مہتاب خاں

شام کو میں گھر بیٹھا اپنی بچیوں سے کھیل رہا تھا کہ دوست طاہر صاحب بڑی افرا تفری میں آئے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ نے مینٹل پیس پر سے میرا فونٹین پن اُٹھا کر میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا کہ ہسپتال میں کسی ڈاکٹر کے نام ایک چٹ لکھ دیجیے۔ ‘‘

مجھے کچھ پوچھنے کی فرصت بھی نہ دی گئی اور میں نے ایک ڈاکٹر کے نام رقعہ لکھنا شروع کر دیا۔ مضمون طاہر صاحب نے لکھوایا جس کا مطلب یہ تھا کہ حامل رقعہ خطرناک طور پر علیل ہے اس لیے اسے فوراً ہسپتال میں داخل کر لیا جائے۔ مجھ سے جو لکھوایا گیا۔ میں نے لکھ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد طاہر صاحب پھر تشریف لائے۔ مجھے تشویش تھی کہ جس مریض کی میں نے سفارش کی ہے وہ ہسپتال میں داخل ہوسکا ہے یا نہیں لیکن وہ بڑے مطمئن تھے۔ میرے دریافت کرنے پر انھوں نے کہا

’’جہنم میں جائے۔ میں نے آپ کی چٹ اُس کے لواحقین کو دے دی ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر میں خاموش ہو گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد ان سے پوچھا کہ

’’یہ مہتاب خاں کون ہیں جن کو ہسپتال میں داخل کرانے کے لیے آپ اتنے بے تاب تھے؟‘‘

طاہر صاحب مسکرائے

’’اوّل درجے کا حرامی ہے‘‘

اگر مہتاب خاں تیسرے درجے کا حرامی بھی ہوتا تو کیا فرق پڑتا لیکن مجھے اس سے فوراً دلچسپی پیدا ہو گئی چنانچہ میں نے اپنے دوست سے پوچھا

’’اسے عارضہ کیا تھا؟‘‘

طاہر صاحب نے جواب دیا

’’عشق کا‘‘

اس کے بعد اُنھوں نے خلاف معمول باتونی ہو کر مہتاب خاں کی داستان عشق سنانا شروع کر دی۔ آپ نے بتایا کہ مہتاب خاں کی عمر اٹھارہ اُنیس برس کے قریب ہے۔ جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے پٹھان ہے کافی ہٹا کٹا۔ مگر اس کی دونوں انکھوں میں لاسالگا ہوا ہے۔ چوبرجی کے قریب اس کے بڑے بھائی کی چائے کی دکان ہے جہاں اُس سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ طاہر صاحب نے اُس نوجوان کے متعلق مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا۔

’’منٹو صاحب یہ شخص عجیب و غریب ہے۔ مزاج اس قدر عاشقانہ ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ہر وقت اپنے بھائی کے ہوٹل کے چولھے میں پنکھے سے کوئلے سلگاتا رہتاتھا مگر بازار میں ہر آنے جانے والی لڑکی کو ایسی نظروں سے دیکھتا کہ وہ اس پر اگر اُسی وقت نہیں تو تھوڑے عرصے میں ضرور عاشق ہو جائے گی اوربہت ممکن ہے گھر میں جا کر خودکشی کر لے‘‘

اس تمہید کے بعد طاہر صاحب نے مجھے بتایا کہ مہتاب خاں ہوٹل سے باہر لوگوں کے لیے چائے لے جایا کرتا تھا ایک دن اُسے اسکول کی ایک استانی نے جو فزیکل انسٹرکٹرس تھی اور ہوٹل کے پاس ہی رہتی تھی چائے کی ٹرے لانے کے لیے کہا۔ اُس کے ہاں پہنچتے ہی وہ اس لڑکی پر عاشق ہو گیا لیکن مہتاب خاں کا بیان اس سے جدا ہے۔ اس نے طاہر صاحب اور اُن کے دوستوں سے ٹھیٹ پٹھانی لہجے میں کہا۔

’’خو وہ رن جو اسکول میں پڑھاتی ہے، مجھے دیکھتے ہی گرم ہو گئی۔ خوام خربرو ہے جواں ہے۔ دیکھو اب کیا ہو۔ جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ ‘‘

اُس کی جان کے لالے پڑے۔ وہ یوں کہ اس نے اپنے بھائی کے ہوٹل کے گلے سے پچاس روپے اڑا لیے اور کسی اور ہوٹل میں ٹھاٹ سے بیٹھ کر اپنے دوستوں کو یہ بات سنائی کہ مس مراد ( یہ اس لڑکی کا نام ہے ) بہت بڑی پیلے رنگ کی موٹر میں انار کلی سے گزر رہی تھی وہ ایک دکان پر کھڑا نسوار لے رہا تھا کہ عین اُس کے قریب اپنی موٹر رکوائی۔ باہر نکل کر سر بازار اُس سے ہاتھ ملایا اور اپنے پرس سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر اُس کو دیئے اور یہ جا وہ جا۔ مہتاب خاں کا بیان تھا کہ جب مس مراد نے اُس سے ہاتھ ملایا تو وہ محبت کے شدید جذبے سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اُسی رات جب مہتاب خاں چوری کے پچاس روپے، کچھ ہوٹلوں میں باقی کے ہیرا منڈی میں خرچ کر چکا تھا اس کے بڑے بھائی نے جانے کس جگہ اُس کی گردن ناپی اور ایسے زور سے ناپی کہ وہ دو دن تک بِلبلاتا رہا لیکن اُس نے کسی پر یہ ظاہر نہ کیا ( حالانکہ حقیقت کا علم ہوٹل میں ہر آنے جانے والے کو تھا ) کہ اُس نے روپے چرائے تھے۔ وہ برابر یہی کہتا رہا کہ اُس کی جوانی اور اس کے حسن سے متاثر ہو کر وہ اُسے روپے دیتی رہتی ہے۔ دوسری مرتبہ اُس نے ساتھ والے دکاندار کے سو روپے چرائے اور انارکلی کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے دوستوں سے کہا کہ مس مراد نے اُسے یہ رقم عیش کرنے کے لیے دی ہے۔ وہ بہت مرعوب ہوئے لیکن دوسرے روز مہتاب خاں پکڑا گیا۔ چند روز حوالات میں رہا پھر مقدمہ چلا چونکہ ثبوت کوئی نہ تھا اس لیے بری ہو گیا۔ اس حادثے کے بعد مس مراد کا اس سے عشق اور زیادہ بڑھ گیا بلکہ یوں کہیے کہ اب وہ اپنی روایتی عاشقانہ بے اعتنائی ترک کر کے اس کو ہر وقت یاد کرنے لگا۔ چولھا سلگاتے وقت یا صبح کو جھاڑو دیتے ہوئے وہ مس مراد کا نام لیتا۔ خومس مُراد۔ تو ہی اماری مراد پوری کرے گی۔ اب اُس نے روپے پیسے کا سرقہ بند کر دیا، لیکن مکھن کی چوری شروع کر دی ہر روز وہ اپنے بھائی کے ہوٹل سے کم از کم مکھن کی دو ٹکیاں اڑالیتا آس پاس کے جو اور ہوٹل تھے ان سے بھی وہ صرف مکھن ہی چراتا اور کھاتا تھا۔ ہر روز اس قدر مکھن کھانے کا یہ اثر ہوا کہ مہتاب خاں اچھا خاصا ڈیری فارم بن گیا۔ اُس کے بدن سے اُس کے منہ سے اس کے لباس سے مکھن ہی کی بو آنے لگی۔ وہ اپنی صحت بنا رہا تھا اس کا یہ کہنا تھا کہ ہر عورت صحت اور جوانی پر مرتی ہے لیکن طاہر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ ہر مکھن چور ٗ کرشن کنہیا نہیں بن سکتا ٗ اس کی آنکھیں ویسی کی ویسی چُنھی تھیں۔ اب کچھ مس مراد کے متعلق سُن لیجیے۔ طاہر صاحب نے جب ان کے حدوداربعے کے متعلق اِدھر اُدھر پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ اس کی ماں بھنگن ہے اور ابھی تک کوٹھے کماتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں لوگوں کا بول و براز اٹھاتی ہے۔ چونکہ وہ اور اس کا خاوند عیسائی ہو گئے تھے اس لیے اُن کی لڑکی مس مراد نے تھوڑی سی تعلیم حاصل کی اور ایک اسکول میں فزیکل انسٹرکٹرس ہو گئی۔ خوش شکل تھی اس لیے اس کے کئی چاہنے والے پیدا ہو گئے جو اُس کی تمام آسائشوں کا خیال رکھتے تھے۔ مہتاب خان اُس کے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ ہوٹل میں کوئلے جلاتا اور آہیں بھرتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے یارو دوستوں سے باتیں کرتا تو بڑے فخر سے اس بات کا اعلان کرتا کہ مس مراد اُس پر بہت بری طرح مرتی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ مس مراد جو بے شمار عاشقوں کے درمیان گھری رہتی تھی اس کو مہتاب خاں کی موجودگی کا علم ہی کیا ہوسکتا تھا۔ اس کے علاوہ اس بے چارے کی حقیقت ہی کیا تھی۔ ایک دن مہتاب چائے کی ٹرے کر مس مراد کے یہاں گیا۔ جس جگہ وہ رہتی تھی وہاں ایک چھوٹا سا باغ تھا۔ اس میں لوکاٹ کے بوٹے تھے۔ مہتاب کو یہ پھل بے حد پسند تھے۔ معلوم نہیں کیوں۔ ٹرے لے کر اندر گیا تو وہاں مس مراد کے دوست احباب بیٹھے لوکاٹیں کھا رہے تھے۔ مس مراد نے اسے چار پانچ دانے شاید اس لیے دئیے کہ موسم کا پہلا میوہ تھا۔ وہ خوش ہوا۔ واپس ہوٹل آیا تو اُس کا بڑا بھائی لوکاٹیں کھا رہا تھا۔ جو مس مراد کی دی ہوئی لوکاٹوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی اور رسیلی تھی لیکن مہتاب یہ ماننے سے منکر تھا۔ قریب قریب چخ ہو گئی۔ اس کے بڑے بھائی نے تاؤ میں آ کر کہا: اگر تمھیں اپنی مس مراد کی لوکاٹیں پسند ہیں اور جیسا کہ تم کہتے ہو وہ تم پر مرتی ہے تو ایک بوٹا وہاں سے لے آؤ اور ہوٹل کے سامنے لگا دو‘‘

رات بھر مہتاب خاں غائب رہا۔ اُس کے دوستوں کا خیال تھا کہ مس مراد نے بلالیا ہو گا۔ اُس نے سوپچاس روپے بھیج دئیے ہوں گے۔ جس سے عیاشی کر رہا ہو گا۔ مگر صبح سڑک پر آنے جانے والے یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ اُس کے ہوٹل کے ساتھ جہاں ایک گڑھا تھا۔ لوکاٹ کا درخت لگا ہوا ہے۔ یہ اُس نے رات رات، وہاں سے جہاں مس مراد رہتی تھی اکھاڑا تھا۔ معلوم نہیں کتنی مشقت کرنی پڑی ہو گی اسے۔ اپنے دوستوں سے مگر اُس نے یہی کہا کہ مس مراد نے اُسے یہ بوٹا خود اپنے ہاتھوں سے عنایت کیا ہے اس لیے کہ وہ اس پر سوجان سے فریفتہ ہے۔ یہ بُوٹا چند دنوں کے اندر مرجھا گیا، لیکن اس کا چرچا کافی دیر تک رہا۔ طاہر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ وہ مہتاب خاں کی اس مداری پُنے سے خاصے متاثر ہوئے تھے، لیکن انھوں نے جب اپنی روایتی محکم پسندی سے کام لیتے ہوئے مہتاب سے کہا:

’’تم بکواس کرتے ہو۔ ذرا آئینے میں اپنی شکل دیکھو، مس مراد کیا، تمھیں ایک ٹکھیائی بھی کبھی منہ نہیں لگا سکتی۔ ‘‘

یہ سُن کر اُس نے اپنا مکھن کھایا ہوا سینہ تان کر جواب دیا۔

’’خو۔ تم کیسا بات کرتا ہے۔ خو تم نے وہ فلم نہیں دیکھا۔ نام تھا پر کھائیں۔ نہیں، پرچھائیں۔ خو، اُس میں ایک خوبرو لڑکی، ایک اندھے سے محبت کرتی تھی۔ ام اندھا نہیں ہے۔ آنکھیں توڑی سی خراب ہیں۔ پر اس سے کیا ہوا۔ مس مراد ام سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘

جیسا کہ طاہر صاحب کا کہنا ہے، یار لوگوں کی مہربانی سے مس مراد تک آخر یہ بات پہنچ گئی کہ مہتاب خاں، جس کی آنکھ میں پھولے ہیں اس سے بے پناہ عشق کرتا ہے۔ اس کا ردِ عمل خلاف توقع یہ ہوا کہ وہ اپنا مکان چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی اس لیے کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے دوسرے چاہنے والے جو مہتاب کے مقابلے میں، آنکھوں کے نہیں عقل کے اندھے تھے، اس کے ہاں آنا جانا چھوڑ دیں۔ جب مہتاب کو معلوم ہوا کہ مس مراد چلی گئی ہے تو اس کو اس قدر صدمہ ہوا کہ اس روز اس نے ہوٹل میں جتنی مکھن کی ٹکیاں تھیں سب کھا لیں۔ اس کے بعد اس کا غم جب اور زیادہ بڑھا تو مکھن کھانے کی مقدار بڑھ گئی۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس کی توند بڑھ گئی۔ بڑا کاہل ہو گیا۔ چولھے میں کوئلے سلگاتے سلگاتے اونگھنے لگتا۔ بعض اوقات ایسی باتیں کرنا شروع کر دیتا کہ لوگوں کو یہ احساس ہوتا کہ وہ ماؤف الدماغ ہو گیا ہے۔ طاہر صاحب کا یہ کہنا ہے کہ اُسے ہوا ہوایا کچھ نہیں تھا۔ کشمیریوں کی زبان میں محض

’’ڈام‘‘

لگاتا تھا۔ جب کچھ دن گزرے تو اس نے شعر کہنے شروع کر دئیے مگر یہ شعر اُس کی اپنی تخلیق نہیں ہوتے تھے۔ اِدھر اُدھر فلمی گانوں کے بول توڑ مروڑ کر گنگنا دیتا، جس سے سننے والوں پر یہ واضح ہو جائے کہ وہ جذب کی حالت تک پہنچ چکا ہے، یا بہت جلد پہنچنے والا ہے۔ اُس کا ایک شعر طاہر صاحب کو یاد تھا جو اُنھوں نے مجھے سُنا دیا۔ ؂ دو دلوں کو یہ دنیا جینے ہی نہیں دیتی میری پھٹی شلوار کو سینے ہی نہیں دیتی اُس کی شلوار جو کافی گھیرے دار تھی، یوں تو ہمیشہ پھٹی رہتی، پر جب سے اُس کی مس مراد آنکھوں سے اوجھل ہوئی تو وہ بالکل لیر لیر ہو گئی لیکن اُس کی مکھن خوری دن بدن بڑھتی گئی۔ اس کا چہرہ اور زیادہ سرخ ہو گیا۔ ایک دن طاہر صاحب نے اُس سے کہا۔

’’تمہاری رگوں میں اتنا خون جمع ہو گیا ہے۔ کیوں نہیں اس میں چند اونس بلڈ بنک میں دے دیتے۔ ‘‘

وہ فوراً مان گیا۔ ڈاکٹروں نے اُس کا خون لیا جو بڑا صحت مند تھا۔ اُس کے بعد وہ ایک مرتبہ اور ہسپتال گیا۔ اُس کا خون لینے کے لیے سب ڈاکٹر ہر وقت تیار تھے۔ ایک مرتبہ اُسے خاص طور پر بُلایا گیا کہ اُس کے تازہ تازہ خون کی ضرورت تھی۔ جب وہ ہسپتال پہنچا تو اُسے معلوم ہوا کہ ایک مریض کے لیے اُس کے خون کی ضرورت ہے۔ اُسے کوئی عذر نہیں تھا۔ جب اسے فی میل وارڈ میں لے جایا گیا اور اُس کا خون مریض کے اندر داخل ہونے کا اہتمام کیا گیا تو اُس نے بستر پر دیکھا کہ مس مراد نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی ہے۔ مہتاب خاں کو معاً خیال آیا کہ شاید اسے چائے لانے کے لیے بُلایا گیا ہے۔ چنانچہ اُس نے خود کو خالی ہاتھ محسوس کیا۔ لیکن جب اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے میز پر لٹایا گیا اور اُس کے خون کے کئی اونس مس مراد کے جسم میں داخل کیے گئے تو وہ کسی قسم کی نقاہت محسوس کیے بغیر اٹھا اور کہنے لگا

’’خو، یہ امارا بہن ہے۔ اَم چلا۔

سعادت حسن منٹو

موم بتی کے آنسو

غلیظ طاق پر جو شکستہ دیوار میں بنا تھا۔ موم بتی ساری رات روتی رہی تھی۔ موم پگھل گھل کر کمرے کے گیلے فرش پر اوس کے ٹھٹھرے ہوئے دھندلے قطروں کے مانند بکھر رہا تھا۔ ننھی لاجو موتیوں کا ہار لینے پر ضد کرنے اور رونے لگی۔ تو اس کی ماں نے موم بتی کے ان جمے ہوئے آنسوؤں کو ایک کچے دھاگے میں پرو کر اس کا ہار بنا دیا۔ ننھی لاجو اس ہار کو پہن کر خوش ہو گئی۔ اور تالیاں بجاتی ہوئی باہر چلی گئی۔ رات آئی۔ میل بھرے طاقچے میں نئی موم بتی روشن ہوئی اور اس کی کانی کانی آنکھ اس کمرے کی تاریکی دیکھ کر ایک لمحے کے لیے حیرت کے باعث چمک اٹھی۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد جب وہ اس ماحول کی عادی ہو گئی۔ تو اس نے خاموشی سے ٹکٹکی باندھ کر اپنے گردوپیش کو دیکھنا شروع کردیا۔ ننھی لاجو ایک چھوٹی سی کھٹیا پر پڑی سو رہی تھی۔ اور خواب میں اپنی سہیلی بندوسے لڑ رہی تھی کہ وہ اپنی گڑیا کا بیاہ اس کے گڈے سے کبھی نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ وہ بدصورت ہے۔ ‘‘

لاجو کی ماں کھڑکی کے ساتھ لگی، خاموش اور نیم روشن سڑک پر پھیلی ہوئی کیچڑ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی، سامنے بھٹیارے کی بند دکان کے باہر چبوترے پر انگیٹھی میں سے کوئلوں کی چنگاریاں ضدی بچوں کی طرح مچل مچل کر نیچے گر رہی تھیں۔ گھنٹہ گھر نے غنودگی میں بارہ بجائے، بارہ کی آخری پکار دسمبر کی سرد رات میں تھوڑی دیر تک کانپتی رہی اور پھر خاموشی کا لحاف اوڑھ کر سو گئی۔ لاجو کی ماں کے کانوں میں نیند کا بڑا سہانا پیغام گنگنایا۔ مگر اس کی انتڑیاں اس کے دماغ تک کوئی اور بات پہنچا چکی تھیں۔ دفعتہً سرد ہوا کے جھونکے سے گھنگھرؤں کی مدھم جھنجھناہٹ اس کے کانوں تک پہنچی۔ اس نے یہ آواز اچھی طرح سننے کے لیے کانوں میں اپنی سماعت کی طاقت بھرنی شروع کردی۔ گھنگھرو رات کی خاموشی میں مرتے ہوتے آدمی کے حلق میں اٹکے ہوئے سانس کی طرح بجنا شروع ہو گئے، لاجو کی ماں اطمینان سے بیٹھ گئی۔ گھوڑے کی تھکی ہوئی ہنہناہٹ نے رات کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کردیا۔ اور ایک تانگہ لالٹین کے کھمبے کی بغل میں آکھڑا ہوا۔ تانگہ والا نیچے اترا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر تھپکی دے کر اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ جس کی چِق اٹھی ہوئی تھی۔ اور تخت پر ایک دھندلا سایہ بھی پھیلا تھا۔ اپنے کھردرے کمبل کو جسم کے گرد اچھی طرح لپیٹ کر تانگے والے نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ساڑھے تین روپے کا کریانہ تھا۔ اس میں اس نے ایک روپیہ چار آنے اپنے پاس رکھ لیے۔ اور باقی پیسے تانگے کی اگلی نشست کا گدا اٹھا کر اس کے نیچے چھپا دیے یہ کام کرنے کے بعد وہ کوٹھے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ لاجو کی ماں چندو سنیاری اٹھی اور دروازہ کھول دیا۔ مادھو تانگے والا اندر داخل ہوا اور دروازے کی زنجیر چڑھا کر اس نے چندو سنیاری کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔

’’بھگوان جانتا ہے، مجھے تجھ سے کتنا پریم ہے۔ اگر جوانی میں ملاقات ہوتی تو یاروں کا تانگہ گھوڑا ضرور بکتا!‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک روپیہ اس کی ہتھیلی میں دبا دیا۔ چندو سنیاری نے پوچھا۔

’’بس؟‘‘

’’یہ لے۔ اور‘‘

مادھو نے چاندی کی چونی اس کی دوسری ہتھیلی پر جما دی۔

’’تیری جان کی قسم! بس یہی کچھ تھا میرے پاس!‘‘

رات کی سردی میں گھوڑا بازار میں کھڑا ہنہناتا رہا۔ لالٹین کا کھمبا ویسے ہی اونگھتا رہا۔ سامنے ٹوٹے ہوئے پلنگ پر مادھو بیہوش لیٹا تھا۔ اس کی بغل میں چندو سنیاری آنکھیں کھولے پڑی تھی اور پگھلتے ہوئے موم کے ان قطروں کو دیکھ رہی تھی جو گیلے فرش پرگر کر چھوٹے چھوٹے دانوں کی صورت میں جم رہے تھے۔ وہ ایکا ایکی دیوانہ وار اٹھی اور لاجو کی کھٹیا کے پاس بیٹھ گئی۔ ننھی لاجو کے سینے پر موم کے دانے دھڑک رہے تھے۔ چندو سنیاری کی دھندلی آنکھوں کو ایسا معلوم ہوا کہ موم بتی کے ان جمے ہوئے قطروں میں اس کی ننھی لاجو کی جوانی کے آنسو چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس کا کانپتا ہوا ہاتھ بڑھا اور لاجو کے گلے سے وہ ہار جدا ہو گیا۔ پگھلے ہوئے موم پر سے موم بتی کا جلتا ہوا دھاگا پھسل کر نیچے فرش پرگرا اور اس کی آغوش میں سو گیا۔ کمرے میں خاموشی کے علاوہ اندھیرا بھی چھا گیا۔

سعادت حسن منٹو

موسم کی شرارت

شام کو سیر کے لیے نکلا اور ٹہلتا ٹہلتا اُس سڑک پر ہو لیا جو کشمیر کی طرف جاتی ہے۔ سڑک کے چاروں طرف چیڑ اور دیودار کے درخت، اونچی اونچی پہاڑیوں کے دامن پر کالے فیتے کی طرح پھیلے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی ہوا کے جھونکے اس فیتے میں ایک کپکپاہٹ سی پیدا کر دیتے۔ میرے دائیں ہاتھ ایک اُونچا ٹیلہ تھا جس کے ڈھلوانوں میں گندم کے ہرے پودے نہایت ہی مدھم سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے یہ سرسراہٹ کانوں پر بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ آنکھیں بند کر لو تو یوں معلوم ہوتا کہ تصور کے گدگدے قالینوں پر کئی کنواریاں ریشمی ساڑھیاں پہنے چل پھر رہی ہیں۔ ان ڈھلوانوں کے بہت اوپر چیڑ کے اونچے درختوں کا ایک ہجوم تھا۔ بائیں طرف سڑک کے بہت نیچے ایک چھوٹا سا مکان تھا جس کو جھاڑیوں نے گھیر رکھا تھا اس سے کچھ فاصلے پر پست قد جھونپڑے تھے۔ جیسے کسی حسین چہرے پر تل۔ ہوا گیلی اور پہاڑی گھاس کی بھینی بھینی باس سے لدی ہوئی تھی۔ مجھے اس سیر میں ایک ناقابلِ بیان لذت محسوس ہو رہی تھی۔ سامنے ٹیلے پر دو بکریاں بڑے پیار سے ایک دوسری کو اپنے ننھے ننھے سینگوں سے ریل رہی تھیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر کُتے کا ایک پلّا جو کہ جسامت میں میرے بوٹ کے برابر تھا۔ ایک بھاری بھرکم بھینس کی ٹانگ سے لپٹ لپٹ کر اُسے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ شاید بھونکتا بھی تھا۔ کیونکہ اُس کا منہ بار بار کھلتا تھا۔ مگر اُس کی آواز میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھی۔ میں یہ تماشا دیکھنے کے لیے ٹھہر گیا کتے کا پلّا دیر تک بھینس کی ٹانگوں پر اپنے پنجے مارتا رہا۔ مگر اس کی ان دھمکیوں کا اثر نہ ہوا۔ جواب میں بھینس نے دو تین مرتبہ اپنی دم ہلا دی اور بس!۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایکا ایکی جب کہ پلّاحملے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ بھینس نے زور سے اپنی دم ہلائی۔ کسی سیاہ سی چیز کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ اس انداز سے اُچھلا کہ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ میں ان کو چھوڑ کر آگے بڑھا۔ آسمان پر بادل کے سفید ٹکڑے پھیلے ہُوئے بادبان معلوم ہوتے تھے۔ جن کو ہوا ادھر سے اُدھر دھکیل رہی تھی۔ سامنے پہاڑ کی چوٹی پر ایک قد آور درخت سنتری کی طرح اکڑا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے بادل کا ایک ٹکڑا جھوم رہا تھا۔ بادل یہ دراز قد درخت اور پہاڑی۔۔۔۔۔۔۔ تینوں مل کر بہت بڑے جہاز کا منظر پیش کر رہے تھے۔ میں نیچر کی اس تصویر کشی کو بے خود ہو کر دیکھ رہا تھا کہ دفعتاً لاری کے ہارن نے مجھے چونکا دیا۔ خیالوں کی دنیا سے اتر کر میں آوازوں کی دنیا میں آ گیا۔ من کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ مساموں کے سارے کان کھل گئے۔ میں فوراً سڑک کے ایک طرف ہٹ گیا۔ لاری پر کار کی طرح بڑی تیزی سے موڑ کے نصف دائرے پرگھومی اور ہوا ہوئی میرے پاس سے گزر گئی۔ ایک اور لاری گزرنے پر موڑ کے عقب میں پانچ چھ گائیں نمودار ہوئیں۔ جو سر لٹکائے ہولے ہولے چل رہی تھیں۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا جب یہ میرے آگے سے گزر گئیں تو میں نے قدم اٹھایا اور موڑ کی جانب بڑھا۔ چند گزوں کا فاصلہ طے کرنے پر جب میں سڑک کے بائیں ہاتھ والے ٹیلے کے ایک بہت بڑے پتھر کے آگے سے نکل گیا۔ جو موڑ پر سنگین پردے کا کام دے کر سڑک کے دوسرے حصّے کو بالکل اوجھل کیے ہوئے تھا۔ تو دفعتاً میری نظریں ایک خود رو پودے سے دو چار ہوئیں۔ وہ جوان تھی، اُس گائے کی طرح جوان، جس کے پٹھے جوانی کے جوش سے پھڑک رہے تھے۔ اور جو اس کے پاس سے اپنے اندر ہزاروں کپکپاہٹیں لیے گزر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ میں ٹھہر گیا۔ وہ ایک ننھے سے بچھڑے کو ہانک رہی تھی۔ دو تین قدم چل کر بچھڑا ٹھہر گیا اور اپنی جگہ پر ایسا جما کہ ہلنے کا نام نہ لیا۔ لڑکی نے بہتیرا زور لگایا۔ لاکھ جتن کیے وہ ایک قدم آگے نہ بڑھا اور کان سمیٹ کر ایسا خاموش ہوا۔ گویا وہ کسی کی آواز ہی نہیں سنتا۔ یہ تیور دیکھ لڑکی نے اپنی چھڑی سے کام لینا چاہا۔ مگر چیڑ کی پتلی سی ٹہنی کار آمد ثابت نہ ہُوئی۔ تھک ہار کر اس نے بڑی مایوسی اور انتہائی غصّے کی ملی جُلی حالت میں اپنے دونوں پاؤں زمین پر زور سے مارے اور کاندھوں کو جنبش دے کر اس انداز سے کھڑی ہو گئی۔ گویا اس حیوان سے کہنا چاہتی ہے۔

’’لو اب ہم بھی یہاں سے ایک انچ نہ ہلیں گے۔ میں ابھی لڑکی کی اس پیاری حرکت کا مزا لینے کی خاطر ذہن میں دُہرانے ہی والا تھا کہ دفعتاً بچھڑا خود بخود اُٹھ بھاگا۔ وہ اُس تیزی کے ساتھ دوڑ رہا تھا کہ اس کی کمزور ٹانگیں میز کے ڈھیلے پایوں کی طرح لڑکھڑا رہی تھیں۔ لڑکی بچھڑے کی اس شرارت پر بہت متحیّر اور خشمناک ہُوئی۔ نہ جانے میں کیوں خوش ہُوا کہ اسی اثنا میں اُس نے میری طرف دیکھا اور میں نے اس کی طرف ہم دونوں بیک وقت ہنس پڑے۔ فضا پر تاروں کا چھڑکاؤ سا ہو گیا۔ یہ سب کچھ ایک لمحے کے اندر اندر ہوا۔ اُس نے پھر میری طرف دیکھا۔ مگر اس دفعہ سوال کرنے والی لاج بھری آنکھوں سے۔۔۔۔۔۔ شاید اس کو اب اس بات کا احساس ہوا تھا کہ اس کی مسکراہٹ کسی غیر مرد کے تبسم سے جا ٹکرائی ہے۔ وہ گہرے سبز رنگ کا ڈوپٹہ اوڑھے ہُوئے تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آس پاس کی ہریاول نے اپنی سبزی اُسی سے مستعار لی ہے۔ اس کی شلوار بھی اسی رنگ کی تھی۔ اگر وہ کُرتہ بھی اُسی رنگ کا پہنے ہوتی۔ تو دور سے دیکھنے والے یہی سمجھتے کہ سڑک کے درمیان ایک چھوٹا سا درخت اُگ رہا ہے۔ ہوا کے ملائم جھونکے اس کے سبز دوپٹے میں بڑی پیاری لہریں پیدا کر رہے تھے خود کو بیکار کھڑی دیکھ کر اور مجھ کو اپنی طرف گھورتے پا کر وہ بے چین سی ہو گئی۔ اور ادھر اُدھر یونہی دیکھا کہ جیسے کسی کا انتظار کر رہی ہے۔ پھر اپنے دوپٹے کو سنوار کر اُس نے اُس طرف کا رُخ کیا۔ جدھر گائیں آہستہ آہستہ جا رہی تھیں۔ میں اس سے کچھ فاصلے پر بائیں ہاتھ پتھروں کے پاس کھڑا تھا۔ جو سڑک کے کنارے کنارے دیوار کی شکل میں چُنے ہوئے تھے۔ جب وہ میرے قریب آئی۔ تو غیر ارادی طور پر اُس نے میری طرف نگاہیں اُٹھائیں لیکن فوراً سر کو جھٹک کر نیچے جھکا لیں۔ کولھے مٹکاتی اور چھڑی ہلاتی میرے پاس سے یوں گزری۔ جیسے کبھی کبھی میرا اپنا خیال میرے ذہن سے اپنا کاندھا رگڑ کر گزر جایا کرتا ہے۔ اس کے سلیپر جو غالباً اُس کے پاؤں میں کھُلے تھے۔ سڑک پر گھسٹنے سے شور پیدا کر رہے تھے۔ تھوڑی دور جا کر اُس نے اپنے قدم تیز کیے اور پھر دوڑنا شروع کر دیا۔ بیس پچیس گز کے فاصلے پر وہ پتھروں سے چُنی ہُوئی دیوار پر پھُرتی سے چڑھی اور مجھے ایک نظر دیکھ کر دوسری طرف کود گئی۔ پھر دوڑ کر ایک جھونپڑے پر چڑھ کر منڈیر پر بیٹھ گئی۔ اس کی یہ حرکات۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔ میری طرف اُس کا تین بار دیکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اُس کی مسکراہٹ کے ساتھ میرے تبسّم کے کچھ ذرے تو نہیں چمٹ گئے تھے۔ اس خیال نے میری نبض کی دھڑکن تیز کر دی۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے تھکاوٹ سی محسوس ہونے لگی۔ میرے پیچھے جھاڑیوں میں جنگل کے پنچھی گیت برسا رہے تھے۔ ہوا میں کھُلی ہوئی موسیقی مجھے کس قدر پیاری معلوم ہوئی۔ نہ جانے میں کتنے گھونٹ اس راگ ملی ہوئی ہوا کے غٹاغٹ پی گیا۔ جھونپڑے سے کچھ دُور جھاڑیوں کے پاس لڑکی کی گائیں گھاس چر رہی تھیں۔ ان سے پرے پتھریلی پگڈنڈی پر ایک کشمیری مزدور گھاس کا گٹھا کمر پر لادے اوپر چڑھ رہا تھا۔ دُور۔۔۔۔۔۔ بہت دُور ایک ٹیلے سے دُھواں بل کھاتا ہوا آسمان کی نیلاہٹ میں گھل مِل رہا تھا۔ میرے گردوپیش پہاڑیوں کی بلندیوں پر ہرے ہرے چیڑوں اور سانولے پتھروں کے چوڑے چکلے سینوں پر ڈُوبتے سورج کی زریں کرنیں سیاہ اور سنہرے رنگ کے مخلوط سائے بکھیر رہی تھیں کتنا سُندر اور سہانا سماں تھا۔ میں نے اپنے آپ کو عظیم الشان محبت میں گھِرا ہوا پایا۔ وہ جوان تھی۔ اُس کی ناک اس پنسل کی طرح سیدھی اور ستواں تھی جس سے میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ میں نے اُس جیسی آنکھیں بہت کم دیکھی ہیں اس پہاڑی علاقے کی ساری گہرائیاں ان میں سمٹ کر رہ گئی تھیں۔ پلکیں گھنی اور لمبی تھیں۔ جب وہ میرے پاس سے گزری تھی تو دھوپ کی ایک لرزاں شعاع اس کی پلکوں میں الجھ گئی تھی۔ اس کا سینہ مضبوط اور کشادہ تھا۔ اس میں جوانی سانس لیتی تھی۔ کاندھے چوڑے باہیں گول اور گدراہٹ سے بھرپور، کانوں میں چاندی کے لمبے لمبے بُندے تھے۔ بال دیہاتیوں کی طرح سیدھی مانگ نکال کر گندھے ہوئے تھے جس سے اس کے چہرے پر وقار پیدا ہو گیا تھا۔ وہ جھونپڑے کی مٹیالی چھت پر بیٹھی اپنی چھڑی سے منڈیر کوٹ رہی تھی میں سڑک پر کھڑا تھا

’’کس قدر بیوقوف ہوں‘‘

دفعتہ میں نے ہوش سنبھالا اور اپنے دل سے کہا۔ اگر کوئی مجھے اس طرح اُس کو گھورتا ہوا دیکھ لے تو کیا کہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔

’’یہ کیونکر ہو سکتا ہے؟‘‘

جب میں نے ان الفاظ پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ میں کسی اور ہی خیال میں تھا۔ اس احساس پر مجھے ہنسی آ گئی اور یونہی ایک بار اُس کو اور دیکھ کر سیر کے قصد سے آگے بڑھا۔ دو ہی قدم چل کر مجھے خیال آیا کہ یہاں بٹوت میں صرف چند روز قیام کرنا ہے کیوں نہ رخصت ہوتے وقت اُس کو سلام کر لوں۔ اس میں ہرج ہی کیا ہے شاید میرے سلام کا ایک آدھ ذرہّ اسکے حافظے پر ہمیشہ کے لیے جم جائے‘‘

میں ٹھہر گیا اور کچھ دیر منتظر رہنے کے بعد میں نے سچ مچ اُس کو سلام کرنے کے لیے اپنا ہاتھ ماتھے کی طرف بڑھایا۔ مگر فوراً اس احمقانہ حرکت سے باخبر ہو کر ہاتھ کو یونہی ہوا میں ہلا دیا اور سیٹی بجاتے ہوئے قدم تیز کر دئیے۔ مئی کا گرم دن شام کی خنکی میں آہستہ آہستہ گھل رہا تھا۔ سامنے پہاڑیوں پر ہلکا سا دُھواں چھا گیا تھا، جیسے خوشی کے آنسو آنکھوں کے آگے ایک چادر سی تان دیتے ہیں۔ اس دھندلکے میں چیڑ کے درخت تحتِ شعور میں چھپے ہوئے خیالات معلوم ہوئے یہ ایک ہی قطار میں پھیلتے چلے گئے تھے۔ میرے پاس ہی ایک موٹا ساکو ا اپنے سیاہ اور چمکیلے پر پھیلائے سستا رہا تھا۔ ہوا کا ہر جھونکا میرے جسم کے ان حصوں کے ساتھ چھو کر جو کپڑوں سے آزاد تھے ایک ایسی محبت کا پیغام دے رہا تھا جس سے میرا دل اس سے قبل بالکل نا آشنا تھا۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں، اور مجھے ایسا محسوس ہُوا کہ وہ میری طرف حیرت سے دیکھ کریہ کہنا چاہتا ہے۔

’’سوچتے کیا ہو۔ جاؤ محبت کرو!‘‘

میں سڑک کے کنارے پتھروں کی دیوار پربیٹھ گیا اور اس۔ اُس کی طرف ڈرتے ڈرتے دیکھا کہ مبادا کوئی رہگزار سارا معاملہ تاڑ جائے۔ وہ اسی طرح سر جھکائے اپنی جگہ پربیٹھی تھی۔ اسے کھیل میں کیا لطف آتا ہے؟۔ وہ ابھی تھکی نہیں؟ کیا اُس نے واقعی دوبارہ میری طرف مڑ کر دیکھا؟ کیا وہ جانتی ہے کہ میں اس کی محبت میں گرفتار ہوں؟‘‘

۔ آخری سوال کس قدر مضحکہ خیز تھا۔ میں جھینپ گیا۔ لیکن۔ لیکن اس کے باوجود اُس کو دیکھنے سے خود کو باز نہ رکھ سکا۔ ایک مرتبہ جب میں نے اس کو دیکھنے کے لیے اپنی گردن موڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا منہ میری طرف ہے اور وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔ میں مخمور ہو گیا۔ میرے اور اس کے درمیان گو فاصلہ کافی تھا مگر میری آنکھیں جن میں میرے دل کی بصارت بھی چلی آئی تھی، محسوس کررہی تھیں کہ وہ سپنوں کا گھونگٹ کاڑھے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ میری طرف۔ میری طرف! میرے سینے سے بے اختیار آہ نکل گئی۔ عجیب بات ہے کہ سکھ اور چین کا ہاتھ بھی درد بھرے تاروں پر ہی پڑتا ہے۔ اس آہ میں کتنی راحت تھی۔ کتنا سکون تھا۔ اس لڑکی نے جو میرے سامنے جھونپڑے کی چھت پر بیٹی تھی۔ میرے شباب کے ہر رنگ کو شوخ کردیا تھا۔ میرے روئیں روئیں سے محبت پھوٹ رہی تھی۔ شعریت جو میرے سینے کے کسی نامعلوم کونے میں سوئی پڑی تھی، اب بیدار ہو چکی تھی۔ کہ دو شیزگی اور شعریت توام بہنیں ہیں؟ اگر اس وقت وہ مجھ سے ہمکلام ہوتی تو میں ایک لفظ تک اپنی زبان سے نہ نکالتا۔ خاموشی میری ترجمان ہوتی۔ میری گونگی زبان کتنی باتیں اس تک پہنچا دیتی۔ میں اس کو اپنی خاموشی میں لپیٹ لیتا۔ وہ ضرور متحیر ہوتی اور اس حالت میں بڑی پیاری معلوم ہوتی۔ اس خیال سے کہ راستے میں یوں بیکار کھڑے رہنا ٹھیک نہیں، میں دیوار پرسے اٹھا۔ میرے سامنے ٹیلے پر جانے کے لیے ایک پگڈنڈی تھی۔ اُوپر ٹیلے کے کسی پتھر پر بیٹھ کر میں اُسکو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ چنانچہ درختوں کی جڑوں اور جھاڑیوں کا سہارا لیکر میں نے اوپر چڑھنا شروع کیا۔ راستے میں دوتین بار میرا پاؤں پھسلا اور نوکیلے پتھروں پرگرتے گرتے بچا۔ ٹیلے پر جہاں پتھر نہیں تھا، کہیں کہیں زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں آلو بوئے ہوئے تھے۔ اسی قسم کے ایک ننھے سے کھیت کو طے کرکے میں ایک پتھر پربیٹھ گیا اور ٹوپی اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ میرے دائیں ہاتھ کو زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جس میں گندم اُگ رہی تھی۔ چڑھائی کی وجہ سے میرا دم پُھول گیا مگر شام کی ٹھنڈی ہوا نے یہ تکان فوراً ہی دُور کر دی۔ اور میں جس کام کے لیے آیا تھا، اس میں مشغول ہو گیا۔ اب وہ جھونپڑے کی چھت پر کھڑی تھی اور خدا معلوم وہ کیسی کیسی انوکھی آوازیں نکال رہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ ان دونوں بکریوں کو سڑک پر چڑھنے سے روک رہی تھی، جو گھاس چرتی ہوئی آہستہ آہستہ اوپر کارخ کررہی تھیں۔ ہوا تیز تھی، گندم کے پکے ہُوئے خوشے خُر خُر کرتی ہُوئی بلی کی مونچھوں کی طرح تھرتھرارہے تھے۔ جھاڑیوں میں ہوا کی سیٹیاں شام کی خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کررہی تھیں۔ مٹی کے ڈھیلوں کے ساتھ کھیلتا ہوا میں اس کی طرف بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ وہ اب جھونپڑے پر بڑے عجیب انداز سے ٹہل رہی تھی۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنے سر کو جنبش دی۔ تو میں سمجھا کہ وہ میری موجودگی سے باخبر۔ مجھے دیکھ رہی ہے۔ میری ہستی کے سارے دروازے کھل گئے۔ جانے کتنی دیرمیں وہاں بیٹھا رہا؟۔ ایکا ایکی بدلیاں گھر آئیں اور بارش شروع ہو گئی۔ میرے کپڑے بھیگ رہے تھے لیکن میں وہاں سے کیونکر جاسکتا تھا جبکہ وہ۔ وہیں چھت پر کھڑی تھی۔ اس خیال سے مجھے بڑی مسرت حاصل ہوئی کہ وہ صرف میری خاطر بارش میں بھیگ رہی ہے۔ یکا یک بارش تیز ہو گئی۔ وہ اٹھی اور میری طرف دیکھے بغیر۔ ہاں، میری طرف نگاہ اٹھائے بغیر چھت پر سے نیچے اُتری اور دوسرے جھونپڑے میں داخل ہو گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بارش کی بوندیں میری ہڈیوں تک پہنچ گئی ہیں۔ پانی سے بچاؤ کرنے کے لیے میں نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں۔ مگر پتھر اور جھاڑیاں پناہ کا کام نہیں دے سکتی تھیں۔ ڈاک بنگلے تک پہنچتے پہنچتے میرے کپڑے اور خیالات سب بھیک گئے۔ جب وہاں سے سیرکو نکلا تھا تو ایک خشک آدمی تھا، راستے میں موسم نے شاعر بنا دیا۔ واپس آیا توبھیگا ہوا آدمی تھا۔ صرف بھیگا ہوا۔ بارش ساری شاعری بہا لے گئی تھی!

سعادت حسن منٹو

موذیل

ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔ چار برسوں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لیے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کے لیے اڈوانی چیمبرزکے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حدِ نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں ترلوچن کے لیے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی۔ رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا اور قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت سے محروم۔ قریب قریب تین بجے تھے۔ ہوا بے حد ہلکی پھلکی تھی۔ ترلوچن پنکھے کی مکانکی ہوا کا عادی تھا جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی۔ صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا۔ رات بھر اس کو مارا پیٹا گیا ہے۔ پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، تر و تازگی چوس کر خوش ہورہا تھا۔ جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا۔ لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کررہا تھا۔ کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا وہ اب صاف طورپر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کور اور اس کا سارا خاندان۔ محلے میں تھا۔ جو کٹڑ مسلمانوں کا مرکز تھا۔ یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔ ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔ غالباً اڑتالیس گھنٹوں کا۔ اور ترلوچن لازماً مغلوب تھا آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک قسم کے مسلمان۔ اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ۔ مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جاسکتا تھا۔ کرپال کی ماں اندھی تھی۔ باپ مفلوج۔ بھائی تھا، وہ کچھ عرصے سے دیو لالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لیے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرنجن پر بہت غصہ آتا تھا۔ اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کردیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ نرنجن، یہ ٹھیکے ویکے ابھی رہنے دو۔ ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمہارا اگرچہ رہنا بہت ضروری ہے۔ اول تو یہاں سے اٹھ جاؤ، اور میرے یہاں چلے آؤ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیا کرتا ہے۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صرف اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرادیا۔

’’تم خواہ مخواہ فکر کرتے ہو۔ میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں۔ یہ امرتسر یا لاہور نہیں بمبئے ہے۔ بمبئے۔ تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں اور میں بارہ برس سے یہاں رہ رہا ہوں۔ بارہ برس سے۔ ‘‘

جانے نرنجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے۔ اگر فساد برپا بھی ہوں تو ان کا اثر خود زائل ہو جاتا ہے۔ جیسے اس کے پاس چھومنتر ہے۔ یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی۔ مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔ محلہ بالکل محفوظ نہیں۔ وہ تو صبح کے ا خباروں میں یہ بھی پڑھنے کے لیے تیار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں باپ قتل ہوچکے ہیں۔ اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ مر جاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لیے اچھا تھا۔ وہاں دیولالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو وہ بھی اچھا تھا کہ ترلوچن کے لیے میدان صاف ہو جاتا۔ خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں، بہت بڑا کھنگر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہوتی تووہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔ صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔ ترلوچن کا کیسوں سے بے نیاز سر بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کررہا تھا۔ مگر اس کے اندر بے شمار اندیشے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔ کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ وہ یوں تو ہٹے کٹے کنگھر سنگھ کی بہن تھی، مگر بہت ہی نرم و نازک لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی، وہ گٹھاؤ، وہ مردانہ پن نہیں تھا جو دیہات کی عام سِکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنھیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔ عام سکھ دیہاتی لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح، اور بدن چکنا تھا جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے۔ بے حد شرمیلی تھی۔ ترلوچن اسی کے گاؤں کا تھا۔ مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا۔ پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھروہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اسکول سے فارغ ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہو گئی۔ اس دوران میں وہ کئی مرتبہ۔ لاتعداد مرتبہ اپنے گاؤں گیا، مگر اس نے کرپال کور کے نام کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا، شاید اس لیے کہ وہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔ کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پُر تھا۔ برما۔ سنگاپور۔ ہانگ کانگ۔ پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی۔ جو بُری نہیں تھی۔ خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہا دیے روشن تھے اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔ کرپال کور کا سوچتے سوچتے وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا۔ اس یہودی لڑکی کے بارے میں جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی۔ اس سے ترلوچن کو، گوڈے گوڈے عشق ہو گیا تھا۔ ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے اے پر فلیٹ لیا، اسی دن اس کی مڈبھیڑ موذیل سے ہوئی جو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک طور پر دیوانی معلوم ہوئی تھی۔ کٹے ہوئے بھورے بال اس کے سر پر پریشان تھے۔ بے حد پریشان۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی تھی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی تھی۔ ڈھیلا ڈھالا لباس سفید چغہ پہنے تھے۔ جس کے کھلے گریبان سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں تین چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھیں۔ بانھیں جو کہ ننگی تھیں مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کے آئی ہے اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔ ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی تھی کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔ ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا۔ بیچ میں ایک تنگ گلی تھی۔ بہت ہی تنگ۔ جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا تو موذیل باہر نکلی۔ کھڑاؤں پہنے تھی۔ ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا۔ موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔ ترلوچن بوکھلا گیا۔ جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا۔ موذیل کی ایک کھڑاؤں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔ جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اس کے اوپر تھی، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چُغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی۔ بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر تھیں اور۔ جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل۔ ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔ ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں سے اس معافی مانگی۔ موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرا دی۔

’’یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے۔ ‘‘

اور وہ اتری ہوئی کھڑاؤں میں اپنا انگوٹھا اور اس کی ساتھ والی انگلی پھنساتی کوڑی ڈور سے باہر چلی گئی۔ ترلوچن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو۔ لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی۔ لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی۔ وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سے کھاتی تھی۔ اس سے پیتی تھی۔ اس کے ساتھ سینما جاتی تھی۔ سارا سارا دن اس کے ساتھ جوہو پر نہاتی تھی۔ لیکن جب وہ بانھوں اور ہونٹوں سے کچھ اور آگے بڑھنا چاہتا تو وہ اسے ڈانٹ دیتی۔ کچھ اس طور پر اسے گُھرکتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔ ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوتی تھی۔ لاہور میں، برما میں، سنگاپور میں وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لیے خرید لیا کرتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئی پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الھڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں

’’گوڈے گوڈے‘‘

دھنس جائے گا۔ وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی۔ اس کے کہنے پر فوراً سج بن کر سینما جانے پر تیار ہو جاتی تھی۔ مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کردیتی۔ کوئی اس کا شناسا نکل آتا تو زور سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لیے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔ ہوٹل میں بیٹھے ہیں۔ ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کے لیے پرتکلف کھانے منگوائے ہیں، مگراس کو کوئی اپنا پرانا دوست نظر آگیا ہے اور وہ نوالہ چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ ترلوچن بعض اوقات بھنا جاتا تھا، کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ چلی جاتی تھی اور کئی کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی۔ کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی کا جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہوسکتا۔ جب اس سے ملاقات ہوتی تو وہ اس سے کہتی۔

’’تم سکھ ہو۔ یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔ ‘‘

ترلوچن جل بھن جاتا اور پوچھتا۔

’’کون سی نازک باتیں۔ تمہارے پرانے یاروں کی؟‘‘

موذیل دونوں ہاتھ اپنے چوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کردیتی اور کہتی۔

’’یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے ہو۔ ہاں وہ میرے یار ہیں۔ اور مجھے اچھے لگتے ہیں۔ تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔ ‘‘

ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا۔

’’اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی‘‘

موذیل زور کا قہقہہ لگاتی۔

’’تم سچ مچ سِکھ ہو۔ ایڈیٹ، تم سے کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ نبھاؤ۔ اگر نبھانے کی بات ہے تو جاؤ اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کرلو۔ میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔ ‘‘

ترلوچن نرم ہو جاتا۔ دراصل موذیل اس کی زبردست کمزوری بن گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہش مند تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی۔ معمولی معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا۔ مگر دل سے مجبور ہو کر اس نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ عام طور پر توہین اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سی آنکھیں میچ لی تھیں اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ ا س کو موذیل پسند تھی۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا۔

’’گوڈے گوڈے‘‘

اس کے عشق میں دھنس گیا تھا۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی اس عشق کی دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔ دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا۔ لیکن ثابت قدم رہا۔ آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی۔ اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر پوچھا۔

’’موذیل۔ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔ ‘‘

موذیل اس کے بازوؤں سے جدا ہو گئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں جھپکا کر کہا۔

’’میں سکھ سے محبت نہیں کرسکتی۔ ‘‘

ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

’’موذیل! تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔ یہ میرا مذاق نہیں، میری محبت کا مذاق ہے۔ ‘‘

موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا۔

’’تم شیوا کرالو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔ تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔ تم خوبصورت ہو۔ ‘‘

ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردیے۔ موذیل نے ایک دم

’’پھوں پھوں‘‘

کی اور اس کی گرفت سے علیحدہ ہو گئی۔

’’میں صبح اپنے دانتوں پر برش کر چکی ہوں۔ تم تکلیف نہ کرو۔ ‘‘

ترلوچن چلایا۔

’’موذیل۔ ‘‘

موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آگئی تھیں۔

’’خدا کی قسم۔ تم اپنی داڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلوسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کرسکتے ہیں۔ بس تھوڑا سا پٹرول لگانے کی ضرورت ہو گی۔ ‘‘

ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلوچن کی داڑھی کھولنی شروع کردی۔ اس میں جو پنیں لگی تھیں۔ وہ اس نے ایک ایک کرکے اپنے دانتوں تلے دبا لیں۔ ترلوچن خوبصورت تھا۔ جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کو کھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لیے تھے۔ اس کو اس کا احساس تھا۔ مگر وہ ایک اطاعت شعار اورفرماں بردار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کردے جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔ جب داڑھی پوری کھل گئی اور اس کے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا۔

’’یہ تم کیا کررہی ہو؟‘‘

دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی۔

’’تمہارے بال بہت ملائم ہیں۔ میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلوسکرٹ صاف ہوسکے گا۔ ترلوچن۔ تم یہ مجھے دے دو۔ میں انھیں گوندھ کر اپنے لیے ایک فسٹ کلاس بٹوا بناؤں گی۔ ‘‘

اب ترلوچن کی داڑھی میں چنگاریاں بھڑکنے لگی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا۔

’’میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق نہیں اڑایا۔ تم کیوں اڑاتی ہو۔ دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔ میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا۔ مگر صرف اس لیے کرتا رہا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔ کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔ ‘‘

موذیل نے ترلوچن کی داڑھی سے کھیلنا بند کردیا۔

’’مجھے معلوم ہے۔ ‘‘

’’پھر۔ ‘‘

ترلوچن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہ کیے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں۔

’’تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔ ‘‘

بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی۔

’’میں بھی قریب قریب یہی فیصلہ کر چکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔ ‘‘

ترلوچن اچھل پڑا۔

’’سچ‘‘

موذیل کے عنابی ہونٹ بڑی موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مضبوط دانت ایک لحظے کے لیے چمکے۔

’’ہاں!‘‘

ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔

’’تو۔ تو کب؟‘‘

موذیل الگ ہٹ گئی۔

’’جب۔ تم اپنے یہ بال کٹوا دو گے!‘‘

ترلوچن اس وقت’جو ہو سو ہو‘ بنا تھا۔ اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا۔

’’میں کل ہی کٹوا دوں گا۔ ‘‘

موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی۔

’’تم بکواس کرتے ہوئے ترلوچن۔ تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ ‘‘

اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا۔

’’تم دیکھ لوگی۔ ‘‘

’’دیکھ لوں گی۔ ‘‘

اور وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ ترلوچن کی مونچھوں کو چوما اور

’’پھوں پھوں‘‘

کرتی باہر نکل گئی۔ ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔ وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے، اس لیے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوا دیے اور داڑھی بھی منڈوادی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا۔ جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہاجس پر بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کے لیے غور کرنے پر مجبور ہوجاتی۔ ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی۔ اس نے ٹیریس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ جہاں ٹینکوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے۔ مگر وہ آئے بن نہ رہا۔ بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کو بھیجی کہ اس کی طبیعت ناساز ہے، تھوڑی دیر کے لیے آجائے۔ موذیل آئی۔ ترلوچن کو بالوں کے بغیر کے دیکھ کر پہلے وہ ایک لحظے کے لیے ٹھٹکی۔ پھر

’’مائی ڈارلنگ ترلوچن‘‘

کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کا سارا چہرہ عنابی کردیا۔ اس نے ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی۔ اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔ موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی سکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کردیا۔ ترلوچن شرما گیا۔ اس نے سکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پر اس سے کہا۔

’’نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔ ‘‘

موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا۔

’’مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے ہی چلتا ہے۔ ‘‘

ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا۔ جب وہ اور موذیل دونوں ٹکرا گئے تھے اور آپس میں کچھ عجیب طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے۔ مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا۔

’’شادی کل ہو گی!‘‘

’’ضرور۔ ‘‘

موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔ طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو۔ چونکہ سول میرج تھی۔ اس لیے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا۔ عدالتی کارروائی تھی۔ اس لیے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے۔ پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں۔ دوسرے روز انھیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہو جانا تھا۔ موذیل، فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا۔ بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا۔ ڈیڑھ گھٹنہ انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے، دیولالی چل گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کے لیے وہیں رہے گی۔ ترلوچن پرکیا گزری؟۔ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بُھول گیا۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہو گئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے تھے اور جوچڑوں کے مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا۔ اس احساس سے اس کو ایک گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کدکڑے لگاتی غائب ہو جاتی تھی۔ وہ بے حیا تھی۔ بے مروت تھی، اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا، پھر بھی وہ ترلوچن کو پسند تھی۔ اس لیے کبھی کبھی وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ وہ دیو لالی میں اتنے عرصے سے کیا کررہی ہے۔ اسی آدمی کے ساتھ ہے۔ جس نے نئی نئی کار خریدی تھی یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے۔ اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہو گی۔ حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔ وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، لیکن اپنی مرضی سے۔ ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی۔ اس کو بہت سستی قسم کی چیزیں پسند آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کے ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے، مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مرمٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انھیں خرید دے۔ ترلوچن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے۔ کس آب و گل سے بنی ہے۔ وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی۔ اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی۔ وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا۔ مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کو چڑانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی تھی۔

’’تم سکھ ہو۔ مجھے تم سے نفرت ہے!‘‘

۔ ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی۔ برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر بھی نہیں تھا۔ وہ کبھی دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی۔ دوٹوک فیصلہ کردیتی۔ انڈر ویئر اس کو ناپسند تھے۔ اس لیے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی۔ ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا، مگر اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔ ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا وہ چڑ جاتی تھی۔

’’یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔ اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کرلیا کرو۔ تم مجھے یہ بتاؤ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہوسکتا۔ یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہوسکتیں۔ مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔ تم سکھ ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سلکی سا انڈر ویئر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح مذہب میں شامل ہے۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔ اتنے بڑے ہو گئے ہو اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈر ویئر میں چھپا بیٹھا ہے!‘‘

ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا۔ مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نادرست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرادیا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا اتنا بوجھ اٹھائے اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب ہی نہیں تھا۔ پانی کی ٹینکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا۔ موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا۔ کرپا کور۔ ایک پاکیزہ لڑکی۔ جس سے اس کو محبت ہوئی تھی۔ خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین واردات بھی ہو چکی تھیں۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا۔ مگر کرفیو کی کون پروا کرتا ہے۔ اس چالی کے مسلمان ہی اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کور، اس کی ماں اور اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کرسکتے تھے۔ ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا۔ اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس داڑھی تیزی سے بڑھی تھی۔ مگر وہ اسے بڑھانا نہیں چ اہتا تھا۔ فورٹ میں ایک باربر تھا وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا کہ ترشی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔ اٹھنے کا ارادہ ہی کررہا تھا کہ اسے کھڑاؤں کی کرخت آواز سنائی دی، اس نے سوچا کون ہوسکتا ہے؟۔ بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں جو سب کی سب گھر میں کھڑاؤں پہنتی تھیں۔ آواز قریب آتی گئی۔ یکلخت اس نے دوسری ٹیکنی کے پاس موذیل کو دیکھا، جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا لمبا کرتا پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔ اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا اس کے آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔ ترلوچن، پانی کے نل پر سے اٹھا۔ اس نے سوچا۔

’’یہ ایکا ایکی کہاں سے نمودا ہو گئی۔ اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟‘‘

۔ موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔ اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔ ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔ ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے۔ وہ زور سے کھانسا موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا رد عمل بالکل خفیف تھا۔ کھڑاؤں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی داڑھی دیکھنے لگی۔

’’تم پھر سکھ بن گئے ترلوچن؟‘‘

داڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔ موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا۔

’’اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیو بلوسکرٹ صاف کرسکے۔ مگر وہ تو وہیں دیو لالی میں رہ گئی ہے۔ ‘‘

ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی۔

’’بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟‘‘

ترلوچن اپنی پچھلی بیوقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تاہم اس نے صبح کے ملگجے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایک صرف وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی۔ ترلوچن نے اس سے پوچھا۔

’’بیمار رہی ہو؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

موذیل نے اپنے ترشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔

’’پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟‘‘

’’میں ڈائٹنگ کررہی ہوں۔ ‘‘

موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑاؤں فرش کے ساتھ بجانے لگی۔

’’تم گویا کہ۔ اب پھر۔ نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔ ‘‘

ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔

’’ہاں!‘‘

’’مبارک ہو۔ ‘‘

موذیل نے ایک کھڑاؤں پیر سے اتار لی اور پانی کے نل پر بجانے لگی۔

’’کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کی؟‘‘

ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔

’’ہاں!‘‘

’’مبارک ہو۔ اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’یہ بہت بری بات ہے۔ ‘‘

موذیل کھڑاؤں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی۔

’’ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ ‘‘

ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اٹھ کر اس کی د اڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چھیڑا۔

’’کیا اسی لڑکی نے تمہیں یہ بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

ترلوچن بڑی الجھن محسوس کررہا تھا جیسے کنگھا کرتے کرتے اس کی داڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں۔ جب اس نے

’’نہیں‘‘

کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔ موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گاؤں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کردیے ہیں۔ مسکرانے کے بعد وہ ہنسی۔

’’تم اب یہ داڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو، میں تم سے شادی کرلوں گی۔ ‘‘

ترلوچن کے جی میں آئی کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طینت کنواری لڑکی سے محبت کررہا ہے اور اسی سے شادی کرے گا۔ موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے۔ بدصورت ہے۔ بے وفا ہے۔ بے مروت ہے مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا۔ اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا۔

’’موذیل! میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ میرے گاؤں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔ جو مذہب کی پابند ہے۔ اسی کے لیے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ‘‘

موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی، لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑاؤں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا۔

’’وہ مذہب کی پابند ہے تو تمہیں کیسے قبول کرے گی؟۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟‘‘

’’اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔ داڑھی میں نے تمہارے دیو لالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کردی تھی۔ محض انتقامی طور پر۔ اسے کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی۔ مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ہوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔ مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے‘‘

ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔ موذیل نے لمبا کرتہ اٹھاکر اپنی گوری دبیز ران کھجلانی شروع کی۔

’’یہ بہت اچھا ہے۔ مگر یہ کم بخت مچھر یہاں بھی موجود ہے۔ دیکھو، کس زور سے کاٹا ہے۔ ‘‘

ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔

’’کب ہورہی ہے تمہاری شادی؟‘‘

’’ابھی کچھ پتہ نہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر ترلوچن سخت متفکر ہو گیا۔ چند لمحات تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکرکا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔

’’ترلوچن۔ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی۔ خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنا دیا۔ موذیل ہنسی۔

’’تم اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ جاؤ اس کو لے آؤ۔ ایسی کیا مشکل ہے؟‘‘

’’مشکل!۔ موذیل، تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔ کسی بھی معاملے کی نزاکت۔ تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمہارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے، جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔ ‘‘

موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں پانی کے نل کے ساتھ ماری۔

’’افسوس بی ڈیمڈ۔ سلی ایڈیٹ۔ تم یہ سوچو کہ تمہاری اُس۔ کیا نام ہے اس کا۔ اس محلے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔ تم بیٹھ گئے ہو تعلقات کا رونا رونے۔ تمہارے میرے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ تم ایک سِلی قسم کے آدمی ہو۔ اور بہت ڈرپوک۔ مجھے نڈر مرد چاہیے۔ لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔ چلو آؤ، تمہاری اس کور کو لے آئیں!‘‘

اس نے ترلوچن کا بازو پکڑ لیا۔ ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا۔

’’کہاں سے؟‘‘

’’وہیں سے، جہاں وہ ہے۔ میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں۔ چلو آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘

’’مگر سنو تو۔ کرفیو ہے۔ ‘‘

’’موذیل کے لیے نہیں۔ چلو آؤ۔ ‘‘

وہ ترلوچن کو بازو سے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی تھی جو نیچے سیڑھیوں کی طرح کھلتا تھا۔ دروازہ کھول کر وہ اترنے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی داڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔ ترلوچن نے پوچھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

موذیل نے کہا۔

’’یہ تمہاری داڑھی۔ لیکن خیر ٹھیک ہے۔ اتنی بڑی نہیں ہے۔ ننگے سر چلو گے تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھو۔ ‘‘

’’ننگے سر!‘‘

ترلوچن نے کسی قدر بوکھلا کر کہا۔

’’میں ننگے سر نہیں جاؤں گا۔ ‘‘

موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی۔

’’تم سمجھتی نہیں ہو۔ میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔ ‘‘

’’کیوں ٹھیک نہیں۔ ‘‘

’’تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔ وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں۔ میں اس پر یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘

موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں دروازے کی دہلیز پر ماری۔

’’تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ گدھے کہیں کے۔ اس کی جان کا سوال ہے۔ کیا نام ہے، تمہاری اس کور کا، جس سے تم محبت کرتے ہو۔ ‘‘

ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

’’موذیل، وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔ اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔ ‘‘

موذیل چڑ گئی۔

’’اوہ، تمہاری محبت بی ڈیمڈ۔ میں پوچھتی ہوں۔ کیا سارے سکھ تمہارے طرح کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ اس کی جان کو خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔ اور شاید وہ اپنا انڈرویئر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔ ‘‘

ترلوچن نے کہا۔

’’وہ تو میں ہر وقت پہنے ہوتا ہوں۔ ‘‘

’’بہت اچھا کرتے ہو۔ مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی ہی میاں بھائی رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے دادا اور بڑے بڑے موالی۔ تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کردیے جاؤ گے۔ ‘‘

ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا۔

’’مجھے اس کی پروا نہیں۔ اگر میں تمہارے ساتھ وہاں جاؤں گا تو پگڑی پہن کر جاؤں گا۔ میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا!‘‘

موذیل جھنجھلا گئی۔ اس زور سے اس نے پیچ و تاپ کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بھڑ بھڑ گئیں۔

’’گدھے۔ تمہاری محبت ہی کہاں رہے گی۔ جب تم نہ ہو گے۔ تمہاری وہ۔ کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔ جب وہ بھی نہ رہے گی۔ اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔ تم سکھ۔ خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو!‘‘

ترلوچن بھنا گا۔

’’بکواس نہ کرو!‘‘

موذیل زور سے ہنسی۔ مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانھیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جھول کر کہا۔

’’ڈارلنگ چلو، جیسے تمہاری مرضی۔ جاؤ پگڑی پہن آؤ۔ میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی۔ ترلوچن نے اسے روکا۔

’’تم کپڑے نہیں پہنو گی!‘‘

موذیل نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔

’’نہیں۔ چلے گا اسی طرح۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اتر گئی۔ ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھی اس کی کھڑاؤں کی چوبی آواز سنتا رہا۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا۔ جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی۔ اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کرکے نیچے اتر گیا۔ باہر فٹ پاتھ پر موذیل اپنی تکڑی ٹانگیں چوڑی کیے سگرٹ پی رہی تھی۔ بالکل مردانہ انداز میں۔ جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منہ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا۔ ترلوچن نے غصے میں کہا۔

’’تم بہت ذلیل ہو۔ ‘‘

موذیل مسکرائی۔

’’یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ اس سے پہلے اور کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں۔ ‘‘

پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا۔

’’یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے تمہارے کیس ہیں‘‘

بازار بالکل سنسان تھا۔ ایک صرف ہوا چل رہی تھی اور وہ بھی بہت دھیرے دھیرے۔ جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے۔ بتیاں روشن تھیں مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی۔ عام طور پر اس وقت ٹریمیں چلنی شروع ہوجاتی تھیں اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری ہوجاتی تھی۔ اچھی خاصی گہما گہمی ہوتی تھی۔ پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گزرا ہے نہ گزرے گا۔ ‘‘

موذیل آگے آگے تھی۔ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑاؤں کھٹ کھٹ کررہی تھی۔ یہ آواز، اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی۔ ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑاؤں ہی اتار کر کوئی دوسری چیز پہن سکتی تھی۔ اس نے چاہا کہ موذیل سے کہے کھڑاؤں اتار دو اور ننگے پاؤں چلو۔ مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی۔ اس لیے خاموش رہا۔ ترلوچن سخت خوفزدہ تھا۔ کوئی پتا کھڑکتا تو اس کے دل دھک سے رہ جاتا تھا۔ مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جارہی تھی۔ سگرٹ کا دھواں اڑاتی جیسے وہ بڑی بے فکری سے چہل قدمی کررہا ہے۔ چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گرجی۔

’’اے۔ کدھر جارہا ہے۔ ‘‘

ترلوچن سہم گیا۔ موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئی اور بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر کہا۔

’’اوہ، تم۔ ہم کو پچانا نہیں تم نے۔ موذیل۔ ‘‘

پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔

’’ادھر اس باجو۔ ہمارا بہن رہتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر لے کر جارہا ہے۔ ‘‘

سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور ایک سگرٹ نکال کر اس کو دیا۔

’’لو پیو۔ ‘‘

سپاہی نے سگرٹ لے لیا۔ موذیل نے اپنے منہ سے سلگا ہوا سگرٹ نکالا اور اس سے کہا

’’ہیر از لائٹ!‘‘

سپاہی نے سگرٹ کا کش لیا۔ موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔ جس میں سے گزر کر انھیں۔ محلے جانا تھا۔ ترلوچن خاموش تھا، مگر وہ محسوس کررہا تھا کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کرکے ایک عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس کررہی ہے۔ خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا۔ جب جوہو پر اس کے ساتھ جاتی تھی تو اس کے لیے ایک مصیبت بن جاتی تھی۔ سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دور تک نکل جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ وہ کہیں ڈوب نہ جائے۔ جب واپس آتی تو اس کا جسم سیپوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ موذیل آگے آگے تھی۔ ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے۔ ڈر ڈر کے ادھر ادھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہو جائے۔ موذیل رک گئی۔ جب ترلوچن پاس آیا تو اس نے سمجھانے کے انداز میں اسے کہا۔

’’ترلوچن ڈیئر۔ اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔ تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔ سچ کہتی ہوں، یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔ ‘‘

ترلوچن خاموش رہا۔ جب وہ گلی طے کرکے دوسری گلی میں پہنچے۔ جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی، جس میں کرپال کور رہتی تھی توموذیل چلتے چلتے ایک دم رک گئی۔ کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مار واڑی کی دکان لوٹی جارہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے اس نے معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں۔ چلو آؤ۔ ‘‘

دونوں چلنے لگے۔ ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اٹھائے چلا آرہا تھا۔ ترلوچن سے ٹکرا گیا۔ پرات گر گئی۔ اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکھ ہے۔ اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا۔ کہ موذیل آگئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چور ہے اس نے زور سے اس کو آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا۔

’’اے کیا کرتا ہے۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔ ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔ ‘‘

پھر وہ ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔

’’کریم۔ اٹھاؤ، یہ پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔ ‘‘

اس آدمی نے نیفے میں سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنھکوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا۔

’’عیش کر سالی۔ عیش کر‘‘

پھر اس نے پرات اٹھائی اور یہ جا، وہ جا۔ ترلوچن بڑبڑایا۔

’’کیسی ذلیل حرکت کی ہے حرامزادے نے!‘‘

موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔

’’کوئی ذلیل حرکت نہیں۔ سب چلتا ہے۔ آؤ۔ ‘‘

اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔ ترلوچن نے بھی قدم تیز کردیے۔ یہ گلی طے کرکے دونوں اس محلے میں پہنچ گئے۔ جہاں کرپال کور رہتی تھی۔ موذیل نے پوچھا۔

’’کس گلی میں جانا ہے؟‘‘

ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔

’’تیسری گلی میں۔ نکڑ والی بلڈنگ!‘‘

موذیل نے اس طرف چلنا شروع کردیا۔ یہ راستہ بالکل خاموش تھا۔ آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے تک کے رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔ ایک آدمی بڑے سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر کے بعد تین آدمی نکلے۔ فٹ پاتھ پر انھوں نے ادھر ادھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئی۔

’’موذیل ٹھٹک گئی تھی۔ اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہو جائے۔ پھر اس نے ہولے سے کہا۔

’’ترلوچن ڈیئر۔ یہ پگڑی اتار دو!‘‘

ترلوچن نے جواب دیا۔

’’میں یہ کسی صورت میں بھی نہیں اتار سکتا!‘‘

موذیل جھنجھلا گئی۔

’’تمہاری مرضی۔ لیکن تم دیکھتے نہیں، سامنے کیا ہو رہا ہے‘‘

سامنے جو کچھ ہورہا تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ صاف گڑ بڑ ہورہی تھی اور بڑی پراسرار قسم کی۔ دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی۔ ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی۔ موذیل اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ غالباً وہ سوچ رہی تھی۔ جب یہ دونوں آدمی گلی کے دوسرے سرے پر پہنچ کر غائب ہو گئے تو اس نے ترلوچن سے کہا۔

’’دیکھو، ایسا کرو۔ میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔ تم میرے پیچھے آنا۔ بڑی تیزی سے، جیسے تم میرا پیچھا کررہے ہو۔ سمجھے۔ مگر یہ سب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔ ‘‘

موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار نہ کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑاؤں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی۔ ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ چند لمحوں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔ سیڑھیوں کے پاس۔ ترلوچن ہانپ رہا تھا۔ مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس نے ترلوچن سے پوچھا۔

’’کون سا مالا؟‘‘

ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

’’دوسرا۔ ‘‘

’’چلو۔ ‘‘

یہ کہہ وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ ترلوچن اس کے پیچھے ہولیا۔ زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہورہا تھا۔ دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی۔ موذیل دور سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔ ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی۔

’’مہنگا سنگھ جی۔ مہنگا سنگھ جی!‘‘

اندر سے مہین آواز آئی۔

’’کون؟‘‘

’’ترلوچن!‘‘

دروازہ دھیرے سے کھلا۔ ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا۔ وہ لپک کر آئی دونوں اندر داخل ہوئے۔ موذیل نے اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا۔ جو بے حد سہمی ہوئی تھی۔ موذیل نے اس کو ایک لحظے کے لیے غور سے دیکھا پتلے پتلے نقش تھے۔ ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا۔ موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرنے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔ ترلوچن سرخ ہو گیا۔ موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا۔

’’ڈرو نہیں، ترلوچن تمہیں لینے آیا ہے۔ ‘‘

کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہو گئی۔ ترلوچن نے اس سے کہا۔

’’سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہو جائیں۔ اور اپنی ماتا جی سے بھی۔ لیکن جلدی کرو۔ ‘‘

اتنے میں اوپر کی منزل پر بلند آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیخ چلا رہا ہے اور دھینگا مشتی ہورہی ہے۔ کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ بلند ہوئی۔

’’اسے پکڑ لیا انھوں نے!‘‘

ترلوچن نے پوچھا۔

’’کسے؟‘‘

کرپال کور جواب دینے ہی والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑاور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی۔

’’پکڑ لیا تو اچھا ہوا۔ تم یہ کپڑے اتارو۔ ‘‘

کرپال کور ابھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آنا فانا اس کی قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ کرپال کور نے اپنی بانھوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور سخت وحشت زدہ ہو گئی۔ ترلوچن نے منہ دوسری طرف منہ موڑ لیا۔ موذیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتا اتارا اور اس کو پہنا دیا۔ خود وہ ننگ دھڑنگ تھی۔ جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا ازار بند ڈھیلا کیا اور اس کی شلوار اتار کر، ترلوچن سے کہنے لگی۔

’’جاؤ، اسے لے جاؤ۔ لیکن ٹھہرو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دیے اور اس سے کہا۔

’’جاؤ۔ جلدی نکل جاؤ۔ ‘‘

ترلوچن نے اس سے کہا۔

’’آؤ۔ ‘‘

مگر فوراً ہی رک گیا۔ پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی۔ اس کی بانھوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔

’’تم جاتے کیوں نہیں ہو؟‘‘

موذیل کے لہجے میں چڑچڑاپن تھا۔ ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔

’’اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔ ‘‘

’’جہنم میں جائیں وہ۔ تم اسے لے جاؤ۔ ‘‘

’’اور تم؟‘‘

’’میں آجاؤں گی۔ ‘‘

ایک دم اوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے۔ دروازے کے پاس آکر انھوں نے اسے کوٹنا شروع کردیا جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔ کرپال کور کی اندھی ماں اور اس کا مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراہ رہے تھے۔ موذیل نے کچھ سوچا اور بالوں کو خفیف سا جھٹکا دے کر اس نے ترلوچن سے کہا۔

’’سنو۔ اب صرف ایک ہی ترکیب سمجھ میں آتی ہے۔ میں دروازہ کھولتی ہوں۔ ‘‘

کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی نکلتی دب گئی۔

’’دروازہ۔ ‘‘

موذیل، ترلوچن سے مخاطب رہی۔

’’میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔ تم میرے پیچھے بھاگنا۔ میں اوپر چڑھ جاؤں گی۔ تم بھی اوپر چلے آنا۔ یہ جو لوگ جو دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔ ‘‘

ترلوچن نے پھر پوچھا۔

’’پھر؟‘‘

موذیل نے کہا۔

’’یہ تمہاری۔ کیا نام ہے اس کا۔ موقعہ پا کر نکل جائے۔ اس لباس میں اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔ ‘‘

ترلوچن نے جلدی جلدی کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی۔ موذیل زور سے چلائی۔ دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری۔ سب بوکھلا گئے۔ اٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ ترلوچن اسکے پیچھے بھاگا۔ سب ایک طرف ہٹ گئے۔ موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ کھڑاؤں اس کے پیروں میں تھی۔ وہ جو لوگ جو دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے تھے سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے۔ موذیل کا پاؤں پھسلا۔ اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی، لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آرہی۔ پتھریلے فرش پر۔ ترلوچن ایک دم نیچے اترا۔ جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ کانوں کے رستہ بھی خون نکل رہا تھا۔ وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے اردگرد جمع ہو گئے۔ کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے۔ سب خاموش تھے اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے۔ جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔ ترلوحن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی۔

’’موذیل۔ موذیل۔ ‘‘

موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں جو لال بوٹی ہورہی تھیں اور مسکرائی۔ ترلوچن نے اپنی پگڑی اتاری اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا۔ موذیل پھرمسکرائی اور آنکھ مار کر اس نے ترلوچن سے منہ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا۔

’’جاؤ، دیکھو۔ میرا انڈر ویئر وہاں ہے کہ نہیں۔ میرا مطلب ہے وہ۔ ‘‘

ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھنا نہ چاہا۔ اس پر موذیل نے غصے میں کہا۔

’’تم سچ مچ سکھ ہو۔ جاؤ دیکھ کر آؤ۔ ‘‘

ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔ موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا

’’یہ میاں بھائی ہے۔ لیکن بہت دادا قسم کا۔ میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔ ‘‘

ترلوچن واپس آگیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتا دیاکہ کرپال کور جا چکی ہے۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا

’’اوہ ڈیم اٹ۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی کلائی سے اپنا منہ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔

