح جانتا تھا کہ اس اصول کے پیچھے اس کی ماں کی صرف یہ خواہش تھی کہ گوپال کے منہ کے ساتھ اس کا منہ بھی چلتا رہے۔ کچھ بھی ہو گوپال کی ران پر پھوڑا نکلنا تھا، نکل آیا۔ اس کا باعث جہاں تک گوپال سمجھ سکا تھا، وہی آم تھے۔ اس نے پھوڑے کی بابت گھر میں کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ اس کو اپنے پتا جی کی وہ ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی جو غسل خانے کے اندر بتائی گئی تھی۔ اس کے پتا جی لالہ پرشو تم داس تھانے دار لنگوٹ باندھے نل کی دھار کے نیچے اپنی گنجی چندیا رکھے اور بڑی توند بڑھائے مونچھوں میں سے آم کا رس چوس رہے تھے۔ سامنے بالٹی میں ایک درجن کے قریب آم پڑے تھے جو انھوں نے صبح سویرے ایک ٹھیلے والے سے اس کا چالان کاٹ کر حاصل کیے تھے۔ گوپال باپ کی پیٹھ مل رہا تھا اور میل کی مروڑیاں بنا رہا تھا۔ جب اس نے ہاتھ صاف کرنے کے لیے بالٹی میں ڈالے تھے۔ اور چپکے سے ایک آم اڑانا چاہا تھا۔ تو لالہ جی نے بڑے زور سے اس کا ہاتھ جھٹک کر چھوٹے سے آم کو مونچھوں سمیت منہ میں ڈالتے ہوئے کہا تھا۔

’’بے شرم۔۔۔۔۔۔ تجھے بڑوں کا لحاظ کرنا، جانے کب آئے گا؟‘‘

اور جب گوپال نے رونی صورت بنا کر کہا تھا۔ ‘‘

پتا جی۔۔۔۔۔ آم کھانے کو میرا بھی تو جی چاہتا ہے۔ ‘‘

تو تھانیدار صاحب نے آم کی گٹھلی چُوس کر موری میں پھینکتے ہوئے کہا تھا۔ ‘‘

گوپو، تیرے لیے یہ آم بہت گرم تھا۔ پھوڑے پھنسیاں چاہتا ہے تو بیشک کھا لے۔۔۔۔۔۔۔۔ دو تین بارشیں اور ہو لینے دے، پھر خوب ٹھاٹ سے کھائیو تیری ماں سے کہوں گا وہ لسّی بنا دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ چل اب پیٹھ مل اور گوپال نے یہ رکاوٹ کی بات سُن کر خاموشی سے اپنے پتا کی پیٹھ ملنا شروع کر دی تھی اور آم کی مٹھاس نے جو پانی اس کے منہ میں بھر دیا تھا۔ اسے دیر تک نگلتا رہا تھا۔ اس کے دوسرے روز اس نے آم کھائے اور چوتھے روز اس کی ران پر پھوڑا نکل آیا۔ اس کے پتا کی بات سچی ثابت ہُوئی۔ اب اگر گوپال گھر میں کسی سے اس پھوڑے کی بات کرتا تو ظاہر ہے کہ خوب پٹتا، یہی وجہ ہے کہ خاموش رہا۔ اور پھوڑے کا بڑھاؤ بند کرنے کی تدبیریں سوچتا رہا۔ ایک روز اس کے پتا جی تھانے سے واپسی پر جب گھر آئے۔ تو ان کے ہاتھ میں ایک لمبی سی بتّی تھی۔ گوپال کی ماں کو آواز دے کر انھوں نے یہ بتّی اس کے ہاتھ میں میں دے کر کہا۔ ‘‘

لے آج بڑے کام کی چیز لایا ہوں۔ بمبئی کا مرہم ہے سو دوائیوں کی ایک دوا ہے۔۔۔۔ پھوڑے پھنسی کی بہار ہے۔ ذرا سا پھاہا پھوڑے پر لگا دو گی۔ یوں آرام آ جائے گا۔۔۔۔۔۔ یوں۔۔۔۔۔۔۔۔ بمبئی کا خالص مرہم ہے۔ سنبھال کے رکھ۔ ‘‘

گوپال اپنی بہن نرملا کے ساتھ صحن میں گیند بلا کھیل رہا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب تھانیدار جی مرہم دے کر اپنی پتنی کو کچھ سمجھا رہے تھے۔ تو نرملا نے زور سے گیند پھینکی۔ گوپال کا دھیان باپ کی طرف تھا۔ گیند پھوڑے پر زور سے لگی۔ گوپال بلبلا اٹھا۔ لیکن درد کو اندر ہی اندر پی گیا۔ وہ اسکول میں ماسٹر ہری رام کے مشہور بید کی مار کھا کر درد سہنے کا عادی ہو چکا تھا۔ ادھر گوپال کے پھوڑے پر گیند لگی۔ ادھر اس کے باپ کی آواز بلند ہوئی۔

’’ذرا سا پھاہے پر لیپ کرکے لگا دو گی۔۔۔۔۔۔ یوں آرام آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں‘‘

اور یوں کے ساتھ اس کے باپ کی چٹکی نے گویا گوپال کے سوئے ہوئے دماغ کی چٹکی بھر لی۔ اس کو اپنے درد کا علاج معلوم ہو گیا۔ اس کی ماں نے مرہم کی بتّی سامنے دالان میں سلائی کی پٹاری میں رکھ دی۔ گوپال کو اچھی طرح معلوم تھا۔ کہ اس کی ماں عام طور پر سلائی کی پٹاری ہی میں سب سنبھالنے والی چیزیں رکھا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ سنبھالنے والی چیز وہ موچنا تھا۔ جس سے اس کی ماں ہر دسویں پندرھویں روز اپنے تنگ ماتھے کے بال صاف کیا کرتی تھی۔ یہ بلاشک و شبہ سلائی کی پٹاری میں اس پڑیا سمیت موجود تھا جس میں کوئلوں کی سفید راکھ جمع رہتی تھی۔ جو اس کی ماں بال نوچ کر ماتھے پر لگایا کرتی تھی۔ تاہم گوپال نے اپنا اطمیان کرنے کے لیے گیند دالان میں پھینک دی اور اس کو پلنگ کے نیچے سے نکالتے ہوئے اپنی ماں کو سلائی کی پٹاری میں مرہم رکھتے دیکھ لیا۔ دوپہر کو اس نے اپنی بہن نرملا کو ساتھ مِلا کر چھوٹی قینچی جس سے اُس کا باپ انگلیوں کے ناخن کاٹتا تھا، مرہم کی بتّی اور اپنے باپ کے پاجامے سے بچا ہوا لٹھے کا وہ ٹکڑا حاصل کر لیا جس سے اس کی ماں ایک اور ٹکڑے کو ساتھ ملا کر شلوار کی میانی بنانا چاہتی تھی۔ دونوں یہ چیزیں لے کر اوپر کوٹھے پر چلے گئے۔ اور برساتی کے نیچے کوئلوں کی بوریوں کے پاس بیٹھ گئے۔ نرملا نے اپنی جیب سے لٹھے کا ٹکڑا نکال کر اپنی ران پر شلوار کے پھسلتے ہوئے ریشمی کپڑے پر پھیلا کر جب گوپال کی طرف اپنی ناچتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔ تو اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ گیارہ برس کی یہ کمسن لڑکی جو دریائی سرکنڈے کی طرح نازک اور لچکیلی تھی۔ ایک بہت بڑے کام کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہی ہے۔ اس کا ننھا سا دل جو اس وقت تک صرف ماں باپ کی جھڑکیوں اور اپنی گڑیوں کے میلے ہوتے ہوئے چہروں کی فکر سے دھڑکا کرتا تھا۔ اب اپنے بھائی کی ران پر پھوڑا دیکھنے کے خیال سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے کان کی لویں لال اور گرم ہو گئی تھیں۔ گوپال نے گھر میں اپنے پھوڑے کی بابت کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔ لیکن اب اُسے نرملا کو ساری بات سُنانا پڑی۔ کہ کس طرح اس نے چوری چوری آم کھائے اور لسّی پینا بھول گیا۔ اور اس کی ران پر پیسے کے برابر پھوڑا نکل آیا۔ جب اس نے اپنی رام کہانی سنا کر نرملا سے راز دارانہ لہجے میں کہا تھا۔

’’دیکھ نرملا! گھر میں یہ بات کسی سے نہ کہیو۔ ‘‘

تو نرملا نے بڑی متین صورت بنا کر جواب دیا تھا کہ میں پاگل تھوڑی ہوں‘‘

گوپال کو یقین تھا کہ نرملا یہ بات اپنے تک ہی رکھے گی۔ چنانچہ اس نے پاجامے کو اوپر اڑس لیا، نرملا کا دل دھک دھک کرنے لگا، جب گوپال نے بیٹھ کر اپنا پھوڑا دکھایا۔ اور نرملا نے دور ہی سے اپنی انگلی سے اسے چُھوا تو ان کے بدن پر ایک جھرجھری سی طاری ہو گئی۔ سی سی کرتے ہوئے اس نے اُبھرے لال پھوڑے کی طرف دیکھا اور کہا۔ کتنا لال ہے۔ ‘‘

’’ابھی تو اور ہو گا۔ ‘‘

گوپال نے اپنے مردانہ حوصلے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔ نرملا نے حیرت سے کہا۔ ‘‘

سچ؟‘‘

’’ابھی تو کچھ لال نہیں ہے، جو پھوڑا میں نے چرنجی کے منہ پر دیکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بڑا اور لال تھا‘‘

گوپال نے پھوڑے پر دو انگلیاں پھیریں۔

’’تو ابھی اور بڑھے گا؟‘‘

نرملا آگے سرک آئی۔

’’کیا پتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو اور بڑھتا چلا جا رہا ہے‘‘

گوپال نے جیب میں سے مرہم کی بتّی نکال کر کہا، نرملا سہم سی گئی۔ ‘‘

اس مرہم سے تو آرام آ جائے گا نا؟‘‘

گوپال نے بتّی کے ایک سرے پر سے کاغذ کی تہ جدا کی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’اس کا پھاہا لگانے ہی سے پھٹ جائے گا۔ ‘‘

’’پھٹ جائے گا۔ ‘‘

نرملا کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کے کان کے پاس ربڑ کا غبارہ پھٹ گیا ہے۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔

’’اور اس کے اندر جو کچھ ہے پُھوٹ بہے گا! گوپال نے مرہم کو انگلی پر اُٹھاتے ہوئے کہا۔ نرملا کا گلابی رنگ اب بمبئی کی مرہم کی طرح پیلا پڑ گیا تھا، اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔ مگر یہ پھوڑے کیوں نکلتے ہیں بھیّا؟‘‘

’’گرم چیزیں کھانے سے !‘‘

گوپال نے ایک ماہر طبیب کے سے انداز میں جواب دیا۔ نرملا کو وہ دو انڈے یاد آ گئے۔ جو اس نے دو ماہ پہلے کھائے تھے۔ وہ کچھ سوچنے لگی۔ گوپال اور نرملا کے درمیان چند باتیں اور ہوئیں۔ اس کے بعد وہ اصلی کام کی طرف متوجہ ہوئے، نرملا نے لٹھے کا ایک گول پھاہا کاٹا، بڑی نفاست سے، یہ روپے کے برابر تھا۔ اور اس کی گولائی میں مجال ہے ذرا سا نقص بھی ہو، اسی طرح گول تھا جس طرح نرملا کی ماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی گول ہوتی تھی۔ گوپال نے اس پھاہے پر تھوڑا سا مرہم لگا دیا۔ اور اسے اچھی طرح پھیلانے کے بعد پھوڑے کی طرف غور سے دیکھا۔ نرملا گوپال کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ اور گوپال کی ہر حرکت کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ گوپال نے جب پھاہا اپنے پھوڑے کے اُوپر جما دیا۔ تو وہ کانپ گئی جیسے اس کے بدن پر کسی نے برف کا ٹکڑا رکھ دیا ہے۔

’’اب آرام آ جائے گا نا؟‘‘

نرملا نے نیم سوالیہ انداز میں کہا۔ گوپال جواب دینے بھی نہ پایا تھا کہ برساتی کے برابر والی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز سنائی دی۔ یہ ان کی ماں تھی۔ جو غالباً کوئلے لینے کے لیے آ رہی تھی۔ گوپال اور نرملا نے بیک وقت ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھا اورکچھ کہے سُنے بغیر سب چیزیں اکٹھی کرکے اس پرانے صندوق کے پیچھے چھپا دیں جہاں ان کی بلی سندری بچے دیا کرتی تھی۔ اور چپکے سے بھاگ گئے۔ یہاں سے بھاگ کر گوپال نیچے گیا۔ تو اس کے باپ نے اُسے باہر فالودہ لانے کے لیے بھیج دیا۔ جب واپس آیا تو اسے گلی میں نرملا ملی، فالودے کا گلاس اس کے حوالے کرکے وہ چرنجی کے گھر چلا گیا۔ اور اس طرح ان چیزوں کو اپنی جگہ پر رکھنا بھول گیا۔ جو ماں کے اچانک آ جانے سے اس نے اور نرملا نے صندوق کے پیچھے چھپا دی تھیں۔ چرنجی کے یہاں وہ دیر تک تاش کھیلتا رہا۔ کھیل سے فارغ ہو کر جب وہ چرنجی کی بغل میں ہاتھ ڈالے کمرے سے باہر نکل رہا تھا۔ تو کسی بات پر اس کا دوست ہنسا اور اس کے داہنے گال پر پھوڑے کا نشان لمبی سی لکیر بن گیا۔ اُس کو دیکھ کر فوراً ہی اپنے پھوڑے کا گوپال کو خیال آیا اور اس خیال کے ساتھ ہی اُسے وہ چیزیں یاد آگئیں جو صندوق کے پیچھے پڑی تھیں۔ چرنجی کی بغل سے ہاتھ نکال کر وہ بھاگا۔ گھر پہنچ کر اُس نے وہاں کی فضا دیکھی، اس کی ماں صحن میں بیٹھی اس کے باپ سے

’’ملاپ‘‘

اخبار کی خبریں سُن رہی تھی۔ دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ گوپال ان کے پاس سے گزرا۔ دونوں نے اس کی طرف دیکھا، مگر اس سے کوئی بات نہ کی، گوپال کو اطمینان ہو گیا کہ ابھی تک اس کی ماں نے اپنی سلائی کی پٹاری نہیں دیکھی۔ چنانچہ وہ چپکے سے کوٹھے پر چلا گیا۔ بڑے کوٹھے کو طے کرکے دروازے کے اندر داخل ہونے والا ہی تھا۔ کہ اس کے قدم رُک گئے۔ صندوق کے پاس بیٹھی نرملا کچھ کر رہی تھی۔ گوپال پیچھے ہٹ گیا۔ اور چھُپ کر دیکھنے لگا۔ نرملا بڑے انہماک سے پھاہا تراش رہی تھی۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں قینچی سے بڑا نفیس کام لے رہی تھیں۔ پھاہا کاٹنے کے بعد اس نے تھوڑا سا مرہم نکال کر اس پر پھیلایا اور گردن جھکا کر اپنے کُرتے کے بٹن کھولے، سینے کے داہنی طرف چھوٹا سا ابھار تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نلکی پر صابن کا چھوٹا سا نامکمل بُلبلہ اٹکا ہوا ہے۔ نرملا نے پھاہے پر پھونک ماری اور اسے اس ننھے سے اُبھار پر جما دیا۔

سعادت حسن منٹو

پھاتو

تیز بخار کی حالت میں اُسے اپنی چھاتی پر کوئی ٹھنڈی چیز رینگتی محسوس ہوئی۔ اُس کے خیالات کاسلسلہ ٹُوٹ گیا۔ جب وہ مکمل طور پر بیدار ہوا تو اُس کا چہرہ بخار کی شدت کے باعث تمتما رہا تھا۔ اُس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا پھاتوفرش پر بیٹھی، پانی میں کپڑا بھگو کر اس کے ماتھے پر لگا رہی ہے۔ جب پھاتو نے اُس کے ماتھے سے کپڑا اُتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اُس نے اُسے پکڑ لیا۔ اور اپنے سینے پر رکھ کر ہولے ہولے پیار سے اپنا ہاتھ اس پر پھیرنا شروع کردیا۔ اُس کی سُرخ آنکھیں دو انگارے بن کر دیر تک پھاتو کو دیکھتی رہیں۔ وہ اس دہکتی ہوئی ٹکٹکی کی تاب نہ لاسکی اورہاتھ چھڑا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ اس پر وہ اُٹھ کر بستر میں بیٹھ گیا۔ پھاتو سے، جس کا اصل نام فاطمہ تھا، اُس کو غیر محسوس طور پر محبت ہو گئی تھی حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کردارو اطوار کی اچھی نہیں۔ محلے میں جتنے لونڈے ہیں اُس سے عشق لڑا چکے ہیں۔ لیکن یہ سب جانتے ہوئے بھی اُس کو پھاتو سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ اگر بخار میں مبتلا نہ ہوتا تو یقیناًاُس سے اپنے اس جذبے کا اظہار کبھی نہ کیا ہوتا۔ مگر تیز بخار کے باعث اُس کو اپنے دل و دماغ پر کوئی اختیار نہیں رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے اونچی آواز میں پھاتو کو پکارنا شروع کیا۔

’’اِدھر آؤ۔ میری طرف دیکھو۔ جانتی ہو، میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں، بہت بُری طرح تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔ اس طرح تمہاری محبت میں پھنس گیا ہوں، جیسے کوئی دلدل میں پھنس جائے۔ میں جانتاہوں تم کیا ہو۔ میں جانتا ہوں تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے محبت کی جائے۔ مگر یہ سب کچھ جانتے بھوجھتے تم سے محبت کرتا ہوں۔ لعنت ہو مجھ پر۔ لیکن چھوڑ ان باتوں کو۔ اور میری طرف دیکھو۔ میں بخار کے علاوہ تمہاری محبت میں بھی پھنکا جارہاہوں۔ پھاتو۔ پھاتو۔ میں۔ میں‘‘

اس کے خیالات کا سلسلہ ٹُوٹ گیا اور اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس نے ڈاکٹر مکند لال بھاٹیہ سے کونین کے نقصانات پر بحث شروع کردی۔ چند لمحات کے بعد وہ اپنی ماں سے جو وہاں موجودنہیں تھی، مخاطب ہوا

’’بی بی جی میرے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ آپ حیران کیوں ہوتی ہیں۔ مجھے پھاتو سے محبت ہے، اسی پھاتو سے جو ہمارے پڑوس میں پنج بندوں کے ہاں ملازم تھی اور جواب آپ کی ملازم ہے۔ آپ نہیں جانتیں اس لڑکی نے مجھے کتنا ذلیل کرادیا ہے۔ یہ محبت نہیں خسرہ ہے، نہیں خسرے سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کاکوئی علاج نہیں۔ مجھے تمام ذلتیں برداشت کرنی ہوں گی۔ ساری گلی کاکوڑا کرکٹ اپنے سر پر اُٹھانا ہو گا۔ یہ سب کچھ ہوکے رہے گا، یہ سب کچھ ہو کے رہے گا۔ ‘‘

آہستہ آہستہ اُس کی آواز کمزور ہوتی گئی اور اُس پر غنودگی طاری ہو گئی۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ اُس کی پلکوں پر بوجھ سا آن پڑا ہے۔ پھاتو پلنگ کے پاس فرش پر بیٹھی اس کی بے جوڑ ہذیانی گفتگو سُنتی رہی۔ مگر اُس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ ایسے بیماروں کی کئی مرتبہ تیمارداری کرچکی تھی۔ بخار کی حالت میں جب اُس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا تو پھاتو نے اُس کے متعلق کیا محسوس کیا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے کہ اس کا گوشت بھرا چہرہ جذبات سے بالکل عاری تھا۔ ممکن ہے کہ اُس کے دل کے کسی گوشے میں ہلکی سی سرسراہٹ پیدا ہوئی ہو۔ مگر یہ چربی کی تہوں سے نکل کر باہر نہ آسکی۔ پھاتو نے رومال نچوڑ کر تازہ پانی میں بھگویا اور اس کے ماتھے پر رکھنے کے لیے اُٹھی۔ اب کی بار اُسے اس لیے اُٹھنا پڑا کہ اُس نے کروٹ بدلی تھی۔ جب اُس نے آہستہ سے اُدھر سے مڑ کر اُس کے ماتے پر گیلا رومال جمایا تو اُس کی نیم وا آنکھیں یُوں کھلیں جیسے لال لال زخموں کے منہ ٹانکے ادھڑجانے سے کھل جاتے ہیں۔ اس نے ایک لمحے کے لیے پھاتو کے جھکے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے گال تھوڑے سے نیچے لٹک آئے تھے پھر ایک دم جانے اُس پر کیا وحشت سوار ہوئی اُس نے پھاتو کو اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑ کر اس زور سے اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچا کہ اُس کی ریڑھ کی ہڈی کڑ کڑ بول اُٹھی۔ پھر اُس نے اُس کو اپنی رانوں پر لٹا کر اُس کے موٹے اور گدگدے ہونٹوں پر اس زور سے اپنے تپتے ہوئے ہونٹ پیوست کیے جیسے وہ انھیں داغنا چاہتاہے۔ اُس کی گرفت اس قدر زبردست تھی کہ پھاتو کوشش کے باوجود خود کو آزاد نہ کرسکی۔ اُس کے ہونٹ دیر تک اُس کے ہونٹوں پر استری کرتے رہے۔ پھر اچانک ہانپتے ہوئے اُس نے پھاتو کو ایک جھٹکے سے الگ کردیا اور اُٹھ کر بستر میں یوں بیٹھ گیا جیسے اُس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ پھاتو ایک طرف سمٹ گئی۔ وہ سہم گئی تھی۔ اس کے لبوں پر ابھی تک اس کی پپڑی جمے ہونٹ سرک رہے تھے۔ جب پھاتو نے کنکھیوں سے اُس کی طرف دیکھا تو اُس پر برس پڑا۔

’’تم یہاں کیا کررہی ہوں۔ تم بھوتنی ہو۔ ڈائن ہو۔ میرا کلیجہ نکال کر چبانا چاہتی ہو۔ جاؤ۔ جاؤ۔ ‘‘

یہ کہتے کہتے اُس نے اپنے وزنی سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا، جیسے وہ گر پڑے گا۔ اور ہولے ہولے بڑبڑانے لگا۔

’’پھاتو مجھے معاف کردو۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں بس صرف ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے تم سے دیوانگی کی حدتک محبت ہے، اس لیے کہ تم سے محبت کی جائے، میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ تم نفرت کے قابل ہو۔ تم عورت نہیں ہو۔ ایک سالم مکان ہو۔ ایک بہت بڑی بلڈنگ ہو۔ مجھے تمہارے سب کمروں سے محبت ہے۔ اس لیے کہ وہ غلیظ ہیں۔ شکستہ ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں؟‘‘

پھاتو خاموش رہی اُس پر ابھی تک اُس آہنی گرفت اور اُس کے خوفناک بو سے کا اثر موجود تھا۔ وہ اُٹھ کر کمرے سے باہرجانے کا ارادہ ہی کررہی تھی کہ اُس نے پھر ہذیانی کیفیت سے میں بڑبرانا شروع کردیا۔ پھاتو نے اُس کی طرف دیکھا اور وہ کسی غیر مرئی آدمی سے باتیں کررہاتھا۔ بستر پر اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی، پھاتو کو اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے دیکھا اور پوچھا۔

’’کیا کہہ رہی ہو تم۔ ‘‘

اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اس لیے وہ خاموش رہی۔ پھاتو کی خاموشی سے اُسے خیال آیا کہ ہذیانی کیفیت میں وہ بے شمار باتیں کرچکا ہے۔ جب اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اپنی محبت کااظہار بھی اس سے کرچکا ہے تو اسے اپنے آپ پر بے حد غصہ آیا۔ اسی غصے میں وہ پھاتو سے مخاطب ہوا۔

’’میں نے تم سے جو کچھ کہا تھا وہ بالکل غلط ہے۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘

پھاتو نے صرف اتنا کہا۔

’’جی ٹھیک ہو گا‘‘

وہ کڑکا

’’صرف ٹھیک ہی نہیں۔ سو فیصد حقیقت ہے۔ مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔ جاؤ، چلی جاؤ میرے کمرے سے۔ خبر دار جو کبھی اِدھر کا رُخ کیا۔ ‘‘

پھاتو نے حسبِ معمول نرم لہجے میں جواب دیا۔

’’جی اچھا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ جانے لگی کہ اُس نے اُسے روک لیا۔

’’ٹھہرو۔ ایک بات سنتی جاؤ۔ ‘‘

’’فرمائیے۔ ‘‘

’’نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ تم جاسکتی ہو۔ ‘‘

پھاتو نے کہا۔

’’میں جاتو رہی تھی۔ آپ نے خود مجھے روکا‘‘

۔ یہ کہہ اُس نے برتن اُٹھائے اور کمرے سے نکلنے لگی۔ مگر اُس نے پھر اُسے آواز دے کر روکا۔

’’ٹھہرو۔ میں ایک بات تم سے کہنا بھول گیا ہوں۔ ‘‘

پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے اور اُس سے کہا۔

’’کیا بات ہے۔ بتادیجیے۔ مجھے اور کام کرنے ہیں۔ ‘‘

وہ سوچنے لگا کہ اُس نے پھاتو کو روکا کیوں تھا۔ اُسے اس سے ایسی کون سی اہم بات کرنا تھی۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا۔ کہ پھاتو نے اُس سے کہا۔

’’میاں صاحب میں کھڑی انتظار کررہی ہوں۔ ۔ آپ کو مجھ سے کیا کہنا ہے۔ ‘‘

وہ بوکھلا گیا۔

’’مجھے کیا کہنا تھا۔ کچھ بھی تو نہیں کہنا تھا۔ میرا مطلب ہے ‘ کہنا تو کچھ تھا مگر بھول گیا ہوں۔ ‘‘

پھاتو نے برتن تپائی پر رکھے۔

’’آپ یاد کرلیجیے۔ میں یہاں کھڑی ہوں۔ ‘‘

اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور یاد کرنے لگا۔ اسے پھاتو سے یہ کہنا تھا۔ اس کے دماغ میں بے شمار خیالات تھے۔ دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ پھاتو اس کے گھرسے چلی جائے۔ اس لیے کہ وہ اس سے اس قدر نفرت کرتا ہے کہ وہ نفرت بے پناہ محبت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اُس نے تھوڑے عرصہ کے بعد آنکھیں کھولیں۔ پھاتو تپائی کے ساتھ کھڑی تھی۔ اُس نے سمجھا کہ شاید یہ سب خواب ہے، پر جب اُس نے ادھر ادھر کا جائزہ لیا تو اُسے معلوم ہوا کہ خواب نہیں حقیقت ہے، لیکن اُس کی سمجھ میں نہیںآتا تھا کہ پھاتو کیوں بُت کی مانند اس کی چارپائی کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس نے کہا۔

’’تو یہاں کھڑی کیا کررہی ہے۔ ‘‘

پھاتو نے جواب دیا۔

’’آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آپ کو مجھ سے کوئی ضروری بات کہنی ہے۔ ‘‘

وہ چڑ گیا، جھنجھلا کر بولا۔

’’تم سے مجھے کون سی ضروری بات کہنا تھی۔ جاؤ۔ دور ہٹ جاؤ میری نظروں سے۔ ‘‘

پھاتو نے تشویش ناک نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔

’’ایسا لگتا ہے آپ کا بخار تیز ہو گیا ہے۔ میں بی بی جی سے کہتی ہوں کہ ڈاکٹر کو بُلالیں۔ ‘‘

وہ اور زیادہ چڑ گیا۔

’’ڈاکٹر آیا تو میں اُسے گولی مادوں گا۔ اور تمہارا تو میں ان دوہاتھوں سے گلا گھونٹ دُوں گا۔ ‘‘

پھاتو نے اپنے لہجے کو اور زیادہ نرم بنا کر کہا۔

’’آپ ابھی گھونٹ ڈالیے۔ میں اپنی زندگی سے اُکتا چکی ہوں۔ ‘‘

اُس نے پوچھا

’’کیوں؟‘‘

’’بس اب جی نہیں چاہتا زندہ رہنے کو۔ میاں صاحب آپ کو معلوم نہیں میں یہ دن کیسے گزار رہی ہوں۔ اللہ کی قسم۔ ایک ایک پل زہر کا گھونٹ ہے۔ ۔ خدا کے لیے آپ میرا گلا گھونٹ کر مجھے ماردیجیے!‘‘

وہ لحاف کے اندر کانپنے لگا۔

’’پھاتو۔ جاؤ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘

پھاتو نے بڑی معصومیت سے کہا۔

’’میں جانے لگتی ہوں۔ پر آپ مجھے روک لیتے ہیں۔ ‘‘

اُس نے بھنا کر کہا۔

’’کون حرامزادہ تجھے روکتا ہے۔ جا۔ دُور ہوجا۔ ‘‘

پھاتو جانے لگی تو اُس نے اُسے پھر روک لیا۔

’’ٹھہرو‘‘

’’وہ ٹھہر گئی۔

’’فرمائیے۔ ‘‘

’’تم نہایت واہیات عورت ہو۔ خدا تمیں غارت کرے۔ جاؤ اب میری نظروں سے غائب ہو جاؤ‘‘

۔ پھاتو برتن اُٹھا کر چلی گئی۔ ایک مہینے بعد محلے میں شور مچا کہ پھاتو کسی کے ساتھ بھاگ گی ہے۔ سب اُس کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ عورتیں خاص طور پر اُس کے کردار میں کیڑے ڈال رہی تھیں اور پھاتو اپنے میاں صاحب کے ساتھ کلکتے میں ازدواجی زندگی بسر کررہی تھی۔ اُس کا شوہر ہر روز اُس سے کہتا تھا۔

’’فاطمہ، مجھے تم سے نفرت ہے۔ ‘‘

اور وہ مسکرا کر جواب دیتی۔

’’یہ نفرت اگر نہ ہوتی تو میری زندگی کیسے سنورتی۔ آپ مجھ سے ساری عمر نفرت ہی کرتے رہیئے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پڑھے کلمہ

لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ آپ مسلمان ہیں یقین کریں میں جو کچھ کہوں گا، سچ کہوں گا۔ پاکستان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ قائداعظم جناح کے لیے میں جان دینے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن میں سچ کہتا ہوں اس معاملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ اتنی جلدی نہ کیجیے۔ مانتا ہوں۔ ان دنوں ہلڑ کے زمانے میں آپ کو فرصت نہیں، لیکن آپ خدا کے لیے میری پوری بات تو سن لیجیے۔ میں نے تکا رام کو ضرور مارا ہے، اور جیسا کہ آپ کہتے ہیں تیز چھری سے اس کا پیٹ چاک کیا ہے، مگر اس لیے نہیں کہ وہ ہندو تھا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تم نے اس لیے نہیں مارا تو پھر کس لیے مارا۔ لیجیے میں ساری د استان ہی آپ کو سُنا دیتا ہوں۔ پڑھئے کلمہ، لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ کس کافر کو معلوم تھا کہ میں اس لفڑے میں پھنس جاؤں گا۔ پچھلے ہندو مسلم فساد میں میں نے تین ہندو مارے تھے۔ لیکن آپ یقین مانئے وہ مارنا کچھ اور ہے، اور یہ مارنا کچھ اور ہیے۔ خیر، آپ سنئے کہ ہوا کیا، میں نے اس تکا رام کو کیوں مارا۔ کیوں صاحب عورت ذات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے۔ میں سمجھتا ہوں بزرگوں نے ٹھیک کہا ہے۔ اس کے چلتروں سے خدا ہی بچائے۔ پھانسی سے بچ گیا تو دیکھیے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں۔ پھر کبھی کسی عورت کے نزدیک نہیں جاؤں گا۔ لیکن صاحب عورت بھی اکیلی سزاوار نہیں۔ مرد سالے بھی کم نہیں ہوتے۔ بس، کسی عورت کو دیکھا اور ریشہ خطمی ہو گئے۔ خدا کو جان دینی ہے۔ انسپکٹر صاحب! رکما کو دیکھ کر میرا بھی یہی حال ہوا تھا۔ اب کوئی مجھ سے پوچھے۔ بندہ خدا تو ایک پینتیس روپے کا ملازم، تجھے بھلا عشق سے کیا کام۔ کرایہ وصول کر اور چلتا بن۔ لیکن آفت یہ ہوئی صاحب کہ ایک دن جب میں سولہ نمبر کی کھولی کا کرایہ وصول کرنے گیا اور دروازہ ٹھوکا تو اندرسے رکما بائی نکلی۔ یوں تو میں رکما بائی کوکئی دفعہ دیکھ چکا تھا لیکن اس دن کم بخت نے بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور ایک پتلی دھوتی لپیٹ رکھی تھی۔ جانے کیا ہوا مجھے، جی چاہا اس کی دھوتی اتار کر زور زور سے مالش کردوں۔ بس صاحب اسی روز سے اس بندہ نابکار نے اپنا دل، دماغ سب کچھ اس کے حوالے کردیا۔ کیا عورت تھی۔ بدن تھا پتھر کی طرح سخت مالش کرتے کرتے ہانپنے لگ گیا تھا مگر وہ اپنے باپ کی بیٹی یہی کہتی رہی

’’تھوڑی دیر اور‘‘

شادی شدہ۔ جی ہاں شادی شدہ تھی اور خان چوکیدار نے کہا تھا کہ اس کا ایک یار بھی ہے۔ لیکن آپ سارا قصہ سُن لیجیے۔ یار وار سب ہی اس میں آجائیں گے۔ جی ہاں، بس اس روز سے عشق کا بھوت میرے سر پر سوار ہو گیا۔ وہ بھی کچھ کچھ سمجھ گئی تھی کیونکہ کبھی کبھی کن اکھیوں سے میری طرف دیکھ کر مسکرا دیتی تھی۔ لیکن خدا گواہ ہے جب بھی وہ مسکرائی، میرے بدن میں خوف کی ایک تھرتھری سی دوڑ گئی۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ معشوق کو پاس دیکھنے کا۔ وہ۔ ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا۔ لیکن آپ شروع ہی سے سُنیے۔ وہ تو میں آپ سے کہہ چکا ہوں کہ رکما بائی سے میری آنکھ لڑ گئی تھی۔ اب دن رات میں سوچتا تھا کہ اسے پٹایا کیسے جائے۔ کم بخت، اس کا خاوند ہر وقت کھولی میں بیٹھا لکڑی کے کھلونے بناتا رہتا، کوئی چانس ملتا ہی نہیں تھا۔ ایک دن بازار میں نے اس کے خاوند کو جس کا نام۔ خدا آپ کا بھلا کرے کیا تھا جی ہاں۔ گردھاری۔ لکڑی کے کھلونے چادر میں باندھے لے جاتے دیکھا تو میں نے جھٹ سے سولہ نمبر کی کھولی کا رخ کیا۔ دھڑکتے دل سے میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھولا۔ رکما بائی نے میری طرف گھور کے دیکھا۔ خدا کی قسم میری روح لرز گئی۔ بھاگ گیا ہوتا وہاں سے، لیکن اس نے مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ جب اندر گیا تو اس نے کھولی کا دروازہ بند کرکے مجھ سے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ!‘‘

میں بیٹھ گیا تو اس نے میرے پاس آکر کہا۔

’’دیکھو میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو۔ لیکن جب تک گردھاری زندہ ہے، تمہاری مراد پوری نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ اسے پاس دیکھ کر میرا خون گرم ہو گیا تھا۔ کنپٹیاں ٹھک ٹھک کررہی تھیں۔ کم بخت نے آج بھی بدن پر تیل ملا ہوا تھا اور وہی پتلی دھوتی لپیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑ لیا اور دبا کر کہا۔

’’مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تم کیا کہہ رہی ہو۔ ‘‘

اف! اس کے بازوؤں کے پٹھے کس قدر سخت تھے۔ عرض کرتا ہوں۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ وہ کس قسم کی عورت تھی۔ خیر، آپ داستان سنیے۔ میں اور زیادہ گرم ہو گیا اور اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔

’’گردھاری جائے جہنم میں۔ تمہیں میری بننا ہو گا۔ ‘‘

رکما نے مجھے اپنے جسم سے الگ کیا اور کہا۔

’’دیکھو تیل لگ جائے گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’لگنے دو۔ ‘‘

اور پھر اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ یقین مانیے اگر اس وقت آپ مارے کوڑوں کے میری پیٹھ کی چمڑی ادھیڑ دیتے، تب بھی میں اسے علیحدہ نہ کرتا۔ لیکن کم بخت نے ایسا پچکارا کہ جہاں اس نے مجھے پہلے بیٹھایا تھا، خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ مجھے معلوم تھا وہ سوچ کیا رہی ہے۔ گردھاری سالا باہر ہے، ڈر کس بات کا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے اس سے کہا۔

’’رکما! ایسا اچھا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ ‘‘

اس نے بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا۔

’’اس سے بھی اچھا موقع ملے گا۔ لیکن تم یہ بتاؤ جو کچھ میں کہوں گی کرو گے۔ ‘‘

۔ صاحب میرے سر پر تو بھوت سوار تھا۔ میں نے جوش میں آکر جواب دیا۔

’’تمہارے لیے میں پندرہ آدمی قتل کرنے کو تیار ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر وہ مسکرائی۔

’’مجھے وشواس ہے۔ ‘‘

خدا کی قسم ایک بار پھر میری روح لرز گئی۔ لیکن میں نے سوچا شاید زیادہ جوش آنے پر ایسا ہوا ہے۔ بس وہاں میں تھوڑی دیر اور بیٹھا، پیار اور محبت کی باتیں کیں، اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے بھجئے کھائے اور چپکے سے باہر نکل آیا۔ گو وہ سلسلہ نہ ہوا، لیکن صاحب ایسے سلسلے پہلے ہی دن تھوڑے ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا، پھر سہی! دس دن گزر گئے۔ ٹھیک گیارہویں دن، رات کے دو بجے ہاں دو ہی کا عمل تھا۔ کسی نے مجھے آہستہ سے جگایا۔ میں نیچے سیڑھیوں کے پاس جو جگہ ہے نا، وہاں سوتا ہوں۔ آنکھیں کھول میں نے دیکھا۔ ارے رکما بائی۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔

’’کیا ہے۔ ‘‘

اس نے ہولے کہا۔

’’آؤ میرے ساتھ‘‘

۔ میں ننگے پاؤں اس کے ساتھ ہو لیا۔ میں نے اور کچھ نہ سوچا اور وہیں کھڑے کھڑے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ اس نے میرے کان میں کہا۔

’’ابھی ٹھہرو۔ ‘‘

پھر بتی روشن کی میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ سامنے چٹائی پر کوئی سو رہا ہے۔ منہ پر کپڑا ہے۔ میں نے اشارے سے پوچھا۔

’’یہ کیا؟‘‘

رکما نے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

میں الو کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ میرے پاس آئی اور بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر اس نے ایسی بات کہی جس کو سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ بالکل برف ہو گیا۔ صاحب۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ جانتے ہیں رکما نے مجھ سے کیا کہا۔ پڑھیے کلمہ! لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی عورت نہیں دیکھی۔ کم بخت نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا۔

’’میں نے گردھاری کو مار ڈالا ہے۔ ‘‘

۔ آپ یقین کیجیے اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہٹے کٹے آدمی کو قتل کیا تھا۔ کیا عورت تھی صاحب۔ مجھے جب بھی وہ رات یاد آتی ہے، قسم خداوند پاک کی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس نے مجھے وہ چیز دکھائی جس سے اس ظالم نے گردھاری کا گلا گھونٹا تھا۔ بجلی کے تاروں کی گندھی ہوئی ایک مضبوط رسی سی تھی۔ لکڑی پھنسا کر اس نے زور سے کچھ ایسے پیچ دیے تھے کہ بے چارے کی زبان اور آنکھیں باہر نکل آئی تھیں۔ کہتی تھی بس یوں چٹکیوں میں کام تمام ہو گیا تھا۔ کپڑا اُٹھا کر جب اس نے گردھاری کی شکل دکھائی تو میری ہڈیاں تک برف ہو گئیں۔ لیکن وہ عورت جانے کیا تھی۔ وہیں لاش کے سامنے اس نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ قرآن کی قسم! میرا خیال تھا کہ ساری عمر کے لیے نامرد ہو گیا ہوں۔ مگر صاحب جب اس کا گرم گرم پنڈا میرے بدن کے ساتھ لگا اور اس نے ایک عجیب و غریب قسم کا پیار کیا تو اللہ جانتا ہے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ زندگی بھر وہ رات مجھے یاد رہے گی۔ سامنے لاش پڑی تھی لیکن رکما اور میں دونوں اس سے غافل ایک دوسرے کے اندر دھنسے ہُوئے تھے۔ صبح ہُوئی تو ہم دونوں نے مل کر گردھاری کی لاش کے تین ٹکڑے کیے اوزار اس کے موجود تھے، اس لیے زیادہ تکلیف نہ ہُوئی۔ ٹھک ٹھک کافی ہوئی تھی پر لوگوں نے سمجھا ہو گا گردھاری کھلونے بنا رہا ہے۔ آپ پوچھیں گے بندہ ءِ خدا تم نے ایسے گھناؤنے کام میں کیوں حصہ لیا۔ پولیس میں رپٹ کیوں نہ لکھوائی۔ صاحب، عرض یہ ہے کہ اس کم بخت نے مجھے ایک ہی رات میں اپنا غلام بنا لیا تھا۔ اگر وہ مجھ سے کہتی تو شاید میں نے پندرہ آدمیوں کا خون بھی کرہی دیا ہوتا۔ یاد ہے نا! میں نے ایک دفعہ اس سے جوش میں آکر کیا کہا تھا۔ اب مصیبت یہ تھی کہ لاش کو ٹھکانے کیسے لگایا جائے۔ رکما کچھ بھی ہو، آخر عورت ذات تھی۔ میں نے اس سے کہا جان من تم کچھ فکر نہ کرو۔ فی الحال ان ٹکڑوں کو ٹرنک میں بند کردیتے ہیں۔ جب رات آئے گی تو میں اُٹھا کر لے جاؤں گا۔ اب خدا کا کرنا ایسا ہوا صاحب کہ اس روز ہلڑ ہو ا۔ پانچ چھ علاقوں میں خوب مارا ماری ہوئی۔ گورنمنٹ نے چھتیس گھنٹے کا کرفیو لگا دیا۔ میں نے کہا عبدالکریم! کچھ بھی ہو، لاش آج ہی ٹھکانے لگا دو۔ چنانچہ دو بجے اُٹھا۔ اوپر سے ٹرنک لیا۔ خدا کی پناہ! کتنا وزن تھا۔ مجھے ڈر تھا رستے میں کوئی پیلی پگڑی والا ضرور ملے گا اور کرفیو آرڈر کی خلاف ورزی میں دھرلے گا۔ مگر صاحب، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے جس بازار سے گزرا، اس میں سناٹا تھا۔ ایک جگہ۔ بازار کے پاس مجھے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ میں نے ٹرنک کھولا اور لاش کے ٹکڑے نکال کر اندر ڈیوڑھی میں ڈال دیے اور واپس چلا آیا۔ قربان اس کی قدرت کے صبح پتہ چلا کہ ہندوؤں نے اس مسجد کو آگ لگا دی۔ میرا خیال ہے گردھاری اس کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گیا ہو گا۔ کیونکہ اخباروں میں کسی لاش کا ذکر نہیں تھا۔ اب صاحب، بقول شخصے میدان خالی تھا۔ میں نے رکما سے کہا چالی میں مشہور کردو کہ گردھاری باہر کام گیا ہے۔ میں رات کو دو ڈھائی بجے آجایا کروں گا اور عیش کیا کریں گے۔ مگر اس نے کہا نہیں عبدل، اتنی جلدی نہیں۔ ابھی ہم کو کم از کم پندرہ بیس روز تک نہیں ملنا چاہیے۔ بات معقول تھی، اس لیے میں خاموش رہا۔ سترہ روز گزر گئے۔ کئی بار ڈراؤنے خوابوں میں گردھاری آیا۔ لیکن میں نے کہا۔ سالے مر کھپ چکا ہے۔ اب میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اٹھارہویں روز صاحب میں اسی طرح سیڑھیوں کے پاس چارپائی پر سو رہا تھا کہ رکما رات کے بارہ۔ بارہ نہیں تو ایک ہو گا۔ آئی اور مجھے اوپر لے گئی۔ چٹائی پر ننگی لیٹ کر اس نے مجھ سے کہا۔

’’عبدل میرا بدن دُکھ رہا ہے، ذرا چمپی کردو۔ میں نے فوراً تیل لیا اور مالش کرنے لگا لیکن آدھے گھنٹے میں ہی ہانپنے لگا۔ میرے پسینے کی کئی بوندیں اس کے چکنے بدن پر گریں۔ لیکن اس نے یہ نہ کہا، بس کر عبدل۔ تم تھک گئے ہو۔ آخر مجھے ہی کہنا پڑا۔

’’رکما بھئی، اب خلاص۔ ‘‘

وہ مسکرائی۔ میرے خدا کیا مسکراہٹ تھی۔ تھوڑی دیر دم لینے کے بعد میں چٹائی پر بیٹھ گیا۔ اس نے اٹھ کر بتی بجھائی اور میرے ساتھ لیٹ گئی۔ چمپی کر کر کے میں اس قدر تھک گیا تھا کہ کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ رکما کے سینے پر ہاتھ رکھا اور سو گیا۔ جانے کیا بجا تھا۔ میں ایک دم ہڑبڑا کے اٹھا۔ گردن میں کوئی سخت سخت سی چیز دھنس رہی تھی۔ فوراً مجھے اس تار والی رسی کا خیال آیا لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرسکوں، رکما میری چھاتی پر چڑھ بیٹھی۔ ایک دو ایسے مروڑے دیے کہ میری گردن کڑ کڑ کر بول اُٹھی۔ میں نے شور مچانا چاہا، لیکن آواز میرے پیٹ میں رہی۔ اس کے بعد میں بے ہوش ہو گیا۔ میرا خیال ہے چار بجے ہوں گے۔ آہستہ آہستہ مجھے ہوش آنا شروع ہوا۔ گردن میں بہت زور کا درد تھا۔ میں ویسے ہی دم سادھے پڑا رہا اور ہولے ہولے ہاتھ سے رسی کے مروڑے کھولنے شروع کیے۔ ایک دم آوازیں آنے لگیں۔ میں نے سانس روک لیا۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی پر کچھ نظر نہ آیا۔ جو آوازیں آرہی تھیں، ان سے معلوم ہوتا تھا دو آدمی کشتی لڑ رہے ہیں۔ رکما ہانپ رہی تھی۔ ہانپتے ہانپتے اس نے کہا۔

’’تکا رام! بتی جلا دو‘‘

۔ تکا رام نے ڈرتے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’نہیں نہیں، رکما نہیں۔ ‘‘

رکما بولی۔ بڑے ڈرپوک ہو۔ صبح اس کے تین ٹکڑے کر کے لے جاؤ گے کیسے!‘‘

۔ میرا بدن بالکل ٹھنڈا ہو گیا۔ تکا رام نے کیا جواب دیا۔ رکما نے پھر کیا کہا۔ اس کا مجھے کچھ ہوش نہیں۔ پتہ نہیں کب ایک دم روشنی ہوئی اور میں آنکھیں جھپکتا اٹھ بیٹھا۔ تکا رام کے منہ سے زور کی چیخ نکلی اور وہ دروازہ کھول کر بھاگ گیا۔ رکما نے جلدی سے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی۔ صاحب میں آپ سے کیا بیان کروں، میری حالت کیا تھی۔ آنکھیں کھلی تھیں۔ دیکھ رہا تھا۔ سن رہا تھا لیکن ہلنے جلنے کی بالکل سکت نہیں تھی۔ یہ تکا رام میرے لیے کوئی نیا آدمی نہیں تھا۔ ہماری چالی میں اکثر آم بیچنے آیا کرتا تھا۔ رکما نے اس کو کیسے پھنسایا، اس کا مجھے علم نہیں۔ رکما میری طرف گھور گھور کے دیکھ رہی تھی جیسے اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں۔ وہ مجھے مار چکی تھی۔ لیکن میں اس کے سامنے زندہ بیٹھا تھا۔ خیر وہ مجھ پر جھپٹنے کو تھی کہ دروازے پر دستک ہُوئی اور بہت سے آدمیوں کی آوازیں آئیں۔ رکما نے جھٹ سے میرا بازو پکڑا اور گھسیٹ کر مجھے غسل خانے کے اندر ڈال دیا۔ اس کے بعد اس نے دروازہ کھولا، پڑوس کے آدمی تھے۔ انھوں نے رکما سے پوچھا۔

’’خیریت ہے۔ ابھی ابھی ہم نے چیخ کی آواز سُنی تھی۔ ‘‘

رکما نے جواب دیا۔

’’خیریت ہے۔ مجھے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ دروازہ کھول کر باہر نکلی تو دیوار کے ساتھ ٹکرا گئی اور ڈر کر منہ سے چیخ نکل گئی۔ ‘‘

پڑوس کے آدمی یہ سن کر چلے گئے۔ رکما نے کواڑ بند کیے اور کنڈی چڑھا دی۔ اب مجھے اپنی جان کی فکر ہوئی۔ آپ یقین مانئے یہ سوچ کر کہ وہ ظالم مجھے زندہ نہیں چھوڑے گی، ایک دم میرے اندر مقابلے کی بے پناہ طاقت آگئی۔ بلکہ میں نے ارادہ کرلیا کہ رکما کے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ غسل خانے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ وہ بڑی کھڑکی کے پٹ کھولے باہر جھانک رہی ہے۔ میں ایک دم لپکا۔ چوتڑوں پر سے اُوپر اُٹھایا اور باہر دھکیل دیا۔ یہ سب یوں چٹکیوں میں ہوا۔ دھپ سی آواز آئی اور میں دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا۔ ساری رات میں چارپائی پر لیٹا اپنی گردن پر جو بہت بُری طرح زخمی ہورہی تھی۔ آپ نشان دیکھ سکتے ہیں۔ تیل مل مل کر سوچتا رہا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا۔ اس نے پڑوسیوں سے کہا تھا کہ اسے سوتے میں چلنے کی عادت ہے۔ مکان کے اس طرف جہاں میں نے اسے گرایا تھا جب اس کی لاش دیکھی جائے گی تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ سوتے میں چلی ہے اور کھڑکی سے باہر گر پڑی ہے۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ گردن پر میں نے رومال باندھ لیا تاکہ زخم دکھائی نہ دیں۔ نو بج گئے بارہ ہو گئے مگر رکما کی لاش کی کوئی بات ہی نہ ہُوئی۔ جدھر میں نے اس کو گرایا تھا۔ ایک تنگ گلی ہے۔ دو بلڈنگوں کے درمیان دو طرف دروازے ہیں تاکہ لوگ اندر داخل ہو کر پیشاب پاخانہ نہ کریں۔ پھر بھی دو بلڈنگوں کی کھڑکیوں میں سے پھینکا ہوا کچرا کافی جمع ہوتا ہے جو ہر روز صبح سویرے بھنگن اُٹھا کر لے جاتی ہے۔ میں نے سوچا شاید بھنگن نہیں آئی، آئی ہوتی تو اس نے دروازہ کھولتے ہی رکما کی لاش دیکھی ہوتی اور شور برپا کردیا ہوتا۔ قصّہ کیا تھا! میں چاہتا تھا کہ لوگوں کو جلد اس بات کا پتہ چل جائے۔ دو بج گئے تو میں نے جی کڑا کرا کے خود ہی دروازہ کھولا۔ لاش تھی نہ کچرا یا مظہر العجائب! رکما گئی کہاں۔ قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں مجھے اس پھانسی کے پھندے سے بچ نکلنے کا اتنا تعجب نہیں ہو گا جتنا کہ رکما کے غائب ہونے کا ہے۔ تیسری منزل سے میں نے اُسے گرایا تھا، پتھروں کے فرش پر۔ بچی کیسے ہو گی۔ لیکن پھر سوال ہے کہ اس کی لاش کون اُٹھا کر لے گیا۔ عقل نہیں مانتی، لیکن صاحب کچھ پتہ نہیں وہ ڈائن زندہ ہو۔ چالی میں تو یہی مشہور ہے کہ یا تو کسی مسلمان نے گھر ڈال لیا ہے یار مار ڈالا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مار ڈالا ہے تو اچھا کیا ہے۔ گھر ڈال لیا ہے تو جو حشر اس غریب کا ہو گا آپ جانتے ہی ہیں۔ خدا بچائے صاحب۔ اب تکا رام کی بات سنئے۔ اس واقعے کے ٹھیک بیس روز بعد وہ مجھ سے ملا اور پوچھنے لگا۔

’’بتاؤ! رکما کہاں ہے‘‘

۔ میں نے کہا۔

’’مجھے کچھ علم نہیں۔ ‘‘

کہنے لگا۔

’’نہیں، تم جانتے ہو۔ ‘‘

۔ میں نے جواب دیا۔

’’بھائی قرآن مجید کی قسم! مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘

۔ بولا

’’نہیں، تم جھوٹ بولتے ہو۔ تم نے اُسے مار ڈالا ہے۔ میں پولیس میں رپٹ لکھوانے والا ہوں کہ پہلے تم نے گردھاری کو مارا پھر رکما کو‘‘

۔ یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ لیکن صاحب میرے پسینے چھوٹ گئے۔ بہت دیر تک کچھ سمجھ میں نہ آیا کیاکروں۔ ایک ہی بات سوجھی کہ اس کو ٹھکانے لگا دوں۔ آپ ہی سوچیے اس کے علاوہ اور علاج بھی کیا تھا۔ چنانچہ صاحب اسی وقت چھپ کر چھری تیز کی اور تکارام کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ اتفاق کی بات ہے شام کو چھ بجے وہ مجھے۔ اسٹریٹ کے ناکے پر موتری کے پاس مل گیا۔ موسمبیوں کی خالی ٹوکری باہر رکھ کر وہ پیشاب کرنے کے لیے اندر گیا۔ میں بھی لپک کر اس کے پیچھے۔ دھوتی کھول ہی رہا تھا کہ میں نے زور سے پکارا۔

’’تکارام‘‘

۔ پلٹ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ چھری میرے ہاتھ ہی میں تھی۔ ایک دم اس کے پیٹ میں بھونک دی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنی باہر نکلتی ہوئی انتڑیاں تھامیں اور دوہرا ہو گر پڑا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ باہر نکل کر نو دو گیارہ ہو جاتا مگر بے وقوفی دیکھئے بیٹھ کر اس کی نبض دیکھنے لگا کہ آیا مرا ہے یا نہیں۔ میں نے اتنا سنا تھا کہ نبض ہوتی ہے، انگوٹھے کی طرف یا دوسری طرف، یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیر لگ گئی۔ اتنے میں ایک کانسٹیبل پتلون کے بٹن کھولتے کھولتے اندر آیا اور میں دھر لیا گیا۔ بس صاحب یہ ہے پوری داستان۔ پڑھیے کلمہ، لا الٰہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ! جو میں نے رتی بھربھی جھوٹ بولا ہو۔

سعادت حسن منٹو

پشاور سے لاہور تک

وہ انٹر کلاس کے زنانہ ڈبے سے نکلی‘ اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا۔ جاوید پشاور سے اُسے دیکھتا چلا آ رہا تھا۔ راولپنڈی کے اسٹیشن پر گاڑی کافی دیر ٹھہری تو وہ ساتھ والے زنانہ ڈبے کے پاس سے کئی مرتبہ گزرا۔ لڑکی حسین تھی‘ جاوید اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا‘ اس کی ناک کی پھننگ پر چھوٹا سا تل تھا‘ گالوں میں ننھے ننھے گڑھے تھے جو اس کے چہرے پر بہت بھلے لگتے تھے۔ راولپنڈی اسٹیشن پر اُس لڑکی نے کھانا منگوایا‘ بڑے اطمینان سے ایک ایک نوالہ اُٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتی رہی۔ جاوید دُور کھڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہا‘ اُس کا جی چاہتا تھا کہ وہ بھی اُس کے ساتھ بیٹھ جائے اور دونوں مل کر کھانا کھائیں۔ وہ یقیناًاُس کے پاس پہنچ جاتا مگر مصیبت یہ تھی کہ ڈبہ زنانہ تھا۔ عورتوں سے بھرا ہوا‘ یہی وجہ ہے کہ جرأت نہ کر سکا۔ لڑکی نے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے جو بہت نازک تھے۔ لمبی لمبی مخروطی اُنگلیاں جن کو اس نے اچھی طرح صاف کیا اور اٹیچی کیس سے تولیہ نکال کر اپنے ہاتھ پونچھے‘ پھر اطمینان سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ جاوید گاڑی چلنے تک اُس کی طرف دیکھتا رہا۔ آخر اپنے ڈبے میں سوار ہو گیا اور اُسی لڑکی کے خیالوں میں غرق ہو گیا۔ معلوم تو یہ ہوتا ہے کہ بڑے اچھے گھرانے کی ہے۔ دونوں کلائیوں میں قریب قریب بارہ بارہ سونے کی چوڑیاں ہوں گی۔ کانوں میں ٹاپس بھی تھے‘ دو انگلیوں میں‘ اگر میرا اندازہ غلط نہیں‘ ہیرے کی انگوٹھیاں ہیں‘ لباس بہت عمدہ‘ ساٹن کی شلوار‘ ٹفٹیا کی قمیص‘ شنون کا دوپٹہ۔ حیرت ہے کہ گھٹیا درجے میں کیوں سفر کر رہی ہے؟ پشاور سے آئی ہے۔ وہاں کی عورتیں تو سخت پردہ کرتی ہیں۔ لیکن یہ برقعے کے بغیر وہاں سے گاڑی میں سوار ہوئی اور اس کے ساتھ کوئی مرد بھی نہیں۔ نہ کوئی عورت ‘ اکیلی سفر کر رہی ہے‘ آخر یہ قصہ کیا ہے؟ میرا خیال ہے پشاور کی رہنے والی نہیں۔ وہاں کسی عزیز سے ملنے گئی ہو گی۔ مگر اکیلی کیوں؟ کیا اسے ڈر نہیں لگا کہ اُٹھا کر لے جائے گا کوئی۔ ایسے تنہا حسن پر تو ہر مرد جھپٹا مارنا چاہتا ہے۔ پھر جاوید کو ایک اندیشہ ہوا کہ شادی شدہ تو نہیں؟ وہ دراصل دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اس لڑکی کا پیچھا کرے گا اور رومان لڑا کر اُس سے شادی کرے گا‘ وہ حرام کاری کا بالکل قائل نہیں تھا۔ کئی سٹیشن آئے اور گزر گئے۔ اُسے صرف راولپنڈی تک جانا تھا کہ وہاں ہی اُس کا گھر تھا مگر وہ بہت آگے نکل گیا۔ ایک اسٹیشن پر چیکنگ ہوئی جس کے باعث اُسے جرمانہ ادا کرنا پڑا مگر اُس نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ ٹکٹ چیکر نے پوچھا

’’آپ کو کہاں تک جانا ہے‘‘

جاوید مسکرایا

’’جی‘ ابھی تک معلوم نہیں۔ آپ لاہور کا ٹکٹ بنا دیجیے کہ وہی آخری سٹیشن ہے‘‘

ٹکٹ چیکر نے اُسے لاہور کا ٹکٹ بنا دیا‘ روپے وصول کیے اور دوسرے سٹیشن پر اُتر گیا‘ جاوید بھی اُترا کہ ٹرین کو ٹائم ٹیبل کے مطابق پانچ منٹ ٹھہرنا تھا۔ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا‘ وہ لڑکی کھڑکی کے ساتھ لگی دانتوں میں خلال کر رہی تھی‘ جاوید کی طرف جب اُس نے دیکھا تو اس کے دل و دماغ میں چیونٹیاں دوڑنے لگیں‘ اُس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی موجودگی سے غافل نہیں ہے‘ سمجھ گئی ہے کہ وہ بار بار صرف اُسے ہی دیکھنے آتا ہے۔ جاوید کو دیکھ کر وہ مسکرائی‘ اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔ مگر جاوید فرط جذبات کی وجہ سے فوراً وہاں سے ہٹ کر اپنے ڈبے میں چلا گیا اور رومانوں کی دنیا کی سیر کرنے لگا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے آس پاس کی تمام چیزیں مسکرا رہی ہیں۔ ٹرین کا پنکھا مسکرا رہا ہے۔ کھڑکی سے باہر تار کے کھمبے مسکرا رہے ہیں۔ انجن کی سیٹی مسکرا رہی ہے‘ اور وہ بدصورت مسافر جو اُس کے ساتھ بیٹھا تھا‘ اُس کے موٹے موٹے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ ہے۔ اس کے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں تھی لیکن اس کا دل مسکرا رہا تھا۔ اگلے اسٹیشن پر جب وہ ساتھ والے کمپارٹمنٹ کے پاس گیا تو وہ لڑکی وہاں نہیں تھی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا‘ کہاں چلی گئی؟ کہیں پچھلے اسٹیشن پر تو نہیں اُتر گئی جہاں اُس نے ایک مسکراہٹ سے مجھے نوازا تھا؟۔ نہیں نہیں غسل خانے میں ہو گی۔ وہ واقعی غسل خانے ہی میں تھی۔ ایک منٹ کے بعد وہ کھڑکی میں نمودار ہوئی۔ جاوید کو دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ کے اشارے سے اُس کو بلایا۔ جاوید کانپتا لرزتا کھڑکی کے پاس پہنچا اُس لڑکی نے بڑی مہین اور سریلی آواز میں کہا

’’ایک تکلیف دینا چاہتی ہوں آپ کو۔

’’مجھے دو سیب لا دیجیے‘‘

یہ کہہ کر اُس نے اپنا پرس نکالا اور ایک روپے کا نوٹ جاوید کی طرف بڑھا دیا۔ جاوید نے جو اس غیرمتوقع بلاوے سے قریب قریب برق زدہ تھا‘ ایک روپے کا نوٹ پکڑ لیا لیکن فوراً اُس کے ہوش و حواس برقرار ہو گئے۔ نوٹ واپس دے کر اُس نے اُس لڑکی سے کہا

’’آپ یہ رکھیے۔ میں سیب لے آتا ہوں‘‘

اور پلیٹ فارم پر اُس ریڑھی کی طرف دوڑا جس میں پھل بیچے جاتے تھے‘ اُس نے جلدی جلدی چھ سیب خریدے کیونکہ وسل ہو چکی تھی۔ دوڑا دوڑا وہ اُس لڑکی کے پاس آیا‘ اُس کو سیب دیے اور کہا

’’معاف کیجیے گا۔ وسل ہو رہی تھی اس لیے میں اچھے سیب چن نہ سکا‘‘

لڑکی مسکرائی۔ وہی دلفریب مسکراہٹ۔ گاڑی حرکت میں آئی۔ جاوید اپنے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوتے کانپ رہا تھا لیکن بہت خوش تھا‘ اُس کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اُس کو دونوں جہان مل گئے ہیں‘ اُس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے محبت نہیں کی تھی‘ لیکن اب وہ اس کی لذّت سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔ اُس کی عمر پچیس برس کے قریب تھی‘ اُس نے سوچا کہ اتنی دیر میں کتنا خشک رہا ہوں۔ آج معلوم ہوا ہے کہ محبت انسان کو کتنی تروتازہ بنا دیتی ہے۔ وہ سیب کھا رہی ہو گی۔ لیکن اُس کے گال تو خود سیب ہیں‘ میں نے جو سیب اُس کو دیے ہیں کیا وہ اُن کو دیکھ کر شرمندہ نہیں ہوں گے۔ وہ میری محبت کے اشاروں کو سمجھ گئی جب ہی تو وہ مسکرائی اور اُس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بُلایا اور کہا کہ میں اسے سیب لا دُوں۔ مجھ سے اگر وہ کہتی کہ گاڑی کا رخ پلٹ دُوں تو اُس کی خاطر یہ بھی کر دیتا۔ گو مجھ میں اتنی طاقت نہیں لیکن محبت میں آدمی بہت بڑے بڑے کام سرانجام دے سکتا ہے۔ فرہاد نے شیریں کے لیے پہاڑ کاٹ کر نہر نہیں کھودی تھی؟ میں بھی کتنا بیوقوف ہوں اُس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم یہی پوچھ لیا ہوتا کہ تمھیں کہاں تک جانا ہے۔ خیر میں لاہور تک کا ٹکٹ تو بنوا چکا ہوں۔ ہر اسٹیشن پر دیکھ لیا کروں گا۔ ویسے وہ اب مجھے بن بتائے جائے گی بھی نہیں۔ شریف خاندان کی لڑکی ہے۔ میرے جذبہ محبت نے اُسے کافی متاثر کیا ہے۔ سیب کھا رہی ہے‘ کاش کہ میں اُس کے پاس بیٹھا ہوتا‘ ہم دونوں ایک سیب کو بیک وقت اپنے دانتوں سے کاٹتے۔ اُس کا منہ میرے منہ سے کتنا قریب ہوتا۔ میں اس کے گھر کا پتہ لُوں گا۔ ذرا اور باتیں کر لوں ‘ پھر راولپنڈی پہنچ کر امّی سے کہوں گا کہ میں نے ایک لڑکی دیکھ لی ہے اُس سے میری شادی کر دیجیئے ‘ وہ میری بات کبھی نہیں ٹالیں گی۔ بس ایک دو مہینے کے اندر اندر شادی ہو جائے گی۔ اگلے سٹیشن پر جب جاوید اُسے دیکھنے گیا تو وہ پانی پی رہی تھی‘ وہ جرأت کر کے آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا

’’آپ کو کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیے‘‘

لڑکی مسکرائی۔ دلفریب مسکراہٹ

’’مجھے سگریٹ لا دیجیے‘‘

جاوید نے بڑی حیرت سے پوچھا

’’آپ سگریٹ پیتی ہیں‘‘

’’وہ لڑکی پھر مسکرائی‘‘

جی نہیں۔ یہاں ایک عورت ہے‘ پردہ دار‘ اُس کو سگریٹ پینے کی عادت ہے‘‘

’’اوہ !۔ میں ابھی لایا۔ کس برانڈ کے سگریٹ ہوں؟‘‘

’’میرا خیال ہے وہ گولڈ فلیگ پیتی ہے‘‘

’’میں ابھی حاضر کیے دیتا ہوں‘‘

یہ کہہ کر جاوید اسٹال کی طرف دوڑا ‘ وہاں سے اُس نے دو پیکٹ لیے اور اُس لڑکی کے حوالے کر دیے‘ اُس نے شکریہ اُس عورت کی طرف سے ادا کیا جو سگریٹ پینے کی عادی تھی۔ جاوید اب اور بھی خوش تھا کہ اس لڑکی سے ایک اور ملاقات ہو گئی مگر اس بات کی بڑی الجھن تھی کہ وہ اس کا نام نہیں جانتا تھا‘ اُس نے کئی مرتبہ خود کو کوسا کہ اُس نے نام کیوں نہ پوچھا‘ اتنی باتیں ہوتی رہیں لیکن وہ اُس سے اتنا بھی نہ کہہ سکا

’’آپ کا نام؟‘‘

اُس نے ارادہ کر لیا کہ اگلے سٹیشن پر جب گاڑی ٹھہرے گی تو وہ اُس سے نام ضرور پوچھے گا اُسے یقین تھا کہ وہ فوراً بتا دے گی کیونکہ اس میں قباحت ہی کیا تھی۔ اگلا سٹیشن بہت دیر کے بعد آیا‘ اس لیے کہ فاصلہ بہت لمبا تھا۔ جاوید کو بہت کوفت ہو رہی تھی‘ اُس نے کئی مرتبہ ٹائم ٹیبل دیکھا‘ گھڑی بار بار دیکھی۔ اُس کا جی چاہتا تھا کہ انجن کو پر لگ جائیں تاکہ وہ اُڑ کر جلدی اگلے اسٹیشن پر پہنچ جائے۔ گاڑی ایک دم رُک گئی‘ معلوم ہوا کہ انجن کے ساتھ ایک بھینس ٹکرا گئی ہے۔ وہ اپنے کمپارٹمنٹ سے اُتر کر ساتھ والے ڈبے کے پاس پہنچا مگر لڑکی اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھی۔ مسافروں نے مری کٹی ہوئی بھینس کو پٹڑی سے ہٹانے میں کافی دیر لگا دی۔ اتنے میں وہ لڑکی جو غالباً دوسری طرف تماشا دیکھنے میں مشغول تھی‘ آئی اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی‘ جاوید پر جب اُس کی نظر پڑی تو مسکرائی۔ وہی دلفریب مسکراہٹ۔ جاوید کھڑکی کے پاس گیا ‘ مگر اس کا نام پوچھ نہ سکا۔ لڑکی نے اُس سے کہا

’’یہ بھینسیں کیوں گاڑی کے نیچے آ جاتی ہیں؟‘‘

جاوید کو کوئی جواب نہ سوجھا ‘ گاڑی چلنے والی تھی‘ اس لیے وہ اپنے کمپارٹمنٹ میں چلا گیا۔ کئی اسٹیشن آئے مگر وہ نہ اُترا۔ آخر لاہور آ گیا‘ پلیٹ فارم پر جب گاڑی رُکی تو وہ جلدی جلدی باہر نکلا ‘ لڑکی موجود تھی‘ جاوید نے اپنا سامان نکلوایا اور اُس سے جس نے ہاتھ میں اٹیچی کیس پکڑا ہوا تھا‘ کہا

’’لائیے ! یہ اٹیچی کیس مجھے دے دیجیئے‘‘

اُس لڑکی نے اٹیچی کیس جاوید کے حوالے کر دیا۔ قلی نے جاوید کا سامان اٹھایا اور دونوں باہر نکلے ‘ تانگہ لیا۔ جاوید نے اُس سے پوچھا

’’آپ کو کہاں جانا ہے‘‘

لڑکی کے ہونٹوں پر وہی دلفریب مسکراہٹ پیدا ہوئی

’’جی ہیرا منڈی‘‘

جاوید بوکھلا سا گیا

’’کیا آپ وہاں رہتی ہیں؟‘‘

لڑکی نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔ جی ہاں۔ میرا مکان دیکھ لیں ‘ آج رات میرا مجرا سننے ضرور آئیے گا‘‘

جاوید پشاور سے لے کر لاہور تک اپنا مجرا سُن چکا تھا‘ اُس نے اس طوائف کو اُس کے گھر چھوڑا اور اس تانگے میں سیدھا لاریوں کے اڈے پہنچا اور راولپنڈی روانہ ہو گیا۔ ۲۶، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

پسینہ

’’میرے اللہ!۔ آپ تو پسینے میں شرابور ہورہے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں۔ کوئی اتنا زیادہ تو پسینہ نہیں آیا۔ ‘‘

’’ٹھہریے میں تولیہ لے کر آؤں۔ ‘‘

’’تو لیے تو سارے دھوبی کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’تو میں اپنے دوپٹے ہی سے آپ کا پسینہ پونچھ دیتی ہوں۔ ‘‘

’’تمہارا دوپٹہ ریشمیں ہے۔ پسینہ جذب نہیں کرسکے گا۔ ‘‘

’’پسینے کے یہ قطرے مجھ سے نہیں دیکھے جاتے۔ آپ کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ ریشمیں کپڑا پانی جذب نہیں کرسکتا۔ لیکن میں آپ کا تولیہ ہوں۔ کیا میں آپ کا پسینہ خشک نہیں کرسکتی۔ ‘‘

’’آج گرمی زیادہ تھی۔ سائیکل پر یہاں آتے آتے میں قریب قریب بیہوش ہو گیا تھا۔ ‘‘

’’ہائے اللہ!‘‘

’’نہیں۔ بس میں چند منٹوں میں ٹھیک ہو گیا۔ ایک دوست تھا، اس نے مجھے آموں کا شربت پلا دیا۔ ‘‘

’’آموں کا شربت بھی ہوتا ہے؟‘‘

’’ہرشے کا شربت بنایا جاسکتا ہے۔ ‘‘

’’میرا بھی؟‘‘

’’تمہارا شربت تو میں ہر روز پیتا ہوں۔ لیکن اس کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’شریر کہیں کے۔ ‘‘

’’شرارت تو تمہاری ہوتی ہے کہ تم مٹھاس میں کھٹائی ڈال دیتی ہو۔ ‘‘

’’کھٹائی تو آپ ڈ التے ہیں۔ میں تو مصری کی ڈلی ہوں۔ ‘‘

’’مانتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے وہ زیادہ نہ کیجیے۔ اِدھر آئیے، میں آپ کی ٹائی اُتاروں۔ ‘‘

’’آج اتنا تکلف کیوں کیا جارہا ہے؟‘‘

’’آپ محبت کو تکلف کہتے ہیں؟‘‘

’’اس کے متعلق میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا۔ ویسے میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اتنی محبت کا اظہار تم نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ ‘‘

’’آپ محبت کو کیا جانیں۔ ‘‘

’’انسان اگر محبت ہی کو جان پہچان نہیں سکتا تو میں سمجھتا ہوں وہ حیوان بھی نہیں۔ کوئی بے حِس چیز ہے۔ پتھر ہے۔ سڑک پر گِرا ہوا روڑا ہے۔ ‘‘

’’اِدھر آئیے، میں آپ کی ٹائی اتاروں۔ ‘‘

’’اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ تکلف کی بات کیوں کرتے ہیں۔ میں نے کبھی آپ سے تکلف برتا ہے؟‘‘

’’آج پہلی مرتبہ۔ ‘‘

’’آپ اتنے ذہین ہیں۔ بتائیے اس تکلف کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’میں اتنا ذہین نہیں ہوں۔ ‘‘

’’آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔ ‘‘

’’جناب میں کسر نفسی سے کام نہیں لے رہا۔ ایک حقیقت تھی جو میں نے بیان کردی؟‘‘

’’میرے پاس تو آئیے، میں آپ کا پسینہ پونچھ دوں۔ گرمی میں بے حال ہوکے آرہے ہیں۔ ‘‘

’’کوئی اتنی زیادہ بے حالی نہیں۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ آج درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ آج دس آدمی اس حدت کے باعث مر گئے ہیں۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں، آپ اتنے روپے خرچ کرتے ہیں۔ کیوں نہیں گھر میں ایک

’’کولر‘‘

لے آتے۔ ‘‘

’’کولر کی کیا ضرورت ہے؟ تم خود بہت بڑی کولر ہو۔ اتنی گرمی میں گھر آیا ہوں۔ تمہاری باتوں ہی نے مجھے ایسی ٹھنڈک پہنچا دی ہے جو سب سے بڑا کولر بھی نہیں پہنچا سکتا۔ ‘‘

’’آپ نے اب میرا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔ ‘‘

’’تمہاری قسم۔ میں ایسی گستاخی کبھی نہیں کرسکتا۔ ‘‘

’’میری قسم آپ نے کیوں کھائی ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ بڑی لذیذ ہے۔ ‘‘

’’یعنی آدمی کو وہی قسمیں کھانی چاہئیں جو مزیدار ہوں۔ ‘‘

’’یقینا‘‘

’’آپ سے میں کبھی جیت نہیں سکتی۔ ‘‘

’’میں تو ہمیشہ ہارتا رہا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کب ہارے ہیں۔ ہار تو ہمیشہ میری ہی ہوتی رہی ہے۔ ‘‘

’’اچھا، اب ذرا میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔ میری شلوار قمیص نکال دو‘‘

’’الماری میں صرف ایک پائجامہ موجود ہے‘‘

’’بنیان ہو گی‘‘

’’جی نہیں۔ تین میلی پڑی ہیں جو نوکر نے ابھی تک نہیں دھوئیں‘‘

’’ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو تمہیں خود دھولینا چاہئیں‘‘

’’آپ کو کیا معلوم کہ صابن کتنا واہیات ہوتا ہے؟۔ چھالے پڑ جاتے ہیں ہاتھوں میں۔ ‘‘

’’نوکروں کے ہاتھوں میں بھی یقیناً چھالے پڑتے ہوں گے۔ ‘‘

’’آپ ہمیشہ نوکروں کی طرف د اری کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیا وہ انسان نہیں؟‘‘

’’خیر چھوڑیئے اس قصّے کو۔ اِدھر آئیے۔ میں آپ کی ٹائی اُتار دوں۔ ‘‘

’’یہ کون سی اتنی بڑی مہم ہے، جو آپ سر کرنا چاہتی ہیں۔ ‘‘

’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ یہ بتائیے کہ آپ کو چلنے میں تکلیف کیوں محسوس ہورہی ہے؟‘‘

’’جوتا ذرا تنگ ہے؟‘‘

’’یہ وہی ہے نا جو آپ نے پچھلے مہینے لیا تھا۔ ‘‘

’’ہاں، وہی ہے۔ آج پہلی مرتبہ پہنا ہے۔ ‘‘

’’دیکھ کے نہیں لیا تھا۔ ‘‘

’’دیکھ کر ہی لیا تھا۔ پہنا بھی تھا۔ پر۔ ‘‘

’’چھوٹا کیسے ہو گیا۔ ‘‘

’’جو چیز استعمال نہ کی جائے، سکڑ جاتی ہے۔ ‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ ‘‘

’’عورتوں کو اپنے خاوندوں کی ہربات عجیب منطق معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں نے کہا: اِدھر آئیے، آپ کی ٹائی اُتار دوں۔ ‘‘

’’پہلے تو میں یہ تکلیف دہ جوتے اُتارنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’بیٹھ جائیے۔ میں اُتار دیتی ہوں۔ ‘‘

’’آج تم اتنی مہربان کیوں ہو؟۔ پہلے تو۔ ‘‘

’’اب نخرے نہ بگھاریے۔ بیٹھیے کرسی پر۔ ‘‘

’’یہاں سب کرسیاں اس قابل کہاں ہیں کہ اُن پر آدمی بیٹھے۔ ‘‘

’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ جب ان کا بید بالکل ناکارہ ہو جائے گا تو میں سب کی سب ٹھیک کرادوں گی۔ ‘‘

’’یہ تمہاری عجیب منطق تھی جس کے متعلق میں نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا تھا کہ مبادا تم ناراض ہو جاؤ۔ ‘‘

’’بات دراصل یہ ہے کہ میں چاہتی تھی کہ جب تک یہ کرسیاں کام دیتی ہیں، ان کی مرمت نہ کرائی جائے۔ کیونکہ انہیں مقررہ وقت پر پھر مرمت طلب ہونا ہے۔ جتنے دن نکل جائیں ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے، تم بھی مرمت طلب ہو۔ ‘‘

’’دیکھیے۔ میں ایسی باتیں پسند نہیں کرتی۔ آپ بڑے بے لگام ہوتے جارہے ہیں۔ ‘‘

’’چلیے۔ میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ ‘‘

’’آپ خاموش ہی اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’‘‘

’’‘‘

’’‘‘

’’آپ خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘

’’تم ہی نے تو مجھ سے کہا تھا کہ آپ خاموش ہی اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھ رہیں۔ ‘‘

’’تم مجھے کچھ کھانے کے لیے دو‘‘

’’میں کیا دُوں۔ آپ باہر سے کھا کر آرہے ہیں۔ ‘‘

’’تم نے کیسے جانا؟‘‘

’’آپ کی پتلون بتا رہی ہے۔ سالن کے داغ لگے ہیں۔ ضرور آپ نے کسی ہوٹل میں اپنے دوست کے ساتھ عیاشی کی ہو گی۔ ‘‘

’’عیاشی تو خیر نہیں کی، لیکن مجبوراً اپنے افسر کے ساتھ ایک دعوت میں شریک ہونا پڑا۔ اور تم جانتی ہو۔ اچھی طرح جانتی ہو کہ میں صرف اپنے گھر کا پکا ہوا کھانا پسند کرتا ہوں۔ وہاں میں نے صرف چند لقمے منہ میں ڈالے اور ہاتھ اٹھا لیا۔ اس لیے کہ کھانا بڑا واہیات تھا۔ اس میں تمہارے ہاتھوں کا نمک نہیں تھا۔ ‘‘

’’لیکن یہ پتلون پر دھبے کیسے پڑے؟‘‘

’’اس لیے کہ سالن واہیات تھا۔ مجھ سے دو مرتبہ چاول نیچے گرگئے۔ ‘‘

’’چاول تو آپ سے ہمیشہ نیچے گرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’اس کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ فرش پر شربت کِس نے گرایا تھا۔ اور۔ اور۔ یہ گلاس۔ جگ۔ کوئی مہمان آیا تھا؟‘‘

’’ہاں۔ میری ایک سہیلی آئی تھی۔ ‘‘

’’کون؟‘‘

’’آپ اسے نہیں جانتے۔ کوئٹے کی تھی، جو میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ اس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ ؒ‘‘

’’اس سے کیا باتیں ہوئیں؟‘‘

’’میں آپ کو کیوں بتاؤں۔ ویسے وہ اپنے خاوند سے بہت خوش تھی۔ ‘‘

’’ہر عورت کو اپنے خاوند سے خوش ہونا چاہیے۔ اس میں اس کی کیا برتری ہے؟‘‘

’’نہیں۔ وہ۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ایسی ایسی باتیں سُنائیں جو۔ جو مجھے معلوم ہی نہیں تھیں۔ شاید آپ کو بھی معلوم نہ ہوں۔ ‘‘

’’اس گفتگو کو چھوڑیے۔ آئیے میں آپ کے جوتے اتار دوں۔ ‘‘

’’یہ کام میں خود بھی کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں میں آج خود کروں گی۔ پہلے ٹائی اتارنے دیجیے۔ ‘‘

’’اتار لیجیے۔ ‘‘

’’آپ آج کتنے اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’اس کی وجہ کیا ہے؟۔ پہلے تو میں تمہیں کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔ آج یک بیک یہ انقلاب کیسے پیدا ہو گیا؟‘‘

’’انقلاب کیسا؟۔ میں شروع ہی سے آپ سے محبت کرتی ہوں۔ میرا سارا دوپٹہ گیلا ہو گیا ہے۔ توبہ، آپ کو اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے؟‘‘

’’چلیے اندر‘‘

’’چلو‘‘

’’یہاں باہر کی بہ نسبت گرمی کس قدر کم ہے؟‘‘

’’ہاں۔ !‘‘

’’اس شُو نے تو آپ کے پاؤں کی انگلیوں پر چنڈیاں ڈال دی ہیں۔ ‘‘

’’ہر تنگ چیز راحت کا باعث ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں بھی آج سے تنگ ہو گئی ہوں۔ ‘‘

’’مجھ سے‘‘

’’نہیں۔ میری سہیلی نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا خاوند۔ خیر آپ اس قصے کو چھوڑیے۔ اس نے بڑی تنگ اور چُست چولی پہنی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’میں نے اب دیکھا ہے کہ تم بھی اسی قسم کا بلاؤز پہنے ہو۔ کہاں سے لیا تم نے؟‘‘

’’آج ہی اس کے درزی سے سلوایا ہے۔ ‘‘

’’اور میں جو ساڑھی لایا ہوں۔ ‘‘

’’وہ اس سے میچ نہیں کرتی۔ خیر میں آپ کے ساتھ چلوں گی اور اس د کان میں کوئی اور ساڑھی پسند کرلوں گی۔ ‘‘

’’اُس سہیلی سے تم نے کیا باتیں کیں؟‘‘

’’آپ لیٹ جائیے، ۔ پھر آپ کو پسینہ آرہا ہے۔ میں آپ کو اس کی تمام باتیں سنا دوں گی۔ ‘‘

235 235 235 235

’’تم اپنی سہیلی سے ایسی باتیں ہر روز سنا کرو۔ تاکہ ہماری زندگی خوشگوار رہے۔ اور تم میرے پسینے کو اپنے دوپٹے سے اسی طرح پونچھتی رہو۔ ‘‘

’’آپ کا پسینہ تو اب میرا لہو بن گیا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پریشانی کا سبب

نعیم میرے کمرے میں داخل ہوا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور اخبار کی آخری کاپی کے لیے جو مضمون لکھ رہا تھا اسکو جاری رکھنے ہی والا تھا کہ معًا مجھے نعیم کے چہرے پر ایک غیر معمولی تبدیلی کا احساس ہوا۔ میں نے چشمہ اتار کر اس کی طرف پھر دیکھا اور کہا۔

’’کیا بات ہے نعیم۔ معلوم ہوتا ہے تمہاری طبیعت ناساز ہے۔ ‘‘

نعیم نے اپنے خُشک لبوں پر زبان پھیری اور جواب دیا۔

’’کیا بتاؤں، عجیب مشکل میں جان پھنس گئی ہے۔ بیٹھے بٹھائے ایک ایسی بات ہوئی ہے کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ‘‘

میں نے کاغذ کی جتنی پرچیاں لکھی تھیں جمع کرکے ایک طرف رکھ دیں اور زیادہ دلچسپی لے کر اس سے پوچھا۔

’’کوئی حادثہ پیش آگیا۔ فلم کمپنی میں کسی ایکٹرس سے۔ ‘‘

نعیم نے فوراً ہی کہا۔

’’نہیں بھائی، ایکٹرس و یکٹرس سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک اور ہی مصیبت میں جان پھنس گئی ہے۔ تمہیں فرصت ہو تو میں ساری داستان سناؤں۔ ‘‘

نعیم میرا دوست ہے۔ جب سے وہ بمبئی سے آیا ہے اس سے میری دوستی چلی آرہی ہے۔ وہ یوں کہ بمبئی آتے ہی اس نے میرے اخبار میں کام کیا اور خود کو بہت سی اہلیتوں کا مالک ثابت کیا۔ پھر آہستہ آہستہ جب مجھے اس کے اعلیٰ خاندان کا پتا چلا اور اسی قسم کی دوسری واقفیتیں نکلتی آئیں تو میر دل میں اسکی عزت اور بھی زیادہ ہو گئی، چنانچہ چھ مہینے کے مختصر عرصے ہی میں وہ میرا بے تکلف دوست بن گیا۔ نعیم نے میرے اخبار کو دلچسپ بنانے کے لیے مجھ سے زیادہ کوششیں کیں۔ ہر ہفتے جب اس نے ایک نئی کہانی لکھنا شروع کی اور میں نے اس کی تیار چار کہانیاں پڑھیں تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اخبارمیں اگر نعیم پڑا رہاتو اس کی تمام ذکاوتیں تباہ ہو جائیں گی، چنانچہ میں نے موقعہ ملتے ہی ایک فلم کمپنی میں اسکی سفارش کی اور وہ مکالمہ نگار کی حیثیت سے فوراً ہی وہاں ملازم ہو گیا۔ فلم کمپنی کی ملازمت کے دوران میں نعیم نے وہاں کے سیٹھوں اور ڈائریکٹروں پر کیسا اثر ڈالا، اس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ میں بے حد مصروف آدمی ہوں۔ لیکن نعیم سے ایک دو بار مجھے اتنا ضرور معلوم ہوا تھا کہ وہاں اس کا کام پسند کیا گیا ہے۔ اب ایکا ایکی نہ جانے کیا حادثہ پیش آیا تھا جو اس کا رنگ یوں ہلدی کی طرح زرد پڑ گیا تھا۔ نعیم بے حد شریف آدمی ہے۔ اس سے کسی نامعقول حرکت کی توقع ہی نہیں ہوسکتی تھی، میں سخت متحیر ہوا کہ ایسی کون سی افتاد پڑی جو نعیم کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ میں نے اُس سے اجازت لیکر جلدی جلدی آخری کاپی کے لیے مضمون کا بقایا حصہ مکمل کیا اور تمام پرچیاں کاتب کو دیکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔

’’بھئی معاف کرنا میں فوراً ہی تمہاری داستان نہ سُن سکا۔ لیکن میں پوچھتا ہوں یہ داستان آخر بنی کیسے۔ تم۔ تم۔ خیرچھوڑو اس قصّے کو، تم مجھے سارا واقعہ سناؤ۔ ‘‘

نعیم نے جیب سے سگرٹ نکال کر سلگایا اور کہا۔

’’اب میں تمہیں کیا بتاؤں، جوکچھ ہُوا، میری اپنی بیوقوفی کی بدولت ہوا۔ ہماری فلم کمپنی میں ایک ایکٹر ہے۔ عاشق حسین اوّل درجے کا چُغد ہے۔ چونکہ دوسروں کی طرح میں اسے ستاتا نہیں ہُوں اس لیے وہ مجھ پر بُری طرح فریفتہ ہے، یہ فریفتہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ وہ مجھ سے اسی طرح باتیں کرتا ہے جس طرح خوبصورت عورتوں سے کی جاتی ہیں۔ ‘‘

میں ہنس پڑا۔

’’پر تم اتنے خوبصورت تو نہیں ہو۔ ‘‘

نعیم کے پیلے چہرے پر بھی ہنسی کی لال لال دھاریاں پھیل گئی۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا ہے۔ دراصل وہ اپنے اخلاص اور اپنی بے لوث محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور چونکہ اسے ایسا کرنے کا طریقہ نہیں آتا اس لیے اسکا پیار وہی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اس کو غالباً اپنی بیوی سے ہو گا۔ ہاں تو یہ عاشق حسین صاحب جو اوّل درجے کے رقاص ہیں اور رقص کے سوا اور کچھ بھی نہیں جانتے۔ پرسوں شوٹنگ کے بعد مجھے ملے۔ سیٹ پر میں نے اُن کے مکالمے درست کرنے میں کافی محنت کی تھی۔ اس کا حق ادا کرنے کے لیے انھوں نے فوراً ہی کچھ سوچا اور کہا۔

’’نعیم صاحب، میں آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہُوں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’فرمائیے۔ ‘‘

انھوں نے پھر کچھ سوچا اور کہا۔

’’دن بھر کام کرنے کے بعد میں تھک گیا ہوں آپ بھی ضرور تھک گئے ہوں گے۔ چلیے، کہیں گھوم آئیں‘‘

۔ اب میں یہاں اپنی ایک کمزوری بتا دوں۔ موسم اگر خوشگوار ہو تو میں عموماً بہک جاتا ہوں۔ شام کا جھٹپٹا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی اور فضا میں ایک عجیب قسم کی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ جوان کنوارے آدمیوں کے دل میں ایسی اداسی ضرور موجود ہوتی ہے جو پھیل کر ایسے موقعوں پر بہت وسعت اختیار کرلیا کرتی ہے۔ میرے بدن پر ایک کپکپی سی طاری ہو گئی جب میں نے جوہو کے سمندری کنارے کا تصور کیا جہاں شام کو نم آلود ہوائیں یوں چلتی ہیں جیسے بھاری بھاری ریشمی ساڑھیاں پہن کر عورتیں چلتی ہیں۔ میں فوراً تیار ہو گیا۔

’’چلیے، مگر کہاں جائیے گا۔ ‘‘

اب عاشق حسین نے پھر سوچا اور کہا۔

’’کہیں بھی چلے چلیں گے۔ یہاں سے باہر تو نکلیں‘‘

۔ ہم دونوں گیٹ سے باہر نکلے اور موڑ پر بَس کا انتظار کرنے لگے۔ ‘‘

یہاں تک کہہ کر نعیم رک گیا۔ اس کے چہرے کی زردی اب دُور ہورہی تھی۔ میں نے اس کے پیکٹ سے ایک سگرٹ نکال کر سلگایا اور کہا۔

’’تم دونوں گیٹ سے باہر نکل کر بَس کا انتظار کرنے لگے۔ ‘‘

نعیم نے سرہلایا

’’اور شامتِ اعمال اُدھر سے عاشق حسین کے ایک مارواڑی دوست کا گُزر ہوا۔ وہ موٹر میں جارہا تھا کہ اچانک عاشق حسین کی نظر اس پر پڑی۔ فوراً ہی اس نے مارواڑی زبان میں اپنے دوست کو ٹھہرنے کے لیے کہا۔ موٹر رُکی عاشق حسین نے اس سے مارواڑی زبان میں چند باتیں کیں پھر دوڑ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا

’’چلیے، کام بن گیا۔ موٹر مل گئی اسی میں چلتے ہیں۔ ‘‘

میں چل پڑا۔ موٹر میں داخل ہونے سے پہلے عاشق نے اپنے مارواڑی دوست سے جو شکل و صورت کے اعتبار سے ڈرائیور معلوم ہوتا تھا تعارف کرایا اور حسبِ معمول مبالغے سے کام لیتے ہوئے کہا۔

’’یہ مارواڑ کے بہت بڑے سیٹھ ہیں۔ یہاں ایک کاروبار کے سلسلے میں آئے ہیں۔ میرے بہت مہربان دوست ہیں۔ ‘‘

اور میرے متعلق اپنے دوست سے کہا۔

’’یہ ہندوستان کے بہت بڑے اسٹوری رائیٹر ہیں۔ ‘‘

ہندوستان کے بہت بڑے اسٹوری رائیٹر اور مارواڑ کے بہت بڑے سیٹھ نے ہاتھ ملائے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ رسمی طور پر خوش ہُوئے اور موٹر چلی۔ ‘‘

یہ سُن کر میں مسکرایا۔

’’نعیم، اس مارواڑی سیٹھ کے متعلق تمہاری رائے بہت خراب معلوم ہوتی ہے۔ کیا آگے چل کر یہ ولن کا پارٹ ادا تو نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’تم پہلے پوری داستان سُن لو۔ پھر سوچنا کہ ولن کون ہے اور ہیرو کون۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کہانی کی ہیروئن زہرہ ہے۔ زہرہ جس کو میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کل۔ داور کی ایک فوجداری عدالت میں دیکھا ہے۔ ایک مجرم کی حیثیت میں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے نعیم کے کان کی لویں شرم کے باعث سرخ ہو گئیں۔ داستان سُننے کے دوران میں پہلی مرتبہ زہرہ کے اچانک ذکر سے مجھے سخت تعجب ہوا۔ میں نے کہا۔

’’نعیم۔ یہ تو بالکل الگزنڈرپو کا افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ زہرہ بالکل پو کے افسانوں کے غیر متوقع انجام کی طرح اس داستان میں آئی ہے۔ یہ عورت کون ہے۔ ؟‘‘

’’میں قطعاً نہیں جانتا، یعنی اگر مجھے اس عورت کے متعلق کچھ علم ہوتو مجھ پر لعنت۔ خدا معلوم کون ہے، پر اب میں اتنا جانتا ہوں کہ اس نے ہم لوگوں پر فوجداری مقدمہ دائر کررکھا ہے۔ جرم ڈاکہ اورچوری ہے۔ ‘‘

میں نے تعجب سے پوچھا۔

’’ڈاکہ اور چوری۔ ‘‘

نعیم کے لہجہ نے ایسی متانت اختیار کر لی جس میں روحانی اذّیت کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی۔ کہنے لگا۔

’’ہاں، ڈاکہ اور چوری۔ مجھے دفعات اچھی طرح یاد نہیں مگر ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم نے مداخلت بیجاکی، زہرہ کے گھر پر ڈاکہ ڈالا۔ اور اس کی چند قیمتی اشیا چرا کر لے گئے، لیکن یہ تو داستان کا انجام ہے۔ پہلے کے واقعات تمہیں سُنا لوں پھر اس طرف آتا ہُوں۔ میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’یہ کہ تم اس مارواڑی کی موٹر میں بیٹھ گئے۔ ‘‘

’’ہاں میں عاشق حسین کے کہنے پر اس منحوس مارواڑی کی موٹر میں بیٹھ گیا۔ موٹر وہ خود چلا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اگلی سیٹ پر ایک اورآدمی بیٹھا تھا جو اس سے کم منحوس نہیں تھا۔ عاشق حسین نے شاید اسکے متعلق کہا تھا کہ وہ موٹریں بنانے کا کام کرتا ہے۔ خیر موٹر مختلف بازاروں سے ہوتی ہوئی داور کی طرف جانکلی۔ ظاہر تھا کہ ہم جوہو جائیں گے، چنانچہ میں بہت خوش تھا۔ جوہو کی گیلی گیلی ریت سے مجھے بے حد پیار ہے کبھی کبھی اُدھر جا کر میں گیلی ریت پر ضرور لیٹا کرتا ہُوں اور دیر تک کھلے آسمان کی طرف دیکھا کرتا ہوں جو اتنا ہی پراسرار اور ناقابلِ رسا دکھائی دیتا ہے جتنا کہ ایک اجنبی عورت کا تصور۔ سامنے رات کی سرمئی روشنی میں سمندر کروٹیں لیتا ہے، اوپر گدلے آسمان پر تارے یوں چمکتے ہیں جیسے انہوئی باتیں کسی جوان آدمی کے دل میں ٹمٹما رہی ہیں۔ ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ دُور، اس پار جہاں آسمان اور سمندر کوئی واضح خط بنائے بغیر آپس میں گھل مل جاتے ہیں، ایک ایسی دُھندلی روشنی نظر آیا کرتی ہے جو خوبصورت شعروں کی طرح مصنوعی ہوتی ہے۔ میں جوہو کی سیر کے خیال میں مگن تھا کہ عاشق حسین نے موٹر کو داور ہی میں ایک جگہ ٹھہرا لیا اور مجھ سے کہا۔

’’چلیے، کچھ پی لیں‘‘

جیسا کہ تمہیں معلوم ہے، بیئر مجھے پیاری ہے۔ عاشق حسین کو خدا معلوم کہاں سے اس بات کا پتا چلا تھا کہ میں پیا کرتا ہُوں۔ خیر، ہم چاروں یار بار میں داخل ہُوئے۔ ایک بوتل بیئر کی میں نے پی اور ایک عاشق حسین نے۔ مارواڑی سیٹھ اور موٹریں بنانے والے نے کچھ نہ پیا۔ ہم جلدی ہی فارغ ہو گئے۔ پھر موٹر میں بیٹھے اور جوہو کا رخ کیا مگر فوراً ہی عاشق حسین کو ایک کام یاد آگیا۔

’’اوہ مجھے تو اپنی شاگرد زہرہ کے ہاں جانا ہے۔ آج اُس سے ملنے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔ نعیم صاحب اگر آپکو اعتراض نہ ہو تو پانچ منٹ لگیں گے۔ اس کا مکان بالکل قریب ہے۔ ‘‘

مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا، چنانچہ اس نے موٹر ایک گلی میں ٹھہرا لی اور اکیلا سامنے والے مکان کی طرف بڑھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’یہ گلی کس طرف ہے۔ ‘‘

نعیم نے جواب دیا۔

’’داور ہی میں ہے۔ اُدھر جہاں پارسیوں کے بے شمار مکان ہیں، غالباً اس محلے کو پارسی کالونی کہتے ہیں۔ ۔ ہاں تو عاشق حسین موٹر سے نکل کر سامنے مکان کی طرف بڑھا۔ ایک چھوٹا سا دومنزلہ مکان تھا۔ بغیچہ طے کرکے عاشق نے دروازہ پر دستک دی۔ جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو عاشق نے دوسری بار زور سے دستک دی۔ اندر سے کسی عورت کی آواز آئی کون ہے۔ ‘‘

عاشق حسین نے بلند آواز میں جواب دیا۔

’’عاشق۔ ‘‘

اندر سے خشم آلود آواز آئی۔

’’عاشق کی۔ ‘‘

عاشق حسین نے یہ گالی سُن کر ہماری طرف دیکھا اور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا اور یہ کہنا شروع کیا۔

’’دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔ ‘‘

یہ سن کر میں نے کہا۔

’’اس عورت نے شاید عاشق کا غلط مطلب سمجھا، ورنہ جیسا کہ تم ابھی کہہ چکے ہو وہ عاشق کی شاگرد تھی۔ ‘‘

’’جانے بلا، کیا تھی اور کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عاشق حسین نے جھوٹ ہی بولا ہو اور بیئر کی ایک بوتل پینے کے بعد زہرہ کا خیال اسکے دماغ میں آگیا ہو۔ کسی نے اس سے کبھی کہا ہو گا کہ فلاں نمبر کے فلیٹ میں ایک عورت زہرہ رہتی ہے۔ لیکن اس سے کیا بحث ہے۔ عاشق حسین نے اودھم مچانا شروع کردی۔ اندر سے گالیاں آتی رہیں اور پیشتر اس کے کہ میں اسے منع کرسکتا، تین چار دھکے مار اس نے دروازہ توڑا اور زبردستی اندر داخل ہو گیا۔ جب یہ شور ہوا تو آس پاس کے رہنے والے پارسی اکٹھے ہو گئے۔ میں بے حد پریشان ہوا، چنانچہ اسی پریشانی میں موٹر سے باہر نکلا اور عاشق کو باہر لانے کی خاطر اس مکان میں داخل ہو گیا۔ میرے پیچھے پیچھے عاشق کے دونوں ساتھی بھی چلے آئے۔ میں نے اس فلیٹ کے تینوں کمرے دیکھے مگر نہ عاشق نظر آیا نہ اسکی شاگرد زہرہ۔ خدا معلوم کہاں غائب ہو گئے تھے۔ گھر کے پرلی طرف دوسرا راستہ تھا، ممکن ہے وہ اُدھر سے باہر نکل گئے ہوں۔ میں چند منٹ ان تین کمروں میں رہا۔ جب کوئی سراغ نہ ملا تو باہر نکل کر موٹر میں بیٹھ گیا۔ وہ پارسی جو گلی میں جمع ہو گئے تھے گُھور گُھور کر میری طرف دیکھنے لگے۔ میں اور زیادہ پریشان ہو گیا۔ بیئر کا سارا نشہ جو دماغ میں تھا اُتر کر میری ٹانگوں میں چلا آیا۔ میرے جی میں آئی کہ عاشق اس کے ساتھیوں اور ان کی موٹر کو وہیں چھوڑ کر بھاگ جاؤں مگر۔ عجب مشکل میں میری جان پھنس گئی تھی۔ اگر بھاگنے کی کوشش کرتا تو یقیناً وہ پارسی جو مجھے چڑیا گھر کا بندر سمجھ کر گُھور رہے تھے پکڑ لیتے۔ دس بارہ منٹ اسی شش و پنج میں گزرے۔ اس کے بعد عاشق اور اسکے دونوں دوست مکان میں سے باہر نکلے اور موٹر میں بیٹھ گئے۔ میں نے عاشق سے کوئی بات نہ پوچھی۔ موٹرچلی اور جب دادر کا حلقہ آیا تو میں نے اس سے کہا۔

’’مجھے یہیں اتار دو، میں بس میں گھر چلا جاؤں گا۔ ‘‘

عاشق کے دماغ سے جوہو کی سیر کا خیال نکل گیا تھا، اس نے اپنے مارواڑی دوست سے موٹر روکنے کے لیے کہا، چنانچہ میں ان سے رخصت لے کر گھر چلا آیا اور اس واقعہ کو بھول گیا۔ ‘‘

نعیم نے ایک سگرٹ اور سلگایا اور کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا۔

’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘

’’مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ ‘‘

نعیم نے بڑی تلخی کے ساتھ کہا۔

’’اس بیوقوف کے بچے عاشق حسین سے جب پولیس والوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون تھا تو اس نے اپنے مارواڑی دوست، اس موٹر بنانے والے کا اور میرا نام لے دیا۔ ہم تینوں ایک گھنٹے کے اندر اندر گرفتار کرلیے گئے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’یہ کب کی بات ہے؟۔ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ ‘‘

نعیم نے جوا ب دیا۔

’’کل دو ڈھائی بجے کے قریب ہماری گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ میں نے تمہیں ٹیلی فون پر ضرور مطلع کیا ہوتا اگر میرے حواس بجا ہوتے۔ بخدا میں سخت پریشان تھا۔ پولیس انسپکٹر ٹیکسی میں ہم سب کو تھانے میں لے گیا۔ وہاں بیانات قلم بند ہُوئے تو مجھے پتلا چلا کہ عاشق حسین کے وہ مارواڑی دوست جو کسی کاروبار کے سلسلے میں یہاں آئے تھے زہرہ کا پنکھا اٹھا کر اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ بجلی کا یہ پنکھا پولیس نے ان سے حاصل کرلیا تھا۔ ‘‘

یہ سن کر میں نے تشویشناک لہجہ میں کہا۔

’’اس سے تو چوری صاف ثابت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’چوری ثابت ہوتی ہے جبھی تو میں اس قدر پریشان ہوں اور سچ پوچھو تو اگر یہ ثابت نہ بھی ہوتی تو میری پریشانی اسی قدر رہتی۔ تھانے اور عدالت میں جانا بے حد شرمناک ہے، پر اب کیا کیا جائے۔ جو ہونا ہے ہو چکا ہے۔ اس خفت سے چھٹکارا نہیں مل سکتا جو مجھے اٹھانا پڑے گی اور اٹھانا پڑ رہی ہے۔ میں بالکل بے گناہ ہوں یعنی ظاہر ہے کہ زہرہ کو میں بالکل نہیں جانتا، اس کے مکان پر میں اگر گیا تو محض عاشق حسین کی وجہ سے، اس چُغد کے کہنے پر جو ایک بوتل بیئر بھی ہضم نہیں کرسکتا۔ ‘‘

نعیم کے چہرے پر نفرت اور غصے کے مِلے جُلے جذبات دیکھ کر مجھے بے اختیارہنسی آگئی۔

’’بھئی، بہت بُرے پھنسے۔ ‘‘

نعیم نے اسی انداز میں کہا۔

’’ہنسی میں پھنسی اسی کو کہتے ہیں۔ کل۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے عدالت کا منہ دیکھا اور زہرہ بھی پہلی مرتبہ مجھے نظر آئی۔ ‘‘

میں نے فوراً ہی پوچھا۔

’’کیسی ہے؟‘‘

نعیم نے بے پروائی سے جواب دیا۔

’’بُری نہیں، یعنی شکل صورت کے اعتبار سے خاصی ہے۔ بیضوی چہرہ ہے جس پر کیلوں اور مہاسوں کے داغ نظر آتے ہیں۔ لمبے لمبے کالے بال ہیں۔ پیشانی تنگ ہے۔ جوان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حال ہی میں اس نے یہ دھندا شروع کیا ہے۔ ‘‘

میں نے بغیر کسی مطلب کے یوں ہی پوچھا۔

’’کیسا دھندا؟‘‘

نعیم شرما سا گیا۔

’’ارے بھئی، وہی جو عورتیں کرتی ہیں۔ زہرہ کے چہرے پر اس کی چھاپ دُور سے نظر آسکتی ہے۔ مجھے اس عورت پر اتنا غصہ کبھی نہ آتا مگر جب مجسٹریٹ نے میری طرف اشارہ کرکے پوچھا۔

’’تم اسکو پہچانتی ہو۔ ‘‘

تو زہرہ نے میری طرف اپنی بڑی بڑی دُھلی ہُوئی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔

’’ہاں صاحب پہچانتی ہوں۔ اسی نے میرا چاندی کا ٹی سیٹ اٹھایا تھا۔ ‘‘

جب اس نے یہ جھوٹ بولا تو خدا کی قسم جی میں آئی ملعونہ کے حلق میں کٹہرے کا ایک ڈنڈا نکال کر ٹھونس دوں۔ اتنا بڑا جھوٹ!!‘‘

اس پر میں نے کہا۔

’’بھئی جھوٹ تو بولے گی۔ اس کے بغیر کام کیسے چلے گا اسے اپنا کیس مضبوط بھی تو بنانا ہے۔ اب تو تمہیں قہردرویش برجاں درویش سب کچھ سننا پڑے گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

نعیم نے بڑی پریشانی کے ساتھ کہا۔

’’جوکچھ ہو گا اسے ہر حالت میں سہنا ہی پڑے گا مگر۔ مگر۔ میں کیا بتاؤں میں کس قدر پریشان ہو گیا ہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر کسی مرد نے مجھ پر ایسا مقدمہ دائر کیا ہوتا تومجھے اتنی پریشانی نہ ہوتی مگر ذرا غور تو کرو، وہ عورت ہے۔ اور میں عورتوں کی تعظیم کرتا ہُوں۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔ کیوں؟ نعیم نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔

’’اس لیے کہ میں عورتوں کو جانتا ہی نہیں۔ کسی عورت سے ملنے اور اس سے کھل کر بات چیت کرنے کا مجھے کبھی موقعہ ہی نہیں ملا۔ اب زندگی میں پہلی مرتبہ عورت آئی ہے تو مدعی بن کر۔ ‘‘

میں نے ہنسنا شروع کردیا۔ نعیم نے اس پر بگڑ کر کہا۔

’’تم ہنستے ہو مگر یہاں میری جان پر بنی ہے۔ دو دن سے میں کمپنی نہیں جارہا۔ وہاں یہ بات ضرور پہنچ چکی ہو گی۔ سیٹھ صاحب کے سامنے میں کیا منہ لے کے جاؤں گا۔ انھوں نے اگر کچھ پوچھا تو میں کیا جواب دوں گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’جواصل بات ہے اُن کو بتا دینا۔ ‘‘

’’وہ تو میں بتا ہی دوں گا مگر خدا کے لیے سوچو تو سہی کہ میری پوزیشن کیا ہے۔ میں سیٹھ صاحب کی بے حد عزت کرتا ہُوں اس لیے کہ وہ میرے آقا ہیں، اگر انھوں نے مجھے بدکردار سمجھ کر برطرف کردیا تو عمر بھر کے لیے میں داغدار ہو جاؤں گا۔ ملازمت کھونے کا مجھے اتنا افسوس نہیں ہو گا مگر یہاں سوال عزت و ناموس کا ہے۔ وہ ضرور بدگمان ہو جائیں گے۔ میں ان کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہُوں، میری سچی باتوں کو بھی وہ جھوٹا ہی سمجھیں گے۔ فلم کمپنی میں ہر شخص جھوٹ بولتا ہے۔ وہ خود بھی ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

میں نے ہر ممکن طریقے سے نعیم کی اخلاقی جرأت بڑھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ بے حد ڈرپوک ہے۔ خاص کر عورتوں کے معاملے میں تو اس کی بزدلی بہت ہی زیادہ ہے۔ دراصل معاملہ بھی سنگین تھا، اگر برقی پنکھا برآمد نہ ہوتا تو کیس بالکل معمولی رہ جاتا۔ مگر پولیس اس مارواڑی سے پنکھا حاصل کرچکی تھی اس لیے ظاہر ہے کہ زہرہ ایک حد تک سچی تھی۔ نعیم زیادہ دیر تک میرے پاس نہ ٹھہرا اور چلا گیا۔ دوسرے روز شام کو وہ پھرآیا۔ اُس کی پریشانی اور بھی زیادہ بڑھی ہُوئی تھی۔ آتے ہی کہنے لگا۔

’’بھائی ایک مصیبت میں تو جان پھنسی تھی، اب ایک اور آفت گلے پڑ گئی ہے۔ ‘‘

میں نے تشویش کے ساتھ کہا۔

’’کیا ہوا!۔ کیا کوئی اور کیس کھڑا ہو گیا۔ ‘‘

’’نہیں، کیس وہی ہے، مگر ایک ایسی بات ہُوئی ہے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ ‘‘

نعیم نے کرسی پر بیٹھ کر اضطراب کے ساتھ ٹانگ ہلانا شروع کی۔

’’آج صبح سیٹھ صاحب نے مجھے بُلانے کے لیے موٹر بھیجی۔ مجھے جانا ہی پڑا حالانکہ میں ارادہ کرچکا تھا کہ کبھی نہیں جاؤں گا۔ بخدا فلم کمپنی میں داخل ہوتے وقت میری حالت وہی تھی جو حساس مُلزموں کی ہوتی ہے۔ شرم کے مارے میرا حلق سوکھ رہا تھا۔ سربھاری ہو گیا تھا۔ نیچی نظریں کیے جب میں سیٹھ صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ بڑے تپاک کے ساتھ انھوں نے پہلی مرتبہ میرے ساتھ ہینڈ شیک کیا اور ہنس کر کہنے لگے۔

’’منشی صاحب، آپ نے کمال کردیا۔ آپ تو چھپے رستم نکلے۔ بیٹھیے تشریف رکھیے۔ ‘‘

میں ندامت میں غرق کرسی پربیٹھ گیا۔ وہ بھی بیٹھ گئے۔ پھر انھوں نے ایسی باتیں شروع کیں کہ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ کہنے لگے۔

’’آپ گھبراتے کیوں ہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا آپ بتائیے کہ یہ زہرہ ہے کیسی؟۔ کچھ اچھی ہے؟۔ بھئی آپ نے تو کمال کردیا۔ میں سنتا ہوں کہ آپ نے پی کر وہ دھمال مچائی کہ پارسی کالونی کے سب آدمی اکٹھے ہو گئے۔ کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ زہرہ کی ساڑھی اتارکرلے گئے۔ پہلے بھی تو آپ اس کے ہاں آتے جاتے ہوں گے، پھر حرامزادی نے پولیس میں رپورٹ کیوں لکھوائی، پر کیا پتا ہے آپ نے بہت زیادہ شرارتیں کی ہوں‘‘

۔ ایسی ہی بے شمار باتیں انھوں نے مجھ سے کیں۔ میں خاموش رہا۔ اس کے بعد انھوں نے چائے منگوائی۔ ایک پیالہ میرے لیے بنایا اور پھر وہی گفتگو شروع کر دی۔

’’چاندی کا ٹی سٹ جو آپ اُٹھا کر لے گئے تھے، مجھے اگر آپ پریزنٹ کردیں تو میں ابھی آپ کو اپنے وکیل کے پاس لے چلتا ہوں، ایسی اچھی وکالت کرے گا کہ زہرہ کی طبیعت صاف ہو جائے گا۔ میں سُنتا ہوں زہرہ شکل صورت کی اچھی ہے، تو بھئی اس مقدمے کے بعد اسے لے آؤنا اپنی فلم میں اسے کوئی چھوٹا سال رول دے دیں گے۔ اور ہاں، یہ آپ نے اچھا کیا کہ اسی کی شراب پی اور اسی کی چیزیں اُڑا کر لے گئے!۔ پر آپ ایک درجن آدمی اپنے ساتھ کیوں لے گئے تھے؟ بیچاری اتنے آدمی دیکھ کر گھبرا گئی ہو گی۔ ‘‘

بات بات پر وہ ہنستے تھے جیسے گفتگو کے لیے انھیں ایک نہایت ہی دلچسپ موضوع مل گیا ہے۔ تعجب ہے کہ اس سے پہلے انھوں نے کبھی میرے سلام کا جواب بھی نہیں دیا تھا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’تو کیا ہوا۔ تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ وہ تم پر ناراض نہ ہُوئے۔ ‘‘

نعیم بگڑ کر کہنے لگا۔

’’یہ بھی تم نے خوب کہا کہ مجھے خوش ہونا چاہیے۔ وہ مجھے مُجرم سمجھ رہے تھے جو کہ میں نہیں ہُوں۔ میں کیا کہہ سکتا تھا۔ خاموش رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد انھوں نے خزانچی کو بُلایا اور مجھے سو روپے ایڈوانس دلوائے حالانکہ دو مہینے سے کسی ملازم کو تنخواہ نہیں مل رہی۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’تو کیا بُرا ہُوا؟‘‘

’’ارے بھئی تم ساری بات تو سُن لو۔

’’نعیم کِھچ گیا۔

’’سو روپے دلوا کر انھوں نے کہا یہ آپ اپنے پاس رکھیے آپ کو مقدمہ کے لیے ضرورت ہو گی۔ وکیل کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں۔ ‘‘

ٹیلی فون پر انھوں نے فوراً ہی وکیل سے بات کی۔ پھر مجھے اپنی موٹر میں بٹھا کر اسکے پاس لے گئے۔ ساری باتیں اس کو سمجھائیں اور کہا۔

’’دیکھیے، اس مقدمہ میں جان لڑا دیجیے گا۔ بات بالکل معمولی ہے، اس لیے کہ منشی صاحب سے زہرہ کے تعلقات بہت پُرانے ہیں‘‘

۔ میں کیا کہتا۔ وہاں بھی خاموش رہا۔

’’میں نے ہنس کر نعیم سے کہا۔

’’اب بھی خاموش رہو۔ تمہارا کیا بگڑ گیا ہے؟‘‘

نعیم اُٹھ کھڑا ہُوا اور اضطراب کے ساتھ ٹہلنے لگا۔

’’ابھی کچھ بگڑا ہی نہیں۔ عدالت میں مجھے بیان دینا پڑے گا کہ زہرہ میری داشتہ ہے اور میں اسے ایک مدت سے جانتا ہوں۔ اور۔ اور۔ سیٹھ صاحب نے آج شام مجھے مدعو کیا ہے۔ کہتے تھے گرین چلیں گے۔ وہاں کچھ شغل رہے گا۔ میری جان عجب مصیبت میں پھنس گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا ہورہا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

پری

کشمیری گیٹ دہلی کے ایک فلیٹ میں انور کی ملاقات پرویز سے ہوئی۔ وہ قطعاً متاثر نہ ہوا۔ پرویز نہایت ہی بے جان چیز تھی۔ انور نے جب اس کی طرف دیکھا اور اس کو آداب عرض کہا تو اس نے سوچا

’’یہ کیا ہے عورت ہے یا مولی‘‘

پرویز اتنی سفید تھی کہ اس کی سفیدی بے جان سی ہو گئی تھی جس طرح مولی ٹھنڈی ہوتی ہے اسی طرح اس کا سفید رنگ بھی ٹھنڈا تھا۔ کمر میں ہلکا سا خم تھا جیسا کہ اکثر مولیوں میں ہوتا ہے۔ انور نے جب اس کو دیکھا تو اس نے سبز دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس کو پرویز ہوبہو مولی نظر آئی جس کے ساتھ سبز پتے لگے ہوں۔ انور سے ہاتھ ملا کر پرویز اپنے ننھے سے کتے کو گود میں لے کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے سرخی لگے ہونٹوں پر جو اس کے سفید ٹھنڈے چہرے پر ایک دہکتا ہوا انگارہ سا لگتے تھے۔ ضعیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی کتے کے بالوں میں اپنی لمبی لمبی انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے اس نے دیوار کے ساتھ لٹکتی ہوئی انور کے دوست جمیل کی تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘

انور کو اس کے ساتھ مل کر قطعاً خوشی نہیں ہوئی تھی۔ رنج بھی نہیں ہوا۔ اگر وہ سوچتا تو یقینی طور پر اپنے صحیح رد عمل کو بیان نہ کرسکا۔ دراصل پرویز سے مل کر وہ فیصلہ نہیں کرسکا تھا کہ وہ ایک لڑکی سے ملا ہے یا اسکی ملاقات کسی لڑکے سے ہوئی ہے۔ یا سردیوں میں کرکٹ کے میچ دیکھتے ہوئے اس نے ایک مولی خرید لی ہے۔ انور نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں خوبصورت تھیں۔ بس ایک صرف یہی چیز تھی۔ جس کے متعلق تعریفی الفاظ میں کچھ کہا جاسکتا تھا۔ ان آنکھوں کے علاوہ پرویز کے جسم کے ہرحصے پر نکتہ چینی ہوسکتی تھی۔ باہیں بہت پتلی تھیں۔ جو چھوٹی آستینوں والی قمیض میں سے بہت ہی یخ آلود انداز میں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔ اگر اس کے سر پر سبز ڈوپٹہ نہ ہوتا تو انور نے یقیناً اس کو فرجڈیر سمجھا ہوتا جس کا رنگ عام طور پر اکتا دینے والا سفید ہوتا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر جیتے جیتے لہو جیسی سرخی بہت گھل رہی تھی۔ برف کے ساتھ آگ کا کیا جوڑ؟۔ اس کی چھوٹی آستینوں والی قمیض سفید کمبرک کی تھی۔ شلوار سفید لٹھے کی تھی۔ سینڈل بھی سفید تھے۔ اس تمام سفیدی پر اس کا سبز ڈوپٹہ اتنا انقلاب انگیز نہیں تھا۔ مگر اس کے سرخی لگے ہونٹ ایک عجیب سا ہنگامہ خیز تضاد بن کر اسکے چہرے کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ صحن میں جب وہ چند قدم چل کر جمیل کی طرف اپنے ننھے سے کتے کو دیکھتی ہوئی بڑھی تھی۔ تو انور نے محسوس کیا تھا کہ یہ عورت جو کہ آرہی ہے عورت نہیں ننکاری ہے۔ اس سے ہاتھ ملاتے وقت اسے ایسا لگا تھا جیسے اس کا ہا تھ کسی لاش نے پکڑ لیا ہے۔ مگر جب اس نے باتیں شروع کیں تو وہ ٹھنڈی گرنت جو اس کے ہاتھ کے ساتھ چھٹی ہوئی تھی کچھ گرم ہونے لگی۔ وہ آوارہ خیال تھی۔ اس کی باتیں سب کی سب بے جوڑ تھیں۔ موسم کا ذکر کرتے کرتے وہ اپنے درزی کی طرف لڑھک گئی۔ درزی کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ اس کو اپنے کتے کی چھینکوں کا خیال آگیا۔ کتے نے چھینکا تو اس نے اپنے خاوند کے متعلق یہ کہنا شروع کردیا۔

’’وہ بالکل میراخیال نہیں رکھتے۔ دیکھیے ابھی تک دفترسے نہیں آئے۔ ‘‘

انور کے لیے پرویز اور اس کا خاوند دونوں بالکل نئے تھے۔ وہ پرویز کو جانتا تھا نہ اسکے خاوند کو۔ گفتگو کے دوران میں صرف اس کو اس قدر معلوم ہوا کہ پرویز کا خاوند جمیل کا پڑوسی ہے اور ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے البتہ اس نے یہ ضرور محسوس کیا کہ پرویز گفتگو کے آغاز سے گفتگو کے اختتام تک اس کو ایسی نظروں سے دیکھتی تھی جن میں جنسی بلاوا تھا۔ انور کو حیرت تھی کہ ایک ٹھنڈی مولی میں یہ بلاوا کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ اٹھ کر جانے لگ تو اس نے گود سے اپنے ننھے کتے کو اتارا اور اس سے کہا

’’چلو ٹینی چلیں‘‘

پھر مسز جمیل سے جیگروول کے بارے میں کچھ پوچھ کر اپنے سرخ ہونٹوں پر چھدری سی مسکراہٹ پیدا کرکے انور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس نے کہا۔

’’میرے ہزبنڈ سے مل کر آپ کو بہت خوشی ہو گی۔ ‘‘

ایک بار پھر انور نے فرجڈیٹر میں اپنا ہاتھ دھویا اور سوچا

’’مجھے اس کے ہزبنڈ سے مل کر کیا خوشی ہو گی۔ جب کہ یہ خود اس سے ناخوش ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ میرا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ‘‘

دیر تک وہ جمیل اور اس کی بیوی سے باتیں کرتا رہا۔ کہ شاید ان میں سے کوئی پرویز کے متعلق بات کرے گا اور اس کو اس عورت کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوں گی جس کو اس نے ٹھنڈی مولی سمجھا تھا۔ مگر کوئی ایسی بات نہ ہوئی۔ جو پرویز کی شخصیت پر روشنی ڈالتی۔ جیگرودل کا ذکر آیا تو مسز جمیل نے صرف اتنا کہا۔

’’صرف کا ٹیسٹ رنگوں کے بارے میں بہت اچھا ہے۔ ‘‘

’’پرویز۔ پری‘‘

انور نے سوچا

’’کتنی غلط تخفیف ہے یہ خستہ سی ریڑھ کی ہڈی والی عورت جس کا رنگ اکتا دینے والی حد تک سفید ہے۔ اس کو پری کہا جائے کیا یہ کوہ قاف کی توہین نہیں؟‘‘

جب پرویز کے متعلق اور کوئی بات نہ ہوئی تو انور نے جمیل سے رخصت چاہی

’’اچھا بھائی میں چلتا ہوں‘‘

پھروہ مسز جمیل سے مخاطب ہوا۔

’’بھابھی آپ کی پری بڑی دلچسپ چیز ہے۔ ‘‘

مسز جمیل مسکرائی۔

’’کیوں‘‘

انور نے یونہی کہہ دیا تھا۔ مسز جمیل نے کیوں کہا تواس کو کوئی جواب نہ سوجھا۔ تھوڑے سے توقف کے بعد وہ مسکرایا۔

’’کیا آپ کے نزدیک وہ دلچسپ نہیں؟ کون ہیں یہ محترمہ؟‘‘

مسز جمیل نے کوئی جواب نہ دیا۔ جمیل نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔ جمیل مسکرا کر اٹھا اور انور کے کاندھے کو دبا کر اس نے گٹک کر کہا۔ چلو تمہیں بتاتا ہوں کون ہیں یہ محترمہ۔ بڑی و اجبِ تعظیم ہستی ہیں‘‘

’’آپ کو تو بس کوئی موقعہ ملنا چاہیے‘‘

مسز جمیل کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی۔ جمیل ہنسا۔

’’کیا میں غلط کہتا ہوں کہ پری واجبِ تعظیم ہستی نہیں‘‘

’’میں نہیں جانتی‘‘

یہ کہہ کر مسز جمیل اٹھی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ جمیل نے پھر انور کا کندھا دبایا اور اس سے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ۔ تمہاری بھابھی نے ہمیں پری کے متعلق باتیں کرنے کا موقعہ دے دیا ہے۔ ‘‘

انور بیٹھ گیا۔ جمیل نے سگریٹ سلگایا اور اس سے پوچھا۔

’’تمہیں پری میں کیا دلچسپی نظر آئی؟‘‘

انور نے کچھ دیر اپنے دماغ کو کریدا

’’دلچسپی؟۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا میرا خیال ہے اس کا غیر دلچسپ ہونا ہی شاید اس دلچسپی کا باعث ہے۔ ‘‘

جمییل نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ جھاڑی۔

’’لفظوں کا اُلٹ پھیر نہیں چلے گا۔ صاف صاف بتاؤ تمہیں اس میں کیا دلچسپی نظر ائی؟‘‘

انور کو یہ جرح پسند نہ آئی

’’مجھے جو کچھ کہنا تھا۔ میں نے کہہ دیا ہے۔ ‘‘

جمیل ہنسا، پھر ایک دم سنجیدہ کر اس نے سامنے کمرے کی طرف دیکھا اور دبی زبان میں کہا۔

’’بڑی خطرناک عورت ہے انور‘‘

انور نے حیرت سے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ محترمہ دو آدمیوں کا خون کرا چکی ہے۔ ‘‘

انور کی آنکھوں کے سامنے معاً پرویز کا سفید رنگ آگیا۔ مسکرا کر کہنے لگا۔

’’اسکے باوجود لہو کی ایک چھینٹ بھی نہیں اس میں‘‘

لیکن فوراً ہی اس کو معاملے کی سنگینی کا خیال آیا تو اس نے سنجیدہ ہو کر جمیل سے پوچھا

’’کیا کہا تم نے؟۔ دو آدمیوں کا خون؟‘‘

انور نے چٹکی بجا کر سگریٹ کی راکھ جھاڑی

’’جی ہاں۔ ایک کیپٹن تھا۔ دوسرا سربہاؤالدین کالڑ کا‘‘

’’کون سربہاؤالدین؟‘‘

’’اماں وہی۔ جو ایگریکلچرل ڈیپارٹمنٹ میں خدا معلوم کیا تھے‘‘

انور کو کچھ پتہ نہ چلا۔ بہاؤالدین کو چھوڑ کر اس نے جمیل سے پوچھا۔

’’کیسے خون ہوا ان دونوں کا؟‘‘

’’جیسے ہوا کرتا ہے۔ کالج میں کیپٹن صاحب سے پری کا یارا نہ تھا۔ شادی کرکے جب وہ بمبئی گئی تو وہاں سر بہاؤالدین کے لڑکے سے راہ و رسم پیدا ہو گئی۔ اتفاق سے ٹرنینگ کے سلسلے میں کپتان صاحب وہاں پہنچے۔ پرانے تعلقات قائم کرنا چاہے تو سربہاؤالدین کے لڑکے آڑے آئے۔ ایک پارٹی میں دونوں کی چخ ہوئی۔ دوسرے روز کپتان صاحب نے پستول داغ دیا۔ رقیب وہیں ڈھیر ہو گئے پری کو بہت افسوس ہوا۔ سربہاؤالدین کے لڑکے کی موت کے غم میں اس نے کئی دن سوگ میں کاٹے۔ جب کپتان صاحب کو پھانسی ہوئی تو لوگ کہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں نے ہزار ہا اصلی آنسو بہائے۔ اس کے بعد ایک نوجوان پارسی اس کے دامِ محبت میں گرفتار ہو گیا۔ وصل کی رات جب اُسے پتہ چلا کہ اس کی محبوبہ شادی شدہ ہے تو اس نے اپنے باپ کی ڈسپنسری سے زہر لے کر رکھا لیا‘‘

انور نے کہا

’’یہ تین خون ہوئے‘‘

جمیل مسکرایا۔

’’نوجوان پارسی خوش قسمت تھا اس کے باپ نے اسے موت کے منہ سے بچا لیا۔ ‘‘

’’بڑی عجیب وغریب عورت ہے‘‘

یہ کہہ کر انور سوچنے لگا کہ پرویز جس میں کشش نام کو بھی نہیں کیسے ان ہنگاموں کا باعث ہوئی۔ کپتان نے اس میں کیا دیکھا۔ سر بہاؤالدین کے لڑکے کو اس میں کیا چیز نظر آئی؟۔ اور اس نوجوان پارٹی نے اس ڈھیلی ڈھالی عورت میں کیا دلکشی دیکھی؟ انور نے پرویز کو تصور میں ننگا کرکے دیکھا۔ ڈھیلی ڈھالی ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ جس پر سفید سفید گوشت منڈھا ہوا تھا۔ خون کے بغیر کوہلے دبلے پتلے لڑکے کے کولہوں جیسے تھے۔ ریڑھ کی ہڈی میں کوئی دم نہیں تھا۔ ایسا معلوم تھا کہ اگر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کسی نے دبایا تو وہ دونیم ہو جائے گی۔ بال کٹے ہوئے تھے جو ہائیڈروجن پراکسائڈ کے استعمال سے اپنا قدرتی رنگ کھو چکے تھے۔ کیا تھا اس کے سراپا میں؟۔ ایک فقط اس کی آنکھیں کچھ غنیمت تھیں۔ انور نے سوچا۔ صرف آنکھیں کون چاٹتا پھرتاہے۔ کوئی بات ہونی چاہیے۔ لیکن حیرت ہے کہ اس ٹھنڈی مولی نے اتنے بڑے ہنگامے پیدا کیے۔ مجھ سے تو جب اس نے ہاتھ ملایا تھا۔ تو میں نے خیال کیا تھا کہ مجھے بدبودارڈکاریں آنی شروع ہو جائیں گی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہے ضرور اس پری میں‘‘

جمیل نے اسے بتایا کہ راولپنڈی میں پرویز کے کالج کے رومانس مشہور ہیں۔ اس زمانے میں اس کے بیک وقت تین تین چار چار لڑکوں سے رومان چلتے تھے۔ چھ لڑکے اسی کے باعث کالج بدر ہوئے۔ ایک کو بیمار ہوکر سینے ٹوریم میں داخل ہونا پڑا۔ انور کی حیرت بڑھ گئی۔ اس نے جمیل سے پوچھا۔ کون ہے اس کا خاوند؟۔ اورخود کس کی لڑکی ہے؟‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’بہت بڑے باپ کی۔ کسی زمانے میں احمد آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، آجکل ریٹائرڈ ہیں۔ خاوند اس کا ہندو ہے۔ ‘‘

’’ہندو؟‘‘

’’نہیں، اب عیسائی ہو چکا ہے؟‘‘

’’کیا کرتا ہے؟‘‘

’’میرا خیال ہے شروع میں اس کا ذکر آیا تھا۔ کہ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے۔ ‘‘

انور کو یاد آگیا۔

’’ہاں، ہاں کچھ ایسی بات ہوئی تھی۔ شاید بھابی جان نے بتایا تھا؟‘‘

جمیل اور انور تھوڑی دیر خاموش رہے۔ جمیل نے سگریٹ سلگایا اور ادھر ادھر دیکھ کر اسکی بیوی نہ سن رہی ہو۔ انور کا کاندھا دبا کر سرگوشی میں کہا۔

’’تم پری سے ضرور ملو۔ دیکھنا کیا ہوتا ہے؟‘‘

انور نے خود سے پوچھا مگر جمیل سے کہا

’’کیا ہو گا؟‘‘

جمیل کے ہونٹوں میں ایک شریر سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’وہی ہو گا جومنظورِ خدا ہو گا‘‘

پھر اس نے آواز دبا کر کہا۔

’’کل شام چائے وہیں پئیں گے۔ اس کا خاوند رات کو آتا ہے۔ ‘‘

پروگرام طے ہو گیا۔ پرویز کے متعلق اتنی باتیں سن کر اسکے دماغ میں کھدبد سی ہورہی ہے۔ وہ بار بار سوچتا تھا۔ ملاقات پر کیا ہو گا۔ کوئی غیر معمولی چیز وقوع پذیر ہو گی۔ ہو سکتا ہے جمیل نے مذاق کیا ہو۔ ہو سکتا ہے جمیل نے جو کچھ بھی اسکے بارے میں کہا سرتاپا غلط ہو۔ لیکن پھر اسے خیال آتا۔ جمیل کو خواہ مخواہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘

دوسرے روز شام کو جمیل اور وہ دونوں پری کے ہاں آگئے وہ غسل خانے میں نہا رہی تھی۔ نوکر نے ان کو بڑے کمرے میں بٹھا دیا۔ انورووگ کی ورق گردانی کرنے لگا۔ دفعتہً جمیل اٹھا۔

’’میں سگریٹ بھول آیا۔ ابھی آتا ہوں‘‘

یہ کہہ کروہ چلا گیا۔ انور

’’ووگ‘‘

میں چھپی ہوئی ایک تصویر دیکھ رہا تھا کہ اسے کمرے میں کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوا۔ نظریں اٹھا کر اس نے دیکھا تو پرویز تھی۔ انور سٹ پٹا گیا۔ اس نے سفید پاجامہ پہنا ہوا تھا جو جا بجا گیلا تھا۔ ململ کا کرتہ اس کے پانی سے تر بدن کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ مسکرا کر اس نے انور سے کہا۔

’’آپ بڑے انہماک سے تصویریں دیکھ رہے تھے۔ ‘‘

پرچہ چھوڑ کر انور اٹھا۔ اس نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر پرویز اسکے پاس آگئی۔ پرچہ اٹھا کر اس نے ایک ہاتھ سے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو ایک طرف کیا۔ اور مسکرا کر کہا

’’مجھے معلوم ہے کہ آپ آئے ہیں تو میں ایسے ہی چلی آئی‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے ململ کے گیلے کرتے کودیکھا۔ جس میں دو کالے دھبے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اس نے انور کا ہاتھ پکڑا

’’چلیے اندر چلیں۔ ‘‘

انور منمنایا

’’جمیل۔ جمیل بھی ساتھ تھا میرے۔ سگریٹ بھول آیا تھا۔ لینے گیا ہے۔ ‘‘

پرویز نے انور کو کھینچا۔

’’وہ آجائے گا۔ چلیے۔ ‘‘

انور کو جانا ہی پڑا۔ جس کمرے میں وہ داخل ہوئے اس میں کوئی کرسی نہیں تھی۔ دو اسپرنگوں والے ساگوانی پلنگ تھے۔ ایک ڈریسنگ ٹیبل تھی۔ اسکے ساتھ ایک اسٹول پڑا تھا۔ پری اس اسٹول پر بیٹھ گئی اور ایک پلنگ کی طرف اشارہ کرکے انور سے کہا۔

’’بیٹھیے‘‘

انور ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گیا۔ اس نے چاہا کہ جمیل آجائے کیونکہ اسے بے حد الجھن ہورہی تھی۔ پرویز کے گیلے کرتے کے ساتھ چمٹے ہوئے دو کالے دھبے اس کو دواندھی آنکھیں لگتے تھے جو اس کے سینے کو گھور گھور کر دیکھ رہی ہیں۔ انور نے اٹھ کر جانا چاہا

’’میرا خیال ہے میں جمیل کو بلا لاؤں‘‘

مگر وہ اس کے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئی۔ ڈرسنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے فریم کی طرف اشارہ کرکے اس نے انور سے کہا۔

’’یہ میرے ہذبنڈ ہیں۔ بہت ظالم آدمی ہے جمیل صاحب۔ ‘‘

انور منمنایا۔

’’آپ مذاق کرتی ہیں۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ میرے اور اس کے مزاج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اصل میں شادی سے پہلے مجھے دیکھ لینا چاہیے تھا کہ وہ سمجھتا ہے کہ نہیں۔ جس چیز کا مجھے شوق ہو اُسے بالکل پسند نہیں ہوتی۔ آپ بتائیے یہ کہتی ہوئی وہ اوٹ لگا کر پلنگ پر اوندھی لیٹ گئی۔

’’اس طرح لیٹنے میں کیا ہرج ہے۔ ‘‘

انور ایک کونے میں سرک گیا۔ اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس نے صرف اتنا سوچا

’’اس کا درمیانی حصہ کتنا غیر نسوانی ہے۔ ‘‘

پرویز اوندھی لیٹی رہی

’’آپ نے جواب نہیں دیا مجھے۔ بتائیے اس طرح لیٹنے میں کیا حرج ہے؟‘‘

انور کا حلق سوکھنے لگا۔

’’کوئی حرج نہیں۔ ‘‘

’’لیکن اس کو ناپسند ہے۔ خدا معلوم کیوں‘‘

یہ کہہ کر پرویز نے گردن ٹیڑھی کرکے انور کی طرف دیکھا۔

’’آدمی اس طرح لیٹتے تو معلوم ہوا ہے تیر رہا ہے۔ میں لیٹوں تو اوپربڑا تکیہ رکھ لیا کرتی ہوں۔ ذرا اٹھائیے نا وہ تکیہ اور میرے اوپر رکھ دیجیے۔ ‘‘

انور کا حلق بالکل خشک ہو گیا۔ اسکی سمجھ میں نہیں آتا کیا کرے۔ اٹھنے لگا تو پرویز نے اپنی پتلی ٹانگ سے اس کو روکا

’’بیٹھ جائیے نا‘‘

’’جی میں جمیل۔ ‘‘

وہ مسکرائی

’’جمیل بے وقوف ہے ایک دن مجھ سے باتیں کررہا تھا۔ میں نے اس سے کہا

’’اپنے خاوند کے سوا میرا اور کسی سے وہ تعلق نہیں رہا جو ایک مرد اور عورت میں ہوتا ہے۔ تو وہ ہنسنے لگا۔ مجھے تو ویسے بھی اس کا تعلق سے نفرت ہے‘‘

۔ ذرا تکیہ اٹھا کر رکھ دیجیے نا میرے اوپر!‘‘

انور اسی بہانے اٹھا۔ تکیہ دوسرے کونے میں پڑا تھا۔ اُسے اٹھایا اور پرویز کے درمیانی حصہ پر جوکہ بہت ہی غیر نسوانی تھا رکھ دیا۔ پرویز مسکرائی

’’شکریہ۔ بیٹھیے اب باتیں کریں۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ آپ تکیے سے باتیں کریں۔ میں چلا۔ ‘‘

یہ کہہ کر انور پسینہ پونچھتا باہر نکل گیا۔ 7جون1950ء

سعادت حسن منٹو

پانچ دن

جموں توی کے راستے کشمیر جائیے تو کد کے آگے ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں بٹوت آتا ہے۔ بڑی پر فضا جگہ ہے۔ یہاں دق کے مریضوں کے لیے ایک چھوٹا سا سینے ٹوریم ہے۔ یوں تو آج سے آٹھ نو برس پہلے بٹوت میں پورے تین مہینے گزار چکا ہوں، اور اس صحت افزا مقام سے میری جوانی کا ایک ناپختہ رومان بھی وابستہ ہے مگر اس کہانی سے میری کسی بھی کمزوری کا تعلق نہیں۔ چھ سات مہینے ہوئے مجھے بٹوت میں اپنے ایک دوست کی بیوی کو دیکھنے کے لیے جانا پڑا جو وہاں سینے ٹوریم میں زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی۔ میرے وہاں پہنچتے ہی ایک مریض چل بسا اور بے چاری پدما کے سانس جو پہلے اکھڑے ہوئے تھے اور بھی غیر یقینی ہو گئے۔ میں نہیں کہہ سکتا وجہ کیا تھی لیکن میرا خیال ہے کہ محض اتفاق تھا کہ چار روز کے اندر اندر اس چھوٹے سے سینے ٹوریم میں تین مریض اوپر تلے مر گئے جونہی کوئی بستر خالی ہوتا یا تیمار داری کرتے کرتے تھکے ہوئے انسانوں کی تھکی ہوئی چیخ پکار سنائی دیتی، سارے سینی ٹوریم پر ایک عجیب قسم کی خاکستری اداسی چھا جاتی اور وہ مریض جو امید کے پتلے دھاگے کے ساتھ چمٹے ہوتے تھے، یاس کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتے۔ میرے دوست کی بیوی تو پدما بالکل دم بخود ہو جاتی۔ اس کے پتلے ہونٹوں پر موت کی زردیاں کانپنے لگتیں اور اس کی گہری آنکھوں میں ایک نہایت ہی رحم انگیز استفسار پیدا ہوجاتا۔ سب سے آگے ایک

’’خوف زدہ کیوں؟‘‘

اور اس کے پیچھے بہت سے ڈرپوک

’’نہیں‘‘

تیسرے مریض کی موت کے بعد میں باہر برآمدے میں بیٹھ کرزندگی اور موت کے متعلق سوچنے لگا۔ سینے ٹوریم ایک مرتبان سا لگتا ہے جس میں یہ مریض پیاز کی طرح سرکے میں ڈلے ہُوئے ہیں۔ ایک کانٹا آتا ہے اور جو پیاز اچھی طرح گل گئی ہے، اسے ڈھونڈتا ہے اور نکال کر لے جاتا ہے۔ یہ کتنی مضحکہ خیز تشبیہ تھی۔ لیکن جانے کیوں بار بار یہی میرے ذہن میں آئی۔ میں اس سے زیادہ اور کچھ نہ سوچ سکا کہ موت ایک بہت ہی بھونڈی چیز ہے۔ یعنی آپ اچھے بھلے جی رہے ہیں، ایک مرض کہیں سے آن چمٹتا ہے اور مرجاتے ہیں۔ افسانوی نقطہ نظر سے بھی زندگی کی کہانی کا یہ انجام کچھ چست معلوم نہیں ہوتا۔ برآمدے سے اٹھ کر اندر داخل ہُوا۔ دس پندرہ قدم اٹھائے ہوں گے کہ پیچھے سے آواز آئی۔

’’دفنا آئے آپ نمبر بائیس کو!‘‘

میں نے مڑ کر دیکھا۔ سفید بستر پر دو کالی آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔ یہ آنکھیں جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ ایک بنگالی عورت کی تھیں جو دوسرے مریضوں سے بالکل الگ طریقے پر اپنی موت کا انتظار کررہی تھی۔ اس نے جب یہ کہا