’’آل رائٹ ڈارلنگ۔ بائی بائی۔ ‘‘

ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا، مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔ موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔

’’لے جاؤ اس کو۔ اپنے اس مذہب کو۔ ‘‘

اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔

سعادت حسن منٹو

موچنا

نام اس کا مایا تھا۔ ناٹے قد کی عورت تھی۔ چہرہ بالوں سے بھرا ہوا، بالائی لب پر تو بال ایسے تھے، جیسے آپ کی اور میری مونچھوں کے۔ ماتھا بہت تنگ تھا، وہ بھی بالوں سے بھرا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو موچنے کی ضرورت اکثر پیش آتی تھی۔ وہ راولپنڈی کے ایک معمولی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ جس سے قطع تعلق کیے اسے ایک زمانہ گزر چکا تھا۔ صرف اتنا معلوم ہے، کہ وہیں اس کی شادی ہوئی۔ جب اس کی عمر سولہ برس کے قریب تھی۔ دو برس ہونے کو آئے تو اس کے خاوند کو شک گزرا کہ مایا کا چال چلن خراب ہے۔ محلے میں وہ ایک نہیں، تین آدمیوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی ہے۔ اس تگڈے عشق کے دوران میں مایا کو احساس ہوا کہ اس کا ماتھا تنگ ہے۔ اس کے بالائی لب اور ٹھوڑی پر بال ہیں جو بڑے بد نما معلوم ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس نے ایک موچنا خرید لیا اور ان غیر ضروری بدنما بالوں کا صفایا کردیا۔ لیکن وہ ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئی۔ اس کا خیال تھا کہ ایک دفعہ بال نوچنے کے بعد وہ ہمیشہ کیلیے ان سے نجات حاصل کرلے گی۔ اس کو موچنے سے ماتھے، ٹھوڑی اور بالائی لب کے بال اکھیڑنے میں بڑی محنت کرنا پڑی تھی۔ ایک ایک کرکے ہربال کو موچنے کی گرفت میں لینا اور پھر اسے ایک ہی جھٹکے میں باہر نکالنا بہت مشکل کام تھا۔ مگر مایا دھن کی پکی تھی۔ یہ کام گو خود اس کے اپنے ہاتھ کررہے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ درد کے مارے بلبلا اٹھتی تھی۔ جب سارا میدان صاف ہو گیا تو اس نے اطمینان کا بہت لمبا سانس لیا تھا۔ مگر اسے کیا معلوم تھا کہ وہ کم بخت دوسرے ہی روز پھر نمودار ہوجائیں گے۔ چنانچہ جب انہوں نے اس کے چہرے کی جلد سے اپنا سر نکالا تو مایا سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا، کہ وہ ہر چوتھے پانچویں روز اپنے غیر ضروری بالوں کی صفائی کیا کرئے۔ آہستہ آہستہ موچنا اس کی زندگی کا اہم ترین جزو بن گیا۔ وہ جہاں بھی جاتی موچنا اس کے ساتھ ہوتا۔ لیکن اس کے استعمال میں اسے ان دنوں سخت دِقت محسوس ہوتی جب کہ وہ کسی دوسرے کے گھر ہوتی۔ اپنے گھر میں بھی اسے سب کی نظر بچا کر کسی ایسی جگہ اپنے بال نوچنے پڑتے تھے، جہاں کسی کے گزرنے کا امکان نہ ہو۔ پھر بھی کوئی پتا کھڑکتا تووہ بھڑک اٹھتی تھی، جیسے کوئی بہت بڑا گناہ کررہی ہے۔

’’منٹو صاحب میں اب سوچتا ہوں کہ اس سے ایسا کونسا گناہ سرزد ہوا تھا جو خدا نے اس کے مونچھیں اور داڑھی اگا دی تھیں۔ اس کا ماتھا اس قدر تنگ کردیا تھا کہ اس کی گھنی بھنوؤں کے ساتھ آ کے مل گیا تھا۔ اس کے سارے بدن پر بھی بال ہی بال تھے۔ معلوم نہیں کیوں۔ بال۔ روئیں نہیں۔ اچھے تکڑے بال۔ سیاہ۔ آپ یقیناً کہیے گا کہ پھر اس میں ایسی کونسی جاذبیت تھی کہ تم اس پر لٹو ہو گئے اور بہت دیر تک لٹو رہے۔ سو عرض ہے کہ میں اس کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ ‘‘

میں نے شکیل کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا۔

’’آپ اتنے بڑے شاعرہیں، جب وہ آپ کے پاس تھی تو آپ نے بڑی خوبصورت غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ جن میں مایا کا پرتو لفظ لفظ میں ملتا ہے۔ جب وہ چلی گئی تو آپ نے پھر بڑی زہریلی زہریلی غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ ان میں بھی مایا کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ حیرت ہے کہ آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ آپ کا اس پر لٹو ہونے کا باعث کیا تھا؟‘‘

شکیل نے ماتھے کا پسینہ پنسل سے ایک طرف ہٹا کرصاف کیا۔

’’مایا۔ صرف مایا۔ اور۔ مایا کیا تھی۔ یہ خدا کی قسم میں نہیں جان سکا۔ میری شاعری پر لعنت بھیجیے کیونکہ وہ محض جذباتی تھی۔ اس میں بھی وہی مایا کارفرما تھی۔ جس پر میں بظاہر بے وجہ لٹو ہوا تھا۔ لیکن۔ ‘‘

شکیل ایک لحظے کے لیے مناسب و موزوں الفاظ تلاش کرنے کے لیے رک گیا۔

’’وہ بستر کی بہترین رفیق تھی۔ ‘‘

جہاں تک میں سمجھتا ہوں شکیل کا یہ بیان بہت حد تک دُرست تھا۔ مایا ایک نچی ہوئی مرغی تھی۔ اس کے مقابلے میں شکیل کی سہرے جلوؤں کی بیاہی عورت پٹھانی حسن کا بہترین نمونہ تھی۔ گو دہ بچوں کی ماں، مگر شاید وہ بستر کی اچھی رفیق نہیں تھی۔ مایا شادی شدہ تھی مگر اولاد سے محروم۔ اس کے راولپنڈی میں کئی سلسلے ہو چکے تھے، مگر ان سے بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ اس کے ماتھے اس کے بالائی لب اور اس کی ٹھوڑی کے بال بڑھتے جارہے تھے اور موچنے کے کام میں اسی تناسب سے اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ راولپنڈی میں جب اس نے کھیل کھیلنا شروع کیا تو اس کا خاوند جو کہ ایک شریف آدمی تھا، متوسط درجے کا دوکاندار، غربت کا مالک، اور ہٹ کا پکا تو اس نے ایک دن مایا کو گھر سے باہر نکال دیا۔ مایا نے کوئی لڑائی جھگڑا نہ کیا۔ البتہ دوسرے دن میکے سے اپنے شوہر کو خط لکھا کہ وہ مہربانی کرکے اس کا موچنا بھیج دے۔ اس کے شوہر گنڈا سنگھ نے بصد مشکل موچنا تلاش کیا اور آئینہ سمیت مایا کو بھجوایا۔ مایا کے زیور وغیرہ اس کے پاس رہتے تھے، اسی کے پاس رہے۔ مایا نے ان کا مطالبہ کبھی نہ کیا۔ اس کے چاہنے والوں کی کمی نہ تھی۔ چنانچہ دوسرے ہی روز وہ ایک مسلمان گھڑی ساز کے ساتھ رہنے لگی۔ وہ اس پر جان چھڑکتا تھا۔ ایک برس کے اندر اندر اس نے مایا کو کئی زیور بنوا دیے۔ ایک گھڑی جو کسی گاہک کی تھی اس کی کلائی پر باندھ دی۔ یہ بہت بیش قیمت گھڑی تھی۔ جب گاہک نے اس کا مطالبہ کیا تو صاف مکر گیا۔ اس نے یہ کہا صریحاً غلطی ہوئی ہے، ورنہ شہاب الدین کی یہ دُکان۔ وہ عورت جس کی یہ گھڑی تھی کوئی شریف عورت تھی۔ یہ سن کر خاموش ہو کر چلی گئی۔ شہاب الدین باوجود اس کے کہ اس کا ضمیر ملامت کر رہا تھا، زبردستی خوش ہونے کی کوشش کرتا۔ جب گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ مایا دیوی جس کا اسلامی نام اس نے حسب توفیق اور بقدر جذبات صغریٰ رکھا ہوا تھا پڑوسی کے گھر میں ہے، جو شہر کا چھٹا ہوا بدمعاش تھا۔ اب شہاب الدین گھڑی ساز کے گھر سے مایا کا تبادلہ ہو گیا۔ وہ پڑوس میں امین پٹرنگ کے یہاں چلی گئی معمولی سا جھگڑا ہوا تھا۔ مایا کے سارے کپڑے وہیں پڑے رہے، لیکن وہ اپنا موچنا ساتھ لیتی گئی۔ امین پٹرنگ بڑا نہنگ قسم کا آدمی تھا۔ اس نے مایا سے صاف صاف کہہ دیا۔

’’دیکھو اگر تم نے پھر کوئی ایسا ویسا معاملہ کیا تو یاد رکھو میں تمہاری گردن اس چاقو سے کاٹ ڈالوں گا۔ ‘‘

وہ ہر وقت اپنی جیب میں ایک بڑا خوفناک کمانی والا چاقو رکھتا تھا۔ مگر مایا اس سے بالکل خائف نہ ہوئی۔ امین پٹرنگ کا ایک نوجوان لڑکا یوسف تھا جو کالج میں پڑھتا تھا۔ چند دنوں ہی میں اس نے اس نوجوان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ امین کام پر جاتا تو یوسف کالج سے غیر حاضر ہوکر اس کے پاس پہنچ جاتا۔ آخر ایک روز بھانڈا پھوٹ گیا۔ باپ بیٹے کی مڈبھیڑ ہوئی۔ قریب تھا کہ وہ اس کے پیٹ میں اپنا کمانی والا چاقو بھونک کر اس کا خاتمہ کردے کہ مایا نے حکمت عملی سے کام لے کربیچ بچاؤ کرایا اور تین کپڑوں میں وہاں سے نکل گئی۔ سُنا ہے کہ امین پٹرنگ اس کے جانے کے بعد بہت دیر مغموم رہا۔ دوستوں میں وہ ہروقت اس کی باتیں کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر مایا سے اس کی اتفاقی ملاقات ہو جاتی تو اسے کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ کپڑے رنگنے چھوڑ کروہ سارا دن وارث شاہ کی

’’ہیر‘‘

سُنا کرتا تھا۔ مجھے صرف یہاں تک مایا کے متعلق معلوم تھا۔ چنانچہ مزید معلومات کے لیے میں نے شکیل سے جو کہ اپنی داستان بیان کررہا تھا، پوچھا۔

’’امین پٹرنگ کے بعد وہ کس کے پاس گئی؟‘‘

شکیل نے زہر خند کے ساتھ جواب دیا

’’ہزاروں کے پاس۔ لاری ڈرائیور ہربنس سنگھ کے پاس، سینما اپریٹر مکند لال کے پاس۔ دیال سنگھ کالج کے ایک پروفیسر کے پاس۔ سٹار بیکری کے مالک حسین بخش کے پاس۔ ایکسٹرا سپلائر غلام محمد کے پاس۔ ‘‘

شکیل کے ہونٹوں پر ابھی تک وہ زہر خند موجود تھا۔

’’ایک برس میں۔ جو کہ اس نیک بخت کے لیے بہت بڑا عرصہ تھا۔ اور‘‘

اس نے میری طرف بڑی معنی خیز نگاہوں سے دیکھا جوکہ زخم خوردہ تھیں۔

’’آپ کومعلوم ہے، ہر مرتبہ اپنے نئے یار سے جدا ہونے کے بعد اس نے ایک رقعہ لکھا جس میں یہ درخواست کی تھی کہ اس کا موچنا اس کو بھیج دیا جائے۔ ‘‘

میں کباب ہو گیا۔ موچنے میں آخر ایسی کونسی بات تھی کہ مایا اور تمام چیزیں چھوڑ کر صرف اسی کی واپسی کی درخواست کرتی تھی۔ چنانچہ میں نے شکیل سے پوچھا۔

’’یہ موچنا سونے کا تھا۔ جڑاؤ تھا؟‘‘

شکیل مسکرایا۔

’’جی نہیں۔ معمولی لوہے کا تھا۔ زیادہ سے زیادہ اس کی قیمت چار آنے ہو گی۔ مگر وہ اس کا دائمی رفیق بن گیا تھا۔ کم بخت نے کسی مرد کو دائمی رفیق نہیں بنایا تھا۔ مگر یہ موچنا اس کا جیون ساتھی تھا‘‘

امین پٹرنگ کو معلوم تھا کہ موچنا کہاں پڑا ہے۔ اس نے پہلے سوچا کہ گول کردے اور لڑکے کو ایک دھول رسید کرکے رخصت کردے۔ یا اس کے سر پر اُسترا پھروا کر واپس بھیج دے کہ موچنے نے اتنا کام کیا ہے کہ وہ اب کسی کام کا نہیں رہا۔ مگر پھر جانے اسے کیا خیال آیا کہ اس نے کارنس پر سے موچنا اٹھایا۔ اس کے دانتوں میں سے مایا کی بھوؤں کے چند بال نکالے اور ایک طرف پھینک دیے۔ امین پٹرنگ باوجود اس کے کہ بہت بڑا غنڈہ تھا، موچنے کو دیکھ کرموم ہو گیا۔ اس نے قاصد لڑکے کا سرمنڈوانے کا خیال ترک کردیا۔ مجھے یہ معلوم کرنے کی جستجو تھی کہ وہ امین پٹرنگ کے بعد کس کے پاس گئی۔ لیکن شکیل نے مجھے فوراً بتا دیا۔

’’منٹو صاحب وہ ایک مرد کی عورت نہ تھی۔ لیکن شایدیہ کہنا بھی درست نہیں۔ وہ ایسی میل تھی جو ہر اسٹیشن پر کوئلہ، پانی چاہتی ہے۔ امین کے بعد وہ اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر ہربنس سنگھ کے پاس تین مہینے رہی۔ پھر ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی۔ این۔ آہوجہ کے پاس ایک ماہ اور چند دن۔ اس کے بعد۔ اس کے بعد‘‘

میں نے پوچھا

’’کس کے پاس؟‘‘

شکیل نے شرما کے جواب دیا

’’آپ کے اس خاکسار کے پاس، جسے داراشکوہ المعروف شکیل کہتے ہیں۔ لعنت ہو اس پر ہزار بار‘‘

میں نے دریافت کیا

’’آپ اس لعنت میں کیسے گرفتار ہوئے؟‘‘

شکیل نے ٹھیٹ پشاوری لہجے میں کہا

’’منٹو صاحب۔ وہ لعنت ایسی ہے کہ اس میں گرفتار ہوئے بنا کوئی نہیں رہ سکتا۔ آپ بڑے آہنی قسم کے مرد بنے پھرتے ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اسے دیکھتے تو یقیناً اپنی ساری افسانہ نگاری بھول جاتے۔ اگر نہ بھولتے تو قلم کے بجائے موچنے سے افسانے لکھتے۔ یوں کہیے کہ آپ ادب کی مونچھوں کے بال اکھیڑنے میں ساری عمر صرف کردیتے۔ ‘‘

ہو سکتا ہے ایسا ہی ہوتا، کیونکہ میں بھی امین، شکیل اور گنڈا سنگھ کی طرح ایک انسان ہوں۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا تھا، کہ موچنے میں کیا خصوصیت تھی کہ وہ مایا کی زندگی کے ساتھ ایسی بُری طرح چپک گیا تھا۔ میں نے شکیل سے کہا

’’تمہارا اس کا سلسلہ کتنی دیر تک قائم رہا؟‘‘

شکیل نے کانپتی ہوئی انگلیوں سے سگریٹ سلگایا۔

’’قریب قریب دو برس تک‘‘

اور۔ وہ بے حد سنجیدہ ہو گیا

’’اور منٹو صاحب آپ یقین مانیے، میں دنیا و مافیہا کو بھول گیا‘‘

میں نے سوال کیا

’’کیوں؟‘‘

شکیل سوچنے لگا۔

’’کچھ نہیں کہہ سکتا۔ شاید۔ شاید اس کی مونچھوں کے بال۔ جو موچنے کے استعمال سے بڑے کھردرے ہو گئے تھے۔ وہ۔ وہ۔ بڑی حرارت پیدا کرتے تھے۔ اور اس کا جسم جو سر سے پیر تک بالوں سے بھرا ہوا تھا۔ منٹو صاحب میں شاعر ہوں۔ میں نے ہمیشہ نرم اور چکنے بدن کی تعریف کی ہے، جس پر سے آدمی پھسل پھسل جائے۔ مگر مایا کی دوستی کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ سب بکواس ہے، سارا مزہ اٹک اٹک جانے میں ہے۔ بس میں صرف اتنا جانتا ہوں‘‘

میں سوچنے لگا۔ پھسل پھسل جانے اور اٹک اٹک جانے میں واقعی بہت بڑا نفسیاتی فرق ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اسے خود سمجھ سکتے ہیں۔ اگر نہیں سمجھ سکتے تو اس بکھیڑے میں نہ پڑیے۔ شکیل صاحب کی گفتگوکے انداز سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ مایا کو قریب قریب بھول چکے ہیں، مگر پھر بھی اس کی یاد تازہ رکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا۔

’’شکیل صاحب۔ دو برس تک آپ کا اورمایا کا سلسلہ رہا۔ ‘‘

شکیل نے میری بات کاٹ کرکہا

’’جی ہاں۔ دو برس تک۔ ‘‘

میں نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا۔ اپنے بچوں سے منہ موڑ لیا اور مایا کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ لیکن دو برس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ بے وفا ہے۔ ریا کار ہے‘‘

میں نے پوچھا

’’یہ آپ نے کیسے جانا؟‘‘

شکیل نے زہر آلود لہجے میں کہا۔

’’جناب۔ وہ میرے ہمسائے شیخ اسماعیل گورنمنٹ کنٹریکٹر سے اپنا نیا سلسلہ قائم کررہی تھی۔ مجھے اورکسی بات کا غصہ نہیں تھا منٹو صاحب، لیکن وہ سالا پچاس برس کا بوڑھا تھا۔ سات جوان لڑکیوں کا باپ۔ دو بیویوں کا خاوند۔ لیکن حیرت اس سالی پر بھی ہے کہ اسے کیا سوجھی؟‘‘

شکیل نے یہ کہہ کر سگریٹ سلگانے کی کوشش کی، مگر اس سے سلگ نہ سکا۔ اس لیے کہ اس کے ہاتھ بہت بری طرح کانپ رہے تھے۔ میں نے اس کے ہاتھ سے سگریٹ لیا اور سلگا کر اس کو دیا

’’وہ چلی گئی‘‘

’’جی ہاں میں نے اسے دھکے مار کر باہر نکال دیا‘‘

شکیل نے زور کا ایک کش لیا، اور کانپتی ہوئی انگلیوں سے پنسل پکڑ کر ایک نئی نظم لکھنے کے لیے تیار ہونے لگا جو غالباً مایا کی یاد کے بارے میں ہونے والی تھی۔

’’جی ہاں چلی گئی۔ یہ اپنا موچنا چھوڑ گئی‘‘

میں نے پوچھا

’’اس نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا؟‘‘

شکیل نے ایک اور کش لیا

’’ایک نہیں، سینکڑوں مرتبہ۔ لیکن میں نے اسے واپس نہیں کیا۔ اس لیے کہ ایک صرف یہی چیز ہے جو اس کے اور میرے درمیان رہ گئی ہے۔ جب تک یہ موچنا میرے پاس ہے وہ ہمیشہ مجھ سے خط و کتابت کرتی رہے گی۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

موج دِین

رات کی تاریکی میں سنٹرل جیل کے دو وارڈن بندوق لیے چار قیدیوں کو دریا کی طرف لیے جارہے تھے جن کے ہاتھ میں کدالیں اور بیلچے تھے۔ پُل پرپہنچ کر انہوں نے گارد کے سپاہی سے ڈبیا لے کر لالٹین جلائی اور تیز تیز قدم بڑھاتے دریا کی طرف چل دیے۔ کنارے پر پہنچ کر انہوں نے بارہ دری کی بغل میں کدالیں اور بیلچے پھینکے اور لالٹین کی مدھم روشنی میں اس طرح تلاش شروع کی جیسے وہ کسی مدفون خزانے کی کھوج میں آئے ہیں۔ ایک قیدی نے لالٹین تھامے وارڈن کو داروغہ جی کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’داروغہ جی! یہ جگہ مجھے بہت پسند ہے اگر حکم ہو تو کھدائی شروع کردیں۔ ‘‘

’’دیکھنا۔ زمین نیچے سے پتھریلی نہ ہو، ورنہ ساری رات کھدائی میں گزر جائے گی۔ کم بخت کو مرنا بھی رات ہی کو تھا۔ ‘‘

وارڈن نے تحکمانہ اور بیزاری کے لہجے میں کہا۔ قیدیوں نے کدالیں اور بیلچے اُٹھائے اور کھودنا شروع کیا۔ وارڈن بیزاری کے موڈ میں بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے۔ قیدی زمین کھودنے میں ہمہ تن مصروف تھے۔ رفتہ رفتہ زمین پر کھدی ہوئی مٹی کا ڈھیر لگ گیا اور وارڈن نے قریب آکر قبر کا معائنہ کیا۔ زمین چونکہ پتھریلی نہیں تھی۔ اس لیے وہ بڑے اطمینان کے ساتھ قریب ہی ایک پتھر پر بیٹھا سگریٹ پینے لگا۔ جسے لگانے کے لیے اس نے لالٹین منگائی۔ کھدائی قریب قریب ختم ہوچکی تھی۔ وارڈن دو قیدیوں کو لیے جیل کی جانب چلا گیا اور بیس منٹ کے وقفے کے بعد کمبل میں لپٹی ہوئی قیدی کی لاش لے کر واپس آیا۔ دوسرا وارڈن جب تک سلیں جمع کر کے لایا تھا۔ ایک قیدی نے جو قتل کے جُرم کی پاداش میں سزا کاٹ رہا تھا۔ کُدالیں اور بیلچے اُٹھائے اور قبر کے سرہانے چند قدم ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ وارڈن نے بہت ہی برہم لہجے میں اس کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’او اُلّو کے پٹھے اپنے ابا کو لحد میں اُتارنے میں ان کی مدد کر‘‘

قیدی نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔

’’داروغہ جی! لالٹین پکڑتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ اس معصوم اور بے گناہ کو ایک قاتل کے ہاتھ چھو جائیں۔ ‘‘

وارڈن یہ سُن کرگرجا

’’بے گناہ کے بچے۔ جاسوس کو معصوم کہتا ہے۔ ‘‘

قاتل نے کہا۔

’’داروغہ جی! میں قاتل ہوں۔ یہی احساس مجھے اس قیدی کی لاش چھونے سے روکتا ہے۔ ‘‘

’’جاسوس‘‘

دفنایا جا چکا تھا۔ قیدی اور وارڈن جا چکے تھے۔ صبح آٹھ بجے پولیس کی معیت میں ڈپٹی کمشنر قبر پر آیا۔ جیل کے حکام کے بیانات لیے گئے اور ڈپٹی کمشنر صاحب عدالت تشریف لے گئے۔ پیشی کی پہلی مِسل جو اُٹھائی گئی، اس پر سرکار بنام موج دین لکھا تھا۔ اردلی نے تین مرتبہ کمرہ عدالت سے باہر نکل کر بلند آواز میں تین بار پکارا۔ بلکہ یوں کہیے کہ للکارا۔

’’سرکار بنام موج دین۔ موج دین۔ موج دین ہے؟‘‘

لیکن یہ آواز بدقسمتی سے اُس جا سوس قیدی کی قبرتک نہ پہنچ سکی۔ یا اگر پہنچی بھی ہو تو وہ تعمیل کے لیے نہ آیا۔ شاید یہ سمجھ کر کہ وہ اب ڈپٹی کمشنر کے قانون کی زد سے بہت دُور جا چکا ہے۔ اس جگہ جہاں کوئی اور قانون چلتا ہے۔ جہاں ڈپٹی کمشنر کے سمن کی بھی تعمیل نہیں ہوسکتی۔ ملزم چونکہ غیرحاضر تھا، اس لیے ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے عدم حاضری ملزم کارروائی یک طرفہ کے لیے مِسل اٹھائی اورریڈر سے جرم کی نوعیت دریافت کی۔

’’جاسوسی‘‘

منشی نے نمبر ا کی کارروائی لکھتے ہوئے کہا۔

’’ملزم رات کو سنٹرل جیل میں فوت ہو چکا ہے۔ مِسل داخلِ دفتر کردی جائے۔ ‘‘

ڈپٹی کمشنر نے حکم دیا۔

’’جاسوس‘‘

کی سنٹرل جیل میں موت کی خبر شہر بھر میں اس لیے مشہور ہو گئی کہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے افسروں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ آزاد کشمیر حکومت کے نیک سیرت افسروں کی ہر طرف سے داد و تحسین دی جارہی تھی۔ مجھے جب اس واقعہ کا علم ہوا تو مجھے ایک مہینہ پہلے کی ایک شام یاد آئی جب کہ میں دارالحکومت کے ایک ہوٹل میں بیٹھا ڈاک گاڑی کا انتظار کررہا تھا۔ جس کے ذریعے سے میرے مرمت شُدہ جوتے راولپنڈی سے آنے والے تھے۔ گاڑی آنے میں خلافِ معمول دیر ہوئی۔ میں قریب قریب اٹھنے ہی والا تھا کہ ایک گہرے سانولے رنگ کے آدمی نے جس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی۔ مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔

’’آپ بُوت ٹَیم سے بیٹھا کسی کا انتظار کرتا ہے؟‘‘

اس نے مُسکراتے ہوئے استفسار کیا۔

’’بھئی عجیب مصیبت ہے۔ جوتا پھٹ جائے مظفر آباد میں، تو مرمت کے لیے راولپنڈی بھیجنا پڑتا ہے۔ یا اگر کوئی ڈرائیور مہربان ہو تو اسی کے ہاتھ بھیج دیتے ہیں۔ آج میں اپنے مرمت شدہ جوتوں کے انتظار میں تین گھنٹے سے بیٹھا ہوں اور کم بخت ڈاک گاڑی بھی آج ہی لیٹ ہوئی ہے۔ خیر کل سہی۔ ‘‘

میں یہ کہہ کر اُٹھنے لگا تو اس نے مجھے چند منٹ مزید انتظار کرنے کے لیے کہا۔ میں اس اجنبی صورت کو دیکھتا رہا۔ جس کی آنکھوں میں اضطراب تھا۔ جس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے بے تاب تھے۔ وہ بیڑی پر بیڑی پِیے جارہا تھا۔ اور میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھا باربار باہر خلا میں دیکھتا تھا۔ میں ڈاک گاڑی کے انتظار میں ہر ایک ہارن پر کان دھرتا۔ وقت گزارنے کے لیے میں نے اس سے پوچھا۔

’’آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘

’’ہم بیٹھا ہے‘‘

اس نے انتہائی سادگی سے جواب دیا۔

’’نہیں، میرا مطلب ہے یہاں آپ کا کیا کاروبار ہے‘‘

’’کاروبار کچھ نہیں کرتا، کشمیر دیکھنے کا شوق تھا، چلا آیا۔ ‘‘

’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

’’لاہور سے۔ لیکن میں مشرقی پاکستان کا ہوں، لاہور میں دینیات کی تعلیم پڑھتا ہوں۔ ‘‘

مجھے گفتگو کے دوران میں اس نے بتایا کہ وہ جس ادارے میں زیرِ تعلیم ہے، خیراتی ادارہ ہے، جہاں کے اربابِ اعلیٰ رسید بُک چھاپ کر زیرِ تعلیم کم عمر بچوں کو چندے کی فراہمی کے لیے دوسرے شہروں میں بھیج دیتے ہیں۔ وہ چونکہ کم عمر بچہ نہ تھا۔ اس لیے اس کو بڑی مشکلوں کے بعد

’’سفیر‘‘

بن کر آزاد کشمیر میں چندہ جمع کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس کی باتوں میں سادگی تھی۔ محض کشمیر دیکھنے کے شوق میں اس نے

’’سفارت‘‘

حاصل کی تھی۔ اس نے یہ بھی بتا دیا کہ یتیم خانوں کے نام پر

’’بِھک منگوں‘‘

کا نام اداروں نے سفیر رکھا ہے۔ جمع شدہ چندہ ان کی جیبوں میں جاتا ہے اور

’’سفیر‘‘

کا گزارہ چڑھاوے کی دیگوں یا محلے والے کی خیرات پر ہوتا ہے۔ دینیات کی تعلیم مساجد میں دی جاتی ہے۔ مجھے اس کی باتیں سن کربہت دکھ ہوا۔ واقعی وہ ہمدردی کے قابل تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ اس شہر میں نیا ہے اور کسی مسجد کا پتا بھی نہیں جانتا جہاں وہ رات بسر کرسکے۔ میں نے مسجد کا پتا دیا اور اس کے لیے روٹی منگوائی۔ وہ چونکہ بھوکا تھا، اس نے بِلا تکلف بجائے روٹی کے سادہ چا ول کے لیے بیرے سے کہا۔

’’ہم لاہور کی مسجد میں بھی لوگوں کا دیا کھاتے ہیں۔ اس لیے ادھر بھی ہم نے انکار نہیں کیا۔ ‘‘

اس نے انتہائی سادگی سے کہا۔ وہ کھانا کھا چکا تھا۔ مجھ سے اجازت لے کر اس نے جیب سے لکھنے کے لیے پنسل اور کاغذ نکالا۔ اوراپنے گھروالوں کو بنگلہ زبان میں خط لکھنے لگا۔ میں جب تک فرمائشی گانے سنتا رہا۔ خط لکھنے کے بعد اس نے مجھ سے معافی مانگی اور کہا کہ

’’میں نے گھر والوں کو لکھا کہ میں آزاد کشمیر آیا ہوں۔ اب یہیں رہوں گا۔ اگر پاکستان نے ہندوستان کے خلاف جہاد شروع کیا تو میں بھی اس میں حصّہ لوں گا اور کشمیر کو آزاد کراؤں گا۔ ‘‘

میں نے جواب میں ہندی مقبوضہ کشمیر کی خوبصورتی کا ذکر کیا۔ کشمیری مسلمانوں پربھارتی ظلم و استبداد بیان کیا، جس سے وہ اور زیادہ متاثر ہوا۔

’’پھر ہم لاہور واپس نہیں جائے گا۔ کل ان کو بھی خط لکھے گا۔ جہاد شروع ہونے تک ادھر ہی پان بیڑی کی چھابڑی لگائے گا۔ ‘‘

اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ اتنی دیر میں ڈاک گاڑی آئی اور میں وہاں سے اُٹھ کر لاریوں کے اڈے کی طرف گیا۔ اور وہ میرے بتائے ہوئے راستے سے مسجد کی طرف گیا۔ اپنے جوتے ڈرائیور سے لے کر جب میں گھر کی طرف جارہا تھا تو راستے میں سی آئی ڈی کے ہیڈ کانسٹیبل نے مجھے آواز دی جو میرا واقف کار تھا۔ میں نے رسمی طورپر اس کی خیریت پوچھی۔ وہ مشکوک نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ رسمی باتوں کے بعد اس نے مجھے اس

’’کالے آدمی‘‘

کے متعلق پوچھا کہ وہ کون ہے جو آپ کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا تھا۔ میں نے مختصراً کہا۔ بھئی بنگالی ہے، آزاد کشمیر دیکھنے کا شوق تھا۔ چلا آیا۔ نام موج دین ہے اور آج رات جامع مسجد میں گزارنے کے لیے گیا ہے۔

’’لیکن وہ تو ہوٹل میں بیٹھا کچھ عجیب و غریب زبان میں خط لکھ رہا تھا۔ مجھے اس پر کچھ شُبہ بھی ہوا۔ ‘‘

ہیڈ کانسٹیبل نے رازدارانہ لہجہ میں کہا۔ وہ عجیب و غریب زبان نہیں۔ اس کی مادری زبان بنگلہ ہے۔ ہاں تمہارے لیے اجنبی ہے۔ اتنے میں میرا مکان قریب آیا اور میں خدا حافظ کہہ کر گھرچلا گیا۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ سی آئی ڈی والوں کو دن کی کارگزاری کی رپورٹ دوسرے روز صبح سویرے دفتر میں دینی پڑتی ہے اور اگر رپورٹ نہ دی گئی تو جواب طلبی ہوتی ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل صاحب بھی دن کی کار گزاری میں کچھ نہ کچھ دکھانا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے گھر جا کرحکومت کے

’’صدر مقام‘‘

میں ایک غیر ملکی

’’جاسوس‘‘

کی آمد کی رپورٹ اس طرح دی کہ دوسرے روز موج دین، پان فروشی کے لیے چونا کتھا خریدتا ہوا گرفتار کیا گیا۔ پان، چونا، کتھا وغیرہ بھی اس کی جاسوسی کی ایک کڑی بن گئی۔ اور سی آئی ڈی والوں نے مزید رپورٹ دے دی کہ

’’جاسوس‘‘

چونکہ پان کھانے کا عادی ہے، اس لیے یہ سٹاک خرید کر ہماری فوجوں کی پکٹوں کی پوزیشن دیکھنے پہاڑی علاقوں میں جارہا ہے۔ موج دین کا چالان ہوا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے الزامات کی سنگینی کے تحت

’’جاسوس‘‘

کو پندرہ دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ جہاں سے وہ سپیشل سٹاف میں منتقل ہوا۔ پندرہ دن کی میعاد گزر جانے پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے مزید ایک ہفتے کے ریمانڈ پر اس کو جوڈیشل(سنٹرل جیل) بھیج دیا۔ وہ ہفتہ بھی گزر گیا اور

’’جاسوس‘‘

ہتھکڑیاں پہنے ڈپٹی کمشنر صاحب کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جہاں وہ زار وقطار رویا۔ گڑگڑایا، منت سماجت کی، لیکن ڈپٹی کمشنر صاحب نے مزید ایک ہفتے کا ریمانڈ دے کر سنٹرل جیل بھیج دیا۔ سنٹرل جیل میں اس کی آخری رات تھی جب کہ وہ ایک ستون سے بندھا رو رہا تھا، وہی قاتل قیدی جس نے اس کو دفناتے وقت چھونے سے انکارکیا۔ اس کے قریب آیا اور پوچھا۔

’’جاسوس! تم ہر روز کیوں روتے ہو۔ یہ جگہ باہروالوں کی بہ نسبت بہت اچھی ہے۔ یہاں جھوٹ نہیں، مکر نہیں، بے ایمانی نہیں۔ روٹی ملتی ہے۔ اسکے مقابلے میں باہر دیکھو، کون لوگ ہیں۔ جنہوں نے تم ایسے بے گناہ کو بھی یہاں بھیجا، جو اقتدار کے لیے ایک کا نہیں، ہزاروں کا خون بہاتے ہیں جو دن دیہاڑے ڈاکے ڈالتے ہیں‘ جو اپنی ذات کے لیے وہ کام بھی کرتے ہیں جو شیطان بھی کرنے سیگریز کرتا ہے۔ مجھے دیکھو میں نے قتل کیا ہے محض ایک بے بس عورت کے ناموس کے تحفظ کے لیے۔ بہر حال مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اگر تم باہر جا کر خوش ہو تو خدا تمہیں آزاد کرائے گا۔ ‘‘

موج دین نے قیدی کی باتیں سنیں اور بالکل خاموش بیٹھا رہا۔

’’سُنا ہے بنگالی جادو جانتے ہیں۔ تم بھی جادو کے زور سے باہر جاؤ‘‘

قیدی نے موج دین کو بہلانے کے لیے ازراہِ مذاق کہا۔

’’ہاں، میں اس قید سے رہائی کا جادو جانتا ہوں۔ میں آج ہی یہاں سے بھاگ جاؤں گا، بہت دُور، جہاں سے دنیا کی کوئی طاقت مجھے واپس نہیں لاسکتی۔ ‘‘

اتنے میں کھانے کی گھنٹی بجی۔ قیدی اپنی تھالی لیے دال روٹی لینے گیا۔ آدھ گھنٹے کے بعد اچانک جیل کی گھنٹی بجنی شروع ہوئی اور متواتر بجتی رہی۔ داروغہ جیل کئی وارڈنوں کے ساتھ جیل کے احاطہ میں داخل تھا اور

’’جاسوس‘‘

کے گلے سے رسی کا پھندا کھولا جو اس نے خود کشی کے لیے استعمال کیا تھا۔

’’جاسوس‘‘

بھاگ چکا تھا، اس کو رہائی مل گئی تھی۔

’’بنگال کا جادو‘‘

کام آیا تھا۔ موج دین کی لاش کے اردگرد قیدیوں کا ہجوم تھا۔ داروغہ جیل نے چند ایک قیدیوں کو وہاں ٹھہرنے کا حکم دے دیا اور باقی سارے قیدی بارکوں میں چلے گئے۔ موج دین کے چہرے پر اب بھی مُسکراہٹ تھی۔ وہ اس قانون پر مسکرا رہا تھا جس نے اس کو جاسوس بنا کر محبوس کیا تھا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

موتری

کانگرس ہاؤس اور جناح ہال سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک پیشاب گاہ ہے جسے بمبئی میں

’’موتری‘‘

کہتے ہیں۔ آس پاس کے محلوں کی ساری غلاظت اس تعفن بھری کوٹھڑی کے باہر ڈھیریوں کی صورت میں پڑی رہتی ہے۔ اس قدر بدبو ہوتی ہے کہ آدمیوں کو ناک پر رومال رکھ کر بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس موتری میں دفعہ اسے مجبوراً جانا پڑا۔ پیشاب کرنے کے لیے ناک پررومال رکھ کر، سانس بند کرکے، وہ بدبوؤں کے اس مسکن میں داخل ہوا فرش پر غلاظت بلبلے بن کر پھٹ رہی تھی۔ دیواروں پر اعضائے تناسل کی مہیب تصویریں بنی تھیں۔ سامنے کوئلے کے ساتھ کسی نے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:۔

’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا‘‘

ان الفاظ نے بدبو کی شدت اور بھی زیادہ کردی۔ وہ جلدی جلدی باہر نکل آیا۔ جناح ہال اور کانگرس ہاؤس دونوں پر گورنمنٹ کا قبضہ ہے۔ لیکن تھوڑے ہی فاصلے پر جو موتری ہے، اسی طرح آزاد ہے۔ اپنی غلاظتیں اور عفونتیں پھیلانے کے لیے۔ آس پاس کے محلوں کا کوڑا کرکٹ اب کچھ زیادہ ہی ڈھیریوں کی صورت میں باہر پڑا دکھائی دیتا ہے۔ ایک بار پھر اسے مجبوراً اس موتری میں جانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ پیشاب کرنے کے لیے۔ ناک پر رومال رکھ کر اور سانس بند کرکے وہ بدبوؤں کے اس گھر میں داخل ہوا۔ فرش پر پتلے پاخانے کی پپڑیاں جم رہی تھیں۔ دیواروں پر انسان کے اولاد پیدا کرنے والے اعضا کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا۔

’’مسلمان کی بہن کا پاکستان مارا‘‘

کے نیچے کسی نے موٹی پنسل سے یہ گھناؤنے الفاظ تحریر کیے ہوئے تھے۔

’’ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا‘‘

اس تحریر نے موتری کی بدبو میں ایک تیزابی کیفیت پیدا کردی۔ وہ جلدی جلدی باہر نکل آیا۔ مہاتما گاندھی کی غیر مشروط رہائی ہوئی۔ جناح کو پنجاب میں شکست ہوئی۔ جناح ہال اور کانگرس ہاؤس دونوں کو شکست ہوئی نہ رہائی۔ ان پر گورنمنٹ کا اور اس کے تھوڑے ہی فاصلے پر جو موتری ہے اس پر بدبو کا قبضہ جاری رہا۔ آس پاس کے محلوں کا کوڑا کرکٹ اب ایک ڈھیر کی صورت میں باہر پڑا رہتا ہے۔ تیسری بار پھر اسے اس موتری میں جانا پڑا۔ پیشاب کرنے کے لیے نہیں۔ ناک پر رومال رکھ کر اور سانس بند کرکے وہ غلاظتوں کی اس کوٹھڑی میں داخل ہوا۔ فرش پر کیڑے چل رہے تھے۔ دیواروں پر انسان کے شرمناک حصوں کی نقاشی کرنے کے لیے اب کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔

’’مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا‘‘

اور

’’ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا‘‘

کے الفاظ مدھم پڑ گئے تھے۔ مگر ان کے نیچے سفید چاک سے لکھے ہوئے یہ الفاظ ابھر رہے تھے۔

’’دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا‘‘

ان الفاظ نے ایک لحظے کے لیے موتری کی بدبو غائب کردی۔ وہ جب آہستہ آہستہ باہر نکلا تو اسے یوں لگا کہ اسے بدبوؤں کے اس گھر میں ایک بے نام سی مہک آئی تھی۔ صرف ایک لحظے کے لیے۔ (سن تصنیف 1945ء)

سعادت حسن منٹو

منظور

جب اسے ہسپتال میں داخل کیا گیا تو اس کی حلات بہت خراب تھی۔ پہلی رات اسے آکسیجن پر رکھا گیا۔ جو نرس ڈیوٹی پر تھی، اس کا خیال تھا کہ یہ نیا مریض صبح سے پہلے پہلے مر جائے گا۔ اس کی نبض کی رفتار غیریقینی تھی۔ کبھی زور زور سے پھڑپھڑاتی اور کبھی لمبے لمبے وقفوں کے بعد چلتی تھی۔ پسینے میں اس کا بدن شرابور تھا، ایک لحظے کے لیے بھی اسے چین نہیں ملتاتھا۔ کبھی اس کروٹ لیٹتا، کبھی اس کروٹ۔ جب گھبراہٹ بہت زیادہ بڑھ جاتی تو اٹھ کر بیٹھ جاتا اور لمبے لمبے سانس لینے لگتا۔ رنگ اس کا ہلدی کی گانٹھ کی طرح زرد تھا۔ آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں۔ ناک کا بانسا برف کی ڈلی۔ سارے بدن پررعشہ تھا۔ ساری رات اس نے بڑے شدید کرب میں کاٹی۔ آکسیجن برابر دی جارہی تھی، صبح ہوئی تو اسے کسی قدر افاقہ ہوا اور وہ نڈھال ہو کر سو گیا۔ اس کے دو تین عزیز آئے۔ کچھ دیر بیٹھے رہے اور چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتا دیا تھا کہ مریض کو دل کا عارضہ ہے جسے

’’کورونری تھرمبوس‘‘

کہتے ہیں۔ یہ بہت مہلک ہوتا ہے۔ جب وہ اٹھا تو اسے ٹیکے لگا دیے گئے۔ اس کے بدل میں بدستور میٹھا میٹھا درد ہورہا تھا۔ شانوں کے پٹھے اکڑے ہوئے تھے جیسے رات بھر انھیں کوئی کوٹتارہا تھا۔ جسم کی بوٹی بوٹی دکھ رہی تھی مگر نقاہت کے باعث وہ بہت زیادہ تکلیف محسوس نہیں کررہا تھا۔ ویسے اس کو یقین تھا کہ اس کی موت دور نہیں، آج تو نہیں کل ضرور مر جائے گا۔ اس کی عمربتیس کے قریب تھی۔ ان برسوں میں اس نے کوئی راحت نہیں دیکھی تھی جو اس وقت اسے یاد آتی اور اس کی صعوبت میں اضافہ کرتی۔ اس کے ماں باپ اس کو بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئے تھے۔ معلوم نہیں اس کی پرورش کس خاص شخص نے کی تھی۔ بس وہ ایسے ہی ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھاتا اس عمر تک پہنچ گیا اور ایک کارخانے میں ملازم ہو کر پچیس روپے ماہوار پر انتہا درجے کی افلاس زدہ زندگی گزار رہا تھا۔ دل میں ٹیسیں نہ اٹھتیں تو وہ اپنی تندرتی اور بیماری میں کوئی نمایاں فرق محسوس نہ کرتا۔ کیونکہ صحت اس کی کبھی بھی اچھی نہیں تھی۔ کوئی نہ کوئی عارضہ اسے ضرور لاحق رہتا تھا۔ شام تک اسے چار ٹیکے لگ چکے تھے۔ آکسیجن ہٹا لی گئی تھی۔ دل کا درد کسی قدر کم تھا، اس لیے وہ ہوش میں تھا اور اپنے گردوپیش کا جائزہ لے سکتا تھا۔ وہ بہت بڑے وارڈ میں تھا جس میں اس کی طرح اور کئی مریض لوہے کی چارپائیوں پر لیٹے تھے۔ نرسیں اپنے کام میں مشغول تھیں۔ اس کے داہنے ہاتھ نو دس برس کا لڑکا کمبل میں لپٹا ہوا اس کی طرف دیکھ رہا تھا، اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

’’السلام علیکم۔ ‘‘

لڑکے نے بڑے پیار سے کہا۔ نئے مریض نے اس کے پیار بھرے لہجے سے متاثر ہو کر جواب دیا۔

’’وعلیکم السلام۔ ‘‘

لڑکے نے کمبل میں کروٹ بدلی۔

’’بھائی جان! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘

نئے مریض نے اختصار سے کہا۔

’’اللہ کا شکر ہے۔ ‘‘

لڑکے کا چہرہ اور زیادہ تمتما اٹھا۔

’’آپ بہت جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ کا نام کیا ہے؟‘‘

’’میرا نام!‘‘

نئے مریض نے مسکرا کر لڑکے کی طرف برادرانہ شفقت سے دیکھا۔

’’میرا نام اختر ہے۔ ‘‘

’’میرا نام منظور ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک دم کروٹ بدلی اور اس نرس کو پکارا جو ادھر سے گزر رہی تھی۔

’’آپ۔ آپا جان۔ ‘‘

نرس رک گئی۔ منظور نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسے سلام کیا۔ نرس قریب آئی اور اسے پیار کرکے چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد اسسٹنٹ ہاؤس سرجن آیا۔ منظور نے اس کو بھی سلام کیا۔

’’ڈاکٹر جی، السلام علیکم۔ ‘‘

ڈاکٹر سلام کا جواب دے کر اس کے پاس بیٹھ گیا اور دیر تک اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے باتیں کرتا رہا جو ہسپتال کے بارے میں تھیں۔ منظور کو اپنے وارڈ کے ہر مریض سے دلچسپی تھی۔ اس کو معلوم تھا کس کی حالت اچھی ہے اور کس کی حالت خراب ہے۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے۔ سب نرسیں اس کی بہنیں تھی اور سب ڈاکٹر اس کے دوست۔ مریضوں میں کوئی چچا تھا، کوئی ماموں اور کوئی بھائی۔ سب اس سے پیار کرتے تھے۔ اس کی شکل و صورت معمولی تھی۔ مگر اس میں غیر معمولی کشش تھی۔ ہر وقت اس کے چہرے پر تمتماہٹ کھیلتی رہتی جو اس کی معصومیت پر ہالے کا کام دیتی تھی۔ وہ ہر وقت خوش رہتا تھا۔ بہت زیادہ باتونی تھا، مگر اختر کو حالانکہ وہ دل کا مریض تھا اور اس مرض کے باعث بہت چڑچڑا ہو گیا تھا، اس کی یہ عادت کھلتی نہیں تھی۔ چونکہ اس کا بستر اختر کے بستر کے پاس تھا اس لیے وہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اس سے گفتگو شروع کردیتا تھا جو چھوٹے چھوٹے معصوم جملوں پر مشتمل ہوتی تھی:

’’بھائی جان! آپ کے بھائی بہن ہیں؟‘‘

’’میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا لڑکا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کے دل میں اب درد تو نہیں ہوتا ہے۔ ‘‘

’’مجھے معلوم نہیں دل کا درد کیسا ہوتا ہے۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ دودھ زیادہ پیا کریں!‘‘

’’میں بڑے ڈاکٹر جی سے کہوں، وہ آپ کو مکھن بھی دیا کریں گے۔ ‘‘

بڑا ڈاکٹر بھی اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ صبح جب راؤنڈ پر آتا تو کرسی منگا کر اس کے پاس تھوڑی دیر تک ضرور بیٹھتا اور اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا۔ اس کا باپ درزی تھا۔ دوپہر کو پندرہ بیس منٹ کے لیے آتا۔ سخت افراتفری کے عالم میں اس کے لیے پھل وغیرہ لاتا اور جلدی جلدی اسے کھلا کر اور اس کے سر پر محبت کا ہاتھ پھیر کر چلا جاتا۔ شام کو اس کی ماں آتی اور برقع اوڑھے دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہتی۔ اختر نے اسی وقت اس سے دلی رشتہ قائم کرلیا تھا، جب اس نے اس کو سلام کیا تھا۔ اس سے باتیں کرنے کے بعد یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا۔ دوسرے دن رات کی خاموشی میں جب اسے سوچنے کا موقع ملا تو اس نے محسوس کیا۔ اس کو جو افاقہ ہوا ہے، منظور ہی کا معجزہ ہے۔ ڈاکٹر جواب دے چکے تھے۔ وہ صرف چند گھڑیوں کا مہمان تھا۔ منظور نے اس کو بتایا تھا کہ جب اسے بستر پرلٹایا گیا تھا تو اس کی نبض قریب قریب غائب تھی۔ اس نے دل ہی دل میں کئی مرتبہ دعا مانگی تھی کہ خدا اس پر رحم کرے۔ یہ اس کی دعا ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ مرتے مرتے بچ گیا۔ لیکن اسے یقین تھا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے گا، اس لیے کہ اس کا مرض بہت مہلک تھا۔ بہر حال اب اس کے دل میں اتنی خواہش ضرور پیدا ہو گئی تھی کہ وہ کچھ دن زندہ رہے تاکہ منظورسے اس کا رشتہ فوراً نہ ٹوٹ جائے۔ دو تین روز گزر گئے۔ منظور حسب معمول سارا دن چہکتا رہتا تھا۔ کبھی نرسوں سے باتیں کرتا، کبھی ڈاکٹروں سے، کبھی جمعداروں سے۔ یہ بھی اس کے دوست تھے۔ اختر کو تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وارڈ کی بدبو دار فضا کا ہر ذرہ اس کا دوست تھے۔ وہ جس شے کی طرف دیکھتا تھا، فوراً اس کی دوست بن جاتی تھی۔ دو تین روز گزرنے کے بعد جب اخترکو معلوم ہوا کہ منظور کا نچلا دھڑ مفلوج ہے تو اسے سخت صدمہ پہنچا۔ لیکن اس کو حیرت بھی ہوئی کہ اتنے بڑے نقصان کے باوجود وہ خوش کیونکر رہتا ہے۔ باتیں جب اس کے منہ سے بلبلوں کے مانند نکلتی تھیں تو انھیں سن کر کون کہہ سکتا تھا کہ اس کا نچلا دھڑ گوشت پوست کا بے جان لوتھڑا ہے۔ اختر نے اس سے اس کے فالج کے متعلق کوئی بات نہ کی۔ اس لیے کہ اس سے ایسی بات کے متعلق پوچھنا بہت بڑی حماقت ہوتی، جس سے وہ قطعاً بے خبر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اسے کسی ذریعے سے معلوم ہو گیا کہ منظور ایک دن جب کھیل کود کر واپس آیا تو اس نے ٹھنڈے پانی سے نہا لیا جس کے باعث ایک دم اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔ ماں باپ کا اکلوتا لڑکا تھا، انھیں بہت دکھ ہوا۔ شروع شروع میں حکیموں کا علاج کرایا مگرکوئی فائدہ نہ ہوا۔ پھر ٹونے ٹوٹکوں کا سہارا لیا مگر بے سود۔ آخر کسی کے کہنے پر انھوں نے اسے ہسپتال میں داخل کرا دیا تاکہ باقاعدگی سے اس کا علاج ہوتا رہے۔ ڈاکٹر مایوس تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ اس کے جسم کا مفلوج حصہ کبھی درست نہ ہو گا مگر پھر بھی اس کے والدین کا جی رکھنے کے لیے وہ اس کا علاج کررہے تھے۔ انھیں حیرت تھی کہ وہ اتنی دیر زندہ کیسے رہا ہے۔ اس لیے کہ اس پر فالج کا حملہ بہت شدید تھا، جس نے اس کے جسم کا نچلا حصہ بالکل ناکارہ کرنے کے سوا اس کے بدن کے بہت سے نازک اعضا جھنجھوڑ کر رکھ دیے تھے۔ وہ اس پر ترس کھاتے تھے اور اس سے پیار کرتے تھے، اس لیے کہ اس نے سدا خوش رہنے کا گر اپنی اس شدید علالت سے سیکھا تھا۔ اس کے معصوم دماغ نے یہ طریقہ خود ایجاد کیا تھا کہ اس کا دکھ دب جائے۔ اختر پرپھر ایک دورہ پڑا۔ یہ پہلے دورے سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک تھا مگر اس نے صبر اور تحمل سے کام لیا اور منظور کی مثال سامنے رکھ کر اپنے دکھ درد سے غافل رہنے کی کوشش کی جس میں اسے کامیابی ہوئی، ڈاکٹروں کو اس مرتبہ تو سو فی صدی یقین تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں بچا سکتی، مگر معجزہ رونما ہوا اور رات کی ڈیوٹی پر متعین نرس نے صبح سویرے اسے دوسری نرسوں کے سپرد کیا تو اس کی گرتی ہوئی نبض سنبھل چکی تھی۔ وہ زندہ تھا۔ موت سے کشتی لڑتے لڑتے نڈھال ہو کر جب وہ سونے لگا تو اس نے نیم مندی ہوئی آنکھوں سے منظور کی دیکھا جو محو خواب تھا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اختر نے اپنے کمزور اور نحیف دل میں اس کی پیشانی کو چوما اور سو گیا۔ جب اٹھا تومنظور چہک رہا تھا۔ اسی کے متعلق ایک نرس سے کہہ رہا تھا۔

’’آپا، اختر بھائی جان کو جگاؤ۔ دوا کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’سونے دو۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ ‘‘

’’نہیں۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ آپ انھیں دوا دیجیے۔ ‘‘

’’اچھا دے دوں گی۔ ‘‘

منظور نے جب اختر کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ بہت خوش ہو کربآواز بلند کہا۔

’’السلام علیکم!‘‘

اختر نے نقاہت بھرے لہجے میں جواب دیا۔

’’وعلیکم السلام!‘‘

’’بھائی جان! آپ بہت سوئے۔ ‘‘

’’ہاں۔ شاید۔ ‘‘

’’نرس آپ کے لیے دوا لارہی ہے۔ ‘‘

اختر نے محسوس کیا کہ منظور کی باتیں اس کے نحیف دل کو تقویت پہنچا رہی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ خود اسی کی طرح چہکنے چہکارنے لگا۔ اس نے منظور سے پوچھا۔

’’اس مرتبہ بھی تم نے میرے لیے دعا مانگی تھی؟‘‘

منظور نے جواب دیا۔

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں روز روز دعائیں نہیں مانگا کرتا۔ ایک دفعہ مانگ لی، کافی تھی۔ مجھے معلوم تھا آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘

اس کے لہجے میں یقین تھا۔ اختر نے اسے ذرا سا چھیڑنے کے لیے کہا۔

’’تم دوسروں سے کہتے رہتے ہو کہ ٹھیک ہو جاؤ گے، خودکیوں نہیں ٹھیک ہو کر گھر چلے جاتے۔ ‘‘

منظور نے تھوڑی دیر سوچا۔

’’میں بھی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ بڑے ڈاکٹر جی کہتے تھے کہ تم ایک مہینے تک چلنے پھرنے لگو گے۔ دیکھیے نا اب میں نیچے اور اوپر کھسک سکتا ہوں۔ ‘‘

اس نے کمبل میں اوپر نیچے کھسکنے کی ناکام کوشش کی۔ اختر نے فوراً کہا۔

’’واہ منظور میاں واہ۔ ایک مہینہ کیا ہے۔ یوں گزر جائے گا۔ ‘‘

منظور نے چٹکی بجائی اور خوش ہو کر ہنسنے لگا۔ ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ اس دوران میں ا خترپر دل کے دو تین دورے پڑے جو زیادہ شدید نہیں تھے۔ اب اس کی حالت بہتر تھی، نقاہت دور ہورہی تھی۔ اعصاب میں پہلا سا تناؤ بھی نہیں تھا۔ دل کی رفتار ٹھیک تھی۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اب وہ خطرے سے باہر ہے۔ لیکن ان کا تعجب بدستور قائم تھا کہ وہ بچ کیسے گیا۔ اختر دل ہی دل میں ہنستا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے بچانے والا کون ہے۔ وہ کوئی انجکشن نہیں تھا۔ کوئی دوائی ایسی نہیں تھی۔ وہ منظور تھا۔ مفلوج منظور، جس کا نچلا دھڑ بالکل ناکارہ ہو چکا تھا، جسے یہ خوش فہمی تھی کہ اسے کے گوشت پوست کے بے جان لوتھڑے میں زندگی کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ اختر اور منظور کی دوستی بہت بڑھ گئی تھی۔ منظور کی ذات اس کی نظروں میں مسیحا کا رتبہ رکھتی تھی کہ اس نے اس کو دوبارہ زندگی عطا کی تھی اور اس کے دل و دماغ سے وہ تمام کالے بادل ہٹا دیے تھے جن کے سائے میں وہ اتنی دیر تک گھٹی گھٹی زندگی بسرکرتا رہا تھا۔ اس کی قنوطیت رجائیت میں تبدیل ہو گئی تھی، اسے زندہ رہنے سے دلچسپی ہو گئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ بالکل ٹھیک ہو کر ہسپتال سے نکلے اور ایک نئی صحت مند زندگی بسر کرنی شروع کردے۔ اسے بڑی الجھن ہوتی تھی جب وہ دیکھتا تھا کہ منظور ویسے کا ویسا ہے۔ اس کے جسم کے مفلوج حصے پر ہر روز مالش ہوتی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا تھا، اس کی خوش رہنے والی طبیعت شگفتہ شگفتہ تر ہورہی تھی۔ یہ بات حیرت اور الجھن کا باعث تھی۔ ایک دن بڑے ڈاکٹر نے منظور کے باپ سے کہا کہ اب وہ اسے گھر لے جائے کیوں کہ اس کا علاج نہیں ہوسکتا۔ منظور کو صرف اتنا پتہ چلا کہ اب اس کا علاج ہسپتال کے بجائے گھر پر ہو گا اور بہت ٹھیک ہو جائے گا، مگر اسے سخت صدمہ پہنچا۔ وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا۔ اختر نے جب اس سے پوچھا کہ وہ ہسپتال میں کیوں رہنا چاہتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’وہاں اکیلا رہوں گا۔ ابا دکان پر جاتا ہے، ماں ہمسائی کے ہاں جا کر کپڑے سیتی ہے، میں وہاں کس سے کھیلا کروں گا، کس سے باتیں کروں گا۔ ‘‘

اختر نے بڑے پیار سے کہا۔

’’تم اچھے جو ہو جاؤ گے منظور میاں۔ چند دن کی بات ہے پھر تم باہر اپنے دوستوں سے کھیلا کرنا۔ اسکول جایا کرنا۔ ‘‘

‘‘

نہیں نہیں۔ ‘‘

منظور نے کمبل سے اپنا سدا تمتمانے والا چہرہ ڈھانپ کر رونا شروع کردیا۔ اختر کو بہت دکھ ہوا۔ دیر تک وہ اسے چمکارتا پچکارتا رہا۔ آخر اس کی آواز گلے میں رندھ گئی اور اس نے کروٹ بدل لی۔ شام کو ہاؤس سرجن نے اختر کو بتایا کہ بڑے ڈاکٹر نے اس کی ریلیز کا آرڈر دے دیا ہے۔ وہ صبح جا سکتا ہے۔ منظور نے سنا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے اتنی باتیں کیں، اتنی باتیں کیں کہ تھک گیا۔ ہر نرس کو، ہر اسٹوڈنٹ کو، ہر جمعدارکو اس نے بتایا کہ بھائی جان اختر جارہے ہیں۔ رات کو بھی وہ اختر سے دیر تک خوشی سے بھرپور ننھی ننھی معصوم باتیں کرتا رہا۔ آخر سو گیا۔ اختر جاگتا رہا اور سوچتا رہا کہ منظور کب تک ٹھیک ہو گا۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی دوا موجود نہیں جو اس پیارے بچے کو تندرست کردے۔ اس نے اس کی صحت کے لیے صدق دل سے دعائیں مانگیں مگر اسے یقین تھا کہ یہ قبول نہیں ہوں گی، اس لیے کہ اس کا دل منظور کا سا پاک دل کیسے ہو سکتا تھا۔ منظور اور اسکی جدائی کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے بہت دکھ ہوتا تھا۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ صبح اس کو وہ چھوڑ کر چلا جائے گا اور اپنی نئی زندگی تعمیر کرنے میں مصروف ہو کر اسے اپنے دل و دماغ سے محو کردے گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ منظور کی

’’السلام علیکم‘‘

سننے سے پہلے ہی مر جاتا۔ یہ نئی زندگی جو اس کی عطا کردہ تھی، وہ کس منہ سے اٹھا کر ہسپتال سے باہر لے جائے گا۔ سوچتے سوچتے اختر سو گیا۔ صبح دیر سے اٹھا۔ نرسیں وارڈ میں ادھر ادھر تیزی سے چل پھر رہی تھیں۔ کروٹ بدل کر اس نے منظور کی چارپائی کی طرف دیکھا۔ اس پر اس کی بجائے ایک بوڑھا، ہڈیوں کا ڈھانچہ، لیٹا ہوا تھا۔ ایک لحظے کے لیے اختر پر سناٹا سا طاری ہو گیا۔ ایک نرس پاس سے گزر رہی تھی، اس سے اس نے قریب قریب چلا کر پوچھا۔

’’منظور کہاں ہے۔ ‘‘

نرس رکی۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے بڑے افسوسناک لہجے میں جواب دیا۔

’’بیچارہ! صبح ساڑھے پانچ بجے مر گیا۔ ‘‘

یہ سن کر اختر کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ اس نے سمجھا کہ یہ آخری دورہ ہے۔ مگر اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے ہسپتال سے رخصت ہونا پڑا۔ کیونکہ اس کی جگہ لینے والا مریض داخل کرلیا گیا تھا۔

سعادت حسن منٹو

منتر

ننھا رام۔ ننھا تو تھا، لیکن شرارتوں کے لحاظ سے بہت بڑا تھا۔ چہرے سے بے حد بھولا بھالا معلوم ہوتا تھا۔ کوئی خط یا نقش ایسا نہیں تھا جو شوخی کا پتہ دے۔ اس کے جسم کا ہر عضو بھدے پن کی حد حد تک موٹا تھا۔ جب چلتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھاکہ فٹ بال لڑھک رہا۔ عمر بمشکل آٹھ برس کی ہو گی۔ مگر بلا کا ذہین اور چالاک تھا۔ لیکن اس کی ذہانت اور چالاکی کا پتا اس کے سراپا سے لگانا بہت مشکل تھا۔ مسٹر شنکر آچاریہ ایم اے، ایل ایل بی۔ رام کے پتا کہا کرتے تھے کہ

’’منہ میں رام رام اور بغل میں چُھری‘‘

والی مثال اس رام ہی کے لیے بنائی گئی ہے۔ رام کے منہ سے رام رام تو کسی نے سنا نہیں تھا۔ مگر اس کی بغل میں چھری کی بجائے ایک چھوٹی سی چھڑی ضرور ہوا کرتی تھی۔ جس سے وہ کبھی کبھی ڈگلس فیئر بینکس یعنی بغدادی چور کی تیغ زنی کی نقل کیا کرتا تھا۔ جب رام کی ماں یعنی مسز شنکر آچاریہ اس کے کان سے پکڑ کر اس کے باپ کے سامنے لائیں تو وہ بالکل خاموش تھا۔ آنکھیں خشک تھیں۔ اس کا ایک کان جو اس کی ماں کے ہاتھ میں تھا۔ دوسرے کان سے بڑا معلوم ہورہا تھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ مگر اس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ اپنی ماں سے کھیل رہا ہے اور اپنے کان کو ماں کے ہاتھ میں دے کر ایک خاص قسم کا لطف اٹھا رہا ہے جس کو دوسروں پر ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ جب رام مسٹر شنکر آچاریہ کے سامنے لایا گیا تو وہ آرام سے کرسی پر جم کر بیٹھ گئے کہ اس نالائق کے کان کھینچیں حالانکہ وہ اس کے کان کھینچ کھینچ کر کافی سے زیادہ لمبے کر چکے تھے اور اس کی شرارتوں میں کوئی فرق نہ آنے پایا تھا۔ وہ عدالت میں قانون کے زور پر بہت کچھ کرلیتے تھے۔ مگر یہاں اس چھوٹے سے لونڈے کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ چلتی تھی۔ ایک مرتبہ مسٹر رام شنکر اچاریہ نے کسی شرارت پر اس کو پرمیشور کے نام سے ڈرانے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا۔

’’دیکھ رام، تو اچھا لڑکا بن جا، ورنہ مجھے ڈر ہے پرمیشور تجھ سے خفا ہو جائیں گے۔ ‘‘

رام نے جواب دیا تھا۔

’’آپ بھی تو خفا ہو جایا کرتے ہیں اور میں آپ کو منا لیا کرتا ہوں۔ ‘‘

اور پھرتھوڑی دیرسوچنے کے بعد اس نے یہ پوچھا تھا

’’بابو جی یہ پرمیشور کون ہیں‘‘

مسٹر شنکر اچاریہ نے اسے سمجھانے کے لیے جواب دیا تھا۔

’’بھگوان اور کون۔ ہم سب سے بڑے۔ ‘‘

’’اس مکان جتنے۔ ‘‘

’’اس سے بھی بڑے۔ دیکھو اب تو کوئی شرارت نہکیجیو، ورنہ وہ تجھے مار ڈالیں گے!‘‘

مسٹر شنکر اچاریہ نے اپنے بیٹے پر ہیبت طاری کرنے کے لیے پرمیشور کو اس سے زیادہ ڈراؤنی شکل میں پیش کرنے کے بعد یہ خیال کر لیا تھا کہ اب رام سدھر جائے گا اور کبھی شرارت نہ کرے گا۔ مگر رام جو اس وقت خاموش بیٹھا تھا، اپنے ذہن کے ترازو میں پرمیشور کو تول رہا تھا۔ کچھ دیر غور کرنے کے بعد جب اس نے بڑے بھولے پن سے کہا تھا۔

’’بابو جی۔ آپ مجھے پرمیشور دکھا دیجیے۔ ‘‘

تو مسٹر راما شنکر اچاریہ کی ساری قانون دانی اور وکالت دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ کسی مقدمے کا حوالہ دینا ہوتا تووہ اس فائل کو نکال کر دکھا دیتے یا اگر کوئی تعزیرات ہند کی کسی دفعہ کے متعلق سوال کرتا تووہ اپنی میز پر سے وہ موٹی کتاب اٹھا کر کھولنا شروع کردیتے جس کی جلد پر ان کے اس لڑکے نے چاؤ سے بیل بوٹے بنا رکھے تھے مگر پرمیشور کو پکڑ کر کہاں سے لاتے جس کے متعلق انھیں خود اچھی طرح معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا ہے، کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ جس طرح ان کو یہ معلوم تھا کہ دفعہ379 چوری کے فعل پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ مارنے اور پیدا کرنے والے کو پرمیشور کہتے ہیں اور جس طرح ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جس کے قانون بنے ہوئے ہیں۔ اس کی اصلیت کیا ہے ٹھیک اسی طرح ان کو پرمیشور کی اصلیت معلوم نہ تھی۔ وہ ایم، اے، ایل، ایل، بی تھے۔ مگر یہ ڈگری انھوں نے نئی الجھنوں میں پھنسنے کے لیے نہیں بلکہ دولت کمانے کیلیے حاصل کی تھی۔ وہ رام کو پرمیشور نہ دکھا سکے اور نہ اس کو کوئی معقول جواب ہی دے سکے۔ اس لیے کہ یہ سوال ان سے اس طرح اچانک طور پر کیا گیا تھا کہ ان کا دل پریشان ہو گیا تھا۔ وہ صرف اس قدر کہہ سکے تھے۔

’’جارام، جا، میرا دماغ نہ چاٹ، مجھے بہت کام کرنا ہے۔ ‘‘

اس وقت انھیں کام واقعی بہت کرنا تھا مگر وہ پرانی شکستوں کا بھول کر فوراً ہی اس نئے مقدمے کا فیصلہ کردینا چاہتے تھے۔ انھوں نے رام کی طرف خشم آلود نگاہوں سے دیکھ کراپنی دھرم پتنی سے کہا۔

’’آج اس نے کونسی نئی شرارت کی ہے۔ مجھے جلدی بتاؤ، میں آج اسے ڈبل سزا دوں گا۔ ‘‘

مسز اچاریہ نے رام کا کان چھوڑ دیا اور کہا کہ

’’اس موئے نے تو زندگی وبال کررکھی ہے جب دیکھو ناچنا، تھرکنا، کودنا۔ نہ آئے کی شرم نہ گئے کا لحا٭۔ صبح سے مجھے ستا رہا ہے۔ کئی بار پیٹ چکی ہوں مگریہ اپنی شرارتوں سے باز ہی نہیں آتا۔ نعمت خانے میں سے دو کچے ٹماٹر نکال کر کھا گیا ہے۔ اب میں سلاد میں اس کا سر ڈالوں‘‘

یہ سن کر مسٹر شنکر اچاریہ کو ایک دھکا سا لگا۔ وہ خیال کررہے تھے کہ رام کے خلاف کوئی سنگین الزام ہو گا۔ مگر یہ سن کر کہ اس نے نعمت خانے سے صرف دو کچے ٹماٹر نکال کرکھائے ہیں انھیں سخت ناامیدی ہوئی۔ رام کو جھڑکنے اور کوسنے کے لیے ان کی سب تیاری ایکا ایکی سرد پڑ گئی۔ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ اُن کا سینہ ایک دم خالی ہو گیا۔ جیسے ایک دفعہ ان کے موٹر کے پہیے کی ساری ہوا نکل گئی تھی۔ کچے ٹماٹر کھانا کوئی جرم نہیں، اس کے علاوہ ابھی کل ہی مسٹر شنکر اچاریہ کے ایک دوست نے جوجرمنی سے طب کی سند لے آئے تھے ان سے کہا تھا کہ اپنے بچوں کو کھانے کے ساتھ کچے ٹماٹر ضرور دیا کیجیے۔ کیونکہ ان میں کثرت سے وٹامنز ہیں مگر اب چونکہ وہ رام کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے اور ان کی بیوی کی بھی یہی خواہش تھی۔ اس لیے انھوں نے تھوڑی غور کرنے کے بعد ایک قانونی نکتہ سوچا اور اس انکشاف پر دل ہی دل میں خوش ہو کر اپنے بیٹے سے کہا۔

’’میرے نزدیک آؤ اور جوکچھ میں تجھ سے پوچھوں سچ سچ بتا۔ ‘‘

مسز راما شنکر اچاریہ چلی گئیں اور رام خاموشی سے اپنے باپ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ نے پوچھا۔

’’تو نے نعمت خانے سے دو کچے ٹماٹر نکال کر کیوں کھائے۔ ‘‘

رام نے جواب دیا۔

’’دو کہاں تھے۔ ماتا جی جھوٹ بولتی ہیں۔ ‘‘

’’تو ہی بتا کتنے تھے؟‘‘

’’ڈیڑھ۔ ایک اور آدھا۔ ‘‘

رام نے یہ الفاظ انگلیوں سے آدھے کا نشان بنا کر ادا کیے۔ دوسرے آدھے سے ماتا جی نے دوپہر کو چٹنی بنائی تھی۔ ‘‘

’’چلو ڈیڑھ ہی سہی، پر تو نے یہ وہاں سے اٹھائے کیوں؟‘‘

رام نے جواب دیا۔

’’کھانے کے لیے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، مگر تو نے چوری کی۔ ‘‘

مسٹر شنکر اچاریہ نے قانونی نکتہ کو پیش کیا۔

’’چوری!۔ بابو جی میں نے چوری نہیں کی۔ ٹماٹر کھائے ہیں۔ مگر یہ چوری کیسے ہوئی۔ ‘‘

یہ کہتا ہوا رام فرش پربیٹھ گیا۔ اور غور سے انپے باپ کی طرف دیکھنے لگا۔

’’یہ چوری تھی۔ دوسرے کی چیز کو اس کی اجازت کے بغیر اٹھالیناچوری ہوتی ہے‘‘

مسٹر شنکر اچاریہ نے یوں اپنے بچے کو سمجھایا اور خیال کیا کہ وہ ان کا مفہوم اچھی طرح سمجھ گیا ہے۔ رام نے فوراً کہا۔

’’مگر ٹماٹر تو ہمارے اپنے تھے۔ میری ماتا جی کے۔ ‘‘

مسٹرراما شنکر اچاریہ سٹپٹا گئے۔ مگر فوراً اپنا مطلب واضح کرنے کی کوشش کی،

’’تیری ماتا جی کے تھے، ٹھیک ہے، پر وہ تیرے تو نہیں ہوئے، جو چیز ان کی ہے وہ تیری کیسے ہوسکتی ہے۔ دیکھ سامنے میز پر جو تیرا کھلونا ہے پڑا ہے، اٹھا لا، میں تجھے اچھی طرح سمجھاتا ہوں۔ ‘‘

رام اٹھا اور دوڑ کر لکڑی کا گھوڑا اٹھالایا اور اپنے باپ کے ہاتھ میں دے دیا۔

’’یہ لیجیے۔ ‘‘

مسٹر راما شنکر اچاریہ بولے۔

’’ہاں تو دیکھ، یہ گھوڑا تیرا ہے نا؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’اب اگر میں اسے تیری اجازت کے بغیر اٹھا کراپنے پاس رکھ لوں۔ تو یہ چوری ہو گی۔ ‘‘

پھر مسٹر راما شنکر نے مزید وضاحت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

’’اور میں چور۔ ‘‘

’’نہیں پتا جی، آپ اسے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ میں آپ کو چور نہیں کہوں گا۔ میرے پاس کھیلنے کے لیے ہاتھی جو ہے۔ کیا آپ نے ابھی تک دیکھا نہیں ہے۔ کل ہی منشی دادا نے لا کے دیا ہے۔ ٹھہریے، میں ابھی آپ کو دکھاتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ وہ تالیاں بجاتا ہوا دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اور مسٹر راما شنکر اچاریہ آنکھیں جھپکتے رہ گئے۔ دوسرے روز مسٹر راما شنکر اچاریہ کو ایک خاص کام سے پونا جانا پڑا، اُن کی بڑی بہن وہیں رہتی تھی۔ ایک عرصے سے وہ چھوٹے رام کو دیکھنے کیلیے بے قرار تھی چنانچہ ایک پنتھ دو کاج کے پیش نظر مسٹر راما شنکر اچاریہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے گئے مگر اس شرط پر کہ وہ راستے میں کوئی۔ شرارت نہ کرے گا۔ ننھا رام اس شرط پر بوری بند اسٹیفن کے پلیٹ فارم تک قائم رہ سکا۔ ادھر دکن کوئین چلی اور ادھر رام کے ننھے سے سینے میں شرارتیں مچلنا شروع ہو گئیں۔ مسٹرراما شنکر اچاریہ سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ کی چوڑی سیٹ پر بیٹھے اپنے ساتھ والے مسافر کا اخبار پڑھ رہے تھے اور سیٹ کے آخری حصے پر رام کھڑکی میں سے باہر جھانک رہا اور ہوا کا دباؤ دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ اسے لے اڑے تو کتنا مزہ آئے۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ نے اپنی عینک کے گوشوں سے رام کی طرف دیکھا اور اس کو بازو سے پکڑ کر نیچے بٹھا دیا۔ تو چین بھی لینے دے گا یا نہیں۔ رام آرام سے بیٹھ جا کہتے ہوئے ان کی نظررام کی نئی ٹوپی پر پڑی۔ جو اس کے سر پر چمک رہی تھی۔

’’اسے اتار کر رکھ نالائق، ہوا سے اڑ جائے گی۔ ‘‘

انھوں نے رام کے سر پرسے ٹوپی اتار کر اس کی گود میں رکھ دی۔ مگر تھوڑی کے بعد ٹوپی، پھر رام کے سر پر تھی۔ اور وہ کھڑکی سے باہر سر نکالے دوڑتے ہوئے درختوں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ درختوں کی بھاگ دوڑ رام کے ذہن میں آنکھ مچولی کے دلچسپ کھیل کا نقشہ کھینچ رہی تھی۔ ہوا کے جھونکے سے اخبار دوہرا ہو گیا۔ اور ماسٹر راما شنکر اچاریہ نے اپنے بیٹیکے سر کو پھر کھڑکی سے باہر پایا، غصے میں انھوں نے اس کا بازہ کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیا اور کہا کہ اگر تو یہاں سے ایک انچ بھی ہلا تو تیری خیر نہیں۔ یہ کہہ کر انھوں نے ٹوپی اتار کراس کی ٹانگوں میں رکھ دی۔ اس کام سے فارغ ہو کرا نہوں نے اخبار اٹھایا اور وہ ابھی اس میں وہ سطر ہی ڈھونڈ رہے تھے جہاں سے انھوں نے پڑھنا چھوڑا تھا کہ رام نے کھڑکی کے پاس سرک کر باہر جھانکنا شروع کردیا۔ ٹوپی اس کے سرپر تھی۔ یہ دیکھ کر مسٹر شنکر اچاریہ کو سخت غصہ آیا۔ ان کا ہاتھ بھوکی چیل کی طرح ٹوپی کی طرف بڑھا اور چشم زدن میں وہ ان کی سیٹ کے نیچے تھی۔ یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا کہ رام کو سمجھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ مڑ کر اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا مگر ان کے ہاتھ خالی نظر آئے۔ اسی پریشانی میں اس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو اسے ریل کی پٹڑی پر بہت پیچھے ایک خالی کاغذ کا ٹکڑا اڑتا نظر آیا۔ اس نے خیال کیا کہ یہ میری ٹوپی ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے دل کو ایک دھکا سا لگا۔ باپ کی طرف ملامت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔

’’بابو جی۔ میری ٹوپی!‘‘

مسٹر شنکر اچاریہ خاموش رہے۔

’’ہائے میری ٹوپی۔ ‘‘

رام کی آواز بلند ہوئی۔ مسٹر شنکر اچاریہ کچھ نہ بولے۔ رام نے رونی آواز میں کہا: میری ٹوپی! اور اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مسٹرراما شنکر اچاریہ نے اس کا ہاتھ جھٹک کرکہا۔

’’گرا دی ہو گی تو نے۔ اب روتا کیوں ہے؟‘‘

اس پررام کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو تیرنے لگے۔

’’پر دھکا تو آپ نے ہی دیا تھا۔ ‘‘

اس نے اتنا کہا اور رونے لگا۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ نے ذرا ڈانٹ پلائی تو رام نے اور زیادہ رونا شروع کردیا۔ انھوں نے اسے چُپ کرانے کی بہت کوشش کی۔ مگر کامیاب نہ ہوئے۔ رام کا رونا صرف ٹوپی ہی بند کراسکتی تھی۔ چنانچہ مسٹر راما شنکر اچاریہ نے تھک ہار کر اس سے کہا۔