’’دفنا آئے آپ نمبر بائیس کو؟‘‘

تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ہم انسان کو نہیں بلکہ ایک عدد دفنا کر آرہے ہیں۔ اور سچ پوچھیے تو اس مریض کو قبر کے سپرد کرتے ہوئے میرے دل و دماغ کے کسی کونے میں بھی یہ احساس پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک انسان تھا، اور اس کی موت سے دنیا میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ میں جب مزید گفتگو کرنے کے لیے اس بنگالی عورت کے پاس بیٹھا جس کی سیاہ فام آنکھیں ایسی ہولناک بیماری کے باوجود تروتازہ اور چمکیلی تھیں تو اس نے ٹھیک اسی طرح مسکرا کر کہا۔

’’میرا نمبرچار ہے۔ ‘‘

پھر اس نے اپنی سفید چادرکی چند سلوٹیں اپنے استخوانی ہاتھ سے درست کیں اور بڑے بے تکلف انداز میں کہا۔

’’آپ مردوں کو جلانے دفنانے میں کافی دلچسپی لیتے ہیں۔ ‘‘

میں نے یونہی سا جواب دیا۔

’’نہیں تو‘‘

۔ اس کے بعد یہ مختصر گفتگو ختم ہو گئی اور میں اپنے دوست کے پاس چلا گیا۔ دوسرے روز میں حسب معمول سیر کو نکلا۔ ہلکی ہلکی پھوارگررہی تھی۔ جس سے فضا بہت ہی پیاری اور معصوم ہو گئی تھی، یعنی جیسے اس کو ان مریضوں سے کوئی سروکار ہی نہیں جو اس میں جراثیم بھرے سانس لے رہے تھے۔ چیڑ کے لانبے لانبے درخت، نیلی نیلی دُھند میں لپٹی ہوئی پہاڑیاں، سڑک پر لڑھکتے ہُوئے پتھر۔ پست قد مگرصحت مند بھینسیں۔ ہر طرف خوبصورتی تھی۔ ایک پراعتماد خوبصورتی جسے کسی چور کا کھٹکا نہیں تھا۔ میں سیر سے لوٹ کر سینے ٹوریم میں داخل ہوا تو مریضوں کے اترے ہوئے چہروں ہی سے مجھے معلوم ہو گیا کہ ایک اور عدد چل بسا ہے۔ گیارہ نمبر، یعنی پدما۔ اس کی دھنسی ہوئی آنکھوں میں جو کھلی رہ گئی تھیں میں نے بہت سے خوفزدہ

’’کیوں‘‘

اور ان کے پیچھے بے شمار ڈرپوک

’’نہیں‘‘

منجمد پائے۔ بے چاری! پانی برس رہا تھا، اس لیے خشک ایندھن جمع کرنے میں بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہر حال، اس غریب کی لاش کو آگ کے سپرد کردیا گیا۔ میرا دوست وہیں چتا کے پاس بیٹھا رہا اور میں اس کا سامان ٹھیک کرنے کے لیے سینے ٹوریم آگیا۔ اندر داخل ہوتے ہُوئے مجھے پھر اس بنگالی عورت کی آواز آئی۔

’’بہت دیرلگ گئی آپ کو!‘‘

’’جی ہاں بارش کی وجہ سے خشک ایندھن نہیں مل رہا تھا اس لیے دیر ہو گئی۔ ‘‘

’’اور جگہوں پر تو ایندھن کی دکانیں ہوتی ہیں، پر میں نے سنا ہے یہاں اِدھر اُدھر سے خود ہی لکڑیاں کاٹنی اور چننی پڑتی ہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’ذرا بیٹھ جائیے۔ ‘‘

میں اس کے پاس اسٹول پر بیٹھ گیا۔ تو اس نے ایک عجیب سا سوال کیا۔

’’تلاش کرتے کرتے جب آپ کو خشک لکڑی کا ٹکرا مل جاتا ہو گا تو آپ بہت خوش ہوتے ہوں گے؟‘‘

اس نے میرے جواب کا انتظار نہ کیا اور اپنی چمکیلی آنکھوں سے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔

’’موت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میں نے کئی بار سوچا ہے لیکن سمجھ نہیں سکا۔ ‘‘

وہ داناؤں کی طرح مسکرائی اور بچوں کے سے انداز میں کہنے لگی۔

’’میں کچھ کچھ سمجھ سکی ہوں۔ اس لیے کہ بہت موتیں دیکھ چکی ہوں۔ اتنی کہ آپ شاید ہزار برس بھی زندہ رہ کر نہ دیکھ سکیں۔ میں بنگال کی رہنے والی ہوں جہاں کا قحط آج کل بہت مشہور ہے۔ آپ کو تو پتہ ہی ہو گا۔ لاکھوں آدمی وہاں مر چکے ہیں۔ بہت سی کہانیاں چھپ چکی ہیں۔ سینکڑوں مضمون لکھے جا چکے ہیں۔ پھر بھی سنا ہے کہ انسان کی اس بپتا کا اچھی طرح نقشہ نہیں کھینچا جاسکا۔ موت کی اسی منڈی میں موت کے متعلق میں نے سوچا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا؟‘‘

اس نے اسی انداز سے جواب دیا۔

’’میں نے سوچا کہ ایک آدمی کا مرنا موت ہے۔ ایک لاکھ آدمیوں کا مرنا تماشاہے۔ سچ کہتی ہوں موت کا وہ خوف جو کبھی مرے دل پر ہُوا کرتا تھا، بالکل دور ہو گیا۔ ہر بازارمیں دس بیس ارتھیاں اور جنازے نظر آئیں تو کیا موت کا اصلی مطلب فوت نہیں ہو جائے گا۔ میں صرف اتنا سمجھ سکی ہُوں کہ ایسی بے تحاشا موتوں پر رونا بیکار ہے۔ بیوقوفی ہے۔ اوّل تو اتنے آدمیوں کا مرناہی سب سے بڑی حماقت ہے۔ ‘‘

میں نے فوراً ہی پوچھا۔

’’کس کی۔ ‘‘

’’کسی کی بھی ہو۔ حماقت، حماقت ہے۔ ایک بھرے شہر پر آپ اوپر سے بم گرا دیجیے۔ لوگ مر جائیں گے۔ کنوؤں میں زہر ڈال دیجیے۔ ۔ جو بھی ان کا پانی پیے گا۔ مر جائے گا۔ یہ کال، قحط، جنگ اور بیماریاں سب واہیات ہیں۔ ان سے مرجانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اوپر سے چھت آگرے۔ لیکن دل کی ایک جائز خواہش کی موت بہت بڑی موت ہے۔ انسان کو مارنا کچھ نہیں، لیکن اس کی فطرت کو ہلاک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کچھ دیر کے لیے چپ ہو گئی۔ لیکن پھر کروٹ بدل کر کہنے لگی۔

’’میرے خیالات پہلے ایسے نہیں تھے۔ سچ پوچھیے تو مجھے سوچنے کا وقوف ہی نہیں تھا۔ لیکن اس قحط نے مجھے ایک بالکل نئی دنیا میں پھینک دیا۔ ‘‘

رک کر ایک دم وہ میری طرف متوجہ ہوئی۔ میں اپنی کاپی میں یاداشت کے طور پر اس کی چند باتیں نوٹ کررہا تھا۔

’’یہ آپ کیا لکھ رہے ہیں؟‘‘

میں نے صاف گوئی سے کام لیا اور کہا۔

’’میں افسانہ نگار ہوں۔ جو باتیں مجھے دلچسپ معلوم ہوں، نوٹ کرلیا کرتا ہوں۔ ‘‘

’’اوہ! تو پھر میں آپ کو اپنی پوری کہانی سناؤں گی۔ ‘‘

تین گھنٹے تک نحیف آواز میں وہ مجھے اپنی کہانی سناتی رہی۔ میں اب اپنے الفاظ میں اسے بیان کرتا ہوں۔ غیر ضروری تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ بنگال میں جب قحط پھیلا اور لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگے تو سکینہ کو اس کے چچا نے ایک اوباش آدمی کے پاس پانچ سو روپے میں بیچ دیا جو اسے لاہور لے آیا۔ اور ایک ہوٹل میں ٹھہرا کر اس سے روپیہ کمانے کی کوشش کرنے لگا۔ پہلا آدمی جو اس کے پاس اس غرض سے لایا گیا ایک خوبصورت اور تندرست نوجوان تھا۔ قحط سے پہلے جب روٹی کپڑے کی فکر نہیں تھی، وہ ایسے ہی نوجوان کے خواب دیکھا کرتی تھی جو اس کا شوہر بنے۔ مگر یہاں اس کا سودا کیا جارہا تھا۔ ایک ایسے فعل کے لیے اسے مجبور کیا جارہا تھا جس کے تصور ہی سے وہ کانپ کانپ اٹھتی تھی۔ جب وہ کلکتہ سے لاہور لائی گئی تو اسے معلوم تھاکہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ وہ باشعور لڑکی تھی۔ اچھی طرح جانتی تھی کہ چند ہی روز میں اسے ایک سکہ بنا کر جگہ جگہ بھنایا جائے گا۔ اس کو یہ سب کچھ معلوم تھا لیکن اس قیدی کی طرح جو رحم کی امید نہ ہونے پربھی آس لگائے رہتا ہے، وہ کسی ناممکن حادثے کی متوقع تھی۔ یہ حادثہ تو نہ ہوا لیکن خود اس میں اتنی ہمت پیدا ہو گئی کہ وہ رات کوکچھ اپنی ہوشیاری سے اور کچھ اس نوجوان کی خامکاری کی بدولت ہوٹل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ اب لاہور کی سڑکیں تھیں اور ان کے نئے خطر۔ قدم قدم پر ایسا لگتا تھا کہ لوگوں کی نظریں اسے کھا جائیں گی۔ لوگ اسے کم دیکھتے تھے، لیکن اس کی جوانی کو جو چھپنے والی چیز نہیں تھی، کچھ اتنا زیادہ گھورتے تھے، جیسے برمے سے اس کے اندر سوراخ کررہے ہیں۔ سونے چاندی کا کوئی زیور یا موتی ہوتا تو وہ شاید لوگوں کی نظروں سے بچا لیتی۔ مگر وہ ایک ایسی چیز کی حفاظت کررہی تھی جس پر کوئی بھی آسانی کے ساتھ ہاتھ مار سکتا تھا۔ تین دن اور تین راتیں وہ کبھی ادھر کبھی ادھر گھومتی بھٹکتی رہی۔ بھوک کے مارے اس کا بُرا حال تھا مگر اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اس کا یہ پھیلا ہوا ہاتھ اس کی عصمت سمیت کسی اندھیری کوٹھری میں کھینچ لیا جائے گا۔ دکانوں میں سجی ہوئی مٹھائیاں دیکھتی تھی۔ بھٹیار خانوں میں لوگ بڑے بڑے نوالے اٹھاتے تھے۔ اس کے ہر طرف کھانے پینے کی چیزوں کا بڑی بیدردی سے استعمال ہوتا تھا۔ لیکن جیسے دنیا میں اس کے مقسوم کا کوئی دانہ ہی نہیں رہا تھا۔ اسے زندگی میں پہلی بار کھانے کی اہمیت معلوم ہوئی۔ پہلے اس کو کھانا ملتا تھا، اب وہ کھانے سے ملنا چاہتی تھی۔ چار روز کے فاقوں نے اسے اپنی ہی نظروں میں ایک بہت بڑا شہید تو بنا دیا۔ لیکن اس کے جسم کی ساری بنیادیں ہل گئیں۔ وہ جو روحانی تسکین ہوتی ہے ایک وقت آگیا کہ وہ بھی سکڑنے لگی۔ چوتھے روز شام کو وہ ایک گلی میں سے گزر رہی تھی۔ جانے کیا جی میں آئی کہ ایک مکان کے اندر گھس گئی۔ اندر چل کر خیال آیا کہ نہیں، کوئی پکڑ لے گا۔ اور تمام کیے کرائے پر پانی پھر جائیگا۔ اب اس میں اتنی طاقت بھی تو نہیں۔ لیکن سوچتے سوچتے وہ صحن کے پاس پہنچ چکی تھی۔ ملگجے اندھیرے میں اس نے گھڑونچیوں پر دو صاف گھڑے دیکھے۔ اورانکے ساتھ ہی پھلوں سے بھرے ہوئے دو تھال۔ سیب۔ ناشپاتیاں۔ انار۔ اس نے سوچا انار بکواس ہے۔ سیب اور ناشپاتیاں ٹھیک ہیں۔ گھڑے کے اوپر چینی کے بجائے ایک پیالہ پڑا تھا۔ اس نے طشتری اٹھا کر دیکھا تو ملائی سے پُر تھا۔ اس نے اٹھا لیا اور بیشتر اس کے کہ وہ کچھ سوچ سکے، جلدی جلدی اس نے نوالے اٹھانے شروع کیے ساری ملائی اس کے پیٹ میں تھی۔ کتنا راحت بخش لمحہ تھا۔ بھول گئی کہ کسی غیر کے مکان میں ہے۔ وہیں بیٹھ کر اس نے سیب اور ناشپاتیاں کھانا شروع کردیں۔ گھڑونچی کے نیچے کچھ اور بھی تھا۔ یخنی۔ ٹھنڈی تھی لیکن اس نے ساری پتیلی ختم کردی۔ ایک دم جانے کیا ہوا۔ پیٹ کی گہرائیوں سے غبار سا اٹھا اور اس کاسر چکرانے لگا۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کہیں سے کھانسی کی آواز آئی۔ بھاگنے کی کوشش کی مگر چکرا کر گری اور بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو وہ ایک صاف ستھرے بستر میں لیٹی تھی۔ سب سے پہلے اسے خیال آیا۔ کہیں میں لوٹی تو نہیں گئی۔ لیکن فوراً ہی اسے اطمینان ہو گیا کہ وہ صحیح سلامت تھی۔ کچھ اور سوچنے ہی لگی تھی کہ پتلی پتلی کھانسی کی آواز آئی۔ ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ کمرے میں داخل ہوا۔ سکینہ نے اپنے گاؤں میں بہت سے قحط کے مارے انسان دیکھے تھے مگر یہ انسان ان سے بہت مختلف تھا۔ بے چارگی اس کی آنکھوں میں بھی تھی مگر اس میں وہ اناج کی ترسی ہوئی خواہش نہیں تھی۔ اس نے پیٹ کے بھوکے دیکھے تھے جن کی نگاہوں میں ایک ننگی اور بھونڈی للچاہٹ تھی لیکن اس کی مرد کی نگاہوں میں اسے ایک چلمن سی نظر آئی۔ ایک دھندلا پردہ جس کے پیچھے سے وہ ڈر ڈر کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ خوفزدہ سکینہ کو ہونا چاہیے لیکن سہما ہوا وہ تھا۔ اس نے رک رک کر کچھ جھینپتے ہوئے عجیب قسم کا حجاب محسوس کرتے ہوئے اس سے کہا۔

’’جب تم کھا رہی تھیں تو میں تم سے دور کھڑا تھا۔ اف! میں نے کن مشکلوں سے اپنی کھانسی روکے رکھی کہ تم آرام سے کھا سکو اور میں یہ خوبصورت منظر زیادہ دیر تک دیکھ سکوں۔ بھوک بڑی پیاری چیز ہے۔ لیکن ایک میں ہوں کہ اس نعمت سے محروم ہُوں۔ نہیں، محروم نہیں کہنا چاہیے کیونکہ میں نے خود اس کو ہلاک کیا ہے۔ سکینہ کچھ بھی سمجھ نہ سکی۔ وہ ایک پہیلی تھی۔ جو بوجھتے بوجھتے ایک اور پہیلی بن جاتی تھی لیکن اس کے باوجود سکینہ کو اس کی باتیں اچھی لگیں جن میں انسانیت کی گرمی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی ساری آپ بیتی اسکو سنا دی۔ وہ خاموش سنتا رہا جیسے اس پر اثر ہی نہیں ہوا۔ لیکن جب سکینہ اس کا شکریہ ادا کرنے لگی تو اس کی آنکھیں جو آنسوؤں سے بے نیاز معلوم ہوتی تھیں ایک دم نمناک ہو گئیں اور اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’یہیں رہ جاؤ سکینہ۔ میں دق کا بیمار ہوں۔ مجھے کوئی کھانا۔ کوئی پھل اچھا نہیں لگتا۔ تم کھایا کرنا اور میں تمہیں دیکھا کروں گا۔ ‘‘

لیکن فوراً ہی وہ مسکرانے لگا۔

’’کیا حماقت ہے۔ کوئی اور سنتا تو کیا کہتا۔ یعنی دوسرا کھایا کرے اور میں دیکھا کروں گا۔ نہیں سکینہ۔ ویسے میری دلی خواہش ہے کہ تم یہیں رہو۔ ‘‘

سکینہ کچھ سوچنے لگی۔

’’جی نہیں۔ میرا مطلب ہے آپ اس گھر میں اکیلے ہیں اور میں۔ نہیں نہیں۔ بات یہ ہے کہ میں۔ ‘‘

یہ سن کر اس کو کچھ ایسا صدمہ پہنچا کہ وہ تھوڑی دیر کے بالکل کھو سا گیا۔ جب بولا تو اس کی آواز کھوکھلی تھی۔

’’میں دس برس تک سکول میں لڑکیاں پڑھاتا رہا ہُوں ہمیشہ میں نے ان کو اپنی بچیاں سمجھا۔ تم۔ تم ایک اور ہو جاؤ گی۔ ‘‘

سکینہ کے لیے کوئی اور جگہ ہی نہیں تھی! چنانچہ اس پروفیسر کے ہاں ٹھہر گئی۔ وہ ایک برس اور چند مہینے زندہ رہا۔ اس دوران میں بجائے اس کے کہ سکینہ اس کی خبر گیری کرتی، الٹا وہ جو کہ بیمار تھا، اس کی آرائش و آرام پہنچانے میں کچھ اس بے کلی سے مصروف رہا جیسے ڈاک جانے والی ہے اور وہ جلدی جلدی ایک خط میں جو بات اس کے ذہن میں آتی ہے لکھتا جارہا ہے۔ اس کی اس توجہ نے سکینہ کو جسے توجہ کی ضرورت تھی۔ چند مہینوں میں نکھار دیا۔ اب پروفیسر اس سے کچھ دور رہنے لگا۔ مگر اس کی توجہ میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخری دنوں میں اچانک اس کی حا لت خراب ہو گئی۔ ایک رات جب کہ سکینہ اس کے پاس ہی سو رہی تھی، وہ ہڑ بڑا کر اٹھا اور زور سے چلانے لگا۔

’’سکینہ سکینہ۔ ‘‘

یہ چیخیں سُن کر سکینہ گھبرا گئی۔ پروفیسر کی دھنسی ہوئی آنکھوں جو چلمن سی ہوا کرتی تھی موجود نہیں تھی۔ اب ایک اتھاہ دکھ سکینہ کو ان میں نظر آیا۔ پروفیسر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سکینہ کے ہاتھ پکڑے اور کہا۔

’’میں مر رہا ہوں۔ لیکن اس موت کا مجھے دُکھ نہیں۔ کیونکہ بہت سی موتیں میرے اندر واقع ہو چکی ہیں۔ تم سُننا چاہتی ہو میری داستان۔ جاننا چاہتی ہو میں کیا ہوں۔ سنو۔ ایک جھوٹ ہوں۔ بہت بڑا جھوٹ۔ میری ساری زندگی اپنے آپ سے جھوٹ بولنے اور پھر اسے سچ بنانے میں گزری ہے۔ اف کتنا تکلف دہ غیر فطری اور غیر انسانی کام تھا۔ میں نے ایک خواہش کو مارا تھا۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس قتل کے بعد مجھے اور بہت سے خون کرنے پڑیں گے۔ سکینہ! یہ میں جو کچھ کہہ رہا ہُوں فلسفیانہ بکواس ہے، سیدھی بات یہ ہے کہ میں اپنا کیریکٹر اونچا کرتا رہا اور خود انتہائی پستیوں کے دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ میں مر جاؤں گا اور یہ کیریکٹر۔ یہ بے رنگ پھریرا میری خاک پر اُڑتا رہے گا۔ وہ تمام لڑکیاں جنہیں میں سکول میں پڑھایا کرتا تھا۔ کبھی مجھے یاد کریں گی تو کہیں گی ایک فرشتہ تھا جو انسانوں میں چلا آیا تھا۔ تم بھی میری نیکیوں کو نہیں بھولو گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب سے تم اس گھرمیں آئی ہو۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب میں نے تمہاری جوانی کو دزدیدہ نگاہوں سے نہ دیکھا ہو۔ میں نے تصور میں کئی بار تمہارے ہونٹوں کو چوما ہے۔ کئی بار میں نے تمہاری انھوں پر اپنا سر رکھا ہے۔ لیکن ہر بار مجھے ان تصویروں کو پُرزے پُرزے کرنا پڑا۔ پھر ان پرزوں کو جلا کر میں نے راکھ بنائی کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ میں مر جاؤں گا۔ کاش مجھ میں اتنی ہمت ہوتی کہ اپنے اس اونچے کیریکٹر کو ایک لمبے بانس پر لنگور کی طرح بٹھا دیتا۔ اور ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو اکٹھا کرتا کہ آؤ دیکھو اورعبرت حاصل کرو۔ ‘‘

اس واقعہ کے بعد پروفیسر صرف پانچ روز زندہ رہا۔ سکینہ کا بیان ہے کہ مرنے سے پہلے وہ بہت خوش تھا۔ جب وہ آخری سانس لے رہا تھا تو اس نے سکینہ سے صرف اتنا کہا۔

’’سکینہ! میں لالچی نہیں۔ زندگی کے یہ آخری پانچ دن میرے لیے بہت ہیں۔ میں تمہارا شکر گزار ہوں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بیمار

عجب بات ہے کہ جب بھی کسی لڑکی یا عورت نے مجھے خط لکھا بھائی سے مخاطب کیا اور بے ربط تحریر میں اس بات کا ضرور ذکر کیا کہ وہ شدید طور پر علیل ہے۔ میری تصانیف کی بہت تعریفیں کیں۔ زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ لڑکیاں اور عورتیں جو مجھے خط لکھتی ہیں بیمار کیوں ہوتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ میں خود اکثر بیمار رہتا ہوں۔ یا کوئی اور وجہ ہو گی۔ جو اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ میری ہمدردی چاہتی ہیں۔ میں ایسی لڑکیوں اور عورتوں کے خطوط کا عموماً جواب نہیں دیا کرتا، لیکن بعض اوقات دے بھی دیا کرتا ہوں آخر انسان ہوں۔ خط اگر بہت ہی دردناک ہو تو اس کا جواب دینا انسانی فرائض میں شامل ہو جاتا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ایک خط موصول ہوا، جو کافی لمبا تھا۔ اس میں بھی ایک خاتون نے جس کا نام میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا یہ لکھا تھا کہ وہ میری تحریروں کی شیدائی ہے لیکن ایک عرصے سے بیمار ہے۔ اس کا خاوند بھی دائم المریض ہے۔ اس نے اپنا خیال ظاہر کیا تھا کہ جو بیماری اسے لگی ہے اس کے خاوند کی وجہ سے ہے۔ میں نے اس خط کا جواب نہ دیا لیکن اس کی طرف سے دوسرا خط آیا جس میں یہ گلہ تھا کہ میں نے اُس کے پہلے خط کی رسید تک نہ بھیجی۔ چنانچہ مجھے مجبوراً اس کو خط لکھنا پڑا۔ مگر بڑی احتیاط کے ساتھ۔ میں نے اس خط میں اس سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ اور بھی زیادہ علیل ہو گئی ہے اور مرنے کے قریب ہے۔ یہ پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا تھا۔ چنانچہ اسی تاثر کے ماتحت میں نے بڑے جذباتی انداز میں اُسے یہ خط لکھا اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے اس سے مایوس ہو جانا موت ہے اگر تم خود میں اتنی قوت ارادی پیدا کر لو تو بیماری کا نام و نشان تک نہ رہے گا میں پچھلے دنوں موت کے منہ میں تھا۔ سب ڈاکٹر جواب دے چکے تھے۔ لیکن میں نے کبھی موت کا خیال بھی نہیں کیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ڈاکٹر حیرت میں گُم ہوکے رہ گئے اور میں ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ میں نے اُس کو یہ بھی لکھا کہ قوتِ ارادی ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہر ناممکن چیز کو ممکن بنا دیتی ہے۔ تم اگر بیمار ہو تو خود کو یقین دلا دو کہ نہیں تم بیمار نہیں اچھی بھلی تندرست ہو۔ میرے اس خط کے جواب میں اُس نے جو کچھ لکھا اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس پر میرے وعظ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بڑا طویل خط تھا۔ پانچ صفحوں پر مشتمل۔ اس کی منطق اور اس کا فلسفہ عجیب قسم کا تھا۔ وہ اس بات پر مصر تھی کہ خدا کو یہ منظور نہیں کہ وہ زیادہ دیر تک اس دنیا میں زندہ رہے۔ اُس کے علاوہ اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ میں اپنی تازہ کتابیں اُسے بھیجوں۔ میں نے دو نئی کتابیں اس کو بھیج دیں۔ ان کی رسید آگئی۔ بہت بہت شکریہ ادا کیا گیا تھا اور میری تعریفیں ہی تعریفیں تھیں۔ مجھے بڑی کوفت ہوئی۔ جو کتابیں میں نے اس کو بھیجی تھیں، میری نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ اس لیے کہ وہ صرف ہر روز کچھ کمانے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ چنانچہ میں نے اُسے لکھا کہ تم نے میری دو کتابوں کی جو اتنی تعریف کی ہے، غلط ہے۔ یہ کتابیں محض بکواس ہیں تم میری پرانی کتابیں پڑھو۔ اس میں تم پوری طرح مجھے جلوہ گر پاؤ گی۔ میں نے اس خط میں افسانہ نویسی کے فن پر بہت کچھ لکھ دیا تھا۔ بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یہ جھک کیوں ماری۔ اگر لکھنا ہی تھا تو کسی رسالے یا پرچے کے لیے لکھتا۔ یہ کیا ہے ایک عورت کو جس کے تم صورت آشنا بھی نہیں اتنا طویل اور پُر مغز خط لکھ دیا ہے۔ بہر حال جب لکھ دیا تھا تو اُسے پوسٹ کرنا ہی تھا۔ اس کا جواب تیسرے روز آگیا۔ اب کے مجھے پیارے بھائی جان سے مخاطب کیا گیا تھا۔ اُس نے میری پرانی تصنیفات منگوالی تھیں اور وہ انھیں پڑھ رہی تھی۔ لیکن بیماری روز بروز بڑھ رہی تھی اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ کسی حکیم کا علاج کیوں نہ کرائے، کیونکہ وہ ڈاکٹروں سے بالکل نا اُمید ہو چکی تھی۔ میں نے اُسے جواب میں لکھا، علاج تم کسی سے بھی کراؤ۔ خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا حکیم۔ لیکن یاد رکھو سب سے زیادہ اچھا معالج خود آدمی آپ ہوتا ہے۔ اگر تم اپنی ذہنی پریشانیاں دُور کر دو تو چند روز میں تندرست ہو جاؤ گی۔ میں نے اس موضوع پر ایک طویل لیکچر لکھ کر اُس کو بھیجا۔ ایک مہینے کے بعد اس کی رسید پہنچی، جس میں یہ لکھا تھا کہ اُس نے میری نصیحت پر عمل کیا۔ لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور یہ کہ وہ مجھ سے ملنے آرہی ہے۔ دو تین روز میں حیدر آباد سے بمبئی پہنچ جائے گی اور چند روز میرے ہاں ٹھہرے گی۔ میں بہت پریشان ہوا، چھڑا چھٹانک تھا۔ مگر ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ جس میں دو کمرے تھے۔ میں نے سوچا اگر یہ محترمہ آ گئیں تو میں ایک کمرہ اُن کو دے دوں گا۔ اس میں وہ چند دن گزارنا چاہیں گزار لیں۔ علاج کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔ اس لیے کہ وہاں کا ایک بڑا حکیم میرا بڑا مہربان تھا۔ چھ روز تک آپ یہ سمجھیے کہ میں سولی پر لٹکا رہا۔ اخبار والے نے دروازے پردستک دی تو میں یہ سمجھا کہ وہ محترمہ تشریف لے آئیں۔ باورچی خانے میں نوکر نے اگر کسی برتن پر راکھ ملنا شروع کی تو میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ شاید یہ آواز اس عورت کے سینڈلوں کی ہے۔ میں ہندو مسلم فسادات کی خبریں پڑھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں یہ سمجھا کہ دُودھ والا ہے۔ چنانچہ میں نے نوکر کو آواز دی

’’دیکھو رحیم کون ہے؟‘‘

رحیم چائے بنا رہا تھا۔ وہ اُبلتی ہوئی کیتلی کو وہیں چولھے پر چھوڑ کر باہر نکلا اور دروازہ کھولا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ میرے کمرے میں آیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا

’’ایک عورت آئی ہے‘‘

میں حیرت زدہ ہو گیا

’’عورت؟‘‘

’’جی ہاں۔ ایک عورت باہر کھڑی ہے۔ وہ آپ سے ملنا چاہتی ہے‘‘

میں سمجھ گیا کہ یہ عورت وہی ہو گی۔ بیمار، جو مجھے خط لکھتی رہی ہے چنانچہ میں نے رحیم سے کہا اُس کو اندر لے آؤ اور بڑے کمرے میں بٹھا دو اور کہہ دو کہ صاحب ابھی آ جائیں گے۔ ‘‘

جی اچھا یہ کہہ کر رحیم چلا گیا۔ میں نے اخبار ایک طرف رکھ دیا اور سوچنے لگا کہ یہ عورت کس قسم کی ہو گی۔ دق کی ماری ہوئی یا فالج زدہ۔ میرے پاس کیوں آئی ہے؟۔ نہیں مجھ سے ملنے آئی ہے، غالباً یہاں کسی طبیب سے اپنا علاج کرانے آئی ہے۔ میں اُٹھا اور غسل خانے میں چلا گیا۔ وہاں دیر تک نہاتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ عورت جو اُس کو اتنے لمبے چوڑے خط لکھتی رہی اور جس کو کوئی خطرناک بیماری چمٹی ہوئی ہے کس شکل و صورت کی ہو گی؟ بے شمار شکلیں میرے تصور میں آئیں۔ پہلے میں نے سوچا اپاہج ہو گی اور مجھے اس کو کچھ دینا پڑے گا۔ اتفاق کی بات ہے کہ تین تاریخ تھی جب وہ آئی۔ میرے پاس تنخواہ کے تین سو روپے تھے جو اِدھر اُدھر کے بِل ادا کرنے کے بعد بچ گئے تھے۔ اس لیے میری پریشانی میں اضافہ نہ ہوا۔ میں نے نہاتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر اسے مدد کی ضرورت ہے تو میں اُسے ایک سو روپے دے دُوں گا۔ لیکن فوراً مجھے خیال آیا کہ شاید اس کو دق ہو اور مجھے اس کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑے۔ یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا اس لیے کہ میرے کئی دوست جے جے ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ میں ان میں کسی ایک سے بھی کہہ دُوں کہ اس معذور عورت کو داخل کر لو تو وہ کبھی انکار نہ کریں گے۔ میں کافی دیر تک نہاتا اور اس عورت کے متعلق سوچتا رہا۔ عورتوں سے ملتے ہوئے بڑی اُلجھن محسوس ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک جگہ نکاح تو کر لیا لیکن ڈیڑھ برس تک یہی سوچتا رہا کہ اُسے اگر اپنے گھر لے آؤں تو کیا ہو گا؟‘‘

جو ہونا تھا وہ تو خیر ہو ہی جاتا اگر سب سے بڑا مسئلہ جو مجھے پریشان کیے ہوئے تھا یہ تھا کہ جس نے ساری زندگی میں کسی عورت کی قربت حاصل نہیں کی تھی اپنی بیوی سے کس طرح پیش آتا۔ اب ایک عورت ساتھ والے کمرے میں بیٹھی میرا انتظار کررہی تھی اور میں ڈونگے پہ ڈونگے بھر کے اپنے بدن پر بیکار ڈال رہا تھا میں اصل میں خود کو اس عورت سے ملاقات کرنے کے لیے تیار کررہا تھا۔ کافی دیر نہانے کے بعد میں غسل خانے سے باہر نکلا۔ کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کیے۔ بالوں میں تیل لگایا۔ کنگھی کی اور سوچتے سوچتے پلنگ پر لیٹ گیا۔ چندلمحات کے بعدرحیم آیا اور اُس نے مجھ سے کہا

’’وہ عورت پوچھتی ہے کہ آپ کب فارغ ہوں گے؟‘‘

میں نے رحیم سے کہا

’’ان سے کہہ دو بس پانچ منٹ میں آتے ہیں۔ کپڑے تبدیل کر رہے ہیں‘‘

رحیم

’’جی اچھا‘‘

کہہ کر چلا گیا۔ میں نے سوچا کہ اب اور زیادہ سوچنا فضول ہے۔ چلو اُس سے مل ہی لیں۔ اتنی خط و کتابت ہوتی رہی ہے اور پھر وہ اتنی دُور سے ملنے آئی ہے بیمار ہے۔ انسانی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس کی خاطر داری اوردل جوئی کی جائے۔ میں نے پلنگ پر سے اُٹھ کر سلیپر پہنے اور دوسرے کمرے میں جہاں وہ عورت تھی داخل ہوا۔ وہ برقع پہنے تھی میں سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اس کے بُرقعے کے سیاہ نقاب میں صرف اس کی ناک دکھائی دی جو کافی تیکھی تھی۔ میں بہت اُلجھن محسوس کر رہا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بہر حال میں نے گفتگو کا آغاز کیا

’’مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کو اتنی دیر انتظار کرنا پڑا۔ در اصل میں اپنی عادت کی وجہ سے۔ ‘‘

اُس عورت نے میری بات کاٹ کر کہا

’’جی کوئی بات نہیں۔ آپ خواہ مخواہ تکلیف کرتے ہیں۔ میں تو انتظار کی عادی ہو چکی ہوں۔ ‘‘

میری سمجھ میں کچھ نہ آیا میں کیا کہوں۔ بس جو لفظ زبان پر آئے اُگل دیے آپ کس کا انتظار کرتی رہی ہیں اُس نے اپنے چہرے پر نقاب تھوڑی سی اُٹھائی۔ اس لیے کہ وہ اپنے ننھے سے رومال سے اپنے آنسو پونچھنا چاہتی تھی۔ آنسو پونچھنے کے بعد اُس نے مجھ سے پوچھا

’’آپ نے کیا کہا تھا مجھ سے؟‘‘

اُس کی ٹھوڑی بڑی پیاری تھی جیسے بنارسی آم کی کیسری۔ جب اس کی نقاب اُٹھی تھی تو میں نے اُس کی ایک جھلک دیکھ لی تھی۔ میں تو اس کے سوال کا جواب نہ دے سکا اس لیے کہ میں اس کی ٹھوڑی میں گم ہو گیا تھا۔ آخر اُسے ہی بولنا پڑا

’’آپ نے پوچھا تھا تم کس کا انتظار کرتی رہی ہو۔ جواب سننا چاہتے ہیں آپ؟‘‘

’’جی ہاں۔ فرمائیے۔ لیکن دیکھیے کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے قنوطیت کا اظہار ہو‘‘

اُس عورت نے اپنی نقاب اُلٹ دی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کالی بدلیوں میں چاند نکل آیا ہے۔ اس نے نیچی نگاہوں سے مجھ سے کہا

’’جانتے ہیں آپ میں کون ہوں‘‘

میں نے جواب دیا

’’جی نہیں‘‘

اُس نے کہا

’’میں آپ کی بیوی ہوں۔ جس سے آپ نے آج سے ڈیڑھ برس پہلے نکاح کیا تھا۔ میں آپ کو لکھتی رہی ہوں کہ میں بیمار ہوں۔ میں بیمار نہیں لیکن اگر آپ نے اسی طرح مجھے انتظار میں رکھا تو یقیناًمر بھی جاؤں گی۔ ‘‘

میں دوسرے روز ہی اُس کو گھر لے آیا بڑے ٹھاٹ سے۔ اب میں بہت خوش ہوں۔ یہ واقعہ مجھے میرے ایک دوست نے جو افسانہ نگار اور شاعر ہے سُنایا تھا جسے میں نے اپنے انداز میں رقم کر دیا۔ سعادت حسن منٹو ۶اکتوبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

بیگو

’’تسلیاں اور دلاسے بیکار ہیں۔ لوہے اورسونے کے یہ مرکب میں چھٹانکوں پھانک چکا ہُوں۔ کون سی دوا ہے جو میرے حلق سے نہیں اتاری گئی میں آپ کے اخلاق کا ممنون ہوں مگر ڈاکٹر صاحب میری موت یقینی ہے۔ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ میں دق کا مریض نہیں۔ کیا میں ہر روز خون نہیں تھوکتا؟ آپ یہی کہیں گے کہ میرے گلے اور دانتوں کی خرابی کا نتیجہ ہے مگر میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میرے دونوں پھیھپڑے خانہ ءِ زنبور کی طرح مشبک ہو چکے ہیں۔ آپ کے انجکشن مجھے دوبارہ زندگی نہیں بخش سکتے۔ دیکھیے میں اس وقت آپ سے باتیں کررہا ہوں۔ مگرسینے پر ایک وزنی انجن دوڑتا ہوا محسوس کررہا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک تاریک گڑھے میں اتر رہا ہوں۔ قبر بھی تو ایک تاریک گڑھا ہے۔ آپ میری طرف اس طرح نہ دیکھیے ڈاکٹر صاحب، مجھے اس چیز کا کامل احساس ہے کہ آپ اپنے ہسپتال میں کسی مریض کا مرنا پسند نہیں کرتے مگر جو چیز اٹل ہے وہ ہوکے رہے گی۔ آپ ایسا کیجیے کہ مجھے یہاں سے رخصت کردیجیے۔ میری ٹانگوں میں تین چار میل چلنے کی قوت ابھی باقی ہے کسی قریب کے گاؤں میں چلا جاؤں گا۔ اور۔ مگر میں تو رو رہا ہوں۔ نہیں نہیں۔ ڈاکٹرصاحب یقین کیجیے۔ میں موت سے خائف نہیں۔ یہ میرے جذبات ہیں، جو آنسوؤں کی شکل میں باہر نکل رہے ہیں۔ آہ! آپ کیا جانیں۔ اس مدقوق کے سینے سے کیا کچھ باہر نکلنے کومچل رہا ہے۔ میں اپنے انجام سے باخبر ہوں۔ آج سے پانچ برس پہلے بھی میں اس وحشت ناک انجام سے باخبر تھا۔ جانتا تھا۔ اور اچھی طرح جانتا تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد میری زندگی کی دوڑ ختم ہو جائے گی۔ میں نے اس گیند کو جسے آپ زندگی کے نام سے پکارتے ہیں، خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارکر کاٹا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں اس کھیل میں لذت محسوس کررہا ہوں۔ لذت۔ ہاں لذت۔ میں نے اپنی زندگی کی کئی راتیں حسن فروش عورتوں کے تاریک اڈوں پرگزاری ہیں۔ شراب کے نشے میں چورمیں نے کس بیدردی سے خود کو اس حالت میں پہنچایا۔ مجھے یاد ہے، انہی اڈوں کی سیاہ پیشہ عورت۔ کیا نام تھا اس کا؟۔ ہاں گلزار، مجھے اس بُری طرح اپنی جوانی کو کیچڑ میں لت پت کرتے دیکھ کر مجھ سے ہمدردی کرنے لگ گئی تھی۔ بیوقوف عورت، اس کو کیا بتاتا کہ میں اس کیچڑ میں کس کا عکس دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے گلزار اور اس کی دیگر ہم پیشہ عورتوں سے نفرت تھی اور اب بھی ہے لیکن کیا آپ مریضوں کو زہر نہیں کھلاتے اگر اس سے اچھے نتائج کی اُمید ہو۔ میرے درد کی دوا ہی تاریک زندگی تھی۔ میں نے بڑی کوشش اور مصیبتوں کے بعد اس انجام کو بُلایا ہے جس کی کچھ روئداد آپ نے میرے سرہانے ایک تختی پر لکھ کر لٹکا رکھی ہے۔ میں نے اس کے انتظار میں ایک ایک گھڑی کس بیتابی سے کاٹی ہے، آہ! کچھ نہ پوچھیے! لیکن اب مجھے دِلی تسکین حاصل ہو چکی ہے۔ میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا۔ میں دِق اور سِل کا مریض ہُوں اس مرض نے مجھے کھوکھلا کردیا ہے۔ آپ حقیقت کا اظہارکیوں نہیں کردیتے۔ بخدا اس سے مجھے اور تسکین حاصل ہو گی۔ میرا آخری سانس آرام سے نکلے گا۔ ہاں ڈاکٹر صاحب یہ تو بتائیے، کیا آخری لمحات واقعی تکلیف دہ ہوتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں میری جان آرام سے نکلے۔ آج میں واقعی بچوں کی سی باتیں کررہا ہوں۔ آپ اپنے دل میں یقیناًمسکراتے ہوں گے کہ میں آج معمول سے بہت زیادہ باتونی ہو گیا ہُوں۔ دیا جب بجھنے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی روشنی تیز ہو جایا کرتی ہے۔ کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟۔ آپ تو بولتے ہی نہیں اور میں ہوں کہ بولے جارہا ہوں۔ ہاں ہاں۔ بیٹھیے میرا جی چاہتا ہے۔ آج کسی سے باتیں کیے جاؤں۔ آپ نہ آتے تو خدا معلوم میری کیا حالت ہوتی۔ آپ کا سفید سُوٹ آنکھوں کو کس قدر بھلا معلوم ہورہا ہے۔ کفن بھی اسی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے پھر آپ میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو کیا معلوم کہ میں مرنے کے لیے کس قدر بے تاب ہوں۔ اگر مرنے والوں کو کفن خود پہننا ہو تو آپ دیکھتے میں اس کو کتنی جلدی اپنے گرد لپیٹ لیتا۔ میں کچھ عرصہ اور زندہ رہ کرکیا کروں گا؟ جب کہ وہ مر چکی ہے۔ میرا زندہ رہنا فضول ہے۔ میں نے اس موت کو بہت مشکلوں کے بعد اپنی طرف آمادہ کیا ہے اور اب میں اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا۔ وہ مر چکی ہے اور اب میں بھی مررہا ہوں۔ میں نے اپنی سنگدلی۔ وہ مجھے سنگدل کے نام سے پکارا کرتی تھی، کی قیمت ادا کردی ہے۔ اور خداگواہ ہے کہ اس کا کوئی بھی سکہ کھوٹا نہیں۔ میں پانچ سال تک ان کو پرکھتا رہا ہوں، میری عمر اس وقت پچیس برس کی ہے۔ آج سے ٹھیک سات برس پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ آہ ان سات برسوں کی روئداد کتنی حیرت افزا ہے اگر کوئی شخص اس کی تفصیل کاغذوں پرپھیلا دے تو انسانی دلوں کی داستانوں میں کیسا دلچسپ اضافہ ہو۔ دنیا ایک ایسے دل کی دھڑکن سے آشنا ہو گی۔ جس نے اپنی غلطی کی قیمت خون کی ان تھوکوں میں ادا کی ہے۔ جنہیں آپ ہر روز جلاتے رہتے ہیں کہ ان کے جراثیم دوسروں تک نہ پہنچیں۔ آپ میری بکواس سُنتے سُنتے کیا تنگ تو نہیں آگئے۔ خدا معلوم کیا کیا کچھ بکتا رہوں۔ تکلف سے کام نہ لیجیے، آپ واقعی کچھ نہیں سمجھ سکتے، میں خود نہیں سمجھ سکا۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ بٹوت سے واپس آکر میرے دل و دماغ کا ہر جوڑ ہل گیا تھا۔ اب یعنی آج جب کہ میرے جنون کا دورہ ختم ہو چکا ہے اور موت کو چند قدم کے فاصلے پر دیکھ رہا ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ وزن جو میری چھاتی کو دابے ہوئے تھا ہلکا ہو گیا ہے اور میں پھرزندہ ہورہا ہوں۔ موت میں زندگی۔ کیسی دلچسپ چیز ہے ! آج میرے ذہن سے دُھند کے تمام بادل اُٹھ گئے ہیں میں ہر چیز کو روشنی میں دیکھ رہا ہوں۔ سات برس پہلے کے تمام واقعات اس وقت میری نظروں کے سامنے ہیں۔ دیکھیے۔ میں لاہور سے گرمیاں گزارنے کے لیے کشمیر کی تیاریاں کررہا ہوں۔ سوٹ سلوائے جارہے ہیں۔ بوٹ ڈبوں میں بند کیے جارہے ہیں۔ ہولڈرال اور ٹرنک کپڑوں سے پُر کیے جارہے ہیں۔ میں رات کی گاڑی سے جموں روانہ ہوتا ہوں۔ شمیم میرے ساتھ ہے۔ گاڑی کے ڈبے میں بیٹھ کر ہم عرصہ تک باتیں کرتے رہتے ہیں۔ گاڑی چلتی ہے۔ شمیم چلا جاتا ہے۔ میں سو جاتا ہوں۔ دماغ ہر قسم کے فکر سے آزاد ہے۔ صبح جموں کی اسٹیشن پر جاگتا ہوں۔ کشمیر کی حسین وادی کی ہونے والی سیر کے خیالات میں مگن لاری پر سوار ہوتا ہوں۔ بٹوت سے ایک میل کے فاصلے پر لاری کا پہیہ پنکچر ہو جاتا ہے۔ شام کا وقت ہے اس لیے رات بٹوت کے ہوٹل میں کاٹنی پڑتی ہے۔ اس ہوٹل کا کمرہ بے حد غلیظ معلوم ہوتا ہے مگر کیا معلوم تھا کہ مجھے وہاں پورے دو مہینے رہنا پڑے گا۔ صبح سویرے اُٹھتا ہُوں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاری کے انجن کا ایک پرزہ بھی خراب ہو گیا ہے۔ اس لیے مجبوراً ایک دن اور بٹوت میں ٹھہرنا پڑے گا۔ یہ سُن کر میری طبیعت کس قدر افسردہ ہو گئی تھی! اس افسردگی کو دُور کرنے کے لیے میں۔ میں اس روز شام کو سیر کے لیے نکلتا ہوں۔ چیڑ کے درختوں کا تنفس، جنگلی پرندوں کی نغمہ سرائیاں سیب کے لدے ہُوئے درختوں کا حسن اور غروب ہوتے ہوئے سورج کا دلکش سماں، لاری والے کی بے احتیاطی اور رنگ میں بھنگ ڈالنے والی تقدیر کی گستاخی کا رنج افزا خیال محو کردیتا ہے۔ میں نیچر کے مسرت افزا مناظر سے لطف اندوز ہوتا سڑک کے ایک موڑ پر پہنچتا ہوں۔ دفعتہً میری نگاہیں اس سے دو چار ہوتی ہیں۔ بیگو مجھ سے بیس قدم کے فاصلے پر اپنی بھینس کے ساتھ کھڑی ہے۔ جس داستان کا انجام اس وقت آپ کے پیش نظر ہے۔ اس کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ وہ جوان تھی۔ اس کی جوانی پر بٹوت کی فضا پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ سبز لباس میں ملبوس وہ سڑک کے درمیان مکئی کا ایک دراز قد بوٹا معلوم ہورہی تھی چہرے کے تانبے ایسے تاباں رنگ پر اس کی آنکھوں کی چمک نے ایک عجیب کیفیت پیدا کردی تھی۔ جو چشمے کے پانی کی طرف صاف اور شفاف تھیں۔ میں اس کو کتنا عرصہ دیکھتا رہا۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے دفعتاً اپنا سینہ موسیقی سے لبریز پایا۔ اور پھرمیں مسکرا دیا۔ اس کی بہکی ہوئی نگاہوں کی توجہ بھنیس سے ہٹ کر میرے تبسم سے ٹکرائی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے ایک تیز تجسس سے میری طرف دیکھا۔ جیسے وہ کسی بھولے ہوئے خواب کو یاد کررہی ہے۔ پھر اس نے اپنی چھڑی کو دانتوں میں دبا کر کچھ سوچا اور مسکرا دی، اس کا سینہ چشمے کے پانی کی طرح دھڑک رہا تھا۔ میرا دل بھی میرے پہلو میں انگڑائیاں لے رہا تھا۔ اور یہ پہلی ملاقات کس قدر لذیذ تھی۔ اس کا ذائقہ ابھی میرے جسم کی ہر رگ میں موجود ہے۔ وہ چلی گئی۔ میں اس کو آنکھوں سے اوجھل ہوتے دیکھتا رہا۔ وہ اس انداز سے چل رہی تھی جیسے کچھ یاد کررہی ہے۔ کچھ یاد کرتی ہے مگر پھر بھول جاتی ہے۔ اس نے جاتے ہوئے پانچ چھ مرتبہ میری طرف مڑ کر دیکھا۔ لیکن فوراً سر پھیر لیا۔ جب وہ اپنے گھرمیں داخل ہو گئی جو سڑک کے نیچے مکئی کے چھوٹے سے کھیت کے ساتھ بنا ہوا تھا۔ میں اپنی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اس احساس نے مجھے سخت متحیر کیا۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال کی تھی۔ کالج میں اپنے ہم جماعت طلبہ کی زبانی میں محبت کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ عشقیہ داستانیں بھی اکثر میرے زیرمطالعہ رہی تھیں۔ مگر محبت کے حقیقی معانی میری نظروں سے پوشیدہ تھے۔ اس کے جانے کے بعد جب میں نے ایک ناقابل بیان تلخی اپنے دل کی دھڑکنوں میں حل ہوتی ہوئی محسوس کی تو میں نے خیال کہ شاید اسی کا نام محبت ہے۔ یہ محبت ہی تھی۔ عورت سے محبت کرنے کا پہلا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مرد کی ہو جائے یعنی وہ اس سے شادی کرلے اور آرام سے اپنی بقایا زندگی گزار دے۔ شادی کے بعد یہ محبت کروٹ بدلتی ہے۔ پھر مرد اپنی محبوبہ کے کاندھوں پر ایک گھر تعمیر کرتا ہے۔ میں نے جب بیگو سے اپنے دل کو وابستہ ہوتے محسوس کیا تو فطری طور پر میرے دل میں اس رفیقہ حیات کا خیال پیدا ہوا جس کے متعلق میں اپنے کمرے کی چار دیواری میں کئی خواب دیکھ چکا تھا۔ اس خیال کے آتے ہی میرے دل سے یہ صدا اٹھی۔

’’دیکھو سعید یہ لڑکی ہی تمہارے خوابوں کی پری ہے۔ ‘‘

چنانچہ میں تمام واقعے پر غور کرتا ہوا ہوٹل واپس آیا اور ایک ماہ کے لیے ہوٹل کا وہ کمرہ کرائے پر اٹھا لیا جو مجھے بے حد غلیظ محسوس ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہوٹل کا مالک میرے اس ارادے کو سن کر بہت متحیر ہوا تھا۔ اس لیے کہ میں صبح اس کی غلاظت پسندی پر ایک طویل لیکچر دے چکا تھا۔ داستان کتنی طویل ہوتی جارہی ہے۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ آپ اُسے غور سے سن رہے ہیں۔ ہاں ہاں آپ سگریٹ سلگا سکتے ہیں۔ میرے گلے میں آج کھانسی کے آثار محسوس نہیں ہوتے۔ آپ کی ڈبیا دیکھ کر میرے ذہن میں ایک اور واقعہ کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ بیگو بھی سگریٹ پیا کرتی تھی میں نے کئی بار اسے گولڈ فلیک کی ڈبیاں لا کردی تھیں۔ وہ بڑے شوق سے ان کو منہ میں دبا کر دھوئیں کے بادل اڑایا کرتی تھیں۔ دُھواں۔ ! میں اس نیلے نیلے دُھوئیں کو اب بھی دیکھ رہا ہوں جو اس کے گیلے ہونٹوں پر رقص کیا کرتا تھا۔ ہاں تو دوسرے روز میں شام کو اسی وقت ادھر سیر کو گیا۔ جہاں مجھے وہ سڑک پر ملی تھی۔ دیر تک سڑک کے ایک کنارے پتھروں کی دیوار پر بیٹھا رہا مگر وہ نظر نہ آئی۔ اٹھا اور ٹہلتا ٹہلتا آگے نکل گیا۔ سڑک کے دائیں ہاتھ ڈھلوان تھی۔ جس پر چیڑ کے درخت اُگے ہُوئے تھے۔ بائیں ہاتھ بڑے بڑے پتھروں کے کٹے پھٹے سر اُبھر رہے تھے۔ ان پر جمی ہوئی مٹی کے ڈھیلوں میں گھاس اُگی ہوئی تھی۔ ہوا ٹھنڈی اور تیز تھی۔ چیڑ کے تاگانماپتوں کی سرسراہٹ کانوں کوبہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جب موڑ مڑا تو دفعتہً میری نگاہیں سامنے اُٹھیں مجھ سے سو قدم کے فاصلے پر وہ اپنی بھینس کو ایک سنگین حوض سے پانی پلا رہی تھی۔ میں قریب پہنچا مگر اس کو نظر بھر کے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اور آگے نکل گیا اور جب واپس مڑا تو وہ گھر جا چکی تھی۔ اب ہر روز اس طرف سیر کو جانا میرا معمول ہو گیا مگر بیس روز تک میں اس سے ملاقات نہ کرسکا۔ میں نے کئی بار باؤلی پر پانی پیتے وقت اس سے ہم کلام ہونے کا ارادہ کیا۔ مگر زبان گنگ ہو گئی۔ کچھ بول نہ سکا۔ قریباً ہر روز میں اس کو دیکھتا۔ مگررات کو جب میں تصور میں اس کی شکل دیکھنا چاہتا۔ تو ایک دھندسی چھا جاتی۔ یہ عجیب بات ہے کہ میں اس کی شکل کو اس کے باوجود کہ اسے ہر روز دیکھتا تھا بھول جاتا تھا۔ بیس دنوں کے بعد ایک روز چار بجے کے قریب جب کہ میں ایک باؤلی کے اوپر چیڑ کے سائے میں لیٹا تھا۔ وہ خورد سال لڑکے کو لے کر اُوپر چڑھی۔ اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں سخت گھبرا گیا۔ دل میں یہی آئی کہ وہاں سے بھاگ جاؤں لیکن اس کی سکت بھی نہ رہی۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر آگے نکل گئی۔ چونکہ اس کے قدم تیز تھے۔ اس لیے لڑکا پیچھے رہ گیا۔ میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔ دفعتہً لڑکے نے ایک چیخ ماری اور چشم زدن میں چیڑ کے خشک پتوں پر سے پھسل کر نیچے آرہا۔ میں فوراً اُٹھا اور بھاگ کر اسے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔ چیخ سن کر وہ مڑی اور دوڑنے کے لیے بڑھے ہوئے قدم روک کر آہستہ آہستہ میری طرف آئی۔ اپنی جوان آنکھوں سے مجھے دیکھا اور لڑکے سے یہ کہا۔

’’خدا جانے تم کیوں گِرپڑتے ہو؟‘‘

میں نے گفتگو شروع کرنے کا ایک موقع پا کر اس سے کہا۔

’’بچہ ہے اس کی انگلی پکڑ لیجیے۔ ان پتوں نے خود مجھے کئی بار اوندھے منہ گرا دیا ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر وہ کھکھلا کر ہنسی پڑی۔

’’آپ کے ہیٹ نے تو خوب لڑھکنیاں کھائی ہوں گی۔ ‘‘

’’آپ ہنستی کیوں ہیں؟ کسی کو گرتے دیکھ کر آپ کی طبیعت اتنی شاد کیوں ہوتی ہے اور جوکسی روز آپ گر پڑیں تو۔ وہ گھڑا جو ہر روز شام کے وقت آپ گھر لے جاتی ہے کس بری طرح زمین پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ‘‘

’’میں نہیں گر سکتی۔ ‘‘

یہ کہتے ہُوئے اس نے دفعتہً نیچے باؤلی کی طرف دیکھا۔ اس کی بھینس نالے پر بندھے ہوئے پل کی طرف خراماں خراماں جارہی تھی یہ دیکھ کر اس نے اپنے حلق سے ایک عجیب قسم کی آواز نکالی۔ اس کی گونج ابھی تک میرے کانوں میں محفوظ ہے۔ کس قدر جوان تھی یہ آواز۔ اس نے بڑھ کر لڑکے کو کاندھے پر اُٹھا لیا۔ اور بھینس کو

’’اے چھلاں، اے چھلاں‘‘

کے نام سے پکارتی ہوئی چشم زدن میں نیچے اتر گئی۔ بھینس کو واپس موڑ کر اس نے میری طرف دیکھا اور گھر کو چل دی۔ اس ملاقات کے بعد اس سے ہم کلام ہونے کی جھجھک دُور ہو گئی۔ ہر روز شام کے وقت باؤلی پر یا چیڑ کے درختوں تلے میں اس سے کوئی نہ کوئی بات شروع کردیتا۔ شروع شروع میں ہماری گفتگو کا موضوع بھینس تھا۔ پھرمیں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا اور اس نے میرا۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ اصل مطلب کی طرف آگیا۔ ایک روز دوپہر کے وقت جب وہ نالے میں ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھی اپنے کپڑے دھو رہی تھی۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ مجھے کسی خاص بات کا اظہار کرنے پر تیار دیکھ کر اس نے جنگلی بلی کی طرح میری طرف گھور کر دیکھا۔ اور زور زور سے اپنی شلوار کو پتھر پر جھٹکتے ہوئے کہا۔

’’آپ کشمیر کب جارہے ہیں۔ یہاں بٹوت میں کیا دھرا ہے جو آپ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ‘‘

یہ سُن کر میں نے مستفسرانہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ گویا میں اس کے سوال کا جواب خود اس کی زبان سے چاہتا ہُوں۔ اس نے نگاہیں نیچی کرلیں اور مسکراتے ہوئے کہا۔

’’آپ سیر کرنے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے سُنا ہے کشمیر میں بہت سے باغ ہیں۔ آپ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘

موقع اچھا تھا۔ چنانچہ میں نے دل کے تمام دروازے کھول دیئے۔ وہ میرے جذبات کے بہتے ہوئے دھارے کا شور خاموشی سے سُنتی رہی۔ میری آواز نالے کے پانی کی گنگناہٹ میں جو ننھے ننھے سنگریزوں سے کھیلتا ہوا بہہ رہا تھا ڈوب ڈوب کر اُبھر رہی تھی۔ ہمارے سروں کے اوپر اخروٹ کے گھنے درخت میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ہوا اس قدر تروتازہ اور لطیف تھی کہ اس کا ہر جھونکا بدن پر ایک خوشگوار کپکپی طاری کردیتا تھا۔ میں اس سے پورا ایک گھنٹہ گفتگو کرتا رہا اس سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور شادی کا خواہشمند ہوں یہ سُن کروہ بالکل متحیر نہ ہوئی۔ لیکن اس کی نگاہیں جو دُور پہاڑیوں کی سیاہی اور آسمان کی نیلاہٹ کو آپس میں ملتا ہوا دیکھ رہی تھیں اس بات کی مظہر تھیں کہ وہ کسی گہرے خیال میں مستغرق ہے۔ کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد اس نے میرے اصرار پر صرف اتنا جواب دیا۔

’’اچھا آپ کشمیر نہ جائیں۔ ‘‘

یہ جواب اختصار کے باوجود حوصلہ افزا تھا۔ اس ملاقات کے بعد ہم دونوں بے تکلف ہو گئے۔ اب پہلا سا حجاب نہ رہا۔ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہتے۔ ایک روز میں نے اس سے نشانی کے طور پر کچھ مانگا تو اس نے بڑے بھولے انداز میں اپنے سر کے کلپ اتار کر میری ہتھیلی پر رکھ دیئے اور مسکرا کر کہا۔

’’میرے پاس یہی کچھ ہے۔ ‘‘

یہ کلپ میرے پاس ابھی تک محفوظ ہیں۔ خیر کچھ دنوں کی طول طویل گفتگوؤں کے بعد میں نے اس کی زبان سے کہلوا لیا کہ وہ مجھ سے شادی کرنے پر رضا مند ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس روز شام کو اس نے اپنے گھڑے کو سر پر سنبھالتے ہُوئے اپنی رضا مندی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ

’’ہاں میں چاہتی ہوں۔ ‘‘

تو میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہوٹل کو واپس آتے ہوئے میں کچھ گایا بھی تھا۔ اس پُر مسرت شام کے چوتھے روز جب کہ میں آنے والی ساعتِ سعید کے خواب دیکھ رہا تھا۔ یکا یک اس مکان کی تمام دیواریں گرپڑیں جن کو میں نے بڑے پیار سے استوار کیا تھا۔ بستر میں پڑا تھا کہ صبح سیالکوٹ کے ایک صاحب جو بغرض تبدیلی آب و ہوا بٹوت میں قیام پذیر تھے۔ اور ایک حد تک بیگو سے میری محبت کو جانتے تھے۔ میری۔ چارپائی پر بیٹھ گئے اور نہایت ہی مفکرانہ لہجہ میں کہنے لگے۔

’’وزیر بیگم سے آپ کی ملاقاتوں کا ذکر آج بٹوت کے ہر بچے کی زبان پر ہے۔ میں وزیر بیگم کے کیریکٹر سے ایک حد تک واقف تھا۔ اس لیے کہ سیالکوٹ میں اس لڑکی کے متعلق بہت کچھ سُن چکا ہوں۔ مگر یہاں بٹوت میں اس کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ایک ہفتہ پہلے یہاں کا قصائی اس کے متعلق ایک طویل حکایت سُنا رہا تھا۔ پرسوں پان والا آپ سے ہمدردی کا اظہار کررہا تھا کہ آپ عصمت باختہ لڑکی کے دام میں پھنس گئے ہیں۔ کل شام کو ایک اور صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ ٹوٹی ہوئی ہنڈیا خرید رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ بعض لوگ ا س سے آپ کی گفتگو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے کہ جب سے۔ آپ بٹوت میں آئے ہیں وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ میں نے آپ سے حقیقت کا اظہار کردیا ہے۔ اب آپ بہتر سوچ سکتے ہیں۔ عصمت باختہ لڑکی، ٹُوٹی ہوئی ہنڈیا، لوگ اس سے میری گفتگو کو پسند نہیں کرتے، مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آتا تھا۔ بیگو اور۔ اس کا خیال ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب دوسرے روز مجھے ہوٹل والے نے نہایت ہی راز دارانہ لہجے میں چند باتیں کہیں تو میری آنکھوں کے سامنے تاریک دُھند سی چھا گئی۔

’’بابو جی، آپ بٹوت میں سیر کے لیے آئے ہیں مگر دیکھتا ہوں کہ آپ یہاں کی ایک حسن فروش لڑکی کی محبت میں گرفتار ہیں اس کا خیال اپنے دل سے نکال دیجیے۔ میرا اس لڑکی کے گھر آنا جانا ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس کو کچھ کپڑے بھی خرید دیئے ہیں۔ آپ نے یقیناًاور بھی کئی روپے خرچ کیے ہونگے معاف کیجیے مگر یہ سراسر حماقت ہے۔ میں آپ سے یہ باتیں ہرگز نہ کرتا کیونکہ یہاں بیسیوں عیش پسند مسافر آتے ہیں مگر آپکا دل ان سیاہیوں سے پاک نظر آتا ہے۔ آپ بٹوت سے چلے جائیں اس قماش کی لڑکی سے گفتگو کرنا اپنی عزت خطرے میں ڈالنا ہے۔ ‘‘

ظاہر ہے کہ ان باتوں نے مجھے بے حد افسردہ بنا دیا تھا وہ مجھ سے سگریٹ، مٹھائی اور اسی قسم کی دوسری معمولی اشیا طلب کیا کرتی تھی اور میں بڑے شوق اور محبت سے اس کی یہ خواہش پوری کیا کرتا تھا۔ اس میں ایک خاص لطف تھا۔ مگراب ہوٹل والے کی بات نے میرے ذہن میں مہیب خیالات کا ایک تلاطم برپا کردیا۔ گزشتہ ملاقاتوں کے جتنے نقوش میرے دل و دماغ میں محفوظ تھے اور جنھیں میں ہرروز بڑے پیار سے اپنے تصور میں لا کر ایک خاص قسم کی مٹھاس محسوس کیا کرتا تھا دفعتہً تاریک شکل اختیار کرگئے مجھے اس کے نام ہی سے عفونت آنے لگی۔ میں نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ میرا دل جو ایک کالج کے طالب علم کے سینے میں دھڑکتا تھا، اپنے خوابوں کی یہ بُری اور بھیانک تعمیر دیکھ کرچلا اٹھا۔ اس کی باتیں جو کچھ عرصہ پہلے بہت بھلی معلوم ہوتی تھیں ریا کاری میں ڈُوبی ہوئی معلوم ہونے لگیں۔ میں نے گزشتہ واقعات، بیگو کی نقل و حرکت، اس کی جنبش اور اپنے گردوپیش کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر عمیق مطالعہ کیا تو تمام چیزیں روشن ہو گئیں، اس کا ہرشام کو ایک مریض کے ہاں دودھ لیکر جانا اور وہاں ایک عرصہ تک بیٹھی رہنا۔ باؤلی پر ہرکس و ناکس سے بیباکانہ گفتگو، دوپٹے کے بغیر ایک پتھر سے دوسرے پر اچھل کود، اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کہیں زیادہ شوخ اور آزاد روی۔ وہ یقیناًعصمت باختہ لڑکی ہے۔ ‘‘

میں نے یہ رائے مرتب تو کرلی۔ مگر آنسوؤں سے میری آنکھیں گیلی ہو گئیں۔ خوب رویا مگر دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ ایک بار آخری بار اس سے ملوں اوراس کے منہ پر اپنے تمام غصے کو تھوک دُوں یہی صورت تھی جس سے مجھے کچھ سکون حاصل ہو سکتا تھا۔ چنانچہ میں شام کوباؤلی کی طرف گیا۔ وہ پگڈنڈی پر انار کی جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھی میرا انتظار کررہی تھی۔ اس کو دیکھ کر میرا دل کسی قدر کڑھا۔ میرا حلق اس روز کی تلخی کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اس کے قریب پہنچا اور پاس ہی ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ چھلاں اس کی بھینس اور اس کا بچھڑا چند گزوں کے فاصلے پر بیٹھے جگالی کررہے تھے۔ میں گفتگو کا آغاز کرنا چاہا مگر کچھ نہ کہہ سکا۔ غصے اور افسردگی نے میری زبان پر قفل لگا دیا تھا مجھے خاموش دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی، جیسے چشمے کے پانی میں کسی نے اپنے مٹی بھرے ہاتھ دھو دیئے ہیں۔ پھر وہ مسکرائی، یہ مسکراہٹ مجھے کسی قدرمصنوعی اور پھیکی معلوم ہُوئی۔ میں نے سر جھکا لیا اور سگریزوں سے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ شاید میرارنگ زرد پڑ گیا تھا۔ اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا

’’آپ بیمار ہیں؟‘‘

اس کا یہ کہنا تھا کہ میں برس پڑا

’’ہاں بیمار ہوں، اور یہ بیماری تمہاری دی ہُوئی ہے، تمہیں نے یہ روگ لگایا ہے بیگو! میں تمہارے چال چلن کی سب کہانی سُن چکا ہوں اور تمہارے سارے حالات سے باخبر ہوں۔ ‘‘

میری چبھتی ہُوئی باتیں سُن کر اور بدلے ہوئے تیور دیکھ کر وہ بھونچکا سی رہ گئی اور کہنے لگی۔

’’اچھا تو میں اچھی لڑکی نہیں ہوں۔ آپ کو میرے چال چلن کے متعلق سب کچھ معلوم ہو چکا ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آپ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔ ‘‘

میں چلایا۔

’’گویا تم کو معلوم ہی نہیں۔ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو تو اپنی سیہ کاریوں کا سارا نقشہ تمہاری آنکھوں تلے گھوم جائے گا۔ ‘‘

میں طیش میں آگیا۔ کتنی بھولی بنتی ہو۔ جیسے کچھ جانتی ہی نہیں۔ پروں پر پانی پڑنے ہی نہیں دیتیں۔ میں کیا کہہ رہا ہوں بھلا تم کیا سمجھو جاؤ جاؤ بیگو، تم نے مجھے سخت دُکھ پہنچایا ہے۔ یہ کہتے کہتے میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ وہ بھی سخت مضطرب ہو گئی اور جل کر بول اٹھی۔

’’آخر میں بھی تو سنوں کہ آپ نے میرے بارے میں کیا کیا سُنا ہے۔ پر آپ تو رو رہے ہیں۔

’’ہاں۔ رو رہا ہُوں۔ اس لیے کہ تمہارے افعال ہی اتنے سیاہ ہیں کہ ان پر ماتم کیا جائے۔ تم پاکبازوں کی قدر کیا جانو۔ اپنا جسم بیچنے والی لڑکی محبت کیا جانے۔ تم صرف اتنا جانتی ہو کہ کوئی مرد آئے اور تمہیں اپنی چھاتی سے بھینچ کر چومنا چاٹنا شروع کردے اور جب سیر ہو جائے تو اپنی راہ لے۔ کیا یہی تمہاری زندگی ہے۔ ‘‘

میں غصے کی شدت سے دیوانہ ہو گیا تھا جب اس نے میری زبان سے اس قسم کے سخت کلمات سنے تو اس نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کی نظر میں یہ سب گفتگو ایک معمہ ہے۔ اس وقت طیش کی حالت میں میں نے اس کی حالت کو نمائشی خیال کیا اور ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

’’جاؤ! میری نظروں سے دُور ہو جاؤ۔ تم ناپاک ہو۔ ‘‘

یہ سُن کر اس نے ڈری ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’آپ کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘

مجھے کیا ہو گیا۔ کیا ہو گیا ہے۔

’’میں پھر برس پڑا۔ ‘‘

اپنی زندگی کی سیاہ کاریوں پر نظر دوڑاؤ۔ تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ تم میری بات اس لیے نہیں سمجھتی ہو کہ میں تم سے شادی کرنے کا خواہشمند تھا۔ اس لیے کہ میرے سینے میں شہوانی خیالات نہیں، اس لیے کہ میں تم سے صرف محبت کرتا ہُوں۔ جاؤ مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔ ‘‘

جب میں بول چکا۔ تو اس نے تھوک نگل کر اپنے حلق کو صاف کیا اور تھرتھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ شاید آپ یہ خیال کرتے ہونگے کہ جان بوجھ کر انجان بن رہی ہوں۔ مگر سچ جانیے مجھے کچھ معلوم نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام آپ سڑک پر سے گزر رہے تھے آپ نے میری طرف دیکھا تھا اور مسکرا دیئے تھے۔ یہاں بیسیوں لوگ ہم لڑکیوں کو دیکھتے ہیں اور مسکرا کر چلے جاتے ہیں۔ پھر آپ متواتر باؤلی کی طرف آتے رہے۔ مجھے معلوم تھا آپ میرے لیے آتے ہیں مگر اسی قسم کے کئی واقعے میرے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ایک روز آپ نے میرے ساتھ باتیں کیں اور اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ آپ نے شادی کے لیے کہا میں۔ مان گئی۔، مگر اسی سے پہلے اس قسم کی کئی درخواستیں سُن چکی ہوں۔ جو مرد بھی مجھ سے ملتا ہے دوسرے تیسرے روز میرے کان میں کہتا ہے۔

’’بیگو دیکھ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں۔ رات دن تو ہی میرے دل و دماغ میں بستی رہتی ہے۔ آپ نے بھی مجھ سے یہی کہا۔ اب بتائیے محبت کیا چیز ہے۔ مجھے کیا معلوم کہ آپ نے دل میں کیا چھپا رکھا ہے۔ یہاں آپ جیسے کئی لوگ ہیں جو مجھ سے یہی کہتے ہیں۔ ‘‘

بیگو تمہاری آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں جی چاہتا ہے کہ صدقے ہو جاؤں۔ تمہارے ہونٹ کس قدر پیارے ہیں جی چاہتا ہے ان کو چوم لُوں۔ وہ مجھے چومتے رہے ہیں کیا یہ محبت نہیں ہے؟ کئی بار میرے دل میں خیال آیا ہے کہ محبت کچھ اور ہی چیز ہے مگر میں پڑھی لکھی نہیں، اس لیے مجھے کیا معلوم ہو سکتا ہے۔ میں نے قاعدہ پڑھنا شروع کیا مگر چھوڑ دیا۔ اگرمیں پڑھوں تو پھر چھلاں اور اس کے بچھڑے کا پیٹ کون بھرے آپ اخبار پڑھ لیتے ہیں اس لیے آپکی باتیں بڑی ہوتی ہیں۔ میں کچھ نہیں سمجھ سکتی چھوڑیئے اس قصے کو آئیے کچھ اورباتیں کریں مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہُوئی ہے۔ میری ماں کہہ رہی تھیں کہ بیگو تو ہیٹ والے بابو کے پیچھے دیوانی ہو گئی ہے۔ ‘‘

میری نظروں کے سامنے سے وہ تاریک پردہ اٹھنے لگا تھا جو اس انجام کا باعث تھا۔ مگر دفعتہً میرے جوش اور غصے نے پھر اسے گرا دیا۔ بیگو کی گفتگو بے حد سادہ اور معصومیت سے پُر تھی مگر مجھے اس کا ہر لفظ بناوٹ میں لپٹا نظر آیا۔ میں ایک لمحہ بھی اس کی اہمیت پر غور نہ کیا۔

’’بیگو، میں بچہ نہیں ہُوں کہ تم مجھے چکنی چیڑی باتوں سے بیوقوف بنالوگی‘‘

میں نے غصہ میں اس سے کہا۔

’’یہ فریب کسی اور کو دینا۔ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے تم نے ابھی ابھی اپنی زبان سے اس بات کا اعتراف کیا ہے اب میں کیا کہوں۔ ‘‘

’’نہیں نہیں کہیے!‘‘

اُس نے کہا۔

’’کئی لوگ تمہارے منہ کو چومتے رہے ہیں۔ تمہیں شرم آنی چاہیے!‘‘

’’ہاں آپ تو سمجھتے ہی نہیں۔ اب میں کیا جھوٹ بولتی ہُوں۔ میں خود تھوڑا ہی ان کے پاس جاتی ہوں اور منہ بڑھا کر چومنے کو کہتی ہُوں۔ اگر آپ اس روز میرے بالوں کو چومنا چاہتے جبکہ آپ ان کی تعریف کررہے تھے، تو کیا میں انکار کردیتی! میں کس طرح انکار کرسکتی ہوں مجھے چھلاں بہت پیاری لگتی ہے اور میں ہر روز اس کو چومتی ہوں اس میں کیا ہرج ہے میں چاہتی ہوں کہ لوگ میرے بالوں، میرے ہونٹوں اور میرے گالوں کی تعریف کریں اس سے مجھے خوشی ہوتی ہے خبر نہیں کیوں؟ میں صبح سویرے اُٹھتی ہُوں اور چھلاں کو لے کر گھاس چرانے کے لیے باہر چلی جاتی ہوں، دوپہر کوروٹی کھا کر پھر گھر سے نکل آتی ہوں۔ شام کو پانی بھرتی ہُوں۔ ہر روز میرا یہی کام ہے، مجھے یاد ہے کہ آپ نے مجھ سے کئی مرتبہ کہا تھاکہ میں پانی بھرنے نہ آیا کروں۔ بھینس نہ چرایا کروں۔ شاید آپ اسی وجہ سے ناراض ہورہے ہیں۔ مگر یہ تو بتائیے کہ میں گھر پر رہوں تو پھر آپ ملاقات کیونکر کرسکیں گے؟ میں نے سُنا ہے کہ پنجاب میں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلتیں مگر ہم پہاڑی لوگ ہیں ہمارا یہی کام ہے۔

’’تمہارا یہی کام ہے کہ ہر رہگذر سے لپٹنا شروع کردو۔ تم پہاڑی لوگوں کے چلن مجھ سے چھپے ہوئے نہیں، یہ تقریر کسی اور کو سُنانا۔ گھر پر رہو یا باہر رہو۔ اب مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ان پہاڑیوں میں رہ کر جو سبق تم نے سیکھا ہے وہ مجھے پڑھانے کی کوشش نہ کرو‘‘

’’آپ بہت تیز ہو جاتے جارہے ہیں بہت چل نکلے ہیں۔ ‘‘

اس نے قدرے بگڑ کر کہا۔ معلوم ہوتا ہے لوگوں نے آپ کے بہت کان بھرے ہیں۔ مجھے بھی تو پتہ لگے کہ وہ کون

’’مرن جوگے‘‘

ہیں جو میرے متعلق آپ کو ایسی باتیں سناتے رہے ہیں۔ آپ خواہ مخواہ اتنے گرم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ میں مردوں کے ساتھ باتیں کرتی ہوں ملتی ہوں مگر۔ یہ کہتے ہوئے اس کے گال سرخ ہو گئے۔ مگر میں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔ ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولی۔ آپ کہتے ہیں کہ میں بُری لڑکی ہوں یہ غلط ہے۔ میں پگلی ہوں۔ سچ مچ پگلی ہوں۔ کل آپکے چلے جانے کے بعد میں پتھر پر بیٹھ کر دیر تک روتی رہی۔ جانے کیوں۔ ایسا کئی دفعہ ہوا ہے کہ میں گھنٹوں رویا کرتی ہُوں۔ آپ ہنسیں گے مگر اس وقت بھی میرا جی چاہتا ہے کہ یہاں سے اُٹھ بھاگوں اور اس پہاڑی کی چوٹی پر بھاگتی ہوئی چڑھ جاؤں اور پھر کودتی پھاندتی نیچے اُتر جاؤں۔ میرے دل میں ہر وقت ایک بے چینی سی رہتی ہے۔ بھینس چراتی ہوں پانی بھرتی ہوں۔ لکڑیاں کاٹتی ہوں۔ لیکن یہ سب کام میں اوپرے دل سے کرتی ہوں۔ میرا جی کسی کو ڈھونڈتا ہے۔ معلوم نہیں کس کو۔ میں دیوانی ہوں۔ ‘‘

بیگو کی یہ عجیب و غریب باتیں جو درحقیقت اس کی زندگی کا ایک نہایت اُلجھا ہوا باب تھیں اور جسے بغور مطالعہ کرنے کے بعد سب راز حل ہو سکتے تھے اس وقت مجھے کسی مجرم کا غیر مربوط بیان معلوم ہُوئیں، بیگو اور میرے درمیان اس قدر تاریک اور موٹا پردہ حائل ہو گیا تھا کہ حقیقت کی نقاب کشائی بہت مشکل تھی۔

’’تم دیوانی ہو۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’کیا مردوں کے ساتھ بیٹھ کر جھاڑیوں کے پیچھے پہروں باتیں کرتے رہنا بھی اس دیوانگی ہی کی ایک شاخ ہے؟۔ بیگو، تم پگلی ہو مگر اپنے کام میں آٹھوں گانٹھ ہوشیار!‘‘

’’میں باتیں کرتی ہُوں، ان سے ملتی ہُوں، میں نے اس سے کب انکار کیا ہے ابھی ابھی میں نے آپ سے اپنے دل کی سچی بات کہی تو آپ نے مذاق اُڑانا شروع کردیا اب اگرمیں کچھ اور کہوں تو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ آپ کبھی مانیں گے ہی نہیں۔ ‘‘

’’نہیں، نہیں، کہو، کیا کہتی ہو، تمہارا نیا فلسفہ بھی سن لوں۔ ‘‘

’’سُنیے پھر‘‘

یہ کہہ کر اس نے تھکی ہوئی ہرنی کی طرح میری طرف دیکھا اور آہ بھر کربولی۔

’’یہ باتیں جو میں آج آپ کو سُنانے لگی ہوں میری زبان سے پہلے کبھی نہیں نکلیں میں یہ آپ کو بھی نہ سُناتی۔ مگر مجبوری ہے۔ آپ عجیب و غریب آدمی ہیں۔ میں بہت سے لوگوں سے ملتی رہی ہوں۔ مگر آپ بالکل نرالے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے آپ سے۔

’’وہ ہچکچائی۔ ‘‘

ہاں آپ سے پیار ہو گیا ہے۔ آپ نے کبھی مجھ سے غیر بات نہیں کہی۔ حالانکہ میں جس سے ملتی رہی ہُوں وہ مجھ سے کچھ اور ہی کہتا تھا۔ میری اماں جانتی ہے کہ میں گھر میں ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتی رہتی ہوں میرا منہ تھکتا ہی نہیں۔ آپ نے نہیں کہا۔ پر میں نے گاہکوں کے پاس دُودھ لے جانا چھوڑ دیا۔ لوگوں سے باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ پانی بھرنے کے لیے بھی زیادہ چھوٹی بہن ہی کو بھیجتی رہی ہُوں۔ آپ کے آنے سے پہلے میں لوگوں سے ملتی رہی ہوں۔ اب میں آپ کو بتاؤں کہ میں ان سے کیوں ملتی تھی۔ مجھے کوئی مرد بھی بلاتا تو میں اسی سے باتیں کرنے لگتی تھی۔ اس لیے۔ نہیں نہیں میں نہیں بتاؤں گی۔ میرا دل جو چاہتا تھا وہ ان لوگوں کے پاس نہیں تھا، میں بُری نہیں، اللہ کی قسم، بے گناہ ہُوں، خدا معلوم لوگ مجھے بُرا کیوں کہتے ہیں۔ آپ بھی مجھے بُرا کہتے ہیں جس طرح آپ نے آج میرے منہ پر اتنی گالیاں دی ہیں اگر آپ کے بجائے کوئی اور ہوتا تو میں اس کا منہ نوچ لیتی مگر آپ۔ اب میں کیا کہوں، میں بہت بدل گئی ہوں، آپ بہت اچھے آدمی ہیں۔ میں خیال کرتی تھی کہ آپ مجھے کچھ سکھائیں گے مجھے اچھی اچھی باتیں بتائیں گے۔ لیکن آپ مجھ سے خواہ مخواہ لڑ رہے ہیں۔ آپ کو کیا معلوم کہ میں آپ کی کتنی عزت کرتی ہُوں۔ میں نے آپ کے سامنے کبھی گالی نہیں دی۔ حالانکہ ہمارے گھر سارا دن گالی گلوچ ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘

میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ڈاکٹر صاحب! اس پہاڑی لڑکی کی گفتگو کس قدر سادہ تھی۔ مگر افسوس ہے کہ اس وقت میرے کانوں میں روئی ٹھنسی ہُوئی تھی۔ اس کے ہر لفظ سے مجھے عصمت فروشی کی بو آرہی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔

’’بیگو! تم ہزار قسمیں کھاؤ۔ مگر مجھے یقین نہیں آتا۔ اب جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ میں کل بٹوت چھوڑ کر جا رہا ہوں میں نے تم سے محبت کی، مگر تم نے اس کی قدر نہ کی۔ تم نے میرے دل کو بہت دُکھ دیا ہے۔ خیر اب جاتا ہوں، مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ ‘‘

مجھے جاتا دیکھ کر وہ سخت مضطرب ہو گئی اور میرا بازو پکڑ کر اور پھر اسے فوراً ڈرتے ہوئے چھوڑ کرتھرائی ہُوئی آواز میں صرف اس قدر کہا۔

’’آپ جارہے ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا

’’ہاں جارہا ہوں تاکہ تمہارے چاہنے والوں کے لیے میدان صاف ہو جائے‘‘

آپ نہ جائیے، اللہ کی قسم میرا کوئی چاہنے والا نہیں۔

’’یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھیں نمناک ہو گئیں نہ جانئے، نہ جائیے نہ۔ ‘‘

آخری الفاظ اس کی گلوگیر آواز میں دب گئے۔ اس کا رونا میرے دل پر کچھ اثر نہ کرسکا۔ میں چل پڑا۔ مگر اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور روتی ہوئی آواز میں کہا۔

’’آپ خفا کیوں ہو گئے ہیں۔ میں آئندہ کسی آدمی سے بات نہ کرونگی۔ اگر آپ نے مجھے کسی مرد کے ساتھ دیکھا تو آپ اس چھڑی سے جتنا چاہیے پیٹ لیجیے گا۔ آئیے گھر چلیں۔ میں آپ کے لیے حقہ تازہ کرکے لاؤں گی۔ ‘‘

میں خاموش رہا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر پھر چل پڑا۔ اسوقت بیگو سے ایک منٹ کی گفتگو کرنا بھی مجھے گراں گزر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی میری نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جائے میں نے بمشکل دو گز کا فاصلے طے ہو گا کہ وہ میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کے بال پریشان تھے آنکھوں کے ڈورے سرخ اور ابھرے ہوئے تھے سینہ آہستہ آہستہ دھڑک رہا تھا۔ اس نے پوچھا۔

’’کیا آپ واقعی جارہے ہیں؟‘‘

میں نے تیزی سے جواب دیا۔

’’تو اور کیا جھوٹ بک رہا ہوں۔ ‘‘

’’جائیے۔ ‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور گال آنسوؤں کی وجہ سے میلے ہورہے تھے مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک ناچ رہی تھی۔

’’جائیے‘‘

یہ کہہ کر وہ اُلٹے پاؤں مڑی۔ اس کا قد پہلے سے لمبا ہو گیا تھا۔ میں نے نیچے اُترنا شروع کردیا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے جھاڑیوں کے پیچھے سے رونے کی آواز سنی۔ وہ رو رہی تھی۔ وہ تھرائی ہوئی آواز ابھی تک میرے کانوں میں آرہی ہے۔ یہ ہے میری داستان ڈاکٹر صاحب، میں نے اس پہاڑی لڑکی کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ اس غلطی کا احساس مجھے پورے دو سال بعد ہُوا۔ جب میرے ایک دوست نے مجھے یہ بتایا کہ بیگو نے میرے جانے کے بعد اپنے شباب کو دونوں ہاتھوں سے لٹانا شروع کردیا اور دق کے مریضوں سے ملنے کی وجہ سے وہ خود اس کا شکار ہو گئی۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ اس مرض نے بالآخر اسے قبر کی گود میں سُلا دیا۔ اس کی موت کا باعث میرے سوا اور کون ہو سکتا ہے وہ زندگی کی شاہراہ پر اپنا راستہ تلاش کرتی تھی مگر میں اسکو بھول بھلیوں میں چھوڑ کر بھاگ آیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھٹک گئی میں مجرم تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے لیے وہی موت تجویز کی جس سے وہ دوچار ہوئی۔ وہ وزن جو میں پانچ سال اپنی چھاتی پر اٹھائے پھرتا رہا ہوں، خدا کا شکر ہے کہ اب ہلکا ہو گیا ہے۔ میں مریض کی داستان خاموشی سے سنتا رہا۔ وہ بول چکا تو پھر بھی خاموش رہا میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کے جذبات پررائے زنی کروں۔ چنانچہ وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ مجھے کئی مریضوں کی داستانیں سننے کا اتفاق ہوا ہے مگر یہ نہایت عجیب و غریب اور پر اثر۔ داستان تھی گو مریض بیماری کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ مگر حیرت ہے کہ اس نے اپنے طویل بیان کو کس طرح جاری رکھا۔ صبح کے وقت میں اس کا ٹمپریچر دیکھنے کے لیے آیا۔ مگر وہ مر چکا تھا۔ سفید چادر اوڑھے وہ بڑے سکون سے سو رہا تھا۔ جب اس کو غسل دینے لگے تو ہسپتال کے ایک نوکر نے مجھے بُلایا۔

’’ڈاکٹر صاحب اس کی مٹھی میں کچھ ہے‘‘

میں نے اس کی بند مٹھی کو آدھا کھول کر دیکھا، لوہے کے دو کلپ تھے۔ اس کی بیگو کی یادگار!

’’ان کو نکالنا نہیں، یہ اس کے ساتھ ہی دفن ہوں گے۔ میں نے غسل دینے والوں سے کہا اور دل میں غم کی ایک عجیب و غریب کیفیت لیے دفتر چلا گیا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بی زمانی بیگم

زمین شق ہورہی ہے۔ آسمان کانپ رہا ہے۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں ہے۔ آگ کے شعلوں میں دنیا ابل رہی ہے۔ زلزلے پر زلزلے آرہے ہیں۔ یہ کیا ہورہا ہے؟

’’تمہیں معلوم نہیں؟‘‘

’’نہیں تو۔ ‘‘

’’لو سنو۔ دنیا بھر کو معلوم ہے۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’وہی زمانی بیگم۔ وہ موٹی چڈر۔ ‘‘

’’ہاں ہاں، کیا ہوا اسے!‘‘

’’وہی جو ہوتا ہے لیکن اس عمرمیں شرم نہیں آئی بدبخت کو۔ ‘‘

’’یہ بدبخت زمانی بیگم ہے کون؟‘‘

’’ہائیں وہی اسکندر کی ہوتی سوتی۔ موئی نکھیائی چنگیز کے پاس رہی۔ ہلاکو کی داشتہ بنی۔ کچھ دن اس لنگڑے تیمور کے ساتھ منہ کالا کرتی رہی۔ وہاں سے نکلی تو نپولین کی بغل میں جاگھسی۔ اب یہ موا ہٹلر باقی رہ گیا تھا۔ ‘‘

’’تو کیا اب ہٹلر کے گھر ہے؟‘‘

’’ہوا گھر گھاٹ کیسا۔ نباہ ہو سکتا ہے کبھی ایسی عورت کا۔ ‘‘

’’طلاق ہو گئی ہے کیا؟‘‘

’’تم کیسی باتیں کرتی ہو بُوا۔ طلاق تو وہاں ہو جو سہرے جلوؤں کی بیاہی ہو اور پھر ایسے مردوں کا کیا اعتبار ہے۔ دو دن مزے کیے اور چلو چھٹی۔ ‘‘

’’تو اب ہو کیا رہا ہے۔ یہ فضیحتہ کس بات کا۔ ‘‘

’’فضیحتہ کیا ہے پورے دنوں سے ہے۔ بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ ‘‘

’’تو ہو کیوں نہیں چکتا۔ ‘‘

’’ہاں سچ تو یہ کوئی پلوٹھی کا تو ہے نہیں۔ ‘‘

’’ڈاکٹر آرہے ہیں۔ دیکھو آج نہ کل ہو جائے گا۔ ‘‘

ڈاکٹر آتے رہے۔ لیکن بی زمانی کے بچہ پیدا نہ ہوا۔ درد و کرب کی لہروں میں اضافہ ہو گیا۔ زلزلے اور زیادہ زور سے آنے لگے۔ شعلوں کی زبانیں اور زیادہ تیز ہو گئیں۔ ڈاکٹروں نے کانفرنس کی۔ حکمت کی ساری کتابیں چھانی گئیں۔ طے ہوا کہ حاملہ کو طہران لے جائیں۔ وہاں روس کے ماہر ڈاکٹرکو بلایا جائے اور اس سے مشورہ کیا جائے۔ طہران میں خاص طور پر جلدی جلدی ایک میٹرنٹی ہوم تیار کیا گیا۔ بی زمانی بیگم درد سے تڑپتی رہی اور دنیا کے تین بڑے ڈاکٹر مشورہ کرتے رہے۔ ایک بولا۔

’’صاحبان اس میں کوئی شک نہیں کہ ہونے والا بچہ ہمارا نہیں لیکن انسانیت کے نام پر ہمیں مریضہ کو اس مشکل سے نجات دلانا ہی پڑے گی۔ ‘‘

دوسرا بولا۔

’’ہم تین بڑے ڈاکٹر تین قسم کے طریقہ علاج کے ماہر ہیں۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک طریقہ علاج پر متفق ہوں۔ اگر ایسا ہو گیا تو بی زمانی بیگم کے بچہ پیدا ہونا کوئی مشکل کام نہیں۔ ‘‘

تیسرا بولا۔

’’بالکل درست ہے۔ آئیے ہم فوراً یہ نیک کام شروع کردیں۔ ‘‘

تینوں طریقے ملا کر ایک اور طریقہ بنایا گیا۔ جس پر تینوں بڑے ڈاکٹر متفق ہو گئے۔ دنیا کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ مگر بی زمانی بیگم کے بچہ پیدا نہ ہوا۔

’’یہ کیا ہورہا ہے۔ بچہ پیدا کیوں نہیں ہوا ابھی تک۔ ‘‘

’’بچہ تو پیدا ہورہا تھا مگر اسے روک دیا گیا ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ڈاکٹر سوچ رہے ہیں کہ اسے گود کون لے گا۔ ‘‘

’’ہوں!‘‘

’’تو فیصلہ کیا ہوا؟‘‘

’’تم کیسی باتیں کرتی ہو بُوا۔ ایسے معاملوں کا اتنی جلدی فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے۔ خیر چھوڑو اس قصے کو۔ کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ جس کے ہاں اولاد نہیں وہ غریب گود لے لے گا۔ اولاد ہر ایک کے تھی۔ کسی کے ہاں چار بچے تھے۔ کسی کے ہاں پانچ اور کسی کے ہاں سات۔ اب فیصلہ کیسے ہو۔ ایک اور کانفرنس ہوئی۔ ڈمبارٹن اوکس میں ایک اور میٹرنٹی ہوم افراتفری میں بنایا گیا۔ تینوں بڑے ڈاکٹر وہاں جمع ہوئے۔ ہر ایک نے سوچا۔ ہر ایک نے معاملہ کی اہمیت سمجھنے کی کوشش کی۔ اور بی زمانی بیگم بستر پر پڑی درد سے کراہتی رہی۔ ایک بولا۔

’’صاحبان۔ ہم صاحب اولاد ہیں۔ اس بچے کے وجود کے ہم ذمہ دار نہیں۔ لیکن انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی پیدائش میں ہر ممکن طریقے سے مدد کریں۔ آخر اس میں ہونے والے بچے کا کیا قصور ہے۔ ‘‘

دوسرا۔

’’ہم ڈاکٹر ہیں۔ ہمارا مذہب دوا ہے۔ ہم چاہیں تو اس ہونے والے ناخلف بچے ہی کو جس سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں۔ ایک فرمانبردار۔ اطاعت شعار۔ آزادی پسند اور انسانیت دوست نوجوان بنا سکتے ہیں۔ ‘‘

تیسرا بولا۔ ’بالکل درست ہے۔ اس بچے کی پیدائش سے دنیا کا ایک بہت بڑا بوجھ دور ہو جائے گا۔ ہم ڈاکٹر ہیں۔ اپنے فرض سے ہمیں غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ‘‘

طے ہو گیا۔ ایک دستاویز پر انگوٹھے لگا دیے گئے کہ ہونے والے بچے کو یہ تینوں ڈاکٹر گود لیں گے۔ تینوں ملکر اس کی پرورش کریں گے۔ لیکن بی زمانی بیگم کی تکلیف پھر بھی رفع نہ ہوئی۔ وہ پڑی درد سے کراہتی رہی۔

’’آخر یہ مصیبت کیا ہے؟‘‘

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

’’قصہ یہ ہے کہ بچے کو گود لینے کا تو فیصلہ ہو گیا ہے لیکن اس بی زمانی کا بھی تو کچھ بندوبست ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’میں تو کہتی ہوں۔ سات جھاڑو اور حقہ کا پانی۔ ‘‘

’’لعنت بھیجیں موئی حرافہ پر۔ ‘‘

’’نہیں بوا۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ کم بخت کہیں پھر‘‘

’’اوہ۔ ‘‘

ایک اور کانفرنس ہوئی۔ تینوں بڑے ڈاکٹر آخری بار پوٹسڈم میں جمع ہوئے۔ جلدی جلدی ایک میٹرنٹی ہوم تیار کیا گیا۔ بی زمانی بیگم درد سے پیچ و تاب کھاتی رہی اور ادھر کانفرنس ہوتی رہی۔ ایک بولا۔

’’صاحبان‘‘

دنیا کی فلاح اور بہبودی کے لیے آج اس بات کا قطعی طور پر فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ بی زمانی بیگم کا یہ بچہ اس کا آخری بچہ ہو۔ ‘‘

دوسرا بولا۔

’’دنیا کے تھن اس عورت کے لاتعداد حرامی بچوں کو دودھ پلا پلا کر سوکھ گئے ہیں۔ اب ہمیں اس کو بانجھ کرنا ہی پڑے گا۔ ‘‘

تیسرا بولا۔

’’بالکل درست ہے۔ ہونے والے بچے کی صحت اور تندرستی کا خیال رکھتے ہوئے بھی ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ ‘‘

طے ہو گیا کہ بچہ فوراً پیدا کیا جائے اور بی زمانی بیگم کو ہمیشہ کے لیے بانجھ کردیا جائے۔ عمل جراحی شروع ہوا۔ میٹرنٹی ہوم کے باہر دنیا کی ساری قومیں جمع ہو گئیں۔ بہت دیر تک سناٹا چھایا رہا۔ اس کے بعد میٹرنٹی ہوم کا دروازہ پھٹ سے کھلا۔ ایک سفید پوش نرس باہر نکلی اور اس نے اپنی باریک آواز میں اعلان کیا۔

’’مبارک ہو بی زمانی بیگم کے بچہ پیدا ہو گیا ہے۔ زچہ اور بچہ دونوں بیہوش ہیں۔ ‘‘

دنیا کی ساری قومیں فکر و تردو میں غرق ہو گئیں۔ ایک بوڑھا لنگوٹی پہنے کھانستا کھنکارتا نرس کی طرف بڑھا۔ نرس نے پوچھا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

۔ بوڑھے نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور لرزاں آواز کہا۔

’’میرا نام ہندوستان ہے۔ ‘‘

’’اوہ۔ کیا چاہتے ہو تم؟‘‘

’’میں صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ لڑکا ہوا ہے یا لڑکی؟‘‘

دنیا کی ساری قومیں بے اختیار کھکھلا کر ہنس پڑیں۔ (اے۔ آئی۔ آر۔ بمبئی سے منشور)

سعادت حسن منٹو

بھنگن

’’پرے ہٹیے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے آپ سے بوآتی ہے۔ ‘‘

’’ہر انسان کے جسم کی ایک خاص بو ہوتی ہے۔ آج بیس برسوں کے بعد تمہیں اس سے تنفر کیوں محسوس ہونے لگا؟‘‘

’’بیس برس۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ میں نے اتنا طویل عرصہ کیسے بسر کیا ہے۔ ‘‘

’’میں نے کبھی آپ کو اس عرصے میں تکلیف پہنچائی؟‘‘

’’جی کبھی نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر آج اچانک آپ کو مجھ سے ایسی بو کیوں آنے لگی جس سے آپ کی ناک جو ماشاء اللہ کافی بڑی ہے، اتنی غضب ناک ہورہی ہے؟‘‘

’’آپ اپنی ناک تو دیکھیے۔ پکوڑاسی ہے۔ ‘‘

’’میں اس سے انکار نہیں کرتا۔ پکوڑے، تم جانتی ہو، مجھے بہت پسند ہیں۔ ‘‘

’’آپ کو تو ہر واہیات چیز پسند ہوتی ہے۔ کوڑے کرکٹ میں بھی آپ دلچسپی لیتے ہیں۔ ‘‘

’’کوڑا کرکٹ ہمارا ہی تو پھیلا یا ہوا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی دلچسپی کیوں نہ لے۔ اور تم جانتی ہو، آج سے دس سال پہلے جب تمہاری ہیرے کی انگوٹھی گم ہو گئی تھی تو اسی کوڑے کے ڈھیر سے میں نے تمہیں تلاش کرکے دی تھی۔ ‘‘

’’بڑا کرم کیا تھا آپ نے مجھ پر۔ ‘‘

’’بھئی کرم کا سوال نہیں۔ فارسی کا ایک شعر ہے ؂ خاکساراں را بہ حقارت منگر توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشند

’’میں خاک بھی نہیں سمجھی۔ ‘‘

’’یہی وجہ ہے کہ تم نے ابھی تک مجھے نہیں سمجھا۔ ورنہ بیس برس ایک آدمی کو پہچاننے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’ان بیس برسوں میں آپ نے کون سا سکھ پہنچایا ہے مجھے؟‘‘

’’تم دکھ کی بات کرو۔ بتاؤ میں نے کون سا دکھ تمہیں اس عرصے میں پہنچایا؟‘‘

’’ایک بھی نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر یہ کہنے کا کیا مطلب تھا۔ ان بیس برسوں میں آپ نے کون سا سکھ پہنچایا ہے مجھے؟‘‘

’’آپ میرے قریب نہ آئیے۔ میں سونا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’اس غصے میں نیند آجائے گی تمہیں؟‘‘

’’خاک آئے گی۔ بہر حال۔ آنکھیں بند کرکے لیٹی رہوں گی اور۔ ‘‘

’’اور کیا کریں گی؟‘‘

’’لیٹی اس روز پر آنسو بہاؤں گی جب میں آپ کے پلّے باندھی گئی۔ ‘‘

’’تمہیں یاد ہے وہ دن کیا تھا۔ سن کیا تھا۔ وقت کیا تھا؟‘‘

’’میں کبھی وہ دن بھول سکتی ہوں۔ خدا کرے وہ کسی لڑکی پر نہ آئے۔ ‘‘

’’تم بتا تو دو۔ میں تمہاری یادداشت کا امتحان لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’اب آپ میرا امتحان کیا لیں گے۔ پرے ہٹیے۔ مجھے آپ سے بو آرہی ہے۔ ‘‘

’’بھی حد ہو گئی ہے۔ تمہاری اتنی لمبی ناک جو کہیں ختم ہونے ہی میں نہیں آتی، اس کو آخر کیا ہو گیا ہے۔ مجھ سے تو اس کو بڑی بھینی بھینی خوشبو آنا چاہیے۔ تم نے مجھ سے ان بیس برسوں میں ہزاروں مرتبہ کہا کہ آپ جب کسی کمرے میں داخل ہوں اور وہاں سے نکل جائیں تو میں پہچان جایا کرتی ہوں کہ آپ وہاں آئے تھے۔ ‘‘

’’آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو۔ میں نے اپنی زندگی میں آج تک جھوٹ نہیں بولا۔ تم مجھ پر یہ الزام نہ دھرو۔ ‘‘

’’واہ جی واہ، بڑے آئے آپ کہیں کے سچے۔ میرا سو روپے کا نوٹ آپ نے چرایا اور صاف مکر گئے۔ ‘‘

’’یہ کب کی بات ہے؟‘‘

’’دو جون سن انیس سو بیالیس کو۔ جب سلمیٰ میرے پیٹ میں تھی۔ ‘‘

’’یہ تاریخ تمہیں خوب یاد رہی۔ ‘‘

’’کیوں یاد نہ رہتی۔ جب آپ سے میری اتنی زبردست لڑائی ہوئی تھی۔ میں اندر کمرے میں پڑی تھی۔ آپ نے چابی بڑی صفائی سے میرے تکیے کے نیچے سے نکالی۔ دوسرے کمرے میں جا کر الماری کھولی اور اس میں جو سات سو پڑے تھے، ان میں سے ایک نوٹ اڑا کر لے گئے۔ میں نے جب دو ڈھائی گھنٹوں کے بعد اٹھ کر دیکھا تو آپ سے چخ ہوئی، مگر آپ تھے کہ پروں پر پانی ہی نہیں لیتے تھے۔ آخر میں خاموش ہو گئی۔ ‘‘

’’یہ دو جون سن انیس سو بیالیس کی بات ہے۔ آج کل سن چون چل رہا ہے۔ اب اس کے ذکر کا کیا فائدہ؟‘‘

’’فائدہ تو ہر حالت میں آپ ہی کا رہتا ہے۔ میری ایک نیلم کی انگوٹھی بھی آپ نے غائب کردی تھی، لیکن میں نے آپ سے کچھ نہیں کہا تھا۔ ‘‘

’’دیکھو، میں تمہاری جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ اس نیلم کی انگوٹھی کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔ ‘‘

’’اور اس سو روپے کے نوٹ کے متعلق۔ ‘‘

’’اب تمہاری جان کی قسم کھائی توسچ بتانا ہی پڑے گا۔ میں نے۔ میں نے چرایا ضرور تھا، مگر صرف اس لیے کہ اس مہینے مجھے تنخواہ دیر سے ملنے والی تھی اور تمہاری سالگرہ تھی۔ تمہیں کوئی تحفہ تو دینا تھا۔ ان بیس برسوں میں تمہاری ہر سالگرہ پر میں اپنی استطاعت کے مطابق کوئی نہ کوئی تحفہ پیش کرتا رہا ہوں۔ ‘‘

’’بڑے تحفے تحائف دیے ہیں آپ نے مجھے۔ ‘‘

’’ناشکری تو نہ بنو!‘‘

’’میں کئی دفعہ کہہ چکی ہوں، آپ پرے ہٹ جائیے۔ مجھے آپ سے بو آتی ہے۔ ‘‘

’’کس کی؟‘‘

’’یہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’میں نے خود کو کئی مرتبہ سونگھا ہے، مگر میری پکوڑا ایسی ناک میں ایسی کوئی بُو نہیں گھسی جس پر کسی بیوی کو اعتراض ہو سکے۔ ‘‘

’’آپ باتیں بنانا خوب جانتے ہیں۔ ‘‘

’’اور باتیں بگاڑناتم۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، آج تم اس قدر ناراض کیوں ہو۔ ‘‘

’’اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیے!‘‘

’’میں اس وقت قمیض پہنے نہیں ہوں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’سخت گرمی ہے۔ ‘‘

’’سخت گرمی ہو یا نرم۔ آپ کو قمیض تو نہیں اتارنا چاہیے تھی۔ یہ کوئی شرافت نہیں۔ ‘‘

’’محترمہ! آپ نے بھی تو قمیض اتار رکھی ہے۔ اپنے ننگے بدن کو ملاحظہ فرمائیے۔ ‘‘

’’اوہ۔ یہ میں نے کیا واہیات پن کیا ہے!‘‘

’’یہ واہیات پن تو آپ گرمیوں میں بیس بر س سے کررہی ہوں۔ ‘‘

’’آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ ‘‘

’’خیر، جھوٹ تو ہر مرد کی عادت ہوتی ہے۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے دور ہی رہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’توبہ۔ لاکھ بار کہہ چکی ہوں کہ مجھے آپ سے بہت گندی بو آرہی ہے۔ ‘‘

’’پہلے صرف بو تھی۔ اب گندی ہو گئی۔ ‘‘

’’خبردار! جو آپ نے مجھے ہاتھ لگایا!‘‘

’’اس قدر بیزاری آخر کیوں؟‘‘

’’میں اب آپ سے قطعاً بیزار ہو چکی ہوں۔ ‘‘

’’ان بیس برسوں میں تم نے کبھی ایسی بیزاری کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ‘‘

’’اب تو کردیا ہے!‘‘

’’لیکن مجھے معلوم تو ہو کہ اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’میں کہتی ہوں، مجھے مت چھوئیے!‘‘

’’تمہیں مجھ سے اتنی کراہت کیوں ہورہی ہے؟‘‘

’’آپ ناپاک ہیں۔ بے حد ذلیل ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو، تم بہت زیادتی کررہی ہو۔ ‘‘

’’آپ نے کم کی ہے۔ کوئی شریف آدمی آپ کی طرح ایسی ذلیل حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ ‘‘

’’کون سی؟‘‘

’’آج صبح کیا ہوا تھا؟‘‘

’’آج صبح۔ بارش ہوئی تھی۔ ‘‘

’’بارش ہوئی تھی۔ لیکن اس بارش میں آپ نے کس کو اپنی آغوش میں دبایا ہوا تھا؟‘‘

’’اوہ، ‘‘

’’بس اس کا جواب اب’اوہ‘ ہی ہو گا۔ میں نے پکڑ جو لیا تھا آپ کو۔ ‘‘

’’دیکھو میری جان۔ ‘‘

’’مجھے اپنی جان وان مت کہیے۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ ‘‘

’’کس بات پر۔ کس گناہ پر؟‘‘

’’میں کہتی ہوں آدمی گناہ کرے۔ لیکن ایسی گندگی میں نہ کرے۔ ‘‘

’’میں کس گندگی میں گرا ہوں؟‘‘

آج صبح آپ نے اس۔ اس۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’اس بھنگن کو۔ جوان بھنگن کو جو مٹھائی والے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ ‘‘

’’لاحول ولا۔ تم بھی عجیب عورت ہو۔ وہ غریب حاملہ ہے۔ بارش میں جھاڑو دیتے ہوئے اس کو غش آیا اور گر پڑی۔ میں نے اس کو اٹھایا اور اس کے کوارٹر میں لے گیا۔ ‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’تمہیں معلوم نہیں کہ وہ مر گئی؟‘‘

’’ہائے۔ بے چاری۔ میں تو ٹھنڈی برف ہو گئی ہوں۔ ‘‘

’’میرے قریب آجاؤ۔ میں قمیض پہن لوں؟‘‘

’’اس کی کیا ضرورت ہے، تمہاری قمیض میں ہوں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بُڈّھا کھوسٹ

یہ جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعدکی بات ہے جب میرا عزیز ترین دوست لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیم شیخ ( اب ) ایران ٗ عراق اور دوسرے محاذوں سے ہوتا ہوا بمبئے پہنچا۔ اُس کو اچھی طرح معلوم تھا، میرا فلیٹ کہاں ہے۔ ہم میں گاہے گاہے خط و کتابت بھی ہوتی رہتی تھی لیکن اس سے کچھ مزا نہیں آتا تھا اس لیے کہ ہر خط سنسر ہوتا ہے۔ ادھر سے جائے یا اُدھر سے آئے عجیب مصیبت تھی۔ مگر اب ان مصیبتوں کا ذکر کیا کرنا۔ اس کی بمبئی کے بی بی اینڈ سی آئی اے کے ٹریسینس پر پوسٹنگ ہوئی۔ اُس وقت وہ صرف لیفٹیننٹ تھا ہم دونوں وسیع و عریض ریلوے اسٹیشن کے بُوفے میں بیٹھ گئے اور دوپہر کے بارہ ایک بجے تک ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر پیتے رہے اُس نے اُس دوران میں مجھے کئی کہانیاں سنائیں جن میں سے ایک خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اُس نے ایران، عراق اور خدا معلوم کن کن ملکوں کے اپنے معاشقے سنائے، میں سنتا رہا پیشہ ور عاشق تو کالج کے زمانے سے تھا اُس کی داستانیں اگر میں سُناؤں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ بہر حال آپ کو اتنا بتانا ضروری ہے کہ اسے لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا گر معلوم تھا۔ گورڈن کالج راولپنڈی میں وہ راجہ اندر تھا۔ اس کے دربار میں وہاں کی تمام پریاں مجرا عرض کرتی تھیں۔ خوبصورت تھا کافی خوبصورت مگر اُس کا حسن مردانہ حسن تھا۔ پتلی نوکیلی ناک جو یقیناً اپنا کام کر جاتی ہو گی چھوٹی چھوٹی گہرے بھوسلے رنگ کی آنکھیں جو اُس کے چہرے پر سج گئی تھیں بڑی ہوتیں تو شاید اس کے چہرے کی ساری کشش ماری جاتی۔ وہ کھلنڈرا تھا جس طرح لارڈ بائرن صرف کچھ عرصے کے لیے کسی سے دلچسپی لیتا تھا اور اُسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا، جیسے وہ اُس کی زندگی میں کبھی آئی ہی نہیں اسی طرح کا سلوک وہ اپنے جال میں پھنسی ہوئی لڑکیوں سے کرتا، مجھے اُس کا یہ روّیہ پسند نہیں تھا کہ یہ میری نظر میں بہت ظالمانہ ہے مگر وہ بے پروا تھا کہا کرتا اُلو کے پٹھے۔ غالبؔ پڑھو وہ کیا کہتا۔ اسے متن یاد کبھی نہیں رہتا تھا مگر اس کا مفہوم اپنے الفاظ میں ادا کر دیا کرتا۔ وہ کہتا ہے، وہی شاخِ طوبیٰ اور جنت میں وہی ایک حور۔ واللہ زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ شہد کی مکھی بنو ٗ کلی کلی کا رس چوسو۔ مکھی لکھی مصری کی نہ بنو جووہیں چپک کر رہ جائے

’’پھر اُس نے اقبال کے ایک شعر کا حوالہ اپنا بیئر کا گلاس خالی کرتے ہوئے دیا

’’کیا کہا ہے اقبال نے ؂ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا ثابت ہوا کہ تم نہ صرف ناداں ہو بلکہ درجہ اوّل بناسپتی گھی کی طرح درجہ اوّل چغد بھی ہو۔ اب ہٹاؤ اس بکواس کو۔ ‘‘

میں نے یہ بکواس اس طرح ہٹائی جس طرح بیرے نے میری بیئر کی خالی بوتل پیشتر اس کے کہ میں اصل کہانی کی طرف آؤں۔ میں آپ کو شیخ سلیم سے متعلق ایک بہت دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ ہم گورڈن کالج میں بی اے فائنل میں پڑھتے تھے کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ایک رکمنی کی شادی کی اُڑتی اُڑتی افواہ ہمیں ملی۔ یہ رکمنی ہماری ہی کسی کلاس میں پڑھتی تھی اور کچھ عرصہ پہلے بُری طرح شیخ سلیم پر فریفتہ شکل صورت اُس کی واجبی تھی مگر میرا دوست شہد کی مکھی تھا چنانچہ دو مہینے ان کا معاشقہ چلتا رہا اُس کے بعد وہ اس سے بالکل اجنبی ہو گیا۔ جب اُس کو بتایا گیا کہ رکمنی جو تمہاری محبوبہ تھی اور جس کی خاطر تم نے اتنے جھگڑے اپنی کلاس کے طالب علموں سے کیے

’’وہ اگر دوسری جگہ بیاہی جائے تو ڈوب مرو۔ لیکن تم تیرنا جانتے ہو۔ ڈوبنے کا کام ہم اپنے ذمے لیتے ہیں‘‘

شیخ سلیم کو اس قسم کی باتیں عموماً کھا جاتی تھیں۔ اس نے اپنی مہین مہین مونچھوں کو تاؤ دینے کی کوشش کی اور کہا

’’اچھا، تم دیکھ لینا کیا ہو گا‘‘

اُس کی پارٹی کے ایک قوی ہیکل لڑکے نے پوچھا کیا ہو گا؟‘‘

شیخ سلیم نے اس کو جھاگ کی طرح بٹھا دیا

’’ہو گا تمہاری ماں کا سر۔ جب شادی کا دن آئے گا، دیکھ لینا۔ چلو آؤ میرے ساتھ مجھے تم سے چند باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘

شادی کا دن آگیا۔ بارات جب دولہا والوں کے گھر کے پاس پہنچی تو کوئی شخص سر پر سہرے باندھے بڑے اچھے گھوڑے پر سوار اندر داخل ہو گیا دولہا موٹر میں جس پر پھولوں کا جال بنا ہوا تھا۔ گھوڑا سوار سہرے سے لدا پھندا شامیانے کے پاس تھا۔ گھوڑاخود دولہا بنا ہوا تھا۔ دولہن کا باپ اور اس کے رشتہ دار آگے بڑھے۔ گھوڑے کا مالک بھاگا بھاگا آگیا تھا اس سہرے سے لدے ہوئے آدمی کو اس جگہ بٹھا دیا گیا، جہاں دولہن کو بھی ساتھ بیٹھا تھا۔ بیچ میں ہون کنڈ تھا جس میں چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کے ٹکڑے جل رہے تھے۔ انھوں نے ننگے بدن اُٹھ کر دلہن کو اشیروادی اور دولہن سے کہا

’’سردار جی دولہن کو جلد بُلائیے مہورت ہو گیا ہے‘‘

فوراً رکمنی پہنچ گئی اور کچھ عرصے کے لیے دولہا کے ساتھ بٹھا دی گئی۔ پنڈت جی نے کچھ پڑھا جس کا مطلب میری سمجھ میں نہ آیا۔ لیکن ایک دم شادی کے اُس جلسے میں ایک ہڑبونگ سی مچ گئی جب کار سے ایک دولہا نکل کر سامنے آگیا اور بلند آواز میں تمام حاضرین کو مخاطب کیا میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ میں دعویٰ دائر کروں گا‘‘

وہ دولہا جو ہاتھ پکڑ کر دُولہن کو اُٹھا رہا تھا بڑی خوفناک آواز میں چلایا

’’ابے، جا بے دعوٰے دائر کرنے کے کچھ لگتے‘‘

یہ کہہ کر اُس نے اپنے پھولوں کا گھونگھٹ اُٹھا دیا اور ان ہزار کے قریب آدمیوں سے جو شامیانے کے نیچے تھے کچھ کہنا چاہا۔ مگر قہقہوں کا ایک سمندر موجیں مارنے لگا۔ دوسری پارٹی کے آدمی بھی ان قہقہوں میں شریک ہوئے کیونکہ جب یہ پھولوں کا پردہ علیحدہ ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ شیخ سلیم ہے۔ رکمنی بڑی خفیف ہوئی، مگر شیخ سلیم نے بڑی جرأت سے کام لے کر اُس سے بلند آواز میں پوچھا

’’تم اس چغد کے ساتھ شادی کرنے کے لیے تیار ہو‘‘

رکمنی خاموش رہی۔

’’اچھا جاؤجہنم میں۔ لیکن ایک دن نہیں پورے تین مہینے تم ہمیں پوجتی رہی ہو‘‘

یہ کہہ کر وہ صحیح دولہا کی طرف بڑھا جس کے منہ سے غصے کے مارے جھاگ نکل رہے تھے آگے بڑھ کر اُس نے اپنے سارے ہار اُس کے گلے میں ڈال دیے۔ سب براتی بُت بنے بیٹھے تھے۔ ہنستا، قہقہے لگاتا وہ اپنے گھوڑے پر بڑی صفائی سے سوار ہوا اور ایڑھ لگا کر کوٹھی سے باہر نکل گیا۔ گھوڑے سے اُتر کر (ہم دُور نکل گئے تھے۔ اس لیے کہ میں اس کے پیچھے گھوڑے کی سی تیز رفتاری سے بھاگا تھا ) اُس نے میرا کاندھا بڑے زور سے ہلایا کیوں بیٹے میں نے تم سے کیا کہا تھا اب دیکھ لیا؟‘‘

ہوا تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر مجھے ڈر تھا کہیں شیخ سلیم گرفتار نہ ہو جائے میں نے اُس سے کہا

’’جو تم نے کیا وہ اور کوئی نہیں کرسکتا، لیکن بھائی میرے کہیں ہنسی میں پھنسی نہ ہو جائے فرض کرو اگر رکمنی کے باپ نے تمھیں گرفتار کرا دیا؟‘‘

وہ اکڑ کر بولا

’’اس کے باپ کا باپ بھی نہیں کرسکتا۔ کون اپنی بیٹی کو عدالت چڑھائے گا۔ میں تو اسی وقت گرفتار ہونے کے لیے تیار ہوں۔ لے جائے مجھے تھانے۔ اس سالی کے سارے پول کھول دُوں گا۔ میرے پاس اس کے درجنوں خطوط پڑے ہیں‘‘

سارے شہر میں یہی افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ رکمنی کا باپ شیخ سلیم کو ضرور اُس کی گستاخی کی سزا دلوائے گا کہ وہ ساری عمر یاد رکھے مگر کچھ نہ ہوا جب کئی دن گزر گئے تو میرے پاس گاتا ہوا آیا۔ تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا اب میں اصل کہانی کی طرف پلٹتا ہوں، جو اس واقعے سے بھی کہیں زیادہ دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ یہ خود اُس نے مجھے سُنائی جس کی صداقت پر مجھے سو فیصد یقین ہے۔ اس لیے کہ شیخ سلیم جھوٹا کبھی نہیں تھا۔ اس نے مجھے بتایا

’’میں ایران میں تھا۔ وہاں کی لڑکیاں عام یورپین لڑکیوں کی طرح ہوتی ہیں وہی لباس وہی وضع قطع، البتہ ناک نقشے کے لحاظ سے کافی مختلف ہوتی ہیں۔ جتنی خرافات وہاں ہوتی ہے شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتی ہے۔ میں نے وہاں کئی شکار کیں۔ وہاں میرے ایک بڑے افسر کرنل عثمانی تھے۔ حالانکہ اُن کا عہدہ جیسا کہ ظاہر ہے مجھ سے بہت بڑا تھا۔ لیکن وہ میرے بڑے مہربان تھے۔ میس میں جب بھی مجھے دیکھتے، زور سے پکارتے۔ ادھر آؤ شیخ، میرے پاس بیٹھو، اور وہ میرے لیے ایک کرسی منگواتے۔ وسکی کا دور چلتا تو اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیتے، کرنل عثمان کو مجھ سے چھیڑ خانی کرنے میں خاص مزا آتا۔ جب وہ کوئی فقرہ مجھ پر چست کرتے تو بہت خوش ہوتے۔ کافی معمر آدمی تھا۔ اس کے علاوہ بڑا افسر، میں خاموش رہتا۔ ان کو ان پولستانی نرسوں سے بڑی دلچسپی تھی جو وہاں ایمبولنس کور میں کام کرتی تھیں۔ یہ پولستانی لڑکیاں بلا کی تنومند ہوتی ہیں۔ یہ موٹی موٹی سفید پنڈلیاں۔ بڑی مضبوط چھاتیاں بڑی بڑی اور صحت مند کوکھے چوڑے اور گوشت سے بھرے ہوئے جن میں سختی ہو۔ لوہے ایسی سخت۔ میری کئی دوست تھیں۔ پر جب میں آئرن سے ملا تو سب کو بھول گیا۔ سارے ایران کو بھول گیا۔ بڑی صفتیں تھیں۔ نقش سب چھوٹے چھوٹے تھے اگر تم اُس کی چھاتیوں اور پنڈلیوں کو پیشِ نظر رکھتے تو یہی سمجھتے کہ اس کے ہاتھ ڈبل روٹی کے مانند ہوں گے۔ اُس کی اُنگلیاں اتنی موٹی ہوں گی جیسے کسی درخت کی ٹہنی۔ مگر نہیں دوست، اس کے ہاتھ بڑے نرم و نازک تھے اور اُس کی اُنگلیاں تم یہ سمجھ لو کہ چغتائی کی بنائی تصویروں کی مخروطی لانبی نہیں، مگر پتلی پتلی تھیں۔ میں تو اُس پر فریفتہ ہو گیا۔ چند روز کی ملاقاتوں ہی میں اُس کے میرے تعلقات بے تکلفی کی حد تک بڑھ گئے۔ یہاں تک پہنچ کر شیخ رُک گیا ایک نیا پیگ گلاس میں ڈالا اور سوڈا ملا کر غٹا غٹ پی گیا

’’نہ یاد کراؤ یہ قصہ‘‘

میں نے اُس سے کہا

’’لیفٹیننٹ صاحب، آپ نے خود ہی تو شروع کیا تھا‘‘

اُس نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر میری طرف دیکھا اور ایک پیگ اپنے گلاس میں تین چار پیگ جو بوتل میں باقی بچ گئے تھے انتقاماً میرے گلاس میں ڈالے اور خود سوکھی جسے انگریزی میں نِیٹ کہتے ہیں پی گیا اور کھانس کھانس کر اپنا بُرا حال کر لیا

’’لعنت ہو تم پر !‘‘

’’یعنی یہ کیا موقعہ تھا مجھ پر لعنت بھیجنے کا‘‘

اُس کی کھانسی اب بند ہو گئی تھی اور وہ رومال سے اپنا منہ پونچھ رہا تھا کہ نہ پوچھو میری جان۔ دوسرے روز رات کو کرنل صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بڑے طنز سے کہا کہو صاحبزادے مجھے بُڈھا سمجھتے ہو۔ وہ تم نے ضرب المثل نہیں سُنی۔ نیا ایک دن پُرانا سو دن۔ میں نے اُن سے عرض کی کرنل صاحب آپ کا میرا کیا مقابلہ۔ مگر میں دل ہی دل میں سوچا کہ یہ کمبخت اس حقیقت سے اب تک غافل ہے کہ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے اور عشق فرما رہا ہے۔

’’میں تو خدا کی قسم جب اس عمر کو پہنچوں گا تو خودکشی کر لوں گا۔ اُس منہ کے ساتھ جس میں آدھے دانت مصنوعی ہیں میری آئرن پر نگاہیں لگائے بیٹھا ہے۔ کرنل ہو گا تو اپنے گھر میں اُس نے کبھی پھر اُس کی بات کی تو ایک ایسا گھونسہ جماؤں گا اس کی سُوکھی گردن پر کہ منکا باہر آ جائے گا۔ دیر تک اس بڈھے کھوسٹ سے آئرن۔ نہایت ہی پیاری آئرن کے متعلق باتیں ہوتی رہیں اور وہ طنز کرنے سے باز نہ آیا۔ وسکی کا چوتھا دور چل رہا تھا میں نے اپنے ہونٹوں پر بڑی فرمانبردار قسم کی مسکراہٹ پیدا کیاور اُس سے کہا کرنل صاحب جو آپ کو بڈھا کہے وہ خود بڈھا ہے آپ تو ماشاء اللہ دھان پان ہیں‘‘

یہ محفل ختم ہوئی تو میں بہت خوش ہوا۔ آئرن نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ دوسرے روز فلاں فلاں ہوٹل میں شام کو سات بجے ملے گی اُس میں فوجیوں کو اجازت تھی اتوار تھا اس لیے میں وردی کے بجائے نہایت اعلیٰ سوٹ پہن کر وہاں پہنچا سات بجنے میں ابھی نو منٹ باقی تھے میں ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تو میرے پاؤں وہیں کے وہیں جم گئے۔ کرنل عثمانی صاحب آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے غافل آئرن کا بڑا لمبا بوسہ لے رہے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اُس کرنل سے کہیں زیادہ بڈھا کھوسٹ بن گیا ہوں۔ (۳۱؍ مئی ۵۴ ؁ء)

سعادت حسن منٹو

بُو

برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح نہا رہے تھے۔ ساگوان کے اس اسپرنگ دار پلنگ پر جو اب کھڑکی کے پاس سے تھوڑا ادھر سرکا دیا گیا تھا ایک گھاٹن لونڈیا رندھیر کے ساتھ چپٹی ہُوئی تھی۔ کھڑکی کے پاس باہر پیپل کے نہائے ہُوئے پتے رات کے دودھیا اندھیرے میں جھومروں کی طرح تھرتھرا رہے تھے۔ اور شام کے وقت جب دن بھر ایک انگریزی اخبار کی ساری خبریں اور اشتہار پڑھنے کے بعد کچھ سُنانے کے لیے وہ بالکنی میں آکھڑا ہوا تھا تو اس نے اس گھاٹن لڑکی کو جو ساتھ والے رسیوں کے کارخانے میں کام کرتی تھی اور بارش سے بچنے کے لیے املی کے پیڑ کے نیچے کھڑی تھی، کھانس کھانس کر اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور اس کے بعد ہاتھ کے اشارے سے اوپر بُلا لیا تھا۔ وہ کئی دن سے شدید قسم کی تنہائی سے اُکتا گیا تھا۔ جنگ کے باعث بمبئی کی تقریباً تمام کرسچین چھوکریاں جو سستے داموں مل جایا کرتی تھیں عورتوں کی انگریزی فوج میں بھرتی ہو گئی تھیں، ان میں سے کئی ایک نے فورٹ کے علاقے میں ڈانس اسکول کھول لیے تھے جہاں صرف فوجی گوروں کو جانے کی اجازت تھی۔ رندھیر بہت اداس ہو گیا تھا۔ اس کی انا کا سب تو یہ تھا کہ کرسچین چھوکریاں نایاب ہو گئی تھیں اور دوسرا یہ کہ فوجی گوروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذب، تعلیم یافتہ اور خوبصورت نوجوان اس پر فورٹ کے لگ بھگ تمام کلبوں کے دروازے بند کردیے تھے۔ اس کی چمڑی سفید نہیں تھی۔ جنگ سے پہلے رندھیر ناگپاڑہ اور تاج محل ہوٹل کی کئی مشہور و معروف کرسچین لڑکیوں سے جسمانی تعلقات قائم کر چکا تھا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ اس قسم کے تعلقات کی کرسچین لڑکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ معلومات رکھتا تھا جن سے یہ چھوکریاں عام طور پر رومانس لڑاتی ہیں اور بعد میں کسی بیوقوف سے شادی کرلیتی ہیں۔ رندھیر نے بس یوں ہی ہیجل سے بدلہ لینے کی خاطر اس گھاٹن لڑکی کو اشارے پر بلایا تھا۔ ہیجل اس کے فلیٹ کے نیچے رہتی تھی اور ہر روز صبح وردی پہن کر کٹے ہوئے بالوں پر خاکی رنگ کی ٹوپی ترچھے زاویئے سے جما کر باہر نکلتی تھی اور لڑکپن سے چلتی تھی جیسے فٹ پاتھ پر چلنے والے سبھی لوگ ٹاٹ کی طرح اس کے راستے میں بچھے چلے جائیں گے۔ رندھیر سوچتا تھا کہ آخر کیوں وہ ان کرسچین چھوکریوں کی طرف اتنا زیادہ مائل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے جسم کی تمام دکھائی جاسکنے والی اشیا کو نمائش کرتی ہیں۔ کسی قسم کی جھجک محسوس کیے بغیر اپنے کارناموں کا ذکر کردیتی ہیں۔ اپنے بیتے پرانے رومانسوں کا حال سُنا دیتی ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے لیکن کسی دوسری لڑکی میں بھی تو یہ خاصیتیں ہوسکتی ہیں۔ رندھیر نے جب گھاٹن لڑکی کو اشارے سے اوپر بُلایا تو اسے کسی طرح بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ سُلالے گا لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے اس کے بھیگے ہوئے کپڑے دیکھ کر یہ سوچا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیچاری کو نمونیا ہو جائے تو رندھیر نے اس سے کہا تھا۔

’’یہ کپڑے اُتار دو۔ سردی لگ جائے گی۔ ‘‘

وہ رندھیر کی اس بات کا مطلب سمجھ گئی تھی کیوں کہ اس کی آنکھوں میں شرم کے لال ڈورے تیر گئے تھے لیکن بعد میں جب رندھیر نے اسے اپنی دھوتی نکال کر دی تو اس نے کچھ دیر سوچ کر اپنا لہنگا اتار دیا۔ جس پر میل بھیگنے کی وجہ سے اور بھی نمایاں ہو گیا تھا۔ لہنگا اتار کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور جلدی سے دھوتی اپنی رانوں پر ڈال لی۔ پھر اس نے اپنی تنگ بھنچی بھنچی چولی اتارنے کی کوشش کی جس کے دونوں کناروں کو ملا کر اس نے ایک گانٹھ دے رکھی تھی۔ وہ گانٹھ اس کے تندرست سینے کے ننھے لیکن سمٹیلے گڑھے میں چھپ گئی تھی۔ دیر تک وہ اپنے گھسے ہوئے ناخنوں کی مدد سے چولی کی گانٹھ کھولنے کی کوشش کرتی رہی جو بھیگنے کی وجہ سے بہت زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔ جب تھک ہار کر بیٹھ گئی تو اس نے مراٹھی زبان میں رندھیر سے کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا۔

’’میں کیا کروں۔ نہیں نکلتی۔ ‘‘

رندھیر اس کے پاس بیٹھ گیا اور گانٹھ کھولنے لگا۔ جب نہیں کھلی تو اس نے چولی کے دونوں سروں کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ گانٹھ سراسر پھیل گئی اور اس کے ساتھ ہی دو دھڑکتی ہوئی چھاتیاں ایک دم سے نمایاں ہو گئیں۔ لمحہ بھر کے لیے رندھیر نے سوچا کہ اس کے اپنے ہاتھوں نے اس گھاٹن لڑکی کے سینے پر، نرم نرم گندھی ہُوئی مٹی کو ماہر کمھار کی طرح دو پیالوں کی شکل بنا دی ہے۔ اس کی صحت مند چھاتیوں میں وہی گدگداہٹ، وہی دھڑکن، وہی گولائی، وہی گرم گرم ٹھنڈک تھی جو کمھار کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تازہ برتنوں میں ہوتی ہے۔ مٹمیلے رنگ کی جوان چھاتیوں میں جو بالکل کنواری تھیں۔ ایک عجیب و غریب قسم کی چمک پیدا کردی تھی جو چمک ہوتے ہُوئے بھی چمک نہیں تھی۔ اس کے سینے پر یہ ایسے دیے معلوم ہوتے تھے جو تالاب کے گدلے پانی پر جل رہے تھے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے اسی طرح کپکپارہے تھے۔ لڑکی کے دونوں کپڑے جو پانی میں شرابور ہو چکے تھے ایک گدلے ڈھیر کی صورت میں پڑے تھے اور وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی ہوئی تھی۔ اس کے ننگے بدن کی گرمی اس کے جسم میں ایسی ہلچل سی پیدا کر رہی تھی جو سخت جاڑے کے دنوں میں نائیوں کے گرم حماموں میں نہاتے وقت محسوس ہوا کرتی ہے۔ دن بھر وہ رندھیر کے ساتھ چپٹی رہی۔ دونوں جیسے ایک دوسرے کے مڈ ہو گئے تھے۔ انھوں نے بہ مشکل ایک دو باتیں کی ہوں گی۔ کیوں کہ جو کچھ بھی ہورہا تھا سانسوں، ہونٹوں اور ہاتھوں سے طے ہورہا تھا۔ رندھیر کے ہاتھ ساری کی چھاتیوں پر ہوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے۔ چھوٹی چھوٹی چوچیاں اور موٹے موٹے گول دانے جو چاروں طرف ایک سیاہ دائرے کی شکل میں پھیلے ہوئے تھے ہوائی جھونکوں سے جاگ اٹھتے اور اس گھاٹن لڑکی کے پورے بدن میں ایک سرسراہٹ پیدا ہو جاتی کہ خود رندھیر بھی کپکپا اٹھتا۔ ایسی کپکپاہٹوں سے رندھیر کا سینکڑوں بار واسطہ پڑ چکا تھا۔ وہ ان کو بخوبی جانتا تھا۔ کئی لڑکیوں کے نرم و نازک اور سخت سینوں سے اپنا سینہ ملا کر کئی کئی راتیں گزار چکا تھا۔ وہ ایسی لڑکیوں کے ساتھ بھی رہ چکا تھا جو بالکل اس کے ساتھ لپٹ کر گھر کی وہ ساری باتیں سُنا دیا کرتی تھیں جو کسی غیر کے لیے نہیں ہوتیں۔ وہ ایسی لڑکیوں سے بھی جسمانی تعلق قائم کر چکا تھا جو ساری محنت کرتی تھیں اور اسے کوئی تکلیف نہیں دیتی تھیں۔ لیکن یہ گھاٹن لڑکی جو پیڑ کے نیچے بھیگی ہُوئی کھڑی تھی اور جسے اس نے اشارے سے اوپر بلا لیا تھا۔ مختلف قسم کی لڑکی تھی۔ ساری رات رندھیر کو اس کے جسم سے ایک عجیب قسم کی بُو آتی رہی تھی۔ اس بُو کو جو بیک وقت خوشبو بھی تھی اور بدبُو بھی۔ وہ ساری رات پیتا رہا۔ اس کی بغلوں سے، اس کی چھاتیوں سے، اس کے بالوں سے، اس کے پیٹ سے، جسم کے ہر حصّے سے یہ جو بدبُو بھی تھی اور خوشبو بھی، رندھیر کے پورے سراپا میں بس گئی تھی۔ ساری رات وہ سوچتا رہا تھا کہ یہ گھاٹن لڑکی بالکل قریب ہونے پر بھی ہرگز اتنی قریب نہ ہوتی اگر اس کے جسم سے یہ بُو نہ اُڑتی۔ یہ بو اس کے دل و دماغ کی ہر سلوٹ میں رینگ رہی تھی۔ اس کے تمام نئے پرانے محسوسات میں رچ گئی تھی۔ اس بُو نے اس لڑکی اور رندھیر کو جیسے ایک دوسرے سے ہم آہنگ کردیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے تھے۔ ان بیکراں گہرائیوں میں اُتر گئے تھے جہاں پہنچ کر انسان ایک خالص انسانی تسکین سے محظوظ ہوتا ہے۔ ایسی تسکین جو لمحاتی ہونے پر بھی جاوداں تھی۔ مسلسل تغیر پذیر ہونے پر بھی مضبوط اور مستحکم تھی۔ دونوں ایک ایسا جواب بن گئے تھے جو آسمان کے نیلے خلا میں مائل پرواز رہنے پر بھی دکھائی دیتا رہے۔ اس بُو کو جو اس گھاٹن لڑکی کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی رندھیر بخوبی سمجھتا تھا لیکن سمجھتے ہُوئے بھی وہ اس کا تجزیہ نہیں کرسکتا تھا۔ جس طرح کبھی مٹی پر پانی چھڑکنے سے سوندھی سوندھی بُو نکلتی ہے۔ لیکن نہیں، وہ بُو کچھ اور طرح کی تھی۔ اس میں لونڈر اور عطر کی آمیزش نہیں تھی، وہ بالکل اصلی تھی۔ عورت اور مرد کے جسمانی تعلقات کی طرح اصلی اور مقدس۔ رندھیر کو پسینے کی بُو سے سخت نفرت تھی۔ نہانے کے بعد وہ ہمیشہ بغلوں وغیرہ میں پاؤڈر چھڑکتا تھا یا کوئی ایسی دوا استعمال کرتا تھا جس سے وہ بدبو جاتی رہے لیکن تعجب ہے کہ اس نے کئی بار۔ ہاں کئی بار اس گھاٹن لڑکی کی بالوں بھری بغلوں کو چوما اور اسے بالکل گھن نہیں آئی بلکہ عجیب قسم کی تسکین کا احساس ہوا۔ رندھیر کو ایسا لگتا تھاکہ وہ اسے پہچانتا ہے۔ اس کے معنی بھی سمجھتا ہے لیکن کسی اور کو نہیں سمجھا سکتا۔ برسات کے یہی دن تھے۔ یوں ہی کھڑکی کے باہر جب اس نے دیکھا تو پیپل اسی طرح نہا رہے تھے۔ ہوا میں سرسراہٹیں اور پھڑپھڑاہٹیں گھلی ہُوئی تھیں۔ اس میں دبی دبی دُھندلی سی روشنی سمائی ہُوئی تھی۔ جیسے بارش کی بوندوں کا ہلکا پھلکا غبار نیچے اُتر آیا ہو۔ برسات کے یہی دن تھے جب میرے کمرے میں ساگوان کا صرف ایک ہی پلنگ تھا۔ لیکن اب اس کے ساتھ ایک اور پلنگ بھی تھا اور کونے میں ایک نئی ڈریسنگ ٹیبل بھی موجود تھی۔ دن لمبے تھے۔ موسم بھی بالکل ویسا ہی تھا۔ بارش کی بوندوں کے ہمراہ ستاروں کی طرح اس کا غبار سا اسی طرح اتر رہا تھا لیکن فضا میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہوئی تھی۔ دوسرا پلنگ خالی تھا۔ اس پلنگ پر رندھیر اوندھے منہ لیٹا کھڑکی کے باہر پیپل کے پتوں پر بارش کی بوندوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ ایک گوری چٹی لڑکی جسم کو چادر میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے کرتے قریب قریب سو گئی۔ اس کی سرخ ریشمی شلوار دوسرے پلنگ پر پڑی تھی جس کے گہرے سرخ رنگ کا ایک پھندنا نیچے لٹک رہا تھا۔ پلنگ پر اس کے دوسرے اُتارے کپڑے بھی پڑے تھے۔ سنہری پھول دار جمپر، انگیا، جانگیا اور دوپٹہ۔ سرخ تھا۔ گہرا سرخ اور ان سب میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو بسی ہُوئی تھی۔ لڑکی کے سیاہ بالوں میں مکیش کے ذرّے دُھول کے ذرّوں کی طرح جمے ہُوئے تھے۔ چہرے پر پاؤڈر، سرخی اور مکیش کے ان ذرّوں نے مل جل کر ایک عجیب رنگ بکھر دیا تھا۔ بے نام سا اُڑا اُڑا رنگ اور اس کے گورے سینے پر کچے رنگ کے جگہ جگہ سرخ دھبے بنا دیے تھے۔ چھاتیاں دودھ کی طرح سفید تھیں۔ ان میں ہلکا ہلکا نیلا پن بھی تھا۔ بغلوں کے بال منڈے ہُوئے تھے جس کی وجہ سے وہاں سرمئی غبار سا پیداہو گیا تھا۔ رندھیر اس لڑکی کی طرف دیکھ دیکھ کر کئی بار سوچ چکا تھا۔ کیا ایسا نہیں لگتا جیسے میں نے ابھی ابھی کیلیں اکھیڑ کر اس کو لکڑی کے بند بکس میں سے نکالا ہو۔ کتابوں اور چینی کے برتنوں پر ہلکی ہلکی خراشیں پڑ جاتی ہیں، ٹھیک اسی طرح اس لڑکی کے جسم پر بھی کئی نشان تھے۔ جب رندھیر نے اس کی تنگ اور چست انگیا کی ڈوریاں کھولی تھیں تو اس کی پیٹھ پر اور سامنے سنیے پر نرم نرم گوشت پر جھریاں سی بنی ہوئی تھیں اور کمر کے چاروں طرف کس کر باندھے ہوئے ازار بند کا نشان۔ وزنی اور نکیلے جڑاؤ نیکلس سے اس کے سینے پر کئی جگہ خراشیں پڑ گئی تھیں۔ جیسے ناخنوں سے بڑے زور سے کھجایا گیا ہو۔ برسات کے وہی دن تھے۔ پیپل کے نرم نرم پتوں پر بارش کی بوندیں گرنے سے ویسی ہی آواز پیدا ہورہی تھی جیسی رندھیر اس دن ساری رات سنتا رہا تھا۔ موسم بے حد سہانا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی لیکن اس میں حنا کے عطر کی تیز خوشبو گھلی ہُوئی تھی۔ رندھیر کے ہاتھ بہت دیر تک اس گوری چٹی لڑکی کے کچے دودھ کی طرح سفید سینے پر ہُوا کے جھونکوں کی طرح پھرتے رہے تھے۔ اس کی انگلیوں نے اس گورے گورے بدن میں کئی چنگاریاں دوڑتی ہُوئی محسوس کی تھیں۔ اس نازک بدن میں کئی جگہوں پر سمٹی ہوئی کپکپاہٹوں کا بھی اسے پتہ چلا تھا جب اس نے اپنا سینہ اس کے سینے کے ساتھ ملایا تو رندھیر کے جسم کے ہررونگٹے نے اس لڑکی کے بدن کے چھڑے ہُوئے تاروں کی بھی آواز سُنی تھی۔ مگر وہ آواز کہاں تھی؟ وہ پکار جو اس نے گھاٹن لڑکی کے بدن میں دیکھی تھی۔ وہ پکار جو دودھ کے پیاسے بچے کے رونے سے زیادہ ہوتی ہے، وہ پکار جو حلقہ ءِ خواب سے نکل کر بے آواز ہو گئی تھی۔ رندھیر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بالکل قریب ہی پیپل کے نہاتے ہُوئے پتے تھرتھرارہے تھے۔ وہ ان کی مستی بھر کپکپاہٹوں کے اس پار کہیں بہت دُور دیکھنے کی کوشش کررہا تھا جہاں مٹھیلے بادلوں میں عجیب و غریب قسم کی روشنی گھلی ہُوئی دکھائی دے رہی تھی۔ ٹھیک ویسے ہی جیسی اس گھاٹن لڑکی کے سینے میں اُسے نظر آتی تھی۔ ایسی پراسرار گفتگو کی طرح دبی لیکن واضح تھی۔ رندھیر کے پہلو میں ایک گوری چٹی لڑکی۔ جس کا جسم دودھ اور گھی میں گندھے میدے کی طرح ملائم تھا، لیٹی تھی۔ اس کے نیند سے ماتے بدن سے حنا کے عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ جو اب تھکی تھکی سی معلوم ہوتی تھی۔ رندھیر کو یہ دم توڑتی اور جنوں کی ہوئی خوشبو بہت بُری معلوم ہوئی۔ اس میں کچھ کھٹاس تھی۔ ایک عجیب قسم کی جیسی بدہضمی کے ڈکاروں میں ہوتی ہے۔ اداس۔ بے رنگ۔ بے چین۔ رندھیر نے اپنے پہلو میں لیٹی ہُوئی لڑکی کی طرف دیکھا۔ جس طرح پھوٹے ہُوئے دودہ کے بے رنگ پانی میں سفید مردہ پھٹکیاں تیرنے لگتی ہیں اسی طرح اس لڑکی کے جسم پر خراشیں اور دھبے تیر رہے تھے اور وہ حنا کے عطر کی اوٹ پٹانگ خوشبو۔ رندھیر کے دل و دماغ میں وہ بُو بسی ہُوئی تھی جو اس گھاٹن لڑکی کے جسم سے بنا کسی کوشش کے از خود نکل رہی تھی۔ وہ بو جو حنا کے عطر سے کہیں زیادہ ہلکی پھلکی اور دبی ہوئی تھی۔ جس میں سونگھے جانے کی کوشش شامل نہیں تھی۔ وہ خود بخود ناک کے اندر گھس کر اپنی صحیح منزل پر پہنچ جاتی تھی۔ رندھیر نے آخری کوشش کے طور پر اس لڑکی کے دودھیا جسم پر ہاتھ پھیرا لیکن کپکپی محسوس نہ ہُوئی۔ اس کی نئی نویلی بیوی جو ایک فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی بیوی تھی، جس نے بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی تھی اور جو اپنے کالج کے سینکڑوں لڑکوں کے دلوں کی دھڑکن تھی۔ رندھیر کی کسی بھی حسّ کو نہ چھو سکی۔ وہ حنا کی خوشبو میں اُس بُو کو تلاش کررہا تھا جو انھیں دنوں میں جب کہ کھڑکی کے باہر پیپل کے پتے بارش میں نہا رہے تھے۔ اس گھاٹن لڑکی کے میلے بدن سے آئی تھی۔

سعادت حسن منٹو

بلونت سنگھ مجیٹھیا

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورًا بے تکلف ہو گئے۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سیّد ہیں اور میرے دور دراز کے رشتہ دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ سیّد تھے اور میں ایک محض کشمیری۔ بہر حال، ان سے میری بے تکلفی بہت بڑھ گئی۔ ان کو ادب سے کوئی شغف نہیں تھا۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ میں افسانہ نگار ہوں تو انھوں نے مجھ سے میری چند کتابیں مستعار لیں اور پڑھیں۔ یہ کتابیں جو افسانوں کے مجموعے تھیں، انھوں نے پڑھیں، اور مجھے بہت تعجب ہوا کہ انھوں نے چند افسانوں کی بہت تعریف کی۔ اتفا ق سے یہ افسانے ایسے تھے جو دنیا میں شاہکار تسلیم کیے جاچکے تھے۔ شاہ صاحب میرے پڑوسی تھے۔ انھوں نے ایک مکان الاٹ کر ا رکھا تھا، لیکن خاندان کے افراد چونکہ زیادہ تھے اس لیے انھوں نے اپنے فلیٹ کے نیچے موٹر گیراج پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اس میں انھوں نے اپنی بیٹھک کا انتظام کیا تھا۔ اوپر زنانہ تھا۔ شاہ صاحب کے دوست بے شمار تھے اس لیے اس گیراج میں وہ ان کی خاطر مدارت کرتے تھے۔ ایک دن ان سے افسانوں کے بارے میں باتیں ہوئیں تو انھوں نے مجھ سے کہا:

’’میری زندگی میں ایسی کئی حقیقتیں ہیں جن کو تم افسانے بنا کر پیش کرسکتے ہوں۔ ‘‘

میں ہر وقت افسانوں کی تلاش میں رہتا ہوں، چنانچہ میں فوراً متوجہ ہوا اور شاہ صاحب سے کہا:

’’مجھے امید ہے کہ آپ اچھا مواد دیں گے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے جواباً کہا:

’’میں افسانہ نگار نہیں۔ لیکن میری زندگی میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جو قابل ذکر ہے۔ میں نے قابل ذکر اس لیے کہا ہے کہ آپ بہت بڑے افسانہ نگار ہیں، ورنہ یہ واقعہ جو اب میں بیان کرنے والا ہوں، میرے نزدیک بے حد حیرت انگیز ہے۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے کہا:

’’ایسا بھی کیا حیرت انگیز ہو گا!‘‘

پھر تھوڑے سے وقفے کے بعد اس میں تھوڑی سی اصلاح کی:

’’لیکن ہوسکتا ہے کہ آپ کے لیے وہ واقعی حیرت انگیز ہو۔ ‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’جی! میں نہیں کہہ سکتا کہ جو واقعہ میں آپ کو سنانے والا ہوں، ہر شخص کے لیے حیرت کا باعث ہو گا۔ میں اپنی ذات کے متعلق آپ سے عرض کررہا ہوں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ میں جو داستان آپ کو سناؤں گا، اس وقت تک میری زندگی میں محیر العقول حیثیت رکھتی ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے

’’نیل کٹر‘‘

سے اپنے ناخن کاٹنے شروع کیے۔ میں ان کی داستان سننے کے لیے بے تاب تھا، مگر شاید وہ آغاز کے متعلق سوچ رہے تھے کہ اپنی داستان کو کہاں سے شروع کریں۔ میرا خیال درست تھا کہ جو کچھ ان پر بیتا تھا، اس کو کئی برس ہوچکے تھے۔ وہ تمام واقعات کی یاد اپنے ذہن میں تازہ کررہے تھے۔ میں نے سگریٹ سلگایا۔ انھوں نے اپنی دس انگلیوں کے ناخن کاٹ کر

’’نیل کٹر‘‘

تپائی پر رکھا اور مجھ سے مخاطب ہوئے۔

’’میں ان دنوں کابل میں تھا۔ ‘‘

یہ کہہ کر چند لمحات خاموش رہے، اس کے بعد بولے۔

’’میری وہاں بہت بڑی دکان تھی جس میں بڑھیا سے بڑھیا سامان موجود رہتا تھا۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’آپ جنرل مرچنٹ تھے؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ کابل کا سب سے بڑا جنرل مرچنٹ۔ میری دکان میں کابل کی قریب قریب ہر عورت سودا لینے آتی تھی۔ آپ سے ایک بات عرض کروں۔ ساتھ کے دکاندار جب یہ دیکھتے تھے کہ کسی روز عورتوں کی بجائے میری دکان میں مرد گاہک آئے ہیں تو وہ مجھ سے فارسی زبان میں افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ آغا آج یہ کیا ہوا۔ کابل کی عورتیں اور لڑکیاں مر گئیں یا تمہارے نصیب سو گئے۔ ‘‘

شاہ صاحب مسکرا دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اور وہ کیا جواب دے سکتے تھے۔ لیکن ان کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ ان کی دکان میں گاہکوں کی اکثریت عورتوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے، اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ سب ان کی چرب زبانی کا معجزہ ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب! میں بہترین سیلز مین ہوں۔ خاص طور پر عورتوں کے ساتھ تو میں اس طرح سودا کرسکتا ہوں کہ یہاں لاہور میں کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ بی اے ہوں۔ تھوڑی بہت سائیکالوجی بھی میں نے پڑھی ہے، اس لیے مجھے معلوم ہے کہ عورتوں سے کس طرح

’’ڈیل‘‘

کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سارے کابل میں ایک میری دکان ہی ایسی تھی جس میں ہر وقت کوئی نہ کوئی گاہک موجود ہوتا تھا۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب کی یہ خود تعریفی سنی اور ان سے کہا۔

’’یقیناً آپ بہترین سیلز مین ہیں کہ آپ کی گفتگو کا انداز ہی اس کا ثبوت ہے۔ ‘‘

شاہ صاحب مسکرائے۔

’’مگر مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی داستان بہترین سیلز مین کے انداز بیان میں بیان نہیں کرسکوں گا۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’آپ شروع تو کیجیے!‘‘

شاہ صاحب نے چند لمحات اپنے حافظے کو پھر ٹٹولا اور اپنی داستان شروع کی

’’منٹو صاحب! جیسا کہ میں آپ سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میں کابل میں تھا۔ یہ کوئی دس برس پہلے کی بات ہے جب میری صحت بہت اچھی تھی۔ یوں تو میں اب بھی تنومند کہلاتا ہوں، مگر اس زمانے میں میرا جسم آج مقابلے میں دگنا تھا۔ ہر روز ورزش کرتا تھا سینکڑوں ڈنڈ پیلتا تھا، مگدر گھماتا تھا۔ سگریٹ پیتا تھا نہ شراب، بس ایک اچھا کھانے کی عادت تھی۔ افغانی نہیں، ہندوستانی۔ چنانچہ میں امرتسر سے اپنے ساتھ ایک بہت اچھا کشمیری باورچی لے گیا تھا جو ہر روز میرے لیے لذیذ سے لذیذ کھانے تیار کرکے میز پررکھتا تھا۔ میری زندگی بڑی ہموار گزرتی تھی۔ آمدن بہت معقول تھی۔ بینک میں لاکھوں افغانی روپے جمع تھے۔ لیکن۔ ‘‘

شاہ صاحب تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ میں نے ان سے پوچھا۔

’’لیکن کہہ کر آپ چپ ہو گئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں نکلتا کہ آپ پھر بھی ناخوش تھے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے اعتراف کیا

’’جی ہاں!میں ان تمام آسائشوں کے باوجود ناخوش تھا۔ اس لیے کہ میں اکیلا تھا۔ مجرد تھا۔ اگر میری دکان میں عورتیں اور لڑکیاں زیادہ نہ آتیں تو بہت ممکن ہے کہ مجھے اپنے تجرد کا احساس نہ ہوتا۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا۔ کابل کی ہر صاحب ثروت عورت میری دکان میں آتی تھی۔ دکان میں داخل ہوتے ہی یہ عورتیں اور لڑکیاں اپنا برقع اتار کر ایک طرف رکھتیں اور سودا خریدنے میں مصروف ہو جاتیں۔ منٹو صاحب! آپ کا شاید یہ خیال ہو کہ وہ بڑا شرعی قسم کا لباس پہنتی ہوں گی، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یوں تو وہاں کی عورتیں اور لڑکیاں پردہ کرتی ہیں مگر لباس ٹھیٹ یورپین پہنتی ہیں۔ سکرٹ، کٹے ہوئے بال، رنگے ہوئے ناخن، پنڈلیاں ننگی۔ جب وہ میری دکان میں آتی تھیں تو اپنے برقعے اتار کر ایک طرف رکھ دیتی تھیں اور مال دیکھنے میں مصروف ہو جاتی تھیں۔ ‘‘

شاہ صاحب نے بولنا بند کیا تو میں نے ان سے پوچھا۔

’’آپ کو ان میں سے کسی سے محبت تو یقیناً ہو گئی ہو گی؟‘‘

شاہ صاحب بہت سنجیدہ ہو گئے۔

’’جی ہاں! ایک لڑکی سے ہو گئی تھی جو اپنا برقع نہیں اتارتی تھی، حتیٰ کہ نقاب بھی نہیں اٹھاتی تھی۔ ‘‘

میں نے ان سے پوچھا۔

’’کون تھی وہ؟‘‘

انھوں نے جواب دیا۔

’’ایک بہت بڑے گھرانے سے متعلق تھی۔ اس کا باپ فوج کا اعلیٰ افسر تھا۔ بڑا سخت گیر۔ مجھے اس سے صرف اس لیے محبت ہوئی کہ وہ ہاتھوں کے علاوہ اپنے جسم کا کوئی حصہ نہیں دکھاتی تھی۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’اس کی کیا وجہ؟‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’مجھے معلوم نہیں، اور نہ میں نے اس سے کبھی اس بارے میں استفسار ہی کیا۔ لیکن میرے تصور میں وہ انتہا درجے کی حسین تھی۔ گوری چٹی۔ جسم خواہ برقع میں لپٹا ہو، لیکن اس کے تناسب کے متعلق اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ میں نے چور آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ وہ جوانی کا آدرش مجسمہ ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ چند منٹوں کے لیے میری دکان میں آتی تھی۔ چیزیں خریدنے اور ان کی قیمتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں چند منٹ صرف کرتی تھی اور چلی جاتی تھی۔ میں نے شاہ صاحب سے کہا۔

’’یہ سلسلہ کب تک جاری رہا۔ ‘‘

قریب کے چھ مہینے تک مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ میں اس سے اپنی محبت کا اظہار کروں۔ میں اس سے بہت مرعوب تھا اس لیے وہ دوسروں سے مختلف تھی۔ اس میں ایک عجیب قسم کی رعونت تھی۔ میں اس کو بے طرح گھورتا تھا، حالانکہ یہ شائستگی نہیں تھی لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ منٹو صاحب! ایک دن میں دکان میں بیٹھا تھا اس کے متعلق سوچ رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ نوکر نے ریسیور اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ کوئی خاتون آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ کوئی گاہک ہو گی اور نئے مال کے متعلق پوچھنا چاہتی ہو گی۔ اٹھ کر میں نے ریسیور ہاتھ میں لیا اور پوچھا۔ مادام! آپ کیا چاہتی ہیں؟ ادھر سے آواز آئی کیا آپ سید مظفر علی ہیں؟ میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ ارشاد! اب میں نے آواز پہچان لی تھی۔ یہ اسی کی تھی۔ اسی کی جو میری دکان میں برقع نہیں اتارتی تھی۔ میں گھبرا گیا۔ منٹو صاحب! یہ عاشق ہونا بھی ایک عجیب لعنت ہے۔ ‘‘

یہ سن کر میں مسکرا دیا۔

’’آپ ٹھیک فرماتے ہیں شاہ صاحب۔ لیکن افسوس ہے کہ میں اس لعنت میں ابھی تک گرفتار نہیں ہوا۔ ‘‘

شاہ صاحب کو بہت افسوس ہوا۔

’’حد ہو گئی۔ انسان اپنی جوانی میں کم از کم ایک مرتبہ تو ضرور عشق میں گرفتار ہوتا ہے۔ خیر، آپ کو ابھی تک عشق نہیں ہوا تو خدا کرے کہ بہت جلد ہو جائے، کیوں کہ یہ مرض بہت دلچسپ ہے۔ ‘‘

میں نے مسکراکر شاہ صاحب سے کہا۔

’’آپ اپنی داستان بیان کیجیے۔ مجھے عشق ہو گا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو اس کی پوری روداد سنا دوں گا۔ ‘‘

شاہ صاحب کرسی پر سے اٹھ کر پلنگڑی پر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کرلیں۔

’’منٹو صاحب۔ میں اس لڑکی کے عشق میں اس بری طرح گرفتار ہوا کہ ورزش کرنا بھول گیا۔ وہ میری دکان پر اکثر آتی تھی۔ میں اس کو گھورتا تھا۔ لیکن دیکھیے میرا دماغ کتنا خراب ہو گیا ہے، یہ اسی عشق خانہ خراب کا باعث ہے۔ میں آپ سے اس کے ٹیلی فون کی بات کررہا تھا۔ جب میں نے ریسیور اٹھایا اور اس کی آواز پہچان لی تو اس نے مجھ سے کہا۔

’’دیکھو میں جب بھی تمہاری دکان پر آتی ہوں، تم مجھے گھورتے ہو۔ اگر اپنی خیریت چاہتے ہو، تو ٹھیک ہو جاؤ ورنہ تمہارے حق میں برا ہو گا۔ منٹو صاحب! میں جواب سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع کردیا۔ میں دیر تک گونگے ریسیور کو کان کے ساتھ لگائے کھڑا رہا، اور سوچتا رہا کہ اس دھمکی کا مطلب کیا ہے؟‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’کیا وہ دھمکی اصلی تھی؟‘‘

’’جی ہاں۔ چوتھے روز وہ میری دکان میں آئی تو میں نے اس کی نقاب کی طرف پھر انہی نگاہوں سے دیکھا تو اس نے جھنجھلا کر میرے ملازموں کے سامنے مجھ سے کہا۔

’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم مجھے اس طرح دیکھتے ہو‘‘

۔ میں سُن ہو گیا۔ لیکن اس نے چند چیزیں خریدیں۔ دام دیے اور اپنی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔ ‘‘

میں شاہ صاحب کی داستان میں کافی دلچسپی لے رہا تھا۔

’’عجیب لڑکی تھی۔ آپ سے اسے نفرت بھی تھی، مگر اس کے باوجود آپ کی دکان میں آتی تھی۔ ‘‘

شاہ صاحب نے آنکھیں کھولیں۔

’’منٹو صاحب! یہی وجہ تھی کہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس کی نفرت و حقارت مصنوعی ہے دراصل وہ میری محبت سے متاثر ہو چکی ہے اور محض بناوٹ کے طور پر غصے کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن جب ایک روز اس نے مجھے بہت زور سے لعن طعن کی تو میں سرد ہو گیا۔ پر اس کی محبت تھی جو میرے دل سے جاتی ہی نہیں تھی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اس کو بھول جاؤں۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ تم عجیب بے وقوف ہو۔ ایک لڑکی جس کی تم نے شکل نہیں دیکھی۔ جو تم سے نفرت کرتی ہے، تم اس سے عشق فرما رہے ہو۔ باز آؤ، تمہارا کاروبار ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ سارے افغانستان میں تمہاری ساکھ ہے۔ یہ کیا جھک مار رہے ہو۔ لیکن منٹو صاحب! عشق بہت بری بلا ہے۔ میں اس سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکا۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’آپ خواہ مخواہ داستان طویل بناتے جارہے ہیں۔ انجام پر پہنچیے۔ ‘‘

شاہ صاحب پلنگڑی پر سے اٹھے اور کرسی پر بیٹھ گئے۔

’’حضرت! ایسی داستانیں اکثر طویل ہوا کرتی ہیں۔ عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا۔ محض ایک مذاق ہوتا ہے۔ خیر! اب جب کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی داستان طویل نہ بناؤں تو مختصر طورپر عرض کرتا ہوں کہ میرا عشق جب بہت شدت اختیار کرگیا تو ایک روز میں بے اختیار رونے لگا۔ میرے شہر امرتسر کا ایک باشندہ سردار بلونت سنگھ تھا جو مجیٹھ کے ایک اچھے خاندان کا فرد تھا۔ وہ کابل میں ایک انجینئرنگ فرم میں ملازم تھا۔ کھانے پینے والا آدمی تھا، اس لیے وہ ہر مہینے مجھ سے پچاس ساٹھ روپے قرض لے جاتا تھا۔ مزید قرض لینے کی غرض ہی سے وہ اس وقت میری دکان میں آیا، جب کہ میری آنکھیں نمناک تھیں۔ وہ میرے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے معلوم نہیں مجھ سے کیا پوچھا اور میں نے جانے کیا جواب دیا۔ لیکن جب اس نے مجھ سے یہ کہا۔

’’دوست! تم کو کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ‘‘

تو میں چونک پڑا، نہیں نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا اپنی گھنی مونچھوں کے اندر مسکرایا۔ تم جھوٹ بولتے ہو، صاف صاف بتاؤ، تمہیں یہاں کسی سے عشق ہوا ہے۔ میں خاموش رہا تو وہ پھر بولا، دیکھو اگر کوئی مشکل درپیش ہے تو ہم سب ٹھیک کردیں گے۔ جب اس نے اسی قسم کی چند اور باتیں کیں تو میں نے سارا معاملہ اس کو بتا دیا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’تو اس نے مشکل آسان کرنے کا کیا گُر بتایا؟‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’اس نے مجھے ایک منتر بتایا۔ ‘‘

’’منتر!‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’آپ سیّد ہیں۔ کیا آپ منتر جنتر یر ایمان لا سکتے ہیں؟‘‘

شاہ صاحب نے کہا۔

’’لانا تو نہیں چاہیے تھا کہ یہ ہمارے مذہب میں جائز نہیں۔ لیکن اس وقت سردار بلونت سنگھ کا مشورہ ماننا ہی پڑا، اس لیے کہ عشق بری بلا ہے۔ اس نے مجھے ایک منتر بتایا کہ سات رنگوں کے پھول لو۔ ان میں سے ہر ایک پر یہ منتر پڑھ کر پھونکو اور منگل کے روز اسی لڑکی کو کسی نہ کسی طریقے سے سنگھا دو۔ یہ منتر مجھے ابھی تک یاد ہے۔ ‘‘

میں نے ان سے کہا۔

’’ذرا سنائیے تو!‘‘

شاہ صاحب نے ایک لحظے کے لیے اپنے حافظے کو ٹٹولا اور کہا: کو رو دس مکھیا دیوی پُھل کِھڑے پُھل ہسے پُھل چگے نا ہر سنگھ پیارے جو کوئی لے پھولوں کی باس کبھی نہ چھوڑے ہمارا ساتھ ہمیں چھوڑا کسی اور کو کرے پیٹ پُھول بھسم ہو مرے دہائی سلیمان پیر پیغمبرکی! میں نے یہ منتر سنا تو مجھے اپنا لڑکپن یاد آگیا جب میں نے منتروں کی ایک کتاب خریدی تھی اور اس میں سے ایک منتر ازبر اس غرض سے کیا تھا کہ میں اسکول کے تمام امتحانوں میں پاس ہوتا چلا جاؤں۔ یہ منتر مجھے اب تک یاد ہے۔ اونگ نما کامشیری اُٰتما دے بھرینگ پراسواہ۔ لیکن اس کے پڑھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نویں جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔ میں نے اس منتر کا ذکر شاہ صاحب سے نہ کیا اور ان سے پوچھا۔

’’تو آپ نے سات رنگ کے پھولوں پر یہ منتر پڑھا؟‘‘

’’جی ہاں۔ میں نے سات رنگ کے پھول سوموار کو اکٹھے کیے۔ ان پر یہ منتر پڑھا اور اس لڑکی کو ٹیلی فون کیا کہ میری دکان میں چیکوسلوا کیا سے بہت اچھا مال آیا ہے۔ منگل کو وہ آکے دیکھ لے۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’کیا وہ آئی؟‘‘

’’جی ہاں۔ وہ آئی۔ اس نے مجھے ٹیلی فون پر کہہ دیا تھا کہ وہ آئے گی۔ شام کو پانچ بجے کے قریب۔ میں اس کا انتظار کرتا رہا۔ وہ ٹھیک پانچ بج کر پانچ منٹ پر آئی اور اس نے چیکوسلواکیا کے مال کے متعلق استفسار کیا۔ غرض یہ ہے کہ مال وال کا قصہ بالکل فراڈ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ملازموں نے ابھی تک پیٹیاں نہیں کھولیں، آپ کل تشریف لائیے گا۔ وہ بہت جز بز ہوئی۔ میں منتر پڑھے پھولوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اتفاق کی بات کہ اس نے بھی ان پھولوں کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا یہ پھول تمہاری میز پر کہاں سے آگئے؟۔ میں نے جواب دیا یہ میں نے آپ کے لیے خریدے تھے۔ اگر آپ کو پسند ہوں۔ میرا مطلب ہے اگر آپ کو ان کی خوشبو پسند ہوتو آپ انھیں قبول فرمائیں۔ اس نے وہ سات پھول اٹھائے اور انھیں سونگھا۔ ‘‘

میں نے ان سے پوچھا۔

’’اس لڑکی کا رد عمل کیا تھا؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’اس نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔ یہ پھول ہیں؟ ان میں نہ تو خوشبو ہے نہ بدبو۔ بہر حال، اس نے وہ پھول سونگھے۔ چند چیزیں خریدیں اور چلی گئی۔ شام کو سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا میری دکان پر آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہو، وہ پھول سنگھا دیے؟۔ میں نے اس سے کہا سنگھا تو دیے لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ مجھے معلوم نہیں۔ سردار بلونت سنگھ ہنسا۔ اس نے بڑے زور سے میرا ہاتھ دبایا اور کہا دوست! اب تمہارا کام سمجھو کہ پندرہ آنے ہو گیا ہے۔ ‘‘

مجھے بڑی حیرت تھی کہ منتر کے ذریعے ایسا کام پندرہ آنے کیوں کر ہوسکتا ہے، مگر سیّد صاحب نے کہنا شروع کیا۔

’’منٹو صاحب! آپ یقین مانیے کہ میرا کام پندرہ آنے مکمل ہو گیا۔ دوسرے دن کوکو جان کا ٹیلی فون آیا کہ وہ کچھ چیزیں خریدنے کے لیے آرہی ہے۔ میں نے اس کا استقبال کیا۔ وہ کوئی چیز خریدنا نہیں چاہتی تھی۔ بہت دیر تک وہ میری دکان میں ادھر ادھر پھرتی رہی۔ اس کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئی، تم سے میں کئی مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ مجھے گھورا نہ کرو۔ اور وہ جو تم نے پھول سنگھائے تھے، اس کا کیا مطلب تھا۔ ؟‘‘

میں نے کوکو جان سے لکنت بھرے لہجے میں کہا۔

’’میں۔ میں۔ وہ پھول جو تھے۔ پھول تھے۔ میں نے۔ میں نے۔ مال جو چیکوسلواکیہ سے آیا تھا، کھلا ہوا نہیں تھا، اس لیے میں نے وہ پھول آپ کی خدمت میں پیش کردیے۔ کو کو جان برقع میں سخت مضطرب تھی۔ اس نے اضطراب بھرے لہجے میں کہا۔

’’تم نے مجھے پھول کیوں سنگھائے؟‘‘

۔ میں نے اس سے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا۔

’’کیا آپ کو اس سے کوئی تکلیف ہوئی۔ ‘‘

وہ بڑے گرم انداز میں بولی

’’تکلیف۔ ؟ میں ساری رات وہ سات پھول دیکھتی رہی ہوں۔ پھول آتے تھے اور جب میں انھیں حاصل کرنا چاہتی تھی تو وہ مجھ سے پرے ہٹ جاتے تھے۔ یہ کیسے پھول تھے؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’میرے وطن کے تھے۔ چونکہ میرے وطن کے تھے، اس لیے میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ وہ رات بھر آپ کو کیوں نظر آتے اور ستاتے رہے۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’یہ پھول آپ نے کہاں سے منگوائے تھے؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’جی! منگوائے کہاں سے تھے، وہیں افغانستان کے تھے۔ نہایت واہیات قسم کے پھول جن میں خوشبو نام کو بھی نہیں تھی۔ شام کو سردار بلونت سنگھ آیا، مزید قرض لینے کے لیے۔ اس نے مجھ سے قرض لینے سے پہلے دریافت کیا۔

’’کہیے شاہ صاحب! اس معاملے کا کیا ہوا؟‘‘

میں نے اس کو ساری بات بتا دی۔ وہ قرض لینا بھول گیا۔ اپنا بالوں بھرا ہاتھ میرے کندھے پر زور سے مار کر چلایا۔

’’شاہ جی! آپ کا کام سولہ آنے ہو گیا ہے۔ وسکی کی ایک بوتل منگائیے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ انھوں نے وسکی کی بوتل کے علاوہ ایک ڈبہ سگریٹوں کا بھی منگوایا، جس میں سے سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا تمباکو نوشوں کے ٹھیٹ انداز میں پے در پے کئی سگریٹ پھونکتے رہے۔ جب جانے لگے تو انھوں نے شاہ صاحب سے کہا کہ دیکھو ابھی توڑی سی کسر باقی ہے۔ اگلے منگل کو تم اور سات پھول لو اور ان پر وہی منتر پڑھ کر اس لڑکی کو سنگھا دو۔ بیڑا پار ہو جائے گا۔ شاہ صاحب بہت پریشان ہوئے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اب کی کوکو جان کو پھول کیسے سنگھاسکیں گے جب کہ وہ اس معاملے کے متعلق شاکی تھی۔ لیکن معاملہ عشق کا تھا، اس لیے شاہ صاحب موت کے منہ میں جانے کے لیے بھی تیار تھے۔ شاہ صاحب نے پشاور سے پھول منگوائے۔ ان میں سے سات منتخب کیے اور ہر ایک پر منتر پڑھا اور اپنے میز کے گلدان میں رکھ دیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنی دکان میں جا بجا گلدان رکھوائے اور ان میں پھول سجا دیے۔ پیر کو صاحب نے کوکو جان کو ٹیلی فون کیا اور اس سے پھر جھوٹ بولا کہ چیکوسلواکیہ کا مال کھل گیا ہے۔ آپ آئیے اور دیکھ لیجیے۔ کوکو جان آئی، مگر مال وال موجود نہیں تھا۔ شاہ صاحب تھوڑی دیر کے لیے بوکھلائے، پھر ذرا ہوش سنبھال کر اپنے نوکروں کو لعن طعن کی کہ تم نے ابھی تک مال کیوں نہیں کھولا۔

’’کوکو جان کے ساتھ اس کی والدہ بوبو جان بھی تھی۔ وہ ایک طرف ٹائلٹ کا سامان دیکھنے میں مصروف تھی۔ کوکو جان نے جب دکان میں جا بجا پھول دیکھے تو وہ متعجب ہونے کے علاوہ مضطرب بھی ہوئی۔ ‘‘

میری میز پر وہ خاص پھول پڑے تھے۔ وہ ان کے پاس آئی، گلدان میں سے اٹھا کر اس نے انھیں سونگھا اور مجھ سے کہا۔

’’یہ افغانستان کے پھول نہیں۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ یہ میرے وطن کے ہیں۔ اور میں نے خاص آپ کے لیے منگوائے ہیں۔ بوبو جان خرید و فروخت میں مشغول تھی۔ اس دوران میں کوکو جان سے میں نے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ وہ سخت ناراض ہوئی اور اپنی ماں کے ساتھ چلی گئی۔ شام کو سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا آیا۔ اس سے بات چیت ہوئی۔ میں نے اس کو دس روپے قرض دیے۔ جب اس نے روپے اپنی جیب میں ڈالے تو مجھ سے پوچھا آج منگل ہے۔ وہ پھول سنگھا دیے تھے آپ نے؟ میں نے سارا واقعہ بیان کردیا۔ سردار بلونت سنگھ نے اپنا بالوں بھرا ہاتھ زور سے میرے ہاتھ پرمارا اور کہا شاہ جی، اب کام سترہ آنے پورا ہو گیا ہے۔ وسکی کی ایک بوتل منگاؤ۔ ‘‘

شاہ صاحب نے وسکی کی بوتل منگوائی۔ سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا نے آدھی دکان میں پی اور آدھی اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’دوسری دفعہ پھول سنگھانے سے کیا نتیجہ برآمد ہوا؟‘‘

شاہ صاحب نے جواب دیا۔

’’وہ بہت بے چین ہو گئی۔ اسے دن رات اتنے پھول نظر آنے لگے کہ ایک دن وہ سخت اضطراب کی حالت میں آئی۔ برقع جو اس نے کبھی اتارا نہیں تھا، کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور مجھ سے مخاطب ہوئی۔

’’دیکھو شاہ! تم نے مجھ پر کوئی جادو کردیا ہے۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جو مجھے پہلی بار نظر آیا تھا منٹو صاحب! میں نے اپنی زندگی میں اس جیسی حسین لڑکی اب تک نہیں دیکھی۔ میں اس کو دیکھتا رہا۔ اس نے بڑے تیز و تند لہجے میں کہا۔

’’تم نے مجھے پھول کیوں سنگھائے تھے۔ میں پاگل ہوئی جارہی ہوں۔ دن ہو یا رات، ہر وقت مجھے وہ تمہارے پھول دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہوں۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک شریف گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میرے والدین عنقریب میری شادی کررہے ہیں۔ تم نے مجھ پر کیا جادو پھونکا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے میرے میز پر سے گلدان میں سے پھول نکالے اور فرش پر پھینک کر اپنی سینڈل سے مسل دیے۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ ناراض ہونے کے باوجود ناراض نہیں تھی اور چاہتی تھی کہ میں اس سے باتیں کروں۔ لیکن مجھے اس کا یقین نہیں تھا اس لیے خاموش رہا۔ وہ کچھ دیر غصے کی حالت میں کھڑی رہی۔ اس کے بعد اس نے برقع پہنا اور چلی گئی۔ ‘‘

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔

’’تو سردار بلونت سنگھ مجیٹھیا کا منتر کام کرگیا!‘‘

’’جی ہاں، کام کر گیا۔ اس کو پھول ہی پھول نظر آتے تھے۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ یہ سب بکواس ہے، مگر کوکو جان کی باتوں سے مجھے یقین ہو گیا کہ منتر اپنا اثر کر گیا ہے، حالانکہ جو منتر آپ سن چکے ہیں، اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے آدمی کو یہ معلوم ہو کہ وہ اثر کرے گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ جب پھر میری دکان میں آئی تو برقع اتار کر مجھ سے بغل گیر ہو گئی اور رونا شروع کردیا۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ چوما۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ تھوڑی دیر کے بعد میری میز پر گلدان میں جو پھول پڑے تھے، اس نے نکالے اور انھیں نوچ کر ایک طرف پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ برقع پہن کر تیزی سے باہر نکل گئی۔ داستان کافی طوالت پکڑ رہی تھی۔ میں نے صاحب سے کہا۔

’’آپ مختصر فرمائیے کہ انجام کیا ہوا۔ کیا وہ لڑکی آپ کو مل گئی؟‘‘

شاہ صاحب نے ایک آہ بھری۔

’’جی نہیں۔ اس کی شادی ہو گئی۔ مگر حجلہء عروسی میں داخل ہوتے ہی معلوم نہیں کیا ہوا کہ وہ گری اور گرتے ہی مر گئی۔ اس کے ہاتھ میں سات پھول تھے مختلف رنگوں کے۔ میں نے دیکھا کہ شاہ صاحب کی پلنگڑی کے ساتھ تپائی پر پیتل کے پھولدان میں سات مختلف رنگوں کے پھول اڑسے ہوئے تھے۔

سعادت حسن منٹو

بلاؤز

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کا وجود کچّا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت، باتیں کرتے ہوئے حتیٰ کہ سوچنے پر بھی اُسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو وہ بیان بھی کرنا چاہتا۔ تو نہ کر سکتا۔ بعض اوقات بیٹھے بیٹھے وہ ایک دم چونک پڑتا۔ دُھندلے دُھندلے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں۔ مومن کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شور ہی کے ساتھ پھٹتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خار دار پاؤں والی چیونٹیاں سی رینگتی تھیں۔ ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضاء میں پیدا ہو گیا تھا۔ جس کے باعث اُسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدّت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے ہاون میں ڈال دے اور کسی سے کہے۔

’’مجھے کوٹنا شروع کر دو۔ ‘‘

باورچی خانہ میں گرم مصالحہ کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی۔ تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ پیروں کے ذریعے سے یہ لرزش اُس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی، جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیے کی طرح کانپنا شروع کر دیتا۔ مومن کی عمر پندرہ برس کی تھی۔ شاید سولھواں بھی لگا ہو۔ اُسے اپنی عمر کے متعلق صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑکاتھا۔ جس کا لڑکپن تیز قدمی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اسی دوڑ نے جس سے مومن بالکل غافل تھا۔ اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کر دی تھی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ مگر ناکام رہتا تھا۔ اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتلی تھی۔ اب موٹی ہو گئی تھی۔ انھوں کے پٹھوں میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی تھی۔ کنٹھ نکل رہا تھا۔ سینے پر گوشت کی تہ موٹی ہو گئی تھی۔ اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سی پڑ گئی تھیں۔ جگہ اُبھر آئی تھی۔ جیسے کسی نے ایک ایک برنٹا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مومن کو بہت درد محسوس ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دوران میں غیرارادی طور پر جب اس کا ہاتھ ان گولیوں سے چھُو جاتا۔ تو وہ تڑپ اٹھتا۔ قمیض کے موٹے اور کھُردرے کپڑے سے بھی اس کو تکلیف دہ سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔ غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اور موجود نہ ہو مومن اپنی قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا تھا۔ ہاتھوں سے مسلتا تھا۔ درد ہوتا ٹیسیں اٹھتیں۔ اس کا سارا جسم پھلوں سے لدے ہوئے پیڑ کی طرح جسے زور سے ہلایا گیا ہو کانپ کانپ جاتا۔ مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا تھا کبھی کبھی زیادہ دبانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے لیسدار لعاب نکل آتا۔ اس کو دیکھ کر اس کا چہرہ کان کی لووُں تک سُرخ ہو جاتا۔ وہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ گناہ اور ثواب کے متعلق مومن کا علم بہت محدود تھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسانوں کے سامنے نہ کر سکتا ہو۔ اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چہرہ کان کی لووُں تک سُرخ ہو جاتا۔ تو وہ جھٹ سے اپنی قمیض کے بٹن بند کر لیتا۔ کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کرے گا۔ لیکن اس عہد کے باوجود دوسرے تیسرے روز تخلیے میں وہ پھر اس کھیل میں مشغول ہو جاتا۔ مومن سے گھر والے سب خوش تھے۔ وہ بڑا محنتی لڑکا تھا۔ سب ہر کام وقت پر کر دیتا تھا اور کسی شکایت کا موقعہ نہ دیتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کے یہاں اُسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے لیکن اس قلیل عرصے میں اُس نے گھر کے ہر فرد کو اپنی محنت کش طبیعت سے متاثر کر لیا تھا۔ چھ روپے مہینے پر وہ نوکر ہوا تھا۔ مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دیے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا۔ اس لیے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی۔ مگر وہ اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ سارا دن بے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے۔ یا کسی سنسان مقام پر جا کر لیٹا رہے۔ اب کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کاہلی نہیں برتتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی سو وہ دن بھر باجہ بجانے نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مومن کی نگرانی ہی نہیں کی تھی۔ شکیلہ البتہ مومن سے ادھر اُدھر کے کام لیتی تھی۔ اور کبھی کبھی اُسے ڈانٹتی بھی تھی۔ مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند بلاؤزوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ بلاؤز اس کی ایک سہیلی کے تھے۔ جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا۔ شکیلہ اُس سے آٹھ بلاوز مانگ کر لائی تھی۔ اور کاغذوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی۔ چنانچہ اُس نے بھی کچھ دنوں سے مومن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نوکر تھے۔ یعنی مومن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی۔ زیادہ تر باورچی خانے کا کام یہی کرتی تھی۔ مومن کبھی کبھی اُس کا ہاتھ بٹا دیا کرتا تھا۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مومن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو۔ مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اور وہ انقلاب جس میں سے مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا۔ اس سے تو ڈپٹی صاحب کی بیوی بالکل غافل تھی۔ چونکہ اس کا کوئی لڑکا نہیں تھا۔ اس لیے وہ مومن کی ذہنی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکتی تھی اور پھر مومن نوکر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ نوکروں کے متعلق کون غور و فکر کرتا ہے؟ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کر جاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ مومن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آ نکلا تھا۔ جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا۔ مگر بے حد پُر خطر تھا۔ اس راستے پر اُس کے قدم کبھی تیز تیز اٹھتے تھے۔ کبھی ہولے ہولے۔ وہ دراصل جانتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کس طرح چلنا چاہیے۔ انھیں جلدی طے کر جانا چاہیے۔ یا کچھ وقت لے کر آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہیے۔ مومن کے ننگے پاؤں کے نیچے آنیوالے شباب کی گول گول چکنی بٹیاں پھسل رہی تھیں۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ وہ بے حد مضطرب تھا۔ اسی اضطراب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھونٹی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا۔ اور اُس کے ساتھ لٹک جاتا۔ پھر اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اُسے کوئی، اتنا کھینچے کہ وہ ایک مہین تار بن جائے۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوتی تھیں کہ وہ ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔ غیر شعوری طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو۔۔۔۔۔ کیا ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔ بس کچھ ہو۔ میز پر قرینے سے چُنی ہوئی پلیٹیں ایک دم اُچھلنا شروع کر دیں۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکنا پانی کے ایک ہی اُبال سے اُوپر کو اڑ جائے۔ نل کی جستی نالی پر دباؤ ڈالے۔ تو وہ دُہری ہو جائے۔ اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ سا پھُوٹ نکلے۔ اُسے ایک ایسی زبردست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جوڑ علیحدہ علیحدہ ہو جائیں اور ایک ڈھیلا پن پیدا ہو جائے۔۔۔۔۔ کوئی ایسی بات وقوع پزیر ہو۔ جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ مومن بہت بے قرار تھا۔ رضیہ نئی فلمی طرزیں سیکھنے میں مشغول تھی۔ اور شکیلہ کاغذوں پر بلاؤزوں کے نمونے اتار رہی تھی۔ اور جب اس نے یہ کام ختم کر لیا۔ تو وہ نمونہ جو ان میں سب سے اچھا تھا۔ سامنے رکھ کر اپنے لیے اودی ساٹن کا بلاؤز بنانا شروع کیا۔ اب رضیہ کو بھی اپنا باجا اور فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے بیٹھتی تو اس کی نشست بڑی پُر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افراتفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سوچ سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تاکہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ پیمائش بھی اس کی بہت صحیح ہوتی تھی۔ اس لیے کہ وہ پہلے کاغذ کاٹ کر پھر کپڑا کاٹتی تھی۔ یوں وقت زیادہ صرف ہوتا تھا۔ مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔ شکیلہ بھرے بھرے جسم کی صحت مند لڑکی تھی۔ اُس کے ہاتھ بہت گدگدے تھے گوشت بھری مخروطی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ننھا گڑھا تھا۔ جب وہ مشین چلاتی تھی یہ ننھے ننھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے کبھی کبھی غائب بھی ہو جاتے تھے۔ شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی رعنائی کے ساتھ مشین کی ہتھی کو گھماتی تھی اُس کی کلائی میں ایک ہلکا سا خم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا اس طرف کو جھُک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لِٹ جسے شاید اپنے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں ملتی تھی نیچے پھسل آتی تھی۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتی کہ اسے ہٹانے یا جمانے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔ جب شکیلہ اودی ساٹن سامنے پھیلا کر اپنے ماپ کا بلاؤز تراشنے لگی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ کیونکہ ان کا اپنا ٹیپ گھِس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گز موجود تھا۔ مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے کئی بلاوز موجود تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ موٹی ہو گئی تھی اس لیے ساری پیمائشیں دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔ قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا۔

’’جاؤ مومن دوڑ کر چھ نمبر سے کپڑے کا گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہیں۔ ‘‘

مومن کی نگاہیں شکیلہ کی سفید بنیان کے ساتھ ٹکرائیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا مگر آج اسے ایک قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رُخ دوسری طرف پھیر لیا۔ اور گھبراہٹ میں کہا۔

’’کیسا گز بی بی جی‘‘

شکیلہ نے جواب دیا۔

’’کپڑے کا گز۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک گز تو یہ تمہارے سامنے پڑا ہے یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسرا گز بھی ہوتا ہے جو کپڑے کا بنا ہوتا ہے۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آؤ۔ کہنا شکیلہ بی بی مانگتی ہیں۔ ‘‘

چھ نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مومن فوراً ہی کپڑے کا گز لے کر آگیا۔ شکیلہ نے یہ گز اس کے ہاتھ سے لیا اور کہا۔

’’یہیں ٹھیر جاؤ۔ اسے ابھی واپس لے جانا‘‘

پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطب ہوئی۔

’’ان لوگوں کی کوئی چیز زیادہ دیر اپنے پاس رکھ لی جائے تو وہ بڑھیا تقاضے کرکرکے پریشان کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر آؤ اور یہ گز لو اور یہاں سے میرا ناپ لو‘‘

رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ناپ لینا شروع کیا۔ تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئی۔ مومن دروازے کی دہلیز میں کھڑا تکلیف دہ خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔ رضیہ تم گز کو کھینچ کر ناپ کیوں نہیں لیتیں۔۔۔۔۔۔ پچھلی دفعہ بھی یہی ہوا۔ تم نے ناپ لیا اور میرے بلاؤز کا ستیا ناس ہو گیا۔ اوپر کے حصّہ پر اگر کپڑا فِٹ نہ آئے تو ادھر اُدھر بغلوں میں جھول پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں کالوں، کہاں کا نہ لوں۔ تم تو عجب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ناپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ذرا اور نیچے کر لو۔۔۔۔۔۔۔ ذرا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آ جائے گی‘‘

’’بھئی واہ۔۔۔۔۔۔۔ چیز کے فٹ ہونے میں تو ساری خوبصورتی ہے۔ ثریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں شکن پڑے، کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے۔۔۔۔۔۔۔ لو اب تم ناپ کو۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے سے اپنا سینہ پھلانا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھُول گیا۔ تو سانس روک کر اُس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔

’’لو اب جلدی کرو‘‘

جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کی تو مومن کو ایسا محسوس ہوا۔ اس کے اندر کے کئی غبارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا۔ گز لائیے بی بی جی۔۔۔۔۔ میں دے آؤں‘‘

شکیلہ نے اسے جھڑک دیا۔

’’ذرا ٹھہر جاؤ۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے ننگے بازو سے لپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک گچھا نظر آیا۔ مومن کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اُگ رہے تھے۔ مگر یہ گچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی سی اُس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی۔ کہ کالے کالے بال اس کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں وہ بھٹوں کے کالے اور سنہرے بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو اُسے سرسراہٹ اُسے محسوس ہوا کرتی تھی۔ اُسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کر دی۔ شکیلہ کا بازو اب نیچے جھُک گیا تھا۔ اور اُس کی بغل چھُپ گئی تھی۔ مگر مومن اب بھی کالے کالے بالوں کا وہ گچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصور میں شکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا۔ اور بغل میں اُس کے سیاہ بال جھانکتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد شکیلہ نے مومن کو گز دے دیا اور کہا۔

’’جاؤ، اُسے واپس دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکریہ ادا کیا ہے‘‘

مومن گز واپس دے کر باہر صحن میں بیٹھ گیا۔ اُس کے دل و دماغ میں دھندلے دھندلے سے خیال پیدا ہو رہے تھے۔ دیر تک وہ ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ تو اُس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سا ٹرنک کھولا جس میں اُس نے عید کے لیے نئے کپڑے بنوا کر رکھے تھے۔ جب ٹرنک کا ڈھکنا کھلا۔ اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر اور یہ نئے کپڑے پہن کر وہ سیدھا شکیلہ بی بی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے۔۔۔۔۔ اُس کی لٹھے کی شلوار کس طرح کھڑ کھڑ کرے گی۔ اور اس کی رومی ٹوپی۔۔۔۔۔۔‘‘

رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مومن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھندنا آگیا۔ اور پھندنا فوراً ہی ان کالے کالے بالوں کے گچھے میں تبدیل ہو گیا۔ جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی ٹوپی نکالی اور اس کے نرم اور لچکیلے پھندنے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا۔ کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی آواز آئی۔

’’مومن۔ ‘‘

مومن نے ٹوپی ٹرنک میں رکھی، ڈھکنا بند کیا۔ اور اندر چلا گیا۔ جہاں شکیلہ نمونے کے مطابق اودی ساٹن کے کئی ٹکڑے کاٹ چکی تھی۔ ان چمکیلے اور پھسل پھسل جانے والے ٹکڑوں کو ایک جگہ رکھ کر وہ مومن کی طرف متوجہ ہوئی۔

’’میں نے تمہیں اتنی آوازیں دیں۔ سو گئے تھے کیا؟‘‘

مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی۔

’’نہیں بی بی جی۔ ‘‘

’’تو کیا کر رہے تھے؟‘‘

’’کچھ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں؟‘‘

’’کچھ تو ضرور کرتے ہو گے

’’شکیلہ یہ سوال کیے جا رہی تھی۔ مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا۔ جسے ا ب اُسے کچّا کرنا تھا۔ مومن نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔

’’ٹرنک کھول کر اپنے نئے کپڑے دیکھ رہا تھا۔ شکیلہ کھکھلا کر ہنسی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب سی تسکین ہوئی۔ اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پر احمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ ہنسنے کا موقع ملے۔ چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کرکے اُس نے کہا۔

’’بڑی بی بی جی سے پیسے لے کر میں ریشمی رومال بھی لاؤں گا‘‘

شکیلہ نے ہنستے ہوئے اُس سے پوچھا۔

’’کیا کرو گے اس رومال کو؟‘‘

مومن نے جھینپ کر جواب دیا۔

’’گلے میں باندھ لوں گا بی بی جی۔۔۔۔۔۔ بڑا اچھا معلوم ہو گا۔ ‘‘

یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔

’’گلے میں باندھو گے تو یاد رکھنا میں اسی سے پھانسی دے دوں گی تمھیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر شکیلہ نے اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی۔ اور رضیہ سے کہا

’’کمبخت نے مجھے کام ہی بھلا دیا۔ رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا؟‘‘

رضیہ نے جواب نہ دیا۔ اور وہ نئی فلمی طرز گنگنانا شروع کی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آ گیا۔ کہ اس نے مومن کو کیوں بلایا تھا۔ دیکھو مومن۔ میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں۔ دوائیوں کی دوکان کے پاس جو ایک دکان نئی کھلی ہے نا، وہی جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آؤ کہ ایسی چھ بنیانوں کا وہ کیا لے گا۔۔۔۔۔۔۔ کہنا ہم پوری چھ لیں گے۔ اس لیے کچھ رعایت ضرور کرے۔۔۔۔۔ سمجھ لیا نا؟‘‘

مومن نے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’اب تم پرے ہٹ جاؤ۔ ‘‘

مومن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آکر گرا اور اندر سے شکیلہ کی آواز آئی۔

’’کہنا ہم اسی قسم، اسی ڈیزائن کی بالکل یہی چیز لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا۔ جو پسینے کے باعث کچھ کچھ گیلا ہو رہا تھا۔ جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراً ہی ہٹا لیا ہو۔ بدن کی بُو بھی اس میں بسی ہوئی تھی۔ میٹھی میٹھی گرمی بھی تھی۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہوئیں۔ وہ اس بنیان کو جو بلّی کے بچے کی طرح ملائم تھا۔ اپنے ہاتھوں میں مسلتا باہر چلا گیا۔ جب بھاؤ واؤ دریافت کرکے بازار سے واپس آیا تو شکیلہ بلاؤز کی سلائی شروع کر چکی تھی۔ اس سیاہی مائل ساٹن کے بلاؤز کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پھندنے سے کہیں زیادہ چمکیلی اور لچکدار تھی۔ یہ بلاؤز شاید عید کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ کیونکہ عید اب بالکل قریب آ گئی تھی۔ مومن کو ایک دن میں کئی بار بلایا گیا۔ دھاگہ لانے کے لیے، استری نکالنے کے لیے۔ سُوئی ٹوٹی تو نئی سوئی لانے کے لیے۔ شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام اٹھا دیا تو دھاگے کے ٹکڑے اور اُودی ساٹن کی بیکار کتریں اٹھانے کے لیے بھی اُسے بلایا گیا۔ مومن نے اچھی طرح جگہ صاف کر دی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ مگر اودی ساٹن کی چمکدار کتریں اپنی جیب میں رکھ لیں۔۔۔۔۔۔۔ بالکل بے مطلب کیونکہ اُسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کو کیا کرے گا؟ ! دوسرے روز اس نے جیب سے کتریں نکالیں اور الگ بیٹھ کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دیے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا۔ حتیٰ کہ دھاگے کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کا ایک گچھا سا بن گیا اس کو ہاتھ میں لے کر وہ دباتا رہا، مسلتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی۔ جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا چھوٹا سا گُچھا دیکھا تھا۔ اُس دن بھی اُسے شکیلہ نے اُسے کئی بار بلایا۔۔۔۔۔۔ کالی ساٹن کے بلاؤز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔ پہلے جب اُسے کچّا کیا گیا تھا تو اس پر سفید دھاگے کے بڑے بڑے ٹانکے جابجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری کی گئی۔ جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں۔ اور چمک بھی دو بالا ہو گئی۔ اس کے بعد کچیحالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا رضیہ کو دکھایا۔ دوسرے کمرے میں سنگھا رمیز کے پاس جا کر آئینے میں خود اس کو ہر پہلو سے اچھی طرح دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا، جہاں جہاں تنگ یا کھلا تھا۔ وہاں نشان بنائے، اور اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر پہن کر دیکھا۔ جب بالکل فِٹ ہو گیا تو پکّی سلائی شروع کی۔ ادھر اودی ساٹن کا یہ بلاؤز سیا جا رہا تھا۔ ادھر مومن کے دماغ میں عجیب و غریب خیالوں کے جیسے ٹانکے سے ادھڑ رہے تھے۔۔۔۔۔ جب اسے کمرے میں بلایا جاتا اور اس کی نگاہیں چمکیلی ساٹن کے بلاؤز پر پڑتیں تو اس کا جی چاہتا کہ وہ ہاتھ سے چھُو کر اُسے دیکھے۔ صرف چھُو کر ہی نہیں دیکھے ۔۔۔۔۔ بلکہ اس کی ملائم اور روئیں دار سطح پر دیر تک ہاتھ پھیرتا رہے۔۔۔۔۔۔ اپنے کھُردرے ہاتھ۔ اس نے ان ساٹن کے ٹکڑوں سے اس کی ملائمی کا اندازہ کر لیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ان ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اُس نے ان کا گُچھا بنایا تھا تو دباتے وقت اُسے معلوم ہوا کہ ان میں ربڑ سی لچک بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ جب اندر آکر بلاؤز کو دیکھتا اس کا خیال فوراً ان بالوں کی طرف دوڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال مومن سوچتا تھا۔ کیا وہ بھی اس ساٹن ہ کی طرح ملائم ہوں گے۔ بلاؤز بالآخر تیار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا کہ شکیلہ اندر آئی۔ قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی۔ اس کے نیچے اسی قسم کا سفید بنیان تھا۔ جس کا نمونہ لے کر مومن بھاؤ دریافت کرنے گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس کے اوپر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا سِلا ہوا بلاؤز پہنا۔ سامنے کے ہُک لگائے اور آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ مومن نے فرش صاف کرتے کرتے آئینہ کی طرف دیکھا۔ بلاؤز میں اب جان سی پڑ گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا ساٹن کا رنگ سفید ہو گیا ہے۔۔۔۔۔شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی۔ جس پر ریڑھ کی ہڈی کی لمبی جھری۔ بلاؤز فٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی مومن سے نہ رہا گیا۔ چنانچہ اُس نے کہا۔

’’بی بی جی۔ آپ نے تو درزیوں کو بھی مات کر دیا!‘‘

شکیلہ اپنی تعریف سُن کر خوش ہوئی۔ مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے لیے بے قرار تھی۔ اس لیے وہ صرف اچھا سِلا ہے نا؟‘‘

کہہ کر باہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔۔ مومن آئینے کی طرف دیکھتا رہ گیا جس میں بلاؤز کا سیاہ اور چمکیلا عکس دیر تک موجود رہا۔ رات کو جب وہ پھر اُس کمرے میں صُراحی رکھنے کے لیے آیا۔ تو اُس نے کھونٹی پر لکڑی کے ہینگر میں اس بلاؤز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اُس نے غور سے دیکھا۔ پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے اُسے یہ محسوس ہوا۔ کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روئیں پر ہولے ہولے بالکل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔ رات کو جب وہ سویا تو اُس نے کئی اُوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔۔۔۔۔۔۔ ڈپٹی صاحب نے پتھر کے کوئلوں کا ایک بڑا ڈھیر اُسے کوٹنے کو کہا۔ جب اُس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ایک ضرب لگائی تو وہ نرم نرم بالوں کا ایک گچھا بن گیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ کالی کھانڈ کے مہین مہین تار تھے۔ جن کا گولہ بنا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ گولے کالے رنگ کے غبارے بن کر ہوا میں اڑنا شروع ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت اوپر جا کر یہ پھٹنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آندھی آ گئی اور مومن کی رومی ٹوپی کا پھندنا کہیں غائب ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ پھندنے کی تلاش میں وہ نکلا۔۔۔۔۔۔ دیکھی اور ان دیکھی جگہوں میں گھومتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ نئے لٹھے کی بُو بھی کہیں سے آنا شروع ہوئی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ ایک کالی ساٹن کے بلاؤز پر اس کا ہاتھ پڑا۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر وہ اس دھڑکتی ہوئی چیز پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفعتاً ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک وہ کچھ نہ سمجھ سکا کہ کیا ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اُسے خوف، تعجب اور ایک انوکھی ٹیس کا احساس ہوا۔ اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی۔۔۔۔۔۔ پہلے اُسے تکلیف دہ حرارت محسوس ہوئی تھی۔ مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی لہر اُس کے جسم پر رینگنے لگی۔

سعادت حسن منٹو

بغیر اجازت

نعیم ٹہلتا ٹہلتا ایک باغ کے اندر چلا گیا۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پُر فضا جگہ ہے۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے اوجھل رہی۔ نظریں۔ اوجھل۔ اتنا کہہ کر وہ مسکرایا۔ نظر ہو تو چیزیں نظر بھی نہیں آتیں۔ آہ کہ نظر کی بے نظری! دیر تک وہ گھاس کے اس تختے پر لیٹا اور ٹھنڈک محسوس کرتا رہا۔ لیکن اس کی خود کلامی جاری تھی۔

’’یہ نرم نرم گھاس کتنی فرحت ناک ہے! آنکھیں پاؤں کے تلووں میں چلی آئیں۔ اور یہ پھول۔ یہ پھول اتنے خوبصورت نہیں جتنی ان کی ہرجائی خوشبو ہے۔ ہر شے جوہر جائی ہو۔ خوبصورت ہوتی ہے۔ ہر جائی عورت۔ ہر جائی مرد۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ خوبصورت چیزیں پہلے پیدا ہوئی تھیں۔ یا خوبصورت خیال۔ ہر خیال خوبصورت ہوتا ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہر پھول خوبصورت نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر یہ پھول۔ اس نے اٹھ کر ایک پھول کی طرف دیکھا اور اپنی خود کلامی جاری رکھی۔ یہ اس ٹہنی پر اکڑوں بیٹھا ہے۔ کتنا سفلہ دکھائی دیتا ہے بہر حال ٗ یہ جگہ خوب ہے۔ ایک بہت بڑا دماغ معلوم ہوتی ہے۔ روشنی بھی ہے۔ سائے بھی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میں نہیں بلکہ یہ جگہ سوچ رہی ہے۔ یہ پُرفضا جگہ جو اتنی دیر میری نظروں سے اوجھل رہی۔ اس کے بعد نعیم فرطِ مُسرت میں کوئی غزل گانا شروع کر دیتا ہے۔ کہ اچانک موٹر کے ہارن کی کرخت آواز اس کے سازِ دل کے سارے تار جھنجھوڑ دیتی ہے۔ وہ چونک کر اٹھتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ ایک موٹر پاس کی روش پر کھڑ ی ہے اور ایک لمبی لمبی مونچھوں والا آدمی اس کی طرف قہرآلود نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس مونچھوں والے آدمی نے گرج کر کہا :

’’اے تم کون ہو۔ ‘‘

نعیم جو اپنے ہی نشے میں سر شار تھا ٗ چونکا۔

’’یہ موٹر اس باغ میں کہاں سے آگئی۔ ‘‘

مونچھوں والا جو اس باغ کا مالک تھا بڑ بڑایا۔

’’وضع قطع سے تو آدمی شریف معلوم ہوتا ہے مگر یہاں کیسے گھس آیا۔ کس اطمینان سے لیٹا تھا جیسے اس کے باوا کا باغ ہے۔ ‘‘

پھر اس نے بلند آواز میں للکار کے نعیم سے کہا :

’’اماں۔ کچھ سنتے ہو۔ ‘‘

نعیم نے جواب دیا :

’’حضور سن رہا ہوں۔ تشریف لے آئیے۔ یہاں بہت پُر فضا جگہ ہے۔ ‘‘

باغ کا مالک بھِنّا گیا:

’’تشریف کا بچہ۔ اِدھر آؤ۔ ‘‘

نعیم لیٹ گیا۔

’’بھئی مجھ سے نہ آیا جائے گا تم خود ہی چلے آؤ۔ واللہ ! بڑی دلفریب جگہ ہے تمہاری سب کوفت دُور ہو جائے گی۔ ‘‘

باغ کا مالک موٹر سے نکلا۔ اور غصے میں بھرا ہوا نعیم کے پاس آیا :

’’اُٹھو یہاں سے۔ ‘‘

نعیم کے کانوں میں اس کی تیکھی آواز بہت ناگوار گزری۔ ‘‘

اتنے اونچے نہ بولو۔ آؤ ٗ میرے پاس لیٹ جاؤ۔ بالکل خاموش جس طرح کہ میں لیٹا ہوا ہوں۔ آنکھیں بند کر لو۔ اپنا سارا جسم ڈھیلا چھوڑ دو۔ دماغ کی ساری بتیاں گل کر دو۔ پھر جب تم اس اندھیرے میں چلو گے تو ٹٹولتی ہوئی تمہاری انگلیاں غیر ارادی طور پر ایسے قمقمے روشن کریں گی جن کے وجود سے تم بالکل غافل تھے۔ آؤ میرے ساتھ لیٹ جاؤ۔ ‘‘

باغ کے مالک نے ایک لحظہ سوچا۔ نعیم سے کہا

’’دیوانے معلوم ہوتے ہو۔ ‘‘

نعیم مسکرایا :

’’نہیں۔ تم نے کبھی دیوانے دیکھے ہی نہیں۔ میری جگہ یہاں اگر کوئی دیوانہ ہوتا تو وہ ان بکھری ہوئی جھاڑیوں اور ٹہنیوں پر بچوں کے گالوں کے مانند لٹکے ہوئے پھولوں سے کبھی مطمئن نہ ہوتا۔ دیوانگی اطمینان کا نام نہیں میرے دوست۔ لیکن آؤ ! دیوانگی کی باتیں کریں۔ ‘‘

’’بکواس بند کرو۔ نکل جاؤ یہاں سے۔ ‘‘

باغ کے مالک کو طیش آگیا۔ اس نے اپنے ڈرائیورکو بلایا اور کہا کہ نعیم کو دھکے مار کر باہر نکال دے۔

’’ارے تم کون ہو ٗ بڑے بد تمیز معلوم ہوتے ہو۔ ‘‘

جب نعیم باہر جارہا تھا تو اس نے گیٹ پر ایک بورڈ دیکھا جس پر یہ لکھا تھا

’’بغیر اجازت اندر آنا منع ہے۔ ‘‘

وہ مسکرایا۔ حیرت ہے کہ یہ میری نظروں سے اوجھل رہا۔ نظر ہو تو بعض چیزیں نظر نہیں بھی آتیں۔ آہ نظر کی یہ بے نظری۔ یہاں سے نکل کر وہ ایک آرٹ کی نمائش میں چلا گیا تاکہ اپنا ذہنی تکدر دور کرسکے۔ ہال میں داخل ہوتے ہی اس کو عورتوں اور مردوں کا جھرمٹ نظر آیا جو دیواروں پر لگی پینٹنگز دیکھ رہا تھا۔ ایک مرد کسی پارسی عورت سے کہہ رہا تھا :

’’مسز فوجدار۔ یہ پینٹنگ دیکھی آپ نے۔ ‘‘

مسز فوجدار نے تصویر کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ایک عورت شیریں کی طرف بڑے غور سے دیکھا اور اس مرد سے جو غالباً اس کا ہونے والا شوہر تھا کہا:

’’تم نے دیکھا، شیریں کتنی سج بن کر آئی ہے !‘‘

ایک نوجوان عورت ایک نو عمر لڑکی سے کہہ رہی تھی:

’’ثریا ! ادھر آ کے تصویریں دیکھ۔ تو وہاں کھڑی کیا کر رہی ہے۔ ‘‘

ثریا کو تصویروں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اصل میں اس کو ایک بوائے فرینڈ سے ملنا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کا مرد جسے پینٹنگ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ٗ اپنے ادھیڑ عمر کے دوست سے کہہ رہا تھا:

’’زکام کی وجہ سے نڈھال ہے ٗ ورنہ ضرور آتی۔ آپ جانتے ہی ہیں پینٹنگز سے اسے کتنی دلچسپی ہے ٗ اب تو وہ بہت اچھی تصویریں بنا لیتی ہے ٗ پرسوں اس نے پنسل کاغذ لے کر اپنے چھوٹے بھائی کی سائیکل کی تصویراتاری۔ میں تو دنگ رہ گیا۔ ‘‘

نعیم پاس کھڑا تھا۔ اس نے ہلکے سے طنز کے ساتھ کہا :

’’ہو بہو سائیکل معلوم ہوتی ہو گی !‘‘

دونوں دوست بھونچکے سے ہو کر رہ گئے کہ یہ کون بد تمیز ہے ٗ چنانچہ ان میں سے ایک نے نعیم سے پوچھا:

’’آپ کون۔ ‘‘

نعیم بوکھلا گیا

’’میں۔ میں۔ ‘‘

’’میں میں کیا کرتے ہو۔ بتاؤ تم کون ہو!‘‘

نعیم نے سنبھل کر کہا : آپ ذرا آرام سے پوچھیے۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ ‘‘

’’تم یہاں آئے کیسے!‘‘

نعیم کا جواب بڑا مختصر تھا،

’’جی پیدل۔ ‘‘

عورتوں اور مردوں نے جو آس پاس کھڑے تصویریں دیکھنے کی بجائے خدا معلوم کن کن چیزوں پر تبصرہ کر رہے تھے ہنسنا شروع کر دیا۔ اتنے میں اس نمائش کا ناظم آیا۔ اس کو نعیم کی گستاخی کے متعلق بتایا گیا تو اس نے بڑے کڑے انداز میں اس سے پوچھا

’’تمہارے پاس کارڈ ہے؟‘‘

’’بغیر اجازت تم اندر چلے آئے۔ جاؤ بھاگ جاؤ یہاں سے !‘‘

نعیم ایک تصویر کو دیر تک دیکھنا چاہتا تھا مگر اسے بادل نخواستہ وہاں سے نکلنا پڑا۔ سیدھا اپنے گھر گیا دروازے پر دستک دی اس کا نوکر فضلو باہر نکلا نعیم نے اس سے درخواست کی :

’’کیا میں اندر آسکتا ہوں۔ ‘‘

فضلو بوکھلا گیا۔

’’حضور۔ حضور۔ یہ آپ کا اپنا گھر ہے۔ اجازت کیسی‘‘

نعیم نے کہا :

’’نہیں فضلو۔ یہ میرا گھر نہیں۔ یہ گھر جو مجھے راحت بخشتا ہے ٗ کیسے میرا ہوسکتا ہے۔ مجھے اب ایک نئی بات معلوم ہوئی ہے۔ ‘‘

فضلو نے بڑے ادب سے پوچھا :

’’کیا سرکار؟‘‘

نعیم نے کہا:

’’یہی کہ یہ میرا گھر نہیں۔ البتہ اس کا گرد و غبار۔ اس کی تمام غلاظتیں میری ہیں۔ وہ تمام چیزیں جن سے مجھے کوفت ہوتی ہے میری ہیں لیکن وہ تمام چیزیں جن سے مجھے راحت پہنچتی ہے کسی اور کی۔ خدا جانے کس کی۔ میں اب ڈرتا ہوں۔ کسی اچھی چیز کو اپنانے سے خوف لگتا ہے۔ یہ پانی میرا نہیں۔ یہ ہوا میری نہیں۔ یہ آسمان میرا نہیں۔ وہ لحاف جو میں سردیوں میں اوڑھتا ہوں ٗ میرا نہیں۔ اس لیے کہ میں اس سے راحت طلب کرتا تھا۔ فضلو جاؤ۔ تم بھی میرے نہیں۔ ‘‘

نعیم نے فضلو کو کوئی بات کرنے نہ دی۔ وہ چلا گیا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ ہیرا منڈی کے ایک کوٹھے سے

’’پیابن ناہیں آوت چین‘‘

کے بول باہر اڑ اڑ کے آرہے تھے نعیم اس کوٹھے پر چلا گیا۔ اندر مجرا سننے والے تین چار مردوں کی طرف دیکھا۔ اور طوائف سے کہا

’’ان اصحاب کو کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔ ‘‘

طوائف مسکرائی:

’’انہیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ ادھر مسند پر بیٹھیے گاؤ تکیہ لے لیجیے!‘‘

نعیم بیٹھ گیا۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا اور اس طوائف سے کہا :

’’یہ کتنی اچھی جگہ ہے !‘‘

طوائف سنجیدہ ہو گئی:

’’آپ کیا میرا مذاق اُڑانے آئے ہیں۔ یہ اچھی جگہ ہے۔ جسے تمام شرفا حد سے زیادہ گندی جگہ سمجھتے ہیں۔ ‘‘

نعیم نے اس سے کہا:

’’یہ اچھی جگہ اس لیے ہے کہ یہاں

’’بغیر اجازت کے آنا منع ہے‘‘

کا بورڈ آویزاں نہیں ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر طوائف اور اس کا مُجرا سننے والے تماش بین ہنسنے لگے۔ نعیم نے ایسا محسوس کیا کہ دنیا ایک اس قسم کی طوائف ہے جس کا مُجرا سننے کے لیے اس قسم کے چغد آتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو

بسم اللہ

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی۔ سعید بہت متاثر ہوا۔ بمبئی میں اس نے ظہیر کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر مفصل ملاقات پہلی مرتبہ لاہور میں ہوئی۔ لاہور میں یوں تو بے شمار فلم کمپنیاں تھیں مگر سعید کو اس تلخ حقیقت کا علم تھا کہ ان میں سے اکثر کا وجود صرف ان کے نام کے بورڈوں تک ہی محدود ہے۔ ظہیر نے جب اس کو اکرم کی معرفت بلایا تو اس کو سو فیصدی یقین تھا کہ ظہیر بھی دوسرے فلم پروڈیوسروں کی طرح کھوکھلا ہے جو لاکھوں کی باتیں کرتے ہیں۔ آفس قائم کرتے ہیں۔ کرائے پر فرنچیر لاتے ہیں اور آخر میں آس پاس کے ہوٹلوں کے بل مار کر بھاگ جاتے ہیں۔ ظہیر نے بڑی سادگی سے سعید کو بتایا کہ وہ کم سے کم سرمائے سے فلم بنانا چاہتا ہے۔ بمبئی میں وہ اسٹنٹ فلم بنانے والے ڈائریکٹر کا اسسٹنٹ تھا۔ پانچ برس تک وہ اس کے ماتحت کام کرتا رہا۔ اس کو خود فلم بنانے کا موقعہ ملنے ہی والا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا اور اسے پاکستان آنا پڑا۔ یہاں وہ تقریباً ڈھائی سال بیکار رہا مگر اس دوران میں اس نے چند آدمی ایسے تیار کرلیے جو روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے سعید سے کہا

’’دیکھیے جناب میں کوئی فرسٹ کلاس فلم بنانا نہیں چاہتا۔ کم فلم آدمی ہوں۔ اسٹنٹ فلم بنا سکتا ہوں اور انشاء اللہ اچھا اسٹنٹ فلم بناؤں گا۔ پچاس ہزار روپوں کے اندر اندر سو فیصدی نفع تو یقینی ہے۔ آپ کا خیال ہے؟‘‘

سعید نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔

’’ہاں، اتنا نفع تو ہونا چاہیے۔ ‘‘

ظہیر نے کہا

’’جو آدمی روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ حساب کتاب سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔ یہ آپ کا کام ہے۔ باقی سب چیزیں میں سنبھال لوں گا۔ ‘‘

سعید نے پوچھا

’’مجھ سے آپ کیا خدمت چاہتے ہیں؟‘‘

ظہیر نے بڑی سادگی سے کہا۔

’’پاکستان کے تقریباً تمام ڈسٹری بیوٹر آپ کو جانتے ہیں۔ میری یہاں ان لوگوں سے واقفیت نہیں۔ بڑی نوازش ہو گی اگر آپ میری فلم کی ڈسٹری بیوشن کا بندوبست کردیں۔ ‘‘

سعید نے کہا۔

’’آپ فلم تیار کرلیں۔ انشاء اللہ ہو جائے گا۔ ‘‘

’’آپ کی بڑی مہربانی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر ظہیر نے میز پر پڑے ہوئے پیڈ پر پنسل سے ایک پھول سا بنایا

’’سعید صاحب، مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ میں کامیاب رہوں گا۔ ہیروئن میری بیوی ہو گی۔ ‘‘

سعید نے پوچھا۔

’’آپ کی بیوی؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’پہلے کسی فلم میں کام کر چکی ہیں؟‘‘

’’جی نہیں۔ ‘‘

ظہیر نے پیڈ پر پھول کے ساتھ شاخ بناتے ہوئے کہا۔

’’میں نے شادی یہاں لاہور میں آکر کی ہے۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا کہ اسے فلم لائن میں لاؤں مگر اس کو شوق ہے۔ بہت شوق ہے۔ ہر روز ایک فلم دیکھتی ہے۔ میں آپ کو اس کا فوٹو دکھاتا ہوں۔ ‘‘

ظہیر نے میز کا دروازہ کھول کر ایک لفافہ نکالا اور اس میں سے اپنی بیوی کا فوٹو سرکا کر سعید کی طرف بڑھا دیا۔ سعید نے فوٹو دیکھا۔ معمولی خدوخال کی جوان عورت تھی۔ تنگ ماتھا۔ باریک ناک موٹے موٹے ہونٹ۔ آنکھیں بڑی بڑی اور اداس۔ یہ آنکھیں ہی تھیں جو اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کے مقابلے میں سب سے نمایاں تھیں۔ سعید نے غور سے ان کو دیکھنا چاہا مگر معیوب سمجھا اور فوٹو میز پر رکھ دیا۔ ظہیر نے پوچھا۔

’’کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید کے پاس اس سوال کا جواب تیار نہیں تھا۔ اس کے دل و دماغ پر دراصل وہ آنکھیں چھائی ہوئی تھیں۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ غیر ارادی طور پر اس نے میز پر سے فوٹو اٹھایا اور ایک نظر دیکھ کر پھر وہیں رکھ دیا۔ اور کہا

’’آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘

ظہیر نے پیڈ پر ایک اور پھول بنانا شروع کیا۔

’’یہ فوٹو اچھی نہیں۔ ذرا سی ہلی ہوئی ہے۔ ‘‘

اتنے میں پچھلے دروازے کا پردہ ہلا اور ظہیر کی بیوی داخل ہوئی۔ وہی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ ظہیر اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔

’’عجیب و غریب نام ہے اس کا۔ بسم اللہ!‘‘

پھر سعید کی طرف اشارہ کیا۔

’’یہ میرے دوست سعید صاحب۔ ‘‘

بسم نے کہا۔

’’آداب عرض۔ ‘‘

سعید نے اس کا جواب اٹھ کر دیا۔

’’تشریف رکھیے۔ ‘‘

بسم اللہ دوپٹہ ٹھیک کرتی سعید کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار چغلیاں کھا رہا تھا۔ سعید نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔ ظہیر نے فوٹو واپس لفافے میں رکھا اور سعید سے کہا۔

’’مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ بسم اللہ پہلے ہی فلم میں کامیاب ثابت ہو گی۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا فلمی نام کیا رکھوں۔ بسم اللہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید نے بسم اللہ کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ ایک لحظے کے لیے جیسے ڈوب سا گیا۔ فوراً ہی نگاہ اس طرف سے ہٹا کر اس نے ظہیر سے کہا۔

’’جی ہاں۔ بسم اللہ ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی اور نام ہونا چاہیے۔ ‘‘

تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بسم اللہ خاموش تھی۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں بھی خاموش تھیں۔ سعید نے اس دوران میں ان آنکھوں کے اندر کئی بار ڈبکیاں لگائیں۔ ظہیر اور وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ بسم اللہ خاموش بیٹھی اپنی بڑی بڑی اداس آنکھوں پر چھائی ہوئی سیاہ پلکیں جھپکاکی۔ اس کے ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار برابر چغلیاں کھاتا رہا۔ سعید ادھر دیکھتا تو ایک دھکے کے ساتھ اس کی نظریں دوسری طرف پلٹ جاتیں۔ بسم اللہ کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ فوٹو میں اس رنگت کاپتا نہیں چلتا تھا۔ اس گہرے سانولے رنگ پر اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں اور بھی زیادہ اداس ہو گئی تھیں۔ سعید نے کئی مرتبہ سوچا کہ اس اداسی کا باعث کیا ہے؟۔ اس کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ اداس دکھائی دیتی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔ کوئی معقول بات سعید کے ذہن میں نہ آئی۔ ظہیر بمبئی کی باتیں شروع کرنے والا تھا کہ بسم اللہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کی چال میں بے ڈھنگا پن تھا، جیسے اس نے اونچی ایڑھی کے چپل نئے نئے استعمال کرنے شروع کیے۔ غرارے کی نشست بھی ٹھیک نہیں تھی۔ سلوٹوں کا گراؤ بھدا تھا۔ اس کے علاوہ سعید نے یہ بھی محسوس کیا کہ ادب آداب سے بسم اللہ محض کررہی ہے۔ لیکن اس کے گہرے سانولے چہرے پر دو بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، اداس ہونے کے باوجود کس قدر جذبات انگیز تھیں! چند ہی ملاقاتوں میں ظہیر سے سعید کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے۔ ظہیر بے حد سادہ دل تھا۔ اس خاص چیز سے سعید بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کی کسی بھی بات میں بناوٹ نہیں ہوتی تھی۔ خیال جس شکل میں پیدا ہوتا تھا سادہ الفاظ میں تبدیل ہو کر اس کی زبان پر آجاتا تھا۔ کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں بھی وہ سادگی پسند تھا۔ جب بھی سعید اس کے یہاں جاتا۔ ظہیر اس کی خاطر تواضع کرتا۔ سعید نے اس سے کئی بارکہا کہ تم یہ تکلیف نہ کیا کرو مگروہ نہ مانا۔ وہ اکثر کہا کرتا

’’اس میں کیا تکلیف ہے، آپ کا اپنا گھر ہے۔ ‘‘

سعید نے جب تقریباً ہر روز ظہیر کے ہاں جانا شروع کیا تو اس نے سوچا کہ یہ بہت بُری بات ہے۔ وہ میری اتنی عزت کرتا ہے۔ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اورمیں اس سے صرف اس لیے ملتا ہوں کہ مجھے اس کی بیوی سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ بہت بُری بات ہے۔ اس کے ضمیر نے کئی دفعہ اسے ٹوکا مگر وہ برابر ظہیر کے ہاں جاتا رہا۔ بسم اللہ اکثر آجاتی تھی۔ شروع شروع میں وہ خاموش بیٹھی رہتی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے باتوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ لیکن گفتگو کے لحاظ سے وہ خام تھی۔ سعید کو دکھ ہوتا تھا کہ وہ اچھی اچھی باتیں کرنا کیوں نہیں جانتی۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ظہیر گھر سے باہر تھا۔ سعید نے آواز دی تو بسم اللہ بولی۔

’’باہر گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر سعید کچھ دیر کھڑا رہا کہ شاید وہ اس سے کہے، اندر آجائیے۔ ابھی آتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ظہیر کے فلم کا چکر چل رہا تھا۔ اس کا ذکر قریب قریب ہر روز ہوتا۔ ظہیر کہتا مجھے اتنی جلدی نہیں ہے۔ ہر ایک چیز آرام سے ہو گی۔ اور اپنے وقت پر ہو گی۔ سعید کو ظہیر کے فلم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کو اگر دلچسپی تھی تو بسم اللہ سے جس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ کئی بار غوطے لگا چکا تھا۔ اور اس کی یہ دلچسپی دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ جس کا احساس اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا کیونکہ یہ کھلی ہوئی بات تھی کہ وہ اپنے دوست ظہیر کی بیوی سے جسمانی رشتہ پیدا کرنے کا خواہاں تھا۔ دن گزرتے گئے۔ ظہیر کے فلم کا کام وہیں کا وہیں تھا۔ سعید ایک دن اس سے ملنے گیا تو وہ کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ چلنے ہی والا تھا کہ بسم اللہ نے کہا۔

’’اندر آجائیے وہ کہیں دور نہیں گئے۔ ‘‘

سعید کا دل دھڑکنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ بسم اللہ میز کے پاس کھڑی تھی۔ سعید نے جرأت سے کام لے کر اس سے کہا۔

’’بیٹھئے۔ ‘‘

بسم اللہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر خاموش رہی اس کے بعد سعید نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’ظہیر آئے نہیں ابھی تک؟‘‘

بسم اللہ نے مختصر جواب دیا۔

’’آجائیں گے۔ ‘‘

تھوڑی دیر پھر خاموش رہی۔ اس دوران میں کئی مرتبہ سعید نے بسم اللہ کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اٹھ کر ان کو چومنا شروع کردے۔ اس قدر چومے کہ ان کی ساری اداسی دھل جائے مگر سعید نے اس خواہش پر قابو پا کر اس سے کہا۔

’’آپ کو فلم میں کام کرنے کا بہت شوق ہے؟‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی اور جواب۔

’’ہے تو سہی۔ ‘‘

سعید ناصح بن گیا۔

’’یہ لائن اچھی نہیں۔ میرا مطلب ہے بڑی بدنام ہے۔ ‘‘

اس کے بعد اس نے فلم لائن کی تمام برائیاں بیان کرنا شروع کردیں۔ ظہیر کا خیال آیا تو اس نے رخ بدل لیا۔

’’آپ کو شوق ہے تو خیر دوسری بات ہے۔ کیریکٹر مضبوط ہو تو آدمی کسی بھی لائن میں ثابت قدم رہ سکتا ہے۔ پھرظہیر خود اپنا فلم بنا رہا ہے لیکن آپ کسی دوسرے کے فلم میں کام ہرگز نہ کیجیے گا۔ ‘‘

بسم اللہ خاموش رہی۔ سعید کو اس کی یہ خاموشی بہت بری معلوم ہوئی۔ پہلی مرتبہ اس کو تنہائی میں اس سے ملنے کا موقعہ ملا تھا مگر وہ بولتی ہی نہیں تھی۔ سعید نے ایک دو مرتبہ ڈرتے ڈرتے ٹوہ لینے والی نگاہوں سے اسے دیکھا مگر کوئی رد عمل پیدا نہ ہوا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’اچھا تو پان ہی کھلائیے۔ ‘‘

بسم اللہ اٹھی۔ ریشمی قمیض کے پیچھے اس کے سینے کا نمایاں ابھار ہلا۔ سعید کی نگاہوں کو دھکا سا لگا۔ بسم اللہ دوسرے کمرے میں گئی تو وہ ڈر ڈر کے تیکھی تیکھی باتیں سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پان لے کر آئی اور سعید کے پاس کھڑی ہو گئی۔

’’لیجئے۔ ‘‘

سعید نے شکریہ کہہ کر پان لیا تو اس کی انگلیاں بسم اللہ کی انگلیوں سے چھوئیں اس کے سارے بدن میں برقی لہر دوڑ گئی۔ اس کے ساتھ ہی ضمیر کا کانٹا اس کے دل میں چُھبا۔ بسم اللہ سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے گہرے سانولے چہرے سے سعید کو کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ سعید نے سوچا

’’کوئی اور عورت ہوتی تو فوراً سمجھ جاتی کہ میں اسے کن آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ شاید سمجھ گئی ہو۔ شاید نہ بھی سمجھی ہو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

سعید کا دماغ بے حد مضطرب تھا۔ ایک طرف بسم اللہ کا ستانے والا وجود تھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار۔ دوسری طرف ظہیر کا خیال، اس کے ضمیر کا کانٹا۔ سعید عجب الجھن میں پھنس گیا تھا۔ بسم اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ جو چیز سعید سوچ رہا ہے ناممکن ہے۔ مگر وہ پھر اس کو انہی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’ظہیر نہیں آئے میرا خیال ہے۔ میں چلتا ہوں۔ ‘‘

بسم اللہ نے خلافِ توقع کہا۔

’’نہیں نہیں بیٹھئے۔ ‘‘

’’آپ تو کوئی بات ہی نہیں کرتیں۔ ‘‘

یہ کہہ کرسعید اٹھا۔ بسم اللہ نے پوچھا۔

’’چلے؟‘‘

سعید نے اس کی طرف ٹوہ لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔

’’جی نہیں، بیٹھتا ہوں۔ آپ کو اگر کوئی اعتراض نہ ہو۔ ‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی۔

’’مجھے کیا اعتراض ہو گا۔ ‘‘

بسم اللہ کی آنکھوں میں خمار سا پیدا ہو گیا۔ سعید نے کہا۔

’’آپ کو شاید نیند آرہی ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں رات جاگتی رہی۔ ‘‘

سعید نے ذرا بے تکلفی سے پوچھا۔

’’کیوں!‘‘

بسم اللہ نے ایک اور جمائی لی۔

’’کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ ‘‘

سعید بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بسم اللہ سو گئی۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار ریشمی قمیض کے پیچھے سانس کے زیرو بم سے ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں اب بند تھیں۔ دایاں بازو ایک طرف ڈھک گیا تھا۔ آستین اوپر کو اٹھ گئی تھی۔ سعید نے دیکھا گہرے سانولے رنگ کی کلائی پر ہندی کے حروف کھدے ہوئے تھے۔ اتنے میں ظہیر آگیا۔ سعید اس کی آمد پر سٹپٹا سا گیا۔ ظہیر نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اپنی بیوی بسم اللہ کی طرف دکھا۔

’’ارے سو رہی ہے۔ ‘‘

سعید نے کہا۔

’’میں جارہا تھا۔ کہنے لگیں ظہیر صاحب ابھی آجائیں گے۔ آپ بیٹھئے۔ میں بیٹھا تو آپ سو گئیں۔ ‘‘

ظہیر ہنسا۔ سعید بھی ہنسنے لگا۔

’’بھئی واہ، اٹھو اٹھو۔ ‘‘

ظہیر نے بسم اللہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ بسم اللہ نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنی بڑی بڑی اداس آنکھیں کھول دیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اب ان میں ویرانی سی بھی تھی۔

’’چلو چلو، اٹھو۔ ایک ضروری کام پر جانا ہے۔ ‘‘

بسم اللہ سے یہ کہہ کر ظہیر سعید سے مخاطب ہوا۔

’’معاف کیجیے گا سعید صاحب، میں ایک کام سے جارہا ہوں۔ انشاء اللہ کل ملاقات ہو گی۔ ‘‘

سعید چلا گیا۔ دوسرے روز اس نے ظہیر کے ہاں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی کہ وہ گھر پر نہ ہو۔ وہاں پہنچا تو باہر کئی آدمی جمع تھے۔ سعید کو ان سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ ظہیر کی بیوی نہیں تھیں۔ وہ ایک ہندو لڑکی تھی جو فسادوں میں یہاں رہ گئی تھی۔ ظہیر اس سے پیشہ کراتا تھا۔ پولیس ابھی ابھی اسے برآمد کرکے لے گئی ہے۔ وہ بڑی بڑی سیاہ اور اداس آنکھیں اب سعید کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔

سعادت حسن منٹو

بس اسٹینڈ

وہ بس اسٹینڈ کے پاس کھڑی اے روٹ والی بس کا انتظار کر رہی تھی‘ اس کے پاس کئی مرد کھڑے تھے‘ ان میں ایک اسے بہت بُری طرح گھور رہا تھا‘ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ شخص برمے سے اس کے دل و دماغ میں چھید بنا رہا ہے۔ اس کی عمر یہی بیس بائیس برس کی ہو گی لیکن اس پختہ سالی کے باوجود وہ بہت گھبرا رہی تھی‘ جاڑوں کے دن تھے‘ پر اس کے باوجود اس نے کئی مرتبہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا ‘ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کرے‘ بس سٹینڈ سے چلی جائے‘ کوئی تانگہ لے لے یا واپس اپنی سہیلی کے پاس چلی جائے۔ اس کی یہ سہیلی نئی نئی بنی تھی‘ ایک پارٹی میں ان کی ملاقات ہوئی اور وہ دونوں ایک دوسرے کی گرویدہ ہو گئیں۔ یہ پہلی بار تھی کہ وہ اپنی اس نئی سہیلی کے بُلاوے پر اس کے گھر آئی تھی۔ نوکر بیمار تھا مگر جب اس سہیلی نے اتنا اصرار کیا تھا تو وہ اکیلی ہی اس کے ہاں چلی گئی‘ دو گھنٹے میں گپ لڑاتی رہیں۔ یہ وقت بڑے مزے میں کٹا‘ اُس کی سہیلی جس کا نام شاہدہ تھا اس سے جاتے وقت کہا :

’’سلمیٰ! اب تمہاری شادی ہو جانی چاہیے‘‘

سلمیٰ شرما سی گئی‘ کیسی باتیں کرتی ہو شاہدہ۔ مجھے شادی نہیں کرانا ہے‘‘

’’تو کیا ساری عمر کنواری رہو گی‘‘

’’کنواری رہنے میں کیا حرج ہے‘‘

شاہدہ مسکرائی

’’میں بھی یہی کہا کرتی تھی۔ لیکن جب شادی ہو گئی تو دنیا کی تمام لذتیں مجھ پر آشکارا ہو گئیں۔ یہی تو عمر ہے جب آدمی پوری طرح شادی کی لطافتوں سے حظ اندوز ہو سکتا ہے۔ تم میرا کہا مانو۔ بس ایک دو مہینے کے اندر دلہن بن جاؤ۔ تمہارے ہاتھوں میں مہندی میں خود لگاؤں گی‘‘

’’’ہٹاؤ ‘ اس چھیڑ خانی کو‘‘

شاہدہ نے سلمیٰ کے گال پر ہلکی سی چپت لگائی

’’یہ چھیڑ خانی ہے؟۔ اگر یہ چھیڑ خوانی ہے تو ساری دنیا چھیڑ خانی ہے۔ مرداور عورت کا رشتہ بھی فضول ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم ایک ازلی اور ابدی رشتے سے منکر کیوں ہو؟۔ دیکھوں گی کہ تم مرد کے بغیر کیسے زندہ رہو گی۔ خدا کی قسم پاگل ہو جاؤ گی۔ پاگل !‘‘

’’اچھا ہے‘ جو پاگل ہو جاؤں۔ کیا پاگلوں کے لیے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ اتنے سارے پاگل ہیں‘ آخر وہ جوں توں جی ہی رہے ہیں‘‘

’’جوں توں جینے میں کیا مزا ہے‘ پیاری سلمیٰ۔ میں تم سے کہتی ہوں کہ جب سے میری شادی ہوئی ہے ‘ میری کایا ہی پلٹ گئی ہے۔ میرا خاوند بہت پیار کرنے والا ہے‘‘

’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

’’مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ یہی ان کا کام ہے۔ ویسے اﷲ کا دیا بہت کچھ ہے۔ میرا ہاتھ انھوں نے کبھی تنگ ہونے نہیں دیا‘‘

سلمیٰ نے یوں محسوس کیا کہ اس کا دل تنگ ہو گیا ہے۔

’’شاہدہ مجھے تنگ نہ کرو‘ مجھے شادی نہیں کرنا ہے۔ مجھے مردوں سے نفرت ہے‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس ہے!‘‘

’’اب میں تم سے کیا کہوں۔ مردوں سے مجھے بھی نفرت تھی لیکن جب میری شادی ہوئی اور مجھ سے میرے خاوند نے پیار محبت کیا تو میں نے پہلی مرتبہ جانا کہ مرد‘ عورت کے لیے کتنا لازمی ہے‘‘

’’ہوا کرے۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں‘‘

شاہدہ ہنسی‘ سلمیٰ ! ایک دن تم ضرور اس بات کی قائل ہو جاؤ گی کہ مردعورت کے لیے لازمی ہے۔ اس کے بغیر وہ ایسی گاڑی ہے جس کے پہیے نہ ہوں۔ میری شادی کو ایک برس ہوا ہے‘ اس ایک برس میں مجھے جتنی مسرتیں اور راحتیں میرے خاوند نے پہنچائی ہیں‘ میں بیان نہیں کر سکتی۔ خدا کی قسم وہ فرشتہ ہے۔ فرشتہ‘ مجھ پر جان چھڑکتا ہے‘‘

سلمیٰ نے یہ سُن کر یوں محسوس کیا کہ جیسے اس کے سر پر فرشتوں کے پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔ اس نے سوچنا شروع کیا کہ شاید مرد عورت کے لیے لازمی ہی ہو۔ لیکن فوراً بعد اس کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ اس کی عقل نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ مرد کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔ کیا عورت اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ جیسا کہ شاہدہ نے اس کو بتایا تھا کہ اس کا شوہر بہت پیار کرنے والا ہے‘ بہت نیک خصلت ہے۔ لیکن اس سے یہ ثابت تو نہیں ہوتا کہ وہ شاہدہ کے لیے لازمی تھا۔ سلمیٰ حسین تھی‘ اُبھرا اُبھرا جوبن ‘ بھرے بھرے ہاتھ پاؤں‘ کشادہ پیشانی‘ گھٹنوں تک لمبے کالے بال‘ ستواں ناک اور اس کی پھننگ پر ایک تل۔ جب وہ اپنی سہیلی سے اجازت مانگ کر غسل خانے میں گئی تو اُس نے آئینے میں خود کو بڑے غور سے دیکھا اور اُسے بڑی اُلجھن محسوس ہوئی ‘ جب اس نے سوچا کہ آخر یہ جسم‘ یہ حسن‘ یہ ابھار کس لیے ہوتے ہیں۔ قدرت کی ساری کاریگری اکارت جا رہی ہے۔

’’گندم پیدا ہوتا ہے تو آدمی اس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ اس کی جوانی بھی تو کسی کھیت میں اُگی تھی۔ اگر اسے کوئی کھائے گا نہیں تو گل سڑ نہیں جائے گی؟‘‘

وہ بہت دیر تک غسل خانے میں آئینے کے سامنے سوچتی رہی‘ ا س کے ذہن میں اس کی سہیلی کی تمام باتیں گونج رہی تھیں۔ مرد‘ عورت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ! اس کا خاوند اس سے بہت پیار کرتا ہے۔ وہ فرشتہ ہے۔ سلمیٰ نے ایک لمحے کے لیے محسوس کیا کہ اس کی شلوار اور اس کا دوپٹہ فرشتوں کے پَر بن گئے ہیں۔ وہ گھبرا گئی اور جلدی فارغ ہو کر باہر نکل آئی‘ باہر برآمدے میں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں‘ سلمیٰ کو ایسا لگا کہ یہ بھی فرشتے ہیں جو بھیس بدل کر آئے ہیں۔ پھر جب اس کی سہیلی اپنی کوٹھی سے ملحقہ باغ میں اسے لے گئی اور وہاں اس نے چند تتلیاں دیکھیں تو وہ بھی اسے فرشتے دکھائی دیے۔ لیکن اُس نے کئی مرتبہ سوچا کہ ایسے رنگین اور ایسے ننھے منے فرشتے کیسے ہو سکتے ہیں۔ اسے بہت دیر تک فرشتے ہی فرشتے دکھائی دیتے رہے جو اس کے قریب آتے اس سے پیار کرتے‘ اس کا منہ چومتے‘ اس کے سینے پر ہاتھ پھیرتے‘ جس سے اس کو بڑی راحت ملتی لیکن ان فرشتوں کے ہاتھ بڑی تندہی سے ایک طرف جھٹک دیتی اور ان سے کہتی :

’’جاؤ۔ چلے جاؤ یہاں سے۔ تمہارا گھر تو آسمان پر ہے۔ یہاں کیا کرنے آئے ہو؟‘‘

وہ فرشتے اس سے کہتے

’’ہم فرشتے نہیں حضرتِ آدمؑ کی اولاد ہیں۔ وہی بزرگ جو جنت سے نکالے گئے تھے۔ پر ہم تمھیں پھر جنت میں پہنچا دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ چلو ہمارے ساتھ‘ وہاں دودھ کی نہریں بہتی ہیں اور شہد کی بھی‘‘

سلمیٰ نے یوں محسوس کیا کہ اس کے سینے میں سے دودھ کے ننھے منے قطرے نکلنے شروع ہو گئے ہیں اور اس کے ہونٹ مٹھاس میں لپٹے ہوئے ہیں۔ شاہدہ ‘ اُس سے بار بار اپنے خاوند کی تعریف کرتی‘ اصل میں اُس کا مدعا یہ تھا کہ اس کے بھائی کے ساتھ سلمیٰ کا رشتہ قائم کر دے۔ مگر گھر پر یہ پہلی ملاقات تھی‘ اس لیے وہ کھل کے بات نہ کر سکی۔ بہرحال اس نے اشاروں کنایوں میں سلمیٰ پر یہ واضح کر دیا کہ اس کا خاوند جو بہت شریف اور محبت کرنے والا آدمی ہے اُس کا بھائی اُس سے بھی کہیں زیادہ شریف النفس ہے۔ سلمیٰ نے یہ اشارہ نہ سمجھا ‘ اس لیے کہ وہ بہت سادہ لوح تھی‘ اُس نے صرف اتنا کہہ دیا

’’آج کل کے زمانے میں شریف آدمیوں کا ملنا محال ہے۔ تم خوش قسمت ہو کہ تمھیں ایسا خاندان مل گیا جہاں ہر آدمی نیک اور شریف ہے‘‘

’’افسوس ہے کہ اس وقت میرے خاوند گھر میں موجود نہیں ورنہ میں تم سے انھیں ضرور ملاتی‘‘

’’کبھی پھر سہی۔ کیا کام کرتے ہیں‘‘

’’ہائے‘ انھیں کیا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لاکھوں روپے کی جائیداد ہے۔ مکانوں اور دکانوں سے کرایہ ہی ہر مہینے دو ہزار کے قریب وصول ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ماشاء اﷲ زمینیں ہیں‘ وہاں کی آمدن الگ ہے۔ اناج کی کوئی دقّت نہیں۔ منوں گندم گھر میں پڑا رہتا ہے۔ چاول بھی۔ ہر قسم کی ترکاری بھی ہر وقت میسر ہو سکتی ہے۔ اﷲ کا بڑا فضل و کرم ہے۔ ان کا چھوٹا بھائی جو آج کل لندن میں ہے‘ زراعت کے متعلق جانے کیا سیکھ رہا ہے۔ ایک مہینے تک واپس آ رہا ہے۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ہے۔ تم اُسے دیکھو گی۔ تو۔ ‘‘

سلمیٰ نے گھبراتے ہوئے لہجے میں کہا

’’ہاں ‘ ہاں۔ جب وہ آئیں گے تو ان سے ملنے کا اتفاق ہو جائے گا‘‘

شاہدہ نے کہا

’’بڑا شریف لڑکا ہے۔ بالکل اپنے بڑے بھائی کی مانند‘‘

’’جی ہاں۔ ضرور ہو گا‘ آخر شریف خاندان سے تعلق ہے‘‘

’’وہ بس آنے ہی والا ہے۔ تم مجھے اپنی ایک تصویر دے دو‘‘

’’کیا کرو گی‘‘

’’بس شہد لگا کے چاٹا کروں گی‘‘

یہ کہہ کر شاہدہ نے سلمیٰ کا منہ چوم لیا‘ اور پھر اپنے خاوند کی تعریفیں شروع کر دیں۔ سلمیٰ تنگ آ گئی ‘ اُس نے تھوڑی دیر کے بعد کوئی بہانہ بنا کر رخصت چاہی اور بس اسٹینڈ پر پہنچ گئی‘ جہاں اسے

’’اے روٹ‘‘

کی بس پکڑنا تھی۔ وہ جب وہاں پہنچی تو ایک مرد نے اُسے بہت بُری نگاہوں سے گھورنا شروع کر دیا۔ وہ پریشان ہو گئی‘ جاڑوں کے دن تھے مگر اس نے کئی مرتبہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ اسٹینڈ پر ایک بس آئی‘ اس نے اس کا نمبر نہ دیکھا اور جب چند مسافر اُترے تو وہ فوراً اس میں سوار ہو گئی۔ وہ آدمی بھی اس بس میں داخل ہو گیا‘ اس کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ بس کے انجن میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی‘ جس کے باعث اسے رکنا پڑا‘ سب مسافروں سے کہہ دیا گیا کہ وہ اُتر جائیں کیونکہ کافی دیر تک یہ بس نہیں چل سکے گی۔ سلمیٰ نیچے اُتری تو وہ آدمی جو اُسے بہت بری طرح گھور رہا تھا وہ بھی اس کے ساتھ باہر نکلا۔ سڑک پر ایک کار جا رہی تھی اُس نے اس کے ڈرائیور کو آواز دی

’’امام دین‘‘

امام دین نے موٹر ایک دم روک لی۔ اس آدمی نے سلمیٰ کا ہاتھ پکڑا اور اس سے کہا : چلیے۔ یہ میری کار ہے۔ جہاں بھی آپ جانا چاہتی ہیں‘ آپ کو چھوڑ آؤں گا‘‘

سلمیٰ انکار نہ کر سکی‘ موٹر میں بیٹھ گئی‘ اُس کو ماڈل ٹاؤن جانا تھا مگر وہ اسے کہیں اور لے گیا۔ اور۔ ! سلمیٰ نے محسوس کیا کہ مرد واقعی عورت کے لیے لازم ہوتا ہے۔ اس نے اپنی زندگی کا بہترین دن گزارا۔ گو اُس نے پہلے بہت حیل و حجت اور احتجاج کیا مگر اُس آدمی نے اسے رام کر ہی لیا۔ تین چار گھنٹوں کے بعد جب سلمیٰ نے اُس شخص کا بٹوہ کھول کر یونہی دیکھا تو اُس میں ایک طرف شاہدہ کا فوٹو تھا۔ اُس نے ہچکچاہٹ کے ساتھ پوچھا :

’’یہ۔ یہ۔ عورت کون ہے؟‘‘

’’اُس شخص نے جواب دیا:

’’میری بیوی‘‘

سلمیٰ کے حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی‘ آپ کی بیوی؟‘‘

شاہدہ کا خاوند مسکرایا

’’کیا مردوں کی بیویاں نہیں ہوتیں؟‘‘

۲۰، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

برمی لڑکی

گیان کی شوٹنگ تھی۔ اس لیے کفایت جلدی سو گیا۔ فلیٹ میں اور کوئی نہیں تھا بیوی بچے راولپنڈی چلے گئے تھے ہمسایوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یوں بھی بمبئی میں لوگوں کو اپنے ہمسایوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کفایت نے اکیلے برانڈی کے چار پیگ پیے۔ کھانا کھایا۔ نوکروں کو رخصت کیا اور دروازہ بند کرکے سو گیا۔ رات کے پانچ بجے کے قریب کفایت کے خمار آلود کانوں کو دھک کی آواز سنائی دی۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ نیچے بازار میں ایک ٹریم دندناتی ہوئی گزری۔ چند لمحات کے بعد دروازے پر بڑے زوروں کی دستک ہوئی۔ کفایت اٹھا۔ پلنگ پر اترا تو اس کے ننگے پیر ٹخنوں تک پانی میں چلے گئے اس کو سخت حیرت ہوئی کہ کمرے میں اتنا پانی کہاں سے آیا اور باہر کوڑی ڈور میں اس سے بھی زیادہ پانی تھا۔ دروازے پر دستک جاری تھا اس نے پانی کے متعلق سوچنا چھوڑا اور دروازہ کھولا۔ گیان نے زور سے کہا

’’یہ کیا ہے؟‘‘

کفایت نے جواب دیا۔

’’پانی‘‘

’’پانی نہیں۔ عورت!‘‘

یہ کہہ کر گیان نیم اندھیرے کوری ڈور میں داخل ہوا اس کے پیچھے ایک چھوٹے سے قد کی لڑکی تھی۔ گیان کو فرش پر پھیلے ہوئے پانی کا کچھ احساس نہ ہوا۔ لڑکی نے پائیجامہ اوپر اٹھا لیا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گیان کے پیچھے چلی گئی۔ کفایت کے ذہن میں پہلے پانی تھا۔ اب یہ لڑکی اس میں داخل ہو گئی اور ڈبکیاں لگانے لگی سب سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ کون ہے شکل صورت اور لباس کے اعتبار سے برمی معلوم ہوتی۔ لیکن گیان اسے کہاں سے لے آیا؟۔ گیان اندر کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کیے بغیر پلنگ پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔ کفایت نے اس سے بات کرنا چاہی مگر اس نے صرف ہوں ہاں میں جواب دیا اور آنکھیں نہ کھولیں۔ کفایت نے اس لڑکی کی طرف ایک نظر دیکھا جو سامنے والے پلنگ پر بیٹھی تھی اور باہر نکل گیا۔ باورچی خانے میں جا کر اسے معلوم ہوا کہ ربڑ کا وہ پائپ جو رات کو بڑا ڈرم بھرا کرتا تھا باہر نکلا ہوا ہے۔ تین بجے جب نل میں پانی آیا تو اس نے تمام کمرے سیر آب کردیے۔ تینوں نوکر باہر گلی میں سو رہے تھے کفایت نے ان کو جگا دیا اور پانی خارج کرنے کے کام پر لگا دیا وہ خود بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ سب چلووؤں سے پانی اٹھاتے تھے اور بالٹیوں میں ڈالتے جاتے تھے اس برمی لڑکی نے جب ان کو یہ کام کرتے دیکھا تو جھٹ پٹ۔ سینڈل اتار کر ان کا ہاتھ بٹانے لگی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے گورے ہاتھ انگلیوں کے ناخن بڑھائے ہوئے اور سرخی لگے نہیں تھے چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال تھے جن میں ہلکی ہلکی لہریں تھیں۔ مردار موضع کا مگر کھلا ریشمی پاجامہ پہنے تھی۔ اس پر سیاہ رنگ کا ریشمی کرتا تھا جس میں اسکی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں چھپی ہوئی تھیں۔ جب اس نے ان لوگوں کا ہاتھ بنانا شروع کیا تو کفایت نے اسے منع کیا۔

’’آپ تکلیف نہ کیجیے یہ کام ہو جائے گا۔ ‘‘

اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ چھوٹے چھوٹے سرخی لگے ہونٹوں سے مسکرائی اور کام میں لگی رہی۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر تینوں کمروں سے پانی نکل گیا۔ کفایت نے سوچا چلو یہ بھی اچھا ہوا اسی بہانے سارا گھر دھل کرصاف ہو گیا۔ ‘‘

وہ برمی لڑکی ہاتھ دھونے کے لیے غسل خانے میں چلی گئی کفایت کمر سیدھی کرنے کے لیے بستر پرلیٹا نیند پوری نہیں ہوئی تھی، سو گیا۔ تقریباً نو بجے وہ جاگا اور جاگتے ہی اسے سب سے پہلے پانی کا خیال آیا۔ پھر اس نے برمی لڑکی کے متعلق سوچا جو گیان کے ساتھ آئی تھی۔

’’کہیں خواب تو نہیں تھا لیکن یہ سامنے گیان سو رہا ہے اور فرش بھی دھلا ہوا ہے۔ ‘‘

کفایت نے غور سے گیان کی طرف دیکھا۔ وہ پتلون کوٹ بلکہ جوتے سمیت اوندھا سو رہا تھا۔ کفایت نے اس کو جگایا اس نے ایک آنکھ کھولی اور پوچھا

’’کیا ہے؟‘‘

’’یہ لڑکی کون ہے؟‘‘

گیان ایک دم چونکا

’’لڑکی۔ کہاں ہے‘‘

پھر فوراً ہی چٹ لیٹ گیا۔ اوہ۔ بکواس نہ کرو۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘

کفایت نے اسے پھر جگانے کی کوشش کی مگر وہ خاموش سویا رہا۔ اسکو ساڑھے نو بجے اپنے کام پر جانا تھا اس نے جلدی جلدی غسل کیا۔ شیو بھی غسل خانے کے اندر ہی کرلیا۔ باہر نکل کر ڈرائنگ روم میں گیا تو اس کو میز سجی ہوئی نظر آئی۔ صبح ناشتہ پر عام طور پر کفایت کے ہاں بہت سی مختصر چیزیں ہوتی تھیں۔ دو ابلے ہوئے انڈے۔ دو توس۔ مکھن اور چار۔ مگر آج میز رنگین تھی اس غور سے دیکھا چِھلے ہوئے انڈے عجیب وغریب انداز میں کٹے ہوئے تھے کہ پھول معلوم ہوتے تھے۔ سلاد تھا بڑے خوبصورت طریقے سے پلیٹ میں سجا ہوا۔ توسوں پر بھی مینا کاری کی ہوئی تھی۔ کفایت چکرا گیا۔ باورچی خانے میں گیا تو وہ برمی لڑکی چوکی پر بیٹھی سامنے انگیٹھی رکھے کہہ رہی تھی تینوں نوکر اس کے اردگرد تھے اور ہنس ہنس کر اس سے باتیں کررہے تھے۔ کفایت کو دیکھ کروہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ برمی لڑکی نے آنکھیں گھما کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ کفایت نے اس سے بات کرنا چاہی لیکن وہ کیسے کرتا۔ اس سے کیا کہتا وہ اس کو جانتا تک نہیں تھا اس نے اپنے ایک نوکر سے صرف اتنا پوچھا

’’یہ ناشتہ آج کس نے تیار کیا ہے بشیر؟‘‘

بشیر نے اس برمی لڑکی کی اشارہ کیا۔

’’بائی جی نے‘‘

وقت بہت کم تھا۔ کفایت نے جلدی بانکا سجیلا ناشتہ کھایا اور کپڑے پہن کر انپے دفتر روانہ ہو گیا۔ شام کو واپس آیا تو وہ برمی لڑکی اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پاجامہ پہنے اپنا کرتہ استری کررہی تھی۔ کفایت پیچھے ہٹ گیا، کیونکہ وہ صرف پائجامہ پہنے تھی۔

’’آجائیے۔ ‘‘

لہجہ بڑا صاف ستھرا تھا۔ کفایت نے سوچا کہ برمی لڑکی کی بجائے شاید کوئی اور بولا ہے۔ جب وہ اندر گیا تو اس لڑکی نے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کرکے اس کو سلام کیا۔ کفایت کی موجودگی میں اس نے کوئی حجاب محسوس نہ کیا۔ بڑے سکون سے وہ اپنا سیاہ کرتا استری کرتی رہی۔ کفایت نے دیکھا اسکی چھوٹی چھوٹی گول چھاتیوں کے درمیانی حصے میں استری کی گرمی کے باعث پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جمع ہو گئی تھیں۔ کفایت نے گیان کے بارے میں پوچھنے کے لیے بشیر کو آواز دینا چاہی مگر رک گیا۔ اس نے مناسب خیال نہ کیا کیونکہ وہ لڑکی آدھی ننگی تھی اس نے ہیٹ اتار کر ایک طرف رکھا۔ تھوڑی دیر اس نیم عریانی کو دیکھا مگر کوئی ہیجان محسوس نہ کیا۔ لڑکی کا بدن بے داغ تھا۔ جلد نہایت ہی ملائم تھی اتنی ملائم کہ نگاہیں پھسل پھسل جاتی تھیں۔ کرتا استری ہو گیا تو اس نے سوئچ اوف کیا ایک کرتا اور بھی تھا سفید بوسکی کا جو تہہ کیا ہوا استری شدہ پائجامے پر رکھا اس نے یہ سب کپڑے اٹھائے اور کفایت سے مخاطب ہوئی

’’میں نہانے چلی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ کفایت ٹوپی اتار کرسر کھجلانے لگا۔

’’کون ہے یہ؟‘‘

اس کے دماغ میں بڑی کُھدبُد ہورہی تھی جب وہ اس لڑکی کے متعلق سوچتا سارا واقعہ اسکے سامنے آجاتا۔ رات کو اس کا اٹھنا۔ پانی ہی پانی۔ اس کا دروازہ کھولا اور

’’کہنا پانی‘‘

اور گیان کا یہ جواب دینا’ پانی نہیں عورت‘‘

اور ایک ننھی سی گڑیا کا چھم سے اندر آجانا۔ کفایت نے دل میں کہا

’’ہٹاؤ جی۔ گیان آئے گا تو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ لونڈیا ہے دلچسپ۔ اتنی چھوٹی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ آدمی جیب میں رکھ لے۔ چلو برانڈی پئیں۔ بشیر نے گلاس، برانڈی اور برف وغیرہ سب کچھ علاقائی کمرے میں تپائی پر رکھ دیا تھا۔ کفایت نے کپڑے بدلے اور پینا شروع کردی۔ پہلا پیگ ختم کیا تو اسے غسل خانے کا دروازہ کھلنے کی

’’چوں‘‘

سنائی دی۔ دوسرا پیگ ڈال کر وہ انتظار کرنے لگا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ برمی لڑکی ضرور ادھر آئے گی۔ اس کے مقررہ چار پیگ ختم ہو گئے مگر وہ نہ آئی۔ گیان بھی نہ آیا۔ کفایت جھنجھلا گیا۔ اندر بیڈ روم میں جا کر اس نے دیکھا وہ لڑکی استری کیے ہوئے کپڑے پہنے اپنی گول گول چھاتیوں پر ہاتھ رکھے بڑے اطمینان سے سو رہی تھی۔ استری والی میز پر اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پائجامہ بڑی اچھی طرح تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔ کفایت نے واپس جا کربرانڈی کا ایک ڈبل پیگ گلاس میں ڈالا اور نیٹ ہی چڑھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا سر گھومنے لگا۔ اس نے برمی لڑکی کے متعلق سوچنے کی کوشش کی مگر اس نے ایسا محسوس کیا کہ وہ چلوؤں میں پانی بھر بھر کے اس کے دماغ میں ڈال رہی ہے کھانا کھائے بغیر وہ صوفے پر لیٹ گیا اور اس برمی لڑکی کے متعلق کچھ سوچنے کی کوشش کرتے ہوئے سو گیا۔ صبح ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ صوفے کی بجائے اندر اپنے پلنگ پر ہے اس نے حافظے پر زور دیا۔

’’میں رات کب آیا یہاں۔ کیا میں نے کھانا کھایا تھا؟‘‘

کفایت کو کوئی جواب نہ ملا۔ سامنے والا پلنگ خالی تھا۔ اس نے زور سے بشیر کو آواز دی۔ وہ بھاگا اندر آیا۔ کفایت نے اس سے پوچھا

’’گیان صاحب کہاں ہیں؟‘‘

بشیر نے جواب دیا

’’رات کو نہیں آئے‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’معلوم نہیں صاحب‘‘

’’وہ بائی جی کہاں ہیں‘‘

’’مچھی تل رہی ہیں‘‘

کفایت کے دماغ میں مچھلیاں تلی جانے لگیں اٹھ کر باورچی خانے میں گیا تو وہ چوکی پر بیٹھی سامنے انگیٹھی رکھے مچھی تل رہی تھی۔ کفایت کو دیکھ کراسکے ہونٹوں پر ایک چھوٹی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ہاتھ اٹھا کر اس نے سلام کیا اوراپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ کفایت نے دیکھا تینوں نوکر بے حد مسرور تھے اور بڑی مستعدی سے اس لڑکی کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ بشیر کو کچھ دنوں کی چھٹی پر اپنے وطن جانا تھا کئی دنوں سے وہ بار بار کہتا تھا کہ صاحب مجھے تنخواہ دے دیجیے، مجھے گھرسے کئی خط آچکے ہیں۔ و الدہ بیمار ہے۔ رات کو وہ اُسے تنخواہ دینا بھول گیا تھا اب اُسے یاد آیا تو اس نے بشیر سے کہا

’’ادھر آؤ بشیر۔ اپنی تنخواہ لے لو۔ میں کل دفتر سے روپے لے آیا تھا۔ بشیر نے تنخواہ لے لی۔ کفایت نے اس سے پوچھا

’’نو بجے گاڑی جاتی ہے۔ اُس سے چلے جاؤ۔ ‘‘

’’اچھا جی!‘‘

یہ کہہ کر بشیر چلا گیا۔ ناشتہ بے حد لذیذ تھا خاص طور پر مچھی کے ٹکڑے۔ اس نے کھانا شروع کرنے سے پہلے بشیر کے ذریعہ سے اس برمی لڑکی کو بلا بھیجا مگر وہ نہ آئی۔ بشیر نے کہا

’’جی وہ کہتی ہیں کہ بعد میں کریں گی وہ ناشتہ‘‘

کفایت کی مالی حالت بہت پتلی تھی۔ گیان بھی آسودہ حال نہیں تھا دونوں ادھر ادھر سے پکڑ کر گزارہ کررہے تھے۔ برانڈی کا بندوبست گیان کردیتا تھا باقی کھانے پینے کا سلسلہ بھی کسی نہ کسی طرح چل ہی رہا تھا۔ جس فلم کمپنی میں گیان کام کررہا تھا اسکا دیوالہ نکلنے کے قریب تھا مگر اس کو یقین تھا کہ کوئی معجزہ ضروررونما ہو گا اور اسکی کمپنی سنبھل جائے گی۔ شوٹنگ ہورہی تھی غالباً اسی لیے گیان رات کو نہ آسکا تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد کفایت نے جھانک کر باورچی خانے میں دیکھا۔ لڑکی اپنے کام میں مشغول تھی۔ تینوں ملازم لڑکے اس سے ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ کفایت نے بشیر نے سے کہا۔

’’مچھلی بہت اچھی تھی۔ ‘‘

لڑکی نے مڑ کر دیکھا اس کے ہونٹوں پر چھوٹی سی مسکراہٹ تھی۔ کفایت دفتر چلا گیا اس کو امید تھی کہ کچھ روپوں کا بندوبست ہو جائے گا لیکن خالی جیب واپس آیا۔ برمی لڑکی اندر بیڈ روم میں لیٹی تصویروں والا رسالہ دیکھ رہی تھی۔ کفایت کو دیکھ کر بیٹھ گئی اور سلام کیا۔ کفایت نے سلام کا جواب دیا اور اس سے پوچھا

’’گیان صاحب آئے تھے‘‘

’’آئے تھے دوپہر کو۔ کھانا کھا کر چلے گئے۔ پھر شام کو آئے چند منٹوں کے لیے

’’یہ کہہ کر اس نے ایک طرف ہٹ کرتکیہ اٹھایا اور کاغذ میں لپٹی ہوئی بوتل نکالی‘‘

یہ دے گئے تھے کہ میں آپ کو دیدوں‘‘

میں نے بوتل پکڑی۔ کاغذ پر گیان کے یہ چند الفاظ تھے

’’کم بخت یہ چیز کسی نہ کسی طرح مل جاتی ہے لیکن پیسہ نہیں ملتا۔ بہر حال عیش کرو۔ تمہارا گیان‘‘

اس نے کاغذ کھولا۔ برانڈی کی بوتل تھی۔ برمی لڑکی نے کفایت کی طرف دیکھا اور مسکرائی۔ کفایت بھی مسکرا دیا۔

’’آپ پیتی ہیں؟‘‘

لڑکی نے زور سے اپنا سر ہلایا۔

’’نہیں!‘‘

کفایت نے نظر بھر کر اس کو دیکھا اور سوچا

’’کیا چھوٹی سی ننھی منھی گڑیا ہے!‘‘

اس کا جی چاہا کہ وہ اسکے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے چنانچہ اس سے مخاطب ہوا

’’آئیے، ادھر دوسرے کمرے میں بیٹھتے ہیں‘‘

’’نہیں۔ میں کپڑے دھوؤں گی۔ ‘‘

’’اس وقت؟‘‘

’’اسوقت اچھا ہوتا ہے۔ رات دھوئے، صبح سوکھ گئے۔ اٹھتے ہی استری کرلیے۔ ‘‘

کفایت تھوڑی دیر کھڑا رہا اسے کوئی بات نہ سوجھی تو ملاقاتی کمرے میں بیٹھ کر برانڈی پینا شروع کردی۔ کھانے کا وقت ہو گیا۔ اس نے برمی لڑکی کو بلایا مگر اس نے کہا

’’میں گیان صاحب کے ساتھ کھاؤں گی۔ ‘‘

کفایت نے کھانا کھایا اور اپنے پلنگ پر سو گیا۔ رات کے تقریباً ایک بجے اسکی آنکھ کھلی چاندنی رات تھی۔ ہلکی ہلکی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہوا بھی بڑے مزے کی چل رہی تھی۔ کروٹ بدلی تو دیکھا سامنے پلنگ پر ایک چھوٹی سی سڈول گڑیا گیان کے چوڑے بالوں بھرے سینے کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے کفایت نے آنکھیں بند کرلیں۔ تھوڑے وقفے کے بعد گیان کی آواز آئی

’’جاؤ اب مجھے سونے دو۔ کپڑے پہن لو۔ ‘‘

اسپرنگوں والے پلنگ کی آواز کے ساتھ ساتھ ریشم کی سراہٹیں کفایت کے کانوں میں داخل ہوئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد کفایت سو گیا۔ صبح چھ بجے اٹھا، کیونکہ وہ رات کو یہ سوچ کر سویا تھا کہ صبح جلدی اٹھے گا اسے ٹرام کا بہت لمبا سفر طے کرکے ایک آدمی کے پاس جانا تھا جس سے اُسے کچھ ملنے کی امید تھی۔ پلنگ پر سے اترا تو اس دیکھا کہ برمی ننگے فرش پر اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پائجامہ پہنے اپنے چھوٹے سے سڈول بازو کو سر کے نیچے رکھے بڑے سکون سے سو رہی ہے۔ کفایت نے اس کو جگایا۔ اس نے اپنی کالی کالی آنکھیں کھولیں۔ کفایت نے اس سے کہا

’’آپ یہاں کیوں لیٹی ہیں‘‘

اسکے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر ننھی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اٹھ کر اس نے جواب دیا۔

’’گیان کو عادت نہیں کسی کو اپنے ساتھ سلانے کی۔ ‘‘

کفایت کو گیان کی اس عادت کا علم تھا۔ اس نے لڑکی سے کہا

’’جائیے میرے پلنگ پر لیٹ جائیے۔ ‘‘

لڑکی اٹھی اور کفایت کے پلنگ پر لیٹ گئی۔ کفایت غسل خانے میں گیا وہاں رسی پر برمی لڑکی کے کپڑے لٹک رہے تھے۔ کفایت صابن مل کر نہانے لگا تو اس کا خیال اس لڑکی کے ملائم جسم کی طرف چلا گیا۔ جس پرسے نگاہیں پھسل پھسل جاتی تھیں۔ غسل سے فارغ ہوکرکفایت نے کپڑے پہنے چونکہ جلدی میں تھا اس لیے گیان کو جگا کر اس سے کوئی بات نہ کرسکا۔ صبح کا نکلا رات کے گیارہ بجے واپس آیا۔ جیبیں خالی تھیں۔ بیڈ روم میں گیا تو گیان اور برمی لڑکی دونوں اکٹھے لیٹے ہوئے تھے۔ کفایت نے ملاقاتی کمرے میں بیٹھ کر برانڈی پینی شروع کردی بہت تھکا ہوا تھا۔ مایوس واپس آیا تھا۔ برمی لڑکی کے متعلق سوچتے سوچتے وہیں صوفے پر سو گیا۔ صبح پانچ بجے اٹھا۔ تپائی پر اس کا چوتھا پیگ پانی میں پڑا باسی ہورہا تھا۔ کفایت اٹھا بیڈ روم کے ننگے فرش پر برمی لڑکی سو رہی تھی۔ گیان الماری کے آئینے کے ساتھ کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا۔ ٹائی کی گرہ ٹھیک کرکے اس نے دونوں ہاتھوں میں لڑکی کو اٹھایا اور اپنے پلنگ پر لٹا دیا۔ مڑا تو اس نے کفایت کو دیکھا

’’کیوں بھئی۔ کچھ بندوبست ہوا روپوں کا‘‘

کفایت نے بڑی مایوسی سے کہا

’’نہیں‘‘

’’تو میں جاتا ہوں۔ دیکھو شاید کچھ ہو جائے۔ ‘‘

پیشتر اس کے کہ کفایت اسے روکے گیان تیزی سے باہر نکل گیا۔ دروازہ کھلا تو اسکی آوازئی

’’تم بھی کوشش کرنا کفایت‘‘

کفایت نے پلٹ کر پلنگ کی طرف دیکھا۔ لڑکی بڑے سکون کے ساتھ سو رہی تھی۔ اسکے ننھے سے سینے پر چھوٹی چھوٹی گول چھاتیاں چمک رہی تھیں۔ کفایت کمرے سے نکل کر غسل خانے میں چلا گیا۔ اندر رسی پر لڑکی کے دھلے ہوئے کپڑے لٹک رہے تھے۔ غسل خانے سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ لڑکی نوکروں کے ساتھ ناشتہ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ ناشتہ کرکے باہر نکل گیا۔ چار روز اسی طرح گزر گئے۔ کفایت کو اس لڑکی کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ گیان کبھی رات کو دیر سے آتا تھا۔ کبھی دن کو بہت جلدی نکل جاتا تھا۔ یہی حال کفایت کا تھا۔ دونوں پریشان تھے۔ پانچویں روز جب وہ صبح اٹھا تو بشیر نے کفایت کو گیان کا رقعہ دیا۔ اس میں لکھا تھا

’’خدا کے لیے کسی نہ کسی طرح دس روپے پیدا کرکے برمی لڑکی کو دیدو‘‘

لڑکی کھڑی استری کررہی تھی۔ بلاؤز کی صرف ایک آستین باقی رہ گئی تھی جس پر وہ بڑے سلیقے سے استری پھیر رہی تھی۔ کفایت نے اس کی طرف دیکھا جب اس کی نگاہیں چار ہوئیں تو لڑکی مسکرادی۔ کفایت سوچنے لگا کہ وہ دس روپے کہاں سے پیدا کرے۔ بشیر پاس کھڑا تھا۔ اس نے کفایت سے صاحب

’’صاحب ادھر آئیے‘‘

کفایت نے پوچھا

’’کیا بات ہے‘‘

’’جی کچھ کہنا ہے‘‘

بشیر نے ایک طرف ہٹ کر دس روپے کا نوٹ نکالا اور کفایت کو دیدیا۔

’’میں نہیں گیا ابھی تک صاحب۔ ‘‘

کفایت نوٹ لے کر سوچنے لگا۔

’’نہیں نہیں۔ تم رکھو۔ لیکن تم گئے کیوں نہیں ابھی تک!‘‘

’’صاحب چلا جاؤں گا کل پرسوں۔ آپ رکھیے یہ روپے‘‘

کفایت نے نوٹ جیب میں ڈال لیا۔

’’اچھا میں شام کو لوٹا دوں گا تمہیں‘‘

کپڑے وپڑے پہن کر جب برمی لڑکی ناشتہ کر چکی تو کفایت نے اس کو دس روپے کا نوٹ دیا اور کہا

’’گیان صاحب نے دیا تھا کہ آپ کو دیدوں‘‘

لڑکی نے نوٹ لے لیا اور بشیر کو آواز دی۔ بشیر آیا تو اس سے کہا

’’جاؤ ٹیکسی لے آؤ۔ ‘‘

بشیر چلا گیا تو کفایت نے اس سے پوچھا۔

’’آپ جارہی ہیں؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھی اور بیڈ روم میں چلی گئی وہ اپنا رومال استری کرنا بھول گئی تھی کفایت نے اس سے باتیں کرنے کا ارادہ کیا تو ٹیکسی آگئی رومال ہاتھ میں لے کر وہ روانہ ہونے لگی۔ کفایت کو سلام کیا اور کہا

’’اچھا جی۔ میں چلتی ہوں۔ گیان کو میرا سلام بول دینا۔ ‘‘

پھر اس نے تینوں نوکروں سے ہاتھ ملایا اور چلی گئی۔ سب کے چہروں پر اُداسی چھا گئی۔ پونے گھنٹے کے بعد گیان آیا۔ وہ کچھ لے کر آیا تھا۔ آتے ہی اس نے کفایت سے پوچھا

’’کہاں ہے وہ برمی لڑکی؟‘‘

’’چلی گئی‘‘

’’کیسے؟ دس روپے دیے تھے تم نے اسے؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’تو ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے!‘‘

گیان کرسی پر بیٹھ گیا۔ کفایت نے پوچھا

’’کون تھی یہ لڑکی‘‘

’’معلوم نہیں‘‘

کفایت سرتاپا حیرت بن گیا

’’کیا مطلب؟‘‘

گیان نے جواب دیا

’’مطلب یہ کہ میں نہیں جانتا کون تھی‘‘

’’جھوٹ!‘‘

’’تمہاری قسم سچ کہتا ہوں‘‘

کفایت نے پوچھا

’’کہاں سے مل گئی تمہیں‘‘

گیان نے ٹانگیں میز پررکھ دیں اور مسکرایا

’’عجیب داستان ہے یار۔ پانی کا سیلاب آنے والی رات میں شنکر کے ہاں چلا گیا۔ وہاں بہت پی۔ اندھیری اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوا تو سو گیا۔ گاڑی مجھے سیدھی چرچ گیٹ لے گئی وہاں مجھے چوکیدار نے جگایا کہ اٹھو۔ میں نے کہا بھئی مجھے گرانٹ روڈ جانا ہے۔ چوکیدار ہنسا آپ پانچ اسٹیشن آگے چلے آئے ہیں۔ اترا دوسرا پلیٹ فارم پر اندھیری جانے والی آخری گاڑی کھڑی تھی۔ اس میں سوار ہو گیا۔ گاڑی چلی تو پھرمجھے نیند آگئی۔ سیدھی اندھیری پہنچ گئی۔ ‘‘

کفایت نے پوچھا

’’مگر اس سے لڑکی کا کیا تعلق‘‘

تم سن تو لو، گیان نے سگریٹ سلگایا

’’اندھیری پہنچا یعنی جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں میں ایک چھوٹی سی لونڈیا کے ساتھ چمٹا ہوں۔ پہلے تو میں ڈرا وہ جاگ رہی تھی میں نے پوچھا، کون ہو تم؟۔ وہ مسکرائی۔ میں نے پھر پوچھا، کون ہو بھئی تم۔ وہ مسکرائی اور کہنے لگی لو اتنی دیر سے مجھے چومتے اور اب پوچھتے ہو، میں کون ہوں۔ میں نے حیرت سے کہا، اچھا۔ وہ ہنسنے لگی میں نے دماغ پر زور دیکر سوچنا مناسب خیال نہ کیا اور اس کو اپنے ساتھ بھینچ لیا۔ صبح تین بجے تک ہم دونوں۔ پلیٹ فارم کی ایک بنچ پر سوئے رہے ساڑھے تین کی پہلی گاڑی آئی تو اس میں سوار ہو گئے۔ میرا ارادہ تھا کہ بندوبست کرکے اس کو کچھ روپے دوں گا۔ یہاں پہنچے تو پانی کا طوفان آیا ہوا تھا۔ ہے نا دل چسپ داستان۔ ‘‘

کفایت نے کہا

’’خاصی دلچسپی ہے۔ مگر وہ اتنے دن کیوں رہی یہاں؟‘‘

گیان نے سگریٹ فرش پر پھینکا

’’وہ کہاں رہی۔ میں نے اسے رکھا۔ اصل میں وہ یوں رہی کہ میرے پاس کچھ تھا ہی نہیں جو اسے دیتا۔ بس دن گزرتے تھے۔ میں بے حد شرمندہ تھا کل رات میں نے اس سے صاف کہہ دیا کہ دیکھو بھئی، دن بڑھتے جارہے ہیں۔ تم ایسا کرو مجھے اپنا ایڈریس دے دو، میں تمہارا حق وہاں پہنچا دوں گا۔ آج کل میرا حال بہت پتلا ہے۔ ‘‘

کفایت نے پوچھا

’’یہ سن کر اس نے کیا کہا؟‘‘

گیان نے سر کو جنبش دی

’’عجیب ہی لڑکی تھی۔ کہنے لگی، یہ کیا کہتے ہو۔ میں نے تم سے کب مانگا ہے۔ لیکن دس روپے مجھے دیدینا۔ میرا گھر یہاں سے بہت دور ہے ٹیکسی میں جاؤنگی۔ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں‘‘

کفایت نے سوال کیا

’’نام کیا تھا اس کا؟‘‘

گیان سوچنے لگا۔

’’بھول گئے؟‘‘

گیان نے اپنی ٹانگیں میز پر سے ہٹائیں

’’نہیں یار۔ میں نے اس سے نام نہیں پوچھا۔ حد ہو گئی۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔ 10جون1950ء

سعادت حسن منٹو

بُرقعے

ظہیر جب تھرڈ ایئر میں داخل ہوا تو ایک اس نے محسوس کیا کہ اسے عشق ہو گیا ہے۔ اور عشق بھی بہت اشد قسم کا۔ جس میں اکثر انسان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ وہ کالج سے خوش خوش واپس آیا کہ تھرڈایئر میں یہ اس کا پہلا دن تھا۔ جونہی وہ اپنے گھر میں داخل ہونے لگا، اس نے ایک برقع پوش لڑکی دیکھی جو ٹانگے میں سے اتر رہی تھی۔ اس نے ٹانگے میں سے اترتی ہوئی ہزار ہا لڑکیاں دیکھی تھیں۔ مگر وہ لڑکی جس کے ہاتھ میں چند کتابیں تھیں، سیدھی اس کے دل اتر گئی۔ لڑکی نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا اور ظہیر کے ساتھ والے مکان میں چلی گئی۔ ظہیر نے سوچنا شروع کردیا کہ اتنی دیر وہ اس کی موجودگی سے غافل کیسے رہا؟ اصل میں ظہیر آوارہ منش نوجوان نہیں تھا، اس کو صرف اپنی ذات سے دلچسپی تھی۔ صبح اٹھے، کالج گئے، لیکچر سُنے، گھر واپس آئے، کھانا کھایا، تھوڑی دیر آرام کیا، اور آموختہ دہرانے میں مصروف ہو گئے۔ یوں تو کالج میں کئی لڑکیاں تھیں، اس کی ہم جماعت، مگر ظہیر نے کبھی ان سے بات چیت نہیں کی تھی۔ یہ نہیں کہ وہ بڑا رُوکھا پھیکا انسان تھا۔ اصل میں وہ ہر وقت اپنی پڑھائی میں مشغول رہتا تھا۔ مگر اس روز جب اس نے اس لڑکی کو ٹانگے پر سے اترتے دیکھا تو وہ پولیٹیکل سائنس کا تازہ سبق بالکل بھول گیا۔ خواجہ حافظ کے تمام نئے اشعار کے معانی اس کے ذہن سے پھسل گئے اور وہ ان ہاتھوں کے متعلق سوچنے لگا جن میں کتابیں تھیں۔ پتلی پتلی سفید انگلیاں۔ ایک انگلی میں انگوٹھی۔ دوسرا ہاتھ جس نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا وہ بھی ویسا ہی خوبصورت تھا۔ ظہیر نے اس کی شکل دیکھنے کی کوشش کی، مگر نقاب اتنی موٹی تھی کہ اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ لڑکی تیز تیز قدم اٹھاتی، اس کے ساتھ والے مکان میں داخل ہو گئی اور ظہیر کھڑا دیر تک سوچتا رہا کہ اتنا کم فاصلہ ہونے کے باوجود وہ کیوں اس کی موجودگی سے غافل رہا۔ اپنے گھر میں جا کر اس نے پہلا سوال اپنی ماں سے یہ کیا۔

’’ہمارے پڑوس میں کون رہتے ہیں؟‘‘

اس کی ماں کے لیے یہ سوال بہت تعجب خیز تھا۔

’’کیوں؟‘‘

’’میں نے ایسے ہی پوچھا ہے۔ ‘‘

اس کی ماں نے کہا۔

’’مہاجر ہیں، ہماری طرح۔ ‘‘

ظہیر نے پوچھا۔

’’کون ہیں، کیا کرتے ہیں؟‘‘

ماں نے جواب دیا۔

’’باپ بیچاروں کا مر چکا ہے۔ ماں تھی، وہ عمر کے ہاتھوں معذور تھی۔ اب تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ بھائی سب سے بڑا ہے۔ وہی باپ سمجھو، وہی ماں۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ اس نے اپنی شادی بھی اس لیے نہیں کہ اتنا بوجھ اس کے کاندھوں پر ہے!‘‘

ظہیر کو تین بہنوں کے اس بوجھ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جو اس کے اکلوتے بھائی کے کاندھوں پر تھا۔ وہ صرف اس لڑکی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا جوہاتھ میں کتابیں لیے ساتھ والے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ یہ تو ظاہر تھا کہ وہ ان تین بہنوں میں سے ایک تھی۔ کھانے سے فارغ ہو کر وہ پنکھے کے نیچے لیٹ گیا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ گرمیوں میں کھانے کے بعد ایک گھنٹے تک ضرور سویا کرتا تھا۔ مگر اس روز اسے نیند نہ آئی۔ وہ اس لڑکی کے متعلق سوچتا رہا جو اس کے پڑوس میں رہتی تھی۔ کئی دن گزر گئے، مگر ان کی مڈبھیڑ نہ ہوئی۔ کالج سے آکر اس نے سینکڑوں مرتبہ کوٹھے پرگھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہ کر اس کی آمد کا انتظار کیا۔ مگر وہ نہ آئی۔ ظہیر مایوس ہو گیا۔ وہ بہت جلد مایوس ہوجانے والا آدمی تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ سب بیکار ہے۔ مگر عشق کہتا تھا کہ یہ بیکاری ہی سب سے بڑی چیز ہے۔ عشق میں سب سے پہلے عاشق کو اس چیز سے واسطہ پڑتا ہے، جو گھبرایا، وہ گیا۔ چنانچہ ظہیر نے اپنے دل میں عہد کرلیا کہ پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو وہ گھبرائے گا نہیں، اپنے عشق میں ثابت قدم رہے گا۔ بہت دنوں کے بعد جب وہ سائیکل پر کالج سے واپس آرہا تھا، اس نے اپنے آگے ایک ٹانگہ دیکھا، جس میں ایک بُرقع پوش لڑکی بیٹھی تھی۔ اس کا قیاس بالکل درست نکلا، کیونکہ یہ وہی لڑکی تھی۔ ٹانگہ رُکا۔ ظہیر سائیکل پر سے اتر پڑا۔ لڑکی کے ایک ہاتھ میں کتابیں تھیں، دوسرے ہاتھ سے اس نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا اور چل پڑی۔ مگر ٹانگے والا پکارا۔

’’اے بی بی جی۔ یہ کیا دیا تم نے؟‘‘

اس کے لہجے میں بدتمیزی تھی۔ لڑکی رکی، پلٹ کر اس نے ٹانگے والے کو اپنے برقعے کی نقاب میں سے دیکھا۔

’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘

ٹانگے والا نیچے اتر آیا اور ہتھیلی پر اٹھنی دکھا کر کہنے لگا۔

’’یہ آٹھ آنے نہیں چلیں گے۔ ‘‘

لڑکی نے مہین لرزاں آواز میں کہا۔

’’میں ہمیشہ آٹھ آنے ہی دیا کرتی ہوں۔ ‘‘

ٹانگے والا بڑا واہیات قسم کا آدمی تھا، بولا۔

’’وہ آپ سے رعایت کرتے ہوں گے۔ مگر۔ ‘‘

یہ سن کر ظہیر کو طیش آگیا، سائیکل چھوڑ کر آگے بڑھا، آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ایک مُکا ٹانگے والے کی تھوڑی کے نیچے جما دیا، وہ ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا کہ ایک اور اس کی داہنی کنپٹی پر۔ اس زور کا کہ وہ بلبلا اٹھا۔ اس کے بعد ظہیر اس لڑکی سے جو ظاہر ہے کہ گھبرا گئی تھی، مخاطب ہوا۔

’’آپ تشریف لے جائیے، میں اس حرامزادے سے نبٹ لوں گا۔ ‘‘

لڑکی نے کچھ کہنا چاہا، شاید شکریے کے الفاظ تھے جو اُس کی زبان کی نوک پر آکر واپس چلے گئے۔ وہ چلی گئی۔ دس قدم ہی تو تھے، مگر ظہیر کو پورے بیس منٹ اس ٹانگے والے سے نبٹنے میں لگے۔ وہ بڑا ہی لیچڑ قسم کا ٹانگے والا تھا۔ ظہیر بہت خوش تھا کہ اس نے اپنی محبوبہ کے سامنے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے ٹانگے والے کو خوب پیٹا تھا اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ وہ برقع پوش لڑکی اپنے گھر سے، چق لگی کھڑکی کے پیچھے سے اس کو دیکھ رہی ہے۔ یہ دیکھ کر ظہیر نے دو گھونسے اور اس کوچوان کی تھوڑی کے نیچے جما دیے تھے۔ اس کے بعد ظہیر سر سے پیر تک اس برقع پوش کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس نے اپنی والدہ سے مزید استفسار کیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا نام یاسمین ہے۔ تین بہنیں ہیں، باپ ان کا مر چکا ہے، ماں زندہ ہے، معمولی سی جائیداد ہے جس کے کرائے پر ان سب کا گزارہ ہورہا ہے۔ ظہیر کو اب اپنی معشوقہ کا نام معلوم ہو چکا تھا۔ چنانچہ اس نے یاسمین کے نام کئی خط کالج میں بیٹھ کر لکھے، مگر پھاڑ ڈالے۔ لیکن ایک روز اس نے ایک طویل خط لکھا اور تہیہ کرلیا کہ وہ اس تک ضرور پہنچا دے گا۔ بہت دنوں کے بعد جب کہ ظہیر سائیکل پر کالج سے واپس آرہا تھا اس نے یاسمین کو ٹانگے میں دیکھا۔ وہ اتر کر جارہی تھی، لپک کر وہ آگے بڑھا، جیب سے خط نکالا اور ہمت اور جرأت سے کام لے کر اس نے کاغذ اس کی طرف بڑھا دیے۔