’’ٹوپی واپس آجائے گی، مگر شرط یہ ہے کہ تو اسے پہنے گا نہیں!‘‘

رام کی آنکھوں میں آنسو فوراً خشک ہو گئے۔ جیسے تپتی ہوئی ریت میں بارش کے قطرے جذب ہو جائیں۔ سرک کر آگے بڑھ آیا۔

’’اسے واپس لادیجیے۔ ‘‘

مسٹر راما شنکر اچاریہ نے کہا۔

’’ایسے تھوڑی واپس آجائے گی۔ منتر پڑھنا پڑے گا۔ ‘‘

کمپارٹمنٹ میں سب مسافر باپ بیٹے کی گفتگو سن رہے تھے۔

’’منتر۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے رام کو فوراً وہ قصہ یاد آگیا جس میں ایک لڑکے نے منتر کے ذریعے سے دوسروں کی چیزیں غائب کرنا شروع کردی تھیں۔

’’پڑھیے پتا جی‘‘

یہ کہہ کروہ خوب غورسے اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا۔ گویا منتر پڑھتے وقت مسٹر راما شنکر اچاریہ کے گنجے سر پر سینگ اُگ آئیں گے۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ نے اس منتر کے بول یاد کرتے ہوئے جو انھوں نے بچپن میں

’’اندر جال مکمل‘‘

سے زبانی یاد کیا تھا کہا۔

’’تو پھر شرارت تو نہ کرے گا؟‘‘

’’نہیں بابو جی۔ ‘‘

رام نے جو منتر کی گہرائیوں میں ڈوب رہا تھا۔ اپنے باپ سے شرارت نہ کرنے کا وعدہ کرلیا۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ کو منتر کے بول یاد آگئے اور انھوں نے دل ہی دل میں اپنے حافظے کی داد دے کر اپنے لڑکے سے کہا۔

’’لے اب تو آنکھیں بند کرلے۔ ‘‘

رام نے آنکھیں بند کرلیں اورمسٹر راما شنکر اچاریہ نے منتر پڑھنا شروع کیا۔

’’اونگ ناکام میشری، مدمدیش اوتمارے بھرنیگ پر سواہ‘‘

مسٹر راما شنکر اچاریہ کا ایک ہاتھ سیٹ کے نیچے آگیا اور

’’سواہ‘‘

کے ساتھ ہی رام کی ٹوپی اسکی گدگدی رانوں پر آگری۔ رام نے آنکھیں کھول دیں۔ ٹوپی اس کی چپٹی ناک کے نیچے پڑی تھی۔ اور مسٹر راما شنکر اچاریہ کی نکیلی ناک کا بانسہ عینک کی سنہری گرفت کے نیچے تھرتھرا رہا تھا۔ عدالت میں مقدمہ جیتنے کے بعد ان پر یہی کیفیت طاری ہوا کرتی تھی۔

’’ٹوپی آگئی۔ ‘‘

رام نے صرف اس قدر کہا، اور چپ ہورہا اور مسٹر راما شنکر اچاریہ رام کو خاموش بیٹھنے کا حکم دے کر اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ ایک خبر کافی دلچسپ اور اخباری زبان میں بے حد سنسنی خیز تھی۔ چنانچہ وہ منتر وغیرہ سب کچھ بھول کر اس میں ڈوب گئے۔ دکن کوئین بجلی کے پروں پر پوری تیزی سے اڑ رہی تھی۔ اس کے آہنی پہیوں کی یک آہنگ گڑگڑاہٹ اخبار کی سنسنی پیدا کرنے والے خبر کی ہر سطر کو بڑی سنسنی خیز بنا رہی تھی۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ یہ سطر پڑھ رہے تھے:

’’عدالت پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ صرف ٹائپ رائٹر کی ٹک ٹک سنائی دیتی تھی۔ ملزم ایکا ایکی چلایا۔ بابو جی!۔ ‘‘

عین اس وقت رام نے اپنے باپ کو زور سے آواز دی۔

’’بابو جی!‘‘

۔ مسٹرراما شنکر اچاریہ کو یوں معلوم ہوا کہ زیر نظر سطر کے آخری الفاظ کاغذ پر اچھل پڑے۔ رام کے تھرتھراتے ہوئے ہونٹ بتا رہے تھے کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ نے ذرا تیزی سے کہا:

’’کیا ہے؟‘‘

اور عینک کے ایک گوشے میں سے ٹوپی کو سیٹ پر پڑا دیکھ کر اطمینان کرلیا۔ رام آگے سرک آیا اور کہنے لگا

’’بابو جی! وہی منتر پڑھیے!‘‘

’’کیوں!‘‘

یہ کہتے ہوئے مسٹرراما شنکر اچاریہ نے رام کی ٹوپی کی طرف غور سے دیکھا۔ جو سیٹ کے کونے میں پڑی تھی۔

’’آپ کے کاغذ جو یہاں پڑے تھے، میں نے باہرپھینک دیے ہیں۔ ‘‘

رام نے اس کے آگے کچھ اور بھی کہا۔ مگر مسٹر راما شنکر اچاریہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ بجلی کی سرعت کے ساتھ اٹھ کر انھوں نے کھڑکی میں سے باہر جھانک کر دیکھا۔ مگر ریل کی پٹڑی کے ساتھ تتلیوں کی طرح پھڑپھڑاتے ہوئے کاغذوں کے پرزوں کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔

’’تو نے وہ کاغذ پھینک دیے ہیں جو یہاں پڑے تھے؟‘‘

انھوں نے اپنے داہنے ہاتھ سے سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ رام نے اثبات میں سر ہلاک دیا۔

’’آپ وہی منتر پڑھیے نا!‘‘

مسٹر راما شنکر اچاریہ کو ایسا کوئی منتر یاد نہ تھا۔ جو سچ مچ کی کھوئی ہوئی چیزوں واپس لاسکے۔ وہ سخت پریشان تھے۔ وہ کاغذات جو ان کے بیٹے نے پھینک دیے تھے یہ ایک نئے مقدمے کی نقل تھی۔ جس میں چالیس ہزار کی مالیت کے قانونی کاغذات پڑے تھے۔ مسٹر راما شنکر اچاریہ ایم، اے، ایل، ایل، بی کی بازی ان کی اپنی چال ہی سے مات ہو گئی تھی۔ ایک لمحے کے اندر اندر ان کو قانونی کاغذات کے بارے میں سینکڑوں خیالات آئے۔ ظاہر ہے کہ مسٹرراما شنکر اچاریہ کے مؤکل کا نقصان ان کا اپنا نقصان تھا۔ مگر اب وہ کیا کرسکتے تھے۔ صرف یہ کہ اگلے اسٹیشن پر اتر کر ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیں اور وہیں پندرہ میل تک ان کاغذوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں۔ ملیں نہ ملیں ان کی قسمت۔ ایک لمحے کے اندر اندر سینکڑوں باتیں سوچنے کے بعد بالآخر انھوں نے اپنے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اگر تلاش پر کاغذات نہ ملے تو وہ موکل کے سامنے سرے سے انکار ہی کردیں گے کہ اُس نے ان کو کبھی کاغذات دیے تھے۔ اخلاقی اور قانونی طور پر سراسر ناجائز تھا مگر اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ اس تسلی بخش خیال کے باوجود مسٹرراما شنکر اچاریہ کے حلق میں تلخی سی پیدا ہورہی تھی۔ ایکا ایکی ان کے دل میں آئی کہ کاغذوں کی طرح وہ رام کو بھی اٹھا کرگاڑی سے باہر پھینک دیں۔ مگر اس خواہش کو سینے ہی میں دبا کر انھوں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب وغریب سا تبسم منجمد ہورہا تھا۔

’’اس نے ہولے سے کہا۔ بابو جی، منتر پڑھیے۔ ‘‘

’’چپ چاپ بیٹھا رہ ورنہ یاد رکھ گلا گھونٹ دوں گا‘‘

۔ مسٹر شنکر اچاریہ بِھنّا گئے۔ اس مسافر کے لبوں پر جو غور سے باپ بیٹے کی گفتگو سن رہا تھا۔ ایک معنی خیز مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ رام آگے سرک آیا۔

’’بابو جی! آپ آنکھیں بند کرلیجیے۔ میں منتر پڑھتا ہوں۔ ‘‘

مسٹر راما شنکر اچاریہ نے آنکھیں بند نہ کیں۔ لیکن رام نے منتر پڑھنا شروع کیا۔

’’اونک میانگ شیانک۔ لومداگا۔ فرودما۔ سواہا‘‘

اور سواہا کے ساتھ ہی مسٹرراما شنکر اچاریہ کی گوشت بھری ران پر ایک پلندہ آگرا۔ ان کی ناک کا پانسہ عینک کی سنہری گرفت کے نیچے زور سے کانپا۔ رام کی چپٹی ناک کے گول اور لال نتھنے بھی کانپ رہے تھے۔

سعادت حسن منٹو

ممّی

نام اس کا مسز سٹیلا جیکسن تھا مگر سب اسے ممی کہتے تھے۔ درمیانے قد کی ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کا خاوند جیکسن پچھلی سے پچھلی جنگ عظیم میں مارا گیا تھا اس کی پنشن سٹیلا کو قریب قریب دس برس سے مل رہی تھی۔ وہ پونہ میں کیسے آئی۔ کب سے وہاں تھی۔ اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔ دراصل میں نے اس کے محل وقوع کے متعلق کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ اتنی دلچسپ عورت تھی کہ اس سے مل کر سوائے اس کی ذات سے اور کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہتی تھی۔ اس سے کون کون وابستہ ہے۔ اس کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اس لیے کہ وہ پُونہ کے ہر ذرے سے وابستہ تھی۔ ہو سکتا ہے یہ ایک حد تک مبالغہ ہو۔ مگر پونہ میرے لیے وہی پونہ ہے اور اس کے وہی ذرے، اس کے تمام ذرے ہیں جن کے ساتھ میری چند یادیں منسلک ہیں۔ اور ممی کی عجیب و غریب شخصیت ان میں سے ہر ایک میں موجود ہے۔ اس سے میری پہلی ملاقات پونے ہی میں ہوئی۔ میں نہایت سست الوجود انسان ہوں۔ یوں تو سیرو سیاحت کی بڑی بڑی امنگیں میرے دل میں موجود ہیں۔ آپ میری باتیں سنیں تو آپ سمجھیے گا کہ میں عنقریب کنچن چنگا یا ہمالہ کی اسی قسم کے نام کی کسی اور چوٹی کو سر کرنے کے لیے نکل جانے والا ہوں۔ ایسا ہوسکتا ہے مگر یہ زیادہ اغلب ہے کہ میں یہ چوٹی سر کرکے وہیں کا ہورہوں۔ خدا معلوم کتنے برس سے بمبئی میں تھا۔ آپ اس سے اندازہ سکتے ہیں کہ جب پونے گیا تو بیوی میرے ساتھ تھی۔ ایک لڑکا ہو کر اس کو مرے قریب قریب چار برس ہو چکے تھے۔ اس دوران میں۔ ٹھہریئے میں حساب لگالوں۔ آپ یہ سمجھ لیے کہ آٹھ برس سے بمبئی میں تھا۔ مگر اس دوران میں مجھے وہاں کا ورکٹوریہ گارڈنز اور میوزیم دیکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو محض اتفاق تھا کہ میں ایک دم پونہ جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ جس فلم کمپنی میں ملازم تھا اس کے مالکوں سے ایک نکمی سی بات پر دل میں ناراضی پیدا ہوئی اور میں نے سوچا کہ یہ تکدر دور کرنے کے لیے پونہ ہو آؤں۔ وہ بھی اس لیے کہ پاس تھا اور وہاں میرے چند دوست رہتے تھے۔ مجھے پربھات نگر جانا تھا۔ جہاں میرا فلموں کا ایک پرانا ساتھی رہتا تھا۔ اسٹیشن کے باہر معلوم ہوا کہ یہ جگہ کافی دور ہے۔ مگر اس وقت ہم ٹانگہ لے چکے تھے۔ سست رو چیزوں سے میری طبیعت سخت گھبراتی ہے۔ مگر میں اپنے دل سے کدورت دور کرنے کے لیے آیا تھا اس لیے مجھے پربھات نگر پہنچنے میں کوئی عجلت نہیں تھی۔ تانگہ بہت واہیات قسم کا تھا۔ علی گڑھ کے یکوں سے بھی زیادہ واہیات۔ ہر وقت گرنے کا خطرہ رہتاہے۔ گھوڑ ا آگے چلتا ہے اور سواریاں پیچھے۔ ایک دو گرد سے اٹے ہوئے بازار افتاں و خیزاں طے ہوئے تو میری طبیعت گھبرا گئی۔ میں نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور پوچھا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ دھوپ تیز ہے۔ میں نے جو اور تانگے دیکھے ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہیں۔ اگر اسے چھوڑ دیا تو پیدل چلنا ہو گا، جو ظاہر ہے کہ اس سواری سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ میں نے اس سے اختلاف مناسب نہ سمجھا۔ دھوپ واقعی تیز تھی۔ گھوڑا ایک فرلانگ آگے بڑھا ہو گا کہ پاس سے اسی ہونق ٹائپ کا ایک تانگہ گزرا۔ میں نے سرسری طور پر دیکھا۔ ایک دم کوئی چیخا

’’اوئے منٹو گھوڑے!‘‘

میں چونک پڑا۔ چڈہ تھا۔ ایک گھسی ہوئی میم کے ساتھ۔ دونوں ساتھ ساتھ جڑ کے بیٹھے تھے۔ میرا پہلا رد عمل انتہائی افسوس کا تھا کہ چڈے کی جمالیاتی حس کہاں گئی جو ایسی لال لگامی کے ساتھ بیٹھا ہے۔ عمر کا ٹھیک اندازہ تو میں نے اس وقت نہیں کیا تھا مگر اس عورت کی جُھریاں پاؤڈر اور روج کی تہوں میں سے بھی صاف نظر آرہی تھی۔ اتنا شوخ میک اپ تھا کہ بصارت کو سخت کوفت ہوتی تھی۔ چڈے کو ایک عرصے کے بعد میں نے دیکھا تھا۔ وہ میرا بے تکلف دوست تھا۔

’’اوئے منٹو گھوڑے‘‘

کے جواب میں یقیناً میں نے بھی کچھ اسی قسم کا نعرہ بلند کیا تھا، مگر اس عورت کو اس کے ساتھ دیکھ کر میری ساری بے تکلفی جھریاں جھریاں ہو گئی۔ میں نے اپنا تانگہ رکوالیا۔ چڈے نے بھی اپنے کوچوان سے کہا کہ ٹھہر جائے پھر اس نے اس عورت سے مخاطب ہو کر انگریزی میں کہا

’’می جسٹ اے منٹ‘‘

تانگے سے کود کر وہ میری طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے چیخا

’’تم؟۔ تم یہاں کیسے آئے ہو۔ ‘‘

پھر اپنا بڑھا ہوا ہاتھ بڑے بے تکلفی سے میری پُرتکلف بیوی سے ملاتے ہوئے کہا۔

’’بھابی جان۔ آپ نے کمال کردیا۔ اس گل محمد کو آخر آپ کھینچ کر یہاں لے ہی آئیں۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘

چڈے نے اونچے سروں میں کہا۔

’’ایک کام سے جارہا ہوں۔ تم ایسا کرو سیدھے۔ ‘‘

وہ ایک دم پلٹ کر میرے تانگے والے سے مخاطب ہوا

’’دیکھو صاحب کو ہمارے گھر لے جاؤ۔ کرایہ ورایہ مت لینا ان سے۔ ‘‘

ادھر سے فوراً ہی فارغ ہو کر اس نے نبٹنے کے انداز میں مجھ سے کہا۔

’’تم جاؤ۔ نوکر وہاں ہو گا۔ باقی تم دیکھ لینا۔ ‘‘

اور وہ پھدک کر اپنے ٹانگے میں اس بوڑھی میم کے ساتھ بیٹھ گیا جس کو اس نے ممی کہا تھا۔ اس سے مجھے ایک گونہ تسکین ہوئی تھی بلکہ یوں کہیے کہ وہ بوجھ جو ایک دم دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر میرے سینے پر آپڑا تھا کافی حد تک ہلکا ہو گیا تھا۔ اس کا تانگہ چل پڑا۔ میں نے اپنے تانگے والے سے کچھ نہ کہا۔ تین یا چار فرلانگ چل کر وہ ایک ڈاک بنگلہ نما قسم کی عمارت کے پاس رکا اور نیچے اتر گیا

’’چلیے صاحب۔ ‘‘

میں نے پوچھا

’’کہاں؟‘‘

اس نے جواب دیا

’’چڈہ صاحب کا مکان یہی ہے۔ ‘‘

’’اوہ‘‘

میں نے سوالیہ نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ اس کے تیوروں نے مجھے بتایا کہ وہ چڈے کے مکان کے حق میں نہیں تھی۔ سچ پوچھیے تو وہ پونہ ہی کے حق میں نہیں تھی۔ اس کو یقین تھا کہ مجھے وہاں پینے پلانے والے دوست مل جائیں گے۔ تکدر دور کرنے کا بہانہ پہلے ہی سے موجود تھا، اس لیے دن رات اڑے گی۔ میں تانگے سے اتر گیا۔ چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا، وہ میں نے اٹھایا اور اپنی بیوی سے کہا

’’چلو!‘‘

وہ غالباً میرے تیوروں سے پہچان گئی تھی کہ اسے ہر حالت میں میرا فیصلہ قبول کرنا ہو گا۔ چنانچہ اس نے حیل و حجت نہ کی اور خاموش میرے ساتھ چل پڑی۔ بہت معمولی قسم کا مکان تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ملٹری والوں نے عارضی طور پر ایک چھوٹا سا بنگلہ بنایا تھا۔ تھوڑی دیر اسے استعمال کیا اور چلتے بنے۔ چونے اور گچ کا کام بڑا کچا تھا۔ جگہ جگہ سے پلستر اکھڑا ہوا تھا۔ اور گھر کا اندرونی حصہ ویسا ہی تھا جیسا کہ ایک بے پروا کنوارے کا ہو سکتا ہے، جو فلموں کا ہیرو ہو، اور ایسی کمپنی میں ملازم ہو جہاں ماہانہ تنخواہ ہر تیسرے مہینے ملتی ہے اور وہ بھی قسطوں میں۔ مجھے اس کا پورا احساس تھا کہ وہ عورت جو بیوی ہو، ایسے گندے ماحول میں یقیناًپریشانی اور گھٹن محسوس کرے گی، مگر میں نے یہ سوچا تھا کہ چڈہ آجائے تو اس کے ساتھ ہی پربھات نگر چلیں گے۔ وہاں جو میرا فلموں کا پرانا ساتھی رہتا تھا، اس کی بیوی اور بال بچے بھی تھے۔ وہاں کے ماحول میں میری بیوی قہردرویش برجان درویش دو تین دن گزار سکتی تھی۔ نوکر بھی عجیب لااُبالی آدمی تھا۔ جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو سب دروازے کھلے تھے، مگر وہ موجود نہیں تھا۔ جب آیا تو اس نے ہماری موجودگی کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ جیسے ہم سالہا سال سے وہیں بیٹھے تھے اور اسی طرح بیٹھے رہنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جب وہ کمرے میں داخل ہو کر ہمیں دیکھے بغیر پاس سے گزر گیا تو میں سمجھا کہ شاید کوئی معمولی ایکٹر ہے جو چڈہ کے ساتھ رہتا ہے۔ پر جب میں نے اس سے نوکر کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ وہی ذاتِ شریف چڈہ صاحب کے چہیتے ملازم تھے۔ مجھے اور میری بیوی دونوں کو پیاس لگ رہی تھی۔ اس سے پانی لانے کو کہا تو وہ گلاس ڈھونڈنے لگا۔ بڑی دیرکے بعد اس نے ایک ٹوٹا ہوا مگ الماری کے نیچے سے نکالا اور بڑبڑایا

’’رات ایک درجن گلاس صاحب نے منگوائے تھے۔ معلوم نہیں کدھر گئے۔ ‘‘

میں نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے شکستہ مگ کی طرف اشارہ کیا۔

’’کیا آپ اس میں تیل لینے جارہے ہیں۔ ‘‘

تیل لینے جانا، بمبئی کا ایک خاص محاورہ ہے۔ میری بیوی اس کا مطلب نہ سمجھی، مگر ہنس پڑی۔ نوکر کسی قدر بوجھلا گیا۔

’’نہیں صاحب۔ میں۔ تلاس کررہا تھا کہ گلاس کہاں ہیں۔ ‘‘

میری بیوی نے اس کو پانی لانے سے منع کردیا۔ اس نے وہ ٹوٹا ہوا مگ واپس الماری کے نیچے اس انداز سے رکھا کہ جیسے وہی اس کی جگہ تھی۔ اگر اسے کہیں اور رکھ دیا جاتا تو یقیناً گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ اس کے بعد وہ یوں کمرے سے باہر نکلا جیسے اس کو معلوم تھا کہ ہمارے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ میں پلنگ پر بیٹھا تھا جو غا لباً چڈے کا تھا۔ اس سے کچھ دور ہٹ کر دو آرام کرسیاں تھیں۔ ان میں سے ایک پر میری بیوی بیٹھی پہلو بدل رہی تھی۔ کافی دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔ اتنے میں چڈہ آگیا۔ وہ اکیلا تھا۔ اس کو اس بات کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ ہم اس کے مہمان ہیں۔ اور اس لحاظ سے ہماری خاطر داری اس پر لازم تھی۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اس نے مجھ سے کہا

’’ویٹ از ویٹ۔ تو تم آگئے اولڈ بوائے۔ چلو ذرا اسٹوڈیو تک ہو آئیں۔ تم ساتھ ہو گے تو ایڈوانس ملنے میں آسانی ہو جائے گی۔ آج شام کو۔ ‘‘

میری بیوی پر اس کی نظر پڑی تو وہ رک گیا اور کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔

’’بھابی جان، کہیں آپ نے اسے مولوی تو نہیں بنا دیا‘‘

پھر اور زور سے ہنسا۔

’’مولویوں کی ایسی تیسی، اٹھو منٹو۔ بھابی جان یہاں بیٹھی ہیں۔ ہم ابھی آجائیں گے!‘‘

میری بیوی جل کر پہلے کوئلہ تھی تو اب بالکل راکھ ہو گئی تھی۔ میں اٹھا اور چڈہ کے ساتھ ہولیا۔ مجھے معلوم تھا کہ تھوڑی دیر پیچ و تاپ کھا کر وہ سو جائے گی، چنانچہ یہی ہوا۔ اسٹوڈیو پاس ہی تھا۔ افراتفری میں مہتہ جی کے سر چڑھ کے چڈے نے مبلغ دو سو روپے وصول کیے۔ اور ہم پون گھنٹے میں جب واپس آئے تو دیکھا کہ وہ آرام کرسی پر بڑے آرام سے سو رہی تھی۔ ہم نے اسے بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا اور دوسرے کمرے میں چلے گئے جو کباڑ خانے سے ملتا جلتا تھا۔ اس میں جو چیز تھی حیرت انگیز طریقے پر ٹوٹی ہوئی تھی کہ سب مل کر ایک سالمگی اختیار کرگئی تھیں۔ ہر شے گرد آلود تھی، اور اس آلودگی میں ایک ضروری پن تھا۔ جیسے اس کی موجودگی اس کمرے کی بوہیمی فضا کی تکمیل کے لیے لازمی تھی۔ چڈے نے فوراً ہی اپنے نوکر کو ڈھونڈ نکالا اور اسے سو روپے کا نوٹ دے کر کہا۔

’’چین کے شہزادے۔ دو بوتلیں تھرڈ کلاس رم کی لے آؤ۔ میرا مطلب ہے تھری ایکس رم کی اور نصف درجن گلاس۔ ‘‘

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا نوکر صرف چین ہی کا نہیں۔ دنیا کے ہر بڑے ملک کا شہزادہ تھا۔ چڈے کی زبان پر جس کا نام آجاتا، وہ اسی کا شہزادہ بن جاتا تھا۔ اس وقت کا چین کا شہزادہ سو کا نوٹ انگلیوں سے کھڑکھڑاتا چلا گیا۔ چڈے نے ٹوٹے ہوئے سپرنگوں والے پلنگ پر بیٹھ کر اپنے ہونٹ تھری ایکس رم کے استقبال میں چٹخارتے ہوئے کہا

’’ڈیٹ از ڈیٹ۔ تو آفٹر آل تم ادھر آہی نکلے۔ ‘‘

لیکن ایک دم متفکر ہو گیا۔

’’یار، بھابی کا کیا ہو۔ وہ تو گھبرا جائے گی۔ ‘‘

چڈہ بغیر بیوی کے تھا، مگر اس کو دوسروں کی بیویوں کا بہت خیال رہتا تھا۔ وہ اس کا اس قدر احترام کرتا تھا کہ ساری عمر کنوارا رہنا چاہتا تھا، وہ کہا کرتا تھا۔

’’یہ احساس کمتری ہے جس نے مجھے ابھی تک اس نعمت سے محروم رکھا ہے۔ جب شادی کا سوال آتا تو فوراً تیار ہو جاتا ہوں۔ لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ میں بیوی کے قابل نہیں ہوں ساری تیاری کولڈ اسٹوریج میں ڈ ال دیتا ہوں۔ ‘‘

رم فوراً ہی آگئی۔ اور گلاس بھی۔ چڈے نے چھ منگوائے تھے۔ اور چین کا شہزادہ تین لایا تھا۔ بقایا تین راستے میں ٹوٹ گئے تھے۔ چڈے نے ان کی کوئی پروا نہ کی، اور خدا کا شکر کیا کہ بوتلیں سلامت رہیں۔ ایک بوتل جلدی جلدی کھول کر اس نے کنوارے گلاسوں میں رم ڈالی اور کہا

’’تمہارے پونے آنے کی خوشی میں۔ ‘‘

ہم دونوں نے لمبے لمبے گھونٹ بھرے اور گلاس خالی کردیے۔ دوسرا دور شروع کرکے چڈہ اٹھا اور دوسرے کمرے میں دیکھ کر آیا کہ میری بیوی ابھی تک سو رہی ہے۔ اس کو بہت ترس آیا اور کہنے لگا۔

’’میں شور کرتا ہوں ان کی نیند کھل جائے گی۔ پھر ایسا کریں گے۔ ٹھہرو۔ پہلے میں چائے منگواتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے رم کا ایک چھوٹا سا گھونٹ لیا اور نوکر کو آواز دی

’’جمیکا کے شہزادے۔ ‘‘

جمیکا کا شہزادہ فوراً ہی آگیا۔ چڈے نے اس سے کہا۔

’’دیکھو، ممی سے کہو، ایک دم فسٹ کلاس چائے تیار کرکے بھیج دے۔ ایک دم!‘‘

نوکر چلا گیا۔ چڈے نے اپنا گلاس خالی کیا اور شریفانہ پیگ ڈال کر کہا۔

’’میں فی الحال زیادہ نہیں پیوں گا۔ پہلے چار پیگ مجھے بہت جذباتی بنا دیتے ہیں۔ مجھے بھابی کو چھوڑنے تمہارے ساتھ پربھات نگر جانا ہے۔ ‘‘

آدھے گھنٹے کے بعد چائے آگئی۔ بہت صاف برتن تھے اور بڑے سلیقے سے ٹرے میں چنے ہوئے تھے۔ چڈے نے ٹی کوزی اٹھا کر چائے کی خوشبو سونگھی اور مسرت کا اظہار کیا۔

’’می از اے جیول۔ !‘‘

اس نے ایتھوپیا کے شہزادے پر برسنا شروع کردیا۔ اتنا شور مچایا کہ میرے کان بلبلا اٹھے۔ اس کے بعد اس نے ٹرے اٹھائی اور مجھ سے کہا۔

’’آؤ۔ ‘‘

میری بیوی جاگ رہی تھی۔ چڈے نے ٹرے بڑی صفائی سے شکستہ تپائی پر رکھی اورمودبانہ کہا۔

’’حاضر ہے بیگم صاحب!‘‘

میری بیوی کو یہ مذاق پسند نہ آیا، لیکن چائے کا سامان چونکہ صاف ستھرا تھا اس لیے اس نے انکار نہ کیا اور دو پیالیاں پی لیں۔ اِن سے اس کو کچھ فرحت پہنچی اور اس نے ہم دونوں سے مخاطب ہو کر معنی خیز لہجے میں کہا۔

’’آپ اپنی چائے تو پہلے ہی پی چکے ہیں!‘‘

میں نے جواب نہ دیا مگر چڈے نے جھک کر بڑے ایماندارانہ طور پر کہا۔

’’جی ہاں، یہ غلطی ہم سے سرزد ہو چکی ہے، لیکن ہمیں یقین تھا کہ آپ ضرور معاف کردیں گی۔ ‘‘

میری بیوی مسکرائی تو وہ کھکھلا کے ہنسا۔

’’ہم دونوں بہت اونچی نسل کے سؤر ہیں۔ جن پر ہر حرام شے حلال ہے!۔ چلیے، اب ہم آپ کو مسجد تک چھوڑ آئیں!‘‘

میری بیوی کوپھرچڈے کا یہ مذاق پسند نہ آیا۔ دراصل اس کوچڈے ہی سے نفرت تھی، بلکہ یوں کہیے کہ میرے ہر دوست سے نفرت تھی۔ اور چڈہ بالخصوص اسے بہت کھلتا تھا، اس لیے کہ وہ بعض اوقات بے تکلفی کی حدود بھی پھاند جاتا تھا، مگر چڈے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ میرا خیال ہے اس نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ ایسی فضول باتوں میں دماغ خرچ کرنا ایک ایسی ان ڈور گیم سمجھتا تھا جو لوڈو سے کئی گنا لایعنی ہے۔ اس نے میری بیوی کے جلے بھنے تیوروں کو بڑی ہشاش بشاش آنکھوں سے دیکھا اور نوکر کو آواز دی۔

’’کبابستان کے شہزادے۔ ایک عدد ٹانگہ لاؤ۔ رولزرائس قسم کا۔ ‘‘

کبابستان کا شہزادہ چلا گیا اور ساتھ ہی چڈہ۔ وہ غالباً دوسرے کمرے میں گیا تھا۔ تخلیہ ملا تو میں نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ کباب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آہی جایا کرتے ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ ان کو بسر کرنے کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ ان کو گزر جانے دیا جائے۔ لیکن حسب معمول اس نے میری اس کنفیوشسانہ نصیحت کو پلے نہ باندھا اور بڑبڑاتی رہی۔ اتنے میں کبابستان کا شہزادہ رولز رائس قسم کا ٹانگہ لے کر آگیا۔ ہم پربھات نگر روانہ ہو گئے۔ بہت ہی اچھا ہوا کہ میرا فلموں کا پرانا ساتھی گھر میں موجود نہیں تھا۔ اس کی بیوی تھی، چڈے نے میری بیوی اس کے سپرد کی اور کہا

’’خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بیوی، بیوی کو دیکھ کررنگ پکڑتی ہے، یہ ہم ابھی حاضر ہو کے دیکھیں گے۔ ‘‘

پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’چلو منٹو، اسٹوڈیو میں تمہارے دوست کو پکڑیں۔ ‘‘

چڈہ کچھ ایسی افراتفری میں مچا دیا کرتا تھا کہ مخالف قوتوں کو سمجھنے سوچنے کا بہت کم موقع ملتا تھا۔ اس نے میرا بازو پکڑا اور باہر لے گیا اور میری بیوی سوچتے ہی رہ گئی۔ ٹانگے میں سوار ہو کر چڈے نے اب کچھ سوچنے کے انداز میں کہا۔

’’یہ تو ہو گیا۔ اب کیا پروگرام ہے۔ ‘‘

پھر کھکھلا کر ہنسا۔

’’ممی۔ گریٹ ممی!‘‘

میں اس سے پوچھنے ہی والا تھا، یہ ممی کس تو تنخ آمون کی اولاد ہے، کہ چڈے نے باتوں کا کچھ اییا سلسلہ شروع کردیا کہ میرا استفسار غیر طبعی موت مر گیا۔ تانگہ واپس اس ڈاک بنگلہ نما کوٹھی پر پہنچا جس کا نام سعیدہ کاٹیج تھا، مگر چڈہ اس کو کبیدہ کاٹیج کہتا تھا۔ اس لیے کہ اس میں رہنے والے سب کے سب کبیدہ خاطر رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ غلط تھا جیسے کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ اس کاٹیج میں کافی آدمی رہتے تھے حالانکہ بادی النظر میں یہ جگہ بالکل غیر آباد معلوم ہوتی تھی۔ سب کے سب اسی فلم کمپنیوں میں ملازم جو مہینے کی تنخواہ ہر سہ ماہی کے بعد دیتی تھی اور وہ بھی کئی قسطوں میں۔ ایک ایک کرکے جب اس کے ساکنوں سے میرا تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ سب اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے۔ کوئی چیف اسسٹنٹ ڈائریکٹر، کوئی اس کا نائب، کوئی نائب در نائب۔ ہر دوسرا، کسی پہلے کا اسسٹنٹ تھا اور اپنی ذاتی فلم کمپنی کی بنیادیں استوار کرنے کے لیے سرمایہ فراہم کررہا تھا۔ پوشش اور وضع قطع کے اعتبار سے ہر ایک ہیرو معلوم ہوتا تھا کنٹرول کا زمانہ تھا۔ مگر کسی کے پاس راشن کارڈ نہیں تھا۔ وہ چیزیں بھی جو تھوڑی سی تکلیف کے بعد آسانی سے کم قیمت پر دستیاب ہو سکتی تھی۔ یہ لوگ بلیک مارکیٹ سے خریدتے تھے۔ پکچر ضرور دیکھتے تھے۔ ریس کا موسم ہو تو ریس کھیلتے تھے ورنہ سٹہ۔ جیتتے شاذونادر تھے، مگر ہارتے ہر روز تھے۔ سعیدہ کاٹیج کی آبادی بہت گنجان تھی۔ چونکہ جگہ کم تھی اس لیے موٹر گراج بھی رہائش کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس میں ایک فیملی رہتی تھی۔ شیریں نام کی ایک عورت تھی جس کا خاوند شاید، محض یکسانیت توڑنے کے لیے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نہیں تھا۔ وہ اسی فلم کمپنی میں ملازم تھا مگر موٹر ڈرائیور تھا۔ معلوم نہیں، وہ کب آتا تھا۔ اور کب جاتا تھا، کیونکہ میں نے اس شریف آدمی کو وہاں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شیریں کے بطن سے ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جس کو سعیدہ کا ٹیج کے تمام ساکن فرصت کے اوقات میں پیار کرتے۔ شیریں جو قبول صورت تھی اپنا بیشتر وقت گراج کے اندر گزارتی تھی۔ کاٹیج کا معزز حصہ چڈے اور اس کے دو ساتھیوں کے پاس تھا۔ یہ دونوں بھی ایکٹر تھے، مگر ہیرو نہیں تھے۔ ایک سعید تھا جس کا فلمی نام رنجیت کمار تھا۔ چڈہ کہا کرتا تھا۔

’’سعیدہ کاٹیج اس خرذات کے نام کی رعایت سے مشہور ہے ورنہ اس کا نام کبیدہ کاٹیج ہی تھا۔

’’خوش شکل تھا اور بہت کم گو۔ چڈہ کبھی کبھی اسے کچھوا کہا کرتا تھا، اس لیے کہ وہ ہر کام بہت آہستہ آہستہ کرتا تھا۔ دوسرے ایکٹر کا نام معلوم نہیں کیا تھا مگر سب اسے غریب نواز کہتے تھے۔ حیدر آباد کے ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایکٹنگ کے شوق میں یہاں چلا آیا۔ تنخواہ ڈھائی سو روپے ماہوار مقرر تھی۔ ایک برس ہو گیا تھا ملازم ہوئے مگر اس دوران میں اس نے صرف ایک دفعہ ڈھائی سو روپے بطور ایڈوانس لیے تھے، وہ بھی چڈے کے لیے، کہ اس پر ایک بڑے خونخواہ پٹھان کے قرض کی ادائیگی لازم ہو گئی تھی۔ ادبِ لطیف، قسم کی عمارت میں فلمی کہانیاں لکھنا اس کا شُغل تھا۔ کبھی کبھی شعر بھی موزوں کرلیتا تھا۔ کاٹیج کا ہر شخص اس کا مقروض تھا۔ شکیل اور عقیل دو بھائی تھے۔ دونوں کسی اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے اسسٹنٹ تھے اور برعکس نام نہند نامِ زنگی باکا فور کی ضرب المثال کے ابطال کی کوشش میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ بڑے تین، یعنی چڈہ، سعید اور غریب نواز شیریں کا بہت خیال رکھتے تھے لیکن تینوں اکٹھے گراج میں نہیں جاتے تھے۔ مزاج پرسی کا کوئی وقت بھی مقرر نہیں تھا۔ تینوں جب کاٹیج کے بڑے کمرے میں جمع ہوتے تو ان میں سے ایک اٹھ کر گراج میں چلا جاتا اور کچھ دیر وہاں بیٹھ کر شیریں سے گھریلو معاملات پر بات چیت کرتا رہتا۔ باقی دو اپنے اشغال میں مصروف رہتے۔ جو اسسٹنٹ قسم کے لوگ تھے، وہ شیریں کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ کبھی بازار سے اس کو سودا سلف لا دیا۔ کبھی لانڈری میں اس کے کپڑے دھلنے دے آئے اور کبھی اس کے روتے بچے کو بہلا دیا۔ ان میں سے کبیدہ خاطر کوئی بھی نہ تھا۔ سب کے سب مسرور تھے، شاید اپنی کبیدگی پر، وہ اپنے حالات کی نامساعت کا ذکر بھی کرتے تھے تو بڑے شاداں و فرحاں انداز میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی بہت دلچسپ تھی۔ ہم کاٹیج کے گیٹ میں داخل ہونے والے تھے کہ غریب نواز صاحب باہر آرہے تھے۔ چڈے نے ان کی طرف غور سے دیکھا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے۔ بغیر گنے اس نے کچھ غریب نواز کو دیے اور کہا

’’چار بوتلیں اسکاچ کی چاہئیں۔ کمی آپ پوری کردیجیے گا۔ بیشی ہو تو وہ مجھے واپس مل جائے۔ ‘‘

غریب نواز کے حیدر آبادی ہونٹوں پر گہری سانولی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ چڈہ کھکھلا کر ہنسا اور میری طرف دیکھ کر اس نے غریب نواز سے کہا۔

’’یہ مسٹر ون ٹو ہیں۔ لیکن ان سے مفصل ملاقات کی اجازت اس وقت نہیں مل سکتی۔ یہ رم پئے ہیں۔ شام کو اسکاچ آجائے تو۔ لیکن آپ جائیے۔ ‘‘

غریب نواز چلا گیا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ چڈے نے ایک زور کی جمائی لی اور رم کی بوتل اٹھائی جو نصف سے زیادہ خالی تھی۔ اس نے روشنی میں مقدار کا سرسری اندازہ کیا اور نوکر کو آواز دی۔

’’قراقستان کے شہزادے۔ ‘‘

جب وہ نمودار نہ ہوا تو اس نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈالتے ہوئے کہا۔

’’زیادہ پی گیا ہے کم بخت!‘‘

یہ گلاس ختم کرکے وہ کچھ فکر مند ہو گیا۔

’’یار، بھابھی کو تم خواہ مخواہ یہاں لائے۔ خدا کی قسم مجھے اپنے سینے پر ایک بوجھ سا محسوس ہورہا ہے۔ ‘‘

پھر اس نے خود ہی اپنے کو تسکین دی۔

’’لیکن میرا خیال ہے کہ بور نہیں ہونگی وہاں؟‘‘

میں نے کہا۔

’’ہاں وہاں رہ کر وہ میرے قتل کا فوری ارادہ نہیں کرسکتی‘‘

اور میں نے اپنے گلاس میں رم ڈالی جس کا ذائقہ بُسے ہوئے گڑ کی طرح تھا۔ جس کباڑ خانے میں ہم بیٹھے تھے اس میں سلاخوں والی دو کھڑکیاں تھیں جس سے باہر کا خیر آباد حصہ نظر آتا تھا۔ اِدھر سے کسی نے بآواز بلند چڈہ کا نام لے کر پکارا۔ میں چونک پڑا۔ دیکھا کہ میوزک ڈ ائریکٹر ون کُترے ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کس نسل کا ہے۔ منگولی ہے، حبشی ہے، آریہ ہے، یا کیا بلا ہے۔ کبھی کبھی اس کے کسی خدوخال کو دیکھ کر آدمی کسی نتیجے پرپہنچنے ہی والا ہوتا تھا کہ اس کے تقابل میں کوئی ایسا نقش نظر آجاتا کہ فوراً ہی نئے سرے سے غور کرنا پڑ جاتا تھا۔ ویسے وہ مرہٹہ تھا، مگر شیواجی کی تیکھی ناک کی بجائے اس کے چہرے پر بڑے حیرت ناک طریقے پر مڑی ہوئی چپٹی ناک تھی جو اس کے خیال کے مطابق ان سروں کے لیے بہت ضروری تھی۔ جن کا تعلق براہ راست ناک سے ہوتا ہے۔ اس نے مجھے دیکھا تو چلایا

’’منٹو۔ منٹو سیٹھ؟‘‘

چڈے نے اس سے زیادہ اونچی آواز میں کہا۔

’’سیٹھ کی ایسی تیسی۔ چل اندر آ‘‘

وہ فوراً اندر آگیا۔ اپنی جیب سے اس نے ہنستے ہوئے رم کی ایک بوتل نکالی اور تپائی پر رکھ دی۔

’’میں سالا اُدھر ممی کے پاس گیا۔ وہ بولا۔ تمہارے فرینڈ آئے لا۔ میں بولا سالا یہ فرینڈ کون ہونے کو سکتا ہے۔ سالا مالوم نہ تھا منٹو ہے۔ ‘‘

چڈے نے ون کُترے کے کدو ایسے سر پر ایک دھول جمائی۔

’’اب چیک کر سالے کے۔ تو رم لے آیا۔ بس ٹھیک ہے۔ ‘‘

ون کترے نے اپنا سر سہلایا اور میرا خالی گلاس اٹھا کر اپنے لیے پیگ تیار کیا۔

’’منٹو۔ یہ سالا آج ملتے ہی کہنے لگا۔ آج پینے کو جی چاہتا ہے۔ میں ایک دم کڑکا۔ سوچا کیا کروں۔ ‘‘

چڈے نے ایک اور دھپا اس کے سر پر جمایا۔

’’بیٹھ بے، جیسے تو نے کچھ سوچا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’سوچا نہیں تو سالا یہ اتنی بڑی باٹلی کہاں سے آیا۔ تیرے باپ نے دیا مجھ کو۔ ‘‘

ون کترے نے ایک ہی جرعے میں رم ختم کردی۔ چڈے نے اُس کی بات سنی ان سنی کردی اور اس سے پوچھا۔

’’تو یہ تو بتا کہ ممی کیا بولی؟۔ بولی تھی؟۔ موذیل کب آئے گی؟۔ ارے ہاں۔ وہ پلیٹنم بلونڈ!‘‘

ون کترے نے جواب میں کچھ کہنا چاہا مگر چڈے نے میرا بازو پکڑ کر کہنا شروع کردیا۔

’’منٹو۔ خدا کی قسم کیا چیز ہے۔ سنا کرتے تھے کہ ایک شے پلیٹنم بلونڈ بھی ہوتی ہے۔ مگر دیکھنے کا اتفاق کل ہوا۔ بال ہیں، جیسے چاندی کے معین مہین تار۔ گریٹ۔ خدا کی قسم منٹو بہت گریٹ۔ ممی زندہ باد!‘‘

پھر اس نے قہر آلود نگاہوں سے ون کترے کی طرف دیکھا اور کڑک کر کہا۔

’’کن کترے کے بچے۔ نعرہ کیوں نہیں لگاتا۔ ممی زندہ باد!‘‘

چڈے اور ون کترے دونوں نے مل کر

’’ممی زندہ باد‘‘

کے کئی نعرے لگائے۔ اس کے بعد ون کترے نے چڈے کے سوالوں کا پھر جواب دینا چاہا مگر اس نے اسے خاموش کردیا۔

’’چھوڑو یار۔ میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ اس وقت یہ سوچ رہا ہوں کہ عام طور پر معشوق کے بال سیاہ ہوتے ہیں۔ جنھیں کالی گھٹا سے تشبیہہ دی جاتی رہی ہے۔ مگر یہاں کچھ اور ہی سلسلہ ہو گیا ہے۔ ‘‘

پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو۔ بڑی گڑبڑ ہو گئی ہے۔ اس کے بال چاندی کے تاروں جیسے ہیں۔ چاندی کا رنگ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ معلوم نہیں پلیٹنم کا رنگ کیسا ہوتا ہے، کیونکہ میں نے ابھی تک یہ دھات نہیں دیکھی۔ کچھ عجیب ہی سا رنگ ہے۔ فولاد اور چاندی دونوں کو ملا دیا جائے۔ ‘‘

ون کترے نے دوسرا پیگ ختم کیا۔

’’اور اس میں تھوڑی سی تھری ایکس رم مکس کردی جائے۔ ‘‘

چڈے نے بھنا کر اس کو ایک فربہ اندام گالی دی۔

’’بکواس نہ کر۔ ‘‘

پھر اس نے بڑی رحم انگیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔

’’یار۔ میں واقعی جذباتی ہو گیا ہوں۔ ہاں۔ وہ رنگ۔ خدا کی قسم لاجواب رنگ ہے۔ وہ تم نے دیکھا ہے۔ وہ جو مچھلیوں کے پیٹ پر ہوتا ہے۔ نہیں نہیں ہر جگہ ہوتا ہے۔ پومغریٹ مچھلی۔ اس کے وہ کیا ہوتے ہیں؟۔ نہیں نہیں۔ سانپوں کے۔ وہ ننھے ننھے کھپرے۔ ہاں کھپرے۔ بس ان کا رنگ۔ کھپرے۔ یہ لفظ مجھے ایک ہند ستوڑے نے بتایا تھا۔ اتنی خوبصورت چیز اور ایسا واہیات نام۔ پنجابی میں ہم انھیں چانے کہتے ہیں۔ اس لفاظ میں چنچنہاہٹ ہے۔ وہی۔ بالکل وہی جو اس کے بالوں میں ہے۔ لٹیں ننھی ننھی سنپولیاں معلوم ہوتی ہیں جو لوٹ لگا رہی ہوں۔ ‘‘

وہ ایک دم اٹھا۔

’’سنپولیوں کی ایسی تیسی، میں جذباتی ہو گیا ہوں۔ ‘‘

ون کترے نے بڑے بھولے انداز میں پوچھا۔

’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘

چڈے نے جواب دیا۔

’’سنٹی منٹل۔ لیکن تو کیا سمجھے گا، بالا جی باجی راؤ اور نانا فرنویس کی اولاد۔ ‘‘

ون کترے نے اپنے لیے ایک اور پیگ بنایا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’یہ سالا چڈہ سمجھتا ہے، میں انگلش نہیں سمجھتا ہوں۔ میٹری کولیٹ ہوں۔ سالا میرا باپ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس سے۔ ‘‘

چڈے نے چڑ کر کہا۔

’’اس نے تجھے تان سین بنا دیا۔ تیری ناک مروڑ دی کہ نکوڑے سر آسانی سے تیرے اندر سے نکل سکیں۔ بچپن ہی میں اس نے تجھے دھرپدگاناسکھا دیا تھا۔ اور دودھ پینے کے لیے تو میاں کی ٹوڑی میں رویا کرتا تھا اور پیشاب کرتے وقت اڑانہ میں۔ اور تو نے پہلی بات پٹ ویپکی میں کی تھی۔ اور تیرا باپ۔ جگت استاد تھا۔ بجوباؤرے کے بھی کان کاٹتا تھا۔ اور تو آج اس کے کان کاٹتا ہے، اسی لیے تیرا نام کن کترے!‘‘

اتنا کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو۔ یہ سالا جب بھی پیتا ہے۔ اپنے باپ کی تعریفیں شروع کردیتا ہے۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا تو مجھ پر اس نے کیا احسان کیا اور اس نے اسے میٹریکولیٹ بنا دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنی بی اے کی ڈگری پھاڑ کے پھینک دوں۔ ‘‘

ون کترے نے اس بوچھاڑ کی مدافعت کرنا چاہی مگر چڈے نے اُس کو وہیں دبا دیا۔

’’چپ رہ۔ میں کہہ چکا ہوں کہ سنٹی مینٹل ہو گیا ہوں۔ ہاں، وہ رنگ۔ پومفریٹ مچھلی۔ نہیں نہیں۔ سانپ کے ننھے ننھے کھپرے۔ بس انہی کا رنگ۔ ممی نے خدا معلوم اپنی بین پر کونسا راگ بجا کر اس ناگن کو باہر نکالا؟‘‘

ون کترے سوچنے لگا۔

’’پیٹی منگاؤ، میں بجاتا ہوں۔ ‘‘

چڈہ کھکھلا کر ہنسنے لگا۔

’’بیٹھ بے میٹری کولیٹ کے چاکولیٹ۔ ‘‘

اس نے رم کی بوتل میں سے رم کے باقیات اپنے گلاس میں انڈیلے اور مجھ سے کہا۔

’’منٹو، اگر یہ پلٹینم بلونڈ نہ پٹی تو مسٹر چڈہ ہمالیہ پہاڑ کی کسی اونچی چوٹی پر دھونی رما کر بیٹھ جائے گا۔ ‘‘

اور اس نے گلاس خالی کردیا۔ ون کترے نے اپنی لائی ہوئی بوتل کھولنی شروع کردی۔

’’منٹو، مُلگی ایک چانگلی ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’دیکھ لیں گے۔ ‘‘

’’آج ہی۔ آج رات میں ایک پارٹی دے رہا ہوں۔ یہ بہت ہی اچھا ہوا کہ تم آگئے اور شری ایک سو آٹھ مہتا جی نے تمہاری وجہ سے وہ ایڈوانس دے دیا، ورنہ بڑی مشکل ہو جاتی۔ آج کی رات۔ آج کی رات۔ ‘‘

چڈے نے بڑے بھونڈے سروں میں گانا شروع کردیا :

’’آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ!‘‘

ون کترے بیچارہ اس کی اس زیادتی پر صدائے احتجاج بلند کرنے ہی والا تھا کہ غریب نواز اور رنجیت کمار آگئے۔ دونوں کے پاس اسکاچ کی دو دو بوتلیں تھیں۔ یہ انھوں نے میز پر رکھیں۔ رنجیت کمار سے میرے اچھے خاصے مراسم تھے، مگر بے تکلف نہیں۔ اس لیے ہم دونوں نے تھوڑی سی، آپ کب آئے، آج ہی آیا، ایسی رسمی گفتگو کی اور گلاس ٹکرا کر پینے میں مشغول ہو گئے۔ چڈہ واقعی بہت جذباتی ہو گیا تھا۔ ہر بات میں اس پلیٹنم بلونڈ کا ذکر لے آتا تھا۔ رنجیت کمار دوسری بوتل کا چوتھائی حصہ چڑھا گیا تھا۔ غریب نواز نے اسکاچ کے تین پیگ پئے تھے۔ نشے کے معاملے میں ان سب کی سطح اب ایک ایسی تھی۔ میں چونکہ زیادہ پینے کا عادی ہوں اس لیے میرے جذبات معتدل تھے۔ میں نے ان کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ وہ چاروں اس نئی لڑکی پربہت بری طرح فریفتہ تھے۔ جو ممی نے کہیں سے پیدا کی تھی۔ اس نایاب دانے کا نام فی لس تھا۔ پونے میں کوئی ہیئر ڈریسنگ سیلون تھا جہاں وہ ملازم تھی۔ اس کے ساتھ عام طور پر ایک ہیجڑہ نما لڑکا رہتا تھا۔ لڑکی کی عمر چودہ پندرہ برس کے قریب تھی۔ غریب نواز تو یہاں تک اس پر گرم تھا کہ وہ حیدر آباد میں اپنے حصے کی جائیداد بیچ کر بھی اس داؤں پر لگانے کے لیے تیار تھا۔ چڈے کے پاس ترپ کا صرف ایک پتا تھا، اپنا قبول صورت ہونا۔ ون کترے کا بزعمِ خود یہ خیال تھاکہ اس کی پیٹی سن کر وہ پری ضرور شیشے میں اتر آئے گی۔ اور رنجیت کمار جارحانہ اقدام ہی کو کارگر سمجھتا تھا۔ لیکن سب آخر میں یہی سوچتے تھے کہ دیکھیے ممی کسی پر قربان ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس پلیٹنم بلونڈ فی لس کو وہ عورت جسے میں نے چڈے کے ساتھ ٹانگے میں دیکھا تھا، کسی کے بھی حوالے کرسکتی تھی۔ فی لس کی باتیں کرتے کرتے چڈے نے اچانک اپنی گھڑی دیکھی اور مجھ سے کہا

’’جہنم میں جائے یہ لونڈیا۔ چلو یار۔ بھابی وہاں کباب ہو رہی ہو گی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ میں کہیں وہاں بھی سنٹی مینٹل نہ ہو جاؤں۔ خیر۔ تم مجھے سنبھال لینا۔ ‘‘

اپنے گلاس کے چند آخری قطرے حلق میں ٹپکا کر اس نے نوکر کو آواز دی۔

’’ممیوں کے ملک مصر کے شہزادے۔ ‘‘

ممیوں کے ملک مصر کا شہزادہ آنکھیں ملتا نمودار ہوا، جیسے کسی نے اس کو صدیوں کے بعد کھود کھاد کے باہر نکالا ہے۔ چڈے نے اس کے چہرے پر رم کے چھینٹے مارے اور کہا۔

’’دو عدد ٹانگے لاؤ۔ جو مصری رتھ معلوم ہوں۔ ‘‘

ٹانگے آگئے۔ ہم سب ان پر لد کر پربھات نگر روانہ ہوئے۔ میرا پرانا، فلموں کا ساتھی ہریش گھر پر موجود تھا۔ اس دور دراز جگہ پر بھی اس نے میری بیوی کی خاطر مدارت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔ چڈے نے آنکھ کے اشارے سے اس کو سارا معاملہ سمجھا دیا تھا، چنانچہ یہ بہت کارآمد ثابت ہوا۔ میری بیوی نے غیض و غضب کا اظہار نہ کیا۔ اس کا وقت وہاں کچھ اچھا ہی کٹا تھا۔ ہریش نے جو عورتوں کے نفسیات کا ماہر تھا۔ بڑی پرلطف باتیں کیں، اور آخر میں میری بیوی سے درخواست کی کہ وہ اس کی شوٹنگ دیکھنے چلے جو اس روز ہونے والی تھی میری بیوی نے پوچھا۔

’’کوئی گانا فلمارہے ہیں آپ؟‘‘

ہریش نے جواب دیا۔

’’جی نہیں۔ وہ کل کا پروگرام ہے۔ میرا خیال ہے آپ کل چلیے گا۔ ‘‘

ہریش کی بیوی شوٹنگ دیکھ دیکھ کر اور دکھا دکھا کر عاجز آئی ہوئی تھی۔ اس نے فوراً ہی میری بیوی سے کہا۔

’’ہاں کل ٹھیک رہے گا۔ آج تو انھیں سفر کی تھکن بھی ہے۔ ‘‘

ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہریش نے پھر کچھ دیر پُر لطف باتیں کیں۔ آخر میں مجھ سے کہا۔

’’چلو یار۔ تم چلو میرے ساتھ‘‘

اور میرے تین ساتھیوں کی طرف دیکھا

’’ان کو چھوڑو۔ سیٹھ صاحب تمہاری کہانی سننا چاہتے ہیں۔ ‘‘

میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور ہریش سے کہا

’’ان سے اجازت لے لو۔ ‘‘

میری سادہ لوح بیوی جال میں پھنس چکی تھی۔ اس نے ہریش سے کہا۔

’’میں نے بمبئے سے چلتے وقت ان سے کہا بھی تھا کہ اپنا ڈوکیومنٹ کیس ساتھ لے چلیے، پر انھوں نے کہا کوئی ضرورت نہیں۔ اب یہ کہانی کیا سنائیں گے۔ ‘‘

ہریش نے کہا۔

’’زبانی سنا دے گا‘‘

پھر اس نے میری طرف یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہے کہ ہاں کہو جلدی۔ میں نے اطمینان سے کہا۔

’’ہاں ایسا ہو سکتا ہے!‘‘

چڈے نے اس ڈرامے میں تکمیلی ٹچ دیا۔

’’تو بھئی ہم چلتے ہیں۔ ‘‘

اور وہ تینوں اٹھ کر سلام نمستے کرکے چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اور ہریش نکلے۔ پربھات نگر کے باہر ٹانگے کھڑے تھے۔ چڈے نے ہمیں دیکھا تو زور کا نعرہ بلند کیا۔

’’راجہ ہریش چندر زندہ باد۔ ‘‘

ہریش کے سوا ہم سب ممی کے گھر روانہ ہو گئے۔ اس کو اپنی ایک سہیلی سے ملنے جانا تھا۔ یہ بھی ایک کاٹیج تھی۔ شکل و صورت اور ساخت کے اعتبار سے سعیدہ کاٹیج جیسی مگر بہت صاف ستھری جس سے ممی کے سلیقے اور قرینے کا پتا چلتا تھا۔ فرنیچر معمولی تھا مگر جو چیز جہاں تھی سجی ہوئی تھی۔ پربھات نگر سے چلتے وقت میں نے سوچا تھا کوئی قحبہ خانہ ہو گا، مگر اس گھر کی کسی چیز سے بھی بصارت کو ایسا شک نہیں ہوتا تھا۔ وہ ویسا ہی شریفانہ تھا جیسا کہ ایک اوسط درجے کے عیسائی کا ہوتا ہے۔ لیکن ممی کی عمر کے مقابلے میں وہ جوان جوان دکھائی دیتا تھا۔ اس پر وہ میک اپ نہیں تھا جو میں نے ممی کے جھریوں والے چہرے پر دیکھا تھا۔ جب ممی ڈرائنگ روم میں آئی، تو میں نے سوچا کہ گردوپیش شفقت نے اس کے گال تھپتھپائے اور کہا

’’تم فکر نہ کرو۔ میں ابھی انتظام کرتی ہوں۔ ‘‘

وہ انتظام کرنے باہر چلی گئی۔ چڈے نے خوشی کا ایک اور نعرہ بلند کیا اور ون کترے سے کہا۔

’’جنرل ون کترے۔ جاؤ ہیڈ کوارٹرز سے ساری توپیں لے آؤ۔ ‘‘

ون کترے نے سیلوٹ کیا اور حکم کی تعمیل کے لیے چلا گیا۔ سعیدہ کاٹیج بالکل پاس تھی، دس منٹ کے اندر اندر وہ بوتلیں لے کر واپس آگیا۔ ساتھ اس کے چڈے کا نوکر تھا۔ چڈے نے اس کو دیکھا تو اُس کا استقبال کیا۔

’’آؤ، آؤ۔ میرے کوہ قاف کے شہزادے۔ وہ۔ وہ سانپ کے کھپڑوں جیسے رنگ کے بالوں والی لونڈیا آرہی ہے۔ تم بھی قسمت آزمائی کرلینا۔ ‘‘

رنجیت کمار اور غریب نواز دونوں کو چڈے کی یہ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے، والی بات بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ یہ چڈے کی بہت بے ہودگی ہے۔ اس بیہودگی کو انھوں نے بہت محسوس کیا تھا۔ چڈہ حسبِ عادت اپنی ہانکتا رہا اور وہ خاموش ایک کونے میں بیٹھے آہستہ آہستہ رم پی کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ کا اظہار کرتے رہے۔ میں ممی کے متعلق سوچتا رہا۔ ڈرائنگ روم میں، غریب نواز، رنجیت کمار اور چڈے بیٹھے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ان کی ماں باہر کھلونے لینے گئی ہے۔ یہ سب منتظر ہیں۔ چڈہ مطمئن ہے کہ سب سے بڑھیا اور اچھا کھلونا اسے ملے گا، اس لیے کہ وہ اپنی ماں کا چہیتا ہے۔ باقی دو کا غم چونکہ ایک جیسا تھا اس لیے وہ ایک دوسرے کے مونس بن گئے تھے۔ شراب اس ماحول میں دودھ معلوم ہوتی تھی اور وہ پلیٹنم بلونڈ۔ اس کا تصور ایک چھوٹی سی گڑیا کے مانند دماغ میں آتا تھا۔ ہر فضا، ہر ماحول کی اپنی موسیقی ہوتی ہے۔ اس وقت جو موسیقی میرے دل کے کانوں تک پہنچ رہی تھی، اس میں کوئی سُر اشتعال انگیز نہیں تھا۔ ہر شے، ماں اور اس کے بچے اور ان کے باہمی رشتے کی طرح قابلِ فہم اور یقینی تھی۔ میں نے جب اس کو تانگے میں چڈے کے ساتھ دیکھا تھا تو میری جمالیاتی حس کو صدمہ پہنچا تھا۔ مجھے افسوس ہوا کہ میرے دل میں ان دونوں کے متعلق واہیات خیال پیدا ہوئے۔ لیکن یہ چیز مجھے بار بار ستا رہی تھی کہ وہ اتنا شوخ میک اپ کیوں کرتی ہے جو اس کی جھریوں کی توہین ہے۔ اس ممتا کی تضحیک ہے جو اس کے دل میں چڈے، غریب نواز اور ون کترے کے لیے موجود ہے۔ اور خدا معلوم اور کس کس کے لیے۔ باتوں باتوں میں چڈے سے میں نے پوچھا۔

’’یار یہ تو بتاؤ تمہاری ممی اتنا شوخ میک اپ کیوں کرتی ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ دنیا ہر شوخ چیز کو پسند کرتی ہے۔ تمہارے اور میرے جیسے الو اس دنیا میں بہت کم بستے ہیں جو مدھم سر اور مدھم رنگ پسند کرتے ہیں۔ جو جوانی کو بچپن کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے اور۔ اور جو بڑھاپے پر جوانی کا ملمع پسند نہیں کرتے۔ ہم جو خود کو آرٹسٹ کہتے ہیں۔ اُلّو کے پٹھے ہیں۔ میں تمہیں ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ بیساکھی کا میلہ تھا۔ تمہارے امرت سر میں۔ ایک صحت مند نوجوان نے۔ خالص دودھ اور مکھن پر پلے ہوئے جوان نے، جس کی نئی جوتی اس کی لاٹھی پر بازی گری کررہی تھی اوپر ایک کوٹھے کی طرف دیکھا اور نہایت واہیات رنگوں میں لپی تپی ایک سیاہ فام ٹکھیائی کی طرف دیکھا، جس کی تیل میں چپڑی ہوئی ببریاں، اس کے ماتھے پر بڑے بدنما طریقے پر جمی ہوئی تھیں اور اپنے ساتھی کی پسلیوں میں ٹہوکا دے کر کہا۔ اوئے لہنا سیاں۔ ویخ اوئے اوپر ویخ۔ اسی تے پنڈوچ مجھاں ای۔ ‘‘

آخری لفظ وہ خدا معلوم کیوں گول کرلیا، حالانکہ وہ شائستگی کا بالکل قال نہیں تھا۔ کھکھلا کر ہنسنے لگا اور میرے گلاس میں رم ڈال کر بولا۔

’’اس جاٹ کے لیے وہ چڑیل ہی اس وقت کوہ قاف کی پری تھی۔ اور اس کے گاؤں کی حسین و جمیل مٹیاریں، بے ڈول بھینسیں۔ ہم سب چغد ہیں۔ درمیانے درجے کے۔ اس لیے کہ اس دنیا میں کوئی چیز اول درجے کی نہیں۔ تیسرے درجے کی ہے یا درمیانے درجے کی۔ لیکن۔ لیکن فی لس۔ خاص الخاص درجے کی چیز ہے۔ وہ سانپ کے کھپروں۔ ‘‘

ون کترے نے اپنا گلاس اٹھا کر چڈے کے سر پر انڈیل دیا۔

’’کھپرے۔ کھپرے۔ تمہارا مستک پھر گیا ہے۔ ‘‘

چڈے نے ماتھے پر سے رَم کے ٹپکتے ہوئے قطرے زبان سے چاٹنے شروع کردیے اور ون کترے سے کہا۔

’’لے اب سنا۔ تیرا باپ سالا تجھ سے کتنی محبت کرتا تھا۔ میرا دماغ اب کافی ٹھنڈا ہو گیا ہے!‘‘

وَن کُترے بہت سنجیدہ ہو کر مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’بائی گاڈ۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا۔ میں فٹین ائرز کا تھا کہ اس نے میری شادی بنا دی۔ ‘‘

چڈہ زور سے ہنسا۔

’’تمہیں کارٹون بنا دیا اس سالے نے۔ بھگوان اُسے سورگ میں کیریل کی پیٹی دے کہ وہاں بھی اسے بجا بجا کر تمہاری شادی کے لیے کوئی خوبصورت حور ڈھونڈتا رہے۔ ‘‘

ون کترے اور بھی سنجیدہ ہو گیا۔

’’منٹو۔ میں جھوٹ نہیں کہتا۔ میری وائف ایک دم بیوٹی فل ہے۔ ہماری فیملی میں۔ ‘‘

’’تمہاری فیملی کی ایسی تیسی۔ فی لس کی بات کرو۔ اُس سے زیادہ اور کوئی خوبصورت نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

چڈے نے غریب نواز اور رنجیت کمار کی طرف دیکھا جو کونے میں بیٹھے فی لس کے حسن کے متعلق اپنی اپنی رائے کا اظہار ایک دوسرے سے کرنے والے تھے۔

’’گن پاؤڈر پلوٹ کے بانیو۔ سن لو تمہاری کوئی سازش کامیاب نہیں ہو گی۔ میدان چڈے کے ہاتھ رہے گا۔ کیوں ویلز کے شہزادے؟‘‘

ویلز کا شہزادہ رم کی خالی ہوتی ہوئی بوتل کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ چڈے نے قہقہہ لگایا اور اس کو آدھا گلاس بھر کے دے دیا۔ غریب نواز اور رنجیت کمار ایک دوسرے سے فی لس کے بارے میں گھل مل کے باتیں تو کررہے تھے مگر اپنے دماغ میں وہ اسے حاصل کرنے کی مختلف اسکیمیں علیحدہ طور پر بنا رہے تھے۔ یہ ان کے طرزِ گفتگو سے صاف عیاں تھا۔ ڈرائنگ روم میں اب بجلی کے بلب روشن تھے، کیونکہ شام گہری ہو چلی تھی۔ چڈہ مجھ سے بمبئے کی فلم انڈسٹری کے تازہ حالات سن رہا تھا کہ باہر برآمدے میں ممی کی تیز تیز آواز سنائی دی۔ چڈے نے نعرہ بلند کیا اور باہر چلا گیا۔ غریب نواز نے رنجیت کمار کی طرف اور رنجیت کمار نے غریب نواز کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا، پھر دونوں دروازے کی جانب دیکھنے لگے۔ ممی چہکتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ چار پانچ اینگلو انڈین لڑکیاں تھیں۔ مختلف قد و قامت اور خطوط والوان کی۔ پولی، ڈولی، کِٹی، ایلما اور تھیلما۔ اور وہ ہیجڑا نما لڑکا۔ اس کو چڈہ سسِی کہہ کر پکارتا تھا۔ فی لس سب سے آخر میں نمودار ہوئی اور وہ بھی چڈے کے ساتھ۔ اس کا ایک بازو اس پلیٹنم بلونڈ کی پتلی کمر میں حمائل تھا۔ میں نے غریب نواز اور رنجیت کمار کا رد عمل نوٹ کیا۔ ان کوچڈے کی یہ نمائشی فتحمندانہ حرکت پسند نہیں آئی تھی۔ لڑکیوں کے نازل ہوتے ہی ایک شور برپا ہو گیا۔ ایک دم اتنی انگریزی برسی کہ ون کترے میٹری کولیشن امتحان میں کئی بار فیل ہوا۔ مگر اس نے کوئی پروا نہ کی اور برابر بولتا رہا۔ جب اس سے کسی نے التفات نہ برتا تو وہ ایلما کی بڑی بہن تھیلما کے ساتھ ایک صوفے پر الگ بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا کہ اس نے ہندوستانی ڈانس کے اور کتنے نئے توڑے سیکھے ہیں۔ وہ اِدھر دھانی ناکت اور ناتھئی تھئی کہ ون، ٹو، تھری بنا بنا کر اس کو توڑے بتا رہا تھا، ادھر چڈہ باقی لڑکیوں کے جھرمٹ میں انگریزی کے ننگے ننگے لمرک سنا رہا تھا۔ جو اس کو ہزاروں کی تعداد میں زبانی یاد تھے۔ ممی سوڈے کی بوتلیں اور گزک کا سامان منگوا رہی تھی۔ رنجیت کمار سگریٹ کے کش لگا کر ٹکٹکی باندھے فی لس کی طرف دیکھ رہا تھا اور غریب نواز ممی سے بار بار کہتا تھا کہ روپے کم ہوں تو وہ اس سے لے لے۔ اسکاچ کھلی اور پہلا دور شروع ہوا۔ فی لس کو جب شام ہونے کے لیے کہا گیا تو اس نے اپنے پلیٹمنی بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر انکار کردیا کہ وہ وسکی نہیں پیا کرتی۔ سب نے اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ چڈے نے بددلی کا اظہار کیا تو ممی نے فی لس کے لیے ہلکا سا مشروب تیار کیا اور گلاس اس کے ہونٹوں کے ساتھ لگا کر بڑے پیار سے کہا۔

’’بہادر لڑکی بنو اور پی جاؤ۔ ‘‘

فی لس انکار نہ کرسکی۔ چڈہ خوش ہو گیا۔ اور اس نے اسی خوشی میں بیس پچیس اور لمرک سنائے۔ سب مزے لیتے رہے۔ میں نے سوچا، عریانی سے تنگ آکر انسان نے سترپوشی اختیار کی ہو گی، یہی وجہ ہے کہ اب وہ سترپوشی سے اکتا کر کبھی کبھی عریانی کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ شائستگی کا رد عمل یقیناً ناشائستگی ہے۔ اس فرار کا قطعی طور پر ایک دلکشا پہلو بھی ہے۔ آدمی کو اس سے ایک مسلسل ایک آہنگی کی کوفت سے چند گھڑیوں کے لیے نجات مل جاتی ہے۔ میں نے ممی کی طرف دیکھا جو بہت ہشاش بشاش جوان لڑکیوں میں گھلی ملی چڈے کے ننگے ننگے لمرک سن کر ہنس رہی تھی اور قہقہے لگا رہی تھی۔ اس کے چہرے پر وہی واہیات میک اپ تھا۔ اس کے نیچے اس کی جھریاں صاف نظر آرہی تھیں مگر وہ بھی مسرور تھیں۔ میں نے سوچا، آخر لوگ کیوں فرار کو برا سمجھتے ہیں۔ وہ فرار جو میری آنکھوں کے سامنے تھے، اس کا ظاہر گو بدنما تھا، لیکن باطن اس کا بے حد خوبصورت تھا۔ اس پر کوئی بناؤ سنگھار، کوئی غازہ، کوئی ابٹنا نہیں تھا۔ پولی تھی، وہ ایک کونے میں رنجیت کمار کے ساتھ کھڑی، اپنے نئے فراک کے بارے میں بات چیت کررہی تھی اور اسے بتا رہی تھی کہ صرف اپنی ہوشیاری سے اس نے بڑے سستے داموں پر ایسی عمدہ چیز تیار کرالی ہے۔ دو ٹکڑے تھے جو بظاہر بالکل بیکار معلوم ہوتے تھے، مگر اب وہ ایک خوبصورت پوشاک میں تبدیل ہو گئے تھے۔ اور رنجیت کمار بڑے خلوص کے ساتھ اس کو دو نئے ڈریس بنوا دینے کا وعدہ کررہا تھا۔ حالانکہ اسے فلم کمپنی سے اتنے روپے یک مشت ملنے کی ہرگز ہرگز امید نہیں تھی۔ ڈولی تھی وہ غریب نواز سے کچھ قرض مانگنے کی کوشش کررہی تھی اور اس کو یقین دلا رہی تھی کہ دفتر سے تنخواہ ملنے پر وہ یہ قرض ضرور ادا کردے گی۔ غریب نواز کو قطعی طور پر معلوم تھا کہ وہ یہ روپیہ حسب معمول کبھی واپس نہیں دے گی مگر وہ اس کے وعدے پر اعتبار کیے جارہا تھا۔ تھیلما، ون کترے سے تانڈیو ناچ کے بڑے مشکل توڑے سیکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ ون کترے کو معلوم تھا کہ ساری عمر اُس کے پیر کبھی ان کے بول ادا نہیں کر سکیں گے، مگر وہ اس کو بتائے جارہا تھا اور تھیلما بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ بیکار اپنا اورون کترے کا وقت ضائع کررہی ہے، مگر بڑے شوق اور انہماک سے سابق یاد کررہی تھی۔ ایلما اور کٹی دونوں پئے جارہی تھیں اور آپس میں کسی آٹوی کی بات کررہی تھیں جس نے پچھلی ریس میں ان دونوں سے خدا معلوم کب کا بدلہ لینے کی خاطر غلط ٹپ دی تھی۔ وہ چڈہ فی لس کے سانپ کے کھپرے ایسے رنگ کے بالوں کو پگھلے ہوئے سونے کی رنگ کی اسکاچ میں ملا ملا کر پی رہا تھا۔ فی لس کا ہیجڑہ نما دوست بار بار جیب سے کنگھی نکالتا تھا اور اپنے بال سنوارتا تھا۔ ممی کبھی اس سے بات کرتی تھی، کبھی اُس سے، کبھی سوڈا کھلواتی تھی۔ کبھی ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکڑے اٹھواتی تھی۔ اس کی نگاہ سب پر تھی۔ اس بلی کی طرح، جو بظاہر آنکھیں بند کیے سستاتی ہے، مگر اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پانچوں بچے کہاں کہاں ہیں اور کیا کیا شرارت کررہے ہیں۔ اس دلچسپ تصویر میں کون سا رنگ، کون سا خط غلط تھا؟۔ ممی کا وہ بھڑکیلا اور شوخ میک اپ بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس تصویر کا ایک ضروری جزو ہے۔ غالب کہتا ہے ؂ قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں۔ موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟۔ قیدِ حیات اور بندِ غم جب اصلاً ایک ہیں تو یہ کیا غرض ہے کہ آدمی موت سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے نجات حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اس نجات کے لیے کون ملک الموت کا انتظار کرے۔ کیوں آدمی چند لمحات کے لیے خود فریبی کے دلچسپ کھیل میں حصہ نہ لے۔ ممی سب کی تعریف میں رطب اللسان تھی۔ اس کے پہلو میں ایسا دل تھا۔ جس میں ان سب کے لیے ممتا تھی۔ میں نے سوچا، شاید اس لیے اس نے اپنے چہرے پر رنگ مل لیا ہے کہ لوگوں کو اس کی اصلیت معلوم نہ ہو۔ اس میں شاید اتنی جسمانی قوت نہیں تھی کہ وہ ہر ایک کی ماں بن سکتی۔ اس نے اپنی شفقت اور محبت کے لیے چند آدمی چُن لیے تھے اور باقی ساری دنیا کو چھوڑ دیا تھا۔ ممی کو معلوم نہیں تھا۔ چڈہ ایک تکڑا پیگ فی لس کو پلا چکا تھا۔ چوری چھپے نہیں سب کے سامنے، مگر ممی اس وقت اندر باورچی خانے میں پوٹیٹو چپس تل رہی تھی۔ فی لس نشے میں تھی، ہلکے ہلکے سرور میں۔ جس طرح اس کے پالش کیے ہوئے فولاد کے رنگ کے بال آہستہ آہستہ لہراتے تھے، اسی طرح وہ خود بھی لہراتی تھی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے۔ ون کترے، تھیما کو توڑے سکھا سکھا کر اب اسے بتا رہا تھا کہ اس کا باپ سالا اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ چائلڈ ہڈ میں اس نے اس کی شادی بنا دی تھی۔ اسکی وائف بہت بیوٹی فل ہے۔ اور غریب نواز، ڈولی کو قرض دے کر بھول بھی چکا تھا۔ رنجیت کمار، پولی کو اپنے ساتھ کہیں باہر لے گیا تھا۔ ایلما اور کٹی دونوں جہان بھر کی باتیں کرکے اب تھک گئی تھیں اور آرام کرنا چاہتی تھیں۔ تپائی کے اردگرد’فی لس‘ اس کا ہیجڑا نما ساتھی اور ممی بیٹھے تھے۔ چڈہ اب جذباتی نہیں تھا۔ فی لس اس کے پہلو میں بیٹھی تھی جس نے پہلی دفعہ شراب کا سرور چکھا تھا۔ اس کو حاصل کرنے کا عزم اس کی آنکھوں میں صاف موجود تھا۔ ممی اس سے غافل نہیں تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد فی لس کا ہیجڑہ نما دوست اٹھ کر صوفے پر دراز ہو گیا اور اپنے بالوں میں کنگھی کرتے کرتے سو گیا۔ غریب نواز اور ایلما اٹھ کر کہیں چلے گئے۔ ایلما اور کٹی نے آپس میں کسی مارگرٹ کے متعلق باتیں کرتے ہوئے ممی سے رخصت لی اور چلی گئیں۔ ون کترے نے آخری بار اپنی بیوی کی خوبصورتی کی تعریف کی اور فی لس کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا، پھر تھیلما کی طرف جو اس کے پاس بیٹھی تھی اور اس کوبازو سے پکڑ کر چاند دکھانے کے لیے باہر میدان میں لے گیا۔ ایک دم جانے کیا ہوا کہ چڈے اور ممی میں گرم گرم باتیں شروع ہو گئیں۔ چڈے کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ وہ ایک ناخلف بچے کی طرح ممی سے بدزبانی کرنے لگا۔ فی لس نے دونوں میں مصالحت کی مہین مہین کوشش کی، مگر چڈا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔ وہ فی لس کو اپنے ساتھ سعیدہ کاٹیج میں لے جانا چاہتا تھا۔ ممی اس کے خلاف تھی۔ وہ اس کو بہت دیر تک سمجھاتی رہی کہ وہ اس ارادے سے باز آئے، مگر وہ اس کے لیے نہیں تھا۔ وہ بار بار ممی سے کہہ رہا تھا۔

’’تم دیوانی ہو گئی ہو۔ بوڑھی دلالہ۔ فی لس میری ہے۔ پوچھ لو اس سے‘‘

ممی نے بہت دیر تک اس کی گالیاں سنیں، آخر میں بڑے سمجھانے والے انداز میں اس سے کہا۔

’’چڈہ، مائی سن۔ تم کیوں نہیں سمجھتے۔ شی از ینگ۔ شی از ویری ینگ!‘‘

اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ ایک التجا تھی، ایک سرزنش تھی، ایک بڑی بھیانک تصویر تھی، مگر چڈہ بالکل نہ سمجھا۔ اس وقت اس کے پیش نظر صرف فی لس اور اس کا حصول تھا۔ میں نے فی لس کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی دفعہ بڑی شدت سے محسوس کیا کہ وہ بہت چھوٹی عمر کی تھی۔ بمشکل پندرہ برس کی۔ اس کا سفید چہرہ نقرئی بادلوں میں گھرا ہوا بارش کے پہلے قطرے کی طرح لرز رہا تھا۔ چڈے نے اس کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فلموں کے ہیرو کے انداز میں اسے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ ممی نے احتجاج کی چیخ بلند کی۔

’’چڈہ۔ چھوڑ دو۔ فور گاڈزسیک۔ چھوڑ دو اسے۔ ‘‘

جب چڈے نے فی لس کو اپنے سینے سے جدا نہ کیا تو ممی نے اس کے منہ پر ایک چانٹا مارا۔