’’یہ آپ کے کچھ کاغذ ٹانگے میں رہ گئے تھے۔ ‘‘

یاسمین نے وہ کاغذ لے لیے۔ نقاب کا کپڑا سرسرایا۔

’’شکریہ!‘‘

یہ کہہ کروہ چلی گئی۔ ظہیر نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن اس کا دل دھک دھک کرہا تھا۔ اس لیے کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کے خط کا کیا حشر ہونے والا ہے، وہ ابھی اس حشر کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اور ٹانگہ اس کی سائیکل کے پاس رکا، اس میں سے ایک برقع پوش لڑکی اتری۔ اس نے ٹانگے والے کو کرایہ ادا کیا۔ یہ ہاتھ جس سے کرایہ ادا کیا گیا تھا، ویسا ہی تھا، جیسا اس لڑکی کا تھا، جس کو پہلی مرتبہ ظہیر نے دیکھا تھا۔ کرایہ ادا کرنے کے بعد، یہ لڑکی اس مکان میں چلی گئی جہاں یاسمین گئی تھی۔ ظہیرسوچتا رہ گیا۔ لیکن اس کو معلوم تھا کہ تین بہنیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکی یاسمین کی چھوٹی بہن ہو۔ خط دے کر ظہیر نے یہ سمجھا تھا کہ آدھا میدان مار لیا ہے۔ پر جب دوسرے روز اسے کالج جاتے وقت ایک چھوٹے سے لڑکے نے کاغذ کا ایک پُرزدہ دیا تو اسے یقین ہو گیا کہ پورا میدان مار لیا گیا ہے۔ لکھا تھا:

’’آپ کا محبت نامہ ملا۔ جن جذبات کا اظہار آپ نے کیا ہے، اس کے متعلق میں آپ سے کیا کہوں۔ میں۔ میں۔ میں اس سے آگے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ مجھے اپنی لونڈی سمجھیے۔ ‘‘

یہ رقعہ پڑھ کر ظہیر کی باچھیں کِھل گئیں۔ کالج میں کوئی پیریڈ اٹنڈ نہ کیا۔ بس سارا وقت باغ میں گھومتا اور اس رقعے کو پڑھتا رہا۔ دو دن گزر گئے، مگر یاسمین کی مڈبھیڑ نہ ہوئی۔ اس کو بہت کوفت ہورہی تھی۔ اس لیے کہ اس نے ایک لمبا چوڑا محبت بھرا خط لکھ دیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد اس تک پہنچا دے۔ تیسرے روز آخر کار وہ ظہیر کو ٹانگے میں نظر آئی۔ جب وہ کرایہ ادا کررہی تھی، سائیکل ایک طرف گرا کر وہ آگے بڑھا، اور یاسمین کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’حضور! یہ آپ کے چند کاغذات ٹانگے میں رہ گئے تھے!‘‘

یاسمین نے ایک جھٹکے۔ غصے سے بھرے ہوئے جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ چھڑایا اور تیز لہجے میں کہا۔

’’بدتمیز کہیں کے۔ شرم نہیں آتی تمہیں؟‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ اور ظہیر کے محبت بھرے خط کے کاغذ سڑک پر پھڑپھڑانے لگے۔ وہ سخت حیرت زدہ تھا کہ وہ لڑکی جس نے یہ کہا تھا کہ مجھے اپنی لونڈی سمجھیے، اتنی رعونت سے کیوں پیش آتی ہے۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ شاید یہ بھی اندازِ دلربانہ ہے۔ دن گزرتے گئے، مگر ظہیر کے دل و دماغ میں یاسمین کے یہ الفاظ ہر وقت گونجتے رہتے تھے۔

’’بدتمیز کہیں کے۔ شرم نہیں آتی تمہیں‘‘

۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسے اس رقعے کے الفاظ یاد آتے جس میں یہ لکھا تھا۔

’’مجھے اپنی لونڈی سمجھیے۔ ‘‘

ظہیر نے اس دوران میں کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے، وہ چاہتا تھا کہ مناسب و موزوں الفاظ میں یاسمین سے کہے کہ اس نے بدتمیز کہہ کر اس کی اور اس کی محبت کی توہین کی ہے۔ مگر اُسے ایسے الفاظ نہیں ملتے تھے۔ وہ خط لکھتا تھا، مگر جب اسے پڑھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ غیر معمولی طور پر درشت ہے۔ ایک دن جب کہ وہ باہر سڑک پر اپنی سائیکل کے اگلے پہیے میں ہوا بھر رہا تھا۔ ایک لڑکا آیا، اور اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ دے کر بھاگ گیا۔ ہوا بھرنے کا پمپ ایک طرف رکھ کر اس نے لفافہ کھولا، ایک چھوٹا سا رقعہ تھا۔ جس میں یہ چند سطریں مرقوم تھیں:

’’آپ اتنی جلدی مجھے بھول گئے۔ محبت کے اتنے بڑے دعوے کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ خیر۔ آپ بھول جائیں تو بھول جائیں۔ آپ کی کنیز آپ کو کبھی بھول نہیں سکتی۔ ‘‘

ظہیر چکرا گیا۔ اس نے یہ رقعہ بار بار پڑھا۔ سامنے دیکھا تو یاسمین ٹانگے میں سوار ہورہی تھی۔ سائیکل وہیں لٹا کر وہ اس کی طرف بھاگا۔ ٹانگہ چلنے ہی والا تھا کہ اس نے پاس پہنچ کر یاسمین سے کہا:

’’تمہارا رقعہ ملا ہے۔ خدا کے لیے تم اپنے کو کنیز اور لونڈی نہ کہا کرو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے۔ ‘‘

یاسمین کے برقعے کی نقاب اچھلی۔ بڑے غصے سے اس نے ظہیر سے کہا۔

’’بدتمیز کہیں کے۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔ میں آج ہی تمہاری ماں سے کہوں گی کہ تم مجھے چھیڑتے ہو۔ ‘‘

ٹانگہ چل ہی رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ ظہیر رقعہ ہاتھ میں پکڑے سوچتا رہ گیا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ مگرپھر اسے خیال آیا کہ معشوقوں کا رویہ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے وہ سر بازار اس قسم کے مظاہروں کو پسند نہیں کرتے۔ خط و کتابت کے ذریعے ہی سے، کہ یہ ایک خاموش طریقہ ہے۔ ساری باتیں طے ہو جایا کرتی ہیں۔ چنانچہ اس نے دوسرے روز ایک طویل خط لکھا اور جب وہ کالج سے واپس آرہا تھا، ٹانگے میں یاسمین کو دیکھا۔ وہ اتر کر کرایہ ادا کر چکی تھی اور گھر کی جانب جارہی تھی خط اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ ایک نظر اس نے اپنے برقعے کی نقاب میں سے ظہیر کی طرف دیکھا اور چلی گئی۔ ظہیر نے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنی نقاب کے اندر مسکرا رہی تھی۔ اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات تھی۔ چنانچہ دوسرے روز صبح جب وہ سائیکل نکال کر کالج جانے کی تیاری کررہا تھا، اس نے یاسمین کو دیکھا۔ شاید وہ ٹانگے والے کا انتظار کررہی تھی۔ داہنے ہاتھ میں کتابیں پکڑے تھی۔ بایاں ہاتھ جھول رہا تھا۔ میدان خالی تھا، یعنی اس وقت بازار میں کوئی آمدورفت نہ تھی۔ ظہیر نے موقعہ غنیمت سمجھا، جرأت سے کام لے کر اس کے پاس پہنچا اور اس کا ہاتھ جو کہ جھول رہا تھا، پکڑ لیا اور بڑے رومانی انداز میں اس سے کہا۔

’’تم بھی عجیب لڑکی ہو۔ خطوں میں محبت کا اظہار کرتی ہو اور بات کریں تو گالیاں دیتی ہو۔ ‘‘

ظہیر نے بمشکل یہ الفاظ ختم کیے ہوں گے کہ یاسمین نے اپنی سینڈل اتار کر اس کے سر پر دھڑادھڑ مارنا شروع کردی۔ ظہیر بوکھلا گیا۔ یاسمین نے اس کو بے شمار گالیاں دیں۔ مگر وہ بوکھلاہٹ کے باعث سن نہ سکا۔ اس خیال سے کہ کوئی دیکھ نہ لے، وہ فوراً اپنے گھر کی طرف پلٹا۔ سائیکل اٹھائی اور قریب تھا کہ اپنی کتابیں وغیرہ اسٹینڈ کے ساتھ جما کرکالج کا رخ کرے کہ ٹانگہ آیا۔ یاسمین اس میں بیٹھی اور چلی گئی۔ ظہیر نے اطمینان کا سانس لیا۔ اتنے میں ایک اور بر قع پوش لڑکی نمودار ہوئی، اسی گھر میں سے جس میں سے یاسمین نکلی تھی۔ اس نے ظہیر کی طرف دیکھا اور اس کو ہاتھ سے اشارہ کیا۔ مگر ظہیر ڈرا ہوا تھا۔ جب لڑکی نے دیکھا کہ ظہیر نے اس کا اشارہ نہیں سمجھا تو وہ اس سے قریب ہو کے گزری اور ایک رقعہ گرا کر چلی گئی۔ ظہیر نے کاغذ کا وہ پُرزہ اٹھایا، اس پر لکھا تھا:

’’تم کب تک مجھے یونہی بے وقوف بناتے رہو گے؟۔ تمہاری ماں میری ماں سے کیوں نہیں ملتیں۔ آج پلازا سینما پر ملو۔ پہلا شو۔ تین بجے۔ پروین!‘‘

سعادت حسن منٹو

برف کا پانی

’’یہ آپ کی عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ہیں‘‘

’’میری عقل پر تو اُسی وقت پتھر پڑ گئے تھے جب میں نے تم سے شادی کی بھلا اس کی ضرورت ہی کیا تھی اپنی ساری آزادی سلب کرالی۔

’’جی ہاں آزادی تو آپ کی یقیناً سلب ہُوئی اس لیے کہ اگر آپ اب کھلے بندوں عیاشی نہیں کرسکتے شادی سے پہلے آپ کو کون پوچھنے والا تھا جدھر و منہ اُٹھایا چل دئیے جھک مارتے رہے‘‘

’’دیکھو میں تم سے کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ کہنا ہو چند لفظوں میں صاف صاف کہہ دیا کرو مجھے یہ جھک جھک پسند نہیں۔ جس طرح میں صاف گو ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی صاف گو ہوں‘‘

’’آپ کی صافگوئی تو ضرب المثل بن چکی ہے‘‘

’’تمہاری یہ طنز خدا معلوم تم سے کب جدا ہو گی اتنی بھونڈی ہوتی ہے کہ طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔

’’آپ کی طبیعت تو شگفتہ گفتگو سُن کر بھی خراب ہو جاتی ہے اب اس کا کیا علاج ہے اصل میں آپ کو میری کوئی چیز بھی پسند نہیں۔ ہر وقت مجھ میں کیڑے ڈالنا آپ کا شغل ہو گیا ہے اگر میں آپ کے دل سے اُتر گئی ہوں تو صاف صاف کہہ کیوں نہیں دیتے بڑے صاف گوبنے پھرتے ہیں آپ ایسا ریا کار شاید ہی دنیا کے تختے پر ہو۔ ‘‘

’’اب میں ریا کار بھی ہو گیا کیا ریاکاری کی ہے میں نے تم سے یہی کہ تمہاری نوکروں کی طرح خدمت کرتا ہوں۔ ‘‘

’’بڑی خدمت کی ہے آپ نے میری۔ ‘‘

’’سر پر قرآن اُٹھاؤ اور بتاؤ کہ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے کبھی تم نے میرا سر تک سہلایا ہے میں بُخار میں پھنکتا رہا ہوں کبھی تم نے میری تیمار داری کی۔ پچھلے دنوں میرے سر میں شدت کا درد تھا میں نے رات کو تمھیں آواز دی اور کہا مجھے بام دے دو مگر تم نے کروٹ بدل کر کہا۔ میری نیند نہ خراب کیجیے ٗ آپ اُٹھ کر ڈھونڈ لیجیے کہاں ہے۔ اور یاد ہے جب تمھیں نمونیہ ہو گیا تھا تو میں نے سات راتیں جاگ کر کاٹی تھیں دن اور رات مجھے پل بھر کا چین نصیب نہیں تھا۔

’’دن بھر سوئے رہتے تھے آپ میری بیماری کا ایک بہانہ مل گیا تھا سات چھٹیاں لیں اور دفتر کے کام سے نجات پا کر آرام کرتے رہے ہیں آپ کے سارے حیلے بہانے جانتی ہوں میرا علاج آپ نے کیا تھا یا ڈاکٹروں نے۔ ‘‘

ان ڈاکٹروں کو تم بُلا کر لائی تھیں کیا۔ اور دوائیں بھی کیا تم نے خود جا کر خریدی تھیں اور جو روپیہ خرچ ہوا کیا فرشتوں نے اوپر سے پھینک دیا تھا کتنے سفید جھوٹ بولتی ہو کہ میں دن کو سویا رہتا تھا قسم خدا کی جو ایک لمحے کے لیے بھی ان دنوں سویا ہوں تم بیمار ہو جاؤ تو گھر کی اینٹیں بھی جاگتی رہتی ہیں تم اُس وقت کس کو سونے دیتی ہو۔ آہ و پُکار کاتانتا بندھا رہتا ہے جیسے کسی پر بہت بڑا ظلم ڈھایا جارہا ہے۔

’’جناب بیماریاں ظلم نہیں ہوتیں تو کیا ہوتی ہیں جو میں نے برداشت کیا ہے وہ آپ کبھی نہ کرسکتے۔ اور نہ کبھی کر سکتے ہیں میں نے کتنی بیماریاں خندہ پیشانی سے سہی ہیں آپ کو تو خیر اس وقت کچھ یاد نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ آپ میرے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔ ‘‘

’’دن ہی کو میں تمہارا دشمن بن جاتا ہوں رات کو تو تم نے ہمیشہ بہترین دوست سمجھا ہے‘‘

’’شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے رات اور دن میں فرق ہی کیا ہے‘‘

’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘

کہہ کر آپ نے میرا گلا گھونٹ دیا کہ میں آپ سے کچھ اور نہ کہہ سکوں‘‘

’’لو بھئی اب میں اطمینان سے یہاں بیٹھ جاتا ہوں آرام جائے جہنم میں تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو ایک ہی سانس میں کہتی چلی جاؤ۔ ‘‘

’’میری سانس اتنی لمبی نہیں۔ ‘‘

’’عورتوں کو سانس کے متعلق تو یہی سُنا تھا کہ بہت لمبی ہوتی ہے اور زبان بھی ماشاء اللہ کافی دراز۔ ‘‘

’’آپ یہ مہین مہین چٹکیاں نہ لیجیے میں نے اگر کچھ کہہ دیا تو آپ کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔ ‘‘

’’اس تن بدن میں کئی بار آگ لگ چکی ہے چلو ایک فائر کرو اور قصہ تمام کر دو‘‘

’’قصہ تو آپ میرا تمام کر کے رہیں گے۔ ‘‘

’’کس لیے۔ مجھے تم سے کیا بغض ہے اللہ کے واسطے کا بیر تو نہیں مجھ سے ہے۔ ‘‘

’’محبت اور اطاعت کو آپ بیر سمجھتے ہیں اس لیے تو میں نے کہا تھا کہ آپ کی عقل پر پتھر پتھر پڑ گئے ہیں۔

’’میری عقل پر پتھر پڑیں یا کوہ ہمالیہ کا پہاڑ لیکن تمہاری محبت اور اطاعت میری سمجھ میں نہیں آئی اطاعت کو فی الحال چھوڑو۔ لیکن میں یہ پوچھتا ہُوں کہ اب تک تم محبت بھری گفتگو کر رہی تھیں‘‘

’’تو میں نے آپ کو کون سی گالی دی ہے‘‘

’’گالی دینے میں تم نے کوئی کسر تو اٹھا نہیں رکھی ریا کار تک تو بتا دیا مجھ کو اس سے بد تر گالی اور کیا ہو سکتی ہے۔ ‘‘

’’یہ لو کھلا گریبان ہے میں نے اپنا سارا سر اس میں ڈال دیا اب تم بتاؤ۔ صرف تمہاری شکل نظر آتی ہے۔ خوفناک ٗ بڑی ہیبت ناک‘‘

’’تو کوئی دوسری کر لیجیے جو خوش شکل ہو۔ ‘‘

’’ایک ہی کر کے میں نے بھرپایا ہے۔ خدا نہ کرے زندگی میں دوسری آئے۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے اس قدر تنگ کیوں آ گئے ہیں۔ ‘‘

’’میں قطعاً تنگ نہیں آیا۔ بس تم دل جلاتی رہتی ہو۔ ‘‘

’’میرا دل تو جل کر کوئلہ ہو چکا ہے سچ پوچھیے تو میں چاہتی ہوں کہ کچھ کھا کے مر جاؤں۔ میں جارہی ہوں‘‘

’’کہاں۔ ‘‘

’’میں نے ایک من برف منگوائی ہے اسے چار بالٹیوں میں پانی کے اندر ڈال رکھا ہے اس ٹھنڈے پانی سے نہاؤں گی اور پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤں گی ایک مرتبہ مجھے پہلے نمونیہ تو ہو ہی چکا ہے اب ہو گا تو پھیپھڑے یقیناًجواب دے جائیں گے۔ ‘‘

’’خدا حافظ۔ ‘‘

’’خدا حافظ۔ خودکشی کا یہ طریقہ تم نے بہت اچھا ڈُھونڈا ہے جو آج تک کسی کو سُوجھا نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’آپ کے پہلو میں تو دل ہی نہیں‘‘

’’جوکچھ بھی ہے بہر حال موجود ہے اور دھڑکتا بھی ہے۔ جاؤ یخ آلود پانی سے نہا کر پنکھے کے نیچے بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

’’جا رہی ہوں۔ آپ سے چند باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘

’’ضرور کرو۔ ‘‘

’’میرے بچوں کا آپ ضرور خیال رکھیئے گا۔ ‘‘

’’کیا وہ میرے بچے نہیں ہیں۔ ‘‘

’’ہیں۔ لیکن شاید میری وجہ سے اچھا سلوک نہ کرو‘‘

’’نہیں نہیں۔ تم کوئی فکر نہ کرو۔ میں انھیں بورڈنگ میں داخل کرانے لے جاتا ہوں۔ خدا حافظ‘‘

’’خدا تمہارا حافظ ہو مجھے تو فی الحال خودکشی نہیں کرنی لیکن سنو نمونیہ ہو تو ڈاکٹر کو بُلا لاؤں۔ ‘‘

’’ہرگز نہیں۔ میں مرنا چاہتی ہوں‘‘

’’تو میں نہیں بُلاؤں گا۔ لیکن نمونیہ کے مریض فوراً نہیں مرتے پانچ چھ روز تو لگاتے ہیں۔ ‘‘

’’آپ اس عرصہ تک انتظار کیجیے گا۔ ‘‘

’’بہت بہتر۔ ‘‘

’’میری کہی سُنی معاف کر دیجیے گا۔ ‘‘

’’وہ تو میں نے اُسی روز کر دی تھی جب تم سے نکاح ہوا تھا۔ ‘‘

’’میں آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ آپ کی عقل پر جو پتھر پڑ گئے ہیں انھیں دُور کر دیجیے گا۔ ‘‘

’’میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم کہو تو قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوں اچھا تو میں چلا بچے باہر کھیل رہے ہیں انھیں ہوسٹل لے جاتا ہوں واپس دو تین گھنٹے میں آ جاؤں گا۔ اگر اس دوران میں تم مر گئیں تو بہت اچھا ٗ تجہیز و تکفین کا سامان کر دُوں گا ٗ مجھے ابھی کل ہی تنخواہ ملی ہے۔ ‘‘

’’جائیے میں بھی چلی۔ ‘‘

’’الوداع۔ ‘‘

’’الوداع۔ ‘‘

’’کبھی کبھی مجھ نابکار کو یاد کر لیا کیجیے‘‘

’’ضرور ضرور تم نابکار کیوں کہتی ہو خود کو‘‘

’’میں کس کام کی ہوں‘‘

’’خیر چھوڑو۔ بحث اس پر الگ شروع ہو جائے گی۔ اور تمہاری خریدی ہُوئی ایک من برف پگھل کر گرم پانی میں تبدیل ہو جائے گی۔ ‘‘

’’یہ تو آپ نے درست کہا۔ اچھا۔ میں چلی۔ ‘‘

میں آ گیا ہوں بچوں کو بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرا کے تم غسلخانے میں ابھی تک کیا کر رہی ہو۔

’’کچھ نہیں سوچ رہی تھی۔ ‘‘

’’کیا سوچ رہی تھیں‘‘

’’میں نے وہ خط دوبارہ پڑھا‘‘

’’کونسا خط۔ ‘‘

’’جو آپ کی میز کی دراز میں پڑا تھا کسی لڑکی کی طرف سے تھا۔ اب میں نے جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آپ کے نام نہیں بلکہ اُس اخبار کے ایڈیٹر کے نام ہے جہاں آپ کام کرتے ہیں مجھے افسوس ہے میں نے آپ پر شک کیا۔ ‘‘

’’تم ہمیشہ شک کیا کرتی ہو۔ اب تو میری عقل کے پتھر ہٹ گئے۔ وہ لڑکی نہیں کوئی مرد ہے اسی لیے میں تفتیش کی غرض سے اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا خیر چھوڑو ٹھنڈا پانی تو پلاؤ ایک من برف تم نے منگوائی تھی۔ ‘‘

’’اُس کا سب پانی میں نے غسل خانے میں ڈال دیا۔ بڑا ٹھنڈا ہو گیا ہے آپ بھی یہاں آ جائیے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بدصورتی

ساجدہ اورحامدہ دو بہنیں تھیں۔ ساجدہ چھوٹی اور حامدہ بڑی۔ ساجدہ خوش شکل تھی۔ ان کے ماں باپ کو یہ مشکل درپیش تھی کہ ساجدہ کے رشتے آتے مگر حامدہ کے متعلق کوئی بات نہ کرتا۔ ساجدہ خوش شکل تھی مگر اس کے ساتھ اسے بننا سنورنا بھی آتا تھا۔ اس کے مقابلے میں حامدہ بہت سیدھی سادھی تھی۔ اس کے خدوخال بھی پرکشش نہ تھے۔ ساجدہ بڑی چنچل تھی۔ دونوں جب کالج میں پڑھتی تھیں تو ساجدہ ڈراموں میں حصہ لیتی۔ اس کی آواز بھی اچھی تھی، سر میں گا سکتی تھی۔ حامدہ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا۔ کالج کی تعلیم سے فراغت ہوئی تو ان کے والدین نے ان کی شادی کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ ساجدہ کے لیے کئی رشتے تو آچکے تھے، مگر حامدہ بڑی تھی اس لیے وہ چاہتے تھے کہ پہلے اس کی شادی ہو۔ اسی دوران میں ساجدہ کی ایک خوبصورت لڑکے سے خط و کتابت شروع ہو گئی جو اس پربہت دنوں سے مرتا تھا۔ یہ لڑکا امیر گھرانے کا تھا۔ ایم اے کر چکا تھا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ جانے کی تیاریاں کررہا تھا۔ اس کے ماں باپ چاہتے تھے کہ اس کی شادی ہو جائے تاکہ وہ بیوی کو اپنے ساتھ لے جائے۔ حامدہ کو معلوم تھا کہ اس کی چھوٹی بہن سے وہ لڑکا بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ایک دن جب ساجدہ نے اسے اس لڑکے کا عشقیہ جذبات سے لبریز خط دکھایا تووہ دل ہی دل میں بہت کُڑھی، اس لیے کہ اس کا چاہنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے اس خط کا ہر لفظ بار بار پڑھا اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دل میں سوئیاں چبھ رہی ہیں، مگر اس نے اس درد و کرب میں بھی ایک عجیب قسم کی لذت محسوس کی، لیکن وہ اپنی چھوٹی بہن پر برس پڑی:

’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ غیر مردوں سے خط و کتابت کرتی ہو!‘‘

ساجدہ نے کہا۔

’’باجی۔ اس میں کیا عیب ہے!‘‘

’’عیب!۔ سراسر عیب ہے۔ شریف گھرانوں کی لڑکیاں کبھی ایسی بے ہودہ حرکتیں نہیں کرتیں۔ تم اس لڑکے حامد سے محبت کرتی ہو؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’لعنت ہے تم پر‘‘

ساجدہ بھنا گئی۔

’’دیکھو باجی مجھ پر لعنتیں نہ بھیجو۔ محبت کرنا کوئی جرم نہیں۔ ‘‘

حامدہ چلائی۔

’’محبت محبت۔ آخر یہ کیا بکواس ہے۔ ‘‘

ساجدہ نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا۔

’’جو آپ کو نصیب نہیں۔ ‘‘

حامدہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔ چنانچہ کھوکھلے غصے میں آکر اس نے چھوٹی بہن کے منہ پر زور کا تھپڑ مار دیا۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے الجھ گئیں۔ دیر تک ان میں ہاتھا پائی ہوتی رہی۔ حامدہ اس کو یہ کوسنے دیتی رہی کہ وہ ایک نامحرم مرد سے عشق لڑا رہی ہے، اور ساجدہ اس سے یہ کہتی رہی کہ وہ جلتی ہے اس لیے کہ اس کی طرف کوئی مرد آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ حامدہ ڈیل ڈول کے لحاظ سے اپنی چھوٹی بہن کے مقابلے میں کافی تگڑی تھی، اس کے علاوہ اسے خار بھی تھی جس نے اس کے اندر اور بھی قوت پیدا کردی تھی۔ اس نے ساجدہ کو خوب پیٹا۔ اس کے گھنے بالوں کی کئی خوبصورت لٹیں نوچ ڈالیں اور خود ہانپتی ہانپتی اپنے کمرے میں جا کر زار و قطار رونے لگی۔ ساجدہ نے گھر میں اس حادثے کے بارے میں کچھ نہ کہا۔ حامدہ شام تک روتی رہی۔ بے شمار خیالات اس کے دماغ میں آئے۔ وہ نادم تھی کہ اس نے محض اس لیے کہ اس سے کوئی محبت نہیں کرتا اپنی بہن کو، جو بڑی نازک ہے، پیٹ ڈالا۔ وہ ساجدہ کے کمرے میں گئی۔ دروازے پر دستک دی اور کہا۔

’’ساجدہ!‘‘

ساجدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ حامدہ نے پھر زور سے دستک دی اور رونی آواز میں پکاری۔

’’ساجی! میں معافی مانگنے آئی ہوں۔ خدا کے لیے دروازہ کھولو۔ ‘‘

حامدہ دس پندرہ منٹ تک دہلیز کے پاس آنکھوں میں ڈبڈبائے آنسو لیے کھڑی رہی، اسے یقین نہیں تھا کہ اس کی بہن دروازہ کھولے گی، مگر وہ کُھل گیا۔ ساجدہ باہر نکلی اور اپنی بڑی بہن سے ہم آغوش ہو گئی۔

’’کیوں باجی۔ آپ رو کیوں رہی ہیں؟‘‘

حامدہ کی آنکھوں میں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

’’مجھے افسوس ہے کہ تم سے آج بیکار لڑائی ہو گئی۔ ‘‘

’’باجی۔ میں بہت نادم ہوں کہ میں نے آپ کے متعلق ایسی بات کہہ دی جو مجھے نہیں کہنی چاہیے تھی۔ ‘‘

’’تم نے اچھا کیا ساجدہ۔ میں جانتی ہوں کہ میری شکل و صورت میں کوئی کشش نہیں۔ خدا کرے تمہارا احسن قائم رہے۔ ‘‘

’’باجی!۔ میں قطعاً حسین نہیں ہوں۔ اگر مجھ میں کوئی خوبصورتی ہے تو میں دعا کرتی ہوں کہ خدا اسے مٹا دے۔ میں آپ کی بہن ہوں۔ اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں اپنے چہرے پر تیزاب ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

’’کیسی فضول باتیں کرتی ہو۔ کیا بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ تمہیں حامد قبول کرلے گا؟‘‘

’’مجھے یقین ہے۔ ‘‘

’’کس بات کا؟‘‘

’’وہ مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اگر میں مر جاؤں تو وہ میری لاش سے شادی کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ ‘‘

’’یہ محض بکواس ہے‘‘

’’ہو گی۔ لیکن مجھے اس کا یقین ہے۔ آپ اس کے سارے خط پڑھتی رہی ہیں۔ کیا ان سے آپ کو یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ مجھ سے کیا کیا پیمان کر چکا ہے۔ ‘‘

’’ساجی۔ ‘‘

یہ کہہ کر حامدہ رک گئی۔ تھوڑے وقفے کے بعد اس نے لرزاں آواز میں کہا۔

’’میں عہد و پیمان کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔ ‘‘

اور رونا شروع کردیا۔ اس کی چھوٹی بہن نے اسے گلے سے لگایا۔ اس کو پیار کیا اور کہا

’’باجی۔ آپ اگر چاہیں تو میری زندگی سنور سکتی ہے۔ ‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’مجھے حامد سے محبت ہے۔ میں اس سے وعدہ کرچکی ہوں کہ اگر میری کہیں شادی ہو گی تو تمہیں سے ہو گی۔ ‘‘

’’تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟‘‘

’’میں یہ چاہتی ہوں۔ کہ آپ اس معاملے میں میری مدد کریں۔ اگر وہاں سے پیغام آئے تو آپ اس کے حق میں گفتگو کیجیے۔ امی اور ابا آپ کی ہر بات مانتے ہیں۔ ‘‘

’’میں انشاء اللہ تمہیں ناامید نہیں کروں گی۔ ‘‘

ساجدہ کی شادی ہو گئی، حالانکہ اس کے والدین پہلے حامدہ کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ مجبوری تھی، کیا کرتے۔ ساجدہ اپنے گھر میں خوش تھی۔ اس نے اپنی بڑی بہن کو شادی کے دوسرے دن خط لکھا جس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا:

’’میں بہت خوش ہوں۔ حامد مجھ سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ باجی۔ محبت عجیب وغریب چیز ہے۔ میں بے حد مسرور ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا صحیح مطلب اب میری سمجھ میں آیا ہے۔ خدا کرے کہ آپ بھی اس مسرت سے محظوظ ہوں۔ ‘‘

اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں اس خط میں تھیں جو ایک بہن اپنی بہن کو لکھ سکتی ہے۔ حامدہ نے یہ پہلا خط پڑھا اور بہت روئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اسکا ہرلفظ ایک ہتھوڑا ہے جو اس کے دل پر ضرب لگا رہا ہے اس کے بعد اس کو اور بھی خط آئے جن کو پڑھ پڑھ کے اس کے دل پر چھریاں چلتی رہیں۔ رو رو کر اس نے اپنا براحال کرلیا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ کوئی راہ چلتا جوان لڑکا اس کی طرف متوجہ ہو، مگر ناکام رہی۔ اسے اس عرصے میں ایک ادھیڑ عمر کا مرد ملا۔ بس میں مڈبھیڑ ہوئی۔ وہ اس سے مراسم قائم کرنا چاہتاتھا مگر حامدہ نے اسے پسند نہ کیا۔ وہ بہت بد صورت تھا۔ دو برس کے بعد اس کی بہن ساجدہ کا خط آیا کہ وہ اور اس کا خاوند آرہے ہیں۔ وہ آئے۔ حامدہ نے مناسب و موزوں طریق پر ان کا خیر مقدم کیا۔ ساجدہ کے خاوند کو اپنے کاروبار کے سلسلے میں ایک ہفتے تک قیام کرنا تھا۔ ساجدہ سے مل کر اس کی بڑی بہن بہت خوش ہوئی۔ حامد بڑی خوش اخلاقی سے پیش آیا۔ وہ اس سے بھی متاثر ہوئی۔ وہ گھر میں اکیلی تھی، اس لیے کہ اس کے والدین کسی کام سے سرگودھا چلے گئے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ حامدہ نے نوکروں سے کہا کہ وہ بستروں کا انتظام صحن میں کردے اور بڑا پنکھا لگا دیا جائے۔ یہ سب کچھ ہو گیا۔ لیکن ہوا یہ کہ ساجدہ کسی حاجت کے تحت اوپر کوٹھے پر گئی اور دیر تک وہیں رہی۔ حامد کوئی ارادہ کرچکا تھا۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ اٹھ کر

’’ساجدہ‘‘

کے پاس گیا اور اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ غیر سی کیوں لگتی ہے۔ کیوں کہ وہ شروع شروع میں بے اعتنائی برتتی رہی۔ آخر میں وہ ٹھیک ہو گئی۔ ساجدہ کوٹھے سے اتر کر نیچے آئی اور اس نے دیکھا۔ صبح کو دونوں بہنوں میں سخت لڑائی ہوئی۔ حامد بھی اس میں شامل تھا۔ اس نے گرما گرمی میں کہا:

’’تمہاری بہن، میری بہن ہے۔ تم کیوں مجھ پر شک کرتی ہو۔ ‘‘

حامد نے دوسرے روز اپنی بیوی ساجدہ کو طلاق دے دی اور دو تین مہینوں کے بعد حامدہ سے شادی کرلی۔ اس نے اپنے ایک دوست سے جس کو اس پر اعتراض تھا، صرف اتنا کہا۔

’’خوبصورتی میں خلوص ہونا ناممکن ہے۔ بدصورتی ہمیشہ پرخلوص ہوتی ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

بدتمیزی

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیسے سمجھاؤں‘‘

’’جب کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کو سمجھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے‘‘

’’آپ تو بس ہر بات پر گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ آپ نے یہ تو پوچھ لیا ہوتا کہ میں آپ سے کیا کہنا چاہتی ہوں‘‘

’’اس کے پوچھنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ بس فقط لڑائی مول لینا چاہتی ہو‘‘

’’لڑائی میں مول لینا چاہتی ہوں کہ آپ۔ سارے ہمسائے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ آئے دن مجھ سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔

’’خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ایک برس تک میں تم سے کوئی تلخ بات کی ہے نہ شیریں‘‘

’’شیریں بات کرنے کا آپ کو سلیقہ ہی کہاں آتا ہے۔ نوکر کو آواز دے کر بلوائیں گے تو سارے محلے کو پتہ چل جائے گا کہ آپ اسے گولی سے ہلاک کرنا چاہتے ہیں‘‘

’’میرے پاس بندوق ہی نہیں۔ ویسے میں خرید سکتا ہوں مگر اس کو چلائے گا کون؟۔ میں تو پٹاخے سے ڈرتا ہوں‘‘

آپ بنیئے نہیں۔ میں آپ کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ یہ فراڈ میرے ساتھ نہیں چلے گا آپ کا‘‘

’’اب میں فراڈ بن گیا؟‘‘

’’آپ ہمیشہ سے فراڈ تھے۔ ‘‘

’’یہ فیصلہ آپ نے کن وجوہ پر قائم کیا‘‘

’’آپ جب پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے تو کیا آپ نے ابّا جی کی جیب سے دو روپے نہیں نکالے تھے؟‘‘

’’نکالے تھے‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ بھنگی کی لڑکی کو ضرورت تھی‘‘

’’اس لیے کہ وہ بھنگی کی لڑکی تھی۔ بہت بیمار۔ والد صاحب سے اگر کہا جاتا تو وہ کبھی ایک پیسہ بھی اسے نہ دیتے ‘ میں نے اسی لیے مناسب سمجھا کہ ان کے کوٹ سے دو روپے نکال کر اس کو دے دُوں۔ یہ کوئی گناہ نہیں‘‘

’’جی ہاں۔ بہت بڑا ثواب ہے۔ باپ کے کوٹ پر چھاپہ مار کر آپ تو اپنے خیال کے مطابق جنت میں اپنی سیٹ بک کر چکے ہوں گے لیکن میں آپ سے کہے دیتی ہوں کہ اس کی سزا آپ کو اتنی کڑی ملے گی کہ آپ کی طبیعت صاف ہو جائے گی‘‘

’’طبیعت تو میری ہر روز صاف کی جاتی ہے۔ اب اتنی صاف ہو گئی ہے کہ جی چاہتاہے کہ اس طبیعت کو کیچڑ میں لت پت کر دوں تاکہ تمہارا مشغلہ جاری رہ سکے‘‘

’’یہ کیچڑ میں تو آپ ہر وقت لتھڑے رہتے ہیں‘‘

’’یہ سراسر بہتان ہے‘‘

’’بہتان کیا ہے۔ حقیقت ہے۔ آپ سر سے پاؤں تک کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں۔ آپ کو کسی نفیس چیز سے دلچسپی ہی نہیں‘ بات کریں گے تو غلاظت کی۔ نہاتے آپ نہیں‘‘

’’غضب خدا کا۔ میں تو دن میں تین مرتبہ نہاتا ہوں‘‘

وہ بھی کوئی نہانا ہے۔ بدن پر دو ڈونگے پانی کے ڈالے۔ تولیے سے اپنا نیم خشک جسم پونچھا اور غسل خانے سے باہر نکل آئے۔ ‘‘

’’دو ڈونگے تو نہیں‘ کم از کم بیس ہوتے ہیں‘‘

’’تو ان سے بھی کیا ہوتا ہے۔ کیا آپ نے آج تک کبھی صابن استعمال کیا ہے؟‘‘

’’میں تم سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ صابن جلد کے لیے بہت مضر ہے‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ اس میں ایسے تیزابی مادے ہوتے ہیں جو جلد کا ستیاناس کر دیتے ہیں‘‘

’’میری جلد تو آج تک ستیاناس نہیں ہوئی۔ آپ کی جلد بہت ہی نازک ہو گی

’’

’’نازک ہونے کا سوال نہیں۔ یہ ایک سائینٹیفک بحث ہے‘‘

’’میں سائنٹیفک وائینٹیفک کچھ نہیں جانتی۔ بس میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ صابن کیوں استعمال نہیں کرتے؟‘‘

’’بھئی ‘ تمھیں بتا تو چکا ہوں کہ یہ مضر ہے‘‘

’’تو آپ نہاتے کس طرح ہیں‘‘

’’نہانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ پانی ڈالتے گئے اور نہاتے گئے‘‘

’’جسم پر آپ کوئی چیز نہیں ملتے۔ میرا مطلب ہے ‘ صابن نہیں تو کوئی اور چیز‘‘

’’ملا کرتا ہوں‘‘

’’کیا؟‘‘

’’بیسن‘‘

’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’ارے ‘ بھئی‘ چنے کا آٹا‘‘

آپ کی جو بات ہے، نرالی ہے۔ میں تو آپ ایسے سنکی سے خدا قسم تنگ آگئی ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، کہاں جاؤں۔ ‘‘

’’اپنے میکے چلی جاؤ۔ وہاں تمہیں اپنی ہم خیال مل جائیں گی۔ ‘‘

’’میں کیوں جاؤں وہاں۔ میں یہیں رہوں گی۔ ‘‘

’’میں نے تم سے آج ہی کہا۔ اس لیے کہ تم لاکھ مرتبہ مجھے دھمکی دیتی رہی ہو کہ میں چلی جاؤں گی اپنے میکے۔ ‘‘

’’مجھے جب جانا ہو گا چلی جاؤں گی۔ ‘‘

’’آج تمھاری طبعیت نہیں چاہتی؟‘‘

’’آپ مجھے چڑانے کی کوشش کیوں کررہے ہیں؟‘‘

’’میں نے توکوئی کوشش نہیں کی۔ اگر تم چاہتی ہوکہ کوشش کروں، تو یقین مانو، تم ابھی تانگہ لے کر اسٹیشن پہنچ جاؤگی۔ ‘‘

’’کوشش کر کے دیکھ لیجیے۔ میں یہاں سے ایک انچ نہیں ہٹوں گی۔ یہ میرا گھر ہے۔ ‘‘

’’آپ کا ہے۔ آپ کے باپ دادا کا ہے۔ لیکن یہ تو بتائیے۔ ‘‘

’’میرے باپ دادا کا نام مت لیجیے۔ اُن بیچاروں کا کیا قصور تھا؟‘‘

’’ْقصور تو سارا میرا ہے۔ لیکن بیگم، تم کبھی کبھی اتنا غور کرلیا کرو کہ میں نے آخر تمھیں کون سا جانی نقصان پہنچایا ہے کہ تم لٹھ لے کر میرے پیچھے پڑجاتی ہو۔ ‘‘

’’لٹھ تو ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں رہا ہے۔ میں تو اُسے اٹھا بھی نہیں سکتی۔ ‘‘

’’تم بڑے سے بڑا گرز اُٹھا سکتی ہو۔ تم ایسی عورتوں میں بلا کی قوت ہوتی ہے۔ تم عقاب ہو۔ تمہارے سامنے تو میرے حیثیت ایک چڑیاکی سی ہے۔ ‘‘

’’باتیں بنانا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ آپ چڑیا ہیں۔ سبحان اللہ۔ جب کڑکتے اور گرجتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیردھاڑ رہا ہے۔ ‘‘

’’اس شیر کو پہلے ایک نظر دیکھ لو۔ ‘‘

’’کیا دیکھوں؟۔ پندرہ برس سے دیکھ رہی ہوں۔ ‘‘

’’یہ خاکسار شیر ہے کیا؟

’’شیر ہے، مگر خاک میں لپٹا ہوا۔ ‘‘

’’اس تعریف کا شکریہ۔ اب آپ یہ بتائیے کہ آپ کہنا کیا چاہتی تھیں۔ ‘‘

’’آپ اتنے لائق فائق بنے پھرتے ہیں۔ سمجھیے کہ میں کیا کہنا چاہتی تھی۔ ‘‘

’’تمھاری باتیں تو صرف خداہی سمجھ سکتا ہے۔ میں کیا سمجھوں گا۔ ‘‘

خدا کو بیچ میں کیوں لاتے ہیں۔ ‘‘

’’خدا کو اگر بیچ میں نہ لایا جائے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

’’بڑے آئے ہیں آپ خدا کو ماننے والے۔ ‘‘

’’خدا کو تو میں ہمیشہ سے مانتا آیا ہوں۔ وہ طاقت جو دُنیا پر کنٹرول کرتی ہے۔ ‘‘

’’کنڑول تو آپ مجھ پر کرتے آئے ہیں۔ ‘‘

’’کس قسم کا؟‘‘

’’ہر قسم کا۔ میںآج تک اپنی مرضی کے موافق کوئی چیز نہیں کرسکتی کپڑے لیتی ہوں، تو اُس میں آپ کی مرضی کا دخل ہوتا ہے۔ کھانے کے بارے میں بھی آپ کی مرضی چلتی ہے۔ آج یہ پکے، کل وہ پکے۔ ‘‘

’’اس میں تمھیں اعتراض ہے؟‘‘

’’اعتراض کیوں نہیں۔ میرا جی اگر کبھی چاہتا ہے کہ اوجھڑی کھاؤں تو آپ نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘‘

’’اوجھڑی بھی کوئی کھانے کی شے ہے۔ ‘‘

’’آپ کیاجانیں، کتنی مزیدار ہوتی ہے۔ چُونے میں ڈال کر اُسے صاف کر لیا جاتاہے، اُس کے بعد اچھی طرح گھی میں تلا جاتاہے۔ اللہ قسم مزا آجاتاہے۔ ‘‘

’’لاحول ولا۔ میں ایسی غلط چیز کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ ‘‘

’’اور ٹینڈے؟‘‘

’’بکواس ہیں۔ سبزی کی سب سے بڑی توہین ہیں۔ اُن میں کوئی رس ہوتاہے نہ لذت۔ بس ققط ٹینڈے ہوتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ پیدا کس غرض کے لیے کیے گئے تھے۔ نہایت واہیات ہوتے ہیں۔ میں تو اکثر یہ دُعا مانگتا ہوں کہ اُن کا وجود سرے ہی سے غائب ہوجائے۔ بڑے بے جان ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کدّو بدرجہا بہتر ہے‘حالانکہ وہ بھی مجھے سخت ناپسند ہے۔ ‘‘

’’آپ کو کون سی چیز پسند ہے؟۔ ہر اچھی چیز میں آپ کیڑے ڈالتے ہیں۔ بھنڈی آپ کو پسند نہیں کہ اُس میں لیس ہوتی ہے۔ گوبھی آپ کو نہیں بھاتی کہ اُس میں یہ نقص نکالا جاتاہے کہ بدبُو ہوتی ہے۔ ٹماٹر آپ کو اچھے نہیں لگتے، اس لیے کہ اُس کے چھلکے ہضم نہیں ہوتے۔ ‘‘

’’تم ان باتوں کو چھوڑو۔ ٹینڈے، گوبھی اور ٹماٹر جائیں جہنم میں۔ تم مجھے یہ بتاؤ کہ مجھ سے کہنا کیا چاہتی تھیں۔ ‘‘

’’کچھ بھی نہیں۔ بس ایسے ہی آگئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ کوئی کام نہیں کررہے، تو آپ کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ‘‘

’’بڑی نوازش ہے آپ کی۔ لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور کہنا ہو گا آپ کو۔ ‘‘

’’آپ سے اگر کچھ کہہ بھی دیا تو اُس کا حاصل کیا ہو گا۔ ‘‘

’’جو آگے آپ کو حاصل ہوتا رہا ہے، اُسی حساب سے آج بھی حاصل ہوجائے گا۔ آپ یہاں سے کچھ حاصل کیے بغیر ٹلیں گی کیسے؟‘‘

’’میں آپ سے ایک خاص بات کرنے آئی تھی۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میں۔ میں یہ کہنے آئی تھی، کہ میری سمجھ میں نہیں آتا، میں آپ کو کیسے سمجھاؤں؟‘‘

’’آپ کیا سمجھانے آئی تھیں مجھے۔ ‘‘

’’آپ کو تو خدا سمجھائے گا۔ میں یہ کہنے آئی تھی کہ آپ پتلون پہن کر اُس کے بٹن بالکنی میں بند نہ کیا کریں۔ ہمسایوں کو سخت اعتراض ہے۔ یہ بہت بڑی بدتمیزی ہے۔ ‘‘

۲۲، مئی ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

بچنی

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں۔ خاص طور پر ان کی جو بٹوارے سے پہلے امرتسر میں رہتی تھیں۔ مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھنگنوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں۔ خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہاں تتر بتر ہو گئی تھیں۔ رشید ان کے مقابلے میں گجریوں کی تعریف کرتاتھا۔ اس نے مجید سے کہا۔

’’تم ٹھیک کہتے ہوکہ امرتسری بھنگنیں اپنی جوانی کے زمانے میں بڑی پرکشش ہوتی ہیں، لیکن ان کی یہ جوانی کھترانیوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔ بس ایک دن جوان ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ادھیڑ ہو جاتی ہیں۔ ان کی جوانی معلوم نہیں کون سا چور چرا کے لے جاتا ہے۔ خدا کی قسم۔ ہمارے ہاں ایک بھنگن کوٹھا کمانے آتی تھی۔ اتنی کڑیل جوانی تھی کہ میں اپنی کمزورجوانی کو محسوس کرکے اس سے کبھی بات نہ کرسکا۔ عیسائی مشنریوں نے اسے اپنے مذہب میں داخل کرلیا تھا۔ نام اس کا فاطمہ تھا۔ پہلے گھر والے اسے پھاتو کہتے تھے۔ مگر جب وہ عیسائی ہوئی تو اسے مس پھاتو کے نام سے پکارا جانے لگا۔ صبح کو وہ بریک فاسٹ کرتی تھی، دوپہر کو لنچ اور شام کو ڈنر۔ لیکن چند مہینوں کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ اس کی ساری کڑیل جوانی جیسے پگھل گئی ہے۔ اس کی چھاتیاں جو بڑی تندخو تھیں اور اس طرح اوپر اٹھتی رہتی تھیں جیسے ابھی اپنا سارا جوان بدن آپ پر داغ دیں گی، اس قدر نیچے ڈھلک گئی تھیں کہ ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا تھا۔ لیکن اس کے مقابلے میں ہمارے گھر میں وہ گجری جو اُپلے لے کر آتی تھی، تیر کی طرح سیدھی تھی۔ اس کی عمر بھی اتنی ہو گی جتنی اس بھنگن کی تھی۔ مگر وہ تین برس کے بعد بھی ویسی ہی جوان تھی۔ سروقد۔ اُپلوں کا ٹوکرااس کے سر پرہوتا تھا۔ ایک پہاڑ سا بنا ہوا۔ مگر مجال ہے کہ اس کی گردن میں ہلکی سی جنبش آجائے یا اس کی کمر میں خفیف سا خم آجائے۔ تین برس وہ ہمارے یہاں آتی رہی۔ اس کے بعد اس کی شادی ہو گئی۔ اس کے یکے بعد دیگرے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ اور مجید! میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ اس کی کمر ویسی ہی مضبوط تھی۔ تم میری مان لو کہ بھنگنیں، گوجریوں کا مقابلہ کسی صورت بھی نہیں کرسکتیں۔ ‘‘

مجید تلملا رہا تھا۔ اس نے پان کی گلوری چُندنیا میں سے نکال کر اپنے کلّے میں دبائی۔ چھوٹی ڈبیا سے ماچس کی تیلی کی مدد سے تھوڑا سا قوام نکالا اور منہ میں ڈال کر بڑے تحمل سے کہا۔

’’رشید بھائی۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن جس بھنگن کا تصور میرے دماغ میں ہے، اور جس کی دراصل میں بات کرنا چاہتا تھا۔ ایک فتنہ تھا۔ اب تم ایسا کرو کہ میری ساری داستان سُن لو تاکہ تمہیں اس فتنہ و قیامت کے متعلق کچھ معلوم ہوسکے۔ جوبن ڈھلنے کی تم جو بات کرتے ہو، اس کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ گجریوں کاقد لمبا ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر انھیں جلدی ڈھلنا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ ننگے پاؤں رہتی ہیں اور اپنے سر پر بقول تمہارے پہاڑ سا اُپلوں کا ٹوکرا اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں۔ لیکن لعنت بھیجو فی الحال گجریوں پر، کیوں کہ مچھے بچنی کی بات کرنا ہے جو ہمارے محلے کی بڑی کراری بھنگن تھی۔ اس کا قد تو انگشتانہ بھرکا تھا مگر زبان اسکندری گز تھی۔ شادی شدہ تھی، مگر خاوند سے ہر روز لڑتی جھگڑتی رہتی تھی۔ ہمارے کمپاؤنڈ میں یہ دونوں میاں بیوی ہر روز صبح سویرے آتے اور ایک بڑکے درخت کے ساتھ جھولا لٹکا دیتے۔ اس میں وہ اپنا لڑکا ڈال دیتے تھے۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کو جھلانے والا کوئی نہیں تھا، چنانچہ دونوں میاں بیوی جھاڑو چھوڑ کر اسے جھولا جھلاتے یا گود میں اٹھائے پھرتے تھے۔ ‘‘

رشید نے مجید سے کہا۔

’’یہ جھولے کی بات کہاں سے آگئی۔ تم تو ایک کراری بھنگن کی بات کررہے تھے۔ جو بقول تمہارے بہت خوبصورت تھی۔ ‘‘

مجید نے فوراً کہا۔

’’یار تم جھولے کے ساتھ کیوں اٹک گئے۔ میری پوری کہانی تو سن لو۔ یہ جھولے کی نہیں بچنی کی بات ہے۔ اس بچنی کی جسے میں ساری عمر فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ ایک آفت تھی۔ صبح اپنے خاوند کے ساتھ آتی تھی۔ ہاتھ میں لمبی سی جھاڑو لیے۔ ماتھے پرسینکڑوں تیوریاں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ ابھی جھاڑو آپ کے سر پر دے مارے گی۔ مگر ایسا موقع کبھی نہیں آیا۔ میں نے ہزاروں بار اس کو گھورا، لیکن اس نے میرے سر پر جھاڑو نہیں ماری۔ اس کی تیوریاں اس کے ماتھے پر بدستور قائم رہیں اور وہ حسب سابق اپنا کام کرتی رہیں۔ اس کا خاوند جس کا نام معلوم نہیں کیا تھا، اول درجے کا زن مرید تھا۔ اس کا قد اپنی بیوی سے بھی چھوٹا تھا۔ وہ اس کو کام کے دوران میں ہمیشہ گالیاں دیا کرتی تھی۔ محلے کے سب لوگ سنتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرتے تھے۔ ‘‘

رشید اتنی لمبی داستان سن کر بھنا گیا۔

’’تم اصل بات کی طرف آؤ۔ یہ کیا چہ مے گوئیاں بک رہے ہو۔ بچنی نام بڑا اچھا ہے، ورنہ خدا کی قسم! میں تمہاری یہ خرافات کبھی نہ سنتا۔ معلوم نہیں یہ تمہاری جوڑی ہوئی کہانی ہے۔ بہر حال، تمہیں چند منٹ دیتا ہوں۔ سنالو۔ ‘‘

مجید تاؤ میں آگیا۔

’’الو کے پٹھے۔ تم نے صرف بچنی کا نام سنا ہے، کبھی تم نے اسے دیکھا ہوتا تو دل نکال کر اس کے ٹوکرے میں ڈال دیا ہوتا۔ میں تم سے اگر ایک واقعہ بیان کررہا ہوں تو اس میں نمک مرچ لگانے کی مجھے اجازت ہونی چاہیے۔ تم اگر اکتا گئے ہو تو جہنم میں جاؤ۔ ‘‘

رشید کو اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ کسی سینما میں چلا جاتا، اس لیے اس نے مناسب سمجھا کہ مجید کی داستان سن لے۔

’’جہنم میں جانے کا سوال نہیں۔ تم ذرا اختصار سے کام لو۔ اصل میں مجھے بچنی سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ ‘‘

مجید غصے میں آگیا۔

’’تمہاری دلچسپی کی ایسی کی تیسی۔ سالے، تم کون ہوتے ہو اس میں دلچسپی لینے والے۔ اس میں دلچسپی لینے والے تم ایسے ہزاروں تھے، مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ میں تم سے کروڑ مرتبہ زیادہ خوبصورت ہوں، لیکن میں اس نگہ التفات کا ہروقت منتظر رہتا تھا۔ وہ بڑی ہٹیلی تھی۔ میرے دوست رشید خدا کی قسم! اس جیسی لڑکی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ نام اس کا بچنی تھا۔ یعنی بچن سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر وہ تو پھاپھا کٹنی تھی۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کو اپنے قبضے میں لے آؤں، پرناکام رہا۔ وہ پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں دھرنے دیتی تھی۔ ‘‘

یہ سن کر رشید بولا۔

’’تم یار ہمیشہ ایسے معاملوں میں کور ے رہے ہو۔ ‘‘

مجید کے گہری چوٹ لگی۔

’’بکواس کرتے ہو۔ میں نے ایک روز اسے پکڑ لیا۔ میرے گھر کے باہر وہ جھاڑو دے رہی تھی کہ میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ ‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

رشید نے ازراہ مذاق سگریٹ سلگایا اور ماچس کی تیلی بجھا کر اس کے کئی ٹکڑے کرکے ایش ٹرے میں ڈال دیے۔ مجید کو ایسا محسوس ہوا کہ رشید نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں۔ بہت جزبز ہوا، لیکن آدمی سچا تھا اس لیے جھوٹ نہ بول سکا۔

’’یار رشید! تم مذاق اڑاتے ہو۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ اس روز ہوا، اس کا مذاق اڑانا ہی چاہیے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔ لیکن اس حرامزادی نے کھینچ کے اپنی جھاڑومیرے منہ پر دے ماری۔ میں شرم کے مارے اندر بھاگ گیا۔ لیکن فوراً باہر نکلا۔ دیکھا کہ وہ میرے مکان کے باہر جھاڑو دے رہی ہے۔ میں نے اسے پھر پکڑا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ میں نے سوچا۔ ‘‘

رشید نے مجید کا فقرہ مکمل کردیا۔

’’کہ معاملہ درست ہو گیا ہے۔ ‘‘

مجید بوکھلا گیا:

’’خاک درست ہوا۔ وہ میری گرفت سے نکل کر سیدھی میری بیوی کے پاس چلی گئی۔ لیکن اس سے کوئی شکایت نہ کی۔ میں ڈر کے مارے دبکا ہوا تھا۔ میں نے صرف یہ سنا اور میری جان کا بوجھ ہلکا ہوا۔

’’بی بی جی آج پانی نہیں آیا۔ یہ ان لوگوں کو جو آپ سے ہر مہینے دس روپے وصول کرتے ہیں، کیا ہو گیا ہے۔ کیوں وہ اتنا خیال نہیں کرتے کہ آپ کو ہر روز ماشکی کو دس مشکوں کے چار آنے فی مشک کے حساب دو روپے آٹھ آنے دینا پڑیں۔ ‘‘

میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے میری عزت و آبرو رکھ لی۔ لیکن میں نے بعد میں سوچا کہ میری عزت و آبرو رکھنے والی اصل میں بچنی۔ لیکن جب زیادہ سوچا تو احساس ہوا کہ ایسا سوچنا کفر ہے۔ ‘‘

رشید قریب قریب تنگ آچکا تھا۔ اس نے اپنے دوست کی خاطر آواز دبا کرکہا۔

’’کافر کے بچے۔ بات تو کر کہ تیرا اس بچنی کی بچنی سے کیاہوا۔ کیا تم نے اسے پٹالیا؟‘‘

مجید نے رشید کی چندنیا میں سے ایک گلوری لی اور کہا۔

’’دیکھو رشید۔ تم بچنی کو جانتے نہیں۔ افسوس ہے کہ میں افسانہ نگار نہیں ورنہ میں اس کا کردار بہت اچھی طرح۔ جیتا جاگتا پیش کرسکتا۔ وہ معلوم نہیں شے کیا تھی۔ عمر اس کی زیادہ سے زیادہ۔ یہ سمجھو کہ سترہ اٹھارہ برس کے قریب ہو گی۔ قد اس کا ساڑھے چار فٹ ہو گا۔ چھاتی ایسی تھی جیسے لوہے کی بنی ہے، حالانکہ ایک بچے کی ماں تھی۔ ‘‘

رشید بہت تنگ آگیا۔

’’ایک بچے کی ماں کے بچے۔ تو اپنی داستان کے انجام کوپہنچ۔ مجھے ایک بہت ضروری کام سے جانا ہے۔ ساڑھے سات بج چکے ہیں، لیکن تمہاری د استان ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ !‘‘

مجیدسنجیدہ رہا۔

’’رشید لالے۔ معاملہ بڑا نازک ہے۔ ‘‘

’’کس کا۔ تمہارا یا میرا؟‘‘

’’میں نہیں کہہ سکتا، لیکن جس وقت کی میں بات کررہا ہوں، اس وقت معاملہ میرا تو بہت نازک تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں، کیا نہ کروں۔ اب تم یہ خیال کرو کہ میں ہزاروں کا مالک تھا۔ تم جانتے ہو کہ ماں باپ مر کھپ چکے تھے۔ ساری جائیداد کا میں وارث تھا۔ جہاں چاہتا، لٹا دیتا۔ اس روز جب میں نے بچنی کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچا اور وہ میری گرفت سے یوں الگ ہٹی جیسے میرا کام تمام کردے گی، لیکن میری بیوی سے اس نے اس سلسلے کا ذکر تک نہ کیا تو مجھے امید ہو گئی کہ چند ایسے معاملوں کے بعد میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ ‘‘

رشید نے اس سے پوچھا۔

’’تجھے کامیابی ہوئی؟‘‘

’’خاک۔ تم اسے جانتے ہی نہیں۔ بڑی تیزخو لڑکی ہے۔ اپنے خاوند کو کچھ نہیں سمجھتی۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ میں نے اس سے اتنی چھیڑ خانی کی، لیکن اس نے کسی سے بات تک نہ کی، ورنہ اگر چاہتی تو میرا گھر نکالا کرسکتی تھی۔ ‘‘

رشید مسکرایا۔

’’میں تمہاری بچنی کو جانتا ہوں!‘‘

مجید نے بڑی حیرت سے پوچھا۔

’’تم کیسے جانتے ہو اس کو؟‘‘

’’جس طرح تم جانتے ہو۔ کیا تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے کہ وہ تمہارے ہی محلے کے کام کیا کرے۔ میں اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ ‘‘

مجید کو یقین نہ آیا۔

’’بکواس کرتے ہو۔ اس کی عمر ہی کتنی ہے کہ تم اسے جانو۔ دو برس سے کچھ مہینے اوپر ہو گئے ہیں کہ وہ ہمارے محلے میں بلاناغہ آتی ہے۔ اس کے لڑکے کی عمر بھی دو سال کے قریب ہو گی۔ یعنی جب وہ ہمارے ہاں ملازم ہوئی تو اس کے کوئی بچہ نہیں تھا۔ لیکن دو تین مہینے کے بعد اس کی گود میں ایک لڑکا تھا۔ ‘‘

رشید پھر مسکرایا۔

’’تمہارا؟‘‘

’’میرا!‘‘

مجید گھبرا گیا، لیکن فوراً سنبھل کر اس نے مذاق کا جواب مذاق میں دیا۔

’’میرا ہوتا تو کیا کہنے تھے۔ کم از کم میں یہ تو کہنے کے قابل ہو جاتا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ ‘‘

رشید کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب رنگ اختیار کرگئی۔

’’تمہیں اپنی بچنی کے شوہر کا نام معلوم نہیں؟‘‘

’’نہیں!‘‘

’’میں بتاتا ہوں تمہیں۔ اس کے شوہر کا نام رشید ہے۔ ‘‘

مجید بوکھلا گیا۔

’’رشید۔ کیا اس کا نام رشید ہے؟‘‘

رشید نے بڑے وثوق اور بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’ہاں۔ اس کا نام رشید ہے۔ اصل میں وہی اس کا شوہر ہے۔ ‘‘

’’وہ جو اس کے ساتھ ہمارے محلے میں جھاڑو دیتا ہے اور اپنے بچے کو جھولا جھلاتا ہے؟‘‘

مجید کی بوکھلاہٹ اسی طرح قائم تھی۔ رشید کی سنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔

’’وہ الو کا پٹھا اپنے بچے کو جھولا نہیں جھلاتا!‘‘

’’تو کسے جھلاتا ہے۔ کیا وہ اس رشید کا بچہ نہیں؟‘‘

’’نہیں!‘‘

’’تو کس کا بچہ؟‘‘

’’ایک غریب اور نادارآدمی کا۔ جو خوبصورت بھی نہیں۔ تم سے ہزاروں درجے نیچے ہے۔ ‘‘

’’کون ہے وہ؟‘‘

’’پوچھ کے کیا کرو گے؟‘‘

’’کروں گا کیا۔ بس ایسے ہی جاننا چاہتا ہوں۔ ‘‘

رشید نے ایک سگریٹ سلگایا اور بڑے اطمینان سے کہا۔

’’جاننا چاہتے ہو تو جان لو۔ وہ رشید میں ہوں۔ تمہاری بچنی سے میری آشنائی بچپن کی ہے۔ وہ گیارہ برس کی تھی۔ میں تیرہ برس کا۔ جب سے میرا اس کا معاملہ چل رہا ہے۔ وہ لڑکا جو تم اس کی گود میں دیکھتے ہو اور جسے اس کا الو کا پٹھا شوہر ہر روز جھولا جھلاتا ہے، اس خاکسار کی اولاد ہے۔ شکر ہے خداوند کریم کا کہ لڑکی نہ ہوئی، ورنہ میں تو اسے دوسرے ہی روز مار ڈ التا۔ ‘‘

یہ کہہ کر رشید فوراً اٹھا اور چلا گیا۔ مجید سوچتا رہ گیا کہ خدا وند کریم نے اس پر کون سا کرم کیا تھا جو وہ اس کا شکر گزار تھا۔ !

سعادت حسن منٹو

بجلی پہلوان

بجلی پہلوان کے متعلق بہت سے قصے مشہور ہیں‘ کہتے ہیں کہ وہ برق رفتار تھا۔ بجلی کی مانند اپنے دشمنوں پر گرتا تھا اور انھیں بھسم کر دیتا تھا لیکن جب میں نے اسے مغل بازار میں دیکھا تو وہ مجھے بے ضرر کدّو کے مانند نظر آیا‘ بڑا پھسپھس سا‘ توند باہر نکلی ہوئی‘ بند بند ڈھیلے‘ گال لٹکے ہوئے‘ البتہ اس کا رنگ سُرخ و سفید تھا۔ وہ مغل بازار میں ایک بزاز کی دُکان پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا‘ میں نے اُس کو غور سے دیکھا‘ مجھے اس میں کوئی غنڈہ پن نظر نہ آیا‘ حالانکہ اُس کے متعلق مشہور یہی تھا کہ ہندوؤں کا وہ سب سے بڑا غنڈہ ہے۔ وہ غنڈہ ہو ہی نہیں سکتا تھا‘ اس لیے کہ اُس کے خدوخال اُس کی نفی کرتے تھے۔ میں تھوڑی دیر سامنے والی کتابوں کی دکان کے پاس کھڑا اُس کو دیکھتا رہا۔ اتنے میں ایک مسلمان عورت جو بڑی مفلس دکھائی دیتی تھی‘ بزاز کی دکان کے پاس پہنچی‘ بجلی پہلوان سے اس نے کہا

’’مجھے بجلی پہلوان سے ملنا ہے‘‘

بجلی پہلوان نے ہاتھ جوڑ کر اسے پرنام کیا

’’ماتا‘ میں ہی بجلی پہلوان ہوں‘‘

اس عورت نے اُس کو سلام کیا

’’خدا تمھیں سلامت رکھے۔ میں نے سنا ہے کہ تم بڑے دیالو ہو

’’بجلی نے بڑی انکساری سے کہا :

’’ماتا ‘ دیالوپرمیشور ہے۔ میں کیا دیا کر سکتا ہوں‘ لیکن مجھے بتاؤ کہ میں کیا سیوا کر سکتا ہوں‘‘

’’بیٹا‘ مجھے اپنی جوان لڑکی کا بیاہ کرنا ہے۔ تم اگر میری کچھ مدد کر سکو تو میں ساری عمر تمھیں دعائیں دوں گی‘‘

بجلی نے اُس عورت سے پوچھا:

’’کتنے روپوں میں کام چل جائے گا‘‘

عورت نے جواب دیا : بیٹا! تم خود ہی سمجھ لو۔ میں تو ایک بھکارن بن کر تمہارے پاس آئی ہوں‘‘

بجلی نے کہا بھکارن منہ سے نہ کہو۔ میرا فرض ہے کہ میں تمہاری مدد کروں‘‘

اس کے بعد اس نے بزاز سے جو تھان تہہ کر رہا تھا کہا

’’لالہ جی۔ دو ہزار روپے نکالیے‘‘

لالہ جی نے دو ہزار رُوپے فوراً اپنی صندوقچی سے نکالے اور گن کر بجلی کو دے دیے۔ یہ روپے اُس نے اس عورت کو پیش کر دیے۔

’’ماتا۔ بھگوان کرے کہ تمہاری بیٹی کے بھاگ اچھے ہوں‘‘

وہ عورت چند لمحات کے لیے نوٹ ہاتھ میں لیے بُت بنی کھڑی رہی۔ غالباً اُس کو اتنے روپے ایک دم مل جانے کی توقع ہی نہیں تھی۔ جب وہ سنبھلی تو اُس نے بجلی پہلوان پر دُعاؤں کی بوچھاڑ کر دی‘ میں نے دیکھا کہ پہلوان بڑی اُلجھن محسوس کر رہا تھا‘ آخر اُس نے اس عورت سے کہا :

’’ماتا ‘ مجھے شرمندہ نہ کرو۔ جاؤ‘ اپنی بیٹی کے دان، جہیز کا انتظام کرو۔ اس کو میری اشیر باد دینا‘‘

میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس قسم کا غنڈہ اور بدمعاش ہے جو دو ہزار روپے ایک ایسی عورت کو جو مسلمان ہے اور جسے وہ جانتا بھی نہیں (دو ہزار روپے) پکڑا دیتا ہے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑا مخیّر ہے‘ ہر مہینے ہزاروں روپے دان کے طور پر دیتا ہے۔ مجھے چونکہ اس کی شخصیت سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی‘ اس لیے میں نے کافی چھان بین کے بعد بجلی پہلوان کے متعلق کئی معلومات حاصل کیں۔ مغل بازار کی اکثر دکانیں اُس کی تھیں‘ حلوائی کی دکان ہے‘ بزاز کی دُکان ہے‘ شربت بیچنے والا ہے‘ شیشے فروخت کرنے والا ہے‘ پنساری ہے۔ غرضیکہ اِس سرے سے اُس سرے تک جہاں وہ بزاز کی دُکان میں بیٹھا تھا اُس نے ایک

’’لائن آف کمیونیکیشن‘‘

قائم کر رکھی تھی تاکہ اگر پولس چھاپہ مارنے کی غرض سے آئے تو اسے فوراً اطلاع مل جائے۔ دراصل اُس کی دو بیٹھکوں میں جو بزاز کی دُکان کے بالکل سامنے تھیں‘ بہت بھاری جوا ہوتا تھا‘ ہر روز ہزاروں روپے نال کی صورت میں اُسے وصول ہو جاتے تھے۔ وہ خود جوا نہیں کھیلتا تھا‘ نہ شراب پیتا تھا مگر اس کی بیٹھکوں میں شراب ہر وقت مل سکتی تھی‘ اس سے بھی اس کی آمدن کافی تھی۔ شہر کے جتنے بڑے بڑے غنڈے تھے‘ ان کو اُس نے ہفتہ مقرر کر رکھا تھا‘ یعنی ہفتہ وار انھیں ان کے مرتبے کے مطابق تنخواہ مل جاتی تھی۔ میرا خیال ہے اس نے یہ سلسلہ بطور حفظ ماتقدم شروع کیا تھا کہ وہ غنڈے بڑی خطرناک قسم کے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ یہ غنڈے سب کے سب مسلمان تھے زیادہ تر ہاتھی دروازے کے۔ ہر ہفتے بجلی پہلوان کے پاس جاتے اور اپنی تنخواہ صول کر لیتے۔ وہ ان کو کبھی نااُمید نہ لوٹاتا۔ اس لیے کہ اس کے پاس روپیہ عام تھا۔ میں نے سُنا کہ ایک دن وہ بزاز کی دکان پر حسبِ معمول بیٹھا تھا کہ ایک ہندو بنیا جو کافی مالدار تھا‘ اُس کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی

’’پہلوان جی! میرا لڑکا خراب ہو گیا ہے۔ اس کو ٹھیک کر دیجیے۔ پہلوان نے مسکرا کر اس سے کہا

’’میرے دو لڑکے ہیں۔ بہت شریف ‘ لوگ مجھے غنڈہ اور بدمعاش کہتے ہیں لیکن میں نے انھیں اس طرح پالا پوسا ہے کہ وہ کوئی بُری حرکت کر ہی نہیں سکتے۔ مہاشہ جی یہ آپ کا قصور ہے‘ آپ کے بڑے لڑکے کا نہیں‘‘

بنیے نے ہاتھ جوڑ کر کہا

’’پہلوان جی۔ میں نے بھی اس کو اچھی طرح پالا پوسا ہے‘ پر اُس نے اب چوری چوری بہت بُرے کام شروع کر دیے ہیں‘‘

بجلی نے اپنا فیصلہ سنا دیا

’’اس کی شادی کر دو‘‘

اس واقعے کو دس روز گزرے تھے کہ بجلی پہلوان ایک نوجوان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا حالانکہ اس سے اس قسم کی کوئی توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ لڑکی کی عمر سولہ سترہ برس کے لگ بھگ ہو گی اور بجلی پچاس سے اُوپر ہو گا۔ آدمی بااثر اور مالدار تھا۔ لڑکی کے والدین راضی ہو گئے‘ چنانچہ شادی ہو گئی۔ اس نے شہر کے باہر ایک عالی شان کوٹھی بنائی تھی‘ دولہن کو وہ جب اس میں لے کر گیا تو اُسے محسوس ہوا کہ تمام جھالر اور فانوس ماند پڑ گئے ہیں۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی‘ پہلی رات بجلی پہلوان نے کسرت کرنا چاہی مگر نہ کر سکا۔ اس لیے کہ اس کے دماغ میں اپنی پہلی بیوی کا خیال کروٹیں لے رہا تھا‘اس کے دو جوان لڑکے تھے جو اسی کوٹھی کے ایک کمرے میں سو رہے تھے یا جاگ رہے تھے۔ اس نے اپنی پہلی بیوی کو کہیں باہر بھیج دیا تھا ‘ اس کو اس کا قطعاً علم نہیں تھا کہ اس کے پتی نے دوسری شادی کر لی ہے۔ بجلی پہلوان سوچتا تھا کہ اسے اور کچھ نہیں تو اپنی پہلی بیوی کو مطلع کر دینا چاہیے تھا۔ ساری رات نئی نویلی دولہن جس کی عمر سولہ سترہ برس کے قریب تھی‘ چوڑے چکلے پلنگ پر بیٹھی بجلی پہلوان کی اوٹ پٹانگ باتیں سنتی رہی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شادی کیا ہے‘ کیا اسے ہر روز اسی قسم کی باتیں سننا ہوں گی۔

’’کل میں تمہارے لیے دس ہزار کے زیور اور لاؤں گا‘‘

’’تم بڑی سندر ہو‘‘

’’برفی کھاؤ گی یا پیڑے‘‘

’’یہ سارا شہر سمجھو کہ تمہارا ہے‘‘

’’یہ کوٹھی میں تمہارے نام لکھ دُوں گا‘‘

کتنے نوکر چاہئیں تمھیں۔ مجھے بتا دو ایک منٹ میں انتظام ہو جائے گا۔

’’میرے دو جوان لڑکے ہیں‘ بہت شریف۔ تم ان سے جو کام لینا چاہو لے سکتی ہو‘ وہ تمہارا حکم مانیں گے‘‘

دولہن ہر روز اسی قسم کی باتیں سنتی رہی‘ حتٰی کہ چھ مہینے گزر گئے‘ بجلی پہلوان دن بدن اُس کی محبت میں غرق ہوتا گیا‘ وہ اس کے تیکھے تیکھے نقش دیکھتا تو اپنی ساری پہلوانی بھول جاتا۔ اس کی پہلی بیوی بدشکل تھی۔ ان معنوں میں کہ اس میں کوئی کشش نہیں تھی‘ وہ ایک عام کھترانی تھی جو ایک بچہ جننے کے بعد ہی بوڑھی ہو جاتی ہے لیکن اس کی یہ دوسری بیوی بڑی ٹھوس تھی‘ دس بچے پیدا کرنے کے بعد بھی وہ ثابت و سالم رہ سکتی تھی۔ بجلی پہلوان کا ایک وید دوست تھا اس کے پاس وہ کئی دنوں سے جا رہا تھا اُس نے بجلی کو یقین دلایا کہ اب کسی قسم کے تردّد کی ضرورت نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پہلوان خوش تھا۔ وید کے ہاں سے آتے ہوئے اس نے کئی سکیمیں تیار کیں‘ راستے میں مٹھائی خریدی‘ سونے کے دو بڑے بڑے خوشنما کڑے لیے ‘ بارہ قمیصوں اور بارہ شلواروں کے لیے بہترین کپڑا قیمت ادا کیے بغیر حاصل کیا۔ اس لیے کہ وہ لوگ جو دُکان کے مالک تھے اس سے مرعوب تھے اور قیمت لینے سے انکاری تھے۔ شام کو سات بجے وہ گھر پہنچا ‘ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے کمرے میں گیا‘ دیکھا تو وہاں اس کی دوسری بیوی نہیں تھی‘ اس نے سوچا شاید غسل خانے میں ہو گی چنانچہ اس نے اپنا بوجھ‘ میرا مطلب ہے وہ تھان وغیرہ پلنگ پر رکھ کر غسل خانے کا رخ کیا ‘ مگر وہ خالی تھا۔ بجلی پہلوان بڑا متحیر ہوا کہ اس کی بیوی کہاں گئی۔ طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ میں آئے مگر وہ کوئی نتیجہ برآمد نہ کر سکا اس نے دیدکی دی ہوئی گولیاں کھائیں اور پلنگ پر بیٹھ گیا کہ اس کی بیوی آ جائے گی آخر اسے جانا کہاں ہے؟ وہ گولیاں کھا کر پلنگ پر بیٹھا قمیصوں کے کپڑوں کو اُنگلیوں میں مسل مسل کر دیکھ رہا تھا کہ اسے اپنی بیوی کی ہنسی کی آواز سنائی دی وہ چونکا اُٹھ کر اُس کمرے میں گیا جو اُس نے اپنے بڑے لڑکے کو دے رکھا تھا اندر سے اس کی بیوی اور اس کے بیٹے کی ہنسی کی آواز نکل رہی تھی۔ اُس نے دستک دی۔ لیکن دروازہ نہ کھلا پھر بڑے زور سے چلانا شروع کیا کہ دروازہ کھولو۔ اس وقت اس کا خون کھول رہا تھا۔ دروازہ پھر بھی نہ کھلا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کمرے کے اندر اس کی بیوی اور اس کے بڑے لڑکے نے سانس لینا بھی بند کر دیا ہے۔ بجلی پہلوان نے بڑے کمرے میں جاکر گورمکھی زُبان میں ایک رقعہ لکھا جس کی عبارت اُردو میں کچھ یوں ہوسکتی ہے‘‘

یہ کوٹھی اب تمہاری ہے۔ میری بیوی بھی اب تمہاری بیوی ہے خوش رہو۔ ۔ تمہارے لیے کچھ تحفے لایا تھا۔ وہ یہاں چھوڑے جارہا ہوں۔ یہ رقعہ لکھ اس نے ساٹن کے تھان کے ساتھ ٹانک دیا۔ (۲۷ مئی ۵۴ ؁ء)

سعادت حسن منٹو

بانجھ

میری اور اُس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہلے اپولو بندر پر ہُوئی شام کا وقت تھا۔ سورج کی آخری کرنیں سمندر کی اُن دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چکی تھی۔ جو ساحل کے بنچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑے کی تہیں معلوم ہوتی تھیں۔ میں گیٹ آف انڈیا کے اس طرف پہلا بنچ چھوڑ کر جس پر ایک آدمی چمپی والے سے اپنے سر کی مالش کرا رہا تھا۔ دوسرے بنچ پر بیٹھا تھا۔ اور حدِ نظر تک پھیلے ہوئے سمندر کو دیکھ رہا تھا۔ دور بہت دُور جہاں سمندر اور آسمان گھل مل رہے تھے۔ بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اُٹھ رہی تھیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ بہت بڑا گدلے رنگ کا قالین ہے۔ جسے ادھر سے اُدھر سمیٹا جا رہا ہے۔ ساحل کے سب قمقمے روشن تھے جن کا عکس کنارے کے لرزاں پانی پر کپکپاتی ہوئی موٹی لکیروں کی صورت میں جگہ جگہ رینگ رہا تھا۔ میرے پاس پتھریلی دیوار کے نیچے کئی کشتیوں کے لپٹے ہوئے بادبان اور بانس ہولے ہولے حرکت کر رہے تھے۔ سمندر کی لہریں اور تماشائیوں کی آواز ایک گنگناہٹ بن کر فضا میں گھلی ہُوئی تھی۔ کبھی کبھی کسی آنے یا جانے والی موٹر کے ہارن کی آواز بلند ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ بڑی دلچسپ کہانی سننے کے دوران میں کسی نے زور سے

’’ہوں‘‘

کی ہے۔ ایسے ماحول میں سگریٹ پینے کا بہت مزہ آتا ہے میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کی ڈبیا نکالی۔ مگر ماچس نہ ملی۔ جانے کہاں بھول آیا تھا۔ سگریٹ کی ڈبیا واپس جیب میں رکھنا ہی والا تھا۔ کہ پاس سے کسی نے کہا۔

’’ماچس لیجیے گا۔ ‘‘

میں نے مڑ کر دیکھا۔ بنچ کے پیچھے ایک نوجوان کھڑا تھا۔ یوں تو بمبئی کے عام باشندوں کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ لیکن اس کا چہرہ خوفناک طور پر زرد تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔

’’آپ کی بڑی عنایت ہے۔ ‘‘

اُس نے جواب دیا۔ آپ سگریٹ سلگا لیجیے۔ مجھے جانا ہے‘‘

مجھے ایسا محسوس ہُوا کہ اُس نے جھوٹ بولا ہے۔ کیونکہ اس کے لہجے سے اس بات کا پتہ چلتا تھا کہ اُسے کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ اسے کہیں جانا ہے۔ آپ کہیں گے کہ لہجے سے ایسی باتوں کا کس طرح پتہ چل سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس وقت ایسا محسوس ہوا چنانچہ میں نے ایک بار پھر کہا۔

’’ایسی جلدی کیا ہے۔۔۔۔۔۔ تشریف رکھیے۔ اور یہ کہہ کر میں نے سگریٹ کی ڈبیا اس کی طرف بڑھا دی۔ شوق فرمائیے۔ ‘‘

اُس نے سگریٹ کی چھاپ کی طرف دیکھا۔ اور جواب دیا۔ شکریہ، میں صرف برانڈ پیا کرتا ہوں۔ ‘‘

آپ مانیں نہ مانیں۔ مگر میں قسمیہ کہتا ہوں کہ اس بار اُس نے پھر چھوٹ بولا۔ اس مرتبہ پھر اُس کے لہجے نے چغلی کھائی۔ اور مجھے اس سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ اس لیے کہ میں نے اپنے دل میں قصد کر لیا تھا۔ کہ اسے ضرور اپنے پاس بٹھاؤں گا۔ اور اپنا سگریٹ پلواؤں گا۔ میرے خیال کے مطابق اس میں مشکل کی کوئی بات ہی نہ تھی۔ کیونکہ اس کے دو جملوں ہی نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ اُس کا جی چاہتا ہے کہ میرے پاس بیٹھے اور سگریٹ پیے۔ لیکن بیک وقت اُس کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہوا تھا کہ میرے پاس نہ بیٹھے اور میرا سگریٹ نہ پیے چنانچہ ہاں اور نہ کا یہ تصادم اُس کے لہجے میں صاف طور پر مجھے نظر آیا تھا۔ آپ یقین جانیے کہ اس کا وجود بھی ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں لٹکا ہوا تھا۔ اُس کا چہرہ جیساکہ میں بیان کر چکا ہوں بے حد پیلا تھا۔ اس پر اُس کی ناک آنکھوں اور منہ کے خطوط اس قدر مدھم تھے جیسے کسی نے تصویر بنائی ہے اور اس کو پانی سے دھو ڈالا ہے۔ کبھی کبھی اس کی طرف دیکھتے دیکھتے اس کے ہونٹ اُبھر سے آتے لیکن پھر راکھ میں لپٹی ہوئی چنگاری کے مانند سو جاتے۔ اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کا بھی یہی حال تھا۔ آنکھیں گدلے پانی کی دو بڑی بڑی بوندیں تھیں جن پر اس کی چھوری پلکیں جھُکی ہوئی تھیں۔ بال کالے تھے۔ مگر اُن کی سیاہی جلے ہوئے کاغذ کے مانند تھی جن میں بھوسلا پن ہوتا ہے۔ قریب سے دیکھنے پر اُس کی ناک کا صحیح نقشہ معلوم ہو سکتا تھا۔ مگر دور سے دیکھنے پر وہ بالکل چپٹی معلوم ہوتی تھی۔ کیونکہ جیسا کہ میں اس سے پیشتر بیان کر چکا ہوں۔ اُس کے چہرے کے خطوط بالکل ہی مدھم تھے۔ اس کا قد عام لوگوں جتنا تھا۔ یعنی نہ چھوٹا نہ بڑا۔ البتہ جب وہ ایک خاص انداز سے یعنی اپنی کمر کی ہڈی کو ڈھیلا چھوڑ کے کھڑا ہوتا۔ تو اس کے قد میں نمایاں فرق پیدا ہو جاتا۔ اس طرح جب کہ وہ ایک دم کھڑا ہوتا۔ تو اُس کا قد جسم کے مقابلے میں بہت بڑا دکھائی دیتا۔ کپڑے اُس کے خستہ حالت میں تھے۔ لیکن میلے نہیں تھے۔ کوٹ کی آستینوں کے آخری حصّے کثرتِ استعمال کے باعث گھِس گئے تھے اور پھُوسڑے نکل آئے تھے۔ کالر کھلا تھا۔ اور قمیض بس ایک اور دھلائی کی مار تھی۔ مگر ان کپڑوں میں بھی وہ خود کو ایک باوقار انداز میں پیش کرنے کی سعی کر رہا تھا۔ میں نے سعی کر رہا تھا! اس لیے کہا۔ کیونکہ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ تو اس کے سارے وجود میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اور مجھے ایسا معلوم ہوا تھا۔ کہ وہ اپنے آپ کو میری نگاہوں سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا اور سگریٹ سلگا کر اس کی طرف ڈبیا بڑھا دی۔

’’شوق فرمائیے۔ ‘‘

یہ میں نے کچھ اس طریقے سے کہا۔ اور فوراً ماچس سُلگا کر اس انداز سے پیش کی کہ وہ سب کچھ بھول گیا۔ اُس نے ڈبیا میں سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبا لیا۔ اور اُسے سلگا کر پینا بھی شروع کر دیا۔ لیکن ایکا ایکی اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اور منہ میں سے سگریٹ نکال کر مصنوعی کھانسی کے آثار حلق میں پیدا کرتے ہُوئے اُس نے کہا۔

’’کیو نڈر مجھے راس نہیں آتے ان کا تمباکو بہت تیز ہے۔ میرے گلے میں فوراً خراشیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’آپ کون سے سگریٹ پسند کرتے ہیں؟‘‘

اُس نے تتلا کر جواب دیا۔

’’میں ۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل سگریٹ بہت کم پیتا ہوں۔ کیونکہ ڈاکٹر اروکر نے منع کر رکھا ہے۔ ویسے میں تھری فالُو پیتا ہوں جن کا تمباکو تیز نہیں ہوتا۔ اس نے جس ڈاکٹر کا نام لیا۔ وہ بمبئی کا بہت بڑا ڈاکٹر ہے۔ اس کی فیس دس روپے ہے۔ اور جن سگریٹوں کا اس نے حوالہ دیا۔ اس کے متعلق آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ بہت مہنگے داموں پر ملتے ہیں۔ اس نے ایک ہی سانس میں دو جھوٹ بولے۔ جو مجھے ہضم نہ ہوئے۔ مگر میں خاموش رہا۔ حالانکہ سچ عرض کرتا ہوں۔ اُس وقت میرے دل میں یہی خواہش چٹکیاں لے رہی تھی۔ کہ اس کا غلاف اتار دوں اور اس کی دروغ گوئی کو بے نقاب کر دوں۔ اور اسے کچھ اس طرح شرمندہ کروں کہ وہ مجھ سے معافی مانگے۔ مگر میں نے جب اُس کی طرف دیکھا تو اس فیصلے پر پہنچا کہ اس نے جو کچھ کہا ہے اس کا جزو بن کر رہ گیا ہے۔ جھوٹ بول کرچہرے پر جو ایک سُرخی سی دوڑ جایا کرتی ہے۔ مجھے نظر نہ آئی بلکہ میں نے یہ دیکھا کہ وہ جو کچھ کہہ چکا ہے۔ اس کو حقیقت سمجھتا ہے۔ اُس کے جھوٹ میں اس قدر اخلاص تھا۔ یعنی اس نے اتنے پُرخلوص طریقے پر جھوٹ بولا تھا۔ کہ اس کی میزانِ احساس میں ہلکی سی جنبش بھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ خیر اس قصّے کو چھوڑیے۔ ایسی باریکیاں میں آپ کو بتانے لگوں تو صفحوں کے صفحے کالے ہو جائیں گے۔ اور افسانہ بہت خشک ہو جائے گا۔ تھوڑی سی رسمی گفتگو کے بعد میں نے اس کو راہ پر لگایا۔ اور ایک اور سگریٹ پیش کرکے سمندر کے دلفریب منظر کی بات چھیڑ دی۔ چونکہ افسانہ نگار ہوں۔ اس لیے کچھ اس دلچسپ طریقے پر اُسے سمندر، اپولُوبندر اور وہاں آنے جانے والے تماشائیوں کے بارے میں چند باتیں سنائیں۔ کہ چھ سگریٹ پینے پر بھی اُس کے حلق میں خرخراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ اس نے میرا نام پوچھا۔ میں نے بتایا تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔

’’آپ مسٹر۔۔۔۔۔۔۔ ہیں۔۔۔۔۔۔ میں آپ کے کئی افسانے پڑھ چکا ہوں۔ مجھے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم نہ تھا۔ کہ آپ۔ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے واللہ بہت خوشی ہوئی ہے۔ ‘‘

میں نے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہا۔ مگر اُس نے اپنی بات شروع کر دی۔۔۔۔۔۔۔

’’ہاں خوب یاد آیا ابھی حال ہی میں آپ کا ایک افسانہ میں نے پڑھا ہے۔۔۔۔۔۔ عنوان بھول گیاہوں۔۔۔۔۔۔۔ اس میں آپ نے ایک لڑکی پیش کی ہے۔ جو کسی مرد سے محبت کرتی تھی۔ مگر وہ اُسے دھوکہ دے گیا۔ اسی لڑکی سے ایک اور مرد بھی محبت کرتا تھا۔ جو افسانہ سناتا ہے جب اس کو لڑکی کی افتاد کا پتہ چلتا ہے۔ تو وہ اس سے ملتا ہے اور اس سے کہتا ہے۔ زندہ رہو۔۔۔۔۔۔۔ ان چند گھڑیوں کی یاد میں اپنی زندگی کی بنیادیں کھڑی کرو۔ جو تم نے اس کی محبت میں گزاری ہیں۔ اُس مسّرت کی یاد میں جو تم نے چند لمحات کے لیے حاصل کی تھی‘‘

۔۔۔۔۔۔ مجھے اصل عبارت یاد نہیں رہی۔ لیکن مجھے بتائیے۔ کیا ایسا ممکن ہے۔۔۔۔۔ ممکن کو چھوڑیے۔ آپ یہ بتائیے کہ وہ آدمی آپ تو نہیں تھے؟ ۔۔۔۔۔۔ مگر کیا آپ ہی نے اس سے کوٹھے پر ملاقات کی تھی اور اس کی تھکی ہوئی جوانی کو اُونگھتی ہوئی چاندنی میں چھوڑ کر نیچے اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے آئے تھے۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم ٹھہر گیا۔

’’مگر مجھے ایسی باتیں نہیں پوچھنی چاہئیں۔ اپنے دل کا حال کون بتاتا ہے۔ ‘‘

اس پر میں نے کہا۔

’’میں آپ کو بتاؤں گا۔ لیکن پہلی ملاقات میں سب کچھ پوچھ لینا۔ اور سب کچھ بتا دینا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

وہ جوش جو گفتگو کرتے وقت اس کے اندر پیدا ہو گیا تھا۔ ایک دم ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

’’آپ کا فرمانا بالکل درست ہے مگر کیا پتہ ہے کہ آپ سے پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔ ‘‘

اس پر میں نے کہا۔

’’اس میں شک نہیں بمبئی بہت بڑا شہر ہے لیکن ہماری ایک نہیں بہت سی ملاقاتیں ہو سکتی ہیں بیکار آدمی ہوں یعنی افسانہ نگار۔۔۔۔۔۔۔ شام کو ہر روز اسی وقت بشرطیکہ بیمار نہ ہو جاؤں آپ مجھے ہمیشہ اسی جگہ پر پائیں گے۔ یہاں بے شمار لڑکیاں سیر کو آتی ہیں۔ اور میں اس لیے آتا ہوں کہ خود کو کسی کی محبت میں گرفتار کر سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت بُری چیز نہیں ہے!‘‘

’’محبت۔۔۔۔۔۔ محبت۔۔۔۔۔۔ ! اُس نے اس سے آگے کچھ کہنا چاہا۔ مگر نہ کہہ سکا۔ اور جلتی ہوئی رسّی کی طرح آخری بل کھا کر خاموش ہو گیا۔ میں نے از راہِ مذاق اُس سے محبت کا ذکر کیا تھا۔ دراصل اس وقت فضا ایسی دلفریب تھی۔ کہ اگر کسی عورت پر عاشق ہو جاتا تو مجھے افسوس نہ ہوتا جب دونوں وقت آپس میں مل رہے ہوں۔ نیم تاریکی میں بجلی کے قمقمے قطار اندر قطار آنکھیں جھپکنا شروع کر دیں۔ ہوا میں خنکی پیدا ہو جائے اور فضا پر ایک افسانوی کیفیت سی چھا جائے تو کسی اجنبی عورت کی قربت کی ضرورت محسوس ہوا کرتی ہے۔ ایک ایسی جس کا احساس تحت شعور میں چھپا رہتا ہے۔ خدا معلوم اُس نے کس افسانے کے متعلق مجھ سے پوچھا تھا۔ مجھے اپنے سب افسانے یاد نہیں۔ اور خاص طور پر وہ تو بالکل یاد نہیں جو رومانی ہیں۔ میں اپنی زندگی میں بہت کم عورتوں سے ملا ہوں۔ وہ افسانے جو میں نے عورتوں کے متعلق لکھے ہیں۔ یا تو کسی خاص ضرورت کے ماتحت لکھے گئے ہیں۔ یا محض دماغی عیاشی کے لیے میرے ایسے افسانوں میں چونکہ خلوص نہیں ہے۔ اس لیے میں نے کبھی اُن کے متعلق غور نہیں کیا۔ ایک خاص طبقے کی عورتیں میری نظر سے گزر ی ہیں۔ اور ان کے متعلق میں نے چند افسانے لکھے ہیں۔ مگر وہ رومان نہیں ہیں۔ اُس نے جس افسانے کا ذکر کیا تھا۔ وہ یقیناًکوئی ادنیٰ درجے کا رومان تھا۔ جو میں نے اپنے چند جذبات کی پیاس بجھانے کے لیے لکھا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے تو اپنا افسانہ بیان کرنا شروع کر دیا۔ ہاں تو جب وہ محبت کہہ کر خاموش ہو گیا۔ تو میرے دل میں خواہش پیدا ہُوئی کہ محبت کے بارے میں کچھ اور کہوں۔ چنانچہ میں نے کہنا شروع کیا۔

’’محبت کی یُوں تو بہت سی قسمیں ہمارے باپ دادا بیان کر گئے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں۔ کہ محبت خواہ ملتان میں ہو یا سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں۔ سردیوں میں پیدا ہو یا گرمیوں میں، امیر کے دل میں پیدا ہو یا غریب کے دل میں۔۔۔۔۔۔۔ محبت خوبصورت کرے یا بدصورت بدکردار کرے یا نیکوکار۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت محبت ہی رہتی ہے۔ اس میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا جس طرح بچے پیدا ہونے کی صورت ہمیشہ ہی ایک سی چلی آرہی ہے۔ اسی طرح محبت کی پیدائش بھی ایک ہی طریقے پر ہوتی ہے۔ یہ جُدا بات ہے کہ سعیدہ بیگم ہسپتال میں بچہ جنے اور راجکماری جنگل میں۔ غلام محمدؐ کے دل میں بھنگن محبت پیدا کر دے، اور نٹور لال کے دل میں کوئی رانی جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں۔ اسی طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے بعض دفعہ بچے بڑی تکلیف سے پیدا ہوتے ہیں بعض دفعہ محبت بھی بڑی تکلیف دے کر پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح عورتوں کا حمل گر جاتا ہے۔ اسی طرح محبت بھی گر جاتی ہے بعض دفعہ بانجھ پن پیدا ہو جاتا ہے۔ ادھر بھی آپ کو ایسے آدمی نظر آئیں گے جو محبت کرنے کے معاملہ میں بانجھ ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ محبت کرنے کی خواہش اُن کے دل سے ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہے، یا ان کے اندر وہ جذبہ ہی نہیں رہتا، نہیں، یہ خواہش اُن کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ مگر وہ اس قابل نہیں رہتے کہ محبت کر سکیں۔ جس طرح عورت اپنے جسمانی نقائص کے باعث بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اسی طرح یہ لوگ چند روحانی نقائص کی وجہ سے کسی کے دل میں محبت پیدا کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔۔۔۔۔۔ محبت کا اسقاط بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

مجھے اپنی گفتگو دلچسپ معلوم ہو رہی تھی۔ چنانچہ میں اس کی طرف دیکھے بغیر لیکچر دیے جا رہا تھا۔ لیکن جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا۔ تو وہ سمندر کے اُس پار خلا میں دیکھ رہا تھا۔ اور اپنے خیالات میں گم تھا میں خاموش ہو گیا۔ جب دُور سے کسی موٹر کا ہارن بجا تو وہ چونکا اور خالی الذہن ہو کر کہنے لگا۔

’’جی۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے بالکل درست فرمایا ہے!‘‘

میرے جی میں آئی۔ کہ اس سے پوچھوں۔۔۔۔۔۔ درست فرمایا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو چھوڑیے آپ یہ بتائیے کہ میں نے کیا کہا ہے؟‘‘

لیکن میں خاموش رہا۔ اور اس کو موقع دیا کہ اپنے وزنی خیالات دماغ سے جھٹک دے۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ اس کے بعد اُس نے پھر کہا۔

’’آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑئیے اس قصّے کو۔ ‘‘

مجھے اپنی گفتگو بہت اچھی معلوم ہوئی تھی۔ میں چاہتا تھا۔ کہ کوئی میری باتیں سُنتا چلا جائے۔ چنانچہ میں نے پھر سے کہنا شروع کیا۔

’’تو میں عرض کر رہا تھا کہ بعض آدمی بھی محبت کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے دل میں محبت کرنے کی خواہش تو موجود ہوتی ہے لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بانجھ پن کا باعث روحانی نقائص ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

اس کا رنگ اور بھی زرد پڑ گیا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ یہ تبدیلی اُس کے اندر اتبی جلدی پیدا ہوئی کہ میں نے گھبرا کر اُس سے پوچھا۔

’’خیریت تو ہے۔۔۔۔۔ آپ بیمار ہیں۔ ‘‘

’’نہیں تو۔ نہیں تو‘‘

اُس کی پریشانی اور بھی زیادہ ہو گئی۔

’’مجھے کوئی بیماری و یماری نہیں ہے۔ لیکن آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں بیمار ہوں۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔ اس وقت آپ کو جو کوئی بھی دیکھے گا۔ یہی کہے گا۔ کہ آپ بہت بیمار ہیں۔ آپ کا رنگ خوفناک طور پر زرد ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے آپ کو گھر چلے جانا چاہیے۔ آئیے میں آپ کو چھوڑ آؤں۔ ‘‘

’’نہیں میں چلا جاؤں گا۔ مگر میں بیمار نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی میرے دل میں معمولی سا درد پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ شاید وہی ہو۔۔۔۔۔ میں ابھی ٹھیک ہو جاؤں گا آپ اپنی گفتگو جاری رکھیے۔ ‘‘

میں تھوڑی دیر خاموش رہا۔ کیونکہ وہ ایسی حالت میں نہیں تھا کہ میری بات غور سے سُن سکتا۔ لیکن جب اُس نے اصرار کیا۔ تو میں نے کہنا شروع کیا۔

’’میں آپ سے یہ پوچھ رہا تھا کہ ان لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو محبت کرنے کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں۔۔۔۔ میں ایسے آدمیوں کے جذبات اور اُن کی اندرونی کیفیات کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن جب میں اس بانجھ عورت کا تصور کرتا ہوں۔ جو صرف ایک بیٹی یا بیٹا حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگتی ہے۔ خدا کے حضور میں گڑگڑاتی ہے اور جب وہاں سے کچھ نہیں ملتا تو ٹونے ٹوٹکوں میں اپنا گوہر مقصود ڈھونڈتی ہے۔ شمشانوں سے راکھ لاتی ہے کئی کئی راتیں جاگ کر سادھوؤں کے بتائے ہوئے منتر پڑھتی ہے۔ منتیں مانتی ہے۔ چڑھاوے چڑھاتی ہے۔ تو میں خیال کرتا ہوں کہ اس آدمی کی بھی یہی حالت ہوتی ہو گی۔ جو محبت کے معاملے میں بانجھ ہو۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگ واقعی ہمدردی کے قابل ہیں۔ مجھے اندھوں پر اتنا رحم نہیں آتا جتنا ان لوگوں پر آتا ہے‘‘

اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور وہ تھوک نگل کر دفعتہ اُٹھ کھڑا ہُوا۔ اور پرلی طرف منہ کر کے کہنے لگا۔

’’اوہ بہت دیر ہو گئی۔ مجھے ضروری کام کے لیے جانا تھا یہاں باتوں باتوں میں کتنا وقت گزر گیا‘‘

میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ پلٹا اور جلدی سے میرا ہاتھ دبا کر لیکن میری طرف دیکھے بغیر اُس نے

’’اب رخصت چاہتاہوا‘‘

کہا اور چل دیا۔ ۔ دوسری مرتبہ اس سے میری ملاقات پھر اپولوبندر ہی پر ہوئی۔ میں سیر کا عادی نہیں ہوں۔ مگر اس زمانے میں ہر شام اپولوبندر پر جانا میرا دستور ہو گیا تھا۔ ایک مہینے کے بعد جب مجھے آگرہ کے ایک شاعر نے ایک لمبا چوڑا خط لکھا جس میں اُس نے نہایت ہی حریصا نہ طور پر اپولوبندر اور وہاں جمع ہونے والی پریوں کا ذکر کیا۔ اور مجھے اس لحاظ سے بہت خوش قسمت کہا۔ کہ میں بمبئی میں ہوں۔ تو اپالوبندر سے میری دلچسپی ہمیشہ کے لیے فنا ہو گئی۔ اب جب کبھی کوئی مجھے اپولوبندر جانے کو کہتا ہے تو مجھے آگرے کے شاعر کا خط یاد آجاتا ہے اور میری طبیعت متلا جاتی ہے۔ لیکن میں اُس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں۔ جب خط مجھے نہیں ملا تھا۔ اور میں ہر روز جاکر شام کو اپولوبندر کے اس بنچ پر بیٹھا کرتا تھا۔ جس کے اُس طرف کئی آدمی چمپی والوں سے اپنی کھوپڑیوں کی مرمت کراتے رہتے ہیں۔ دن پوری طرح ڈھل چکا تھا۔ اور اُجالے کا کوئی نشان باقی نہیں رہا تھا۔ اکتوبر کی گرمی میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ہوا چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ تھکے ہوئے مسافر کی طرح۔ سیر کرنے والوں کا ہجوم زیادہ تھا۔ میرے پیچھے موٹریں ہی موٹریں کھڑی تھیں۔ بنچ بھی سب کے سب پُر تھے۔ جہاں بیٹھا کرتا تھا۔ وہاں دو باتونی ایک گجراتی اور ایک پارسی نہ جانے کب کے جمے ہُوئے تھے۔ دونوں گجراتی بولتے تھے۔ مگر مختلف لب و لہجہ سے۔ پارسی کی آواز میں دو سُر تھے۔ وہ کبھی باریک سُر میں بات کرتا تھا کبھی موٹے سُر میں۔ جب دونوں تیزی سے بولنا شروع کر دیتے۔ تو ایسا معلوم ہوتا جیسے طوطے مینا کی لڑائی ہو رہی ہے۔ میں ان کی لامتناہی گفتگو سے تنگ آکر اُٹھا اور ٹہلنے کی خاطر تاج محل ہوٹل کا رُخ کرنے ہی والا تھا کہ سامنے سے مجھے وہ آتا دکھائی دیا۔ مجھے اس کا نام معلوم نہیں تھا۔ اس لیے میں اسے پکار نہ سکا۔ لیکن جب اُس نے مجھے دیکھا۔ تو اس کی نگاہیں ساکن ہو گئیں۔ جیسے اُسے وہ چیز مل گئی ہو جس کی اُسے تلاش تھی۔ کوئی بنچ خالی نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اس سے کہا۔

’’آپ سے بہت دیر کے بعد ملاقات ہوئی۔۔۔۔۔ چلیے سامنے ریستوران میں بیٹھتے ہیں۔ یہاں کوئی بنچ خالی نہیں۔ ‘‘

اُس نے رسمی طور پر چند باتیں کیں اور میرے ساتھ ہو لیا۔ چند گزوں کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم دونوں ریستوران میں بید کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ چائے کا آرڈر دیکر میں نے اس کی طرف سگرٹوں کا ٹین بڑھا دیا۔ اتفاق کی بات ہے۔ میں نے اسی روز دس روپے دے کر ڈاکٹر ارولکر سے مشورہ لیا تھا۔ اور اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اوّل تو سگریٹ پینا ہی موقوف کر دو۔ اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے۔ تو اچھے سگریٹ پیا کرو۔ مثال کے طور پر پانچ سو پچپن۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق یہ ٹین اُسی شام خریدا تھا۔ اُس نے ڈبے کی طرف غور سے دیکھا۔ پھر میری طرف نگاہیں اٹھائیں، کچھ کہنا چاہا مگر خاموش رہا۔ میں ہنس پڑا۔

’’آپ یہ نہ سمجھیے گا۔ کہ میں نے آپ کے کہنے پر یہ سگریٹ پینا شروع کیے ہیں۔۔۔۔۔۔ اتفاق کی بات ہے۔ کہ آج مجھے بھی ڈاکٹر ارولکر کے پاس جانا پڑا۔ کیونکہ کچھ دنوں سے میرے سینے میں درد ہو رہا ہے چنانچہ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ سگریٹ پیا کرو لیکن بہت کم۔۔۔۔۔۔‘‘

میں نے یہ کہتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کو میری یہ باتیں ناگوار معلوم ہوئی ہیں۔ چنانچہ میں نے فوراً جیب سے وہ نسخہ نکالا۔ جو ڈاکٹر ارولکر نے مجھے لکھ کر دیا تھا۔ یہ کاغذ میز پر میں نے اس کے سامنے رکھ دیا۔

’’یہ عبارت مجھ سے پڑھی تو نہیں جاتی۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے وٹامن کا سارا خاندان اس نسخے میں جمع کر دیا ہے۔ ‘‘

اُس کاغذ کو جس پر اُبھرے ہُوے کالے حروف میں ڈاکٹر ارولکر کا نام اور پتہ مندرج تھا اور تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی۔ اُس نے چورنگاہوں سے دیکھا اور وہ اضطراب جو اس کے چہرے پر پیدا ہو گیا تھا فوراً دُور ہو گیا۔ چنانچہ اس نے مُسکرا کر کہا‘‘

کیا وجہ ہے کہ اکثر لکھنے والوں کے اندر وٹامنز ختم ہو جاتی ہیں؟‘‘

’’میں نے جواب دیا۔ اس لیے کہ انھیں کھانے کو کافی نہیں ملتا۔ کام زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن اُجرت بہت کم ملتی ہے‘‘

اس کے بعد چائے آگئی اور دوسری باتیں شروع ہو گئیں۔ پہلی ملاقات اور اس ملاقات میں غالباً ڈھائی مہینے کا فاصلہ تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ پہلے سے زیادہ پیلا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پیدا ہو رہے تھے۔ اُسے غالباً کوئی تکلیف تھی جس کا احساس اُسے ہر وقت رہتا تھا۔ کیونکہ باتیں کرتے کرتے بعض اوقات وہ ٹھہر جاتا۔ اور اس کے ہونٹوں میں سے غیر ارادی طور پر آہ نکل جاتی۔ اگر ہنسنے کی کوشش بھی کرتا۔ تو اس کے ہونٹوں میں زندگی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ میں نے یہ کیفیت دیکھ کر اس سے اچانک طور پر پوچھا۔

’’آپ اداس کیوں ہیں؟‘‘

’’اُداس۔۔۔۔۔ اُداس‘‘

ایک پھیکی سی مسکراہٹ جو ان مرنے والوں کے لبوں پر پیدا ہوا کرتی ہے جو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ موت سے خائف نہیں۔ اُس کے ہونٹوں پر پھیلی۔ میں اُداس نہیں ہوں۔ آپ کی طبیعت اداس ہو گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اُس نے ایک ہی گھونٹ میں چائے کی پیالی خالی کر دی اور اٹھ کھڑا ہوا۔

’’اچھا تو میں اجازت چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ ‘‘

مجھے یقین تھا کہ اسے کسی ضروری کام سے نہیں جانا ہے۔ مگر میں نے اسے نہ روکا اور جانے دیا۔ اس دفعہ پھر اُس کا نام دریافت نہ کر سکا۔ لیکن اتنا پتہ چل گیا کہ وہ ذہنی اور روحانی طور پر بے حد پریشان تھا۔ وہ اداس تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ اُداسی اُس کی رگ و ریشہ میں سرایت کر چکی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتا تھا۔ کہ اس کی اُداسی کا دوسروں کو علم ہو۔ وہ دو زندگیاں بسر کرنا چاہتا تھا۔ ایک وہ جو حقیقت تھی اور ایک وہ جس کی تخلیق میں ہر گھڑی، ہر لمحہ مصروف رہتا تھا۔ لیکن اس کی زندگی کے یہ دونوں پہلو ناکام تھے۔ کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ اُس سے تیسری مرتبہ میری ملاقات پھر اپولو بندر پر ہُوئی۔ اس دفعہ میں اسے اپنے گھر لے گیا۔ راستے میں ہماری کوئی بات چیت نہ ہوئی لیکن گھر پر اس کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب وہ میرے کمرے میں داخل ہوا۔ تو اس کے چہرے پر چند لمحات کے لیے اداسی چھا گئی۔ مگر وہ فوراً سنبھل گیا۔ اور اس نے اپنی عادت کے خلاف اپنے آپ کو بہت تروتازہ اور باتونی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے اُس پر اور بھی ترس آگیا۔ وہ ایک موت جیسی یقینی حقیقت کو جھٹلا رہا تھا۔ اور مزا یہ ہے کہ اس خود فریبی سے کبھی کبھی وہ مطمئن بھی نظر آتا تھا۔ باتوں کے دوران میں اس کی نظر میرے میز پر پڑی۔ شیشے کے فریم میں اس کو ایک لڑکی کی تصویر نظر آئی۔ اٹھ کر اس نے تصویر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔

’’کیا میں آپ کی اجازت سے یہ تصویر دیکھ سکتا ہوں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’بصد شوق۔ ‘‘

اُس نے تصویر کو ایک نظر دیکھا۔ اور دیکھ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اچھی خوبصورت لڑکی ہے۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی۔۔۔۔۔۔‘‘

’’جی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زمانہ ہوا۔ اس سے محبت کرنے کا خیال میرے دل میں پیدا ہُوا تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ تھوڑی سی محبت میرے دل میں پیدا بھی ہو گئی تھی۔ مگر افسوس ہے کہ اس کو اس کی خبر تک نہ ہُوئی۔ اور میں۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ بلکہ وہ بیاہ دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تصویر میری پہلی محبت کی یادگار ہے۔ جو اچھی طرح پیدا ہونے سے پہلے ہی مر گئی۔۔۔۔۔۔‘‘

’’یہ آپ کی محبت کی یادگار ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد تو آپ نے اور بھی بہت سی رومان لڑائے ہوں گے۔ ‘‘

اُس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری‘‘

یعنی آپ کی زندگی میں تو کئی ایسی نامکمل اور مکمل محبتیں موجود ہوں گی۔ ‘‘

میں کہنے ہی والا تھا کہ جی نہیں خاکسار بھی محبت کے معاملے میں آپ جیسا بنجر ہے۔ مگر جانے کیوں یہ کہتا کہتا رک گیا۔ اور خواہ مخواہ جھوٹ بول دیا۔

’’جی ہاں۔۔۔۔۔ ایسے سلسلے ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ کی کتابِ زندگی بھی تو ایسے واقعات سے بھر پور ہو گی‘‘

وہ کچھ نہ بولا۔ اور بالکل خاموش ہو گیا۔ جیسے کسی گہرے سمندر میں غوطہ لگا گیا ہے۔ دیر تک جب وہ اپنے خیالات میں غرق رہا اور میں اس کی خاموشی سے اداس ہونے لگا۔ تو میں نے کہا۔

’’اجی حضرت! آپ کن خیالات میں کھو گئے؟‘‘

وہ چونک پڑا۔

’’میں۔۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں میں ایسے ہی کچھ سوچ رہا تھا‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کوئی بیتی کہانی یاد آ گئی۔ ۔۔۔۔۔۔ کوئی بچھڑا ہوا سپنا مل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ پرانے زخم ہرے ہو گئے۔ ‘‘

’’زخم۔۔۔۔۔ پرانے۔۔۔۔۔۔ زخم۔۔۔۔۔۔ کئی زخم نہیں۔۔۔۔۔ صرف ایک ہی ہے، بہت گہرا، بہت کاری۔۔۔۔۔ اور زخم میں چاہتا بھی نہیں۔ ایک ہی زخم کافی ہے‘‘

یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور میرے کمرے میں ٹہلنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیونکہ اُس چھوٹی سی جگہ میں جہاں کرسیاں، میز اور چارپائی سب کچھ پڑا تھا۔ ٹہلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میز کے پاس اُسے رکنا پڑا۔ تصویر کو اب کی دفعہ گہری نظروں سے دیکھا اور کہا‘‘

اس میں اور اس میں کتنی مشابہت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کے چہرے پر ایسی شوخی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں بڑی تھیں۔ مگر ان آنکھوں کی طرح ان میں شرارت نہیں تھی۔ وہ فکر مند آنکھیں تھی۔ ایسی آنکھیں جو دیکھتی بھی ہیں اور سمجھتی بھی ہیں‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک سرد آہ بھری اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ موت بالکل ناقابلِ فہم چیز ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب کہ یہ جوانی میں آئے۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے علاوہ ایک طاقت اور بھی ہے جو بڑی حاسد ہے۔ جو کسی کو خوش دیکھنا نہیں چاہتی۔۔۔۔۔۔ مگر چھوڑیے اس قصّے کو۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’نہیں نہیں، آپ سناتے جائیے۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ ایسا مناسب سمجھیں۔۔۔۔۔ سچ پوچھیے تو میں یہ سمجھ رہا تھا۔ کہ آپ نے کبھی محبت کی ہی نہ ہو گی۔ ‘‘

’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں نے کبھی محبت کی ہی نہیں اور ابھی ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ میری کتاب زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہو گی‘‘

یہ کہہ کر اُس نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا‘‘

میں نے اگر محبت نہیں کی تو یہ دکھ میرے دل میں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اگر محبت نہیں کی۔ تو میری زندگی کو یہ روگ کہاں سے چمٹ گیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں روز بروز موم کی طرح کیوں پگھلا جا رہا ہوں؟ بظاہر یہ تمام سوال وہ مجھ سے کر رہا تھا۔ مگر دراصل وہ سب کچھ اپنے آپ ہی سے پُوچھ رہا تھا۔ میں نے کہا۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ کہ آپ کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ہوں گے۔ مگر آپ نے بھی جھوٹ بولا تھا کہ میں اداس نہیں ہوں اور مجھے کوئی روگ نہیں ہے۔۔۔۔۔ کسی کے دل کا حال جاننا آسان بات نہیں ہے، آپ کی اُداسی کی اور بہت سی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ مگر جب تک مجھے آپ خود نہ بتائیں میں کسی نتیجے پر کیسے پہنچ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کو یقیناًبہت بڑا صدمہ پہنچا ہے اور۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔

’’ہمدردی۔۔۔۔۔‘‘

اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

’’مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہمدردی اُسے واپس نہیں لا سکتی۔۔۔۔۔ اس عورت کو موت کی گہرائیوں سے نکال کر میرے حوالے نہیں کر سکتی جس سے مجھے پیار تھا۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے محبت نہیں کی۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے، آپ نے محبت نہیں کی، اس لیے کہ اس کی ناکامی نے آپ پر کوئی داغ نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھیے‘‘

یہ کہہ کر اُس نے خود اپنے آپ کو دیکھا۔ ‘‘

کوئی جگہ آپ کو ایسی نہیں ملے گی۔ جہاں میری محبت کے نقش موجود نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔ میرا وجود خود اس محبت کی ٹوٹی ہوئی عمارت کا ملبہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو یہ داستان کیسے سناؤں اور کیوں سناؤں جب کہ آپ اسے سمجھ ہی نہیں سکیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کا یہ کہہ دینا کہ میری ماں مر گئی ہے۔ آپ کے دل پر وہ اثر پیدا نہیں کر سکتا۔ جو موت نے بیٹے پر کیا تھا۔۔۔۔۔ میری داستان محبت آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو بھی بالکل معمولی معلوم ہو گی۔ مگر مجھ پر جو اثر ہوا ہے۔ اس سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ محبت میں نے کی ہے۔ اور سب کچھ صرف مجھی پر گزرا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے حلق میں تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ کیونکہ وہ بار بار تھوک نگلنے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’کیا وہ آپ کو دھوکہ دے گئی‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔ ‘‘

یا کچھ اور حالات تھے؟‘‘

’’دھوکا۔۔۔۔۔۔۔ وہ دھوکا دے ہی نہیں سکتی تھی۔ خدا کے لیے دھوکا نہ کہیے۔ وہ عورت نہیں فرشتہ تھی۔ مگر بُرا ہوا اس موت کا جو ہمیں خوش نہ دیکھ سکی۔ اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنے پروں میں سمیٹ کر لے گئی۔۔۔۔۔۔ آہ!۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے میرے دل پر خراشیں پیدا کر دی ہیں۔ سُنیے۔۔۔۔ سُنیے، میں آپ کو درد ناک داستان کا کچھ حصّہ سناتا ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ ایک بڑے اور امیر گھیرانے کی لڑکی تھی جس زمانے میں اس کی اور میری پہلی ملاقات ہوئی۔ میں اپنے باپ دادا کی ساری جائیداد عیاشیوں میں برباد کر چکا تھا۔ میرے پاس ایک کوڑی بھی نہیں تھی۔ پھر بمبئی چھوڑ کر میں لکھنو چلا آیا۔ اپنی موٹر چونکہ میرے پاس ہُوا کرتی تھی۔ اس لیے میں صرف موٹر چلانے کا کام جانتا تھا۔ چنانچہ میں نے اسی کو اپنا پیشہ قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلی ملازمت مجھے ڈپٹی صاحب کے یہاں ملی۔ جن کی اکلوتی لڑکی تھی۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے وہ اپنے خیالات میں کھو گیا۔ اور دفعتہ خاموش رہا۔ میں بھی چپ ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھرچونکا اور کہنے لگا۔

’’میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘

’’آپ ڈپٹی صاحب کے یہاں ملازم ہو گئے۔ ‘‘

ہاں وہ انہی ڈپٹی صاحب کی اکلوتی لڑکی تھی ہر روز صبح نو بجے میں زہرہ کو موٹر میں سکول لے جایا کرتا تھا۔ وہ پردہ کرتی تھی مگر موٹر ڈرائیور سے کوئی کب تک چھپ سکتا ہے۔ میں نے اسے دوسرے روز ہی دیکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔ وہ صرف خوبصورت ہی نہیں تھی۔ اس میں ایک خاص بات بھی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بڑی سنجیدہ اور متین لڑکی تھی۔ اس کی سیدھی مانگ نے اس کے چہرے پر ایک خاص قسم کا وقار پیدا کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔ میں کیا عرض کروں وہ کیا تھی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس کی صورت اور سیرت بیان کر سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

بہت دیر تک وہ اپنی زہرہ کی خوبیاں بیان کرتا رہا۔ اس دوران میں اس نے کئی مرتبہ اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خیالات اس کے دماغ میں ضرورت سے زیادہ جمع ہو گئے ہیں۔ کبھی کبھی بات کرتے کرتے اُس کا چہرہ تمتما اٹھتا۔ لیکن پھر اداسی چھا جاتی۔ اور وہ آہوں میں گفتگو کرنا شروع کر دیتا وہ اپنی داستان بہت آہستہ آہستہ سنا رہا تھا۔ جیسے خود بھی مزا لے رہا ہو۔ ایک ایک ٹکڑا جوڑ کر اس نے ساری کہانی پوری کی جس کا ماحصل یہ تھا۔ زہرہ سے اسے بے پناہ محبت ہو گئی۔ کچھ دن تو موقع پا کر اس کا دیدار کرنے اور طرح طرح کے منصوبے باندھنے میں گزر گئے۔ مگر جب اس نے سنجیدگی سے اس محبت پر غور کیا۔ تو خود کو زہرہ سے بہت دُور پایا۔ ایک موٹر ڈرائیور اپنے آقا کی لڑکی سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔ ؟ چنانچہ جب اُس تلخ حقیقت کا احساس اس کے دل میں پیدا ہوا تو وہ مغموم رہنے لگا۔ لیکن ایک دِن اس نے بڑی جرات سے کام لیا کاغذ کے ایک پُرزے پر اُس نے زہرہ کو چند سطریں لکھیں۔۔۔۔۔۔ یہ سطریں مجھے یاد ہیں۔

’’زہرہ! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارا نوکر ہوں! تمہارے والد صاحب مجھے تیس روپے ماہوار دیتے ہیں۔ مگر میں تم سے محبت کرتا ہُوں۔۔۔۔۔ میں کیا کروں، کیا نہ کروں، میری سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ سطریں کاغذ پر لکھ کر اس نے کاغذ اس کی کتاب میں رکھ دیا۔ دوسرے روز جب وہ اُسے موٹر میں اسکول لے گیا۔ تو اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ہینڈل کئی بار اس کی گرفت سے نکل نکل گیا۔ مگر خدا کا شکر ہے۔ کہ کوئی ایکسی ڈنٹ نہ ہُوا۔ اس روز اس کی کیفیت عجیب رہی۔ شام کو جب وہ زہرہ کو اسکول سے واپس لا رہا تھا۔ تو راستے میں اس لڑکی نے موٹر روکنے کے لیے کہا۔ اُس نے جب موٹر روک لی۔ تو زہرہ نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا‘‘

دیکھو نعیم آئندہ تم ایسی حرکت کبھی نہ کرنا۔ میں نے ابھی تک ابّا جی سے تمہارے اُس خط کا ذکر نہیں کیا۔ جو تم نے میرے کتاب میں رکھ دیا تھا۔ لیکن اگر پھر تم نے ایسی حرکت کی۔ تو مجبوراً اُن سے شکایت کرنا پڑے گی۔ سمجھے۔۔۔۔۔ چلو اب موٹر چلاؤ۔ ‘‘

اس گفتگو کے بعد اُس نے بہت کوشش کی کہ ڈپٹی صاحب کی نوکری چھوڑ دے اور زہرہ کی محبت کو اپنے دل سے ہمیشہ کے لیے مٹا دے۔ مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک مہینہ اسی کشمکش میں گزر گیا۔ ایک روز اس نے پھر جرأت سے کام لے کر خط لکھا اور زہرہ کی ایک کتاب میں رکھ کر اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرنے لگا۔ اُسے یقین تھا کہ دوسرے روز صبح کو اُسے نوکری سے برطرف کر دیا جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ شام کو اسکول سے واپس آتے ہُوئے زہرہ اس سے ہم کلام ہُوئی ایک بار پھر اُس کو ایسی حرکتوں سے باز رہنے کے لیے کہا۔

’’اگر تمہیں اپنی عزت کا خیال نہیں تو کم از کم میری عزت کا تو کچھ خیال تمہیں ہونا چاہیے‘‘

یہ اس نے ایک بار پھراُسے کچھ سنجیدگی اور متانت سے کہا۔ کہ نعیم کی ساری امیدیں فنا ہو گئیں۔ اور اس نے قصد کر لیا کہ وہ نوکری چھوڑ دے گا۔ اور لکھنؤ سے ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا۔ مہینے کے اخیر میں نوکری چھوڑنے سے پہلے اُس نے اپنی کوٹھڑی میں لالٹین کی مدھم روشنی میں زہرہ کو آخری خط لکھا۔ اس میں اُس نے نہایت درد بھرے لہجے میں اس سے کہا۔

’’زہرہ! میں نے بہت کوشش کی کہ میں تمہارے کہے پر عمل کر سکوں مگر دل پر میرا اختیار نہیں ہے۔ یہ میرا آخری خط ہے۔ کل شام کو میں لکھنؤ چھوڑ دوں گا۔ اس لیے تمہیں اپنے والد صاحب سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری خاموشی میری قسمت کا فیصلہ کر دے گی۔ مگر یہ خیال نہ کرنا کہ تم سے دُور رہ کر تم سے محبت نہیں کروں گا۔ میں جہاں کہیں بھی رہوں گا۔ میرا دل تمہارے قدموں میں ہو گا۔۔۔۔ میں ہمیشہ اُن دنوں کو یاد کرتا رہوں گا۔ جب میں موٹر آہستہ آہستہ چلاتا تھا کہ تمہیں دھکا نہ لگے۔۔۔۔۔ میں اس کے سوا اور تمہارے لیے کر ہی کیا سکتا تھا۔۔۔۔۔‘‘

یہ خط بھی اُس نے موقع پاکر اُس کتاب میں رکھ دیا۔ صبح کو زہرہ نے اسکول جاتے ہوئے اُس سے کوئی بات نہ کی۔ اور شام کو بھی راستے میں اُس نے کچھ نہ کہا۔ چنانچہ وہ بالکل نا امید ہو کر اپنی کوٹھڑی میں چلا آیا۔ جو تھوڑا بہت اسباب اس کے پاس تھا باندھ کر اُس نے ایک طرف رکھ دیا۔ اور لالٹین کی اندھی روشنی میں چارپائی پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔ کہ زہرہ اور اس کے درمیان کتنا بڑا فاصلہ ہے۔ وہ بے حد مغموم تھا۔ اپنی پوزیشن سے اچھی طرح واقف تھا۔ اُسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ ایک ادنیٰ درجے کا ملازم ہے اور اپنے آقا کی لڑکی سے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بے اختیار ا س سے محبت کرتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے اور پھر اس کی محبت فریب تو نہیں۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ آدھی رات کے قریب اس کی کوٹھڑی کے دروازے پر دستک ہُوئی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ لیکن پھر اُس نے خیال کیا۔ کہ مالی ہو گا ممکن ہے اس کے گھر میں کوئی ایکا ایکی بیمار پڑ گیا ہو۔ اور وہ اس سے مدد لینے کے لیے آیا ہو۔ لیکن جب اُس نے دروازہ کھولا تو زہرہ سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ جی ہاں زہرہ۔۔۔۔۔۔ دسمبر کی سردی میں شال کے بغیر وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس کی زبان گنگ ہو گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کیا کہے، چند لمحات قبر کی سی خاموشی میں گزر گئے۔ آخر زہرہ کے ہونٹ وا ہُوئے اور تھرتھراتے ہوئے لہجے میں اُس نے کہا۔

’’نعیم میں تمہارے پاس آ گئی ہوں۔ بتاؤ اب تم کیا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ لیکن اس سے پہلے کہ تمہاری اس کوٹھڑی میں داخل ہوں۔ میں تم سے چند سوال کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

نعیم خاموش رہا۔ لیکن زہرہ اس سے پوچھنے لگی۔

’’کیا واقعی تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘

نعیم کو جیسے ٹھیس سی لگی۔ اس کا چہرہ تمتما اُٹھا۔

’’زہرہ تم نے ایسا سوال کیا ہے جس کا جواب اگر میں دوں تو میری محبت کی توہین ہو گی۔۔۔۔۔۔ میں تم سے پوچھتا ہوں۔ ‘‘

کیا میں محبت نہیں کرتا؟‘‘

زہرہ نے اس سوال کا جواب نہ دیا۔ اور تھوڑی دیر خاموش رہ کر اپنا دوسرا سوال

’’میرے باپ کے پاس دولت ہے، مگر میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں، جو کچھ میرا کہا جاتا ہے میرا نہیں ہے، ان کا ہے۔ کیا تم مجھے دولت کے بغیر بھی ویسا ہی عزیز سمجھو گے؟‘‘

نعیم بہت جذباتی آدمی تھا۔ چنانچہ اس سوال نے بھی اُس کے وقار کو زخمی کیا بڑے دُکھ بھرے لہجے میں اُس نے زہرہ سے کہا۔

’’زہرہ خدا کے لیے مجھ سے ایسی باتیں نہ پوچھو جن کا جواب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ تمہیں تھرڈ کلاس عشقیہ ناولوں میں بھی مل سکتا ہے‘‘

زہرہ اس کی کوٹھڑی میں داخل ہو گئی۔ اور اس کی چارپائی پر بیٹھ کر کہنے لگی۔

’’میں تمہاری ہوں اور ہمیشہ تمہاری رہوں گی۔ ‘‘

زہرہ نے اپنا قول پورا کیا جب دونوں لکھنو چھوڑ کر دہلی چلے آئے اور شادی کرکے ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے لگے۔ تو ڈپٹی صاحب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچ گئے۔ نعیم کو نوکری مل گئی تھی۔ اس لیے وہ گھر میں نہیں تھا۔ ڈپٹی صاحب نے زہرہ کو بہت بُرا بھلا کہا۔ ان کی ساری عزت خاک میں مل گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ زہرہ نعیم کو چھوڑ دے اور جو کچھ ہو چکا ہے اسے بھولا جائے۔ وہ نعیم کو دو تین ہزار روپیہ دینے کے لیے بھی تیار تھے۔ مگر انھیں ناکام لوٹنا پڑا۔ اس لیے کہ زہرہ نعیم کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے اپنے باپ سے کہا۔

’’ابّا جی! میں نعیم (کے) ساتھ بہت خوش ہوں۔ آپ اس سے اچھا شوہر میرے لیے کبھی تلاش نہیں کر سکتے۔ میں اور وہ آپ سے کچھ نہیں مانگتے۔ اگر آپ ہمیں دعائیں دے سکیں۔ تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ ‘‘

ڈپٹی صاحب نے جب یہ گفتگو سُنی تو بہت خشم آلود ہُوئے۔ انھوں نے نعیم کو قید کرا دینے کی دھمکی بھی دی مگر زہرہ نے صاف صاف کہہ دیا۔ ابّا جی! اس میں نعیم کا کیا قصور ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں بے قصور ہیں۔ البتہ ہم ایک دوسرے سے محبت ضرور کرتے ہیں اور وہ میرا شوہر ہے۔۔۔۔ یہ کوئی قصور نہیں ہے میں نابالغ نہیں ہوں۔ ‘‘

ڈپٹی صاحب عقلمند تھے، فوراً سمجھ گئے کہ جب ان کی بیٹی ہی رضامند ہے تو نعیم پر کیسے جُرم عائد ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ زہرہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد ڈپٹی صاحب نے مختلف لوگوں کے ذریعے سے نعیم پر دباؤ ڈالنے اور اس کو روپے پیسے سے لالچ دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ دونوں کی زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی۔ گو نعیم کی آمدن بہت ہی کم تھی۔ اور زہرہ کو جو نازونعم میں پلی تھی۔ بدن پر کھُردرے کپڑے پہننے پڑتے تھے۔ اور اپنے ہاتھ سے سب کام کرنے پڑتے تھے۔ مگر وہ خوش تھی۔ اور خود کو ایک نئی دنیا میں پاتی تھی۔ وہ بہت سکھی تھی۔۔۔۔۔۔ بہت سکھی۔ نعیم بھی بہت خوش تھا۔ لیکن ایک روز خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ زہرہ کے سینے میں موذی درد اٹھا اور پیشتر اس کے کہ نعیم اس کے لیے کچھ کر سکے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی اور نعیم کی دنیا ہمیشہ کے لیے تاریک ہو گئی۔ یہ داستان اُس نے رُک رُک کر اور خود مزے لے لے کر قریباً چار گھنٹوں میں سنائی۔ جب وہ اپنا حال دل سنا چکا۔ تو اس کا چہرہ بجائے زرد ہونے کے تمتما اُٹھا جیسے اُس کے اندر آہستہ آہستہ کسی نے خون داخل کر دیا ہے۔ لیکن اس کی آنکھوں میں آنسوتھے اور اس کا حلق سوکھ گیا تھا۔ داستان جب ختم ہوئی۔ تو وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ جیسے اسے بہت جلدی ہے اور کہنے لگا۔

’’میں نے بہت غلطی کی۔۔۔۔۔۔ جو آپ کو اپنی داستانِ محبت سنا دی۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت غلطی کی۔۔۔۔۔۔۔ زہرہ کا ذکر صرف مجھی تک محدود رہنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ اُس کی آواز بھرّا گئی۔۔۔۔۔ میں زندہ ہُوں اور وہ۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور جلدی سے میرا ہاتھ دبا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ نعیم سے پھر میری ملاقات نہ ہوئی۔ اپولوبندر پر کئی مرتبہ اس کی تلاش میں گیا۔ مگر وہ نہ ملا چھ یا سات مہینے کے بعد اُس کا ایک خط مجھے ملا۔ جو میں یہاں پر نقل کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ صاحب! آپ کو یاد ہو گا۔ میں نے آپ کے مکان پر اپنی داستانِ محبت سنائی تھی۔ وہ محض فسانہ تھا۔ ایک جھوٹا فسانہ کوئی زہرہ ہے نہ نعیم۔۔۔۔۔ میں ویسے موجود تو ہوں مگر وہ نعیم نہیں ہوں جس نے زہرہ سے محبت کی تھی۔ آپ نے ایک بار کہا تھا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو محبت کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں۔ میں بھی ان بدقسمت آدمیوں میں سے ایک ہُوں جس کی ساری جوانی اپنا دل پرچانے میں گزرگئی۔ زہرہ سے نعیم کی محبت ایک دلی بہلاوا تھا اور زہرہ کی موت۔۔۔۔۔ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔ کہ میں نے اسے کیوں مار دیا۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں بھی میری زندگی کی سیاہی کا دخل ہو۔ مجھے معلوم نہیں۔ آپ نے میرے افسانے کو جھوٹا سمجھا یا سچا لیکن میں آپ کو ایک عجیب و غریب بات بتاتا ہوں کہ میں نے۔۔۔۔۔ یعنی اُس جھوٹے افسانے کے خالق نے اس کو بالکل سچا سمجھا۔ سو فیصدی حقیقت پر مبنی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے واقعی زہرہ سے محبت کی ہے۔ اور وہ سچ مچ مر چکی ہے۔ آپ کو یہ سُن کر اور بھی تعجب ہو گا کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ اُس افسانے کے اندر حقیقت کا عنصر زیادہ ہوتا گیا۔ اور زہرہ کی آواز، اُس کی ہنسی بھی میرے کانوں میں گونجنے لگی۔ میں اُس کے سانس کی گرمی تک محسوس کرنے لگا۔ افسانے کا ہر ذرہ جاندار ہو گیااور میں نے۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے یوں اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودی۔۔۔۔۔ زہرہ فسانہ نہ سہی مگر میں تو فسانہ ہوں۔ وہ مر چکی ہے۔ اس لیے مجھے بھی مر جانا چاہیے۔ یہ خط آپ کو میری موت کے بعد ملے گا۔۔۔۔۔۔۔ الوداع۔۔۔۔۔۔ زہرہ مجھے ضرور ملے گی۔۔۔۔۔ کہاں!۔۔۔۔۔۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے یہ چند سطور صرف اس لیے آپ کو لکھ دیے ہیں کہ آپ افسانہ نگار ہیں اگر اس سے آپ افسانہ تیار کر لیں تو آپ کو سات آٹھ روپے مل جائیں گے۔ کیونکہ ایک مرتبہ آپ نے کہا تھا کہ افسانے کا معاوضہ آپ کو سات سے دس روپے تک مل جایا کرتا ہے۔ یہ میرا تحفہ ہو گا۔ اچھا الوداع۔ ‘‘

آپ کا ملاقاتی۔

’’نعیم‘‘

نعیم نے اپنے لیے زہرہ بنائی اور مر گیا۔۔۔۔۔ میں نے اپنے لیے یہ افسانہ تخلیق کیا ہے اور زندہ ہوں۔۔۔۔۔ یہ میری زیادتی ہے۔

سعادت حسن منٹو

باسط

باسط بالکل رضا مند نہیں تھا، لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی۔ اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی، اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ بہت دیر تک ٹالتا رہا۔ جتنے بہانے بنا سکتا تھا۔ اس نے بنائے، لیکن آخر ایک روز اُس کو ماں کی اٹل خواہش کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ دراصل انکار کرتے کرتے وہ بھی تنگ آگیا تھا۔ چنانچہ اس نے دل میں سوچا۔

’’یہ بک بک ختم ہی ہو جائے تو اچھا ہے ہونے دو شادی۔ کوئی قیامت تو نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ میں نبھالوں گا۔ ‘‘

اس کی ماں بہت خوش ہوئی۔ لڑکی والے اس کے عزیز تھے اور وہ عرصہ ہوا اُن کو زبان دے چکی تھی۔ جب باسط نے ہاں کی تو وہ تاریخ۔ پکی کرنے کے لیے لڑکی والوں کے ہاں گئی۔ انھوں نے ٹال مٹول کی تو باسط کی ماں کو بہت غصہ آیا۔ سعیدہ کی ماں، میں نے اتنی مشکلوں سے باسط کو رضا مند کیا ہے، اب تم تاریخ پکی نہیں کررہی ہو۔ شادی ہو گی تو اسی مہینے کی بیس کو ہو گی۔ نہیں تو نہیں ہو گی۔ اور یہ بات سولہ آنے پکی ہے۔ سمجھ لیا۔ ‘‘

دھمکی نے کام کیا۔ لڑکی کی ماں بالآخر راضی ہو گئی۔ سب تیاریاں مکمل ہوئیں۔ بیس کو دلہن گھر میں تھی۔ باسط کو گو وہ پسند نہیں تھی، لیکن وہ اس کے ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر چکا تھا، چنانچہ وہ اس سے بڑی محبت سے پیش آیا۔ اس پر بالکل ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یہ کہ وہ زبردستی اس کے سر منڈھ دی گئی ہے۔ نئی دلہنیں عام طور پر بہت شرمیلی ہوتی ہیں لیکن باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ ضرورت سے زیادہ شرمیلی ہے۔ اس کے اس شرمیلے پن میں کچھ خوف بھی تھا جیسے وہ باسط سے ڈرتی ہے۔ شروع شروع میں باسط نے سوچا کہ یہ چیز دور ہو جائیگی مگر وہ بڑھتی ہی گئی۔ باسط نے اس کو چند روز کے لیے میکے بھیج دیا۔ واپس آئی تو اس کا خوف آلود شرمیلا پن ایک حد تک دور ہو چکا تھا۔ باسط نے سوچا ایک دو مرتبہ اور میکے جائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔ مگر اس کا یہ قیاس غلط نکلا۔ سعیدہ پھر خوف زدہ رہنے لگی۔ باسط نے ایک روز اس سے پوچھا۔

’’سعیدہ تم ڈری ڈری کیوں رہتی؟‘‘

سعیدہ یہ سن کر چونکی۔

’’نہیں تو۔ نہیں تو‘‘

باسط نے اس سے بڑے پیار بھرے لہجے میں کہا۔

’’آخر بات کیا ہے۔ خدا کی قسم مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے۔ کس بات کا ڈر ہے تمہیں۔ میری ماں اتنی اچھی ہے۔ وہ تم سے ساسوں کا سا سلوک نہیں کرتی۔ میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں۔ پھر تم ایسی صورت کیوں بنائے رکھتی ہو کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں یہ خوف ہے کہ کوئی تمہیں پیٹے گا۔

’’یہ کہہ کراس نے سعیدہ کا منہ چوما۔ ‘‘

سعیدہ خاموش رہی۔ اس کی آنکھیں البتہ اور زیادہ خوف زدہ ہو گئیں۔ باسط نے اس کو اور پیار کیا اور کہا۔

’’تمہیں ہر وقت ہنستی رہنا چاہیے۔ لو، اب ذرا ہنسو۔ ہنسو میری جان۔ ‘‘

سعیدہ نے ہنسنے کی کوشش کی۔ باسط نے پیار سے اس کو تھپکی دی۔

’’شاباش!۔ اسی طرح مسکراتا چہرہ ہونا چاہیے ہر وقت! باسط کی یہ محبت ظاہر ہے کہ بالکل مصنوعی تھی، کیونکہ سعیدہ کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی، لیکن وہ صرف اپنی ماں کی خاطر چاہتا تھا کہ سعیدہ سے اس کا رشتہ ناکام ثابت نہ ہو۔ اس کی ماں اپنی شکست کبھی برداشت نہ کرسکتی۔ اس نے اپنی زندگی میں شکست کا منہ دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس لیے باسط کی انتہائی کوشش یہی تھی کہ سعیدہ سے اس کی نبھ جائے، چنانچہ اپنے دل میں سعیدہ کے لیے اس نے بڑے خلوص کے ساتھ مصنوعی محبت پیدا کرلی تھی۔ اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا تھا۔ اپنی ماں سے سعیدہ کی چھوٹی سی بات کی بھی تعریف کرتا تھا۔ جب وہ یہ محسوس کرتا کہ اس کی ماں بہت مطمئن ہے، اس بات سے مطمئن ہے کہ اس نے باسط کا رشتہ ٹھیک جگہ ہے تو اس کو دلی خوشی ہوتی۔ شادی کو ایک مہینہ ہو گیا۔ اس دوران میں سعیدہ کئی مرتبہ میکے گئے۔ باسط کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یوں اس کا خوف آلود شرمیلا پن دور ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ یہ دن بہ دن بڑھتا چلا جارہا تھا۔ اب تو سعیدہ وحشت زدہ دکھائی دیتی تھی۔ باسط حیران تھا کہ بات کیا ہے۔ اس کے بارے میں اس نے ماں سے کوئی بات نہ کی اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس کو ڈانٹ پلاتیں۔

’’بکواس نہ کرو۔ مجھے معلوم تھا تم ضرور ایک روز اس میں کیڑے ڈالو گے۔ ‘‘

باسط نے سعیدہ ہی سے کہا۔

’’میری جان، تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو۔ ‘‘

سعیدہ چونک اٹھی۔

’’جی؟‘‘

اس کے چونکنے پر باسط نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے سعیدہ کی کسی دکھتی رگ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ لہجے میں اورزیادہ پیار بھر کے اس نے کہا۔

’’میں نے پوچھا تھا کہ اب تم اور زیادہ خوف زدہ رہنے لگی ہو۔ آخر بات کیا ہے۔ ‘‘

سعیدہ نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا۔

’’بات تو کچھ بھی نہیں۔ میں ذرا بیمار ہوں۔ ‘‘

’’کیا بیماری ہے۔ تم نے مجھ سے کبھی ذکرہی نہیں کیا۔ ‘‘

سعیدہ نے دوپٹے کے کنارے کو انگلی پر لپیٹتے ہوئے جواب دیا۔

’’امی جان علاج کرا رہی ہے میرا۔ جلدی ٹھیک ہو جاؤں گی۔ ‘‘

باسط نے سعیدہ سے اور زیادہ دلچسپی لینا شروع کی تو اس نے دیکھا کہ وہ ہر روز چھپ کر کوئی دوا کھاتی ہے۔ ایک دن جب کہ وہ اپنے قفل لگے ٹرنک سے دوا نکال کر کھانے والی تھی۔ وہ اس کے پاس پہنچ گیا۔ وہ زور سے چونکی۔ سفوف کی کھلی ہوئی پڑیا اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ باسط نے اس سے پوچھا۔

’’یہ دوا کھاتی ہو۔ ‘‘

سعیدہ نے تھوک نگل کر جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ امی جان نے حکیم صاحب سے منگوائی تھی۔ ‘‘

’’کچھ افاقہ ہے اس سے۔ ‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’تو کھاؤ۔ اگر آرام نہ آئے تو مجھ سے کہنا۔ میں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا۔ ‘‘