’’گٹ آؤٹ۔ گٹ آؤٹ!‘‘

چڈہ بھونچکا رہ گیا۔ فی لس کو جدا کرکے اس نے دھکا دیا اور ممی کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتا باہر چلا گیا۔ میں نے اٹھ کر رخصت لی اور چڈے کے پیچھے چلا گیا۔ سعیدہ کاٹیج پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ پتلون، قمیض اور بوٹ سمیت پلنگ پر اوندھے منہ لیٹا تھا۔ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور دوسرے کمرے میں جا کر بڑے میز پر سو گیا۔ صبح دیر سے اٹھا۔ گھڑی میں دس بجے رہے تھے۔ چڈہ صبح ہی صبح اٹھ کر باہر چلا گیا۔ کہاں، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ میں جب غسل خانے سے باہر نکل رہا تھا تو میں نے اس کی آواز سنی جو گراج سے باہر آرہی تھی۔ میں رک گیا۔ وہ کسی سے کہہ رہا تھا

’’وہ لاجواب عورت ہے۔ خدا کی قسم وہ لاجواب عورت ہے۔ دعا کرو کہ اس کی عمر کو پہنچ کر تم بھی ویسی ہی گریٹ ہو جاؤ۔ ‘‘

اس کے لہجے میں ایک عجیب و غریب تلخی تھی۔ معلوم نہیں اس کا رخ اس کی اپنی ذات کی جانب تھا یا اس شخص کی طرف جس سے وہ مخاطب تھا۔ میں نے زیادہ دیر وہاں رکے رہنا مناسب نہ سمجھا اور اندر چلا گیا۔ نصف گھنٹے کے قریب میں نے اس کا انتظار کیا۔ جب وہ نہ آیا تو میں پربھات نگر روانہ ہو گیا۔ میری بیوی کا مزاج معتدل تھا۔ ہریش گھر میں نہیں تھا۔ اس کی بیوی نے اس کے متعلق استفسار کیا تو میں نے کہہ دیا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ پونے میں کافی تفریح ہو گئی تھی۔ اس لیے میں نے ہریش کی بیوی سے کہا کہ ہمیں اجازت دی جائے۔ رسماً اس نے ہمیں روکنا چاہا، مگر میں سعیدہ کاٹیج ہی سے فیصلہ کرکے چلا تھا کہ رات کا و اقعہ میرے لیے ذہنی جگالی کے واسطے بہت کافی ہے۔ ہم چل دیے۔ راستے میں ممی کی باتیں ہوئیں۔ جو کچھ ہوا تھا۔ میں نے اس کو من و عن سنا دیا۔ اس کا رد عمل یہ تھا کہ فی لس اس کی کوئی رشتہ دار ہو گی۔ یا وہ اسے کسی اچھی آسامی کو پیش کرنا چاہتی تھی جبھی اس نے چڈے سے لڑائی کی۔ میں خاموش رہا۔ اس کی تردید کی نہ تائید۔ کئی دن گزرنے پر چڈے کا خط آیا، جس میں اس رات کے واقعے کا سرسری ذکر تھا۔ اور اس نے اپنے متعلق یہ کہا تھا۔

’’میں اس روز حیوان بن گیا تھا۔ لعنت ہو مجھ پر!‘‘

تین مہینے کے بعد مجھے ایک ضروری کام سے پونے جانا پڑا۔ سیدھا سعیدہ کاٹیج پہنچا۔ چڈہ موجود نہیں تھا۔ غریب نواز سے اس وقت ملاقات ہوئی، جب وہ گراج سے باہر نکل کر شیریں کے خوردسال بچے کو پیار کررہا تھا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ تھوڑی دیر کے بعد رنجیت کمار آگیا، کچھوے کی چال چلتا اور خاموش بیٹھ گیا۔ میں اگر اس سے کچھ پوچھتا تو وہ بڑے اختصار سے جواب دیتا۔ اس سے باتوں باتوں میں معلوم ہوا کہ چڈہ اس رات کے بعد ممی کے پاس نہیں گیا اور نہ وہ کبھی یہاں آئی ہے۔ فی لس کو اس نے دوسرے روز ہی اپنے ماں باپ کے پاس بھجوا دیا تھا۔ وہ اس ہیجڑہ نما لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ کر آئی ہوئی تھی۔ رنجیت کمار کو یقین تھا کہ اگر وہ کچھ دن اور پونے میں رہتی تو وہ ضرور اسے لے اڑتا۔ غریب نواز کو ایسا کوئی زعم نہیں تھا۔ اسے صرف یہ افسوس تھا کہ وہ چلی گئی۔ چڈے کے متعلق یہ پتہ چلا کہ دو تین روز سے اس کی طبیعت ناساز ہے۔ بخار رہتا ہے، مگر وہ کسی ڈا کٹر سے مشورہ نہیں لیتا۔ سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے۔ غریب نواز نے جب مجھے یہ باتیں بتانا شروع کریں تو رنجیت کمار اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے سلاخوں والی کھڑکی میں سے دیکھا، اس کا رخ گراج کی طرف تھا۔ میں غریب نواز سے گراج والی شیریں کے متعلق کچھ پوچھنے کے لیے خود کو تیار ہی کررہا تھا کہ ون کترے سخت گھبرایا ہوا کمرے میں داخل ہوا اس سے معلوم ہوا کہ چڈے کو سخت بخار تھا، وہ اسے ٹانگے میں یہاں لارہا تھا کہ راستے میں بیہوش ہو گیا۔ میں اور غریب نواز باہر دوڑے۔ ٹانگے والے نے بیہوش چڈے کو سنبھالا ہوا تھا۔ ہم سب نے مل کر اسے اٹھایا اور کمرے میں پہنچا کربستر پر لٹا دیا۔ میں نے اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔ واقعی بہت تیز بخار تھا۔ ایک سوچھ ڈگری سے قطعاً کم نہ ہو گا۔ میں نے غریب نواز سے کہا کہ فوراً ڈاکٹر کو بلانا چاہیے۔ اس نے ون کترے سے مشورہ کیا۔ وہ

’’ابھی آتا ہوں‘‘

کہہ کر چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ممی تھی جو ہانپ رہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے چڈے کی طرف دیکھا اور قریب قریب چیخ کر پوچھا۔

’’کیا ہوا میرے بیٹے کو؟‘‘

ون کترے نے جب اسے بتایا کہ چڈہ کئی دن سے بیمار تھا تو ممی نے بڑے رنج اور غصے کے ساتھ کہا

’’تم کیسے لوگ ہو۔ مجھے اطلاع کیوں نہ دی۔ ‘‘

پھر اس نے غریب نواز، مجھے اور ون کترے کو مختلف ہدایات دیں۔ ایک کو چڈے کے پاس سہلانے کی، دوسرے کو برف لانے کی اور تیسرے کو پنکھا کرنے کی۔ چڈے کی حالت دیکھ کر اس کی اپنی حالت بہت غیر ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے تحمل سے کام لیا اور ڈ اکٹر بلانے چلی گئی۔ معلوم نہیں رنجیت کمار کو گراج میں کیسے پتہ چلا۔ ممی کے جانے کے بعد فوراً وہ گھبرایا ہوا آیا۔ جب اس نے استفسار کیا توون کترے نے اس کے بیہوش ہونے کا واقعہ بیان کردیا اور یہ بھی بتا دیا کہ ممی ڈاکٹر کے پاس گئی ہے۔ یہ سن کر رنجیت کمار کا اضطراب کسی حد تک دور ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ تینوں بہت مطمئن تھے، جیسے چڈے کی صحت کی ساری ذمہ داری ممی نے اپنے سر لے لی ہے۔ اس کی ہدایات کے مطابق چڈے کے پاؤں سہلائے جارہے تھے۔ سر پر برف کی پٹیاں رکھی جارہی تھیں۔ جب ممی ڈاکٹر لے کر آئی تو وہ کسی قدر ہوش میں آرہا تھا۔ ڈاکٹر نے معائنے میں کافی دیر لگائی۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ چڈے کی زندگی میں خطرے میں ہے۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے ممی کو اشارہ کیا اور وہ کمرے سے باہر چلے گئے۔ میں نے سلاخوں والی کھڑکی میں سے دیکھا گراج کے ٹاٹ کا پردہ ہل رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ممی آئی۔ غریب نواز، ون کترے اور رنجیت کمار سے اس نے فرداً فرداً کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ چڈہ اب آنکھیں کھول کر سن رہا تھا۔ ممی کو اس نے حیرت کی نگاہوں سے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن وہ الجھن سی محسوس کررہا تھا۔ چند لمحات کے بعد جب وہ سمجھ گیا کہ ممی کیوں اور کیسے آئی ہے تو اس نے ممی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دبا کر کہا

’’ممی، یو آر گریٹ!‘‘

ممی اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی۔ وہ شفقت کا مجسمہ تھی۔ چڈے کے تپتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ پھیر کر اس نے مسکرائے ہوتے صرف اتنا کہا

’’میرے بیٹے۔ میرے غریب بیٹے!‘‘

چڈے کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن فوراً ہی اس نے ان کو جذب کرنے کی کوشش اور کہا

’’نہیں۔ تمہارا بیٹا اول درجے کا سکاؤنڈرل ہے۔ جاؤ اپنے مرحوم خاوند کا پستول لاؤ اور اس کے سینے پر داغ دو!‘‘

ممی نے چڈے کے گال پر ہولے سے طمانچہ مارا

’’فضول بکواس نہ کرو۔ ‘‘

پھر وہ چست و چالاک نرس کی طرح اٹھی اور ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’لڑکو۔ چڈہ بیمار ہے، اور مجھے ہسپتال لے جانا ہے اسے۔ سمجھے؟‘‘

سب سمجھ گئے۔ غریب نواز نے فوراً ٹیکسی کا بندوبست کردیا۔ چڈے کو اٹھا کر اس میں ڈالا گیا۔ وہ بہت کہتا رہا کہ اتنی کونسی آفت آگئی ہے جو اس کو ہسپتال کے سپرد کیا جارہا ہے۔ مگر ممی یہی کہتی رہی کہ بات کچھ بھی نہیں۔ ہسپتال میں ذرا آرام رہتا ہے۔ چڈہ بہت ضدی تھا۔ مگر نفسیاتی طور پر وہ اس وقت ممی کی کسی بات سے انکار نہیں کرسکتا تھا۔ چڈہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ ممی نے اکیلے میں مجھے بتایا کہ مرض بہت خطرناک ہے۔ یعنی پلیگ۔ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ خود ممی بہت پریشان تھی۔ لیکن اس کو امید تھی کہ یہ بلا ٹل جائے گی اور چڈہ بہت جلد تندرست ہو جائے گا۔ علاج ہوتا رہا۔ پرائیویٹ ہسپتال تھا۔ ڈاکٹروں نے چڈے کا علاج بہت توجہ سے کیا مگر کئی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ اس کی جلد جگہ جگہ سے پھٹنے لگی۔ اور بخار بڑھتا گیا۔ ڈاکٹروں نے بالآخر یہ رائے دی کہ اسے بمبئی لے جاؤ، مگر ممی نہ مانی۔ اس نے چڈے کو اسی حالت میں اٹھوایا اور اپنے گھر لے گئی۔ میں زپادہ دیر پونے میں نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ واپس بمبئی آیا تو میں نے ٹیلی فون کے ذریعے سے کئی مرتبہ اس کا حال دریافت کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ پلیگ کے حملے سے جانبر نہ ہوسکے گا۔ مگر مجھے معلوم ہوا کہ آہستہ آہستہ اس کی حالت سنبھل رہی ہے۔ ایک مقدمے کے سلسلے میں مجھے لاہور جانا پڑا۔ وہاں سے پندرہ روز کے بعد لوٹا تو میری بیوی نے چڈے کا ایک خط دیا جس صرف یہ لکھا تھا

’’عظیم المرتبت ممی نے اپنے ناخلف بیٹے کو موت کے منہ سے بچا لیا ہے۔ ‘‘

ان چند لفظوں میں بہت کچھ تھا۔ جذبات کا ایک پورا سمندرتھا۔ میں نے اپنی بیوی سے اس کا ذکر خلافِ معمول بڑے جذباتی انداز میں کیا تو اسنے متاثر ہو کر صرف اتنا کہا

’’ایسی عورتیں عموماً خدمت گزار ہوا کرتی ہیں۔ ‘‘

میں نے چڈے کو دو تین خط لکھے، جن کا جواب نہ آیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ممی نے اس کو تبدیلی آب و ہوا کی خاطر اپنی ایک سہیلی کے ہاں لوناولہ بھجوا دیا تھا۔ چڈہ وہاں بمشکل ایک مہینہ رہا اور اکتا کر چلا آیا۔ جس روز وہ پونے پہنچا اتفاق سے میں وہیں تھا۔ پلیگ کے زبردست حملے کے باعث وہ بہت کمزور ہو گیا تھا۔ مگر اس کی غوغا پسند طبیعت اسی طرح زوروں پر تھی۔ اپنی بیماری کا اس نے اس انداز میں ذکر کیا کہ جس طرح آدمی سائیکل کے معمولی حادثے کا ذکر کرتا ہے۔ اب کہ وہ جانبر ہو گیا تھا، اپنی خطرناک علالت کے متعلق تفصیلی گفتگو اسے بیکار معلوم ہوتی تھی۔ سعیدہ کاٹیج میں چڈے کی غیر حاضری کے دوران میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ ایل برادران یعنی عقیل اور شکیل کہیں اور اٹھ گئے تھے۔ کیونکہ انھیں اپنی ذاتی فلم کمپنی قائم کرنے کے لیے سعیدہ کاٹیج کی فضا مناسب و موزوں معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس کی جگہ ایک بنگالی میوزک ڈائریکٹر آگیا تھا۔ اس کا نام سین تھا۔ اس کے ساتھ لاہور سے بھاگا ہوا ایک لڑکا رام سنگھ رہتا تھا۔ سعیدہ کاٹیج والے سب اس سے کام لیتے تھے۔ طبعیت کا بہت شریف اور خدمت گزار تھا۔ چڈے کے پاس اس وقت آیا تھا جب وہ ممی کے کہنے پر لوناولہ جارہا تھا۔ اس نے غریب نواز اور رنجیت کمار سے کہہ دیا تھا کہ اسے سعیدہ کاٹیج میں رکھ لیا جائے۔ سین کے کمرے میں چونکہ جگہ خالی تھی، اس لیے اس نے وہیں اپنا ڈیرہ جما دیا تھا۔ رنجیت کمار کو کمپنی کے نئے فلم میں ہیرو منتخب کرلیا گیا اور اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر فلم کامیاب ہوا تو اس کو دوسرا فلم ڈائریکٹ کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ چڈہ اپنی دو برس کی جمع شدہ تنخواہ میں سے ڈیڑھ ہزار روپیہ یک مشت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس نے رنجیت کمار سے کہا تھا۔

’’میری جان اگر کچھ وصول کرنا ہے تو پلیگ میں مبتلا ہو جاؤ۔ ہیرو اور ڈائریکٹر بننے سے میرا تو خیال ہے یہی بہتر ہے۔ ‘‘

غریب نواز تازہ تازہ حیدر آباد سے واپس آیا تھا۔ اس لیے سعیدہ کاٹیج کسی قدر مرفع الحال تھی۔ میں نے دیکھا کہ گراج کے باہر الگنی سے ایسی قمیض اور شلواریں لٹک رہی تھیں جن کپڑا اچھا اور قیمتی تھا۔ شیریں کے خوردسال بچے کے پاس نئے کھلونے تھے۔ مجھے پونے میں پندرہ روز رہنا پڑا۔ میرا پرانا فلموں کا ساتھی اب نئے فلم کی ہیروئن کی محبت میں گرفتار ہونے کی کوشش میں مصروف تھا۔ مگر ڈرتا تھا۔ کیونکہ یہ ہیروئن پنجابی تھی اور اس کا خاوند بڑی بڑی مونچھوں والا ہٹا کٹا مشٹنڈا تھا۔ چڈے نے اس کو حوصلہ دیا تھا

’’کچھ پروا نہ کرو اس سالے کی۔ جس پنجابی ایکٹرس کا خاوند بڑی بڑی مونچھوں والا پہلوان ہو، وہ عشق کے میدان میں ضرور چاروں شانے چت گرا کرتا ہے۔ بس اتنا کرو کہ سو روپے فی گالی کے حساب سے مجھ سے پنجابی کی دس بیس بڑی ہیوی ویٹ قسم کی گالیاں سیکھ لو۔ یہ تمہاری خاص مشکلوں میں بہت کام آیا کریں گی۔ ‘‘

ہریش ایک بوتل فی گلاس کے حساب سے چھ گالیاں پنجاب کے مخصوص لب ولہجے میں یاد کر چکا تھا۔ مگر ابھی تک اسے اپنے عش کے راستے میں کوئی ایسی خاص مشکل درپیش نہیں آئی تھی جو وہ ان کی تاثیر کا امتحان لے سکتا۔ ممی کے گھر حسب معمول محفلیں جمتی تھیں۔ پولی۔ ڈولی۔ کٹی۔ ایلما۔ تھیلما وغیرہ سب آئی تھیں۔ ون کترے بدستور تھیلما کو کتھا کلی اور تانڈیو ناچ کی تاتھئی اور دھانی ناکت کی ون ٹو تھری بنا بنا کر بتاتا تھا۔ اور وہ اسے سیکھنے کی پر خلوص کوشش کرتی تھی۔ غریب نواز حسب توفیق قرض دے رہا تھا اور رنجیت کمار جس کو اب کمپنی کے نئے فلم میں ہیرو کا چانس مل رہا تھا۔ ان میں سے کسی ایک کو باہر کھلی ہوا میں لے جاتا تھا۔ چڈے کے ننگے ننگے لمرک سن کر اسی طرح قہقہے برپا ہوتے تھے۔ ایک صرف وہ نہیں تھی۔ وہ جس کے بالوں کے رنگ کے لیے صحیح تشبیہہ ڈھونڈنے میں چڈے نے کافی وقت صرف کیا تھا۔ مگر ان محفلوں میں چڈے کی نگاہیں اسے ڈھونڈتی نہیں تھی۔ پھر بھی کبھی کبھی چڈے کی نظریں ممی کی نظروں سے ٹکرا کر جھک جاتی تھیں تو میں محسوس کرتا تھا کہ اس کو اپنی اس رات کی دیوانگی کا افسوس ہے۔ ایسا افسوس جس کی یاد سے اس کو تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ چوتھے پیگ کے بعد کسی وقت اس قسم کا جملہ اس کی زبان سے بے اختیار نکل جاتا۔

’’چڈہ۔ یو آر اے ڈیمڈ بروٹ!‘‘

یہ سن کر ممی زیر لب مسکرا دیتی تھی، جیسے وہ اس مسکراہٹ کی شیرینی میں لپیٹ لپیٹ کر یہ کہہ رہی ہے۔

’’ڈونٹ ٹوک روٹ۔ ‘‘

ون کترے سے بدستور اس کی چخ چلتی تھی۔ سرور میں آکر جب بھی وہ اپنے باپ کی تعریف میں یا اپنی بیوی کی خوبصورتی کے متعلق کچھ کہنے لگتا تو وہ اس کی بات بہت بڑے گنڈاسے سے کاٹ ڈالتا۔ وہ غریب چپ ہو جاتا اور اپنا میٹری کولیشن سرٹیفکیٹ تہہ کرکے جیب میں ڈال لیتا۔ ممی، وہی ممی تھی۔ پولی کی ممی، ڈولی کی ممی، چڈے کی ممی، رنجیت کمار کی ممی۔ سوڈے کی بوتلوں، گزک چیزوں اور محفل جمانے کے دوسروں ساز و سامان کے انتظام میں وہ اسی پر شفقت انہماک سے حصہ لیتی تھی۔ اس کے چہرے کا میک اپ ویسا ہی واہیات ہوتا تھا۔ اس کے کپڑے اسی طرح کے شوخ و شنگ تھے۔ غا زے اور سرخی کی تہوں سے اس کی جھریاں اسی طرح جھانکتی تھیں۔ مگر اب مجھے یہ مقدس دکھائی دیتی تھیں۔ اتنی مقدس کہ پلیک کے کیڑے ان تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ ڈر کر، سمٹ کر، وہ ڈر گئے تھے۔ چڈے کے جسم سے بھی نکل بھاگے تھے کہ اس پر ان جھریوں کا سایہ تھا۔ ان مقدس جھریوں کا جو ہر وقت نہایت واہیات رنگوں میں لتھڑی رہتی تھیں۔ ون کترے کی خوبصورت بیوی کے جب اسقاط ہوا تھا تو ممی ہی کی بروقت امداد سے اس کی جان بچی تھی۔ تھیلما جب ہندوستانی رقص سیکھنے کے شوق میں مارواڑ کے ایک کتھک کے ہتھے چڑھ گئی تھی اور اس سودے میں ایک روز جب اس کو اچانک معلوم ہوا تھا کہ اس نے ایک مرض خرید لیا ہے تو ممی نے اس کو بہت ڈانٹا تھا۔ اور اس کو جہنم سپرد کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے قطع تعلق کرنے کا تہیہ کرلیا تھا مگر اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا تھا۔ اس نے اسی روز شام کو اپنے بیٹوں کو ساری بات سنا دی تھی اور اس سے درخواست کی تھی کہ وہ تھیلما کا علاج کرائیں۔ کٹی کو ایک معما حل کرنے کے سلسلے میں پانچ سو روپے کا انعام ملا تھا، تو اس نے مجبور کیا تھا کہ وہ کم از کم اس کے آدھے روپے غریب نواز کو دے دے، کیونکہ اس غریب کا ہاتھ تنگ ہے۔ اس نے کٹی سے کہا تھا

’’تم اس وقت اسے دے دو۔ بعد میں لیتی رہنا‘‘

اور مجھ سے اس نے پندرہ روز کے قیام کے دوران میں کئی مرتبہ میری مسز کے بارے میں پوچھا تھا اور تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پہلے بچے کی موت کو اتنے برس ہو گئے ہیں، دوسرا بچہ کیوں نہیں ہوا۔ رنجیت کمار سے زیادہ رغبت کے ساتھ بات نہیں کرتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی نمائش پسند طبیعت اس کو اچھی نہیں لگتی۔ میرے سامنے اس کا اظہار وہ ایک دو مرتبہ لفظوں میں بھی کر چکی تھی۔ میوزک ڈائریکٹر سین سے وہ نفرت کرتی تھی۔ چڈہ اس کو اپنے ساتھ لاتا تھا تووہ اس سے کہتی تھی

’’ایسے ذلیل آدمی کو یہاں مت لایا کرو۔ ‘‘

چڈہ اس سے وجہ پوچھتا تو وہ بڑی سنجیدگی سے یہ جواب دیتی تھی کہ

’’مجھے یہ آدمی اوپرا اوپراسا معلوم ہوتا ہے۔ فٹ نہیں بیٹھتا میری نظروں میں۔ ‘‘

یہ سن کر چڈہ ہنس دیتا تھا۔ ممی کے گھر کی محفلوں کی پُرخلوص گرمی لیے میں واپس بمبئے چلا گیا۔ ان محفلوں میں زندگی تھی، بلا نوشی تھی، جنسیاتی رنگ تھا۔ مگر کوئی الجھاؤ نہیں تھا۔ ہر چیز حاملہ عورت کے پیٹ کی طرح قابل فہم تھی۔ اسی طرح ابھری ہوئی۔ بظاہر اسی طرح کڈھب، بینڈی اور دیکھنے والے کو گومگو کی حالت میں ڈالنے والی۔ مگر اصل میں بڑی صحیح، با سلیقہ اور اپنی جگہ پر قائم۔ دوسرے روز صبح کے اخباروں میں یہ پڑھا کہ سعیدہ کاٹیج میں بنگالی میوزک ڈائریکٹر سین مارا گیا ہے۔ اس کو قتل کرنے والا کوئی رام سنگھ ہے جس کی عمر چودہ پندرہ برس کے قریب بتائی جاتی ہے۔ میں نے فوراً پونے ٹیلیفون کیا مگرکوئی نہ مل سکا۔ ایک ہفتے کے بعد چڈے کا خط آیا جس میں حادثہ قتل کی پوری تفصیل تھی۔ رات کو سب سوئے تھے کہ چڈے کے پلنگ پر اچانک کوئی گرا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ روشنی کی تو دیکھا کہ سین ہے۔ خون میں لت پت۔ چڈہ اچھی طرح اپنے ہوش و حواس سنبھالنے بھی نہ پایا تھا کہ دروازے میں رام سنگھ نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ چھری تھی۔ فوراً ہی غریب نواز اور رنجیت کمار بھی آگئے۔ ساری سعیدہ کاٹیج بیدار ہو گئی۔ رنجیت کمار اور غریب نواز نے رام سنگھ کو پکڑ لیا اور چھری اس کے ہاتھ سے چھین لی۔ چڈے نے سین کو اپنے پلنگ پر لٹایا اور اس سے زخموں کے متعلق کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ اس نے آخری ہچکی لی اور ٹھنڈا ہو گیا۔ رام سنگھ، غریب نواز اور رنجیت کمار کی گرفت میں تھا، مگر وہ دونوں کانپ رہے تھے۔ سین مر گیا تو رام سنگھ نے چڈے سے پوچھا

’’بھاپا جی۔ مر گیا؟‘‘

چڈے نے اثبات میں جواب دیا تو رام سنگھ نے رنجیت کمار اور غریب نواز سے کہا

’’مجھے چھوڑ دیجیے، میں بھاگوں گا نہیں۔ ‘‘

چڈے کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے فوراً نوکر کو بھیج کر ممی کو بلوایا۔ ممی آئی تو سب مطمئن ہو گئے کہ معاملہ سلجھ جائے گا۔ اس نے رام سنگھ کو آزاد کردیا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گئی جہاں اس کا بیان درج کرادیا گیا۔ اس کے بعد چڈہ اور اس کے ساتھی کئی دن تک سخت پریشان رہے۔ پولیس کی پوچھ گچھ، بیانات، پھر عدالت میں مقدمے کی پیروی۔ ممی اس دوران میں بہت دوڑ دھوپ کرتی رہی تھی۔ چڈہ کو یقین تھا کہ رام سنگھ بری ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ماتحت عدالت ہی نے اسے صاف بری کردیا۔ عدالت میں اس کا وہی بیان تھا جو اس نے تھانے میں دیا تھا۔ ممی نے اس سے کہا تھا

’’بیٹا گھبراؤ نہیں، جو کچھ ہوا ہے سچ بچ بتا دو۔ ‘‘

۔ اور اس نے تمام و اقعات من و عن بیان کردیے تھے کہ سین نے اس کو پلے بیگ سنگر بنا دینے کا لالچ دیا تھا۔ اس کو خود بھی موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا اور سین بہت اچھا گانے والا تھا۔ وہ اس چکر میں آکر اس کی شہوانی خواہشات کو پوری کرتا رہا۔ مگر اس کو اس سے سخت نفرت تھی۔ اس کا دل بار بار اسے لعنت ملامت کرتا تھا۔ آخر میں وہ اسقدر تنگ آگیا تھا کہ اس نے سین سے کہہ بھی دیا تھا کہ اگر اس نے پھر اسے مجبور کیا تو وہ اسے جان سے مار ڈالے گا۔ چنانچہ واردات کی رات کو یہی ہوا۔ عدالت میں اس نے یہی بیان دیا۔ ممی موجود تھی۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ رام سنگھ کو دلاسا دیتی رہی کہ گھبراؤ نہیں، جو سچ ہے کہہ دو۔ سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے ہاتھوں نے خون کیا ہے مگر ایک بڑی نجس چیز ہے۔ ایک خباثت کا، ایک غیر فطری سودے کا۔ رام سنگھ نے بڑی سادگی، بڑے بھولپن اور بڑے معصومانہ انداز میں سارے واقعات بیان کیے۔ مجسٹریٹ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے رام سنگھ کو بری کردیا۔ چڈے نے کہا

’’اس جھوٹے زمانے میں یہ صداقت کی حیرت انگیز فتح ہے۔ اور اس کا سہرہ میری بڈھی ممی کے سر ہے!‘‘

چڈے نے مجھے اس جلسے میں بلایا تھا جو رام سنگھ کی رہائی کی خوشی میں سعیدہ کاٹیج والوں نے کیا تھا۔ مگر میں مصروفیت کے باعث اس میں شریک نہ ہوسکا۔ ایل بردارز شکیل اور عقیل دونوں واپس سعیدہ کاٹیج آگئے تھے۔ باہر کی فضا بھی ان کی ذاتی فلم کمپنی کی تاسیس و تعمیر کے لیے راس نہ آئی تھی۔ اب وہ پھر اپنی پرانی فلم کمپنی میں کسی اسسٹنٹ کے اسسٹنٹ ہو گئے تھے۔ ان دونوں کے پاس اس سرمائے میں سے چند سو باقی بچے ہوئے تھے جو انھوں نے اپنی فلم کمپنی کی بنیادوں کے لیے فراہم کیا تھا۔ چڈے کے مشورے پر انھوں نے یہ سب رویہ جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے دیا۔ چڈے نے ان سے کہا تھا

’’اب میں چار پیگ پی کر دعا کروں گا کہ وہ تمہاری ذاتی فلم کمپنی فوراً کھڑی کردے۔ ‘‘

چڈے کا بیان تھا کہ اس جلسے میں ون کترے نے شراب پی کر خلافِ معمول اپنے سالے باپ کی تعریف نہ کی اور نہ اپنی خوبصورت بیوی کا ذکر کیا۔ غریب نواز نے کٹی کی فوری ضروریات کے پیش نظر اس کو دوسو روپے قرض دیے اور رنجیت کمار سے اس نے کہا تھا

’’تم ان بیچاری لڑکیوں کو یونہی جھانسے نہ دیا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ تمہاری نیت صاف ہو، مگر لینے کے معاملے میں ان کی نیت اتنی صاف نہیں ہوتی۔ کچھ نہ کچھ دے دیا کرو!‘‘

ممی نے اس جلسے میں رام سنگھ کو بہت پیار کیا، اور سب کو یہ مشورہ دیا کہ اسے گھر واپس جانے کے لیے کہا جائے۔ چنانچہ وہیں فیصلہ ہوا اور دوسرے روز غریب نواز نے اس کے ٹکٹ کا بندوبست کردیا۔ شیریں نے سفر کے لیے اس کو کھانا پکا کردیا۔ اسٹیشن پر سب اس کو چھوڑنے گئے۔ ٹرین چلی تو وہ دیر تک ہاتھ ہلاتے رہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں مجھے اس جلسے کے دس روز بعد معلوم ہوئیں۔ جب مجھ ایک ضروری کام سے پونے جانا پڑا۔ سعیدہ کاٹیج میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایسا معلوم تھا کہ وہ ایسا پڑاؤ ہے جس کی شکل و صورت ہزار ہا قافلوں کے ٹھہرنے سے بھی تبدیل نہیں ہوتی۔ وہ کچھ ایسی جگہ تھی جو اپنا خلا خود ہی پُر کردیتی تھی۔ میں جس روز وہاں پہنچا۔ شیرینی بٹ رہی تھی۔ شیریں کے گھر ایک اور لڑکا ہوا تھا۔ ون کترے کے ہاتھ میں گلیکسو کا ڈبہ تھا۔ ان دنوں یہ بڑی مشکل سے دستیاب ہوتا تھا۔ اس نے اپنے بچے کے لیے کہیں سے دو پیدا کیے تھے۔ ان میں سے ایک وہ شیریں کے نوزائیدہ لڑکے کے لیے لے آیا تھا۔ چڈے نے آخری دو لڈو اس کے منہ میں ٹھونسے اور کہا

’’تو یہ گلیکسو کا ڈبہ لے آیا ہے۔ بڑا کمال کیا ہے تو نے۔ اپنے سالے باپ اور اپنی سالی بیوی کی دیکھنا، ہرگز کوئی بات نہ کرنا۔ ‘‘

ون کترے نے بڑے بھولپن کے ساتھ کہا

’’سالے، میں اب کوئی پئے لاہوں۔ وہ تو دارو بولا کرتی ہے۔ ویسے بائی گاڈ۔ میری بیوی بڑی ہینڈسم ہے۔ ‘‘

چڈے نے اس قدر بے تحاشا قہقہہ لگایا کہ ون کترے کو اور کچھ کہنے کا موقع نہ ملا۔ اس کے بعد چڈہ، غریب نواز اور رنجیت کمار مجھ سے متوجہ ہوئے اور اس کہانی کی باتیں شروع ہو گئیں جو میں اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کے ذریعے سے وہاں کے ایک پروڈیوسر کے لیے لکھ رہا تھا۔ پھر کچھ دیر شیریں کے نوزائیدہ لڑکے کا نام مقرر ہوتا رہا۔ سینکڑوں نام پیش ہوئے مگر چڈے کو پسند نہ آئے۔ آخرمیں نے کہا کہ جائے پیدائش یعنی سعیدہ کاٹیج کی رعایت سے لڑکا مولودِ مسعود ہے۔ اس لیے مسعود نام بہتر رہے گا۔ چڈے کو پسند نہیں تھا لیکن اس نے عارضی طور پر قبول کرلیا۔ اس دوران میں میں نے محسوس کیا کہ چڈہ، غریب نواز اور رنجیت کمار تینوں کی طبیعت کسی قدر بجھی بجھی سی تھی۔ میں نے سوچا شاید خزاں کے موسم کی وجہ ہے۔ جب آدمی خواہ مخواہ تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ شیریں کا نیا بچہ بھی اس خفیف اضمحلال کا باعث ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ شبہ استدلال پر پورا نہیں اترتا تھا۔ سین کے قل کی ٹریجڈی؟۔ معلوم نہیں۔ کیا وجہ تھی۔ لیکن میں نے یہ قطعی طور پر محسوس کیا تھا کہ وہ سب افسردہ تھے۔ بظاہر ہنستے تھے، بولتے تھے مگر اندرونی طور پر مضطرب تھے۔ میں پربھات نگر میں اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کے گھر میں کہانی لکھتا رہا۔ یہ مصروفیت پورے سات دن جاری رہی۔ مجھے بار بار خیال آتا تھا کہ اس دوران میں چڈے نے خلل اندازی کیوں نہیں کی۔ ون کترے بھی کہیں غائب تھا۔ رنجیت کمار سے میرے کوئی اتنے مراسم نہیں تھے کہ وہ میرے پاس اتنی دور آتا۔ غریب نواز کے متعلق میں نے سوچا تھا کہ شاید حیدر آباد چلا گیا ہو۔ اور میرا پرانا فلموں کا ساتھی اپنے نئے فلم کی ہیروئن سے اس کے گھر میں اس کے بڑی بڑی مونچھوں والے خاوند کی موجودگی میں عشق لڑانے کا مصمم ارادہ کررہا تھا۔ میں اپنی کہانی کے ایک بڑے دلچسپ باب کا منظر نامہ تیار کررہا تھا کہ چڈہ بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے مجھ سے پوچھا

’’اس بکواس کا تم نے کچھ وصول کیا ہے۔ ‘‘

اس کا اشارہ میری کہانی کی طرف تھا جس کے معاوضے کی دوسری قسط میں نے دو روز ہوئے وصول کی تھی۔

’’ہاں۔ دوسرا ہزار پرسوں لیا ہے۔ ‘‘

’’کہاں ہے یہ ہزار؟‘‘

یہ کہتا چڈہ میرے کوٹ کی طرف بڑھا۔

’’میری جیب میں!‘‘

چڈے نے میری جیب میں ہاتھ ڈالا۔ سوسو کے چار نوٹ نکالے اور مجھ سے کہا۔

’’آج شام کو ممی کے ہاں پہنچ جانا۔ ایک پارٹی ہے!‘‘

میں اس پارٹی کے متعلق اس سے کچھ دریافت ہی کرنے والا تھا کہ وہ چلا گیا۔ وہ افسردگی جو میں نے چند روز پہلے اس میں محسوس کی تھی بدستور موجود تھی۔ وہ کچھ مضطرب بھی تھا۔ میں نے اس کے متعلق سوچنا چاہا مگر دماغ مائل نہ ہوا کہانی کے دلچسپ باب کا منظر نامہ اس میں بری طرح پھنسا تھا۔ اپنے پرانے فلموں کے ساتھی کی بیوی سے اپنی بیوی کی باتیں کرکے شام کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب میں وہاں سے روانہ ہو کر سات بجے سعیدہ کاٹیج پہنچا۔ گراج کے باہر الگنی پر گیلے گیلے پوتڑے لٹک رہے تھے۔ اور نل کے پاس ایل برادران شیریں کے بڑے لڑکے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ گراج کے ٹاٹ کا پردہ ہٹا ہوا تھا اور شیریں ان سے غالباً ممی کی باتیں کرہی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ چپ ہو گئے۔ میں نے چڈے کے متعلق پوچھا تو عقیل نے کہا کہ وہ ممی کے گھر مل جائے گا۔ میں وہاں پہنچا تو ایک شوربرپا تھا۔ سب ناچ رہے تھے۔ غریب نواز پولی کے ساتھ، رنجیت کمار، کٹی اور ایلما کے ساتھ اور ون کترے تھیلما کے ساتھ۔ وہ اس کو کتھا کلی کے مدرے بتا رہا تھا۔ چڈہ ممی کو گود میں اٹھائے ادھر ادھر کود رہا تھا۔ سب نشے میں تھے۔ ایک طوفان مچا ہوا تھا۔ میں اندر داخل ہوا تو سب سے پہلے چڈے نے نعرہ لگایا۔ اس کے بعد دیسی اور نیم بدیشی آوازوں کا ایک گولہ سا پھٹا جس کی گونج دیر تک کانوں میں سرسرارتی رہی۔ ممی بڑے تپاک سے ملی۔ ایسے تپاک سے جو بے تکلفی کی حد تک بڑھا ہوا تھا۔ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اس نے کہا

’’کس می ڈئر!‘‘

لیکن اس نے خود ہی میرا ایک گال چوم لیا اور گھسیٹ کرناچنے والوں کے جھرمٹ میں لے گئی۔ چڈہ ایک دم پکارا۔ بند کرو۔ اب شراب کا دور چلے گا۔ ‘‘

پھر اس نے نوکر کو آواز دی

’’اسکاٹ لینڈ کے شہزادے۔ وسکی کی نئی بوتل لاؤ۔ ‘‘

اسکاٹ لینڈ کاشہزادہ نئی بوتل لے آیا۔ نشے میں دھت تھا۔ بوتل کھولنے لگا تو ہاتھ سے گری اور چکنا چور ہو گئی۔ ممی نے اس کو ڈ انٹنا چاہا تو چڈے نے روک دیا اور کہا

’’ایک بوتل ٹوٹی ہے ممی۔ جانے دو، یہاں دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ‘‘

محفل ایک دم سونی ہو گئی۔ لیکن فوراً ہی چڈے نے اس لمحاتی افسردگی کو اپنے قہقہوں سے درہم برہم کردیا۔ نئی بوتل آئی۔ ہر گلاس میں گرانڈیل پیگ ڈالا گیا۔ چڈے نے بے ربط سی تقریر شر وع ہوئی

’’لیڈیز اینڈ جنٹلمین۔ آپ سب جہنم میں جائیں۔ منٹو ہمارے درمیان موجود ہے۔ بزعم خود بہت بڑا افسانہ نگار بنتا ہے۔ انسانی نفسیات کی۔ وہ کیا کہتے ہیں عمیق ترین گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بکواس ہے۔ کنویں میں اترنے والے۔ کنوئیں میں اترنے والے‘‘

اس نے ادھر ادھر دیکھا

’’افسوس کہ یہاں کوئی ہندستوڑ نہیں۔ ایک حیدر آبادی ہے جو قاف کو خاف کہتا ہے اور جس سے دس برس پیچھے ملاقات ہوئی تو کہے گا، پرسوں آپ سے ملا تھا۔ لعنت ہو اس کے نظام حیدر آباد پر جس کے پاس کئی لاکھ ٹن سونا ہے۔ کروڑ ہا جواہرات ہیں، لیکن ایک ممی نہیں۔ ہاں۔ وہ کنوئیں میں اترنے والے۔ میں نے کیا کہا تھا کہ سب بکواس ہے۔ پنجابی میں جنھیں ٹوبہے کہتے ہیں۔ وہ غوطہ لگانے والے، وہ اس کے مقابلے میں انسانی نفسیات کو بدرجہا بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں۔ ‘‘

سب نے زندہ باد کا نعر لگایا۔ چڈہ چیخا

’’یہ سب سازش ہے۔ اس منٹو کی سازش ہے۔ ورنہ میں نے ہٹلر کی طرح تم لوگوں کو مردہ باہ کے نعرے کا اشارہ کیا تھا۔ تم سب مردہ باد۔ لیکن پہلے میں۔ میں۔ ‘‘

وہ جذباتی ہو گیا۔

’’میں۔ جس نے اس رات اس۔ سانپ کے پیٹ کے کھپروں ایسے رنگ والے بالوں کی ایک لڑکی کے لیے اپنی ممی کو ناراض کردیا۔ میں خود کو خدا معلوم کہاں کا ڈون جو آسان سمجھتا تھا۔ لیکن نہیں۔ اس کو حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مجھے اپنی جوانی کی قسم۔ ایک ہی بوسے میں اس پلیٹنم بلونڈ کے کنوارپنے کا سارا عرق میں اپنے ان موٹے موٹے ہونٹوں سے چوس سکتا تھا۔ لیکن یہ ایک۔ یہ ایک نامناسب حرکت تھی۔ وہ کم عمر تھی۔ اتنی کم عمر، اتنی کمزور، اتنی کیریکٹرلس۔ اتنی‘‘

اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’بتاؤ یار اسے اردو فارسی یا عربی میں کیا کہیں گے۔ کیریکٹر لس۔ لیڈیز اینڈ جنٹلمین۔ وہ اتنی چھوٹی، اتنی کمزور اور اتنی لاکردار تھی کہ اس رات گناہ میں شریک ہو کریا تو وہ ساری عمر پچھتاتی رہتی، یا اسے قطعاً بھول جاتی۔ ان چند گھڑیوں کی لذت کی یاد کے سہارے جینے کا سلیقہ اس کو قطعی طور پر نہ آتا۔ مجھے اس کا دکھ ہوتا۔ اچھا ہوا کہ ممی نے اسی وقت میرا حقہ پانی بند کردیا۔ میں اب اپنی بکواس بند کرتا ہوں۔ میں نے اصل میں ایک بہت لمبی چوڑی تقریر کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر مجھ سے کچھ بولا نہیں جاتا۔ میں ایک پیگ اور پیتا ہوں۔ ‘‘

اس نے ایک پیگ اور پیا۔ تقریر کے دوران میں سب خاموش تھے۔ اس کے بعد بھی خاموش رہے۔ ممی نہ معلوم کیا سوچ رہی تھی۔ غازے اور سرخی کی تہوں کے نیچے اس کی جھریاں بھی ایسا دکھائی دیتا تھا کہ غور و فکر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ بولنے کے بعد چڈہ جیسے خالی سا ہو گیا تھا۔ ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔ جیسے کوئی چیز کھونے کے لیے ایسا کونہ ڈھونڈ رہا ہے جو اس کے ذہن میں اچھی طرح محفوظ ہے۔ میں نے اس سے ایک بار پوچھا۔

’’کیا بات ہے چڈے؟‘‘

اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا

’’کچھ نہیں۔ بات یہ ہے کہ آج وسکی میرے دماغ کے چوتڑوں پر جما کے لات نہیں مار رہی۔ ‘‘

اس کا قہقہہ کھوکھلا تھا۔ ون کترے نے تھلیما کو اٹھا کر مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد اپنے باپ کی تعریف شروع کردی کہ وہ بڑا گُنی آدمی تھا۔ ایسا ہارمونیم بجاتا تھا کہ لوگ دم بخود ہو جاتے تھے۔ پھر اس نے اپنی بیوی کی خوبصورتی کا ذکر کیا اور بتایا کہ بچپن ہی میں اس کے باپ نے یہ لڑکی چن کر اس سے بیاہ دی تھی۔ بنگالی میوزک ڈائریکٹر سین کی بات نکلی تو اس نے کہا

’’مسٹر منٹو۔ وہ ایک دم ہلکٹ آدمی تھا۔ کہتا تھا میں خاں صاحب عبدالکریم خاں کا شاگرد ہوں۔ جھوٹ، بالکل جھوٹ۔ وہ تو بنگال کے کسی بھڑوے کا شاگرد تھا۔ ‘‘

گھڑی نے دو بجائے۔ چڈے نے جسٹربگ بند کیا۔ کٹی کو دھکا دے کر ایک طرف گرایا اور بڑھ کر ون کترے کے کدو ایسے سر پر دھپا مار کر

’’بکواس بند کر بے۔ اٹھ۔ اور کچھ گا۔ لیکن خبردار اگر تو نے کوئی پکا راگ گایا۔ ‘‘

ون کترے نے فوراً گانا شروع کردیا۔ آواز اچھی نہیں تھی۔ مُرکیوں کی نوک پلک واضح طور پر اس کے گلے سے نہیں نکلتی تھی۔ لیکن جو کچھ گاتا تھا، پورے خلوص سے گاتا تھا۔ مالکوس میں اس نے اوپر تلے دو تین فلمی گانے سنائے جن سے فضا بہت اداس ہو گئی، ممی اور چڈہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے اور نظریں کسی اورسمٹ ہٹا لیتے تھے۔ غریب نواز اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ چڈے نے زور کا قہقہہ بلند کیا اور کہا

’’حیدر آباد والوں کی آنکھ کا مثانہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ موقع بے موقع ٹپکنے لگتا ہے۔ ‘‘

غریب نواز نے اپنے آنسو پونچھے اور ایلما کے ساتھ ناچنا شروع کردیا۔ ون کترے نے گراموفون کے توے پر رکارڈ رکھ کر سوئی لگا دی۔ گھسی ہوئی ٹیون بجنے لگی۔ کڈے نے ممی کو پھر گود میں اٹھا لیا اور کود کود کر شورمچانے لگا۔ اس کا گلا بیٹھ گیا تھا۔ ان میراثیوں کی طرح جو شادی بیاہ کے موقعوں پر اونچے سروں میں گا گا کر اپنی آواز کا ناس مار لیتی ہیں۔ اس اچھل کود اور چیخم دھاڑ میں چار بج گئے۔ ممی ایک دم خاموش ہو گئی۔ پھر اس نے چڈے سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’بس، اب ختم!‘‘

چڈے نے بوتل سے منہ لگایا، اسے خالی کرکے ایک طرف پھینک دیااور مجھ سے کہا۔

’’چلو منٹو چلیں!‘‘

میں نے اٹھ کر ممی سے اجازت لینی چاہی کہ چڈے نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔

’’آج کوئی الوداع نہیں کہے گا!‘‘

ہم دونوں باہر نکل رہے تھے کہ میں نے ون کترے کے رونے کی آواز سنی۔ میں نے چڈے سے کہا۔

’’ٹھہرو، دیکھیں کیا بات ہے، ‘‘

مگر وہ مجھے دھکیل کر آگے لے گیا۔

’’اس سالے کی آنکھوں کا مثانہ بھی خراب ہے۔ ‘‘

ممی کے گھر سے سعیدہ کاٹیج بالکل نزدیک تھی۔ راستے میں چڈے نے کوئی بات نہ کی۔ سونے سے پہلے میں نے اس سے اس عجیب و غریب پارٹی کے متعلق استفسارکرنا چاہا تو اس نے کہا

’’مجھے سخت نیند آرہی ہے‘‘

اور بستر پر لیٹ گیا۔ صبح اٹھ کر میں غسل خانے میں گیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ غریب نواز گراج کے ٹاٹ کے ساتھ لگ کر کھڑا ہے اور رو رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر وہ آنسو پونچھتا وہاں سے ہٹ گیا۔ میں نے پاس جا کر اس سے رونے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا

’’ممی چلی گئی!‘‘

’’کہاں!‘‘

’’معلوم نہیں‘‘

یہ کہہ کر غریب نواز نے سڑک کا رخ کیا۔ چڈہ بستر پرلیٹا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سویا تھا۔ میں نے اس سے ممی کے بارے میں پوچھا تو اس نے مسکرا کر کہا

’’چلی گئی۔ صبح کی گاڑی سے اسے پونہ چھوڑنا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’مگر کیوں؟‘‘

چڈے کے لہجے میں تلخی آگئی

’’حکومت کو اس کی ادائیں پسند نہیں تھیں۔ اس کی وضع قطع پسند نہیں تھی۔ اس کے گھر کی محفلیں اس کی نظر میں قابل اعتراض تھیں۔ اس لیے کہ پولیس اس کی شفقت اور محبت بطور یرغمال کے لینا چاہتی تھی۔ وہ اسے ماں کہہ کر ایک دلالہ کا کام لینا چاہتے تھے۔ ایک عرصے سے اس کا ایک کیس زیر تفتیش تھا۔ آخر حکومت پولیس کی تحقیقات سے مطمئن ہو گئی اور اس کو تڑی پار کردیا۔ شہر بدر کردیا۔ وہ اگر قحبہ تھی۔ دلالہ تھی۔ اس کا وجود سوسائٹی کے لیے مہلک تھا تو اس کا خاتمہ کردینا چاہیے تھا۔ پونے کی غلاظت سے یہ کیوں کہا گیا کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔ اور جہاں چاہو ڈھیر ہو سکتی ہو۔ چڈے نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا اور تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے بڑے جذبات بھرے لہجے میں کہا

’’مجھے افسوس ہے منٹو کہ اس غلاظت کے ساتھ ایک ایسی پاکیزگی چلی گئی ہے جس نے اس رات میری ایک بڑی غلط اور نجس ترنگ کو میرے دل و دماغ سے دھو ڈالا۔ لیکن مجھے افسوس نہیں ہونا چاہیے۔ وہ پُونے سے چلی گئی ہے۔ مجھے ایسے جوانوں میں ایسی نجس اور غلط ترنگیں وہاں بھی پیدا ہوں گی جہاں وہ اپنا گھر بنائے گی۔ میں اپنی ممی ان کے سپرد کرتا ہوں۔ زندہ باد ممی۔ زندہ باد!۔ چلو غریب نواز کو ڈھونڈیں۔ رو رو کر اس نے اپنی جان ہلکان کرلی ہو گی۔ ان حیدر آبادیوں کی آنکھوں کا مثانہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ وقت بے وقت ٹپکنے لگتا ہے۔ ‘‘

میں نے دیکھا، چڈے کی آنکھوں میں آنسو اس طرح تیر رہے تھے جس طرح مقتولوں کی لاشیں۔

سعادت حسن منٹو

ممدبھائی

فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جوسفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگریہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی لونڈیاں بستی ہیں۔ ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھیے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر

’’پلے ہاؤس‘‘

آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہُو رہتی ہے۔ سینما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سینما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے۔

’’آؤ آؤ۔ دو آنے میں۔ فسٹ کلاس کھیل۔ دو آنے میں!‘‘

بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انھیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بچے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلاسکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقیناً سنتے رہیں گے۔

’’پی۔ پی۔ پی۔ ‘‘

یہ’پی‘ چمپی کا مخفف ہے۔ فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک۔ ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔ یہودی، پنجابی، مرہٹی، کشمیری، گجراتی، بنگالی، اینگلوانڈین، فرانسیسی، چینی، جاپانی غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ یہ عورتیں کیسی ہو تی ہیں۔ معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھیے۔ بس عورتیں ہوتی ہیں۔ اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں، مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔ بعض تو ریستوران چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کیا۔ اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کررہا ہوں، اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رام پوریوں پر مشتمل تھی۔ اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا، ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔ آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو شاید آپ مشکل سے یقین کریں کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مررہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اس کا نام ممد بھائی تھا۔ ممد بھائی رام پور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھکیت، گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا، لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔ میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا۔ لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مسلح ہوکر اس پر ٹوٹ پڑیں تووہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کردیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔ اس کے ہاتھ کی صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے تھے کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی۔ صرف عرب گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھی، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ خود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خورد سال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کرلیا کرتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانگہ تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جُتا ہوتا تھا، اس کووہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا یاکسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے میں واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتکے اور بنوٹ کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔ میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارواڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے ممد بھائی کی سینکڑوں کہانیاں سنائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہو گیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کردیے اور ان سے کہا

’’دیکھو، اگر عاشق حسین کو کچھ ہو گیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔ ‘‘

عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب!ممد بھائی فرشتہ ہے۔ فرشتہ۔ جب اس نے ڈا کٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا، مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا، اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا، بہر حال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔ اس قسم کا آدمی جوہر کولیس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔ میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اوررات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہوکرواپس آکر فوراًسو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گزار کرممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔ ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوائنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا، کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ جو ایک آدمی رہتا تھا، اس کو پونہ میں نوکری مل گئی تھی، اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جارہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا، وہ میرے لیے ناکافی تھا۔ اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔ میں بہت سخت جان ہوں، دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہواکرتی۔ مگر معلوم نہیں کہ وہ کسی قسم کا بخار تھا۔ انفلوائنزا تھا، ملیریاتھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔ دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔ آنا بھی کسے تھا۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے۔ دو تین یا چار۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اور پھروہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے۔ کوئی مرے یا جیے۔ ان کی بلا سے۔ میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے خیال کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں’باہر والا‘ کہتے ہیں، ہو گا۔ بڑی مریل آواز میں کہا۔

’’آجاؤ!‘‘

دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔ اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی سے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔ وہ اندر آیا اور اپنی قیصر ولیم جیسی مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔ اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے، عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔ قیصر ولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔

’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کردی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘

منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس کی مونچھوں سے صرف اتنا کہا۔

’’آپ کون ہیں؟‘‘

اس نے مختصر سا جواب دیا۔

’’ممد بھائی!‘‘

میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’ممد بھائی۔ تو۔ توآپ ممد بھائی بھائی ہیں۔ مشہور د ادا!‘‘

میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا۔

’’ہاں ومٹو بھائی۔ میں ممد ہوں۔ یہاں کا مشہوردادا۔ مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو۔ سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے، جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔ ‘‘

میں جواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا

’’ارے۔ کیا نام ہے تیرا۔ جا بھاگ کے جا، اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا۔ سمجھ گئے نا اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے۔ ایک دم جلدی آ۔ ایک دم سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ۔ اور دیکھ سالے سے کہنا، سب دوائیں لیتا آئے۔ ‘‘

ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا، وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ تمام داستانیں میرے بخار آلود دماغ میں چل پھر رہی تھیں۔ جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا۔ ۔ لیکن گڈ مڈ صورت میں۔ کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم ونازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں یہ سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔ کھولی میں کرسی نہیں۔ میں نے ممد بھائی سے کہا وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے۔ مگر اس نے انکار کردیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ ہم کھڑے رہیں گے۔ ‘‘

پھر اس نے ٹہلتے ہوئے۔ حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پاجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا۔ میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر لشک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔ یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے اپنی کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے، سب صاف ہو گئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔ اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کسی قدر ہوش مند حالت میں اس سے کہا۔

’’ممد بھائی۔ یہ چھری تم اس طرح اپنے۔ نیفے میں۔ یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو اتنی تیز ہے، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘

ممد نے خنجرسے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا۔

’’ومٹو بھائی۔ یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیزہے، مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی؟‘‘

چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر آگیا۔ اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو۔ اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچیئن انداز میں سلام کیا اورپوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔ جو معاملہ تھا، وہ ممد بھائی نے بیان کردیا۔ مختصر، لیکن کڑے الفاظ میں، جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔ ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔ سٹیتھو سکوپ لگا میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈ پریشر دیکھا۔ مجھ سے میری بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا۔

’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ ملیریا ہے۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔ ‘‘

ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اڑاتے ہوئے کہا۔

’’میں کچھ نہیں جانتا۔ انجکشن دینا ہے تو دے، لیکن اگر اسے کچھ ہو گیا تو۔ ‘‘

ڈاکٹر پنٹو کانپ گیا۔

’’نہیں ممد بھائی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

ممد بھائی نے خنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا۔

’’تو ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔

’’ٹھہرو۔ ٹھہرو۔ ‘‘

ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھی دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا۔

’’کیوں؟‘‘

’’بس۔ میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔ ڈاکٹر پنٹو نے میرے کونین کا انجکشن کا لگایا۔ بڑے سلیقے سے، ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا

’’دس روپے!‘‘

میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممد بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔ ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کودیکھا اور گرج کر کہا۔

’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔

’’فیس دے رہا ہوں۔ ‘‘

ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا۔

’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘

ڈاکٹر پنٹو بوکھلا ہو گیا۔

’’میں کب لے رہا ہوں۔ یہ دے رہے تھے!‘‘

’’سالا۔ ہم سے فیس لیتے ہو۔ واپس کرو یہ نوٹ!‘‘

ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔ ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کردیا اور بیگ بند کرکے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔ ممد بھائی نے ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرایا۔

’’ومٹو بھائی۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔ تمہاری قسم، اپنی مونچھیں منڈوا دیتا اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔ ‘‘

تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔

’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘

ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں۔

’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا۔ ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت ہے، کون بری حالت میں۔ تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ ‘‘

میں نے ازراہ تفنن پوچھا۔

’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘

سالا۔ ہم کیا نہیں جانتے۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے۔ کشمیری ہے۔ یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازار میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے سے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔ ‘‘

میں پانی پانی ہو گیا۔ ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور مسکرا کہا۔

’’ومٹو بھائی!کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار! اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا۔ اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔ ‘‘

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا، کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ جس کے باعث کانوں میں شائیں شائیں ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس کے خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی۔ میں صرف اتنا کہہ سکا۔

’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے۔ تم خوش رہو۔ ‘‘

ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔

’’نہیں، مسٹر منٹو!ممد بھائی کا معاملہ ہے میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔ ‘‘

میں نے سوچا یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔ یعنی خوفناک قسم کا جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرات نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کررہا ہے۔ بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا، کبھی شام کو، اپنے چھ سات شاگردوں کے ساتھ۔ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا تھا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔ پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔ جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر یہی پچیس تیس کے درمیان ہو گی۔ پتلی پتلی بانھیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کُھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب کے گلی نے بتایا تھا۔ اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں، اس نے کسی کو قتل کیا تھا، میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے، مگر میں یہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن پر جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑسے رہتا ہے۔ میں جب اچھا ہو گیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’ممد بھائی۔ آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا

’’ومٹو بھائی! بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انھیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا۔ گھوڑا دبایا اور ٹھاہ۔ اس میں کیا مزا ہے۔ یہ چیز۔ یہ خنجر۔ یہ چھری۔ یہ چاقو۔ مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم۔ یہ وہ ہے۔ تم کیا کہا کرتے ہو۔ ہاں۔ آرٹ۔ اس میں آرٹ ہوتا ہے میری جان۔ جس کوچاقو یا چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے۔ پستول کیا ہے۔ کھلونا ہے۔ جو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پر اس میں کیا لطف آتا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ تم یہ خنجر دیکھو۔ اس کی تیز دھار دیکھو۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھیرا۔

’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔ بس، یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو۔ بندوق، پستول سب بکواس ہے۔ ‘‘

ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا۔ لیکن جب میں اس کا ذکر کیا کرتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔ جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم ہے۔ ایسا حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کے کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا تھا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھاجو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔ وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیںآتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔ اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہرروز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔ میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا۔ یا اس خنجر کا جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں۔ ممد بھائی یوں تو اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا، لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتاتھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا پیر مانتی تھی۔ چونکہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا، اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔ میری اس کی بڑی دوستی ہو گئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے، دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا، اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے۔ کیا وجہ ہوسکتی تھی۔ میں نے اس کے آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہو گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اسی عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے، جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے، اس کو کل ایک آدمی نے خراب کردیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کردی۔ شیریں بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس سے کہا

’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کیا ہے۔ لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو۔ ‘‘

ممد بھائی نے یہ موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا۔

’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘

اس نے کہا

’’میں چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔ ‘‘

ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیس پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا۔

’’جا۔ تیرا کام ہو جائے گا۔ ‘‘

اور اس کا کام ہو گیا۔ دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھ گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہو گیا۔ ممد بھائی گرفتار تو ہو گیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پررہا کردیا گیا۔ دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی، انسپکٹر، سب انسپکٹرسب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کرباہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طورپر اوپرکو اٹھی ہوتی تھیں اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔ چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی لیکن اس نے خود کہا

’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا۔ چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہو گئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا۔ ایک دم مڑ گیا اور اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہو گیا۔ لیکن مر گیا۔ ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔ ‘‘

آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ میرا رد عمل کیا ہو گا۔ یعنی اس کو افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا، اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔ مقدمہ چلنا تھا۔ اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق نہیں وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا نہیں تھا۔ وہ بہت فکر مند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہو گئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہو گیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا اور مجھ سے کہتا تھا۔

’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا پرکورٹ نہیں جاؤں گا۔ سالی، معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔ ‘‘

عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انھوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معاملہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مخالف جذبہ پیدا کرسکتی ہیں۔ جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز

’’دادا‘‘

دکھائی نہ دیتا۔ اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہو گئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے، مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے، اس لے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا۔

’’ممد بھائی۔ کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔ مجسٹریٹ تم کو اندر کردے گا۔ ‘‘

اور وہ سوچتا تھا۔ ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کوقتل کیا ہے یا اس نے۔ لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں جو پہلی مرتبہ خون آشناہوا تھا یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔

’’ممد بھائی۔ یہ کیا؟‘‘

’’کچھ نہیں ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہو گیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔ یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کروہ ضرور تم کو سزا دے گا۔ اب بولو، میں کیا کروں؟‘‘

میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا۔

’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے۔ تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر ضرور اثر انداز ہوں گی۔ سچ پوچھو تو جو کچھ ہو گا، تمہار خلاف نہیں۔ مونچھوں کے خلاف ہو گا۔ ‘‘

’’تو میں منڈوادوں؟‘‘

ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھیری۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میرا خیال ہے جو کچھ بھی ہو، وہ تم نہ پوچھو۔ لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انھیں منڈوا دوں تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوادوں ومٹو بھائی؟‘‘

میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا۔

’’ہاں، اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوادو۔ عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔ ‘‘

دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں۔ اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔ لیکن صرف دوسرے کے مشورے پر۔ مسٹر ایف، ایچ، ٹیگ کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ مونچھوں کے بغیر ممد بھائی بھائی پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی، لیکن مجسٹریٹ صاحب نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کردیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اسے اپنا تمام حساب کتاب طے کرکے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔ عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوٹی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں۔ مگر وہاں کوئی بال ہی نہیں تھا۔ شام کو جب اسے بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تواس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔ اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا۔

’’کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘

اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا۔

’’سالا، اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔ ‘‘

مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جکا ہے۔

’’کوئی بات نہیں ممد بھائی!۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی!‘‘

اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں۔

’’سالا۔ اپن کو یہ غم نہیں۔ یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں۔ یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘

پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کو مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا۔

’’سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔ ‘‘

مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہو گیا۔

’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو۔ ہم سچ کہتا ہے، خدا کی قسم۔ ہمیں پھانسی لگا دیتے۔ پر۔ یہ بے وقوفی تو ہم نے خود کی۔ آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا۔ سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے دوہتر اپنے منہ پرمارا۔

’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر۔ سالا۔ اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔ اب جا اپنی ماں کے۔ ‘‘

اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے دکھائی دیتے تھے۔

سعادت حسن منٹو

ملبے کا ڈھیر

کامنی کے بیاہ کو ابھی ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا پتی دل کے عارضے کی وجہ سے مر گیا اور اپنی ساری جائیداد اس کے لیے چھوڑ گیا۔ کامنی کو بہت صدمہ پہنچا، اس لیے کہ وہ جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ اس کی ماں عرصہ ہوا اس کے باپ کو داغ مفارقت دے گئی تھی۔ اگر وہ زندہ ہوتی تو کامنی اس کے پاس جا کر خوب روتی تاکہ اسے دم دلاسہ ملے۔ لیکن اُسے مجبوراً اپنے باپ کے پاس جانا پڑا جو کاٹھیاواڑ میں بہت بڑا کاروباری آدمی تھا۔ جب وہ اپنے پرانے گھر میں داخل ہوئی تو سیٹھ گھنشام داس باہر برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ غالباً اپنے کاروبار کے متعلق سوچ رہے تھے۔ جب کامنی ان کے پاس آئی تو وہ حیران سے ہو کر رہ گئے۔

’’کامنی‘‘

کامنی کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، وہ اپنے پتا سے لپٹ گئی اور زارو قطار رونے لگی۔ سیٹھ گھنشام داس نے اس کو پچکارا اور پوچھا

’’کیابات ہے ؟‘‘

کامنی نے کوئی جواب نہ دیا اور روتی رہی۔ سیٹھ جی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کیا ہے۔ انھوں نے صرف ایک ہی چیز کے متعلق سوچا کہ شاید میری بیٹی کے پتی نے اس سے کوئی زیادتی کی ہے جس کے باعث اس کو بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس سے پوچھا

’’کیوں بیٹی۔ کیا رنچھوڑ نے کوئی ایسی ویسی بات کی ہے؟‘‘

اس پر کامنی اور بھی زیادہ رونے لگی۔ سیٹھ گھنشام داس نے بہت پوچھا مگر کامنی نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر تنگ آگئے اور جھنجھلا کر کہا

’’مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ تم نے میرا آدھا گھنٹہ خراب کر دیا ہے۔ بولو کیا بات ہے ؟‘‘

کامنی نے اپنی آنسو بھری آنکھوں سے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور کہا

’’ان کا دیہانت ہو گیا ہے‘‘

سیٹھ گھنشام نے اپنی دھوتی کالانگ درست کیا اور پوچھا۔ کس کا ؟‘‘

کامنی نے ساڑھی کے پلو سے آنسوخشک کیے۔

’’وہی جن سے آپ نے میرا ویاہ کیا تھا۔ ‘‘

سیٹھ گھنشام سکتے میں آگئے۔

’’کب ؟‘‘

’’پرسوں‘‘

’’تم نے مجھے اطلاع بھی نہ دی‘‘

کامنی نے کہا

’’میں نے آپ کو تار دیا تھا۔ کیا ملا نہیں آپ کو ؟‘‘

اس کے باپ نے تھوڑی دیر سوچا

’’کل تار تو کافی آئے تھے۔ مگر مجھے اتنی فرصت نہیں تھی کہ انھیں دیکھ سکوں۔ اب میں پیڑھی جارہا ہوں۔ ہوسکتا ہے ان تاروں میں تمہارا تار بھی ہو‘‘

کامنی دو دن اپنے باپ کے پاس رہی اس کے بعد واپسی بمبئی چلی آئی اور اپنے شوہر کی جائیداد اپنے نام منتقل کروانے میں مشغول ہو گئی۔ رنچھوڑ کا صرف ایک بھائی تھا مگر اس کا جائیداد پر کوئی حق نہیں تھا، اس لیے کہ وہ اپنا حصہ وصول کر چکا تھا۔ کامنی جب اس کام سے فارغ ہو گئی تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ کاٹھیاواڑ گجرات میں دس مکان، احمد آباد میں پانچ، بمبئی میں سات، ان کا کرایہ پر ماہ اُسے مل جاتا جو پانچ ہزار کے قریب ہوتا یہ سب روپے وہ اپنے منیم کے ذریعے سے وصول کرتی اوربینک میں جمع کرا دیتی۔ ایک برس کے اندر اس کے پاس ایک لاکھ روپیہ جمع ہو گئے اس لیے کہ اُس کے شوہر نے بھی تو کافی جائیداد چھوڑی تھی۔ وہ اب بڑی مالدار عورت تھی۔ دولت کے نشے نے اُس کے سارے غم دُور کردیے تھے۔ لیکن اُس کو کسی ساتھی کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ رات کو اکثر اسے نیند نہ آتی۔ گھر میں چار نوکر تھے جو اُس کی خدمت کے لیے چوبیس گھنٹے تیار رہتے۔ ہر قسم کی آسائش میسر تھی۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں خلا محسوس کرتی تھی۔ جیسے موٹر کا ٹائر تو ہے ثابت و سالم مگر اس میں ہوا کم ہے۔ پچک پچک جاتا ہے۔ ایک روز وہ بڑی افسردہ حالت میں باہر برآمدے میں لٹکے ہوئے پنگھوڑے پر بیٹھی تھی کہ اس کا منیم آیا۔ کامنی اسے صرف منیم جی کہتی تھی۔ وہ عام منیموں جیسا بڈھا اور جھڑوس نہیں تھا۔ اُس کی عمر یہی تیس برس کے قریب ہو گی۔ صاف ستھرا۔ دھوتی بڑے سلیقے سے باندھتا تھا۔ خوش شکل اور تندرست و توانا تھا۔ پہلی مرتبہ کامنی نے اُسے غور سے دیکھا اور جھولا جھولتے ہوئے اس کے پرنام کا جواب دیا اور اُس سے پوچھا۔

’’کیوں منیم جی آپ کیسے آئے ؟‘‘

منیم نے اپنا بستہ جو اس کی بغل میں تھا نکالا۔ کھولنے ہی والا تھا کہ کامنی نے اس سے کہا

’’رہنے دیجیے حساب کتاب، چلیے چائے پئیں‘‘

دونوں اندر چلے گئے۔ چائے تیار تھی، گجراتی انداز کی۔ منیم کچھ جھینپا، اس لیے کہ وہ اس کا ملازم تھا اور دو سو روپے ماہوار لیتا تھا مگر کامنی نے اصرار کیا کہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھے۔ چائے کے ساتھ نمکین بسکٹ، کھاری سینگ ( نمک لگی مونگ پھلی) اور دال مونٹھ اور کچھ اسی قسم کی تین چار چیزیں اور تھیں۔ کامنی غور سے منیم کو دیکھ رہی تھی جو پہلی مرتبہ اس نوازش سے دو چار ہوا تھا۔ کامنی نے چائے کا ایک گھونٹ پی کر اُس سے پوچھا

’’منیم جی آپ کا نام کیا ہے؟‘‘

نوجوان منیم کے ہاتھ سے بسکٹ گر کر چائے کی پیالی میں ڈبکیاں لگانے لگا

’’جی میرا۔ میرا نام۔ رنچھوڑ داس ہے۔ ‘‘

کامنی کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔

’’رنچھوڑ داس‘‘

جی ہاں‘‘

یہ تو میرے سورگ باشی پتی کا نام ہے‘‘

منیم نے کہا

’’مجھے معلوم ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں اپنا نام بدل لوں گا‘‘

کامنی نے ایک بار پھر منیم کو غور سے دیکھا

’’نہیں نہیں۔ یہ نام مجھے پسند ہے۔ ‘‘

چائے کا سلسلہ ختم ہوا تو منیم نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ ایک بلڈنگ پانچ منزلہ بنانے کا ٹھیکہ انھیں مل سکتا تھا۔ اُس نے کامنی سے کہا کہ اس سودے میں کم از کم پچاس ہزار روپے بلکہ اس سے زیادہ بچ جائیں گے۔ کامنی کے پاس کافی دولت موجود تھی اس کو کسی قسم کا لالچ نہیں تھا۔ لیکن منیم کے مشورے کو وہ نہ ٹال سکی۔ اس نے کہا

’’ہاں منیم جی۔ میں یہ ٹھیکہ لینے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ آپ چاہتے ہیں‘‘

منیم کی باچھیں کھل گئیں

’’بائی جی۔ ٹھیکہ کیا ہے بس سونا ہی سونا ہے‘‘

’’سونا ہو یا لوہا۔ آپ کو روپیہ کتنا چاہیے؟‘‘

’’دس ہزار‘‘

’’کل دس ہزار ؟‘‘

’’جی نہیں۔ یہ تو فوکٹ میں جائے گا۔ میرا مطلب ہے کہ رشوت میں۔ جب ٹھیکہ مل جائے گا تو ہم اُسے کسی اور کے حوالے کر دیں گے اور اپنے پیسے کھرے کر لیں گے‘‘

کامنی کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی

’’ٹھیکہ مل جائے گا تو آپ اسے کسی دوسرے آدمی کے حوالے کیوں کریں گے ؟‘‘

منیم ہنسا۔

’’بائی جی۔ یہ دنیا اسی طرح چلتی ہے۔ ہم محنت کیوں کریں۔ دس ہزار دیں گے۔ یہ کیا کم ہے اور سالا جس کو ہم دیں گے ہزاروں کمائے گا۔ ‘‘

کامنی کے دماغ میں روپے پیسے نہیں تھے وہ بار بار منیم کو دیکھ رہی تھی۔ منیم کو بھی اس کا علم تھا کہ وہ اس کی ذات میں دلچسپی لے رہی ہے۔ تھوڑی دیر ٹھیکے بارے میں گفتگو ہوتی رہی لیکن بالکل ٹھس اور بے کیف۔ اچانک منیم نے کامنی کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسرے کمرے میں لے گیا۔ منیم اور کامنی دیر تک اُس کمرے میں رہے۔ منیم اپنی دھوتی کا لانگ ٹھیک کرتے ہوئے باہر نکلا۔ بیڑی سلگا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اتنے میں زردرو کامنی آئی اور اس کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ منیم نے اس سے کہا

’’بائی جی تو وہ دس ہزار کا چیک لکھ دیجئیے‘‘

کامنی اُٹھی۔ اپنی ساڑھی کے پلو میں اُڑسے ہوئے چابیوں کے چھلے کو نکالا اور الماری کھول کر چیک بک نکالی اور دس ہزار روپے کا چیک کاٹ کر منیم کو دے دیا۔ منیم نے یہ چیک اپنی واسکٹ میں رکھا اور کامنی سے کہا

’’اچھا تو میں چلتا ہوں۔ کل کام ہو جائے گا‘‘

دوسرے روز کام ہو گیا ٹھیکہ مل گیا اب اس کو ٹھکانے لگانے کا کام باقی رہ گیا تھا منیم کامنی بائی کے پاس آیا۔ دونوں کچھ دیر دوسرے کمرے میں رہے اس دوران میں سب باتیں ہو گئیں۔ اب یہ مرحلہ باقی رہ گیا کہ ٹھیکہ کس کے نام فروخت کیا جائے۔ کوئی ایسی پارٹی ہونی چاہیے کہ جو یک مشت روپیہ ادا کر دے۔ منیم ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے کافی دوڑ دھوپ کی آخر ایک پارٹی ڈُھونڈ نکالی جس نے دو لاکھ روپیہ یک مشت ادا کردیا۔ اور بلڈنگ کا کام شروع ہو گیا۔ منیم نے جب دو لاکھ روپے کامنی کو دیے تو اسے کوئی خاص خوشی نہ ہوئی۔ البتہ وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گئی۔ جہاں وہ دیر تک زیر تعمیر بلڈنگ کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ بلڈنگ کا کام دن رات جاری تھا۔ پانچ سو مزدور کام کررہے تھے۔ پانچ منزلہ عمارت بن رہی تھی۔ اُدھر کامنی اور اُس کا منیم دوسرے کمرے میں کئی منزلیں طے کر چکے تھے۔ منیم بہت خوش تھا کہ اس نے بہت اچھا سودا کیا۔ دو لاکھ روپے بغیر کسی محنت کے وصول ہو گئے لیکن جس پارٹی نے یہ ٹھیکہ خریدا تھا اس کو اپنی دانست کے مطابق خسارہ ہی خسارہ نظر آرہا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ منافع کی اُمید نہیں تھی۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ بلڈنگ پانچوں منزل تک پہنچ گئی۔ پانچ سو مزدور دن رات عمارت سازی میں مصروف تھے۔ رات کو گیس کے لیمپ روشن کیے جاتے سیمنٹ اور بجری کو ملا کر مشین چلتی رہتی۔ مزدوروں میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی تھیں جو مردوں کے مقابلے میں بڑی تن دہی سے کام کرتی تھیں اپنے شیر خوار بچوں کو جو نیچے زمین پر پڑے ہوئے دودھ بھی پلاتیں اور سیمنٹ بجری اُٹھا کر پانچویں منزل تک پہنچاتیں۔ کامنی کے دوسرے کمرے میں ایک دن یہ طے ہوا کہ وہ شادی کر لیں۔ دوسرے دن صبح اخبار میں منیم نے پڑھا کہ وہ بلڈنگ جو تعمیر ہو رہی تھی ناقص مسالہ استعمال کرنے کے باعث اچانک گر گئی۔ پچاس مزدور نیچے دب گئے۔ اُن کی لاشیں نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ منیم کامنی کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔ جب کامنی نے یہ خبر سنی تو اُس نے منیم کو دھکا دے کر ایک طرف کر دیا جیسے وہ ملبے کا ڈھیر ہے۔

سعادت حسن منٹو

ملاوٹ

امرتسر میں علی محمد کی منیاری کی دکان تھی‘ چھوٹی سی مگر اس میں ہر چیز موجود تھی‘ اُس نے کچھ اس قرینے سے سامان رکھا تھا کہ ٹھنسا ٹھنسا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ امرتسر میں دوسرے دکاندار بلیک کرتے تھے مگر علی محمد واجبی نرخ پر اپنا مال فروخت کرتا تھا ‘ یہی وجہ ہے کہ لوگ دُور دُور سے اس کے پاس آتے اور اپنی ضرورت کی چیزیں خرید کرتے۔ وہ مذہبی قسم کا آدمی تھا‘ زیادہ منافع لینا اس کے نزدیک گناہ تھا‘ اکیلی جان تھی‘ اس کے لیے جائز منافع ہی کافی تھا۔ سارا دن دکان پر بیٹھتا‘ گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی‘ اس کو بعض اوقات افسوس ہوتا جب وہ کسی گاہک کو سنلائیٹ صابن کی ایک ٹکیہ نہ دے سکتا یا کیلی فورنین پوپی کی بوتل‘ کیونکہ یہ چیزیں اسے محدود تعداد میں ملتی تھیں۔ بلیک نہ کرنے کے باوجود وہ خوشحال تھا۔ اُس نے دو ہزار روپے پس انداز کر رکھے تھے ‘ جوان تھا۔ ایک دن دکان پر بیٹھے بیٹھے اُس نے سوچا کہ اب شادی کر لینی چاہیے۔ بُرے بُرے خیال دماغ میں آتے ہیں‘ شادی کر لوں کہ زندگی میں لطافت پیدا ہو جائے گی‘ بال بچے ہوں گے‘ ان کی پرورش کے لیے میں اور زیادہ کمانے کی کوشش کروں گا۔ اس کے والدین عرصہ ہوا‘ اﷲ کو پیارے ہو چکے تھے‘ اس کی کوئی بہن تھی نہ بھائی۔ وہ بالکل اکیلا تھا ‘ شروع شروع میں جبکہ وہ دس برس کا تھا‘ اس نے اخبار بیچنے شروع کیے‘ اس کے بعد خوانچہ لگایا‘ قلفیاں بیچیں‘ جب اس کے پاس ایک ہزار روپیہ جمع ہو گیا تو اس نے ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لے لی اور منیاری کا سامان خرید کر بیٹھ گیا۔ آدمی ایماندار تھا‘ اُس کی دکان تھوڑے ہی عرصے میں چل نکلی۔ جہاں تک آمدن کا تعلق تھا وہ اس سے بے فکر تھا مگر وہ چاہتا تھا گھر بسائے۔ اس کی بیوی ہو‘ بچے ہوں اور وہ ان کے لیے زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش کرے‘ اس لیے کہ اس کی زندگی مشین ایسی بن گئی تھی ‘ صبح دکان کھولتا‘ گاہک آتے انھیں سودا دیتا‘ شام کو دکان بند کرتا اور ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں جو اس نے شریف پورہ میں لے رکھی تھی‘ سو جاتا۔ گنجے کا ہوٹل تھا اس میں وہ کھانا کھاتا‘ صرف ایک وقت‘ صبح ناشتہ جیمل سنگھ کے کٹڑے میں شابھے حلوائی کی دکان میں کرتا‘ دکان کھولتا اور شام تک اپنی گدی پر بیٹھا رہتا۔ اس کے اندر شادی کی خواہش شدت اختیار کرتی گئی لیکن سوال یہ تھا کہ اس معاملے میں اس کی مدد کون کرے۔ امرتسر میں اس کا کوئی دوست یار بھی نہیں تھا جو اس کے لیے کوشش کرتا۔ وہ بہت پریشان تھا‘ شریف پورہ کی کوٹھڑی میں رات کو سوتے وقت وہ کئی مرتبہ رویا کہ اس کے ماں باپ اتنی جلدی کیوں مر گئے‘ انھیں اور کچھ نہیں تو اس لیے زندہ رہنا چاہیے تھا کہ وہ اس کی شادی کا بندوبست کر جاتے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ شادی کیسے کرے‘ بہت دیر تک سوچتا رہا‘ اس دوران میں اس کے پاس تین ہزار روپے جمع ہو گئے‘ اس نے ایک چھوٹے سے گھر کو جو اچھا خاصا تھا کرایے پر لے لیا مگر رہتا وہ شریف پورے ہی میں تھا۔ ایک دن اس نے اخبار میں ایک اشتہار دیکھا جس میں لکھا تھا کہ شادی کے خواہشمند حضرات ہم سے رجوع کریں۔ بی اے پاس لیڈی ڈاکٹر ‘ ہر قسم کے رشتے موجود ہیں‘ خط و کتابت کیجیے یا خود آ کے ملیے۔ اتوار کو وہ دکان نہیں کھولتا تھا اُس دن وہ اس پتے پر گیا اور اس کی ملاقات ایک داڑھی والے بزرگ سے ہوئی۔ علی محمد نے مدعا بیان کیا‘ داڑھی والے بزرگ نے میز کا دراز کھول کر بیس پچیس تصویریں نکالیں اور اس کو ایک ایک کر کے دکھائیں کہ وہ ان میں سے کوئی پسند کرے۔ ایک لڑکی کی تصویر علی محمد کو پسند آ گئی‘ چھوٹی عمر کی اور خوبصورت تھی۔ اس نے شادیاں کرانے والے ایجنٹ سے کہا ‘