سعیدہ نے پڑیا فرش پر سے اٹھائی اور سرہلاکر کہا۔

’’جی اچھا۔ ‘‘

باسط چلا گیا، اس نے سوچا۔

’’اچھا ہے، کوئی علاج تو ہورہا ہے۔ خدا کرے اچھی ہو جائے۔ میرا خیال ہے یہ ڈر ور کچھ نہیں۔ بیماری ہے۔ دور ہو جائیگی انشاء اللہ!‘‘

اس نے سعیدہ کی اس بیماری کا اپنی ماں سے پہلی بار ذکر کیا تو کہنے لگی۔

’’بکواس ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے اچھی بھلی ہے۔ کیا بیماری ہے اسے؟‘‘

باسط نے کہا۔

’’مجھے کیا معلوم امی جان؟۔ یہ تو سعیدہ ہی بتا سکتی ہے آپ کو۔ ‘‘

باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا۔

’’میں پوچھوں گی اس سے‘‘

۔ جب سعیدہ سے دریافت کیا تو اس نے جواب دیا۔

’’کچھ نہیں خالہ جان، سر میں درد رہتا تھا۔ امی جان نے حکیم صاحب سے دوا منگا دی تھی۔ اصل میں باسط صاحب بڑے وہمی ہیں۔ ہر وقت کہتے رہتے ہیں تم ڈری ڈری سی دکھائی دیتی ہو۔ مجھے ڈر کس بات کاہو گا بھلا۔ ‘‘

باسط کی ماں نے کہا۔

’’بکواس کرتا ہے۔ تم اس کی فضول باتوں کا خیال نہ کرو۔ ‘‘

چند روز کے بعد باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ بہت ہی زیادہ گھبرائی ہوئی ہے۔ اس کا اضطراب اس کے روئیں روئیں سے ظاہر ہوتا تھا۔ شام کے قریب اس نے باسط سے کہا۔

’’امی جان سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ مجھے وہاں چھوڑ آئیے۔ ‘‘

باسط نے جوا ب دیا۔

’’نہیں سعیدہ۔ آج تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ ‘‘

سعیدہ نے اصرار کیا۔

’’آپ مجھے وہاں چھوڑ آئیے۔ ٹھیک ہو جاؤں گی۔ ‘‘

باسط نے انکار کردیا۔

’’و ہاں طبیعت ٹھیک ہوسکتی ہے تو یہاں بھی ٹھیک ہوسکتی ہے۔ جاؤ آرام سے لیٹ جاؤ۔ ‘‘

باسط کی ماں آگئی۔ باسط نے اس سے کہا۔

’’امی جان، دیکھیے سعیدہ ضد کررہی ہے طبیعت اس کی ٹھیک نہیں، کہتی ہے مجھے امی جان کے پاس لے چلو۔ ‘‘

باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا۔

’’کل چلی جانا سعیدہ۔ ‘‘

سعیدہ نے اور کچھ نہ کہا۔ خاموش ہو کر باہر صحن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد باسط باہر نکلا۔ سعیدہ صحن میں نہیں تھی۔ اس نے اِدھر اُدھرتلاش کیا۔ مگر وہ نہ ملی۔ باسط نے سوچا اوپر کوٹھے پر ہو گی۔ اوپر گیا تو غسل خانے کا دروازہ بند تھا۔ کھٹکھٹا کر اس نے آواز دی۔

’’سعیدہ!‘‘

کوئی جواب نہ ملا تو پھر پکارا۔

’’سعیدہ!‘‘

اندرسے بڑی نحیف آواز آئی۔

’’جی!‘‘

باسط نے پوچھا۔

’’کیا کررہی ہو۔ ‘‘

اور زیادہ نحیف آواز آئی۔

’’نہا رہی ہوں۔ ‘‘

باسط نیچے آگیا۔ سعیدہ کے بارے میں سوچتا سوچتا باہر گلی میں نکلا۔ موری کی طرف نظر پڑی تو اس میں خون ہی خون تھا اور یہ خون اس غسل خانے سے آرہا تھا۔ جس میں سعیدہ نہا رہی تھی۔ باسط کے ذہن میں تلے اوپر کئی خیالات اوندھے سیدھے گرے۔ پھر یہ گردان شروع ہو گئی۔

’’دوا۔ خون۔ خون۔ دوا۔ ڈر۔ دوا۔ خون۔ ڈر!‘‘

پھر اس نے آہستہ آہستہ سوچنا شروع کیا۔ سعیدہ کی ماں شادی کی تاریخ کی پکی نہیں کرتی تھی۔ اس نے کہا تھا ایک دو مہینے ٹھہر جاؤ۔ سعیدہ کا بار بار اپنی ماں سے ملنے جانا۔ اس کا ہر وقت خوفزدہ رہنا۔ دوا کھانا۔ اور خاص طور پر آج بہت ہی زیادہ وحشت زدہ رہنا۔ باسط سارا معاملہ سمجھ گیا۔ سعیدہ پیٹ سے تھی۔ جب وہ دلہن بن کر اس کے پاس آئی تھی۔ اس کی ماں کی یہ کوشش تھی کہ حمل گر جائے۔ چنانچہ آج وہ چیز ہو گئی۔ باسط نے سوچا۔

’’کیا میں اوپر جاؤں۔ جا کر سعیدہ کو دیکھوں۔ اپنی ماں سے بات کرو۔ ‘‘

ماں کا سوچا تواس کو خیال آیا کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکے گی۔ وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ذلیل ہونا کبھی گوارا نہیں کرے گی۔ ضرور کچھ کھا کر مر جائے گی۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ اپنے کمرے میں گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کئی بار اس کو سعیدہ کا خیال آیا کہ وہ خدا معلوم کس حالت میں ہو گی۔ اس کے جسم پر، اس کے دل و دماغ پر کیا کچھ بیتا ہو گیا اور کیا بیت رہا ہو گا۔ کیسے اتنا بڑا راز چھپائے گی۔ کیا لوگ پہچان نہیں جائیں گے۔ جوں جوں وہ سعیدہ کے بارے میں سوچتا اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ بڑھتا جاتا۔ اس کو سعیدہ پر ترس آنے لگا۔

’’بے چاری، معلوم نہیں بے ہوش پڑی ہے یا ہوش میں ہے۔ ہوش میں بھی اس پر جانے کیا گزر رہی ہو گی۔ کیا وہ نیچے آسکے گی؟‘‘

تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ کر صحن میں گیا تو سعیدہ نیچے آئی۔ اس کا رنگ بے حد زرد تھا، اتنا زرد کہ وہ بالکل مردہ معلوم ہوتی تھی۔ اس سے بمشکل چلا جاتا تھا۔ ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ کمر میں جیسے جان ہی نہیں تھی۔ باسط نے اس کو دیکھا تو اس پر بہت نرس آیا۔ اندر سے برقع اٹھایا اور اس سے کہا۔

’’چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔ ‘‘

سعیدہ نے بہت ہمت سے کام لیا۔ باسط کے ساتھ چل کر باہر سڑک تک گئی باسط نے ٹانگہ لیا اور اس کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا۔ ماں نے اس سے پوچھا۔

’’سعیدہ کہاں ہے؟‘‘

باسط نے جواب دیا۔

’’ضد کرتی تھی۔ میں اسے چھوڑ آیا ہوں۔ ‘‘

باسط کی ماں نے اس کو ڈانٹا۔

’’بکواس کرتے ہو۔ ضد کرنے دی ہو تی۔ تم اسی طرح اس کی عادتیں خراب کرو گے اور پھر مجھ سے کہو کہ میں نے غلط جگہ تمہارا رشتہ کیا تھا۔ ‘‘

باسط نے کہا۔

’’نہیں امی جان۔ سعیدہ بڑی اچھی لڑکی ہے۔ ‘‘

اس کی ماں مسکرائی۔

’’میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ وہ بہت نیک لڑکی ہے تم اسے ضرور پسند کرو گے۔ ‘‘

پھر تھوڑی دیر چھالیا کاٹنے کے بعد ایک دم باسط سے مخاطب ہوئی۔

’’اور ہاں باسط یہ اوپر غسل خانے میں خون کیسا تھا۔ ‘‘

باسط سٹپٹا سا گیا۔

’’وہ۔ کچھ نہیں امی جان۔ میری نکسیر پھوٹی تھی۔ ‘‘

ماں نے بڑے غصے کے ساتھ کہا۔

’’کم بخت گرم چیزیں نہ کھایا کرو۔ جب دیکھو جیبیں مونگ پھلی سے بھری ہیں۔ ‘‘

باسط کچھ دیر اپنی ماں کے ساتھ باتیں کرتارہا۔ وہ اٹھ کر کہیں گئی تو باسط اوپر غسل خانے میں گیا۔ پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح صاف کیا۔ اس کے دل کو اس بات کا بڑا اطمینان تھا کہ اس نے اپنی ماں سے سعیدہ کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ اس نے سعیدہ پر یہ ظاہر ہونے دیا کہ وہ اس کا راز جانتا ہے۔ وہ دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ سعیدہ کا راز ہمیشہ اس کے سینے میں دفن رہیگا۔ وہ کافی تکلیف اٹھا چکی تھی۔ باسط کے خیال کے مطابق اس کو اپنے کیے کی سزا مل چکی تھی۔ مزید سزا دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔

’’خدا کرے وہ جلد تندرست ہوجائے۔ اب اس کے چہرے پر وہ الجھن پیدا کرنے والا خوف نہیں رہے گا۔ ‘‘

وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نیچے اس کی ماں کی چیخ کی آواز آئی۔ باسط لوٹا رکھ کر دوڑا نیچے گیا۔ سب کمرے دیکھے۔ ڈیوڑھی میں گیا تو اس کی ماں فرش پر اوندھی پڑ تھی، مردہ۔ اس کے سامنے کوڑے والے لکڑی کے بکس میں ایک چھوٹا بہت ہی چھوٹا سا نامکمل بچہ کپڑے میں لپٹا پڑا تھا۔ باسط کو بے حد صدمہ ہوا۔ اس نے پہلے اس بچے کو اٹھایا۔ کپڑے میں اچھی طرح لپیٹا اور اندر جا کر بوٹ کے خالی ڈبے میں بند کردیا۔ پھر ماں کو اٹھا کر اندر چارپائی پر لٹایا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر دیر تک روتا رہا۔ سعیدہ کو اطلاع پہنچی تو اس کو اپنی ماں کے ساتھ آنا پڑا۔ وہ اسی طرح زرد تھی۔ پہلے سے زیادہ نڈھال۔ باسط کو بہت ترس آیا۔ اس سے کہا۔

’’سعیدہ جو اللہ کو منظور ہو گیا۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ رونا بند کرو اور جاؤ اندر لیٹ جاؤ۔ ‘‘

اندر جانے کے بجائے سعیدہ ڈیوڑھی میں گئی۔ جب واپس آئی تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ باسط خاموش رہا۔ سعیدہ نے اس کی طرف دیکھا، اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ آنسو صاف بتا رہے تھے کہ وہ باسط کا شکریہ ادا کررہی ہے۔ باسط نے اس سے بڑے پیار سے کہا۔

’’زیادہ رونا اچھا نہیں سعیدہ۔ جو خدا کو منظور تھا ہو گیا۔ ‘‘

دوسرے رز اس نے بچے کو نہر کے کنارے گڑھا کھود کردفنا دیا۔ 29جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

بارش

موسلا دھار بارش ہورہی تھی اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھا جل تھل دیکھ رہا تھا۔ باہر بہت بڑا لان تھا، جس میں دو درخت تھے۔ ان کے سبز پتے بارش میں نہا رہے تھے۔ اُس کو محسوس ہوا کہ وہ پانی کی اس یورش سے خوش ہوکر ناچ رہے ہیں۔ ادھر ٹیلی فون کا ایک کھمبا گڑا تھا۔ اُس کے فلیٹ کے عین سامنے۔ یہ بھی بڑا مسرور نظر آتا تھا، حالانکہ اس کی مسرت کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس بے جان شے کو بھلا مسرور کیا ہونا تھا‘ لیکن تنویر نے جوکہ بہت مغموم تھا، یہی محسوس کیا کہ اُس کے آس پاس جو بھی شے ہے، خوشی سے ناچ گارہی ہے۔ ساون گزر چکا تھا اور باران رحمت نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں نے مسجدوں میں اکٹھے ہوکر دعائیں مانگیں۔ مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بادل آتے اور جاتے رہے، مگر اُن کے تھنوں سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ ٹپکا۔ آخر ایک دن اچانک کالے کالے بادل آسمان پرگِھر آئے اور چھاجوں پانی برسنے لگا۔ تنویر کو بادلوں اور بارشوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اُس کی زندگی چٹیل میدان بن چکی تھی جس کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ بھی کسی نے نہ ٹپکایا ہو۔ دوبرس پہلے، اُس نے ایک لڑکی سے جس کا نام ثریا تھا، محبت کرنا شروع کی۔ مگر یکطرفہ محبت تھی۔ ثریا نے اُسے درخورِاعتنا ہی نہ سمجھا۔ ساون کے دن تھے، بارش ہورہی تھی۔ وہ اپنی کوٹھی سے باہر نکلا۔ جانگیہ پہن کر‘ کہ نہائے اور بارش کا لُطف اُٹھائے۔ آم بالٹی میں پڑے تھے۔ وہ اکیلا بیٹھا انھیں چُوس رہا تھا کہ اچانک اُسے چیخیں اور قہقہے سنائی دیے۔ اُس نے دیکھا کہ ساتھ والی کوٹھی کے لان میں دو لڑکیاں بارش میں نہا رہی ہیں اور خوشی میں شور مچا رہی ہیں۔ اُس کی کوٹھی اور ساتھ والی کوٹھی کے درمیان صرف ایک جھاڑیوں کی دیوار حائل تھی۔ تنویر اُٹھا۔ آم کا رس چُوستے ہوئے وہ باڑ کے پاس گیا اور غور سے ان دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔ دونوں مہین ململ کے کُرتے پہنے تھیں، جو ان کے بدن کے ساتھ چپکے ہوئے تھے۔ شلوار چونکہ لٹھے کی تھیں‘اس لیے تنویر کو اُن کے بدن کے نچلے حصے کے صحیح خدوخال کا پتہ نہ چل سکا۔ اُس نے پہلے کسی عورت کوایسی نظروں سے کبھی نہیں دیکھا تھا، جیسا کہ اُس روز جب کہ بارش ہورہی تھی، اُس نے اُن دونوں لڑکیوں کو دیکھا۔ دیر تک وہ ان کو دیکھتا رہا جو بارش میں بھیگ بھیگ کر خوشی کے نعرے بلند کر رہی تھیں۔ تنویر نے اُن کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اس لیے کہ وہ طبعاً کچھ اس قسم کا لڑکا تھا کہ وہ کسی لڑکی کو بُری نظروں سے دیکھنا گناہ سمجھتا تھا‘ مگر اُس نے اُس روز بڑی للچائی نظروں سے اُن کو دیکھا۔ دیکھا ہی نہیں، بلکہ اُن کے گیلے بدن میں انگارہ بن کر برمے کی طرح چھید کرتا رہا۔ تنویر کی عمر اُس وقت بیس برس کے قریب ہو گی۔ ناتجربہ کار تھا۔ زندگی میں اُس نے پہلی مرتبہ جوان لڑکیوں کے شباب کو گیلی ململ میں لپٹے دیکھا، تو اس نے یوں محسوس کیا کہ اُس کے خون میں چنگاریاں دوڑ رہی ہیں۔ اس نے اُن لڑکیوں میں سے ایک کو منتخب کرنا چاہا۔ دیر تک وہ غور کرتا رہا۔ ایک لڑکی بڑی شریر تھی۔ دوسری اُس سے کم۔ اُس نے سوچا شریر اچھی رہے گی جواُس کو شرارتوں کا سبق دے سکے۔ یہ شریر لڑکی خوبصورت تھی، اُس کے بدن کے اعضا بھی بہت مناسب تھے۔ بارش میں نہاتی جل پری معلوم ہوتی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے تنویر شاعر بن گیا۔ اُس نے کبھی اس طورپر نہیں سوچا تھا۔ لیکن اس لڑکی نے جس کاکُرتہ دوسری کے مقابلے میں بہت زیادہ مہین تھا، اُس کو ایسے ایسے شعر یاد کرادیے جن کو عرصہ ہوا بھول چکا تھا۔ اس کے علاوہ ریڈیو پر سُنے ہوئے فلمی گانوں کی دُھنیں بھی اُس کے کانوں میں گونجنے لگیں اور اُس نے باڑ کے پیچھے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ وہ اشوک کمارہے۔ دلیپ کمارہے۔ پھر اُسے کامنی کوشل اور نلنی جیونت کا خیال آیا۔ مگر اس نے جب اُس لڑکی کی طرف اس غرض سے دیکھا کہ اُس میں کامنی کوشل اور نلنی جیونت کے خدوخال نظر آجائیں تو اس نے ان دونوں ایکٹرسوں پرلعنت بھیجی۔ وہ ان سے کہیں زیادہ حسین تھی۔ اس کے ململ کے کُرتے میں جو شباب تھا، اس کا مقابلہ ءِ اس نے سوچا، کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ تنویر نے آم چوسنے بند کردیے اور اس لڑکی سے جس کا نام پروین تھا، عشق لڑانا شروع کردیا۔ شروع شروع میں اُسے بڑی مشکلات پیش آئیں، اس لیے کہ اُس لڑکی تک رسائی تنویر کو آسان نہیں معلوم ہوتی تھی۔ پھر اُسے اپنے والدین کا بھی ڈر تھا۔ اس کے علاوہ اُسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ اس سے مُلتفت ہو گی یا نہیں؟ بہت دیر تک وہ انہی اُلجھنوں میں گرفتار رہا۔ راتیں جاگتا۔ جھاڑیوں کی پست قد جھاڑ کے پاس جاتا مگر وہ نظر نہ آتی۔ گھنٹوں وہاں کھڑا رہتا، اور وہ بارش والا منظر جو اس نے دیکھا تھا، آنکھیں بند کرکے ذہن میں دہراتا رہتا۔ بہت دنوں کے بعد آخر اُس کو ایک روز اس سے ملاقات کا موقع مل گیا، وہ اپنے باپ کی کار میں گھر کے کسی کام کی غرض سے جا رہا تھا کہ پروین سے اُس کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ کار اسٹارٹ کر چکا تھاکہ ساتھ والی کوٹھی میں تنویر کے خوابوں کی شہزادی نکلی۔ اُس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ موٹر روک لے۔ تنویر گھبرا گیا۔ ہر عاشق ایسے موقعوں پر گھبرا ہی جایاکرتا ہے۔ اُس نے موٹر کچھ ایسے بینڈے انداز میں روکی کہ اُس کو زبردست دھچکا لگا۔ اس کا سر زور سے اسٹیرنگ وہیل کے ساتھ ٹکرایا، مگر اُس وقت وہ شراب کے نشے سے زیادہ مخمور تھا۔ اُس کو اُس کی محبوبہ نے خود مخاطب کیا تھا۔ پروین کے ہونٹوں پر گہرے سُرخ رنگ کی لپ اسٹک تھپی ہوئی تھی۔ اس نے سُرخ مسکراہٹ سے کہا۔

’’معاف فرمائیے گا‘ میں نے آپ کو تکلیف دی۔ بارش ہو رہی ہے۔ تانگہ اس دُور دراز جگہ ملنا محال ہے۔ اور مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا۔ آپ میرے ہمسائے ہیں اسی لیے آپ کو یہ زحمت دی۔ ‘‘

تنویر نے کہا

’’زحمت کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ میں تو۔ میں تو۔

’’اس کی زبان لڑکھڑا گئی‘‘

آپ سے میرا تعارف تو نہیں لیکن آپ کو ایک بار دیکھا تھا۔ ‘‘

پروین اپنی سرخ مسکراہٹوں کے ساتھ کار میں بیٹھ گئی اور تنویر سے پوچھا

’’آپ نے مجھے کب دیکھا تھا۔ ‘‘

تنویر نے جواب دیا

’’آپ کی کوٹھی کے لان میں۔ جب آپ۔ جب آپ اور آپ کے ساتھ ایک اور لڑکی بارش میں نہا رہی تھی۔ ‘‘

پروین نے اپنے گہرے سُرخ لبوں میں سے چیخ نما آواز نکالی

’’ہائے۔ آپ دیکھ رہے تھے؟‘‘

’’یہ گستاخی میں نے ضرور کی۔ اس کے لیے معافی چاہتا ہوں‘‘

پروین نے ایک ادا کے ساتھ اس سے پوچھا :

’’آپ نے دیکھا کیا تھا؟‘‘

یہ سوال ایسا تھا کہ تنویر اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا‘ آئیں بائیں شائیں کر کے رہ گیا

’’جی کچھ نہیں۔ بس آپ کو۔ میرا مطلب ہے کہ دو لڑکیاں تھیں جو بارش میں نہا رہی تھیں اور۔ اور خوش ہو رہی تھیں۔ میں اُس وقت آم چوس رہا تھا۔ ‘‘

پروین کے گہرے سُرخ لبوں پر شریر مسکراہٹ پیدا ہوئی

’’آپ آم چوستے کیوں ہیں۔ کاٹ کر کیوں نہیں کھاتے؟‘‘

تنویر نے موٹر اسٹارٹ کر دی‘ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس سوال کا جواب کیا دے‘ چنانچہ وہ گول کر گیا

’’آپ کو میں کہاں ڈراپ کر دوں۔ ‘‘

پروین مسکرائی‘ آپ مجھے کہیں بھی ڈراپ کر دیں ‘ وہی میری منزل ہو گی‘‘

تنویر نے یوں محسوس کیا کہ اسے اپنی منزل مل گئی ہے‘ لڑکی جو اُس کے پہلو میں بیٹھی ہے‘ اب اُسی کی ہے لیکن اس میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ اس کا ہاتھ دبائے‘ یا اس کی کمر میں ایک دو سیکنڈ کے لیے اپنا بازو حمائل کر دے۔ بارش ہو رہی تھی‘ موسم بہت خوشگوار تھا‘ اس نے کافی دیر سوچا موٹر کی رفتار اس کے خیالات کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی گئی۔ آخر اس نے ایک جگہ اسے روک لیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیا‘ اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ پیوست کر دیے۔ اُس کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ کوئی بہت ہی لذیذ آم چوس رہا ہے‘ پروین نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ لیکن فوراً تنویر کو یہ احساس بڑی شدت سے ہوا کہ اُس نے بڑی ناشائستہ حرکت کی ہے اور غالباً پروین کو اس کی یہ حرکت پسند نہیں آئی ‘ چنانچہ ایک دم سنجیدہ ہو کر اس نے کہا

’’آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘

پروین کے چہرے پر یوں خفگی کے کوئی آثار نہیں تھے لیکن تنویر یوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ اس کے خون کی پیاسی ہے۔ پروین نے اسے بتا دیا کہ اسے کہاں جانا ہے۔ جب وہ اس جگہ پہنچا تو اُسے معلوم ہوا وہ رنڈیوں کا چکلہ ہے۔ جب اس نے پروین کو موٹر سے اُتارا تو اُس کے ہونٹوں پر گہرے لال رنگ کی مسکراہٹ بکھر رہی تھی۔ اس نے کولہے مٹکا کر ٹھیٹ کسبیوں کے انداز میں اس سے کہا

’’شام کو میں یہاں ہوتی ہوں۔ آپ کبھی ضرور تشریف لائیے‘‘

تنویر جب بھونچکا ہو کر اپنی موٹر کی طرف بڑھا تو اسے ایسا لگا کہ وہ بھی ایک کسبی عورت ہے جسے وہ ہر روز چلاتا ہے‘ اُس کی لال بتی لپ اسٹک ہے جو پروین نے ہونٹوں پر تھپی ہوئی تھی۔ وہ واپس اپنی کوٹھی چلا آیا۔ بارش ہو رہی تھی۔ اور تنویر بیحد مغموم تھا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوا کہ اُس کی آنکھوں کے آنسو بارش کے قطرے بن کر ٹپک رہے ہیں۔ ۱۴، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

باردہ شمالی

دوگوگلز آئیں۔ تین بش شرٹوں نے ان کا استقبال کیا۔ بش شرٹیں دنیا کے نقشے بنی ہوئی تھیں، ان پرپرندے، چرندے، درندے، پھول بُوٹے اور کئی ملکوں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں۔ دونوں گوگلز نے اپنی کتابیں میز پررکھیں۔ اپنے ڈسٹ کور اتارے اور بش شرٹوں کے بٹن بن گئیں۔ ایک گوگل نے اس بش شرٹ سے جو خالص امریکی تھی، کہا

’’آپ کا لباس بڑا واہیات ہے۔ ‘‘

وہ بش شرٹ ہنسا۔

’’تمہارے گوگلز بڑے واہیات ہیں۔ اسے لگا کرتم ایسی دکھائی دیتی ہو جیسے روشن دِن اندھیری رات بن گیا ہے۔ ‘‘

اس اندھیری رات نے اس بش شرٹ سے کہا۔

’’میں تو چاندنی رات ہوں۔ ‘‘

امریکی بش شرٹ نے اس کو ایک کوہ ہمالہ پیش کیا جو بہت ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ اس نے چمچ سے اس کوہ ہمالہ کو سر کرلیا۔ لیکن اس مہم کے دوران میں اس کو بڑی کوفت ہوئی۔ وہ برفوں کی عادی نہیں تھی۔ وہ مجبوراً اپنی سہیلی دوسری گوگلز کے ساتھ آگئی تھی کہ وہاں اس کا چہیتیا بش شرٹ مل گیا۔ دوسری گوگلز اپنے بش شرٹ سے علیحدہ باتیں کررہی تھی۔

’’آج تم اتنی حسین کیوں دکھائی دے رہی ہو‘‘

’’مجھے کیا معلوم‘‘

’’اپنی چقیں اتار دو‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے تمہاری آنکھیں نظر نہیں آتیں۔ ‘‘

’’میرا دل تو تمہیں نظر آرہا ہو گا۔ ‘‘

’’نظر آتا رہا ہے۔ نظر آتا رہے گا۔ لیکن مجھے تمہاری آنکھوں پر یہ غلاف پسند نہیں۔ ‘‘

’’تیز روشنی مجھے پسند نہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس نہیں۔ تمہاری بش شرٹ بھی مجھے پسند نہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ اس کا ڈیزائن بہت بے ہودہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئس کریم میں کیڑے مکوڑے چل رہے ہیں۔ ‘‘

’’تم کھا تو چکی ہو۔ ‘‘

’’میں نے تو صرف چکھی ہے، کھائی کب ہے؟‘‘

’’آپ ’باردہ شمالی‘ میں صرف آئس کریم چکھنے کے لیے ہی آتی ہیں‘‘

’’آپ مجبورکرتے ہیں تو میں آتی ہوں، ورنہ مجھے اس جگہ سے کوئی رغبت نہیں۔ ‘‘

’’میں یہ چاہتا تھا کہ ہم دونوں مل کر کوئی مہم سر کریں۔ ‘‘

’’کون سی مہم؟‘‘

’’بے شمار مہمیں ہیں۔ لیکن ایک سب سے بڑی ہے۔ ‘‘

’’کون سی؟‘‘

’’کسی آتش فشاں پہاڑ کے اندر کود جائیں اور وہاں کے حالات معلوم کریں۔ ‘‘

’’میں تیار ہوں۔ لیکن پھر میں یہاں آکر آئس کریم ضرور کھاؤں گی۔ ‘‘

’’میں کھلاؤں گا تمہیں‘‘

دونوں بانہوں میں بانہیں ڈالے ایک ایسی دوزخ میں چلے گئے جو آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی گئی۔ اس گوگلز کی ساری کتابیں اس بش شرٹ کی لائبریری میں داخل ہو گئیں۔ دوسری گوگلز نے اپنی بش شرٹ کو اپنے بلاؤز کی ساری کتابیں پڑھائیں مگر اس کی سمجھ میں نہ آئیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بش شرٹ کسی گھٹیا قسم کے درزی کی سلی ہوئی ہے۔ اس نے

’’باردہ شمالی‘‘

میں اس سے کہا۔

’’تم آئس کریم نہ کھایا کرو۔ ہم آئندہ

’’آتشیں ہاؤس‘‘

میں جایا کریں گے۔ ‘‘

دوسری گوگلز گلگبا نے لگی۔ اس گلگاہٹ میں اس نے اپنی بش شرٹ کے کاج بنانے شروع کردیے اور ان میں کئی پھول ٹانک دیئے۔ یہ بش شرٹ گھٹیا قسم کے درزی کی سلی ہوئی نہیں تھی، اصل میں اس کا کپڑا کھردرا تھا، جیسے ٹاٹ ہو، اس میں دوسری گوگلز نے اپنی مخمل کے کئی پیوند لگائے، مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ وہ

’’آتشیں ہاؤس‘‘

میں بھی کئی مرتبہ گئے، وہاں انہوں نے کئی گلاس پگھلی ہوئی آگ کے پئے۔ مگر کوئی تسکین نہ ہوئی۔ دوسری گوگلز حیران تھی کہ اس کا بش شرٹ جس کے لیے اس نے اپنے بلاؤز کے تمام بخیے ادھیڑ دیے، اس سے ملتفت کیوں نہیں ہوتا۔ وہ اس کی ہر سلوٹ سے پیار کرتی تھی۔ لیکن وہ

’’باردہ شمالی‘‘

میں اور

’’آتشیں ہاؤس‘‘

میں اس کے خوبصورت فریم سے کوئی دلچسپی لیتا ہی نہیں تھا۔ عجیب بات ہے کہ وہ باردہ شمالی میں گرم ہو جاتا اور آتشیں ہاؤس میں اولاسا بن جاتا۔ دوسری بش شرٹ بہت حیران تھی کہ یہ کیا ماجرا ہے! اس نے پہلی گوگلز کو جو اس کی سہیلی تھی، ایک خط لکھا اور اس کو اپنا سارا دُکھ بتایا۔ اس نے جواب میں یہ لکھا۔

’’تم کچھ فکر نہ کرو۔ یہ بش شرٹ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کبھی سکڑ جاتے ہیں۔ کبھی پھیل جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تمہاری لانڈری میں بھی کوئی نقص ہے۔ اِسے دُورکرنے کی کوشش کرو۔ تمہاری استری بھی ایسا معلوم ہوتا ہے، خراب ہو گئی ہے، اسے ٹھیک کراؤ۔ کہیں کرنٹ تو نہیں مارتی؟ دوسری گوگلز نے اسے لکھا۔

’’کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری استری کرنٹ مارتی ہے۔ میرا بش شرٹ گیلا ہو چکا ہوتا ہے کہ میری استری گرم ہوتی ہے، میں جب اس پر پھیرتی ہوں تو مجھے بجلی کے دھچکے لگتے ہیں۔ ‘‘

جواب میں اس کی سہیلی نے لکھا۔

’’میں تمہاری استری کی خرابی سمجھ گئی ہوں۔ نیا پلگ بھیج رہی ہوں، اس کو لگا کر دیکھو، شاید یہ خرابی دور ہو جائے۔ ‘‘

وہ پلگ آیا۔ بڑا خوبصورت تھا۔ مگر جب اس نے اپنی استری میں لگانا چاہا تو فٹ نہ ہوا۔ کنڈم کرکے اُس نے واپس کردیا، اور اپنے بش شرٹ کی رفو گری شروع کردی۔ یہ کام بڑا نازک تھا مگر اس دوسری گوگلز نے بڑی محنت سے کیا پر نتیجہ پھر بھی صفر رہا۔ وہ

’’باردہ شمالی‘‘

میں گئی۔ وہاں اس نے پانچ کوہ ہمالہ چمچوں سے سر کیے۔ وہاں سے یخ بستہ ہو کے اٹھی اور ایک نہایت واہیات بش شرٹ کے ساتھ

’’آتشیں ہاؤس‘‘

جا کر اس نے دس جوالا مکھی نگلے اور واپس اپنے چمڑے کے تھیلے میں آگئی۔ دوسرے دن وہ پھر اپنے چہیتے بش شرٹ سے ملی۔ اس کو اس نے بتایا کہ وہ رات ایک نہایت لغو قسم کے بش شرٹ کے ساتھ

’’آتشیں ہاؤس‘‘

گئی تھی، اس نے قطعاً بُرا نہ مانا، وہ سوچنے لگی کہ یہ کیسا کلف لگا بش شرٹ ہے جس کی جیبوں میں رشک اور حسد کے سکے کھنکھناتے ہی نہیں۔ اس نے پھر اپنی سہیلی گوگلز کو خط لکھا اور سنایا۔

’’تمہارا بھیجا ہوا پلگ میری استری میں لگا ہی نہیں۔ میں نے واپس بھیج دیا تھا۔ امید ہے کہ تمہیں مل گیا ہو گا۔ اب مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے کہ میں کیا کروں۔ وہ میرا بش شرٹ۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا شے ہے۔ خدا کے لیے آؤ۔ میں بہت پریشان ہوں، اپنے بش شرٹ کو میرا سلام کہنا، میرا خیال ہے کہ تم اس کو ہر رات پہنتی ہو۔ اس کا کپڑا بڑا ملائم ہے۔ ‘‘

اس کی سہیلی، اس کے بُلاوے پر آگئی، اس کے ساتھ کا اپنا بش شرٹ نہیں تھا۔ دونوں بہت خوش تھیں، ان کے شیشے آپس میں ٹکرائے۔ بڑی کھنکیں پیدا ہوئیں، جیسے کئی کانچ کی چوڑیاں ایک کلائی میں پڑی بج رہی ہیں۔ اس کی سہیلی گوگلز کا فریم سنہرا تھا۔ اسے دیکھ کر دوسری کو تھوڑا سا رشک ہوا، مگر اس نے اس جذبے کو فوراً دُور کردیا اور اس سنہرے فریم کا تعارف اپنے

’’بش شرٹ‘‘

سے کرایا تاکہ وہ اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرئے اور بتائے کہ اس پر استری کس طرح کرنی چاہیے۔ تاکہ اس کی سلوٹیں دُورہو جائیں۔ وہ اپنی سہیلی کے بش شرٹ سے بڑے تپاک سے ملی، اس نے بڑے غور سے اس کا ٹانکہ ٹانکہ دیکھا، مگر اسے کوئی عیب نظر نہ آیا وہ اس کے اپنے بش شرٹ کے مقابلے میں کئی درجے اچھا سلا ہوا تھا۔ ان دونوں کی ملاقاتیں ہوتی رہیں، آخر ایک دن انہوں نے

’’باردہ شمالی‘‘

جانے کا پروگرام بنایا وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس بش شرٹ کا ردِّ عمل کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی سہیلی گوگلز سے کہہ گئی تھی کہ وہ اپنے شیشوں میں سے اس کے بش شرٹ کو دیکھنا چاہتی ہے۔ جب وہ

’’باردہ شمالی‘‘

میں گئے تووہاں اس بش شرٹ کو آگ لگ گئی جس میں اس نے اپنی ساتھی گوگلز کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں دیر تک اس آگ میں جلتے رہے۔ اور اسے بجھانے کے لیے

’’آتشیں ہاؤس‘‘

میں چلے گئے۔ چونکہ آبلے زیادہ پڑ گئے تھے، اس لیے وہ کئی دن ان کا علاج باہر ہی باہر کرتے رہے۔ دوسری گوگلز حیران تھی کہ یہ دونوں کہاں غائب ہو گئے ہیں۔ اس کے دونوں شیشے دُھندلے ہوتے جارہے تھے کہ اچانک اس کی سہیلی کا بش شرٹ آگیا۔ اس نے اس کو نہ پہچانا اور کہا۔

’’معاف کیجیے گا میرے شیشے دھندلے ہو گئے ہیں۔ ‘‘

اس نے فوراً اس کے شیشے نکالے، ان کو اپنی سانسوں سے پہلے گرم، پھر نم آلود کیا، اور اپنے دامن سے پونچھ کر صاف کردیا۔ وہ حیرت زدہ ہو گئی۔ اس کی زندگی میں اس کے شیشے کبھی اتنے صاف نہیں ہوئے تھے۔ دونوں

’’باردہ شمالی‘‘

میں کوہ ہمالہ کھانے کے لیے گئے۔ وہ یہ کھا ہی رہے تھے کہ پہلا بش شرٹ دوسری گوگلز کے ساتھ آگیا۔ دونوں خاموش رہے۔ انہوں نے دل ہی دل میں محسوس کرلیا کہ وہ غلط چوٹیوں پرچڑھ رہے تھے۔

سعادت حسن منٹو

بادشاہت کا خاتمہ

ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ من موہن پاس ہی بیٹھا تھا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا

’’ہیلو۔ فور فور فور فائیو سیون دوسری طرف سے پتلی سی نسوانی آواز آئی۔

’’سوری۔ رونگ نمبر‘‘

من موہن نے ریسیور رکھ دیا اور کتاب پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔ یہ کتاب وہ تقریباً بیس مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ اس لیے نہیں کہ اس میں کوئی خاص بات تھی۔ دفترمیں جو ویران پڑا تھا۔ ایک صرف یہی کتاب تھی جس کے آخری اوراق کرم خوردہ تھے۔ ایک ہفتے سے دفتر من موہن کی تحویل میں تھا کیونکہ اس کا مالک جو کہ اس کا دوست تھا۔ کچھ روپیہ قرض لینے کے لیے کہیں باہر گیا ہو تھا۔ من موہن کے پاس چونک رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس لیے فٹ پاتھ سے عارضی طور پر وہ اس دفتر میں منتقل ہو گیا تھا۔ اور اس ایک ہفتے میں وہ دفتر کی اکلوتی کتاب تقریباً بیس مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ دفتر میں وہ اکیلا پڑا رہتا۔ نوکری سے اسے نفرت تھی۔ اگروہ چاہتا تو کسی بھی فلم کمپنی میں بطور فلم ڈائریکٹر کے ملازم ہو سکتا تھا۔ مگر وہ غلامی نہیں چاہتا تھا۔ نہایت ہی بے ضرر اور مخلص آدمی تھا۔ اس لیے دوست یار اسکے روزانہ اخراجات کا بندوبست کردیتے تھے۔ یہ اخراجات بہت ہی کم تھے۔ صبح کو چائے کی پیالی اور دو توس۔ دوپہر کو دو پھلکے اور تھوڑا سا سالن سارے دن میں ایک پیکٹ سگریٹ اور بس! من موہن کا کوئی عزیز یا رشتہ دار نہیں تھا۔ بے حد خاموشی پسند تھا۔ جفاکش تھا۔ کئی کئی دن فاقے سے رہ سکتا تھا۔ اس کے متعلق اسکے دوست اور تو کچھ نہیں لیکن اتنا جانتے تھے کہ وہ بچپن ہی سے گھر چھوڑ چھاڑ کے نکل آیا تھا اور ایک مدت سے بمبئی کے فٹ پاتھوں پر آباد تھا۔ زندگی میں صرف اس کو ایک چیز کی حسرت تھی عورت کی محبت کی۔

’’اگرمجھے کسی عورت کی محبت مل گئی تو میری ساری زندگی بدل جائے گی۔ ‘‘

دوست اس سے کہتے۔

’’تم کام پھر بھی نہ کرو گے۔ ‘‘

من موہن آہ بھر کا جواب دیتا۔

’’کام؟۔ میں مجسم کام بن جاؤں گا۔ ‘‘

دوست اس سے کہتے

’’تو شروع کردوکسی سے عشق۔ ‘‘

من موہن جواب دیتا۔

’’نہیں۔ میں ایسے عشق کا قائل نہیں جومرد کی طرف سے شروع ہو۔ ‘‘

دوپہر کے کھانے کا وقت قریب آرہا تھا۔ من موہن نے سامنے دیوار پر کلاک کی طرف دیکھا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا

’’ہیلو۔ فور فور فور فائیو سیون۔ ‘‘

دوسری طرف سے پتلی سی آواز آئی

’’فور فور فور فائیو سیون؟‘‘

برج موہن نے جواب دیا۔

’’جی ہاں!‘‘

نسوانی آواز نے پوچھا۔

’’آپ کون ہیں؟‘‘

’’من موہن‘‘

!۔ فرمائیے! دوسری طرف سے آواز آئی تو من موہن نے کہا۔

’’فرمائیے کس سے بات کرنا چاہتی ہیں آپ؟‘‘

آواز نے جواب دیا۔

’’آپ سے!‘‘

من موہن نے ذرا حیرت سے پوچھا۔

’’مجھ سے؟‘‘

’’جی ہاں۔ آپ سے کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے۔ ‘‘

من موہن سٹپٹا سا گیا۔

’’جی؟۔ جی نہیں!‘‘

آواز مسکرائی

’’آپ نے اپنا نام مدن موہن بتا یا تھا۔ ‘‘

جی نہیں۔ من موہن

’’من موہن؟‘‘

چند لمحات خاموشی میں گزرگئے تو من موہن نے کہا

’’آپ باتیں کرنا چاہتی تھیں مجھ سے؟‘‘

آواز آئی

’’جی ہاں‘‘

’’تو کیجیے!‘‘

تھوڑے وقفے کے بعد آواز آئی۔

’’سمجھ میں نہیں آتا کیا بات کروں۔ آپ ہی شروع کیجیے نہ کوئی بات۔ ‘‘

’’بہت بہتر‘‘

یہ کہہ کر من موہن نے تھوڑی دیر سوچا

’’نام اپنا بتا چکا ہوں۔ عارضی طور پر ٹھکانہ میرا یہ دفتر ہے۔ پہلے فٹ پاتھ پر سوتا تھا۔ اب ایک ہفتہ سے اس دفتر کے بڑے میز پر سوتا ہوں۔ ‘‘

آواز مسکرائی

’’فٹ پاتھ پر آپ مسہری لگا کر سوتے تھے؟‘‘

من موہن ہنسا

’’اس سے پہلے کہ میں آپ سے مزید گفتگوکروں۔ میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ فٹ پاتھوں پر سوتے مجھے ایک زمانہ ہو گیا ہے یہ دفتر تقریباً ایک ہفتے سے میرے قبضے میں ہے۔ آج کل عیش کررہا ہوں۔ ‘‘

آواز مسکرائی۔

’’کیسے عیش؟‘‘

من موہن نے جواب دیا۔

’’ایک کتاب مل گئی تھی یہاں سے۔ آخری اوراق گم ہیں لیکن میں اسے بیس مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔ سالم کتاب کبھی ہاتھ لگی تو معلوم ہو گا ہیرو ہیروئن کے عشق کا انجام کیا ہوا۔ ‘‘

آواز ہنسی۔

’’آپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔ ‘‘

من موہن نے تکلف سے کہا۔

’’آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ ‘‘

آواز نے تھوڑے توقف کے بعد پوچھا۔

’’آپ کا شغل کیا ہے؟‘‘

’’شغل؟‘‘

’’میرا مطلب ہے آپ کرتے کیا ہیں؟‘‘

’’کیا کرتا ہوں؟۔ کچھ بھی نہیں۔ ایک بیکار انسان کیا کرسکتا ہے۔ ساری دن آوارہ گردی کرتا ہوں۔ رات کو سو جاتا ہوں۔ ‘‘

آواز نے پوچھا۔

’’یہ زندگی آپ کو اچھی لگتی ہے۔ ‘‘

من موہن سوچنے لگا۔

’’ٹھہریئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں نے اس پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ اب آپ نے پوچھا ہے تو میں اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ زندگی تمہیں اچھی لگتی ہے یا نہیں؟‘‘

’’کوئی جواب ملا؟‘‘

تھوڑے وقفے کے بعد من موہن نے جواب دیا۔

’’جی نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ایسی زندگی مجھے اچھی لگتی ہی ہو گی۔ جب کہ ایک عرصے سے بسر کررہا ہوں۔ ‘‘

آواز ہنسی۔ من موہن نے کہا۔

’’آپ کی ہنسی بڑی مترنم ہے۔ ‘‘

آواز شرما گئی۔

’’شکریہ!‘‘

اور سلسلہ گفتگو منقطع کردیا۔ من موہن تھوڑی دیر ریسیور ہاتھ میں لیے کھڑا رہا۔ پھر مسکرا کر اسے رکھ دیا اور دفتر بند کرکے چلا گیا۔ دوسرے روز صبح آٹھ بجے جب کہ من موہن دفتر کے بڑے میز پر سو رہا تھا۔ ٹیلیفون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ جمایاں لیتے ہوئے اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا۔ ہلو فور فورفور فائیو سیون۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔

’’آداب عرض من موہن صاحب!‘‘

’’آداب عرض!‘‘

من موہن ایک دم چونکا۔

’’اوہ، آپ۔ آداب عرض۔ ‘‘

’’تسلیمات!‘‘

آواز آئی۔

’’آپ غالباً سورہے تھے؟‘‘

’’جی ہاں۔ یہاں آکر میری عادات کچھ بگڑ رہی ہیں۔ واپس فٹ پاتھ پر گیا تو بڑی مصیبت ہو جائے گی۔ ‘‘

آواز مسکرائی۔

’’کیوں‘‘

’’وہاں صبح پانچ بجے سے پہلے پہلے اٹھنا پڑتا ہے۔ ‘‘

آواز ہنسی من موہن نے پوچھا۔

’’کل آپ نے ایک دم ٹیلی فون بند کردیا۔ ‘‘

آواز شرمائی۔

’’آپ نے میری ہنسی کی تعریف کیوں کی تھی۔ ‘‘

من موہن نے کہا

’’لو صاحب، یہ بھی عجیب بات کہی آپ نے۔ کوئی چیز جو خوبصورت ہو تو اسکی تعریف نہیں کرنی چاہیے؟‘‘

’’بالکل نہیں!‘‘

’’یہ شرط آپ مجھ پر عائد نہیں کرسکتیں۔ میں نے آج تک کوئی شرط اپنے اوپر عائد نہیں ہونے دی۔ آپ ہنسیں گی تو میں ضرور تعریف کروں گا۔ ‘‘

’’میں ٹیلی فون بند کردوں گی۔ ‘‘

’’بڑے شوق سے۔ ‘‘

’’آپ کو میری ناراضگی کا کوئی خیال نہیں۔ ‘‘

’’میں سب سے پہلے اپنے آپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اگر میں آپ کی ہنسی کی تعریف نہ کروں تو میرا ذوق مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ یہ ذوق مجھے بہت عزیز ہے!‘‘

تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ اس کے بعد دوسری طرف سے آواز آئی۔

’’معاف کیجیے گا، میں ملازمہ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ آپ کا ذوق آپ کو بہت عزیز ہے۔ ہاں یہ تو بتائیے آپ کو شوق کس چیز کا ہے؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’یعنی۔ کوئی شغل۔ کوئی کام۔ میرا مطلب ہے آپ کو آتا کیا ہے؟‘‘

من موہن ہنسا

’’کوئی کام نہیں آتا۔ فوٹوگرافی کا تھوڑا سا شوق ہے۔ ‘‘

’’یہ بہت اچھا شوق ہے۔ ‘‘

’’اس کی اچھائی یا برائی کا میں نے کبھی نہیں سوچا۔ ‘‘

آواز نے پوچھا۔

’’کیمرہ تو آپ کے پاس بہت اچھا ہو گا؟‘‘

من موہن ہنسا۔

’’میرے پاس اپنا کوئی کیمرہ نہیں۔ دوست سے مانگ کر شوق پورا کرلیتا ہوں۔ اگر میں نے کبھی کچھ کمایا تو ایک کیمرہ میری نظر میں ہے۔ وہ خریدوں گا۔ ‘‘

آواز نے پوچھا۔

’’کون سا کیمرہ؟‘‘

من موہن نے جواب دیا

’’ایگزکٹا۔ ریفلکس کیمرہ ہے۔ مجھے بہت پسندہے۔ ‘‘

تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ اس کے بعد آوا�آائی۔

’’میں کچھ سوچ رہی تھی۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’آپ نے میرا نام پوچھا نہ ٹیلی فون نمبر دریافت کیا۔ ‘‘

’’مجھے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’نام آپ کا کچھ بھی ہو کیا فرق پڑتاہے۔ آپ کو میرا نمبر معلوم ہے بس ٹھیک ہے۔ آپ گر چاہیں گی تو میں آپ کو ٹیلی فون کروں تو نام اور نمبر بتا دیجیے گا۔ ‘‘

’’میں نہیں بتا ؤں گی۔ ‘‘

’’لو صاحب یہ بھی خوب رہا۔ میں جب آپ سے پوچھوں گا ہی نہیں تو بتانے نہ بتانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘

آواز مسکرائی۔

’’آپ عجیب و غریب آدمی ہیں۔ ‘‘

من موہن مسکرا دیا۔

’’جی ہاں کچھ ایسا ہی آدمی ہوں۔ ‘‘

چند سیکنڈ خاموشی رہی۔

’’آپ پھر سوچنے لگیں۔ ‘‘

’’جی ہاں، کوئی اور بات اس وقت سوجھ نہیں رہی تھی۔ ‘‘

’’تو ٹیلی فون بند کردیجیے۔ پھر سہی۔ ‘‘

آواز کسی قدر تیکھی ہو گئی۔

’’آپ بہت روکھے آدمی ہیں۔ ٹیلی فون بند کردیجیے۔ لیجیے میں بند کرتی ہوں۔ ‘‘

من موہن نے ریسیور رکھ دیا اور مسکرانے لگا۔ آدھے گھنٹے کے بعد جب من موہن ہاتھ دھو کر کپڑے پہن کر باہر نکلنے کے لیے تیار ہوا تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے ریسیور اٹھایا اورکہا۔

’’فور فور فور فائیو سیون!‘‘

آواز آئی۔

’’مسٹر من موہن؟‘‘

من موہن نے جواب دیا۔

’’جی ہاں من موہن۔ ارشاد؟‘‘

آواز مسکرائی۔

’’ارشاد یہ ہے کہ میری ناراضگی دور ہو گئی ہے۔ ‘‘

من موہن نے بڑی شگفتگی سے کہا۔

’’مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے۔ ‘‘

’’ناشتہ کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ آپ کے ساتھ بگاڑنی نہیں چاہیے۔ ہاں آپ نے ناشتہ کرلیا۔ ‘‘

’’جی نہیں باہر نکلنے ہی والا تھا کہ آپ نے ٹیلی فون کیا۔ ‘‘

’’اوہ۔ تو آپ جائیے۔ ‘‘

’’جی نہیں، مجھے کوئی جلدی نہیں، میرے پاس آج پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آج ناشتہ نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’آپ کی باتیں سن کر۔ آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ میرا مطلب ہے ایسی باتیں آپ اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کو دکھ ہوتاہے؟‘‘

من موہن نے ایک لمحہ سوچا

’’جی نہیں۔ میرا اگر کوئی دکھ درد ہے تو میں اس کا عادی ہو چکا ہوں۔ ‘‘

آواز نے پوچھا۔

’’میں کچھ روپے آپ کو بھیج دوں؟‘‘

من موہن نے جواب دیا۔

’’بھیج دیجیے۔ میرے فنانسروں میں ایک آپ کا بھی اضافہ ہو جائے گا!‘‘

’’نہیں میں نہیں بھیجوں گی!‘‘

’’آپ کی مرضی!‘‘

’’میں ٹیلی فون بند کرتی ہوں۔ ‘‘

’’بہتر‘‘

من موہن نے ریسیور رکھ دیا اور مسکراتا ہوا دفتر سے نکل گیا۔ رات کو دس بجے کے قریب واپس آیا اور کپڑے بدل کر میز پر لیٹ کر سوچنے لگا کہ یہ کون ہے جو اسے فون کرتی ہے آواز سے صرف اتنا پتہ چلتا تھا کہ جوان ہے۔ ہنسی بہت ہی مترنم تھی۔ گفتگو سے یہ صاف ظاہر ہے کہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہے۔ بہت دیر تک وہ اس کے متعلق سوچتا رہا۔ ادھر کلاک نے گیارہ بجائے ادھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ من موہن نے ریسیور اٹھایا۔

’’ہلو۔ ‘‘

دوسری طرف سے وہی آواز آئی۔

’’مسٹر من موہن۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ من موہن۔ ارشاد۔ ‘‘

’’ارشاد یہ ہے کہ میں نے آج دن میں کئی مرتبہ رِنگ کیا۔ آپ کہاں غائب تھے؟‘‘

’’صاحب بیکار ہوں، لیکن پھر بھی کام پر جاتا ہوں۔ ‘‘

’’کِس کام پر‘‘

’’آوارہ گردی‘‘

’’واپس کب آئے؟‘‘

’’دس بجے‘‘

’’اب کیا کررہے تھے؟‘‘

’’میز پر لیٹا آپ کی آواز سے آپ کی تصویر بنا رہا تھا‘‘

’’بنی؟‘‘

’’جی نہیں‘‘

’’بنانے کی کوشش نہ کیجیے۔ میں بڑی بد صورت ہوں۔ ‘‘

’’معاف کیجیے گا، اگر آپ واقعی بد صورت ہیں تو ٹیلی فون بند کردیجیے، بدصورتی سے مجھے نفرت ہے۔ ‘‘

آواز مسکرائی

’’ایسا ہے تو چلیے میں خوبصورت ہوں، میں آپ کے دل میں نفرت نہیں پیدا کرنا چاہتی۔ ‘‘

تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ من موہن نے پوچھا

’’کچھ سوچنے لگیں؟‘‘

آواز چونکی

’’جی نہیں۔ میں آپ سے پوچھنے والی تھی کہ۔ ‘‘

’’سوچ لیجیے اچھی طرح‘‘

آواز ہنس پڑی۔

’’آپ کو گانا سناؤں؟‘‘

’’ضرور‘‘

’’ٹھہرئیے‘‘

گلہ صاف کرنے کی آواز آئی۔ پھر غالب کی یہ غزل شروع ہوئی ؂ نکتہ چیں ہے غمِ دل۔ سہگل والی نئی دھن تھی۔ آواز میں درد اور خلوص تھا۔ جب غزل ختم ہوئی تو من موہن نے داد دی۔

’’بہت خوب۔ زندہ رہو۔ ‘‘

آواز شرما گئی۔

’’شکریہ‘‘

اور ٹیلی فون بند کردیا۔ دفتر کے بڑے میز پر من موہن کے دل و دماغ میں ساری رات غالب کی غزل گونجتی رہی۔ صبح جلدی اٹھا اور ٹیلی فون کا انتظار کرنے لگے۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کرسی پر بیٹھا رہا مگر ٹیلی فون کی گھنٹی نہ بجی۔ جب مایوس ہو گیا تو ایک عجیب سی تلخی اس نے اپنے حلق میں محسوس کی اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اس کے بعد میز پر لیٹ گیا اور کڑھنے لگا۔ وہی کتاب جس کو وہ متعدد مرتبہ پڑھ چکا تھا اٹھائی اور ورق گردانی شروع کردی۔ یونہی لیٹے لیٹے شام ہو گئی۔ تقریباً سات بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ من موہن نے ریسیور اٹھایا اور تیزی سے پوچھا کون ہے؟‘‘

وہی آواز آئی

’’میں!‘‘

من موہن کا لہجہ تیز رہا

’’اتنی دیر تم کہاں تھیں‘‘

آواز لرزی

’’کیوں؟‘‘

’’میں صبح سے یہاں جھک مار رہا ہوں۔ ناشتہ کیا ہے نہ دوپہر کا کھانا کھایا ہے حالانکہ میرے پاس پیسے موجود تھے۔ ‘‘

آواز آئی

’’میری جب مرضی ہو گی ٹیلی فون کروں گی۔ آپ۔ ‘‘

من موہن نے بات کاٹ کر کہا۔

’’دیکھو جی یہ سلسلہ بند کرو۔ ٹیلی فون کرنا ہے تو ایک وقت مقرر کرو۔ مجھ سے انتظار برداشت نہیں ہوتا۔ ‘‘

آواز مسکرائی۔

’’آج کی معافی چاہتی ہوں۔ کل سے باقاعدہ صبح اور شام فون آیا کرے گا آپ کو‘‘

’’یہ ٹھیک ہے!‘‘

آواز ہنسی

’’مجھے معلوم نہیں تھا آپ اس قدر بگڑے دل ہیں۔ ‘‘

من موہن مسکرایا۔

’’معاف کرنا۔ انتظار سے مجھے بہت کوفت ہوتی ہے اور جب مجھے کسی بات سے کوفت ہوتی ہے تو اپنے آپ کو سزا دینا شروع کردیتا ہوں۔ ‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’صبح تمہارا ٹیلی فون نہ آیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں چلا جاتا۔ لیکن بیٹھا دن بھر اندر ہی اندر کڑھتا رہا۔ بچپنا ہے صاف۔ ‘‘

آواز ہمدردی میں ڈوب گئی

’’کاش مجھ سے یہ غلطی نہ ہوتی۔ میں نے قصداً صبح ٹیلی فون نہ کیا!‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یہ معلوم کرنے کے لیے آپ انتظار کریں گے یا نہیں؟‘‘

من موہن ہنسا۔

’’بہت شریر ہو تم۔ اچھا اب ٹیلی فون بند کرو۔ میں کھانا کھانے جارہا ہوں۔ ‘‘

’’بہتر کب تک لوٹیے گا؟‘‘

’’آدھے گھنٹے تک‘‘

من موہن آدھے گھنٹے کے بعد کھانا کھا کر لوٹا تو اس نے فون کیا۔ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد اس نے غالب کی ایک غزل سنائی۔ من موہن نے دل سے داد دی۔ پھر ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اب ہر روز صبح اور شام من موہن کو اس کا ٹیلی فون آتا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ ٹیلی فون کی طرف لپکا۔ بعض اوقات گھنٹوں باتیں جاری رہتیں۔ اس دوران میں من موہن نے اس سے ٹیلی فون کا نمبر پوچھا نہ اس کا نام شروع شروع میں اس نے اس کی آواز کی مدد سے تخیل کے پردے پر اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اب وہ جیسے آواز ہی سے مطمئن ہو گیا تھا۔ آوازہی شکل تھی۔ آواز ہی صورت تھی۔ آواز ہی جسم تھا۔ آواز ہی روح تھی۔ ایک دن اس نے پوچھا۔

’’موہن۔ تم میرا نام کیوں نہیں پوچھتے؟‘‘

من موہن نے مسکرا کر کہا۔

’’تمہارا نام تمہاری آواز ہے۔ ‘‘

’’جو کہ بہت مترنم ہے۔ ‘‘

’’اس میں کیا شک ہے؟‘‘

ایک دن وہ بڑا ٹیڑھا سوال کر بیٹھی۔

’’موہن تم نے کبھی کسی لڑکی سے محبت کی ہے؟‘‘

من موہن نے جواب دیا۔

’’نہیں‘‘

’’کیوں؟‘‘

موہن ایک دم اداس ہو گیا

’’اس کیوں کا جواب چند لفظوں میں نہیں دے سکتا۔ مجھے اپنی زندگی کا سارا ملبہ اٹھانا پڑے گا۔ اگر کوئی جواب نہ ملے تو بڑی کوفت ہو گی۔ ‘‘

’’جانے دیجیے۔ ‘‘

ٹیلی فون کا رشتہ قائم ہوئے تقریباً ایک مہینہ ہو گیا۔ بلاناغہ دن میں دو مرتبہ اس کا فون آتا۔ من موہن کو اپنے دوست کا خط آیا کہ قرضے کا بندوبست ہو گیا ہے۔ سات آٹھ روز میں وہ بمبئی پہنچنے والا ہے۔ من موہن یہ خط پڑھ کر افسردہ ہو گیا۔ اس کا ٹیلیفون آیا تو من موہن نے اس سے کہا میری دفتر کی بادشاہی اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ اس نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

من موہن نے جواب دیا۔

’’قرضے کا بندوبست ہو گیا ہے۔ دفتر آباد ہونے والا ہے۔ ‘‘

’’تمہارے کسی اور دوست کے گھر میں ٹیلی فون نہیں۔ ‘‘

’’کئی دوست ہیں جن کے ٹیلی فون ہیں۔ مگر میں تمہیں ان کا نمبر نہیں دے سکتا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں نہیں چاہتا تمہاری آواز کوئی اور سنے۔ ‘‘

’’وجہ؟‘‘

’’میں بہت حاسد ہوں۔ ‘‘

’’وہ مسکرائی۔ یہ تو بڑی مصیبت ہوئی۔ ‘‘

’’کیا کیا جائے؟‘‘

’’آخری دن جب تمہاری بادشاہت ختم ہونے والی ہو گی۔ میں تمہیں اپنا نمبر دوں گی۔

’’یہ ٹھیک ہے!‘‘

من موہن کی ساری افسردگی دور ہو گئی۔ وہ اس دن کا انتظار کرنے لگا کہ دفتر میں اسکی بادشاہت ختم ہو۔ اب پھر اس نے اسکی آواز کی مدد سے اپنے تخیل کے پردے پر اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش شروع کی۔ کئی تصویریں بنیں مگر وہ مطمئن نہ ہوا۔ اس نے سوچا چند دنوں کی بات ہے۔ اس نے ٹیلی فون نمبر بتا دیا تووہ اسے دیکھ بھی سکے گا۔ اس کا خیال آتے ہی اس کا دل و دماغ سُن ہوجاتا۔

’’میری زندگی کا وہ لمحہ کتنا بڑا لمحہ ہو گا جب میں اسکو دیکھوں گا۔ ‘‘

دوسرے روز جب اس کا ٹیلی فون آیا تو من موہن نے اس سے کہا۔

’’تمہیں دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’تم نے کہا تھا کہ آخری دن جب یہاں میری بادشاہت ختم ہونے والی ہو گی تو تم مجھے اپنا نمبر بتا دوگی۔ ‘‘

’’کہا تھا‘‘

’’اس کا یہ مطلب ہے تم مجھے اپنا ایڈریس دیدو گی۔ میں تمہیں دیکھ سکوں گا۔ ‘‘

’’تم مجھے جب چاہو دیکھ سکتے ہو۔ آج ہی دیکھ لو۔ ‘‘

نہیں نہیں۔ پھر کچھ سوچ کر کہا۔

’’میں ذرا اچھے لباس میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ آج ہی ایک دوست سے کہہ رہا ہوں۔ وہ مجھے سوٹ دلوا دے گا۔ ‘‘

وہ ہنس پڑی۔

’’بالکل بچے ہو تم۔ سنو۔ جب تم مجھ سے ملو گے تو میں تمہیں ایک تحفہ دوں گی۔ ‘‘

من موہن نے جذباتی انداز میں کہا

’’تمہاری ملاقات سے بڑھ کر اور کیا تحفہ ہوسکتا ہے؟‘‘

’’میں نے تمہارے لیے ایگزکٹا کیمرہ خرید لیا ہے۔ ‘‘

’’اوہ!‘‘

’’اس شرط پر دوں گی کہ پہلے میرا فوٹو اتارو۔ ‘‘

من موہن مسکرایا۔

’’اس شرط کا فیصلہ ملاقات پر کروں گا۔ ‘‘

تھوڑی دیر اور گفتگوہوئی اس کے بعد ادھر سے وہ بولی

’’میں کل اور پرسوں تمہیں ٹیلی فون نہیں کرسکوں گی۔ ‘‘

من موہن نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

’’میں اپنے عزیزوں کے ساتھ کہیں باہر جارہی ہوں۔ صرف دو دن غیر حاضر رہوں گی۔ مجھے معاف کردینا۔ ‘‘

یہ سننے کے بعد من موہن سارا دن دفتر ہی میں رہا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو اس نے حرارت محسوس کی۔ سوچا کہ یہ اضمحلال شاید اس لیے ہے کہ اس کا ٹیلی فون نہیں آئیگا لیکن دوپہر تک حرارت تیز ہو گئی۔ بدن تپنے لگا۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے۔ من موہن میز پر لیٹ گیا۔ پیاس بار بارستاتی تھی۔ اٹھتا اور نل سے منہ لگا کر پانی پیتا۔ شام کے قریب اسے اپنے سینے پر بوجھ محسوس ہونے لگا۔ دوسرے روز وہ بالکل نڈھال تھا۔ سانس بڑی دقت سے آتا تھا۔ سینے کی دکھن بہت بڑھ گئی تھی۔ کئی بار اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوئی۔ بخار کی شدت میں وہ گھنٹوں ٹیلی فون پر اپنی محبوب آواز کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ شام کو اسکی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس نے کلاک کی طرف دیکھا، اس کے کانوں میں عجیب و غریب آوازیں گونج رہی تھیں۔ جیسے ہزار ہا ٹیلی فون بول رہے ہیں سینے میں گھنگھرو بج رہے تھے۔ چاروں طرف آوازیں ہی آوازیں تھیں۔ چنانچہ جب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو اس کے کانوں تک اس کی آواز نہ پہنچی۔ بہت دیر تک گھنٹی بجتی رہی۔ ایک دم من موہن چونکا۔ اس کے کان اب سُن رہے تھے۔ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور ٹیلی فون تک گیا۔ دیوار کا سہارالے کر اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ریسیور اٹھایا اور خشک ہونٹوں پر لڑکی جیسی زبان پھیر کر کہا۔

’’ہلو‘‘

دوسری طرف سے وہ لڑکی بول۔

’’ہلو۔ موہن؟‘‘

من موہن کی آواز لڑکھڑائی۔

’’ہاں موہن!‘‘

’’ذرا اونچی بولو۔ ‘‘

من موہن نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر وہ اس کے حلق ہی میں خشک ہو گیا۔ آواز آئی۔

’’میں جلدی آگئی۔ بڑی دیر سے تمہیں رنگ کررہی ہوں۔ کہاں تھے تم؟‘‘

من موہن کا سرگھومنے لگا۔

’’آواز آئی کیا ہو گیا ہے تمہیں؟‘‘

من موہن نے بڑی مشکل سے اتنا کہا۔

’’میری بادشاہت ختم ہو گئی ہے آج۔ ‘‘

اس کے منہ سے خون نکلا اور ایک پتلی لکیر کی صورت میں گردن تک دوڑتا چلا گیا۔ آواز آئی۔

’’میرا نمبر نوٹ کرلو۔ فائیو نوٹ تھری ون فور، فاؤ نوٹ تھری ون فور۔ صبح فون کرنا۔

’’یہ کہہ کر اس نے ریسیور رکھ دیا۔ من موہن اوندھے منہ ٹیلی فون پر گرا۔ اسکے منہ سے خون کے بلبلے پُھوٹنے لگا۔ 14جون1950ء

سعادت حسن منٹو

بابو گوپی ناتھ

بابو گوپی ناتھ سے میری ملاقات سن چالیس میں ہُوئی۔ ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار پرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا۔ دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹے قد کے آدمی کے ساتھ داخل ہُوا۔ میں اس وقت لیڈ لکھ رہا تھا۔ سنیڈو نے اپنے مخصوص انداز میں بآواز بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا۔

’’منٹو صاحب! بابو گوپی ناتھ سے ملیے۔ ‘‘

میں نے اُٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کردیے۔ بابو گوپی ناتھ تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو۔ لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا۔ ایسی ایسی کنٹی نیوٹلی ملاتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وہ کیا چٹکلا لکھا تھا آپ نے منٹو صاحب؟ مس خورشید نے کار خریدی۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ کیوں بابو گوپی ناتھ، ہے اینٹی کی پینٹی پو؟‘‘

عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا اندازہ بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹلی۔ دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینٹی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہُوا جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔

’’آپ ہیں بابو گوپی ناتھ۔ بڑے خانہ خراب۔ لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئی تشریف لائے ہیں۔ ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ مسکرایا۔ عبدالرحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کرکہا۔

’’نمبر ون بے وقوف ہوسکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔ لوگ ان کے مسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ میں صرف باتیں کرکے ان سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہوں۔ بس منٹو صاحب یہ سمجھ لیجیے کہ بڑے انٹی فلو جسٹین قسم کے آدمی ہیں۔ آپ آج شام کو ان کے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ نے جو خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا، چونک کرکہا۔

’’ہاں ہاں، ضرورتشریف لائیے منٹو صاحب۔ ‘‘

پھر سینڈو سے پوچھا۔

’’کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں؟‘‘

عبدالرحیم سینڈو نے زور سے قہقہہ لگایا۔

’’اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں۔ تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا۔ میں نے بھی پینی شروع کردی ہے، اس لیے کہ مفت ملتی ہے۔ ‘‘

سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتا لکھا دیا جہاں میں حسب وعدہ شام کو چھ بجے کے قریب پہنچ گیا۔ تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا۔ سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔ ایک تھا غفار سائیں، تہمد پوش۔ پنجاب کا ٹھیٹ سائیں۔ گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا۔ سینڈو نے اس کے بارے میں کہا۔

’’آپ بابو گوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ میرا مطلب سمجھ جائیے۔ جس آدمی کی ناک بہتی ہو یا جس کے منہ میں سے لعاب نکلتا ہو، پنجاب میں خدا کو پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے یہ بھی بس پہنچے ہُوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔ لاہور سے بابو گوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں کیونکہ انھیں وہاں کوئی اور بے وقوف ملنے کی امید نہیں تھی۔ یہاں آپ بابو صاحب سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دُعا کرتے رہتے ہیں کہ انجام نیک ہو۔ ‘‘

غفار سائیں یہ سُن کر مسکراتا رہا۔ دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی۔ لمبا تڑنگا جوان، کسرتی بدن، منہ پر چیچک کے داغ۔ اس کے متعلق سینڈو نے کہا۔

’’یہ میرا شاگرد ہے۔ اپنے استاد کے نقش قدم پر چل رہا۔ لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری لڑکی اس پر عاشق ہو گئی۔ بڑی بڑی کنٹی نیوٹلیاں ملائی گئیں اس کو پھانسنے کے لیے، مگر اس نے کہا ڈو اور ڈائی، میں لنگوٹ کا پکا رہوں گا۔ ایک تکیے میں بات چیت پیتے کرتے بابو گوپی ناتھ سے ملاقات ہو گئی۔ بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ ہر روز کریون اے کا ڈبہ اور کھانا پینا مقرر ہے۔ ‘‘

یہ سن کر غلام علی بھی مسکراتا رہا۔ گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ وہی کشمیر کی کبوتری ہے جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا۔ بہت صاف ستھری عورت تھی۔ بال چھوٹے تھے۔ ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا۔ آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں۔ چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور ناتجربہ کار ہے۔ سینڈو نے اس سے تعارف کراتے ہوئے کہا۔

’’زینت بیگم۔ بابو صاحب پیار سے زینو کہتے ہیں۔ ایک بڑی خرانٹ نائکہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی۔ بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا اور ایک رات لے اڑے۔ مقدمے بازی ہوئی۔ تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی۔ آخر بابو صاحب نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے۔ دھڑن تختہ!‘‘

اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی۔ بابو گوپی ناتھ نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ اور سینڈو سے کہا۔

’’اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔ ‘‘

سینڈو نے اس عورت کی ران پرہاتھ مارا اور کہا۔

’’جناب یہ ہے ٹین پوٹی، فل فوٹی۔ مسز عبدالرحیم سینڈو عرف سردار بیگم۔ آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں۔ سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا۔ دو برسوں ہی میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا۔ میں لاہور چھوڑ کر بھاگا۔ بابو گوپی ناتھ نے اسے یہاں بلوا لیا ہے تاکہ میرا دل لگا رہے۔ اس کو بھی ایک ڈبہ کریون اے کا راشن میں ملتا ہے ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مورفیا کا انجیکشن لیتی ہے۔ رنگ کالا ہے۔ مگر ویسے بڑی ٹٹ فورٹیٹ قسم کی عورت ہے۔ ‘‘

سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا۔

’’بکواس نہ کر!‘‘

اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔ سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسب عادت میری تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیے۔ میں نے کہا۔

’’چھوڑو یار۔ آؤ کچھ باتیں کریں۔ ‘‘

سینڈو چلایا۔

’’بوائے۔ وسکی اینڈ سوڈا۔ بابو گوپی ناتھ لگاؤ ہوا ایک سبزے کو۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو سو کے نوٹوں کا ایک پلندا نکالا اور ایک نوٹ سینڈو کے حوالے کردیا۔ سینڈو نے نوٹ لے کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑکھڑا کر کہا۔

’’او گوڈ۔ او میرے رب العالمین۔ وہ دن کب آئے گا جب میں بھی لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا۔ جاؤ بھئی غلام علی۔ دو بوتلیں جانی واکر سٹل گوئنگ سٹرانگ کی لے آؤ۔ ‘‘

بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کی۔ یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں سب سے زیادہ باتیں حسب معمول عبدالرحیم نے کیں۔ پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کرکے وہ چلایا۔

’’دھڑن تختہ!منٹو صاحب، وسکی ہو تو ایسی۔ حلق سے اُتر کر پیٹ میں

’’انقلاب، زندہ باد‘‘

لکھتی چلی گئی ہے۔ جیو بابو گوپی ناتھ! جیو۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا۔ کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں میں ہاں ملا دیتا تھا۔ میں نے سوچا اس شخص کی اپنی رائے کوئی نہیں ہے۔ دوسرا جو بھی کہے، مان لیتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں موجود تھا جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا۔ سینڈو کا اس سے دراصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی۔ یوں بھی مجھے دوران گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں کٹتا تھا۔ یہ چیز میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا، جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔ میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا۔

’’بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘

وہ چونک پڑا۔

’’جی میں۔ میں۔ کچھ نہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی۔

’’ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ اور ہمیں کیا سوچ ہو گی۔ ‘‘

سینڈو نے کہا۔

’’بڑے خانہ خراب ہیں، یہ منٹو صاحب۔ بڑے خانہ خراب ہیں۔ لاہور کی کوئی ایسی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو صاحب کی کنٹی نیوٹلی نہ رہ چکی ہو۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ نے یہ سُن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا۔

’’اب کمر میں وہ دم نہیں منٹو صاحب۔ ‘‘

اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہو گئی۔ لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے۔ کون ڈیرہ دار تھی، کون نٹنی تھی، کون کس کی نوچی تھی، نتھنی اُتارنے کا بابو گوپی ناتھ نے کیا دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ گفتگو سردار، سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں۔ مطلب تو میں سمجھتا رہا مگر بعض اصطلاحیں سمجھ میں نہ آئیں۔ زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہلکی وسکی کا ایک گلاس بھی نہیں پیا۔ بغیر کسی دلچسپی کے سگریٹ بھی پیتی تھی تو معلوم ہوتا تھا اسے تمباکو اور اس کے دھویں سے کوئی رغبت نہیں لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پیے۔ بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی، اس کا پتا مجھے کسی بات سے نہ ملا۔ اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس کا کافی خیال تھا کیونکہ زینت کی آسائش کے لیے ہر سامان مہیا تھا۔ لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا۔ میرا مطلب ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ آٹھ بجے کے قریب سردار، ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئی کیونکہ اسے مورفیا کا انجکشن لینا تھا۔ غفارسائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اُٹھا کر قالین پر سو گیا۔ غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کے لیے بھیج دیا گیا۔ سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لیے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہی عاشقانہ نگاہ ڈال کر کہا: منٹو! میری زینت کے متعلق آپ کا خیال کیا ہے؟ میں نے سوچا کیا کہوں۔ زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا:

’’بڑا نیک خیال ہے۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ ہو گیا۔

’’منٹو صاحب! ہے بھی بڑی نیک لوگ۔ خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی اور چیز کا۔ میں نے کئی بار کہاجان من مکان بنوادوں؟ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو؟ کیا کروں گی مکان لے کر۔ میرا کون ہے۔ منٹو صاحب موٹر کتنے میں آجائے گی۔ ‘‘

میں نے کہا

’’مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا۔

’’کیا بات کرتے ہیں آپ منٹو صاحب۔ آپ کو، اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو۔ کل چلیے میرے ساتھ، زینو کے لیے ایک موٹر لیں گے۔ میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئی میں موٹر ہونی ہی چاہیے۔ ‘‘

زینت کا چہرہ رد عمل سے خالی رہا۔ بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیرکے بعد بہت تیز ہو گیا۔ ہمہ تن جذبات ہوکر اس نے مجھ سے کہا:

’’منٹو صاحب! آپ بڑے لائق آدمی ہیں۔ میں تو بالکل گدھا ہوں۔ لیکن آپ مجھے بتائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکرکیا۔ میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا مجھے لے چلو منٹو صاحب کے پاس۔ مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہوتومعاف کردیجیے گا۔ بہت گنہ گار آدمی ہوں۔ وسکی منگاؤں آپ کے لیے اور؟‘‘

میں نے کہا۔

’’نہیں نہیں۔ بہت پی چکے ہیں۔ ‘‘

وہ اور زیادہ جذباتی ہو گیا:

’’اور پیجیے منٹو صاحب!‘‘

یہ کہہ کر جیب سے سو سو کے نوٹوں کا پلندا نکالا اور ایک نوٹ جدا کرنے لگا۔ لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لیے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دیے:

’’سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا تھا۔ اس کا کیا ہوا؟‘‘

مجھے دراصل کچھ ہمدردی سی ہو گئی تھی بابو گوپی ناتھ سے۔ کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے۔ لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکرا کرکہنے لگا۔

’’منٹو صاحب! اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا، وہ یا تو غلام کی جیب سے گرپڑے گا یا۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہوکر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ ہوٹل میں کسی حرام زادے نے اس کی جیب سے سارے روپے نکال لیے۔ بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکال کرغلام علی کو دے کر کہا۔

’’جلدی کھانا لے آؤ۔ ‘‘

پانچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے بابو گوپی ناتھ کی صحیح شخصیت کا علم ہوا۔ پوری طرح توخیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔ پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ خیال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے، غلط ثابت ہُوا۔ اس کواس امر کا پورا احساس تھا کہ سینڈو، غلام علی اور سردار وغیرہ جواس کے مصاحب بنے ہوئے تھے، مطلبی انسان ہیں۔ وہ ان سے جھڑکیاں، گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصّے کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا:

’’منٹو صاحب! میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا۔ جب بھی کوئی مجھے رائے دیتا ہے، میں کہتاہوں سبحان اللہ۔ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ لیکن میں انھیں عقل مند سمجھتا ہوں اس لیے کہ ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی جومجھ میں ایسی بے وقوفی کو شناخت کرلیا جن سے ان کا اُلو سیدھا ہوسکتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں۔ مجھے ان سے کچھ محبت سی ہو گئی ہے۔ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی تو کسی تکیے میں جا بیٹھوں گا۔ رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا اس لیے کہ جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں۔ کسی ایک کے مزار میں چلا جاؤں گا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’رنڈی کے کوٹھے اور تکیے آپ کوکیوں پسند ہیں؟‘‘

کچھ دیرسوچ کر اس نے جواب دیا۔

’’اس لیے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکہ ہی دھوکہ ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینا چاہتا ہے اُس کے لیے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘

میں نے ایک اور سوال کیا۔

’’آپ کو طوائفوں کا گانا سُننے کا شوق ہے کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔ ‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’بالکل نہیں اور یہ ا چھا ہے کیونکہ میں کن سری سے کن سری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سر ہلاسکتا ہوں۔ منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن جیب سے دس یا سو روپے کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے۔ نوٹ نکالا اور اس کو دکھایا۔ وہ اسے لینے کے لیے ایک ادا سے اُٹھی۔ پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا۔ اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہو گئے۔ ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں، ورنہ کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ کا شجرہ نسب تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنیے کا بیٹا ہے۔ باپ کے مرنے پر اسے دس لاکھ روپے کی جائیداد ملی جو اس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کردی۔ بمبئی آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزارروپے لایا تھا۔ اس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں، لیکن پھربھی ہر روز تقریباً سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ زینو کے لیے اس نے فئیٹ موٹر خریدی۔ یاد نہیں رہا، لیکن شاید تین ہزارروپے میں آئی تھی۔ ایک ڈرائیور رکھا لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا۔ بابو گوپی ناتھ کوکچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔ بابو گوپی ناتھ سے مجھے تو صرف دلچسپی تھی، لیکن اسے مجھ سے کچھ عقیدت ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔ ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا تو مجھے وہاں شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ محمد شفیق طوسی کہوں تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی سے ہے۔ یوں تو شفیق کافی مشہور آدمی ہے۔ کچھ اپنی جدت طراز گائکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبیعت کی بدولت۔ لیکن اس کی زندگی کا ایک حصّہ اکثریت سے پوشیدہ ہے۔ بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اس کا تعلق اس کی ماں سے بھی تھا۔ یہ بہت کم مشہور ہے کہ اس کو اپنی پہلی بیوی جو تھوڑے ہی عرصے میں مر گئی تھی، اس لیے پسند نہیں تھی کہ اس میں طوائفوں کے غمزے اور عشوے نہیں تھے۔ لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے، جانتا ہے کہ چالیس برس( یہ اس زمانے کی عمر ہے) کی عمر میں سینکڑوں طوائفوں نے اسے رکھا۔ اچھے سے اچھا کپڑا پہنا۔ عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا۔ نفیس سے نفیس موٹر رکھی۔ مگر اس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔ عورتوں کے لیے، خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہوں، اس کی بذلہ سنج طبیعت جس میں میراثیوں کے مزاح کی ایک جھلک تھی۔ بہت ہی جاذب نظر تھی وہ کوشش کے بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ میں نے جب اسے زینت سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اس لیے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہو، میں نے صرف یہ سوچا کہ وہ دفعتہً یہاں پہنچا کیسے۔ ایک سینڈو اسے جانتا تھا مگر ان کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اسے لایا تھا۔ ان دونوں میں صلح صفائی ہو گئی تھی۔ بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ میں نے شاید اس سے پہلے ذ کر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا۔ محمد شفیق طوسی میراثیوں کے لطیفے سنا رہا تھا، جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی۔ شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا:

’’او بسم اللہ۔ بسم اللہ۔ کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہوتا ہے؟‘‘

سینڈو نے کہا:

’’تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں دھڑن تختہ‘‘

میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی۔ میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کرکچھ اور بھی کہہ رہی ہیں۔ زینت اس فن میں بالکل کوری تھی لیکن شفیق کی مہارت زینت کی خامیوں کو چھپاتی رہی۔ سردار، دونوں کی نگاہ بازی کو کچھ اس انداز سے دیکھ رہی تھی جیسے خلیفے اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر اپنے پٹھوں کے داؤ پیچ کو دیکھتے ہیں۔ اس دوران میں میں بھی زینت سے کافی بے تکلف ہو گیا تھا وہ مجھے بھائی کہتی تھی جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا۔ اچھی ملنسار طبیعت کی عورت تھی۔ کم گو۔ سادہ لوح۔ صاف ستھری۔ شفیق سے مجھے اس کی نگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی۔ اوّل تو اس میں بھونڈا پن تھا۔ اس کے علاوہ۔ کچھ یوں کہیے کہ اس بات کا بھی اس میں دخل تھا کہ وہ مجھے بھائی کہتی تھی۔ شفیق اور سینڈو اُٹھ کر باہر گئے تو میں نے شاید بڑی بے رحمی کے ساتھ اس سے نگاہ بازی کے متعلق استفسار کیا کیونکہ فوراً اس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آگئے اور روتی روتی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا، اُٹھ کر تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کچھ کہا لیکن میں مطلب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بابو گوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور

’’آئیے منٹو صاحب‘‘

کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔ زینت پلنگ پر بیٹھی تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔ میں اور بابو گوپی ناتھ، دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا۔

’’منٹو صاحب! مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے۔ دو برس سے یہ میرے پاس ہے میں حضرت غوث اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہُوں کہ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اس کی دوسری بہنیں، میرا مطلب ہے اس پیشے کی دوسری عورتیں دونوں ہاتھوں سے مجھے لُوٹ کر کھاتی رہیں مگر اس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا۔ میں اگر کسی دوسری عورت کے ہاں ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کرگزارا کیا میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں بہت جلد اس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں۔ میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے میں نہیں چاہتا اس کی زندگی خراب ہو۔ میں نے لاہور میں اس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھو جو کچھ وہ کرتی ہیں، سیکھو۔ میں آج دولت مند ہوں۔ کل مجھے بھکاری ہونا ہی ہے۔ تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک دولت کافی نہیں۔ میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا۔ لیکن منٹو صاحب اس نے میری ایک نہ سنی۔ سارا دن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی۔ میں نے غفار سائیں سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا بمبئی لے جاؤ اسے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔ بمبئی میں اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکٹرسیں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن میں نے سوچا بمبئی ٹھیک ہے دو مہینے ہو گئے ہیں اسے یہاں لائے ہوئے۔ سردار کو لاہور سے بُلایا ہے کہ اس کو سب گُر سکھائے غفار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ اس کو یہ خیال تھا کہ بابو تمہاری بے عزتی ہو گی۔ میں نے کہا تم چھوڑو اس کو۔ بمبئی بہت بڑا شہر ہے۔ لاکھوں رئیس ہیں۔ میں نے تمہیں موٹر لے دی ہے۔ کوئی اچھا آدمی تلاش کرلو۔ منٹو صاحب! میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں میری دلی خواہش ہے کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے، اچھی طرح ہوشیار ہو جائے۔ میں اس کے نام آج ہی بنک میں دس ہزار روپیہ جمع کرانے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے معلوم ہے دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہو گی سردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی۔ آپ بھی اسے سمجھائیے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے۔ جب سے موٹر خریدی ہے، سردار اسے ہر روز شام کو اپولو بندر لے جاتی ہے لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ سینڈو آج بڑی مشکلوں سے محمد شفیق کو یہاں لایا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس کے متعلق؟‘‘

میں نے اپنا خیال ظاہر کرنا مناسب خیال نہ کیا، لیکن بابو گوپی ناتھ نے خود ہی کہا۔

’’اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔ کیوں زینو جانی۔ پسند ہے تمہیں؟‘‘

زینو خاموش رہی۔ بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہُوئی تو میرا دماغ چکرا گیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دُور کردی۔ بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مال دار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ جائے جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہوسکے۔ زینت سے اگر صرف چھٹکارا ہی حاصل کرنا ہوتا تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی۔ بابو گوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کرسکتا تھا چونکہ اس کی نیت نیک تھی، اس لیے اس نے زینت کے مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کو ایکٹرس بنانے کے لیے اس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں۔ گھر میں ٹیلی فون لگوایا۔ لیکن اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔ محمد شفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ مہینہ آتارہا۔ کئی راتیں بھی اس نے زینت کے ساتھ بسر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہیں تھا جو کسی عورت کا سہارا بن سکے۔ بابو گوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا۔

’’شفیق صاحب تو خالی خالی جنٹلمین ہی نکلے۔ ٹھسّہ دیکھیے، بے چاری زینت سے چار چادریں، چھ تکیے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتھیا کر لے گئے۔ سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں۔ ‘‘

یہ درست تھا۔ الماس، نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی۔ اس سے پہلے تین بہنیں شفیق کی داشتہ رہ چکی تھیں۔ دو سو روپے جو اس نے زینت سے لیے تھے مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے۔ بہنوں کے ساتھ لڑ جھگڑ کر الماس نے زہر کھا لیا تھا۔ محمد شفیق طوسی نے جب آنا جانا بند کردیا تو زینت نے کئی بار مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے۔ میں نے اسے تلاش کیا، لیکن کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ ایک روز اتفاقیہ ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی۔ سخت پریشانی کے عالم میں تھا۔ جب میں نے اس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا۔

’’مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے۔ افسوس ہے، آج کل مجھے بالکل فرصت نہیں۔ زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے۔ ایسی عورتوں سے جو بیویوں جیسی لگیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘

شفیق سے مایوسی ہوئی تو زینت نے سردار کے ساتھ اپولو بندر جانا شروع کیا۔ پندرہ دنوں میں بڑی مشکلوں سے کئی گیلن پٹرول پھونکنے کے بعد سردار نے دو آدمی پھانسے۔ ان سے زینت کو چار سو روپے ملے۔ بابو گوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا، زینت سے کہا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔ ایک روز میں جانے کس کام سے ہاربنی روڈ پر جارہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر کھڑی نظر آئی۔ پچھلی نشست پر محمد یاسین بیٹھا تھا۔ نگینہ ہوٹل کا مالک۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟‘‘

یاسین مسکرایا۔

’’تم جانتے ہو موٹر والی کو۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’جانتا ہوں۔ ‘‘

’’تو بس سمجھ لو میرے پاس کیسے آئی۔ اچھی لڑکی ہے یار!‘‘

یاسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرادیا۔ اس کے چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یاسین کی ملاقات کیسے ہوئی۔ ایک شام اپولوبندر سے ایک آدمی لے کر سردار اور زینت نگینہ ہوٹل گئیں۔ وہ آدمی تو کسی بات پر جھگڑا کرچلا گیا لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہو گئی۔ بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران میں یاسین نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑھیاں لے دی تھیں۔ بابو گوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کچھ دن اورگزر جائیں، زینت اور یاسین کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ نگینہ ہوٹل میں ایک کرسیچین عورت نے کمرہ کرائے پر لیا۔ اس کی جوان لڑکی میموریل سے یاسین کی آنکھ لڑ گئی۔ چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یاسین اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا رہا۔ بابو گوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر دُکھ ہوا۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب یہ کیسے لوگ ہیں۔ بھئی دل اچاٹ ہو گیا ہے تو صاف کہہ دو۔ لیکن زینت بھی عجیب ہے۔ ‘‘

اچھی طرح معلوم ہے کیا ہورہا ہے مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی، میاں! اگر تم نے اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کار کا بندوبست کرو، میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو۔ میں کیاکروں منٹو صاحب! بڑی شریف اور نیک بخت عورت ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہیے۔ ‘‘

یاسین سے تعلق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔ بہت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔ ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا بابو گوپی ناتھ، غلام علی اور غفار سائیں کے ساتھ لاہور چلا گیا، روپے کا بندوبست کرنے، کیونکہ پچاس ہزار ختم ہو گئے تھے۔ جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اسے لاہور میں زیادہ دن لگیں گے کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔ سردار کو مورفیا کے ٹیکوں کی ضرورت تھی۔ سینڈو کو پولسن مکھن کی۔ چنانچہ دونوں نے متحدہ کوشش کی اور ہر روز تین آدمی پھانس کر لے آتے۔ زینت سے کہا گیا کہ بابو گوپی ناتھ، واپس نہیں آئے گا، اس لیے اسے اپنی فکر کرنی چاہیے۔ سو سوا سو روپے روز کے ہو جاتے جن میں سے آدھے زینت کو ملتے باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے۔ میں نے ایک دن زینت سے کہا یہ تم کیا کررہی ہو۔ اس نے بڑے الہڑ پن سے کہا۔

’’مجھے کچھ معلوم نہیں بھائی جان۔ یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں مان لیتی ہوں۔ ‘‘

جی چاہا کہ بہت دیر پاس بیٹھ کر سمجھاؤں کہ جو کچھ تم کررہی ہو، ٹھیک نہیں، سینڈو اور سردار اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے تمہیں بیچ بھی ڈالیں گے مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ زینت اُکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور بے جان عورت تھی۔ اس کم بخت کو اپنی زندگی کی قدر قیمت ہی معلوم نہیں تھی۔ جسم بیچتی مگر اس میں بیچنے والوں کا کوئی انداز تو ہوتا۔ واللہ مجھے بہت کوفت ہوتی تھی اسے دیکھ کر سگریٹ سے، شراب سے، کھانے سے، گھر سے، ٹیلی فون سے، حتیٰ کہ اس صوفے سے بھی جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی، اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بابو گوپی ناتھ پورے ایک مہینے کے بعد لوٹا۔ وہاں گیا تو وہاں فلیٹ میں کوئی اور ہی تھا۔ سینڈو اور سردار کے مشورے سے زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصہ کرائے پر لے لیا تھا۔ بابو گوپی ناتھ میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا پتہ بتا دیا۔ اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا۔ جوکچھ مجھے معلوم تھا، میں نے کہہ دیا لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اس سے پیشہ کرارہے ہیں۔ بابو گوپی ناتھ اب کہ دس ہزار روپیہ اپنے ساتھ لایا تھا جواس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا۔ غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور ہی چھوڑ آیا تھا ٹیکسی نیچے کھڑی تھی۔ بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔ تقریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے۔ بالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا۔ بابو گوپی ناتھ نے زور سے پکارا۔

’’سینڈو!‘‘

سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا۔ دھڑن تختہ۔ بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو، لیکن سینڈو نے کہا ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجیے، مجھے آپ سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں۔ ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی۔ بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا۔ ڈرائیور سے اس نے کہا

’’واپس لے چلو!‘‘

بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ہم دادر کے پاس پہنچے تو اس نے کہا۔

’’منٹو صاحب! زینو کی شادی ہونے والی ہے۔ ‘‘

میں نے حیرت سے کہا۔

’’کس سے؟‘‘

بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا۔

’’حیدر آباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے۔ خدا کرے وہ خوش رہیں۔ یہ بھی اچھا ہوا جو میں عین وقت پر آپہنچا۔ جو روپے میرے پاس ہیں، ان سے زینو کا زیور بن جائے گا۔ کیوں، کیا خیال ہے آپ؟‘‘

میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ حیدرآباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے، سینڈو اور سردارکی کوئی جعلسازی تو نہیں، لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہو گئی کہ وہ حقیقتاً حیدر آباد کا متمول زمیندار ہے جو حیدر آباد سندھ ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا۔ یہ میوزک ٹیچر زینت کو گانا سکھانے کی بے سود کوشش کیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے مربی غلام حسین(یہ اس حیدرآباد سندھ کے رئیس کا نام تھا) کو ساتھ لے کر آیا۔ زینت نے خوب خاطر مدارات کی۔ غلام حسین کی پرزور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل ؂ نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے گاکر سنائی۔ غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہو گیا۔ اس کا ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا۔ سردار اور سینڈو نے مل کرمعاملہ پکا کردیا اور شادی طے ہو گئی۔ بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا۔ غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دگنی ہو گئی۔ مجھ سے اس نے کہا۔

’’منٹو صاحب! خوبصورت، نوجوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہوئے داتا گنج بخشؒ کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ بھگوان کرے دونوں خوش رہیں!‘‘

بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا۔ دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے بنوا دیے اور پانچ ہزار نقد دیے۔ محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر، میں اور گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے دلہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھے۔ ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا

’’دھڑن تختہ۔ ‘‘

غلام حسین سرج کا نیلا سوٹ پہنے تھے۔ سب نے اس کو مبارک باد دی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کی۔ کافی وجیہہ آدمی تھا۔ بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں اس کے سامنے چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔ شادی کی دعوتوں پر خورد و نوش کا جو سامان بھی ہوتا ہے، بابو گوپی ناتھ نے مہیا کیا تھا۔ دعوت سے جب لوگ فارغ ہوئے تو بابو گوپی ناتھ نے سب کے ہاتھ دھلوائے۔ میں جب ہاتھ دھونے کے لیے آیا تو اس نے مجھ سے بچوں کے انداز سے کہا۔

’’منٹو صاحب! ذرا اندر جائیے اور دیکھیے زینو دلہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔ ‘‘

میں پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ زینت سرخ زربفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔ دوپٹہ بھی اسی رنگ کا تھا جس پر گوٹ لگی تھی چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بُری معلوم ہوتی ہے مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے۔ اس نے شرما کر مجھے آداب کیا توبہت پیاری لگی لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں ایک مسہری دیکھی جس پر پھول ہی پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔ میں نے زینت سے کہا یہ کیا مسخرہ پن ہے۔ زینت نے میری طرف بالکل معصوم کبوتری کی طرح دیکھا۔

’’آپ مذاق کرتے ہیں بھائی جان!‘‘

اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ مجھے ابھی غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا۔ بڑے پیار کے ساتھ اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب! میں سمجھا تھا کہ آپ بڑے سمجھ دار اور لائق آدمی ہیں۔ زینو کا مذاق اُڑانے سے پہلے آپ نے کچھ تو سوچ لیا ہوتا۔ ‘‘

بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس سے معافی مانگوں، اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔

’’خدا تمہیں خوش رکھے!‘‘

یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ان میں ملامت تھی۔ بہت ہی دُکھ بھری ملامت۔ اور چلا گیا۔

سعادت حسن منٹو

بائی بائی

نام اس کا فاطمہ تھا ‘ پر سب اسے پھاتو کہتے تھے‘ بانہال کے درّے کے اُس طرف اُس کے باپ کی پن چکّی تھی جو بڑا سادہ لوح معمّر آدمی تھا۔ دن بھر وہ اس پن چکّی کے پاس بیٹھی رہتی۔ پہاڑ کے دامن میں چھوٹی سی جگہ تھی جس میں یہ پن چکّی لگائی گئی تھی۔ پھاتو کے باپ کو دو تین روپے روزانہ مل جاتے جو اس کے لیے کافی تھے۔ پھاتو البتہ ان کو ناکافی سمجھتی تھی اس لیے کہ اس کو بناؤ سنگھار کا شوق تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ امیروں کی طرح زندگی بسر کرے۔ کام کاج کچھ نہیں کرتی تھی ‘ بس کبھی کبھی اپنے بوڑھے باپ کا ہاتھ بٹا دیتی تھی۔ اس کو آٹے سے نفرت تھی۔ اس لیے کہ وہ اُڑ اُڑ کر اس کی ناک میں گھس جاتا تھا۔ وہ بہت جھنجھلاتی اور باہر نکل کر کھلی ہوا میں گھومنا شروع کر دیتی‘ یا چناب کے کنارے جا کر اپنا منہ ہاتھ دھوتی اور عجیب قسم کی ٹھنڈک محسوس کرتی۔ اس کو چناب سے پیار تھا‘ اُس نے اپنی سہیلیوں سے سُن رکھا تھا کہ یہ دریا عشق کا دریا ہے جہاں سوہنی مہینوال‘ ہیر رانجھا کا عشق مشہور ہوا۔ بہت خوبصورت تھی اور بڑی مضبوط جسم کی جوان لڑکی۔ ایک پن چکی والے کی بیٹی شاندار لباس تو پہن نہیں سکتی‘ میلی شلوار اوپر ’پھرن ‘ کُرتہ۔ دوپٹہ ندارد۔ نذیرؔ سچیت گڑھ سے لے کر بانہال تک اور بھدروا سے کشتواڑ تک خوب گھوما پھرا تھا۔ اس نے جب پہلی بار پھاتو کو دیکھا تو اسے کوئی حیرت نہ ہوئی جب اُس نے دیکھا کہ پھاتو کے کرتے کے نچلے تین بٹن نہیں ہیں اور اس کی جوان چھاتیاں باہر جھانک رہی ہیں۔ نذیر نے اُس علاقے میں ایک خاص بات نوٹ کی تھی کہ وہاں کی عورتیں ایسی قمیصیں یا کُرتے پہنتی ہیں جن کے نچلے بٹن غائب ہوتے ہیں‘ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آیا یہ دانستہ ہٹا دیے جاتے ہیں یا وہاں کے دھوبی ہی ایسے ہیں جو ان کو اُتار لیتے ہیں۔ نذیر نے جب پہلی بار سیر کرتے ہوئے پھاتو کو اپنی تین کم بٹنوں والی قمیص میں دیکھا تو اس پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ حسین تھی ‘ ناک نقشہ بہت اچھا تھا‘ تعجب ہے کہ وہ میلی ہونے کے باوجود چمکتی تھی‘ اس کا لباس بہت گندا تھا مگر نذیر کو ایسا محسوس ہوا کہ یہی اس کی خوبصورتی کو نکھار رہا ہے۔ نذیر وہاں ایک آوارہ گرد کی حیثیت رکھتا تھا‘ وہ صرف کشمیر کے دیہات دیکھنے اور ان کی سیاحت کرنے آیا تھا اور قریب قریب تین مہینے سے اِدھر اُدھر گھوم پھر رہا تھا۔ اُس نے کشتواڑ دیکھا‘ بھدروا دیکھا‘ کُد اور بٹوت میں کئی مہینے گزارے مگر اسے پھاتو ایسا حسن کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ بانہال میں پن چکی کے باہر جب اس نے پھاتو کو تین بٹنوں سے بے نیاز کرتے میں دیکھا تو اس کے جی میں آیا کہ اپنی قمیص کے سارے بٹن علیحدہ کر دے اور اُس کی قمیص اور پھاتو کا کُرتہ آپس میں خلط ملط ہو جائیں۔ کچھ اس طرح کہ دونوں کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آئے۔ اُس سے ملنا نذیر کے لیے مشکل نہیں تھا‘ اس لیے کہ اس کا باپ دن بھر گندم‘ مکئی اور جوار پیسنے میں مشغول رہتا تھا اور وہ تھی ہنس مکھ‘ ہر آدمی سے کھل کر بات کرنے والی۔ بہت جلد گُھلو مٹھو ہو جاتی تھی چنانچہ نذیر کو اس کی قربت حاصل کرنے میں کوئی دقّت محسوس نہ ہوئی۔ چند ہی دنوں میں اس نے اس سے راہ و رسم پیدا کر لی۔ یہ راہ و رسم تھوڑی دیر میں محبت میں تبدیل ہو گئی‘ پاس ہی چناب جسے عشق کا دریا کہتے ہیں اور جس کے پانی سے پھاتو کے باپ کی پن چکی چلتی تھی‘ اس دریا کے کنارے بیٹھ کر نذیر اس کو اپنا دل نکال کر دکھاتا تھا جس میں سوائے محبت کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پھاتو سنتی۔ اس لیے کہ وہ اس کے جذبات کا مذاق اُڑانا چاہتی تھی۔ اصل میں وہ تھی ہی ہنسوڑ۔ ساری زندگی وہ کبھی روئی نہ تھی‘ اس کے ماں باپ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہماری بچی بچپن میں کبھی نہیں روئی۔ نذیر اور پھاتو میں محبت کی پینگیں بڑھتی گئیں۔ نذیر پھاتو کو دیکھتا تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ اُس نے اپنی روح کا عکس آئینے میں دیکھ لیا ہے اور پھاتو تو اس کی گرویدہ تھی اس لیے کہ وہ اس کی بڑی خاطر داری کرتا تھا اُس کو یہ چیز۔ جسے محبت کہتے ہیں پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی‘ اس لیے وہ خوش تھی۔ بانہال میں تو کوئی اخبار ملتا نہیں تھا اس لیے نذیر کو بٹوت جانا پڑتا تھا۔ وہاں وہ دیر تک ڈاک خانہ کے اندر بیٹھا رہتا‘ ڈاک آتی تو اخبار پڑھ کے پن چکی پر چلا آتا۔ قریب قریب چھ میل کا فاصلہ تھا مگر نذیر اس کا کوئی خیال نہ کرتا۔ یہ سمجھتا کہ چلو ورزش ہی ہو گئی ہے۔ جب وہ پن چکی کے پاس پہنچتا تو پھاتو کسی نہ کسی بہانے سے باہر نکل آتی اور دونوں چناب کے پاس پہنچ جاتے اور پتھروں پر بیٹھ جاتے۔ پھاتو اس سے کہتی

’’بخیر۔ آج کی خبریں سناؤ‘‘

اس کو خبریں سننے کا خبط تھا۔ نذیر اخبار کھولتا اور اس کو خبریں سُنانا شروع کر دیتا۔ ان دنوں فرقہ وارانہ فسادات تھے۔ امرتسر سے یہ قصہ شروع ہوا تھا جہاں سکھوں نے مسلمانوں کے کئی محلے جلا کر راکھ کر دیے تھے۔ وہ یہ سب خبریں اس کو سناتا‘ وہ سکھوں کو اپنی گنوار زبان میں برا بھلا کہتی۔ نذیر خاموش رہتا۔ ایک دن اچانک یہ خبر آئی کہ پاکستان قائم ہو گیا ہے اور ہندوستان علیحدہ ہو گیا ہے۔ نذیر کو تمام واقعات کا علم تھا مگر جب اس نے پڑھا کہ ہندوستان نے ریاست مانگرول اور ماناواوار پر زبردستی قبضہ کر لیا ہے تو وہ بہت پریشان ہوا مگر اس نے اپنی اس پریشانی کو پھاتو پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ دونوں کا عشق اب بہت استوار ہو چکا تھا اس کا علم پھاتو کے باپ کو بھی ہو گیا تھا۔ وہ خوش تھا کہ میری لڑکی ایک معزز اور شریف گھرانے میں جائے گی مگر وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیٹی سیالکوٹ نہ جائے جہاں کا نذیر رہنے والا تھا۔ اس کی یہ خواہش تھی کہ نذیر اس کے پاس رہے۔ دولت مند کا بیٹا ہے۔ پن چکی کے پاس کافی زمین پڑی ہے‘ اس پر ایک چھوٹا سا مکان بنوا لے اور دونوں میاں بیوی اس میں رہیں‘ جب چاہا پلک جھپکتے سرینگر پہنچ گئے‘ وہاں ایک دو مہینے رہے ‘ پھر واپس آ گئے‘ کبھی کبھار سیالکوٹ بھی چلے گئے کہ وہ بھی اتنی دُور نہیں۔ پھاتو کے باپ سے مفصل گفتگو کی ‘ وہ اس سے بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنی رضامندی کا اظہا ر کر دیا۔ نذیر اور پھاتو بہت خوش ہوئے‘ اس روز پہلی مرتبہ نذیر نے اس کے ہونٹوں کو چوما اور خود اپنے ہاتھ سے اس کے کرتے میں تین بٹن لگائے۔ دوسرے دن نذیر نے اپنے والدین کو لکھ دیا کہ وہ شادی کر رہا ہے۔ کشمیر کی ایک دیہاتی لڑکی ہے جس سے اُس کی محبت ہو گئی ہے‘ ایک ماہ تک خط و کتابت ہوتی رہی‘ آدمی روشن خیال تھے‘ اس لیے وہ مان گئے حالانکہ وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنے خاندان میں کرنا چاہتے تھے۔ اس کے والد نے جو آخری خط لکھا اس میں اس خواہش کا اظہار کیاگیا تھا کہ نذیر فاطمہ کا فوٹو بھیجے تاکہ وہ اپنے رشتہ داروں کو دکھائیں اس لیے کہ وہ اس کے حسن کی بڑی تعریفیں کر چکا تھا۔ لیکن بانہال جیسے دُور افتادہ علاقے میں وہ پھاتو کی تصویر کیسے حاصل کرتا اس کے پاس کوئی کیمرہ نہیں تھا نہ وہاں کوئی فوٹو گرافر‘ بٹوت اور کُد میں بھی ان کا نام و نشان نہیں تھا۔ اتفاق سے ایک دن سرنگر سے موٹر آئی‘ نذیر سڑک پر کھڑا تھا اس نے دیکھا کہ اس کا دوست رنبیر سنگھ ڈرائیو کر رہا ہے‘ اس نے بلند آواز میں کہا :

’’رنبیر یار۔ ٹھہرو‘‘

موٹر ٹھہر گئی‘ دونوں دوست ایک دوسرے کو گلے ملے۔ نذیر نے دیکھا کہ اس کی موٹر میں کیمرہ پڑا ہے‘ رولی فیکس۔ نذیر نے اس سے کچھ دیر باتیں کیں‘ پھر پوچھا

’’تمہارے کیمرے میں فلم ہے؟‘‘

رنبیر نے ہنس کر کہا

’’خالی کیمرہ اور خالی بندوق کس کام کی ہوتی ہے‘ میرے کیمرے میں سولہ ایکسپوزیر موجود ہیں‘‘

نذیر نے فوراً پھاتو کو ٹھہرایا اور اپنے دوست رنبیر سے کہا :

’’یار اس کے تین چار اچھے پوز لے لو اور تم میرا خیال ہے سیالکوٹ جا رہے ہو‘ وہاں سے ڈیویلپ اور پرنٹ کرا کے مجھے دو دو کاپیاں بٹوت کے ڈاکخانے کی معرفت بھجوا دینا‘‘

رنبیر نے بڑے غور اور دلچسپی سے پھاتو کو دیکھا اُس کی موٹر میں ڈوگرہ فوج کے تین چار سپاہی تھے ‘ تھری ناٹ تھری بندوقیں لیے۔ رنبیر جو مقام فوٹو لینے کے لیے پسند کرتا یہ مسلح فوجی اس کے پیچھے پیچھے ہوتے۔ نذیر اس کے ہمراہ ہونا چاہتا تو یہ ڈوگرے اسے روک دیتے۔ کشمیر میں ہلڑ مچ رہا تھا اس کے متعلق نذیر کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ہندوستان اس پر قابض ہونا چاہتا ہے مگر پاکستانی اس کی مدافعت کر رہے ہیں۔ فوٹو لے کر جب نذیر کا دوست رنبیر اپنی موٹر کے پاس آیا تو اس نے نذیر کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا ‘ پھاتو ڈوگرے فوجیوں کی گرفت میں تھی‘ انھوں نے زبردستی موٹر میں ڈالا‘ وہ چیخی چلائی۔ نذیر کو اپنی مدد کے لیے پکارا۔ مگر وہ عاجز تھا۔ ڈوگرے فوجی سنگینیں تانے کھڑے تھے۔ جب موٹر اسٹارٹ ہوئی تو نذیر نے اپنے دوست رنبیر سے بڑے عاجزانہ لہجے میں کہا :

’’یار رنبیر! یہ کیا ہو رہا ہے‘‘

رنبیر سنگھ نے جو کہ موٹر چلا رہا تھا‘ نذیر کے پاس سے گزرتے ہوئے ہاتھ ہلا کہ صرف اتنا کہا :

’’بائی بائی‘‘

۱۱، مئی ۴۵ء

سعادت حسن منٹو

ایکٹریس کی آنکھ

’’پاپوں کی گٹھڑی‘‘

کی شوٹنگ تمام شب ہوتی رہی تھی، رات کے تھکے ماندے ایکٹر لکڑی کے کمرے میں جو کمپنی کے ولن نے اپنے میک اپ کے لیے خاص طور پرتیار کرایا تھا اور جس میں فرصت کے وقت سب ایکٹر اور ایکٹرسیں سیٹھ کی مالی حالت پر تبصرہ کیا کرتے تھے، صوفوں اور کرسیوں پر اونگھ رہے تھے۔ اس چوبی کمرے کے ایک کونے میں میلی سی تپائی کے اوپر دس پندرہ چائے کی خالی پیالیاں اوندھی سیدھی پڑی تھیں جو شاید رات کو نیند کا غلبہ دُور کرنے کے لیے ان ایکٹروں نے پی تھیں۔ ان پیالوں پر سینکڑوں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ کمرے کے باہر ان کی بھنبھناہٹ سُن کر کسی نووارد کو یہی معلوم ہوتا کہ اندر بجلی کا پنکھا چل رہا ہے۔ دراز قد وِلن جو شکل و صورت سے لاہور کا کوچوان معلوم ہوتا تھا، ریشمی سوٹ میں ملبوس صوفے پر دراز تھا۔ آنکھیں کھلی تھیں اور منہ بھی نیم وا تھا۔ مگر وہ سو رہا تھا۔ اسی طرح اس کے پاس ہی آرام کرسی پر ایک مونچھوں والا ادھیڑ عمر کا ایکٹر اونگھ رہا تھا۔ کھڑکی کے پاس ڈنڈے سے ٹیک لگائے ایک اور ایکٹر سونے کی کوشش میں مصروف تھا۔ کمپنی کے مکالمہ نویس یعنی منشی صاحب ہونٹوں میں بیڑی دبائے اور ٹانگیں، میک اپ ٹیبل پر رکھے، شاید وہ گیت بنانے میں مصروف تھے جو انھیں چار بجے سیٹھ صاحب کو دکھانا تھا۔

’’اُوئی،

’’اُوئی۔ ہائے۔ ہائے۔ ‘‘

دفعتاً یہ آواز باہر سے اس چوبی کمرے میں کھڑکیوں کے راستے اندر داخل ہُوئی۔ ولن صاحب جھٹ سے اُٹھ بیٹھے اور اپنی آنکھیں ملنے لگی۔ مونچھوں والے ایکٹر کے لمبے لمبے کان ایک ارتعاش کے ساتھ اس نسوانی آواز کو پہچاننے کے لیے تیار ہُوئے۔ منشی صاحب نے میک اپ ٹیبل پر سے اپنی ٹانگیں اُٹھالیں اور ولن صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔

’’اُوئی، اُوئی، اُوئی۔ ہائے۔ ہائے۔ ‘‘

اس پر، ولن، منشی اور دوسرے ایکٹر جو نیم غنودگی کی حالت میں تھے چونک پڑے، سب نے کاٹھ کے اس بکس نما کمرے سے اپنی گردنیں باہر نکالیں۔

’’ارے، کیا ہے بھئی۔ ‘‘

’’خیر تو ہے!‘‘

’’کیا ہُوا؟‘‘

’’اماں، یہ تو۔ دیوی ہیں!‘‘

’’کیا بات ہے! دیوی؟‘‘

جتنے منہ اتنی باتیں۔ کھڑکی میں سے نکلی ہُوئی ہر گردن بڑے اضطراب کے ساتھ متحرک ہُوئی اور ہر ایک کے منہ سے گھبراہٹ میں ہمدردی اور استفسار کے ملے جلے جذبات کا اظہار ہوا۔

’’ہائے، ہائے، ہائے۔ اُوئی۔ اُوئی!‘‘

۔ دیوی، کمپنی کی ہر دلعزیز ہیروئن کے چھوٹے سے منہ سے چیخیں نکلیں اور باہوں کو انتہائی کرب و اضطراب کے تحت ڈھیلا چھوڑ کر اس نے اپنے چپل پہنے پاؤں کو زور زور سے اسٹوڈیوکی پتھریلی زمین پر مارتے ہوئے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ ٹھمکا ٹھمکا بوٹا سا قد، گول گول گدرایا ہُوا ڈیل، کھلتی ہوئی گندمی رنگت خوب خوب کالی کالی تیکھی بھنویں، کھلی پیشانی پر گہرا کسوم کا ٹیکا۔ بال کالے بھونراسے جو سیدھی مانگ نکال کر پیچھے جوڑے کی صورت میں لپیٹ دے کرکنگھی کیے ہوئے تھے، ایسے معلوم ہوتے تھے، جیسے شہد کی بہت سی مکھیاں چھتے پربیٹھی ہُوئی ہیں۔ کنارے دار سفید سوتی ساڑھی میں لپٹی ہُوئی، چولی گجراتی تراش کی تھی، بغیر آستینوں کے، جن میں سے جوبن پھٹا پڑتا تھا، ساڑھی بمبئی کے طرز سے بندھی تھی۔ چاروں طرف میٹھا میٹھا جھول دیا ہوا تھا۔ گول گول کلائیاں جن میں کُھلی کُھلی جاپانی ریشمین چوڑیاں کھنکنا رہی تھیں۔ ان ریشمین چوڑیوں میں ملی ہوئی ادھر ادھر ولایتی سونے کی پتلی پتلی کنگنیاں جھم جھم کررہی تھیں، کان موزوں اور لویں بڑی خوبصورت کے ساتھ نیچے جھکی ہوئیں، جن میں ہیرے کے آویزے، شبنم کی دو تھراتی ہوئی بوندیں معلوم ہورہی تھیں۔ چیختی چلاتی، اور زمین کو چپل پہنے پیروں سے کوٹتی، دیوی نے داہنی آنکھ کو ننھے سے سفید رومال کے ساتھ ملنا شروع کردیا۔

’’ہائے میری آنکھ۔ ہائے میری آنکھ۔ ہائے!‘‘

کاٹھ کے بکس سے باہر نکلی ہوئی کچھ گردنیں اندر کو ہو گئیں اور جو باہر تھیں، پھر سے ہلنے لگیں۔

’’آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے؟‘‘

’’یہاں کنکر بھی تو بیشمار ہیں۔ ہَوا میں اُڑتے پھرتے ہیں۔ ‘‘

’’یہاں جھاڑو بھی تو چھ مہینے کے بعد دی جاتی ہے۔ ‘‘

’’اندر آجاؤ، دیوی۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں، آؤ۔ آنکھ کو اس طرح نہ ملو۔ ‘‘

’’ارے بابا۔ بولا نہ تکلیف ہو جائیگی۔ تم اندر تو آؤ۔ ‘‘

آنکھ ملتی ملتی، دیوی کمرے کے دروازے کی جانب بڑھی۔ ولن نے لپک کر تپائی پر سے بڑی صفائی کے ساتھ ایک رومال میں چائے کی پیالیاں سمیٹ کر میک اپ ٹیبل کے آئینے کے پیچھے چھپا دیں اور اپنی پُرانی پتلون سے ٹیبل کو جھاڑپونچھ کر صاف کردیا۔ باقی ایکٹروں نے کرسیاں اپنی اپنی جگہ پر جما دیں اور بڑے سلیقے سے بیٹھ گئے۔ منشی صاحب نے پرانی ادھ جلی بیڑی پھینک کر جیب سے ایک سگرٹ نکال کر سلگانا شروع کردیا۔ دیوی اندر آئی۔ صوفے پرسے منشی صاحب اور ولن اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ منشی صاحب نے بڑھ کر کہا۔

’’آؤ، دیوی یہاں بیٹھو۔ ‘‘

دروازے کے پاس بڑی بڑی سیاہ و سفید مونچھوں والے بزرگ بیٹھے تھے، ان کی مونچھوں کے لٹکے اور بڑھے ہوئے بال تھرتھرائے اور انھوں نے اپنی نشست پیش کرتے ہوئے گجراتی لہجہ میں کہا۔

’’ادھر بیسو۔ ‘‘

دیوی ان کی تھرتھراتی ہوئی مونچھوں کی طرف دھیان دیئے بغیر آنکھ ملتی اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھ گئی۔ ایک نوجوان نے جو ہیرو سے معلوم ہورہے تھے اور پھنسی پھنسی قمیض پہنے ہوئے تھے، جھٹ سے ایک چوکی نما کرسی سرکا کر آگے بڑھا دی اور دیوی نے اس پر بیٹھ کر اپنی ناک کے بانسے کو رومال سے رگڑنا شروع کردیا۔ سب کے چہرے پر دیوی کی تکلیف کے احساس نے ایک عجیب و غریب رنگ پیدا کردیا تھا۔ منشی صاحب کی قوتِ احساس چونکہ دوسرے مردوں سے زیادہ تھی، اس لیے چشمہ ہٹا کر انھوں نے اپنی آنکھ ملنا شروع کردی تھی۔ جس نوجوان نے کرسی پیش کی تھی، اس نے جُھک کر دیوی کی آنکھ کا ملاحظہ کیا اور بڑے مفکرانہ انداز میں کہا۔

’’آنکھ کی سرخی بتا رہی ہے کہ تکلیف ضرور ہے۔ ‘‘

ان کا لہجہ پھٹا ہوا تھا۔ آواز اتنی بلند تھی کہ کمرہ گونج اٹھا۔ یہ کہنا تھا کہ دیوی نے اور زور زور سے چلانا شرع کردیا اور سفید ساڑھی میں اس کی ٹانگیں اضطراب کا بے پناہ مظاہرہ کرنے لگیں۔ ولن صاحب آگے بڑھے اور بڑی ہمدردی کے ساتھ اپنی سخت کمر جُھکا کر دیوی سے پوچھا۔

’’جلن محسوس ہوتی ہے یا چُبھن!‘‘

ایک اور صاحب جو اپنے سولا ہیٹ سمیت کمرے میں ابھی ابھی تشریف لائے تھے، آگے بڑھ کے پوچھنے لگے۔

’’پپوٹوں کے نیچے رگڑ سی محسوس تو نہیں ہوتی۔ ‘‘

دیوی کی آنکھ سرخ ہورہی تھی۔ پپوٹے ملنے اور آنسوؤں کی نمی کے باعث مَیلے مَیلے نظر آرہے تھے۔ چتونوں میں سے لال لال ڈوروں کی جھلک چک میں سے غروبِ آفتاب کا سرخ سرخ منظر پیش کررہی تھی۔ داہنی آنکھ کی پلکیں نمی کے باعث بھاری اور گھنی ہو گئی تھیں، جس سے ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے تھے۔ باہیں ڈھیلی کرکے دیوی نے دکھتی آنکھ کی پتلی نچاتے ہوئے کہا۔

’’آں۔ بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ہائے۔ اُوئی!‘‘

اور پھر سے آنکھ کوگیلے رومال سے ملنا شروع کردیا۔ سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے جو کونے میں بیٹھے تھے، بلند آواز میں کہا۔

’’اس طرح آنکھ نہ رگڑو، خالی پیلی کوئی اور تکلیف ہو جائے گا۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں۔ ارے، تم پھر وہی کررہی ہو۔ ‘‘

پھٹی آواز والے نوجوان نے کہا۔ ولن جو فوراً ہی دیوی کی آنکھ کو ٹھیک حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، بگڑ کر بولے۔

’’تم سب بیکار باتیں بنا رہے ہو۔ کسی سے ابھی تک یہ بھی نہیں ہوا کہ دوڑ کر ڈاکٹر کو بُلا لائے۔ اپنی آنکھ میں یہ تکلیف ہو توپتہ چلے۔ ‘‘

یہ کہہ کر انھوں نے مڑ کر کھڑکی میں سے باہر گردن نکالی اور زور زور سے پکارنا شروع کیا۔

’’ارے۔ کوئی ہے۔ کوئی ہے؟ گُلاب؟ گُلاب!‘‘

جب ان کی آواز صدابصحرا ثابت ہُوئی تو انھوں نے گردن اندر کو کرلی اور بڑبڑانا شروع کردیا۔

’’خدا جانے ہوٹل والے کا یہ چھوکرا کہاں غائب ہو جاتا ہے۔ پڑا اونگھ رہا ہو گا اسٹوڈیو میں کسی تختے پر۔ مردُود نابکار۔ ‘‘

پھر فوراً ہی دُور اسٹوڈیو کے اس طرح گلاب کو دیکھ کر چلائے، جو انگلیوں میں چائے کی پیالیاں لٹکائے چلا آرہا ہے۔

’’ارے گلاب۔ گلاب!‘‘

گلاب بھاگتا ہُوا آیا اور کھڑکی کے سامنے پہنچ کر ٹھہر گیا۔ ولن صاحب نے گھبرائے ہوئے لہجہ میں اس سے کہا۔

’’دیکھو! ایک گلاس میں پانی لاؤ۔ جلدی سے۔ بھاگو!‘‘

گلاب نے کھڑے کھڑے اندر جھانکا، دیکھنے کے لیے کہ یہاں گڑ بڑ کیا ہے۔ اس پر ہیرو صاحب للکارے

’’ارے دیکھتا کیا ہے۔ لا، نا کلاس میں تھوڑا سا پانی۔ بھاگ کے جا، بھاگ کے!‘‘

گلاب سامنے، ٹین کی چھت والے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔ دیوی کی آنکھ میں چبھن اور بھی زیادہ بڑھ گئی اور اس کی بنارسی لنگڑے کی کیری ایسی ننھی منی ٹھوڑی روتے بچے کی طرح کانپنے لگی اور وہ اُٹھ کر درد کی شدت سے کراہتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔ دستی بٹوے سے ماچس کی ڈبیا کے برابر ایک آئینہ نکال کر اس نے اپنی دُکھتی آنکھ کو دیکھنا شروع کردیا۔ اتنے میں منشی صاحب بولے۔

’’گلاب سے کہہ دیا ہوتا۔ پانی میں تھوڑی سی برف بھی ڈالتا لائے!‘‘

’’ہاں، ہاں، سرد پانی اچھا رہے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر ولن صاحب کھڑکی میں سے گردن باہر نکال کرچلائے۔

’’گلاب۔ ارے گلاب۔ پانی میں تھوڑی سی برف چھوڑ کے لانا۔ ‘‘

اس دوران میں ہیرو صاحب جو کچھ سوچ رہے تھے، کہنے لگے

’’میں بولتا ہوں کہ رومال کو سانس کی بھانپ سے گرم کرو اور اس سے آنکھ کو سینک دو۔ کیوں دادا؟‘‘

’’ایک دم ٹھیک رہے گا!‘‘

سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے سر کو اثبات میں بڑے زور سے ہلاتے ہُوئے کہا۔ ہیرو صاحب کھونٹیوں کی طرف بڑھے۔ اپنے کوٹ میں سے ایک سفید رومال نکال کر دیوی کو سانس کے ذریعے سے اس کو گرم کرنے کی ترکیب بتائی اور الگ ہو کرکھڑے ہو گئے۔ دیوی نے رومال لے لیا اور اسے منہ کے پاس لے جا کر گال پُھلا پُھلا کر سانس کی گرمی پہنچائی، آنکھ کو ٹکور دی مگر کچھ افاقہ نہیں ہوا۔

’’کچھ آرام آیا؟‘‘

سولاہیٹ والے صاحب نے دریافت کیا۔ دیوی نے رونی آواز میں جواب دیا۔

’’نہیں۔ نہیں۔ ابھی نہیں نکلا۔ میں مر گئی!۔ ‘‘

اتنے میں گلاب پانی کا گلاس لے کر آگیا۔ ہیرو اور ولن دوڑ کربڑھے اور دونوں نے مل کر دیوی کی آنکھ میں پانی چوایا۔ جب گلاس کا اپنی آنکھ کو غسل دینے میں ختم ہو گیا، تو دیوی پھر پانی جگہ پر بیٹھ گئی اور آنکھ جھپکانے لگی۔

’’کچھ افاقہ ہُوا۔ ‘‘

’’اب تکلیف تو نہیں ہے؟‘‘

’’کنکری نکل گئی ہو گی۔ ‘‘

’’بس تھوڑی دیر کے بعد آرام آجائے گا!‘‘

آنکھ دھل جانے پر پانی کی ٹھنڈک نے تھوڑی دیر کے لیے دیوی کی آنکھ میں چُبھن رفع کردی، مگر فوراً ہی پھر سے اس نے درد کے مارے چلانا شروع کردیا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

یہ کہتے ہوئے ایک صاحب باہر سے اندر آئے اور دروازے کے قریب کھڑے ہوکر معاملے کی اہمیت کو سمجھنا شروع کردیا۔ نووارد کُہنہ سال ہونے کے باوجود چُست و چالاک معلوم ہوتے تھے۔ مونچھیں سفید تھیں، جو بیڑی کے دھوئیں کے باعث سیاہی مائل زرد رنگت اختیار کر چکی تھیں، ان کے کھڑے ہونے کا انداز بتا رہا تھا کہ فوج میں رہ چکے ہیں۔ سیاہ رنگ کی ٹوپی سر پر ذرا اس طرف ترچھی پہنے ہُوئے تھے۔ پتلون اور کوٹ کا کپڑا معمولی اور خاکستری رنگ کا تھا۔ کولھوں اور رانوں کے اُوپر پتلون میں پڑے ہُوئے جھول اس بات پر چغلیاں کھا رہے تھے کہ ان کی ٹانگوں پر گوشت بہت کم ہے۔ کالر میں بندھی ہوئی میلی نکٹائی کچھ اس طرح نیچے لٹک رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا، وہ ان سے روٹھی ہُوئی ہے، پتلون کا کپڑا گھٹنوں پر کھچ کر آگے بڑھا ہُوا تھا، جو یہ بتا رہا تھا کہ وہ اس بے جان چیز سے بہت کڑا کام لیتے رہے ہیں، گال بڑھاپے کے باعث بہ پچکے ہوئے، آنکھیں ذرا اندر کو دھنسی ہُوئیں، جو بار بار شانوں کی عجیب جنبش کے ساتھ سکیڑ لی جاتی تھیں۔ آپ نے کاندھوں کو جنبش دی اور ایک قدم آگے بڑھ کر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا

’’کنکر پڑ گیا ہے کیا؟‘‘

اور اثبات میں جواب پا کر دیوی کی طرف بڑھے۔ ہیرو اور ولن کو ایک طرف ہٹنے کا اشارہ کرکے آپ نے کہا۔ ‘‘

پانی سے آرام نہیں آیا۔ خیر۔ رومال ہے کسی کے پاس؟‘‘

نصف درجن رومال ان کے ہاتھ میں دے دیئے گئے۔ بڑے ڈرامائی انداز میں آپ نے ان پیش کردہ رومالوں میں سے ایک منتخب کیا، اور اس کا ایک کنارہ پکڑ کر دیوی کو آنکھ پر سے ہاتھ ہٹالینے کا حکم دیا۔ جب دیوی نے ان کے حکم کی تعمیل کی، تو انھوں نے جیب میں سے مداری کے سے انداز میں ایک چرمی بٹوا نکالا اور اس میں سے اپنا چشمہ نکال کر کمال احتیاط سے ناک پر چڑھالیا۔ پھر چشمے کے شیشوں میں سے دیوی کی آنکھ کا دور ہی سے اکڑ کر معائنہ کیا۔ پھر دفعتاً فوٹو گرافر کی سی پھرتی دکھاتے ہوئے آپ نے اپنی ٹانگیں چوڑی کیں اور جب انھوں نے اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے دیوی کے پپوٹوں کو وا کرنا چاہا تو ایسا معلوم ہُوا کہ وہ فوٹو لیتے وقت کیمرے کا لینس بند کررہے ہیں۔

سعادت حسن منٹو

ایک زاہدہ، ایک فاحشہ

جاوید مسعود سے میرا اتنا گہرا دوستانہ تھا کہ میں ایک قدم بھی اُس کی مرضی کے خلاف اُٹھا نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھ پر نثار تھا میں اُس پر ہم ہر روز قریب قریب دس بارہ گھنٹے ساتھ ساتھ رہتے۔ وہ اپنے رشتے داروں سے خوش نہیں تھا اس لیے جب بھی وہ بات کرتا تو کبھی اپنے بڑے بھائی کی بُرائی کرتا اور کہتا سگ باش برادر خورد باش۔ اور کبھی کبھی گھنٹوں خاموش رہتا، جیسے خلاء میں دیکھ رہا ہے میں اُس کے اِن لمحات سے تنگ آ کر جب زور سے پکارتا

’’جاوید یہ کیا بے ہودگی ہے۔ ‘‘

وہ ایک دم چونکتااور معذرت کرتا اوہ۔ سعادت بھائی معاف کرنا۔ اچھا تو پھر کیا ہوا‘‘

وہ اُس وقت بالکل خالی الذہن ہوتا۔ میں کہتا

’’بھئی جاوید دیکھو۔ مجھے تمہارا یہ وقتاً فوقتاً معلوم نہیں کن گہرائیوں میں کھو جانا بالکل پسندنہیں۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے۔ ایک دن تم پاگل ہو جاؤ گے۔ یہ سُن کر جاوید بہت ہنسا

’’پاگل ہونا بہت مشکل ہے سعادت‘‘

لیکن آہستہ آہستہ اُس کا خلائیں دیکھنا بڑھتا گیا اور اُس کی خاموشی طویل سکوت میں تبدیل ہو گئی اور وہ پیاری سی مسکراہٹ جو اُس کے ہونٹوں پر ہر وقت کھیلتی رہتی تھی بالکل پھیکی پڑ گئی۔ میں نے ایک دن اُس سے پوچھا آخر بات کیا ہے تم ٹھہرے پانی بن گئے ہو۔ ہوا کیا ہے تمھیں؟۔ میں تمہارا دوست ہوں۔ خدا کے لیے مجھ سے تو اپنا راز نہ چھپاؤ۔ ‘‘

جاوید خاموش رہا۔ جب میں نے اُس کو بہت لعن طعن کی تو اُس نے اپنی زُبان کھولی۔

’’میں کالج سے فارغ ہو کر ڈیڑھ بجے کے قریب آؤں گا۔ اُس وقت تمھیں جو پوچھنا ہو گا بتا دوں گا۔ وعدے کے مطابق وہ ٹھیک ڈیڑھ بجے میرے یہاں آیا۔ وہ مجھ سے چار سال چھوٹا تھا۔ بے حد خوبصورت۔ اُس میں نسوانیت کی جھلک تھی۔ پڑھائی سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے میں آوارہ گرد تھا لیکن وہ باقاعدگی کے ساتھ تعلیم حاصل کررہا تھا۔ میں اس کو اپنے کمرے میں لے گیا جب میں نے اُس کو سگریٹ پیش کیا تو اس نے مجھ سے کہا

’’تم میرے روگ کے متعلق پوچھنا چاہتے تھے؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں روگ ہے یا سوگ، بہر حال تم نارمل حالت میں نہیں ہو۔ تمھیں کوئی نہ کوئی تکلیف ضرور ہے‘‘

وہ مسکرایا،

’’ہے۔ اس لیے کہ مجھے ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے‘‘

محبت!۔ میں بوکھلا گیا۔ جاوید کی عمر بمشکل اٹھار برس کی ہو گی۔ خود ایک خوبرو لڑکی کے مانند اُس کو کس لڑکی سے محبت ہوسکتی ہے، یا ہو گئی ہے، وہ تو کنواری لڑکیوں سے کہیں زیادہ شرمیلا اور لچکیلا تھا۔ وہ مجھے سے باتیں کرتا، تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ وہ ایک دہقانی دوشیزہ ہے جس نے پہلی دفعہ کوئی عشقیہ فلم دیکھا ہے۔ آج وہی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے پہلے سمجھا شاید مذاق کر رہا ہے مگر اس کا چہرہ بہت سنجیدہ تھا۔ ایسا لگتا تھا کر فکر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ آخر میں نے پوچھا، کس لڑکی سے محبت ہو گئی ہے تمھیں؟‘‘

اُس نے کوئی جھینپ محسوس نہ کی

’’ایک لڑکی ہے زاہدہ۔ ہمارے پڑوس میں رہتی ہے، بس اُس سے محبت ہو گئی ہے عمر سولہ برس کے قریب ہے بہت خوبصورت ہے اور بھولی بھالی۔ چوری چھپے اُس سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں اُس نے میری محبت قبول کر لی ہے‘‘

میں نے اُس سے پوچھا

’’تو پھر اس اُداسی کا مطلب کیا ہے جو تم پر ہر وقت چھائی رہتی ہے‘‘

اُس نے مسکرا کر کہا

’’سعادت تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو۔ محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے۔ ہر وقت آدمی کھویا کھویا سا رہتا ہے اُس لیے کہ اس کے دل و دماغ میں صرف خیالِ یار ہوتا ہے۔ میں نے زاہدہ سے تمہارا ذکر کیا اور اُس سے کہا کہ تمہارے بعد اگر کوئی ہستی مجھے عزیز ہے تو وہ میرا دوست سعادت ہے‘‘

’’یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’بس، میں نے کہہ دیا۔ اور زاہدہ نے بڑا اشتیاق ظاہر کیا کہ میں تمھیں اُس سے ملاؤں۔ اُسے میری وہ چیز پسند ہے جسے میں پسند کرتا ہوں۔ بولو، چلو گے اپنی بھابی کو دیکھنے‘‘

میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ اس سے کیا کہوں اُس کے پتلے پتلے نازک ہونٹوں پر لفظ بھابی سجتا نہیں تھا۔

’’میری بات کا جواب دو‘‘

میں نے سرسری طور پر کہہ دیا چلیں گے۔ ضرور چلیں گے۔ پر کہاں؟‘‘

’’اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ کل وہ شام کو پانچ بجے کسی بہانے سے لارنس گارڈن آئے گی۔ آپ اپنے پیارے دوست کو ضرور ساتھ لائیے گا۔ اب تم کل تیار رہنا۔ بلکہ خود ہی پانچ بجے سے پہلے پہلے وہاں پہنچ جانا۔ ہم جم خانہ کلب کے اُس طرف لان میں تمہار اانتظار کرتے ہوں گے۔ ‘‘

میں انکار کیسے کرتا، اس لیے کہ مجھے جاوید سے بے حد پیار تھا میں نے وعدہ کر لیا لیکن مجھے اس پر کچھ ترس آرہا تھا میں نے اُس سے اچانک پوچھا

’’لڑکی شریف اور پاکباز ہے نا‘‘

جاوید کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا۔ میں زاہدہ کے بارے میں ایسی باتیں سوچ سکتا ہوں نہ سُن سکتا ہوں۔ تمھیں اگر اُس سے ملنا ہے تو کل شام کو ٹھیک پانچ بجے لارنس گارڈن پہنچ جانا۔ خدا حافظ‘‘

جب وہ ایک دم اُٹھ کر چلا گیا تو میں نے سوچنا شروع کیا۔ مجھے بڑی ندامت محسوس ہوئی کہ میں نے کیوں اُس سے ایسا سوال کیا جس سے اُس کے جذبات مجروح ہوئے۔ آخر وہ اُس سے محبت کرتا تھا۔ اگر کوئی لڑکی کسی سے محبت کرے تو ضروری نہیں وہ بد کردار ہو۔ جاوید مجھے اپنا مخلص ترین دوست یقین کرتا تھا یہی وجہ ہے کہ وہ ناراضی کے باوجود مجھ سے برہم نہ ہوا اور مجھ کو جاتے ہوئے کہہ گیا کہ وہ شام کو لارنس گارڈن آئے۔ میں سوچتا تھا کہ زاہدہ سے مل کر میں اُس سے کس قسم کی باتیں کروں گا بے شمار باتیں میرے ذہن میں آئیں لیکن وہ اس قابل نہیں تھیں کہ کسی دوست کی محبوبہ سے کی جائیں میرے متعلق خدا معلوم وہ اس سے کیا کچھ کہہ چکا تھا۔ یقیناًاُس نے مجھ سے اپنی محبت کا اظہار بڑے والہانہ طور پر کیا ہو گا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زاہدہ کے دل میں میری طرف سے حسد پیدا ہو گیا ہو کیونکہ عورتیں اپنے عاشقوں کی محبت بٹتے نہیں دیکھ سکتیں۔ شاید میرا مذاق اڑنے کے لیے اس نے جاوید سے کہا ہو کہ تم مجھے اپنے پیارے دوست سے ضرور ملاؤ۔ بہر حال مجھے اپنے عزیز ترین دوست کی محبوبہ سے ملنا تھا۔ اُس تقریب پر میں نے سوچا، کوئی تحفہ تو لے جانا چاہیے۔ رات بھر غور کرتا رہا آخر ایک تحفہ سمجھ میں آیا کہ سونے کے ٹاپس ٹھیک رہیں گے انارکلی میں گیا تو سب دکانیں بند، معلوم ہوا کہ اتوار کی تعطیل ہے۔ لیکن ایک جوہری کی دکان کھلی تھی۔ اُس سے ٹاپس خریدے اور واپس گھر آیا۔ چار بجے تک شش و پنج میں مبتلا رہا کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ مجھے کچھ حجاب سا محسوس ہو رہا تھا۔ لڑکیوں سے بے تکلف باتیں کرنے کا میں عادی نہیں تھا، اس لیے مجھ پر گھبراہٹ کا عالم طاری تھا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد میں نے کچھ دیر سونا چاہا مگر کروٹیں بدلتا رہا ٹاپس میرے تکیے کے نیچے پڑے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ دو دہکتے ہوئے انگارے ہیں۔ اُٹھا۔ غسل کیا۔ اس کے بعد شیو۔ پھر نہایا اور کپڑے بدل کر بڑے کمرے میں کلاک کی ٹک ٹکٹ سننے لگا۔ تین بج چکے تھے۔ اخبار اُٹھایا۔ مگر اُس کی ایک خبر بھی نہ پڑھ سکا۔ عجب مصیبت تھی۔ عشق میرا دوست جاوید کر رہا تھا اور میں ایک قسم کا مجنوں بن گیا تھا۔ میرا بہترین سُوٹ رینکن کا سِلا ہوا میرے بدن پر تھا۔ رومال نیا۔ شو بھی نئے۔ میں نے یہ سنگھار اس لیے کیا تھا کہ جاوید نے جو تعریف کے پل زاہدہ کے سامنے باندھے ہیں کہیں ٹوٹ نہ جائیں۔ ساڑھے چار بجے میں اُٹھا اپنی ریلے کی سبز سائیکل لی اور آہستہ آہستہ لارنس گارڈن روانہ ہو گیا جم خانہ کلب کے اس طرف لان میں مجھے جاوید دکھائی دیا وہ اکیلا تھا اُس نے زور کا نعرہ بلند کیا میں جب سائیکل پر سے اُترا تو وہ میرے ساتھ چمٹ گیا، کہنے لگا

’’تم پہلے ہی پہنچ گئے بہت اچھا کیا۔ زاہدہ اب آتی ہی ہو گی۔ میں نے اُس سے کہا تھا کہ میں اپنی کار بھیج دُوں گا مگر وہ رضا مند نہ ہوئی۔ تانگے میں آئے گی۔ جاوید کے باپ کی ایک کار تھی۔ بے بی آسٹن، خدا معلوم کس صدی کا موڈل تھا زیادہ تر یہ جاوید ہی کے استعمال میں آتی تھی۔ لارنس گارڈن میں داخل ہوتے وقت یہ عجوبہ ءِ روزگار موٹر دیکھ لی تھی۔ میں نے اُس سے کہا

’’آؤ بیٹھ جائیں‘‘

لیکن وہ رضا مند نہ ہوا مجھ سے کہنے لگا

’’تم ایسا کرو۔ باہر گیٹ پر جاؤ۔ ایک تانگہ آئے گا جس میں ایک دبلی پتلی لڑکی سیاہ برقع پہنے ہو گی تم تانگے والے کو ٹھہرا لینا اور اُس سے کہنا جاوید کا دوست سعادت ہوں۔ اُس نے مجھے تمہارے استقبال کے لیے بھیجا ہے۔ ‘‘

نہیں جاوید۔ مجھ میں اتنی جرأت نہیں‘‘

’’لاحول ولا۔ جب تم نام بتا دو گے تو اُسے چوں کرنے کی بھی جرأت نہیں ہو گی۔ تمہاری جرأت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ یار، زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے جسے بعد میں یاد کر کے آدمی محظوظ ہوسکے۔ جب زاہدہ سے میری شادی ہو جائے گی تو ہم آج کے اس واقعے کو یاد کر کے خوب ہنسا کریں گے۔ جاؤ میرے بھائی۔ وہ بس اب آتی ہی ہو گی‘‘

میں جاوید کا کہنا کیسے موڑ سکتا تھا۔ بادل نخواستہ چلا گیا اور گیٹ سے کچھ دُور کھڑا رہ کر اُس تانگے کا انتظار کرنے لگا جس میں زاہدہ اکیلی کالے برقعے میں ہو۔ آدھے گھنٹے کے بعد ایک تانگہ اندر داخل ہوا جس میں ایک لڑکی کالے ریشمی برقعے میں ملبوس پچھلی نشست پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھی تھی۔ میں جھینپتا، سمٹتا ڈرتا آگے بڑھا اور تانگے والے کو روکا اُس نے فوراً اپنا تانگہ روک لیا میں نے اُس سے کہا یہ سواری کہاں سے آئی ہے‘‘

تانگے والے نے ذرا سختی سے جواب دیا

’’تمھیں اس سے کیا مطلب۔ جاؤ اپنا کام کرو‘‘

برقع پوش لڑکی نے مہین سے آواز میں تانگے والے کو ڈانٹا

’’تم شریف آدمیوں سے بات کرنا بھی نہیں جانتے‘‘

پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئی آپ نے تانگہ کیوں روکا تھا جناب‘‘

میں ہلکا کے جواب دیا

’’جاوید۔ جاوید۔ میں جاوید کا دوست سعادت ہوں۔ آپ کا نام زاہدہ ہے نا۔ ‘‘

اُس نے بڑی نرمی سے جواب دیا جی ہاں!۔ میں آپ کے متعلق ان سے بہت سی باتیں سن چکی ہوں اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے اسی طرح ملوں اور دیکھوں کہ آپ مجھ سے کس طرح پیش آتی ہیں۔ وہ اُدھر جم خانہ کلب کے پاس گھاس کے تختے پر بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا ہے‘‘

اُس نے اپنی نقاب اُٹھائی اچھی خاصی شکل صورت تھی مسکرا کر مجھ سے کہا

’’آپ اگلی نشست پر بیٹھ جائیے مجھے ایک ضروری کام ہے ابھی چند منٹوں میں لوٹ آئیں گے آپ کے دوست کو زیادہ دیر تک گھاس پر نہیں بیٹھنا پڑے گا۔ میں انکار نہیں کرسکتا تھا۔ اگلی نشست پر کوچوان کے ساتھ بیٹھ گیا تانگہ اسمبلی ہال کے پاس سے گزرا تو میں نے تانگے والے سے کہا

’’بھائی صاحب یہاں کوئی سگرٹ والے کی دُکان ہو تو ذرا دیر کے لیے ٹھہر جانا میرے سگریٹ ختم ہو گئے ہیں۔ ذرا آگے بڑھے تو سڑک پر ایک سگریٹ پان والا بیٹھا تھا۔ تانگے والے نے اپنا تانگہ روکا۔ میں اُترا۔ تو زاہدہ نے کہا آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ یہ تانگے والا لے آئے گا۔ ‘‘

میں نے کہا

’’اس میں تکلیف کی کیا بات ہے

’’اور اُس پان سگریٹ والے کے پاس پہنچ گیا ایک ڈبیہ گولڈ فلیک کی لی ایک ماچس اور دو پان جب پانچ کے نوٹ سے باقی پیسے لے کر مڑا تو کوچوان میرے پیچھے کھڑا تھا اُس نے دبی زبان میں مجھ سے کہا حضور اس عورت سے بچ کے رہیے گا۔ ‘‘

میں بڑا حیران ہوا

’’کیوں؟‘‘

کوچوان نے بڑے وثوق سے کہا

’’فاحشہ ہے۔ اس کا کام ہی یہی ہے کہ شریف اور نوجوان لڑکوں کو پھانستی رہے۔ میرے تانگے میں اکثر بیٹھتی ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر میرے اوسان خطا ہو گئے میں نے تانگے والے سے کہا

’’خدا کے لیے تم اسے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے لائے ہو کہہ دینا کہ میں اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتا اس لیے کہ میرا دوست وہاں لارنس گارڈن میں انتظار کررہا ہے‘‘

تانگے والا چلا گیا۔ معلوم نہیں اُس نے زاہدہ سے کیا کہا میں نے ایک دوسرا تانگہ لیا اور سیدھا لارنس گارڈن پہنچا، دیکھا جاوید ایک خوبصورت لڑکی سے محو گفتگو ہے۔ بڑی شرمیلی اور لجیلی تھی میں جب پاس آیا تو اُس نے فوراً اپنے دوپٹہ سے منہ چھپا لیا۔ جاوید نے بڑی خفگی آمیز لہجے میں مجھ سے کہا تم کہاں غارت ہو گئے تھے۔ تمہاری بھابی کب کی آئی بیٹھی ہیں۔ ‘‘

سمجھ میں نہ آیا کیا کہوں سخت بوکھلا گیا۔ اس بوکھلاہٹ میں یہ کہہ گیا

’’تو وہ کون تھیں جو مجھے تانگے میں ملیں؟‘‘

جاوید ہنسا مذاق نہ کرو مجھ سے۔ بیٹھ جاؤ اور اپنی بھابی سے باتیں کرو یہ تم سے ملنے کی بہت مشتاق تھیں۔ ‘‘

میں بیٹھ گیا اور کوئی سلیقے کی بات نہ کرسکا اس لیے کہ میرے دل و دماغ پر وہ لڑکی یا عورت مسلط ہو گئی تھی جس کے متعلق تانگے والے نے مجھے بڑے خلوص سے بتا دیا تھا کہ فاحشہ ہے۔ (۲۸؍ مئی ۵۴ ؁ء)

سعادت حسن منٹو

ایک خط

تمہارا طویل خط ملا جسے میں نے دو مرتبہ پڑھا۔ دفتر میں اس کے ایک ایک لفظ پر میں نے غور کیا۔ اور غالباً اسی وجہ سے اس روز مجھے رات کے دس بجے تک کام کرنا پڑا، اس لیے کہ میں نے بہت سا وقت اس غورو فکر میں ضائع کردیا تھا۔ تم جانتے ہو اس سرمایہ پرست دنیا میں اگر مزدور مقررہ وقت کے ایک ایک لمحے کے عوض اپنی جان کے ٹکڑے تول کر نہ دے تو اسے اپنے کام کی اُجرت نہیں مل سکتی۔ لیکن یہ رونا رونے سے کیا فائدہ! شام کو عزیز صاحب، جن کے یہاں میں آج کل ٹھہرا ہوں۔ دفتر میں تشریف لائے اور کمرے کی چابیاں دے کر کہنے لگا۔

’’میں ذرا کام سے کہیں جا رہا ہوں۔ شاید دیر میں آنا ہو۔ اس لیے تم میرا انتظار کیے بغیر چلے جانا۔ ‘‘

لیکن پھر فوراً ہی چابیاں جیب میں ڈالیں اور فرمانے لگے:

’’نہیں، تم میرا انتظار کرنا۔ میں دس بجے تک واپس آجاؤں گا۔ ‘‘

دفتری کام سے فارغ ہوا تو دس بج چکے تھے۔ سخت نیند آرہی تھی۔ آنکھوں میں بڑی پیاری گدگدی ہورہی تھی۔ جی چاہتا تھا کرسی پر ہی سو جاؤں۔ نیند کے غلبے کے اثر میں میں نے گیارہ بجے تک عزیز صاحب کا انتظار کیا مگر وہ نہ آئے۔ آخر کار تھک کر میں نے گھر کی راہ لی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ادھر ہی ادھر گھرچلے گئے ہوں گے اور آرام سے سو رہے ہوں گے۔ آہستہ آہستہ نصف میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں تیسری منزل پر چڑھا اور جب اندھیرے میں دروازے کی کنڈی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو آہنی تالے کی ٹھنڈک نے مجھے بتایا کہ عزیز صاحب ابھی تشریف نہیں لائے۔ سیڑھیاں چڑھتے وقت میرے تھکے ہوئے اعضا سکون بخش نیند کی قربت محسوس کرکے اور بھی ڈھیلے ہو گئے، اور جب مجھے ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا تو مضمحل ہو گئے۔ دیر تک چوبی سیڑھی کے ایک زینے پر زانوؤں میں دبائے عزیز صاحب کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئے۔ آخر کار تھک ہار کر میں اٹھا اور تین منزلیں اتر کر نیچے بازار میں آیا اور ایسے ہی ٹہلنا شروع کردیا۔ ٹہلتے ٹہلتے پل پر جا نکلا جس کے نیچے سے ریل گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس پُل کے پاس ہی ایک بڑا چوک ہے۔ یہاں تقریباً آدھ گھنٹے تک میں بجلی کے ایک کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا اور سامنے نیم روشن بازار کو اس امید پر دیکھتا رہا کہ عزیز صاحب گھر کی جانب لوٹتے نظر آجائیں گے۔ آدھ گھنٹے کے اس انتظار کے بعد میں نے دفعتاً سر اٹھا کر کھمبے کے اوپر دیکھا، بجلی کا قمقمہ میری ہنسی اڑا رہا تھا۔ جانے کیوں! تھکاوٹ اور نیند کے شدید غلبے کے باعث میری کمر ٹوٹ رہی تھی اور میں چاہتا تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جاؤں۔ بند دوکانوں کے تھڑے مجھے نشست پیش کررہے تھے مگر میں نے ان کی دعوت قبول نہ کی چلتا چلتا پُل کی سنگین منڈیر پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ کشادہ بازار بالکل خاموش تھا۔ آمدوفت قریب قریب بند تھی، البتہ کبھی کبھی دُور سے موٹر کے ہارن کی رونی آواز خاموش فضا میں لرزش پیدا کرتی ہوئی اوپر کی طرف اُڑ جاتی تھی۔ میرے سامنے سڑک کے دورویہ بجلی کے بلند کھمبے دُور تک پھیلے چلے گئے تھے جو نیند اور اس کے احساس سے عاری معلوم ہوتے تھے۔ ان کو دیکھ کر مجھے روس کے مشہور شاعر میاتلف کی نظم کے چند اشعار یاد آگئے۔ یہ نظم چراغ ہائے سرراہ سے معنون کی گئی ہے۔ میا تلف، سڑک کے کنارے جھلملاتی روشینوں کو دیکھ کر کہتا ہے ؂ یہ ننھے چراغ، یہ ننھے سردار صرف اپنے لیے چمکتے ہیں جو کچھ یہ دیکھتے ہیں، جو کچھ یہ سنتے ہیں کسی کو نہیں بتاتے روسی شاعر نے کچھ درست ہی کہا ہے۔ میرے پاس ہی ایک گز کے فاصلے پر بجلی کا کھمبا گڑا تھا اور اس کے اوپر بجلی کا ایک شوخ چشم قمقمہ نیچے جھکا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں روشن تھیں مگر وہ میرے سینے کے تلاطم سے بے خبر تھا۔ اسے کیا معلوم مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔ سگریٹ سُلگانے کے لیے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو تمہارے وزنی لفافے پرپڑا۔ ذہن میں تمہارا خط پہلے ہی سے موجود تھا۔ چنانچہ میں نے لفافہ کھول کر بسنتی رنگ کے کاغذ نکال کر انھیں پڑھنا شروع کیا۔ تم لکھتے ہو:

’’کبھی تم شیطان بن جاتے ہو اور کبھی فرشتہ نظر آنے لگتے ہو۔ ‘‘

یہاں بھی دو تین حضرات نے میرے متعلق یہی رائے قائم کی ہے اور مجھے یقین سا ہو گیا ہے کہ میں واقعی دو سیرتوں کا مالک ہو۔ اس پر میں نے اچھی طرح غور کیا ہے اور جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ کچھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: بچپن اور لڑکپن میں مَیں نے جو کچھ چاہا، وہ پورا نہ ہونے دیا گیا، یوں کہوکہ میری خواہشات کچھ اس طرح پوری کی گئیں کہ ان کی تکمیل میرے آنسوؤں اور میری ہچکیوں سے لپی ہُوئی تھی۔ میں شروع ہی سے جلد باز اور زُود رنج رہا ہوں۔ اگر میرا جی کسی مٹھائی کھانے کو چاہا ہے اور یہ چاہ عین وقت پر پوری نہیں ہوئی تو بعد میں میرے لیے اس خاص مٹھائی میں کوئی لذت نہیں رہی۔ ان امور کی وجہ سے میں نے ہمیشہ اپنے حلق میں ایک تلخی سی محسوس کی ہے اور اس تلخی کی شدت بڑھانے میں اس افسوسناک حقیقت کا ہاتھ ہے کہ میں نے جس سے محبت کی، جس کو اپنے دل میں جگہ دی، اس نے نہ صرف میرے جذبات کو مجروح کیا بلکہ میری اس کمزوری

’’محبت‘‘

سے زبردستی ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا۔ وہ مجھ سے دغا فریب کرتے رہے، اور لُطف یہ ہے کہ میں ان تمام دغا بازیوں کے احساس کے باوجود ان سے محبت کرتا رہا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنی ہر نئی چال کی کامیابی پر بہت مسرور ہوتے تھے کہ انھوں نے مجھے بے وقوف بنا لیا اور میری بے وقوفی دیکھو کہ میں سب کچھ جانتے ہوئے بے وقوف بن جاتا تھا۔ جب اس ضمن میں مجھے ہر طرف سے ناامیدی ہوئی، یعنی جس کسی کو میں نے دل سے چاہا، اس نے میرے ساتھ دھوکا کیا تو میری طبیعت بجھ گئی اور میں نے محسوس کیا کہ ریگستان میں ایک بھونرے کے مانند ہوں جسے رس چوسنے کے لیے حد نظر تک کوئی پھول نظر نہیں آسکتا لیکن اس کے باوجود محبت کرنے سے باز نہ رہا اور حسبِ معمول کسی نے بھی میرے اس جذبے کی قدر نہ کی۔ جب پانی سر سے گزر گیا اور مجھے اپنے نام نہاد دوستوں کی بے وفائیاں اور سرد مہریاں یاد آنے لگیں تو میرے سینے کے اندر ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ میرے جذباتی، سرمدی اور ناطق وجود میں ایک جنگ سی چھڑ گئی۔ ناطق وجود ان لوگوں کو ملعون و مطعون گردانتے ہوئے اور گزشتہ واقعات کی افسوسناک تصویر دکھاتے ہوئے اس بات کا طالب تھا کہ میں آئندہ سے اپنا دل پتھر کا بنا لوں اور محبت کو ہمیشہ کے لیے باہر نکال پھینکوں، لیکن جذباتی وجود ان افسوسناک واقعات کو دوسرے رنگ میں پیش کرتے ہوئے مجھے فخر کرنے پر مجبور کرتا تھا کہ میں نے زندگی کا صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کی نظر میں ناکامیاں ہی کامیابیاں تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ میں محبت کیے جاؤں کہ یہی کائنات کی روحِ رواں ہے۔ تحت الشعور وجود اس جھگڑے سے میں بالکل تھلگ رہا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر ایک نہایت ہی عجیب و غریب نیند کا غلبہ طاری ہے۔ یہ جنگ خدا جانے کس نا مبارک روز شروع ہوئی کہ اب میری زندگی کا ایک جزو بن کے رہ گئی ہے۔ دن ہو یا رات جب کبھی مجھے فرصت کے چند لمحات میسر آتے ہیں، میرے سینے کے چٹیل میدان پر میرا ناطق وجود اور جذباتی وجود ہتھیار باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ان لمحات میں جب ان دونوں کے درمیان لڑائی زوروں پر ہو، اگر میرے ساتھ کوئی ہم کلام ہو تو میرا لہجہ یقیناًکچھ اور قسم کا ہوتا ہے۔ میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی گھل رہی ہوتی ہے۔ آنکھیں گرم ہوتی ہیں اور جسم کا ایک ایک عضو بے کل ہوتا ہے۔ میں بہت کوشش کیا کرتا ہوں کہ اپنے لہجے کو درشت نہ ہونے دوں، اور بعض اوقات میں اس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوں۔ لیکن اگر میرے کانوں کو کوئی چیز سُنائی دے یا میں کوئی ایسی چیز محسوس کروں جو میری طبیعت کے یکسر خلاف ہے تو پھر میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میرے سینے کی گہرائیوں سے جوکچھ بھی اٹھے، زبان کے راستے باہر نکل جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات جو الفاظ بھی ایسے موقع پر میری زبان پر آتے ہیں، بے حد تلخ ہوتے ہیں۔ ان کی تلخی اور درشتی کا احساس مجھے اس وقت کبھی نہیں ہوا۔ اس لیے کہ میں اپنے اخلاص سے ہمیشہ اور ہر وقت باخبر رہتا ہوں اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میں کبھی کسی کو دکھ نہیں پہنچا سکتا۔ اگر میں نے اپنے ملنے والوں میں سے یا کسی دوست کو ناخوش کیا ہے تو اس کا باعث میں نہیں ہوں بلکہ یہ خاص لمحات ہیں جب میں دیوانے سے کم نہیں ہوتا یا تمہارے الفاظ میں

’’شیطان‘‘

ہوتا ہوں، گو یہ لفظ بہت سخت ہے اور اس کا اطلاق میری دیوانگی پر نہیں ہوسکتا۔ جب تمہارا پچھلے سے پچھلا خط موصول ہوا تھا، اس وقت میرا ناطق وجود جذباتی وجود پر غالب تھا اور میں اپنے دل کے نرم و نازک گوشت کو پتھر میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں پہلے ہی سے اپنے سینے کی آگ میں پھنکا جارہا تھا کہ اوپر سے تمہارے خط نے تیل ڈال دیا۔ تم نے بالکل درست کہا ہے

’’تم درد مند دل رکھتے ہو، گو اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ ‘‘

میں اس کو اچھا کیوں نہیں سمجھتا۔ اس سوال کا جواب ہندوستان کا موجودہ انسانیت کش نظام ہے جس میں لوگوں کی جوانی پر بڑھاپے کی مہر ثبت کردی جاتی ہے۔ میرا دل درد سے بھرا ہوتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ میں علیل ہوں اور علیل رہتا ہوں۔ جب تک درد مندی میرے سینے میں موجود ہے، میں ہمیشہ بے چین رہوں گا۔ تم شاید اسے مبالغہ یقین کرو مگر یہ واقعہ ہے کہ درد مندی میرے لہو کی بوندوں سے اپنی خوراک حاصل کررہی ہے، اور ایک دن ایسا آئے گا جب درد ہی درد رہ جائے گا اور تمہارا دوست دنیا کی نظروں سے غائب ہو جائے گا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ درد مندی کے اس جذبے نے مجھے کیسے کیسے بھیانک دُکھ پہنچائے ہیں۔ یہ کیا کم ہے کہ میری جوانی کے دن بڑھاپے کی راتوں میں تبدیل ہو گئے ہیں اور جب یہ سوچتا ہوں تو اس بات کا تہیّہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ مجھے اپنا دل پتھر بنا لینا چاہیے۔ لیکن افسوس ہے اس درد مندی نے مجھے اتنا کمزور بنا دیا ہے کہ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا، اور چونکہ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا اس لیے میری طبیعت میں عجیب و غریب کیفیتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ شعر میں اب بھی صحیح نہیں پڑھ سکتا، اس لیے کہ شاعری سے مجھے بہت کم دلچسپی رہی ہے۔ لیکن مجھے اس بات کا کامل طور پر احساس ہے کہ میری طبیعت شاعری کی طرف مائل ہے۔ شہر میں بسنے والے لوگوں کی

’’وزنی شاعری‘‘

مجھے پسند نہیں۔ دیہات کے ہلکے پھلکے نغمے مجھے بے حد بھاتے ہیں۔ یہ اس قدر شفاف ہوتے ہیں کہ ان کے پیچھے دل دھڑکتے ہوئے نظر آسکتے ہیں۔ تمہیں حیرت ہے کہ میں

’’رومانی حزنیہ‘‘

کیوں کر لکھنے لگا اور میں اس بات پر خود حیران ہُوں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو اپنے محسوسات کو دوسروں کی زبان میں بیان کرکے اپنا سینہ خالی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ

’’ذہنی مفلس‘‘

ہیں اور مجھے ان پر ترس آتا ہے۔ یہ ذہنی افلاس مالی افلاس سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ میں مالی مُفلس ہوں مگر خدا کا شکر ہے ذہنی مفلس نہیں ہوں، ورنہ میری مصیبتوں کی کوئی حد نہ ہوتی۔ مجھے یہ کتنا بڑا اطمینان ہے کہ میں جوکچھ محسوس کرتا ہوں، وہی اپنی زبان میں بیان کرلیتا ہوں۔ میں نے اپنے افسانوں کے متعلق کبھی غور نہیں کیا۔ اگر ان میں کوئی چیز بقول تمہارے

’’جلوہ گر‘‘

ہے تو میرا بے کل باطن۔ میرا ایمان نہ تشدد پر ہے اور نہ عدم تشدد پر۔ دونوں پر ہے اور دونوں پر نہیں۔ موجودہ تغیر پسند ماحول میں رہتے ہوئے میرے ایمان میں استقلال نہیں رہا۔ آج میں ایک چیز کو اچھا سمجھتا ہوں لیکن دوسرے روز سورج کی روشنی کے ساتھ ہی اس چیز کی ہئیت بدل جاتی ہے۔ اس کی تمام اچھائیاں برائیاں بن جاتی ہیں۔ انسان کا علم بہت محدود ہے اور میرا علم محدود ہونے کے علاوہ منتشر بھی ہے۔ ایسی صورت میں تمہارے اس سوال کا جواب میں کیوں کر دے سکتا ہوں!

’’مجھ‘‘

پر مضمون لکھ کر کیا کرو گے پیارے! میں اپنے قلم کی مقراض سے اپنا لباس پہلے ہی تار تار کر چکا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے اور ننگا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ میرے چہرے سے اگر تم نے نقاب اٹھا دی تو تم دنیا کو ایک بہت ہی بھیانک شکل دکھاؤ گے۔ میں ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ ہوں جس پر میرا قلم کبھی کبھی پتلی جھلی منڈھتا رہتا ہے۔ اگر تم نے جھلیوں کی یہ تہہ ادھیڑ ڈالی تو میرا خیال ہے جو ہیبت تمہیں منہ کھولے نظر آئے گی، اسے دیکھنے کی تاب تم خود میں نہ پاؤ گے۔ میری کشمیر کی زندگی، ہائے میری کشمیر کی زندگی! مجھے معلوم ہے تمہیں میری زندگی کے اس خوشگوار ٹکڑے کے متعلق مختلف قسم کی باتیں معلوم ہوتی رہی ہیں۔ یہ باتیں جن لوگوں کے ذریعے تم تک پہنچتی ہیں، ان کو میں اچھی طرح جانتاہوں۔ اس لیے تمہارا یہ کہنا درست ہے کہ تم ان کو سن کر ابھی تک کوئی صحیح رائے مرتب نہیں کرسکے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ کہنے کے باوجود تم نے ایک رائے مرتب کی اور ایسا کرنے میں بہت عجلت سے کام لیا ہے۔ اگر تم میری تمام تحریروں کو پیش نظر رکھ لیتے تو تمہیں یہ غلط فہمی ہرگز نہ ہوتی کہ میں کشمیر میں ایک سادہ لوح لڑکی سے کھیلتا رہا ہوں۔ میرے دوست تم نے مجھے صدمہ پہنچایا ہے۔ وزیر کون تھی۔ اس کا جواب مختصر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دیہاتی لڑکی تھی۔ جوان اور پوری جوان! اس پہاڑی لڑکی کے متعلق جس نے میری کتاب زندگی کے کچھ اوراق پر چند حسین نقوش بنائے ہیں۔ میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔ میں نے وزیر کوتباہ نہیں کیا۔ اگر

’’تباہی‘‘

سے تمہاری مراد

’’جسمانی تباہی‘‘

ہے تو وہ پہلے ہی سے تباہ شدہ تھی، اور وہ اسی تباہی میں اپنی مسرت کی جستجو کرتی تھی۔ جوانی کے نشے میں مخمور اس نے اس غلط خیال کو اپنے دماغ میں جگہ دے رکھی تھی کہ زندگی کا اصل حظ اور لطف اپنا خون کھولانے میں ہے، اور وہ اس غرض کے لیے ہر وقت ایندھن چنتی رہتی تھی۔ یہ تباہ کن خیال اس کے دماغ میں کیسے پیدا ہوا اس کے متعلق بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ ہماری صنف میں ایسے افراد کی کمی نہیں جن کا کام صرف بھولی بھالی لڑکیوں سے کھیلنا ہوتا ہے۔ جہاں تک میرا اپنا خیال ہے وزیر اس چیز کا شکار تھی جسے تہذیب و تمدن کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں ہے جو شہروں کے شور و شر سے بہت دور ہمالیہ کی گود میں آباد ہے، اور اب تہذیب و تمدن کی بدولت شہروں سے اس کا تعارف کرادیا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں شہروں کی گندگی اس جگہ منتقل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ خالی سلیٹ پر تم جو کچھ بھی لکھو گے، نمایاں طور نظر آئے گا۔ اور صاف پڑھا جائے گا۔ وزیر کا سینہ بالکل خالی تھا۔ دنیوی خیالات سے پاک اور صاف لیکن تہذیب کے کھردرے ہاتھوں نے اس پر نہایت بھدے نقش بنا دیے تھے جو مجھے اس کی غلط روش کا باعث نظر آتے ہیں۔ وزیر کامکان یا جھونپڑا سڑک کے اوپر کی ڈھلان میں واقع تھا اور میں اس کی ماں کے کہنے پر ہر روز اس سے ذرا اوپر چیڑ کے درختوں کی چھاؤں میں زمین پر دری بچھا کر کچھ لکھا پڑھا کرتا تھا اور عام طور پروزیر میرے پاس ہی اپنی بھینس چرایا کرتی تھی۔ چونکہ ہوٹل سے ہر روز دری اُٹھا کر لانا اور پھر اسے واپس لے جانا میرے جیسے آدمی کے لیے ایک عذاب تھا، اس لیے میں اسے ان کے مکان ہی میں چھوڑ جاتا تھا۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ مجھے غسل کرنے میں دیر ہو گئی اور میں ٹہلتا ٹہلتا پہاڑی کے دشوار گزار راستوں کو طے کرکے جب ان کے گھر پہنچا اور دری طلب کی تو اس کی بڑی بہن کی زبانی معلوم ہوا کہ وزیر دری لے کر اوپر چلی گئی ہے۔ یہ سُن کر میں اور اوپر چڑھا اور جب اس بڑے پتھر کے قریب آیا جسے میں میز کے طور پر استعمال کرتا تھا تو میری نگاہیں وزیر پر پڑیں۔ دری اپنی جگہ بچھی ہوئی تھی اور وہ اپنا سبز کلف لگا دوپٹہ تانے سو رہی تھی۔ میں دیر تک پتھر پر بیٹھا رہا۔ مجھے معلوم تھا وہ سونے کا بہانہ کرکے لیٹی ہے شاید اس کا خیال تھا کہ میں اسے جگانے کی کوشش کروں گا اور وہ گہری نیند کا بہانہ کرکے جاگنے میں دیر کرے گی۔ لیکن میں خاموش بیٹھا رہا بلکہ اپنے چرمی تھیلے سے ایک کتاب نکال کر اس کی طرف پیٹھ کرکے پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔ جب نصف گھنٹہ اسی طرح گزر گیا تو وہ مجبور ہو کر بیدار ہُوئی۔ انگڑائی لے کر اس نے عجیب سی آواز منہ سے نکالی۔ میں نے کتاب بند کردی اور مڑ کر اس سے کہا:

’’میرے آنے سے تمہاری نیند تو خراب نہیں ہو ئی؟‘‘

وزیر نے آنکھیں مل کر لہجے کو خواب آلود بناتے ہوئے کہا:

’’آپ کب آئے تھے؟‘‘

’’ابھی ابھی آکے بیٹھا ہوں۔ سونا ہے تو سو جاؤ۔ ‘‘

’’نہیں۔ آج نگوڑی نیند کو جانے کیا ہو گیا۔ کمر سیدھی کرنے کے لیے یہاں ذری کی ذری لیٹی تھی کہ بس سو گئی۔ دو گھنٹے سے کیا کم سوئی ہوں گی۔ ‘‘

اس کے گیلے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے جو کچھ باہر جھانک رہا تھا، اس کو میرا قلم بیان کرنے سے عاجز ہے۔ میرا خیال ہے اس وقت اس کے دل میں یہ احساس کروٹیں لے رہا تھا کہ اس کے سامنے ایک مرد بیٹھا ہے اور وہ عورت ہے۔ جوان عورت۔ شباب کی امنگوں کا ابلتا ہوا چشمہ! تھوڑی دیر کے بعد وہ غیر معمولی باتونی بن گئی اور بہک سی گئی۔ مگر میں نے اس کی بھینس اور بچھڑے کا ذکر چھیڑنے کے بعد ایک دلچسپ کہانی سنائی جس میں ایک بچھڑے سے اس کی ماں کی الفت کا ذکر تھا۔ اس سے اس کی آنکھوں میں وہ شرارے سرد ہو گئے جو کچھ پہلے لپک رہے تھے۔ میں زاہد نہیں ہوں، اور نہ میں نے کبھی اس کا دعویٰ کیا ہے۔ گناہ و ثواب اور سزا و جزا کے متعلق میرے خیالات دوسروں سے جدا ہیں اور یقیناًتمہارے خیالات سے بھی بہت مختلف ہیں۔ میں اس وقت ان بحثوں میں نہیں پڑنا چاہتا اس لیے کہ اس کے لیے سکون قلب اور وقت درکار ہے۔ برسیبل تذکرہ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے تم میرے خیالات کے متعلق کچھ اندازہ لگا سکو گے۔ باتوں باتوں میں ایک مرتبہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ حُسن اگر پورے شباب اور جوبن پر ہو تو وہ دلکشی کھو دیتا ہے۔ مجھے اب بھی اس خیال پر ایمان ہے۔ مگر میرے دوست نے اسے مہمل منطق قراردیا۔ ممکن ہے تمہاری نگاہ میں بھی یہ مہمل ہو۔ مگر میں تم سے اپنے دل کی بات کہتا ہوں۔ اس حُسن نے میرے دل کو اپنی طرف راغب نہیں کیا جو پورے شباب پر ہو۔ اس کو دیکھ کر میری آنکھیں ضرور چندھیا جائیں گی۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس حسن نے اپنی تمام کیفیتیں میرے دل و دماغ پر طاری کردی ہیں۔ شوخ اور بھڑکیلے رنگ اس بلندی تک کبھی نہیں جا سکتے جو نرم و نازک الوان و خطوط کو حاصل ہے۔ وہ حسن یقیناًقابل احترام ہے جو آہستہ آہستہ نگاہوں میں جذب ہو کر دل میں اُتر جائے۔ روشنی کا خیرہ کن شعلہ دل کے بجائے اعصاب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لیکن اس فضول بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ۔ میں کہہ رہا تھا کہ میں زاہد نہیں ہوں، یہ کہتے وقت میں دبی زبان میں بہت سی چیزوں کا اعتراف بھی کررہا ہوں لیکن اس پہاڑی لڑکی سے جو جسمانی لذتوں کی دلدادہ تھی، میرے تعلقات صرف ذہنی اور روحانی تھے۔ میں نے شاید تمہیں یہ نہیں بتایا کہ میں اس بات کا قائل ہُوں کہ اگر عورت سے دوستی کی جائے تو اس کے اندر نُدرت ہونی چاہیے۔ اس سے اس طرح ملنا چاہیے کہ وہ تمہیں دوسروں سے بالکل علیحدہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے اسے تمہارے دل کی ہر دھڑکن میں ایسی صدا سُنائی دے جو اس کے کانوں کے لیے نئی ہو۔ عورت اور مرد۔ اور ان کا باہمی رشتہ ہر بالغ آدمی کو معلوم ہے۔ لیکن معاف کرنا یہ رشتہ میری نظروں میں فرسودہ ہو چکا ہے۔ اس میں یکسر حیوانیت ہے۔ میں پوچھتا ہوں اگر مرد کو اپنی محبت کا مرکز کسی عورت ہی کو بنانا ہے تو وہ انسانیت کے اس مقدس جذبے میں حیوانیت کو کیوں داخل کرے۔ کیا اس کے بغیر محبت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ کیا جسم کی مشقت کا نام محبت ہے؟ وزیراس غلط فہمی میں مبتلا تھی کہ جسمانی لذتوں کا نام محبت ہے اور میرا خیال ہے جس مرد سے بھی وہ ملتی تھی، وہ محبت کی تعریف انہی الفاظ میں بیان کرتی تھی۔ میں اس سے ملا اور اس کے تمام خیالات کی ضد بن کر میں نے اس سے دوستی پیدا کی۔ اس نے اپنے شوخ رنگ خوابوں کی تعبیر میرے وجود میں تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اسے مایوسی ہوئی۔ لیکن چونکہ وہ غلط کار ہونے کے ساتھ ساتھ معصوم تھی، میری سیدھی سادھی باتوں نے اس مایوسی کو حیرت میں تبدیل کردیا۔ اور آہستہ آہستہ اس کی یہ حیرت اس خواہش کی شکل اختیار کرگئی کہ وہ اس نئی رسم و راہ کی گہرائیوں سے واقفیت حاصل کرے۔ یہ خواہش یقیناً ایک مقدس معصومیت میں تبدیل ہو جاتی اور وہ اپنی نسوانیت کا وقارِ رفتہ پھر سے حاصل کرلیتی جسے وہ غلط راستے پر چل کر کھو بیٹھی تھی، لیکن افسوس ہے مجھے اس پہاڑی گاؤں سے دفعتہً پُرنم آنکھوں کے ساتھ اپنے شہر واپس آنا پڑا۔ مجھے وہ اکثر یاد آتی ہے۔ کیوں۔ اس لیے کہ رخصت ہوتے وقت اس کی سدا متبسم آنکھوں میں دو چھلکتے آنسو بتا رہے تھے کہ وہ میرے جذبے سے کافی متاثر ہوچکی ہے اور حقیقی محبت کی ایک ننھی سی شعاع اس کے سینے کی تاریکی میں داخل ہو چکی ہے۔ کاش! میں وزیر کو محبت کی تمام عظمتوں سے روشناس کراسکتا اور کیا پتہ ہے کہ یہ پہاڑی لڑکی مجھے وہ چیز عطا کردیتی جس کی تلاش میں میری جوانی بڑھاپے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ ہے میری داستان جس میں بقول تمہارے لوگ اپنی دلچسپی کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ تم نہیں سمجھتے، اور نہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں یہ د استانیں کیوں لکھتا ہوں۔ پھر کبھی سمجھاؤں گا۔

سعادت حسن منٹو

اولاد

جب زبیدہ کی شادی ہوئی تو اس کی عمر پچیس برس کی تھی۔ اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کے ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا۔ اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی تو کوئی ایسی مشکل پیدا ہو جاتی کہ رشتہ عملی صورت اختیار نہ کرسکتا۔ آخر جب زبیدہ پچیس برس کی ہو گئی تو اس کے باپ نے ایک رنڈوے کا رشتہ قبول کرلیا۔ اس کی عمر پینتیس برس کے قریب قریب تھی، یا شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔ صاحبِ روزگار تھا۔ مارکیٹ میں کپڑے کی تھوک فروشی کی دکان تھی۔ ہر ماہ پانچ چھ سو روپے کما لیتا تھا۔ زبیدہ بڑی فرماں بردار لڑکی تھی۔ اس نے اپنے والدین کا فیصلہ منظور کرلیا۔ چنانچہ شادی ہو گئی، اور وہ اپنے سسرال چلی گئی۔ اس کا خاوند جس کا نام علم الدین تھا۔ بہت شریف اور محبت کرنے والا ثابت ہوا۔ زبیدہ کی ہر آسائش کا خیال رکھتا۔ کپڑے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ حالانکہ دوسرے لوگ اس کے لیے ترستے تھے۔ چالیس ہزار اور تھری بی کا لٹھا، شنوں اور دو گھوڑے کی بوسکی کے تھانوں کے تھان زبیدہ کے پاس موجود تھے۔ وہ اپنے میکے ہر ہفتے جاتی۔ ایک دن وہ گئی تو اس نے ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی بین کرنے کی آواز سنی۔ اندر گئی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ اچانک دل کی حرکت بند ہونے کے باعث مر گیا ہے۔ اب زبیدہ کی ماں اکیلی رہ گئی تھی۔ گھر میں سوائے ایک نوکر کے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنے شوہر سے درخواست کی کہ وہ اسے اجازت دے کہ وہ اپنی بیوہ ماں کو اپنے پاس بُلالے۔ علم الدین نے کہا

’’اجازت لینے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تمہارا گھر ہے اور تمہاری ماں میری ماں۔ جاؤ انہیں لے آؤ۔ جو سامان وغیرہ ہو گا اس کو یہاں لانے کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں‘‘

زبیدہ بہت خوش ہوئی۔ گھر کافی بڑا تھا۔ دو تین کمرے خالی پڑے تھے۔ وہ تانگے میں گئی اور اپنی ماں کو ساتھ لے آئی۔ علم الدین نے سامان اٹھوانے کا بندوبست کردیا تھا، چنانچہ وہ بھی پہنچ گیا۔ زبیدہ کی ماں کے لیے کچھ سوچ بچار کے بعد ایک کمرہ مختص کردیا گیا۔ وہ بہت ممنون و متشکرتھی۔ اپنے داماد کے حسنِ سلوک سے بہت متاثر۔ اس کے جی میں کئی مرتبہ یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنا سارا زیور جو کئی ہزاروں کی مالیت کا تھا، اس کو دے دے کہ وہ اپنے کاروبار میں لگائے اور زیادہ کمائے۔ مگروہ طبعاً کنجوس تھی۔ ایک دن اس نے اپنی بیٹی سے کہا

’’مجھے یہاں آئے دس مہینے ہو گئے ہیں۔ میں نے اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔ حالانکہ تمہارے مرحوم باپ کے چھوڑے ہوئے دس ہزار روپے میرے پاس موجود ہیں۔ اور زیور الگ‘‘

زبیدہ انگیٹھی کے کوئلوں پر پھلکا سینک رہی تھی

’’ماں، تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو‘‘

’’کیسی ویسی میں نہیں جانتی۔ میں نے یہ سب روپے علم الدین کو دے دیے ہوتے، مگر میں چاہتی ہوں کہ تمہارے کوئی بچہ پیدا ہو۔ تو یہ سارا روپیہ اس کو تحفے کے طور پر دُوں۔ ‘‘

زبیدہ کی ماں کو اس بات کا بڑا خیال تھا کہ ابھی تک بچہ پیدا کیوں نہیں ہوا۔ شادی ہوئے قریب قریب دو برس ہوچکے تھے، مگر بچے کی پیدائش کے آثار ہی نظر نہیں آتے تھے۔ وہ اسے کئی حکیموں کے پاس لے گئی۔ کئی معجونیں، کئی سفوف، کئی قرص اس کو کھلوائے، مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر اس نے پیروں فقیروں سے رجوع کیا۔ ٹونے ٹوٹکے استعمال کیے گئے، تعویذ، دھاگے بھی۔ مگر مراد بر نہ آئی۔ زبیدہ۔ اس دوران میں تنگ آگئی۔ ایک دن چنانچہ اس نے اُکتا کر اپنی ماں سے کہہ دیا

’’چھوڑو اس قصّے کو۔ بچہ نہیں ہوتا تو نہ ہو۔ ‘‘

اس کی بوڑھی ماں نے منہ بسور کرکہا

’’بیٹا۔ یہ بہت بڑا قصّہ ہے۔ تمہاری عقل کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔ تم اتنا بھی نہیں سمجھتی کہ اولاد کا ہونا کتنا ضروری ہے۔ اسی سے تو انسان کی زندگی کا باغ سدا ہرا بھرا رہتا ہے‘‘

زبیدہ نے پھلکا چنگیر میں رکھا

’’میں کیا کروں۔ بچہ پیدا نہیں ہوتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے‘‘

بڑھیا نے کہا

’’قصور کسی کا بھی نہیں بیٹی۔ بس صرف ایک اللہ کی مہربانی چاہیے‘‘

زبیدہ اللہ میاں کے حضور ہزاروں مرتبہ دُعائیں مانگ چکی تھی کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اس کی گود ہری کرے، مگر اس کی ان دُعاؤں سے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ جب اس کی ماں نے ہر روز اس سے بچے کی پیدائش کے متعلق باتیں کرنا شروع کیں، تو اس کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بنجر زمین ہے، جس میں کوئی پودا اُگ ہی نہیں سکتا۔ راتوں کو وہ عجیب عجیب سے خواب دیکھتی۔ بڑے اوٹ پٹانگ قسم کے۔ کبھی یہ دیکھتی کہ وہ لق و دق صحرا میں کھڑی ہے اس کی گود میں ایک گُل گو تھنا سا بچہ ہے، جسے وہ ہوا میں اتنے زور سے اچھالتی ہے کہ وہ آسمان تک پہنچ کر غائب ہو جاتا ہے۔ کبھی یہ دیکھتی کہ وہ اپنے بستر میں لیٹی ہے جو ننھے منے بچوں کے زندہ اور متحرک گوشت سے بنا ہے۔ ایسے خواب دیکھ دیکھ کر اس کا دل و دماغ غیر متوازن ہو گیا۔ بیٹھے بیٹھے اس کے کانوں میں بچوں کے رونے کی آواز آنے لگی، اوروہ اپنی ماں سے کہتی

’’یہ کس کا بچہ رو رہا ہے؟‘‘

اس کی ماں نے اپنے کانوں پر زور دے کر یہ آواز سننے کی کوشش کی، جب کچھ سنائی نہ دیا تو اس نے کہا

’’کوئی بچہ رو نہیں رہا۔ ‘‘

’’نہیں ماں۔ رو رہا ہے۔ بلکہ رو رو کے ہلکان ہوئے جارہا ہے‘‘

اس کی ماں نے کہا

’’یا تو میں بہری ہو گئی ہوں، یا تمہارے کان بجنے لگے ہیں‘‘

زبیدہ خاموش ہو گئی، لیکن اس کے کانوں میں دیر تک کسی نوزائیدہ بچے کے رونے اور بلکنے کی آوازیں آتی رہیں۔ اس کو کئی بار یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کی چھاتیوں میں دودھ اتر رہا ہے۔ اس کا ذکر اس نے اپنی ماں سے نہ کیا۔ لیکن جب وہ اندر اپنے کمرے میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے گئی تو اس نے قمیص اٹھا کر دیکھا کہ اس کی چھاتیاں اُبھری ہوئی تھیں۔ بچے کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں اکثر ٹپکتی رہی۔ لیکن وہ اب سمجھ گئی تھی کہ یہ سب واہمہ ہے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ اس کے دل و دماغ پر مسلسل ہتھوڑے پڑتے رہے ہیں کہ اس کے بچہ کیوں نہیں ہوتا اور وہ خود بھی بڑی شدت سے وہ خلا محسوس کرتی ہے، جو کسی بیاہی عورت کی زندگی میں نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اب بہت اُداس رہنے لگی۔ محلے میں بچے شور مچاتے تو اس کے کان پھٹنے لگتے۔ اس کا جی چاہتا کہ باہر نکل کر ان سب کا گلا گھونٹ ڈالے۔ اس کے شوہر علم الدین کو اولاد ولاد کی کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ اپنے بیوپار میں مگن تھا۔ کپڑے کے بھاؤ روز بروز چڑھ رہے تھے۔ آدمی چونکہ ہوشیار تھا، اس لیے اس نے کپڑے کا کافی ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔ اب اس کی ماہانہ آمدن پہلے سے دوگنا ہو گئی تھی۔ مگر اس آمدن کی زیادتی سے زبیدہ کو کوئی خوشی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ جب اس کا شوہر نوٹوں کی گڈی اس کو دیتا، تو اسے اپنی جھولی میں ڈال کر دیر تک انہیں لوری دیتی رہتی۔ پھر وہ انہیں اٹھا کر کسی خیالی جھولنے میں بٹھا دیتی۔ ایک دن علم الدین نے دیکھا کہ وہ نوٹ جو اس نے اپنی بیوی کو لا کر دیے تھے، دودھ کی پتیلی میں پڑے ہیں۔ وہ بہت حیران ہوا کہ یہ کیسے یہاں پہنچ گئے۔ چنانچہ اس نے زبیدہ سے پوچھا

’’یہ نوٹ دودھ کی پتیلی میں کس نے ڈالے ہیں؟‘‘

زبیدہ نے جواب دیا۔

’’بچے بڑے شریر ہیں، یہ حرکت انہی کی ہو گی‘‘

علم الدین بہت متحیر ہوا

’’لیکن یہاں بچے کہاں ہیں؟‘‘

زبیدہ اپنے خاوند سے کہیں زیادہ متحیر ہوئی

’’کیا ہمارے ہاں بچے نہیں۔ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ ابھی اسکول سے واپس آتے ہوں گے۔ ان سے پوچھوں گی کہ یہ حرکت کس کی تھی‘‘

علم الدین سمجھ گیا۔ اس کی بیوی کے دماغ کا توازن قائم نہیں۔ لیکن اس نے اپنی ساس سے اس کا ذکر نہ کیا کہ وہ بہت کمزور عورت تھی۔ وہ دل ہی دل میں زبیدہ کی دماغی حالت پر افسوس کرتا رہا۔ مگر اس کا علاج اس کے بس میں نہیں تھا۔ اس نے اپنے کئی دوستوں سے مشورہ لیا۔ ان میں سے چند نے اس سے کہا کہ پاگل خانے میں داخل کرادو۔ مگر اس کے خیال ہی سے اسے وحشت ہوتی تھی۔ اس نے دکان پر جانا چھوڑ دیا۔ سارا وقت گھر رہتا اور زبیدہ کی دیکھ بھال کرتا کہ مبادا وہ کسی روز کوئی خطرناک حرکت کر بیٹھے۔ اس کے گھر پر ہر وقت موجود رہنے سے زبیدہ کی حالت کسی قدر دُرست ہو گئی، لیکن اس کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ دُکان کا کاروبار کون چلا رہا ہے۔ کہیں وہ آدمی جس کو یہ کام سپرد کیا گیا ہے، غبن تو نہیں کررہا۔ اس نے چنانچہ کئی مرتبہ اپنے خاوند سے کہا

’’دکان پر تم کیوں نہیں جاتے؟‘‘

علم الدین نے اس سے بڑے پیار کے ساتھ کہا۔

’’جانم۔ میں کام کرکے تھک گیا ہوں، اب تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتاہوں‘‘

’’مگر دکان کس کے سپرد ہے؟‘‘

’’میرا نوکر ہے۔ وہ سب کام کرتا ہے‘‘

’’کیا ایماندار ہے؟‘‘

’’ہاں، ہاں۔ بہت ایماندار ہے۔ دمڑی دمڑی کا حساب دیتا ہے۔ تم کیوں فکر کرتی ہو‘‘

زبیدہ نے بہت متفکر ہو کر کہا

’’مجھے کیوں فکر نہ ہو گی بال بچے دار ہوں۔ مجھے اپنا تو کچھ خیال نہیں، لیکن ان کا تو ہے۔ یہ آپ کا نوکر اگر آپ کا روپیہ مار گیا تو یہ سمجھیے کہ بچوں۔ ‘‘

علم الدین کی آنکھوں میں آنسو آگئے

’’زبیدہ۔ ان کا اللہ مالک ہے۔ ویسے میرا نوکر بہت وفادارہے اور ایماندار ہے۔ تمہیں کوئی تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ ‘‘

‘‘

مجھے تو کسی قسم کا تردّد نہیں ہے، لیکن بعض اوقات ماں کو اپنی اولاد کے متعلق سوچنا ہی پڑتا ہے‘‘

علم الدین بہت پریشان تھا کہ کیا کرے۔ زبیدہ سارا دن اپنے خیالی بچوں کے کپڑے سیتی رہتی۔ ان کی جُرابیں دھوتی، ان کے لیے اُونی سویٹر بُنتی۔ کئی بار اس نے اپنے خاوند سے کہہ کر مختلف سائز کی چھوٹی چھوٹی سینڈلیں منگوائیں، جنہیں وہ ہر صبح پالش کرتی تھی۔ علم الدین یہ سب کچھ دیکھتا اور اس کا دل رونے لگتا۔ اور وہ سوچتا کہ شاید اس کے گناہوں کی سزا اس کو مل رہی ہے۔ یہ گناہ کیا تھے، اس کا علم، علم الدین کو نہیں تھا۔ ایک دن اس کا ایک دوست اس سے ملا جو بہت پریشان تھا۔ علم الدین نے اس سے پریشانی کی وجہ دریافت کیا، تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک لڑکی سے معاشقہ ہو گیا تھا۔ اب وہ حاملہ ہو گئی۔ اسقاط کے تمام ذرائع استعمال کیے گئے ہیں، مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ علم الدین نے اس سے کہا

’’دیکھو، اسقاط و سقاط کی کوشش نہ کرو۔ بچہ پیدا ہونے دو۔ ‘‘

اس کے دوست نے جسے ہونے والے بچے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، کہا

’’میں بچے کا کیا کروں گا؟‘‘

’’تم مجھے دے دینا‘‘

بچہ پیدا ہونے میں کچھ دیر تھی۔ اس دوران میں علم الدین نے اپنی بیوی زبیدہ کو یقین دلایا کہ وہ حاملہ ہے اور ایک ماہ کے بعد اس کے بچہ پیدا ہوجائے گا۔ زبیدہ بار بار کہتی

’’مجھے اب زیادہ اولاد نہیں چاہیے، پہلے ہی کیا کم ہے‘‘

علم الدین خاموش رہتا۔ اس کے دوست کی داشتہ کے لڑکا پیدا ہوا، جو علم الدین نے زبیدہ کے پاس، جو کہ سورہی تھی، لٹا دیا۔ اور اُسے جگا کر کہا

’’زبیدہ، تم کب تک بے ہوش پڑی رہو گی۔ یہ دیکھو، تمہارے پہلو میں کیا ہے‘‘

’’زبیدہ نے کروٹ بدلی اوردیکھا کہ اس کے ساتھ ایک ننھا منا بچہ ہاتھ پاؤں ماررہا ہے، علم الدین نے اس سے کہا

’’لڑکا ہے۔ اب خدا کے فضل و کرم سے ہمارے پانچ بچے ہو گئے ہیں‘‘

زبیدہ بہت خوش ہوئی

’’یہ لڑکا کب پیدا ہوا؟‘‘

’’صبح سات بجے‘‘

’’اور مجھے اس کا علم ہی نہیں۔ میرا خیال ہے، درد کی وجہ سے میں بے ہوش ہو گئی ہوں گی‘‘

علم الدین نے کہا

’’ہاں، کچھ ایسی ہی بات تھی، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہو گیا‘‘

دوسرے روز جب علم الدین اپنی بیوی کو دیکھنے گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ لہولہان ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کا کٹ تھروٹ استرا ہے۔ وہ اپنی چھاتیاں کاٹ رہی ہے۔ علم الدین نے اس کے ہاتھ سے اُسترا چھین لیا،

’’یہ کیا کررہی ہو تم؟‘‘

زبیدہ نے اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور کہا

’’ساری رات بلکتا رہا ہے، لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا۔ لعنت ہے ایسی۔ ‘‘

اس سے آگے، وہ اور کچھ نہ کہہ سکی۔ خُون سے لتھڑی ہوئی ایک اُنگلی اس نے بچے کے منہ کے ساتھ لگا دی، اور ہمیشہ کی نیند سو گئی۔

سعادت حسن منٹو

انقلاب پسند

میری اور سلیم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گُزر چکا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا، ایک ہی کالج میں داخل ہُوئے اور ایک ہی ساتھ ایف۔ اے۔ کے امتحان میں شامل ہو کر فیل ہوئے۔ پھر پرانا کالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہُوئے۔ اس سال میں تو پاس ہو گیا۔ مگر سلیم سُوئے قسمت سے پھر فیل ہو گیا۔ سلیم کی دوبارہ ناکامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ آوارہ مزاج اور نالائق ہے۔ یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونے کی حیثیت سے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وہ کالج کی پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ دیتا۔ تو کوئی وجہ نہ تھی۔ کہ وہ صوبہ بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کی طرف کیوں توجہ نہ دی؟ جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اُس کی تمام تر وجہ، وہ خیالات معلوم ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے اُس کے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے تھے؟ دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمام اُلجھنوں سے آزاد تھا۔ جنھوں نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر رکھا ہے۔ ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح کھیل کود میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سب لڑکوں میں ہر دلعزیز تھا۔ مگر یکایک اس کے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسّم چہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی۔ اب کھیل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔ وہ کیا خیالات تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہُوئے؟۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اس کے علاوہ وہ خود اپنی دلی آواز سے نا آشنا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی سیر کرتے ہُوئے اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔

’’عباس جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘

’’ہاں۔ ہاں۔ کیا جی چاہتا ہے۔ میں نے اس کی طرف تمام توجہ مبذول کرکے پوچھا ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلی اور گلے میں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا کہ وہ اپنے دلی مدّعا کو خود نہ پہچانتے ہُوئے الفاظ میں صاف طور پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کر کے دوسرے ذہن پر منتقل کر سکتا ہے۔ وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے۔ مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا۔ اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مترادف ہے۔ جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہُوئی چیز کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ مگر وہ گلے سے نیچے اُترتی چلی جا رہی ہو۔ یہ ایک ذہنی عذاب ہے۔ جس کی تفصیل لفظوں میں نہیں آ سکتی۔ سلیم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے۔ اور ہوتا بھی کیونکر جب اس کے سینے میں خیالات کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ بیٹھا بیٹھا اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اور کمرے میں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کر دیے۔ غالباً وہ اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آ کر ان خیالات کو جو اس کے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے۔ سانسوں کے ذریعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی نکلیف دہ لمحات میں اس نے اکثر اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا

’’عباس! یہ خاکی کشتی کسی روز تُند موجوں کی تاب نہ لا کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘

وہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا تھا۔ سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا۔ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ حادثہ کس شکل میں پردہ ظہور پر نمودار ہو گا۔ اس کی نگاہیں ایک عرصے سے دُھندلے خیالات کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں۔ جو اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کے پردے میں کیا نہاں ہے۔ میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ مگر مجھے اس کی مُنقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کن گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ اور وہ اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کر دیا گیا تھا۔ میں ایک عرصے سے سلیم کو مُنقلب ہوتے دیکھ رہا تھا۔ اس کی عادات دن بدن بدل رہی تھیں۔ کل کا کھلنڈر الڑکا، میرا ہم جماعت ایک مُفکر میں تبدیل ہو رہا تھا۔ یہ تبدیلی میرے لیے سخت باعث حیرت تھی۔ کچھ عرصے سے سلیم کی طبیعت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔ جب دیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ اور اپنے بھاری سر کو گھٹنوں میں تھامے کچھ سوچ رہا ہے۔ وہ کیا سوچ رہا ہوتا۔ یہ میری طرح خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر دوات کا آہنی ڈھکنا یا گلاس کا بیرونی حصّہ پھیرتے دیکھا ہے۔ شاید وہ اس عمل سے اپنی آنکھوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تھا۔ سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفّوں کی بھاری بھرکم تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اس کی میز پر ایک کتاب نظر آئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں وہ شطرنج۔ تاش اور اسی قسم کی دیگر کھیلیں رکھا کرتا تھا۔ کتابیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی کئی دنوں تک گھر سے کہیں باہر چلا جایا کرتا تھا۔ جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں کے انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا۔ جو اس نے بڑے قرینے سے الماری میں سجا رکھی تھیں۔ سلیم کا عزیز ترین دوست ہونے کی حیثیت میں مَیں اس کی طبیعت کے غیر معمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا۔ کہ یہ سکون کسی وحشت خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی خیال تھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثّے کا واقع ہوا تھا۔ اس پر اس نے خوامخواہ اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر بمشکل بیس سال کی ہو گی۔ مگر اس کی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تھے۔ جو اس کی ذہنی پریشانی کو ظاہر کرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریں پڑ گئی تھیں۔ جنہوں نے سلیم کو قبل ازوقت معّمر بنا دیا تھا۔ اس غیر معمولی تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھاہے۔ جو مجھے ایک شعبدے سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ یہ کیا تعجب کی بات ہے۔ کہ میری عمر کا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔ سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالباً اس بنا پر پاگل خانے بھیجا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے۔ راہ گذروں کو پکڑ پکڑ کر انہیں زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے۔ اور امرا کے حریر پوش بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے۔ ممکن ہے۔ یہ حرکات ڈاکٹروں کے نزدیک دیوانگی کی علامتیں ہوں۔ مگر میں یقین کے ساتھ کَہ سکتا ہوں کہ سلیم پاگل نہیں ہے۔ بلکہ وہ لوگ جنھوں نے اسے امن عامہ میں خلل ڈالنے والا تصور کرتے ہوئے آہنی سلاخوں کے پنجرے میں قید کر دیا ہے۔ کسی دیوانے حیوان سے کم نہیں ہیں! اگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے۔ تو کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ اس کے ہر لفظ کو غور سے سنیں؟ اگر وہ راہ گذروں کے ساتھ فلسفہ ءِ حیات پر تبادلہ ءِ خیالات کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا اس کے یہ معنی لیے جائیں گے کہ اس کا وجود مجلسی دائرہ کے لیے نقصان دہ ہے؟۔ کیا زندگی کے حقیقی معنی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہیں ہے؟ اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اُتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈھانپنا چاہتا ہے تو کیا یہ عمل اُن افراد کو اُن کے فرائض سے آگاہ نہیں کرتا جو فلک بوس عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمول کیا جائے؟ سلیم ہر گز پاگل نہیں ہے۔ مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اس کے افکار نے اسے بے خود ضروربنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دُنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہے۔ مگر دے نہیں سکتا ایک کم سن بچے کی طرح وہ تُتلا تُتلا کر اپنے قلبی احساسات بیان کرنا چاہتا ہے۔ مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔ وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ مگر اب اسے اور اذیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے۔ اور اب اسے زندان نما کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی۔ جس سے میں یہ نتیجہ نکال سکوں۔ کہ وہ دیوانہ ہے۔ ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اس کے ذہنی انقلابات کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔ شروع شروع میں جب میں نے اس کے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا ہُوا پایا تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی دراصل میں نے اس وقت جو خیال کیا۔ کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ موزوں خیال کیا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور میزوں کو کئی سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں۔ وہ غیر متوقع تبدیلی بہت بھلی معلوم ہوئی۔ اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے سے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنھیں میں اور سلیم نے بہت مشکل کے بعد فراہم کیا تھا۔ باہر ٹوکری میں پھٹی پڑی ہیں اور ان کی جگہ انہی چوکھٹوں میں مختلف مصنفّوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں۔ چونکہ میں خود ان تصاویر کا اتنا مشتاق نہ تھا۔ اس لیے مجھے سلیم کا یہ انخلاب بہت پسند آیا۔ چنانچہ ہم اس روز دیر تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک کوئی خاص قابل ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایک روز اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا۔ جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر کتابیں چُن رکھیں تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجّب ہوا۔ اور کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں! اس تخت کے کیا معنی؟ سلیم جیسا کہ اس کی عادت تھی مسکرایا اور کہنے لگا۔

’’کرسیوں پر روزانہ بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اُکتا گئی ہے۔ اب یہ فرش والا سلسلہ ہی رہے گا۔ بات معقول تھی۔ میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال کرتے کرتے طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے۔ مگر جب پندرہ بیس روز کے بعد میں نے وہ تخت مع تکیے کے غائب پایا۔ تو میرے تعجّب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اور مجھے شُبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعی خبطی تو نہیں ہو گیا ہے۔ سلیم سخت گرم مزاج واقع ہُوا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے وزنی افکار نے اسے معمول سے زیادہ چڑ چڑا بنا رکھا تھا۔ اس لیے میں عموماً اس سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتا۔ جو اس کے دماغی توازن کو درہم برہم کر دیں یا جن سے وہ خوامخواہ کھج جائے۔ فرنیچر کی تبدیلی، تصویروں کا انخلاب، تخت کی آمد اور پھر اس کا غائب ہو جانا واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں ان اُمور کی وجہ دریافت کرتا۔ مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا، اور اس کے کام میں دخل دینا منظور نہ تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ تھوڑے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھنا میرا معمول ہو گیا۔ اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے۔ تو ہفتے کے بعد وہاں سے اُٹھا دیا گیا ہے۔ اس کے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہ پہلے کمرے کے دائیں طرف پڑی تھی۔ رات رات میں وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دی گئی ہے۔ انگیٹھی پر رکھی ہُوئی تصاویر کے زاویے بدلے جا رہے ہیں۔ کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی ہیں۔ کرسیوں کے رُخ تبدیل کیے گئے ہیں۔ گویا کمرے کی ہر شے ایک قسم کی قواعد کرائی جاتی تھی۔ ایک روز جب میں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا تو مجھ سے نہ رہا گیا۔ اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔

’’سلیم میں ایک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا دیکھ رہا ہوں۔ آخر بتاؤ تو سہی یہ تمہارا کوئی نیا فلسفہ ہے۔ ؟‘‘

’’تم جانتے نہیں ہو، میں انقلاب پسند ہوں‘‘

سلیم نے جواب دیا۔ یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسبِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہ صرف مذاق کر رہا ہے۔ مگر یہ جواب دیتے وقت اس کا چہرہ اس امر کا شاہد تھا، کہ وہ سنجیدہ ہے۔ اور میرے سوال کا جواب وہ اِنہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے لیکن پھر بھی میں تذبذب کی حالت میں تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’مذاق کر رہے ہو یار؟‘‘

’’تمہاری قسم بہت بڑا انقلاب پسند‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد اس نے ایسی گفتگوشروع کی تھی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہار خیالات کرنے لگ گئے تھے۔ یہ سلیم کی عادت ہے کہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چُھپا لیا کرتا ہے۔ ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہُوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم درحقیقت انقلاب پسند واقع ہُوا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہے۔ یا وہ دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بم پھینک کر دہشت پھیلاناچاہتا ہے۔ بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے۔ وہ ہر چیز میں انقلاب دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیا کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کس حد تک غلط ہو۔ مگر میں یہ وثوق سے کَہ سکتا ہوں کہ اس کی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے۔ جس کے آثار اس کے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔ بادی النظر میں کمرے کی اشیا کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا دیوانگی کے مترادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنی حرکات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت کام کر رہی تھی۔ جس سے وہ خود ناآشنا تھا۔ اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا نام دیتا ہوں۔ سلیم کے دماغ میں تلاطم بپا کر دیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس طوفان کی تاب نہ لا کر ازخود رفتہ ہو گیا۔ اور پاگل خانے کی چاردیواری میں قید کر دیا گیا۔ پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوا ملا۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اس لیے کہ میں اُس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے بازار کے چند دکان داروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا ہے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اس سے فوراً مل کر اُسے اس قسم کی حرکات کرنے سے منع کر دوں۔ اس کے علاوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ نحبوط القواس ہی نہ ہو گیا ہو۔ چونکہ میں اس سے فوراً ہی بات کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے ہوٹل میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔ کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے اس طرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔

’’شاید میں سلیم نہیں ہوں۔ ‘‘

آواز میں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جُملہ آپ کی نظروں میں بالکل سادہ معلوم ہو۔ مگر خدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک ہو گئیں۔ ” شاید میں سلیم نہیں ہُوں‘‘

گویا وہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی روز اس کا بہترین دوست بھی اسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔ میں نے ضبط سے کام لیا۔ اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’سلیم میں نے سُنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کر دی ہیں۔ جانتے بھی ہو۔ اب تمہیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پُکارتا ہے۔ ‘‘

’’پاگل! شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پُکارتا ہے۔ پاگل!۔ ہاں عباس، میں پاگل ہُوں۔ پاگل۔ دیوانہ۔ خرد باختہ۔ لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں۔ معلوم ہے کیوں؟ یہاں تک کہ وہ میری طرف سرتاپا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔

’’اس لیے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دِکھلا دِکھلا کر یہ پوچھتا ہُوں۔ کہ اس بڑھتی ہُوئی غربت کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟۔ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اس لیے وہ مجھے پاگل تصّور کرتے ہیں۔ آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منّور بنایا جا سکتا ہے۔ وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔ وہ جن کی نبضِ حیات دوسروں کے خون کی مرہون منّت ہے، وہ جن کا فردوس غربا کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، جن کے سازِ عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں یتیموں کی عریانی، لاوارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔ کہیں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردہ ءِ غربت اپنے دلوں کے مشترکہ لہو میں اُنگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔ وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنّت کے دروازے ہر شخص کے لیے واہوں گے۔ میں پوچھتا ہُوں کہ اگر میں آرام میں ہوں۔ تو کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کی زندگی بسر کرو؟۔ کیا یہی انسانیّت ہے کہ میں کارخانے کا مالک ہوتے ہُوئے ہر شب ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہُوں، ہر روز کلب میں سینکڑوں روپے قمار بازی کی نذر کر دیتا ہوں۔ اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دریغ روپیہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہُوں، اور میرے مزدوروں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ ان کے بچے مٹی کے ایک کھلونے کے لیے ترستے ہیں۔ پھر لُطف یہ ہے کہ میں مُہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے، اور وہ لوگ جن کہ پسینہ میرے لیے گوہر تیار کرتا ہے۔ مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں خود ان سے نفرت کرتا ہوں۔ تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے نا آشنا نہیں ہیں؟ میں ان دونوں کو ان کے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کس طرح کروں؟۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘

سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کر دیا۔

’’میں پاگل نہیں ہُوں۔ مجھے ایک وکیل سمجھو۔ بغیر کسی اُمید کے، جو اس چیز کی وکالت کر رہا ہے۔ جو بالکل گم ہُو چکی ہے۔ میں ایک دبی ہوئی آواز ہوں۔ انسانیّت ایک منہ ہے۔ اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر وہ میرے خیالات کے بوجھ تلے دبی ہُوئی ہے۔ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لیے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کہ مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں اپنی آواز کے بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں ذہنی اذّیت کے دُھندلے غبار میں سے چند خیالات تمہید کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عمیق گہرائیوں سے چند احساس سطح پر لاتا ہوں۔ کہ دوسرے اذہان پر منتقل کر سکوں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں۔ خیالات پھر تاریکی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب میں یہ دیکھتا ہوں۔ کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں۔ تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں۔ مرمریں محلّات کے مکینو! تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو۔ مگر یقین جانو۔ اس کے سائے بھی ہوتے ہیں۔ تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔ میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے۔ جب وہ غربت سے تنگ آکر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔ آؤ ہم سب کانپیں! تم ہنستے ہو۔ مگر نہیں تمہیں مجھے ضرور سُننا ہو گا۔ میں ایک غوطہ خور ہُوں۔ قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں دبو دیا۔۔۔۔۔۔ کہ میں کچھ ڈھونڈھ کر لاؤں۔ میں ایک بے بہا موتی لایا ہُوں۔ وہ سچائی ہے۔ اس تلاش میں میں نے غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہُوا ہُوں۔ جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوں کو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے اس لیے کہ وہ مجبور تھیں۔ اب میں یہی کچھ تمہارے منہ پر قے کر دینا چاہتا ہوں کہ تمہیں تصویر زندگی کا تاریک پہلو نظر آ جائے۔ انسانیت ایک دل ہے۔ ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمہارے بوٹ غریب مزدوروں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں۔ اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہُوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو۔ اگر تمہاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارہ ءِ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں۔ اگر تمہارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے۔ تو یہ تمہارا قصور نہیں۔ ایوان معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا ہے۔ کہ اس کی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دابے ہُوئے ہے۔ ہر اینٹ دوسری اینٹ کو۔ جانتے ہو، موجودہ نظام کے کیا معنی ہیں؟۔ یہ کہ لوگو ں کے سینوں کو جہالت کدہ بنائے۔ انسانی تلذد کی کشتی ہو اور ہوّس کی موجوں میں بہا دے، جوان لڑکیوں کی عصمت چھین کر انہیں ایوان تجارت میں کھلے بندوں حُسن فروشی پر مجبور کر دے غریبوں کا خون چُوس کر اُنہیں جلی ہوئی راکھ کے مانند قبر کی مٹی میں یکساں کردے۔ کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتے ہو۔ بھیانک قصابی!! تاریک شیطنیت!!!ْ آہ اگر تم صرف وہ دیکھ سکو۔ جس کا میں نے مشاہدہ کیا ہے!۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں۔ جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔ تمہاری نظروں کے سامنے ایسے افراد موجود ہیں۔ جو موت کے منہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ہیں۔ جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں۔ اور بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں۔ مگر تم۔ ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے ہو۔ یہ نہیں دیکھتے۔ بلکہ اُلٹا غریبوں سے چھین کر اُمراء کی دولتوں میں اضافہ کرتے ہو۔ مزدور سے لے کر کاہل کے حوالے کر دیتے ہو۔ ڈگری پہنے انسان کا لباس اُتار کر حریر پوش کے سُپرد کر دیتے ہو۔ تم غربا کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمہیں یہ معلوم نہیں۔ کہ اگر درخت کا نچلا حصہ لاغر مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ بالائی حصے کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔ ‘‘

یہاں تک بول کر سلیم خاموش ہو گیا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔ تقریر کے دوران میں میں سحر زدہ آدمی کی طرح چُپ چُپ بیٹھا اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس رہے تھے۔ بغور سنتا رہا۔ میں سخت حیران تھا۔ کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا۔ اتنی طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے۔ اس کے علاوہ خیالات کس قدر حق پر مبنی تھے۔ اور آواز میں کتنا اثر تھا۔ میں ابھی اس کی تقریر کے متعلق کچھ سوچ ہی رہا تھا۔ کہ وہ پھر بولا۔

’’خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں۔ عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کیے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جُرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ ہر طرف حالت نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جا رہی ہے۔ ہمارے کانوں میں پگھلا ہُوا سیسہ اُتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں۔ تاکہ ہم نہ دیکھ سکیں۔ نہ سُن سکیں اور نہ محسوس کر سکیں!۔ انسان جسے بلندیوں پر پرواز کرنا تھا۔ کیا اس کے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا؟۔ کیا امرا کی نظر فریب عمارتیں مزدوروں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔ کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے۔ کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، انتھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟۔ بتاؤ بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟‘‘

’’درست ہے‘‘

میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔

’’تو پھر اس کا علاج کرنا تمہارا فرض ہے۔ کیا تم کوئی طریقہ نہیں بتا سکتے۔ کہ اس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا جا سکتا ہے۔ مگر آہ! تمہیں معلوم نہیں، مجھے خود معلوم نہیں‘‘

تھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر راز دارانہ لہجے میں یوں کہنے لگا۔

’’عباس! عوام سخت تکلیف برداشت کر رہے ہیں۔ بعض اوقات جب کبھی میں کسی سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں۔ تو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شہر نہ جل جائے!۔ اچھا اب میں جاتا ہوں، تم لاہور واپس کب جا رہے ہو؟‘‘

’’یہ کہہ کر وہ اُٹھا۔ اور ٹوپی سنبھال کر باہر چلنے لگا۔

’’ٹھہرو! میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ کہاں جاؤ گے اب؟‘‘

اسے یک لخت کہیں جانے کے لیے تیار دیکھ کر میں نے اسے فوراً ہی کہا۔

’’مگر میں اکیلا جانا چاہتا ہوں۔ کسی باغ میں جاؤں گا‘‘

میں خاموش ہو گیا۔ اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میں گم ہو گیا اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ سلیم نے میرے جانے کے بعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لئے اسے پاگل خانے میں داخل کر لیا گیا ہے۔ ۲۴ مارچ ۱۹۳۵ء اشاعت اولیں، علی گڑھ میگزین

سعادت حسن منٹو

انجام نجیر

بٹوارے کے بعد جب فرقہ وارانہ فسادات شدت اختیار کر گئے اور جگہ جگہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے خون سے زمین رنگی جانے لگی تو نسیم اختر جو دہلی کی نوخیز طوائف تھی اپنی بوڑھی ماں سے کہا

’’چلو ماں یہاں سے چلیں‘‘

بوڑھی بائکہ نے اپنے پوپلے منہ میں پاندان سے چھالیہ کے باریک باریک ٹکڑے ڈالتے ہوئے اُس سے پوچھا

’’کہاں جائیں گے بیٹا۔ ‘‘

پاکستان۔ یہ کہہ کر وہ اپنے استاد خان صاحب اچھن خان سے مخاطب ہُوئی۔

’’خان صاحب آپ کا کیا خیال ہے یہاں رہنا اب خطرے سے خالی نہیں۔ ‘‘

خان صاحب نے نسیم اختر کی ہاں میں ہاں ملائی۔ تم کہتی ہو مگر بائی جی کو منا لو تو سب چلیں گے۔ نسیم اختر نے اپنی ماں سے بہتر کہا۔ کہ چلو اب یہاں ہندوؤں کا راج ہو گا۔ کوئی مسلمان باقی نہیں چھوڑیں گے۔ بڑھیا نے کہا تو کیا ہوا۔ ہمارا دھندہ تو ہندوؤں کی بدولت ہی چلتا ہے اور تمہارے چاہنے والے بھی سب کے سب ہندو ہی ہیں مسلمانوں میں رکھا ہی کیا ہے‘‘

’’ایسا نہ کہو۔ ان کا مذہب اور ہمارا مذہب ایک ہے۔ قائد اعظم نے اتنی محنت سے مسلمانوں کے لیے پاکستان بنایا ہے ہمیں اب وہیں رہنا چاہیے۔ ‘‘

مانڈو میراثی نے افیم کے نشہ میں اپنا سر ہلایا اور غنودگی بھری آواز میں کہا۔

’’چھوٹی بائی۔ اللہ سلامت رکھے تمھیں کیا بات کہی ہے۔ میں تو ابھی چلنے کے لیے تیار ہوں میری قبر بھی بناؤ تو رُوح خوش رہے گی۔ ‘‘

دوسرے میراثی تھے وہ بھی تیار ہو گئے لیکن بڑی بائی دلی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی بالا خانے پر اُسی کا حکم چلتا تھا۔ اس لیے سب خاموش ہو گئے۔ بڑی بائی نے سیٹھ گوبند پرکاش کی کوٹھی پر آدمی بھیجا اور اُس کو بُلا کر کہا:

’’میری بچی آج کل بہت ڈری ہوئی ہے۔ پاکستان جانا چاہتی تھی۔ مگر میں نے سمجھایا۔ وہاں کیا دھرا ہے۔ یہاں آپ ایسے مہربان سیٹھ لوگ موجود ہیں وہاں جا کر ہم اُپلے تھاپیں گے آپ ایک کرم کیجیے۔ ‘‘

سیٹھ بڑی بائی کی باتیں سُن رہا تھا مگر اس کا دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ ایک دم چونک کر اُس نے بڑی بائی سے پوچھا۔

’’تو کیا چاہتی ہے‘‘

ہمارے کوٹھے کے نیچے دو تین ہندوؤں والے سپاہیوں کا پہرا کھڑا کر دیجیے تاکہ بچی کا سہم دور ہو۔ سیٹھ گوبند پرکاش نے کہا۔ یہ کوئی مشکل نہیں۔ میں ابھی جا کر سپریٹنڈنٹ پولیس سے ملتا ہوں شام سے پہلے پہلے سپاہی موجود ہوں گے۔ نسیم اختر کی ماں نے سیٹھ کو بہت دُعائیں دیں۔ جب وہ جانے لگا تو اس نے کہا ہم آپ اپنی بائی کا مجرا سُننے آئیں گے۔ بڑھیا نے اُٹھ کر تعظیماً کہا‘‘

ہائے جم جم آئیے آپ کا اپنا گھر ہے بچی کو آپ اپنی قمیص سمجھیے کھانا یہیں کھائیے گا۔

’’نہیں میں آجکل پرہیزی کھانا کھارہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنی توند پر ہاتھ پھیرتا چلا گیا۔ شام کو نسیم کی ماں نے چاننیاں بدلوائیں گاوتکیوں پر نئے غلاف چڑھائے زیادہ روشنی کے بلب لگوائے اعلیٰ قسم کے سگرٹوں کا ڈبہ منگوانے بھیجا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد نوکر حواس باختہ ہانپتا کانپتا واپس آ گیا۔ اُس کے منہ سے ایک بات نہ نکلتی تھی۔ آخر جب وہ کچھ دیر کے بعد سنبھلا تو اُس نے بتایا کہ چوک میں پانچ چھ سکھوں نے ایک مسلمان خوانچہ فروش کو کرپانوں سے اُس کی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے جب اُس نے یہ دیکھا تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور یہاں آن کے دم لیا۔ نسیم اختر یہ خبر سُن کر بے ہوش ہو گئی۔ بڑی مشکلوں سے خان صاحب اچھن خان اُسے ہوش میں لائے مگر وہ بہت دیر تک نڈھال رہی اور خاموش خلا میں دیکھتی رہی۔ آخر اُس کی ماں نے کہا

’’خون خرابے ہوتے ہی رہتے ہیں‘‘

کیا اس سے پہلے قتل نہیں ہوتے تھے۔ دم دلاسہ دینے کے بعد نسیم اختر سنبھل گئی تو اُس کی ماں نے اُس سے بڑے دُلاراور پیار سے کہا۔

’’اٹھو میری بچی جاؤ پشواز پہنو سیٹھ آتے ہی ہوں گے۔ نسیم نے بادل نخواستہ پشواز پہنی سولہ سنگھار کیے اور مسند پر بیٹھ گئی اُس کا جی بھاری بھاری تھا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوتا تھا۔ کہ اُس مقتول خوانچہ فروش کا سارا خون اُس کے دل و دماغ میں جم گیا ہے اُس کا دل ابھی تک دھڑک رہا تھا وہ چاہتی تھی کہ زرق برق پشواز کی بجائے سادہ شلوار قمیص پہن لے اور اپنی ماں سے ہاتھ جوڑ کر بلکہ اُس کے پاؤں پڑ کر کہے کہ خدا کے لیے میری بات سُنو اور بھاگ چلو یہاں سے میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ہم پر کوئی نہ کوئی آفت آنے والی ہے۔ بُڑھیا نے جھنجھلا کر کہا۔ ہم پر کیوں آفت آنے لگی ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔ ‘‘

نسیم نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا اس غریب خواچہ فروش نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو ظالموں نے اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ بگاڑنے والے بچ جاتے ہیں۔ مارے جاتے ہیں جنہوں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا ہوتا۔ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ایسے حالات میں کس کا دماغ دُرست رہ سکتا ہے۔ چاروں طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں یہ کہہ کر وہ اُٹھی۔ بالکونی میں کھڑی ہو گئی اور نیچے بازار میں دیکھنے لگی۔ اسے بجلی کے کھمبے کے پاس چار آدمی کھڑے دکھائی دیے۔ جن کے پاس بندوقیں تھیں اُس نے خان اچھن کو بتایا اور وہ آدمی دکھائے ایسا لگتا تھا کہ وہی سپاہی ہیں جن کو سیٹھ نے بھیجا ہو گا۔ خان صاحب نے غور سے دیکھا۔

’’نہیں یہ سپاہی نہیں۔ سپاہیوں کی تو وردی ہوتی ہے مجھے تو یہ گُنڈے معلوم ہوتے ہیں۔ نسیم اختر کا کلیجہ دھک سے رہ گیا

’’گُنڈے‘‘

اللہ بہتر جانتا ہے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا لو یہ تمہارے کوٹھے کی طرف آ رہے ہیں۔ دیکھ نسیم کسی بہانے سے اُوپر کوٹھے پر چلی جاؤ میں تمہارے پیچھے آتا ہوں۔ مجھے دال میں کالا نظر آتا ہے۔ نسیم اختر چپکے سے باہر نکلی اور اپنی ماں سے نظر بچا کر اوپر کی منزل پر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد خان صاحب اچھن خان اپنی چندھی آنکھیں جھپکاتا اُوپر آیا اور جلدی سے دروازہ بند کر کے کنڈی چڑھا دی۔ نسیم اختر جس کا دل جیسے ڈُوب رہا تھا۔ خانصاحب سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے‘‘

وہی جو میں نے سمجھا تھا۔ تمہارے متعلق پوچھ رہے تھے کہتے تھے سیٹھ گوبند پرکاش نے کار بھیجی ہے اور بلوایا ہے۔ تمہاری ماں بڑی خوش ہوئی بڑی مہربانی ہے اُن کی۔ میں دیکھتی ہوں کہاں ہے شاید غسل خانے میں ہو۔ اتنی دیر میں میں تیار ہو جاؤں‘‘

ان گنڈوں میں سے ایک نے کہا

’’تمھیں کیا شہد لگا کر چاٹیں گے بیٹھی رہو جہاں بیٹھی ہو خبردار جو تم وہاں سے ہلیں ہم خود تمہاری بیٹیوں کو ڈھونڈ نکالیں گے‘‘

میں نے جب یہ باتیں سُنیں اور ان گُنڈوں کے بِگڑے ہوئے تیور دیکھے تو کھسکتا کھسکتا یہاں پہنچ گیا ہوں۔ ‘‘

نسیم اختر حوا س باختہ تھی۔ اب کیا کیا جائے۔ ؟ خان نے اپنا سر کھجایا اور جواب دیا۔

’’دیکھو میں کوئی ترکیب سوچتا ہوں بس یہاں سے نکل بھاگنا چاہیے۔ اور ماں۔ ‘‘

اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اس کو اللہ کے حوالے کر کے خود باہر نکلنا چاہیے اُوپر چار پائی پر دو چادریں پڑی ہوئی تھیں خان صاحب نے ان کو گانٹھ دے کر رسہ سا بنایا اور مضبوطی سے ایک گنڈے کے ساتھ باندھ کر دوسری طرف لٹکایا نیچے لانڈری کی چھت تھی وہاں اگر وہ پہنچ جائیں تو راستہ آگے صاف ہے لانڈری کی چھت کی سیڑھیاں دوسری طرف تھیں اُس کے ذریعے سے وہ طویلے میں پہنچ جاتے اور وہاں سائیں سے جو مسلمان تھا تانگہ لیتے اور اسٹیشن کا رُخ کرتے۔ نسیم اختر نے بڑی بہادری دکھائی۔ آرام آرام سے نیچے اُتر کر لانڈری کی چھت تک پہنچ گئی۔ خانصاحب اچھن خان بھی بحفاظت تمام اُتر گئے۔ اب وہ طویلے میں تھے سائیں اتفاق سے تانگے میں گھوڑا جوت رہا تھا دونوں اُس میں بیٹھے اور اسٹیشن کا رخ کیا مگر راستے میں ان کو ملٹری کا ٹرک مل گیا اُس میں مسلح فوجی مسلمان تھے جو ہندووں کے خطرناک محلوں سے مسلمانوں کو نکال نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچا رہے تھے جو پاکستان جانا چاہتے ان کو اسپیشل ٹرینوں میں جگہ دلوا دیتے۔ تانگہ سے اُتر کر نسیم اختر اور اُس کا اُستاد ٹرک میں بیٹھے اور چند ہی منٹوں میں اسٹیشن پر پہنچ گئے اسپیشل ٹرین اتفاق سے تیار تھی اس میں ان کو اچھی جگہ مل گئی اور وہ بخیریت لاہور پہنچ گئے یہاں وہ قریب قریب ایک مہینے تک والٹن کیمپ میں رہے۔ نہایت کسمپرسی کی حالت میں اس کے بعد وہ شہر چلے آئے نسیم اختر کے پاس کافی زیور تھا جو اُس نے اُس رات پہنا ہوا تھا جب سیٹھ گوبند پرکاش اُس کا مجرا سُننے آرہا تھا یہ اُس نے اُتار کر خان صاحب اچھن خان کے حوالے کر دیا تھا ان زیوروں میں سے کچھ بیچ کر اُنھوں نے ہوسٹل میں رہنا شروع کر دیا لیکن مکان کی تلاش جاری رہی آخر بدقت تمام ہیرا منڈی میں ایک مکان مل گیا جو اچھا خاصہ تھا اب خانصاحب اچھن خان نے نسیم اختر سے کہا

’’گدے اور چاندنیاں وغیرہ خرید لیں اور تم بسم اللہ کر کے مجرا شروع کر دو۔ ‘‘

نسیم نے کہا۔

’’نہیں خان صاحب میرا جی اکتا گیا ہے میں تو اس مکان میں بھی رہنا پسند نہیں کرتی کسی شریف محلے میں کوئی چھوٹا سا مکان تلاش کیجیے۔ کہ میں وہاں اُٹھ جاؤں میں اب خاموش زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں۔ خان صاحب کو یہ سُن کر بڑی حیرت ہوئی۔ کیا ہو گیا ہے تمھیں‘‘

بس جی اچاٹ ہو گیا ہے میں اس زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتی ہوں دعا کیجیے خدا مجھے ثابت قدم رکھے

’’یہ کہتے ہوئے نسیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ خانصاحب نے اُس کو بہت ترغیب دی پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ایک دن اُس نے اپنے اُستاد سے صاف کہہ دیا کہ وہ شادی کر لینا چاہتی ہے اگر کسی نے اسے قبول نہ کیا تو وہ کنواری رہے گی۔ خان صاحب بہت حیران تھا۔ کہ نسیم میں یہ تبدیلی کیسے آئی فسادات تو اس کا باعث نہیں ہوسکتے پھر کیا وجہ تھی کہ وہ پیشہ ترک کر نے پر تُلی ہوئی ہے۔ جب وہ اُسے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تو اسے ایک محلے میں جہاں شرفاء رہتے تھے ایک چھوٹا سا مکان لے دیا اور خود ہیرا منڈی کی ایک مالدار طوائف کو تعلیم دینے لگا۔ نسیم نے تھوڑے سے برتن خریدے ایک چارپائی اور بستر وغیرہ بھی ایک چھوٹا لڑکا نوکر رکھ لیا اور سکون کی زندگی بسر کرنے لگی پانچوں نمازیں پڑھتی۔ ‘‘

روزے آئے تو اس نے سارے کے سارے رکھے ایک دن وہ غسل خانے میں نہا رہی تھی کہ سب کچھ بھول کر اپنی سُریلی آواز میں گانے لگی اُس کے ہاں ایک اور عورت کا آنا جانا تھا نسیم اختر کو معلوم نہیں تھا کہ یہ عورت شریفوں کے محلے کی بہت بڑی پھپھا کٹنی ہے شریفوں کے محلے میں کئی گھر تباہ و برباد کر چکی ہے کئی لڑکیوں کی عصمت اونے پونے داموں بِکوا چکی ہے کئی نوجوانوں کو غلط راستے پر لگا کر اپنا الو سیدھا کرتی رہتی ہے جب اُس عورت نے جس کا نام جنتے ہے نسیم کی سُریلی اور منجھی ہوئی آواز سُنی تو اُس کو فوراً خیال آیا کہ اس لڑکی کا آگا ہے نہ پیچھا بڑی معرکے کی طوائف بن سکتی ہے چنانچہ اُس نے اس پر ڈورے ڈالنے شروع کر دئیے اس کو اس نے کئی سبز باغ دکھائے مگر وہ اس کے قابو میں نہ آئی آخر اُس نے ایک روز اس کو گلے لگایا اور چٹ چٹ اس کی بلائیں لینا شروع کر دیں۔ جیتی رہو بیٹا۔ میں تمہارا امتحان لے رہی تھی تم اس میں سولہ آنے پوری اُتری ہو۔ نسیم اختر اس کے فریب میں آگئی ایک دن اُس کو یہاں تک بتا دیا کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ ایک یتیم کنواری لڑکی کا اکیلے رہنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ جنتے کو موقع ہاتھ آیا۔ اُس نے نسیم سے کہا۔ بیٹا یہ کیا مشکل ہے میں نے یہاں شادیاں کرائی ہیں سب کی سب کامیاب رہی ہیں اللہ نے چاہا تو تمہارے حسب منشا میاں مل جائے گا جو تمہارے پاؤں دھو دھو کر پئے گا۔ جنتے کئی فرضی رشتے لائی مگر اُس نے ان کی کوئی زیادہ تعریف نہ کی آخر میں وہ ایک رشتہ لائی جو اس کے کہنے کے مطابق فرشتہ سیرت اور صاحب جائیداد تھا نسیم مان گئی تاریخ مقرر کی گئی اور اُس کی شادی انجام پا گئی۔ نسیم اختر خوش تھی کہ اس کا میاں بہت اچھا ہے اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا ہے لیکن اُس دن اُس کے ہوش و حواس گم ہو گئے جب اُس کو دوسرے کمرے سے عورتوں کی آوازیں سنائی دیں دروازے میں سے جھانک کر اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر دو بوڑھی طوائفوں سے اُس کے متعلق باتیں کر رہا ہے جنتے بھی پاس بیٹھی تھی۔ سب مل کر اس کا سودا طے کررہے تھے اس کی سمجھ میں نہ آیا کیا کرے اور کیا نہ کرے بہت دیر روتی سوچتی رہی آخر اُٹھی اور اپنی پشواز نکال کر پہنی اور باہر نکل کر سیدھی اپنے اُستاد اچھن خان کے پاس پہنچی اور مجرے کے ساتھ ساتھ پیشہ بھی شروع کر دیا ایک انتقامی قسم کے جذبے کے تحت وہ کھیلنے لگی۔

سعادت حسن منٹو

انار کلی

نام اُس کا سلیم تھا مگر اس کے یار دوست اسے شہزادہ سلیم کہتے تھے۔ غالباً اس لیے کہ اس کے خدو خال مغلئی تھے خوبصورت تھا۔ چال ڈھال سے رعونت ٹپکتی تھی۔ اس کا باپ پی ڈبلیو ڈی کے دفتر میں ملازم تھا۔ تنخواہ زیادہ سے زیادہ سو روپے ہو گی مگر بڑے ٹھاٹ سے رہتا ظاہر ہے کہ رشوت کھاتا تھا یہی وجہ ہے کہ سلیم اچھے سے اچھا کپڑا پہنتا جیب خرچ بھی اُس کو کافی ملتا اس لیے کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا تھا۔ جب کالج میں تھا تو کئی لڑکیاں اس پر جان چھڑکتیں تھیں۔ مگر وہ بے اعتنائی برتتا ٗ آخر اُس کی آنکھ ایک شوخ و شنگ لڑکی جس کا نام سیما تھا، لڑ گئی۔ سلیم نے اُس سے راہ و رسم پیدا کرنا چاہا۔ اُسے یقین تھا کہ وہ اُس کی التفات حاصل کرلے گا۔ نہیں وہ تو یہاں تک سمجھتا تھا کہ سیما اس کے قدموں پر گر پڑے گی اور اس کی ممنون و متشکر ہو گی کہ اُس نے محبت کی نگاہوں سے اُسے دیکھا۔ ایک دن کالج میں سلیم نے سیما سے پہلی بار مخاطب ہو کر کہا

’’آپ کتابوں کا اتنا بوجھ اٹھائے ہوئی ہیں۔ لائیے مجھے دے دیجیے۔ میرا تانگہ باہر موجود ہے آپ کو اور اس بوجھ کو آپ کے گھر تک پہنچا دُوں گا۔ سیما نے اپنی بھاری بھرکم کتابیں بغل میں دابتے ہوئے بڑے خشک لہجے میں جواب دیا

’’آپ کی مدد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ بہر حال شکریہ ادا کیے دیتی ہوں شہزادہ سلیم کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ پہنچا۔ چند لمحات کے لیے وہ اپنی خفت مٹاتا رہا۔ اس کے بعد اس نے سیما سے کہا عورت کو مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے میری پیش کش کو کیوں ٹھکرادیا؟‘‘

سیما کا لہجہ اور زیادہ خشک ہو گیا

’’عورتوں کو مرد کے سہارے کی ضرورت ہو گی۔ مگر فی الحال مجھے ایسی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ کی پیشکش کا شکریہ میں ادا کر چکی ہوں۔ اس سے زیادہ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘

یہ کہہ کر سیما چلی گئی۔ شہزادہ سلیم جو انار کلی کے خواب دیکھ رہا تھا آنکھیں جھپکتا رہ گیا۔ اُس نے بہت بُری طرح شکست کھائی تھی اس سے قبل اُس کی زندگی میں کئی لڑکیاں آچکی تھیں جو اس کے ابرو کے اشارے پر چلتی تھیں۔ مگر یہ سیما کیا سمجھتی ہے اپنے آپ کو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورت ہے۔ جتنی لڑکیاں میں نے اب تک دیکھی ہیں اُن میں سب سے زیادہ حسین ہے مگر مجھے ٹھکرا دینا۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ میں ضرور اس سے بدلہ لوں گا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ ‘‘

شہزادہ سلیم نے اس سے بدلہ لینے کی کئی اسکیمیں بنائیں مگربار آور ثابت نہ ہوئیں اُس نے یہاں تک سوچا کہ اس کی ناک کاٹ ڈالے۔ یہ وہ جرم کر بیٹھتا مگر اسے سیما کے چہرے پر یہ ناک بہت پسند تھی۔ کوئی بڑے سے بڑا مصور بھی ایسی ناک کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ سلیم تو اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوا۔ مگر تقدیر نے اُس کی مدد کی اُس کی والدہ نے اُس کے لیے رشتہ ڈُھونڈنا شروع کیا نگاہِ انتخاب آخر سیما پر پڑی جو اس کی سہیلی کی سہیلی کی لڑکی تھی۔ بات پکی ہو گئی، مگر سلیم نے انکار کر دیا اس پر اُس کے والدین بہت ناراض ہوئے۔ گھر میں دس بارہ روز تک ہنگامہ مچا رہا سلیم کے والد ذرا سخت طبیعت کے تھے، انھوں نے اُس سے کہا

’’دیکھو تمھیں ہمارا فیصلہ قبول کرنا ہو گا‘‘

سلیم ہٹ دھرم تھا جواب میں یہ کہا آپ کا فیصلہ کوئی ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں۔ پھر میں نے کیا جرم کیا ہے جس کا آپ فیصلہ سنا رہے ہیں۔ ‘‘

اُس کے والدین کو یہ سن کر طیش آگیا

’’تمہارا جرم کہ تم ناخلف ہو۔ اپنے والدین کا کہنا نہیں مانتے۔ عدول حکمی کرتے ہو، میں تمھیں عاق کر دوں گا۔ ‘‘

سلیم کا جوش ٹھنڈا ہو گیا

’’لیکن ابا جان، میری شادی مرضی کے مطابق ہونی چاہیے‘‘

’’بتاؤ، تمہاری مرضی کیا ہے‘‘

اگر آپ ٹھنڈے دل سے سنیں تو میں عرض کروں۔ ‘‘

میرا دل کافی ٹھنڈا ہے۔ تمھیں جو کچھ کہنا ہے فوراً کہہ ڈالو۔ میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا۔ سلیم نے رُک کے کہا مجھے۔ مجھے ایک لڑکی سے محبت ہے‘‘

’’اس کا باپ گرجا

’’کس لڑکی سے؟‘‘

سلیم تھوڑی دیر ہچکچایا

’’ایک لڑکی ہے‘‘

’’کون ہے وہ؟۔ کیا نام ہے اُس کا؟‘‘

سیما۔ میرے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی‘‘

میاں افتخار الدین کی لڑکی؟ جی ہاں

’’اُس کا نام سیما افتخار ہے۔ میرا خیال ہے وہی ہے‘‘

اس کے والد بے تحاشہ ہنسنے لگے

’’خیال کے بچے۔ تمہاری شادی اُسی لڑکی سے قرار پائی ہے۔ کیا وہ تمھیں پسند کرتی ہے؟‘‘

سلیم بوکھلا سا گیا۔ یہ سلسلہ کیسے ہو گیا اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہیں اس کا باپ جھوٹ تو نہیں بول رہا تھا۔ سلیم سے جو سوال کیا گیا تھا اس کا جواب اس کے والد کو نہیں ملا تھا، چنانچہ انھوں نے کڑک کے پوچھا

’’سلیم مجھے بتاؤ کیا سیما تمھیں پسند کرتی ہے؟‘‘

سلیم نے کہا

’’جی نہیں‘‘

’’تم نے یہ کیسے جانا؟‘‘

’’اُس سے۔ اُس سے ایک بار میں نے مختصر الفاظ میں۔ محبت کا اظہار کیا۔ لیکن اُس نے مجھے۔ ‘‘

تمھیں درخور اعتنانہ سمجھا۔ ‘‘

جی ہاں۔ بڑی بے رخی برتی‘‘

سلیم کے والد نے اپنے گنجے سر کو تھوڑی دیر کے لیے کھجلایا اور کہا

’’تو پھر یہ رشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں تمہاری ماں سے کہتا ہوں کہ وہ لڑکی والوں سے کہہ دے کے لڑکا رضا مند نہیں‘‘

سلیم ایک دم جذباتی ہو گیا نہیں ابا جان۔ ایسا نہ کیجیے گا شادی ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا میں اُس سے محبت کرتا ہوں۔ اور کسی کی محبت اکارت نہیں جاتی۔ لیکن آپ لوگوں کو۔ میرا مطلب ہے سیما کو یہ پتہ نہ لگنے دیجیے کہ اس کا بیاہ مجھ سے ہو رہا ہے جس سے وہ بے رخی اور بے اعتنائی کا اظہار کر چکی ہے‘‘

اس کے باپ نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا‘‘

میں اس کے متعلق سوچوں گا یہ کہہ کر وہ چلے گئے انھیں ایک ٹھیکیدار سے رشوت وصول کرنا تھی اپنے بیٹے کی شادی کے اخراجات کے سلسلے میں شہزادہ سلیم جب رات کو پلنگ پر سونے کے لیے لیٹا تو اسے انار کی کلیاں ہی کلیاں نظر آئیں ساری رات وہ اُن کے خواب دیکھتا رہا۔ گھوڑے پر سوار باغ میں آیا ہے۔ شاہانہ لباس پہنے۔ اسپ تازی سے اُتر کر باغ کی ایک روش پر جا رہا ہے کیا دیکھتا ہے کہ سیما انار کے بوٹے کی سب سے اُونچی شاخ سے ایک نوخیز کلی توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کی بھاری بھرکم کتابیں زمین پر بکھری پڑی ہیں۔ زُلفیں اُلجھی ہوئی ہیں اور وہ اُچک اُچک کر اُس شاخ تک اپنا ہاتھ پہنچانے کی کوشش کررہی ہے مگر ہر بار ناکام رہتی ہے۔ وہ اُس کی طرف بڑھا انار کی جھاڑی کے پیچھے چھپ کر اس نے اُس شاخ کو پکڑا اور جھکا دیا سیما نے وہ کلی توڑ لی جس کے لیے وہ اتنی کوشش کرہی تھی۔ لیکن فوراً اُسے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ شاخ نیچے کیسے جھک گئی۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ شزادہ سلیم اُس کے پاس پہنچ گیا سیما گھبرا گئی لیکن سنبھل کر اُس نے اپنی کتابیں اُٹھائیں اور بغل میں داب لیں انارکلی اپنے جوڑے میں اڑس لی اور یہ خشک الفاظ کہہ کر وہاں سے چلی گئی آپ کی امداد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ بحرحال شکریہ ادا کیے دیتی ہوں۔ ‘‘

تمام رات وہ اسی قسم کے خواب دیکھتا رہا۔ سیما اُس کی بھاری بھرکم کتابیں، انار کی کلیاں اور شادی کی دُھوم دھام۔ شادی ہو گئی۔ شہزادہ سلیم نے اُس تقریب پر اپنی انار کلی کی ایک جھلک بھی نہیں دیکھ پائی تھی وہ اُس لمحے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ جب سیما اُس کی آغوش میں ہو گی۔ وہ اُس کے اتنے پیار لے گا کہ وہ تنگ آ کر رونا شروع کردے گی۔ سلیم کو رونے والی لڑکیاں بہت پسند تھیں اُس کا یہ فلسفہ تھا کہ عورت جب رو رہی ہو تو بہت حسین ہو جاتی ہے اُس کے آنسو شبنم کے قطروں کے مانند ہوتے ہیں جو مرد کے جذبات کے پھولوں پر ٹپکتے ہیں جن سے اُسے ایسی راحت، ایسی فرحت ملتی ہے جو اور کسی وقت نصیب نہیں ہوسکتی۔ رات کے دس بجے دولہن کو حجلہ عروسی میں داخل کر دیا گیا۔ سلیم کو بھی اجازت مل گئی کہ وہ اُس کمرے میں جاسکتا ہے لڑکیوں کی چھیڑ چھاڑ اور رسم و رسوم سب ختم ہو گئی تھیں وہ کمرے کے اندر داخل ہوا۔ پھولوں سے سجی ہوئی مسہری پر دولہن گھونگھٹ کاڑھے ریشم کی گٹھڑی سی بنی بیٹھی تھی۔ شہزادہ سلیم نے خاص اہتمام کر لیا تھا کہ پھول، انار کی کلیاں ہوں۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ مسہری کی طرف بڑھا اور دولہن کے پاس بیٹھ گیا کافی دیر تک وہ اپنی بیوی سے کوئی بات نہ کرسکا۔ اُس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اُس کی بغل میں کتابیں ہوں گی جن کو وہ اُٹھانے نہیں دے گی آخر اُس نے بڑی جرأت سے کام لیا اور اُ سے کہا

’’سیما۔ ‘‘

یہ نام لیتے ہی اُس کی زُبان خشک ہو گئی لیکن اُس نے پھر جرأت فراہم کی اور اپنی دولہن کے چہرے سے گھونگھٹ اُٹھایا اور بھونچکارہ گیا۔ یہ سیما نہیں تھی کوئی اور ہی لڑکی تھی۔ انار کی ساری کلیاں اُس کو ایسا محسوس ہوا کہ مرجھا گئی ہیں (یکم جون ۵۴ ؁ء)

سعادت حسن منٹو

اُلو کا پٹھا

قاسم صبح سات بجے لحاف سے باہر نکلا اور غسل خانے کی طرح چلا۔ راستے میں، یہ اسکو ٹھیک طور پر معلوم نہیں، سونے والے کمرے میں، صحن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو اُلو کا پٹھا کہے۔ بس صرف ایک بار غصے میں یا طنزیہ انداز میں کسی کو اُلو کا پٹھا کہہ دے۔ قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہش سب سے نرالی تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ رات اسکو بڑی پیاری نیند آئی تھی۔ وہ خود کو بہت تروتازہ محسوس کررہا تھا۔ لیکن پھر یہ خواہش کیسے اس کے دل میں داخل ہو گئی۔ دانت صاف کرتے وقت اس نے ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا جس کے باعث اس کے مسوڑے چھل گئے۔ دراصل وہ سوچتا رہا کہ یہ عجیب وغریب خواہش کیوں پیدا ہُوئی۔ مگروہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ بیوی سے وہ بہت خوش تھا۔ ان میں کبھی لڑائی نہ ہوئی تھی، نوکروں پر بھی وہ ناراض نہیں تھا۔ اس لیے کہ غلام محمد اور نبی بخش دونوں خاموشی سے کام کرنے والے مستعد نوکر تھے۔ موسم بھی نہایت خوشگوار تھا۔ فروری کے سُہانے دن تھے جن میں کنوار پنے کی تازگی تھی۔ ہوا خُنک اور ہلکی۔ دن چھوٹے نہ راتیں لمبی۔ نیچرکا توازن بالکل ٹھیک تھا اور قاسم کی صحت بھی خوب تھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کسی کوبغیروجہ کے الو کا پٹھا کہنے کی خواہش اسکے دل میں کیونکر پیدا ہو گئی۔ قاسم نے اپنی زندگی کے اٹھائیس برسوں میں متعدد لوگوں کو اُلو کا پٹھا کہا ہو گا اور بہت ممکن ہے کہ اس سے بھی کڑے لفظ اس نے بعض موقعوں پر استعمال کیے ہوں اور گندی گالیاں ببھی دی ہوں مگر اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ایسے موقعوں پر خواہش بہت پہلے اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی مگر اب اچانک طورپر اس نے محسوس کیا تھا کہ وہ کسی کو اُلو کا پٹھا کہنا چاہتا ہے اور یہ خواہش لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتی چلی گئی جیسے اس نے اگر کسی کو الو کا پٹھا نہ کہا تو بہت بڑا ہرج ہو جائے گا۔ دانت صاف کرنے کے بعد اس نے چھلے ہوئے مسوڑوں کو اپنے کمرے میں جا کر آئینے میں دیکھا۔ مگر دیر تک اُن کو دیکھتے رہنے سے بھی وہ خواہش نہ دبی جو ایکا ایکی اس کے دل میں پیدا ہو گئی تھی۔ قاسم منطقی قسم کا آدمی تھا۔ وہ بات کے تمام پہلوؤں پر غورکرنے کا عادی تھا۔ آئینہ میز پررکھ کروہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹھنڈے دماغ سے سوچنے لگا۔

’’مان لیا کہ میرا کسی کو الو کا پٹھا کہنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر یہ کوئی بات تو نہ ہُوئی۔ میں کسی کو اُلو کا پٹھا کیوں کہوں؟۔ میں کسی سے ناراض بھی تو نہیں ہُوں۔ ‘‘

یہ سوچتے سوچتے اس کی نظر سامنے دروازے کے بیچ میں رکھے ہوئے حقے پر پڑی۔ ایک دم اس کے دل میں یہ باتیں پیدا ہوئیں، عجیب واہیات نوکر ہے۔ دروازے کے عین بیچ میں یہ حقہ ٹِکا دیا ہے۔ میں ابھی اس دروازے سے اندر آیا ہوں، اگر ٹھوکر سے بھری ہوئی چلم گر پڑتی تو پاانداز جوکہ مونج کا بنا ہوا ہے جلنا شروع ہو جاتا اور ساتھ ہی قالین بھی۔ اس کے جی میں آئی کہ غلام محمد کو آواز دے۔ جب وہ بھاگا ہوا اس کے سامنے آجائے تو وہ بھرے ہوئے حقّے کی طرف اشارہ کرکے اس سے صرف اتنا کہے

’’تم نرے اُلو کے پٹھے ہو۔ ‘‘

مگر اس نے تامل کیا اور سوچا یوں بگڑنا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ اگر غلام محمد کو اب بلا کر اُلو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو وہ بات پیدا نہ ہو گی اور پھر۔ اور پھر اس بچارے کا کوئی قصور بھی تو نہیں ہے۔ میں دروازے کے پاس بیٹھ کر ہی توہر روز حقّہ پیتا ہُوں۔ چنانچہ وہ خوشی جو ایک لمحہ کے لیے قاسم کے دل میں پیدا ہُوئی تھی کہ اس نے اُلو کا پٹھا کہنے کے لیے ایک اچھا موقع تلاش کرلیا، غائب ہو گئی۔ دفتر کے وقت میں ابھی کافی دیر تھی۔ پورے دو گھنٹے پڑے تھے، دروازے کے پاس کرسی رکھ کر قاسم اپنے معمول کے مطابق بیٹھ گیا اور حقّہ نوشی میں مصروف ہو گیا۔ کچھ دیر تک وہ سوچ بچار کیے بغیر حقّے کا دُھواں پیتا رہا اور دھوئیں کے انتشار کو دیکھتا رہا۔ لیکن جونہی وہ حقّے کو چھوڑ کر کپڑے تبدیل کرنے کے لیے ساتھ والے کمرے میں گیا تو اس کے دل میں وہی خواہش نئی تازگی کے ساتھ پیدا ہوئی۔ قاسم گھبرا گیا۔ بھئی حد ہو گئی۔ اُلو کا پٹھا۔ میں کسی کو اُلو کا پٹھا کیوں کہوں اور بفرضِ محال میں نے کسی کو اُلو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو کیا ہو گا۔ قاسم دل ہی دل میں ہنسا۔ وہ صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ خواہش جو اس کے دل میں پیدا ہُوئی ہے بالکل بیہودہ اور بے سروپا ہے لیکن اس کا کیا علاج تھا کہ دبانے پر وہ اور بھی زیادہ اُبھر آتی تھی۔ قاسم اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے اُلو کا پٹھا نہ کہے گا۔ خواہ یہ خواہش صدیوں تک اس کے دل میں تلملاتی رہے، شاید اسی احساس کے باعث یہ خواہش جو بھٹکی ہوئی چمگادڑ کی طرح اس کے روشن دل میں چلی آئی تھی۔ اس قدر تڑپ رہی تھی۔ پتلون کے بٹن بند کرتے وقت جب اس نے دماغی پریشانی کے باعث اوپر کا بٹن نچلے کاج میں داخل کردیا تو وہ جھلا اٹھا۔ بھئی ہو گا۔ یہ کیا بیہودگی ہے۔ دیوانہ پن نہیں تو اور کیا ہے۔ اُلو کا پٹھا کہو۔ اُلو کا پٹھا کہو اور یہ پتلون کے سارے بٹن مجھے پھر سے بند کرنے پڑیں گے۔ لباس پہن کر وہ میز پر آبیٹھا۔ اس کی بیوی نے چائے بنا کرپیالی اس کے سامنے رکھ دی اور توس پر مکھن لگانا شروع کردیا۔ روزانہ معمول کی طرح ہر چیز ٹھیک ٹھاک تھی، توس اتنے اچھے سینکے ہُوئے تھے کہ بسکٹ کی طرح کِرکرے تھے اور ڈبل روٹی بھی اعلیٰ قسم کی تھی۔ خمیر میں سے خوشبو آرہی تھی۔ مکھن بھی صاف تھا، چائے کی کیتلی بے داغ تھی۔ اس کی ہتھی کے ایک کونے پر قاسم ہر روز میل دیکھا کرتا تھا۔ مگر آج وہ دھبہ بھی نہیں تھا۔ اس نے چائے کا ایک گھونٹ پیا۔ اس کی طبیعت خوش ہو گئی۔ خالص دارجلنگ کی چائے تھی۔ جس کی مہک پانی میں بھی برقرار تھی۔ دودھ کی مقدار بھی صحیح تھی۔ قاسم نے خوش ہو کر اپنی بیوی سے کہا۔

’’آج چائے کا رنگ بہت ہی پیارا ہے اور بڑے سلیقے سے بنائی گئی ہے۔ ‘‘

بیوی تعریف سُن کر خوش ہُوئی۔ مگر اس نے منہ بنا کر ایک ادا سے کہا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

بس آج اتفاق سے اچھی بن گئی ہے ورنہ ہر روز تو آپ کو نیم گھول کے پلائی جاتی ہے۔ مجھے سلیقہ کہاں آتا ہے۔ سلیقے والیاں تو وہ موئی ہوٹل کی چھوکریاں ہیں جن کے آپ ہر وقت گن گایا کرتے ہیں۔ ‘‘

یہ تقریر سن کر قاسم کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ ایک لمحہ کے لیے اس کے جی میں آئی کہ چائے کی پیالی میز پر اُلٹ دے اور وہ نیم جو اس نے اپنے بچے کی پھنسیاں دھونے کے لیے غلام محمد سے منگوائی تھی اور سامنے بڑے طاقچے میں پڑی تھی گھول کرپی لے مگر اس نے بُردباری سے کام لیا۔

’’یہ عورت میری بیوی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بات بہت ہی بھونڈی ہے مگر ہندوستان میں سب لڑکیاں بیوی بن کر ایسی بھونڈی باتیں ہی کرتی ہیں۔ اور بیوی بننے سے پہلے اپنے گھروں میں وہ اپنی ماؤں سے کیسی باتیں سُنتی ہیں؟ بالکل ایسی ادنیٰ قسم کی باتیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عورتوں کو عمومی زندگی میں اپنی حیثیت کی خبر ہی نہیں۔ میری بیوی تو پھر بھی غنیمت ہے یعنی صرف ایک ادا کے طور پر ایسی بھونڈی بات کہہ دیتی ہے، اس کی نیت نیک ہوتی ہے۔ بعض عورتوں کا تو یہ شعار ہوتا ہے کہ ہر وقت بکواس کرتی رہتی ہیں۔ یہ سوچ کر قاسم نے اپنی نگاہیں اس طاقچے پر سے ہٹا لیں جس میں نیم کے پتے دھوپ میں سوکھ رہے تھے اور بات کا رخ بدل کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو، آج نیم کے پانی سے بچے کی ٹانگیں ضرور دھو دینا۔ نِیم زخموں کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے۔ اور دیکھو، تم موسمبیوں کا رس ضرور پیا کرو۔ میں دفتر سے لوٹتے ہوئے ایک درجن اور لے آؤں گا۔ یہ رس تمہاری صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ ‘‘

بیوی مسکرا دی۔

’’آپ کو تو بس ہر وقت میری ہی صحت کا خیال رہتا ہے۔ اچھی بھلی تو ہُوں، کھاتی ہُوں، پیتی ہُوں، دوڑتی ہُوں، بھاگتی ہُوں۔ میں نے جو آپ کے لیے بادام منگوا کے رکھے ہیں۔ بھئی آج دس بیس آپ کی جیب میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی۔ لیکن دفتر میں کہیں بانٹ نہ دیجیے گا۔ ‘‘

قاسم خوش ہو گیا کہ چلو موسمبیوں کے رس اور باداموں نے اُسکی بیوی کے مصنوعی غصے کو دور کردیا اور یہ مرحلہ آسانی سے طے ہو گیا۔ دراصل قاسم ایسے مرحلوں کو آسانی کے ساتھ ان طریقوں ہی سے طے کیا کرتا تھا۔ جو اس نے پڑوس کے پرانے شوہروں سے سیکھے تھے۔ اور اپنے گھر کے ماحول کے مطابق ان میں تھوڑا بہت ردّوبدل کرلیا تھا۔ چائے سے فارغ ہوکر اس نے جیب سے سگریٹ نکال کر سُلگایا اور اُٹھ کر دفتر جانے کی تیاری کرنے ہی والا تھا کہ پھر وہی خواہش نمودار ہو گئی۔ اس مرتبہ اس نے سوچا۔ اگر میں کسی کو اُلو کا پٹھا کہہ دوں تو کیا ہرج ہے۔ زیرِلب بالکل ہولے سے کہہ دوں، اُلو۔ کا۔ پٹھا۔ تو میرا خیال ہے کہ مجھے دلی تسکین ہو جائے گی۔ یہ خواہش میرے سینے میں بوجھ بن کربیٹھ گئی ہے۔ کیوں نہ اس کو ہلکا کردوں۔ دفتر میں۔ اس کو صحن میں بچے کا کموڈ نظر آیا۔ یوں صحن میں کموڈ رکھنا سخت بدتمیزی تھی اور خصوصاً اس وقت جب کہ وہ ناشتہ کر چکا تھا اور خوشبودار کُر کُرے توس اور تلے ہُوئے انڈوں کا ذائقہ ابھی تک اسکے منہ میں تھا۔ اس نے زور سے آواز دی

’’غلام محمد۔ ‘‘

قاسم کی بیوی جو ابھی تک ناشتہ کررہی تھی بولی۔

’’غلام محمد باہر گوشت لینے گیا ہے۔ کوئی کام تھا آپ کو اس سے؟‘‘

ایک سیکنڈ کے اندر اندر قاسم کے دماغ میں بہت سی باتیں آئیں کہہ دوں، یہ غلام محمد اُلو کا پٹھا ہے۔ اور یہ کہہ کر جلدی سے باہر نکل جاؤں۔ نہیں۔ وہ خود تو موجود ہی نہیں، پھر۔ بالکل بیکار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بچارے غلام محمد ہی کو کیوں نشانہ بنایا جائے۔ اس کو تو میں ہر وقت اُلو کا پٹھا کہہ سکتا ہُوں۔ قاسم نے ادھ جلا سگریٹ گرادیا اور بیوی سے کہا۔

’’کچھ نہیں میں اس سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ دفتر میں میرا کھانا بے شک ڈیڑھ بجے لے آیا کرے۔ تمہیں کھانا جلدی بھیجنے میں بہت تکلیف کرنا پڑتی ہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے بیوی کی طرف دیکھا۔ جو فرش پر اس کے گِرائے ہوئے سگریٹ کو دیکھ رہی تھی۔ قاسم کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ‘‘

یہ سگریٹ اگر بُجھ گیا اور یہاں پڑا رہا تو اس کا بچہ رینگتا رینگتا آئے گا اور اسے اُٹھا کر منہ میں ڈال لے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے پیٹ میں گڑ بڑ مچ جائے گی۔ قاسم نے سگریٹ کا ٹکڑا اُٹھا کر غسل خانے کی موری میں پھینک دیا۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے جذبات سے مغلوب ہو کرغلام محمد کو اُلو کا پٹھا نہیں کہہ دیا۔ اس سے اگر ایک غلطی ہوئی ہے تو ابھی ابھی مجھ سے بھی تو ہُوئی تھی اور میں سمجھتا ہُوں کہ میری غلطی زیادہ شدید تھی۔ قاسم بڑا صحیح الدماغ آدمی تھا اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ صحیح خطوط پر غور و فکر کرنے والا انسان ہے۔ مگر اس احساس نے اس کے اندر برتری کا خیال کبھی پیدا نہیں کیا تھا۔ یہاں پر پھر اسکی صحیح الدماغی کو دخل تھا کہ وہ احساس برتری کو اپنے اندر دبا دیا کرتا تھا۔ موری میں سگریٹ کا ٹکڑا پھینکنے کے بعد اس نے بِلا ضرورت صحن میں ٹہلنا شروع کردیا۔ وہ دراصل کچھ دیر کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا تھا۔ اس کی بیوی ناشتہ کا آخری توس کھا چکی تھی۔ قاسم کو یوں ٹہلتے دیکھ کر وہ اس کے پاس آئی اور کہنے لگی۔

’’کیا سوچ رہے ہیں آپ۔ ‘‘

قاسم چونک پڑا۔

’’کچھ نہیں۔ کچھ نہیں۔ دفتر کا وقت ہو گیا کیا؟‘‘

یہ لفظ اس کی زبان سے نکلے اور دماغ میں وہی اُلو کا پٹھا کہنے کی خواہش تڑپنے لگی۔ اس کے جی میں آئی کہ بیوی سے صاف صاف کہہ دے کہ یہ عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہو گئی ہے جس کا سر ہے نہ پیر، بیوی ضرورسنے گی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کو بیوی کا ساتھ دینا پڑے گا، چنانچہ یوں ہنسی ہنسی میں اُلو کا پٹھا کہنے کی خواہش اس کے دماغ سے نکل جائے گی۔ مگر اس نے غور کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیوی ہنسے گی اور میں خود بھی ہنسوں گا۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ بات مستقل مذاق بن جائے۔ ایسا ہوسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کیا، ضرور ہو جائے گا۔ اور بہت ممکن ہے کہ انجام کار ناخوشگواری پیدا ہو، چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کچھ نہ کہا اور ایک لمحہ تک اس کی طرف یونہی دیکھتا رہا۔ بیوی نے بچے کا کموڈ اُٹھا کر کونے میں رکھ دیا اور کہا۔

’’آج صبح آپ کے برخوردار نے وہ ستایا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ بڑی مشکلوں کے بعد میں نے اسے کموڈ پر بٹھایا۔ اس کی مرضی یہ تھی کہ بستر ہی کو خراب کرے۔ آخر لڑکا کس کا ہے؟‘‘

۔ قاسم کو اس قسم کی چخ پسند تھی۔ ایسی باتوں میں وہ تیکھے مزاح کی جھلک دیکھتا تھا۔ مسکرا کر اس نے بیوی سے کہا۔

’’لڑکا میرا ہی ہے مگر۔ میں نے تو آج تک کبھی بستر خراب نہیں کیا۔ یہ عادت اس کی اپنی ہو گی۔ ‘‘

بیوی نے اس کی بات کا مطلب نہ سمجھا۔ قاسم کو مطلقاً افسوس نہ ہُوا، اس لیے کہ ایسی باتیں وہ صرف اپنے منہ کا ذائقہ دُرست رکھنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ وہ اور بھی خوش ہوا جب اس کی بیوی نے جواب نہ دیا اور خاموش ہو گئی۔

’’اچھا، بھئی میں اب چلتا ہوں۔ خدا حافظ!‘‘

یہ لفظ جو ہر روز اس کے منہ سے نکلتے تھے آج بھی اپنی پرانی آسانی کے ساتھ نکلے اور قاسم دروازہ کھول کر باہر چل دیا۔ کشمیری گیٹ سے نکل کر جب وہ نکلسن پارک کے پاس سے گزر رہا تھا تو اسے ایک داڑھی والا آدمی نظر آیا۔ ایک ہاتھ میں کُھلی ہوئی شلوار تھامے وہ دوسرے ہاتھ سے استنجا کررہا تھا۔ اسکو دیکھ کر قاسم کے دل میں پھر اُلو کا پٹھا کہنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لو بھئی، یہ آدمی ہے جس کو اُلو کا پٹھا کہہ دینا چاہیے یعنی جو صحیح معنوں میں اُلو کا پٹھا ہے۔ ذرا انداز ملاحظہ ہو۔ کس انہماک سے ڈرائی کلین کیے جارہا ہے۔ جیسے کوئی بہت اہم کام سرانجام پا رہا ہے۔ لعنت ہے۔ لیکن قاسم صحیح الدماغ آدمی تھا۔ اس نے تعجیل سے کام نہ لیا اور تھوڑی دیر غور کیا۔ میں اس فٹ پاتھ پر جارہا ہوں اور وہ دوسرے فٹ پاتھ پر، اگر میں نے بلند آواز میں بھی اس کو اُلو کا پٹھا کہا تو وہ چونکے گا نہیں۔ اس لیے کہ کم بخت اپنے کام میں بہت بُری طرح مصروف ہے۔ چاہیے تو یہ کہ اس کے کان کے پاس زور سے نعرہ بلند کیا جائے اور جب وہ چونک اٹھے تو اسے بڑے شریفانہ طور پر سمجھایا جائے، قبلہ آپ اُلو کے پٹھے ہیں۔ لیکن اس طرح بھی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو گا۔ چنانچہ قاسم نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ اسی اثنا میں اس کے پیچھے سے ایک سائیکل نمودار ہُوئی۔ کالج کی ایک لڑکی اس پر سوار تھی۔ اس لیے کہ پیچھے بستہ بندھا تھا۔ آنا فاناً اس لڑکی کی ساڑھی فری وہیل کے دانتوں میں پھنسی، لڑکی نے گھبرا کر اگلے پہیے کا بریک دبایا۔ ایک دم سائیکل بے قابو ہُوئی اور ایک جھٹکے کے ساتھ لڑکی سائیکل سمیت سڑک پر گر پڑی۔ قاسم نے آگے بڑھ کر لڑکی کو اٹھانے میں عجلت سے کام نہ لیا۔ اس لیے کہ اس نے حادثہ کے ردّ عمل پر غور کرنا شروع کردیا تھا مگر جب اس نے دیکھا کہ لڑکی کی ساڑھی فری وہیل کے دانتوں نے چبا ڈالی ہے اور اس کا بورڈر بہت بری طرح ان میں الجھ گیا ہے تو وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ لڑکی کی طرف دیکھے بغیر اس نے سائیکل کا پچھلا پہیہ ذرا اونچا اُٹھایا تاکہ اسے گھما کرساڑی کو وہیل کے دانتوں میں سے نکال لے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ پہیہ گھمانے سے ساڑھی کچھ اس طرح تاروں کی لپیٹ میں آئی کہ ادھر پیٹی کوٹ کی گرفت سے باہر نکل آئی۔ قاسم بوکھلا گیا۔ اس کی اس بوکھلاہٹ نے لڑکی کو بہت زیادہ پریشان کردیا۔ زور سے اس نے ساڑھی کو اپنی طرف کھینچا۔ فری وہیل کے دانتوں میں ایک ٹکڑا اڑا رہ گیا اور ساڑھی باہر نکل آئی۔ لڑکی کا رنگ لال ہو گیا۔ قاسم کی طرف اس نے غضبناک نگاہوں سے دیکھا اور بھنچے ہوئے لہجہ میں کہا۔

’’اُلو کا پٹھا۔ ‘‘

ممکن ہے کچھ دیر لگی ہومگر قاسم نے ایسا محسوس کیا کہ لڑکی نے جھٹ پٹ نہ جانے اپنی ساڑھی کو کیا کیا۔ اور ایک دم سائیکل پر سوار ہو کریہ جا وہ جا، نظروں سے غائب ہو گئی۔ قاسم کو لڑکی کی گالی سُن کر بہت دکھ ہُوا خاص کر اس لیے کہ وہ یہی گالی خود کسی کو دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ بہت صحیح الدماغ آدمی تھا۔ ٹھنڈے دل سے اس نے حادثہ پر غور کیا اور اس لڑکی کو معاف کردیا۔ اس کومعاف ہی کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ عورتوں کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے اور ان عورتوں کو سمجھنا تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جو سائیکل پر سے گری ہُوئی ہوں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس نے اپنی لمبی جُراب میں اُوپر ران کے پاس تین چار کاغذ کیوں اڑس رکھے تھے؟

سعادت حسن منٹو

اللہ دِتّا

دو بھائی تھے۔ اللہ رکھا اور اللہ دتا۔ دوست ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے۔ ان کے آباؤ اجاد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا دادا ملازمت کی تلاش میں پٹیالہ آیا تو وہیں کا ہورہا۔ اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں سرکاری ملازم تھے۔ ایک چیف سیکرٹری صاحب بہادر کا اردلی تھا، دوسرا کنٹرولر آف اسٹورز کے دفتر کا چپڑاسی۔ دونوں بھائی ایک ساتھ رہتے تھے تاکہ خرچ کم ہو۔ بڑی اچھی گزر رہی تھی۔ ایک صرف اللہ رکھا کو جو بڑا تھا، اپنے چھوٹے بھائی کے چال چلن کے متعلق شکایت تھی۔ وہ شراب پیتا تھا۔ رشوت لیتا تھا اور کبھی کبھی کسی غریب اور نادار عورت کو پھانس بھی لیا کرتا تھا۔ مگر اللہ رکھا نے ہمیشہ چشم پوشی سے کام لیا تھا کہ گھرکا امن و سکون درہم برہم نہ ہو۔ دونوں شادی شدہ تھے۔ اللہ رکھا کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک بیاہی جا چکی تھی اور اپنے گھر میں خوش تھی۔ دوسری جس کا نام صغریٰ تھا، تیرہ برس کی تھی اور پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی۔ اللہ دتا کی ایک لڑکی تھی۔ زینب۔ اس کی شادی ہوچکی تھی مگر اپنے گھرمیں اتنی خوش نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس کا خاوند اوباش تھا۔ پھر بھی وہ جوں توں نبھائے جارہی تھی۔ زینت اپنے بھائی طفیل سے تین سال بڑی تھی۔ اس حساب سے طفیل کی عمر اٹھارہ انیس برس کے قریب ہوتی تھی۔ وہ لوہے کے ایک چھوٹے سے کارخانے میں کام سیکھ رہا تھا۔ لڑکا ذہین تھا، چنانچہ کام سیکھنے کے دوران میں بھی پندرہ روپے ماہوار اسے مل جاتے تھے۔ دونوں بھائیوں کی بیویاں بڑی اطاعت شعار، محنتی اور عبادت گزار عورتیں تھیں۔ انھوں نے اپنے شوہروں کوکبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ زندگی بڑی ہموار گزر رہی تھی کہ ایکا ایکی ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ دونوں بھائیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کے مال و جان اورعزت و آبرو پر حملہ ہو گا اور انھیں افراتفری اور کسمپرسی کے عالم میں ریاست پٹیالہ چھوڑنا پڑے گی۔ مگر ایسا ہوا۔ دونوں بھائیوں کو قطعاً معلوم نہیں کہ اس خونیں طوفان میں کون سا درخت گرا، کون سے درخت سے کون سی ٹہنی ٹوٹی۔ جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو چند حقیقتیں سامنے آئیں اور وہ لرز گئے۔ اللہ رکھا کی لڑکی کا شوہر شہید کردیا گیا تھا اور اس کی بیوی کو بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے ہلاک کردیا تھا۔ اللہ دتا کی بیوی کو بھی سکھوں نے کرپانوں سے کاٹ ڈالا تھا۔ اسکی لڑکی زینب۔ کا بدچلن شوہربھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ رونا دھونا بیکار تھا۔ صبر شکرکے بیٹھ رہے۔ پہلے تو کیمپوں میں گلتے سڑتے رہے۔ پھر گلی کوچوں میں بھیک مانگا کیے۔ آخر خدا نے سنی۔ اللہ دتا کو گوجرانوالہ میں ایک چھوٹا سا شکستہ مکان سر چھپانے کو مل گیا۔ طفیل نے دوڑ دھوپ کی تو اسے کام مل گیا۔ اللہ رکھا لاہور ہی میں دیر تک دربدر پھرتا رہا۔ جوان لڑکی ساتھ تھی۔ گویا ایک پہاڑ کا پہاڑ اس کے سرپر تھا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس غریب نے کس طرح ڈیڑھ برس گزارا۔ بیوی اور بڑی لڑکی کا غم وہ بالکل بھول چکا تھا۔ قریب تھا کہ وہ کوئی خطرناک قدم اٹھائے کہ اسے ریاست پٹیالہ کے ایک بڑے افسر مل گئے جو اس کے بڑے مہربان تھے۔ اس نے ان کو اپنی حالت زار الف سے لے کر یے تک کہہ سنائی۔ آدمی رحم دل تھا۔ اس کو بڑی دقتوں کے بعد لاہور کے ایک عارضی دفتر میں اچھی ملازمت مل گئی تھی، چنانچہ انھوں نے دوسرے روز ہی اس کو چالیس روپیہ ماہوار پر ملازم رکھ لیا اور ایک چھوٹا سا کوارٹر بھی رہائش کے لیے دلوا دیا۔ اللہ رکھا نے خدا کا شکر ادا کیا جس نے اس کی مشکلات دور کیں۔ اب وہ آرام سے سانس لے سکتا تھا اور مستقبل کے متعلق اطمینان سے سوچ سکتا تھا۔ صغریٰ بڑے سلیقے والی سگھڑ لڑکی تھی، سارا دن گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی۔ ادھر ادھر سے لکڑیاں چن کے لاتی۔ چولہا سلگاتی اور مٹی کی ہنڈیا میں ہر روز اتنا سالن پکاتی جو دو وقت کے لیے پورا ہو جائے۔ آٹا گوندھتی۔ پاس ہی تنور تھا، وہاں جا کر روٹیاں لگوا لیتی۔ تنہائی میں آدمی کیا کچھ نہیں سوچتا۔ طرح طرح کے خیالات آتے یں۔ صغریٰ عام طور پر دن میں تنہا ہوتی تھی اور اپنی بہن اور ماں کو یاد کرکے آنسو بہاتی رہتی تھی، پر جب باپ آتا تو وہ اپنی آنکھوں میں سارے آنشو خشک کرلیتی تھی تاکہ اس کے زخم ہرے نہ ہوں۔ لیکن وہ اتنا جانتی تھی کہ اس کا باپ اندرہی اندر گھلا جارہا ہے۔ اس کا دل ہر وقت روتا رہتا ہے مگر وہ کسی سے کہتا نہیں۔ صغریٰ سے بھی اس نے کبھی اس کی ماں اور بہن کا ذکر نہیں کیا تھا۔ زندگی افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ ادھر گوجرانوالہ میں اللہ دتا اپنے بھائی کے مقابلے میں کسی قدرخوش حال تھا، کیوں کہ اسے بھی ملازمت مل گئی تھی اور زینب بھی تھوڑا بہت سلائی کا کام کرلیتی تھی۔ مل ملا کے کوئی ایک سو روپے ماہوار ہو جاتے تھے جو تینوں کے لیے بہت کافی تھے۔ مکان چھوٹا تھا، مگر ٹھیک تھا۔ اوپر کی منزل میں طفیل رہتا تھا، نچلی منزل میں زینب اور اس کا باپ۔ دونوں ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اللہ دتا اسے زیادہ کام نہیں کرنے دیتا تھا۔ چنانچہ منہ ادھیرے اٹھ کروہ صحن میں جھاڑو دے کر چولہا سلگا دیتا تھا کہ زینت کا کام کچھ ہلکا ہو جائے۔ وقت ملتا تو دو تین گھڑے بھر کرگھڑونچی پر رکھ دیتا تھا۔ زینت نے اپنے شہید خاوند کو کبھی یاد نہیں کیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اس کی زندگی میں کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ خوش تھی۔ اپنے باپ کے ساتھ بہت خوش تھی۔ بعض اوقات وہ اس سے لپٹ جاتی تھی۔ طفیل کے سامنے بھی۔ اور اس کو خوب چومتی تھی۔ صغریٰ اپنے باپ سے ایسے چہل نہیں کرتی تھی۔ اگر ممکن ہوتا تو وہ اس سے پردہ کرتی۔ اس لیے نہیں کہ وہ کوئی نامحرم تھا۔ نہیں۔ صرف احترام کے لیے۔ اس کے دل سے کئی دفعہ یہ دعا اٹھتی تھی۔

’’یا پروردگار۔ میرا باپ میرا جنازہ اٹھائے۔ ‘‘

بعض اوقات کئی دعائیں الٹی ثابت ہوتی ہیں۔ جو خدا کو منظور تھا، وہی ہونا تھا۔ غریب صغریٰ کے سر پر غم و اندوہ کا ایک اور پہاڑ ٹوٹنا تھا۔ جون کے مہینے دوپہر کو دفتر کے کسی کام پر جاتے ہوئے تپتی ہوئی سڑک پر اللہ رکھا کو ایسی لُو لگی کہ بے ہوش ہوکر گر پڑا۔ لوگوں نے اٹھایا۔ ہسپتال پہنچایا مگر دوا دارو نے کوئی کام نہ کیا۔ صغریٰ باپ کی موت کے صدمے سے نیم پاگل ہو گئی۔ اس نے قریب قریب آدھے بال نوچ ڈالے۔ ہمسایوں نے بہت دم دلاسا دیا مگر یہ کارگر کیسے ہوتا۔ وہ تو ایسی کشتی کے مانند تھی جو اس کا بادبان ہو نہ کوئی پتوار اور بیج منجدھار کے آن پھنسی ہوئی۔ پٹیالہ کے وہ افسر جنہوں نے مرحوم اللہ رکھا کو ملازمت دلوائی تھی، فرشتہ رحمت ثابت ہوئے۔ ان کو جب اطلاع ملی تو دوڑے آئے۔ سب سے پہلے انھوں نے یہ کام کیا کہ صغریٰ کو موٹر میں بٹھا کر گھر چھوڑ آئے اور بیوی سے کہا کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ پھر ہسپتال میں جا کر انھوں نے اللہ رکھا کے غسل وغیرہ کا وہیں انتظام کیا اور دفتر والوں سے کہا کہ وہ اس کو دفنا آئیں۔ اللہ دتا کو اپنے بھائی کے انتقال کی خبر بڑی دیر کے بعد ملی۔ بہر، وہ لاہور آیا اور پوچھتا پاچھتا وہاں پہنچ گیا جہاں صغریٰ تھی۔ اس نے اپنی بھتیجی کو بہت دم دلاسا دیا، بہلایا۔ سینے کے ساتھ لگایا، پیار کیا۔ دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا۔ بہادر بننے کو کہا، مگرصغریٰ کے پھٹے ہوئے دل پر ان تمام باتوں کا کیا اثر ہوتا۔ غریب خاموش اپنے آنسو دوپٹے میں خشک کرتی رہی۔ اللہ دتا نے افسر صاحب سے آخر میں کہا۔

’’میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ میری گردن آپ کے احسانوں تلے ہمیشہ دبی رہے گی۔ مرحوم کی تجہیز و تکفین کا آپ نے بندوبست کیا۔ پھر یہ بچی جو بالکل بے آسرا رہ گئی تھی، اس کو آپ نے اپنے گھر میں جگہ دی۔ خدا آپ کو اس کا اجر دے۔ اب میں اسے اپنے ساتھ لیے جاتا ہوں۔ میرے بھائی کی بڑی قیمتی نشانی ہے۔ ‘‘

افسر صاحب نے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ لیکن تم ابھی اسے کچھ دیر اور یہاں رہنے دو۔ طبیعت سنبھل جائے تو لے جانا۔ ‘‘

اللہ دتا نے کہا۔

’’حضور! میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کی شادی اپنے لڑکے سے کروں گا اور بہت جلد!‘‘

افسر صاحب بہت خوش ہوئے۔

’’بڑا نیک ارادہ ہے۔ لیکن اس صورت میں جب کہ تم اس کی شادی اپنے لڑکے سے کرنے والے ہو، اس کا اس گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ تم شادی کا بندوبست کرو۔ مجھے تاریخ سے مطلع کردینا۔ خدا کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

بات درست تھی۔ اللہ دتا واپس گوجرانوالہ چلا گیا۔ زینب اس کی غیر موجودگی میں بڑی اداس ہو گئی تھی۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا تو وہ اس سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ اس نے اتنی دیر کیوں لگائی؟ اللہ دتا نے پیار سے اسے ایک طرف ہٹایا۔

’’ارے بایا، آنا جانا کیا ہے۔ قبر پر فاتحہ پڑھنی تھی۔ صغریٰ سے ملنا تھا، اسے یہاں لانا تھا۔ ‘‘

زینب نہ معلوم کیا سوچنے لگی۔

’’صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔ ‘‘

ایک دم چونک کر۔

’’ہاں۔ صغریٰ کو یہاں لانا تھا۔ پر وہ کہاں ہے؟‘‘

’’وہیں ہے۔ پٹیالے کے ایک بڑے نیک دل افسر ہیں، ان کے پاس ہے۔ انھوں نے کہا جب تم اس کی شادی کا بندوبست کرلو گے تو لے جانا‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے بیڑی سلگائی۔ زینب نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

’’اس کی شادی کا بندوبست کررہے ہو۔ کوئی لڑکا ہے تمہاری نظر میں؟‘‘

اللہ دتہ نے زور کا کش لگایا۔

’’ارے بھئی، اپنا طفیل۔ میرے بڑے بھائی کی صرف ایک ہی نشانی تو ہے۔ میں اسے کیا غیروں کے حوالے کردوں گا؟‘‘

زینب نے ٹھنڈی سانس بھری۔

’’تو صغریٰ کی شادی تم طفیل سے کروگے؟‘‘

اللہ دتا نے جواب دیا۔

’’ہاں۔ کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟‘‘

زینب نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’ہاں۔ اور تم جانتے ہو، کیوں ہے۔ یہ شادی ہرگز نہیں ہو گی!‘‘

اللہ دتا مسکرایا۔ زینب کی ٹھوڑی پکڑ کر اس نے اس کا منہ چوما۔

’’پگلی۔ ہر بات پر شک کرتی ہے۔ اور باتوں کو چھوڑ، آخر میں تمہارا باپ ہوں۔ ‘‘

زینب نے بڑے زور سے ہونہہ کی۔

’’باپ!‘‘

اور اندر کمرے میں جا کر رونے لگی۔ اللہ دتا اس کے پیچھے گیا اور اس کو پچکارنے لگا۔ دن گزرتے گئے۔ طفیل فرمانبردار لڑکا تھا۔ جب اس کے باپ نے صغریٰ کی بات تو وہ فوراً مان گیا۔ آخر تین چار مہینے کے بعد تاریخ مقرر ہو گئی۔ افسر صاحب نے فوراً صغریٰ کے لیے ایک بہت اچھا جوڑا سلوایا جو اسے شادی کے دن پہننا تھا۔ ایک انگوٹھی بھی لے دی۔ پھر اس نے محلے والوں سے اپیل کی کہ وہ ایک یتیم لڑکی کی شادی کے لیے جو بالکل بے سہارا ہے، حسب توفیق کچھ دیں۔ صغریٰ کو قریب قریب سبھی جانتے تھے اور اس کے حالات سے واقف تھے، چنانچہ انھوں نے مل ملا کر اس کے لیے بڑا اچھا جہیز تیار کردیا۔ صغریٰ دلہن بنی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ تمام دکھ جمع ہو گئے ہیں اور اس کوپیس رہے ہیں۔ بہر حال، وہ اپنے سسرال پہنچی جہاں اس کا استقبال زینب نے کیا، کچھ اس طرح کہ صغریٰ کو اسی وقت معلوم ہو گیا کہ وہ اس کے ساتھ بہنوں کا سا سلوک نہیں کرے گی بلکہ ساس کی طرح پیش آئے گی۔ صغریٰ کا اندیشہ درست تھا۔ اس کے ہاتھوں کی مہندی ابھی اچھی طرح اترنے بھی نہ پائی تھی کہ زینب نے اس سے نوکروں کے کام لینے شروع کردیے۔ جھاڑو وہ دیتی۔ برتن وہ مانجھتی۔ چولہا وہ جھونکتی۔ پانی وہ بھرتی۔ یہ سب کام وہ بڑی پھرتی اور بڑے سلیقے سے کرتی، لیکن پھر بھی زینب خوش نہ ہوتی۔ بات بات پر اس کو ڈانٹتی ڈپٹتی، جھڑکتی رہی۔ صغریٰ نے دل میں تہیہ کرلیا تھا، وہ یہ سب کچھ برداشت کرے گی اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے گی، کیوں کہ اگر اسے یہاں سے دھکّا مل گیا تو اس کے لیے اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اللہ دتا کاسلوک البتہ اس سے برا نہیں تھا۔ زینب کی نظر بچا کر کبھی کبھار وہ اس کو پیار کرلیتا تھا اور کہتا تھا کہ وہ کچھ فکر نہ کرے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ صغریٰ کو اس سے بہت ڈھارس ہوتی۔ زینب جب کبھی اپنی کسی سہیلی کے ہاں جاتی اور اللہ دتا اتفاق سے گھر پر ہوتا تو وہ اس سے دل کھول کرپیار کرتا۔ اس سے بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرتا۔ کام میں اس کا ہاتھ بٹاتا۔ اس کے واسطے اس نے جو چیزیں چھپا کر رکھی ہوتی تھیں، دیتا اور سینے کے ساتھ لگا کر اس سے کہا۔

’’صغریٰ، تم بڑی پیاری ہو!‘‘

صغریٰ جھینپ جاتی۔ دراصل وہ اتنے پُرجوش پیار کی عادی نہیں تھی۔ اس کا مرحوم باپ اگر کبھی اسے پیار کرنا چاہتا تھا تو صرف اس کے سر پرہاتھ پھیر دیا کرتا تھا یا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا دیا کرتا تھا۔

’’خدا میری بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔ ‘‘

صغریٰ طفیل سے بہت خوش تھی۔ وہ بڑا اچھا خاوند تھا۔ جو کماتا تھا، اس کے حوالے کردیتا تھا، مگر صغریٰ زینب کودے دیتی تھی، اس لیے کہ وہ اس کے قہر و غضب سے ڈرتی تھی۔ طفیل سے صغریٰ نے زینت کی بدسلوکی اور اس کے ساس ایسے برتاؤ کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ وہ صلح کل تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے باعث گھرمیں کسی قسم کی بدمزگی پیدا ہو۔ اور بھی کئی باتیں تھیں جو وہ طفیل سے کہنا چاہتی تو کہہ دیتی مگر اسے ڈر تھا کہ طوفان برپا ہو جائے گا۔ اور تو اس میں سے بچ کر نکل جائیں گے مگر وہ اکیلی اس میں پھنس جائے گی، اور اس کی تاب نہ لاسکے گی۔ یہ خاص باتیں اسے چند روز ہوئے معلوم ہوئی تھیں اور وہ کانپ کانپ گئی تھی۔ اب اللہ دتا اسے پیار کرنا چاہتا تووہ الگ ہٹ جاتی، یادوڑ کر اوپر چلی جاتی، جہاں وہ اور طفیل رہتے تھے۔ طفیل کو جمعہ کی چھٹی ہوتی تھی۔ اللہ دتا کو اتوار کی۔ اگر زینب گھر پر ہوتی تو وہ جلدی جلدی کام کاج ختم کرکے اوپر چلی جاتی۔ اگر اتفاق سے اتوار کو زینب کہیں باہر گئی ہوتی تو صغریٰ کی جان پر بنی رہتی۔ ڈر کے مارے اس سے کام نہ ہوتا، لیکن زینب کا خیال آتا تو اسے مجبوراً کانپتے ہاتھوں سے دھڑکتے دل سے طوعاًوکرہاً سب کچھ کرنا پڑتا۔ اگر وہ کھانا وقت پرنہ پکائے تو اس کا خاوند بھوکا رہے کیوں کہ وہ ٹھیک بارہ بجے اپنا شاگرد روٹی کے بھیج دیتا تھا۔ ایک دن اتوار کو جب کہ زینب گھر پر نہیں تھی، اور وہ آٹا گوندھ رہی تھی، اللہ دتا پیچھے سے دبے پاؤں آیا اور کھلنڈرے انداز میں اس کی آنکھوں پرہاتھ رکھ دیے۔ وہ تڑپ کر اٹھی، مگر اللہ دتا نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ صغریٰ نے چیخنا شروع کردیامگر وہاں سننے والا کون تھا۔ اللہ دتا نے کہا۔