’’جناب۔ یہ لڑکی مجھے پسند ہے‘‘

ایجنٹ مسکرایا

’’تم نے ایک ہیرا چن لیا ہے‘‘

علی محمد کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ لڑکی اس کی آغوش میں ہے‘ اس نے گٹکنا شروع کر دیا

’’بس۔ جناب آپ بات پکّی کر دیجیے ‘ ایجنٹ سنجیدہ ہو گیا‘ دیکھو برخوردار!۔ یہ لڑکی تم نے چنی ہے‘ علاوہ حسین ہونے کے بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن تم سے زیادہ فیس نہیں مانگوں گا‘‘

’’آپ کی بڑی نوازش ہے۔ میں یتیم لڑکا ہوں۔ اگر آپ میرا یہ کام کر دیں تو آپ کو ساری عمر اپنا باپ سمجھوں گا‘‘

ایجنٹ کے مونچھوں بھرے ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ نمودار ہوئی‘ جیتے رہو۔ میں تم سے صرف تین سو روپے فیس لوں گا‘ علی محمد نے بڑے متشکرانہ لہجے میں کہا

’’جناب کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے منظور ہے‘‘

یہ کہہ کر اس نے جیب سے تین نوٹ سوسو روپے کے نکالے اور اس بزرگوار کو دے دیے۔ تاریخ مقرر ہو گئی‘ نکاح ہوا‘ رخصتی بھی ہوئی‘ علی محمد نے وہ چھوٹا سا مکان کرایے پر لے رکھا تھا‘ اب سجا سجایا تھا‘ وہ اس میں بڑے چاؤ سے اپنی دلہن لے کر آیا‘ پہلی رات کا تصور معلوم نہیں‘ اس کے دل و دماغ میں کس قسم کا تھا مگر جب اس نے دلہن کا گھونگھٹ ہاتھوں سے اُٹھایا تو اس کو غش سا آ گیا۔ نہایت بدشکل عورت تھی۔ صریحاً اس مرد بزرگ نے اس کے ساتھ دھوکا کیا تھا‘ علی محمد لڑکھڑاتا کمرے سے باہر نکلا اور شریف پورے جا کر اپنی کوٹھڑی میں دیر تک سوچتا رہا کہ یہ ہوا کیا ہے لیکن اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ اس نے اپنی دکان نہ کھولی۔ دو ہزار روپے وہ اپنی بیوی کا حق مہر ادا کر چکا تھا‘ تین سو روپے اس ایجنٹ کو‘ اب اس کے صرف سات سو روپے تھے۔ وہ اس قدر دل برداشتہ ہو گیا تھا کہ اس نے سوچا شہر ہی چھوڑ دے۔ ساری رات جاگتا رہا اور سوچتا رہا ‘ اس نے فیصلہ کر ہی لیا ‘ صبح دس بجے اس نے اپنی دکان ایک شخص کے پاس پانچ ہزار روپے میں یعنی اونے پونے داموں بیچ دی اور ٹکٹ کٹوا کر لاہور چلا آیا۔ لاہور جاتے ہوئے گاڑی میں کسی جیب کترے نے بڑی صفائی سے اس کے تمام روپے غائب کر دیے‘ وہ بہت پریشان ہوا۔ لیکن اس نے سوچا کہ شاید خدا کو یہی منظور تھا۔ لاہور پہنچا تو اس کی دوسری جیب میں جو کتری نہیں گئی تھی صرف دس روپے اور گیارہ آنے تھے اس سے اس نے چند روز گزارہ کیا لیکن بعد میں فاقوں کی نوبت آ گئی۔ اس دوران میں اس نے کہیں نہ کہیں ملازم ہونے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ وہ اس قدر مایوس ہو گیا کہ اس نے خودکشی کا ارادہ کر لیا مگر اس میں اتنی جرأت نہیں تھی‘ اس کے باوجود ایک رات وہ ریل کی پٹڑی پر لیٹ گیا‘ ٹرین آ رہی تھی مگر کانٹا بدلا اور وہ دوسری لائن پر چلی گئی کہ اسے ادھر ہی جانا تھا۔ اس نے سوچا کہ موت بھی دھوکا دے جاتی ہے چنانچہ اس نے خودکشی کا خیال چھوڑ دیا اور ہلدی اور مرچیں پیسنے والی ایک چکی میں بیس روپے ماہوار پر ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں اسے پہلے ہی دن معلوم ہو گیا کہ دنیا دھوکا ہی دھوکا ہے‘ ہلدی میں پیلی مٹی کی ملاوٹ کی جاتی تھی‘اور مرچوں میں سرخ اینٹوں کی۔ دو برس تک وہ اس چکی میں کام کرتا رہا ‘ اس کا مالک ہر مہینے کم از کم سات سو روپے ماہوار کماتا تھا‘ اس دوران میں علی محمد نے پانچ سو روپے پس انداز کر لیے تھے‘ ایک دن اس نے سوچا جب ساری دنیا میں فریب ہی فریب ہے تو وہ بھی کیوں نہ فریب کرے۔ اس نے چنانچہ ایک علیحدہ چکی قائم کر لی اور اس میں مرچوں اور ہلدی میں ملاوٹ کا کام شروع کر دیا۔ اس کی آمدن اب کافی معقول تھی اس کو شادی کا کئی بار خیال آیا مگر جب اس کی آنکھوں کے سامنے اس پہلی رات کا نقشہ آیا تو وہ کانپ کانپ گیا۔ علی محمد خوش تھا اس نے فریب کاری پوری طرح سیکھ لی تھی‘ اس کو اب اس کے تمام گُر معلوم ہو گئے تھے‘ ایک من لال مرچوں میں کتنی اینٹیں پسنی چاہئیں‘ ہلدی میں کتنی زرد رنگ کی مٹی ڈالنی چاہیے اور پھر وہاں کا حساب‘ یہ اب اس کو اچھی طرح معلوم تھا۔ لیکن ایک دن اس کی چکی پر پولیس کا چھاپہ پڑا‘ ہلدی اور مرچوں کے نمونے بوتلوں میں ڈال کر مہر بند کیے گئے۔ اور جب کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ آئی کہ ان میں ملاوٹ ہے تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا لاہور میں کون تھا جو اس کی ضمانت دیتا۔ کئی دن حوالات میں بند رہا۔ آخر مقدمہ عدالت میں پیش ہوا اور اس کو سو روپیہ جُرمانہ اور ایک مہینے کی قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ جرمانہ تو اس نے ادا کر دیا لیکن ایک مہینے کی قید بامشقت اسے بھگتنا ہی پڑی‘ یہ ایک مہینہ اس کی زندگی میں بہت کڑا وقت تھا۔ اس دوران میں وہ اکثر سوچتا تھا کہ اُس نے بے ایمانی کیوں کی‘ جبکہ اس نے اپنی زندگی کا یہ اصول بنا لیا تھا کہ وہ کبھی خراب کاری نہیں کرے گا۔ پھر وہ سوچتا کہ اسے اپنی زندگی ختم کر لینی چاہیے ‘ اس لیے کہ وہ اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا ‘ اس کا کردار مضبوط نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ مر جائے تاکہ اس کا ذہنی اضطراب ختم ہو۔ جب وہ جیل سے باہر نکلا تو وہ مضبوط ارادہ کر چکا تھا کہ خودکشی کر لے گا تاکہ سارا جھنجھٹ ہی ختم ہو۔ اس غرض کے لیے اُس نے سات روز مزدوری کی اور دو تین روپے اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر جمع کیے۔ اُس کے بعد اس نے سوچا ‘ کون سا زہر ہو گا جو کارآمد ہو سکتا ہے۔ اُس نے صرف ایک ہی زہر کا نام سُنا تھا جو بڑا قاتل ہوتا ہے۔ سنکھیا مگر یہ سنکھیا کہاں سے ملتی؟ اُس نے بہت کوشش کی ‘ آخر اُسے ایک دکان سے سنکھیا مل گئی اس نے عشاء کی نماز پڑھی خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی کہ وہ ہلدی اور مرچوں میں ملاوٹ کرتا رہا‘ پھر رات کو سنکھیا کھائی اور فٹ پاتھ پر سو گیا۔ اُس نے سُنا تھا سنکھیا کھانے والوں کے منہ سے جھاگ نکلتے ہیں‘ تشنج کے دورے پڑتے ہیں ‘ بڑا کرب ہوتا ہے مگر اسے کچھ بھی نہ ہوا‘ ساری رات وہ اپنی موت کا انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ صبح اُٹھ کر وہ اس دکاندار کے پاس گیا جس سے اس نے سنکھیا خریدی تھی اور اس سے پوچھا بھائی صاحب! یہ آپ نے مجھے کیسی سنکھیا دی ہے کہ میں ابھی تک نہیں مرا‘‘

دکاندار نے آہ بھر کے بڑے افسوسناک لہجے میں کہا :

’’کیا کہوں میرے بھائی۔ آج کل ہر چیز نقلی ہوتی ہے۔ یا اُس میں ملاوٹ ہوتی ہے‘‘

۱۹، مئی ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

ملاقاتی

’’آج صبح آپ سے کون ملنے آیا تھا‘‘

’’مجھے کیا معلوم میں تو اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔ ‘‘

’’آپ تو بس ہر وقت سوئے ہی رہتے ہیں آپ کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا حالانکہ آپ سب کچھ جانتے ہوتے ہیں‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ اب مجھے کیا معلوم کون صبح سویرے تشریف لایا تھا کون آیا ہو گا۔ میرے ملنے والا یا کوئی اور شخص جسے سفارش کرانا ہو گی۔ ‘‘

’’آپ کی سفارش کہاں چلتی ہے۔ بڑے آئے ہیں گورنر کہیں گے۔ ‘‘

’’میں نے گورنری کا دعوےٰ کبھی نہیں کیا لیکن اِدھر اُدھر میری تھوڑی سی واقفیت ہے اس لیے دوست یار کبھی کبھی کسی رشتے دار کو یہاں لے آتے ہیں کہ سفارش کر دو‘‘

’’آپ بات ٹالنے کی کوشش نہ کیجیے۔ میری اس بات کا جواب دیجیے کہ صبح سویرے آپ سے ملنے کے لیے کون آیا تھا۔ ‘‘

’’بھئی کہہ تو دیا ہے کہ مجھے علم نہیں۔ میں اندر اپنے کمرے میں سو رہا تھا۔ تمھیں اتنا تو یاد ہونا چاہیے کہ رات بڑے بچے کو بخار تھا اور میں دیر تک جاگتا رہا اُس کے بعد اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور نو بجے تک سوتا رہا۔ ‘‘

’’میں تواُوپر کوٹھے پر تھی۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے اُٹھ کر ملے ہوں۔ ‘‘

’’کسی سے کچھ پتہ بھی تو چلے‘‘

’’آپ کو پتہ چل جائے گا جب میں یہ گھر چھوڑ کر میکے چلی جاؤں گی‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا تمھیں ایکا ایکی کیا ہو جاتا ہے تمہارے دماغ میں یقیناًفتور ہے۔ ‘‘

’’فتور ہو گا آپ کے دماغ میں۔ میرا دماغ اچھا بھلا ہے دیکھیے میں آپ سے کہہ دوں آپ زبان سنبھال کر بات کیا کیجیے مجھ سے آپ کی یہ بد زُبانیاں برداشت نہیں ہوسکتیں۔ ‘‘

’’تم خود پرلے درجے کی بد زبان ہو کیا عورت کو اپنے شوہر سے اس طرح سے بات کرنی چاہیے۔ ‘‘

’’جو شوہر اس قابل ہو گا۔ اُس سے اس قسم کے لہجے میں گفتگو کرنا پڑے گی۔ ‘‘

’’بند کرو اس گفتگو کو۔ میں تمہاری اس روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ چکا ہوں تم تو میکے جاتی رہو گی۔ میں اس سے پہلے اس گھر سے نکل کر چلا جاؤں گا۔ ‘‘

’’کہاں۔ ‘‘

’’کسی جنگل میں‘‘

’’وہاں جا کر کیا کیجیے گا۔ ‘‘

’’سنیاسی بن جاؤں گا۔ تم سے چھٹکارا تو مل جائے گا۔ خدا کی قسم چند برسوں سے تم نے میرے ناک میں دم کر رکھا ہے بات بات پر نوک جھونک کرتی ہو آخر یہ سلسلہ کیا ہے جانے کون کم بخت صبح مجھ سے ملنے آیا تھا میرے دشمنوں کو بھی خبر نہیں خود کہتی ہو کہ تم کوٹھے پر تھیں تمھیں کیسے معلوم ہو گیا کوئی مجھ سے ملنے آیا ہے کبھی تک کی بات بھی کیا کرو۔ ‘‘

’’آپ تو ہمیشہ تک کی بات کرتے ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے۔ آپ دفتر سے آئے تو میں نے آپ کی سفید قمیص پر لال رنگ کا ایک دھبہ دیکھا میں نے پوچھا یہ کیسے لگا آپ سٹپٹا گئے مگر فوراً سنبھل کر ایک گھڑدی کہ لال پنسل سے کھجا رہا تھا شاید یہ اُس کا نشان ہو گا۔ حالانکہ جب آپ نے قمیص اُتاری اور میں نے اس دھبے کو غور سے دیکھا تو وہ لپ اسٹک کا دھبہ تھا۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے‘‘

’’جناب اس لال دھبے سے خوشبو بھی آرہی تھی۔ کیا آپکے دفتر کی لال پنسلوں میں خوشبو ہوتی ہے‘‘

’’عورت کا دُوسرا نام اپنے خاوند کی ہربات کو شک کی نظروں سے دیکھنا ہے۔ کل صبح تم نے ہی میری اِس قمیص پر سینٹ لگایا تھا۔ ‘‘

’’لگایا ہو گا مگر وو دھبہیقیناًلپ اسٹک کا تھا۔ ‘‘

’’یعنی آپ لپ اسٹک لگے ہونٹ میری قمیص چومتے رہے‘‘

’’آپ کو باتیں بنانا خوب آتی ہیں قمیص چومنے کا سوال کیا پیدا ہوتا ہے‘‘

کیا ہونٹ ویسے ہی قمیص سے نہیں چھوسکتے۔ ‘‘

’’چھو سکتے ہیں بابا۔ چھو سکتے ہیں تم یہ سمجھتی ہو کہ میں کوئی یوسف ہوں کہ لڑکیاں میرے حسن سے اس قدر متاثر ہوتی ہیں کہ غش کھا کر مجھ پر گرتی جاتی ہیں اور میں جھاڑو ہاتھ میں لیکر سڑکوں سے یہ کوڑا کرکٹ اُٹھاتا رہتا ہوں۔ ‘‘

’’مرد ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں‘‘

’’دیکھو تم عورت ذات کی خود عورت ہو کر توہین کر رہی ہو۔ کیا عورتیں اتنے ہی کمزور کردار کی ہیں کہ ہر مرد کے آگے پاانداز کی طرح بچھ جائیں خدا کے لیے کچھ تو اپنی صنف کا خیال کرو میں نے تو ہمیشہ عورت کی عزت کی ہے۔ ‘‘

’’عزت کرنا ہی تو آپ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جو بے چاری بھولی بھالی عورت کو آپ کے جال میں پھنسا لیتا ہے۔ ‘‘

’’میں کوئی چڑی مار نہیں جو جال بچھاتا رہے‘‘

’’آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں ورنہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ چڑی ماروں کے گرو ہیں۔ ‘‘

’’یہ رُتبہ آج تم نے بخشا ہے۔ آٹھ دس روز ہوئے مجھے کمینہ کہا گیا تھا آج چڑی ماروں کا گرو پرسوں یہ ارشاد ہو گا کہ تم ہٹلر ؔ ہو۔ ‘‘

’’وہ تو آپ ہیں۔ اس گھر میں چلتی کس کی ہے جو آپ کہیں وہی ہو گا۔ ہو کے رہے گا۔ میں تو تین میں ہوں نہ تیرہ میں‘‘

’’میں کہتا ہوں اب یہ فضول بکواس بند ہو جانی چاہیے میرا دماغ چکرا گیا ہے۔ ‘‘

’’دماغ آپ کا بہت نازک ہے۔ ذراسی بات کر و تو چکرانے لگتا ہے۔ میں عورت ہوں میرا دماغ تو آج تک آپکی باتوں سے نہیں چکرایا۔ ‘‘

’’عورتیں بڑی سخت دماغ ہوتی ہیں یُوں تو انھیں صنف نازک کہا جاتا ہے مگر جب واسطہ پڑتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ایسی صنفِ کرخت دُنیا کے تختے پر نہیں۔ ‘‘

’’آپ حد سے بڑھ رہے ہیں‘‘

’’کیا کروں۔ تم جو میرا دماغ چاٹ گئی ہو تم اتنا تو سوچو کہ میں دفتر میں آٹھ گھنٹے جھک مار کر گھر آیا ہوں تھکا ہارا ہوں مجھے آرام کی ضرورت ہے اور تم لے بیٹھی ہو ایک فرضی قصّہ کہ تم سے ملنے کے لیے صبح سویرے کوئی آیا تھا۔ کون آیا تھا یہ بتا دو تو ساری جھنجھٹ ختم ہو۔ ‘‘

’’آپ تو بس بات ٹالنا چاہتے ہیں‘‘

’’کون خر ذات بات ٹالنا چاہتا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ کسی نہ کسی حیلے ختم ہو۔ لو اب بتا دو کون آیا تھا مجھ سے ملنے‘‘

’’ایک چڑیل تھی۔ ‘‘

’’وہ یہاں کیا کرنے آئی تھی۔ میرا اُس سے کیا کام؟‘‘

’’یہ آپ اُسی سے پوچھیے گا۔ ‘‘

’’اب تو مجھ سے پہیلیاں نہ بھجواؤ۔ بتاؤ کون آیا تھا۔ لیکن تم تو کوٹھے پر سو رہی تھی۔ ‘‘

’’میں کہیں بھی سوؤں لیکن مجھے ہر بات کی خبر ہوتی ہے۔ ‘‘

’’اچھا بھئی میں تو اب ہار گیا نہا دھو کر کلب جاتا ہوں کہ طبیعت کا تکدر کسی قدر دُور ہو۔ ‘‘

’’صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ اُس سے ملنے جا رہے ہیں‘‘

’’خدا کی قسم آج میرا دماغ پاش پاش ہو جائے گا۔ میں کس سے ملنے جارہا ہوں‘‘

’’اُسی سے‘‘

’’تمہارا مطلب ہے اُسی چڑیل سے‘‘

’’اب آپ سمجھ گئے۔ تو کلب جا کر آپ کو اور کس سے ملنا ہے مجھ سے‘‘

’’تم تو ہر وقت میرے سینے پر سوار رہتی ہو۔ ‘‘

’’اسی لیے تو آپ اپنے سینے کا بوجھ ہلکا کرنے جارہے ہیں کسی دن مجھے زہر ہی کیوں نہیں دے دیتے تاکہ قصہ ہی ختم ہو۔ ‘‘

’’اتنی دیر میں تو پاگل نہیں ہوئی۔ لیکن آج ضرور ہو جاؤں گی۔ ‘‘

’’اس لیے کہ میں نے آپ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ ‘‘

’’میری تو ہر رگ آج دُکھ رہی ہے تم نے مجھے اس قدر جھنجوڑا اور لتاڑا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ تم عورت نہیں ہو۔ لندھر پہلوان ہو۔ ‘‘

’’یہ سننا آپ سے باقی رہ گیا تھا۔ نہ رہے وہ چڑیل اس دُنیا کے تختے پر۔ ‘‘

’’پھر وہی چڑیل۔ دیکھو باہر ڈیوڑھی سے مجھے کسی عورت کی آواز سُنائی دی ہے‘‘

’’آپ ہی جا کر دیکھیے‘‘

’’لاحول ولا قوۃ عورتوں کو دیکھنا میرا کام نہیں۔ صرف تمہارا ہے۔ !‘‘

’’نوکر سے کہتی ہوں‘‘

’’بی بی جی وہی بی بی آئی ہیں جو آج صبح آئی تھیں۔ ‘‘

’’میں چلتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں نہیں۔ آپ ہی سے تو وہ ملنے آئی ہے‘‘

۔

’’اوہ ذکیہ۔ تم۔ تم۔ تم یہاں کب آئیں‘‘

’’ہوائی جہاز میں پہلے نیرولی سے کراچی پہنچی پھروہاں سے یہاں ہوائی جہاز ہی میں آئی۔ ابا جی باہر کھڑے ہیں‘‘

’’تم نے بھی حد کر دی ذکیہ۔ میں خود جاتی ہوں۔ اپنے ابا جی کو لینے اتنی مدت ہو گئی ہے اُن کو دیکھے ہوئے!‘‘

سعادت حسن منٹو

مِصری کی ڈلی

پچھلے دنوں میری روح اور میرا جسم دونوں علیل تھے۔ روح اس لیے کہ میں نے دفعتاً اپنے ماحول کی خوفناک ویرانی کو محسوس کیا تھا اورجسم اس لیے کہ میرے تمام پٹھے سردی لگ جانے کے باعث چوبی تختے کے مانند اکڑ گئے تھے۔ دس دن تک میں اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹا رہا۔ پلنگ۔ اس چیز کو پلنگ ہی کہہ لیجئے جو لکڑی کے چار بڑے بڑے پائیوں، پندرہ بیس چوبی ڈونڈوں اور ڈیڑھ دومن وزنی مستطیل آہنی چادر پر مشتمل ہے۔ لوہے کی یہ بھاری بھر کم چادر نواڑ اور سُوتلی کا کام دیتی ہے۔ اس پلنگ کا فائدہ یہ ہے کہ کھٹمل دور رہتے ہیں اور یوں بھی کافی مضبوط ہے، یعنی صدیوں تک قائم رہ سکتا ہے۔ یہ پلنگ میرے پڑوسی سلیم صاحب کا عنایت کردہ ہے۔ میں زمین پر سوتا تھا چنانچہ انھوں نے مجھے یہ پلنگ جو انھیں کے کمرے کے ساتھ ملا تھا مجھے دے دیا۔ تاکہ میں سخت فرش پر سونے کے بجائے لوہے کی چادر پر آرام کروں۔ سلیم صاحب اور ان کی بیوی کومیرا بہت خیال ہے اور میں ان کا بہت ممنون ہوں۔ اگر میں معمولی سے معمولی چارپائی بھی بازار سے لیتا تو کم از کم چار یا پانچ روپے خرچ ہو جاتے۔ خیر، چھوڑیئے اس قصّے کو۔ میں یہ بات کررہا تھا کہ پچھلے دنوں میری رُوح اور میرا جسم دونوں علیل تھے۔ دس دن اور دس راتیں میں نے ایسے خلا میں بسر کیں جس کی تفصیل میں بیان ہی نہیں کرسکتا۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں کہیں لٹکا ہُوں۔ لوہے کے پلنگ پر لیٹے لیٹے یوں بھی میرا جسم بالکل شل ہو گیا تھا۔ دماغ ویسے ہی منجمد تھا جیسے یہ کبھی تھا ہی نہیں۔ میں کیا عرض کروں، میری کیا حالت تھی۔ دس دن اس ہیبت ناک خلا میں رہنے کے بعد میرے جسم کی علالت دُور ہو گئی۔ دس کا عمل تھا۔ دھوپ سامنے کارخانے کی بُلند چمنی سے پہلو بچاتی کمرے کے فرش پر لیٹ رہی تھی۔ میں لوہے کے پلنگ پر سے اُٹھا تھکے ہُوئے جسم میں انگڑائی سے حرکت پیدا کرنے کی کوشش کے بعد جب میں نے کمرے میں نگاہ دوڑائی تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ ر ہی۔ کمرہ وہ نہیں تھا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ دائیں ہاتھ کونے میں ڈریسنگ ٹیبل تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا میز ہمارے کمرے میں ہُوا کرتا تھا مگر اس کا پالش اتنا چمکیلا کبھی نہیں تھا اور بناوٹ کے اعتبار سے بھی اس میں اتنی خوبیاں میں نے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ کمرے کے وسط میں جو بڑا میز پڑا رہتا تھا وہ بھی مجھے نامانوس معلوم ہوا۔ اس کا بالائی ہشت پہلو تختہ چمک رہا تھا۔ دیوار پر پانچ چھ تصویریں آویزاں تھیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ ان میں سے ایک تصویر میری نگاہ میں جم گئی۔ میں بڑھا اور اس کو قریب سے دیکھا۔ جدید فوٹو گرافی کا بہت عمدہ نمونہ تھا۔ ہلکے بُھوسلے رنگ کے کاغذ پر ایک جواں سال لڑکی کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ بال کٹے ہُوئے تھے اور کانوں پرسے اِدھر کواُڑ رہے تھے، سینہ سامنے سے ناف کے ننھے سے دباؤ تک ننگا۔ اس نرم و نازک عریانی کو اس کی گوری باہیں جو اسکے چہرے تک اُٹھی ہُوئی تھیں، چھپانے کی دلچسپ کوشش کررہی تھیں۔ پتلی پتلی لمبے لمبے ناخنوں والی انگلیوں میں سے چہرے کی حیا چھن چھن کر باہر آرہی تھی۔ کہنیوں نے ننھے سے پیٹ کے اختتامی خط پر آپس میں جڑ کر ایک دل کش تکون بنا دی تھی جس میں سے ناف کا گدگدا گڑھا جھانک رہا تھا۔ اگر اس چھوٹے سے گڑھے میں ڈنڈی گاڑ دی جاتی تو اس کا پیٹ سیب کا بالائی حصّہ بن جاتا۔ میں دیر تک اس نیم عُریاں و نیم مستور شباب کو دیکھتا رہا۔ مجھے حیرت تھی کہ یہ تصویر کہاں سے آگئی۔ اسی حیرت میں غرق میں غسل خانہ کی طرف بڑھا۔ کمرے کے چوتھے کونے میں نل کے نیچے فرش میں سل لگی ہُوئی ہے۔ اس کے ایک طرف چھوٹی سی منڈیر بنا دی گئی ہے۔ یہ جگہ جہاں جست کی ایک بالٹی، صابن دانی، دانتوں کے دو برش۔ داڑھی مونڈنے کے دو استرے، صابن لگانے کی دو کُوچیاں، منجن کی بوتل اور پانچ چھ استعمال شدہ اور زنگ آلود بلیڈ پڑے رہتے ہیں۔ ہمارا غسل خانہ ہے۔ نذیر صاحب جن کا یہ کمرہ ہے، علی الصبح بیدار ہونے کے عادی ہیں۔ چنانچہ داڑھی مونڈ کروہ فوراً ہی غسل سے فارغ ہو جاتے ہیں۔ میں سویا رہتا ہُوں اور وہ مزے سے ننگے نہاتے رہتے ہیں۔ اس غسل خانے کی طرف جاتے ہُوئے میں نے ایک بار پھر تمام چیزوں پر نگاہ دوڑائی۔ اب مجھے وہ کسی قدر مانوس معلوم ہُوئیں۔ منڈیر پر میرا اُسترا اور گھسا ہُوا بُرش اسی طرح پڑا تھا جس طرح میں روز دیکھا کرتا تھا، بالٹی بھی بلاشک و شبہ وہی تھی جو ہر روز نگاہوں کے سامنے آتی تھیں۔ اس میں ڈونگا بھی وہی تھا جس میں جا بجا گڑھوں میں میل جما رہتا تھا۔ منڈیر پر بیٹھ کر جب میں نے برش سے دانت گھسنے شروع کیے تو میں نے سوچا کمرہ وہی ہے جس میں ایک سو بیس راتیں میں گزار چکا ہوں۔ راتیں، میں نے غور کیا۔ معاملہ صاف ہو گیا۔ کمرے اور اس کی اشیا کے نامانوس ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ میں نے اُس میں صرف ایک سو بیس راتیں ہی گزاری تھیں۔ صبح سات یا آٹھ بجے جلدی جلدی کپڑے بدل کر جو میں ایک دفعہ باہر نکل جاتا تو پھر رات کو گیارہ بارہ بجے کے قریب ہی لوٹنا ہوتا تھا۔ اس صورت میں یہ کیوں کر ممکن تھا کہ مجھے کمرے کی ساخت اور اُس میں پڑی ہُوئی چیزوں کو دیکھنے کا موقع ملتا اور پھر نہ کمرہ میرا ہے اور نہ اس کی کوئی چیز میری ملکیت ہے اور یہ بھی تو سچی بات ہے کہ بڑے شہر انسانیت کے مرقد و مدفن ہوتے ہیں۔ میں جس ماحول میں چار مہینے سے زندگی بسر کررہا ہوں، اس قدر یکساں اور یک آہنگ ہے کہ طبیعت بارہا اُکتا گئی ہے جی چاہا ہے کہ یہ شہر چھوڑ کر کسی ویرانے میں چلا جاؤں۔ صبح جلدی جلدی نہانا۔ پھر عجلت میں کپڑے پہن کر دفتر میں کاغذ کالے کرتے رہنا، وہاں سے شام کو فارغ ہوکر ایک اور دفتر میں چھ سات گھنٹے اسی اُکتا دینے والے کام میں مصروف رہنا اور رات کے گیارہ بارہ بجے اندھیر ہی میں کپڑے اُتار کر سلیم کے دیئے ہُوئے آہنی پلنگ پر سونے کی کوشش کرنا۔ کیا یہ زندگی ہے؟ زندگی کیا ہے؟۔ یہ بھی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اُونی جُراب ہے جس کے دھاگے کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ ہم اس جُراب کو ادھیڑتے رہتے ہیں جب ادھیڑتے ادھیڑتے دھاگے کا دوسرا سرا ہمارے ہاتھ میں آجائے گا تو یہ طلسم جسے زندگی کہا جاتا ہے ٹوٹ جائے گا۔ جب زندگی کے لمحات کٹتے محسوس ہُوں اور حافظے کی تختی پر کچھ نقش چھوڑ جائیں تو اس کایہ مطلب ہے کہ آدمی زندہ ہے اور اگر مہینوں گزر جائیں اور یہ محسوس تک نہ ہو کہ مہینے گزر گئے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کی حسیات مُردہ ہو گئی ہیں۔ زندگی کی کتاب میں اگر اوپر تلے خالی اوراق ہی شامل ہوتے چلے جائیں تو کتنا دکھ ہوتا ہے۔ دوسروں کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے یا کہ نہیں، اس کی بابت میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میں تو اس معاملے میں بہت حساس ہوں۔ زندگی کی یہ خالی کاپی جو ہمارے ہاتھ میں تھمائی گئی ہے، آخر اسی لیے تو ہے کہ اس کے ہر ورق کو ہم استعمال کریں، اس پر کچھ لکھیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مجھے کوئی ایسی بات ہی نہیں ملتی جس کے متعلق میں کچھ لکھوں۔ لے دے کے میری اس کاپی میں صرف دو تین ورق ایسے ہیں جن پر میں نقش و نگار بنے دیکھتا ہوں۔ یہ ورق مجھے کتنے عزیز ہیں۔ اگر آپ ان کو نوچ کر باہر نکال دیں تو میری زندگی ایک بیاباں بن جائے گی۔ آپ یقین کیجیے، میری زندگی واقعی چٹیل میدان کی طرح ہے جس میں اُن بیتے ہُوئے دنوں کی یاد ایک خوبصورت قبر کی طرح لیٹی ہُوئی ہے۔ چونکہ میں نہیں چاہتا کہ اچھے دنوں کی یہ سہانی یاد مٹ جائے اس لیے میں اس قبر پر ہروقت مٹی کا لیپ کرتا رہتا ہُوں۔ میرے سامنے دیوار پر ایک پرانا کلنڈر لٹک رہا ہے جس کے میلے کاغذ پر چیڑ کے لانبے لانبے درختوں کی تصویر چھپی ہے میں اسے ایک عرصے سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہوں۔ اسکے پیچھے، دور، بہت دور مجھے اپنی زندگی کے اس کھوئے ہوئے ٹکڑے کی جھلک نظر آرہی ہے۔ میں ایک پہاڑی کے دامن میں چیڑوں کی چھاؤں میں بیٹھا ہوں۔ بیگو بڑے بھولے پن سے گھٹنے ٹیک کر اپنا سر میرے قریب لاتی ہے اور کہتی ہے۔

’’آپ مانتے ہی نہیں۔ سچ، میں بوڑھی ہو گئی ہوں۔ اب بھی یقین نہ آئیگا۔ یہ لیجیے میرے سر میں سفید بال دیکھ لیجیے۔ ‘‘

چودہ برس کی دیہاتی فضا میں پلی ہوئی جوان لڑکی مجھ سے کہہ رہی تھی کہ میں بوڑھی ہو گئی ہوں۔ معلوم نہیں وہ کیوں اس بات پر زور دینا چاہتی تھی۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ مجھ سے یہی بات کہہ چکی تھی۔ میرا خیال ہے کہ جو ان آدمیوں کو شباب کے دائرے سے نکل کر بڑہاپے کے دائرے میں داخل ہونے کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ یہ میں اس لیے کہتا ہوں کہ میرے دل میں بھی اس قسم کی خواہش کئی بار پیدا ہو چکی ہے۔ میں نے متعدد بار سوچا ہے کہ میری کنپٹیوں پر اگر سفید سفید بال نمودار ہو جائیں تو چہرے کی متانت اور سنجیدگی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کنپٹیوں پر اگر بال سفید ہو جائیں تو چاندی کے مہین مہین تاروں کی طرح چمکتے ہیں اور دوسرے سیاہ بالوں کے درمیان بہت بھلے دکھائی دیتے ہیں، ممکن ہے بیگو کو یہی چاؤ ہو کہ اس کے بال سفید ہو جائیں اور وہ اپنی کم عمری کے باوجود بڈھی دکھائی دے۔ میں نے اُس کے خشک مگر نرم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی اور کہا۔

’’تم کبھی بوڑھی نہیں ہوسکتیں۔ ‘‘

اس نے سر اٹھا کر مجھ سے پوچھا۔

’’کیوں؟۔ میں کیوں بوڑھی نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

’’اس لیے کہ تم میں آس پاس کے درختوں، پہاڑوں اور ان میں بہتے ہوئے نالوں کی ساری جوانی جذب ہو گئی ہے۔ ‘‘

وہ قریب سے قریب سرک آئی اور کہنے لگی۔

’’جانے آپ کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔ بھئی میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا۔ درختوں اور پہاڑوں کی بھی کبھی جوانی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’تمہاری سمجھ میں آئے نہ آئے پر میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔ ‘‘

’’بہت اچھا کیا آپ نے۔ پر آپ میرے بالوں میں اِس اِس طرح کرتے رہیں۔ ‘‘

بیگو نے اپنے ہاتھ سے سر کو کھجلاتے ہوئے کہا۔

’’مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔ ‘‘

’’بہت اچھا جناب۔ ‘‘

کہہ میں نے انگلیوں سے اس کے بالوں میں کنگھی کرنا شروع کردی اور آنکھیں بند کرلیں۔ اس کو تو مزا آ ہی رہا تھا، مجھے خود مزا آنے لگا۔ میں یہ محسوس کرنے لگا کہ اس کے بال میرے اُلجھے ہوئے خیال ہیں جن کو میں اپنے ذہن کی انگلیوں سے ٹٹول رہا ہوں۔ دیر تک میں اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے مزا لیتی رہی۔ پھر اس نے اپنی خمار آلود نگاہیں میری طرف اٹھائیں اور نیند میں بھیگی ہوئی آواز میں کہا۔

’’میں اگر سو گئی تو؟‘‘

’’میں جاگتا رہوں گا۔ ‘‘

نیم خوابیدہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پیدا ہوئی اور وہ زمین پر وہیں میرے سامنے لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد نیند نے اس کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ بیگو سو رہی تھی مگر اس کی جوانی جاگ رہی تھی۔ جس طرح سمندر کی پُر سکون سطح کے نیچے گرم لہریں دوڑتی رہتی ہیں، اس طرح اس کے محوِ خواب جسم کی رگوں میں اس کی گرم گرم جوانی دوڑ رہی تھی۔ بائیں بازو کو سر کے نیچے رکھے اور ٹانگوں کو اکٹھا کیے وہ سو رہی تھی۔ اسکا ایک بازو میری جانب سرکا ہوا تھا۔ میں اس کی پتلی انگلیوں کی مخروطی تراش دیکھ رہا تھا کہ ان میں خفیف سی کپکپاہٹ پیدا ہوئی جیسے مٹر کی پھلیاں ارتعاش پذیر ہو جائیں۔ یہ ارتعاش اس کی انگلیوں سے شروع ہوا اور اس کے سارے جسم پر پھیل گیا۔ جس طرح تالاب میں پھینکی ہوئی کنکری اس کی آبی سطح پر چھوٹا سا بھنور پیدا کرتی ہے اور یہ بھنور د ائرے بناتا ہوا پھیلتا جاتا ہے، اسی طرح وہ کپکپاہٹ اس کی انگلیوں سے شروع ہوکر اس کے سارے جسم پر پھیل گئی۔ نہ جانے اس کی جوانی کیسے ارتعاش پیدا کرنیوالے خواب دیکھ رہی تھی۔ اس کے نچلے ہونٹ کے کونوں میں خفیف سی تھرتھراہٹ کتنی بھلی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے سینے کے ابھار میں دل کی دھڑکنیں زندگی پیدا کررہی تھیں۔ گریبان کے نچلے دو بٹن کھلے تھے، اس طرح جسم سے تھوڑی سی نقاب اُٹھ گئی تھی اور دو نہایت ہی پیاری قوسیں باہر جھانک رہی تھیں۔ سینے کی ننھی سی وادی میں دونوں طرف کے اُبھار بڑی خوبصورتی سے آپس میں گھل مل گئے تھے۔ میری نگاہ اس کے سینے پر کُرتے کی ایک طرف بنی ہوئی جیب پر رک گئی۔ اس میں خدا معلوم کیا کیا کچھ بیگو نے ٹھونس رکھا تھا کہ وہ ایک گیند سی بن گئی تھی۔ میرے دل میں دفعتاً یہ معلوم کرنے کا اشتیاق پیدا ہوا کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہیں۔ آہستہ سے اس کی جیب کی تلاشی لینے کا ارادہ جب میں نے کیا تو وہ جاگ پڑی۔ سیدھی لیٹ کر اس نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولیں۔ لمبی لمبی پلکیں جو آپس میں ملی ہوئی تھیں تھرتھرائیں۔ اس نے نیم باز آنکھوں سے میری طرف دیکھا، پھر اس کے ہونٹوں پر ہلکے سے تبسم نے انگڑائی لی اور کہا، آپ بڑے وہ ہیں؟‘‘

’’کیوں؟۔ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘

وہ اُٹھ بیٹھی۔

’’ابھی آپ نے کچھ کیا ہی نہیں میں سچ مچ سو گئی اور آپ نے مجھے جگانے تک کی تکلیف نہ کی۔ میں اگر ایسے ہی شام تک سوئی رہتی تو۔ ؟‘‘

اس نے آنکھوں کی پتلیاں نچائیں اور دفعتاً کچھ یاد کرکے کہا۔

’’ہائے میرے اللہ۔ میں اپنی جان ہیر کو بھول ہی گئی۔ ‘‘

سامنے پہاڑی پر اگی ہوئی سبز جھاڑیوں کی طرف جب اس نے دیکھا تو اطمینان کا سانس لے کر کہنے لگی۔

’’کتنی اچھی ہے میری ہیر۔ ‘‘

اس کو اپنی بھینس کی فکر تھی جو ہمارے سامنے پہاڑی پر گھاس چر رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’تمہاری ہیر تو موجود ہے پر رانجھا کہاں ہے؟‘‘

’’رانجھا؟‘‘

اُس کے لب مسکراہٹ کے ساتھ کھلے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے مجھے کچھ بتانے کی کوشش کی اور پھر کِھل کھلا کر ہنس پڑی

’’رانجھا۔ رانجھا۔ رانجھا۔ ‘‘

اس نے یہ لفظ کئی مرتبہ دہرایا۔ میری ہیر کا رانجھا۔ مجھے کیا معلوم نگوڑا کہاں ہے؟‘‘

میں نے کہا۔

’’تمہاری ہیر کا کوئی نہ کوئی رانجھا تو ضرور ہو گا۔ مجھ سے چھپانا چاہتی ہو تو یہ الگ بات ہے۔ ‘‘

’’اس میں چھپانے کی بات ہی کیا ہے۔ ‘‘

بیگو نے آنکھیں مٹکا کر کہا۔

’’اور اگر کوئی ہے تو ہیر کو معلوم ہو گا۔ جاکے اس سے پوچھ لیجیے۔ پر کان میں کہیے گا، آہستہ سے کہیے گا، بتاؤ تو تمہارا رانجھا کہاں ہے؟‘‘

’’میں نے پوچھ لیا۔ ‘‘

’’کیا جواب ملا؟‘‘

’’بولی، بیگو سے پوچھو، وہی سب کچھ جانتی ہے۔ ‘‘

’’جھوٹ۔ جھوٹ۔ اس کا اوّل جھوٹ اس کا آخر جھوٹ۔ ‘‘

بیگو بچوں کی طرح اُچھل اُچھل کر کہنے لگی۔ ‘‘

میری ہیر تو بڑی شرمیلی ہے۔ ایسے سوالوں کا وہ کبھی جواب دے ہی نہیں سکتی۔ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ اس نے تو آپ کو غضے میں یہ کہا تھا، چلو ہٹو، کنواریوں سے ایسی باتیں کرتے تمہیں شرم نہیں آتی۔ ‘‘

’’یہی کہا تھا اور اس کا جواب اس کو یوں ملا تھا، یہ تمہارا اتنا بڑا بچھڑا کہاں سے آگیا ہے۔ کیا آسمان سے ٹپک پڑاتھاأ بیگو یہ بچھرے والی دلیل سن کر لاجواب ہو گئی۔ مگر وہ چونکہ لاجواب ہونا نہیں چاہتی تھی اس لیے اس نے بیکار چلانا شروع کردیا۔

’’جی ہاں آسمان ہی سے ٹپکا تھا اور سب چیزیں آسمان ہی سے تو آتی ہیں۔ نہیں، میں بھولی۔ اس بچھڑے کو تو میری ہیر نے گود لیا ہے۔ یہ اس کا بچہ نہیں کسی اور کا ہے۔ اب بتائیے آپ کے پاس کیا جواب ہے؟‘‘

میں نے ہار مان لی اس لیے کہ میری نگاہیں پھر اس کی اُبھری ہوئی جیب پر پڑیں جس میں خدا معلوم کیا کیا کچھ ٹھسا ہوا تھا۔

’’میں ہار گیا۔ آپ کی ہیر کنواری ہے، دنیا کی سب بھینسیں اور گائیں کنواریاں ہیں۔ میں کنوارا ہوں۔ آپ کنواری ہیں۔ لیکن یہ بتائیے کہ آپ کی اس کنواری جیب کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘

اس نے اپنی پھولی ہوئی جیب دیکھی تو دانتوں میں انگلی دبا کر میری طرف ملامت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔

’’آپ کو شرم نہیں آتی۔ کیا ہوا ہے میری جیب کو۔ میری چیزیں پڑی ہیں اس میں۔ ‘‘

’’چیزیں۔ اس سے تمہارا مطلب؟‘‘

’’آپ تو بال کی کھال نکالتے ہیں۔ چیزیں پڑی ہیں میرے کام کی اور کیا میں نے پتھر ڈال رکھے ہیں۔ ‘‘

’’تو جیب میں تمہارے کام کی چیزیں پڑی ہیں۔ میں پوچھ سکتا ہوں یہ کام کی چیزیں کیا ہیں؟‘‘

’’آپ ہرگز نہیں پوچھ سکتے۔ اور اگر آپ پوچھیں بھی تو میں نہیں بتاؤں گی اس واسطے کہ آپ نے مجھے اپنے چمڑے کے تھیلے کی چیزیں کب دکھائی ہیں۔ مگر اگر آپ سے کہوں بھی تو آپ کبھی نہ دکھائیں گے۔ ‘‘

’’میں ایک ایک چیز دکھانے کے لیے تیار ہوں۔ یہ رہا تھیلا۔ ‘‘

میں نے اپنا چرمی تھیلا اس کے سامنے رکھ دیا۔

’’خود کھول کر دیکھ لو پر یاد رہے مجھے اپنی جیب کی سب چیزیں تمہیں دکھانا پڑیں گی۔ ‘‘

’’پہلے میں اس ٰتھیلے کی تلاشی تو لے لوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے میرا تھیلا کھولا اور اس کی سب چیزیں ایک ایک کرکے باہر نکالنا شروع کیں۔ انگریزی کا ایک ناول، کاغذوں کا پیڈ، دو پنسلیں، ایک ربڑ، دس بارہ لفافے، آٹھ ایک ایک آنے والے اسٹامپ۔ دس بارہ خالی لفافے اور لکھے ہوئے کاغذوں کا ایک پلندہ۔ یہ میری

’’چیزیں‘‘

تھیں۔ ‘‘

جب وہ ایک ایک چیز اچھی طرح دیکھ چکی تو میں نے اس سے کہا۔

’’اب اپنی جیب کا منہ ادھر کردو۔ ‘‘

اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ تھیلے میں تمام چیزیں رکھنے کے بعد اس نے مجھ سے تحکمانہ لہجہ میں کہا۔

’’اب اپنی جیب دکھائیے۔ ‘‘

میں نے اپنی جیب کا منہ کھول دیا۔ اور اس نے ہاتھ ڈال کر اس میں جو کچھ بھی تھا باہر نکال لیا، ایک بٹوہ اور چابیوں کا گُچھا تھا، جس میں چھوٹا سا چاقو بھی شامل تھا۔ یہ چاقو گُچھے میں سے نکال کر اس نے ایک طرف زمین پر رکھ دیا اور باقی چیزیں مجھے واپس دے دیں۔

’’یہ چاقو میں نے لے لیا ہے۔ کھیرے کاٹنے کے کام آئے گا۔ ‘‘

’’لے لو پر مجھے ٹالنے کی کوشش نہ کرو۔ میں جب تک تمہاری جیب کی ایک ایک چیز نہ دیکھ لوں چھوڑوں گا نہیں۔ ‘‘

’’اگر میں نہ دکھاؤں تو؟‘‘

’’لڑائی ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ہو جائے۔ میں ڈر تھوڑی جاؤں گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ فوراً ہی اپنے دوپٹے کا تنبو بنا کر اس میں چھپ گئی اور جیب میں سے کچھ نکالنے لگی۔ اس پر میں نے رعب دار آواز کہا۔

’’دیکھو، یہ بات ٹھیک نہیں، تم کچھ چھپا رہی ہو۔ ‘‘

’’آپ مان لیجیے، میں سب کچھ دکھا دوں گی۔ اللہ کی قسم سب چیزیں ایک ایک کرکے دکھا دوں گی۔ یہ تو میں اپنے من سمجھوتے کے لیے کچھ کررہی ہوں۔ ‘‘

میں نے پھر رعب دار آواز میں کہا۔

’’کیا کررہی ہو۔ میں تمہاری سب چالاکیاں سمجھتا ہوں۔ سیدھے من سے تمام چیزیں دکھا دو ورنہ میں زبردستی سب کچھ دیکھ لوں گا۔ ‘‘

تھوڑی دیر کے بعد وہ دوپٹے سے باہر نکل آئی اور آگے بڑھ کر کہنے لگی۔

’’دیکھ لیجیے!‘‘

میں اس کی جیب میں ہاتھ ڈالنے ہی والا تھا کہ اس کے تنے ہوئے سینے کو دیکھ کر رک گیا۔

’’تم خود ہی ایک ایک چیز نکال کر مجھے دکھاتی جاؤ۔ لو اتنا لحاظ میں تمہارا کیے دیتا ہوں۔ یوں تمہاری ایمانداری بھی معلوم ہو جائے گی۔ ‘‘

’’نہیں، آپ خود نکالتے جائیے، بعد میں آپ کہیں گے میں نے سب چیزیں نہیں دکھائیں۔ ‘‘

’’میں دیکھ جو رہا ہوں۔ تم نکالتی جاؤ۔ ‘‘

’’جیسے آپ کی مرضی‘‘

یہ کر اس نے آہستہ سے اپنی جیب میں دو انگلیاں ڈالیں اور سرخ رنگ کے ریشمین کپڑے کا ایک ٹکڑا باہر نکالا۔ اس پر میں نے پوچھا۔

’’کپڑے کا یہ بیکار سا ٹکڑا تم ساتھ ساتھ کیوں لیے پھرتی ہو؟‘‘

’’اجی آپ کو کیا معلوم، یہ بہت بڑھیا کپڑا ہے۔ میں اس کا رومال بناؤنگی۔ جب بن جائے گا تو پھر آپ دیکھیے گا۔ جی ہاں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے کپڑے کا ٹکڑا اپنی جھولی میں رکھ دیا۔ پھر جیب سے کچھ نکالا اور بند مٹھی میرے بہت قریب لا کر کھول دی۔ سلولائڈ کے تین مستعمل کلپ، ایک چابی اور سیپ کے دو بٹن اس کی ہتھیلی پر مجھے نظر آئے۔ میں اس سے کہا۔

’’یہ اپنی جھولی میں رکھ لو اور باقی چیزیں جلدی جلدی نکالو۔ ‘‘

اس نے جیب میں جلدی جلدی ہاتھ ڈال کر باری باری یہ چیزیں باہر نکالیں۔ سفید دھاگے کی گولی اس میں پھنسی ہوئی زنگ آلود سوئی، لکڑی کی میلی کچیلی کنگھی، چھوٹا سا ٹوٹا ہوا آئینہ اور ایک پیسہ۔ میں نے اُس سے پوچھا۔

’’کوئی اور چیز باقی تو نہیں رہی؟‘‘

’’جی نہیں۔ ‘‘

اس نے اپنے سر کو جنبش دی، میں نے سب چیزیں آپکے سامنے رکھ دی ہیں۔ اب کوئی باقی نہیں رہی۔

’’غلط‘‘

میں نے اپنا لہجہ بدل کر کہا۔

’’تم جھوٹ بولتی ہو اور جھوٹ بھی ایسا بولتی ہو جو بالکل کچا ہو، ابھی ایک چیز باقی ہے۔ ‘‘

جونہی یہ لفظ میرے منہ سے نکلے، غیر ارادی طور پر اس کی نگاہیں یک لخت اپنے دوپٹے کی طرف مڑیں۔ میں نے تاڑ لیا کہ اس نے کچھ چھپا رکھا ہے۔

’’بیگو، سیدھے من سے مجھے یہ چیز دکھا دو جو تم نے چھپائی ہے، ورنہ یاد رکھو وہ تنگ کروں گا کہ عمر بھریاد رکھو گی۔ گُدگُدی ایسی چیز ہے کہ۔ ‘‘

گُدگُدی کے تصور ہی نے اس کے جسم کو اکٹھا کردیا۔ وہ سکڑ سی گئی۔ اس پر میں نے ہوا میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں نچائیں۔

’’یہ انگلیاں ایسی گدگدی کرسکتی ہیں کہ جناب کو پہروں ہوش نہ آئے گا۔ ‘‘

وہ کچھ اس طرح سمٹی جیسے کسی نے بُلندی سے ریشمی کپڑے کا تھان کھول کر نیچے پھینک دیا ہے۔

’’نہیں، نہیں۔ خدا کے لیے کہیں ایسا کر بھی نہ دیجیے گا۔ میں مر جاؤں گی۔ ‘‘

جب میں سچ مچ اپنے ہاتھ اس کے کندھوں تک لے گیا تو وہ بے تحاشا چیختی، ہنستی اور سمٹتی سمٹاتی اُٹھی اور بھاگ گئی۔ دوپٹے میں سے کوئی چیز گری جو میں نے دوڑ کر اٹھالی۔ مِصری کی ایک ڈلی تھی جو وہ مجھ سے چھپا رہی تھی۔ جانے کیوں؟

سعادت حسن منٹو

مسٹر معین الدین

منہ سے کبھی جدا نہ ہونے والا سگار ایش ٹرے میں پڑا ہلکا ہلکا دھواں دے رہا تھا۔ پاس ہی مسٹر معین الدین آرام کرسی پر بیٹھے ایک ہاتھ اپنے چوڑے ماتھے پر رکھے کچھ سوچ رہے تھے، حالانکہ وہ اس کے عادی نہیں تھے۔ آمدن معقول تھی۔ کراچی شہر میں ان کی موٹروں کی دکان سب سے بڑی تھی۔ اس کے علاوہ سوسائٹی کے اونچے حلقوں میں ان کا بڑا نام تھا۔ کئی کلبوں کے ممبر تھے۔ بڑی بڑی پارٹیوں میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی تھی۔ صاحب اولاد تھے۔ لڑکا انگلستان میں تعلیم حاصل کررہا تھا۔ لڑکی بہت کمسن تھی، لیکن بڑی ذہین اور خوب صورت۔ وہ اس طرف سے بھی بالکل مطمئن تھے۔ لیکن اپنی بیوی کو۔ مگر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مسٹر معین الدین کی شادی کے متعلق چند باتیں بتا دی جائیں۔ مسٹر معین الدین کے والد بمبئی میں ریشم کے بہت بڑے بیوپاری تھے۔ یوں تو وہ رہنے والے لاہور کے تھے مگر کاروباری سلسلے کے باعث بمبئی ہی میں مقیم ہو گئے تھے اور یہی ان کا وطن بن گیا تھا۔ معین الدین جو ان کا اکلوتا بیٹا تھا، بظاہر عاشق مزاج نہیں تھا لیکن معلوم نہیں وہ کیسے اور کیونکر آدم جی باٹلی والی کی موٹی موٹی غلافی آنکھوں والی لڑکی پر فریفتہ ہو گیا۔ لڑکی کا نام زہرہ تھا، معین سے محبت کرتی تھی، مگر شادی میں کئی مشکلات حائل تھیں۔ آدم جی باٹلی والا جو معین کے والد کا پڑوسی اور دوست بھی تھا، بڑے پرانے خیالات کا بوہرہ تھا۔ وہ اپنی لڑکی کی شادی اپنے ہی فرقے میں کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ زہرہ اور معین کا معاشقہ بہت دیر تک بے نتیجہ چلتا رہا۔ اس دوران میں معین الدین کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ماں بہت پہلے مر چکی تھی۔ اب کاروبار کا سارا بوجھ معین کے کندھوں پر آن پڑا، جس سے ان کو کوئی رغبت نہیں تھی۔ ادھر زہرہ کی محبت بھی تھی جو کسی حیلے باآور ثابت ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔ پھر ہندو مسلم فسادات تھے۔ معین ایک عجیب گڑبڑ میں گرفتار ہو گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ بے سوچے سمجھے ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ اپنا کاروبار سمیٹ کر اس کو کسی اچھے گاہک کے پاس بیچ ڈالے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اپنا سارا روپیہ کراچی کے بنک میں جمع کرادیا اور زہرہ سے مل کر اس نے اپنے ارادے کا اظہار کیا کہ وہ بمبئی چھوڑ کر کراچی جانا چاہتا ہے، مگر اکیلا نہیں، زہرہ اس کے ساتھ ہو گی۔ زہرہ فوراً مان گئی۔ ایک ہفتے کے بعد دونوں میاں بیوی بن کر کراچی کے ایک خوب صورت ہوٹل میں تھے۔ بمبئی میں زہرہ کے والدین پر کیا گزری۔ اس کا انھیں کچھ علم نہیں اور نہ انھیں اس کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنے کی خواہش تھی۔ دونوں اپنی محبت کی پیاس بجھانے میں مگن تھے۔ ان کو اس حادثے کی بھی خبر نہیں تھی کہ ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ بہر حال جب لاکھوں انسانوں کا خون فرقہ وارانہ فسادات میں پانی کی طرح بہہ گیا اور کراچی میں پاکستان کے قیام کی خوشی میں چراغاں ہوا تو مسٹر معین اور مسز معین کو معلوم ہوا کہ وہ پاکستان میں ہیں۔ اور مسٹر آدم بھائی باٹلی والا اور مسز آدم بھائی باٹلی والا ہندوستان میں۔ وہ بہت خوش ہوئے کہ اب وہ محفوظ تھے۔ جب افراط و تفریط کا عالم کسی قدر کم ہوا تو مسٹر معین نے اپنے بمبئی کے کاروبار کے حوالے سے ایک بہت بڑی دکان اپنے نام الاٹ کرالی اور اس میں موٹروں کا کاروبارشروع کردیا جو چند برسوں میں چل نکلا۔ اس دوران میں ان کے یہاں دو بجے پیدا ہوئے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ لڑکا جب چار برس کا ہوا تو انھوں نے اس کو اپنے ایک دوست کے حوالے کردیا جوانگلستان جارہا تھا۔ مسٹر معین چاہتے تھے کہ اس کی تربیت وہیں ہو کیوں کہ کراچی کی فضا ان کے نزدیک بڑی گندی تھی۔ لڑکی جو اپنے بھائی سے ایک برس چھوٹی تھی، گھر ہی میں کھیلتی کودتی رہتی۔ اس کے لیے مسٹر معین نے ایک انگریز نرس مقرر کر رکھی تھی۔ اس بات پر زور دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ مسٹر معین کو اپنی بیوی سے بے پناہ محبت تھی۔ طبعاً وہ کم گو اور شریف طبیعت تھے۔ وہ زہرہ سے جب اپنی محبت کا اظہار کرتے تو بڑے مدھم سروں میں۔ بڑے وضع دار قسم کے آدمی تھے۔ کلبوں میں جاتے، زہرہ ان کے ساتھ ہوتی مگر وہ دوسرے ممبروں کی طرح بے وجہ ہنسی قہقہوں میں کبھی شامل نہ ہوتے۔ وسکی کے دو پیگ آہستہ آہستہ پیتے جیسے کوئی قرض ادا کررہے ہیں۔ ناچ شروع ہوتا تو زہرہ کے ساتھ تھوڑی دیر ناچ کر گھر واپس چلے آتے جو انھوں نے ایک ہندو سے کراچی آنے کے بعد خرید لیا تھا۔ زہرہ کبھی کبھی اپنے خاوند کی اجازت سے دوسروں کے ساتھ بھی ناچ لیتی تھی۔ اس میں مسٹر معین کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ مگر جب انھوں نے دیکھا کہ زہرہ ان کے ایک دوست مسٹر احسن سے جو ادھیڑ عمر کے بہت بڑے مالدار اور تاجر تھے، ضرورت سے زیادہ التفات برت رہی ہے تو ان کو بڑی الجھن ہوئی، مگر انھوں نے زہرہ پر اس کا اظہار کبھی نہ کیا۔ کیوں کہ وہ سوچتے تھے کہ احسن اور زہرہ میں عمر کا اتنا تفادت ہے۔ پھر وہ دو بچوں کی ماں ہے۔ یہ صرف رقابت کا جذبہ ہے جو ان کی اپنی محبت کی پیداوار ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی تھی کہ سوسائٹی کے جن اونچے حلقوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا، اس میں بیویوں سے غیر مردوں کے التفات کو بری نظروں سے نہیں دیکھا جاتا تھا بلکہ اسے فیشن سمجھا جاتا تھا کہ ایک کی بیوی کسی دوسرے آدمی کے ساتھ ناچے اور اس کی بیوی پہلے کے شوہر کے ساتھ، ایسی ادلا بدلی عام تھی۔ پہلے مسٹر احسن گاہے گاہے، جب کوئی پارٹی دی جائی تو، مسٹر معین کے ہاں آیا کرتے تھے مگر کچھ عرصے سے ان کا باقاعدہ آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ ان کی غیر موجودگی میں بھی وہ آجاتے اور گھنٹوں زہرہ کے پاس بیٹھے رہتے۔ یہ انھیں اپنے ملازموں سے معلوم ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے زہرہ سے کچھ نہ کہا۔ دراصل ان کی زبان پر ایسے لفظ آتے ہی نہیں تھے جن سے وہ شکوک کا اظہار کریں۔ وہ مجبور تھے اس لیے کہ ان کی پرورش ہی ایسے ماحول میں ہوئی تھی، جہاں ایسے معاملوں میں لب کشائی معیوب خیال کی جاتی تھی۔ روشن خیالی کا تقاضا یہی تھا کہ وہ خاموش رہیں۔ یوں تو انھوں نے ایک بڑے معرکے کا عشق کیا تھا مگر دماغ ان کا تاجرانہ تھا۔ دل اور دماغ میں کوئی اتنا بڑا فاصلہ تو نہیں ہوتا مگر موٹروں کا کاروبار کرتے کرتے اور دولت کے انبار سمیٹتے سمیٹتے بہت سا چاندی سونا ان دونوں کے درمیان ڈھیر ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ جھگڑے ٹنٹوں سے انھیں نفرت تھی۔ وہ خاموش زندگی بسر کرنے کے قائل تھے جس میں کوئی ہنگامہ نہ ہو۔ لڑکی تھی، وہ اپنی انگریز نرس کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی۔ جب ان کے دل میں اس کا پیارا ابھرتا تو وہ اسے اپنے پاس بلا کر کچھ عرصے کے لیے اپنی گود میں بٹھاتے اور انگریزی میں پیار کرکے اسے پھر نرس کے حوالے کردیتے۔ جب کاروبار سے فارغ ہو کر گھر آتے تو زہرہ کے ہونٹوں کا بوسہ لیتے اور ڈنر کھانے میں مشغول ہو جاتے۔ اگر مسٹر احسن ان سے پہلے وہاں موجود ہوتے تو وہ ان کو بھی ڈنر میں شامل کرالیتے۔ ایسے موقعوں پر، ضرورت بے ضرورت، زہرہ مسٹر احسن کی خاطر د اری کرتی۔ ان کی پلیٹ مختلف سالنوں سے بھر دیتی اور ان کو بڑے محبت بھرے انداز میں مجبور کرتی کہ وہ تکلف نہ کریں۔ جب وہ زہرہ کا یہ ناروا التفات دیکھتے تو ان کے دل اور دماغ کے درمیان سونے چاندی کے ڈھیر کچھ پگھل سے جاتے اور دونوں آپس میں سرگوشیاں کرنا شروع کردیتے۔ مسٹر احسن رنڈوے تھے۔ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ کراچی میں موتیوں کے سب سے بڑے تاجر تھے۔ کروڑ پتی۔ ہر سال مسٹر معین سے موٹروں کے نئے ماڈل خریدتے تھے۔ زہرہ کی سالگرہ پر انھوں نے دو بڑے قیمتی ہار تحفے کے طور پر دیے تھے۔ جب مسٹر معین نے انھیں قبول کرنے سے اپنے مخصوص دھیمے انداز میں انکار کیا تھا تو مسٹر احسن نے کہا تھا۔

’’مجھے صدمہ ہو گا اگر یہ ہار مسز معین کے گلے کی زینت نہ بنے۔ ‘‘

یہ سن کر زہرہ نے دونوں ہار اٹھا کر مسٹر احسن کو دے دیے اور اس سے کہا

’’لیجیے آپ اپنے ہاتھوں سے پہنا دیجیے۔ ‘‘

جب ہار زہرہ کے گلے میں پہنا دیے گئے تو بوجہ مجبوری مسٹر معین کو اپنے دوست مسٹر احسن کی ہاں میں ہاں ملانا پڑی کہ بحیرہ عرب کے پانیوں میں سپیوں نے ان ہاروں کے موتی خاص طور پر زہرہ ہی کے لیے پیدا کیے تھے۔ ایش ٹرے میں رکھا ہوا سگار آہستہ آہستہ سلگ کر نصف کے قریب خاکستر اور سفید راکھ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ پاس ہی آرام کرسی پر مسٹر معین اسی طرح اپنے چوڑے ماتھے پر ایک ہاتھ رکھے گہری سوچ میں غرق تھے۔ وہ اتنا کبھی تردو نہ کرتے مگر اب ان کی عزت کا سوال درپیش تھا۔ آج انھوں نے اپنے کانوں سے ایسا مکالمہ سنا تھا۔ ظاہر ہے کہ زہرہ اور احسن کے درمیان جس نے سکون پسند طبیعت کو درہم برہم کردیا تھا۔ چوڑے ماتھے پر ہاتھ رکھے وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ ان کے کان بار بار وہ مکالمہ سن رہے تھے جو ان کی بیوی اور ان کے دوست کے درمیان بڑے کمرے میں ہوا تھا۔ دکان میں ایک موٹر کاسودا کرتے کرتے ان کی طبیعت اچانک ناساز ہو گئی، چنانچہ یہ کام منیجر کے حوالے کرکے وہ گھر روانہ ہو گئے تاکہ آرام کریں۔ کریپ سول شوز پہنے ہوئے تھے اس لیے کوئی آہٹ نہ ہوئی۔ دروازے کے پاس پہنچے تو انھیں زہرہ کی آواز سنائی دی۔

’’احسن صاحب!میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں ان سے طلاق حاصل کرلوں گی۔ ‘‘

احسن بولے۔

’’مگر کیسے۔ کیونکر؟‘‘

’’میں آپ سے کئی بار کہہ چکی ہوں کہ وہ میری کوئی بات نہیں ٹالیں گے۔ ‘‘

’’تعجب ہے!‘‘

’’اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے آج تک میری ہر فرمائش پوری کی ہے۔ میں اگر ان سے کہوں کہ ان پانچ منزلوں سے نیچے کود جائیں تو وہ یقیناً کود جائیں گے۔ ‘‘

’’حیرت ہے۔ ‘‘

’’آپ کی حیرت دور ہو جائے گی جب میں کل ہی آپ کو طلاق نامہ دکھا دوں گی۔ ‘‘

یہ مکالمہ سن کر مسٹر معین اپنی ناسازی طبع کو بھول گئے اور الٹے پاؤں واپس دکان پر چلے گئے، جہاں ابھی تک موٹر کا سودا طے ہورہا تھا۔ مگر انھوں نے اس سے کوئی دلچسپی نہ لی اور اپنے دفتر میں چلے گئے۔ سگار سلگایا مگر ایک کش لینے کے بعد اسے ایش ٹرے میں رکھ دیا اور سر پکڑ کر آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔ ظاہر ہے کہ زہرہ نے جو کچھ کہا، وہ مسٹر معین کی غیرت کے نام پر ایک زبردست چیلنج تھا۔ انھوں نے اپنے چوڑے ماتھے پرسے ہاتھ اٹھایا اور ایش ٹرے میں سگار کو بجھا کر ایک نیا سگار نکالا اور اسے سلگایا۔ آہستہ آہستہ وہ ہونٹوں میں اسے گھمانے لگے۔ پھر ایک دم اٹھے اور دکان سے باہر نکل کر موٹر میں سوار ہوئے اور گھر کا رخ کیا۔ ان کے دوست مسٹر احسن جا چکے تھے۔ زہرہ اپنے کمرے میں سنگار میز کے پاس بیٹھی میک اپ کرنے میں مشغول تھی۔ جب اس نے آئینے میں معین کا عکس دیکھا تو بڑے مڑے ہونٹوں پر لپ اسٹک ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔

’’آپ آج جلدی آگئے۔ ‘‘

’’ہاں، طبیعت ٹھیک نہیں۔ ‘‘

صرف اتھا کہہ کر وہ بڑے کمرے میں جا کر صوفے پر دراز ہو گئے۔ سگار ان کے ہونٹوں میں بڑی تیزی سے گھومنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد بنی ٹھنی زہرہ آئی۔ مسٹر معین نے اس کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اس کے حسن کا اعتراف کیا۔ یہ اعتراف وہ متعدد مرتبہ اپنے دل میں کر چکے تھے۔ دراز قد، بہت موزوں و مناسب گدرایا ہوا جسم، بڑی بڑی غلافی آنکھیں، شربتی رنگ کی۔ اس پر ہر لباس سجتا تھا۔ بوہری لباس بھی جس سے معین کو سخت نفرت تھی۔ جب زہرہ پاس آئی اور اس نے ایک ادا کے ساتھ اپنے خاوند کا مزاج پوچھا تو وہ خاموش رہے۔ جب وہ اس کے پاس بیٹھ گئی تو معین صوفے پر سے اٹھے اور منہ سے سگار نکال کر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا۔

’’زہرہ!کیا تم مجھ سے طلاق لینا چاہتی ہو؟‘‘

زہرہ ایک لحظے کے لیے بوکھلا سی گئی۔ مگر فوراً ہی سنبھل کر اس نے اپنے خاوند سے پوچھا۔

’’آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’میں نے تمہاری اور احسن کی گفتگو سن لی تھی۔ ‘‘

معین کے لہجے میں غم و غصے کا شائبہ تک نہ تھا۔ زہرہ خاموش رہی۔ معین نے سگار کا ایک کش لیا اور کہا

’’میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔ ‘‘

زہرہ اٹھ کھڑی ہوں۔

’’کیوں؟‘‘

معین نے کچھ سوچا۔

’’میں سوسائٹی میں اپنے نام اور اپنی عزت پر حرف آتا نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘

’’لیکن۔ ‘‘

زہرہ اٹک گئی۔

’’لیکن میں اس سے وعدہ کر چکی ہوں۔ ‘‘

’’تو کوئی دوسری راہ تلاش کرنی چاہیے۔ طلاق میں کبھی نہیں دوں گا۔ اس لیے کہ میری عزت کا سوال ہے۔ ویسے مجھے تمہارے وعدے کا پاس ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر انھوں نے سگار ایش ٹرے میں رکھ دیا۔ میاں بیوی تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ آخر زہرہ فکر مند لہجے میں بولی: ’دلیکن میں طلاق لیے بغیر اس سے شادی کیسے کرسکتی ہوں؟‘‘

’’کیا تم واقعی اس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟‘‘

زہرہ نے اثبات میں سر ہلایا تو معین نے اس سے سوال کیا:

’’کیوں؟‘‘

زہرہ خاموش رہی۔ معین نے ایک اور سوال کیا

’’کیا اس لیے کہ تمہارے دل میں اب میری محبت نہیں ہے؟‘‘

’’میرے دل میں آپ کی محبت ویسی کی ویسی موجود ہے، اور اس کے لیے میں خدا کی قسم کھانے کو تیار ہوں۔ لیکن معلوم نہیں کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ احسن کے ساتھ رہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر زہرہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ معین نے اپنے منہ سے سگار نکالا اور کہا:

’’تم اس کے ساتھ رہ سکتی ہو۔ ‘‘

زہرہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’مگر ایک شرط پر‘‘

معین نے سگار ایش ٹرے میں بجھاتے ہوئے کہا

’’تم میرے پاس بھی رہا کرو گی۔ تاکہ لوگوں کو کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔ ان کو ایسی باتیں بنانے کا موقع نہ ملے کہ معین چونکہ اپنی بیوی کی فرمائشیں پوری نہ کرسکا اس لیے اس نے طلاق لے کر ایک کروڑ پتی سے شادی کرلی، یا یہ کہ معین کی بیوی بدکردار تھی اس لیے اس نے طلاق دے دی۔ ‘‘

’’بدکردار تو میں ہوں۔ ‘‘

زہرہ نے اپنی موٹی موٹی غلافی آنکھیں ایک لحظے کے لیے جھکالیں۔ معین نے اسے دلاسا دیا۔

’’اس کا ثبوت صرف میرا اعتراف ہے جو میری زبان پر کبھی نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ یہ میری اپنی عزت اور میرے ناموس پر حرف لانے کا موجب ہو گا۔ اس کے علاوہ مجھے تم سے محبت ہے۔ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہو جاؤ۔ ‘‘

یہ کہہ کر معین کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے سینے کا سارا بوجھ اتر گیا ہے۔ زہرہ نے احسن کو ساری بات بتا دی۔ وہ راضی ہو گیا۔ چنانچہ زہرہ اس کے پاس کئی کئی دن رہنے لگی۔ احسن زہرہ کے جسمانی خلوص اور اس کے خاوند کے بے مثال ایثار سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے تھوڑے ہی عرصے کے بعد وصیت لکھ کر اپنی تمام جائیداد کی وارث زہرہ قرار دی۔ زہرہ نے اس کا ذکر اپنے خاوند سے نہ کیا۔ اس کے وقار کو صدمہ پہنچتا۔ وہ اپنی لڑکی کو دیکھنے اور معین سے ملنے کے لیے اکثر آتی اور بعض اوقات چند راتیں بھی وہیں گزارتی۔ میاں بیوی کی یہ نئی زندگی بڑی ہموار گزرتی رہی کہ اچانک ایک دن مسٹر احسن حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ نماز جنازہ میں سوسائٹی کی اونچی اونچی ہستیوں کی صف میں مسٹر معین بھی شریک تھے۔ انھوں نے اپنے مرحوم دوست کی مغفرت کے لیے صدق دل سے دعا کی اور گھر آکر مناسب و موزوں الفاظ میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے زہرہ کو دلاسا دیا۔ زہرہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ گن گن کر احسن کی صفات بیان کررہی تھی۔ آخر میں نے اس نے اپنے خاوند کو بتایا کہ وہ اپنی ساری جائیداد اس کے نام کر گیا ہے۔ یہ سن کر مسٹر معین خاموش رہے اور زہرہ سے اس بارے میں کوئی استفسار نہ کیا۔ عدالت کے ذریعے جب زہرہ کو مرحوم احسن کی ساری جائیداد کا قبضہ مل گیا اور وہ خوش خوش گھر آئی تو دیکھا کہ ایک مولوی قسم کا آدمی صوفے پر بیٹھا ہوا ہے۔ ہاتھ میں اس کے ایک کاغذ ہے۔ اسکو ایک نظر دیکھ کر وہ اپنے شوہر سے مخاطب ہوئی:

’’قبضہ مل گیا ہے۔ ‘‘

مسٹر معین نے کہا۔

’’بہت خوشی کی بات ہے۔ ‘‘

پھر انھوں نے مولوی صاحب کے ہاتھ سے کاغذ لیا اور زہرہ کی طرف بڑھا دیا۔

’’یہ لو!‘‘

زہرہ نے کاغذ لے کر پوچھا۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

مسٹر معین نے بڑے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔

’’طلاق نامہ۔ ‘‘

زہرہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی:

’’طلاق نامہ!‘‘

’’ہاں‘‘

یہ کہہ کر معین نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چیک نکالا:

’’یہ تمہارا حق مہر ہے۔ بیس ہزار روپے۔ ‘‘

زہرہ اور زیادہ بھونچکی رہ گئی۔

’’مگر۔ یہ سب کیا ہے؟‘‘

’’یہ سب یہ ہے کہ مجھے اپنی عزت اور اپنا ناموس بہت پیارا ہے۔ جب میری جان پہچان کے حلقوں کو یہ معلوم ہو گا کہ احسن تمہارے لیے ساری جائیداد چھوڑ کر مرا ہے تو کیا کیا کہانیاں گھڑی جائیں گی۔

’’یہ کہہ کر وہ مولوی سے مخاطب ہوا:

’’آئیے قاضی صاحب!‘‘

قاضی اٹھا۔ جاتے ہوئے مسٹر معین نے پلٹ کر اپنی مطلقہ بیوی کی طرف دیکھا اور کہا:

’’یہ بلڈنگ بھی تمہاری ہے۔ رجسٹری کے کاغذات تمہیں پہنچ جائیں گے۔ اگر تم نے اجازت دی تو میں کبھی کبھی تمہارے پاس آیا کروں گا۔ خدا حافظ!‘‘

سعادت حسن منٹو

مسٹر حمیدہ

رشید نے پہلی مرتبہ اس کو بس اسٹینڈ پر دیکھا۔ جہاں وہ شیڈ کے نیچے کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی۔ رشید نے جب اسے دیکھا تو وہ ایک لحظے کے لیے حیرت میں گم ہو گیا۔ اس سے قبل اس نے کوئی ایسی لڑکی نہیں دیکھی تھی جس کے چہرے پر مردوں کی مانند داڑھی اور مونچھیں ہوں۔ پہلے رشید نے سوچا کہ شاید اس کی نگاہوں نے غلطی کی ہے۔ عورت کے چہرے پر بال کیسے اگ سکتے ہیں۔ پر جب اس نے غور سے دیکھا تو اس لڑکی نے باقاعدہ شیو کر رکھی تھی اور سر مئی غبار اس کے گالوں اور ہونٹوں پر موجود تھا۔ رشید نے سمجھا کہ شاید ہیجڑا ہو، مگر نہیں۔ وہ ہیجڑا نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس میں ہیجڑوں کی سی مصنوعی نسوانیت کے کوئی آثار نہیں تھے۔ وہ مکمل عورت تھی۔ ناک نقشہ بہت اچھا تھا۔ کولہے چوڑے چکلے۔ کمر پتلی۔ سینہ جوانی سے بھرپور۔ بازو سڈول۔ غرضیکہ اس کے جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر نسوانیت کا عمدہ نمونہ تھا۔ ایک صرف اس کی داڑھی اور مونچھوں نے سب کچھ غارت کر دیا تھا۔ رشید سوچنے لگا۔ قدرت کی یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک اچھی بھلی نوجوان خوبصورت لڑکی کو بد نما بنا دیا۔ رشید کے دماغ میں کئی خیال اوپر تلے آئے اور وہ بوکھلا گیا۔ وہ سوچتا تھا