’’شور مت مچاؤ۔ یہ سب بے فائدہ ہے۔ چلو آؤ!‘‘

وہ چاہتا تھا کہ صغریٰ کو اٹھا کر اندر لے جائے۔ کمزور تھی مگر خدا جانے اس میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اللہ دتا کی گرفت سے نکل گئی اور ہانپتی کانپتی اوپر پہنچ گئی۔ کمرے میں داخل ہو کر اس نے اندر سے کنڈی چڑھا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد زینب آگئی۔ اللہ دتا کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اندر کمرے میں لیٹ کر اس نے زینب کو پکارا۔ وہ آئی تو اس سے کہا۔

’’ادھر آؤ، میری ٹانگیں دباؤ۔ زینب اچک کر پلنگ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی ٹانگیں دبانے لگیں۔ تھوڑ ی دیر کے بعد دونوں کے سانس تیز تیز چلنے لگے۔ زینب نے اللہ دتا سے پوچھا۔

’’کیابات ہے؟ آج تم اپنے آپ میں نہیں ہو؟‘‘

اللہ دتا نے سوچا کہ زینب سے چھپانا فضول ہے، چنانچہ اس نے سارا ماجرا بیان کردیا۔ زینب آگ بگولا ہو گئی۔

’’کیا ایک کافی نہیں تھی۔ تمہیں تو شرم نہ آئی، پر اب تو آنی چاہیے تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ ایسا ہو گا، اسی لیے میں شادی کے خلاف تھی۔ اب سن لو کہ صغریٰ اس گھر میں نہیں رہے گی!‘‘

اللہ دتا نے بڑے مسکین لہجے میں پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

زینب نے کھلے طور پر کہا۔

’’میں اس گھر میں اپنی سوتن دیکھتا نہیں چاہتی!‘‘

اللہ دتا کا حلق خشک ہو گیا۔ اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ زینب باہر نکلی تو اس نے دیکھا کہ صغریٰ صحن میں جھاڑو دے رہی ہے۔ چاہتی تھی کہ اس سے کچھ کہے مگر خاموش رہی۔ اس واقعے کو دو مہینے گزر گئے۔ صغریٰ نے محسوس کیا کہ طفیل اس سے کھچا کھچا رہتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اس کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ آخر ایک دن آیا کہ اس نے طلاق نامہ اس کے ہاتھ میں دیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔

سعادت حسن منٹو

افشائے راز

’’میری لگدی کسے نہ ویکھی‘ تے ٹٹدی نوں جگ جاندا‘‘

’’یہ آپ نے گانا کیوں شروع کر دیا ہے‘‘

’’ہر آدمی گاتا اور روتا ہے۔ کونسا گناہ کیا ہے؟‘‘

’’کل آپ غسل خانے میں بھی یہی گیت گا رہے تھے‘‘

’’غسل خانے میں تو ہر شریف آدمی اپنی استطاعت کے مطابق گاتا ہے۔ اس لیے کہ وہاں کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے‘ تمھیں میری آواز پسند نہیں آتی‘‘

’’آپ کی آواز تو ماشاء اﷲ بڑی اچھی ہے‘‘

’’مجھے بنا رہی ہو۔ مجھے اس کا علم ہے کہ میں کُن سرا ہوں‘ میری آواز میں کوئی کشش نہیں۔ کوئی بھی اسے پھٹے بانس کی آواز کہہ سکتا ہے‘‘

’’مجھے تو آپ کی آواز بڑی سریلی معلوم ہوتی ہے‘ باقی اﷲ بہتر جانتا ہے۔ لیکن میں پوچھتی ہوں ‘ ہر وقت یہ پنجابی بولی وردِ زبان کیوں رہتی ہے‘‘

’’مجھے اچھی لگتی ہے۔ بیگم تم کو اگر ادب اور شعر سے ذرا سا بھی شغف ہو۔ ‘‘

’’یہ شغف کیا بلا ہے۔ آپ ہمیشہ ایسے الفاظ میں گفتگو کرتے ہیں جسے کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

’’شغف کا مطلب۔ بس تم یہ سمجھ لو۔ کہ اس کا مطلب لگاؤ ہے‘‘

’’مجھے شاعری سے لگاؤ کیوں ہو۔ ایسی واہیات چیز ہے‘‘

’’یعنی شاعری بھی اک چیز ہو گئی۔ یہ تمہاری بڑی زیادتی ہے۔ فرصت کے لمحات میں اپنے اندر ذوق پیدا کیا کرو‘‘

’’چھ بچے پیدا کر چکی ہوں۔ اب میں اور کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتی‘‘

’’میں نے تم سے کئی مرتبہ کہا کہ معاملہ ختم ہونا چاہیے‘ پر تم ہی نہیں مانیں۔ چھ بچے پیدا کر کے تم تھک گئی ہو‘ تمہارے پڑوس میں مسز قیوم رہتی ہیں

’’اس کے گیارہ بچے ہیں‘‘

’’اس کا مطلب ہے کہ میں بھی گیارہ ہی پیدا کروں‘‘

’’میں نے یہ کب کہا ہے۔ میں تو ایک کا بھی قائل نہیں تھا۔ ‘‘

’’میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ جب میرے بچہ نہ ہوتا تو آپ اسی بہانے سے دوسری شادی کر لیتے‘‘

’’میں تو ایک ہی شادی سے بھرپایا ہوں۔ تم ساری زندگی کے لیے کافی ہو۔ میں دوسری شادی کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتا‘‘

’’اور یہ پنجابی بولی کس لیے گائی جا رہی تھی‘‘

’’بھئی‘ میں کہہ چکا ہوں کہ مجھے یہ پسند ہے۔ تمھیں ناپسند ہو تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میری لگدی کسے نہ ویکھی۔ تے ٹٹدی نوں جگ جاندا‘‘

’’اس بولی میں آپ کو کیا لذت محسوس ہوتی ہے‘‘

’’میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘

’’آپ نے اب تک کوئی بات وقوث سے نہیں کہی‘‘

’’وقوث نہیں۔ وثوق۔ یعنی یقین کے ساتھ‘‘

’’آپ نے ابھی تک کوئی بات ایسی نہیں کی جس میں یقین پایا جاتا ہو‘‘

’’لو ‘ آج یہ نئی بات سُنی۔ میری باتوں پر آپ کو یقین کیوں نہیں آتا۔

’’مردوں کی باتوں کا اعتبار ہی کیا ہے؟‘‘

’’عورتوں کی باتوں کا اعتبار ہی کیا۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ آپ ہی پھاڑتی ہیں‘ آپ ہی رفو کرتی ہیں‘ سمجھ میں نہیں آتا یہ آج کی برہمی کس بات پر ہے۔ ‘‘

’’آپ ایسے واہیات گیت گاتے رہیں اور میں چپ رہوں۔ اب سے دُور قرآن درمیان‘ آپ نے ہمیشہ مجھ سے بے اعتنائی کی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو غزلوں اور گیتوں سے اتنی دلچسپی کیوں ہے۔ ابھی پچھلے دنوں آپ مسلسل یہ شعر گنگناتے رہے: سُنا ہے مہ جبینوں کوبھی کچھ کچھ مروّت کے قرینے آ رہے ہیں مجھے اس پر سخت اعتراض ہے۔ کوئی شریف آدمی ایسے شعر نہیں گاتا۔ آپ: ؂ تیری ذات ہے اکبری سروری میری بار کیوں دیر اتنی کری نہیں گاتے‘‘

’’لاحول ولا۔ تم بھی کیسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتی ہو‘‘

’’یہ باتیں گویا آپ کے نزدیک اوٹ پٹانگ ہیں؟۔ اس لیے کہ پاکیزہ ہیں؟‘‘

’’دنیا میں ہر چیز پاکیزہ ہے‘‘

’’آپ بھی؟‘‘

’’میں تو ہمیشہ صاف ستھرا رہتا ہوں‘ تم نے کئی مرتبہ اس کی تعریف کی ہے‘ دن میں دو مرتبہ کپڑے بدلتا ہوں‘ سخت سردی بھی ہو غسل کرتا ہوں‘ تم تو تین چار دن چھوڑ کے نہاتی ہو‘ تمھیں پانی سے نفرت ہے‘‘

’’اجی واہ۔ میں تو ہر ہفتے باقاعدہ نہاتی ہوں‘‘

ہر ہفتے کا نہانا تو سفید جھوٹ ہے۔ قرآن کی قسم کھا کے بتاؤ ‘ تمھیں نہائے ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں‘‘

’’میں قرآن کی قسم کھانے کے لیے تیار نہیں۔ آپ بتائیے کب غسل کیا تھا‘‘

’’آج صبح‘‘

’’جھوٹ۔ آپ کا اول جھوٹ‘ آخر جھوٹ۔ آج صبح تو نل میں پانی ہی نہیں تھا۔ میں نے ساڑھے نو بجے کے قریب دو مشکیں منگوائی تھیں‘‘

’’میں بھول گیا۔ واقعی آج میں نے غسل نہیں کیا‘‘

’’آپ کو بھول جانے کا مرض ہے‘‘

’’بھولنا انسان کی فطرت ہے۔ اس پر تمھیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ چند روز ہوئے تم دس کا نوٹ کہیں رکھ کے بھول گئی تھیں اور مجھ پر الزام لگایا کہ میں نے چوری کر لیا ہے۔ یہ کتنی بڑی زیادتی تھی‘‘

’’جیسے آپ نے میرے روپے کبھی نہیں چُرائے۔ پچھلے مہینے میری الماری سے آپ نے سو روپے نکالے اور غائب کر گئے‘‘

’’ہوسکتا ہے وہ کسی اور نے چُرائے ہوں۔ اگر تمہیں مجھ پر شک تھا تو بتا دیا ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تُم نے وہ سوروپے کا نوٹ کسی محفوظ جگہ رکھا ہواور بعد میں بُھول گئی ہو۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ ‘‘

’’کب؟‘‘

’’پچھلے سال اسی مہینے تُم نے پانچ سو روپے کے نوٹ اپنے پلنگ کے بستر کے نیچے چھپا رکھے تھے اور تم اُن کے متعلق بالکل بُھول گئی تھیں۔ مجھ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ میں نے چرائے ہیں۔ آخر میں نے ہی تلاش کر کے نکالے اور تمھارے حوالے کردیے‘‘

’’کیا پتا ہے کہ آپ نے چرائے ہوں اور بعد میں میرے شور مچانے پر اپنی جیب سے نکال کر بستر کے نیچے رکھ دیے ہوں۔ ‘‘

’’میری سمجھ میں تمہاری یہ منطق نہیں آتی‘‘

’’آپ کی سمجھ میں تو کوئی چیز بھی نہیں آتی۔ کل میں نے آپ سے کہا تھاکہ دہی کھانا آپ کے لیے مفید ہے، لیکن آپ نے مجھے ایک لکچر پلا دیا کہ دہی فضول چیز ہے‘‘

’’دہی تو میں ہر روز کھاتا ہوں‘‘

’’کتنا کھاتے ہیں‘‘

’’یہی، کوئی آدھ سیر‘‘

’’میں ہر روز سیر منگواتی ہوں۔ باقی پڑا جھک مارتا رہتا ہے‘‘

’’دہی کو جھک مارنے کی کیا ضرورت ہے۔ جو بچ جاتا ہے اُس کی تم کڑھی بنا لیتی ہو‘‘

’’میں دہی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ کڑھی بناتی ہوں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ میں سلیقہ شعار عورت ہوں۔ میں نے آپ سے صرف اتنا پوچھا تھا کہ آپ آج کل ایک خاص پنجابی بولی کیوں ہر وقت گاتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’اس لیے کہ مجھے پسند ہے‘‘

’’کیوں پسند ہے؟۔ اس کی وجہ بھی تو ہونی چاہیے‘‘

’’تمہیں کالا رنگ کیوں پسند ہے۔ اس کی وجہ بتاؤ۔ تمھیں بھنڈیاں مرغوب ہیں۔ کیوں؟ تمھیں سینما دیکھنے کاشوق ہے۔ اس کا جواز پیش کرو۔ تم لٹھے کی بجائے ریشم کی شلواریں پہنتی ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

’’آپ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ مجھ سے اس قسم کے سوال کریں۔ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ ‘‘

’’اپنی مرضی کا مالک میں بھی ہوں۔ کیا مجھے یہ حق حاصل نہیں کہ جو شعر بھی مجھے پسند ہو، اپنی بھونڈی آواز میں دن رات گاتا رہوں۔ ‘‘

’’مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں۔ ‘‘

’’رُک کیوں گئیں۔ ‘‘

’’دیکھیے۔ آپ میری زبان نہ کھلوائیے۔ میں نے آج تک آپ سے کچھ نہیں کہا‘ حالانکہ میں سب کچھ جانتی ہوں۔ ‘‘

’’تم میرے متعلق کیا جانتی ہو‘‘

’’سب کچھ‘‘

’’کچھ مجھے بھی بتادو، تاکہ میں اپنے متعلق کچھ جان سکوں۔ میں تو سالہاسال کے غوروفکر کے بعد بھی اپنے متعلق کچھ جان نہ سکا‘‘

’’آپ کو اُس پنجابی بولی میں جو آپ مسلسل گنگناتے رہتے ہیں۔ سب کچھ جان سکتے ہیں۔ ‘‘

’’تم اس قدر شاکی کیوں ہو‘‘

’’ہر مرد بے وفا ہوتا ہے‘‘

میں نے تم سے کیا بیوفائی کی ہے۔ اصل میں عورتیں جا و بے جا اپنے شوہروں پر شک کرتی رہتی ہیں۔ ‘‘

ٹھہریے۔ دروازے پر دستک ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے‘ ڈاکیا ہے‘‘

’’یہ خط میرا ہے۔ لاؤ ادھر‘‘

’’میں کھولتی ہوں۔ پڑھ کے آپ کے حوالے کر دُوں گی‘‘

’’تمھیں میرے خط پڑھنے کا کوئی حق حاصل نہیں‘‘

’’میں ہمیشہ آپ کے خط پڑھتی رہی ہوں۔ یہ حق آپ نے کب سے چھین لیا؟‘‘

’’اچھا یہ بتا دو کہ خط کس کا ہے‘‘

’’آپ ہی کا ہے؟‘‘

’’کس نے لکھا ہے؟‘‘

’’آپ کی ایک سہیلی ہے۔ جس کا نام عذرا ہے۔ وہ پنجابی بولی جو آپ گاتے پھرتے ہیں اس کاغذ کی پیشانی پر لکھی ہے میری لگدی کسے نہ دیکھی وے۔ تے ٹُٹدی نوں جگ جاندا یہ ٹوٹ ہی جائے تو بہتر ہے۔ ۱۵ مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

اصلی جن

لکھنؤ کے پہلے دنوں کی یاد نواب نوازش علی اللہ کو پیارے ہوئے تو ان کی اکلوتی لڑکی کی عمر زیادہ سے زیادہ آٹھ برس تھی۔ اکہرے جسم کی، بڑی دُبلی پتلی، نازک، پتلے پتلے نقشوں والی۔ گڑیا سی۔ نام اس کا فرخندہ تھا۔ اُس کو اپنے والد کی موت کا دُکھ ہوا۔ مگر عمر ایسی تھی کہ بہت جلد بھول گئی۔ لیکن اُس کو اپنے دُکھ کا شدید احساس اُس وقت ہوا جب اُس کو میٹھا برس لگا اور اُس کی ماں نے اُس کا باہر آنا جانا قطعی طور پر بند کر دیا اور اس پر کڑے پردے کی پابندی عائد کر دی۔ اس کو اب ہر وقت گھر کی چار دیواری میں رہنا پڑتا۔ اُس کا کوئی بھائی تھا نہ بہن۔ اکثر تنہائی میں روتی اور خدا سے یہ گلہ کرتی کہ اُس نے بھائی سے اسے کیوں محروم رکھا اور پھر اس کا ابا میاں اُس سے کیوں چھین لیا۔ ماں سے اُس کو محبت تھی ٗ مگر ہر وقت اُس کے پاس بیٹھی وہ کوئی تسکین محسوس نہیں کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کوئی اور ہو جس کے وجود سے اُس کی زندگی کی یک آہنگی دُور ہو سکے۔ وہ ہر وقت اُکتائی اُکتائی سی رہتی۔ اب اُس کو اٹھارواں برس لگ رہا تھا۔ سالگرہ میں دس بارہ روز باقی تھے کہ پڑوس کا مکان جو کچھ دیر سے خالی پڑا تھا پنجابیوں کے ایک خاندان نے کرائے پر اُٹھا لیا۔ اُن کے آٹھ لڑکے تھے اور ایک لڑکی۔ آٹھ لڑکوں میں سے دو بیا ہے جا چکے تھے۔ باقی اسکول اور کالج میں پڑھتے تھے۔ لڑکی ان چھیوں سے ایک برس بڑی تھی۔ بڑی تنومند ٗ ہٹی کٹی ٗ اپنی عمر سے دو اڑھائی برس زیادہ ہی دکھائی دیتی تھی۔ انٹرنس پاس کر چکی تھی اُس کے بعد اس کے والدین نے یہ مناسب نہ سمجھا تھا کہ اسے مزید تعلیم دی جائے۔ معلوم نہیں کیوں؟ اُس لڑکی کا نام نسیمہ تھا۔ لیکن اپنے نام کی رعایت سے وہ نرم و نازک اور سست رفتار نہیں تھی۔ اُس میں بلا کی پھرتی اور گرمی تھی۔ فرخندہ کو اُس مہین مہین مونچھوں والی لڑکی نے کوٹھے پر سے دیکھا، جب کہ وہ بے حد اُکتا کر کوئی ناول پڑھنے کی کوشش کرنا چاہتی تھی۔ دونوں کوٹھے ساتھ ساتھ تھے۔ چنانچہ چند جملوں ہی میں دونوں متعارف ہو گئیں۔ فرخندہ کو اُس کی شکل و صورت پہلی نظر میں قطعاً پر کشش معلوم نہ ہوئی لیکن جب اُس سے تھوڑی دیر گفتگو ہوئی تو اُسے اس کا ہر خدو خال پسند آیا۔ موٹے موٹے نقشوں والی تھی، جیسے کوئی جوان لڑکا ہے۔ جس کی مسیں بھیگ رہی ہیں۔ بڑی صحت مند بھرے بھرے ہاتھ پاؤں۔ کشادہ سینہ مگر اُبھاروں سے بہت حد تک خالی۔ فرخندہ کو اُس کے بالائی لب پر مہین مہین بالوں کا غبار خاص طور پر بہت پسند آیا۔ چنانچہ ان میں فوراً دوستی ہو گئی۔ نسیمہ نے اس کے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو پوچھا

’’یہ ناول کیسا ہے؟‘‘

فرخندہ نے کہا

’’بڑا ذلیل قسم کا ہے۔ ایسے ہی مل گیا تھا۔ میں تنہائی سے گھبرا گئی تھی۔ سوچا کہ چند صفحے پڑھ لُوں۔ ‘‘

نسیمہ نے یہ ناول فرخندہ سے لیا واقعی بڑا گھٹیا سا تھا۔ مگر اس نے رات کو بہت دیر جاگ کر پڑھا۔ صبح نوکر کے ہاتھ فرخندہ کو واپس بھیج دیا۔ وہ ابھی تک تنہائی محسوس کر رہی تھی اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے اس نے سوچا کہ چلو چند اوراق دیکھ لوں۔ کتاب کھولی تو اس میں سے ایک رقعہ نکلا جو اس کے نام تھا۔ یہ نسیمہ کا لکھا ہوا تھا۔ اسے پڑھتے ہوئے فرخندہ کے تن بدن میں کپکپیاں دوڑتی رہیں۔ فوراً کوٹھے پر گئی۔ نسیمہ نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ اسے بُلانا چاہے تو اینٹ جو منڈیر سے اکھڑی ہوئی تھی زور زور سے کسی اور اینٹ کے ساتھ بجا دیا کرے۔ وہ فوراً آ جائے گی۔ فرخندہ نے اینٹ بجائی تو نسیمہ سچ مچ ایک منٹ میں کوٹھے پر آگئی۔ شاید وہ اپنے رقعے کے جواب کا انتظار کررہی تھی آتے ہی وہ چار ساڑھے چار فٹ کی کی منڈیر پر مردانہ انداز میں چڑھی اور دوسری طرف کود کر فرخندہ سے لپٹ گئی اور چٹ سے اس کے ہونٹوں کا طول بوسہ لے لیا۔ فرخندہ بہت خوش ہوئی۔ دیر تک دونوں گل مل کے باتیں کرتی رہیں۔ نسیمہ اب اُسے اور زیادہ خوبصورت دکھائی دی۔ اس کی ہر ادا جو مردانہ طرز کی تھی اسے بے حد پسند آئی اور وہیں فیصلہ ہو گیا کہ وہ تادم آخر سہیلیاں بنی رہیں گی۔ سالگرہ کا دن آیا تو فرخندہ نے اپنی ماں سے اجازت طلب کی کہ وہ اپنی ہمسائی کو جو اس کی سہیلی بن چکی ہے بُلا سکتی ہے اس نے اپنے ٹھیٹ لکھنوی انداز میں کہا

’’کوئی مضائقہ نہیں‘‘

بلا لو۔ لیکن وہ مجھے پسند نہیں۔ میں نے دیکھا ہے لونڈوں کی طرح کد کڑے لگاتی رہتی ہے۔ ‘‘

فرخندہ نے وکالت کی

’’نہیں امی جان۔ وہ تو بہت اچھی ہے۔ جب ملتی ہے بڑے اخلاق سے پیش آتی ہے‘‘

نواب صاحب کی بیگم نے کہا

’’ہو گا، مگر بھئی مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لڑکیوں کی کوئی نزاکت نہیں۔ لیکن تم اصرار کرتی ہو تو بلا لو۔ لیکن اس سے زیادہ ربط نہیں ہونا چاہیے۔ فرخندہ اپنی ماں کے پاس تخت پر بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھ سے سروتالے کر چھالیا کاٹنے لگی۔

’’لیکن امی جان ہم دونوں تو قسم کھا چکی ہیں کہ ساری عمر سہیلیاں رہیں گی۔ انسان کو اپنے وعدے سے کبھی پھرنا نہیں چاہیے‘‘

بیگم صاحبہ اصول کی پکی تھیں اس لیے انھوں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور صرف یہ کہہ کر خاموش ہو گئیں

’’تم جانو۔ مجھے کچھ معلوم نہیں‘‘

سالگرہ کے دن نسیمہ آئی۔ اس کی قمیص دھاری دار پوپلین کی تھی۔ چست پائجامہ جس میں سے اس کی مضبوط پنڈلیاں اپنی تمام مضبوطی دکھا رہی تھیں۔ فرخندہ کو وہ اس لباس میں بہت پیاری لگی۔ چنانچہ اس نے اپنی تمام نسوانی نزاکتوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور اس سے چند ناز نخرے بھی کیے۔ مثال کے طور پر جب میز پر چائے آئی تو اُس نے خود بنا کر نسیمہ کو پیش کی۔ اُس نے کہا

’’میں نہیں پیتی، تو فرخندہ رونے لگی۔ بسکٹ اپنے دانتوں سے توڑا تو اُس کو مجبور کیا کہ وہ اس کا بقایا حصہ کھائے۔ سموسہ منہ میں رکھا تو اس سے کہا کہ وہ آدھا اس کے منہ کے ساتھ منہ لگا کر کھائے۔ ایک آدھ مرتبہ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی، مگر فرخندہ خوش تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ نسیمہ ہر روز آئے۔ وہ اس سے چہل کرے اور ایسی نرم و نازک لڑائیاں ہوتی رہیں جن سے اس کی ٹھہرے پانی ایسی زندگی میں چند لہریں پیدا ہوتی رہیں۔ لہریں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ اور ان میں فرخندہ اور نسیمہ دونوں لہرانے لگیں۔ اب فرخندہ نے بھی اپنی امی سے اجازت لے کر نسیمہ کے گھر جانا شروع کر دیا۔ دونوں اُس کمرے میں جو نسیمہ کا تھا دروازے بند کر کے گھنٹوں بیٹھی رہتیں۔ جانے کیا باتیں کرتی تھیں؟ اُن کی محبت اتنی شدت اختیار کر گئی کہ فرخندہ جب کوئی چیز خریدتی تو نسیمہ کا ضرور خیال رکھتی۔ اس کی اُمی اس کے خلاف تھی۔ چونکہ اکلوتی تھی اس لیے وہ اسے رنجیدہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دولت کافی تھی اس لیے کیا فرق پڑتا تھا کہ ایک کے بجائے دو قمیصوں کے لیے کپڑا خرید لیا جائے۔ فرخندہ کی دس شلواروں کے لیے سفید ساٹن لی تو نسیمہ کے لیے پانچ شلواروں کے لیے لٹھا لے لیا جائے۔ نسیمہ کو ریشمی ملبوس پسند نہیں تھے۔ اُس کو سوتی کپڑے پہننے کی عادت تھی۔ وہ فرخندہ سے یہ تمام چیزیں لیتی مگر شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتی۔ صرف مسکرا دیتی اور یہ تحفے تحائف وصول کر کے فرخندہ کو اپنی بانھوں کی مضبوط گرفت میں بھینچ لیتی اور اس سے کہتی

’’میرے ماں باپ غریب ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو میں تمہارے خوبصورت بالوں میں ہر روز اپنے ہاتھوں سے سونے کی کنگھی کرتی۔ تمہاری سینڈلیں چاندی کی ہوتیں۔ تمہارے غسل کے لیے معطر پانی ہوتا۔ تمہاری بانھوں میں میری بانھیں ہوتیں اور ہم جنت کی تمام منزلیں طے کر کے دوزخ کے دہانے تک پہنچ جاتے۔ ‘‘

معلوم نہیں وہ جنت سے جہنم تک کیوں پہنچنا چاہتی تھی۔ وہ جب بھی فردوس کا ذکر کرتی تو دوزخ کا ذکر ضرور آتا۔ فرخندہ کو شروع شروع میں تھوڑی سی حیرت اس کے متعلق ضرور ہوئی مگر بعد میں جب وہ نسیمہ سے گھل مل گئی تو اس نے محسوس کیا کہ ان دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ سردی سے نکل اگر آدمی گرمی میں جائے تو اُسے ہر لحاظ سے راحت ملتی ہے اور فرخندہ کو یہ حاصل ہوتی تھی۔ ان کی دوستی دن بدن زیادہ استوار ہوتی گئی بلکہ یوں کہیے کہ بڑی شدت اختیار کر گئی جو نواب نوازش علی مرحوم کی بیگم کو بہت کھلتی تھی۔ بعض اوقات وہ یہ محسوس کرتی کہ نسیمہ اس کی موت ہے۔ لیکن یہ احساس اس کو باوقار معلوم نہ ہوتا۔ فرخندہ اب زیادہ تر نسیمہ ہی کے پاس رہتی۔ صبح اٹھ کر کوٹھے پر جاتی۔ نسیمہ اُسے اُٹھا کر منڈیر کے اُس طرف لے جاتی اور دونوں کمرے میں بند گھنٹوں جانے کن باتوں میں مشغول رہتیں۔ فرخندہ کی دو سہیلیاں اور بھی تھیں ٗ بڑی مردار قسم کی۔ یو پی کی رہنے والی تھیں۔ جسم چھیچھڑا سا۔ دو پلی ٹوپیاں سی معلوم ہوتی تھیں۔ پھونک مارو تو اُڑ جائیں۔ نسیمہ سے تعارف ہونے سے پہلے یہ دونوں اُس کی جان و جگر تھیں مگر اب فرخندہ کو ان سے کوئی لگاؤ نہیں رہا تھا۔ بلکہ چاہتی تھی کہ وہ نہ آیا کریں اس لیے کہ ان میں کوئی جان نہیں تھی۔ نسیمہ کے مقابلے میں وہ ننھی ننھی چوہیاں تھیں جو کُترنا بھی نہیں جانتیں۔ ایک بار اُسے مجبوراً اپنی ماں کے ساتھ کراچی جانا پڑا وہ بھی فوری طور پر نسیمہ گھر میں موجود نہیں تھی اُس کا فرخندہ کو بہت افسوس ہوا۔ چنانچہ کراچی پہنچتے ہی اس نے اُس کو ایک طویل معذرت نامہ لکھا۔ اُس سے پہلے وہ تار بھیج چکی تھی۔ اس نے خط میں سارے حالات درج کر دئیے اور لکھا کہ تمہارے بغیر میری زندگی یہاں بے کیف ہے۔ کاش تم بھی میرے ساتھ آتیں۔ اس کی والدہ کو کراچی میں بہت کام تھے۔ مگر اُس نے اُسے کچھ بھی نہ کرنے دیا۔ دن میں کم از کم سو مرتبہ کہتی

’’میں اُداس ہو گئی ہوں۔ یہ بھی کوئی شہروں میں شہر ہے۔ یہاں کا پانی پی کر میرا ہاضمہ خراب ہو گیا ہے۔ اپنا کام جلدی ختم کیجیے اور چلیے لاہور‘‘

نواب نوازش علی کی بیگم نے سارے کام ادھورے چھوڑے اور واپس چلنے پر رضا مند ہو گئی۔ مگر اب فرخندہ نے کہا

’’جانا ہے تو ذرا شاپنگ کر لیں۔ یہاں کپڑا اور دوسری چیزیں سستی اور اچھی ملتی ہیں‘‘

شاپنگ ہوئی۔ فرخندہ نے اپنی سہیلی نسیمہ کے دس سلیکس کے لیے بہترین ڈیزائن کا کپڑا خریدا۔ واکنگ شُو لیے۔ ایک گھڑی خریدی جو نسیمہ کی چوڑی کلائی کے لیے مناسب و موزوں تھی۔ ماں خاموش رہی کہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔ کراچی سے لاہور پہنچی تو سفر کی تھکان کے باوجود فوراً نسیمہ سے ملی مگر اُس کا منہ سوجھا ہوا تھا۔ سخت ناراض تھی کہ وہ اس سے ملے بغیر چلی گئی۔ فرخندہ نے بڑی معافیاں مانگیں۔ ہر سطح سے اُس کی دلجوئی کی مگر وہ راضی نہ ہوئی اس پر فرخندہ نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور نسیمہ سے کہا کہ اگر وہ اسی طرح ناراض رہی تو وہ کچھ کھا کر مر جائے گی۔ اس کا فوری اثر ہوا اور نسیمہ نے اس کو اپنے مضبوط بازوؤں میں سمیت لیا اور اُس کو چومنے پچکارنے لگی۔ دیر تک دونوں سہیلیاں کمرہ بند کر کے بیٹھی پیار محبت کی باتیں کرتی رہیں۔ اس دن کے بعد ان کی دوستی اور زیادہ مضبوط ہو گئی۔ مگر فرخندہ کی ماں نے محسوس کیا کہ اس کی اکلوتی بیٹی کی صحت دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ چنانچہ اُس نے اُس کا گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرخندہ پر ہسٹیریا ایسے دورے پڑنے لگے۔ بیگم صاحبہ نے اپنی جان پہچان والی عورتوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ لڑکی کو آسیب ہو گیا ہے۔ دوسرے لفظو ں میں کوئی جن اس پر عاشق ہے جو اُس کو نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ فوراً ٹونے ٹوٹکے کیے گئے۔ جھاڑ پھونک کرنے والے بُلائے گئے۔ تعویز گنڈے ہوئے مگر بے سود۔ فرخندہ کی حالت دن بدن غیر ہوتی گئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ عارضہ کیا ہے۔ دن بدن دبلی ہو رہی تھی۔ کبھی گھنٹوں خاموش رہتی۔ کبھی زور زور سے چلانا شروع کر دیتی اور اپنی سہیلی نسیمہ کو یاد کر کے پہروں آنسو بہاتی۔ اس کی ماں جو زیادہ ضعیف الاعتقاد نہیں تھی۔ اپنی جان پہچان کی عورتوں کی اس بات پر یقین ہوا کہ لڑکی پر کوئی جن عاشق ہے۔ اس لیے کہ فرخندہ عشق و محبت کی بہت زیادہ باتیں کرتی تھی اور بڑے ٹھنڈے ٹھنڈے سانس بھرتی تھی۔ ایک مرتبہ پھر کوشش کی گئی۔ بڑی دُور دُور سے جھاڑنے والے بُلائے گئے دوا دارو بھی کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ فرخندہ بار بار التجا کرتی کہ اُس کی سہیلی نسیمہ کو بُلایا جائے مگر اس کی ماں ٹالتی رہی۔ آخر ایک روز فرخندہ کی حالت بہت بگڑ گئی۔ گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کی والدہ جو کبھی باہر نہیں نکلی تھی برقعہ اوڑھ کر ایک ہمسائی کے ہاں گئی اور اس سے کہا کہ کچھ کرے۔ دونوں بھاگم بھاگ فرخندہ کے کمرے میں پہنچیں مگر وہ موجود نہیں تھی۔ نواب نوازش علی مرحوم کی بیگم نے چیخنا چلانا اور دیوانہ وار

’’فرخندہ بیٹی، فرخندہ بیٹی‘‘

کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ سارا گھر چھان مارا مگر وہ نہ ملی اس پر وہ اپنے بال نوچنے لگی۔ ہمسائی نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے مگر وہ برابر واویلا کرتی رہی۔ فرخندہ نیم دیوانگی کے عالم میں اوپر کوٹھے پر کھڑی تھی۔ اس نے منڈیر کی اکھڑی ہوئی اینٹ اُٹھائی اور زور زور سے اُسے دوسری اینٹ کے ساتھ بجایا۔ کوئی نہ آیا۔ اُس نے پھر اینٹ کو دوسری اینٹ کے ساتھ ٹکرایا۔ چند لمحات کے بعد ایک خوبصورت نوجوان جو نسیمہ کے چھ کنوارے بھائیوں میں سے سب سے بڑا تھا اور برساتی میں بیٹھا بی اے کے امتحان کی تیار کررہا تھا باہر نکلا اس نے دیکھا منڈیر کے اس طرف ایک دبلی پتی نازک اندام لڑکی کھڑی ہے۔ بڑی پریشان حال بال کھلے ہیں۔ ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہیں۔ آنکھوں میں سینکڑوں زخمی اُمنگیں سمٹی ہیں۔ قریب آ کر اس نے فرخندہ سے پوچھا

’’کسے بُلا رہی ہیں آپ‘‘

فرخندہ نے اُس نوجوان کو بڑے گہرے اور دلچسپ غور سے دیکھا

’’میں نسیمہ کو بلا رہی تھی‘‘

نوجوان نے صرف اتنا کہا

’’اوہ چلو آؤ !‘‘

اور یہ کہہ کر منڈیر کے اُس طرف سے ہلکی پھلکی فرخندہ کو اُٹھایا اور برساتی میں لے گیا جہاں وہ امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ دُوسرے دن جن غائب ہو گیا۔ فرخندہ بالکل ٹھیک تھی۔ اگلے مہینے اُس کی شادی نسیمہ کے اُس بھائی سے ہو گئی جس میں نسیمہ شریک نہ ہوئی۔ سعادت حسن منٹو ۲۶ مئی ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

اُس کا پتی

لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت ہے۔ کیونکہ سوچتے وقت نتھو سر کھجلایا کرتا ہے۔ چونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور تیل نہ ملنے کے باعث بہت خستہ ہو گئے ہیں۔ اس لیے بار بار کھجلانے سے اُس کے سر کے درمیانی حصّہ بالوں سے بالکل بے نیاز ہو گیا ہے۔ اگر اس کا سر ہر روز دھویا جاتا تو یہ حصّہ ضرور چمکتا۔ مگر میل کی زیادتی کے باعث اس کی حالت بالکل اُس توے کی سی ہو گئی ہے جس پر ہر روز روٹیاں پکائی جائیں۔ مگر اسے صاف نہ کیا جائے۔ نتھو بھٹے پر اینٹیں بنانے کا کام کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر اپنے خیالات کو کچی اینٹیں سمجھتا تھا اور کسی پر فوراً ہی ظاہر نہیں کیا کرتا تھا۔ اس کا یہ اصول تھا کہ خیال کو اچھی طرح پکا کر باہر نکالنا چاہیے تاکہ جس عمارت میں بھی وہ استعمال ہو اس کا ایک مضبوط حصّہ بن جائے۔ گاؤں والے اس کے خیالات کی قدر کرتے تھے۔ اور مشکل بات میں اس سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ لیکن اس قدر حوصلہ افزائی سے نتھو اپنے آپ کو اہم نہیں سمجھنے لگا تھا۔ جس طرح گاؤں میں شمبھو کا کام ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہنا تھا۔ اسی طرح اُس کا کام ہر وقت دوسروں کو مشورہ دیتے رہنا تھا۔ وہ سمجھتا تھا۔ کہ ہر شخص صرف ایک کام لیے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ شمبھو کے بارے میں چوپال پر جب کبھی ذکر چھڑتا۔ تو وہ ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا۔ کھاد کتنی بدبودار چیزوں سے بنتی ہے پر کھیتی باڑی اس کے بنا ہو ہی نہیں سکتی۔ شمبھو کے ہر سانس میں گایوں کی باس آتی ہے، ٹھیک ہے، پر گاؤں کی چہل پہل اور رونق بھی اسی کے دم سے قائم ہے۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ نہ ہو تو لوگوں کو کیسے معلوم ہو کہ گالیاں کیا ہوتی ہیں۔ اچھے بول جاننے کے ساتھ ساتھ بُرے بول بھی معلوم ہونے چاہئیں۔ ‘‘

نتھو بھٹے سے واپس آ رہا تھا۔ اور حسبِ معمول سر کھجلاتا گاؤں کے کسی مسئلے پر غور فکر کر رہا تھا۔ لالٹین کے کھمبے کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا ہاتھ سر سے علیحدہ کیا۔ جس کی انگلیوں سے وہ بالوں کا ایک میل بھرا گچھا مروڑ رہا تھا۔ وہ اپنے جھونپڑے کے تازہ لپے ہُوئے چبوترے کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ سامنے سے اُسے کسی نے آواز دی۔ نتھو پلٹا اور اپنے سامنے والے جھونپڑے کی طرف بڑھا۔ جہاں مادھو اسے ہاتھ کے اشارے سے بلا رہا تھا۔ جھونپڑے کے چھجے کے نیچے چبوترے پر مادھو۔ اس کا لنگڑا بھائی اور چوہدری بیٹھے تھے۔ اُن کے اندازِ نشست سے ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ کوئی نہایت ہی اہم بات سوچ رہے ہیں۔ سب کے چہرے کچی اینٹوں کے مانند پیلے تھے۔ مادھو تو بہت دنوں کا بیمار دکھائی دیتا تھا۔ ایک کونے میں طاقچے کے نیچے رُوپا کی ماں بیٹھی ہوئی تھی۔ غلیظ کپڑوں میں وہ میلے کپڑوں کی ایک گٹھڑی دکھائی دے رہی تھی۔ نتھو نے دُور ہی سے معاملے کی نزاکت محسوس کی اور قدم تیز کرکے اُن کے پاس پہنچ گیا۔ مادھو نے اشارے سے اُسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ نتھو بیٹھ گیا۔ اور اس کا ایک ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنے بالوں کے اُس گچھے کی طرف بڑھ گیا جس کی جڑیں کافی ہل چکی تھیں۔ اب وہ ان لوگوں کی باتیں سننے کے لیے بالکل تیار تھا۔ مادھو اُس کو اپنے پاس بٹھا کر خاموش ہو گیا۔ مگر اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹ صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ لیکن فوراً نہیں کہہ سکتا۔ مادھو کا لنگڑا بھائی بھی خاموش تھا۔ اور بار بار اپنی کٹی ہوئی ٹانگ کے آخری ٹنڈ منڈ حصّے پر جو گوشت کا ایک بدشکل لوتھڑا سا بنا ہوا تھا۔ ہاتھ پھیر رہا تھا۔ رُوپا کی ماں طاقچے میں رکھی ہُوئی مورتی کے مانند گونگی بنی ہُوئی تھی۔ اور چوہدری اپنی مونچھوں کو تاؤ دینا بھول کر زمین پر لکیریں بنا رہا تھا۔ نتھو نے خود ہی بات شروع کی۔

’’تو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

مادھو بولا۔ نتھو بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔ اب میں تمہیں کیا بتاؤں کہ بات کیا ہے۔۔۔۔۔ میں کچھ کہنے کے قابل نہ رہا۔۔۔۔۔ چوہدری! تم ہی جی کڑا کرکے سارا قصّہ سنا دو‘‘

ننھو نے گردن اُٹھا کر چوہدری کی طرف دیکھا مگر وہ کچھ نہ بولا۔ اور زمین پر لکیریں بناتا رہا۔ دوپہر کی اُداس فضا بالکل خاموش تھی۔ البتہ کبھی کبھی چیلوں کی چیخیں سُنائی دیتی تھیں۔ اور جھونپڑے کے داہنے ہاتھ گھُورے پر جو مُرغ کوڑے کو کُرید رہا تھا۔ کبھی کبھی کسی مُرغی کو دیکھ کر بول اُٹھتا تھا۔ چند لمحات تک جھونپڑے کے چھجے کے نیچے سب خاموش رہے۔ اور نتھو معاملے کی نزاکت اچھی طرح سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ رُوپا کی ماں نے رونی آواز میں کہا۔

’’میرے پھوٹے بھاگ!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو جو کچھا جڑنا تھا اُجڑی، مجھ ابھاگن کی ساری دنیا برباد ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اب کچھ نہیں ہوسکتا؟‘‘

مادھو نے کندھے ہلا دئیے اور نتھو سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’کیا ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ بھئی میں یہ کلنک کا ٹیکہ اپنے ماتھے پر لگانا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔ میں نے جب اپنے لالو کی بات رُوپا سے پکی کی تھی تو مجھے یہ قصّہ معلوم نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تم لوگ خود ہی وچار کرو کہ سب کچھ جانتے ہُوئے میں اپنے بیٹے کا بیاہ رُوپا سے کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘

یہ سُن کر نتھو کی گردن اٹھی۔ وہ شاید یہ پوچھنا چاہتا تھا۔ کہ لالو کا بیاہ کیا ہو گیا۔ کہ رُوپا لالو کے قابل نہیں رہی وہ رُوپا اور لالو کو اچھی جانتا تھا۔ اور سچ پوچھو تو گاؤں میں ہر شخص ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ کون سی بات تھی جو اسے ان دونوں کے بارے میں معلوم نہ تھی۔ رُوپا اس کی آنکھوں کے سامنے پھُولی پھلی، بڑھی اور جوان ہُوئی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس نے اس کے گال پر ایک زور کا دھپّا بھی مارا تھا اور اس کو اتنی مجال نہ ہوئی تھی کہ چوں بھی کرے۔ حالانکہ گاؤں کے سب چھوکریاں چھوکرے گستاخ تھے اور بڑوں کا بالکل ادب نہ کرتے تھے۔ رُوپا تو بڑی بھولی بھالی لڑکی تھی۔ باتیں بھی بہت کم کرتی تھی اور اس کے چہرے پر بھی کوئی ایسی علامت نہ تھی۔ جس سے یہ پتہ چلتا کہ وہ کوئی شرارت بھی کر سکتی ہے پھر آج اس کی بابت یہ باتیں کیوں ہو رہی تھیں۔ نتھو کو گاؤں کے ہر جھونپڑے اور اس کے اندر رہنے والوں کا حال معلوم تھا۔ مثال کے طور پر اُسے معلوم تھا کہ چوہدری کی گائے نے صبح سویرے ایک بچھڑا دیا ہے اور مادھو کے لنگڑے بھائی کی بیساکھی ٹوٹ گئی ہے۔ گاما حلوائی اپنی مونچھوں کے بال چن رہا تھا کہ اُس کے ہاتھ سے آئینہ گر کر ٹوٹ گیا۔ اور ایک سیر دودھ کے پیسے نائی کو بطور قیمت دینا پڑے۔۔۔۔۔اسے یہ بھی معلوم تھا۔ کہ دواپلوں پر پوسرام اور گنگو کی چخ پخ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ اور سالگ رام نے اپنے بچوں کو پاپڑ بھون کر کھلائے تھے۔ حالانکہ وید جی نے منع کیا تھا کہ ان کو مرچوں والی کوئی چیز نہ دی جائے۔ نتھو حیران تھا کہ ایسی کونسی بات ہے جو اسے معلوم نہیں۔ یہ تمام خیالات اُس کے دماغ میں ایک دم آئے اور وہ مادھو کاکا سے اپنی حیرت دُور کرنے کی خاطر کوئی سوال کرنے ہی والا تھا کہ چوہدری نے زمین پر طوطے کی شکل یکرتے ہوئے کہا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ بچے کی ماں بن جائے گی۔ ‘‘

تو یہ بات تھی۔ نتھو کے دل پر ایک گھونسہ سا لگا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ دوپہر کی دھوپ میں اُڑنے والی ساری چیلیں اُس کے دماغ میں گھُس کر چیخنے لگی ہیں۔ اس نے اپنے بال زیادہ تیزی سے مروڑنے شروع کر دئیے۔ مادھو کاکا، نتھو کی طرف جھُکا اور بڑے دُکھ بھرے لہجے میں اس سے کہنے لگا

’’بیٹاتمہیں یہ بات تو معلوم ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی بات رُوپا سے پکی کی تھی۔ اب میں تم سے کیا کہوں۔۔۔۔۔ ذرا کان ادھر لاؤ۔ اُس نے ہولے سے نتھو کے کان میں کچھ کہا۔ اور پھر اُسی لہجے میں کہنے لگا۔

’’کتنی شرم کی بات ہے۔ میں تو کہیں کا نہ رہا۔ یہ میرا بڑھاپا اور یہ جان لیوا دُکھ اور تو اور لالو کو بتاؤ کتنا دُکھ ہوا ہو گا۔۔۔۔۔۔ تمہیں انصاف کرو۔ کہ لالو کی شادی اب اس سے ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لالو کی شادی تو ایک طرف رہی، کیا ایسی لڑکی ہمارے گاؤں میں رہ سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کے لیے ہمارے یہاں کوئی جگہ ہے؟‘‘

نتھو نے سارے گاؤں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ اور اُسے ایسی جگہ نظر نہ آئی جہاں رُوپا اپنے باپ سمیت رہ سکتی تھی۔ البتہ اس کا ایک جھونپڑا تھا جس میں وہ چاہے کسی کو بھی رکھتا۔ پچھلے برس اُس نے کوڑھی کو اس میں پناہ دی تھی۔ حالانکہ سارا گاؤں اُسے روک رہا تھا۔ اور اُسے ڈرا رہا تھا۔ کہ دیکھو یہ بیماری بڑی چھوت والی ہوتی ہے ایسی نہ ہو کہ تمہیں چمٹ جائے لیکن وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ اس نے وہی کچھ کیا جو اس کے من نے اچھا سمجھا۔ کوڑھی اس کے گھر میں پورے چھ مہینے رہ کر مر گئی لیکن اُسے بیماری ویماری بالکل نہ لگی۔ اگر گاؤں میں رُوپا کے لیے کوئی جگہ نہ رہے تو کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ اُسے ماری ماری پھرنے دیا جائے۔ ہر گز نہیں، نتھو اس بات کا قائل نہیں تھا کہ دُکھی پر۔۔۔۔۔ اور دُکھ لاد دئیے جائیں۔ اس کے جھونپڑے میں ہر وقت اُس کے لیے جگہ تھی۔ وہ چھ مہینے تک ایک کوڑھی کی تیمارداری کر سکتا تھا اور رُوپا کوڑھی تو نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کوڑھی تو نہیں تھی، یہ سوچتے ہوئے نتھو کا دماغ ایک گہری بات سوچنے لگا۔۔۔۔۔۔ رُوپا کوڑھی نہیں تھی، اس لیے وہ ہمدردی کی زیادہ مستحق بھی نہیں تھی۔ اُسے کیا روگ تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں جیسا کہ یہ لوگ کہہ رہے تھے وہ تھوڑے ہی دنوں میں بچے کی ماں بننے والی تھی، پر یہ بھی کوئی روگ ہے۔ اور کیا ماں بننا کوئی پاپ ہے؟ ہر لڑکی عورت بننا چاہتی ہے اور عورت ماں اُس کی اپنی استری ماں بننے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ اور وہ خود یہ چاہتا تھا کہ وہ جلدی مان بن جائے۔ اس لحاظ سے بھی رُوپا کا ماں بننا کوئی ایسا جُرم نہیں تھا جس پر اُسے کوئی سزا دی جائے یا پھر اسے رحم کا مستحق قرار دیا جائے۔ وہ ایک کے بجائے دو بچے جنے۔ اس سے کسی کا کیا بگڑتا تھا۔ وہ عورت ہی تو تھی۔ مندر میں گڑی ہُوئی دیوی تو تھی نہیں۔ اور پھر یہ لوگ خواہ مخواہ کیوں اپنی جان ہلکان کر رہے تھے۔ مادھو کاکا کے لڑکے سے اس کی شادی ہوتی تو بھی کبھی نہ کبھی بچہ ضرور پیدا ہوتا۔ اب کونسی آفت آ گئی تھی۔ یہ بچہ جو اب اس کے پیٹ میں تھا۔ کہیں سے اُڑ کر تو نہیں آ گیا۔ شادی بیاہ ضرور ہوا ہو گا۔ یہ لوگ باہر بیٹھے آپ ہی فیصلہ کر رہے ہیں۔ اور جس کی بابت فیصلہ ہو رہا ہے۔ اُس سے کچھ پوچھتے ہی نہیں۔ گویا وہ بچہ نہیں۔ بلکہ یہ خود جن رہے ہیں۔ عجیب بات تھی۔ اور پھر ان کو بچے کی کیا فکر پڑ گئی تھی۔ بچے کی فکر یا تو ماں کرتی ہے یا اس کا باپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ؟ ۔۔۔۔۔ اور مزہ دیکھیے کہ کوئی بچے کے باپ کی بات ہی نہیں کرتا تھا۔ یہ سوچھتے ہوئے نتھو کے دماغ میں ایک بات آئی۔ اور اُس نے مادھو کاکا سے کہا۔

’’جو کچھ تم نے کہا۔ اُس سے مجھے بڑا دُکھ ہوا۔ پر تم نے یہ کیسے کہہ دیا۔ کہ رُوپا کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب اپنے اپنے جھونپڑوں کو تالے لگا دیں تو بھی اس کے لیے ایک دروازہ کھُلا رہتا ہے۔ ‘‘

چوہدری نے زمین پر طوطے کی آنکھ بناتے ہوئے کہا۔

’’توبہ کا!‘‘

نتھو نے جواب دیا۔

’’اُن کے لیے جو پاپی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ رُوپا نے کوئی پاپ نہیں کیا۔ وہ نردوش ہے!‘‘

چوہدری نے حیرت سے مادھو کاکا کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’اس نے پوری بات نہیں سُنی۔ ‘‘

مادھو کا لنگڑا بھائی اپنی کٹی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ نتھو رُوپا کی ماں سے مخاطب ہوا۔

’’ابھی سُن لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ رُوپا کہاں ہے؟‘‘

رُوپا کی ماں نے اپنی کھُردری انگلیوں سے آنسو پونچھے اور کہا۔

’’اندر بیٹھی اپنے نصیبوں کو رو رہی ہے۔ ‘‘

یہ سن کر نتھو نے اپنا سر ایک بار زور سے کھجلایا اور اُٹھ کر کمرے کے اندر چلا گیا۔ رُوپا اندھیری کوٹھڑی کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اُس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ میلے کچیلے کپڑوں میں اندھیرے کے اندر وہ گیلی مٹی کا ڈھیر سا دکھائی دے رہی تھی۔ جو باتیں باہر ہو رہی تھیں۔ ان کا ایک ایک لفظ اُس نے سُنا تھا حالانکہ اُس کے کان اُس کے اپنے دل کی باتیں سننے میں لگے ہوئے تھے۔ جو کسی طرح ختم ہی نہ ہوتی تھیں۔ نتھو اندر آنے کے لیے اُٹھا۔ تو وہ دوڑ کر سامنے کی کھٹیا پر جا پڑی اور گدڑی میں اپنا سر منہ چھپا لیا۔ نتھو نے جب دیکھا کہ رُوپا چھُپ گئی ہے تو اسے بڑی حیرت ہُوئی۔ اُس نے پوچھا۔

’’ارے مجھ سے کیوں چھپتی ہو؟‘‘

رُوپا رونے لگی اور اپنے آپ کو کپڑے میں اور لپیٹ لیا۔ وہ بغیر آواز کے رو رہی تھی۔ مگر نتھو کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ رُوپا کے آنسو اس کے تپتے ہوئے دل پر گر رہے ہیں۔ اس نے گدڑی کے اس حصّہ پر ہاتھ پھیرا جس کے نیچے رُوپا کا سر تھا۔ اور کہا۔ تم مجھ سے کیوں چھپتی ہو؟ رُوپا نے سسکیوں میں جواب دیا رُوپا نہیں چھپتی نتھو!۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے پاپ کو چھپا رہی ہے۔ ‘‘

نتھو اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا‘‘

کیسا پاپ۔۔۔۔۔ تم نے کوئی پاپ نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر کیا بھی ہو تو اُسے چھپانا چاہئے۔ یہ تو خود ایک پاپ ہے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں۔ مجھے یہ بتا دو کہ کس نے تمہاری سدا ہنستی آنکھوں میں یہ آنسو بھر دیے ہیں۔ کس نے اس بالی عمر میں تمہیں پاپ اور پن کے جھگڑے میں پھنسا دیا ہے؟‘‘

’’میں کیا کہوں؟ رُوپا یہ کہہ کر گدڑی میں اور سمٹ گئی۔ نتھو بولتا تھا اور رُوپا کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی اسے اکٹھا کر رہا ہے اُسے سکیڑ رہا ہے۔ نتھو نے بڑی مشکل سے رُوپا کے منہ سے کپڑا ہٹایا اور اُس کو اُٹھا کر بٹھا دیا۔ رُوپا نے دونوں ہاتھوں میں اپنے منہ کو چھپا لیا اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ اس سے نتھو کو بہت دُکھ ہوا۔ ایک تو پہلے اُسے یہ چیز ستا رہی تھی کہ ساری بات اُس کے ذہن میں مکمل طور پر نہیں آتی۔ اور دوسرے رُوپا اُس کے سامنے رو رہی تھی۔ اگر اُسے ساری بات معلوم ہوتی تو وہ اُس کے یہ آنسو روکنے کی کوشش کر سکتا تھا۔ جو میلی گدڑی میں جذب ہو رہے تھے۔ مگر اس کو سوائے اس کے اور کچھ معلوم نہیں تھا۔ کہ رُوپا تھوڑے ہی دنوں میں بچے کی ماں بننے والی ہے۔ اُس نے پھر اُس سے کہا۔

’’رُوپا تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ نتھو بھیّا تم سے پوچھ رہا ہے اور وہ کوئی غیر تھوڑی ہے، جو تم یوں اپنے من کو چھپا رہی ہو۔۔۔۔۔ تم روتی کیوں ہو۔ غلطی ہو ہی جایا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لالو کی کسی اور سے شادی ہو جائے گی اور تم اپنی جگہ خوش رہو گی۔۔۔۔۔ تمہیں دنیا کا ڈر ہے تو میں کہوں گا کہ تم بالکل بیوقوف ہو، لوگوں کے جو جی میں آئے کہیں تمہیں اس سے کیا۔۔۔۔۔۔۔ رونے دھونے سے کچھ نہیں ہو گا رُوپا، آنسو بھری آنکھوں سے نہ تم مجھے ہی ٹھیک طور سے دیکھ سکتی ہو اور نہ اپنے آپ کو۔۔۔۔۔۔ رونا بند کرو اور مجھے ساری بات بتاؤ۔ ‘‘

رُوپا کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اس سے کیا کہے، وہ دل میں سوچتی تھی کہ اب ایسی کون سی بات رہ گئی ہے جو دنیا کو معلوم نہیں۔ یہی سوچتے ہوئے اس نے نتھو سے کہا۔

’’نتھو بھیّا، مجھ سے زیادہ تو دوسروں کو معلوم ہے میں تو صرف اتنا جانتی ہُوں۔ کہ جو کچھ میں سوچتی تھی ایک سپنا تھا، یوں تو ہر چیز سُپنا ہوتی تھی۔ پر یہ سپنا بڑا ہی عجیب ہے۔ کیسے شروع ہوا۔ کیونکر ختم ہُوا۔ اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلتا بس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام دن جو میں کبھی خوشی سے گزارتی تھی۔ آنکھوں میں آنسو بننا شروع ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں گھڑا لے کر اچھلتی کودتی، گاتی کنوئیں پر پانی بھرنے گئی۔ پانی بھر کر جب واپس آنے لگی تو ٹھوکر لگی اور گھڑا چکنا چور ہو گیا۔ مجھے بڑا دُکھ ہوا۔ میں نے چاہا کہ اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کے ٹکڑے اٹھا کر جھولی میں بھر لوں پر لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا، نقصان میرا ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی کرتے۔ پر انھوں نے الٹا مجھے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا۔ گویا گھڑا ان کا تھا اور توڑنے والی میں تھی اور اس روڑے کا کوئی قصور ہی نہ تھا جو راستے میں پڑا تھا۔ اور جس سے دوسرے بھی ٹھوکر کھا سکتے تھے۔۔۔۔۔۔ تم مجھ سے کچھ نہ پوچھو مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔ ‘‘

نتھو کی انگلیاں زیادہ تیزی سے بالوں کا گچھا مروڑنے لگیں۔ اُس نے بڑے اضطراب سے کہا۔

’’میں صرف پوچھتا ہوں کہ وہ ہے کون؟‘‘

’’کون؟‘‘

’’وہی۔۔۔۔۔۔ وہی۔۔۔۔۔۔۔‘‘

رُوپا اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ رُوپا کے سینے سے ایک بے اختیار آہ نکل گئی وہ پہلے جتنا نزدیک تھا اب اتنا ہی دُور ہے!‘‘

’’میں اُس کا نام پوچھتا ہُوں۔۔۔۔۔ اور جانتی ہو میں تم سے اس کا نام کیوں پوچھتا ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ تمہارا پتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور تم اُس کی پتنی ہو۔۔۔۔۔۔ تم اُس کی ہو اور وہ تمہارا۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

نتھو اُس کے آگے کچھ کہنے ہی والا ہے کہ رُوپا نے دیوانہ وار اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور پھٹے ہوئے لہجہ میں کہا۔

’’ہولے ہولے بولو نتھو۔ ہولے ہولے بولو، کہیں وہ۔۔۔۔ جو میرے ہردے میں نیاجیو ہے، نہ سن لے کہ اس کی ماں پاپن ہے۔۔۔۔ نتھو اسی ڈر کے مارے تو میں زیادہ سوچتی نہیں، زیادہ غم نہیں کرتی کہ اُس کو کچھ معلوم نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ پر بیٹھے بیٹھے کبھی میرے من میں آتا ہے کہ ڈوب مروں اپنا گلا گھونٹ لوں، یا پھر زہر کھا کے مر جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

نتھو نے اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا۔ ایک دو سیکنڈ غور کرنے کے بعد اس نے کہا۔

’’کبھی نہیں، میں تمہیں کبھی مرنے نہ دوں گا۔ تم کیوں مرو۔ یوں تو موت سے چھٹکارا نہیں، سب کو ایک دن مرنا ہے۔ پر اسی لیے تو جینا بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ پڑھا نہیں، میں کوئی پنڈت نہیں، پر جو کچھ میں نے کہا ہے ٹھیک ہے، تم مجھے اس کا نام بتا دو۔ میں تمہیں اُس کے پاس لے چلوں گا۔ اور اسے مجبور کروں گا۔ کہ وہ تمہارے ساتھ بیاہ کر لے اور تمہیں اپنے پاس رکھے۔۔۔۔۔ وہی تمہارا پتی ہے!‘‘

نتھو پھر رُوپا کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔

’’لو میرے کان میں کہہ دو۔۔۔۔۔۔۔ وہ کون ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ رُوپا کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں، کیا تمہیں یقین نہیں آتا۔ کہ میں تمہارے لیے کچھ کر سکوں گا۔ ‘‘

رُوپا نے جواب دیا۔

’’تم میرے لیے سب کچھ کر سکتے ہو نتھو، پر جس آدمی کے پاس تم مجھے لے جانا چاہتے ہو۔ کیا وہ بھی کچھ کرے گا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے بھول بھی چکا ہو گا۔ ‘‘

نتھو نے کہا۔

’’تمہیں دیکھتے ہی اُسے سب کچھ یاد آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ باقی چیزوں کی یاد اسے میں دلا دوں گا۔۔۔۔۔ تم مجھے اُس کا نام تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ استری اپنے پتی کا نام نہیں لیتی۔ پر ایسے موقع پر تمہیں کوئی لاج نہ آنی چاہیے۔ ‘‘

رُوپا خاموش رہی، اس پر نتھو اور زیادہ مضطرب ہو گیا۔

’’میں تمہیں ایک سیدھی سادی بات سمجھاتا ہوں اور تم سمجھتی ہی نہیں ہو، پگلی، جو تمہارے بچے کا باپ ہے وہی تمہارا پتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں۔ تم تو بس آنسو بہائے جاتی ہو، کچھ سنتی ہی نہیں ہو۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں، اس کا نام بتانے میں ہرج ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لو، تم نے اور رونا شروع کر دیا۔ اچھا بھئی میں زیادہ باتیں نہیں کرتا۔ تم یہ بتا دو کہ وہ ہے کون۔۔۔۔۔۔۔۔ تم مان لو۔ میں اس کا کان پکڑ کر سیدھے راستے پر لے آؤں گا۔ ‘‘

رُوپا نے سسکیوں میں کہا۔

’’تم بار بار پتی نہ کہو نتھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جوانی میری آشا، میری دنیا، کبھی کی ودھوا ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ تم میری مانگ میں سیندور بھرنا چاہتے ہو اور میں چاہتی ہوں کہ سارے بال ہی نوچ ڈالوں۔۔۔۔۔۔۔ نتھو اب کچھ نہیں ہو سکے گا۔۔۔۔۔۔۔ میری جھولی کے بیر زمین پر گر کر۔۔۔۔۔ سب کے سب موری میں جا پڑے ہیں۔ اب انھیں باہر نکالنے سے کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا نام پوچھ کر تم کیا کرو گے۔۔۔۔۔۔۔ لوگ تو میرا نام بھول جانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

نتھو تنگ آگیا۔ اور تیز لہجے میں کہنے لگا۔

’’تم۔۔۔۔۔ تم بیوقوف ہو۔۔۔۔۔۔۔ میں تم سے کچھ نہیں پوچھوں گا۔ ‘‘

وہ اُٹھ کر جانے لگا تو رُوپا نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روکا۔ ایسا کرتے ہوئے اُس کا رنگ زرد پڑ گیا۔ نتھو نے اُس کی گیلی آنکھوں کی طرف دیکھا۔

’’بولو؟‘‘

رُوپا بولی۔

’’نتھو بھیّا، مجھے مارو، خوب پیٹو۔ شاید اس طرح میں اُس کا نام بتا دوں۔۔۔۔۔۔ تمہیں یاد ہو گا۔ ایک بار میں نے بچپن میں مندر کے ایک پیڑ سے کچے آم توڑے تھے۔ اور تم نے ایک ہی چانٹا مار کر مجھ سے سچی بات کہلوائی تھی۔۔۔۔۔۔۔ آؤ مجھے مارو۔۔۔۔۔۔۔ یہ چور جسے میں نے اپنے من میں پناہ دے رکھی ہے بغیر مار کے باہر نہیں نکلے گا۔ ‘‘

نتھو خاموش رہا۔ ایک لحظے کے لیے اس نے کچھ سوچا۔ پھر ایکا ایکی اس نے رُوپا کے پیلے گال پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ چھت کے چند سوکھے اور گرد سے اٹے تنکے دھمک کے مارے نیچے گر پڑے۔ نتھو کی سخت انگلیوں نے رُوپا کے گال پر کئی نہریں کھود دیں۔ نتھو نے گرج کر پوچھا۔

’’بتاؤ وہ کون ہے؟‘‘

جھونپڑے کے باہر مادھو کے لنگڑے بھائی کی آدھی ٹانگ کانپی۔ چوہدری جس تنکے سے زمین پر ایک اور طوطے کی شکل بنا رہا تھا۔ ہاتھ کانپنے کے باعث دُہرا ہو گیا۔ مادھو کاکا نے کلنگ کی طرح اپنی گردن اونچی کرکے جھونپڑے کے اندر دیکھا۔ اندر سے نتھو کی خشم آلود آواز آ رہی تھی۔ مگر یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں مادھو کاکا، چوہدری اور لنگڑے کیشو نے آپس میں کئی باتیں کیں۔ آخر میں مادھو کاکا کا بھائی بیساکھی ٹیک کر اٹھا۔ وہ جھونپڑے میں جانے ہی والا تھا کہ نتھو باہر نکلا۔ کیشو ایک طرف ہٹ گیا۔ نتھو نے پلٹ کر اپنے پیچھے دیکھا اور کہا کہ آؤ رُوپا

’’پھر اُس نے رُوپا کی ماں سے کہا۔

’’ماں تم بالکل چنتا نہ کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم شام تک لوٹ آئیں گے۔ ‘‘

کسی نے نتھو سے یہ نہ پوچھا کہ وہ رُوپا کو لے کر کدھر جا رہا ہے۔ مادھوکاکا کچھ پوچھنے ہی والا تھا۔ کہ نتھو اور رُوپا دونوں چبوترے پر سے اُتر کر موری کے اُس پار جا چکے تھے۔ چنانچہ وہ اپنی مونچھ کے سفید بال نوچنے میں مصروف ہو گیا۔ اور چوہدری کُبڑے تنکے کو سیدھا کرنے لگا۔ بھٹے کے مالک لالہ گنیش داس کا لڑکا ستیش جسے بھٹے کے مزدور چھوٹے لالہ جی کہا کرتے تھے۔ اپنے کمرے میں اکیلا چائے پی رہا تھا۔ پاس ہی تپائی پر ایک کھلی ہُوئی کتاب رکھی تھی۔ جسے غالباً وہ پڑھ رہا تھا۔ کتاب کی جلد کی طرح اُس کا چہرہ بھی جذبات سے خالی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے اپنے چہرے پر غلاف چڑھا رکھا ہے، وہ ہر روز اپنے اندر ایک نیا ستیش پاتا تھا۔ وہ جاڑے اور گرمیوں کے درمیانی موسم کی طرح متغیر تھا۔ وہ گرم اور سرد لہروں کا ایک مجموعہ تھا۔ دوسرے دماغ سے سوچتے تھے لیکن وہ ہاتھوں اور پیروں سے سوچتا تھا۔ جہاں ہر شے کھیل نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی زندگی کو گیند کی ماننداچھال رہا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اچھل کود ہی زندگی کا اصل مقصد ہے اُس کو مسلنے میں بہت زیادہ مزا آتا ہے۔ ہر شے کو وہ مسل کر دیکھتا تھا۔ عورتوں کے متعلق اس کا نظریہ یہ تھا کہ مرد خواہ کتنا ہی بوڑھا ہو جائے مگر اُس کو عورت جوان ملنی چاہیے۔ عورت میں جوانی کو وہ اتنا ہی ضروری خیال کرتا تھا۔ جتنا اپنے ٹینس کھیلنے والے ریکٹ میں بنے ہوئے جال کے اندر تناؤ کو۔ دوستوں کو کہا کرتا تھا۔

’’زندگی کے ساز کا ہر تار ہر وقت تنا ہونا چاہیے۔ تاکہ ذرا سی جنبش پر بھی وہ لرزنا شروع کر دے۔ ‘‘

یہ لرزش، یہ کپکپاہٹ جس سے ستیش کو اس قدر پیار تھا۔ دراصل اُس کے گندے خون کے کھولاؤ کا نتیجہ تھی۔ جنسی خواہشات اُس کے اندر اس قدر زیادہ ہو گئی تھیں کہ جوان حیوانوں کو دیکھ کر بھی اُسے لذت محسوس ہوتی تھی۔ وہ جب اپنی گھوڑی کے جوان بچے کے کپکپاتے ہوئے بدن کو دیکھتا تھا تو اسے ناقابلِ بیان مسّرت حاصل ہوتی تھی۔ اُس کو دیکھ کر کئی بار اُس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ وہ اپنا بدن اس کے تروتازہ بدن کے ساتھ گھسے۔ ستیش چائے پی رہا تھا اور دل ہی دل میں چائے دانی کی تعریف کر رہا تھا۔ جو بے داغ سفید چینی کی بنی ہوئی تھی۔ ستیش کو داغ پسند نہیں تھے۔ وہ ہر شے میں ہمواری پسند کرتا تھا۔ صاف بدن عورتوں کو دیکھ کر وہ اکثر کہا کرتا تھا۔

’’میری نگاہیں اس عورت پر کئی گھنٹے تیرتی رہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ کس قدر ہموار تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ شفاف پانی کی چھوٹی سی جھیل ہے۔ یہ کمرہ جس میں اس وقت ستیش بیٹھا ہوا تھا خاص طور پر اس کے لیے بنوایا گیا تھا۔ کمرے کے سامنے ٹینس کورٹ تھا۔ یہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہر روز شام کو ٹینس کھیلتا تھا۔ آج اُس نے اپنے دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ ٹینس کھیلنے نہیں آئے گا۔ کیونکہ اُسے آج ایک دلچسپ کھیل کھیلنا تھا۔ بھنگی کی نوجوان لڑکی جس کے متعلق اُس نے ایک روز اپنے دوست سے یہ کہا تھا۔

’’تم اسے دیکھو۔۔۔۔۔ سچ کہتا ہوں تمہاری نگاہیں اس کے چہرے پر سے پھسل پھسل جائیں گی۔ میری نگاہیں اُس کو دیکھنے سے پہلے، اس کے کھردرے بالوں کو تھا لیتی ہیں تاکہ پھسل نہ جائیں‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔ آج ایک مدت کے بعد ٹینس کورٹ میں اُس سے خفیہ ملاقات کرنے کے لیے آ رہی تھی۔ وہ چائے پی رہا تھا اور اس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چائے میں اُس جوان لڑکی کے سانولے رنگ کا عکس پڑ رہا تھا۔ اُس کے آنے کا وقت ہو گیا تھا۔ باہر سوکھے پتے کھڑکے تو ستیش نے پیالی میں سے چائے کا آخری گھونٹ پیا۔ اور اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔! ایک لمبا سا سایہ ٹینس کورٹ کے جھاڑو دئیے ہُوئے سینے پر متحرک ہُوا۔ اور لڑکی کی بجائے نتھو نمودار ہوا۔ ستیش نے غور سے اس کی طرف دیکھا کہ آنے والا بھٹے کا ایک مزدور ہے نتھو اپنے بالوں کا ایک گچھا انگلیوں سے مروڑ رہا تھا اور ٹینس کورٹ کی طرف بڑھا رہا تھا۔ ستیش کی کُرسی برآمدے میں بچھی تھی۔ پاس پہنچ کر نتھو کھڑا ہو گیا اور ستیش کی طرف یوں دیکھنے لگا۔ گویا چھوٹے لالہ جی کو اُس کی آمد کی غرض و غایت اچھی طرح معلوم ہے۔ ستیش نے پوچھا

’’کیا ہے؟‘‘

نتھو خاموشی سے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔

’’چھوٹے لالہ جی! میں اُسے لے کر آیا ہوں۔ اب آپ اُسے اپنے پاس رکھ لیجیے، گاؤں والے اُسے بہت تنگ کر رہے ہیں۔ ‘‘

ستیش حیران ہو گیا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ نتھو کیا کہہ رہا ہے۔ اُس نے پوچھا۔

’’کسے؟ ۔۔۔۔۔۔ کسے تنگ کر رہے ہیں۔ ‘‘

نتھو نے جواب دیا۔

’’آپ۔۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُوپا کو۔۔۔۔۔۔ آپ کی پتنی کو۔ ‘‘

’’میری پتنی؟‘‘

ستیش چکرا گیا۔

’’میری پتنی۔۔۔۔۔۔۔ تیرا دماغ تو نہیں بہک گیا۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بک رہا ہے‘‘

۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہی اُس کے اندر۔۔۔۔۔۔ بہت اندر رُوپا کا خیال پیدا ہوا۔ اور اُسے یاد آیا۔ کہ پچھلے ساون میں وہ ایک موٹی موٹی آنکھوں اور گدارئے ہوئے جسم والی ایک لڑکی سے کچھ دنوں کھیلا تھا۔ وہ دودھ لے کر شہر میں جایا کرتی تھی۔ ایک بار اُس نے دودھ کی بوندیں اُس کے اُبھرتے ہوئے سینے پر ٹپکتی دیکھی تھیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں یہ رُوپا وہی لڑکی تھی۔ جس کے بارے میں اُس نے ایک بار یہ خیال کیا تھا کہ وہ دودھ سے زیادہ ملائم ہے۔ اس کو حیرت بھی ہوتی تھی کہ یہ اینٹیں بنانے والے ایسی نرم و نازک لڑکیاں کیسے پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ بھنگی کی لڑکی کو بھول سکتا تھا۔ سو شیلا کو فراموش کر سکتا تھا، جو ہر روز اُس کے ساتھ ٹینس کھیلتی تھی۔ وہ ہسپتال کی نرس کو بھول سکتا تھا جس کے سفید کپڑوں کا وہ معترف تھا۔ وہ اس۔۔۔۔۔۔ لیکن رُوپا کو نہیں بھول سکتا تھا۔ اُسے اچھی طرح یاد ہے کہ دوسری یا تیسری ملاقات پر جب کہ رُوپا نے اپنا آپ اس کے حوالے کر دیا تھا۔ تو اس کی ایک بات پر اُسے بہت ہنسی آئی تھی۔ رُوپا نے اس سے کہا تھا۔

’’چھوٹے لالہ جی!کل سندری چمارن کہہ رہی تھی۔

’’جلدی جلدی بیاہ کر لے ری۔ بڑا مزا آتا ہے۔۔۔۔۔ اسے کیا پتہ کہ میں بیاہ کر بھی چکی ہوں‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر رُوپا تھی کہاں؟ ستیش کی حیوانی حِس اس کا نام سنتے ہی بیدار ہو چکی تھی۔ گو ستیش کا دماغ معاملہ کی نزاکت کو سمجھ گیا تھا۔ مگر اس کا جسم صرف اپنی دلچسپی کی طرف متوجہ تھا۔ ستیش نے پوچھا

’’کہاں ہے رُوپا؟‘‘

نتھو اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’باہر کھڑی ہے۔۔۔۔۔۔ میں ابھی اُسے لاتا ہوں۔ ‘‘

ستیش نے فوراً رُعب دار لہجے میں کہا۔

’’خبردار جو اُسے تو یہاں لایا۔۔۔۔ جا بھاگ جا یہاں سے۔ ‘‘

’’پر۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔ چھوٹے لالہ جی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کی پتنی ہو چکی ہے۔۔۔۔۔ بچے کی ماں بننے والی ہے اور بچہ آپ ہی کا تو ہو گا۔۔۔۔۔۔ آپ ہی کا تو ہو گا۔ ‘‘

نتھو نے تتلاتے ہوئے کہا۔ تو رُوپا حاملہ ہو چکی تھی۔۔۔۔۔ ستیش کو قدرت کی یہ ستم ظریفی سخت ناپسند تھی اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ عورت اور مرد کے تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حمل کا سلسلہ کیوں جوڑ دیا ہے۔ مرد جب کسی عورت کی خاص خوبی کا معترف ہوتا ہے تو اس کی سزا بچے کی شکل میں کیوں طرفین کو بھگتنا پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ رُوپا بچے کے بغیر کتنی اچھی تھی۔ اور وہ خود اس بچے کے بغیر کتنے اچھے طریقے پر، رُوپا کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکتا تھا۔ اس سلسلہ تولید کی وجہ سے کئی بار اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عورت ایک بیکار شے ہے یعنی اس کو ہاتھ لگاؤ اور یہ بچہ پیدا ہو جاتا ہے یہ بھی کوئی بات ہے۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس بچے کا کیا کرے جو پیدا ہو رہا تھا تھوڑی دیر غور کرکے اُس نے نتھو کو اپنے پاس بٹھایا اور بڑے آرام سے کہا۔

’’تم رُوپا کے کیا لگتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑو اس قصّے کو۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو، یہ بچے وچے کی بات مجھے پسند نہیں، مفت میں ہم دونوں بدنام ہو جائیں گے، تم ایسا کرو، رُوپا کو یہاں چھوڑ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ میں اُسے آج ہی کسی ایسی جگہ بھجوا دوں گا جہاں یہ بچہ ضائع کر دیا جائے۔۔۔۔۔ اور رُوپا کو میں کچھ روپے دے دوں گا۔ وہ خوش ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا انعام بھی تمہیں مل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ ٹھہرو‘‘

یہ کہہ کر ستیش نے اپنی جیب سے بٹوہ نکالا اور دس روپے کا نوٹ نتھو کے ہاتھ میں دے کر کہا۔

’’یہ رہا تمہارا انعام۔۔۔۔۔ جاؤ عیش کرو۔ ‘‘

نتھو چپکے سے اٹھا۔ دس روپے کا نوٹ اس نے اچھی طرح مٹھی میں دبا لیا اور وہاں سے چل دیا۔ ستیش نے اطمینان کا سانس لیا کہ چلو چھٹی ہوئی۔ اب وہ بھنگی کی لڑکی کی بابت سوچنے لگا کہ اگر اسے بھی۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کیا، نتھو رُوپا کے ساتھ واپس آ رہا تھا۔ رُوپا کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ اور وہ یوں چل رہی تھی جیسے اُسے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ ستیش نے سوچا۔

’’یہ بچہ پیدا کرنا بھی ایک اچھی خاصی مصیبت معلوم ہوتی ہے۔ نتھو اور رُوپا دونوں برآمدے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو گئے۔ ستیش نے رُوپا کی طرف دیکھے بغیر کہا۔

’’دیکھو رُوپا، میں نے۔۔۔۔۔۔ اس کو سب کچھ سمجھا دیا ہے۔ تم فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ سمجھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں بھئی تم نے سب کچھ بتا دیا نا؟‘‘

نتھو نے دس روپے کا نوٹ خاموشی سے ستیش کی طرف بڑھایا اور کہا۔

’’چھوٹے لالہ جی! کاغذ کے اس ٹکڑے سے آپ مجھے خریدنا چاہتے ہیں۔ میں تو ایک بہت بڑا سودا کرنے آیا تھا۔ ‘‘

ستیش نے سمجھا کہ نتھو شاید دس روپے سے زیادہ مانگتا ہے۔

’’کتنے چاہئیں تجھے۔۔۔۔۔ میرے پاس اس وقت پچاس ہیں لینا ہو تو لے جاؤ۔ ‘‘

نتھو نے رُوپا کی طرف دیکھا۔ رُوپا کی آنکھوں سے آنسو نکل کر سیمنٹ سے لپی ہُوئی سیڑھیوں پر ٹپک رہے تھے۔ اس کے دل پر یہ قطرے پگھلے ہوئے سیسے کی طرح گر رہے تھے۔ ستیش کی طرف اُس نے مڑ کر کہا۔

’’چھوٹے لالہ جی، یہ آپ کی پتنی ہے، آپ اس کے بچے کے باپ ہیں۔۔۔۔۔۔ جیسے بڑے لالہ جی آپکے پتا ہیں۔۔۔۔۔۔ رُوپا کے لیے اور کوئی جگہ نہیں ہے وہ آپکے پاس رہے گی اور آپ اُسے پتنی بنا کر رکھیں گے۔۔۔۔۔۔ سب گاؤں والے اسے دھتکار رہے ہیں، کس لیے۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ آپ کا بچہ اپنے پیٹ میں لیے پھرتی ہے۔۔۔۔۔۔ آپ کو تھامنا پڑے گا۔ اس لڑکی کا ہاتھ جس نے آپ کو اپنا سب کچھ دے دیا۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا دل پتھر کا نہیں ہے چھوٹے لالہ جی! اور اس چھوکری کا دل بھی پتھر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے اس کو سہارا نہ دیا تو اور کون دے گا، یہ آتی نہیں تھی۔ رو رو کے اپنی جان ہلکان کر رہی تھی۔ میں نے اُسے سمجھایا اور کہا، پگلی تو کیوں روتی ہے، تیرا پتی جیتا ہے چل میں تجھے اُس کے پاس لے چلوں۔ ستیش کو پتی پتنی کا مطلب ہی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

’’دیکھو بھائی! زیادہ بکواس نہ کرو، تم یوں ڈرا دھمکا کر مجھ سے زیادہ روپیہ وصول نہیں کر سکتے۔ میں ایک سو روپیہ دینے پر راضی ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ بچہ ضائع کر دیا جائے۔ اور تم جو مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں اسے اپنے گھر میں بسالوں تو یہ ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔ میں اس کا پتی خواب میں بھی نہیں بنا اور نہ یہ میری کبھی پتنی بنی ہے۔۔۔۔۔۔۔ سمجھے؟ سو روپیہ لینا ہو تو کل آکے یہاں سے لے جانا، اب یہاں سے نو دو گیارہ ہو جاؤ۔ ‘‘

نتھو بھنّا گیا۔

’’اور۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ یہ بچہ کیا آسمان سے گرا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھوت پرتیوں نے بھر دئیے ہیں۔۔۔۔۔۔ میرا دل۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل کون مسل رہا ہے۔۔۔۔۔ یہ روپے۔۔۔۔۔۔۔ یہ سو روپے کیا آپ خیرات کے طور پر دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہوا ہے تو یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ کوئی بات ہے تو یہ ہلچل مچ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس بچے کے باپ ہیں تو کیا اس کے پتی نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ میری عقل کو کچھ ہو گیا ہے یا آپ کی سمجھ کو۔۔۔۔۔۔۔‘‘

ستیش یہ تقریر برداشت نہ کر سکا۔

’’اُلّو کے پٹھے! تو جاتا ہے کہ نہیں یہاں سے کھڑا اپنی منطق چھانٹ رہا ہے، جا جو کرنا ہے کرلے۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھوں تو میرا کیا بگاڑ لے گا۔ ‘‘

نتھو نے ہولے سے کہا۔

’’میں تو سنوارنے آیا تھا چھوٹے لالہ جی۔۔۔۔۔۔۔ آپ ناحق کیوں بگڑ رہے ہیں، آپ کیوں نہیں اس کا ہاتھ تھام لیتے یہ آپ کی پتنی ہے۔ ‘‘

’’پتنی کے بچے اب تو اپنی بکواس بند کرے گا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بچہ بچہ کیا بک رہا ہے۔۔۔۔۔ جا لے جا اپنی اس کچھ لگتی کو، ورنہ یاد رکھ، کھال ادھیڑ دوں گا۔ ‘‘

نتھو کے سب پٹھے اکڑ گئے، بھگوان کی قسم، مجھ میں اتنی شکتی ہے کہ یوں ہاتھوں میں دبا کر تیرا سارا لہو نچوڑ دوں۔۔۔۔۔۔۔ میری کھال تیرے ان نازک ہاتھوں سے نہیں ادھڑے گی۔۔۔۔۔ میں تیری بوٹی بوٹی نوچ سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ پر میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں تجھے ہاتھ تک نہیں لگانا چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو رُوپا کے بچے کا باپ ہے، تو رُوپا کا پتی ہے۔ اگر میں تجھ پر ہاتھ اٹھایا تو مجھے ڈر ہے کہ رُوپا کے دل کو دھکا لگے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو عورتوں سے ملتا جلتا ہے پر تو عورت کا دل نہیں رکھتا۔ ‘‘

ستیش آپے سے باہر ہو گیا۔ اور چیخنے لگا۔

’’تیری اور تیری روپا کی ایسی تیسی۔۔۔۔۔۔۔ نکل یہاں سے باہر۔ ‘‘

نتھو بڑھ کر رُوپا کے آگے کھڑا ہو گیا۔ اور ستیش کے پاس۔۔۔۔۔۔۔ بالکل پاس جا کر کہنے لگا۔

’’چھوٹے لالہ جی مجھے معاف کر دیجیے گا۔ میں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں جو مجھے نہیں کہنا چاہیے تھیں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیجیے مگر رُوپا کا ہاتھ تھام لیجیے۔۔۔۔۔۔ آپ اس کے پتی ہیں، اس کے بھاگ میں آپ کے بنا اور کوئی مرد نہیں لکھا گیا۔ یہ آپ کی ہے۔۔۔۔۔ اب آپ اسے اپنا بنا لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھئے میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ ‘‘

’’کیسے واہیات آدمی سے واسطہ پڑا ہے۔

’’ستیش نے کمرے کے اندر جاتے ہوئے کہا۔ کہتا ہوں میں رُوپا ووپا کو نہیں جانتا۔ مگر یہ خواہ مخواہ اسے میرے پلے باندھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جاؤ جاؤ ہوش کی دوا کرو۔ ‘‘

کمرے کا صرف ایک دروازہ کھُلا تھا۔ جس میں سے ستیش اندر داخل ہوا تھا۔ اندر داخل ہو کر اُس نے یہ دروازہ بند کر دیا۔ نتھو نے دروازے کی لکڑی کی طرف دیکھا تو اسے ستیش کے چہرے اور اس میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔ نتھو نے اپنے سر کے بال مروڑنے شروع کر دئیے اور جب پلٹ کر اُس نے رُوپا سے کچھ کہنا چاہا تو وہ جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔ اور وہ اس کا پیچھا کرنے کے لیے بھاگا۔ مگر وہ جا چکی تھی۔ باہر نکل کر اُس نے رُوپا کو بہت دُور درختوں کے جھنڈ میں غائب ہوتے دیکھا۔ وہ اس کے پیچھے یہ کہتا ہوا بھاگا۔

’’رُوپا۔۔۔۔۔ رُوپا، ٹھہر جا۔۔۔۔۔۔ میں ایک بار پھر اُسے سمجھاؤں گا۔۔۔۔۔ وہی تیرا پتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کا گھر ہی تیری اصل جگہ ہے۔ وہ بہت دیر تک بھاگتا رہا۔ مگر رُوپا بہت دور نکل گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اُس روز سے آج تک نتھو، رُوپا کی تلاش میں سرگردان ہے مگر وہ اُسے نہیں ملتی۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے۔

’’میں رُوپا کے پتی کو جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ تم اسے ڈھونڈ کر لاؤ، میں اُسے اس کے پتی سے ملا دوں گا۔ ‘‘

لوگ یہ سُن کر ہنس دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے جب بھی نتھو کو دیکھتے ہیں تو اس سے پوچھتے ہیں۔ اُس کا پتی کون ہے نتھو بھیّا۔ ‘‘

تو نتھو ان کو مارنے کے لیے دوڑتا ہے۔

سعادت حسن منٹو

ابجی ڈُ ڈُو

’’مجھے مت ستائیے۔ خدا کی قسم، میں آپ سے کہتی ہوں، مجھے مت ستائیے‘‘

’’تم بہت ظلم کررہی ہو آج کل!‘‘

’’جی ہاں بہت ظلم کررہی ہوں‘‘

’’یہ تو کوئی جواب نہیں‘‘

’’میری طرف سے صاف جواب ہے اور یہ میں آپ سے کئی دفعہ کہہ چکی ہوں‘‘

’’آج میں کچھ نہیں سنوں گا‘‘

’’مجھے مت ستائیے۔ خدا کی قسم، میں آپ سے سچ کہتی ہوں، مجھے مت ستائیے میں چلانا شروع کردوں گی۔ ‘‘

’’آہستہ بولو۔ بچیاں جاگ پڑیں گی‘‘

’’آپ تو بچیوں کے ڈھیر لگانا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’تم ہمیشہ مجھے یہی طعنہ دیتی ہو۔ ‘‘

’’آپ کو کچھ خیال تو ہونا چاہیے۔ میں تنگ آچکی ہوں۔ ‘‘

’’درست ہے۔ لیکن۔ ‘‘

’’لیکن ویکن کچھ نہیں!‘‘

’’تمہیں میرا کچھ خیال نہیں۔ اصل میں اب تم مجھ سے محبت نہیں کرتیں۔ آج سے آٹھ برس پہلے جو بات تھی وہ اب نہیں رہی۔ تمہیں اب میری ذات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ‘‘

’’جی ہاں‘‘

’’وہ کیا دن تھے جب ہماری شادی ہوئی تھی۔ تمہیں میری ہربات کا کتنا خیال رہتا تھا۔ ہم باہم کس قدر شیر و شکر تھے۔ مگر اب تم کبھی سونے کا بہانہ کردیتی ہو۔ کبھی تھکاوٹ کا عذر پیش کردیتی اور کبھی دونوں کان بند کرلیتی ہو۔ کچھ سنتی ہی نہیں۔ ‘‘

’’میں کچھ سننے کے لیے تیار نہیں!‘‘

’’تم ظلم کی آخری حد تک پہنچ گئی۔ ‘‘

’’مجھے سونے دیجیے۔ ‘‘

’’سو جائیے۔ مگر میں ساری رات کروٹیں بدلتا رہوں گا۔ آپ کی بلا سے!‘‘

’’آہستہ بولیے۔ ساتھ ہمسائے بھی ہیں‘‘

’’ہوا کریں‘‘

’’آپ کو تو کچھ خیال ہی نہیں۔ سنیں گے تو کیا کہیں گے۔ ‘‘

’’کہیں گے کہ اس غریب آدمی کو کیسی کڑی بیوی ملی ہے۔ ‘‘

’’اوہ ہو‘‘

’’آہستہ بولو۔ دیکھو بچی جاگ پڑی!‘‘

’’اللہ اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ اللہ اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ سو جاؤ بیٹے سو جاؤ۔ اللہ، اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ خدا کی قسم آپ بہت تنگ کرتے ہیں، دن بھر کی تھکی ماندی کو سونے تو دیجیے!‘‘

’’اللہ، اللہ۔ اللہ جی، اللہ۔ اللہ اللہ۔ اللہ جی اللہ۔ تمہیں اچھی طرح سلانا بھی نہیں آتا۔ ‘‘

’’آپ کو تو آتا ہے نا۔ سارا دن آپ گھرمیں رہ کر یہی تو کرتے رہتے ہیں‘‘

’’بھئی میں سارا دن گھر میں کیسے رہ سکتا ہوں۔ جب فرصت ملتی ہے آجاتا ہوں اور تمہارا ہاتھ بٹا دیتا ہوں۔ ‘‘

’’میرا ہاتھ بٹانے کی آپ کو کوئی ضرورت نہیں۔ آپ مہربانی کرکے گھر سے باہر اپنے دوستوں ہی کے ساتھ گلچھڑے اڑایا کریں۔ ‘‘

’’گل چھڑے؟‘‘

’’میں زیادہ باتیں نہیں کرنا چاہتی‘‘

’’اچھا دیکھو، میری ایک بات کا جواب دو۔ ‘‘

’’خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کیجیے۔ ‘‘

’’کمال ہے میں کہاں جاؤں‘‘

’’جہاں آپ کے سینگ سمائیں چلے جائیے‘‘

’’لو اب ہمارے سینگ بھی ہو گئے‘‘

’’آپ چپ نہیں کریں گے‘‘

’’نہیں۔ میں آج بولتا ہی رہوں گا۔ خود سوؤں گا نہ تمہیں سونے دونگا‘‘

’’سچ کہتی ہوں، میں پاگل ہو جاؤں گی۔ لوگو یہ کیسا آدمی ہے۔ کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ بس ہر وقت۔ ہر وقت۔ ہر وقت۔ ‘‘

’’تم ضرور تمام بچیوں کو جگا کر رہو گی۔ ‘‘

’’نہ پیدا کی ہوتیں اتنی!‘‘

’’پیدا کرنے والا میں تو نہیں ہوں۔ یہ تو اللہ کی دین ہے۔ اللہ، اللہ۔ اللہ جی، اللہ، اللہ۔ اللہ جی، اللہ۔ ‘‘

’’بچی کو اب میں نے جگایا تھا؟‘‘

’’مجھے افسوس ہے!‘‘

’’افسوس ہے، کہہ دیا۔ چلو چھٹی ہوئی۔ گلا پھاڑ پھاڑ کرچلائے چلے جا رہے ہیں۔ ہمسائیگی کا کچھ خیال ہی نہیں لوگ کیا کہیں گے اسکی پروا ہی نہیں۔ خدا کی قسم میں عنقریب ہی دیوانی ہو جاؤں گی!‘‘

’’دیوانے ہوں تمہارے دشمن‘‘

’’میری جان کے دشمن تو آپ ہیں‘‘

’’تو خدا مجھے دیوانہ کرے‘‘

’’وہ تو آپ ہیں!‘‘

’’میں دیوانہ ہوں، مگر تمہارا‘‘

’’اب جونچلے نہ بگھاریئے‘‘

’’تم تو نہ یوں مانتی ہو نہ ووں‘‘

’’میں سونا چاہتی ہوں‘‘

’’سو جاؤ، میں پڑا بکواس کرتا رہوں گا‘‘

’’یہ بکواس کیا اشد ضروری ہے‘‘

’’ہے تو سہی۔ ذرا ادھر دیکھو۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں، مجھے تنگ نہ کیجیے۔ میں رو دوں گی‘‘

’’تمہارے دل میں اتنی نفرت کیوں پیدا ہو گئی۔ میری ساری زندگی تمہارے لیے ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہو تو بتا دو۔ ‘‘

’’آپ کی تین خطائیں یہ سامنے پلنگ پر پڑی ہیں‘‘

’’یہ تمہارے کوسنے کبھی ختم نہیں ہوں گے‘‘

’’آپ کی ہٹ کب ختم ہو گی؟‘‘

’’لو بابا میں تم سے کچھ نہیں کہتا۔ سو جاؤ۔ میں نیچے چلا جاتا ہوں۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’جہنم میں‘‘

’’یہ کیا پاگل پن ہے۔ نیچے اتنے مچھر ہیں، پنکھا بھی نہیں۔ سچ کہتی ہوں، آپ بالکل پاگل ہیں۔ میں نہیں جانے دونگی آپ کو‘‘

’’میں یہاں کیا کروں گا۔ مچھر ہیں پنکھا نہیں ہے، ٹھیک ہے۔ میں نے زندگی کے بُرے دن بھی گزارے بھی ہیں۔ تن آسان نہیں ہوں۔ سو جاؤں گا صوفے پر‘‘

’’سارا وقت جاگتے رہیں گے‘‘

’’تمہاری بلا سے‘

’’میں نہیں جانے دوں گی آپ کو۔ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں‘‘

’’میں مر نہیں جاؤں گا۔ مجھے جانے دو‘‘

’’کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں!۔ خبردار جو آپ گئے!‘‘

’’مجھے یہاں نیند نہیں آئے گی‘‘

’’نہ آئے‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ میں کوئی لڑجھگڑ کر تو نہیں جارہا‘‘

’’لڑائی جھگڑا کیا ابھی باقی ہے۔ خدا کی قسم آپ کبھی کبھی بالکل بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ اب یہ خبط سر میں سمایا ہے کہ میں نیچے گرمی اور مچھروں میں جا کر سوؤں گا۔ کوئی اور ہوتی تو پاگل ہو جاتی۔ ‘‘

’’تمہیں میرا بڑا خیال ہے‘‘

’’اچھا بابا نہیں ہے۔ آپ چاہتے کیا ہیں؟‘‘

’’اب سیدھے راستے پر آئی ہو‘‘

’’چلیے ہٹیے۔ میں کوئی راستہ واستہ نہیں جانتی۔ منہ دھوکے رکھیے اپنا‘‘

’’منہ صبح دھویا جاتا ہے۔ لو، اب من جاؤ‘‘

’’توبہ!‘‘

’’ساڑھی پر وہ بورڈر لگ کر آگیا؟‘‘

’’نہیں!‘‘

’’عجب الو کا پٹھا ہے درزی۔ کہہ رہا تھا آج ضرور پہنچا دے گا۔ ‘‘

’’لے کر آیا تھا، مگر میں نے واپس کردی۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ایک دو جگہ جھول تھے۔ ‘‘

’’اوہ۔ اچھا، میں نے کہا، کل

’’برسات‘‘

دیکھنے چلیں گے۔ میں نے پاس کا بندوبست کرلیا ہے۔ ‘‘

’’کتنے آدمیوں کا؟‘‘

’’دو کا۔ کیوں؟‘‘

’’باجی بھی جانا چاہتی تھیں۔ ‘‘

’’ہٹاؤ باجی کو پہلے ہم دیکھیں گے پھر اس کو دکھا دیں گے۔ پہلے ہفتے میں پاس بڑی مشکل سے ملتے ہیں۔ چاندنی رات میں تمہارا بدن کتنا چمک رہا ہے‘‘

’’مجھے تو اس چاندنی سے نفرت ہے۔ کم بخت آنکھوں میں گھستی ہے۔ سونے نہیں دیتی‘‘

’’تمہیں تو بس ہر وقت سونے ہی کی پڑی رہتی ہے‘‘

’’آپ کو بچیوں کی دیکھ بھال کرنا پڑے تو پھر پتا چلے۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ ایک کے کپڑے بدلو، تو دوسری کے میلے ہو جاتے ہیں۔ ایک کو سلاؤ، دوسری جاگ پڑتی ہے، تیسری نعمت خانے کی غارتگری میں مصروف ہوتی ہے۔ ‘‘

’’دو نوکر گھر میں موجود ہیں‘‘

’’نوکر کچھ نہیں کرتے‘‘

’’لے آؤں، نیچے سے؟‘‘

’’جلدی جائیے رونا شروع کردیگی‘‘

’’جاتا ہوں!‘‘

’’میں نے کہا، سنئے۔ آگ جلا کر ذرا کنکنا کرکیجیے گا دودھ‘‘

’’اچھا، اچھا۔ سن لیا ہے!‘‘

13جون1950ء

سعادت حسن منٹو

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمانہ۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے ٗ اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہے ٗ اُدھر یار لوگ اس کا توڑ سوچ لیتے ہیں ٗ اس کے علاوہ اپنے بچاؤ کی کئی صورتیں پیدا کر لیتے ہیں۔ کسی اخبار پر آفت آنی ہو تو آیا کرے، اس کا مالک محفوظ و مامون رہے گا ٗ اس لیے کہ پرنٹ لائن میں کسی قصائی یا دھوبی کا نام بحیثیت پرنٹر پبلشر اور ایڈیٹر کے درج ہو گا۔ اگر اخبار میں کوئی ایسی تحریر چھپ گئی جس پر گورنمنٹ کو اعتراض ہو تو اصل مالک کے بجائے وہ دھوبی یا قصائی گرفت میں آ جائے گا۔ اس کو جرمانہ ہو گا یا قید۔ جرمانہ تو ظاہر ہے اخبار کا مالک ادا کر دے گا، مگر قید تو وہ ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن ان دو پارٹیوں کے درمیان اس قسم کا معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر قید ہوئی تو وہ اس کے گھر اتنے روپے ماہوار پہنچا دیا کرئے گا۔ ایسے معاہدے میں خلاف ورزی بہت کم ہوتی ہے۔ جو لوگ ناجائز طور پر شراب بیچتے ہیں، ان کے پاس دو تین آدمی ایسے ضرور موجود ہوتے ہیں جن کا صرف یہ کام ہے کہ اگر پولیس چھاپہ مارے تو وہ گرفتار ہو جائیں اور چند ماہ کی قید کاٹ کر واپس آ جائیں اس کا معاوضہ ان کو معقول مل جاتا ہے۔ چھاپہ مارنے والے بھی پہلے ہی سے مطلع کر دیتے ہیں کہ ہم آرہے ہیں ٗ تم اپنا انتظام کر لو۔ چنانچہ فوراً انتظام کر لیا جاتا ہے ٗ یعنی مالک غائب غلہ ہو جاتا ہے اور وہ کرائے کے آدمی گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی ملازمت ہے لیکن دنیا میں جتنی ملازمتیں ہیں کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ میں جب امین پہلوان سے ملا تو وہ تین مہینے کی قید کاٹ کر واپس آیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا :

’’امین ! اس دفعہ کیسے جیل میں گئے؟‘‘

امین مسکرایا:

’’اپنے کاروبار کے سلسلے میں‘‘

’’کیا کاروبار تھا؟‘‘

’’جو رہا، وہ ہے‘‘

’’بھئی بتاؤ تو۔ ‘‘

’’بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں مگر خواہ مخواہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ ‘‘

میں نے تھوڑے سے توقف کے بعد اس سے کہا۔ ‘‘

امین ! تمہیں آئے دن جیل میں جانا کیا پسند ہے؟‘‘

امین پہلوان مسکرایا:

’’جناب۔ پسند اور نا پسند کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لوگ مجھے پہلوان کہتے ہیں ٗ حالانکہ میں نے آج تک اکھاڑے کی شکل نہیں دیکھی۔ اَن پڑھ ہوں۔ کوئی اور ہنر بھی مجھے نہیں آتا۔ بس ٗ جیل جانا آتا ہے۔ وہاں میں خوش رہتا ہوں۔ مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ آپ ہر روز دفتر جاتے ہیں۔ کیا وہ جیل نہیں۔ ‘‘

میں لاجواب ہو گیا:

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ امین لیکن دفتر جانے والوں کا معاملہ دوسرا ہے۔ لوگ انہیں بُری نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔ ‘‘

’’کیوں نہیں دیکھتے ! ضلع کچہری کے جتنے مُنشی اور کلرک ہیں‘ انہیں کون اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ رشوتیں لیتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں اور پرلے درجے کے مکار ہوتے ہیں۔ مجھ میں ایسا کوئی عیب نہیں۔ میں اپنی روزی بڑی ایمانداری سے کماتا ہوں۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کس طرح؟‘‘

اس نے جواب دیا :

’’اس طرح کہ اگر کسی کا کام کرتا ہوں اور قید کاٹتا ہوں جیل میں محنت مشقت کرتا ہوں اور بعد میں اس شخص سے جس کی خاطر میں نے سزا بھگتی تھی ٗ مجھے دو تین سو روپیہ ملتا ہے تو یہ میرا معاوضہ ہے ٗ اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں رشوت تو نہیں لیتا۔ حلال کی کمائی کھاتا ہوں۔ لوگ مجھے غنڈا سمجھتے ہیں۔ بڑا خطرناک غنڈا۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے آج تک کسی کے تھپڑ بھی نہیں مارا۔ میری لائن بالکل الگ ہے۔ ‘‘

اس کی لائن واقعی دوسروں سے الگ تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ تین چار مرتبہ قید کاٹنے کے باوجود اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ وہ بڑا سنجیدہ مگر گنوار قسم کا آدمی تھا جس کو کسی کی پروا نہیں تھی۔ قید کاٹنے کے بعد جب بھی آتا تو اس کا وزن کم از کم دس پاؤنڈ زیادہ ہوتا۔ ایک دن میں نے اس سے پُوچھا۔

’’امین کیا وہاں کا کھانا تمہیں راس آتا ہے؟‘‘

اس نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا :

’’کھانا کیسا بھی ہو ٗ اس کو راس کرنا آدمی کا اپنا کام ہے۔ مجھے دال سے نفرت تھی ٗ لیکن جب پہلی مرتبہ مجھے وہاں کنکروں بھری دال دی گئی اور ریت ملی روٹی تو میں نے کہا۔ امین یار۔ یہ سب سے اچھا کھانا ہے، کھا ٗ ڈنڑ پیل اور خدا کا شکر بجا لا۔ چنانچہ میں ایک دو روز ہی میں عادی ہو گیا۔ مشقت کرتا ٗ کھانا کھاتا اور یوں محسوس کرتا جیسے میں نے گنجے کے ہوٹل سے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے۔ ‘‘

میں نے ایک دن اس سے پوچھا :

’’تم نے کبھی کسی عورت سے بھی محبت کی ہے؟‘‘

اس نے اپنے دونوں کان پکڑے۔

’’خدا بچائے اس محبت سے‘ مجھے صرف اپنی ماں سے محبت ہے۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا:

’’تمہاری ماں زندہ ہے؟‘‘

’’جی ہاں۔ خدا کے فضل و کرم سے۔ بہت بوڑھی ہے لیکن آپ کی دعا سے اس کا سایہ میرے سر پر دیر تک قائم رہے گا اور وہ تو ہر وقت میرے لیے دعائیں مانگتی رہتی ہے کہ خدا مجھے نیکی کی ہدایت کرے۔ ‘‘

میں نے اُس سے کہا :

’’خدا تمہاری ماں کو سلامت رکھے ! پر میں نے یہ پوچھا تھا کہ تمہیں کسی عورت سے محبت ہوئی یا نہیں دیکھو ٗ جھوٹ نہیں بولنا !‘‘

امین پہلوان نے بڑے تیز لہجے میں کہا :

’’میں نے اپنی زندگی میں آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ میں نے کسی عورت سے محبت نہیں کی۔ ‘‘

میں نے پوچھا :

’’کیوں‘‘

اس نے جواب دیا :

’’اس لیے کہ مجھے اس سے دلچسپی ہی نہیں۔ ‘‘

میں خاموش ہو رہا۔ تیسرے روز اس کی ماں پر فالج گرا اور وہ راہئ ملکِ عدم ہوئی۔ امین پہلوان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ وہ سوگوار ٗ مغموم اور دل شکستہ بیٹھا تھا کہ شہر کے ایک رئیس کی طرف سے اسے بلاوا آیا۔ وہ اپنی عزیز ماں کی میّت چھوڑ کر اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا : کیوں میاں صاحب ٗ آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے؟‘‘

میاں صاحب نے کہا :

’’تمہیں کیوں بلایا جاتا ہے۔ ایک خاص کام ہے‘‘

امین نے جس کے دل و دماغ میں اپنی ماں کا کفن دفن تیر رہا تھا‘ پوچھا:

’’حضور یہ خاص کام کیا ہے؟‘‘

میاں صاحب نے سگریٹ سلگایا :

’’بلیک مارکیٹ کا قصہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج میرے گودام پر چھاپہ مارا جائے گا سو میں نے سوچا کہ امین پہلوان بہترین آدمی ہے جو اسے نمٹا سکتا ہے۔ ‘‘

امین نے بڑے مغموم اور زخمی انداز میں کہا:

’’آپ فرمائیے ٗ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘

’’بھئی ٗ خدمت و دمت کی بات تم مت کرو۔ بس صرف اتنی سی بات ہے کہ جب چھاپہ پڑے تو گودام کے مالک تم ہو گے۔ گرفتار ہو جاؤ گے۔ زیادہ سے زیادہ جرمانہ پانچ ہزار روپے ہو گا اور ایک دو برس کی قید !‘‘

’’مجھے کیا ملے گا؟‘‘

’’جب وہاں سے رہا ہو کر آؤ گے تو معاملہ طے کر لیا جائے گا۔ ‘‘

امین نے میاں صاحب سے کہا :

’’حضور ٗ بہت دور کی بات ہے جرمانہ تو آپ ادا کر دیں گے، لیکن قید تو مجھے کاٹنی پڑے گی۔ آپ باقاعدہ سودا کریں۔ ‘‘

میاں صاحب مسکرائے :

’’تم سے آج تک میں نے کبھی وعدہ خلافی کی ہے۔ پچھلی دفعہ میں نے تم سے کام لیا اور تم کو تین مہینے کی قید ہوئی ٗ تو کیا میں نے جیل خانے میں ہر قسم کی سہولت بہم نہ پہنچائی۔ تم نے باہر آکر مجھ سے کہا کہ تمہیں وہاں کوئی تکلیف نہیں تھی۔ اگر تم کچھ عرصے کیلیے جیل چلے گئے تو وہاں تمہیں ہر آسائش ہو گی۔ ‘‘

امین نے کہا :

’’جی۔ یہ سب درست ہے۔ لیکن۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟ امین کی آنکھوں میں آنسو آگئے :

’’میاں صاحب ! میری ماں مر گئی ہے۔ ‘‘

’’کب؟‘‘

’’آج صبح۔ ‘‘

میاں صاحب نے افسوس کا اظہار کیا :

’’کفنا دفنا دیا ہو گا۔ ‘‘

امین کی آنکھوں میں سے آنسو ٹپ ٹپ گِرنے لگے

’’میاں صاحب ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ میرے پاس تو افیم کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ ‘‘

میاں صاحب نے چند لمحات حالات پر غور کیا اور امین سے کہا :

’’تو ایسا کرو۔ میرا مطلب ہے کہ تجہیز و تکفین کا بندوبست میں ابھی کیے دیتا ہوں۔ تمہیں کسی قسم کا تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ تم گودام پر جاؤ اور اپنی ڈیوٹی سنبھالو۔ ‘‘

امین نے اپنی میلی قمیص کی آستین سے آنسو پونچھے۔

’’لیکن میاں صاحب میں۔ میں اپنی ماں کے جنازے کو کندھا بھی نہ دوں!‘‘

میاں صاحب نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

’’یہ سب رسمی چیزیں ہیں، مرحومہ کو دفنانا ہے۔ سو یہ کام بڑی اچھی طرح سے ہو جائے گا تمہیں جنازے کے ساتھ جانے کی کیا ضرورت ہے۔ تمہارے ساتھ جانے سے مرحومہ کو کیا راحت پہنچے گی۔ وہ تو بے چاری اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ اس کے جنازے کے ساتھ کوئی بھی جائے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل میں تم لوگ جاہل ہو۔ میں اگر مر جاؤں تو مجھے کیا معلوم ہے کہ میرے جنازے میں کس کس عزیز اور دوست نے شرکت کی تھی۔ مجھے اگر جلا بھی دیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میری لاش کو چیلوں اور گِدھوں کے حوالے کر دیا جائے تو مجھے اس کی کیا خبر ہو گی۔ تم زیادہ جذباتی نہ ہو ٗ دنیا میں سب سے ضروری چیز یہ ہے۔ کہ اپنی ذات کے متعلق سوچا جائے۔ میں پوچھتا ہوں، تمہاری کمائی کے ذرائع کیا ہیں۔ ‘‘

امین سوچنے لگا۔ چند لمحات اپنی بساط کے مطابق غور کرنے کے بعد اس نے جواب دیا

’’حضور ! میری کمائی کے ذرائع آپ کو معلوم ہیں، مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں۔ ‘‘

’’میں نے اس لیے پوچھا تھا کہ تمہیں میرا کام کرنے میں کیا حیل و حجت ہے۔ میں تمہاری ماں کی تجہیز و تکفین کا ابھی بندو بست کیے دیتا ہوں ٗ اور جب تم جیل سے واپس آؤ گے تو۔ ‘‘

امین پہلوان نے بڑے بینڈے انداز میں پوچھا۔

’’تو آپ میرا بھی بندو بست کر دیں گے۔ ‘‘

میاں صاحب بوکھلا گئے :

’’تم کیسی باتیں کرتے ہو امین پہلوان!‘‘

امین پہلوان نے ذرا درشت لہجے میں کہا :

’’امین پہلوان کی ایسی کی تیسی۔ آپ یہ بتائیے کہ مجھے کتنے روپے ملیں گے۔ میں ایک ہزار سے کم نہیں لوں گا۔ ‘‘

’’ایک ہزار تو بہت زیادہ ہیں۔ ‘‘

امین نے کہا :

’’زیادہ ہے یا کم۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ میں جب قید کاٹ کر آؤں گا تو اپنی ماں کی قبر پختہ بناؤں گا ٗ سنگِ مر مر کی۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ ‘‘

میاں صاحب نے اس سے کہا

’’اچھا بھئی ٗ ایک ہزار ہی لے لینا۔ ‘‘

امین نے میاں صاحب سے کہا :

’’تو لائیے اتنے روپے دیجئے کہ میں کفن دفن کا انتظام کر لوں۔ اس کے بعد میں آپ کی خدمت کیلیے حاضر ہو جاؤں گا۔ ‘‘

میاں صاحب نے اپنی جیب سے بٹوا نکالا۔

’’لیکن تمہارا کیا بھروسا ہے !‘‘

امین کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کو کسی نے ماں بہن کی گالی دی ہے۔

’’میاں صاحب! آپ مجھے بے ایمان سمجھتے ہیں۔ بے ایمان آپ ہیں۔ اس لیے کہ اپنے فعلوں کا بوجھ میرے سر پر ڈال رہے ہیں۔ ‘‘

میاں صاحب موقع شناس تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ امین بگڑ گیا ہے ٗ چنانچہ انہوں نے فوراً اپنی چرب زبانی سے رام کرنے کی کوشش کی لیکن امین پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ غسّال اسکی ماں کو آخری غسل دے چکے ہیں۔ کفن بھی پہنایا جا چکا ہے۔ امین بہت متحیر ہوا کہ اس پر یہ مہربانی کس نے کی ہے۔ میاں صاحب نے۔ لیکن وہ تو سودا کرنا چاہتے تھے۔ اُس نے ایک آدمی سے جو تابوت کو سجانے کیلیے پھول گوندھ رہا تھا ٗ پوچھا

’’یہ کس آدمی نے اتنا اہتمام کیا ہے؟‘‘

پھول والے نے جواب دیا :

’’حضور! آپ کی بیوی نے۔ ‘‘

امین چکرا گیا۔ وہ اپنے شدید تعجب کا مظاہرہ کرتا مگر خاموش رہا۔ پھول والے سے صرف اتنا پوچھا۔

’’کہاں ہیں وہ۔ ‘‘

پھول والے نے جواب دیا :

’’جی اندر ہیں۔ آپ کا انتظار کررہی تھیں۔ ‘‘

امین اندر گیا۔ تو دیکھا کہ ایک نوجوان ٗ خوبصورت لڑکی اس کی چارپائی پر بیٹھی ہے۔ امین نے اس سے پوچھا۔

’’آپ کون ہیں۔ یہاں کیوں آئی ہیں‘‘

اُس لڑکی نے جواب دیا۔

’’میں آپ کی بیوی ہوں‘ یہاں کیوں آئی ہوں ٗ یہ آپ کا عجیب و غریب سوال ہے۔ ‘‘

امین نے اس سے پوچھا :

’’میری بیوی تو کوئی بھی نہیں۔ بتاؤ تم کون ہو۔ ‘‘

لڑکی مسکرائی :

’’میں۔ میاں۔ دین کی بیٹی ہوں۔ ان سے جو آپ کی گفتگو ہوئی ٗ میں نے سب سُنی۔ اور۔ اور۔ ‘‘

امین نے کہا :

’’اب اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

آنکھیں

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں۔ یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کارکی ہیڈ لائیٹس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنکھیں تھیں۔ ہرگز نہیں۔ میں خوبصورتی اور بدصورتی میں تمیز کرسکتا ہوں۔ لیکن معاف کیجیے گا، ان آنکھوں کے معاملے میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ خوبصورت نہیں تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں بے پناہ کشش تھی۔ میری اور ان آنکھوں کی ملاقات ایک ہسپتال میں ہوئی۔ میں اس ہسپتال کا نام آپ کو بتانا نہیں چاہتا، اس لیے کہ اس سے میرے اس افسانے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ بس آپ یہی سمجھ لیجیے کہ ایک ہسپتال تھا، جس میں میرا ایک عزیز آپریشن کرانے کے بعد اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔ یوں تو میں تیمار داری کا قائل نہیں، مریضوں کے پاس جا کر ان کو دم دلاسہ دینا بھی مجھے نہیں آتا۔ لیکن اپنی بیوی کے پیہم اصرار پر مجھے جانا پڑتا کہ میں اپنے مرنے والے عزیز کو اپنے خلوص اور محبت کا ثبوت دے سکوں۔ یقین مانیے کہ مجھے سخت کوفت ہورہی تھی۔ ہسپتال کے نام ہی سے مجھے نفرت ہے، معلوم نہیں کیوں۔ شاید اس لیے کہ ایک بار بمبئی میں اپنی بوڑھی ہمسائی کو جس کی کلائی میں موچ آگئی تھی، مجھے جے جے ہسپتال میں لے جانا پڑا تھا۔ وہاں کیوژوالٹی ڈیپارٹمنٹ میں مجھے کم از کم ڈھائی گھنٹے انتظار کرنا پڑا تھا۔ وہاں میں جس آدمی سے بھی ملا، لوہے کے مانند سرد اور بے حس تھا۔ میں ان آنکھوں کا ذکر کررہا تھا جو مجھے بے حد پسند تھیں۔ پسند کا معاملہ انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت ممکن ہے اگر آپ یہ آنکھیں دیکھتے تو آپ کے دل و دماغ میں کوئی رد عمل پیدا نہ ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سے اگر ان کے بارے میں کوئی رائے طلب کی جاتی تو آپ کہہ دیتے۔

’’نہایت واہیات آنکھیں ہیں۔ ‘‘

لیکن جب میں نے اس لڑکی کو دیکھا تو سب سے پہلے مجھے اس کی آنکھوں نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ برقع پہنے ہوئے تھی، مگر نقاب اٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دوا کی بوتل تھی اور وہ جنرل وارڈ کے برآمدے میں ایک چھوٹے سے لڑکے کے ساتھ چلی آرہی تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں جو بڑی تھیں، نہ چھوٹی، سیاہ تھیں نہ بھوری، نیلی تھیں نہ سبز، ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوئی۔ میرے قدم رک گئے۔ وہ بھی ٹھہر گئی۔ اس نے اپنے ساتھی لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور بوکھلائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’تم سے چلا نہیں جاتا!‘‘

لڑکے نے اپنی کلائی چھڑائی اور تیزی سے کہا۔

’’چل تو رہا ہوں۔ تُو تو اندھی ہے!‘‘

میں نے یہ سنا تو اس لڑکی کی آنکھوں کی طرف دوبارہ دیکھا۔ اس کے سارے وجود میں صرف اس کی آنکھیں ہی تھیں جو پسند آئی تھیں۔ میں آگے بڑھا اور اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے مجھے پلکیں نہ جھپکنے والی آنکھوں سے دیکھا اور پوچھا۔

’’ایکسرے کہاں لیا جاتا ہے؟‘‘

اتفاق کی بات ہے کہ ان دنوں ایکسرے ڈیپارٹمنٹ میں میرا ایک دوست کام کررہا تھا، اور میں اسی سے ملنے کے لیے آیا تھا۔ میں نے اس لڑکی سے کہا۔

’’آؤ، میں تمہیں وہاں لے چلتا ہوں، میں بھی ادھر ہی جارہا ہوں۔ ‘‘

لڑکی نے اپنے ساتھی لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور میرے ساتھ چل پڑی۔ میں نے ڈاکٹر صادق کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایکسرے لینے میں مصروف ہیں۔ دروازہ بند تھا اور باہر مریضوں کی بھیڑ لگی تھی۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے تیز و تند آواز آئی۔

’’کون ہے۔ دروازہ موت ٹھوکو!‘‘

لیکن میں نے پھر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور ڈاکٹر صادق مجھے گالی دیتے دیتے رہ گی۔

’’اوہ تم ہو!‘‘

’’ہاں بھئی۔ میں تم سے ملنے آیا تھا۔ دفتر میں گیا تو معلوم ہوا کہ تم یہاں ہو۔ ‘‘

’’آجاؤ اندر‘‘

میں نے لڑکی کی طرف دیکھا اور اس سے کہا

’’آؤ۔ لیکن لڑکے کو باہر ہی رہنے دو!‘‘

ڈاکٹر صادق نے ہولے سے مجھ سے پوچھا۔

’’کون ہے یہ؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’معلوم نہیں کون ہے۔ ایکسرے ڈیپارٹمنٹ کا پوچھ رہی تھی۔ میں نے کہا چلو، میں لیے چلتا ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر صادق نے دروازہ اور زیادہ کھول دیا۔ میں اور وہ لڑکی اندر داخل ہو گئے۔ چار پانچ مریض تھے۔ ڈاکٹر صادق نے جلدی جلدی ان کی سکریننگ کی اور انھیں رخصت کیا۔ اس کے بعد کمرے میں ہم صرف دو رہ گئے۔ میں اور وہ لڑکی۔ ڈاکٹر صادق نے مجھ سے پوچھا۔

’’انھیں کیا بیماری ہے؟‘‘

میں نے اس لڑکی سے پوچھا۔

’’کیا بیماری ہے تمہیں۔ ایکسرے کے لیے تم سے کس ڈاکٹر نے کہا تھا؟‘‘

اندھیرے کمرے میں لڑکی نے میری طرف دیکھا اور جواب دیا۔

’’مجھے معلوم نہیں کیا بیماری ہے۔ ہمارے محلے میں ایک ڈاکٹر ہے، اس نے کہا تھا کہ ایکسرے لو۔ ‘‘

ڈاکٹر صادق نے اس سے کہا کہ مشین کی طرف آئے۔ وہ آگے بڑھی تو بڑے زور کے ساتھ اس سے ٹکرا گئی۔ ڈاکٹر نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔

’’کیا تمہیں سجھائی نہیں دیتا۔ ‘‘

لڑکی خاموش رہی۔ ڈاکٹر نے اس کا برقع اتارا اور اسکرین کے پیچھے کھڑا کردیا۔ پھر اس نے سوئچ اون کیا۔ میں نے شیشے میں دیکھا تو مجھے اس کی پسلیاں نظر آئیں۔ اس دل بھی ایک کونے میں کالے سے دھبے کی صورت میں دھڑک رہا تھا۔ ڈاکٹر صادق پانچ چھ منٹ تک اس کی پسلیوں اور ہڈیوں کو دیکھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے سوئچ اوف کردیا اور روشنی کرکے مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’چھاتی بالکل صاف ہے۔ ‘‘

لڑکی نے معلوم نہیں کیا سمجھا کہ اپنی چھاتیوں پر جو کافی بڑی بڑی تھیں، دوپٹے کو درست کیا اور برقع ڈھونڈنے لگی۔ برقع ایک کونے میں میز پر پڑا تھا۔ میں نے بڑھ کر اسے اٹھایا اور اسکے حوالے کردیا۔ ڈاکٹر صادق نے رپورٹ لکھی اور اس سے پوچھا۔

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

لڑکی نے برقع اوڑھتے ہوئے جواب دیا۔

’’جی میرا نام۔ میرا نام حنیفہ ہے۔ ‘‘

’’حنیفہ!‘‘

ڈاکٹر صادق نے اس کا نام پرچی پر لکھا اور اس کو دے دی۔

’’جاؤ، یہ اپنے ڈاکٹر کو دکھا دینا۔ ‘‘

لڑکی نے پرچی لی اور قمیض کے اندر اپنی انگیا میں اڑس لی۔ جب وہ باہر نکل تو میں غیر ارادی طور پر اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ لیکن مجھے اس کا پوری طرح احساس تھا کہ ڈاکٹر صادق نے مجھے شک کی نظروں سے دیکھا تھا۔ اسے جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اس بات کا یقین تھا کہ اس لڑکی سے میرا تعلق ہے، حالانکہ جیسا آپ جانتے ہیں، ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ مجھے اس کی آنکھیں پسند آگئی تھیں۔ میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ اس نے اپنے ساتھی لڑکی کی انگلی پکڑی ہوئی تھی۔ جب وہ تانگوں کے اڈے پر پہنچے تو میں نے حنیفہ سے پوچھا۔

’’تمہیں کہاں جانا ہے؟‘‘

اس نے ایک گلی کا نام لیا تو میں نے اس سے جھوٹ موٹ کہا۔

’’مجھے بھی ادھر ہی جانا ہے۔ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑدوں گا۔ ‘‘

میں نے جب اس کا ہاتھ پکڑ کر تانگے میں بٹھایا تو مجھے محسوس ہوا کہ میری آنکھیں ایکس ریز کا شیشہ بن گئی ہیں۔ مجھے اس کا گوشت پوست دکھائی نہیں دیتا تھا۔ صرف ڈھانچہ نظر آتا تھا۔ لیکن اس کی آنکھیں۔ وہ بالکل ثابت و سالم تھیں، جن میں بے پناہ کشش تھی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھوں لیکن یہ سوچ کر کوئی دیکھ لے گا، میں نے اس کے ساتھی لڑکے کو اس کے ساتھ بٹھا دیا اور آپ اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔

’’میں۔ میں سعادت حسن منٹو ہوں۔ ‘‘

’’من ٹو۔ یہ من ٹو کیا ہوا؟‘‘

’’کشمیریوں کی ایک ذات ہے۔ ‘‘

’’ہم بھی کشمیری ہیں۔ ‘‘

’’اچھا!‘‘

’’ہم کنگ وائیں ہیں۔ ‘‘

میں نے مڑ کر اس سے کہا۔

’’یہ تو بہت اونچی ذات ہے۔ ‘‘

وہ مسکرائی اور اس کی آنکھیں اور زیادہ پرکشش ہو گئیں۔ میں نے اپنی زندگی میں بے شمار خوبصورت آنکھیں دیکھی تھیں۔ لیکن وہ آنکھیں جو حنیفہ کے چہرے پر تھیں، بے حد پرکشش تھیں۔ معلوم نہیں ان میں کیا چیز تھی جو کشش کا باعث تھی۔ میں اس سے پیشتر عرض کرچکا ہوں کہ وہ قطعاً خوبصورت نہیں تھیں، لیکن اس کے باوجود میرے دل میں کھب رہی تھیں۔ میں نے جسارت سے کام لیا اور اس کے بالوں کی ایک لٹ کو جو اس کے ماتھے پر لٹک کر اس کی ایک آنکھ کو ڈھانپ رہی تھی، انگلی سے اٹھایا اور اسکے سر پر چسپاں کردی۔ اس نے برا نہ مانا۔ میں نے اور جسارت کی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس پر بھی اس نے کوئی مزاحمت نہ کی اور اپنے ساتھی لڑکے سے مخاطب ہو۔

’’تم میرا ہاتھ کیوں دبا رہے ہو؟‘‘

میں نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور لڑکے سے پوچھا۔

’’تمہارا مکان کہاں ہے؟‘‘

لڑکے نے ہاتھ کا اشارہ کیا۔

’’اس بازار میں!‘‘

تانگے نے ادھر کا رخ کیا، بازار میں بہت بھیڑ تھی، ٹریفک بھی معمول سے زیادہ۔ تانگہ رک رک کر چل رہا تھا۔ سڑک میں چونکہ گڑھے تھے، اس لیے زور کے دھچکے لگ رہے تھے، بار بار اس کا سر میرے کندھوں سے ٹکراتا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ اسے اپنے زانو پر رکھ لوں اور اس کی آنکھیں دیکھتا رہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا گھر آگیا۔ لڑکے نے تانگے والے سے رکنے کے لیے کہا۔ جب تانگہ رکا تو وہ نیچے اترا۔ حنیفہ بیٹھی رہی۔ میں نے اس سے کہا۔

’’تمہارا گھر آگیا ہے!‘‘

حنیفہ نے مڑ کر میری طرف عجیب و غریب آنکھوں سے دیکھا۔

’’بدرو کہاں ہے؟‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کون بدرو؟‘‘

’’وہ لڑکا جو میرے ساتھ تھا۔ ‘‘

میں نے لڑکے کی طرف دیکھا جو تانگے کے پاس ہی تھا۔

’’یہ کھڑا تو ہے!‘‘

’’اچھا۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے بدرو سے کہا۔

’’بدرو! مجھے اتار تو دو۔ ‘‘

بدرو نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بڑی مشکل سے نیچے اتارا۔ میں سخت متحیر تھا۔ پچھلی نشست پر جاتے ہوئے میں نے اس لڑکے سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے

’’یہ خود نہیں اتر سکتیں؟‘‘

بدرو نے جواب دیا۔

’’جی نہیں۔ ان کی آنکھیں خراب ہیں۔ دکھائی نہیں دیتا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

آمنہ

دُور تک دھان کے سنہرے کھیت پھیلے ہوئے تھے‘ جُمے کا نوجوان لڑکا بُندو کٹے ہوئے دھان کے پُولے اُٹھا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ گا بھی رہا تھا۔ دھان کے پُولے دھر دھر کاندھے بھر بھر لائے کھیت سنہرا‘ دھن دولت رے بندو کا باپ جُما گاؤں میں بہت مقبول تھا۔ ہر شخص کو معلوم تھا کہ اس کو اپنی بیوی سے بہت پیار ہے‘ ان دونوں کا عشق گاؤں کے ہر شخص کو معلوم تھا‘ ان کے دو بچے تھے‘ ایک بندو‘ جس کی عمر تیرہ برس کے قریب تھی ‘ دوسرا چندو۔ سب خوش و خرم تھے مگر ایک روز اچانک جُمّے کی بیوی بیمار پڑ گئی‘ حالت بہت نازک ہو گئی‘ بہت علاج کیے‘ ٹونے ٹوٹکے آزمائے مگر اس کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ جب مرض مہلک شکل اختیار کر گیا تو اس نے اپنے شوہر سے نحیف لہجے میں کہا

’’تم مجھے کبوتری کہا کرتے تھے اور خود کو کبوتر۔ ہم دونوں نے دو بچے پیدا کیے۔ اب یہ تمہاری کبوتری مر رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد تم کوئی اور کبوتری اپنے گھر لے آؤ‘‘

تھوڑی دیر کے بعد اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی‘ جمّے کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اس کی بیوی بولے چلی جا رہی تھی۔

’’تم اور کبوتری لے آؤ گے۔ وہ سوچے گی کہ جب تک میرے بچے زندہ ہیں تم اس سے محبت نہیں کرو گے۔ چنانچہ وہ ان کو ذبح کر کے کھا جائے گی‘‘

جمّے نے اپنی بیوی سے بڑے پیار کے ساتھ کہا

’’سکینہ! میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ زندگی بھر دوسری شادی نہیں کروں گا‘ مگر تمہارے دشمن مریں تم بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گی‘‘

سکینہ کے ہونٹوں پر مُردہ سی مسکراہٹ نمودار ہوئی‘ اس کے فوراً بعد اس کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ جُمّا بہت رویا۔ جب اُس نے اپنے ہاتھوں سے اس کو دفن کیا تو اس کو ایسا محسوس ہوا کہ اُس نے اپنی زندگی منوں مٹی کے نیچے گاڑ دی ہے۔ اب وہ ہر وقت مغموم رہتا‘ کام کاج میں اسے کوئی دلچسپی نہ رہی‘ ایک دن اس کے ایک وفادار مزارعہ نے اُس سے کہا۔

’’سرکار! بہت دنوں سے میں آپ کی یہ حالت دیکھ رہا ہوں اور جی ہی جی میں کڑھتا رہا ہوں۔ آج مجھ سے نہیں رہا گیا تو آپ سے یہ عرض کرنے آیا ہوں کہ آپ اپنے بچوں کا بہت خیال رکھتے ہیں‘ اپنی زمینوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ آپ کو اس کا علم بھی نہیں‘ کتنا نقصان ہو رہا ہے‘‘

جمّے نے بڑی بے توجہی سے کہا :

’’ہونے دو۔ مجھے کسی چیز کا ہوش نہیں‘‘

’’سرکار۔ آپ ہوش میں آئیے۔ چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں‘ ایسا نہ ہو وہ آپ کی غفلت سے فائدہ اُٹھا کر آپ کی زمینوں پر قبضہ کر لیں‘ آپ سے مقدمہ بازی کیا ہو گی۔ میری تو یہی مخلصانہ رائے ہے کہ آپ دوسری شادی کر لیں۔ اس سے آپ کے غم کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور وہ آپ کے لڑکوں سے پیار محبت بھی کرے گی۔ جمّے کو بہت غصہ آیا

’’بکواس نہ کرو رمضانی ‘ تم سمجھتے نہیں کہ سوتیلی ماں کیا ہوتی ہے‘ اس کے علاوہ تم یہ بھی تو سوچو ‘ میری بیوی کی روح کو کتنا بڑا صدمہ پہنچے گا‘‘

بہت دنوں کے اصرار کے بعد آخر رمضانی اپنے آقا کو دوسری شادی پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جب شادی ہو گئی تو اس نے اپنے لڑکوں کو ایک علیحدہ مکان میں بھیج دیا۔ ہر روز وہاں کئی کئی گھنٹے رہتا اور بندو اور چندو کی دلجوئی کرتا رہتا۔ نئی بیوی کو یہ بات بہت ناگوار گزری ‘ ایک بات اور بھی تھی کہ مکھن دودھ کا بیشتر حصہ ا س کے سوتیلے بیٹوں کے پاس چلا جاتا تھا۔ اس سے وہ بہت جلتی ‘ اس کا تو یہ مطلب تھا کہ گھر بار کے مالک وہی ہیں۔ ایک دن جمّا جب کھیتوں سے واپس آیا تو اس کی نئی بیوی زاروقطار رونے لگی‘ جمّے نے اس آہ و زاری کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا

’’تم مجھے اپنا نہیں سمجھتے۔ اسی لیے بچوں کو دوسرے مکان میں بھیج دیا۔ میں ان کی ماں ہوں‘ کوئی دشمن تو نہیں ہوں مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب میں سوچتی ہوں کہ بیچارے اکیلے رہتے ہیں‘‘

جُمّا ان باتوں سے بہت متاثر ہوا اور دوسرے ہی دن بُندو اور چندو کو لے آیا اور ان کو سوتیلی ماں کے حوالے کر دیا جس نے ان کو اتنے پیار محبت سے رکھا کہ آس پاس کے تمام لوگ اس کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔ نئی بیوی نے جب اپنے خاوند کے دل کو پوری طرح موہ لیا تو ایک دن ایک مزارعہ کو بلا کر اکیلے میں اس سے بڑے رازدارانہ لہجے میں کہا

’’میں تم سے ایک کام لینا چاہتی ہوں۔ بولو کرو گے‘‘

اس مزارعہ نے جس کا نام شبراتی تھا‘ ہاتھ جوڑ کر کہا :

’’سرکار! آپ مائی باپ ہیں۔ جان تک حاضر ہے‘‘

نئی بیوی نے کہا

’’دیکھو ‘ کل دریا کے پاس بہت بڑا میلہ لگ رہا ہے۔ میں اپنے سوتیلے بچوں کو تمہارے ساتھ بھیجوں گی‘ ان کو کشتی کی سیر کرانا اور کسی نہ کسی طرح جب کوئی اور دیکھتا نہ ہو انھیں گہرے پانی میں ڈبو دینا‘‘

شبراتی کی ذہنیت غلامانہ تھی‘ اس کے علاوہ اس کو بہت بڑے انعام کا لالچ دیا گیا تھا۔ وہ دوسرے روز بندو اور چندو کو اپنے ساتھ لے گیا۔ انھیں کشتی میں بٹھایا ‘’اس کو خود کھینا شروع کیا‘ دریا میں دور تک چلا گیا‘ جہاں کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ اس نے چاہا کہ انھیں دھکا دے کر ڈبو دے مگر ایک دم اس کا ضمیر جاگ اُٹھا‘ اس نے سوچا ان بچوں کا کیا قصور ہے۔ سوائے اس کے کہ ان کی اپنی ماں مر چکی ہے اور اب یہ سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ میں انھیں کسی شخص کے حوالے کر دوں اور سوتیلی ماں سے جا کر کہہ دوں کہ دونوں ڈُوب چکے ہیں۔ دریا کے دوسرے کنارے اُتر کر اُس نے بندو اور چندو کو ایک تاجر کے حوالے کر دیا۔ جس نے ان کو ملازم رکھ لیا۔ بڑا لڑکا بندو کھیل کود کا عادی‘ محنت مشقت سے بہت گھبراتا تھا۔ تاجر کے ہاں سے بھاگ نکلا اور پیدل چل کر دوسرے شہر میں پہنچا مگر وہاں اسے ایک دولت مند آدمی کے ہاں جس کا نام قلندر بیگ تھا‘ پناہ لینا پڑی۔ قلندر بیگ نیک دل آدمی تھا‘ اس نے چاہا کہ بندو کو اپنے ہاں نوکر رکھ لے‘ چنانچہ اُس نے اُس سے پوچھا :

’’برخوردار! کیا تنخواہ لو گے‘‘

بندو نے جواب دیا :

’’جناب میں تنخواہ نہیں لوں گا‘‘

قلندر بیگ کو کسی قدر حیرت ہوئی‘ لڑکا شکل و صورت کا اچھا تھا‘ اس میں گنوار پن بھی نہیں تھا‘ اُس نے پُوچھا

’’تم کس خاندان کے ہو۔ کس شہر کے باشندے ہو؟‘‘

بندو نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہا ‘ پھر رونے لگا۔ قلندر بیگ نے اس سے مزید استفسار کرنا مناسب نہ سمجھا ‘ جب بندو کو اس کے یہاں رہتے ہوئے کافی عرصہ گزر گیا تو قلندر بیگ اس کی خوش اطواری سے بہت متاثر ہوا۔ ایک دن اُس نے اپنی بیوی سے کہا بندو مجھے بہت پسند ہے۔ میں تو سوچتا ہوں اس سے اپنی ایک لڑکی بیاہ دُوں۔ ‘‘

بیوی کو اپنے خاوند کی یہ بات بُری لگی لیکن آخر اس نے کہا :

’’آپ سے اس کے خاندان کے متعلق تو دریافت کیجیے‘‘

قلندر بیگ نے کہا

’’میں نے ایک مرتبہ اس سے اس کے خاندان کے متعلق پوچھا تو وہ زاروقطار رونے لگا۔

’’پھر میں نے اس موضوع پر اس سے کبھی گفتگو نہیں کی‘‘

بندو کئی برس قلندر بیگ کے ہاں رہا‘ جب بیس برس کا ہو گیا تو قلندر بیگ نے اپنا سارا کاروبار اس کے سپرد کر دیا۔ کافی عرصہ گزر گیا‘ ایک دن بندو نے بڑے ادب سے اپنے آقا سے درخواست کی

’’دریا کے اُس پار دُور جو ایک گاؤں ہے وہاں میں چھوٹا مکان بنوانا چاہتا ہوں۔ کیا مجھے آپ اتنا روپیہ مرحمت فرما سکتے ہیں کہ میری یہ خواہش پوری ہو جائے‘‘

قلندر مسکرایا

’’تم جتنا روپیہ چاہو لے سکتے ہو بیٹا۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم دریا پار اتنی دُور مکان کیوں بنوانا چاہتے ہو۔ بندو نے جواب دیا

’’یہ راز آپ پر عنقریب کھل جائے گا‘‘

بندو اور چندو کا باپ اپنے بیٹوں کے فراق میں گُھل گُھل کے مر چکا تھا‘ مزارعوں کی بڑی ابتر حالت تھی اس لیے کہ زمینوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی بھی نہ تھا۔ بندو‘ بہت سا روپیہ لے کر اپنے گاؤں پہنچا ‘ ایک پکّا مکان بنوایا اور مزارعوں کو خوشحال کر دیا۔ بندو کا بھائی چندو جس شخص کے ہاں ملازم ہوا تھا اس نے اُس کو بیٹا بنا لیا تھا‘ ایک دفعہ وہ خطرناک طور پر بیمار پڑ گیا تو اس شخص کی بیوی نے جس کا نام صمد خان تھا‘ اپنی بیٹی آمنہ سے کہا کہ وہ اس کی تیمار داری کرے۔ آمنہ بڑی نازک اندام حسین لڑکی تھی‘ دن رات اُس نے چندو کی خدمت کی‘ آخر وہ صحت مند ہو گیا‘ تیمار داری کے اس دور میں وہ کچھ اس طرح گھل مل گئے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔ مگر چندو سوچتا تھا کہ آمنہ ایک دولت مند کی لڑکی ہے اور ہ محض کنگلا۔ ان کا آپس میں کیا جوڑ ہے‘ اس کے والد بھلا کب ان کی شادی پر راضی ہوں گے لیکن آمنہ کو کسی قدر یقین تھا کہ اس کے والدین راضی ہو جائیں گے ‘ اس لیے کہ وہ چندو کو بڑی اچھی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ ایک دن چندو گائے بھینسوں کے ریوڑ کو جوہڑ پر پانی پلا رہا تھا کہ آمنہ دوڑتی ہوئی آئی اُس کی سانس پھولی ہوئی تھی‘ ننھا سا سینہ دھڑک رہا تھا اُس نے خوش خوش چندو سے کہا

’’ایک اچھی خبر لائی ہوں‘ آج میری ماں اور باپ میری شادی کی بات کر رہے تھے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ تم بڑے اچھے لڑکے ہو‘ اس لیے تمھیں میرے ساتھ بیاہ دینا چاہیے‘‘

چندو اس قدر خوش ہوا کہ اس نے آمنہ کو اُٹھا کر ناچنا شروع کر دیا۔ُان دونوں کی شادی ہو گئی‘ ایک سال کے بعد ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام جمیل رکھا گیا۔ جب بندو اپنے گاؤں میں اچھی طرح جم گیا تو اس نے بھائی کا پتہ لیا۔ جا کے اُس سے ملا‘ دونوں بہت خوش ہوئے۔ بندو نے اس سے کہا اب اﷲ کا فضل ہے چلو میرے ساتھ اور دیوانی سنبھالو‘ میں چاہتا ہوں تمہاری شادی اپنی سالی سے کرا دوں۔ بڑی پیاری لڑکی ہے‘‘

چندو نے اس کو بتایا کہ وہ پہلے ہی شادی شدہ ہے‘ سارے حالات سُن کر بندو نے اس کو سمجھایا۔ قلندر بیگ بیحد دولتمند آدمی ہے‘ اس کی لڑکی سے شادی کر لو۔ ساری عمر عیش کرو گے۔ آمنہ کے باپ کے پاس کیا پڑا ہے‘‘