’’کیا اس لڑکی کی زندگی اجیرن ہو کے نہیں رہ گئی !‘‘

’’صبح اٹھ کر جب اسے استرا پکڑ کر شیو کرنا پڑتی ہو گی تو اسے کیا محسوس ہوتا ہو گا۔ کیا اس وقت اس کے جی میں جھنجھلا کر انتقامی خواہش پیدا نہ ہوتی ہو گی کہ وہ گھس کھدے کی طرح اپنے گال اور ہونٹ چھیل ڈالے۔ ‘‘

’’ایک عورت کے لیے یہ کتنا بڑا عذاب ہے کہ خارپشت کی مانند اس کے گالوں پر دوسرے روز نکیلے بال اُگ آئیں‘‘

’’اگر مردوں کے مانند عورتوں کے بھی داڑھی مونچھ اگتی تو کوئی حرج نہیں تھا پر یہاں ازل سے عورتیں ان بالوں سے بے نیاز ہی رہی ہیں۔ ‘‘

’’جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ عورتوں کے چہرے پر بالوں کا ہونا کوئی معیوب چیز نہیں۔ لیکن مصیبت تو یہ ہے کہ ہم لوگ یہ دیکھنے کے عادی نہیں۔ ‘‘

’’صنف نازک ٗ آخر صنفِ نازک ہے۔ اس میں شک نہیں۔ ‘‘

اس لڑکی میں نسوانیت کے تمام جوہر موجود ہیں۔ پھر یہ داڑھی مونچھ کس لیے اگ آئی ہے۔ نظر بیٹو کے طور پر۔ اس کی کوئی تشریح و توضیح تو ہونی چاہیے بیکار میں ایک خوبصورت شے کو بھونڈا بنا دیا۔ یہ کہاں کی شرافت ہے !‘‘

’’اب ایسی لڑکی سے شادی کون کرے گا جو ہر روز صبح سویرے اٹھ کر ٗ اُسترا ہاتھ میں پکڑ کر شیو کر رہی ہو۔ ‘‘

یہ لڑکی مونچھیں نہ مونڈے اور انہیں بڑھا لے۔ تو کیا اس سے خوف نہیں آئے گا۔ آپ بے ہوش نہ ہوں۔ لیکن چند لمحات کیلیے آپ کے ہوش و حواس ضرور جواب دے جائیں گے۔ آپ اپنے ہونٹوں پر انگلیاں پھیریں گے جہاں مونچھیں منڈی ہوں گی۔ مگر آپ کی صنف مقابل اپنی مونچھوں کو تاؤ دے رہی ہو گی۔ ‘‘

بس آگئی۔ وہ لڑکی اس میں سوار ہو کر چلی گئی۔ رشید کو بھی اسی بس سے جانا تھا لیکن وہ اپنے خیالوں میں اس قدر غرق تھا کہ اس کو بس کی آمد کا پتہ چلانہ اس کے جانے کا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ لڑکی کو ایک نظر اور دیکھنے کے لیے پلٹا تو وہ موجود نہیں تھی۔ اس کا ذہن اس قدر مضطرب تھا کہ اس نے اپنا کام ملتوی کر دیا اور گھر چلا آیا۔ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹ کر اس نے مزید سوچ بچار شروع کر دی۔ اس کو اس لڑکی پر بہت ترس آرہا تھا۔ بار بار قدرت کی بے رحمی پر لعنتیں بھیجتا تھا کہ اس نے کیوں نسوانیت کے اتنے اچھے اور خوبصورت نمونے کو خود ہی بنا کر اس پر سیاہی کا لیپ کر دیا۔ آخر اس میں کیا مصلحت تھی۔ اب اس شکل میں اس سے شادی کون کرے گا۔ قدرت نے کیا اس کے لیے کوئی ایسا مرد پیدا کر رکھا ہے جو اسے قبول کرلے گا۔ لیکن وہ سوچتا کہ قدرت اتنی دور اندیش نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

اس کی بہن آئی۔ دوپہر ہو چکی تھی۔ اس نے رشید سے کہا

’’بھائی جان۔ چلیے کھانا کھا لیجیے۔ ‘‘

رشید نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور اس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے چہرے پر بھی بال ہیں

’’سلیمہ۔ ‘‘

’’جی۔ ‘‘

’’کچھ نہیں۔ لیکن نہیں ٹھہرو۔ کیا تمہاری مونچھیں ہیں۔ ‘‘

سلیمہ جھینپ گئی۔

’’جی ہاں۔ بال اگتے ہیں۔ ‘‘

رشید نے اس سے پوچھا

’’تو۔ میرا مطلب ہے تمہیں الجھن نہیں ہوتی ان بالوں سے؟‘‘

سلیمہ نے اور زیادہ جھینپ کر جواب دیا :

’’ہوتی ہے بھائی جان!‘‘

’’تو انہیں تم کیسے صاف کرتی ہو۔ بلیڈ سے !‘‘

’’جی نہیں۔ ایک چیز ہے جسے بے بی ٹچ کہتے ہیں۔ اس کو تھوڑی دیر ہونٹوں پر گھسانا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’تو بال اُڑ جاتے ہیں !‘‘

’’اُڑتے وڑتے خاک بھی نہیں۔ دوسرے تیسرے روز پھر نمودار ہو جاتے ہیں بڑی مصیبت ہے۔ بعض اوقات تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’وہ کیوں۔ ‘‘

سلیمہ نے دردناک لہجہ میں جواب دیا:

’’تکلیف ہوتی ہے بہت۔ جب بال اُکھڑتے ہیں تو چھینکیں آتی ہیں۔ اور چھینکوں کے ساتھ آنکھوں میں پانی اتر آتا ہے۔ معلوم نہیں اللہ میاں مجھے کن گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ ‘‘

رشید نے تھوڑے توقف کے بعد اپنی بہن سے پوچھا۔

’’تمہاری کسی اور سہیلی کی بھی داڑھی اور مونچھیں ہیں۔ ‘‘

’’مونچھیں تو کئی لڑکیوں کی دیکھی ہیں پر داڑھی میں نے کبھی کسی عورت کے چہرے پر نہیں دیکھی۔ ایک دو بال ٹھوڑی پر دیکھنے میں آئے ہیں جو وہ موچنے یا ہاتھ سے اکھاڑ پھینکتی ہیں۔ یہ آپ نے کیسی گفتگو آج شروع کر دی۔ چلیے کھانا کھا لیجیے۔ ‘‘

رشید نے کچھ دیر سوچا۔

’’نہیں۔ میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا۔ میرا معدہ ٹھیک نہیں ہے‘‘

رشید کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس نے بالوں کی پڈنگ کھائی ہے جو ہضم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ اس کے سارے جسم پر تیز تیز نکیلے بال یوں رینگ رہے تھے جیسے خاردار چیونٹیاں۔ جب سلیمہ چلی گئی تو رشید نے پھر سوچنا شروع کر دیا۔ لیکن سوچنے سے کیا ہوسکتا تھا۔ اس لڑکی کے چہرے کے بال تو دُور نہیں ہوسکتے تھے۔ اس امر کا رشید کو کامل یقین تھا لیکن پھر بھی وہ سوچے چلا جارہا تھا۔ جیسے وہ کوئی بہت بڑا معمّا حل کررہا ہے۔ رشید کو داخلے کی درخواست دینا تھی۔ اس نے بی اے کا امتحان راولپنڈی سے پاس کیا تھا۔ اب وہ چاہتا تھا کہ لاہور میں کسی کالج میں داخل ہو جائے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم کیلیے انگلستان چلا جائے جہاں اس کے والد پرائمری کونسل میں پریکٹس کرتے تھے۔ اس روز مونچھوں اور داڑھی والی لڑکی کے باعث نہ جاسکا۔ دوسرے روز وہ بس کے بجائے تانگے میں گیا۔ اس نے چونکہ بی اے کا امتحان بڑے اچھے نمبروں پر پاس کیا تھا اس لیے اسے داخلے میں کوئی دِقت محسوس نہ ہوئی۔ وہ داڑھی مونچھوں والی لڑکی اب رشید کے دل و دماغ سے قریب قریب محو ہو چکی تھی۔ لیکن ایک دن اس نے اس کو کالج میں دیکھا۔ لڑکے اس کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ ایک نے آوازہ کسا: مسٹر حمیدہ۔ ‘‘

دوسرے نے کہا

’’ایک ٹکٹ میں دو مزے ہیں۔ عورت کی عورت اور مرد کا مرد۔ ‘‘

تیسرے نے قہقہہ لگایا:

’’عجائب گھر میں رکھنا چاہیے تھا ایسی شخصیت کو۔ ‘‘

اور وہ بیچاری خفیف ہو رہی تھی۔ اس کی پیشانی پسینے سے ترتھی۔ رشید کو اس پر بہت ترس آیا۔ اس کے جی میں آئی کہ آگے بڑھ کر ان تمام لڑکوں کا سر پھوڑ دے جو اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ مگر وہ کسی مصلحت کی بنا پر خاموش رہا۔ جب لڑکے چلے گئے ٗ اور اس لڑکی نے اپنے دوپٹے سے آنکھوں میں اُمڈے ہوئے آنسو خشک کیے تو وہ جرأت سے کام لے کر اس کے پاس گیا اور بڑے ملائم لہجے میں اس سے مخاطب ہوا:

’’آپ یہاں کس کلاس میں پڑھتی ہیں۔ ‘‘

اس نے تنگ آ کر کہا:

’’کیا آپ بھی میرا مذاق اڑانے آئے ہیں۔ ‘‘

رشید نے اپنا لہجہ اور ملائم کر دیا۔ ‘‘

جی نہیں۔ آپ مجھے اپنا دوست یقین کیجیے۔ ‘‘

اس نے، جس کا نام حمیدہ تھا۔ نفرت کی نگاہوں سے رشید کو دیکھا۔

’’مجھے کسی دوست کی ضرورت نہیں۔ ‘‘

’’یہ آپ کی زیادتی ہے۔ ہر شخص کو دوست اور ہمدرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس وقت مناسب نہیں سمجھتا کہ آپ کے مضطرب دماغ کو اپنی باتوں سے اور زیادہ مضطرب کر دوں۔ ویسے میں آپ سے پھر درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے اپنا دوست یقین کیجیے۔ ‘‘

یہ کہہ کر رشید چلا گیا۔ اس کے بعد متعدد مرتبہ اس نے حمیدہ کو دیکھا جو بی اے میں پڑھتی تھی۔ سارے کالج میں اس کی داڑھی مونچھوں کے چرچے تھے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ لڑکوں کی آوازہ بازی کی عادی ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب اس نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ اس کے چہرے پر کوئی بال نہیں ہے۔ وہ ہوسٹل میں رہتی تھی۔ ایک دفعہ وہ شدید طور پر بیمار ہو گئی دس پندرہ دن تک بستر میں لیٹنا پڑا۔ رشید نے کئی بار ارادہ کیا کہ وہ اس کی بیمار پرسی کے لیے جائے مگر اس کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ وہ مشتعل ہو جائے گی کیونکہ اسے کسی کی ہمدردی پسند نہ تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی کشتی ٗ ٹوٹی پھوٹی ٗ جیسی بھی ہے اسے اس کے سوا اور کوئی کھینے والا نہ ہو۔ لیکن ایک دن مجبور ہو کر اس نے چپراسی کے ہاتھ ایک رقعہ رشید کے نام بھیجا۔ جس میں یہ چند الفاظ مرقوم تھے:

’’رشید صاحب! میں بیمار ہوں۔ کیا آپ چند لمحات کے لیے میرے کمرے میں تشریف لا سکتے ہیں۔ ممنون و متشکر ہوں گی۔ حمیدہ‘‘

رشید یہ رقعہ ملتے ہی ہوسٹل میں گیا۔ بڑی مشکلوں سے حمیدہ کا کمرا تلاش کیا۔ اندر داخل ہوا تو اس نے پہلے یہ سمجھا کہ کوئی مرد جس نے کئی دنوں سے شیو نہیں کی۔ کمبل اوڑھے لیٹا ہے۔ مگر اس نے اپنا ردِ عمل ظاہر نہ ہونے دیا۔ چار پائی کے ساتھ ہی کرسی پڑی تھی۔ رشید اس پر بیٹھ گیا۔ حمیدہ مسکرائی۔

’’میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ مجھے بخار کے باعث بہت نقاہت ہو گئی ہے اور شیو نہیں کرسکی۔ کیا آپ میرے لیے یہ زحمت برداشت کر سکیں گے۔ ‘‘

رشید نے کمرے میں ادھر اُدھر دیکھا۔ شیو کا سامان کھڑکی کی سل پر موجود تھا۔ ٹین میں گرم پانی لا کر اس نے حمیدہ کے چہرے کے بال نرم کیے ٗ صابن ملا۔ اچھی طرح جھاگ پیدا کی اور پھر پانچ منٹ کے اندر اندر شیو بنا ڈالی۔ پھر تولیے سے اس کا چہرہ خشک کیا اور شیو کا سامان صاف کر نے کے بعد وہیں رکھ دیا جہاں سے اس نے اٹھایا تھا۔ حمیدہ نے اپنا نحیف ہاتھ گالوں پر پھیرا۔ اور پھر رشید سے کہا۔

’’شکریہ۔ ‘‘

اب دونوں ایک دوسرے کے دوست ہو گئے۔ رشید نے ایم اے اور حمیدہ نے بی اے پاس کر لیا۔ رشید کو فوراً بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ اب وہ ایک نہیں ٗ روزانہ دو شیو بناتا تھا!

سعادت حسن منٹو

مسز ڈی کوسٹا

نو مہینے پورے ہو چکے تھے۔ میرے پیٹ میں اب پہلی سی گڑبڑ نہیں تھی۔ پر مسز ڈی کوسٹا کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ وہ بہت پریشان تھی۔ چنانچہ میں آنے والے حادثے کی تمام ان جانی تکلیفیں بھول گئی تھی اور مسز ڈی کوسٹا کی حالت پر رحم کھانے لگی تھی۔ مسز ڈی کوسٹا میری پڑوسن تھی۔ ہمارے فلیٹ کی بالکنی اور اس کے فلیٹ کی بالکنی میں صرف ایک چوبی تختہ حائل تھا۔ جس میں بے شمار ننھے ننھے سوراخ تھے ان سوراخوں میں سے میں اور اللہ بخشے میری ساس ڈی کوسٹا کے سارے خاندان کو کھانا کھاتے دیکھا کرتے تھے۔ لیکن جب ان کے ہاں سکھائی ہوئی جھینگا مچھلی پکتی اور اس کی ناقابلِ برداشت بُو ان سوراخوں سے چھن چھن کر ہم تک پہنچ جاتی تو میں اور میری ساس بالکنی کا رخ نہ کرتے تھے۔ میں اب بھی کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ اتنی بدبودار چیز کھائی کیونکر جاسکتی ہے، پر بابا کیا کہا جائے۔ انسان بری سے بری چیزیں کھا جاتا ہے۔ کون جانے۔ انھیں اس ناقابلِ برداشت بو ہی میں لطف آتا ہو۔ مسز ڈی کوسٹا کی عمر چالیس بیالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ اس کے کٹے ہوئے بال جو اپنی سیاہی بالکل کھو چکے تھے اور جن میں بے شمار سفید دھاریاں پڑ چکی تھیں، اس کے چھوٹے سر پر گھسے ہوئے نمدے کی ٹوپی کی صورت میں پریشان رہتے تھے۔ کبھی کبھی جب وہ نیا بھڑکیلے رنگ کا بہت بھونڈے طریقے پر سلا ہوا فراک پہنتی تھی تو سر پر لال لال بندکیوں والا جال بھی لگا لیتی تھی۔ جس سے اس کے چھدرے بال اس کے سر کے ساتھ چپک جاتے تھے۔ اس حالت میں وہ درزیوں کا ایسا ماڈل دکھائی دیتی تھی جو نیلام گھرمیں پڑا ہو۔ میں نے کئی بار اسے اپنے انہی بالوں میں لہریں پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف دیکھا ہے۔ اپنے چار بیٹوں کو جن میں سے ایک تازہ تازہ فوج میں بھرتی ہوا تھا اور اپنے آپ کو ہندوستان کے حکمرانوں کی فہرست میں شامل سمجھتا تھا۔ اور دوسرا جو ہر روز اپنی کلف لگی سفید پتلون استری کرکے پہنتا تھا اور نیچے آکر چھوٹی چھوٹی کرسچین لڑکیوں کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کیا کرتا تھا۔ ناشتہ کرا دیا کرتی تھی اور اپنے بڈھے خاوند کو جو ریلوے میں ملازم تھا۔ بالکنی میں نکل کر ہاتھ کے اشارے سے

’’بائی بائی‘‘

کرنے کے بعد فارغ ہو جاتی تھی تو اپنے سر کے ناقابلِ گرفت بالوں میں لہریں پیدا کرنے والے کلپ اٹکا دیا کرتی تھی۔ اور ان کلپوں سمیت سوچا کرتی تھی کہ میرے ہاں بچہ کب پیدا ہو گا۔ وہ خود آدھے درجن بچے پیدا کر چکی تھی جن میں سے پانچ زندہ تھے۔ ان کی پیدائش پر بھی وہ یونہی دن گنا کرتی تھی یا چپ چاپ بیٹھی رہتی تھی اور بچے کو خود بخود پیدا ہونے کے لیے چھوڑ دیتی تھی، اس کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ لیکن مجھے اس بات کا تلخ تجربہ ضرور ہے کہ جو کچھ میرے پیٹ میں تھا، اس سے مسز ڈی کوسٹا کو جس کا داہنا پیر اور اس کے اوپر کا حصہ کسی بیماری کے باعث ہمیشہ سوجا رہتا تھا، بہت گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ دن میں کئی مرتبہ بالکنی میں سے جھانک کر وہ مجھے آواز دیا کرتی تھی اور گرائمر سے بے نیاز انگریزی میں، جس کا نہ بولنا اس کے نزدیک شاید ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کی ہتک تھی، مجھ سے کہا کرتی تھی

’’میں بولی، آج تم کدھر گیا تھا۔ ‘‘

جب میں اسے بتاتی کہ میں اپنے خاوند کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی تھی۔ تو اس کے چہرے پر ناامیدی کے آثار پیدا ہو جاتے اور وہ انگریزی بھول کر بمبئی کی اردو میں گفتگو کرنا شروع کردیتی جس کا مقصد مجھ سے صرف اس بات کا پتا لینا ہوتا تھا کہ میرے خیال کے مطابق بچے کی پیدائش میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم ہوتا تو میں یقیناً اسے بتا دیتی۔ اس میں حرج ہی کیا تھا۔ اس بیچاری کو خواہ مخواہ کی الجھن سے نجات مل جاتی اور مجھے بھی ہر روز اس کے نت نئے سوالوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ مجھے بچوں کی پیدائش اور اس کے متعلقات کا کچھ علم ہی نہیں تھا۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ نو مہینے پورے ہو جانے پر بچہ پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ مسز ڈی کوسٹا کے حساب کے مطابق نو مہینے پورے ہو چکے تھے۔ میری ساس کا خیال تھا کہ ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ لیکن یہ نو مہینے کہاں سے شروع کرکے پورے کردیے گئے تھے، میں نے بہتیرا اپنے ذہن پر زور دیا، پر سمجھ نہ سکی۔ بچہ میرے پیدا ہونے والا تھا۔ شادی میری تھی۔ لیکن سارا بہی کھاتہ مسز ڈی کوسٹا کے پاس تھا۔ کئی بار مجھے خیال آیا کہ یہ میری اپنی غفلت کا نتیجہ ہے۔ اگر میں نے کسی چھوٹی سی نوٹ بک میں، چھوٹی سی نوٹ بک میں نہ سہی۔ اس کاپی ہی میں جو دھوبی کے حساب کے لیے مخصوص تھی، سب تاریخیں لکھ چھوڑی ہوتیں تو کتنا اچھا تھا۔ اتنا تو مجھے یاد تھا اور یاد ہے کہ میری شادی۲۶ اپریل کو ہوئی یعنی ۲۶ کی رات کو میں اپنے گھر کے بجائے اپنے خاوند کے گھرمیں تھی۔ لیکن اس کے بعد کے واقعات کچھ اس قدر خلط ملط ہو گئے تھے کہ اس بات کا پتا لگانا بہت مشکل تھا اور مجھے تعجب اسی بات کا ہے کہ مسز ڈی کوسٹا نے کیسے اندازہ لگا لیا تھا کہ نو مہینے پورے ہو چکے ہیں اور بچہ لیٹ ہو گیا ہے۔ ایک روز اس نے میری ساس سے اضطراب بھرے لہجے میں کہا۔

’’تمہارے ڈاٹر اِن لا کا بچہ لیٹ ہو گیا ہے۔ پچھلے ویک( ہفتے) میں پیدا ہونا ہی مانگتا تھا۔ ‘‘

میں اندر صوفے پر لیٹی تھی اور آنے والے حادثے کے متعلق قیاس آرائیاں کررہی تھی۔ مسز ڈی کوسٹا کی یہ بات سن کر مجھے بڑی ہنسی آئی اور ایسا لگا کہ مسز ڈی کوسٹا اور میری ساس دونوں پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں اور جس گاڑی کا انھیں انتظار تھا، لیٹ ہو گئی ہے۔ اللہ بخشے میری ساس کو اتنی شدت کا انتظار نہیں تھا۔ چنانچہ وہ کئی مرتبہ مسز ڈی کوسٹا سے کہہ چکی تھی۔

’’کوئی فکر کی بات نہیں، خدا اپنا فضل کرے گا۔ کچھ اوپر ہو جایا کرتے ہیں۔ ‘‘

مگر مسز ڈی کوسٹا نہیں مانتی تھی۔ جو حساب وہ لگا چکی تھی، غلط کیسے ہوسکتا تھا۔ جب مسز ڈی سلوا کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے دور سے ہی دیکھ کہ کہہ دیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگے گا۔ چنانچہ چوتھے روز ہی مسزڈی سلوا ہسپتال جاتی نظر آئی۔ اور خود اس نے چھ بچے جنے تھے جن میں سے ایک بھی لیٹ نہ ہوا تھا۔ اور پھر وہ نرس تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس نے کسی ہسپتال میں دایہ گیری کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مگر سب لوگ اسے نرس کہتے تھے۔ چنانچہ ان کے فلیٹ کے باہر چھوٹی سی تختی پر

’’نرس ڈی کوسٹا‘‘

لکھا رہتا تھا۔ اسے بچوں کی پیدائش کے اوقات معلوم نہ ہوتے تو اور کس کو ہوتے۔ جب کمرہ نمبر۱۷ کے رہنے والے مسٹر نذیر کی ناک سوج گئی تھی تو مسز ڈی کوسٹا ہی نے بازار سے روئی کا بنڈل منگوایا تھا اور پانی گرم کرکے ٹکور کی تھی۔ بار بار وہ اس واقعے کو سند کے طور پر پیش کیا کرتی تھی۔ چنانچہ مجھے بار بار کہنا پڑتا تھا۔

’’ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پڑوس میں ایسی عورت رہتی ہے جو خوش خلق ہونے کے علاوہ اعلیٰ نرس بھی ہے۔ ‘‘

یہ سن کر وہ خوش ہوتی تھی اور اس کو یوں خوش کرنے سے مجھے یہ فائدہ ہوا تھا کہ جب۔ صاحب کو تیز بخار چڑھا تھا تو مسز ڈی کوسٹا نے برف لگانے والی ربڑ کی تھیلی فوراً مجھے لا دی تھی۔ یہ تھیلی ایک ہفتہ تک ہمارے یہاں پڑی رہی اور ملیریا کے مختلف شکاروں کے استعمال میں آتی رہی۔ یوں بھی مسز ڈی کوسٹا بڑی خدمت گزار تھی۔ لیکن اس کی اس رضا کاری میں اس کی متجسس طبیعت کو کافی دخل تھا۔ دراصل وہ اپنے تمام پڑوسیوں کے ان رازوں سے بھی واقف ہونے کی آرزومند تھی جو سینہ بہ سینہ چلے آتے ہیں۔ مسز ڈی سلوا چونکہ مسز ڈی کوسٹا کی ہم مذہب تھی، اس لیے اس کی بہت سی کمزوریاں اس کو معلوم تھیں۔ مثلاً وہ جانتی تھی کہ اس کی شادی کرسمس میں ہوئی اور بچہ جولائی میں پیدا ہوا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اس کی شادی بہت پہلے ہو چکی تھی۔ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسز ڈی سلوا ناچ گھروں میں جاتی ہے اور یوں بہت سا روپیہ کماتی ہے۔ اور یہ کہ وہ اب اتنی خوبصورت نہیں رہی جتنی کہ پہلے تھی چنانچہ اس کی آمدنی بھی پہلے کی نسبت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے سامنے جو یہودی رہتے تھے، ان کے متعلق مسز ڈی سلوا کے مختلف بیان تھے۔ کبھی وہ کہتی تھی کہ موٹی موذیل جورات کو دیر سے گھر آتی ہے، سٹہ کھیلتی ہے اور وہ ٹھنگنا سا بڈھا جو اپنی پتلون کے گیلسوں میں انگوٹھے اٹکائے اور کوٹ کاندھے پر رکھے صبح گھر سے نکل جاتا ہے اور شام کو لوٹتا ہے، موذیل کا پرانا دوست ہے۔ اس بڈھے کے متعلق اس نے کھوج لگا کر معلوم کیا تھا کہ صابن بناتا ہے جس میں سجی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک دن اس نے ہمیں بتایا کہ موذیل نے اپنی لڑکی کی جو بہت خوصورت تھی اور ہر روز نیلے رنگ کا

’’جم‘‘

پہن کر اسکول جاتی تھی، اس آدمی سے منگنی کررکھی ہے جو ہر روز ایک پارسی کو موٹر میں لے کر آتا ہے۔ اس پارسی کے متعلق میں اتنا جانتی ہوں کہ اس کی موٹر ہمیشہ نیچے کھڑی رہتی تھی اور وہ موذیل کی لڑکی کے منگیتر سمیت رات وہیں بسر کرتا تھا۔ مسز ڈی کوسٹا کا بیان یہ تھا کہ موذیل کی لڑکی فلوری فلوری کا منگیتر پارسی کا موٹر ڈرائیور ہے اور یہ پارسی اپنے موٹر ڈرائیور کی بہن للی کا عاشق ہے جو اپنی چھوٹی بہن وائلٹ سمیت اسی فلیٹ میں رہتی تھی۔ وائلٹ کے متعلق مسز ڈی کوسٹا کی رائے بہت خراب تھی۔ وہ کہا کرتی تھی کہ یہ لونڈیا جو ہر وقت ایک ننھے سے بچے کو اٹھائے رہتی ہے، بہت بُرے کیریکٹر کی ہے۔ اور اس ننھے سے بچے کے متعلق اس نے ایک دن ہمیں یہ خبر سنائی تھی اور جیسا کہ مشہور کیا گیا ہے۔ وہ کسی پارسن کا لاوارث بچہ نہیں بلکہ خود وائلٹ کی بہن للّی کا ہے۔ بس مجھے اتنا ہی یاد رہا ہے کیونکہ جو شجرہ مسز ڈی کوسٹا نے تیار کیا تھا اتنا لمبا ہے کہ شاید ہی کسی کو یاد رہ سکے۔ صرف آس پاس کی عورتوں اور پڑوس کے مردوں تک مسز ڈی کوسٹا کی معلومات محدود نہیں تھیں۔ اسے دوسرے محلے کے لوگوں کے متعلق بھی بہت سی باتیں معلوم تھیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے سُوجے ہوئے پیر کا علاج کرنے کی غرض سے باہر جاتی تو گھرلوٹتے ہوئے دوسرے محلوں کی بہت سی خبریں لاتی تھی۔ ایک روز جب مسز ڈی کوسٹا میرے بچے کی پیدائش کا انتظار کرکر کے تھک ہار چکی تھی، میں نے اسے باہر پھاٹک کے پاس اپنے دو بڑے لڑکوں، ایک لڑکی اور پڑوسن کی دو عورتوں کے ساتھ باتوں میں مصروف دیکھا۔ یہ خیال کرکے جی ہی جی میں بہت کڑھی کہ میرے بچے کے لیٹ ہو جانے کے متعلق باتیں کررہی ہو گی۔ چنانچہ جب اس نے گھر کا رخ کیا تو میں جنگلے سے پرے ہٹ گئی۔ مگر اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ سیدھی اوپر چلی آئی۔ میں نے دروازہ کھول کر باہر بالکنی ہی میں مونڈھے پر بٹھا دیا۔ مونڈھے پر بیٹھتے ہی اس نے بمبئی کی اردو اور گرائمر سے بے نیاز انگریزی میں کہنا شروع کیا۔

’’تم نے کچھ سنا؟۔ مہاتما گاندھی نے کیا کیا؟۔ سالی کانگرس ایک نیا قانون پاس کرانا چاہتی ہے۔ میرا فریڈرک خبر لایا ہے کہ بمبئی میں پروہشین ہو جائے گی۔ تم سمجھتا ہے پروہشین کیا ہوتی ہے؟‘‘

میں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ کیونکہ جتنی انگریزی مجھے آتی تھی۔ اس میں پروہشین کا لفظ نہیں تھا۔ اس پر مسز ڈی کوسٹا نے کہا۔

’’پروہشین شراب بند کرنے کو کہتے ہیں۔ ہم پوچھتا ہے۔ اس کانگرس کا ہم نے کیا بگاڑا ہے کہ شراب بند کرکے ہم کو تنگ کرنا مانگٹی ہے۔ یہ کیسی گورنمنٹ ہے۔ ہم کو ایسی بات ایک دم اچھی نہیں لگٹی۔ ہمارا تہوار کیسے چلے گا۔ ہم کیا کرے گا۔ وسکی ہمارے تہواروں میں ہونا ہی مانگٹا ہے۔ تم سمجھتی ہونا؟ کرسمس کیسے ہو گا؟۔ کرسچین لوگ تو اس لاء کو نہیں مانے گا۔ کیسے مان سکتا ہے۔ میرے گھر میں چوبیس کلاک(گھنٹے) برانڈی کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ لاء پاس ہو گیا تو کیسے کام چلے گا۔ یہ سب کچھ گانڈھی کررہا ہے۔ گانڈھی جو محمڈن لوگ کا ایک دم بَیری ہے۔ سالا آپ تو پیتا نہیں اور دوسروں کو پینے سے روکتا ہے اور تمہیں مالوم ہے یہ ہم لوگوں کا میرا مطلب ہے گورنمنٹ کا بہت بڑا اینی می( دشمن) ہے۔ ‘‘

اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انگلستان کا سارا ٹاپو مسز ڈی کوسٹا کے اندرسما گیا ہے۔ وہ گوا کی رہنے والی کالے رنگ کی کرسچین عورت تھی۔ مگر جب اس نے یہ باتیں کیں تو میرے تصور نے اس پر سفید چمڑی منڈھ دی۔ چند لمحات کے لیے وہ یورپ سے آئی ہوئی تازہ تازہ انگریز عورت دکھائی دی جسے ہندوستان اور اس کے مہاتما جی سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ سمندر کے پانی سے نمک بنانے کی تحریک مہاتما گاندھی نے شروع کی تھی۔ چرخہ چلانا اور کھادی پہننا بھی اسی نے لوگوں کو سکھایا تھا۔ اسی قسم کی اور بہت سی اوٹ پٹانگ باتیں وہ کر چکا تھا۔ شاید اسی لیے مسز ڈی کوسٹا نے یہ سمجھا تھا کہ بمبئی میں شراب صرف اس لیے بند کی جارہی ہے کہ

’’انگریز لوگوں‘‘

کو تکلیف ہو۔ وہ کانگرس اور مہاتما گاندھی کو ایک ہی چیز سمجھتی تھی۔ یعنی لنگوٹی۔ مہاتما گاندھی اور اس کی ہشت پشت پر لعنتیں بھیج کر مسز ڈی کوسٹا اصل بات کی طرف متوجہ ہوئی

’’اور ہاں یہ تمہارا بچہ کیوں پیدا نہیں ہوتا۔ چلو میں تمہیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے چلوں۔ ‘‘

میں نے اس وقت بات ٹال دی مگر مسز ڈی کوسٹا نے گھر جاتے ہوئے پھر مجھ سے کہا۔

’’دیکھوتم کو کچھ ایسا ویسا بات ہو گیا۔ تو پھر ہم کو نہ بولنا۔ ‘‘

اس سے دوسرے روز کا واقعہ ہے۔ صاحب بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے مجھے خیال آیا۔ کئی دنوں سے میں نے مسز کاظمی کو ٹیلیفون نہیں کیا۔ اس کو بھی بچے کی پیدائش کا بہت خیال ہے۔ اس وقت فرصت ہے۔ اور نذیر صاحب کا دفتر جو ان کے گھر کے ساتھ ہی ملحق تھا، بالکل خالی ہو گا کیونکہ چھ بج چکے تھے۔ اٹھ کر ٹیلیفون کردینا چاہیے۔ یوں سیڑھیاں اترنے اور چڑھنے سے ڈاکٹر صاحب اور تجربہ کار عورتوں کے مشورہ پر عمل بھی ہوجائے گا۔ جو یہ تھا کہ چلنے پھرنے سے بچہ آسانی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ میں اپنے پیدا ہونے والے بچے سمیت اٹھی اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ جب پہلی منزل پر پہنچی تو مجھے نرس ڈی کوسٹا کا بورڈ نظر آیا اور پیشتر اس کے کہ میں اس کے فلیٹ کے دروازے سے گزر کر دوسری منزل کے پہلے زینے پر قدم رکھوں، مسز ڈی کوسٹا باہر نکل آئی اور مجھے اپنے گھر لے گئی۔ میرا دم پھولا ہوا تھا اور پیٹ میں اینٹھن سی پیدا ہو گئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ربڑ کی گیند ہے جو کہیں اٹک گئی ہے۔ اس سے بڑی الجھن ہورہی تھی میں نے ایک بار اس تکلیف کا ذکر اپنی ساس سے کیا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ بچے کی ٹانگ وانگ ادھر ادھر پھنس جایا کرتی ہے۔ چنانچہ یہ ٹانگ وانگ ہی ہلنے جلنے سے کہیں پھنس گئی تھی جس کے باعث مجھے بڑی تکلیف ہورہی تھی۔ میں نے مسز ڈی کوسٹا سے کہا۔ مجھے ایک ضروری ٹیلیفون کرنا ہے اس لیے میں آپ کے یہاں نہیں بیٹھ سکتی۔ اور بہت سے جھوٹے بہانے پیش کیے مگر وہ نہ مانی اور میرا بازو پکڑ کر اس نے زبردستی مجھے اس صوفے پر بٹھا دیا جس کا کپڑا بہت میلا ہورہا تھا۔ مجھے صوفے پر بٹھا کر جلدی جلدی اس نے دوسرے کمرے سے اپنے دو چھوٹے لڑکوں کو باہر نکالا۔ اپنی کنواری جوان لڑکی کو بھی جو مہاتما گاندھی کی لنگوٹی سے کچھ بڑی نیکر پہنتی تھی، اس نے باہر بھیج دیا اور مجھے خالی کمرے میں لے گئی۔ اندر سے دروازہ بند کرکے اس نے میری طرف اس افریقی جادوگر کی طرح دیکھا جس نے الٰہ دین کا چچا بن کر اسے غار میں بند کردیا تھا۔ یہ سب کچھ اس نے اس پھرتی سے کیا کہ مجھے وہ۔ ایک بہت پُراسرار دکھائی دی۔ سُوجے ہوئے پیر کے باعث اس کی چال میں خفیف سا لنگڑا پن پیدا ہو گیا تھا، جو مجھے اس وقت بہت بھیانک دکھائی دی۔ میری طرف گھور کر دیکھنے کے بعد اس نے ادھر دیوار کی تینوں کھڑکیاں بند کیں۔ ہر کھڑکی کی چٹخی چڑھا کر اس نے میری طرف اس انداز سے دیکھا گویا اسے اس بات کا ڈر ہے کہ میں اٹھ بھاگوں گی۔ ایمان کی کہوں اس وقت میرا یہی جی چاہتا تھا کہ دروازہ کھول کر بھاگ جاؤں۔ اس کی خاموشی اور اس کے کھڑکیاں، دروازے بند کرنے سے میں بہت پریشان ہو گئی تھی۔ آخر اس کا مطلب کیا تھا؟۔ وہ چاہتی کیا تھی، اتنے زبردست تخلیے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اور پھر۔ وہ لاکھ پڑوسن تھی۔ اس کے ہم پر کئی احسان بھی تھے لیکن آخروہ تھی تو ایک غیر عورت اور اس کے بیٹے۔ وہ مؤا فوجی اور وہ کلف لگی پتلون و الا جو چھوٹی چھوٹی کرسچین لڑکیوں سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا تھا۔ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ پرائے پرائے۔ میں کئی عشقیہ ناولوں میں کٹنیوں کا حال پڑھ چکی تھی۔ جس انداز سے وہ ادھر ادھر چل پھر رہی تھی اور دروازے بند کرکے پردے کھینچ رہی تھی۔ اس سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ نرس ورس بالکل نہیں بلکہ بہت بڑی کٹنی ہے۔ کھڑکیاں اور دروازے بند ہونے کے باعث کمرے میں جس کے اندر لوہے کے چار پلنگ پڑے تھے، کافی اندھیرا ہو گیا تھا جس سے مجھے اور بھی وحشت ہوئی۔ مگر اس نے فوراً ہی بٹن دبا کر روشنی کردی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ میرے ساتھ کیا کرے گی۔ پُراسرار طریقے پر اُس نے آتشدان سے ایک بوتل اٹھائی جس میں سفید رنگ کا سیّال مادہ تھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔

’’اپنا بلاؤز اتارو۔ میں کچھ دیکھنا مانگٹی ہوں۔ ‘‘

میں گھبرا گئی۔

’’کیا دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘

اوپر سے سب کچھ نظر آرہا تھا، پھر بلاؤز اتروانے کا کیا مطلب تھا۔ اور اسے کیا حق حاصل تھا کہ وہ دوسری عورتوں کو یوں گھر کے اندر بلا کربلاؤز اتروانے پر مجبور کرے۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ مسز ڈی کوسٹا میں بلاؤز ہرگز ہرگز نہیں اتاروں گی۔ میرے لہجے میں گھبراہٹ کے علاوہ تیزی بھی تھی۔ مسز ڈی کوسٹا کا رنگ زرد پڑ گیا۔

’’تو۔ تو۔ پھر ہم کو مالوم کیسے پڑے گا کہ تمہارے گھر بچہ کب ہو گا۔ اس بوتل میں کھوپرے کا تیل ہے۔ یہ ہم تمہارے پیٹ پر گرا کر دیکھے گا۔ اس سے ایک دم مالوم ہو جائے گا کہ بچہ کب ہو گا۔ لڑکی ہو گی یا لڑکا۔ ‘‘

میری گھبراہٹ دور ہو گئی۔ ڈی کوسٹا پھر مجھے مسز ڈی کوسٹا نظر آنے لگی۔ کھوپرے کا تیل بڑی بے ضرر چیز ہے۔ پیٹ پر اگر اس کی پوری بوتل بھی الٹ دی جاتی تو کیا حرج تھا۔ اور پھر ترکیب کتنی دلچسپ تھی۔ اس کے علاوہ اگرمیں نہ مانتی تو مسز ڈی کوسٹا کو کتنی بڑی ناامیدی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مجھے ویسے بھی کسی کی دل شکنی منظور نہیں ہوتی۔ چنانچہ میں مان گئی۔ بلاؤز اور قمیض اتارنے میں مجھے کافی کوفت ہوئی مگر میں نے برداشت کرلی۔ غیر عورت کی موجودگی میں جب میں نے اپنا پھولا ہوا پیٹ دیکھا جس کے نچلے حصے پر اس طرح کے لال لال نشان بنے ہوئے تھے جیسے ریشمی کپڑے میں چُرسیں پڑ جائیں تو مجھے ایک عجیب قسم کا حجاب محسوس ہوا۔ میں نے چاہا کہ فوراً کپڑے پہن لوں اور وہاں سے چل دوں لیکن مسز ڈی کوسٹا کا وہ ہاتھ جس میں کھوپرے کے تیل کی بوتل تھی اٹھ چکا تھا۔ میرے پیٹ پر ٹھنڈے ٹھنڈے تیل کی ایک لکیر دوڑ گئی۔ مسز ڈی کوسٹا خوش ہو گئی۔ میں نے جب کپڑے پہن لیے تو اس نے مطمئن لہجہ میں کہا۔

’’آج کیا ڈیٹ ہے؟ اگیارہ(گیارہ) بس پندرہ کو بچہ ہو جائے گا اور لڑکا ہو گا۔ ‘‘

بچہ۲۵ تاریخ کو ہوا لیکن تھا لڑکا۔ اب جب کبھی وہ میرے پیٹ پر اپنے ننھے ننھے ہاتھ رکھتا ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسز ڈی کوسٹا نے کھوپرے کے تیل کی ساری بوتل انڈیل دی ہے۔

سعادت حسن منٹو

مسز ڈی سلوا

بالکل آمنے سامنے فلیٹ تھے۔ ہمارے فلیٹ کا نمبر تیرہ تھا۔ اس کے فلیٹ کا چودہ۔ کبھی کوئی سامنے کا دروازہ کھٹکھٹاتا تو مجھے یہی معلوم ہوتا کہ ہمارے دروازے پر دستک ہورہی ہے۔ اسی غلط فہمی میں جب میں نے ایک بار دروازہ کھولا تو اس سے میری پہلی ملاقات ہُوئی۔ یوں تو اس سے پہلے کئی دفعہ میں اسے سیڑھیوں میں، بازار میں اوربالکونی میں دیکھ چکی تھی مگر کبھی بات کرنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور کہنے لگی۔

’’تم نے سمجھا کوئی تمہارے گھر آیا ہے۔ ‘‘

میں بھی جواب میں مسکرا دی۔ چند لمحات تک وہ اپنے دروازے کی دہلیز میں اور میں اپنے دروازے کی دہلیز میں کھڑی رہی۔ اس کے بعد وہ مجھ سے اور میں اس سے اچھی طرح واقف ہو گئی۔ اس کا نام میری یا خدا معلوم کیا تھا۔ مگر اس کے خاوند کا نام پی۔ این ڈِسلوا تھا چنانچہ میں اسے مسز ڈی سلوا ہی کہتی تھی۔ میں اسے میری ضرور کہتی مگر وہ عمر میں مجھ سے کہیں بڑی تھی۔ موٹے موٹے نقش، چھوٹی گردن، اندردھنسی ہوئی ناک پکوڑا سی، سر چھوٹا جس پر کٹے ہوئے بال ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔ آنکھیں دوات کے منہ کی طرح کھلی رہتی تھیں۔ معلوم نہیں سوتے میں انکی شکل کیسی ہوتی ہو گی؟ اس کا خاوند معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا۔ کسی دفتر میں کام کرتا تھا۔ جب شام کو گھر لوٹتا اور مجھے باہر بالکنی میں دیکھتا تو اپنے بھورے رنگ کا ہیٹ اتار کر مجھے سلام ضرور کرتا بے حد شریف آدمی تھا۔ مسز ڈی سلوا بھی بہت ملنسار اور با اخلاق عورت تھی۔ دونوں میاں بیوی پُرسکون زندگی بسر کرتے تھے۔ چار پانچ برس کا ایک لڑکا تھا اس کو دیکھ کر کبھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ باپ چھوٹا ہو گیا ہے اور کبھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ماں سکڑ گئی ہے ماں باپ دونوں کے نقش کچھ اس طرح اس بچے میں خلط ملط ہو گئے تھے کہ آدمی فیصلہ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ ماں پر ہے یا باپ پر۔ پانچ برس میں ان کے یہاں صرف یہی ایک بچہ تھا۔ مسز ڈی سلوا نے ایک روز مجھ سے کہا تھا۔

’’ہمارا ماں بھی اس موافق بچہ دیا کرتا تھا۔ پانچ برس کے پیچھے ایک پہلے ہم ہوا۔ پانچ برس کے پیچھے ہمارا بھائی ہوا۔ اس کے پیچھے ہمارا ایک اور بہن۔ ‘‘

پانچ برس کی قید چونکہ پوری ہو چکی تھی۔ اس لیے مسز ڈی سلوا اب پیٹ سے تھی اس کا خاوند بہت خوش تھا۔ مجھے مسز ڈی سلوا نے بتایا کہ اپنی ڈائری میں اس نے کئی تاریخیں لکھ رکھی ہیں۔ پہلے بچے کی پیدائش کی تاریخ۔ ہونے والے بچے کی پیدائش کی تاریخ کا اندازہ اور وہ سال جس میں کہ تیسرا بچہ پیدا ہو گا۔ یہ سارا حساب اس نے اپنی ڈائری میں درج کر رکھا تھا۔ مسز ڈی سلوا کہتی تھی کہ اس کے خاوند کو پانچ برس کی یہ قید اچھی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک بچہ پیدا کرنے کے بعد وہ پانچ برس کے لیے کیوں چھٹی پر چلی جاتی ہے۔ مسز ڈی سلوا خود حیران تھی مگر اسے فخرسمجھتی تھی کہ وہ اپنی ماں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ میں بھی کم متحیر نہ تھی، سوچتی تھی یا الٰہی یہ پانچ برسوں کا چکر کیا ہے کیوں ان دونوں میں سے ایک گنتی نہیں بھول جاتا؟۔ قدرت نے کیا اس عورت کے اندر ایسی مشین لگا دی ہے کہ جب پانچ سال کے پانچ چکر ختم ہو جاتے ہیں تو کھٹ سے بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ خدا کی باتیں خدا ہی جانے۔ ہمارے پڑوس میں ایک اور عورت بھی جو ڈیڑھ برس سے پیٹ سے تھی۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ اس کے رحم میں کوئی خرابی ہے۔ بچہ موجود ہے جو پیدا ہو جائے گا مگر اس کی نشوونما تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد چونکہ رک جاتی ہے اس لیے ابھی تک اتنا بڑا نہیں ہوا کہ پیدا ہوسکے۔ امی جان جب مجھ سے یہ باتیں سُنتی تھیں تو کہا کرتی تھیں قیامت آنیوالی ہے خدا جانے دنیا کو کیاہو گیا ہے۔ پہلے کبھی ایسی باتیں سننے میں نہیں آتی تھیں۔ عورتیں چُپ چاپ نو مہینے کے بعد بچے جن دیا کرتی تھیں۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ اب کسی کے بچہ پیدا ہونے والا ہو تو سارے شہر کو خبر ہو جاتی ہے۔ مٹکا سا پیٹ لیے باہر جارہی ہیں۔ سڑکوں پر گھوم رہی ہیں۔ لوگ دیکھ رہے ہیں مگر کیا مجال کہ ان کو ذرا سی بھی حیا آجائے۔ آج کل تو دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے۔ میں یہ سنتی تھی تو دل ہی دل میں ہنستی تھی۔ امی جان کا پیٹ بھی کئی بار پھول کر مٹکا بن چکا تھا اوریہ مٹکا لیے وہ گھر کا سارا کام کاج کرتی تھیں ہر روز مارکیٹ جاتی تھیں مگر جب دوسروں کو دیکھتی تھیں یا ان کے متعلق باتیں سنتی تھیں تو اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتی تھیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا انھیں فوراً نظر آجاتا تھا۔ آدمی اگر اس مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو کیااسے باہر آنا جانا بالکل بند کردینا چاہیے۔ مٹکا سا پیٹ لیے بس گھر میں بیٹھے رہو۔ صوفے پر سے اٹھو چارپائی پر لیٹ جاؤ۔ چارپائی سے اٹھو تو کسی کرسی پر لیٹ جاؤ۔ مگر آفت تو یہ ہے کہ مٹکا سا پیٹ لیے بیٹھنے اور لیٹنے میں بھی تو تکلیف ہوتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ آدمی چلے پھرے تاکہ بوجھ کچھ ہلکا ہو۔ یہ کیا کہ پیٹ میں بڑی سی فٹ بال ڈالے گھر کی چار دیواری میں قید رہو۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ امی جان حیاکیوں طاری کرنا چاہتی ہیں۔ بھئی اگر کوئی پیٹ سے ہے تو کیا اس کا قصور ہے؟ اس نے کوئی شرمناک بات کی ہے جو وہ شرم محسوس کرے۔ جب خدا کی طرف سے یہ مصیبت عورتوں پر عائد کردی گئی کہ وہ ایک مقررہ مدت تک بچے کو پیٹ میں رکھیں تو اس میں شرمانے اور لجانے کی بات ہی کیا ہے اور اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سب کام چھوڑ کر آدمی بالکل نکما ہو جائے اس لیے کہ اُسے بچہ پیدا کرنا ہے۔ بچہ پیدا ہوتا رہے۔ اب کیا اس کے لیے باہر آنا جانا موقوف کردیا جائے۔ لوگ ہنستے ہیں تو ہنسیں، کیا ان کے گھر میں ان کی مائیں اور بہنیں کبھی پیٹ سے نہیں ہوں گی۔ بھئی، مجھے تو امی جان کی یہ منطق بڑی عجیب سی معلوم ہوتی ہے اصل میں ان کی عادت یہ ہے کہ خواہ مخواہ ہر بات پر اپنا لیکچر شروع کردیتی ہے خواہ کسی کو بُرا لگے یا اچھا۔ اپنی لڑکی کی بات ہو تو کبھی کچھ نہ کہیں گی۔ پچھلی دفعہ جب عارف میرے پیٹ میں تھا اور میں ہر روز اپولو بندر سیر کو جاتی تھی تو قسم لے لو جو ان کے منہ سے میرے خلاف کچھ نکلا ہو، پر اب چونکہ بات مسز ڈی سلوا کی تھی جو بیچاری صرف اتوار کی صبح گرجا میں نماز پڑھنے اور شام کو سودا سلف لانے کے لیے اپنے خاوند کے ساتھ باہر نکلتی تھی اس لیے امی جان کو

’’تو یہ ہے بیوی، تو یہ ہے بیوی‘‘

کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پہلے بچے پر پیٹ زیادہ نہیں پھولتا، لیکن دوسرے بچے کو چونکہ پھیلنے کے لیے زیادہ جگہ مل جاتی ہے۔ اس لیے پیٹ بہت بڑا ہو جاتا ہے۔ مسز ڈی سلوا لمبا سا چغہ پہنے جب گھر میں چلتی پھرتی تھی تو اس کا پیٹ بہت بدنما معلوم ہوتا تھا۔ قد اس کا چھوٹا تھا۔ پنڈلیاں جو بہت پتلی تھیں اور چغے کے نیچے آہستہ آہستہ حرکت کرتی تھیں۔ بہت ہی بھدی تصویر پیش کرتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گھڑونچی پر مٹکا رکھا ہے سارا دن اس لمبے چغے میں وہ کارٹون بنی رہتی تھی۔ شروع شروع میں بیچاری کی بہت بُری حالت ہُوئی تھی۔ ہر وقت قے اور متلی۔ قلفی والے کی آواز سنتی تو تڑپ جاتی اس کو بلاتی لیکن جب کھانے لگتی تو فوراً ہی جی مالش کرنے لگتا۔ سارا دن لیمو چوستی رہتی۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں اس کے یہاں گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ بستر پر لیٹی ہے لیکن ٹانگیں اوپر اٹھا رکھی ہیں میں نے مسکرا کر کہا۔

’’مسز ڈی سلوا اکسر سائز کررہی ہو کیا۔ ‘‘

جھنجھلا کر بولی۔

’’ہم بہت تنگ آگیا ہے۔ یوں ٹانگیں اُوپر کرتا ہے تو ہمارا طبیعت کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ‘‘

ٹھنڈی ٹھنڈی دیوار کے ساتھ پیر لگانے سے اسے کچھ تسکین ہوتی تھی۔ بعض اوقات اس کی طبیعت گھبراتی تھی تو زور زور سے میز کو یا بستر کو جہاں بھی وہ بیٹھی ہو مکھیاں مارنا شروع کردیتی تھی۔ اور جب اس طرح گھبراہٹ کم نہیں ہوتی تھی تو تنگ آکر رونا شروع کردیتی تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت ہنسی آتی تھی۔ چنانچہ وہ تمام تکلیفیں جو مجھ پر بیت چکی تھیں بھول کر اس سے کہا کرتی تھی۔

’’مسز ڈی سلوا جان بوجھ کر تم نے یہ مصیبت کیوں مول لی۔ ‘‘

اس پر وہ بگڑ کر کہتی۔

’’ہم نے کب لیا۔ پانچ برس کے پیچھے سالا یہ ہونے کو ہی مانگتا تھا۔ ‘‘

میں کہتی۔

’’تو مسز ڈی سلوا پانچویں سال تم بنگلور کیوں نہ چلی گئیں۔ ‘‘

وہ جواب دیتی

’’ہم چلا جاتا۔ سچ ہم جانے کو ایک دم تیار تھا پر یہ وار اسٹارٹ ہو گیا۔ ہم وہاں رہتا ہمارا صاحب یہاں رہتا۔ خرچ بہت ہوتا۔ سو یہ سوچ کر ہم نہ گیا اور سالا یہ آفت سر پر آن پڑا۔ ‘‘

شروع شروع میں مسز ڈی سلوا کو یہ آفت معلوم ہوتی تھیں پر اب وہ خوش تھی کہ دوسرا بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ قے اور متلی ختم ہو گئی تھی۔ ٹانگیں اوپر کرکے لیٹنے کی اب ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کی طبیعت ٹھیک رہتی تھی۔ یہ سلسلہ صرف پہلے دو مہینے تک رہا تھا۔ اب اسے کوئی تکلیف نہیں تھی۔ ایک صرف کبھی کبھی پیٹ میں اینٹھن سی پیدا ہو جاتی تھی یا بچہ جب پیٹ میں پھرتا تھا تو اسے تھوڑے عرصے کے لیے بے چینی سی محسوس ہوتی تھی۔ مسز ڈی سلوا بالکل تیار تھی۔ چھوٹے چھوٹے فراک سِی کر اس نے ایک چھوٹے سے منے بیگ میں رکھ چھوڑے تھے۔ نہالچے پوتڑے بھی تیار تھے۔ اس کا خاوند لوہے کا ایک جھولا بھی لے آیا تھا۔ اس کے لیے مسز ڈی سلوا نے پرانے تکیوں کے روٹر سے ایک گدا بھی بنا لیا تھا۔ غرض کہ سب سامان تیار تھا۔ اب مسز ڈی سلوا کو صرف کسی ہسپتال میں جا کر بچہ جن دینا تھا اور بس۔ مسٹر ڈی سلوا نے دو مہینے پہلے ہسپتال میں اپنی بیوی کے لیے جگہ بُک کررکھی تھی پانچ روپے ایڈوانس دے دیے تھے تاکہ عین وقت پر گڑ بڑ نہ ہو اور ہسپتال میں جگہ مل جائے۔ مسٹر ڈی سلوا بہت دور اندیش تھا۔ پہلے بچے کی پیدائش پر بھی اس کے انتظامات ایسے ہی مکمل تھے۔ مسز ڈی سلوا اپنے خاوند سے بھی کہیں زیادہ دور اندیش تھی جیسا کہ میں بتا چکی ہُوں اس نے ان نو مہینوں کے اندر اندر وہ تمام سامان تیار کرلیا تھا جو بچے کے پہلے دو برسوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ نیچے بچھانے کے لیے ربڑ کے کپڑے فیڈر، چسنیاں، جھنجھنے اور دوسرے جاپانی کھلونے اور اسی قسم کی اور چیزیں سب بڑی احتیاط سے اس نے ایک علیحدہ ٹرنک میں بند کر رکھی تھیں۔ ہر دوسرے تیسرے دن وہ یہ ٹرنک کھول کر بیٹھ جاتی تھی اور ان چیزوں کو اور زیادہ قرینے سے رکھنے کی کوشش کرتی تھی دراصل وہ دن گنتی تھی کہ جلدی بچہ پیدا ہو اور وہ اسے گود میں لے کر کھلائے دودھ پلائے۔ لوریاں دے اور جھوے میں لٹا کرسلائے۔ پانچ برس کی تعطیل کے بعد اب گویا اس کا اسکول کھلنے والا تھا وہ اتنی ہی خوش تھی جتنا کہ طالب علم ایسے موقعوں پر ہُوا کرتے ہیں۔ ہماری بلڈنگ کے سامنے ایک پارسی ڈاکٹر کا مطب تھا۔ اس ڈاکٹر کے پاس مسز ڈی سلواہرروز نوکر کے ہاتھ اپنا قارورہ بھیجتی تھی، کہتے ہیں آخری دنوں میں قارورہ دیکھ کر ڈاکٹر بتاسکتے ہیں کہ بچہ کب پیدا ہو گا۔ مسز ڈی سلوا کا خیال تھا کہ دن پورے ہو گئے ہیں۔ مگر یہ ڈاکٹر کہتا تھا کہ نہیں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ ایک روز میں غسل خانے میں نہا رہی تھی کہ میں نے مسز ڈی سلوا کی گھبرائی ہوئی آواز سنی، پھر دروازہ کھلا اور مسز ڈی سلوا کے کراہنے کی آواز آئی۔ میں نے کھڑکی کھول کر دیکھا تو مسز ڈی سلوا اپنے خاوند کا سہارا لے کر اُترنے والی تھی۔ رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ میری طرف دیکھ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ میں نے بڑی بوڑھی عورتوں کا سا انداز اختیار کرکے کہا۔

’’ساتھ خیر کے جاؤ اور ساتھ خیر کے واپس آؤ۔ ‘‘

مسٹر ڈی سلوا نے جب میری آواز سنی تو مسکرا کر اپنے بھورے رنگ کا ہیٹ اتارمجھے سلام کیا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’مسٹر ڈی سلوا جونہی بے بی ہو مجھے ضرور خبر دیجیے گا۔ ‘‘

وہ مسکراہٹ جو مسٹر ڈی سلوا کے میلے ہونٹوں پر سلام کرتے وقت پیدا ہو چکی تھی، یہ سن کر اور پھیل گئی۔ سارا دن میرا دھیان مسز ڈی سلوا ہی میں پڑا رہا۔ کئی بار دروازہ کھول کر دیکھا مگر ہسپتال سے نہ تو نوکر ہی واپس آیا تھا نہ مسز ڈی سلوا کا خاوند، شام ہو گئی۔ خدا جانے یہ لوگ کہاں غائب ہو گئے تھے۔ مجھے کچھ دنوں کے لیے ماہم جانا تھا جہاں میری بہن رہتی تھی۔ مجھے لینے کیلیے آدمی بھی آگیا مگر ہسپتال سے کوئی خبر نہ آئی۔ تیسرے روز ماہم سے جب میں واپس آئی تو اپنے گھر جانے کے بجائے میں نے مسز ڈی سلوا کے دروازے پر دستک دی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا کیا دیکھتی ہوں کہ مسز ڈی سلوا میرے سامنے کھڑی ہے۔ مٹکا سا پیٹ لیے میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔

’’یہ کیا؟‘‘

وہ مجھے اندر لے گئی اور کہنے لگی۔

’’ہم کو درد ہوا تو ہم سمجھا ٹائم پورا ہُوا وہاں ہسپتال میں گیا اور جب نرس نے بیڈ پر لٹایا تو درد ایک دم غائب ہو گیا۔ ہم بڑا حیران ہُوا۔ نرس لوگ تو بڑا ہنسا بولا۔ اتنا جلدی تم یہاں کیوں آگیا۔ ابھی کچھ دن گھر پر اور ٹھہرو۔ پیچھے آؤ۔ ہم کو بہت شرم آیا۔ ‘‘

اس کا یہ بیان سن کر میں بہت ہنسی وہ بھی ہنسی۔ دیر تک ہم دونوں ہنستے رہے۔ اس کے بعد اس نے مجھے سارا واقعہ تفصیل سے سُنایا کہ کس طرح ٹیکسی میں بیٹھ کر وہ ہسپتال گئی۔ وہاں ایک کمرے میں اسکے تمام کپڑے اتارے گئے۔ نام وغیرہ درج کیا گیا اور ایک بستر پر لٹا کر اسے نرسیں دوسرے کمرے میں چلی گئیں جہاں سے کئی دفعہ اسے چیخوں کی آواز سنائی دی۔ اس بستر پر وہ چار پانچ گھنٹے تک پڑی رہی اس دوران میں پہلے ایک نرس آئی اس نے اسے نہانے کو کہا۔ نہانے سے فارغ ہوئی تو ایک نرس آئی اس نے اسے انیما دیا۔ انیما دینے کے بعد تیسری نرس آئی جو اس کے انجکشن لگا گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر آئی اس نے پیٹ ویٹ دیکھا تو جھنجھلا کر کہا۔

’’تم کیوں اتنی جلدی یہاں آگیا ہے۔ ابھی گھر جا کر آرام کرو۔ ‘‘

سب نرسیں ہنسنے لگیں۔ وہ پانی پانی ہو گئی۔ کپڑے وپڑے پہن کر باہر نکل آئی جہاں اس کا خاوند کھڑا تھا۔ دونوں کو چونکہ ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مسٹر ڈی سلوا نے اس دن کی چھٹی لے رکھی تھی اس لیے وہ ریگل سینما میں میٹنی شو دیکھنے کے لیے چلے گئے۔ مسز ڈی سلوا کو سخت حیرت تھی کہ یہ ہوا کیا پچھلی دفعہ جب اس کے بچہ ہونے والا تھا تو وہ عین موقع پر ہسپتال پہنچی تھی۔ اب اس کا اندازہ غلط کیوں نکلا۔ درد ضرور ہُوا تھا اور یہ بالکل ویسا ہی تھا جو اسے پہلے بچے کی پیدائش سے تھوڑی دیر پہلے ہُوا تھا پھر یہ گڑ بڑ کیوں ہو گئی؟ چھٹے روز شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب میں بالکنی میں بیٹھی تھی کہ مسز ڈی سلوا کا نوکر آیا۔ دس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا کہنے لگا۔

’’میم صاحب نے چُھٹّا مانگا ہے۔ وہ ہسپتال جارہی ہے۔ میں نے جھپ پٹ دس روپے کی ریزگاری نکالی اور بھاگی بھاگی وہاں گئی۔ میاں بیوی دونوں تیار تھے۔ مسز ڈی سلوا کا رنگ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ درد کے مارے اس کا بُرا حال ہورہا تھا۔ میں نے اور اس کے خاوند نے سہارا دیکر اسے نیچے اتارا اور ٹیکسی میں بٹھا دیا۔

’’ساتھ خیر کے جاؤ اور ساتھ خیر کے واپس آؤ۔ ‘‘

کہہ میں اوپر گئی اور انتظار کرنے لگی۔ رات کے بارہ بجے تک میں سیڑھیوں کی طرف کان لگائے۔ بیٹھی رہی۔ مگر ہسپتال سے کوئی واپس نہ آیا۔ تھک ہار کر سو گئی۔ صبح اٹھی تو دھوبی آگیا اس سے پندرہ دھلائیوں کا حساب کرنے میں کچھ ایسی مشغول ہُوئی کہ مسز ڈی سلوا کا دھیان ہی نہ رہا۔ دھوبی میلے کپڑوں کی گٹھڑی باندھ کر باہر نکلا۔ میں دروازے کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے باہر نکل کرمسز ڈی سلوا کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا کیا دیکھتی ہوں کہ مسز ڈی سلوا کھڑی ہے مٹکا سا پیٹ لیے۔ میں نے قریب قریب چیخ کر پوچھا: مسز ڈی سلوا۔ پھر واپس آگئیں۔ جب اس کے پاس گئی تو وہ مجھے دوسرے کمرے میں لے گئی۔ شرم سے اس کا چہرہ گہرے سانولے رنگ کے باوجود سرخ ہورہا تھا۔ رک رک کر اس نے مجھ سے کہا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ درد بالکل پہلے کے موافق ہوتا ہے پر وہاں نرس لوگ کہتا ہے کہ جاؤ گھر جاؤ ابھی دیر ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بیچاری کی حالت قابل رحم تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس مرتبہ نرسوں نے اُسے بہت بری طرح جھڑکا تھا۔ حیرت۔ شرم اور بوکھلاہٹ نے مل جل کر اس کو اس قدر قابل رحم بنا دیا تھا کہ مجھے اس کے ساتھ تھوڑے عرصہ کے لیے انتہائی ہمدردی ہو گئی۔ میں دیر تک اس سے باتیں کرتی رہی۔ اس کو سمجھایا کہ اس میں شرم کی بات ہی کیا ہے۔ جب بچہ ہونے والا ہو تو ایسی غلط فہمیاں ہو ہی جایا کرتی ہیں۔ نرسوں کا کام ہے بچے جنانا۔ ان کے پاس آدمی اسی لیے جاتا ہے کہ آسانی سے یہ مرحلہ طے ہو جائے۔ انھیں مذاق اُڑانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اور جب فیس وغیرہ دی جائے گی اور ایڈوانس دے دیا گیا ہے تو پھر وہ بے کار باتیں کیوں بناتی ہیں۔ مسز ڈی سلوا کی پریشانی کم نہ ہوئی۔ بات یہ تھی کہ اس کا خاوند دفتر سے دو دفعہ چھٹی لے چکا تھا۔ بڑے صاحب سے لے کر چپراسی تک سب کو معلوم تھا کہ بچہ ہونے والا ہے۔ اب وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اسی طرح محلے میں سب کو معلوم تھا کہ مسزڈی سلوا دو بار ہسپتال جا کر واپس آچکی ہے۔ کئی عورتیں اس کے پاس آچکی تھیں اور ان سب کو فرداً فرداً اسے بتانا پڑا تھا کہ بچہ ابھی تک پیدا کیوں نہیں ہُوا۔ ہر ایک سے اس نے جھوٹ بولا تھا۔ وہ ایک پکی کرسچین عورت تھی، جھوٹ بولنے پر اسے سخت روحانی تکلیف ہوتی تھی۔ مگر کیا کرتی مجبور تھی۔ ساتویں روز جب میں دوپہر کا کھاناکھانے کے بعد پلنگ پر لیٹ کر قریب قریب سو چکی تھی۔ دفعتاً میرے کانوں میں بچے کے رونے کی آواز آئی۔ یہ کیا؟۔ دوڑ کر میں نے دروازہ کھولا۔ سامنے فلیٹ سے مسز ڈی سلوا کا نوکر گھبرایا ہوا باہر نکل رہا تھا۔ اس کا رنگ فق تھا۔ کہنے لگا۔ میم صاحب، بے بی۔ میم صاحب بی بی۔ میں نے اندر جا کر دیکھا تو مسز ڈی سلوا نیم مدہوشی کی حالت میں پڑی تھی، بے چاری نے اب مزید ندامت کے خوف سے وہیں بچہ جن دیا تھا۔

سعادت حسن منٹو

مسز گل

میں نے جب اُس عورت کو پہلی مرتبہ دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے لیموں نچوڑ نے والا کھٹکا دیکھا ہے۔ بہت دُبلی پتلی، لیکن بلا کی تیز۔ اس کا سارا جسم سوائے آنکھوں کے انتہائی غیر نسوانی تھا۔ یہ آنکھیں بڑی بڑی اور سرمئی تھیں جن میں شرارت، دغا بازی اور فریب کاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میری اس کی ملاقات اُونچی سوسائٹی کی ایک خاتون کے گھر میں ہوئی جو پچپن برس کی عمر میں ایک جواں سال مرد سے شادی کے مرحلے طے کر رہی تھی۔ اس خاتون سے جس کو میں اپنی اور آپ کی سہولت کی خاطر مسز گُل کہوں گا میرے بڑے بے تکلف مراسم تھے۔ مجھے ان کی ساری خامیوں کا علم تھا اور انھیں میری چند کا۔ بہر حال ہم دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور گھنٹوں باتیں کرتے رہتے۔ مجھ سے انھیں صرف اتنی دلچسپی تھی کہ انھیں افسانے پڑھنے کا شوق تھا اور میرے لکھے ہوئے افسانے ان کو خاص طور پر پسند آتے تھے۔ میں نے جب اس عورت کو جو صرف اپنی آنکھوں کی وجہ سے عورت کہلائے جانے کی مستحق تھی مسز گُل کے فلیٹ میں دیکھا تو مجھے یہ ڈر محسوس ہوا کہ وہ میری زندگی کا سارا رس ایک دو باتوں ہی میں نچوڑ لے گی لیکن تھوڑے عرصے کے بعد یہ خوف دُور ہو گیا اور میں نے اس سے باتیں شروع کر دیں۔ مسز گل کے متعلق میرے جو خیالات پہلے تھے سو اب بھی ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ تین شادیاں کرنے کے بعد چوتھی شادی ضرور کریں گی۔ اس کے بعد شاید پانچویں بھی کریں اگر عمر نے اُن سے وفا کی مگر مجھے اس عورت کا جس کا میں اُوپر ذکر کر چکا ہوں ان سے کوئی رشتہ سمجھ میں نہ آسکا۔ میں اب اس عورت کا نام بھی آپ کو بتا دوں۔ مسز گُل نے اُسے رضیہ کہہ کر پکارا تھا۔ اس کا لباس عام نوکرانیوں کا سا نہیں تھا۔ لیکن مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسز گل کے مزارعوں کی کوئی بہو بیٹی ہے جو ان کی خدمت کے لیے کبھی کبھار آ جایا کرتی ہے۔ یہ خدمت کیا تھی اس کے متعلق مجھے پہلے کوئی علم نہیں تھا۔ رضیہ کی آمد سے پہلے مسز گل کے ہاں بارہ تیرہ برس کی ایک لڑکی جمیلہ رہتی تھی۔ ان دنوں انھوں نے ایک پروفیسر سے شادی کر رکھی تھی۔ یہ پروفیسر جوان تھا۔ کم از کم مسز گل سے عمر میں پچیس برس چھوٹا۔ وہ جمیلہ کو بٹیا کہتے تھے اور اُس سے بڑا پیار کرتے تھے۔ یہ لڑکی بڑی پیاری تھی۔ رضیہ کی طرح دُبلی پتلی مگر اس کے جسم کا کوئی حصہ غیر نسوانی نہیں تھا اس کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا کہ وہ بہت جلد۔ معلوم نہیں اتنی جلد کیوں۔ جوان عورت میں تبدیل ہونے کی تیاریاں کررہی ہے۔ پروفیسر صاحب اُس کو اکثر اپنے پاس بُلاتے اور دوسرے تیسرے کام پر انعام کے طور پر اس کی پیشانی چومتے اور شاباشیاں دیتے۔ مسز گُل بہت خوش ہوتیں اس لیے کہ یہ لڑکی ان کی پروردہ تھی۔ میں بیمار ہو گیا۔ دو مہینے مری میں گزار کر جب واپس آیا تو معلوم ہوا کہ جمیلہ غائب ہے۔ شاید وہ مسز گل کی زمینوں پر واپس چلی گئی تھی۔ لیکن دو برس کے بعد میں نے اسے ایک ہوٹل میں دیکھا جہاں وہ چند عیش پرستوں کے ساتھ شراب پی رہی تھی۔ اُس وقت اس کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ اُس نے اپنی بلوغت (نِیم بلوغت کہنا زیادہ بہتر ہو گا) کا زمانہ بڑی افرا تفری میں طے کیا ہے جیسے کسی مہاجر نے فسادات کے دوران میں ہندوستان سے پاکستان کا سفر۔ میں نے اُس سے کوئی بات نہ کی اس لیے کہ جن کے ساتھ وہ بیٹھی تھی، میری جان پہچان کے نہیں تھے۔ نہ میں نے اس کا ذکر مسز گل سے کیا کیونکہ وہ جمیلہ کی اس حیرت ناک افتاد پر کوئی روشنی نہ ڈالتی۔ بات رضیہ کی ہو رہی تھی لیکن جمیلہ کا ذکر ضمناً آگیا۔ شاید اس لیے کہ اس کے بغیر مسز گل کے کردار کا عقبی منظر پورا نہ ہوتا۔ رضیہ سے جب میں نے باتیں شروع کیں تو اس کا لب و لہجہ اس کی آنکھوں کے مانند تیز فریب کار اور بے سبب رنج آشنا دشمن تھا۔ مجھے بالکل کوفت نہ ہوئی اس لیے کہ ہر نئی چیز میرے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہے۔ عام طور پر میں کسی عورت سے بھی خواہ وہ کمترین تر ہو، بے تکلف نہیں ہوتا۔ لیکن رضیہ کی آنکھوں نے مجھے مجبو کر دیا کہ میں بھی اس سے چند شریر باتیں کہوں۔ خدا معلوم میں نے اس سے کیا بات کہی کہ اُس نے مجھے سے پوچھا

’’آپ کون ہیں؟‘‘

میں نے جوکہ شرارت پر تُلا بیٹھا تھا۔ مسز گُل کی موجودگی میں کہا آپ کا ہونے والا شوہر۔ ‘‘

وہ ایک لحظے کے لیے بھنا گئی مگر فوراً سنبھل کر مجھ سے مخاطب ہوئی

’’میرا کوئی شوہر اب تک زندہ نہیں رہا‘‘

میں نے کہا

’’کوئی حرج نہیں۔ خاکسار کافی عرصے تک زندہ رہنے کا وعدہ کرتا ہے بشرطیکہ آپ کو کوئی عذر نہ ہو‘‘

مسز گُل نے یہ چوٹیں پسند کیں اور ایک جھریوں والا قہقہ بلند کیا

’’سعادت تم کیسی باتیں کرتے ہو‘‘

میں نے جواباً مسز گُل سے کہا

’’مجھے آپ کی یہ خادمہ بھاگئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا قیمہ بنا کے کوفتے بناؤں جن میں کالی مرچ دھنیا اور پودینہ خوب رچا ہو۔ ‘‘

میری بات کاٹ دی گئی۔ رضیہ اُچک کر بولی

’’جناب۔ میں خود بڑی تیز مرچ ہوں۔ یہ کوفتے آپ کو ہضم نہیں ہوں گے۔ فساد مچادیں گے آپ کے معدے کے اندر‘‘

مسزگُل نے ایک اور جھریوں والا قہقہہ بلند کیا

’’سعادت ٗ تم بڑے شریر ہو ٗ لیکن یہ رضیہ بھی کسی طرح تم سے کم نہیں۔ ‘‘

مجھے چونکہ رضیہ کی بات کا جواب دینا تھا اس لیے میں نے مسز گل کے اس جملے کی طرف توجہ نہ دی اور کہا

’’رضیہ۔ میرا معدہ تم جیسی مرچوں کا بہت دیر کا عادی ہے‘‘

یہ سُن کر رضیہ خاموش ہو گئی۔ معلوم نہیں کیوں؟ اُس نے مجھے دھوئی ہوئی مگر سرمگین آنکھوں سے کچھ ایسے دیکھا کہ ایک لحظے کے لیے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میری ساری زندگی دھوبنوں کے ہاں چلی گئی ہے۔ معلوم نہیں کیوں۔ لیکن اُس کو پہلی مرتبہ دیکھتے ہی میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی تھی کہ میں اسے سڑکیں کوٹنے والا انجن بن کر ایسا دباؤں کہ چکنا چور ہو جائے۔ بلکہ اس کا سفوف بن جائے۔ یا میں اس کے سارے وجود کو اس طرح توڑوں مروڑوں اور پھر اس بھونڈے طریقوں سے جوڑوں کہ وہ کسی قدر نسوانیت اختیار کر لے مگر یہ خواہش صرف اس وقت پیدا ہوتی جب میں اُسے دیکھتا اُس کے بعد یہ غائب ہو جاتی۔ انسان کی خواہشات بالکل بلبلوں کے مانند ہوتی ہیں جو معلوم نہیں کیوں پیدا ہوتے ہیں اورکیوں پھٹ کر ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ مجھے رضیہ پر ترس بھی آتا تھا۔ اس لیے کہ اُس کی آنکھیں جوالا دہکتی رہتی تھی اور اُس کے مقابلے میں اُس کا جسم آتش فشاں پہاڑ نہیں تھا۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا۔ مگر ان ہڈیوں کو چبانے کے لیے کتوں کے دانتوں کی ضرورت تھی۔ ایک دن اُس سے میری ملاقات مسز گُل کے فلیٹ کے باہر ہوئی جب کہ میں اندر جارہا تھا۔ وہ ہمارے محلے کی جوان بھنگن کے ساتھ کھڑی باتیں کررہی تھی۔ میں جب وہاں سے گزرنے لگا تو شرارت کے طور پر میں نے اُس کی شریر آنکھوں میں اپنی آنکھیں (معلوم نہیں میری آنکھیں کس قسم ہیں ) ڈال کر بڑے عاشقانہ انداز میں پوچھا

’’کہو بادشاؤ کیا ہو رہا ہے۔ ‘‘

بھنگن کی گود میں اس کا پلوٹھی کا لڑکا تھا۔ اُس کی طرف دیکھ کر رضیہ نے مجھ سے کہا

’’کوئی چیز کھانے کے لیے مانگتا ہے‘‘

میں نے اس سے کہا :

’’چند بوٹیاں تمہارے جسم پر ابھی تک موجود ہیں۔ دے دو اسے‘‘

میں نے پہلی بار اُس کے دھوئے دیدوں میں عجیب و غریب قسم کی جھلک دیکھی جسے میں سمجھ نہ سکا۔ مسز گُل کے ہاں ان دنوں جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں ایک نئے نوجوان کی آمد و رفت تھی اس لیے کہ وہ پروفیسر سے طلاق لے چکی تھیں۔ یہ صاحب ریلوے میں ملازم تھے اور ان کا نام شفیق اللہ تھا۔ آپ کو دمے کی شکایت تھی اور مسز گل ہر وقت ان کے علاج و معالجے میں مصروف رہتیں۔ کبھی ان کو ٹکیاں دیتیں۔ کبھی انجکشن لگوانے کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے جاتیں۔ کبھی ان کے گلے میں دوائی لگائی جاتی۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اس عارضے میں گرفتار نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اس کو کبھی نزلہ زکام ہوا ہو یا شاید کھانسی بھی آئی ہو۔ لیکن یہ مسز گل کا کمال تھا کہ اس غریب کو یقین ہو گیا تھا کہ اس کو دمے کا عارضہ ہے۔ ایک دن میں نے اُس سے کہا

’’حضرت ٗ آپ کو یہ مرض تو بہت اچھا لگا۔ اس لیے کہ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ کبھی مر نہیں سکتے‘‘

یہ سُن کر وہ حیران ہو گیا

’’آپ کیسے کہتے ہیں کہ یہ مرض اچھا ہے‘‘

میں نے جواب دیا

’’ڈاکٹروں کا یہ کہنا ہے کے دمے کا مریض مرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ میں نہیں بتا سکتا کیوں۔ آپ ڈاکٹروں سے مشورہ کرسکتے ہیں‘‘

رضیہ موجود تھی اُس نے شریر کنکھیوں سے مجھے بہت گھور کے دیکھا۔ پھر اس کی نگاہیں اپنی مالکہ مسز گُل کی طرف مڑیں اور اس سے کچھ بھی نہ کہہ سکیں۔ شفیق اللہ نرا کھرا چغد بنا بیٹھا تھا اُس نے ایک مرتبہ زخمی آنکھوں سے رضیہ کی طرف دیکھا اور وہ کُڑک مُرغی کی طرح ایک طرف دبک کے بیٹھ گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ دبلی ہو گئی ہے، لیکن اس کی آنکھیں بڑی متحرک تھیں۔ ان میں سُرمے کی قدرتی تحریر زیادہ گہری ہو گئی تھی۔ شفیق اللہ دن بہ دن زرد ہوتا گیا۔ اس کو دمے کے علاج کے لیے دوائیں برابر مل رہی تھیں۔ ایک دن میں نے مسز گُل کے ہاتھ سے گولیوں کی بوتل لی اور ایک کیپسول نکال کر اپنے پاس رکھ لی۔ شام کو اپنے جاننے والے ایک ڈاکٹر کو دکھائی تو اُس نے ایک گھنٹے کے بعد کیمیاوی تجزیہ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ دوا دمے ومے کے لیے نہیں ہے بلکہ نشہ آور ہے یعنی مارفیا ہے۔ میں نے دوسرے روز شفیق اللہ سے اُس وقت جب کہ وہ مسز گُل سے یہی کیپسول لے کر پانی کے ساتھ نگل رہا تھا تو میں نے اُس سے کہا

’’یہ آپ کیا کھاتے ہیں‘‘

اس نے جواب دیا

’’دمے کی دوا ہے‘‘

’’یہ تو مارفیا ہے‘‘

مسز گُل کے ہاتھ سے، پانی کا گلاس جو اس نے شفیق اللہ کے ہاتھ سے واپس لیا تھا گرتے گرتے بچا۔ بڑے جھریوں آمیز غصے سے اُنھوں نے میری طرف دیکھ کر کہا کیا کہہ رہے ہو سعادت‘‘

میں ان سے مخاطب نہ ہوا اور شفیق اللہ سے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا

’’جناب، یہ مارفیا ہے۔ آپ کو اگر اس کی عادت ہو گئی تو مصیبت پڑ جائے گی‘‘

شفیق اللہ نے بڑی حیرت سے پوچھا

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘

مسز گُل کے تیوروں سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ ناراض ہو گئی ہیں اور میری یہ گفتگو پسند نہیں کرتیں۔ رضیہ خاموش ایک کونے میں مسز گُل کے لیے حقہ تیار کررہی تھی، لیکن اس کے کان ہماری گفتگو کے ساتھ چپکے ہوئے تھے ایسے کان جو بڑی ناخوشگوار موسیقی سننے کے لیے مجبور ہوں۔ مسز گُل اس دوران میں بڑی تیزی سے چار الائچیاں دانتوں کے نیچے یکے بعد دیگر دبائیں اور انھیں بڑی بے رحمی سے چباتے ہوئے مجھ سے کہا

’’سعادت، تم بعض اوقات بڑی بے ہودہ باتیں کر دیتے ہو۔ یہ کیپسول مارفیا کے کیسے ہوسکتے ہیں‘‘

میں خاموش ہو رہا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مارفیا کا انجکشن دیا جاتا ہے۔ میرے ڈاکٹر دوست کا تجزیہ غلط تھا۔ وہ کوئی اور دوا تھی لیکن تھی نشہ آور۔ میں پھر بیمار ہوا اور راولپنڈی کے ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ جب مجھے ذرا افاقہ ہوا تو میں نے اِدھر اُدھر گھومنا شروع کیا۔ ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ ایک آدمی شفیق اللہ کی حالت بہت نازک ہے۔ میں اس کے وارڈ میں پہنچا مگر یہ وہ شفیق اللہ نہیں تھاجسے میں جانتا تھا۔ اس نے دھتورا کھایا ہوا تھا۔ چند روز کے بعد اتفاقاً مجھے ایک اور وارڈ میں جانا پڑا جہاں میرا ایک دوست یرقان میں مبتلا تھا۔ میں جب اس وارڈ میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ایک بستر کے ارد گرد کئی ڈاکٹر جمع ہیں قریب گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ قریب المرگ مریض شفیق اللہ ہے۔ اُس نے مجھے اپنی بجھتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور بڑی نحیف آواز میں کہا

’’سعادت صاحب‘‘

ذرا میرے پاس آئیے۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں‘‘

میں نے اپنے قریب قریب بہرے کان اس کی آواز سننے کے لیے تیار کر دئیے۔ وہ کہہ رہا تھا

’’میں۔ میں مر رہا ہوں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ ہر۔ ہر ایک کو خبر دار کردیجیے کہ وہ مسز گل سے بچا رہے۔ بڑی خطرناک عورت ہے‘‘

اس کے بعد وہ چند لمحات کے لیے خاموش ہو گیا۔ ڈاکٹر نہیں چاہتے تھے کہ وہ کوئی بات کرے لیکن وہ معمر تھا چنانچہ اُس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کیے

’’رضیہ مرگئی ہے۔ بے چاری رضیہ۔ اس غریب کے سپرد یہی کام تھا کہ وہ آہستہ آہستہ مرے۔ مسز۔ مسزگُل، اُس سے وہی کام لیتی تھی جو آدمی کوئلوں سے لیتا ہے۔ مگر وہ اُن کی آگ سے دوسروں کو گرمی پہنچاتی تھی تاکہ۔ ‘‘

وہ اپنا جملہ مکمل نہ کرسکا۔ سعادت حسن منٹو ۸۔ مئی۔ ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

مس ٹین والا

اپنے سفید جوتوں پر پالش کررہا تھا کہ میری بیوی نے کہا۔

’’زیدی صاحب آئے ہیں!‘‘

میں نے جوتے اپنی بیوی کے حوالے کیے اور ہاتھ دھو کر دوسرے کمرے میں چلا آیا جہاں زیدی بیٹھا تھا میں نے اس کی طرف غورسے دیکھا۔

’’ارے ! کیا ہو گیا ہے تمہیں؟‘‘

زیدی نے اپنے چہرے کو شگفتہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جوا ب دیا۔

’’بیمار رہا ہوں۔ ‘‘

میں اس کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔

’’بہت دُبلے ہو گئے ہو یار۔ میں نے تو پہلے پہچانا ہی نہیں تھا تمہیں۔ کیا بیماری تھی؟‘‘

’’معلوم نہیں۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

زیدی نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کیا بیماری ہے؟‘‘

’’ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔ ‘‘

’’کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔ ‘‘

زیدی خاموش رہا تو میں نے پھر اس سے کہا۔

’’کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ لیا؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

زیدی پھر خاموش رہا۔ جواب دینے کے بجائے اس نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا۔ اس کی اُنگلیاں کانپ رہی تھیں۔

’’میرا خیال ہے زیدی !تمہارا نروس سسٹم خراب ہو گیا ہے وٹامن بی کے انجکشن لگانا شروع کردو، بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ پچھلے برس زیادہ وسکی پینے سے میرا یہی حال ہو گیا تھا، لیکن بارہ انجکشن لینے سے کمزوری دُور ہو گئی تھی۔ مگر تم کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کیوں نہیں لیتے؟‘‘

زیدی نے اپنا چشمہ اُتار کررومال سے صاف کرنا شروع کردیا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑے ہُوئے تھے۔ میں نے پوچھا۔

’’کیا رات کو نیند نہیں آتی؟‘‘

’’بہت کم۔ ‘‘

’’دماغ میں خشکی ہو گی!‘‘

’’جانے کیا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔

’’دیکھو سعادت میں تمہیں ایک عجیب و غریب بات بتانے آیا ہوں۔ مجھے بیماری ویماری کچھ نہیں۔ رات کو نیند اس لیے نہیں آتی کہ میں ڈرتا رہتا ہوں۔ ‘‘

’’ڈرتے رہتے ہو۔ کیوں؟‘‘

’’بتاتا ہُوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے کانپتے ہاتھوں سے سگریٹ سُلگایا اور بجھی ہوئی تیلی کو توڑنا شروع کردیا۔

’’مجھے معلوم نہیں سُن کر تم کیا کہو گے۔ مگر یہ واقعہ یہ، بلے سے۔ ‘‘

میں شاید مسکرا دیا تھا کیونکہ زیدی نے فوراً ہی بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔

’’ہنسو نہیں۔ یہ حقیقت ہے۔ میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ انسانی نفسیات سے تمہیں دلچسپی کافی ہے۔ شاید تم میرے ڈر کی وجہ بتا سکو۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’لیکن یہاں تو سوال ایک حیوان کا ہے۔ ‘‘

زیدی خفا ہو گیا۔

’’تم مذاق اُڑاتے ہوتو میں کچھ نہیں کہوں گا۔ ‘‘

’’نہیں نہیں زیدی! مجھے معاف کردو۔ میں پوری توجہ سے سُنوں گا، جو تم کہو گے۔ ‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے اور نیا سگریٹ سلگانے کے بعد اس نے کہنا شروع کیا۔

’’تمہیں معلوم ہے جہاں میں رہتا ہوں، دو کمرے ہیں پہلے کمرے کے اس طرف چھوٹی سی بالکنی ہے جس کے کٹہرے میں لوہے کی سلاخیں لگی ہیں۔ اپریل اور مئی کے دو مہینے چونکہ بہت گرم ہوتے ہیں اس لیے فرش پر بستر بچھا کر میں اس بالکنی میں سویا کرتا ہُوں۔ یہ جون کا مہینہ ہے۔ اپریل کی بات ہے میں صبح ناشتے سے فارغ ہو کر دفتر جانے کے لیے باہر نکلا دروازہ کھولا تو دہلیز کے پاس ایک موٹا بِلّا آنکھیں بند کیے لیٹا نظر آیا۔ میں نے جوتے سے اسے ٹہوکا دیا۔ اس نے ایک لحظے کے لیے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف بے پروائی سے، جیسے میں کچھ بھی نہیں، دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ مجھے بڑا تعجب ہُوا چنانچہ میں نے بڑے زور سے اس کے ٹھوکر ماری۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ میری طرف پھر اسی نظر سے دیکھا اور اُٹھ کر کچھ دُور سیڑھیوں کے پاس لیٹ گیا۔ جس انداز سے اس نے چند قدم اُٹھائے تھے، اس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے مرعوب نہیں ہُوا۔ مجھے سخت غصّہ آیا۔ آگے بڑھ کر اب کی میں نے زور سے ٹھوکر ماری۔ دس پندرہ زینوں پر وہ لڑکھڑاتا ہوا چلا گیا۔ جب چار پیروں پر سنبھلا تو اس نے نیچے سے اپنی پیلی پیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور گردن موڑ کر کوئی آواز پیدا کیے بغیر ایک طرف چلا گیا۔ تم دلچسپی لے رہے ہو یا نہیں؟‘‘

’’ہاں ہاں، کیوں نہیں!‘‘

زیدی نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور سلسلہ کلام جاری کیا۔

’’دفتر پہنچ کر میں سب کچھ بھول گیا لیکن شام کو جب گھر لوٹا اور کمرے کی دہلیز کے پاس پہنچا جہاں وہ بِلّا لیٹا ہُوا تھا تو صبح کا واقعہ دماغ میں تازہ ہو گیا۔ نہاتے، چائے پیتے، رات کا کھانا کھاتے کئی دفعہ میں نے سوچا۔ تین دفعہ میں نے اس کی پسلیوں میں زور سے ٹھوکرماری، مجھ سے وہ ڈرا کیوں نہیں؟ میاؤں تک بھی نہ کی اس نے اور پھر کیا انداز تھا اس کے چلنے، آنکھیں بند کرنے اور کھولنے کا ایسا لگتا تھا جیسے اسے کچھ پروا ہی نہیں۔ جب میں ضرورت سے زیادہ اس بلے کے بارے میں سوچنے لگا تو بڑی الجھن ہوئی۔ ایک معمولی سے حیوان کو اتنی اہمیت آخر میں کیوں دے رہا تھا، اس کا جواب نہ مجھے اس وقت ملا اور نہ اب، حالانکہ پورے تین مہینے گزر چکے ہیں۔ ‘‘

اس قدر کہہ کر زیدی خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا۔

’’بس!‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

زیدی نے سگریٹ کو ایش ٹرے پر رکھتے ہوئے کہا۔

’’میں صرف تم سے یہ کہہ رہا تھا کہ اس بِلّے کو میں نے اتنی اہمیت کیوں دی ہے، میں اتنا خوف کیوں کھاتا ہُوں۔ یہ معما ابھی تک مجھ سے حل نہیں ہوسکا۔ شاید تم مجھ سے بہتر سوچ سکو۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’مجھے پورے واقعات معلوم ہونے چاہئیں۔ ‘‘

زیدی نے ایش ٹرے پر سے سگریٹ اُٹھایا اور ایک کش لے کر کہا۔

’’میں بتا رہا ہوں۔ اس روز کے بعد کئی دن گزر گئے مگر وہ بلا نظر نہ آیا۔ شاید ہفتے کی رات تھی۔ میں باہر بالکنی میں سورہا تھا۔ دو بجے کے قریب کمرے میں کچھ شور ہوا جس سے میری نیند کھل گئی۔ اٹھ کر روشنی کی تو میں نے دیکھا کہ وہی بِلا کھانے والی میز پر کھڑا ڈش کا سر پوش اُتار کر پڈنگ کھا رہا ہے۔ میں نے شُش، شُش کی مگر وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ میری طرف اس نے بالکل نہ دیکھا۔ میں نے چپل کا ایک پیر اٹھایا اور نشانہ تان کر زور سے مارا۔ چپل اس کے پیٹ پر لگا مگر وہ اس چوٹ سے بے پروا پڈنگ کھاتا رہا۔ میں نے غصے میں آکر مسہری کا ڈنڈا اٹھایا اور پاس جا کر اس کی پیٹھ پر مارا۔ اس نے اور زیادہ بے پروائی سے میری طرف دیکھا۔ بڑے آرام سے کرسی پر کودا۔ آواز پیدا کیے بغیر فرش پر اُترا اور آہستہ آہستہ ٹہلتا بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکل کر چھجے پر کود گیا۔ میں حیران وہیں کھڑا رہا اور سوچنے لگا یہ کیسا حیوان ہے جس پر مار کا کچھ اثر ہی نہیں ہوا۔ سعادت! میں تم سے سچ کہتا ہوں بڑا خوفناک بلا ہے۔ یہ موٹا سر، رنگ سفید ہے، لیکن اکثر میلا رہتا ہے۔ میں نے ایسا غلیظ بلا اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ‘‘

زیدی نے ایش ٹرے میں سگریٹ بُجھایا اور خاموش ہو گیا۔ میں نے کہا۔

’’بِلّے بِلّیاں تو خود کو بہت صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ ‘‘

’’رکھتے ہیں۔ ‘‘

زیدی اٹھ کھڑا ہوا۔

’’لیکن یہ بلا شاید جان بوجھ کر خود کو غلیظ رکھتا ہے۔ لیٹتا ہے کوڑے کرکٹ کے پاس۔ کان سے لہو بہہ رہا ہے پر مجال ہے، اسے چاٹ کرصاف کرے۔ سر پھٹا ہوا ہے، پر اسے کچھ ہوش نہیں۔ بس، سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا:

’’لیکن اس میں خوف کھانے کی کیا بات ہے؟‘‘

زیدی بیٹھ گیا:

’’یہی تو میں خود دریافت کرنا چاہتا ہُوں۔ ڈر کی یوں تو ایک وجہ ہو بھی سکتی ہے۔ وہ یہ کہ دس پندرہ راتیں متواتر وہ مجھے جگاتا رہا۔ مجھ سے ہر دفعہ اس نے مار کھائی۔ بہت بری طرح پٹا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ میرے گھر کا رخ نہ کرتا کیونکہ آخرحیوانوں میں بھی عقل ہوتی ہے۔ میں سوچنے لگا کہ کسی روز ایسا نہ ہو مجھ پر جھپٹ پڑے اور آنکھ وانکھ نوچ لے۔ سُننے میں آیا ہے کہ اگر کسی بلے یا بلی کو گھیر کر مارا جائے تو وہ ضرور حملہ کرتے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’ڈرنے کی یہ وجہ تو معقول ہے۔ ‘‘

زیدی پھر اُٹھ کھڑا ہُوا۔

’’لیکن اس سے میری تسکین نہیں ہوتی۔ ‘‘

میرے دماغ میں ایک خیال آیا۔

’’تم اس کے ساتھ محبت پیار سے تو پیش آکر دیکھو۔ ‘‘

’’میں ایسا کر چکا ہوں۔ میرا خیال تھا اس قدر پٹنے پر وہ ہاتھ بھی نہیں لگانے دے گا۔ لیکن معاملہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔ برعکس بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اس نے میرے پیار کی بالکل پروا نہ کی۔ ایک روز میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا کہ وہ پاس آکر فرش پر بیٹھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس نے آنکھیں میچ لیں۔ یہ بڑھا ہوا ہاتھ میں نے اس کی پیٹھ پر آہستہ آہستہ پھیرنا شروع کیا۔ سعادت، تم یقین کرو وہ ویسے کا ویسا آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ پیار کا جواب بلے بلیاں اکثر دُم ہلا کر دیتے ہیں لیکن اس کم بخت کی دُم کا ایک بال بھی نہ ہلا۔ میں نے تنگ آکر اس کے سر پر کتاب دے ماری چوٹ کھا کر وہ اُٹھا۔ بڑی بے پروائی، ایک نہایت ہی دل شکن بے اعتنائی سے میری طرف پیلی پیلی آنکھوں سے دیکھا اور بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکل کر چھجے پر کود گیا۔ بس اس دن سے چوبیس گھنٹے وہ میرے دماغ میں رہنے لگا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر زیدی میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا اور زور زور سے اپنی ٹانگ ہلانے لگا۔ میں نے صرف اتنا کہا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

لیکن اتنا ضرور سمجھ میں آتا تھاکہ زیدی کا خوف بے بنیاد نہیں۔ زیدی دانتوں سے ناخن کاٹنے لگا۔

’’میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے پاس آیا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اُٹھا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد رکا اور ایش ٹرے میں بجھی ہوئی دیا سلائی اُٹھا کر اس کے ٹکڑے کرنے لگا۔

’’اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ رات بھر جاگتا رہتا ہوں۔ ذرا سی آہٹ ہوتی ہے تو سمجھتا ہوں وہی بلا ہے۔ لیکن آٹھ روز سے وہ کہیں غائب ہے۔ معلوم نہیں کسی نے مار ڈالا ہے، بیمار ہے یا کہیں اور چلا گیا ہے۔ ‘‘

میں نے کا۔

’’تم کیوں سوچتے ہو۔ اچھا ہے جو غائب ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’معلوم نہیں کیوں سوچتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ اس کم بخت کو بھول جاؤں مگر دماغ میں سے نکلتا ہی نہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ صوفے پر سر کے نیچے گدی رکھ کر لیٹ گیا۔

’’عجیب ہی قصّہ ہے کوئی اور سنے تو ہنسے کہ ایک بلے نے میری یہ حالت کردی ہے۔ بعض اوقات مجھے خود ہنسی آتی ہے۔ لیکن یہ ہنسی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ‘‘

زیدی نے یہ کہا اور مجھے احساس ہوا کہ واقعی اپنی بے بسی پر ہنستے ہوئے اسے بہت تکلیف ہوتی ہو گی جو کچھ اس نے بیان کیا تھا، بظاہر مضحکہ خیز تھا۔ لیکن یہ بالکل واضح تھا کہ اس بلے کے وجود میں زیدی کی زندگی کا کوئی بہت ہی اذیت دہ لمحہ پوشیدہ تھا۔ ایسا لمحہ جو اسے اب بالکل یاد نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’زیدی تمہارے ماضی میں کوئی ایسا حادثہ تو نہیں جس سے تم اس بلے کو متعلق کرسکو۔ میرا مطلب ہے کوئی ایسی چیز، کوئی ایسا واقعہ جس سے تم نے خوف کھایا ہو اور اس چیز یا واقعے کی شباہت اس بلے سے ملتی ہو؟‘‘

یہ کہہ کر میں نے سوچا کہ واقعے کی شباہت بلے سے کیسے مل سکتی ہے۔ زیدی نے جوا ب دیا۔

’’میں اس پر بھی غور کر چکا ہوں۔ میرے حافظے میں ایسا کوئی واقعہ یا ایسی کوئی چیز نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’ممکن ہے کبھی یاد آجائے۔ ‘‘

’’ایسا ہو سکتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر زیدی صوفے پر سے اُٹھا۔ چند منٹ ادھر ادھر کی باتیں کیں اور مجھے اور میری بیوی کو اتوار کی دعوت دے کر چلا گیا۔ اتوار کو میں اور میری بیوی سنٹا کروز گئے۔ میں نے شاید آپ کو پہلے نہیں بتایا۔ زیدی میرا پرانا دوست ہے۔ انٹرنس تک ہم دونوں ایک ہی اسکول میں تھے۔ کالج میں بھی ہم دو برس ایک ساتھ رہے۔ میں فیل ہو گیا اور وہ ایف اے پاس کرکے امرتسر چھوڑ کر لاہور چلا گیا جہاں اس نے ایم اے کیا اور چار پانچ برس بے کار رہنے کے بعد بمبئی چلا آیا۔ یہاں وہ ایک برس سے جہازوں کی ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد۔ ہم دیر تک نئے اور پرانے فلموں کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ زیدی کی بیوی اور میری بیوی، دونوں

’’بہت فلم دیکھو‘‘

قسم کی عورتیں ہیں، چنانچہ اس گفتگو میں زیادہ حصّہ انہی کا تھا۔ دونوں اُٹھ کر دوسرے کمرے میں جانے ہی والی تھیں کہ بالکنی کے کٹہرے کی سلاخوں سے ایک موٹا بلا اندر داخل ہوا۔ میں نے اور زیدی نے بیک وقت اس کی طرف دیکھا۔ زیدی کے چہرے سے مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ وہی بلا ہے۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ سر پر کانوں کے پاس ایک گہرا زخم تھا جس پر ہلدی لگی ہوئی تھی۔ بال بے حد میلے تھے۔ چال میں جیسا کہ زیدی نے کہا تھا کہ ایک عجیب قسم کی بے پروائی تھی۔ ہم چار آدمی کمرے میں موجود تھے مگر اس نے کسی کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ جب میری بیوی کے پاس سے گزرا تووہ چیخ اٹھی۔

’’یہ کیسا بلا ہے۔ سعادت صاحب۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

میری بیوی نے جواب دیا۔

’’پورا بدمعاش لگتا ہے۔ ‘‘

زیدی نے بوکھلا کر کہا۔

’’بدمعاش‘‘

میری بیوی شرما گئی۔

’’جی ہاں، ایسا ہی لگتا ہے۔ ‘‘

زیدی کچھ سوچنے لگا۔ دونوں عورتیں دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد زیدی اٹھا

’’سعادت، ذرا ادھر آؤ۔ ‘‘

مجھے بالکنی میں لے جا کر اس نے کہا۔

’’معمہ حل ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’تمہاری بیوی نے حل کردیا ہے۔ تم بھی سوچو کیا اس بلے کی شکل مس ٹین والے سے نہیں ملتی؟‘‘

’’مس ٹین والے سے‘‘

’’ہاں ہاں۔ اُس بدمعاش سے جو ہمارے اسکول کے باہر بیٹھا رہتا تھا۔ مصطفےٰ جسے مس ٹین والا کہا کرتے تھے۔ ‘‘

مجھے یاد آگیا۔ زیدی پر جو لڑکپن میں بہت خوبصورت تھا۔ مس ٹین والے کی خاص نظر تھی۔ لیکن میں سوچنے لگا بلے سے اس کی شکل کیسے ملتی ہے۔ نہیں ملتی تھی، اس کی چال میں بھی کچھ ایسے ہی بے پروائی تھی۔ سر اکثر پھٹا رہتا تھا۔ کئی دفعہ ہیڈماسٹر صاحب نے اسے لوگوں سے پٹوایا کہ وہ اسکول کے دروازے کے پاس نہ کھڑا رہا کرئے، مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ ایک لڑکے کے باپ نے اسے ہاکی سے اتنا مارا، اتنا مارا کہ لوگوں کا خیال تھا ہسپتال میں مر جائے گا، مگر دوسرے ہی روز وہ پھر اسکول کے گیٹ کے باہر موجود تھا۔ یہ سب باتیں ایک لحظے کے اندر اندر میرے دماغ میں اُبھریں میں نے زیدی سے کہا

’’تم ٹھیک کہتے ہو، مس ٹین والا بھی مار کھا کر خاموش رہا کرتا تھا۔ ‘‘

زیدی نے جواب نہ دیا، اس کے لیے وہ کچھ یاد کررہا تھا۔ چند لمحات خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔

’’میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ پڑھنے کے لیے ایک دفعہ اکیلا کمپنی باغ چلا گیا ایک درخت کے نیچے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ اچانک مس ٹین والا نمودار ہُوا۔ ہاتھ میں ایک خط تھا مجھ سے کہنے لگا۔

’’بابو جی، خط پڑھ دیجیے۔ ‘‘

میری جان ہوا ہو گئی۔ آس پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ مس ٹین والے نے خط میری ران پر بچھا دیا۔ میں اُٹھ بھاگا۔ اس نے میرا پیچھا کیا۔ لیکن میں اس قدر تیز دوڑا کہ وہ بہت پیچھے رہ گیا۔ گھر پہنچتے ہی مجھے تیز بخار چڑھا۔ دو دن تک ہذیانی کیفیت رہی۔ میری والدہ کا خیال تھا کہ جس درخت کے نیچے میں پڑھنے کے لیے بیٹھا تھا۔ آسیب زدہ تھا۔ زیدی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ بلا ہماری ٹانگوں میں سے گزر کر کٹہرے کی سلاخوں میں سے نکلا اور چھجے پر کود گیا۔ چھجے پر چند قدم چل کر اس نے مڑکر پیلی پیلی آنکھوں سے ہماری طرف اپنی مخصوص بے پروائی سے دیکھا۔ میں نے مسکرا کرکہا۔

’’مس ٹین والا!‘‘

زیدی جھینپ گیا۔

سعادت حسن منٹو

مِس مالا

گانے لکھنے والے عظیم گوبد پوری جب اے بی سی پروڈکشنر میں ملازم ہوا تو اس نے فوراً اپنے دوست میوزک ڈائریکٹر بھٹسا وے کے متعلق سوچا جو مرہٹہ تھا اور عظیم کے ساتھ کئی فلموں میں کام کر چکا تھا۔ عظیم اس کی اہلیتوں کو جانتا تھا۔ سٹنٹ فلموں میں آدمی اپنے جوہر کیا دکھا سکتا ہے، بے چارہ گمنامی کے گوشے میں پڑا تھا۔ عظیم نے چنانچہ اپنے سیٹھ سے بات کی اور کچھ اس انداز میں کی کہ اس نے بھٹساوے کو بلایا اور اس کے ساتھ ایک فلم کا کنٹریکٹ تین ہزار روپوں میں کرلیا۔ کنٹریکٹ پر دستخط کرتے ہی اسے پانچ سو روپے ملے جو اس نے اپنے قرض خواہوں کو ادا کردیے۔ عظیم گو بند پوری کا وہ بڑا شکر گزار تھا۔ چاہتا تھا کہ اس کی کوئی خدمت کرے، مگر اس نے سوچا، آدمی بے حد شریف ہے اور بے غرض۔ کوئی بات نہیں، آئندہ مہینے سہی۔ کیوں کہ ہر ماہ اسے پانچ سو روپے کنٹریکٹ کی رو سے ملنے تھے۔ اس نے عظیم سے کچھ نہ کہا۔ دونوں اپنے اپنے کام میں مشغول تھے۔ عظیم نے دس گانے لکھے جن میں سے سیٹھ نے چار پسند کیے۔ بھٹساوے نے موسیقی کے لحاظ سے صرف دو۔ ان کے اس نے عظیم کے اشتراک سے دھنیں تیار کیں جو بہت پسند کی گئیں۔ پندرہ بیس روز تک ریہرسلیں ہوتی رہیں۔ فلم کا پہلا گانا کورس تھا۔ اس کے لیے کم از کم دس گویا لڑکیاں درکار تھیں۔ پروڈکشن منیجر سے کہا گیا۔ مگر جب وہ انتظام نہ کرسکا تو بھٹساوے نے مس مالا کو بلایا جس کی آواز اچھی تھی۔ اس کے علاوہ وہ پانچ چھ اور لڑکیوں کو جانتی تھی جو سر میں گا لیتی تھی۔ مس مالا کھانڈیکر جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ کولہا پور کی مرہٹہ تھی۔ دوسروں کے مقابلہ میں اس کا اردو کا تلفظ زیادہ صاف تھا۔ اس کو یہ زبان بولنے کا شوق تھا۔ عمر کی زیادہ بڑی نہیں تھی۔ لیکن اس کے چہرے کا ہر خدوخال اپنی جگہ پر پختہ۔ باتیں بھی اسی انداز میں کرتی کہ معلوم ہوتا اچھی خاصی عمر کی ہے، زندگی کے اتار چڑھاؤ سے باخبر ہے۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کو بھائی جان کہتی اور ہر آنے والے سے بہت جلد گھل مل جاتی تھی۔ اس کو جب بھٹساوے نے بلایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اس کے ذمے یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ فوراً کورس کے لیے دس گانے والی لڑکیاں مہیاکردے۔ وہ دوسرے روز ہی بارہ لڑکیاں لے آئی۔ بھٹساوے نے ان کا ٹیسٹ لیا۔ سات کام کی نکلیں۔ باقی رخصت کردی گئیں۔ اس نے سوچا کہ چلو ٹھیک ہے۔ سات ہی کافی ہے۔ جگتاپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ سے مشورہ کیا، اس نے کہا کہ میں سب ٹھیک کرلوں گا۔ ایسی ریکارڈنگ کروں گا کہ لوگوں کو ایسا معلوم ہو گا بیس لڑکیاں گا رہی ہیں۔ جگتاپ اپنے فن کو سمجھتا تھا، چنانچہ اس نے ریکارڈنگ کے لیے ساؤنڈ پروف کمرے کے بجائے سازندوں اور گانے والیوں کو ایک ایسے کمرے میں بٹھایا جس کی دیواریں سخت تھیں، جن پر ایسا کوئی غلاف چڑھا ہوا نہیں تھا کہ آواز دب جائے۔ فلم

’’بے وفا‘‘

کا مہورت اسی کورس سے ہوا۔ سینکڑوں آدمی آئے۔ ان میں بڑے بڑے فلمی سیٹھ اور ڈسٹری بیوٹرز تھے۔ اے، بی، سی پروڈکشنز کے مالک نے بڑا اہتمام کیا ہوا تھا۔ پہلے گانے کی دو چار ریہرسلیں ہوئیں، مس مالا کھانڈیکر نے بھٹساوے کے ساتھ پورا تعاون کیا۔ سات لڑکیوں کو فرداً فرداً آگاہ کیا کہ خبردار رہیں اور کوئی مسئلہ پیدا نہ ہونے دیں۔ بھٹساوے پہلی ہی ریہرسل سے مطمئن تھا لیکن اس نے مزید اطمینان کی خاطر چند اور ریہرسلیں کرائیں، اس کے بعد جگتاپ سے کہا کہ وہ اپنا اطمینان کرلے، اس نے جب ساؤنڈ ٹریک میں یہ کورس پہلی مرتبہ ہیڈفون لگا کر سنا تو اس نے خوش ہوکربہت اونچا

’’اوکے‘‘

کہہ دیا۔ ہر ساز اور ہر آواز اپنے صحیح مقام پرتھی۔ مہمانوں کے لیے مائکرو فون کا انتظام کردیا گیا تھا۔ ریکاڈنگ شروع ہوئی تو اسے اون کردیا گیا۔ بھٹساوے کی آواز بھونپو سے نکلی۔ سونگ نمبر 1، ٹیک فرسٹ ریڈی، ون۔ ٹو۔ اور کورس شروع ہو گیا۔ بہت اچھی کمپوزیشن تھی۔ سات لڑکیوں میں سے کسی ایک نے بھی کہیں غلط سر نہ لگایا۔ مہمان بہت محظوظ ہوئے۔ سیٹھ، جوموسیقی کیا ہوتی ہے؟ اس سے بھی قطعاً نا آشنا تھا، بہت خوش ہوا، اس لیے کہ سارے مہمان اس کورس کی تعریف کررہے تھے۔ بھٹساوے نے سازندوں اور گانے والیوں کو شاباشیاں دیں۔ خاص طور پر اس نے مس مالا کا شکریہ ادا کیا جس نے اس کو اتنی جلدی گانے والیاں فراہم کردیں۔ اس کے بعد وہ جگتاپ ساؤنڈ ریکارڈسٹ سے گلے مل رہا تھا کہ اے، بی، سی پروڈکشنز کے مالک سیٹھ رنچھوڑ داس کا آدمی آیا کہ وہ اسے بلارہے ہیں، عظیم گوبندپوری کو بھی۔ دونوں بھاگے، اسٹوڈیو کے اس سرے پر گئے جہاں محفل جمی تھی۔ سیٹھ صاحب نے سب مہمانوں کے سامنے ایک سو روپے کا سبز نوٹ انعام کے طور پر پہلے بھٹساوے کو دیا۔ پھر دوسرا عظیم گوبندپوری کو، وہ مختصر سا باغیچہ جس میں مہمان بیٹھے تھے، تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔ جب مہورت کی یہ محفل برخواست ہوئی تو بھٹساوے نے عظیم سے کہا

’’مال پانی ہے چلو آؤٹ ڈور چلیں‘‘

عظیم اس کا مطلب نہ سمجھا۔

’’آؤٹ ڈور کہاں؟‘‘

بھٹساوے مسکرایا۔

’’مازے لگے(میرے لڑکے) موز شوک( موج شوق) کرنے جائیں گے۔ سو روپیہ تمہارے پاس ہے سو، ہمارے پاس۔ چلو‘‘

عظیم سمجھ گیا۔ لیکن وہ اس کے موز شوک سے ڈرتا تھا، اس کی بیوی تھی، دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی، اس نے کبھی عیاشی نہیں کی تھی۔ مگر اس وقت وہ خوش تھا۔ اس نے اپنے دل سے کہا۔ چلورے۔ دیکھیں گے کیا ہوتا ہے؟ بھٹساوے نے فوراً ٹیکسی منگوائی، دونوں اس میں بیٹھے اور گرانٹ روڈ پہنچے۔ عظیم نے پوچھا۔

’’ہم کہاں جارہے ہیں؟ بھٹساوے!‘‘

وہ مسکرایا۔

’’اپنی موسی کے گھر‘‘

اور جب وہ اپنی موسی کے گھر پہنچا تو وہ مس مالا کھانڈیکر کا گھر تھا۔ وہ ان دونوں سے بڑے تپاک کے ساتھ ملی، انھیں اندر اپنے کمرے میں لے گئی۔ ہوٹل سے چائے منگوا کر پلائی۔ بھٹساوے نے اس سے چائے پینے کے بعد کہا۔

’’ہم موز شوک کے لیے نکلے ہیں، تمہارے پاس۔ تم ہمارا کوئی بندوبست کرو۔ ‘‘

مالا سمجھ گئی وہ بھٹساوے کی احسان مند تھی۔ اس لیے اس نے فوراً مرہٹی زبان میں کہا جس کا یہ مطلب تھا کہ میں ہر خدمت کے لیے تیار ہوں۔ دراصل بھٹساوے عظیم کو خوش کرنا چاہتا تھا، اس لیے کہ اس نے اس کو ملازمت دلوائی تھی۔ چنانچہ بھٹساوے نے مس مالا سے کہا کہ وہ ایک لڑکی مہیا کردے۔ مس مالا نے اپنا میک اپ جلدی جلدی ٹھیک کیا اور تیار ہو گئی۔ سب ٹیکسی میں بیٹھے۔ پہلے مس مالا پلے بیک سنگر شانتا کرناکرن کے گھر گئی مگر وہ کسی اور کے ساتھ باہر جا چکی تھی۔ پھر وہ انسویا کے ہاں گئی۔ مگر وہ اس قابل نہیں تھی کہ ان کے ساتھ ایسی مہم پر جاسکے۔ مس مالا کو بہت افسوس تھا کہ اسے دو جگہ ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کو امید تھی کہ معاملہ ہو جائے گا چنانچہ ٹیکسی گول پیٹھا کی طرف چلی۔ وہاں کرشنا تھی۔ پندرہ سولہ برس کی گجراتی لڑکی، بڑی نرم و نازک سُر میں گاتی تھی۔ مالا اس کے گھر میں داخل ہوئی اور چند لمحات کے بعد اس کو ساتھ لیے باہر نکل آئی۔ بھٹساوے کو اس نے ہاتھ جوڑ کے نمسکار کیا اور عظیم کو بھی۔ مالا نے ٹھیٹ دلالوں کے سے انداز میں عظیم کو آنکھ ماری اور گویا خاموش زبان میں اس سے کہا۔

’’یہ آپ کے لیے ہے۔ ‘‘

بھٹساوے نے اس پر نگاہوں ہی نگاہوں میں صادرکردیا۔ کرشنا، عظیم گوبندپوری کے پاس بیٹھ گئی۔ چونکہ اس کو مالا نے سب کچھ بتا دیا تھا، اس لیے وہ اس سے چہلیں کرنے لگی۔ عظیم لڑکیوں کا سا حجاب محسوس کررہا تھا۔ بھٹساوے کو اس کی طبیعت کا علم تھا۔ اس لیے اس نے ٹیکسی ایک بارک کے سامنے ٹھہرائی، صرف عظیم کو اپنے ساتھ اندر لے گیا۔ نغمہ نگار نے صرف ایک دو مرتبہ پی تھی، وہ بھی کاروباری سلسلے میں۔ یہ بھی کاروباری سلسلہ تھا۔ چنانچہ اس نے بھٹساوے کے اصرار پر دو پیگ رم کے پیے اور اس کو نشہ ہو گیا۔ بھٹساوے نے ایک بوتل خرید کے اپنے ساتھ رکھ لی۔ اب وہ پھر ٹیکسی میں تھے۔ عظیم کو اس بات کا قطعاً علم نہیں تھا کہ اس کا دوست بھٹساوے دو گلاس اور سوڈے کی بوتلیں بھی ساتھ لے آیا ہے۔ عظیم کو بعد میں معلوم ہوا کہ بھٹساوے پلے بیک سنگر کرشناکی ماں سے یہ کہہ آیا تھا کہ جو کورس دن میں لیا گیا تھا، اس کے جتنے ٹیک تھے سب خراب نکلے ہیں اس لیے رات کو پھر ریکارڈنگ ہو گی۔ اس کی ماں ویسے کرشنا کو باہر جانے کی اجازت کبھی نہ دیتی۔ مگر جب بھٹساوے نے کہا کہ اسے اور روپے ملیں گے تو اس نے اپنی بیٹی سے کہا جلدی جاؤ اور فارغ ہو کر سیدھی یہاں آؤ۔ وہاں اسٹوڈیو میں نہ بیٹھی رہنا۔ ٹیکسی ورلی پہنچی، یعنی ساحلِ سمندر کے پاس۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں عیش پرست کسی نہ کسی عورت کو بغل میں دبائے آیا کرتے۔ ایک پہاڑی سی تھی، معلوم نہیں مصنوعی یا قدرتی۔ اس پر چڑھتے۔ کافی وسیع وعریض سطح مرتفع قسم کی جگہ تھی۔ اس میں لمبے فاصلوں پر بنچیں رکھی ہوئی تھیں، جن پرصرف ایک ایک جوڑا بیٹھتا۔ سب کے درمیان ان لکھا سمجھوتا تھا۔ کہ وہ ایک دوسرے کے معاملے میں مخل نہ ہوں۔ بھٹساوے نے جو کہ عظیم کی دعوت کرنا چاہتا تھا ورلی کی پہاڑی پر کرشنا کو اس کے سپرد کردیا۔ اور خود مالا کے ساتھ ٹہلتا ٹہلتا ایک جانب چلا گیا۔ عظیم اور بھٹساوے میں ڈیڑھ سو گز کا فاصلہ ہو گا۔ عظیم جس نے غیر عورت کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ محسوس کیا تھا۔ جب کرشنا کو اپنے ساتھ لگے دیکھا تو اس کا ایمان متزلزل ہو گیا۔ کرشنا ٹھیٹ مرہٹی لڑکی تھی، سانولی سلونی، بڑی مضبوط، شدید طور پر جوان اور اس میں وہ تمام دعوتیں تھیں جو کسی کھل کھیلنے والی میں ہو سکتی ہیں، عظیم چونکے نشے میں تھا، اس لیے وہ اپنی بیوی کو بھول گیا اور اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کرشنا کو تھوڑے عرصے کے لیے بیوی بنالے۔ اس کے دماغ میں مختلف شرارتیں پیدا ہورہی تھیں۔ کچھ رم کے باعث اور کچھ کرشنا کی قربت کی وجہ سے۔ عام طور پروہ بہت سنجیدہ رہتا تھا۔ بڑا کم گو۔ لیکن اس وقت اس نے کرشنا کے گدگدی کی۔ اس کو کئی لطیفے اپنی ٹوٹی پھوٹی گجراتی میں سنائے۔ پھر جانے اسے کیا خیال آیا کہ زور سے بھٹساوے کو آواز دی اور کہا۔

’’پولیس آرہی ہے۔ پولیس آرہی ہے۔ ‘‘

بھٹساوے، مالا کے ساتھ آیا۔ عظیم کو موٹی سی گالی دی اور ہنسنے لگا وہ سمجھ گیا تھا کہ عظیم نے اس سے مذاق کیا ہے۔ لیکن اس نے سوچا، بہتریہی ہے کسی ہوٹل میں چلیں، جہاں پولیس کا خطرہ نہ ہو۔ چاروں اٹھ رہے تھے کہ پیلی پگڑی والا نمودار ہوا۔ اس نے ٹھیٹ سپاہیانہ انداز میں پوچھا۔

’’تم لوگ رات کے گیارہ بجے یہاں کیا کررہا ہے؟ مالوم نہیں، دس بجے سے پیچھے یہاں بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے، کانون ہے۔ ‘‘

عظیم نے سنتری سے کہا۔

’’جناب اپن فلم کا آدمی ہے، یہ چھوکری، اس نے کرشنا کی طرف دیکھا۔ یہ بھی فلم میں کام کرتی ہے۔ ہم لوگ کسی برے خیال سے یہاں نہیں آئے، یہاں پاس ہی جو اسٹوڈیو ہے، اس میں کام کرتے ہیں، تھک جاتے ہیں تو یہاں چلے آتے ہیں کہ تھوڑی سی تفریح ہو گئی، بارہ بجے ہماری شوٹنگ پھر شروع ہونے والی ہے۔ ‘‘

پیلی پگڑی والا مطمئن ہو گیا، پھر وہ بھٹساوے سے مخاطب ہوا۔

’’تم ادھر کیوں بیٹھا ہے؟‘‘

بھٹساوے پہلے گھبرایا۔ لیکن فوراً سنبھل کر اس نے مالا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور سنتری سے کہا۔

’’یہ ہمارا وائف ہے، ہماری ٹیکسی نیچے کھڑی ہے۔ ‘‘

تھوڑی سی اور گفتگو ہوئی اور چاروں کی خلاصی ہو گئی۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیکسی میں بیٹھ کر سوچا کہ کس ہوٹل میں چلیں۔ عظیم کو ایسے ہوٹلوں کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ جہاں آدمی چند گھنٹوں کے لیے کسی غیر عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرسکے۔ بھٹساوے نے بیکار اس سے مشورہ کیا۔ چنانچہ اس کو فوراً ڈوک یارڈ کا سی ویو ہوٹل یاد آیا اور اس نے ٹیکسی والے سے کہا کہ وہاں لے چلو۔ سی ویو ہوٹل میں بھٹساوے نے دو کمرے لیے۔ ایک میں عظیم اور شانتا چلے گئے، دوسرے میں بھٹساوے اور مس مالاکھانڈیکر۔ کرشنا بدستور مجسم دعوت تھی، لیکن عظیم جس نے دو پیگ اور پی لیے تھے، فلسفی رنگ اختیار کرگیا تھا، اس نے کرشنا کو غور سے دیکھا اور سوچا کہ اتنی کم عمر کی لڑکی نے گناہ کا یہ بھیانک رستہ کیوں اختیار کیا؟ خون کی کمی کے باوجود اس میں اتنی تپش کیوں ہے؟۔ کب تک یہ نرم و نازک لڑکی جو گوشت نہیں کھاتی اپنا گوشت پوست بیچتی رہے گی؟ عظیم کو اس پر بڑا ترس آیا، چنانچہ اس نے واعظ بن کر اس سے کہنا شروع کیا۔

’’کرشنا معصیت کی زندگی سے کنارہ کش ہو جاؤ، خدا کے لیے اس راستے سے جس پر کہ تم گامزن ہو، اپنے قدم ہٹالو، یہ تمہیں ایسے مہیب غار میں لے جائے گا، جہاں سے تم نکل نہیں سکو گی۔ عصمت فروشی انسان کا بدترین فعل ہے۔ یہ رات اپنی زندگی کی روشن رات سمجھو، اس لیے کہ میں نے تمہیں نیک و بد سمجھا دیا ہے۔ ‘‘

کرشنا نے اس کا جو مطلب سمجھا وہ یہ تھاکہ عظیم اس سے محبت کررہا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے ساتھ چمٹ گئی اورعظیم اپنا گناہ وثواب کا مسئلہ بھول گیا۔ بعد میں وہ بڑا نادم ہوا۔ کمرے سے باہر نکلا تو بھٹساوے برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ کچھ اس انداز سے جیسے اس کو بھڑوں کے پورے چھتے نے کاٹ لیا ہے اور ڈنگ اس کے جسم میں کھبے ہوئے ہیں۔ عظیم کو دیکھ کر وہ رک گیا، مطمئن کرشنا کی طرف ایک نگاہ ڈالی اور پیج وتاب کھا کر عظیم سے کہا۔

’’وہ سالی چلی گئی۔ ‘‘

عظیم جو اپنی ندامت میں ڈوبا تھا، چونکا۔

’’کون؟‘‘

’’وہی، مالا‘‘

’’کیوں؟‘‘

بھٹساوے کے لہجے میں عجیب وغریب احتجاج تھا، ہم اس کو اتنا وخت چومتے رہے جب بولا کہ آؤ تو سالی کہنے لگی۔

’’تم ہمارا بھائی ہے۔ ہم نے کسی سے شادی کرلی ہے۔

’’۔ اور باہر نکل گئی کہ وہ سالا گھر میں آگیا ہو گا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

مس فریا

شادی کے ایک مہینے بعد سہیل پریشان ہو گیا۔ اس کی راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بچہ کم از کم تین سال کے بعد پیدا ہو گا مگر اب ایک دم یہ معلوم کرکے اس کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی کہ جس بچے کا اس کو وہم و گمان بھی نہیں تھا اس کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ اس کی بیوی کو بھی اتنی جلدی ماں بننے کا شوق نہیں تھا اور سچ پوچھیے تو وہ ابھی خود بچہ تھی۔ چودہ پندرہ برس کی عمر کیا ہوتی۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے عائشہ گڑیاں کھیلتی تھی اور صرف پانچ مہینے کی بات ہے کہ سہیل نے اسے گلی میں جنگلی بلی کی طرح نکمے چنوں پر خوانچے والے سے لڑتے جھگڑتے دیکھا تھا۔ منہ لال کیے وہ اس سے کہہ رہی تھی۔

’’تم نے مجھے کل بھی کھیلیں اسی طرح کم کردی تھیں، تم بے ایمان ہو۔ میرے پیسے کیا مفت کے آتے ہیں جو میں تول میں ہر بار کم چیز لے لوں۔ ‘‘

اور اس نے زبردستی جھپٹا مار کر مٹھی بھر نمکین چنے اس کے خوانچے سے اُٹھا لیے تھے۔ اب سہیل یہ منظر یاد کرتا اور سوچتا کہ عائشہ کی گود میں بچہ ہو گا جب وہ گھر جاتے ہوئے ٹرین کا سفرکرے گی تو اپنے اس ننھے کو اسی طرح دُودھ پلائے گی جس طرح ریل کے ڈبوں میں دوسری عورتیں پلایا کرتی ہیں۔ اس کی لڑکی یا لڑکا اسی طرح چُسر چُسر کرے گا۔ اسی طرح ہونٹ سکیڑ کر روئے گا، تو وہ عائشہ سے کہے گا۔

’’بچہ رو رو کر ہلکان ہُوا جارہا ہے اور تم کھڑکی میں سے باہر کا تماشہ دیکھ رہی ہو‘‘

۔ اس کا تصور کرتے ہی سہیل کا حلق سوکھ جاتا ہے۔

’’اس عمرمیں بچہ؟۔ بھئی میرا تو ستیاناس ہو جائے گا۔ ساری شاعری تباہ ہو جائے گی۔ وہ ماں بن جائے گی۔ میں باپ بن جاؤں گا۔ شادی کا باقی رہے گا کیا؟۔ صرف ایک مہینہ جس میں ہم دونوں میاں بیوی بن کے رہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ اولاد کا سلسلہ کیوں میاں بیوی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اولاد بُری چیز ہے۔ بچے پیدا ہوں پر اس وقت جب ان کی خواہش کی جائے یہ نہیں کہ بِن بُلائے مہمانوں کی طرح آن ٹپکیں۔ میں خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا۔ کیسے کیسے حسین خیال میرے دماغ میں پیدا ہورہے تھے۔ شروع شروع کے دن تو ایک عجیب قسم کی افراتفری میں گزرے تھے۔ اب ایک مہینے کے بعد سب چیزوں کی نوک پلک درست ہوئی تھی۔ اب شادی کا اصلی لطف آنے لگا تھا کہ بیٹھے بٹھائے یہ آفت آگئی۔ ابھی جانے کتنے اور ہوں۔ ‘‘

سہیل پریشان ہو گیا۔ اگر دفعتہً آسمان سے کوئی جہاز بم برسانا شروع کردیتا تووہ اس قدر پریشان نہ ہوتا مگر اس حادثے نے اس کا دماغی توازن درہم برہم کردیا تھا۔ وہ اتنی جلدی باپ نہیں بننا چاہتا تھا۔

’’میں اگرباپ بن جاؤں تو کوئی ہرج نہیں مگر مصیبت یہ کہ عائشہ ماں بن جائے گی۔ اسکو اتنی جلدی ہرگز ہرگز ماں نہیں بننا چاہیے۔ وہ جوانی کہاں رہے گی اس کی جس کو میں اب بھی شادی ہونے کے بعد بھی کنکھیوں سے دیکھتا ہُوں اور ایک لرزش سی اپنے خیالات میں محسوس کرتا ہوں۔ اسکی تیزی و طراری کہاں رہے گی۔ وہ بھولا پن جو اب مجھے عائشہ میں نظر آتا ہے ماں بن کر بالکل غائب ہو جائے گا۔ وہ کھلنڈرا پن جو اس کی رگوں میں پھڑکتا ہے مُردہ ہو جائے گا۔ وہ ماں بن جائے گی، اور صابن کے جھاگ کی طرح اس کی تمام چلبلاہٹیں بیٹھ جائیں گی۔ گود میں ایک چھوٹے سے روتے پلے کو لیے کبھی وہ میز پر پیپر ویٹ اُٹھا کر بجائے گی، کبھی کنڈی ہلائے گی اور کبھی کن سری تانوں میں اوٹ پٹانگ لوریاں سنائے گی۔ واللہ میں تو پاگل ہو جاؤں گا۔ ‘‘

سہیل کو دیوانگی کی حد تک اس حادثے نے پریشان کر رکھا تھا۔ تین چار دن تک اس کی پریشانی کا کسی کو علم نہ ہوا۔ مگر اس کے بعد جب اس کا چہرہ فکر و تردّو کے باعث مُرجھا سا گیا تو ایک دن اُس کی ماں نے کہا

’’سہیل کیا بات ہے، آج کل تم بہت اداس اداس رہتے ہو۔ ‘‘

سہیل نے جواب دیا۔

’’کوئی بات نہیں امی جان۔ موسم ہی کچھ ایسا ہے۔ ‘‘

۔ موسم بے حد اچھا تھا۔ ہوا میں لطافت تھی۔ وکٹوریہ گارڈن میں جب وہ سیر کے لیے گیا تو اسے بیشمار پھول کھلے ہُوئے نظر آتے تھے۔ ہر رنگ کے ہر یاول بھی عام تھے۔ درختوں کے پتے اب مٹیالے نہیں تھے۔ ہر شے دُھلی ہوئی نظر آتی تھی۔ مگر سہیل نے اپنی اداسی کا باعث موسم کی خرابی بتایا۔ ماں نے جب یہ بات سنی تو کہا۔

’’سہیل تو مجھ سے چھپاتا ہے۔ دیکھ، سچ سچ بتاؤ کیا بات ہے۔ عائشہ نے تو کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی۔ سہیل کے جی میں آئی کہ اپنی ماں سے کہہ دے۔

’’ایسی ویسی بات؟۔ امی جان اس نے ایسی بات کی ہے کہ میری زندگی تباہ ہو گئی ہے۔ مجھ سے پوچھے بغیر اس نے ماں بننے کا ارادہ کرلیا ہے۔ ‘‘

مگر اس نے یہ بات نہ کہی اس لیے کہ یہ سن کر اس کی ماں یقینی طور پر خوش ہوتی۔

’’نہیں امی۔ عائشہ نے کوئی ایسی بات نہیں کی وہ تو بہت ہی اچھی لڑکی ہے۔ آپ سے تو اسے بے پناہ محبت ہے۔ دراصل میری اداسی کا باعث۔ لیکن امی جان میں تو بہت خوش ہوں۔ یہ سن کر اس کی ماں نے دعائیہ لہجے میں کہا۔

’’اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے عائشہ واقعی بہت اچھی لڑکی ہے۔ میں تو اسے بالکل اپنی بیٹی کی طرح سمجھتی ہوں۔ اچھا، پر سہیل یہ تو بتا اب میرے دل کی مراد کب پوری ہو گی۔ ‘‘

سہیل نے مصنوعی لاعلمی کا اظہار کرتے ہُوئے پوچھا۔

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘

’’تو سب سمجھتا ہے۔ میں پوچھتی ہوں کب تیرا لڑکا میری گود میں کھیلے گا۔ سہیل دل کی ایک آرزو تھی کہ تجھے دلہا بنتا دیکھوں، سو یہ آرزو خدا نے پوری کردی۔ اب اس بات کی تمنا ہے کہ تجھے پھلتا پھولتا بھی دیکھوں۔ ‘‘

سہیل نے اپنی ماں کے کاندھے پرہاتھ رکھا اور کھسیانی ہنسی کے ساتھ کہا۔

’’امی جان، آپ تو ہر وقت ایسی ہی باتیں کرتی رہتی ہیں، دو برس تک میں بالکل اولاد نہیں چاہتا۔ ‘‘

’’دو برس تک تُو۔ بالکل اولاد نہیں چاہتا، کیسے؟۔ یعنی تو اگر نہیں چاہے گا تو بچی بچہ نہیں ہو گا؟۔ واہ، ایسا بھلا کبھی ہو سکتا ہے۔ اولاد دینا نہ دینا اس کے ہاتھ میں ہے اور ضرور دے گا۔ اللہ کے حکم سے کل ہی میری گود میں پوتا کھیل رہا ہو گا۔ ‘‘

سہیل نے اس کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ وہ کہتا بھی کیا۔ اگر وہ اپنی ماں کو بتا دیتا کہ عائشہ حاملہ ہوچکی ہے تو ظاہر ہے کہ سارا راز فاش ہو جاتا اور وہ بچے کی پیدائش روکنے کے لیے کچھ بھی نہ کرسکتا۔ شروع شروع میں اس نے سوچا تھا کہ شاید کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے۔ اس نے اپنے شادی شدہ دوستوں سے سُنا تھا کہ عورتوں کے حساب و کتاب میں کبھی کبھی ایسا ہیر پھیر ہو جایا کرتا ہے، ابھی تک یہ خیال اس کے دماغ میں جما ہوا تھا۔ اس کے موہوم ہونے پر بھی، اس کو امید تھی کہ چند ہی دنوں میں مطلع صاف ہو جائے گا۔ پندرہ بیس دن گزر گئے مگر مطلع صاف نہ ہوا، اب اسکی پریشانی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ وہ جب بھولی بھالی عائشہ کی طرف دیکھتا تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ کسی مداری کے تھیلے کی طرف دیکھ رہا ہے۔

’’آج عائشہ میرے سامنے کھڑی ہے۔ کتنی اچھی لگتی ہے لیکن مہینوں میں اس کا پیٹ پھول کر ٹھلیا بن جائے گا۔ ہاتھ پیر سُوج جائیں گے۔ ہوا میں عجیب عجیب خوشبوئیں اور بدبوئیں سونگھتی پھرے گی۔ قے کرے گی اور خدا معلوم کیا سے کیا بن جائے گی!‘‘

سہیل نے اپنی پریشانی ماں سے چھپائے رکھی، بہن کو بھی پتہ نہ چلنے دیا مگر بیوی کو معلوم ہو ہی گیا۔ ایک روز سونے سے پہلے عائشہ نے بڑے تشویشناک لہجے میں اس سے کہا۔

’’کچھ دنوں سے آپ مجھے بے حد مضطرب نظر آتے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟‘‘

لُطف یہ ہے کہ عائشہ کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ ایک دو بار اس نے سہیل سے کہا تھا کہ یہ اب کی دفعہ کیا ہو گیا ہے تو سہیل نے بات گول مول کردی تھی اور کہا تھا کہ شادی کے بعد بہت سی تبدیلیاں ہو جاتی ہیں۔ ممکن ہے کوئی ایسی ہی تبدیلی ہو گئی ہو۔ ‘‘

مگر اب اسے سچی بات بتانا ہی پڑی۔

’’عائشہ میں اس لیے پریشان ہوں کہ تم۔ تم اب ماں بننے والی ہو۔ ‘‘

عائشہ شرما گئی۔

’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیسی باتیں کرتا ہوں۔ اب جو حقیقت ہے میں نے تم سے کہہ دی ہے تمہارے لیے یہ خوشخبری ہو گی مگر خدا کی قسم اس نے مجھے کئی دنوں سے پاگل بنا رکھا ہے۔ ‘‘

عائشہ نے جب سہیل کو سنجیدہ دیکھا تو کہا۔

’’تو۔ تو۔ کیا سچ مچ؟۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں۔ سچ مچ۔ تم ماں بننے والی ہو۔ خدا کی قسم جب میں سوچتا ہوں کہ چند مہینوں ہی میں تم کچھ اور ہی بن جاؤ گی تو میرے دماغ میں ایک ہل چل سی مچ جاتی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اتنی جلدی بچہ پیدا ہو۔ اب خدا کے لیے تم کچھ کرو۔ ‘‘

عائشہ یہ بات سن کر صرف محجوب سی ہو گئی تھی۔ حجاب کے علاوہ اس نے ہونے والے بچے کے متعلق کچھ بھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ دراصل یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکی تھی کہ اسے خوش ہونا چاہیے یا گھبراہٹ کا اظہار کرنا چاہیے اس کو معلوم تھا کہ جب شادی ہُوئی ہے تو بچہ ضرور پیدا ہو گا مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ سہیل اتنا پریشان ہو جائے گا۔ سہیل نے اس کو خاموش دیکھ کر کہا۔

’’اب سوچتی کیا ہو۔ کچھ کرو تاکہ اس بچے کی مصیبت ٹلے۔ ‘‘

عائشہ دل ہی دل میں ہونے والے بچے کے ننھے ننھے کپڑوں کے متعلق سوچ رہی تھی، سہیل کی آواز نے اسے چونکا دیا۔

’’کیا کہا؟‘‘

’’میں کہتا ہوں کچھ بندوبست کرو کہ یہ بچہ پیدا نہ ہو۔ ‘‘

’’بتائیے میں کیا کروں؟‘‘

’’اگرمجھے معلوم ہوتا تو میں تم سے کیوں کہتا۔ تم عورت ہو۔ عورتوں سے ملتی رہی ہو۔ شادی پر تمہاری بیاہی ہُوئی سہیلیوں نے تمہیں کئی مشورے دیے ہونگے یاد کرو، کسی سے پوچھو۔ کوئی نہ کوئی ترکیب تو ضرور ہو گی۔ ‘‘

عائشہ نے اپنے حافظہ پر زور دیا۔ مگر اسے کوئی ایسی ترکیب یاد نہ آئی مجھے تو آج تک کسی نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ پر میں پوچھتی ہُوں کہ اتنے دن آپ نے مجھ سے کیوں نہ کہا۔ جب بھی میں نے آپ سے اس بارے میں بات چیت کی آپ نے ٹال دیا۔ ‘‘

’’میں نے تمہیں پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ بھی سوچتا رہا کہ شاید میرا واہمہ ہو، پر اب کہ بات بالکل پکی ہو گئی ہے۔ تمہیں بتانا ہی پڑا۔ عائشہ اگر اس کا کوئی علاج نہ ہوا تو خدا کی قسم بہت بڑی آفت آجائے گی۔ آدمی شادی کرتا ہے کہ چند برس ہنسی خوشی میں گُزارے، یہ نہیں کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑیں۔ جھٹ سے ایک بچہ پیدا ہو جائے۔ کسی ڈاکٹر سے مشورہ لیتا ہُوں۔ ‘‘

عائشہ نے جو اب دماغی طور پر سہیل کی پریشانی میں شریک ہو چکی تھی۔

’’کہا’ہاں‘ کسی ڈاکٹر سے ضرور مشورہ لینا چاہیے۔ میں بھی چاہتی ہوں کہ بچہ اتنی جلدی نہ ہو۔ ‘‘

سہیل نے سوچنا شروع کیا۔ پولینڈ کا ایک ڈاکٹر اس کا واقف تھا، پچھلے دنوں جب شراب کی بندش ہوئی تھی تو وہ اس ڈاکٹر کے ذریعہ ہی سے وسکی حاصل کرتا تھا۔ پر اب وہ دیو لالی میں نظر بند تھا۔ کیونکہ حکومت کو اس کی حر کات و سکنات پر شبہ ہو گیا تھا۔ یہ ڈاکٹر اگر نظر بند نہ ہوتا تو یقیناً سہیل کا کام کردیتا۔ اس پولستانی ڈاکٹر کے علاوہ ایک یہودی ڈاکٹرکو بھی وہ جانتا تھا جس سے اس نے اپنی چھاتی کے درد کا علاج کرایا تھا سہیل اس کے پاس چلا جاتا مگر اس کا چہرہ اتنا رعب دار تھا کہ وہ اس سے ایسی بات کے متعلق ارادے کے باوجود مشورہ نہ لے سکتا۔ یوں تو بمبئی میں ہزاروں ڈاکٹر موجود تھے مگر بغیر واقفیت اس معاملے کے متعلق بات چیت ناممکن تھی۔ بہت دیر تک غور و فکر کرنے کے بعد معاً اس کو مس فریا کا خیال آیا جو ناگپاڑے میں پریکٹس کرتی تھی اور اس کا خیال آتے ہی مس فریا اس کے آنکھوں کے سامنے آگئی۔ موٹے اور بھاری جسم کی یہ کرسچین عورت عجیب و غریب کپڑے پہنتی تھی۔ ناگپاڑے میں کئی یہودی، کرسچین اور پارسی لڑکیاں رہتی ہیں۔ سہیل نے ان کو ہمیشہ چست اور شوخ رنگ لباسوں میں دیکھا تھا۔ سکرٹ گھٹنوں سے ذرا نیچی، ننگی پنڈلیاں، اونچی ایڑی کی سینڈل، سر کے بال کٹے ہُوئے، ان میں لہریں پیدا کرنے کے نئے نئے طریقے، ہونٹوں پر گاڑی سرخی، گالوں پر اُڑے اُڑے رنگ کا غازہ، بھویں موند کر تیکھی بنائی ہوئی۔ ان لڑکیوں کا بناؤ سنگھار کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ نگاہیں ان چیزوں کو پہلے دیکھتی تھیں جن سے عورت بنتی ہے۔ مگر مس فریا ٹخنوں تک لمبا ڈھیلا ڈھالا فراک پہنتی تھی۔ پنڈلیاں ہمیشہ موٹی جرابوں سے ڈھکی رہتی تھیں۔ شو پہنتی تھی بہت ہی پرانے فیشن کے بال کٹے ہُوئے تھے مگر ان میں لہریں پیدا کرنے کی طرف وہ کبھی توجہ ہی نہیں دیتی تھی، اس بے توجہی کے باعث اس کے بالوں میں ایک عجیب قسم کی بے جانی اور خشکی پیدا ہو گئی تھی۔ رنگ کالا تھا جو کبھی کبھی سنولا ہٹ بھی اختیار کرلیتا تھا۔ عائشہ نے تھوڑی دیر تک بچے کی پیدائش کے متعلق غور کیا اور سہیل کے پہلو میں سو گئی۔ غور و فکر ہمیشہ اس کو سلا دیا کرتا تھا۔ عائشہ سو گئی مگر سہیل جاگتا رہا اور مس فریا کے متعلق سوچتا رہا۔ ٹھیک ایک برس پہلے انہی دنوں میں جب اس کے کمرے میں نہ یہ نیا پلنگ تھا جو عائشہ جہیز میں لائی تھی۔ اور نہ خود عائشہ تھی تو سہیل نے ایک بار مس فریا کو خاص زاویے سے دیکھا تھا۔ سہیل کی بہن کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ بچہ کب پیدا ہو گا۔ مس فریا کو بلایا گیا تھا۔ سہیل تازہ تازہ بمبئی آیا تھا۔ ناگپاڑے کی شوخ تیتریاں دیکھ دیکھ کر جو بالکل اس کے پاس سے پھڑپھڑاتی ہوئی گزر جاتی تھیں اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی تھی کہ وہ ان سب کو پکڑ کر اپنی جیب میں رکھ لے مگر جب یہ خواہش پوری نہ ہُوئی اور وہ ناامیدی کی حد تک پہنچ گیا تو اسے مس فریا دکھائی دی۔ پہلی نظر میں سہیل کے جمالیاتی ذوق کو صدمہ سا پہنچا۔

’’کیسی بے ڈول عورت ہے۔ لباس کیسا بیہودہ ہے اور قد۔ تھوڑے ہی دنوں میں بھینس بن جائے گی۔ ‘‘

مس فریا نے اس روز کالے رنگ کی جالی دار ٹوپی پہن رکھی تھی۔ جس میں تین چار شوخ رنگ کے پھندنے لگے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ کیچڑ میں آلوچے گرپڑے ہیں۔ فراک جو ٹخنوں تک بڑے اُداس انداز میں لٹک رہا تھا چھپی ہُوئی جارجٹ کا تھا۔ پھول خوشنما تھے، کپڑا بھی اچھا تھا مگر بہت ہی بھونڈے طریقے پر سیا گیا تھا۔ مس فریا جب دوسرے کمرے سے فارغ ہو کر آئی تو اس نے سہیل سے انگریزی میں کہا۔

’’غسل خانہ کدھر ہے۔ مجھے ہاتھ دھونے ہیں۔ ‘‘

غسل خانے میں سہیل نے مس فریا کو بہت قریب سے دیکھا تو اسے نسوانیت کے کئی ذرّے اس کے ساتھ چمٹے ہُوئے نظر آئے۔ سہیل نے اب اسے پسند کرنے کی نیت سے دیکھنا شروع کیا۔

’’بُری نہیں۔ آنکھیں خوبصورت ہیں۔ میک اپ نہیں کرتی تو کیا ہوا۔ ٹھیک ہے۔ ہاتھ کیسے اچھے ہیں۔ ‘‘

مس فریا کے بالائی ہونٹ پر ہلکی ہلکی مونچھیں تھیں۔ کام کرنے کے باعث پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو گئی تھیں۔ سہیل نے جب انکی طرف دیکھا تو مس فریا اسے پسند آگئی۔ پسینے کی یہ پھوار سی جو اس کی مونچھوں کی روئیں پر کپکپارہی تھی اسے بہت ہی بھلی معلوم ہُوئی۔ سہیل کے جی میں آئی کہ وہ کچھ کرنا شروع کردے جس سے اس کا سارا جسم عرق آلود ہو جائے۔ مس فریا جب ہاتھ پونچھ کر فارغ ہو گئی تو اس نے سہیل کی ماں سے کہا۔

’’آپ ان کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے میں دوا تیار کرکے دے دوں گی اور استعمال کرنے کی ترکیب بھی سمجھا دوں گی۔ ‘‘

ناگپاڑے تک جہاں وہ پریکٹس کرتی تھی، وکٹوریہ میں، سہیل نے اس سے کوئی خاص بات نہ کی۔ کونین کے متعلق اس نے چند باتیں دریافت کیں کہ ملیریا میں کتنی مقدار اسکی کھانی چاہیے۔ پھر اس نے دانتوں کی صفائی کے بارے میں اس سے کچھ معلومات حاصل کیں کہ اتنے میں وہ جگہ آگئی جہاں مس فریا۔ ایم۔ بی بی۔ ایس کا بورڈ لٹکا رہتا تھا۔ پہلی منزل کے ایک کمرے میں مس فریا کا مطب تھا۔ اس کمرے کے دو حصے کیے گئے تھے، ایک حصے میں مس فریا کی میز تھی جہاں وہ عام طور پر بیٹھتی تھی۔ دوسرے حصّے میں اس کی ڈسپنسری تھی۔ ڈسپنسری کی دو الماریوں کے علاوہ وہاں ایک چھوٹا سا تخت بھی تھا جس پر غالباً وہ مریض لٹا کر دیکھا کرتی تھی۔ مس فریا نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی ٹوپی اُتار دی اور ایک کیل پر لٹکا دی۔ سہیل اس بنچ پر بیٹھ گیا جومیز کے پاس بچھی تھی۔ ٹوپی اتار کر مس فریا نے نیم انگریزی اور نیم ہندوستان لہجہ میں آواز دی، چھوکرا۔ کمرے کے دوسرے حصّے سے ایک مریل سا آدمی نکل آیا اور کہنے لگا۔

’’ہاں میم صاحب۔ ‘‘

میم صاحب کچھ نہ بولیں اور دوا بنانے کے لیے اندر چلی گئیں۔ سہیل اس دوران میں سوچتا رہا کہ مس فریا سے کسی طرح دوستی پیدا کرنی چاہیے وہ تھوڑا سا وقت جو اسے ملا اسی سوچ بچار میں خرچ ہو گیا اور مس فریا دوا بنا کر لے آئی۔ کرسی پر بیٹھ کر اس نے شیشی پر گوند سے لیبل چپکایا اور پڑیوں پر نمبر لگانے کے بعد کہا۔

’’یہ دو دوائیں ہیں۔ پڑیا ابھی جا کر پانی کے ساتھ دے دیجیے اور اس میں سے ایک خوراک آدھے گھنٹے کے بعد پلا دیجیے گا۔ پھر ہر تیسرے گھنٹے کے بعد اسی طرح۔ ‘‘

سہیل نے پڑیاں اٹھا کر جیب میں رکھ لیں۔ شیشی ہاتھ میں لے لی، اور مس فریا کی طرف کچھ عجیب نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیا۔ وہ گھبرا گئی۔

’’آپ بھول تو نہیں گئے۔ ‘‘

سہیل نے اسی انداز سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’میں بھولا نہیں مجھے سب کچھ یاد ہے۔ ‘‘

مس فریا کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔

’’تو۔ تو۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘

سہیل دراصل اپنے ارادہ کو مکمل کررہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھے جارہا تھا۔ مس فریا نے چند کاغذات اٹھا کر میز کے ایک طرف رکھ دیے۔

’’اس کے۔ اُس کے دام؟‘‘

سہیل نے خاموشی سے بٹوہ نکالا۔

’’کتنے ہوئے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے پانچ کا نوٹ بڑھا دیا۔ مس فریا نے نوٹ لیا۔ میزکی دراز کھول کر اس میں رکھا۔ جلدی جلدی ریز گاری نکالی اور حساب کرکے باقی پیسے سہیل کی طرف بڑھا دیے۔ سہیل نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور جلدی سے کہا۔

’’تمہارا ہاتھ کتنا خوبصورت ہے۔ ‘‘

مس فریا تھوڑی دیر تک فیصلہ نہ کرسکی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔

’’آپ کیسی باتیں کررہے ہیں۔ ‘‘

سہیل نے بڑے ہی خام انداز میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا جیسے وہ اسٹیج پر عشقیہ پارٹ ادا کررہا ہے۔

’’میں تم سے محبت کرتا ہُوں۔ ‘‘

سہیل کو جب مس فریا کے لہجے میں کُھردرا پن محسوس ہوا تو وہ چونکا اس نے لوگوں سے سُن رکھا تھا کہ اینگلو انڈین اور کرسچین لڑکیاں فوراً ہی پھنس جایا کرتی ہیں۔ چنانچہ اسی سُنی سُنائی بات کے زیر اثر اس نے اتنی جرأت کی تھی مگر یہاں جب اسے معاملہ بالکل برعکس نظر آیا تو اس نے جلدی سے دوا کی شیشی اٹھائی اور کہا۔

’’میں آپ سے معافی چاہتا ہوں دراصل مجھے آپ سے ایسی فضول باتیں نہیں کرنا چاہیے تھیں۔ میں۔ میں نہ جانے کیا بک گیا۔ مجھے معاف کردیجیے گا۔ ‘‘

مس فریا اُٹھ کھڑی ہُوئی۔ اس کا غصّہ کچھ کم ہو گیا۔

’’تم نے جو کچھ کیا ہے اس پر مجھے بے حد غصّہ آیا تھا۔ مگر میں اب تمہاری طرف دیکھتی ہُوں تو مجھے تم بہت ہی معصوم نظر آتے ہو۔ بیوقوفی کی حد تک معصوم، جاؤ پھر کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔ ‘‘

سہیل سہم سا گیا۔ مس فریا کووہ اسکول کی استانی سمجھنے لگا۔

’’آپ نے مجھے معاف کردیا ہے نا۔ ‘‘

مس فریا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا نہ ہوئی جو سہیل چاہتا تھا کہ پیدا ہو۔

’’جاؤ میں نے کہہ دیا کہ پھر ایسی حرکت نہ کرنا۔ دوا کسی اور جگہ سے نہ لینا۔ کل یہیں چلے آنا۔ اور دیکھو تم نے میرے آنے جانے کے پیسے نہیں دیے۔ ‘‘

سہیل نے پوچھا۔

’’کتنے ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’بارہ آنے۔ ‘‘

سہیل نے بارہ آنے میز پررکھ دیے اور جب وہ بازار میں پہنچا تو اُس نے خیال کیا کہ وکٹوریہ والے کو تو وہ بارہ آنے ادا کر چکا تھا لیکن اس نے سوچا کہ چلو، بلا ٹل گئی ہے، کیا ہوا اگر بارہ آنے زیادہ چلے گئے۔ سہیل کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ امرتسر میں وہ کئی لڑکیوں سے ایسی اور اس سے بھی سخت جھڑکیاں کھا چکا تھا۔ چند گھنٹوں تک اس واقعہ کا سہیل پر بہت ہی زیادہ اثر رہا۔ لیکن جب وہ دوسرے دن مس فریا کے ہاں دوا لینے کے لیے گیا تو اس نے دوسرے گاہکوں کی طرح اس سے بات چیت کی تو وہ شرمندگی جس کا تھوڑا سا احساس باقی رہ گیا تھا دُور ہو گئی۔ دس بارہ روز تک وہ متواتر دوا لینے کے لیے مس فریا کے ہاں جاتا رہا۔ اس دوران میں کوئی ایسی بات نہ ہوئی جس سے سہیل کے دماغ میں اس خفت انگیز واقعہ کی یاد تازہ ہوتی اس کے بعد اس کی بہن تندرست ہو گئی اور مس فریا اس عرصہ کے لیے اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ اب ایک دم بارہ تیرہ مہینے کے بعد سہیل کو اس کا خیال آیا اور اس نے اس سے مشورہ لینے کا ارادہ کیا۔

’’عورت کو روپے پیسے کا بہت لالچ ہے میرا خیال ہے کہ وہ ضرور اس معاملہ میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہو جائے گی اور پھر اس واقعہ کو اس بات سے کیا تعلق ہے۔ اگر وہ میرا کام کردے گی تو میں اسے منہ مانگے دام ادا کردوں گا۔ ‘‘

دوسرے روز شام کو وہ مس فریا کے پاس گیا۔ سہیل کو دیکھ کر اس نے بڑے کاروباری انداز میں کہا۔

’’بہت مدت کے بعد تشریف لائے۔ ‘‘

سہیل شادی کے بعد اب کافی تبدیل ہو چکا تھا آرام سے بنچ پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔ اس دوران میں کوئی بیمار نہیں ہوا اس لیے آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا۔ مس فریا مسکرائی۔

’’اب کیسے آنا ہوا۔ ‘‘

سہیل نے جواب دیا۔

’’میں اپنی بیوی کے متعلق کچھ پوچھنے آیا ہوں۔ ‘‘

مس فریا نے اور زیادہ متوجہ ہو کر پوچھا۔

’’آپ کی شادی ہو گئی۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ہو گئی۔ ‘‘

’’کب ہوئی۔ ‘‘

’’ایک مہینہ پہلے۔ ‘‘

’’صرف ایک مہینہ۔ ‘‘

مس فریا نے کرسی پر اپنا پہلو بدلا۔

’’کیسی ہے آپکی بیوی۔ ‘‘

سہیل نے بالکل رسمی انداز میں جواب دیا۔

’’بہت اچھی ہے۔ ‘‘

’’میرا مطلب ہے کہ۔ کہ۔ خوبصورت ہے؟۔ ضرور خوبصورت ہو گی۔ پنجاب کی لڑکیاں عام طور پر خوبصورت ہوتی ہیں۔ ‘‘

سہیل نے فریا کی طرف دیکھا چہرے پر اس نے پوڈر لگا رکھا تھا جس سے رنگ بہت ہی بدنما ہو گیا تھا۔ بال خشک اور بے جان تھے۔ فراک بھی نہایت بھونڈا تھا۔ جب اس نے عائشہ کا خیال کیا تو فریا اسے بھنگن معلوم ہُوئی۔ دل ہی دل میں وہ ہنسا اور پرانا بدلہ لینے کی خاطر اس نے کہا۔

’’میری بیوی بہت خوبصورت ہے۔ تم اسے دیکھو گی تو پتہ چلے گا۔ ‘‘

مس فریا نے شاید یہ بات نہ سنی، کیونکہ وہ کچھ اور ہی سوچ رہی تھی

’’تو ایک مہینے سے تم عیش کررہے ہو۔ ‘‘

سہیل نے پھر اسے جلانے کے لیے کہا

’’انسان کو زندگی میں ایک بار ہی ایسا موقع ملتا ہے۔ کیوں نہ اس سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں ضرور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ مگر۔ مگر زیادہ نہیں۔ تم ضرور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوں گے۔ ‘‘

مس فریا کے لہجے میں ایک عجیب قسم کی للچاہٹ تھی۔ سہیل کو اس گفتگو میں مزہ آنے لگا مسکرا کر اس نے کہا

’’زیادہ سے زیادہ کیوں نہ اُٹھایا جائے۔ یہی وقت تو ہے کہ جی بھر کے لُطف اُٹھایا جائے بیوی اچھی ہو۔ طبعیتیں آپس میں مل جائیں۔ جوانی ہو۔ حالات ساز گار ہوں، موسم خوشگوار ہو تو۔ ‘‘

مس فریا مضطرب ہو گئی۔ یہ اضطراب چھپانے کی خاطر اس نے کہا۔

’’آپ۔ آپ کس قسم کا مشورہ لینے کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘

’’میں اپنی بیوی کے متعلق کچھ پوچھنے آیا تھا۔ ‘‘

’’مس فریا پھر اسی رو میں بہہ گئی۔ ‘‘

میں۔ میں اسکو ضرور دیکھونگی۔ مجھے۔ مجھے خوشی ہو گی۔ کسے معلوم تھا کہ تم اتنی جلدی شادی کرلو گے۔ تمہاری زندگی میں۔ میرا مطلب ہے کہ تمہاری زندگی میں ضرور ایک بہت بڑی تبدیلی ہو گئی ہو گی۔ سہیل نے جواب دیا۔