چندو اپنے بھائی کی یہ باتیں سُن کر لالچ میں آ گیا‘ اور دولت مند آمنہ کو چھوڑ دیا۔ طلاق نامہ کسی کے ہاتھ بھجوا دیا اور اس سے ملے بغیر چلا گیا۔ چند روز کے بعد ہی بندو نے اپنے بھائی کی شادی قلندر بیگ کی چھوٹی لڑکی سے کرا دی‘ آمنہ حیران و پریشان تھی کہ اس کا پیارا چندو ایک دم کہاں غائب ہو گیا لیکن اُس کو یقین تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتاہے۔ ایک دن ضرور واپس آ جائے گا۔ بڑی دیر اُس نے اُس کی واپسی کا انتظار کیا اور اس کی یاد میں آنسو بہاتی رہی۔ جب وہ نہ آیا تو آمنہ کے باپ نے جمیل کو ساتھ لیا اور بندو کے گاؤں پہنچا‘ اس کی ملاقات چندو سے ہوئی۔ وہ دولت کے نشے میں سب کو بھول چکا تھا۔ آمنہ کے باپ نے اُس کی بڑی منت سماجت کی اور اس سے کہا

’’اور کچھ نہیں تو اپنے اس کمسن بیٹے کا خیال کرو‘ تمہارے بغیر اس بچے کی زندگی کیا ہے؟‘‘

چندو نے یہ کورا جواب دیا

’’میں اپنی دولت اور عزت اس بچے کے لیے چھوڑ سکتا ہوں؟۔ جاؤ اسے لے جاؤ اور میری نظروں سے دُور کر دو‘‘

جب آمنہ کے باپ نے اور زیادہ منت سماجت کی تو چندو نے اس بڈّھے کو دھکّے دے کر باہر نکلوا دیا۔ ساتھ ہی اپنے بچے کو بھی۔ بوڑھا باپ غم و اندوہ سے چور گھر پہنچا اور آمنہ کو ساری داستان سُنا دی۔ آمنہ کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ پاگل ہو گئی۔ چندو پر پے در پے اتنے مصائب آئے کہ اس کی ساری دولت اجڑ گئی‘ بھائی نے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ بیوی لڑ جھگڑ کر اپنے میکے چلی گئی‘ اب اُس کو آمنہ یاد آئی‘ وہ اُس سے ملنے کے لیے گیا‘ اس کا بیٹا جمیل‘ ہڈیوں کا ڈھانچہ‘ اُس سے گھر کے باہر ملا‘ اُس نے اُس کو پیار کیا اور آمنہ کے متعلق اس سے پوچھا۔ جمیل نے اُس سے کہا

’’آؤ تمھیں بتاتا ہوں‘ میری ماں آج کل کہاں رہتی ہے‘‘

وہ اُسے دُور لے گیا اور ایک قبر کی طرف اشارہ کر کے

’’یہاں رہتی ہے آمنہ امّاں‘‘

۱۶، مئی ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

آم

خزانے کے تمام کلرک جانتے تھے کہ منشی کریم بخش کی رسائی بڑے صاحب تک بھی ہے۔ چنانچہ وہ سب اس کی عزت کرتے تھے۔ ہر مہینے پنشن کے کاغذ بھرنے اور روپیہ لینے کے لیے جب وہ خزانے میں آتا تو اس کا کام اسی وجہ سے جلد جلد کردیا جاتا تھا۔ پچاس روپے اس کو اپنی تیس سالہ خدمات کے عوض ہر مہینے سرکار کی طرف سے ملتے تھے۔ ہر مہینے دس دس کے پانچ نوٹ وہ اپنے خفیف طور پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑتا اور اپنے پرانے وضع کے لمبے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیتا۔ چشمے میں خزانچی کی طرف تشکر بھری نظروں سے دیکھتا اور یہ کہہ کر

’’اگر زندگی ہوئی تو اگلے مہینے پھر سلام کرنے کے لیے حاضر ہوں گا‘‘

بڑے صاحب کے کمرے کی طرف چلا جاتا۔ آٹھ برس سے اس کا یہی دستور تھا۔ خزانے کے قریب قریب ہر کلرک کو معلوم تھا کہ منشی کریم بخش جو مطالبات خفیفہ کی کچہری میں کبھی محافظ دفتر ہوا کرتا تھا بے حد وضعدار، شریف الطبع اور حلیم آدمی ہے۔ منشی کریم بخش واقعی ان صفات کا مالک تھا۔ کچہری میں اپنی طویل ملازمت کے دوران میں افسران بالا نے ہمیشہ اس کی تعریف کی ہے۔ بعض منصفوں کو تو منشی کریم بخش سے محبت ہو گئی تھی۔ اس کے خلوص کا ہر شخص قائل تھا۔ اس وقت منشی کریم بخش کی عمر پینسٹھ سے کچھ اوپر تھی۔ بڑھاپے میں آدمی عموماً کم گو اور حلیم ہو جاتا ہے مگر وہ جوانی میں بھی ایسی ہی طبیعت کا مالک تھا۔ دوسروں کی خدمت کرنے کا شوق اس عمر میں بھی ویسے کا ویسا ہی قائم تھا۔ خزانے کا بڑا افسر منشی کریم بخش کے ایک مربی اور مہربان جج کا لڑکا تھا۔ جج صاحب کی وفات پر اسے بہت صدمہ ہوا تھا اب وہ ہر مہینے ان کے لڑکے کو سلام کرنے کی غرض سے ضرور ملتا تھا۔ اس سے اُسے بہت تسکین ہوتی تھی۔ منشی کریم بخش انھیں چھوٹے جج صاحب کہا کرتا تھا۔ پنشن کے پچاس روپے جیب میں ڈال کروہ برآمدہ طے کرتا اور چق لگے کمرے کے پاس جا کر اپنی آمد کی اطلاع کراتا۔ چھوٹے جج صاحب اس کو زیادہ دیر تک باہر کھڑا نہ رکھتے، فوراً اندر بلا لیتے اور سب کام چھوڑ کر اس سے باتیں شروع کردیتے۔

’’تشریف رکھیے منشی صاحب۔ فرمائیے مزاج کیسا ہے۔ ‘‘

’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ آپکی دعا سے بڑے مزے میں گزررہی ہے، میرے لائق کوئی خدمت؟‘‘

’’آپ مجھے کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو فرمائیے۔ خدمت گزاری تو بندے کا کام ہے۔ ‘‘

’’آپ کی بڑی نوازش ہے۔ ‘‘

اس قسم کی رسمی گفتگو کے بعد منشی کریم جج صاحب کی مہربانیوں کا ذکر چھیڑ دیتا۔ ان کے بلند کردار کی وضاحت بڑے فدویانہ انداز میں کرتا اور بار بار کہتا۔

’’اللہ بخشے مرحوم فرشتہ خصلت انسان تھے۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ‘‘

منشی کریم بخش کے لہجے میں خوشامد وغیرہ کی ذرّہ بھر ملاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ وہ جو کچھ کہتا تھا۔ محسوس کرکے کہتا تھا۔ اس کے متعلق جج صاحب کے لڑکے کوجو اب خزانے کے بڑے افسر تھے اچھی طرح معلوم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کو عزت کے ساتھ اپنے پاس بٹھاتے تھے اور دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ ہر مہینے دوسری باتوں کے علاوہ منشی کریم بخش کے آم کے باغوں کا ذکر بھی آتا تھا۔ موسم آنے پر جج صاحب کے لڑکے کی کوٹھی پر آموں کا ایک ٹوکرا پہنچ جاتا تھا۔ منشی کریم بخش کو خوش کرنے کے لیے وہ ہر مہینے اس کو یاد دہانی کرا دیتے تھے۔

’’منشی صاحب، دیکھے اس موسم پر آموں کا ٹوکرا بھیجنا نہ بھولیے گا۔ پچھلی بار آپ نے جو آم بھیجے تھے اس میں تو صرف دو میرے حصے میں آئے تھے۔ ‘‘

کبھی یہ تین ہوجاتے تھے، کبھی چار اور کبھی صرف ایک ہی رہ جاتا تھا۔ منشی کریم بخش یہ سُن کر بہت خوش ہوتاتھا۔

’’حضور ایسا کبھی ہو سکتا ہے۔ جونہی فصل تیار ہوئی میں فوراً ہی آپ کی خدمت میں ٹوکرا لے کر حاضر ہو جاؤں گا۔ دو کہیے دو حاضر کردوں۔ یہ باغ کس کے ہیں۔ آپ ہی کے تو ہیں۔ ‘‘

کبھی کبھی چھوٹے جج صاحب پوچھ لیا کرتے تھے۔

’’منشی جی آپ کے باغ کہاں ہیں؟‘‘

دنیا نگر میں حضور۔ زیادہ نہیں ہیں صرف دو ہیں۔ اس میں سے ایک تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو دے رکھا ہے جو ان دونوں کا انتظام وغیرہ کرتا ہے۔ مئی کی پنشن لینے کے لیے منشی کریم بخش جون کی دوسری تاریخ کو خزانے گیا دس دس کے پانچ نوٹ اپنے خفیف طور پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ کر اس نے چھوٹے جج صاحب کے کمرہ کا رخ کیا۔ حسبِ معمول ان دونوں میں وہی رسمی باتیں ہُوئیں۔ آخر میں آموں کا ذکر بھی آیا۔ جس پر منشی کریم بخش نے کہا۔

’’دنیا نگر سے چٹھی آئی ہے کہ ابھی آموں کے منہ پر چیپ نہیں آیا۔ جونہی چیپ آگیا اور فصل پک کر تیار ہو گئی میں فوراً پہلا ٹوکرا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔ چھوٹے جج صاحب! اس دفعہ ایسے تحفہ آم ہوں گے کہ آپ کی طبیعت خوش ہو جائے گی۔ ملائی اور شہد کے گھونٹ نہ ہُوئے تو میرا ذمہ۔ میں نے لکھ دیا ہے کہ چھوٹے جج صاحب کے لیے ایک ٹوکرا خاص طور پر بھروا دیا جائے اور سواری گاڑی سے بھیجا جائے تاکہ جلدی اور احتیاط سے پہنچے۔ دس پندرہ روز آپ کو اور انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘

چھوٹے جج صاحب نے شکریہ ادا کیا۔ منشی کریم بخش نے اپنی چھتری اُٹھائی اور خوش خوش گھر واپس آگیا۔ گھر میں اس کی بیوی اور بڑی لڑکی تھی۔ بیاہ کے دوسرے سال جس کا خاوند مر گیا تھا۔ منشی کریم بخش کی اور کوئی اولاد نہیں تھی مگر اس مختصر سے کنبے کے باوجود پچاس روپوں میں اس کا گزر بہت ہی مشکل سے ہوتا تھا۔ اسی تنگی کے باعث اس کی بیوی کے تمام زیور ان آٹھ برسوں میں آہستہ آہستہ بِک گئے تھے۔ منشی کریم بخش فضول خرچ نہیں تھا۔ اس کی بیوی اور وہ بڑے کفایت شعار تھے مگر اس کفایت شعاری کے باوصف تنخواہ میں سے ایک پیسہ بھی ان کے پاس نہ بچتا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ منشی کریم بخش چند آدمیوں کی خدمت کرنے میں بے حد مسرت محسوس کرتا تھا ان چند خاص الخاص آدمیوں کی خدمت گزاری میں جن سے اسے دلی عقیدت تھی۔ ان خاص آدمیوں میں سے ایک تو جج صاحب کے لڑکے تھے۔ دوسرے ایک اور افسر تھے جوریٹائر ہو کر اپنی زندگی کا بقایا حصہ ایک بہت بڑی کوٹھی میں گزار رہے تھے۔ ان سے منشی کریم بخش کی ملاقات ہر روز صبح سویرے کمپنی باغ میں ہوتی تھی۔ باغ کی سیر کے دوران میں منشی کریم بخش ان سے ہر روز پچھلے دن کی خبریں سنتا تھا۔ کبھی کبھی جب وہ بیتے ہوئے دنوں کے تار چھیڑ دیتا تو ڈپٹی سپریٹنڈنٹ صاحب اپنی بہادری کے قصّے سنانا شروع کردیتے تھے کہ کس طرح انھوں نے لائل پور کے جنگلی علاقے میں ایک خونخوار قاتل کو پستول، خنجر دکھائے بغیر گرفتار کیا اور کس طرح ان کے رعب سے ایک ڈاکو سارا مال چھوڑ کر بھاگ گیا۔ کبھی کبھی منشی کریم بخش کے آم کے باغوں کا بھی ذکر آجاتا تھا۔ منشی صاحب کہیے۔ اب کی دفعہ فضل کیسی رہے گی۔

’’پھر چلتے چلتے ڈپٹی سپریٹنڈنٹ صاحب یہ بھی کہتے۔ پچھلے سال آپ نے جو آم بھجوائے تھے بہت ہی اچھے تھے بے حد لذیذ تھے۔ ‘‘

’’انشاء اللہ خدا کے حکم سے اب کی دفعہ بھی ایسے ہی آم حاضر کروں گا۔ ایک ہی بوٹے کے ہوں گے۔ ویسے ہی لذیذ، بلکہ پہلے سے کچھ بڑھ چڑھ کر ہی ہوں گے۔ ‘‘

اس آدمی کو بھی منشی کریم بخش ہر سال موسم پر ایک ٹوکرا بھیجتا تھا۔ کوٹھی میں ٹوکرا نوکروں کے حوالے کرکے جب وہ ڈپٹی صاحب سے ملتا اور وہ اس کا شکریہ ادا کرتے تو منشی کریم بخش نہایت انکساری سے کام لیتے ہوئے کہتا

’’ڈپٹی صاحب آپ کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ اپنے باغ ہیں۔ اگر ایک ٹوکرا یہاں لے آیا تو کیا ہو گیا۔ بازار سے آپ ایک چھوڑ کئی ٹوکرے منگوا سکتے ہیں۔ یہ آم چونکہ اپنے باغ کے ہیں اور باغ میں صرف ایک بوٹا ہے جس کے سب د انے گھلاوٹ خوشبو اور مٹھاس میں ایک جیسے ہیں اس لیے یہ چند تحفے کے طور پر لے آیا۔ ‘‘

آم دینے کے بعد جب وہ کوٹھی سے باہر نکلتا تو اس کے چہرے پر تمتماہٹ ہوتی تھی ایک عجیب قسم کی روحانی تسکین اسے محسوس ہوتی تھی جو کئی دنوں تک اس کو مسرور رکھتی تھی۔ منشی کریم بخش اکہرے جسم کا آدمی تھا۔ بڑھاپے نے اس کے بدن کو ڈھیلا کردیا تھا۔ مگر یہ ڈھیلا پن بدصورت معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس کے پتلے پتلے ہاتھوں کی پھولی ہوئی رگیں سر کا خفیف سا ارتعاش اور چہرے کی گہری لکیریں اس کی متانت و سنجیدگی میں اضافہ کرتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بڑھاپے نے اس کو نکھار دیا ہے۔ کپڑے بھی وہ صاف ستھرے پہنتا تھا جس سے یہ نکھار ابھر آتا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ سفیدی مائل زرد تھا۔ پتلے پتلے ہونٹ جو دانت نکل جانے کے بعد اندر کی طرف سمٹے رہتے تھے، ہلکے سرخ تھے، خون کی اس کمی کے باعث اس کے چہرے پر ایسی صفائی پیدا ہو گئی تھی جو اچھی طرح منہ دھونے کے بعد تھوڑی دیر تک قائم رہا کرتی ہے۔ وہ کمزور ضرور تھا، پینسٹھ برس کی عمر میں کون کمزور نہیں ہو جاتا مگر اس کمزوری کے باوجود اس میں کئی کئی میل پیدل چلنے کی ہمت تھی۔ خاص طور پر جب آموں کا موسم آتا تو وہ ڈپٹی صاحب اور چھوٹے جج صاحب کو آموں کے ٹوکرے بھیجنے کے لیے اتنی دوڑ دھوپ کرتا تھا کہ بیس پچیس برس کے جوان آدمی بھی کیا کریں گے۔ بڑے اہتمام سے ٹوکرے کھولے جاتے تھے۔ ان کا گھاس پھوس الگ کیا جاتا تھا۔ داغی یا گلے سڑے دانے الگ کیے جاتے تھے۔ اور صاف ستھرے آم نئے ٹوکروں میں گن کر ڈالے جاتے تھے۔ منشی کریم بخش ایک بار پھر اطمینان کرنے کی خاطر ان کو گن لیتا تھا تاکہ بعد میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ آم نکالتے اور ٹوکروں میں ڈالتے وقت منشی کریم بخش کی بہن اور اسکی بیوی کے منہ میں پانی بھر آتا۔ مگر وہ دونوں خاموش رہتیں۔ بڑے بڑے رس بھرے خوبصورت آموں کا ڈھیر دیکھ کر جب ان میں سے کوئی یہ کہے بغیر نہ رہ سکتی۔

’’کیا ہرج ہے اگر اس ٹوکرے میں سے دو آم نکال لیے جائیں۔ ‘‘

تو منشی کریم بخش سے یہ جواب ملتا۔

’’اور آجائیں گے اتنا بیتاب ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

یہ سن کر وہ دونوں چپ ہو جاتیں اور اپنا کام کرتی رہتیں۔ جب منشی کریم بخش کے گھر میں آموں کے ٹوکرے آتے تھے تو گلی کے سارے آدمیوں کو اس کی خبر لگ جاتی تھی۔ عبداللہ نیچہ بند کا لڑکا جو کبوتر پالنے کا شوقین تھا دوسرے روز ہی آدھمکتا تھا اور منشی کریم بخش کی بیوی سے کہتا تھا۔

’’خالہ میں گھاس لینے کے لیے آیا ہوں۔ کل خالو جان آموں کے دو ٹوکرے لائے تھے ان میں سے جتنی گھاس نکلی ہو مجھے دے دیجیے۔ ہمسائی نوراں جس نے کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، اسی روز شام کو ملنے آجاتی تھی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا کرتی تھی۔ پچھلے برس جو تم نے مجھے ایک ٹوکرہ دیا تھا بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ اب کے بھی ایک ٹوکرہ دیدو تو بڑی مہربانی ہو گی۔ ‘‘

دونوں ٹوکرے اور ان کی گھاس یوں چلی جاتی۔ حسب معمول اس دفعہ بھی آموں کے دو ٹوکرے آئے گلے سڑنے دانے الگ کیے گئے جو اچھے تھے ان کو منشی کریم بخش نے اپنی نگرانی میں گنوا کر نئے ٹوکروں میں رکھوایا۔ بارہ بجے پہلے پہل یہ کام ختم ہو گیا۔ چنانچہ دونوں ٹوکرے غسل خانے میں ٹھنڈی جگہ رکھ دیے گئے تاکہ آم خراب نہ ہو جائیں۔ ادھرسے مطمئن ہو کر دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد منشی کریم بخش کمرے میں چارپائی پر لیٹ گیا۔ جون کے آخری دن تھے۔ اس قدر گرمی تھی کہ دیواریں توے کی طرح تپ رہی تھیں۔ وہ گرمیوں میں عام طور پر غسل خانے کے اندر ٹھنڈے فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹا کرتا تھا۔ یہاں موری کے رستے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی آجاتی تھی لیکن اب کے اس میں دو بڑے بڑے ٹوکرے پڑے تھے۔ اس کو گرم کمرے ہی میں جو بالکل تنور بنا ہوا تھا چھ بجے تک وقت گزارنا تھا۔ ہر سال گرمیوں کے موسم میں جب آموں کے یہ ٹوکرے آتے اسے ایک دن آگ کے بستر پر گزارنا پڑتا تھا مگر وہ اس تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا تھا۔ قریباً پانچ گھنٹے تک چھوٹا سا پنکھا بار بار پانی میں تر کرکے جھلتا رہتا۔ انتہائی کوشش کرتا کہ نیند آجائے مگر ایک پل کے لیے بھی اسے آرام نصیب نہ ہوتا۔ جون کی گرمی اور ضدی قسم کی مکھیاں کسے سونے دیتی ہیں۔ آموں کے ٹوکرے غسل خانے میں رکھوا کر جب وہ گرم کمرے میں لیٹا تو پنکھا جھلتے جھلتے ایک دم اس کا سر چکرایا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کا سانس اکھڑ رہا ہے اور وہ سارے کا سارا گہرائیوں میں اتر رہا ہے اس قسم کے دورے اسے کئی بار پڑ چکے تھے اس لیے کہ اس کا دل کمزور تھا مگر ایسا زبردست دورہ پہلے کبھی نہیں پڑا تھا۔ سانس لینے میں اس کو بڑی دقت محسوس ہونے لگی، سر بہت زور سے چکرانے لگا۔ گھبرا کر اس نے آواز دی اور اپنی بیوی کو بلایا۔ یہ آواز سن کر اس کی بیوی اور بہن دونوں دوڑی دوڑی اندر آئیں دونوں جانتی تھیں کہ اسے اس قسم کے دورے کیوں پڑتے ہیں۔ فوراً ہی اس کی بہن نے عبداللہ نیچہ بند کے لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا کہ ڈاکٹر کو بلا لائے تاکہ وہ طاقت کی سوئی لگا دے۔ لیکن چند منٹوں ہی میں منشی کریم بخش کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ بیقراری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ چارپائی پر مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ اس کی بیوی اور بہن نے یہ دیکھ کرشور برپا کردیا۔ جس کے باعث اس کے پاس کئی آدمی جمع ہو گئے۔ بہت کوشش کی گئی، اس کی حالت ٹھیک ہو جائے لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ ڈاکٹر بلانے کے لیے تین چار آدمی دوڑائے گئے تھے لیکن اس سے پہلے کہ ان میں سے کوئی واپس آئے منشی کریم بخش زندگی کے آخری سانس لینے لگا۔ بڑی مشکل سے کروٹ بدل کر اس نے عبداللہ نیچہ بند کو جو اس کے پاس ہی بیٹھا تھا اپنی طرف متوجہ کیا اور ڈُوبتی ہُوئی آواز میں کہا۔ تم سب لوگ باہر چلے جاؤ۔

’’میں اپنی بیوی سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

سب لوگ باہر چلے گئے اس کی بیوی اور لڑکی دونوں اندر داخل ہوئیں رو رو کر ان کا بُرا حال ہو رہا تھا۔ منشی کریم بخش نے اشارے سے اپنی بیوی کو پاس بُلایا اور کہا۔

’’دونوں ٹوکرے آج شام ہی ڈپٹی صاحب اور چھوٹے جج صاحب کی کوٹھی پر ضرور پہنچ جانے چاہئیں۔ پڑے پڑے خراب ہو جائیں گے۔ ‘‘

اِدھر اُدھر دیکھ کر اس نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔

’’دیکھو تمہیں میری قسم ہے میری موت کے بعد بھی کسی کو آموں کا راز معلوم نہ ہو۔ کسی سے نہ کہنا کہ یہ آم ہم بازارسے خرید کر لوگوں کو بھیجتے تھے۔ کوئی پوچھے تو یہی کہنا کہ دنیا نگر میں ہمارے باغ ہیں۔ بس۔ اور دیکھو جب میں مر جاؤں تو چھوٹے جج صاحب اور ڈپٹی صاحب کو ضرور اطلاع بھیج دینا۔ ‘‘

چند لمحات کے بعد مشنی کریم بخش مر گیا، اس کی موت سے ڈپٹی صاحب اور چھوٹے صاحب کو لوگوں نے مطلع کردیا۔ مگر دونوں چند ناگزیر مجبوریوں کے باعث جنازے میں شامل نہ ہوسکے۔

سعادت حسن منٹو

آصف نے کہا۔

’’کام چور نوکر تو قریب قریب سبھی ہوتے ہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر باقاعدہ چور ہوتے ہیں‘‘

اور اس نے اپنے ایک نئے نوکر کی داستان سنائی جو بے حد مستعد تھا۔ اس قدرمستعد کہ بعض اوقات آصف کے آواز نہ دینے پربھی بھاگا بھاگا آتا تھا اور اس سے پوچھتا۔

’’کیوں صاحب آپ نے بلایا مجھے؟‘‘

آصف نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’مجھے نوکروں میں اس قدرپھرتی، چالاکی اور مستعدی پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب راجہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ آسو تم بہت خوش قسمت ہو کہ بیٹھے بٹھائے تمہیں ایسا نوکر مل گیا تو۔ ‘‘

راجہ غلام علی نے بات کاٹ کرکہا۔

’’بخدا مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کم بخت چور ہو گا!‘‘

آصف راجہ سے مخاطب ہوا۔

’’میرا اپنا اندازہ یہ تھا کہ وہ یا تو چور ہے یا پہنچا ہوا ولی۔ اس کے بین بین وہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ میں نے راجہ صاحب سے کہا، قبلہ اگر آپ اس نوکر کو ایک ایسا دفینہ سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مجھے مل گیا ہے تومیں آپ کی دوستی کی خاطر قربانی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ آپ بڑے شوق سے یہ سوغات اپنے گھرلے جاسکتے ہیں۔ ‘‘

راجہ نے کہا۔

’’میں نے انکار نہیں کیا تھا۔ ‘‘

’’درست ہے!‘‘

آصف مسکرایا۔

’’غلطی میری تھی، اگر میں نے اس وقت وہ نعمت غیر مترقبہ آپ کو سونپ دی ہوتی تو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے مجھے چالیس روپے اور ایک عدد ریلوے پاس کا داغِ مفارقت برداشت نہ کرنا پڑتا۔ ‘‘

راجہ ہم سے مخاطب ہوا۔

’’آصف سے ذرا ساری داستان سنو۔ کافی دلچسپ ہے!‘‘

آصف نے کہا

’’معاف فرمائیے۔ مجھے یہ داستان غم سناتے کوئی فرحت حاصل نہیں ہوتی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’بات یہ ہے منٹو۔ کہ چغد پن اصل میں میں نے کیا۔ وہ بہت چالاک تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن اپنی ہوشیاری مجھے کافی اعتماد تھا۔ صبح سویرے اٹھ کر جب میں نے میز کی ٹرے دیکھی تو اس میں خلاف معمول میرا ریلوے پاس نہیں تھا۔ اس کے خانے میں دس دس کے چار نوٹ تھے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ساتھ ہی غائب تھے۔ نوکر میری توقع کے مطابق موجود تھا۔ چنانچہ میں نے اِدھر اُدھر تلاش شروع کی۔ میز کے نچلے دراز میں پاس مع روپوؤں کے فائلوں کے نیچے موجود تھا۔ میں نے اُسے وہیں رکھ دیا۔ یہ تم سمجھ سکتے ہو کیوں؟‘‘

میں نے ا ثبات میں سرہلایا۔

’’بہت اچھی طرح۔ ‘‘

راجہ مسکرانے لگا۔ آصف نے اس کی طرف دیکھا۔

’’راجہ صاحب مسکرا رہے ہیں۔ اس لیے کہ میں نے خود کو چغد ثابت کیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے۔ ‘‘

وہ مجھ سے مخاطب ہوا

’’بات یہ ہوئی منٹو کہ میں نے ایک پلان بنایا۔ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ اس نوکر نے جس کا نام مومن تھا کس نیت سے وہ روپے فائلوں کے نیچے چھپائے تھے۔ اور ناشتے سے فارغ ہوکر وہ بڑے اطمینان سے اپنا کام کرنا چاہتا تھا اور میں بھی اسے بڑے اطمینان سے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ پلان یہ تھا کہ میں حسب معمول نہانے کے لیے غسل خانے میں جاؤں اور تھوڑا سا دروازہ کھلا رکھوں اور اسے دیکھتا رہوں۔ غسل خانے سے اس کمرے پر جس میں وہ میز پڑا تھا بڑی آسانی سے نگاہ رکھی جاسکتی تھی۔ یہ پلان اس قدر واضح اور مکمل تھا کہ میں نے دل ہی دل میں اس مردِ مومن کو گرفتار کرکے بعد میں اپنی روایتی گناہ بخش طبیعت کے باعث اسے چھوڑ بھی دیا تھا۔ ‘‘

راجہ ہنسا۔ آصف بھی ہنسا۔

’’ہاں تو منٹو میں نہانے کے لیے غسل خانے میں چلا گیا۔ دروازہ پلان کے مطابق میں نے تھوڑا سا کھلا رکھا۔ مگر نہانے میں کچھ ایسا مشغول ہوا کہ سب کچھ بھول گیا۔ معلوم نہیں غسل خانے میں آدمی کام کی باتیں بھول کر کیوں ایسی دنیا میں کھو جاتا ہے جہاں اور سب کچھ ہوتا ہے مگرکوئی غسل خانہ نہیں ہوتا!‘‘

میں نے مسکرا کرکہا۔

’’فقرہ خوبصورت ہے، گو کچھ معنی نہیں رکھتا۔ ‘‘

آصف نے ذرا تیزی سے کہا۔

’’کیوں معنی نہیں رکھتا۔ اگر غسل خانے کے بجائے میں پینٹری میں گیا ہوتا یا دوسرے کمرے کو میں نے اپنا محاذ بنایا ہوتا تو یقیناً اپنے مجوزہ آپریشن میں کامیاب رہتا۔ بخدا مجھے تو اس دن سے نفرت ہو گئی ہے دنیا کے تمام غسل خانوں سے۔ ‘‘

راجہ مسکرایا۔

’’آج کل آپ غسل آفتابی فرماتے ہیں۔ ‘‘

آصف بھی مسکرایا۔

’’غسل آبی ہو، آفتابی ہو یا مہتابی۔ مجھے سب سے نفرت ہو گئی ہے۔ تو اس دن سے تیمم پر گزارہ کررہاہوں۔ باہر نکل کر کنگھی کرتے ہوئے جب مجھے اپنا پلان یاد آیا تو دوڑ کر دوسرے کمرے میں گیا۔ فائلوں کے نیچے پاس غائب تھا۔ خدا کی قسم منٹو مجھے ان چالیس روپوں کا افسوس نہیں تھا۔ صدمہ اس بات کا تھا کہ سارا پلان غسل خانے کی بدولت غارت ہو گیا۔ اور پاس ضائع ہو گیا۔ خواجہ ظہیر جو اس وقت تک خاموش تھا بولا

’’آصف صاحب نے اس روز جھنجھلاہٹ میں ٹکٹ کے بغیر سفر کیا اور دھر لیے گئے۔ واپسی پر آپ کا ارادہ تھا کہ چار پانچ دوستوں سمیت انتقام لینے کے لیے ٹکٹ کے بغیر سفر کریں مگر آپ کی روایتی دور اندیشی کام آگئی اور آپ اس خطرناک عزم سے باز رہے۔ ‘‘

راجہ نے سگرٹ سلگایا اور اپنے موٹے موٹے گدگدے گالوں پر ہاتھ پھیر کر ایک لمبی داستان سنانے کے لیے خود کو تیار کرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

’’چور نوکروں کا ذکر آیا ہے تو مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ‘‘

میں نے ان کی بات کاٹی

’’اتفاق کی بات ہے کہ یہ دلچسپ واقعہ آپ اتنی مرتبہ اس قدر غیر دلچسپ طریقے پربیان فرما چکے ہیں کہ اب اس غریب کی ساری وقوعیت ختم ہو چکی ہے۔ اور دلچسپی۔ ‘‘

راجہ کے گال تھرتھرائے

’’چلو ہٹاؤ۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے مجھ سے اجازت لی

’’اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک واقعہ سناؤں۔ ممکن ہے آپ کو اس میں دلچسپی کا کوئی پہلو مل جائے۔ ‘‘

خواجہ ظہیر عام طور پر شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہونیوالی گفتگو میں حصہ نہیں لیا کرتا تھا اور اپنا وہی تجربہ معرض بیان میں لایا کرتا تھا۔ جو اس پر کافی اثر انداز ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’آپ تکلف سے کام نہ لیں خواجہ صاحب۔ بے تکلف ارشاد فرمائیں۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے قدرے تکلف سے کہنا شروع کیا

’’دس روپے کی چوری بظاہر بالکل معمولی چوری ہے۔ گھر میں آئے دن نوکرایسی چوریوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ میں دہلی میں تھا۔ فتح پور میں میرا مکان تھا۔ میرا خیال ہے بمبئے جاتے ہوئے آپ ایک دفعہ وہاں ٹھہرے بھی تھے۔ ‘‘

میں نے جواب دیا

’’جی ہاں۔ ٹھہرا کیا تھا پورے دس روز قیام کیا تھا۔ ‘‘

’’تو آپ نے غلام قادر کو ضرور دیکھا ہو گا۔ ادھیڑ عمر کا تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں۔ ‘‘

مجھے یاد آگیا۔

’’جی ہاں۔ جی ہاں میں اب اسکی تصویر اپنی آنکھوں کے سامنے لاسکتا ہوں۔ مگر وہ تو۔ وہ تو اچھا خاصا۔ میرا مطلب ہے ایماندار آدمی معلوم ہوتا تھا۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے کہا

’’میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ آپ سارا واقعہ سن لیجیے اس لیے آپ یقیناً کوئی نہ کوئی نتیجہ برآمد کرلیں گے۔ واقعہ یوں ہے۔ میری بیوی کی عادت ہے کہ جب میں تنخواہ لاکر اس کے حوالے کرتا ہوں تو اس میں سے کچھ روپے نکال کر کسی کپڑے کی تہہ میں رکھ دیتی ہے یا کسی الماری کے کسی کونے میں چھپا دیتی ہے اور بھول جاتی ہے۔ ‘‘

راجہ نے مسکراکر کہا۔

’’آپ تو عیش کرتے ہوں گے؟‘‘

خواجہ ظہیر نے راجہ سے مختصراً

’’جی نہیں‘‘

کہا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’وہ بھولتی نہیں۔ دل میں یہ فرض کرلیتی ہے کہ بھول گئی ہے۔ اس کو پس انداز کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ آتا ہے۔ ‘‘

آصف نے میری طرف دیکھا۔

’’منٹو۔ یوں کہیں خواجہ صاحب کہ ان کی بیگم صاحبہ پس انداز کا ترجمہ کردیتی ہیں۔ ‘‘

خواجہ ظہیر مسکرایا۔

’’جی ہاں۔ کچھ ایسا ہی سمجھیے۔ تو قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اس نے دس کا ایک نوٹ بک شیلف کے نیچے رکھ دیا اور بھول گئی۔ ‘‘

’’اپنے نہ بھولنے والے انداز میں‘‘

آصف نے اپنا سگریٹ سلگایا اور ظہیر کو پیش کیا۔ ظہیر نے سگریٹ لے کرشکریہ ادا کیا اور واقعہ کی تفصیل بیان کرنے لگا۔

’’اپنے نہ بھولنے والے انداز میں وہ دس روپے کے اس نوٹ کو بھول چکی تھی۔ د وہ کس پوزیشن میں پڑا ہے، کب سے پڑا ہے یہ اس کو اچھی طرح یاد تھا۔ اس لیے جب وہ غائب ہوا تو اس نے مجھ سے اس کے بارے میں استفسار کیا۔ آصف نے ازراہِ مذاق پوچھا

’’کیا وہ ہر روز صبح اٹھ کر کونے کھدرے دیکھ لیا کرتی ہیں جہاں انھوں نے حسب توفیق کچھ نہ کچھ بھولا ہوتا ہے؟‘‘

ظہیر نے جواب دیا۔

’’ہر روز صبح اٹھ کرنہیں۔ لیکن دن میں ایک مرتبہ سرسری طور پر دیکھ لیا کرتی ہیں۔ چنانچہ جب ان کو اس نوٹ کی گمشدگی کا علم ہوا تو سب سے پہلے اُن کو مجھ پر شبہ ہوا۔ ‘‘

راجہ نے پوچھا۔

’’آپ کبھی کبھی خود کو یہ دھوکا دینے کے لیے آپ نے ایسی چوری کی ہے جس کا علم آپ کی بیگم صاحب کو۔ آپ۔ آپ خود کو یہ دھوکا۔ ‘‘

منٹو صاحب نے فقرے کو صحیح اور با مطلب کرنے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہا۔

’’منٹو۔ تم سمجھ گئے نا میرا مطلب؟‘‘

میرے بجائے خواجہ ظہیر نے جواب دیا۔

’’ایسی چوریاں کون خاوند نہیں کرتا۔ کبھی کبھی بوقت ضرورت اس جرم کا ارتکاب کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اتفاق کی بات ہے کہ اس موقعہ اس کا شبہ غلط تھا۔ مجھے ضرورت تھی اس لیے کہ ایک دوست کو سینما لے جانا تھا۔ لیکن میں نے وہ نوٹ اٹھا کر پھر اس خیال سے وہیں رکھ دیا تھا کہ دو تین روز کے بعد اس کی شدید ضرورت پڑنے والی تھی۔ میں نے چنانچہ اپنی بیوی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ مجھے اس نوٹ کی چوری کا کوئی علم نہیں۔ ‘‘

راجہ نے پوچھا

’’ان کو یقین آگیا؟‘‘

’’جی نہیں‘‘

آصف نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا

’’وہ بیوی ہی نہیں جسے خاوند کی بات پر یقین آجائے۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنی سی کوشش کی اور بالآخر اس کو یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ نوٹ میں نے نہیں چرایا تھا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ چوری اگر میں نے نہیں کی تو کس نے کی تھی۔ کیونکہ یہ تو مسلمہ امر تھا کہ نوٹ خود بخود غائب نہیں ہوا۔ چرایا گیا ہے اور دو اور دوچار بنانے سے یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ میرے دفتر جانے کے بعد کسی نے اس پر ہاتھ صاف کیا ہے کیونکہ دفتر جاتے ہوئے میں نے اسے چرانے کا خیال کیا تھا۔ اور اسے کسی دوسرے وقت پر اٹھا دیا تھا۔ ‘‘

راجہ مسکرایا۔

’’بزرگوں نے وہ ٹھیک کہا ہے۔ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے راجہ کی بات سنی مگر بزرگوں کے اس کہے کے متعلق اپنے خیال کا اظہار نہ کیا

’’گھر میں دو نوکر تھے، ایک ملازم قادر۔ دوسرا صادق۔ صادق دو دن سے چھٹی پر تھا۔ اس کی ماں بیمار تھی۔ بس ایک غلام قادر ہی تھا جس پر شک کیا جاسکتا تھا۔ مگر۔ ‘‘

اس نے براہ راست مجھ سے مخاطب ہو کرکہا۔

’’جیسا کہ آپ نے ابھی ابھی فرمایا تھا وہ اچھا خاصا ایمان دار آدمی معلوم ہوتا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ہم اپنے شک کا اظہار کیسے کریں۔ نوکروں کو ڈانٹنے ڈپٹنے، مارنے پیٹنے اور ملازمت سے برطرف کرنے کا کام میرے ذمے ہے۔ ‘‘

راجہ نے ازراہ مذاق کہا۔

’’بڑا اہم پورٹ فولیو آپ کے ذمے ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں، بہت اہم۔ لیکن بڑا نازک۔ وہ ملازم خود رکھتی ہیں لیکن برطرفی مجھ سے کراتی ہیں‘‘

یہ کہہ کر خواجہ ظہیر مسکرایا۔ راجہ صاحب کے گال بھی مسکرائے

’’جس کا کام اسی کو ساجھے۔ کوئی اور کرے تو خدا معلوم کیا باجے‘‘

آصف نے کہا

’’ڈنکا‘‘

’’ڈنکا ہی ہو گا۔ ‘‘

جلدی سے کہہ کر وہ خواجہ ظہیر سے مخاطب ہوا

’’آپ ذرا جلدی اپنی داستان ختم کیجیے۔ مجھے اپنی ڈنکا کے ساتھ ایک جگہ جانا ہے۔ ‘‘

آصف بے تحاشا ہنسا۔

’’اپنی ڈنکا کے ساتھ؟‘‘

راجہ کے گال بوکھلا گئے۔

’’آئی ایم سوری۔ اپنی بیوی کے ساتھ!‘‘

سب ہنسنے لگے۔ میں نے خواجہ ظہیر سے کہا۔

’’راجہ صاحب کو اپنی بیوی کے ساتھ جانا ہے۔ اس لیے آپ یہ داستان جلدی ختم کردیجیے تاکہ یہ راستے میں اسے سنا سکیں!‘‘

خواجہ مسکرایا۔

’’بہت بہتر۔ ‘‘

پھر تھوڑی دیر رک کر اس نے کہنا شروع کیا۔

’’معاملہ بہت ٹیڑھا تھا۔ غلام قادر کو ملازم ہوئے صرف ایک مہینہ ہوا تھا۔ اس دوران میں اس نے مجھے اور میری بیوی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیاتھا۔ بڑا اطاعت گزار قسم کا آدمی تھا۔ ان دنوں سخت گرمیوں کے باعث برف کی بہت قلت تھی۔ ملتی تھی تو آٹھ آنے سیر مگر غلام قادر دو آنے کی اتنی ساری لے آتا تھا۔ صادق کو بہت تاؤ آتا تھا۔ جب میری بیوی اس سے کہتی کہ دیکھو غلام قادر کتنا اچھا ہے۔ تم تو اول درجے کے چور ہو تو وہ بھنا جاتا اور اسے گالیاں دیتا کہ وہ یہ سب کچھ اسے نکلوانے کے لیے کرتا ہے۔ جب پہلی مرتبہ وہ دو آنے کی توقع سے بہت زیادہ برف لایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اتنی سستی تم کہاں سے لے آئے، تو اس نے جواب دیا کہ صاحب برف والا اپنی دکان بڑھا رہا تھا جتنی بچی تھی، سب کی سب اس نے مجھے دے دی۔ جواب معقول تھا۔ لیکن دوسرے روز وہ پھر دو آنے کی اتنی ہی برف لایا اور قریب قریب ہر روز لاتا رہا، کیونکہ میری بیوی نے اب سودا سلف لانے کا کام اسی کے سپرد کردیا تھا۔ اس کو میرے لڑکے سے بہت محبت تھی۔ ہر دوسرے تیسرے دن اس کو چاکلیٹ وغیرہ لے دیتا تھا۔ دو تین مرتبہ وہ میری بیوی کے لیے چنگیر بھر بھر کے موتیے کے پھول بھی لایا۔ اس پر چوری کا شک ہو سکتاتھا، لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کا اظہار کیسے کیا جائے اور اس کی تصدیق کیونکر ہو۔ میں طبعاً بہت نرم ہوں، لیکن بیوی کی خاطر مجھے اکثر نوکروں کوڈانٹ ڈپٹ کرنی پڑتی ہے۔ جب چوری کا پتہ لگانے کے لیے مجھے بار بار اکسایا گیا تو میں نے ایک دن غلام قادر سے پوچھ گچھ کا تہیہ کرلیا۔ ‘‘

خواجہ نے ڈبیا سے ایک سگریٹ نکالا۔ راجہ نے گھڑی میں وقت دیکھا اور کہا

’’اللہ بیوی سے بچائے۔ ‘‘

خواجہ نے سگریٹ سلگایا۔

’’چنانچہ میں نے اُس کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا، دیکھو غلام قادر وہ دس روپے کا نوٹ جو تم نے بک شیلف کے نیچے سے اٹھایا تھا۔ واپس کردو۔ ‘‘

راجہ نے کہا۔

’’یہ طریقہ خوب تھا۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے راجہ کی بات کی طرف دھیان نہ دیا۔

’’اس نے کسی قدر گھبرا کر جواب دیا۔ صاحب کون سا دس روپے کا نوٹ۔ مجھے بالکل معلوم نہیں۔ اس پر میں نے اس کو ڈ انٹا۔ مگر وہ پھر بھی نہ بولا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ مجھے شکست ہورہی ہے تو میں نے زور کا ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔ یہ اس کی توقع کے خلاف تھا۔ ایک دو سیکنڈ کے لیے چنانچہ وہ بالکل مبہوت ہو گیا۔ میں نے ایک اور جڑ دیا اور بڑے سنگین لہجے میں اس سے کہا۔ دیکھو غلام قادرتم نے اگر سچ نہ بولا تو میں پولیس کے حوالے کردوں گا۔ اس نے جواب دیا۔ صاحب میں نے چوری نہیں کی۔ آپ مجھے پولیس کے حوالے کردیجیے!‘‘

راجہ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

’’بڑا پکا چور تھا۔ ‘‘

خواجہ ظہیر نے نفی میں اپنا سر ہلایا۔

’’جی نہیں۔ وہ پکا چور تھا نہ کچا۔ میں نے جب دیکھا کہ میرا وار خالی گیا ہے تو بڑی پریشانی ہوئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس سے کیا کہوں۔ میں نے آغاز ہی انتہا سے کیا تھا۔ اب کیا کرتا۔ دو بڑے زناٹے کے تھپر میں نے اس کو مارے تھے۔ وہ بے گناہ بھی ہو سکتا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ چنانچہ میں نے صدق دل سے معافی مانگی۔ اور کہا دیکھو غلام قادر۔ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے لیکن بات یہ ہے کہ وہ دس روپے کا نوٹ غائب ضرور ہوا ہے۔ میں نے اٹھایا نہیں۔ تم انکار کرتے ہو۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ یا تو ہم دونوں سچے ہیں یا دونوں جھوٹے۔ بیگم صاحبہ تمہارا کہنا مان لیں گی۔ لیکن مجھ پر ان کا شک بہت مضبوط ہو جائیگا۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری نیت تھی وہ نوٹ اٹھانے کی۔ بلکہ میں نے اٹھایا بھی تھا مگر پھر وہیں رکھ دیا تھا کہ جب بہت اشد ضرورت ہو گی تو لے لوں گا۔ ‘‘

میں اسی جذباتی رو میں کچھ اور بھی کہنے والا تھا کہ غلام قادر مضبوط لہجے میں بولا۔

’’وہ نوٹ میں نے اٹھایا تھا صاحب۔ ایک لحظے کے لیے میں چکرا گیا۔ ‘‘

راجہ نے کہا۔

’’بات چکرانے ہی والی تھی!‘‘

خواجہ ظہیر نے سگریٹ فرش پر پھینک کر بوٹ کے تلے سے بجھایا۔

’’جی ہاں۔ میں نے غلام قادر کی طرف دیکھا اور حیرت سے پوچھا، تم نے۔ تم نے یہ چوری کیوں کی؟۔ غلام قادر نے جواب دیا۔ کیا کرتا صاحب۔ بیگم صاحبہ نے تنخواہ نہیں دی۔ کہتی تھیں کہ میں ہمیشہ نوکر کی ایک مہینے کی تنخواہ دبا کر رکھا کرتی ہوں تاکہ وہ بھاگ نہ جائے۔ اور۔ اور۔ اس نے رُک رُک کر کہا۔ مجھے عادت ہے۔ مالکوں کی خدمت کرنے کی۔ ان کے سوا میرا کون ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میلے جھاڑن سے ان کو پونچھتے ہوئے وہ کمرے سے چلا گیا۔ ‘‘

راجہ نے پوچھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

خواجہ ظہیر نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔

’’کچھ نہیں۔ وہ گھر ہی سے چلا گیا تھا!‘‘

13 اکتوبر1951ء

سعادت حسن منٹو

آرٹسٹ لوگ

جمیلہ کو پہلی بار محمود نے باغ جناح میں دیکھا۔ وہ اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ چہل قدمی کررہی تھی۔ سب نے کالے برقعے پہنے تھے۔ مگر نقابیں اُلٹی ہوئی تھیں۔ محمود سوچنے لگا۔ یہ کس قسم کا پردہ ہے کہ برقع اوڑھا ہوا ہے۔ مگر چہرہ ننگا ہے۔ آخری اس پردے کا مطلب کیا؟۔ محمود جمیلہ کے حسن سے بہت متاثر ہوا۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی جارہی تھی۔ محمود اُس کے پیچھے چلنے لگا۔ اُس کو اس بات کا قطعاً ہوش نہیں تھا کہ وہ ایک غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اُس نے سینکڑوں مرتبہ جمیلہ کو گھور گھور کے دیکھا۔ اس کے علاوہ ایک دو بار اُس کو اپنی آنکھوں سے اشارے بھی کیے۔ مگر جمیلہ نے اسے درخور اعتنانہ سمجھا اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ اُس کی سہیلیاں بھی کافی خوبصورت تھیں۔ مگر محمود نے اُس میں ایک ایسی کشش پائی جو لوہے کے ساتھ مقناطیس کی ہوتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ چمٹ کر رہ گیا۔ ایک جگہ اُس نے جرأت سے کام لے کر جمیلہ سے کہا۔

’’حضور اپنا نقاب تو سنبھالیے۔ ہوا میں اُڑ رہا ہے۔ ‘‘

جمیلہ نے یہ سُن کر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس پر پولیس کے دو سپاہی جو اس وقت باغ میں ڈیوٹی پر تھے، دوڑتے آئے۔ اور جمیلہ سے پوچھا۔

’’بہن کیا بات ہے ؟‘‘

جمیلہ نے محمود کی طرف دیکھا جو سہما کھڑا تھا اور کہا

’’یہ لڑکا مجھ سے چھیڑ خانی کررہا تھا۔ جب سے میں اس باغ میں داخل ہوئی ہوں، یہ میرا پیچھا کررہا ہے۔ سپاہیوں نے محمود کا سرسری جائزہ لیا اور اس کو گرفتار کر کے حوالات میں داخل کر دیا۔ لیکن اُس کی ضمانت ہو گئی۔ اب مقدمہ شروع ہوا۔ اس کی روئداد میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ یہ تفصیل طلب ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ محمود کا جرم ثابت ہو گیااور اُسے دو ماہ قید با مشقت کی سزا مل گئی۔ اُس کے والدین نادار تھے۔ اس لیے وہ سیشن کی عدالت میں اپیل نہ کرسکے۔ محمود سخت پریشان تھا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے۔ اس کو اگر ایک لڑکی پسند آ گئی تھی اور اُس نے اُس سے چند باتیں کرنا چاہیں تو یہ کیا جرم ہے، جس کی پاداش میں وہ دو ماہ قید با مشقت بھگت رہا ہے۔ جیل خانے میں وہ کئی مرتبہ بچوں کی طرح رویا۔ اس کو مصوری کا شوق تھا، لیکن اس سے وہاں چکی پسوائی جاتی تھی۔ ابھی اُسے جیل خانے میں آئے بیس روز ہی ہوئے تھے کہ اُسے بتایا گیا کہ اُس کی ملاقات آئی ہے۔ محمود نے سوچا کہ یہ ملاقاتی کون ہے؟ اُس کے والد تو اُس سے سخت ناراض تھے۔ والدہ اپاہج تھیں اور کوئی رشتے دار بھی نہیں تھے۔ سپاہی اسے دروازے کے پاس لے گیا جو آہنی سلاخوں کا بنا ہوا تھا۔ ان سلاخوں کے پیچھے اُس نے دیکھا کہ جمیلہ کھڑی ہے۔ وہ بہت حیرت زدہ ہوا۔ اُس نے سمجھا کہ شاید کسی اور کو دیکھنے آئی ہو گی۔ مگر جمیلہ نے سلاخوں کے پاس آ کر اُس سے کہا

’’میں آپ سے ملنے آئی ہوں‘‘

محمود کی حیرت میں اور بھی اضافہ ہو گیا

’’مجھ سے۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ میں معافی مانگنے آئی ہوں کہ میں نے جلد بازی کی۔ جس کی وجہ سے آپ کو یہاں آنا پڑا۔ ‘‘

محمود مسکرایا۔

’’ہائے اس زُودِ پشیماں کا پشیماں ہونا۔ ‘‘

جمیلہ نے کہا۔

’’یہ غالبؔ ہے۔ ؟‘‘

’’جی ہاں۔ غالبؔ کے سوا اور کون ہوسکتا ہے جو انسان کے جذبات کی۔ ترجمانی کرسکے۔ میں نے آپ کو معاف کر دیا۔ لیکن میں یہاں آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ یہ میرا گھر نہیں ہے سرکار کا ہے۔ اس کے لیے میں معافی کا خواستگار ہوں۔ ‘‘

جمیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’میں آپ کی خادمہ ہوں۔ ‘‘

چند منٹ ان کے درمیان اور باتیں ہوئیں، جو محبت کے عہد و پیمان تھیں۔ جمیلہ نے اُس کو صابن کی ایک ٹکیہ دی۔ مٹھائی بھی پیش کی اس کے بعد وہ ہر پندرہ دن کے بعد محمود سے ملاقات کرنے کے لیے آتی رہی۔ اس دوران میں ان دونوں کی محبت استوار ہو گئی۔ جمیلہ نے محمود کو ایک روز بتایا۔

’’مجھے موسیقی سیکھنے کا شوق ہے۔ آج کل میں خاں صاحب سلام علی خاں سے سبق لے رہی ہوں‘‘

محمود نے اُس سے کہا۔

’’مجھے مصوری کا شوق ہے۔ مجھے یہاں جیل خانے میں اور کوئی تکلیف نہیں۔ مشقت سے میں گھبراتا نہیں۔ لیکن میری طبیعت جس فن کی طرف مائل ہے اُس کی تسکین نہیں ہوتی۔ یہاں کوئی رنگ ہے نہ روغن ہے۔ کوئی کاغذ ہے نہ پنسل۔ بس چکی پیستے رہو۔ ‘‘

جمیلہ کی آنکھیں پھر آنسو بہانے لگیں۔

’’بس اب تھوڑے ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ آپ باہر آئیں۔ تو سب کچھ ہو جائے گا۔ محمود دو ماہ کی قید کاٹنے کے بعد باہر آیا تو جمیلہ دروازے پر موجود تھی۔ اس کالے برقعے میں جو اب بھوسلا ہو گیا تھا اور جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔ دونوں آرٹسٹ تھے۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ شادی کر لیں۔ چنانچہ شادی ہو گئی۔ جمیلہ کے ماں باپ کچھ اثاثہ چھوڑگئے تھے اس سے انھوں نے ایک چھوٹا سا مکان بنایا اور پُر مسرت زندگی بسر کرنے لگے۔ محمود ایک آرٹ سٹوڈیو میں جانے لگا تاکہ اپنی مصوری کا شوق پورا کرے۔ جمیلہ خاں صاحب سلام علی خاں سے پھر تعلیم حاصل کرنے لگی۔ ایک برس تک وہ دونوں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ محمود مصوری سیکھتا رہا اور جمیلہ موسیقی۔ اس کے بعد سارا اثاثہ ختم ہو گیا اور نوبت فاقوں پر آگئی۔ لیکن دونوں آرٹ شیدائی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ فاقے کرنے والے ہی صحیح طور پر اپنے آرٹ کی معراج تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی اس مفلسی کے زمانے میں بھی خوش تھے۔ ایک دن جمیلہ نے اپنے شوہر کو یہ مژدہ سنایا کہ اسے ایک امیر گھرانے میں موسیقی سکھانے کی ٹیوشن مل رہی ہے۔ محمود نے یہ سُن کر اُس سے کہا۔

’’نہیں ٹیوشن ویوشن بکواس ہے۔ ہم لوگ آرٹسٹ ہیں‘‘

اس کی بیوی نے بڑے پیار کے ساتھ کہا

’’لیکن میری جان گزارہ کیسے ہو گا؟‘‘

محمود نے اپنے پھوسڑے نکلے ہوئے کوٹ کا کالر بڑے امیرانہ انداز میں درست کرتے ہوئے جواب دیا۔

’’آرٹسٹ کو ان فضول باتوں کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔ ہم آرٹ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ آرٹ ہمارے لیے زندہ نہیں رہتا‘‘

جمیلہ یہ سن کر خوش ہوئی،

’’لیکن میری جان آپ مصوری سیکھ رہے ہیں۔ آپ کو ہر مہینے فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کا بندوبست بھی تو کچھ ہونا چاہیے۔ پھر کھانا پینا ہے۔ اس کا خرچ علیحدہ ہے۔ ‘‘

’’میں نے فی الحال موسیقی کی تعلیم لینا چھوڑ دی ہے۔ جب حالات موافق ہوں گے تو دیکھا جائے گا۔ ‘‘

دوسرے دن جمیلہ گھر آئی تو اُس کے پرس میں پندرہ روپے تھے جو اُس نے اپنے خاوند کے حوالے کر دئیے اور کہا

’’میں نے آج سے ٹیوشن شروع کر دی ہے، یہ پندرہ روپے مجھے پیشگی ملے ہیں۔ آپ مصوری کا فن سیکھنے کا کام جاری رکھیں‘‘

محمود کے مردانہ جذبات کو بڑی ٹھیس لگی۔

’’میں نہیں چاہتا کہ تم ملازمت کرو۔ ملازمت مجھے کرنا چاہیے۔ ‘‘

جمیلہ نے خاص انداز میں کہا۔

’’ہائے۔ میں آپ کی غیر ہوں۔ میں نے اگر کہیں تھوڑی دیر کے لیے ملازمت کر لی ہے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ بہت اچھے لوگ ہیں۔ جس لڑکی کو میں موسیقی کی تعلیم دیتی ہوں، بہت پیاری اور ذہین ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر محمود خاموش ہو گیا۔ اس نے مزید گفتگو نہ کی۔ دوسرے ہفتے کے بعد وہ پچیس روپے لے کر آیا اور اپنی بیوی سے کہا

’’میں نے آج اپنی ایک تصویر بیچی ہے خریدار نے اُسے بہت پسند کیا۔ لیکن خسیس تھا۔ صرف پچیس روپے دئیے۔ اب اُمید ہے کہ میری تصویروں کے لیے مارکیٹ چل نکلے گی۔ جمیلہ مسکرائی۔ تو پھر کافی امیر آدمی ہو جائیں گے‘‘

محمود نے اُس سے کہا

’’جب میری تصویریں بکنا شروع ہو جائیں گی تو میں تمھیں ٹیوشن نہیں کرنے دُوں گا۔ ‘‘

جمیلہ نے اپنے خاوند کی ٹائی کی گرہ درست کی اور بڑے پیار سے کہا

’’آپ میرے مالک ہیں جو بھی حکم دیں گے مجھے تسلیم ہو گا۔ دونوں بہت خوش تھے اس لیے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ محمود نے جمیلہ سے کہا۔

’’اب تم کچھ فکر نہ کرو۔ میرا کام چل نکلا ہے۔ چار تصویریں کل پرسوں تک بک جائیں گی اور اچھے دام وصول ہو جائیں گے۔ پھر تم اپنی موسیقی کی تعلیم جاری رکھ سکو گی۔ ‘‘

ایک دن جمیلہ جب شام کو گھر آئی تو اُس کے سر کے بالوں میں دُھنکی ہوئی رُوئی کا غبار اس طرح جما تھا جیسے کسی ادھیڑ عمر آدمی کی داڑھی میں سفید بال۔ محمود نے اُس سے استفسار کیا۔

’’یہ تم نے اپنے بالوں کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ موسیقی سکھانے جاتی ہو یا کسی جننگ فیکٹری میں کام کرتی ہو‘‘

جمیلہ نے، جو محمود کی نئی رضائی کی پرانی روئی کو دُھنک رہی تھی مسکرا کر کہا۔

’’ہم آرٹسٹ لوگ ہیں۔ ہمیں کسی بات کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ ‘‘

محمود نے حقے کی نے منہ میں لے کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’ہوش واقعی نہیں رہتا‘‘

جمیلہ نے محمود کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔

’’یہ دُھنکی ہوئی رُوئی کا غبار آپ کے سر میں کیسے آگیا ؟‘‘

۔ محمود نے حقے کا ایک کش لگایا۔

’’جیسا کہ تمہارے سر میں موجود ہے۔ ہم دونوں ایک ہی جننگ فیکٹری میں کام کرتے ہیں صرف آرٹ کی خاطر۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

آخری سیلوٹ

یہ کشمیر کی لڑائی بھی عجیب وغریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا۔ جنگ کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔ پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظروں میں اس کی بڑی توقیر تھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر اور سمجھدار سپاہی تھا۔ پلاٹون کمانڈر مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سونپتے تھے اور وہ ان سے عہدہ برآ ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دل میں بڑا ولولہ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پروا صرف ایک ہی لگن تھی، دشمن کا صفایا کردینے کی، مگر جب اس سے سامنا ہوتا، تو جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔ بعض دوست دکھائی دیتے، بڑے بغلی قسم کے دوست، جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش، اتحادیوں کے دشمنوں سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔ صوبیدار رب نواز سوچتا تھا کہ یہ سب خواب تو نہیں۔ پچھلی بڑی جنگ کا اعلان۔ بھرتی، قدر آور چھاتیوں کی پیمائش، پی ٹی، چاند ماری اور پھر محاذ۔ ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر، آخر جنگ کا خاتمہ۔ پھر ایک دم پاکستان کا قیام اور ساتھ ہی کشمیر کی لڑائی۔ اوپر تلے کتنی چیزیں۔ رب نواز سوچتا تھا کہ کرنے والے نے یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہے تاکہ دوسرے بوکھلا جائیں اور سمجھ نہ سکیں۔ ورنہ یہ بھی کوئی بات تھی کہ اتنی جلدی اتنے بڑے انقلاب برپا ہو جائیں۔ اتنی بات تو صوبیدار رب نواز کی سمجھ میں آتی تھی کہ وہ کشمیر حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کیوں حاصل کرنا ہے، یہ بھی وہ اچھی طرح سمجھتا تھا اس لیے کہ پاکستان کی بقاء کے لیے اس کا الحاق اشد ضروری ہے، مگر نشانہ باندھتے ہوئے اسے جب کوئی جانی پہچانی شکل نظر آجاتی تھی تو وہ کچھ دیر کے لیے بھول جاتا تھا کہ وہ کس غرض کے لیے لڑرہا ہے، کس مقصد کے لیے اس نے بندوق اٹھائی ہے۔ اور وہ یہ غالباً اسی لیے بھولتا تھا کہ اسے بار بار خود کو یاد کرانا پڑتھا کہ اب کی وہ صرف تنخواہ زمین کے مربعوں اور تمغوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے وطن کی خاطر لڑ رہا ہے۔ یہ وطن پہلے بھی اس کا وطن تھا، وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا جو اب پاکستان کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ اب اسے اپنے اسی ہم وطن کے خلاف لڑنا تھا جو کبھی اس کا ہمسایہ ہوتا تھا، جس کے خاندان سے اس کے خاندان کے پشت ہا پشت کے دیرینہ مراسم تھے۔ اب اس کا وطن وہ تھا جس کا پانی تک بھی اس نے کبھی نہیں پیا تھا، پر اب اسکی خاطر، ایک دم اس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ جاؤ، یہ جگہ جہاں تم نے ابھی اپنے گھر کے لیے دو اینٹیں بھی نہیں چنیں، جس کی ہوا اور جس کے پانی کا مزا ابھی تک تمہارے منہ میں ٹھیک طور پر نہیں بیٹھا، تمہارا وطن ہے۔ جاؤ اس کی خاطر پاکستان سے لڑو۔ اس پاکستان سے جس کے عین دل میں تم نے اپنی عمر کے اتنے برس گزارے ہیں۔ رب نواز سوچتا تھا کہ یہی دل ان مسلمان فوجیوں کا ہے جو ہندوستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ وہاں ان سے سب کچھ چھین لیا گیا تھا یہاں آکر انھیں اور توکچھ نہیں ملا۔ البتہ بندوقیں ملی گئی ہیں۔ اسی وزن کی، اسی شکل کی، اسی مار کے اور چھاپ کی۔ پہلے سب مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑتے تھے جن کو انھوں نے پیٹ اور انعام و اکرام کی خاطر اپنا دشمن یقین کرلیا تھا۔ اب وہ خود دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ پہلے سب ہندوستانی فوجی کہلاتے تھے۔ اب ایک پاکستانی تھا اور دوسرا ہندوستانی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی فوجی تھے۔ رب نواز جب ان کے متعلق سوچتا تو اس کے دماغ میں ایک عجیب گڑبڑ سی پیدا ہو جاتی۔ اور جب وہ کشمیر کے متعلق سوچتا تو اس کا دماغ بالکل جواب دے جاتا۔ پاکستانی فوجی کشمیر کے لیے لڑ رہے تھے یا کشمیر کے مسلمانوں کے لیے؟ اگر انھیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کے لیے لڑایا جاتا تھا تو حیدر آباد، اور جونا گڑھ کے مسلمانوں کے لیے کیوں انھیں لڑنے کے لیے نہیں کہا جاتا تھا۔ اور اگر یہ جنگ ٹھیٹ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی ملک ہیں وہ اس میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ رب نوازاب بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ باریک باریک باتیں فوجی کو بالکل نہیں سوچنا چاہئیں۔ اس کی عقل موٹی ہونی چاہیے۔ کیونکہ موٹی عقل والا ہی اچھا سپاہی ہو سکتا ہے، مگر فطرت سے مجبور کبھی کبھی وہ چور دماغ سے ان پر غور کر ہی لیتا تھا اور بعد میں اپنی اس حرکت پر خوب ہنستا تھا۔ دریائے کشن گنگا کے کنارے اس سڑک کے لیے جو مظفر آباد سے کرن جاتی ہے۔ کچھ عرصے سے لڑائی ہورہی تھی۔ عجیب وغریب لڑائی تھی۔ رات کو بعض اوقات آس پاس کی پہاڑیاں فائروں کے بجائے گندی گندی گالیوں سے گونج اٹھتی تھیں۔ ایک مرتبہ صوبیدار رب نواز اپنی پلاٹوں کے جوانوں کے ساتھ شب خون مارنے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ دور نیچے ایک کھائی سے گالیوں کا شور اٹھا۔ پہلے تو وہ گھبرا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ بہت سے بھوت مل کر ناچ رہے ہیں۔ اور زور زور کے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ بڑبڑایا۔

’’خنریز کی دُم۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ ‘‘

ایک جوان نے گونجتی ہوئی آوازوں سے مخاطب ہو کر یہ بڑی گالی دی اور رب نواز سے کہا۔

’’صوبیدار صاحب گالیاں دے رہے ہیں۔ اپنی ماں کے یار۔ ‘‘

رب نواز یہ گالیاں سن رہا تھا جو بہت اکسانے والی تھیں۔ اس کے جی میں آئی کہ بزن بول دے مگر ایسا کرنا غلطی تھی، چنانچہ وہ خاموش رہا۔ کچھ دیر جوان بھی چپ رہے، مگر جب پانی سر سے گزر گیا تو انھوں نے بھی گلا پھاڑ پھاڑ کے گالیاں لڑھکانا شروع کردیں۔ رب نواز کے لیے اس قسم کی لڑائی بالکل نئی چیز تھی۔ اس نے جوانوں کو دو تین مرتبہ خاموش رہنے کے لیے کہا، مگر گالیاں ہی کچھ ایسی تھیں کہ جواب دیے بنا انسان سے نہیں رہا جاتا تھا۔ دشمن کے سپاہی نظر سے اوجھل تھے۔ رات کو تو خیر اندھیرا تھا، مگر وہ دن کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ صرف ان کی گالیاں نیچے پہاڑی کے قدموں سے اٹھتی تھیں اور پتھروں کے ساتھ ٹکڑا ٹکڑا کر ہوا میں حل ہو جاتی تھیں۔ رب نواز کی پلاٹون کے جوان جب ان گالیوں کا جواب دیتے تھے تو اس کو ایسا لگتا تھا کہ وہ نیچے نہیں جاتیں، اوپرکو اڑ جاتی ہیں۔ اس سے اس کو خاصی کوفت ہوتی تھی۔ چنانچہ اس نے جھنجھلا کر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ رب نواز کو وہاں کی پہاڑیوں میں ایک عجیب بات نظر آئی تھی۔ چڑھائی کی طرف کوئی پہاڑی درختوں اور بوٹوں سے لدی پھندی ہوتی تھی اور اترائی کی طرف گنجی۔ کشمیری ہتو کے سرکی طرح۔ کسی کی چڑھائی کا حصہ گنجا ہوتا تھا اور اترائی کی طرف درخت ہی درخت ہوتے تھے۔ چیز کے لیے لمبے تناور درخت۔ جن کے بٹے ہوئے دھاگے جیسے پتوں پر فوجی بوٹ پھسل پھسل جاتے تھے۔ جس پہاڑی پر صوبیدار رب نواز کی پلاٹون تھی، اس کی اترائی درختوں اور جھاڑیوں سے بے نیاز تھی۔ ظاہر ہے کہ حملہ بہت ہی خطرناک تھا مگر سب جوان حملے کے لیے بخوشی تیار تھے۔ گالیوں کا انتقام لینے کے لیے وہ بے تاب تھے۔ حملہ ہوا اور کامیاب رہا۔ دو جوان مارے گئے۔ چار زخمی ہوئے۔ دشمن کے تین آدمی کھیت رہے۔ باقی رسد کا کچھ سامان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ صوبیدار رب نواز اور اس کے جوانوں کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ دشمن کا کوئی زندہ سپاہی ان کے ہاتھ نہ آیا جس کو وہ خاطر خواہ گالیوں کا مزا چکھاتے۔ مگر یہ مورچہ فتح کرنے سے وہ ایک بڑی اہم پہاڑی پر قابض ہو گئے تھے۔ وائرلیس کے ذریعے سے صوبیدار رب نواز نے پلاٹون کمانڈر میجر اسلم کو فوراً ہی اپنے حملے کے اس نتیجے سے مطلع کردیا تھا اور شاباش وصول کرلی تھی۔ قریب قریب ہر پہاڑی کی چوٹی پر پانی کا ایک تالاب سا ہوتا تھا۔ اس پہاڑی پربھی تالاب تھا، مگر دوسری پہاڑیوں کے تالابوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا۔ اس کا پانی بھی بہت صاف اور شفاف تھا۔ گوموسم سخت سرد تھا، مگر سب نہائے۔ دانت بجتے رہے مگر انھوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ ابھی اس شغل میں مصروف تھے کہ فائر کی آواز آئی۔ سب ننگے ہی لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد صوبیدار رب نواز خاں نے دور بین لگا کر نیچے دھلوانوں پر نظر دوڑائی، مگر اسے دشمن کے چھپنے کی جگہ کا پتا نہ چلا۔ اس کے دیکھتے دیکھتے ایک اور فائر ہوا۔ دور اترائی کے فوراً بعد ایک نسبتاً چھوٹی پہاڑی کی داڑھی سے اسے دھواں اٹھتا نظر آیا۔ اس نے فوراً ہی اپنے جوانوں کو فائر کا حکم دیا۔ ادھر سے دھڑا دھڑ فائر ہوئے۔ ادھر سے بھی جواباً گولیاں چلنے لگیں۔ صوبیدار رب نواز نے دوربین سے دشمن کی پوزیشن کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ غالباً بڑے بڑے پتھروں کے پیچھے محفوظ تھے۔ مگر یہ محافظ دیوار بہت ہی چھوٹی تھی۔ زیادہ دیر تک وہ جمے نہیں رہ سکتے تھے۔ ان میں سے جو بھی اِدھر اُدھر ہٹتا، اس کا صوبیدار رب نواز کی زد میں آنا یقینی تھا۔ تھوڑی دیر فائر ہوتے رہے۔ اس کے بعد رب نواز نے اپنے جوانوں کو منع کردیا کہ وہ گولیاں ضائع نہ کریں صرف تاک میں رہیں۔ جونہی دشمن کا کوئی سپاہی پتھروں کی دیوار سے نکل کر ادھر یا ادھر جانے کی کوشش کرے اس کو اڑا دیں۔ یہ حکم دے کراس نے اپنے الف ننگے بدن کی طرف دیکھا اور بڑبڑایا۔

’’خنریز کی دُم۔ کپڑوں کے بغیر آدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

لمبے لمبے وقفوں کے بعد دشمن کی طرف سے اِکا دُکا فائر ہوتا رہا۔ یہاں سے اس کا جواب کبھی کبھی دے دیا جاتا۔ یہ کھیل پورے دو دن جاری رہا۔ موسم یک لخت بہت سرد ہو گیا۔ اس قدر سرد کہ دن کو بھی خون منجمد ہونے لگتا تھا، چنانچہ صوبیدار رب نواز نے چائے کے دور شروع کرادیے۔ ہر وقت آگ پر کیتلی دھری رہتی۔ جونہی سردی زیادہ ستاتی ایک دور اس گرم گرم مشروب کا ہو جاتا۔ ویسے دشمن پر برابر نگاہ تھی۔ ایک ہٹتا تو دوسرا اس کی جگہ دوربین لے کر بیٹھ جاتا۔ ہڈیوں تک اتر جانے والی سرد ہوا چل رہی تھی۔ جب اس جوان نے جو پہرے دار تھا، بتایا کہ پتھروں کی دیوار کے پیچھے کچھ گڑبڑ ہورہی ہے۔ صوبیدار رب نواز نے اس سے دوربین لی اور غور سے دیکھا۔ اسے حرکت نظر نہ آئی لیکن فوراً ہی ایک آواز بلند ہوئی اور دیر تک اس کی گونج آس پاس کی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتی رہی۔ رب نواز اس کا مطلب نہ سمجھا۔ اس کے جواب میں اُس نے اپنی بندوق داغ دی۔ اس کی گونج دبی تو پھر ادھر سے آواز بلند ہوئی، جو صاف طور پر ان سے مخاطب تھی۔ رب نواز چلایا۔

’’خنزیر کی دُم۔ بول کیا کہتا ہے تو! فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ رب نواز کے الفاظ دشمن تک پہنچ گئے، کیونکہ وہاں سے کسی نے کہا۔

’’گالی نہ دے بھائی۔ ‘‘

رب نواز نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا اور بڑے جھنجھلائے ہوئے تعجب کے ساتھ کہا۔

’’بھائی؟۔ ‘‘

پھر وہ اپنے منہ کے آگے دونوں ہاتھوں کا بھونپو بنا کر چلایا۔

’’بھائی ہو گا تیری ماں کا جنا۔ یہاں سب تیری ماں کے یار ہیں!‘‘

ایک دم اُدھر سے ایک زخمی آواز بلند ہوئی۔

’’رب نواز!‘‘

رب نواز کانپ گیا۔ یہ آواز آس پاس کی پہاڑیوں سے سر پھوڑتی رہی اور مختلف انداز میں، رب نواز۔ رب نواز، دہراتی بالآخر خون منجمد کردینے والی سرد ہوا کے ساتھ جانے کہاں اڑ گئی۔ رب نواز بہت دیر کے بعد چونکا۔

’’یہ کون تھا۔ ‘‘

پھر وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔

’’خنزیر کی دم!‘‘

اس کو اتنا معلوم تھا ٹیٹوال کے محاذ پر سپاہیوں کی اکثریت 6/9 رجمنٹ کی ہے۔ وہ بھی اسی رجمنٹ میں تھا۔ مگر یہ آواز تھی کس کی؟ وہ ایسے بیشمار آدمیوں کو جانتا تھا۔ جو کبھی اس کے عزیز ترین دوست تھے۔ کچھ ایسے بھی جن سے اس کی دشمنی تھی، چند ذاتی اغراض کی بناء پر۔ لیکن یہ کون تھا جس نے اس کی گالی کا بُرا مان کر اسے چیخ کر پکارا تھا۔ رب نواز نے دور بین لگا کر دیکھا، مگر پہاڑی کی ہلتی ہوئی چھدری داڑھی میں اسے کوئی نظر نہ آیا۔ دونوں ہاتھوں کا بھونپو بنا کر اس نے زور سے اپنی آواز ادھر پھینکی۔

’’یہ کون تھا؟۔ رب نواب بول رہا ہے۔ رب نواز۔ رب نواز۔ ‘‘

یہ رب نواز، بھی کچھ دیر تک پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتا رہا۔ رب نواز بڑبڑایا۔

’’خنزیر کی دُم!‘‘

فوراً ہی ادھر سے آواز بلند ہوئی۔

’’میں ہوں۔ میں ہوں رام سنگھ!‘‘

رب نواز یہ سن کر یوں اچھلا جیسے وہ چھلانگ لگا کر دوسری طرف جانا چاہتاہے۔ پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا۔

’’رام سنگھ؟‘‘

پھر حلق پھاڑ کے چلایا۔

’’رام سنگھ؟۔ اوے رام سنگھا۔ خنزیر کی دُم!‘‘

’’خنزیر کی دم‘‘

ابھی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر پوری طرح گم نہیں ہوئی تھی کہ رام سنگھ کی پھٹی پھٹی آواز بلند ہوئی۔

’’اوے کمہار کے کھوتے!‘‘

رب نواز پھوں پھوں کرنے لگا۔ جوانوں کی طرف رعب دار نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔

’’بکتا ہے۔ خنزیر کی دُم!‘‘

پھر اس نے رام سنگھ کو جواب دیا۔

’’اوئے باباٹل کے کڑاہ پرشاد۔ اوئے خنزیر کے جھٹکے۔ ‘‘

رام سنگھ بے تحاشا قہقہے لگانے لگا۔ رب نواز بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔ پہاڑیاں یہ آوازیں بڑے کھلنڈرے انداز میں ایک دوسرے کی طرف اچھالتی رہیں۔ صوبیدار رب نواز کے جو ان خاموش تھے۔ جب ہنسی کا دور ختم ہوا تو ادھر سے رام سنگھ کی آواز بلند ہوئی۔

’’دیکھو یار۔ ہمیں چائے پینی ہے!‘‘

رب نواز بولا۔

’’پیو۔ عیش کرو۔ ‘‘

رام سنگھ چلایا۔

’’اوئے عیش کس طرح کریں۔ سامان تو ہمارا اُدھر پڑا ہے۔ ‘‘

رب نواز نے پوچھا۔

’’کدھر۔ ‘‘

رام سنگھ کی آواز آئی۔

’’اُدھر۔ جدھر تمہارا فائرہمیں اڑا سکتا ہے۔ ‘‘

رب نواز ہنسا۔

’’تو کیا چاہتے ہو تم۔ خنزیر کی دُم!‘‘

رام سنگھ بولا۔

’’ہمیں سامان لے آنے دے۔ ‘‘

’’لے آ!‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا۔ رام سنگھ کی تشویش بھری آواز بلند ہوئی۔

’’تو اڑا دے گا، کمہار کے کھوتے!‘‘

رب نواز نے بھنا کر کہا۔

’’بک نہیں اوئے سنتوکھ سر کے کچھوے۔ ‘‘

رام سنگھ ہنسا۔

’’قسم کھا نہیں مارے گا!‘‘

رب نواز نے پوچھا۔

’’کس کی قسم کھاؤں!‘‘

رام سنگھ نے کہا۔

’’کسی کی بھی کھالے!‘‘

رب نواز ہنسا۔

’’اوئے جا۔ منگوالے اپنا سامان۔ ‘‘

چند لمحات خاموش رہی۔ دور بین ایک جوان کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے صوبیدار رب نواز کی طرف دیکھا۔ بندوق چلانے ہی والا تھا کہ رب نواز نے اسے منع کیا۔

’’نہیں۔ نہیں!‘‘

پھر اس نے دور بین لے کر خود ہی دیکھا۔ ایک آدمی ڈرتے ڈرتے پنجوں کے بل پتھروں کے عقب سے نکل کر جارہا تھا۔ تھوڑی دور اس طرح چل کر وہ اٹھا اور تیزی سے بھاگا۔ اور کچھ دور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ دو منٹ کے بعد واپس آیا تو اس کے دونوں ہاتھوں میں کچھ سامان تھا۔ ایک لحظے کے لیے وہ رکا۔ پھر تیزی سے اوجھل ہوا تو رب نواز نے اپنی بندوق چلا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ہی رب نواز کا قہقہہ بلند ہوا۔ یہ دونوں آوازیں مل کر کچھ دیر جھنجھناتی رہیں۔ پھر رام سنگھ کی آواز آئی

’’تھینک یو۔ ‘‘

’’نو مینشن۔ ‘‘

رب نواز نے یہ کہہ کر جوانوں کی طرف دیکھا۔

’’ایک راؤنڈ ہو جائے۔ ‘‘

تفریح کے طور پر دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگیں۔ پھر خاموشی ہو گئی۔ رب نواز نے دور بین لگا کر دیکھا۔ پہاڑی کی داڑھی میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ وہ پکارا۔

’’چائے تیار کرلی رام سنگھا؟‘‘

جواب آیا۔

’’ابھی کہاں اوئے کمہار کے کھوتے!‘‘

رب نواز ذات کا کمہار تھا۔ جب کوئی اس کی طرف اشارہ کرتا تھا توغصے سے اس کا خون کھولنے لگتا تھا۔ ایک صرف رام سنگھ کے منہ سے وہ اسے برداشت کرلیتا تھا اس لیے کہ وہ اس کا بے تکلف دوست تھا۔ ایک ہی گاؤں میں وہ پل کر جوان ہوئے تھے۔ دونوں کی عمر میں صرف چند دن کا فرق تھا۔ دونوں کے باپ، پھر ان کے باپ بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک ہی اسکول میں پرائمری تک پڑھتے تھے اور ایک ہی دن فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور پچھلی بڑی جنگ میں کئی محاذوں پر اکٹھے لڑے تھے۔ رب نواز اپنے جوانوں کی نظروں میں خود کو خفیف محسوس کرکے بڑبڑایا

’’خنزیر کی دم۔ اب بھی باز نہیں آتا۔ ‘‘

پھر وہ رام سنگھ سے مخاطب ہوا۔

’’بک نہیں اوئے کھوتے کی جُوں۔ ‘‘

رام سنگھ کا قہقہہ بلند ہوا۔ رب نواز نے ایسے ہی شست باندھی ہوئی تھی۔ تفریحاً اس نے لبلبی دبا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ہی ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ رب نواز نے فوراً دور بین لگائی اور دیکھا کہ ایک آدمی، نہیں، رام سنگھ پیٹ پکڑے، پتھروں کی دیواروں سے ذرا ہٹ کر دوہرا ہوا اور گر پڑا۔ رب نواز زور سے چیخا۔

’’رام سنگھ!‘‘

اور اچھل کر کھڑا ہو گیا، اُدھر سے بیک وقت تین چار فائر ہوئے۔ ایک گولی رب نواز کا دایاں بازو چاٹتی ہوئی نکل گئی۔ فوراً ہی وہ اوندھے منہ زمین پرگر پڑا۔ اب دونوں طرف سے فائر شروع ہو گئے۔ ادھر کچھ سپاہیوں نے گڑ بڑ سے فائدہ اٹھا کر پتھروں کے عقب سے نکل کر بھاگنا چاہا۔ ادھر سے فائر جاری تھے۔ مگر نشانے پر کوئی نہ بیٹھا۔ رب نواز نے اپنے جوانوں کو اترنے کا حکم دیا۔ تین فوراً ہی مارے گئے، لیکن افتاں و خیزاں باقی جوان دوسری پہاڑی پرپہنچ گئے۔ رام سنگھ خون میں لت پت پتھریلی زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔ گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔ رب نواز کو دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتا اٹھیں۔ مسکرا کر اس نے کہا۔

’’اوئے کمہار کے کھوتے، یہ تُو نے کیا کیا۔ ‘‘

رب نواز، رام سنگھ کا زخم اپنے پیٹ میں محسوس کررہا تھا، لیکن وہ مسکرا کر اس پر جھکا اور دوزانو ہو کر اس کی پیٹی کھولنے لگا۔

’’خنزیرکی دم۔ ‘‘

تم سے کس نے باہر نکلنے کو کہا تھا۔ ‘‘

پیٹی اتارنے سے رام سنگھ کو سخت تکلف ہوئی۔ درد سے وہ چلا چلا پڑا۔ جب پیٹی اتر گئی اور رب نواز نے زخم کا معائنہ کیا جو بہت خطرناک تھا تورام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ دبا کرکہا۔

’’میں اپنا آپ دکھانے کے لیے باہر نکلا تھا کہ تُو نے۔ اوئے رب کے پُتر۔ فائر کردیا۔ ‘‘

رب نواز کا گلا رندھ گیا۔

’’قسم وحدہ لا شریک کی۔ میں نے ایسے ہی بندوق چلائی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ تُو کھوتے کا سنگھ باہر نکل رہا ہے۔ مجھے افسوس ہے!‘‘

رام سنگھ کا خون کافی بہہ نکلا تھا۔ رب نواز اور اس کے ساتھی کئی گھنٹوں کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ اس عرصے تک تو ایک پوری مشک خون کی خالی ہو سکتی تھی۔ رب نواز کو حیرت تھی کہ اتنی دیر تک رام سنگھ زندہ رہ سکا ہے۔ اس کو امید نہیں تھی کہ وہ بچے گا۔ ہلانا جلانا غلط تھا، چنانچہ اس نے فوراً وائرلیس کے ذریعے سے پلاٹون کمانڈر سے درخواست کی کہ جلدی ایک ڈاکٹرروانہ کیا جائے۔ اس کا دوست رام سنگھ زخمی ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر کا وہاں تک پہنچنا اور پھر وقت پر پہنچنا بالکل محال تھا۔ رب نوازکو یقین تھا کہ رام سنگھ صرف چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ پھر بھی وائرلیس پر پیغام پہنچا کر اس نے مسکرا کر رام سنگھ سے کہا۔

’’ڈاکٹر آرہا ہے۔ کوئی فکر نہ کر!‘‘

رام سنگھ بڑی نحیف آواز میں سوچتے ہوئے بولا۔

’’فکر کسی بات کی نہیں۔ یہ بتا میرے کتنے جوان مارے ہیں تم لوگوں نے؟‘‘

رب نواز نے جواب دیا۔

’’صرف ایک!‘‘

رام سنگھ کی آواز اور زیادہ نحیف ہو گئی۔

’’تیرے کتنے مارے گئے؟‘‘

رب نواز نے جھوٹ بولا۔

’’چھ!‘‘

اور یہ کہہ کر اس نے معنی خیز نظروں سے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا۔

’’چھ۔ چھ!‘‘

رام سنگھ نے ایک ایک آدمی اپنے دل میں گنا۔

’’میں زخمی ہوا تو وہ بہت بددل ہو گئے تھے۔ پر میں نے کہا۔ کھیل جاؤ اپنی اوردشمن کی جان سے۔ چھ۔ ٹھیک ہے!‘‘

وہ پھر ماضی کے دھندلکوں میں چلا گیا۔

’’رب نواز۔ یاد ہیں وہ دن تمہیں۔ ‘‘

اوررام سنگھ نے بیتے دن یاد کرنے شروع کردیے۔ کھیتوں کھلیانوں کی باتیں۔ اسکول کے قصے6/9 جاٹ رجمنٹ کی داستانیں۔ کمانڈنگ افسروں کے لطیفے اور باہر کے ملکوں میں اجنبی عورتوں سے معاشقے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے رام سنگھ کو کوئی بہت دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ ہنسنے لگا تو اس کے ٹیس اٹھی مگر اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زخم سے اوپر ہی اوپر ہنس کر کہنے لگا۔

’’اوئے سؤر کے تل۔ یاد ہے تمہیں وہ مڈم۔ ‘‘

رب نواز نے پوچھا۔

’’کون؟‘‘

رام سنگھ نے کہا۔

’’وہ۔ اِٹلی کی۔ کیا نام رکھا تھا ہم نے اس کا۔ بڑی مارخور عورت تھی!‘‘

رب نواز کو فوراً ہی وہ عورت یاد آگئی۔

’’ہاں، ہاں۔ وہ۔ مڈم منیتا فنتو۔ پیسہ ختم، تماشا ختم۔ پر تجھ سے کبھی کبھی رعایت کردیتی تھی مسولینی کی بچی!‘‘

رام سنگھ زور سے ہنسا۔ اور اس کے زخم سے جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا باہر نکل آیا۔ سرسری طور پررب نواز نے جو پٹی باندھی تھی۔ وہ کھسک گئی تھی۔ اسے ٹھیک کرکے اس نے رام سنگھ سے کہا۔

’’اب خاموش رہو۔ ‘‘

رام کو بہت تیز بخار تھا۔ اس کا دماغ اس کے باعث بہت تیز ہو گیا تھا۔ بولنے کی طاقت نہیں تھی مگر بولے چلا جارہا تھا۔ کبھی کبھی رک جاتا۔ جیسے یہ دیکھ رہا ہے کہ ٹینکی میں کتنا پٹرول باقی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی، لیکن کچھ ایسے وقفے بھی آتے تھے کہ اس کے ہوش و حواس سلامت ہوتے تھے۔ انہی وقفوں میں اس نے ایک مرتبہ نواز سے سوال کیا۔

’’یارا سچو سچ بتاؤ، کیا تم لوگوں کو واقعی کشمیر چاہیے!‘‘

رب نواز نے پورے خلوص کے ساتھ کہا۔

’’ہاں، رام سنگھا!‘‘

رام سنگھ نے اپنا سر ہلایا۔

’’نہیں۔ میں نہیں مان سکتا۔ تمہیں ورغلایا گیا ہے۔ ‘‘

رب نواز نے اس کو یقین دلانے کے انداز میں کہا۔

’’تمہیں ورغلایا گیا ہے۔ قسم پنجتن پاک کی۔ ‘‘

رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’قسم نہ کھایارا۔ ٹھیک ہو گا۔ ‘‘

لیکن اس کا لہجہ صاف بتارہا تھا کہ اس کو رب نواز کی قسم کا یقین نہیں۔ دن ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے پلاٹون کمانڈنٹ میجر اسلم آیا۔ اس کے ساتھ چند سپاہی تھے، مگر ڈاکٹر نہیں تھا۔ رام سنگھ بے ہوشی اور نزع کی حالت میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ مگر آواز اس قدر کمزور اور شکستہ تھی کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ میجر اسلم بھی6/9 جاٹ رجمنٹ کا تھا اور رام سنگھ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ رب نواز سے سارے حالات دریافت کرنے کے بعد اس نے رام سنگھ کو بلایا۔

’’رام سنگھ۔ رام سنگھ!‘‘

رام سنگھ نے اپنی آنکھیں کھولیں لیٹے لیٹے اٹینشن ہو کر اس نے سیلوٹ کیا۔ لیکن پھر آنکھیں کھول کر اس نے ایک لحظے کے لیے غور سے میجر اسلم کی طرف دیکھا۔ اس کا سیلوٹ کرنے والا اکڑا ہوا ہاتھ ایک دم گر پڑا۔ جھنجھلا کر اس نے بڑبڑانا شروع کیا۔

’’کچھ نہیں اوئے رام سیاں۔ بھول ہی گیا تو سؤر کے نلا۔ کہ یہ لڑائی۔ یہ لڑائی؟‘‘

رام سنگھ اپنی بات پوری نہ کرسکا۔ بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے اس نے رب نواز کی طرف نیم سوالیہ انداز میں دیکھا اور سرد ہو گیا۔ 7اکتوبر1951ء

سعادت حسن منٹو

1919ء کی ایک بات

یہ1919ء کی بات ہے بھائی جان جب رولٹ ایکٹ کے خلاف سارے پنجاب میں ایجی ٹیشن ہورہی تھی۔ میں امرتسر کی بات کررہا ہوں۔ سرمائیکل اوڈوائر نے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت گاندھی جی کا داخلہ پنجاب میں بندکردیا تھا۔ وہ ادھر آرہے تھے کہ پلوال کے مقام پر ان کو روک لیا گیا اور گرفتار کرکے واپس بمبئے بھیج دیا گیا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں بھائی جان اگر انگریز یہ غلطی نہ کرتا تو جلیاں والا باغ کا حادثہ اس کی حکمرانی کی سیاہ تاریخ میں ایسے خونیں ورق کا اضافہ کبھی نہ کرتا۔ کیا مسلمان، کیا ہندو، کیا سکھ، سب کے دل میں گاندھی جی کی بے حد عزت تھی۔ سب انھیں مہاتما مانتے تھے۔ جب ان کی گرفتاری کی خبر لاہور پہنچی تو سارا کاروبار ایک دم بند ہو گیا۔ یہاں سے امرتسر والوں کو معلوم ہوا، چنانچہ یوں چٹکیوں میں مکمل ہڑتال ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ نو اپریل کی شام کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلو کی جلا وطنی کے احکام ڈپٹی کمشنر کو مل گئے تھے۔ وہ ان کی تعمیل کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے خیال کے مطابق امرتسر میں کسی ہیجان خیز بات کا خطرہ نہیں تھا۔ لوگ پرامن طریقے پر احتجاجی جلسے وغیرہ کرتے تھے۔ جن سے تشدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہوں۔ نوکو رام نومی تھا۔ جلوس نکلا مگر مجال ہے جو کسی نے حکام کی مرضی کے خلاف ایک قدم اٹھایا ہو، لیکن بھائی جان سرمائیکل عجب اوندھی کھوپری کا انسان تھا۔ اس نے ڈپٹی کمشنر کی ایک نہ سنی۔ اس پر بس یہی خوف سوار تھا کہ یہ لیڈر مہاتما گاندھی کے اشارے پر سامراج کا تختہ الٹنے کے در پے ہیں، اور جو ہڑتالیں ہورہی ہیں اور جلسے منعقد ہوتے ہیں ان کے پس پردہ یہی سازش کام کررہی ہے۔ ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی جلا وطنی کی خبر آناً فاناً شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ دل ہر شخص کا مکدر تھا۔ ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا تھا کہ کوئی بہت بڑا حادثہ برپا ہونے والا ہے، لیکن بھائی جان جوش بہت زیادہ تھا۔ کاروبار بند تھے۔ شہر قبرستان بنا ہوا تھا، پر اس قبرستان کی خاموشی میں بھی ایک شور تھا۔ جب ڈاکٹو کچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری کی خبر آئی تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوئے کہ مل کر ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس جائیں اور اپنے محبوب لیڈروں کی جلا وطنی کے احکام منسوخ کرانے کی درخواست کریں۔ مگر وہ زمانہ بھائی جان درخواستیں سننے کا نہیں تھا۔ سرمائیکل جیسا فرعون حاکمِ اعلیٰ تھا۔ اس نے درخواست سننا تو کجا لوگوں کے اس اجتماع ہی کو غیر قانونی قرار دیا۔ امرتسر۔ وہ امرتسر جو کبھی آزادی کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ جس کے سینے پر جلیاں والا باغ جیسا قابل فخرزخم تھا۔ آج کس حالت میں ہے؟۔ لیکن چھوڑیئے اس قصے کو۔ دل کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس مقدس شہر میں جو کچھ آج سے پانچ برس پہلے ہوا اس کے ذمہ دار بھی انگریز ہیں۔ ہو گا بھائی جان، پر سچ پوچھئے تو اس لہو میں جو وہاں بہاہے ہمارے اپنے ہی ہاتھ رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خیر!۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کا بنگلہ سول لائنز میں تھا۔ ہر بڑا افسر اور ہر بڑا ٹوڈی شہر کے اس الگ تھلگ حصے میں رہتا تھا۔ آپ نے امرتسر دیکھا ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ شہر اور سول لائنز کو ملانے والا ایک پل ہے جس پر سے گزر کر آدمی ٹھنڈی سڑک پر پہنچتا ہے۔ جہاں حاکموں نے اپنے لیے یہ ارضی جنت بنائی ہوئی تھی۔ ہجوم جب ہال دروازے کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ پل پرگھڑ سوار گوروں کا پہرہ ہے۔ ہجوم بالکل نہ رکا اور بڑھتا گیا۔ بھائی جان میں اس میں شامل تھا۔ جوش کتنا تھا، میں بیان نہیں کرسکتا، لیکن سب نہتے تھے۔ کسی کے پاس ایک معمولی چھڑی تک بھی نہیں تھی۔ اصل میں وہ تو صرف اس غرض سے نکلے تھے کہ اجتماعی طور پر اپنی آواز حاکم شہر تک پہنچائیں اور اس سے درخواست کریں کہ ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو غیرمشروط طور پر رہا کردے۔ ہجوم پل کی طرف بڑھتا رہا۔ لوگ قریب پہنچے تو گوروں نے فائر شروع کردیے۔ اس سے بھگدڑ مچ گئی۔ وہ گنتی میں صرف بیس پچیس تھے اور ہجوم سینکڑوں پر مشتمل تھا، لیکن بھائی گولی کی دہشت بہت ہوتی ہے۔ ایسی افراتفری پھیلی کہ الاماں۔ کچھ گولیوں سے گھائل ہوئے اور کچھ بھگدڑ میں زخمی ہوء۔ دائیں ہاتھ کو گندا نالا تھا۔ دھکا لگا تو میں اس میں گر پڑا۔ گولیاں چلنی بند ہوئیں تو میں نے اٹھ کر دیکھا۔ ہجوم تتر بتر ہو چکا تھا۔ زخمی سڑک پر پڑے تھے اور پل پر گورے کھڑے ہنس رہے تھے۔ بھائی جان مجھے قطعاً یاد نہیں کہ اس وقت میری دماغی حالت کس قسم کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ میرے ہوش و حواس پوری طرح سلامت نہیں تھے۔ گندے نالے میں گرتے وقت تو قطعاً مجھے ہوش نہیں تھا۔ جب باہر نکلا تو جو حادثہ وقوع پذیر ہوا تھا، اس کے خدوخال آہستہ آہستہ دماغ میں ابھرنے شروع ہوئے۔ دور شور کی آواز سنائی دے رہی تھی جیسے بہت سے لوگ غصے میں چیخ چلا رہے ہیں۔ میں گندا نالا عبور کرکے ظاہرا پیر کے تکیے سے ہوتا ہوا ہال دروازے کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ تیس چالیس نوجوان جوش میں بھرے پتھر اٹھا اٹھا کر دروازے کے گھڑیال پر مار رہے ہیں۔ اس کا شیشہ ٹوٹ کر سڑک پرگرا تو ایک لڑکے نے باقیوں سے کہا۔

’’چلو۔ ملکہ کا بت توڑیں!‘‘

دوسرے نے کہا۔

’’نہیں یار۔ کوتوالی کو آگ لگائیں!‘‘

تیسرے نے کہا۔

’’اور سارے بینکوں کو بھی!‘‘

چوتھے نے ان کو روکا۔

’’ٹھہرو۔ اس سے کیا فائدہ۔ چلو پل پر ان لوگوں کو ماریں۔ ‘‘

میں نے اس کو پہچان لیا۔ یہ تھیلا کنجر تھا۔ نام محمد طفیل تھا مگر تھیلا کنجر کے نام سے مشہور تھا۔ اس لیے کہ ایک طوائف کے بطن سے تھا۔ بڑا آوارہ گرد تھا۔ چھوٹی عمر ہی میں اس کو جوئے اور شراب نوشی کی لت پڑ گئی تھی۔ اس ک دو بہنیں شمشاد اور الماس اپنے وقت کی حسین ترین طوائفیں تھیں۔ شمشاد کا گلا بہت اچھا تھا۔ اس کا مجرا سننے کے لیے رئیس بڑی بڑی دور سے آتے تھے۔ دونوں اپنے بھائی کے کرتوتوں سے بہت نالاں تھیں۔ شہر میں مشہور تھا کہ انھوں نے ایک قسم کا اس کو عاق کر رکھا ہے۔ پھر بھی وہ کسی نہ کسی حیلے اپنی ضروریات کے لیے ان سے کچھ نہ کچھ وصول کر ہی لیتا تھا۔ ویسے وہ بہت خوش پوش رہتا تھا۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پیتا تھا۔ بڑا نفاست پسند تھا۔ بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی مزاج میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔ میراثیوں اور بھانڈوں کے سوقیانہ پن سے بہت دور رہتا تھا۔ لمباقد، بھرے بھرے ہاتھ پاؤں، مضبوط کسرتی بدن۔ ناک نقشے کا بھی خاصا تھا۔ پرجوش لڑکوں نے اس کی بات نہ سنی اور ملکہ کے بت کی طرف چلنے لگے۔ اس نے پھر ان سے کہا۔

’’میں نے کہا مت ضائع کرو اپنا جوش۔ ادھر آؤ میرے ساتھ۔ چلو ان کو ماریں جنہوں نے ہمارے بے قصور آدمیوں کی جان لی ہے اور انھیں زخمی کیا ہے۔ خدا کی قسم ہم سب مل کر ان کی گردن مروڑ سکتے ہیں۔ چلو!‘‘

کچھ روانہ ہو چکے تھے۔ باقی رک گئے۔ تھیلا پل کی طرف بڑھا تو اس کے پیچھے چلنے لگے۔ میں نے سوچا کہ ماؤں کے یہ لال بیکار موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ فوارے کے پاس دبکا کھڑا تھا۔ وہیں میں نے تھیلے کو آواز دی اور کا۔

’’مت جاؤ یار۔ کیوں اپنی اور ان کی جان کے پیچھے پڑے ہو۔ ‘‘

تھیلے نے یہ سن کر ایک عجیب سا قہقہہ بلند کیا اور مجھ سے کہا۔

’’تھیلا صرف یہ بتانے چلا ہے کہ وہ گولیوں سے ڈرنے والا نہیں۔ ‘‘

پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔

’’تم ڈرتے ہو تو واپس جاسکتے ہو۔ ‘‘

ایسے موقعوں پر بڑھے ہوئے قدم الٹے کیسے ہوسکتے ہیں۔ اور پھر وہ بھی اس وقت جب لیڈر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے آگے جارہا ہو۔ تھیلے نے قدم تیز کیے تو اس کے ساتھیوں کو بھی کرنے پڑے۔ ہال دروازے سے پل کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔ ہو گاکوئی ساٹھ ستر گز کے قریب۔ تھیلا سب سے آگے آگے تھا۔ جہاں سے پل کا دورویہ متوازی جنگلہ شروع ہوتا ہے، وہاں سے پندرہ بیس قدم کے فاصلے پر دو گھڑ سوار گورے کھڑے تھے۔ تھیلا نعرے لگاتا جب بنگلے کے آغاز کے پاس پہنچا تو فائر ہوا۔ میں سمجھا کہ وہ گر پڑا ہے۔ لیکن دیکھا کہ وہ اسی طرح۔ زندہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے باقی ساتھی ڈر کے بھاگ اٹھے ہیں۔ مڑ کر اس نے پیچھے دیکھا اور چلایا۔

’’بھاگو نہیں۔ آؤ!‘‘

اس کا منہ میری طرف تھا کہ ایک اور فائر ہوا۔ پلٹ کر اس نے گوروں کی طرف دیکھا اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔ بھائی جان نظر تو مجھے کچھ نہیں آنا چاہیے تھا، مگر میں نے دیکھا کہ اس کی سفید بوسکی کی قمیض پر لال لال دھبے تھے۔ وہ اور تیزی سے بڑھا، جیسے زخمی شیر۔ ایک اور فائر ہوا۔ وہ لڑکھڑایا مگر ایک دم قدم مضبوط کرکے وہ گھر سوار گورے پر لپکا اور چشم زدن میں جانے کیا ہوا۔ گھوڑے کی پیٹھ خالی تھی۔ گورا زمین تھا اور تھیلا اس کے اوپر۔ دوسرے گورے نے جو قریب تھا اور پہلے بوکھلا گیا تھا، بِدکتے ہوئے گھوڑے کو روکا اور دھڑا دھڑ فائر شروع کردیے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا مجھے معلوم نہیں۔ میں وہاں فوارے کے پاس بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ بھائی جان جب مجھے ہوش آیا تو میں اپنے گھر میں تھا۔ چند پہچان کے آدمی مجھے وہاں سے اٹھا لائے تھے۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ پل پر سے گولیاں کھا کر ہجوم مشتعل ہو گیا تھا۔ نتیجہ اس اشتعال کا یہ ہوا کہ ملکہ کے بت کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ ٹاؤن ہال اور تین بنکوں کو آگ لگی اور پانچ یا چھ یورپین مارے گئے۔ خوب لوٹ مچی۔ لوٹ کھسوٹ کا انگریز افسروں کو اتنا خیال نہیں تھا۔ پانچ یا چھ یورپین ہلاک ہوئے تھے اس کا بدلہ لینے کے لیے چنانچہ جلیاں والا باغ کا خونیں حادثہ رونما ہوا۔ ڈپٹی کمشنر بہادر نے شہر کی باگ دوڑ جنرل ڈائر کے سپرد کردی۔ چنانچہ جنرل صاحب نے بارہ اپریل کو فوجیوں کے ساتھ شہر کے مختلف بازاروں میں مارچ کیا اور درجنوں بے گناہ آدمی گرفتار کیے۔ تیرہ کو جلیاں والا باغ میں جلسہ ہوا۔ قریب قریب پچیس ہزار کا مجمع تھا۔ شام کے قریب جنرل ڈائر مسلح گوروں اور سکھوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور نہتے آدمیوں پر گولیوں کی بارش شروع کردی۔ اس وقت تو کسی کو نقصان جان کا ٹھیک اندازہ نہیں تھا۔ بعد میں جب تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ ایک ہزار ہلاک ہوئے ہیں اور تین یا چار ہزار کے قریب زخمی۔ لیکن میں تھیلے کی بات کررہا تھا۔ بھائی جان آنکھوں دیکھی آپ کو بتا چکا ہوں۔ بے عیب ذات خدا کی ہے۔ مرحوم میں چاروں عیب شرعی تھے۔ ایک پیشہ طوائف کے بطن سے تھا مگر جیالا تھا۔ میں اب یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس ملعون گورے کی پہلی گولی بھی اس کے لگی تھی۔ آواز سن کر اس نے جب پلٹ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا تھا، اور انھیں حوصلہ دلایا تھا جوش کی حالت میں اس کومعلوم نہیں ہوا تھا کہ اسکی چھاتی میں گرم گرم سیسہ اتر چکا ہے۔ دوسری گولی اس کی پیٹھ میں لگی۔ تیسری پھر سینے میں۔ میں نے دیکھا نہیں، پر سنا ہے جب تھیلے کی لاش گورے سے جدا کی گئی تو اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن میں اس بری طرح پیوست تھے کہ علیحدہ نہیں ہوتے تھے۔ گورا جہنم واصل ہو چکا تھا۔ دوسرے روز جب تھیلے کی لاش کفن دفن کے لیے اس کے گھر والوں کے سپرد کی گئی تو اس کا بدن گولیوں سے چھلنی ہورہا تھا۔ دوسرے گورے نے تو اپنا پورا پستول اس پر خالی کردیا تھا۔ میرا خیال ہے اس وقت مرحوم کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ اس شیطان کے بچے نے صرف اس کے مردہ جسم پر چاند ماری کی تھی۔ کہتے ہیں جب تھیلے کی لاش محلے میں پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ اپنی برادری میں وہ اتنا مقبول نہیں تھا، لیکن اس کی قیمہ قیمہ لاش دیکھ کر سب دھاڑیں مار مار کررونے لگے۔ اس کی بہنیں شمشاد اور الماس تو بے ہوش ہو گئیں۔ جب جنازہ اٹھا تو ان دونوں نے ایسے بین کیے کہ سننے والے لہو کے آنسو روتے رہے۔ بھائی جان، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ فرانس کے انقلاب میں پہلی گولی وہاں کی ایک ٹکھیائی کے لگی تھی۔ مرحوم محمد طفیل ایک طوائف کا لڑکا تھا۔ انقلاب کی اس جدوجہد میں اس کے جو پہلی گولی لگی تھی دسویں تھی یا پچاسویں۔ اس کے متعلق کسی نے بھی تحقیق نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ سوسائٹی میں اس غریب کا کوئی رتبہ نہیں تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں پنجاب کے اس خونیں غسل میں نہانے والوں کی فہرست میں تھیلے کنجر کا نام و نشان تک بھی نہیں ہو گا۔ اور یہ بھی کوئی پتہ نہیں کہ ایسی کوئی فہرست تیار بھی ہوئی تھی۔ سخت ہنگامی دن تھے۔ فوجی حکومت کا دور دورہ تھا۔ وہ دیو جسے مارشل لاء کہتے ہیں۔ شہر کے گلی گلی کوچے کوچے میں ڈکارتا پھرتا تھا۔ بہت افراتفری کے عالم میں اس غریب کوجلدی جلدی یوں دفن کیا گیا جیسے اس کی موت اس کے سوگوار عزیزوں کا ایک سنگین جرم تھی جس کے نشانات وہ مٹا دینا چاہتے تھے۔ بس بھائی جان تھیلا مر گیا۔ تھیلا دفنا دیا گیا اور۔ اور‘‘

یہ کہہ کر میرا ہم سفر پہلی مرتبہ کچھ کہتے کہتے رکا اور خاموش ہو گیا۔ ٹرین دندناتی ہوئی جارہی تھی۔ پٹڑیوں کی کھٹا کھٹ نے یہ کہنا شروع کردیا۔

’’تھیلا مر گیا۔ تھیلا دفنا دیا گیا۔ تھیلا مر گیا۔ تھیلا دفنا دیاگیا۔ ‘‘

اس مرنے اور دفنانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا، جیسے وہ اُدھر مرا اور اِدھر دفنادیا گیا۔ اور کھٹ کھٹ کے ساتھ ان الفاظ کی ہم آہنگی کچھ اس قدر جذبات سے عاری تھی کہ مجھے اپنے دماغ سے ان دونوں کو جدا کرنا پڑا۔ چنانچہ میں نے اپنے ہم سفر سے کہا۔

’’آپ کچھ اور بھی سنانے والے تھے؟‘‘

چونک کر اس نے میری طرف دیکھا۔

’’جی ہاں۔ اس داستان کا ایک افسوسناک حصہ باقی ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا؟‘‘

اس نے کہنا شروع کیا۔

’’میں آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ تھیلے کی دو بہنیں تھیں۔ شمشاد اور الماس۔ بہت خوبصورت تھیں۔ شمشاد لمبی تھی۔ پتلے پتلے نقش۔ غلافی آنکھیں۔ ٹھمری بہت خوب گاتی تھی۔ سنا ہے خاں صاحب فتح علی خاں سے تعلیم لیتی رہی تھی۔ دوسری الماس تھی۔ اس کے گلے میں سُر نہیں تھا، لیکن بتاوے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ مجرا کرتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ اس کا انگ انگ بول رہا ہے۔ ہر بھاؤ میں ایک گھات ہوتی تھی۔ آنکھوں میں وہ جادو تھا جو ہر ایک کے سر پر چڑھ کے بولتا تھا۔ ‘‘

میرے ہم سفر نے تعریف و توصیف میں کچھ ضرورت سے زیادہ وقت لیا۔ مگر میں نے ٹوکنا مناسب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ خود اس لمبے چکر سے نکلا اور داستان کے افسوناک حصے کی طرف آیا۔

’’قصہ یہ ہے بھائی جان کہ ان آفت کی پرکالہ دو بہنوں کے حسن و جمال کا ذکر کسی خوشامدی نے فوجی افسروں سے کردیا۔ بلوے میں ایک میم۔ کیا نام تھا اس چڑیل کا؟۔ مس۔ مس شروڈماری گئی تھی۔ طے یہ ہوا کہ ان کو بلوایا جائے اور۔ اور۔ جی بھر کے انتقام لیا جائے۔ آپ سمجھ گئے نا بھائی جان؟‘‘

میں نے کہا۔

’’جی ہاں!‘‘

میرے ہم سفر نے ایک آہ بھری

’’ایسے نازک معاملوں میں طوائفیں اور کسبیاں بھی اپنی مائیں بہنیں ہوتی ہیں۔ مگر بھائی جان یہ ملک اپنی عزت و ناموس کو میرا خیال ہے پہچانتا ہی نہیں۔ جب اوپر سے علاقے کے تھانیدار کو آرڈر ملا تو وہ فوراً تیار ہو گیا۔ چنانچہ وہ خود شمشاد اور الماس کے مکان پر گیا اور کہا کہ صاحب لوگوں نے یاد کیا ہے۔ وہ تمہارا مجرا سننا چاہتے ہیں۔ بھائی کی قبر کی مٹی بھی ابھی تک خشک نہیں ہوئی تھی۔ اللہ کو پیارا ہوئے اس غریب کو صرف دو دن ہوئے تھے کہ یہ حاضری کا حکم صادر ہوا کہ آؤ ہمارے حضور ناچو۔ اذیت کا اس سے بڑھ کرپُر اذیت طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔ ؟۔ مستبعد تمسخر کی ایسی مثال میرا خیال ہے شاید ہی کوئی اور مل سکے۔ کیا حکم دینے والوں کو اتنا خیال بھی نہ آیا کہ طوائف بھی غیرت مند ہوتی ہے؟۔ ہو سکتی ہے۔ کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘

اس نے اپنے آپ سے سوال کیا، لیکن مخاطب وہ مجھ سے تھا۔ میں نے کہا۔

’’ہوسکتی ہے!‘‘

’’جی ہاں‘‘

۔ تھیلا آخر ان کا بھائی تھا۔ اس نے کسی قمار خانے کی لڑائی بھڑائی میں اپنی جان نہیں دی تھی۔ وہ شراب پی کر دنگا فساد کرتے ہوئے ہلاک نہیں ہوا تھا۔ اس نے وطن کی راہ میں بڑے بہادرانہ طریقے پر شہادت کا جام پیا تھا۔ وہ ایک طوائف کے بطن سے تھا۔ لیکن وہ طوائف ماں تھی اور شمشاد اور الماس اسی کی بیٹیاں تھیں اور یہ تھیلے کی بہنیں تھیں۔ طوائفیں بعد میں تھیں۔ اور وہ تھیلے کی لاش دیکھ کر بے ہوش ہو گئی تھیں۔ جب اس کا جنازہ اٹھا تھا۔ تو انھوں نے ایسے بین کیے تھے کہ سن کر آدمی لہو روتا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’وہ گئیں؟‘‘

میرے ہم سفر نے اس کا جواب تھوڑے وقفے کے بعد افسردگی سے دیا۔

’’جی ہاں۔ جی ہاں گئیں۔ خوب سج بن کر۔ ‘‘

ایک دم اس کی افسردگی تیکھا پن اختیار کرگئی۔

’’سولہ سنگار کرکے اپنے بلانے والوں کے پاس گئیں۔ کہتے ہیں کہ خوب محفل جمی۔ دونوں بہنوں نے اپنے جوہر دکھائے۔ زرق برق پشوازوں میں ملبوس وہ کوہ قاف کی پریاں معلوم ہوتی تھیں۔ شراب کے دور چلتے رہے اور وہ ناچتی گاتی رہیں۔ یہ دونوں دور چلتے رہے۔ اور کہتے ہیں کہ۔ رات کے دو بجے ایک بڑے افسر کے اشارے پر محفل برخواست ہوئی۔ ‘‘

وہ اٹھ کھڑا ہو اور باہر بھاگتے ہوئے درختوں کو دیکھنے لگا۔ پہیوں اور پٹڑیوں کی آہنی گڑگڑاہٹ کی تال پراس کے آخری دو لفظ ناچنے لگے۔

’’برخواست ہوئی۔ برخواست ہوئی۔ ‘‘

میں نے اپنے دماغ میں انھیں، آہنی گڑگڑاہٹ سے نوچ کر علیحدہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

’’پھرکیاہوا؟‘‘

بھاگتے ہوئے درختوں اور کھمبوں سے نظریں ہٹا کر اس نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’انھوں نے اپنی زرق برق پشوازیں نوچ ڈالیں اور الف ننگی ہو گئیں اور کہنے لگیں۔ لو دیکھ لو۔ ہم تھیلے کی بہنیں ہیں۔ اس شہید کی جس کے خوبصورت جسم کو تم نے صرف اس لیے اپنی گولیوں سے چھلنی چھلنی کیا تھا کہ اس میں وطن سے محبت کرنے والی روح تھی۔ ہم اسی کی خوبصورت بہنیں ہیں۔ آؤ، اپنی شہوت کے گرم گرم لوہے سے ہمارا خوشبوؤں میں بسا ہوا جسم داغدار کرو۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے صرف ہمیں ایک بار اپنے منہ پر تھوک لینے دو۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ کچھ اس طرح کہ اور نہیں بولے گا۔ میں نے فوراً ہی پوچھا۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔

’’اُن کو۔ ان کو گولی سے اڑا دیا گیا۔ ‘‘

میں نے کچھ نہ کہا۔ گاڑی آہستہ ہوکر اسٹیشن پر رکی تو اس نے قلی بلا کر اپنا اسباب اٹھوایا۔ جب جانے لگا تومیں نے اس سے کہا۔

’’آپ نے جو داستان سنائی، اس کا انجام مجھے آپ کا خود ساختہ معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

ایک دم چونک کر اس نے میری طرف دیکھا۔

’’یہ آپ نے کیسے جانا؟‘‘

میں نے کہا۔

’’آپ کے لہجے میں ایک ناقابل بیان کرب تھا۔ ‘‘

میرے ہم سفر نے اپنے حلق کی تلخی تھوک کے ساتھ نگلتے ہوئے کہا۔

’’جی ہاں۔ اُن حرام۔ ‘‘

وہ گالی دیتے دیتے رک گیا۔ انھوں نے اپنے شہید بھائی کے نام پر بٹا لگا دیا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ 11-12اکتوبر1951ء

سعادت حسن منٹو

یہ دروازہ کیسے کھُلا؟

یہ دروازہ کیسے کھُلا، کس نے کھولا؟

وہ کتبہ جو پتھر کی دیوار پر بے زباں سوچتا تھا

ابھی جاگ اٹھا ہے،

وہ دیوار بھولے ہوئے نقش گر کی کہانی

سنانے لگی ہے؛

نکیلے ستوں پر وہ صندوق، جس پر

سیہ رنگ ریشم میں لپٹا ہوا ایک کتے کا بت،

جس کی آنکھیں سنہری،

ابھی بھونک اُٹھا ہے؛

وہ لکڑی کی گائے کا سر

جس کے پیتل کے سینگوں میں بربط،

جو صدیوں سے بے جان تھا

جھنجھنانے لگا ہے؟

وہ ننھے سے جوتے جو عجلت میں اک دوسرے سے

الگ ہو گئے تھے؛

یکایک بہم مل کے، اترا کے چلنے لگے ہیں۔

وہ پایوں پہ رکھے ہوئے تین گلدان

جن پر بزرگوں کے پاکیزہ یا کم گنہ گار

جسموں کی وہ راکھ جو (اپنی تقدیرِ مبرم سے بچ کر)

فقط تِیرہ تر ہو گئی تھی،

اُسی میں چھپے کتنے دل

تلملانے لگے ہیں؟

یہ دروازہ کیسے کھلا؟ کس نے کھولا؟

ہمیں نے____

ابھی ہم نے دہلیز پر پاؤں رکھا نہ تھا

کواڑوں کو ہم نے چھوا تک نہ تھا

کیسے یکدم ہزاروں ہی بے تاب چہروں پہ

تارے چمکنے لگے

جیسے اُن کی مقدس کتابوں میں

جس آنے والی گھڑی کا حوالہ تھا

گویا یہی وہ گھڑی ہو!

ن م راشد

یہ خلا پُر نہ ہوا

ذہن خالی ہے

خلا نور سے، یا نغمے سے

یا نکہتِ گم راہ سے بھی

پُر نہ ہوا

ذہن خالی ہی رہا

یہ خلا حرفِ تسلی سے،

تبسم سے،

کسی آہ سے بھی پر نہ ہوا

اِک نفی لرزشِ پیہم میں سہی

جہدِ بے کار کے ماتم میں سہی

ہم جو نارس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں

اِس خلا کو

(اِسی دہلیر پہ سوئے ہوئے

سرمست گدا کے مانند)

کسی مینار کی تصویر سے،

یا رنگ کی جھنکار سے،

یا خوابوں کی خوشبوؤں سے

پُر کیوں نہ کریں؟

کہ اجل ہم سے بہت دُور

بہت دُور رہے؟

نہیں، ہم جانتے ہیں

ہم جو نارس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں

جانتے ہیں کہ خلا ہے وہ جسے موت نہیں

کِس لیے نُور سے، یا نغمے سے

یا حرفِ تسلّی سے اسے جسم بنائیں

اور پھر موت کی وارفتہ پذیرائی کریں؟

نئے ہنگاموں کی تجلیل کا در باز کریں

صبحِ تکمیل کا آغاز کریں؟

ن م راشد

ہونٹوں کالمس

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس

جس سے میرا جسم طوفانوں کی جولاں گاہ ہے

جس سے میری زندگی، میرا عمل گمراہ ہے

میری ذات اور میرے شعر افسانہ ہیں!

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس

اور پھر لمسِ طویل

جس سے ایسی زندگی کے دن مجھے آتے ہیں یاد

میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں

اور اک ایسا مقام

آشنا جس کے نظاروں سے نہیں میری نگاہ!

تیرے اک لمسِ جنوں انگیز سے

کیسے کھل جاتی ہے کرنوں کے لیے اک شاہراہ

کیسے ہو جاتی ہے، ظلمت تیز گام،

کیسے جی اٹھتے ہیں آنے وا لے ایامِ جمیل!

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس

جس کے آگے ہیچ جرعاتِ شراب

یہ سنہری پھل، یہ سیمیں پھول مانندِ سراب

سوزِ شمع و گردشِ پروانہ گویا داستاں

نغمہ ءِ سیارگاں، بے رنگ و آب

قطرہ ءِ بے مایہ طغیانِ شباب!

تیرے ان ہونٹوں کے لمسِ جنوں انگیز سے

چھا گیا ہے چار سُو

چاندنی راتوں کا نورِ بیکراں

کیف و مستی کا وفورِ جاوداں

چاندنی ہے اور میں اک تاک کے سائے تلے

اِستادہ ہوں

جانے دینے کے لیے آمادہ ہوں

میری ہستی ہے نحیف و بے ثبات

تاک کی ہر شاخ ہے آفاق گیر!

حملہ ءِ مرگ و خزاں سے بے نیاز

سامنے جس کے مری دنیا ہے، دنیائے مجاز

میرے جسم و روح جس کی وسعتوں کے سامنے

رفتہ رفتہ مائلِ حلّ و گداز!

ہاں مگر اتنا تو ہے،

میری دنیا کو مٹا کر ہو چلی ہے آشکار

اور دنیائیں مقام و وقت کی سرحد کے پار

جن کی تو ملکہ ہے میں ہوں شہریار!

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس،

جس سے میری سلطنت تابندہ ہے

انتہائے وقت تک پائندہ ہے!

ن م راشد

ہمہ اوست

خیابانِ سعدی میں

روسی کتابوں کی دکان پر ہم کھڑے تھے

مجھے روس کے چیدہ صنعت گروں کے

نئے کارناموں کی اک عمر سے تشنگی تھی!

مجھے روسیوں کے سیاسی ہمہ اوست سے کوئی رغبت نہیں ہے

مگر ذرے ذرے میں

انساں کے جوہر کی تابندگی دیکھنے کی تمنا ہمیشہ رہی ہے!

اور اُس شام تو مرسدہ کی عروسی تھی،

اُس شوخ، دیوانی لڑکی کی خاطر

مجھے ایک نازک سی سوغات کی جستجو تھی

وہ میرا نیا دوست خالد

ذرا دور، تختے کے پیچھے کھڑی

اک تنومند لیکن فسوں کار،

قفقاز کی رہنے والی حسینہ سے شیر و شکر تھا!

یہ بھوکا مسافر،

جو دستے کے ساتھ

ایک خیمے میں، اک دور افتادہ صحرا میں

مدت سے عزلت گزیں تھا،

بڑی التجاؤں سے

اس حورش قفقاز سے کہہ رہا تھا:

نجانے کہاں سے ملا ہے

تمھاری زباں کو یہ شہد

اور لہجے کو مستی!

میں کیسے بتاؤں

میں کس درجہ دلدادہ ہوں روسیوں کا

مجھے اشتراکی تمدن سے کتنی محبت ہے،

کیسے بتاؤں!

یہ ممکن ہے تم مجھ کو روسی سکھا دو؟

کہ روسی ادیبوں کی سرچشمہ گاہوں کو میں دیکھتا چاہتا ہوں!

وہ پروردہ ءِ عشرہ بازی

کنکھیوں سے یوں دیکھتی تھی

کہ جیسے وہ اُن سرنِگوں آرزوؤں کو پہچانتی ہو،

جو کرتی ہیں اکثر یونہی رُو شناسی

کبھی دوستی کی تمنا،

کبھی علم کی پیاس بن کر!

وہ کولہے ہلاتی تھی، ہنستی تھی

اک سوچی سمجھی حسابی لگاوٹ سے،

جیسے وہ اُن خفیہ سرچشمہ گاہوں کے ہر راز کو جانتی ہو،

وہ تختے کے پیچھے کھڑی، قہقہے مارتی، لوٹتی تھی!

کہا میں نے خالد سے:

بہروپیے!

اس ولایت میں ضربِ مثل ہے

کہ اونٹوں کی سوداگری کی لگن ہو

تو گھر اُن کے قابل بناؤ___،

اور اس شہر میں یوں تو استانیاں اَن گنت ہیں

مگر اِس کی اُجرت بھلا تم کہاں دے سکو گے!

وہ پھر مضطرب ہو کے، بے اختیاری سے ہنسنے لگی تھی!

وہ بولی:

یہ سچ ہے

کہ اُجرت تو اک شاہی بھر کم نہ ہو گی،

مگر فوجیوں کا بھروسہ ہی کیا ہے،

بھلا تم کہاں باز آؤ گے

آخر زباں سیکھنے کے بہانے

خیانت کروگے!

وہ ہنستی ہوئی

اک نئے مشتری کی طرف ملتفت ہو گئی تھی!

تو خالد نے دیکھا

کہ رومان تو خاک میں مل چکا ہےِ__

اُسے کھینچ کر جب میں بازار میں لا رہا تھا،

لگاتار کرنے لگا وہ مقولوں میں باتیں:

زباں سیکھنی ہو تو عورت سے سیکھو!

جہاں بھر میں روسی ادب کا نہیں کوئی ثانی!

وہ قفقاز کی حور، مزدور عورت!

جو دنیا کے مزدور سب ایک ہوجائیں!

آغاز ہو اک نیا دورہ ءِ شادمانی

مرے دوستوں میں بہت اشتراکی ہیں،

جو ہر اک محبت میں مایوس ہو کر،

یونہی اک نئے دورہ ءِ شادمانی کی حسرت میں

کرتے ہیں دلجوئی اک دوسرے کی،

اور اب ایسی باتوں پہ میں

زیرِ لب بھی کبھی مسکراتا نہیں ہوں!

اور اُس شام جشنِ عروسی میں

حُسن و مَے و رقص و نغمہ کے طوفان بہتے رہے تھے،

فرنگی شرابیں تو عنقا تھیں

لیکن مَے ناب قزوین و خُلّارِ شیراز کے دَورِ پیہم سے،

رنگیں لباسوں سے،

خوشبو کی بے باک لہروں سے،

بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے،

مزامیر کے زیر و بم سے،

وہ ہنگامہ برپا تھا،

محسوس ہوتا تھا

طہران کی آخری شب یہی ہے!

اچانک کہا مرسدہ نے:

تمھارا وہ ساتھی کہاں ہے؟

ابھی ایک صوفے پہ دیکھا تھا میں نے

اُسے سربزانو!

تو ہم کچھ پریشان سے ہو گئے

اور کمرہ بہ کمرہ اُسے ڈھونڈنے مل کے نکلے!

لو اِک گوشہ ءِ نیم روشن میں

وہ اشتراکی زمیں پر پڑا تھا

اُسے ہم بلایا کیے اور جھنجھوڑا کیے

وہ تو ساکت تھا، جامد تھا!

روسی ادیبوں کی سرچشمہ گاہوں کی اُس کو خبر ہو گئی تھی؟

ن م راشد

ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں

ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!

عشق اِک ترجمہ ءِ بوالہوسی ہے گویا

عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!

اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے

اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے

لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں

جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب

جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!

۔۔۔۔۔۔۔ ہم وہ کمسن ہیں کہ بسم اللہ ہوئی ہو جن کی

محوِ حیرت کہ پکار اٹھے ہیں کس طرح حروف

کیسے کاغذ کی لکیروں میں صدا دوڑ گئی

اور صداؤں نے معانی کے خزینے کھولے!

یہ خبر ہم کو نہیں ہے لیکن

کہ معانی نے کئی اور بھی در باز کیے

خود سے انساں کے تکلّم کے قرینے کھولے!

خود کلامی کے یہ چشمے تو کسی وادیِ فرحاں میں نہ تھے

جو ہماری ازلی تشنہ لبی نے کھولے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم سرِ چشمہ نگوں سار کسی سوچ میں ہیں

سحر و شام ہے ہر لہر کی جمع و تفریق

جیسے اِک فہم ہو اعداد کے کم ہونے کا

جیسے پنہاں ہو کہیں سینے میں غم ہونے کا!

پارہ ءِ ناں کی تمنّا کہ در و بام کے سائے کا کرم

خلوتِ وصل کہ بزمِ مئے و نغمہ کا سرور

صورت و شعر کی توفیق کہ ذوقِ تخلیق

ان سے قائم تھا ہمیشہ کا بھرم ہونے کا!

اب در و بام کے سائے کا کرم بھی تو نہیں

آج ہونے کا بھرم بھی تو نہیں!

۔۔۔۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔۔۔ اور ہر دن کی طرح

ہر سحر آتی ہے البتہ ءِ روشن لے کر

شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح

ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر

اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!

۔۔۔۔۔۔۔ چار سو دائرے ہیں، دائرے ہیں، دائرے ہیں

حلقہ در حلقہ ہیں گفتار میں ہم

رقص و رفتار میں ہم

نغمہ و صورت و اشعار میں ہم

کھو گئے جستجوئے گیسوئے خم دار میں ہم!

عشقِ نارستہ کے ادبار میں ہم

دور سے ہم کبھی منزل کی جھلک دیکھتے ہیں

اور کبھی تیز ترک بڑھتے ہیں

تو بہت دور نہیں، اپنے ہی دنبال تلک بڑھتے ہیں

کھو گئے جیسے خمِ جادہ ءِ پرکار میں ہم!

۔۔۔۔ ‘آپ تک اپنی رسائی تھی کبھی’

آپ ۔۔۔۔۔۔ بھٹکے ہوئے راہی کا چراغ

آپ ۔۔۔۔۔ آئندہ پہنا کا سراغ

آپ ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کی وہ گویائی تھی

جس سے شیریں کوئی آواز سرِ تاک نہیں

آج اس آپ کی للکار کہاں سے لائیں؟

اب وہ دانندہ ءِ اسرار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔ آج وہ آپ، سیہ پوش اداکارہ ہے

ہے فقط سینے پہ لٹکائے سمن اور گلاب

مرگِ ناگاہِ سرِ عام سے اس کی ہیں شناسا ہم بھی

اعتراف اس کا مگر اس لیے ہم کرتے نہیں

کہ کہیں وقت پہ ہم رو نہ سکیں!

۔۔۔۔۔ آؤ صحراؤں کے وحشی بن جائیں

کہ ہمیں رقصِ برہنہ سے کوئی باک نہیں!

آگ سلگائیں اسی چوب کے انبار میں ہم

جس میں ہیں بکھرے ہوئے ماضیِ نمناک کے برگ

آگ سلگائیں زمستاں کے شبِ تار میں ہم

کچھ تو کم ہو یہ تمناؤں کی تنہائیِ مرگ!

آگ کے لمحہ ءِ آزاد کی لذّت کا سماں

اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامِ طرب ناک نہیں

کیسے اس دشت کے سوکھے ہوئے اشجار جھلک اٹھے ہیں

کیسے رہ گیروں کے مٹتے ہوئے آثار جھلک اٹھے ہیں

کیسے یک بار جھلک اٹھے ہیں!

۔۔۔۔۔ ہاں مگر رقصِ برہنہ کے لئے نغمہ کہاں سے لائیں؟

دہل و تار کہاں سے لائیں؟

چنگ و تلوار کہاں سے لائیں؟

جب زباں سوکھ کے اِک غار سے آویختہ ہے

ذات اِک ایسا بیاباں ہے جہاں

نغمہ ءِ جاں کی صدا ریت میں آمیختہ ہے!

۔۔۔۔ دھُل گئے کیسے مگر دستِ حنا بندِ عروس

اجنبی شہر میں دھو آئے انہیں!

لوگ حیرت سے پکار اٹھے: یہ کیا لائے تم؟

وہی جو دولتِ نایاب تھی کھو آئے تم؟

ہم ہنسے، ہم نے کہا: دیوانو!

زینتیں اب بھی ہیں دیکھو تو سلامت اِس کی

کیا یہ کم ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی؟

لوگ بپھرے تو بہت، اِس کے سوا کہہ نہ سکے:

ہاں یہ سچ ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی

یہی کیا کم ہے کہ محفوظ ہے عفت اِس کی،

یہی کیا کم ہے کہ اتنا دَم ہے!

۔۔۔۔۔۔۔ ہاں، تقنّن ہو کہ رقت ہو کہ نفرت ہو کہ رحم

محو کرتے ہی چلے جاتے ہیں اک دوسرے کو ہرزہ سراؤں کی طرح!

درمیاں کیف و کمِ جسم کے ہم جھولتے ہیں

اور جذبات کی جنت میں در آ سکتے نہیں!

ہاں وہ جذبات جو باہم کبھی مہجور نہ ہوں

رہیں پیوست جو عشّاق کی باہوں کی طرح

ایسے جذباتِ طرح دار کہاں سے لائیں؟

۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر

اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں

جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے

روبرو فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہے

اِس طرف پستیِ دل برف کے مانند گراں

اُس طرف گرمِ صلا حوصلہ ہے

دل بہ دریا زدن اک سو ہے تو اک سو کیا ہے؟

ایک گرداب کہ ڈوبیں تو کسی کو بھی خبر ہو نہ سکے!

اپنی ہی ذات کی سب مسخرگی ہے گویا؟

اپنے ہونے کی نفی ہے گویا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، فطرت کہ ہمیشہ سے وہ معشوقِ تماشا جُو ہے

جس کے لب پر ہے صدا، تُو جو نہیں، اور سہی،

اور سہی، اور سہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتنے عشّاق سرِ راہ پڑے ہیں گویا

شبِ یک گانہ و سہ گانہ و نُہ گاہ کے بعد

(اپنی ہرسعی کو جو حاصلِ جاوید سمجھتے تھے کبھی!)

اُن کے لب پر نہ تبسّم نہ فغاں ہے باقی!

اُن کی آنکھوں میں فقط سّرِ نہاں ہے باقی!

ہم کہ عشّاق نہیں اور کبھی تھے بھی نہیں

ہمیں کھا جائیں نہ خود اپنے ہی سینوں کے سراب

لیتنی کنت تُراب!

کچھ تو نذرانہ ءِ جاں ہم بھی لائیں

اپنے ہونے کا نشاں ہم بھی لائیں!

ن م راشد

ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے

صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ،

اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !

جسم کے ساحلِ آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا

انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سرِ ریگ تپاں

میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں !

(ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آوازہ بلند!)

دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے

تا ک کی شاخ پر اک قافلہ زنبوروں کا!

تاک کی شاخ بھی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھی!

کیسے زنبور ہمیشہ سے تمنا کے خداؤں کے حضور

سر بسجدہ ہیں ، مگر مشعلِجاں لے کے ہر اک سمت رواں !

جونہی دن نکلے گا اور شہر

جواں میوہ فروشوں کی پکاروں سے چھلک اٹھے گا،

میں بھی ہر سو ترے مژگاں کے سفیروں کی طرح دوڑوں گا!

(دن نکل آیا تو شبنم کی رسالت کی صفیں تہہ ہوں گی

راستے دن کے سیہ جھوٹ سے لد جائیں گے

بھونکنا چھوڑ کے پھر کاٹنے لگ جائیں گے غم کے کتے

اور اس شہر کے دلشاد مسافر، جن پر

ان کے سائے سے بھی لرزہ طاری،

پیکرِ خواب کے مانند سر راہ پلٹ جائیں گے )

رات یوں چاہا مجھے تو نے کہ میں فرد نہیں

بلکہ آزادی کے دیوانوں کا جمگھٹ ہوں میں ؛

رات یوں چاہا تجھے میں نے کہ تو فرد نہ ہو

بلکہ آئندہ ستاروں کا ہجوم۔ ۔ ۔

صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے

اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !

اب بھی اک جسم مرے جسم سے پیوستہ ہے

جیسے اس ریت پہ لیٹے ہوئے انسان کا قالب ہو یہی ۔۔

جسم، میں جس کا قصیدہ خواں ہوں ۔۔۔

دن نکل آئے گا زنبوروں کی سوغات گل و تاک

کی دہلیز پہ رکھی ہو گی،

وہ اٹھا لیں گے اسے چومیں گے

ایسی سوغات گل و تاک پہ کچھ بار نہیں!

انہی زنبوروں کی محنت کے پسینے سے درختوں کو ملی

تاب، کہ رویا دیکھیں

کسی دوشیزہ کا رویا جسے شیرینیِ لب بار ہو

(زیبائی جہاں بھی ہو سلام ۔۔۔

تیرے ہونٹوں کو دوام!)

رات کے باغوں کی خوشبوؤں کو چھو کر آئے،

زیست کی تازہ دمی، ہست کی ندرت لائے،

اُن کے اِک بوسے سے ہر لب میں نمو آئے گی

موت اس شہر سے دزدانہ پلٹ جائے گی

ن م راشد

ہم جسم

در پیش ہمیں

چشم و لب و گوش

کے پیرائے رہے ہیں

کل رات

جو ہم چاند میں

اس سبزے پہ

ان سایوں میں

غزلائے رہے ہیں

کس آس میں

کجلائے رہے ہیں؟

اس میں کو

جو ہم جسموں میں

محبوس ہے

آزاد کریں

کیسے ہم آزاد کریں؟

کون کرے؟ ہم؟

ہم جسم

ہم جسم کہ کل رات

اسی چاند میں

اس سبزے پہ

ان سایوں میں

خود اپنے کو

دہرائے رہے ہیں؟

کچھ روشنیاں

کرتی رہیں ہم سے

وہ سرگوشیاں

جو حرف سے

یا صوت سے

آزاد ہیں

کہہ سکتی ہیں

جو کتنی زبانوں میں

وہی بات، ہر اک رات

سدا جسم

جسے سننے کو

گوشائے رہے ہیں

ہم جسم بھی

کل رات کے

اک لمحے کو

دل بن کے

اسی بات سے

پھر سینوں میں

گرمائے رہے ہیں

اس میں کو

ہم آزاد کریں؟

رنگ کی، خوشبوؤں کی

اس ذات کو

دل بن کے

جسے ہم بھی

ہر اک رات

عزیزائے رہے ہیں؟

یا اپنے توہمات کی

زنجیروں میں

الجھائے رہے ہیں

اس ذات کو

جس ذات کے

ہم سائے رہے ہیں؟

ن م راشد

کیمیا گر

رضا شاہ!

تجھ پر سلام اجنبی کا!

سلام ایک ہندی سپاہی کا تجھ پر!

مجھے تو کہاں دیکھ سکتا ہے؟

تیری نگاہیں تو البرز کے پار اُفق پر لگی ہیں!

یہاں___ میں ترے بت کے نیچے

چمکتی ہوئی سیڑھیوں پر کھڑا ہوں!

سنا ہے کہ اُس انتہائی عقیدت کی خاطر

جو بخشی گئی تھی تجھے اپنی ذاتِ گرامی سے،

تو نے یہ بت

اپنی فرماں روائی میں

یورپ کے مشہور ہیکل تراشوں سے بنوا کے

اس چوک میں نصب کروا دیا تھا!

اسی سے ہویدا ہے یہ بھی

کہ ملت کی احساں شناسی پہ کتنا بھروسہ تھا تجھ کو!

رضا شاہ!

اے داریوش اور سیروس کے جانشیں

یہ قلم رو،

تجھے جس کی تزئین کی لو لگی تھی

جسے تو خدا کی اماں میں بھی دینا گوارا نہ کرتا،

یہی شہر یور کے الم زا حوادث کے بعد

آج قدموں میں تیرے پڑی ہے،

یہ بے جان لاشہ

جسے تین خونخوار کرگس

نئی اور بڑھتی ہوئی آز سے نوچتے جا رہے ہیں!

وطن اور ولی عہد کی والہانہ محبت،

ترے ہوش و فکر و عمل کے لیے،

کون سی چیز مہمیز کا کام دیتی تھی،

سب جانتے ہیں!

مگر تو وہ معما تھا جس کو

بنیاد سے کوئی مطلب نہ تھا

وہ تو زخموں کو آنکھوں سے روپوش کرنے میں،

چھت اور دیوار و در کی منبّت پہ گلگو نہ ملنے میں

دن رات بے انتہا تندہی سے لگا تھا!

یہ مشہور ہے

تو نے اک روز نادر کی تربت پہ جا کر

کہا تھا:

کہ نادر میں سب خوبیاں تھیں

مگر پیٹ کا اتنا ہلکا

کہ لوگ اس کے مقصود کو بھانپ لیتے!

یہ سچ ہے کہ نادر اگر نیم شب

صبح کے وحشت افزا ارادے کو ا فشا نہ کرنا

تو یوں قتل ہونے کی نوبت نہ آتی!

مگر وہ تری حد سے گزری ہوئی رازداری

کہ جس نے تجھے

اپنے افکار کے قید خانے میں

محصور سا کر دیا تھا،

____وہ زنداں جہاں گھوم پھر کر نگاہیں

فقط اپنا چہرہ دکھاتی تھیں تجھ کو

جہاں ہر عقیدے کو تو

اپنے الہام کے شیشہ ءِ کور میں دیکھتا تھا،

جہاں ایک چھوٹا سا روزن بھی ایسا نہ تھا،

جس میں ملت کے افکار کی ایک کرن کا گزر ہو!

اسی کا نتیجہ، کہ اک روز

کہنے کو باتیں بہت تھیں

مگر سننے والے کہیں بھی نہ تھے،

اور تجھے بھی تو کر ہو گئے تھے!

تجھے اس زمیں سے گئے دو برس ہو چکے ہیں

تری یاد تک مٹ چکی ہے دلوں سے

کبھی یاد کرتا ہے کوئی تو کہتا ہے،

وہ کیمیا گر

جو کرتا رہا سب سے وعدے

کہ لاؤں گا سونا بنا کر

مگر شہریوں کے مس و سیم تک

لے کے چلتا بنا؟

یہ طہران جو تیرے خوابوں میں

پاریس کا نقشِ ثانی تھا،

یوں تو یہاں رہگزاروں میں

بہتا ہے ہر شام سیما فروشوں کا سیلاب جاری،

یہاں رقص گاہوں میں اب بھی

بہت جھلملاتی ہیں محفل کی شمعیں،

یہاں رقص سے چور یا جام و بادہ سے مخمور ہو کر

وطن کے پجاری

بآہنگِ سنتور و تار و دف و نَے

لگاتے ہیں مل کر

وطن! اے وطن! کی صدائیں!

مگر کون جانے یہ کس کا وطن ہے؟

کہ پاریس بھی آج اُس کا ہیولا ہے بے چارگی میں

کہ اُس پر فقط برقِ خرمن گری تھی

اسے شعلہ ہائے نیستاں نگلتے چلے جا رہے ہیں!

ن م راشد

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

لب بیاباں، بوسے بے جاں

کونسی الجھن کو سلجھاتے ھیں ہم؟

جسم کی یہ کار گاہیں

جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم!

نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے

کہ جیسے دزدِ شبِ گرداں کوئی!

شام سے تھے حسرتوں کے بندہ بے دام ہم

پی رھے تھے جام پر ہر جام ہم

یہ سمجھ کر، جرعہِپنہاں کوئی

شائد آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے

مطلب آساں، حرف بے معنی

تبسّم کے حسابی زاو یے

متن کے سب حاشیے،

جن سے عیش خام کے نقش ریا بنتے رہے!

اور آخر بعُد جسموں میں سر مو بھی نہ تھا

جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے

قرب چشم و گوش سے ہم کونسی الجھن کو سلجھاتے رہے!

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم!

زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو

یا زوال عمر کا دیو سبک پا رو برو

یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

ن م راشد