’’تبدیلی۔ کوئی خاص تبدیلی پیدا تو نہیں ہوئی۔ میں پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ خاص فرق پڑ بھی کیا سکتا ہے۔ ہر حال میں خوش ہُوں، بہت ہی خوش ہُوں۔ شادی بہت اچھی چیز ہے؟ مس فریا نے تھوک نگل کر کہا۔

’’کیا شادی واقعی بہت اچھی چیز ہے؟‘‘

’’بہت ہی اچھی چیز ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ تم بھی شادی کرلو۔ ‘‘

مس فریا نے میز پر سے رنگین تیلیوں کا بنا ہوا جاپانی پنکھا اُٹھایا اور جھلنا شروع کردیا۔

’’مجھے اپنی بیوی کے متعلق کچھ اور بتاؤ۔ یعنی تمہاری ازدواجی زندگی کیسے گزر رہی ہے۔ اسکے خیالات کیا ہیں۔ ‘‘

فریا کے ہونٹوں پر کھسیانی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اسکے ہونٹ کچھ اس انداز سے باتیں کرتے وقت کھل رہے تھے کہ سہیل کو محسوس ہوا فریا کے چہرے پر منہ کے بجائے ایک زخم ہے جس کے ٹانکے اُدھڑ رہے ہیں۔ سہیل نے غور سے اسکی طرف دیکھا اور یوں دیکھتے ہُوئے وہ ایک برس پیچھے چلا گیا۔ جب اس نے بڑی نیک نیتی سے اس عورت میں چند خوبصورتیاں تلاش کی تھیں اور ان کا سہارا لے کر اس سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کی ایک نہایت ہی بھونڈی کوشش کی تھی۔ اب وہی عورت اس کے سامنے کرسی پربیٹھی پنکھا جھل کر اپنا اندرونی اضطراب ہلکا کررہی تھی، ایک برس اس کے کالے چہرے اور خشک بالوں پر سے مزید سیاہی اور خشکی پیدا کیے بغیر گزر گیا تھا۔ مگر سہیل اب بالکل تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مس فریا نے اس سے کہا۔

’’تم کتنے تبدیل ہو گئے ہو۔ اب تم پورے مرد بن چکے ہو۔ ‘‘

سہیل نے فریا کی طرف دیکھا۔ اس کی مونچھوں پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہورہے تھے۔ ان کو دیکھ کر اب اس کے دل میں وہ پہلی سی خواہش پیدا نہ ہوئی۔ مس فریا نے پنکھا میز پررکھ دیا اور کہنیاں ٹیک کر سہیل کی طرف ان بلیوں کی طرح دیکھنے لگی جو موسم بہار میں لوٹ کر اُداس اداس آوازیں نکالا کرتی ہیں۔ سہیل نے پنکھے کی ایک اکھڑی ہُوئی تیلی نوچنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مس فریا نے اسے آہستہ سے پکڑ کر کہا۔

’’یاد ہے تمہیں، ایک دفعہ اسی طرح تم نے میرا ہاتھ دبایا تھا۔ ‘‘

مس فریا کی آواز لرزاں تھی۔ سہیل نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور بڑے خشک لہجہ میں کہا۔

’’مس فریا۔ تمہاری یہ حرکت بہت ہی نازیبا ہے۔ دیکھو، پھر کبھی ایسا نہ کرنا۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنا بٹوا لرزتے ہوئے ہاتھوں سے کھولا اور بارہ آنے نکال کر میز پر رکھ دیے۔

’’یہ رہا تمہارے آنے جانے کا کرایہ۔ ‘‘

سہیل جب نیچے اُترا تو بازارمیں چلتے ہُوئے اس نے سوچا۔

’’جب بچہ پیدا ہو گا تو میں اسے گود میں اٹھا کر مس فریا کے پاس ضرور آؤں گا اور فخر کے ساتھ کہوں گا، اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

سہیل بہت خوش تھا۔ جب اس نے مزا لینے کی خاطر یہ سارا واقعہ دھرایا تو آخر میں بارہ آنے آئے جو اس نے کانپتے ہُوئے ہاتھوں سے نکال کر مس فریا کی میز پر رکھے تھے۔

’’ارے۔ میں نے اسے بارہ آنے کیوں دیے۔ یہ کرایہ کس کا تھا؟‘‘

سہیل جب اس کا جواب تلاش نہ کرسکا تو بے اختیار ہنس پڑا۔

سعادت حسن منٹو

مس اڈنا جیکسن

۔ کالج کی پرانی پرنسپل کے تبادلے کا اعلان ہوا، طالبات نے بڑا شور مچایا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی محبوب پرنسپل ان کے کالج سے کہیں اور چلی جائے۔ بڑا احتجاج ہوا۔ یہاں تک کہ چند لڑکیوں نے بھوک ہڑتال بھی کی، مگر فیصلہ اٹل تھا۔ ان کا جذباتی پن تھوڑے عرصے کے بعد ختم ہو گیا۔ نئی پرنسپل نے پرانی پرنسپل کی جگہ لے لی۔ طالبات نے شروع شروع میں اس سے بڑی نفرت و حقارت کا اظہار کیا مگر اس نے ان سے کچھ نہ کہا۔ حالانکہ اس کے اختیار میں سب کچھ تھا۔ وہ ان کو کڑی سے کڑی سزا دے سکتی تھی۔ ہر وقت اس کے پتلے پتلے ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرتی رہتی۔ وہ سرتا پا تبسم تھی۔ کالج میں کھلی ہوئی کلی کی طرح آتی اور جب واپس جاتی تو دن بھر گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود اس میں مرجھاہٹ کے کوئی آثار نہ ہوتے۔ تھوڑے عرصے کے بعد۔ کالج کی طالبات اس کی گرویدہ ہو گئیں۔ ہر وقت اس سے چمٹی رہتیں۔ ایک دن، جب کوئی جلسہ تھا، مس اڈنا جیکسن نے تقریر کی اور کہا۔

’’میں بہت خوش ہوں کہ تم اب مجھ سے مانوس ہو گئی ہو۔ شروع شروع میں جیسا کہ میں جانتی ہوں تم مجھ سے نفرت کرتی تھیں، میری پیاری بچیو، میں یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئی تھی۔ مجھے یہاں میرے حاکموں نے بھیجا تھا۔ ایک دن آنے والا ہے جب تم سنجیدہ اور متین بن جاؤ گی۔ تمہاری گود میں بچے کھیلتے ہوں گے، تم سے بھی کہیں زیادہ شریر اور نٹ کھٹ۔ میں تمہاری پرنسپل ہوں۔ لیکن دل میں یہ خیال کبھی نہ لانا کہ میں کوئی ظالم عورت ہوں۔ میں تم سب سے محبت کرتی ہوں۔ اور چاہتی ہوں کہ مجھ سے بھی کوئی محبت کرے۔ ‘‘

یہ تقریر سن کر لڑکیاں بہت متاثر ہوئیں اور مس جیکسن کی محبت میں اور زیادہ گرفتار ہو گئیں۔ سب دل میں نادم تھیں کہ انھوں نے ایسی شریف اور شفیق پرنسپل کے آنے پر کیوں اعتراض کیا۔ ایک دن بی اے کی ایک لڑکی طاہرہ جس نے مس جیکسن کی آمد پر آوازے کسے تھے اور بڑے سخت الفاظ استعمال کیے تھے، پرنسپل کے کمرے میں تھی۔ طاہرہ کا سر جھکا ہوا تھا۔ خوف و ہراس اس کے چہرے پر پھیلا ہوا تھا۔ پرنسپل کاغذات پر دستخط کررہی تھی۔ بے حد منہمک تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس نے طاہرہ کی سسکیوں کی آواز سنی تو اس کو اس کی موجودگی کا علم ہوا۔ ایک دم چونک کر اس نے اپنا ننھا سا فونٹین پین ایک طرف رکھا اور اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس کو یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے طاہرہ کو بلایا ہے۔

’’کیا بات ہے طاہرہ؟‘‘

طاہرہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔

’’آپ۔ آپ ہی نے تو مجھے یہاں طلب فرمایا تھا‘‘

ایک لحظے کے لیے مس جیکسن خالی الدماغ رہی، لیکن اسے فوراً یاد آگیا کہ معاملہ کیا ہے۔ طاہرہ کے نام ایک مرد کا محبت نامہ پکڑا گیا تھا۔ یہ اس کی ایک سہیلی ناہید نے مس جیکسن کے حوالے کردیا تھا۔ یہ خط اس کی دراز میں محفوظ تھا۔ مس جیکسن کے مسکراتے ہوئے ہونٹ طاہرہ سے مخاطب ہوئے۔

’’بیٹا۔ یہ کیا بپتا ہے؟‘‘

اس کے بعد اس نے میز کا دراز کھول کر خط نکالا اور طاہرہ سے کہا

’’لو۔ یہ تمہارا خط ہے پڑھ لو اور اگر چاہو تو مجھے ساری داستان سنا تاکہ میں تمہیں کوئی رائے دے سکوں۔ ‘‘

طاہرہ کچھ دیر خاموش رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کہے۔ پرنسپل مس جیکسن نے اٹھ کر اس کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا

’’طاہرہ!شرماؤ نہیں۔ ہرلڑکی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں۔ ‘‘

طاہرہ نے رونا شروع کردیا۔ بوڑھا چپڑاسی کسی کام سے اندر داخل ہوا تو مس جیکسن نے اس سے کہا۔

’’نظام دین! ابھی تم باہر ٹھہرو۔ میں بلالوں گی تمہیں۔ ‘‘

جب وہ چلا گیا تو مس جیکسن نے بڑے پیار سے طاہرہ سے کہا۔

’’محبت ایک عظیم جذبہ ہے۔ مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن تمہاری عمر کی لڑکیاں اکثر دھوکا کھا جایا کرتی ہیں۔ مجھے تمام واقعات بتا دو۔ میں تم سے عمر میں بہت بڑی ہوں مگر مجھ سے آج تک کسی نے محبت نہیں کی، لیکن میں نے کئی استوار اور نااستوار محبتیں دیکھی ہیں۔ بیٹا، مجھ سے گھبراؤ نہیں۔ بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

طاہرہ اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔ پرنسپل اپنی گھومنے والی کرسی پر نشست اختیار کرتے ہوئے اپنی شاگرد سے بولیں

’’اب دیر نہ لگاؤ۔ بتا دو۔ مجھے بہت سے ضروری کام کرنے ہیں۔ ‘‘

طاہرہ کچھ دیر ہچکچاتی رہی۔ لیکن اس کے بعد اس نے اپنا دل کھول کے اپنی پرنسپل کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے بتایا کہ ایک نوجوان لیکچرار ہے جس سے وہ ٹیویشن لیتی ہے۔ قریب قریب ایک سال سے وہ باقاعدہ پانچ بجے اس کے گھرمیں آتا رہا ہے۔ اس کی باتیں بڑی دلفریب ہیں۔ شکل و صورت کے لحاظ سے بھی خوب ہے۔ فارسی کے اشعار کا مطلب سمجھاتا ہے تو ایک نقشہ کھینچ دیتا ہے۔ اس کی زبان میں غضب کی مٹھاس ہے۔ طاہرہ نے مزید بتایا کہ اس کے دل میں لیکچرار کے لیے جگہ پیدا ہو گئی۔ آہستہ آہستہ بے قرار رہنے لگی۔ اس کو ہر وقت اس کی یاد ستاتی۔ پانچ بجنے والے ہوتے تو اس کو یوں محسوس ہوتا کہ وہ مجسم گھڑی بن گئی ہے۔ اس کا رواں رواں ٹک ٹک کرنے لگتا۔ وہ اس سے زبانی تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی، اس لیے کہ شرم و حیا اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس نے ایک رات لیکچرار کے نام خط لکھا۔ اس نے اپنی زندگی بھر میں ایسا خط کبھی نہیں لکھا تھا حالانکہ وہ اپنے خاندان میں خط لکھنے کے معاملے میں کافی مشہور تھی کہ ہر بات بڑے سلیقے سے لکھتی ہے، لیکن یہ خط لکھتے ہوئے اسے بڑی دقتیں پیش آئیں۔ القاب کیا ہو، مضمون کیسا ہونا چاہیے، پھر یہ سوال بھی اس کے درپیش تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ خط اس کے باپ کے حوالے کردے۔ وہ ایک عرصے تک سوچتی رہی۔ اس کے دل میں کئی خدشے تھے لیکن آخر اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ خط ضرور لکھے گی۔ چنانچہ اس نے رائٹنگ پیڈ کے کئی کاغذ ضائع کرکے چند سطور اس لیکچرار کے نام لکھیں:۔

’’آپ بڑے اچھے استاد ہیں۔ مجھے اس طرح پڑھاتے ہیں جیسے۔ جیسے آپ کو مجھ سے خاص لگاؤ ہے۔ ورنہ اتنی محنت کون استاد کرتا ہے۔ میرا تو یہ جی چاہتا ہے کہ ساری عمر آپ میرے استاد اور میں آپ کی شاگرد رہوں۔ بس اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں لکھ سکتی۔ ‘‘

یہ خط اس نے کئی دن اپنے پرس میں رکھا۔ اس کے بعد جرأت سے کام لے کر اس نے کاغذ کا یہ پرزہ اپنے استاد کی جیب میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ڈال دیا۔ دوسرے روز جب وہ شام کو ٹھیک پانچ بجے آیا تو اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہ کیا۔ اسے سخت مایوسی ہوئی۔ دو گھنٹے کے بعد جب وہ چلا گیا تو اس نے بڑے چڑچڑے پن سے اپنی کتابیں اٹھائیں اور اپنے کمرے میں جانے لگی۔ ایک کتاب اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ طاہرہ نے بڑی بے دلی سے اٹھائی تو اس کے اوراق میں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا جھانکنے لگا۔ اس نے یہ ٹکڑا نکالا۔ اس پر چند الفاظ مرقوم تھے۔ طاہرہ کے زخمی جذبات پر مرہم کے پھاہے لگ گئے۔ اس کے استاد نے یہ لکھا تھا:

’’مجھے تمہاری تحریر مل گئی ہے۔ میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں۔ زندگی بھر تمہارا استاد رہنے کا تو میں وعدہ نہیں کرسکتا لیکن خادم ضرور رہوں گا۔ میں استادی شاگردی سے تنگ آگیا ہوں۔ تمہاری غلامی اس سے ہزار درجے بہتر ہو گی۔ ‘‘

اس کے بعد دونوں میں کتابوں کے اوراق کی اوٹ میں خط و کتابت ہوتی رہی۔ لیکن طاہرہ کے والدین کو یکلخت شہر چھوڑنا پڑا، اس لیے کہ اس کے باپ ظہیر کی تبدیلی کسی سلسلے میں دوسرے شہر میں ہو گئی۔ طاہرہ کو ہوسٹل میں داخل کردیا گیا، جس کی سپرنٹنڈنٹ مس جیکسن تھی۔ اس کا قیام اسی ہوٹل میں تھا۔ کالج سے فارغ ہو کر آتی تو اپنے کمرے میں اکثر ناول پڑھتی رہتی۔ عجیب عجیب قسم کے۔ ہوسٹل کی لڑکیاں اس کے پاس آتیں اور اس کے کئی ناول چرا کے لے جاتیں اور مزے لے لے کر پڑھتیں۔ پھر واپس وہیں پررکھ دیتیں جہاں سے انھوں نے اٹھائے تھے۔ مس جیکسن کو لڑکیوں کی اس شرارت کا کوئی علم نہیں تھا۔ طاہرہ نے بھی کئی ناول پڑھے اور اس کا عشق اپنے استاد کے عشق سے بڑھتا گیا۔ وہ ہوسٹل سے باہر نکل نہیں سکتی تھی اس لیے اس نے ایک خط لکھا اور اسے کسی نہ کسی طریقے سے اپنے استاد تک پہنچا دیا۔ یہ خط جو اس نوجوان لیکچرار نے جواب میں لکھا تھا، غلط ہاتھوں میں پہنچ گیا۔ یعنی ناہید کے پاس جس کو طاہرہ سے صرف اس لیے بغض تھا کہ وہ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوب صورت تھی۔ یہ خط اس نے پرنسپل کے حوالے کردیا۔ طاہرہ، جب اپنی ساری داستان سنا چکی جو مس جیکسن نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے سنی تو اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد طاہرہ سے کہا۔

’’اب تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

’’مجھے کچھ معلوم نہیں۔ آپ جو فیصلہ فرمائیں گی، مجھے منظور ہو گا۔ ‘‘

مس جیکسن اپنی کرسی پر سے اٹھیں اور کہا

’’نہیں طاہرہ، محبت کے معاملے میں مجھے فیصلہ دینے کا اختیار نہیں۔ یہ مذہب سے بھی زیادہ مقدس جذبہ ہے۔ تم خود بتاؤ۔ ‘‘

طاہرہ نے شرم سے بھری ہوئی آنکھیں جو نم آلود تھیں، جھکا کر صرف اتنا کہا

’’میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

مس جیکسن نے ٹھیٹ پرنسپلانہ انداز میں پوچھا۔

’’کیا وہ بھی چاہتا ہے؟‘‘

’’اس نے ابھی تک اس خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن وہ۔ ‘‘

’’میں سمجھتی ہوں۔ وہ بھی تو تم سے محبت کرتا ہے۔ اسے کیا عذر ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا تمہارے والدین رضا مند ہو جائیں گے؟‘‘

’’ہرگز نہیں ہوں گے۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ وہ میری منگنی ایک جگہ کر چکے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’میرے خالہ زاد بھائی کے ساتھ۔ ‘‘

’’ہم کرسچینوں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’ہمارے ہاں تو اکثر ایسا ہوتا ہے۔ ‘‘

’’خیر چھوڑو اس بات کو۔ کیا میں تمہارے اس لیکچرار کو اپنے پاس بلا کر اس سے مفصل بات چیت کروں؟ طاہرہ یہ زندگی بھر کا سوال ہے ایسا نہ ہوکوئی غلطی ہو جائے۔ میں عمر میں تم سے بہت بڑی ہوں۔ میں تمہیں صحیح مشورہ دوں گی۔ ایک مرتبہ تم مجھے اس سے مل لینے دو۔ ‘‘

طاہرہ نے شکریہ ادا کیا۔

’’آپ ضرور ملیے لیکن۔ اس سے کہہ دیجیے گا۔ کہ۔ ‘‘

پرنسپل نے بڑی شفقت سے کہا۔

’’رک کیوں گئی ہو۔ جو کچھ تم اس سے کہنا چاہتی ہو، مجھ سے کہہ دو۔ ‘‘

’’جی۔ بس صرف اتنا کہ اگر اس کے قدم مضبوط نہ رہے تو میں خود کشی کرلوں گی۔ عورت زندگی میں۔ صرف ایک ہی مرد سے محبت کرتی ہے۔ ‘‘

محبت کا لفظ سنتے ہی پرنسپل مس اڈنا جیکسن کے دل کی جھریاں اور زیادہ گہری ہو گئیں۔ اس نے طاہرہ کے آنسو اپنے رومال سے بڑی شفقت کے ساتھ پونچھتے ہوئے رخصت کردیا۔ اس کے بعد اس نے گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو اندر بلایا۔ اس نے بڑے ضروری کاغذات اس کے میز پر رکھے۔ اس نے سرسری نظر سے ان کو دیکھا۔ ایک کاغذ پر طاہرہ کے اس لیکچرار کے نام خط لکھا کہ وہ ازراہ کرم اس سے کسی وقت شام کو بورڈنگ ہاؤس میں ملے۔ یہ خط اس نے لفافے میں ڈالا، پتہ لکھا اور چپڑاسی سے کہا کہ فوراً سائیکل پر جائے اور یہ لفافہ لیکچرار صاحب کو پہنچا دے۔ چپڑاسی چلا گیا۔ شام کو مس اڈنا جیکسن اپنے کمرے میں بیٹھی پرچے دیکھ رہی تھی کہ نوکر نے اطلاع دی کہ ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ صاحب کون ہیں، چنانچہ اس نے نوکر سے کہا۔

’’انھیں اندر لے آؤ!‘‘

طاہرہ کا استاد ہی تھا جو اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ مس جیکسن نے اس کا استقبال کیا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ جون کا مہینہ، سخت تپش تھی۔ مس جیکسن اس سے بڑے اخلاق کے ساتھ پیش آئی۔ نوجوان لیکچرار بہت متاثر ہوا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مس اڈنا جیکسن طاہرہ کے بارے میں بات شروع کرنے ہی والی تھی کہ اس پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا۔ اس کو یہ مرض بہت دیر سے لاحق تھا۔ لیکچرار بہت فکر مند ہوا۔ گھر میں کوئی نوکر نہیں تھا، اس لیے کہ وہ چھٹی کرکے کہیں باہر سو رہے تھے۔ اس نے خود ہی جو اس کی سمجھ میں آیا، کیا۔ جب۔ کالج گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کھلا تو لڑکیوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ان کی پرنسپل مس اڈنا جیکسن سے اس لیکچرار کی شادی ہو گئی ہے، جس کو طاہرہ سے محبت تھی۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ لیکچرار لطیف کی عمرپچیس برس کے قریب ہو گی اور مس اڈنا جیکسن کی لگ بھگ پچاس برس۔

سعادت حسن منٹو

مرزا غالبؔ کی حشمت خاں کے گھر دعوت

جب حشمت خاں کو معلوم ہو گیا ہے کہ چودھویں(ڈومنی) اس کے بجائے مرزا غالبؔ کی محبت کا دم بھرتی ہے۔ حالانکہ وہ اس کی ماں کو ہر مہینے کافی روپے دیتا ہے اور قریب قریب طے ہو چکا ہے کہ اس کی مسی کی رسم بہت جلد بڑے اہتمام سے ادا کردی جائے گی، تو اس کو بڑا تاؤ آیا۔ اس نے سوچا کہ مرزا نوشہ کو کسی نہ کسی طرح ذلیل کیا جائے۔ چنانچہ ایک دن مرزا کو رات کو اپنے یہاں مدعو کیا۔ مرزا غالب وقت کے بڑے پابند تھے۔ جب حشمت خاں کے ہاں پہنچے تو دیکھا کہ گنتی کے چند آدمی چھولداری کے نیچے شمعوں کی روشنی میں بیٹھے ہیں۔ گاؤ تکیے لگے ہیں۔ اُگالدان جابجا قالینوں پر موجود پڑے ہیں۔ غالب آئے، تعظیماً سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے معانقہ کیا اور حشمت خاں سے مخاطب ہوئے

’’ہائیں۔ خاں صاحب یہاں تو سنّاٹا پڑا ہے۔ ابھی کوئی نہیں آیا؟‘‘

حشمت خاں مسکرایا

’’یوں کیوں نہیں کہتے کے اندھیرا پڑا ہے۔ چودھویں آئے تو ابھی چاندنی چھٹک جائے۔ ‘‘

مرزا غالبؔ نے یہ چوٹ بڑے تحمل سے برداشت کی۔

’’سچ تو یوں ہے کہ آپ کے گھر میں چودھویں کے دم سے روشنی ہے۔ ہتکڑیوں کی جھنکار اور آپ کی تیز رفتار کے سوا دھرا ہی کیا ہے؟‘‘

حشمت خاں کھسیانا سا ہو گیا۔ اس کو کوئی جواب نہ سوجھا۔ اتنے میں دو تین اصحاب اندر داخل ہوئے جن کو حشمت خاں نے مدعو کیا تھا۔ آگے آئیے جناب جمیل احمد خاں صاحب۔ آئیے اور بھئی سرور خاں، تم نے بھی حد کردی۔ ‘‘

حشمت خاں کے ان مہمانوں نے جو اس کے دوست تھے، موزوں و مناسب الفاظ میں معذرت چاہی اور چاندنی پر بیٹھ گئے۔ حشمت خاں نے اپنے ملازم کو اپنی گرج دار آواز میں بلایا

’’منے خاں!‘‘

’’بی چودھویں ابھی تک نہیں آئیں۔ کیا وجہ؟‘‘

منے خاں نے عرض کی

’’جی حضور، بہت دیر سے آئی ہیں، لال کمرے میں ہیں۔ سارے سماجی حاضر ہیں۔ کیا حکم ہے؟‘‘

حشمت خاں طشتری میں سے پان کا چاندی اور سونے کے ورق لگا ہوا بیڑا اٹھایا اور اپنے نوکر کو دیا

’’لو یہ بیڑا دے دو۔ محفل میں آجائیں گانا اور ناچ شروع ہو۔ ‘‘

مُنے خاں لال کمرے میں گیا۔ چودھویں، چُوڑی دار پائجامہ پہنے دونوں ٹخنوں پر گھنگھرو باندھے تیار بیٹھی تھی۔ اس نے اس سانولی سلونی جوانی کو بیڑا دیا۔ چودھویں نے اسے لے کر ایک طرف رکھ دیا۔ اٹھی، دونوں پاؤں فرش پر مار کر گھنگھرؤں کی نشست دیکھی اور سماجیوں سے کہا

’’تم لوگ چلو اور لہرا بجانا شروع کرو۔ میں آئی۔ ‘‘

سماجیوں نے حاضرین کو فرشی سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ طبلہ سارنگی سے ملنے لگا، لہرا بجنا شروع ہوا ہی تھا کہ چودھویں، لال کمرے ہی سے ناچتی تھرکتی محفل میں آئی۔ کورنش بجا لا کر ایک چھناکے کے ساتھ ناچنے لگی۔ جمیل احمد نے ایک توڑے پر بے اختیار ہو کرکہا

’’بی چودھویں، کیا کیا ناچ کے انگوں میں بھاؤ لجاؤ بتا رہی ہو۔ ‘‘

چودہویں نے جو کہ ایک نیا توڑا لے رہی تھی، اسے ختم کرکے تسلیم بجا لاتے ہوئے کہا

’’حضور، آپ رئیس لوگ قدر دانی فرماتے ہیں ورنہ میں ناچنا کیا جانوں۔ ‘‘

سرور خاں بہت مسرور تھے، کہا

’’سچ تو یہ ہے، بی چودھویں تم ناچتی ہو تو معلوم ہوتا ہے پھل جھڑی پھوٹ رہی ہے۔ ‘‘

جمیل احمد سرور خاں سے مخاطب ہوئے

’’اماں گُل ریز نہیں کہتے۔ ‘‘

پھر انہوں نے غالبؔ کی طرف دیکھا

’’کیوں مرزا نوشہ۔ صحیح عرض کررہا ہوں نا؟‘‘

غالبؔ نے تھوڑے توقف کے بعد چودہویں کی طرف کنکھیوں سے دیکھا

’’میں تو نہ پھل جھڑی کہوں گا اور نہ گُل ریز۔ بلکہ یوں کہوں گا کہ معلوم ہوتا ہے مہتاب پھوٹ رہی ہے۔ ‘‘

جمیل احمد بولے

’’واہ واہ۔ کیوں نہ ہو۔ شاعر ہیں ناشاعر، چودھویں کا ناچ اور مہتاب، نہ پھل جھڑی نہ گل ریز۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ!‘‘

حشمت خاں نے اپنی مخصوص گرجدار آواز میں کہا

’’ایک تو یوں ان بی صاحبہ کا دماغ چوتھے آسمان پر ہے، آپ لوگ اور ساتویں آسمان پر پہنچا رہے ہیں‘‘

چودھویں ناچتے ہوئے ایک ادا سے حشمت خاں کو کہتی ہے،

’’جی ہاں آپ کو تو بس کیڑے ڈالنے آتے ہیں۔ ‘‘

حشمت خاں مسکراتا ہے اور اپنے دوستوں کی طرف دیکھتا ہے۔

’’اچھا حضرات سُنیے۔ چودھویں جس وقت ناچتی ہے، معلوم دیتا ہے پانی پر مچھلی تیر رہی ہے۔ ‘‘

پھر چودھویں سے مخاطب ہوتا ہے

’’لے اب خوش ہوئیں‘‘

چودھویں ناچنا بند کردیتی ہے اور ننھی سی ناک چڑھا کر کہتی ہے،

’’دماغ کہاں پہنچا ہے۔ سڑی بدبودار مچھلی۔ دُورپار۔ نوج میں کیا مچھلی ہوں‘‘

محفل میں فرمائشی قہقہے لگتے ہیں۔ حشمت خاں کو چودہویں کا جواب ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ مگر چودھویں اس کے بگڑے ہوئے تیوروں کی کوئی پرواہ نہیں کرتی اور غالبؔ کو محبت کی نظر سے دیکھ کر ان کی یہ غزل بڑے جذبے کے ساتھ گانا شروع کرتی ہے یہ ہم جو ہجر میں دیوارو در کو دیکھتے ہیں کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں! وہ آئیں گھرمیں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی کم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں! چودھویں یہ غزل غالبؔ کی طرف رُخ کرکے گاتی ہے اور کبھی کبھی مسکرا دیتی ہے۔ غالبؔ بھی متبسم ہو جاتے ہیں۔ حشمت خاں جل بھن جاتا ہے اور چودھویں سے بڑے کڑے لہجے میں کہتا ہے

’’ارے ہٹاؤ، یہ غزلیں وزلیں، کوئی ٹھمری داد راگاؤ‘‘

چودھویں غزل گانا بند کردیتی ہے۔ مززا غالب کی طرف تھوڑی دیر ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی ہے اور یہ ٹھمری الاپنا شروع کرتی ہے ع پیا بن ناہیں چین حشمت خاں کے سارے منصوبے خاک میں ملے جارہے تھے۔ اپنی کرخت آواز میں جان محمد کو بُلاتا اور اس سے کہتا ہے

’’وہ میرا صندوقچہ لانا۔ ‘‘

جان محمد بڑے ادب سے دریافت کرتا ہے

’’کون سا صندوقچہ حضور؟‘‘

’’ارے وہی، جس میں کل میں نے تمہارے سامنے کچھ زیورات لا کے رکھے ہیں۔ ‘‘

گانا جاری رہتا ہے۔ اس دوران میں جان محمد صندوقچہ لا کر حشمت خاں کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ وہ غالبؔ کو جو چودھویں کا گانا سننے میں محو ہے ایک نظر دیکھ کرمسکراتاہے۔ صندوقچہ کھول کر ایک جڑاؤ گلوبند نکال کر چودھویں سے مخاطب ہوتا ہے

’’چودھویں۔ ادھر دیکھو۔ یہ گُلوبند کس کا؟‘‘

چودہویں ایک ادا کے ساتھ جواب دیتی ہے

’’میرا‘‘

حشمت خاں، غالبؔ کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتا ہے اور صندوقچے سے جڑاؤ جھالے نکال کر چودھویں سے پوچھتا ہے،

’’اچھا یہ جھالے کس کے!‘‘

پھر وہی ادا، پر اب جو تصنع اختیار کررہی تھی

’’میرے!‘‘

حاضرین یہ تماشا دیکھ رہے تھے، جن میں مرزا غالبؔ بھی شامل تھے۔ سب حیران تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ حشمت خاں اب کی کڑے نکالتا ہے

’’چودھویں یہ کڑوں کی جوڑی کس کی؟‘‘

چودھویں کی ادا بالکل بناوٹ ہو گئی

’’میری!‘‘

اب حشمت خاں بڑی خود اعتمادی سے اس سے سوال کرتا ہے،

’’اچھا اب بتاؤ، چودھویں کس کی؟‘‘

چودھویں توقف کے بعد ذرا آنچل کی آڑ لے کر دیکھتی ہے

’’آپ کی‘‘

غالبؔ خاموش رہتے ہیں۔ لیکن حشمت خاں جو شاید چودھویں کے آنچل کی اوٹ کا جواب سمجھ نہیں سکا تھا، مرزا سے کہا

’’آپ بھی گواہ رہیے گا۔ ‘‘

غالبؔ نے ذرا تیکھے پن سے جواب دیا

’’سازشی مقدمے میں گواہی مجھ سے دلواتے ہو۔ ‘‘

’’تم نے نہیں سنا؟‘‘

مرزا غالبؔ محفل سے اٹھ کر جاتے ہوئے حشمت خاں سے کہتے ہیں،

’’کچھ دیکھا نہ کچھ سنا۔ اور دوسرے مجھی سے مقدمہ اور مجھی سے گواہی۔ غضب، اندھیر!‘‘

غالبؔ کے جانے کے بعد محفل درہم برہم ہو جاتی ہے۔ چودھویں سے حشمت خاں گانا جاری رکھنے کے لیے کہتا ہے۔ صرف حکم کی تعمیل کے لیے وہ گاتی ہے، مگر اکھڑے ہوئے سروں میں۔ حشمت خاں دلی طور پر محسوس کرتا ہے کہ وہ شکست خوردہ ہے۔ آج کا میدان غالبؔ مار گئے۔ دوسرے روز صبح غالبؔ کا بھیجا ہوا آدمی مداری چودھویں کے گھر پہنچتا ہے اور چودھویں سے ملتا ہے۔ وہ اس کو پہچانتی تھی، اس لیے بہت خوش ہوتی ہے اور اس سے پوچھتی ہے

’’کیوں میاں مردھے، کہاں سے آئے ہو؟‘‘

’’جی حبش خاں کے پھاٹک سے آیا ہوں۔ نواب مرزا اسد اللہ خاں صاحب نے بھیجا ہے۔ ‘‘

چودھویں کا دل دھڑکنے لگا

’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘

’’جی نہیں، انہوں نے یہ توڑا بھیجا ہے‘‘

یہ کہہ کر مداری ایک توڑا چودھویں کو دیتا ہے، جسے وہ جلدی جلدی بڑے اشتیاق سے کھولتی ہے۔ اس میں سے زیورات نکلتے ہیں۔ مداری اس سے کہتا ہے

’’بی بی جی گن کے سنبھال لیجیے اور ایک بات جو نواب صاحب نے کہی ہے، وہ سُن لیجیے۔ ‘‘

’’کیا کہا؟‘‘

مداری تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد زبان کھولتا ہے۔

’’انہوں نے کہا تھا۔ اپنے رئیس جمعدار حشمت خاں سے کہنا کہ جن مقدموں کا فیصلہ روپیہ پیسہ چڑھا کربڑی آسانی سے اپنے حق میں ہو جائے، ان پر گواہوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ ‘‘

چودھویں گزشتہ رات کے واقعات کی روشنی میں مرزا نوشہ کی اس بات کو فوراً سمجھ جاتی ہے اور دانتوں سے اپنی مخروطی انگلیوں کے ناخن کاٹنا شروع کردیتی ہے اور سخت پریشان ہو کر کہتی ہے

’’وہی ہوا جو میں سمجھتی تھی۔ میاں مردھے، تم ذرا ٹھہرو، تو میں تم سے کچھ کہوں‘‘

مداری چند لمحات سوچتا ہے

’’لیکن بی بی جی نواب صاحب نے فرمایا تھا کہ دیکھو مداری، یہ توڑا دے آنا۔ واپس نہ لانا اور فوراً چلے آنا۔ ‘‘

چودھویں اور زیادہ مضطرب ہو جاتی ہے

’’ذرا دم بھر ٹھہرو۔ سنو، ان سے کہنا۔ میں کیوں کر۔ ہاں یہ کہنا کہ میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا۔ لیکن سنا تم نے۔ کہنا میں مجبوری سے کہہ گئی۔ نہیں نہیں مردھے بابا کہنا، ہاں کیا؟۔ بس یہی کہ میرا قصور کچھ نہیں‘‘

یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

’’لیکن سنا میاں مداری۔ تم اتنا ضرور کہنا کہ آپ خود تشریف لائیں، تو میں اپنے دل کا حال کہوں۔ اچھا تو یوں کہنا۔ زبانی عرض کروں گی۔ ہائے اور کیا کہوں۔ سنو میرا ہاتھ جوڑ کر سلام کہنا۔ ‘‘

مداری اچھا اچھا کہتا چلا جاتا ہے۔ لیکن چودھویں اسے آنسو بھری آنکھوں سے سیڑھیوں کے پاس ہی روک لیتی ہے۔

’’اے میاں مردھے۔ اے میاں مداری۔ کہنا میری جان کی قسم ضرور آئیے گا۔ کہنا میرا مردہ دیکھیے۔ چودھویں بدنصیب کو اپنے ہاتھ سے گاڑیئے جو نہ آیئے۔ دیکھو ضرور سب کچھ کہنا‘‘

مداری چلا جاتا ہے۔ وہ روتی روتی بیٹھک میں آتی ہے اور گاؤ تکیے پر گر کر آنسو بہانے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جمعدار حشمت خاں آتا ہے اور معنی خیز نظروں سے اس کو دیکھتا ہے۔ چودہویں کواس کی آمد کا کچھ احساس نہیں ہوتا، اس لیے وہ غم و اندوہ کے ایک اتھاہ سمندر میں تھپیڑے کھا رہی تھی۔ حشمت خاں اس کے پاس ہی مسند پر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر بھی چودھویں کو اس کی موجودگی کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ بے خودی کے عالم میں وہ اُس کی طرف بالکل خالی نظروں سے دیکھتی ہے اور بڑبڑاتی ہے

’’جانے وہ ان سے سب باتیں کہے گا بھی یا نہیں‘‘

حشمت خاں جو اس کے پاس ہی بیٹھا تھا، کرخت آواز میں بولا

’’میری جان مجھ سے کہی ہوتیں تو ایک ایک تمہارے مرزا نوشہ تک پہنچا دیتا۔ ‘‘

چودھویں چونک پڑتی ہے، جیسے اس کو خوابوں کی دنیا میں کسی نے ایک دم جھنجھوڑ کر جگا دیا۔ اس کی آنسو بھری آنکھیں دُھندلی ہورہی تھیں۔ اسے صرف سیاہ نوکیلی مونچھیں دکھائی دیں، جن کا ایک ایک بال اس کے دل میں تکلوں کی طرح چُبھتا گیا۔ آخر اسے کوئی ہوش نہ رہا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ بھی ایک چلتر ہے جو عام طور پر طوائفوں اور ڈومنیوں سے منسوب ہے۔ وہ زور زور سے قہقہے لگاتا رہا اور ڈومنی بے ہوشی کے عالم میں مرزا نوشہ کی خاطر مدارت میں فوراً مشغول ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ وہ اس کے بلانے پر آگئے تھے۔

سعادت حسن منٹو

محمودہ

مستقیم نے محمودہ کو پہلی مرتبہ اپنی شادی پر دیکھا۔ آر سی مصحف کی رسم ادا ہورہی تھی کہ اچانک اس کو دو بڑی بڑی۔ غیر معمولی طور پر بڑی آنکھیں دکھائی دیں۔ یہ محمودہ کی آنکھیں تھیں جو ابھی تک کنواری تھیں۔ مستقیم، عورتوں اور لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھرا تھا۔ محمودہ کی آنکھیں دیکھنے کے بعد اسے قطعاً محسوس نہ ہوا کہ آر سی مصحف کی رسم کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوئی۔ اس کی دلہن کیسی تھی، یہ بتانے کے لیے اس کو موقع دیا گیا تھا۔ مگر محمودہ کی آنکھیں اس کی دلہن اور اس کے درمیان ایک سایہ مخملیں پردے کے مانندہ حائل ہو گئیں۔ اس نے چوری چوری کئی مرتبہ محمودہ کی طرف دیکھا۔ اس کی ہم عمر لڑکیاں سب چہچہا رہی تھی۔ مستقیم سے بڑے زوروں پر چھیڑ خانی ہورہی تھی۔ مگر وہ الگ تھلگ، کھڑکی کے پاس گھٹنوں پر ٹھوڑی جمائے، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کا رنگ گورا تھا۔ بال تختیوں پر لکھنے والی سیاہی کے مانند کالے اور چمکیلے تھے۔ اس نے سیدھی مانگ نکال رکھی تھی جو اس کے بیضوی چہرے پر بہت سجتی تھی۔ مستقیم کا اندازہ تھا کہ اس کا قدچھوٹا ہے چنانچہ جب وہ اٹھی تو اس کی تصدیق ہو گئی۔ لباس بہت معمولی قسم کا تھا۔ دوپٹہ جب اس کے سر سے ڈھلکا اور فرش تک جا پہنچا تو مستقیم نے دیکھا کہ اس کا سینہ بہت ٹھوس اور مضبوط تھا۔ بھرابھرا جسم، تیکھی ناک، چوڑی پیشانی، چھوٹا سا لبِ دہان۔ اور آنکھیں۔ جو دیکھنے والے کو سب سے پہلے دکھائی دیتی تھی۔ مستقیم اپنی دلہن گھر لے آیا۔ دو تین مہینے گزر گئے۔ وہ خوش تھا، اس لیے کہ اس کی بیوی خوبصورت اور باسلیقہ تھی۔ لیکن وہ محمودہ کی آنکھیں ابھی نہیں بھول سکا تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس کی دل و دماغ پر مرتسم ہو گئی ہیں۔ مستقیم کومحمودہ کا نام معلوم نہیں تھا۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی، کلثوم سے برسبیل تذکرہ پوچھا۔

’’وہ۔ وہ لڑکی کون تھی ہماری شادی پر۔ جب آر سی مصحف کی رسم ادا ہورہی تھی، وہ ایک کونے میں کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ ‘‘

کلثوم نے جواب دیا۔

’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ اس وقت کئی لڑکیاں تھیں۔ معلوم نہیں آپ کس کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔ ‘‘

مستقیم نے کہا۔

’’وہ۔ وہ جس کی یہ بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔ ‘‘

کلثوم سمجھ گئی۔

’’اوہ۔ آپ کا مطلب محمودہ سے ہے۔ ہاں، واقعی اس کی آنکھیں بہت بڑی ہیں، لیکن بری نہیں لگتیں۔ غریب گھرانے کی لڑکی ہے۔ بہت کم گو اور شریف۔ کل ہی اس کی شادی ہوئی ہے۔ ‘‘

مستقیم کو غیر ارادی طور پر ایک دھچکا سا لگا۔

’’اس کی شادی ہو گئی کل؟‘‘

’’ہاں۔ میں کل وہیں تو گئی تھی۔ میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ میں نے اس کو ایک انگوٹھی دی ہے؟‘‘

’’ہاں ہاں۔ مجھے یاد آگیا۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم جس سہیلی کی شادی پر جا رہی ہو، وہی لڑکی ہے، بڑی بڑی آنکھوں والی۔ کہاں شادی ہوئی ہے اس کی؟‘‘

کلثوم نے گلوری بنا کر اپنے خاوند کو دیتے ہوئے کہا۔

’’اپنے عزیزوں میں۔ خاوند اس کا ریلوے ورکشاپ میں کام کرتا ہے، ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تنخواہ ہے۔ سنا ہے بے حد شریف آدمی ہے۔ ‘‘

مستقیم نے گلوری کلّے کے نیچے دبائی۔

’’چلو، اچھا ہو گیا ہے۔ لڑکی بھی، جیسا کہ تم کہتی ہو، شریف ہے۔ ‘‘

کلثوم سے نہ رہا۔ اسے تعجب تھاکہ اس کا خاوندہ محمودہ میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔

’’حیرت ہے کہ آپ نے اس کو محض ایک نظر دیکھنے پر بھی یاد رکھا۔ ‘‘

مستقیم نے کہا۔

’’اس کی آنکھیں کچھ ایسی ہیں کہ آدمی انھیں بھول نہیں سکتا۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں؟‘‘

کلثوم دوسرا پان بنا رہی تھی۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد وہ اپنے خاوند سے مخاطب ہوئی۔

’’میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتی۔ مجھے تو اس کی آنکھوں میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ مرد جانے کن نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ‘‘

مستقیم نے مناسب خیال کہ اس موضوع پر اب مزید گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ جواب مسکرا کروہ اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اتوار کی چھٹی تھی۔ حسب معمول اسے اپنی بیوی کے ساتھ میٹنی شو دیکھنے جانا چاہیے تھا، مگر محمودہ کا ذکر چھیڑ کر اس نے اپنی طبیعت مکدر کرلی تھی۔ اس نے آرام کرسی پر لیٹ کرتپائی پر سے ایک کتاب اٹھائی جسے وہ دو مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ پہلا ورق نکالا اور پڑھنے لگا، مگر حرف گڈمڈ ہوکر محمودہ کی آنکھیں بن جائے۔ مستقیم نے سوچا۔

’’شاید کلثوم ٹھیک کہتی تھی کہ اسے محمودہ کی آنکھوں میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔ ہو سکتا ہے کسی اور مرد کو بھی نظر نہ آئے۔ ایک صرف میں ہوں جسے دکھائی دی ہے۔ پر کیوں۔ میں نے ایسا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا۔ میری ایسی کوئی خواہش نہیں تھی کہ وہ میرے لیے پرکشش بن جائیں۔ ایک لحظے کی تو بات تھی۔ بس میں نے ایک نظر دیکھا اور وہ میرے دل ودماغ پر چھا گئیں۔ اس میں نہ ان آنکھوں کا قصور ہے، نہ میری آنکھوں کا جن سے میں نے انھیں دیکھا تھا۔ ‘‘

اس کے بعد مستقیم نے محمودہ کی شادی کے متعلق سوچنا شروع کیا۔

’’تو ہو گئی اس کی شادی۔ چلو اچھا ہوا۔ لیکن دوست یہ کیا بات ہے کہ تمہارے دل میں ہلکی سی ٹیس اٹھتی ہے۔ کیا تم چاہتے تھے کہ ان کی شادی نہ ہو۔ سدا کنواری رہے، کیوں کہ تمہارے دل میں اس سے شادی کرنے کی خواہش تو کبھی پیدا نہیں ہوئی، تم نے اس کے متعلق کبھی ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سوچا، پھر جلن کیسی۔ اتنی دیر تمہیں اسے دیکھنے کا کبھی خیال نہ آیا، پر اب تم کیوں اسے دیکھنا چاہتے ہو۔ بفرض محال دیکھ بھی لو تو کیا کرلو گے، اسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لو گے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں نوچ کر اپنے بٹوے میں ڈال لو گے۔ بولونا، کیا کرو گے؟‘‘

مستقیم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اصل میں اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اگر کچھ چاہتا بھی ہے تو کیوں چاہتا ہے۔ محمودہ کی شادی ہو چکی تھی، اور وہ بھی صرف ایک روز پہلے۔ یعنی اس وقت جب کہ مستقیم کتاب کی ورق گردانی کرہا تھا، محمودہ یقیناً دلہنوں کے لباس میں یا تو اپنے میکے یا اپنی سسرال میں شرمائی لجائی بیٹھی تھی۔ وہ خود شریف تھی، اس کا شوہر بھی شریف تھا، ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا اور ڈیڑھ سو روپے ماہوار تنخواہ پاتا تھا۔ بڑی خوشی کی بات تھی۔ مستقیم کی دلی خواہش تھی کہ وہ خوش رہے۔ ساری عمر خوش رہے۔ لیکن اس کے دل میں جانے کیوں ایک ٹیس سی اٹھتی تھی اور اسے بے قرار بنا جاتی تھی۔ مستقیم آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب بکواس ہے۔ اسے محمودہ کے متعلق قطعاً سوچا نہیں چاہیے۔ دو برس گزر گئے۔ اس دوران میں اسے محمودہ کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوا اور نہ اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ اور اس کا خاوند بمبئی میں ڈونگری کی ایک گلی میں رہتے تھے۔ مستقیم گو ڈونگری سے بہت دور ماہم میں رہتا تھا، لیکن اگر وہ چاہتا تو بڑی آسانی سے محمودہ کو دیکھ سکتا تھا۔ ایک دن کلثوم ہی نے اس سے کہا۔

’’آپ کی اس بڑی بڑی آنکھوں والی محمودہ کے نصیب بہت برے نکلے!‘‘

چونک کر مستقیم نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔

’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

کلثوم نے گلوری بنائے ہوئے کہا۔

’’اس کا خاوند ایک دم مولوی ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’تو اس سے کیا ہوا؟‘‘

’’آپ سن تو لیجیے۔ ہر وقت مذہب کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ لیکن بڑی اوٹ پٹانگ قسم کی۔ وظیفے کرتا ہے، چلے کاٹتا ہے اور محمودہ کو مجبورکرتا ہے کہ وہ بھی ایسا کرے۔ فقیروں کے پاس گھنٹوں بیٹھتا رہتا ہے۔ گھر بار سے بالکل غافل ہو گیا ہے۔ داڑھی بڑھالی ہے۔ ہاتھ میں ہر وقت تسبیح ہوتی ہے۔ کام پر کبھی جاتا ہے، کبھی نہیں جاتا۔ کئی کئی دن غائب رہتا ہے۔ وہ بے چاری کڑھتی رہتی ہے۔ گھر میں کھانے کو کچھ ہوتا نہیں، اس لیے فاقے کرتی ہے۔ جب اس سے شکایت کرتی ہے تو آگے سے جواب یہ ہوتا ہے۔ فاقہ کشی اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت پیاری ہے۔ ‘‘

کلثوم نے یہ سب کچھ ایک سانس میں کہا۔ مستقیم نے پندنیا میں سے تھوڑی سی چھالیا اٹھا کر منہ میں ڈالی۔

’’کہیں دماغ تو نہیں جل گا اس کا؟‘‘

کلثوم نے کہا۔

’’محمودہ کا تو یہی خیال ہے۔ خیال کیا، اس کو یقین ہے۔ گلے میں بڑے بڑے منکوں والی مالا ڈالے پھرتا ہے۔ کبھی کبھی سفید رنگ کا چولا بھی پہنتا ہے۔ ‘‘

مستقیم گلوری لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور آرام کرسی میں لیٹ کر سوچنے لگا۔

’’یہ کیا ہوا۔ ایسا شوہر تو وبال جان ہوتا ہے۔ غریب کس مصیبت میں پھنس گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاگل پن کے جراثیم اس کے شوہر میں شروع ہی سے موجود ہوں گے جو اب ایک دم ظاہر ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب محمودہ کیا کرے گی۔ اس کا یہاں کوئی رشتہ دار بھی نہیں۔ کچھ شادی کرنے لاہور سے آئے تھے اور واپس چلے گئے تھے۔ کیا محمودہ نے اپنے والدین کو لکھا ہو گا۔ نہیں، اس کے ماں باپ تو جیسا کہ کلثوم نے ایک مرتبہ کہا تھا اس کے بچپن ہی میں مرگئے تھے۔ شادی اس کے چچا نے کی تھی۔ ڈونگری۔ ڈونگری میں شاید اس کی جان پہچان کا کوئی ہو۔ نہیں، جان پہچان کا کوئی ہوتا تو وہ فاقے کیوں کرتی۔ کلثوم کیوں نہ اسے اپنے یہاں لے آئے۔ پاگل ہوئے ہو مستقیم۔ ہوش کے ناخن لو۔ ‘‘

مستقیم نے ایک بار پھر ارادہ کرلیا کہ وہ محمودہ کے متعلق نہیں سوچے گا، اس لیے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا، بے کار کی مغز پاشی تھی۔ بہت دنوں کے بعد کلثوم نے ایک روز اسے بتایا کہ محمودہ کا شوہر جس کا نام جمیل تھا، قریب قریب پاگل ہو گیا ہے۔ مستقیم نے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

کلثوم نے جواب دیا۔

’’مطلب یہ کہ اب وہ رات کو ایک سیکنڈ کے لیے نہیں سوتا۔ جہاں کھڑا ہے، بس وہیں گھنٹوں خاموش کھڑا رہتا ہے۔ محمودہ غریب روتی رہتی ہے۔ میں کل اس کے پاس گئی تھی۔ بے چاری کو کئی دن کا فاقہ تھا۔ میں بیس روپے دے آئی کیوں کہ میرے پاس اتنے ہی تھے۔ ‘‘

مستقیم نے کہا۔

’’بہت اچھا کیا تم نے۔ جب تک اس کا خاوند ٹھیک نہیں ہوتا، کچھ نہ کچھ دے آیا کرو تاکہ غریب کو فاقوں کی نوبت نہ آئے۔ ‘‘

کلثوم نے تھوڑے توقف کے بعد عجیب وغریب لہجے میں کہا۔

’’اصل میں بات کچھ اور ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’محمودہ کا خیال ہے کہ جمیل نے محض ایک ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ وہ پاگل واگل ہرگز نہیں۔ بات یہ ہے کہ وہ۔ ‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’وہ۔ عورت کے قابل نہیں۔ نقص دور کرنے کے لیے وہ فقیروں اور سنیاسیوں سے ٹونے ٹوٹکے لیتا رہتا ہے۔ ‘‘

مستقیم نے کہا۔

’’یہ بات تو پاگل ہونے سے زیادہ افسوسناک ہے۔ محمودہ کے لیے تو یہ سمجھو کہ ازدواجی زندگی ایک خلا بن کر رہ گئی ہے۔ ‘‘

مستقیم اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بیٹھ کر محمودہ کی حالت زار کے متعلق سوچنے لگا۔ ایسی عورت کی زندگی کیا ہو گی جس کا شوہر بالکل صفر ہو۔ کتنے ارمان ہوں گے اس کے سینے میں۔ اس کی جوانی نے کتنے کپکپا دینے والے خواب دیکھے ہوں گے۔ اس نے اپنی سہیلیوں سے کیا کچھ نہیں سنا ہو گا۔ کتنی ناامیدی ہوئی ہو گی غریب کو، جب اسے چاروں طرف خلا ہی خلا نظر آیا ہو گا۔ اس نے اپنی گود ہری ہونے کے متعلق بھی کئی بار سوچا ہو گا۔ جب ڈونگری میں کسی کے ہاں بچہ پیدا ہونے کی اطلاع اسے ملتی ہو گی تو بے چاری کے دل پر ایک گھونسا سا لگتا ہو گا۔ اب کیا کرے گی۔ ایسا نہ ہو خود کشی کرلے۔ دو برس تک اس نے کسی کو یہ راز نہ بتایا مگر اس کا سینہ پھٹ پڑا۔ خدا اس کے حال پر رحم کرے!‘‘

بہت دن گزر گئے۔ مستقیم اور کلثوم چھٹیوں میں پنچ گنی چلے گئے۔ وہاں ڈھائی مہینے رہے۔ واپس آئے تو ایک مہینے کے بعد کلثوم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ وہ محمودہ کے ہاں نہ جاسکی۔ لیکن ایک دن اس کی ایک سہیلی جو محمودہ کو جانتی تھی، اس کو مبارک باد دینے کے لیے آئی۔ اس نے باتوں باتوں میں کلثوم سے کہا۔

’’کچھ سنا تم نے۔ وہ محمودہ ہے نا، بڑی بڑی آنکھوں والی!‘‘

کلثوم نے کہا۔

’’ہاں ہاں۔ ڈونگری میں رہتی ہے۔ ‘‘

’’خاوند کی بے پروائی نے غریب کو بری باتوں پر مجبور کردیا۔ ‘‘

کلثوم کی سہیلی کی آواز میں درد تھا۔ کلثوم نے بڑے دکھ سے پوچھا۔

’’کیسی بری باتوں پر؟‘‘

’’اب اس کے یہاں غیر مردوں کا آنا جانا ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’جھوٹ!‘‘

کلثوم کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ کلثوم کی سہیلی نے کہا۔

’’نہیں کلثوم، میں جھوٹ نہیں کہتی۔ میں پرسوں اس سے ملنے گئی تھی۔ دروازے پر دستک دینے ہی والی تھی کہ اندر سے ایک نوجوان مرد جو میمن معلوم ہوتا تھا، باہر نکلا اور تیزی سے نیچے اتر گیا۔ میں نے اب اس سے ملنا مناسب نہ سمجھا اور واپس چلی آئی۔ ‘‘

’’یہ تم نے بہت بری خبر سنائی۔ خدا اس کو گناہ کے راستے سے بچائے رکھے۔ ہو سکتا ہے وہ میمن اس کے خاوند کا کوئی دوست ہو۔ ‘‘

کلثوم نے خود کو فریب دیتے ہوئے کہا۔ اس کی سہیلی مسکرائی۔

’’دوست، چوروں کی طرح دروازہ کھول کر بھاگا نہیں کرتے۔ ‘‘

کلثوم نے اپنے خاوند سے بات کی تو اسے بہت دکھ ہوا۔ وہ کبھی رویا نہیں تھا پر جب کلثوم نے اسے یہ اندوہ ناک بات بتائی کہ محمودہ نے گناہ کا راستہ اختیار کرلیا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے اسی وقت تہیہ کرلیا کہ محمودہ ان کے یہاں رہے گی، چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’یہ بڑی خوفناک بات ہے۔ تم ایسا کرو، ابھی جاؤ اورمحمودہ کو یہاں لے آؤ!‘‘

کلثوم نے بڑے روکھے پن سے کہا

’’میں اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی!‘‘

’’کیوں؟‘‘

مستقیم کے لہجے میں حیرت تھی۔

’’بس، میری مرضی۔ وہ میرے گھرمیں کیوں رہے۔ اس لیے کہ آپ کو اس کی آنکھیں پسند ہیں؟‘‘

کلثوم کے بولنے کا انداز بہت زہریلا اور طنزیہ تھا۔ مستقیم کو بہت غصہ آیا، مگر پی گیا۔ کلثوم سے بحث کرنا بالکل فضول تھا۔ ایک صرف یہی ہو سکتا تھا کہ وہ کلثوم کو نکال کر محمودہ کو لے آئے۔ مگر وہ ایسے اقدام کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ مستقیم کی نیت قطعاً نیک تھی۔ اس کو خود اس کا احساس تھا۔ دراصل اس نے کسی گندے زاویہ نگاہ سے محمودہ کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ البتہ اس کی آنکھیں اس کو واقعی پسند تھیں۔ اتنی کہ وہ بیان نہیں کرسکتا تھا۔ وہ گناہ کا راستہ اختیار کر چکی تھی۔ ابھی اس نے صرف چند قدم ہی اٹھائے تھے۔ اس کو تباہی کے غار سے بچایا جاسکتا تھا۔ مستقیم نے کبھی نماز نہیں پڑھی تھی، کبھی روزہ نہیں رکھاتھا، کبھی خیرات نہیں دی تھی۔ خدا نے اس کو کتنا اچھا موقع دیا تھا کہ وہ محمودہ کو گناہ کے رستے پر سے گھسیٹ کر لے آئے اور طلاق وغیرہ دلوا کر اس کی کسی اور سے شادی کرادے۔ مگر وہ یہ ثواب کا کام نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے کہ وہ بیوی کا دبیل تھا۔ بہت دیر تک مستقیم کا ضمیر اس کو سرزنش کرتا رہا۔ ایک دو مرتبہ اس نے کوشش کہ اس کی بیوی رضا مندہو جائے۔ مگر جیسا کہ مستقیم کو معلوم تھا، ایسی کوششیں لا حاصل تھیں۔ مستقیم کا خیال تھا کہ اور کچھ نہیں تو کلثوم، محمودہ سے ملنے ضرور جائے گی۔ مگر اس کو ناامیدی ہوئی۔ کلثوم نے اس روز کے بعد محمودہ کا نام تک نہ لیا۔ اب کیا ہوسکتا تھا۔ مستقیم خاموش رہا۔ قریب قریب دو برس گزر گئے۔ ایک دن گھر سے نکل کر مستقیم ایسے ہی تفریحاً فٹ پاتھ پر چہل قدمی کررہا تھا کہ اس نے قصائیوں کی بلڈنگ کی گراؤنڈ فلور کی کھولی کے باہر، تھڑے پر محمودہ کی آنکھوں کی جھلک دیکھی۔ مستقیم دو قدم آگے نکل گیا تھا۔ فوراً مڑ کر اس نے غور سے دیکھا۔ محمودہ ہی تھی۔ وہی بڑی بڑی آنکھیں۔ وہ ایک یہودن کے ساتھ جو اس کھولی میں رہتی تھی، باتیں کرنے میں مصروف تھی۔ اس یہودن کو سارا ماہم جانتا تھا۔ ادھیڑ عمرکی عورت تھی۔ اس کا کام عیاش مردوں کے لیے جوان لڑکیاں مہیا کرنا تھا۔ اس کی اپنی دو جوان لڑکیاں تھیں جن سے وہ پیشہ کرواتی تھی۔ مستقیم نے جب محمودہ کا چہرہ نہایت ہی بے ہودہ طور پر میک اپ کیا ہوا دیکھا تو وہ لرز اٹھا۔ زیادہ دیر تک یہ اندوہ ناک منظر دیکھنے کی تاب اس میں نہیں تھی۔ وہاں سے فوراً چل دیا۔ گھر پہنچ کر اس نے کلثوم سے اس واقعے کا ذکر نہ کیا۔ کیوں کہ اس کی اب ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ محمودہ اب مکمل عصمت فروش عورت بن چکی تھی۔ مستقیم کے سامنے جب بھی اس کا بے ہودہ اور فحش طور پر میک اپ کیا ہوا چہرہ آتا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ اس کا ضمیر اس سے کہتا

’’مستقیم! جو کچھ تم نے دیکھا ہے، اس کا باعث تم ہو۔ کیا ہوا تھا اگرتم اپنی بیوی کی چند روزہ ناراضی اور خفگی برداشت کرلیتے۔ زیادہ سے زیادہ وہ غصے میں آکر اپنے میکے چلی جاتی۔ مگر محمودہ کی زندگی اس گندگی سے تو بچ جاتی جس میں وہ اس وقت دھنسی ہوئی ہے۔ کیا تمہاری نیت نیک نہیں تھی۔ اگر تم سچائی پر تھے اور سچائی پر رہتے تو کلثوم ایک نہ ایک دن اپنے آپ ٹھیک ہو جاتی۔ تم نے بڑا ظلم کیا۔ بہت بڑا گناہ کیا۔ ‘‘

مستقیم اب کیا کرسکتا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ پانی سر سے گزر چکا تھا۔ چڑیاں سارا کھیت چک گئی تھیں۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ مرتے ہوئے مریض کو دم آخر آکسیجن سنگھانے والی بات تھی۔ تھوڑے دنوں کے بعد بمبئی کی فضا فرقہ وارانہ فسادات کے باعث بڑی خطرناک ہو گئی۔ بٹوارے کے باعث ملک کے طول و عرض میں تباہی اور غارت گری کا بازار گرم تھا۔ لوگ دھڑادھڑ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جارہے تھے۔ کلثوم نے مستقیم کو مجبور کیا کہ وہ بھی بمبئی چھوڑ دے۔ چنانچہ جو پہلا جہاز ملا، اس کی سیٹیں بک کراکے میاں بیوی کراچی پہنچ گئے اور چھوٹا موٹا کاروبارشروع کردیا۔ ڈھائی برس کے بعد یہ کاروبار ترقی کرگیا، اس لیے مستقیم نے ملازمت کا خیال ترک کردیا۔ ایک روز شام کو دکان سے اٹھ کر وہ ٹہلتا ٹہلتا صدر جا نکلا۔ جی چاہا کہ ایک پان کھائے۔ بیس تیس قدم کے فاصلے پر اسے ایک دکان نظر آئی جس پر کافی بھیڑ تھی۔ آگے بڑھ کر وہ دکان کے پاس پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ محمودہ پان لگا رہی ہے۔ جھلسے ہوئے چہرے پر اسی قسم کا فحش میک اپ تھا۔ لوگ اسے گندے گندے مذاق کررہے تھے اور وہ ہنس رہی ہے۔ مستقیم کے ہوش وہ حواس غائب ہو گئے۔ قریب تھا کہ وہاں سے بھاگ جائے کہ محمودہ نے اسے پکارا۔

’’ادھر آؤ دلہا میاں۔ تمہیں ایک فسٹ کلاس پان کھلائیں۔ ہم تمہاری شادی میں شریک تھے!

’’مستقیم بالکل پتھرا گیا۔

سعادت حسن منٹو

مجید کا ماضی

مجید کی ماہانہ آمدن ڈھائی ہزار روپے تھی۔ موٹر تھی۔ ایک عالیشان کوٹھی تھی۔ بیوی تھی۔ اس کے علاوہ دس پندرہ عورتوں سے میل جول تھا۔ مگر جب کبھی وہ وسکی کے تین چار پک پیتا تو اسے اپنا ماضی یاد آجاتا۔ وہ سوچتا کہ اب وہ اتنا خوش نہیں جتنا کہ پندرہ برس پہلے تھا۔ جب اس کے پاس رہنے کو کوٹھی تھی، نہ سواری کے لیے موٹر۔ بیوی تھی نہ کسی عورت سے اس کی شناسائی تھی۔ ڈھائی ہزار روپے تو ایک اچھی خاصی رقم ہے۔ ان دنوں اس کی آمدن صرف ساٹھ روپے ماہوار تھی۔ ساٹھ روپے جو اسے بڑی مشکل سے ملتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ خوش تھا۔ اس کی زندگی افتان و خیزاں حالات کے ہوتے ہوئے بھی ہموار تھی۔ اب اسے بے شمار تفکرات تھے۔ کوٹھی کے۔ بیوی کے۔ بچوں کے۔ ان عورتوں کے جن سے ان کا میل جول تھا۔ انکم ٹیکس کا ٹنٹا الگ تھا۔ سیلز ٹیکس کا جھگڑا جدا۔ اس کے علاوہ اور بہت سی الجھنیں تھیں جن سے مجید کو کبھی نجات ہی نہیں ملتی تھی۔ چنانچہ اب وہ اس زمانے کو اکثر یاد کرتا تھا جب اس کی زندگی ایسے تفکرات اور ایسی الجھنوں سے آزاد تھی۔ وہ ایک بڑی غریبی کی لیکن بڑی خوشگوار زندگی بسر کرتا تھا۔ انکم ٹیکس زیادہ لگ گیا ہے۔ ماہروں سے مشورہ کرو۔ آفیسروں سے ملو۔ ان کو رشوت دو۔ سیلز ٹیکس کا جھگڑا چاؤ۔ بلیک مارکیٹ کرو۔ یہاں سے جو کماؤ اس کو وائٹ کرو۔ جھوٹی رسیدیں بناؤ۔ مقدموں کی تاریخیں بھگتو۔ بیوی کی فرمائشیں پوری کرو۔ بچوں کی نگہداشت کرو۔ یوں تو مجید کام بڑی مستعدی سے کرتاتھا اور وہ اپنی اس نئی ہنگامہ خیز زندگی میں رچ مچ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ناخوش تھا۔ یہ ناخوشی اسے کاروباری اوقات میں محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس کا احساس اس کو صرف اس وقت ہوتا تھا جب وہ فرصت کے اوقات میں آرام سے بیٹھ کروسکی کے تین چار پیک پیتا تھا۔ اس وقت بیتا ہوا زمانہ اس کے دل و دماغ میں ایک دم انگڑائیاں لیتا ہوا بیدار ہو جاتا اور وہ بڑا سکون محسوس کرتا۔ لیکن جب اس بیتے ہوئے زمانے کی تصویر اس کے دل و دماغ میں محو ہو جاتی تو وہ بہت مضطرب ہو جاتا، پر یہ اضطراب دیرپا نہیں ہوتا تھا کیونکہ مجید فوراً ہی اپنی کاروباری الجھنوں میں گرفتار ہوجاتا تھا۔ مجید نے جو کچھ بنایا تھا، اپنی محنت و مشقت سے بنایا تھا۔ کوٹھی، اس کا سازو سامان، موٹر غرضیکہ ہر چیز اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی تھی۔ اس کو اس بات کا بہت مان تھا کہ آسائش کے جتنے سامان ہیں، سب اس نے خود بنائے ہیں۔ اس نے کسی سے مدد نہیں لی، لیکن تفکرات اب زیادہ ہو گئے تھے۔ وہ جو دس پندرہ عورتیں اس کے لیے وبال جان بن گئی تھیں۔ ایک سے ملو تو دوسری ناراض ہو تی تھیں۔ ٹیلی فون پہ ٹیلی فون آرہے ہیں۔ بیوی کا ڈر الگ، کاروبار کی فکر جدا۔ عجب جھنجٹ تھا۔ مگر وہ دن بھی تھے جب مجید کو صرف دو روپے روزانہ ملتے تھے۔ ساٹھ روپے ماہوار جو اسے بڑی مشکل سے ملے تھے مگر دن عجیب انداز میں گزرتے تھے۔ بڑے د لچسپ تھے وہ دن۔ بڑی دلچسپ تھیں وہ راتیں جو لکڑی کے ایک بنچ پر گزرتی تھیں جس میں ہزار ہا کھٹمل تھے، خدا معلوم کتنے عمر رسیدہ۔ کیونکہ وہ بنچ بہت پرانی تھی۔ اس کے مالک نے دس برس پہلے اس کو ایک دکاندار سے لیا تھا جو اپنا کاروبار سمیٹ رہا تھا۔ اس دکاندار نے گیارہ برس پہلے اس کا سودا ایک کباڑی سے کیا تھا۔ مجید کوجو مزا، جو لطف اس کھٹملوں سے بھری ہوئی بنچ پر سونے میں آیا تھا اب اسے اپنے پرتکلف سپرنگوں والے پلنگ پر سونے میں نہیں آتا تھا۔ اب اسے ہزاروں کی فکر ہوتی تھی۔ اسوقت صرف دور روپے روزانہ کی۔ ان دنوں۔ ۔ پر سویا کرتا تھا۔ ہر چیز اس کو اپنی محسوس ہوتی تھی مگر اب اپنے بھی پرائے لگتے تھے۔ سینکڑوں حریف تھے کاروبار میں، عشق بازیوں میں، ہر جگہ، ہر مقام پر اس کا کوئی نہ کوئی حریف موجود ہوتا تھا۔ وہ زندگی عجیب و غریب تھی۔ یہ زندگی بھی عجیب و غریب تھی مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ تفکر سے آزاد تھی، یہ تفکر سے پُر۔ چھوٹی سے چھوٹی خوشی اس کے دل و دماغ میں ایک عرصے تک موجود رہتی۔ ایک عرصے تک اس کو شاداں و فرحاں رکھتی۔ چھ آنے دے کر ایک میل ٹیکسی میں بیٹھے تو یہ ایک بہت بڑی عیاشی تھی۔ بھکاری کو ایک پیسہ دیا تو بڑی روحانی مسرت محسوس کی۔ اب وہ سینکڑوں کی خیرات کرتا تھا اور کوئی روحانی مسرت محسوس نہیں کرتا تھا اس لیے کہ یہ محض نمائش کی خاطر ہوتی۔ اس زمانے میں اس کی عیاشیاں بڑی چھوٹی چھوٹی مگر بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ خود کو خوش کرنے کے لیے وہ بڑے نرالے طریقے ایجاد کرلیتا تھا۔ الیکٹرک ٹرین میں بیٹھے اور کسی گاؤں میں جا کر تاڑی پینے لگے۔ پتنگ لیا اور چوپاٹی پر بچوں کے ساتھ اڑانے لگے۔ دارا اسٹیشن پر صبح سویرے چلے گئے اور اسکول جانے والی لڑکیاں تاڑتے رہے۔ پل کے نیچے کھڑے ہو گئے۔ اینگلو انڈین لڑکیاں اسکرٹ پہنے اوپر چڑھتیں تو ان کی ننگی ٹانگیں نظر آتیں۔ اس نظارے سے اس کو بڑی طفلانہ سی مسرت محسوس ہوتی۔ کبھی کبھی طویل فاصلے پیدل طے کرتا۔ گھر پہنچتا تو اسے خوشی ہوتی کہ اس نے اکنی یا دونی بچا لی ہے۔ یہ اکنی یا دونی وہ کسی ایسی چیز پر خرچ کرتا جو اس کے روزانہ پروگرام میں نہیں ہوتی تھی۔ کسی لڑکی کو محبت بھرا خط لکھا اور جو پتا دماغ میں آیا لکھ کر پوسٹ کردیا اور اس حماقت پر دل ہی دل میں خوب ہنسے۔ ایک انگلی کا ناخن بڑھا لیا اور کسی دکان سے ٹسٹ کرنے کے بہانے اس پر کیوٹکس لگالیا۔ ایک دن صرف دوسروں سے مانگ مانگ کے سگریٹ پیے اور بے حد شرارت بھری خوشی محسوس کی۔ دفتر میں بنچ کے کھٹملوں نے زیادہ تنگ کیا تو ساری رات بازاروں میں گھومتے رہے اور بجائے کوفت کے راحت محسوس کی۔ جیب میں پیسے کم ہوئے تو دوپہر کا کھانا گول کردیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ کھا چکا ہے۔ اب یہ باتیں نہیں تھی۔ دفتر سے اس نے روپے کمانے کے ڈھنگ سیکھے۔ دولت آنے لگی تو یہ سب باتیں آہستہ آہستہ غائب ہو گئیں۔ اس کی یہ ننھی ننھی مسرتیں سب سونے اور چاندی کے نیچے دب گئیں۔ اب رقص و سرور کی محفلیں جملتی تھیں۔ مگر ان سے وہ لطف حاصل نہیں ہوتا تھا۔ جو پل کے نیچے کھڑے ہو کر ایک خاص زاویے سے ننگی محرک ٹانگیں دیکھنے میں محسوس ہوتا تھا۔ اس کی راتیں پہلے بالکل تنہا گزرتی تھیں۔ اب کوئی نہ کوئی عورت اس کے آغوش میں ہوتی مگر وہ سکون غائب تھا۔ وہ کنوارا سکون جس میں وہ رات بھر ملفوف رہتا تھا۔ اب اسے یہ فکر دامن گیرہوتی تھی کہ کہیں اس کی بیوی کو پتہ نہ چل جائے۔ کہیں یہ عورت حاملہ نہ ہو جائے۔ کہیں اس کو بیماری نہ لگ جائے۔ کہیں اس عورت کا خاوند نہ آن دھمکے۔ پہلے ایسے تفکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اب اس کے پاس ہر قسم کی شراب موجود رہی تھی مگر وہ مزا، وہ سرورجو اسے پہلے ہر روز شام کو جاپان کی بنی ہوئی

’’اب ہی بیئر‘‘

پینے میں آتا تھا بالکل غائب ہی ہو گیا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ دفتر سے فارغ ہو کر چوپائی یا اپولوبندر کی سیر کی۔ خوب گھومے پھرے۔ نظاروں کا مزا لیا، آٹھ بجے تو گھر کا رخ کیا۔ کسی نل سے منہ دھویا اور بائی کھلہ پل کے پاس والی بار میں داخل ہو گئے۔ پارسی سیٹھ کی جو بہت ہی موٹا اور اس کی ناک بڑی بے ہنگم تھی، صاحب جی کہا

’’کہم سیٹھ سوں حال چھے؟‘‘

اس کو بس صرف اتنی گجراتی آتی تھی، مگر جب وہ کہتا تو اسے بڑی خوشی ہوتی کہ وہ اتنے الفاظ بول سکتا ہے۔ سیٹھ مسکراتا اور کہتا۔

’’ساروچھے، ساروچھے‘‘

پھر وہ پارسی سیٹھ سے کاؤنٹر کے پاس کھڑے ہو کر جنگ کی باتیں چھیڑ دیتا۔ تھوڑی دیر کے بعد یہاں سے ہٹ کر وہ کونے والی میز کے پاس بیٹھ جاتا۔ یہ اس کی محبوب میز تھی۔ اس کے اوپر کا حصہ سنگ مرمر کا تھا۔ بیرا اسے گیلے کپڑے سے صاف کرتا اور مجید سے کہتا۔

’’بولو سیٹھ۔ ‘‘

یہ سن کر مجید خود کو واقعی سیٹھ سمجھتا۔ اس وقت اس کی جیب میں ایک روپے چار آنے ہوتے۔ وہ بیرے کی طرف دیکھ کر بڑی شان سے مسکراتا اور کہتا۔

’’ہر روز تم مجھ سے پوچھتے ہو سب جانتے ہو۔ لے آؤ جو پیا کرتا ہوں۔ ‘‘

بیرا اپنی عادت کے مطابق جانے سے پہلے گیلے کپڑے سے میز صاف کرتا۔ پونچھ کر ایک گلاس رکھتا۔ ایک پلیٹ میں کابلی چنے، دوسری میں کھاری سینگ یعنی نمک لگی مونگ پھلی لاتا۔ مجید اس سے کہتا۔

’’پاپڑ لانا تم ہمیشہ بھول جاتے ہو۔ ‘‘

یہ چیزیں گرک کے طور پر بیئر کے ساتھ مفت ملتی تھیں۔ مجید نے یہ طریقہ ایجاد کیا تھا کہ بیرے سے کابلی چنوں کی ایک اور پلیٹ منگوا لیتا تھا۔ چنے کافی بڑے بڑے ہوتے تھے۔ نمک اور کالی مرچ سے بہت مزیدار بن جاتے تھے۔ مونگ پھلی کی پلیٹ ہوتی تھی۔ یہ سب مل ملا کر مجید کا رات کا کھانا بن جاتے تھے۔ بیئر آتی تو وہ بڑے پرسکون انداز میں اس کو گلاس میں انڈیلتا۔ آہستہ آہستہ گھونٹ بھرتا۔ ٹھنڈی یخ بیئر اس کے حلق سے اترتی تو ایک بڑی عجیب فرحت اس کو محسوس ہوتی۔ اس کو ایسا لگتا کہ ساری دنیا کی ٹھنڈک اس کے دل و دماغ میں جمع ہو گئی ہے۔ وہ موٹے پارسی کی طرف دیکھتا اور سوچتا۔ یہ پارسیوں کی ناک کیوں اتنی موٹی ہوتی ہے۔ اس قوم نے کیا قصور کیا ہے کہ خد ا ان کی ناکوں سے بالکل غافل ہے۔ پرسوں ٹریم میں جو پارسن بیٹھی تھی۔ بڑا سڈول بدن خوبصورت آنکھیں۔ ابھرا ہوا سینہ بے داغ سفدی رنگ۔ ماتھا کشادہ۔ پتلے پتلے ہونٹ، لیکن یہ بڑی طوطے ایسی ناک اس کو دیکھ کر مجید کو بہت ترس آیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ آیا ایسی کوئی ترکیب نہیں ہوسکتی کہ اس کی ناک ٹھیک ہو جائے۔ پھر اس کے دماغ میں مختلف اوقات پر دیکھی ہوئی خوبصورت اور جوان لڑکیاں تیرنے لگتی تھیں۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ وہ ان کا شباب بیئر میں گھول کر پی رہا ہے۔ دیر تک وہاں بیٹھا وہ اپنی زندگی کے حسین لمحات دہراتا رہتا۔ پندرہ دن ہوئے اپولو بندر پر جب تیز ہوا میں ایک یہودن لڑکی کا ریشمی اسکرٹ اٹھا تھا تو کتنی متناسب اور حسین ٹانگوں کی جھلک دکھائی دی تھی۔ پچھلے اتوار ایرانی کے ہوٹل میں پائے کا شوربہ کتنا لذیذ تھا۔ کیسے چٹخارے لے لے کر اس نے اس میں گرم گرم نان بھگو کر کھایا تھا۔ رنگین فلم کتنا اچھا تھا۔ رقص کتنا دلفریب تھا ان عورتوں کا۔ آج صبح ناشتے کے بعد سگرٹ پی کر لطف آگیا۔ ایسا لطف ہر روز آیا کرے تو مزے آجائیں۔ وہ میاں بیوی جواس نے دادر اسٹیشن پر دیکھے تھے، آپس میں کتنے خوش تھے کبوتر اور کبوتری کی طرح گٹک رہے تھے۔ کیکی مستری بڑا آدمی ہے۔ کل میں نے اسپرو مانگی تو اس نے مفت دیدی کہنے لگا۔

’’اس کے دام کیا لوں گا آپ سے‘‘

پچھلے ماہ اس نے وقت پر میری مدد بھی کی تھی۔ پانچ روپے اندھار مانگے۔ فوراً دے دیے اور کبھی تقاضا نہ کیا۔ ٹریم میں جب میں نے اس روز مرہٹی لڑکی کو اپنی سیٹ دی تو اس نے کتنی پیاری شکر گزاری سے کہا تھا۔

’’تھینک یو۔ ‘‘

پھر وہ موٹے پارسی کی طرف دیکھتا۔ اس کے چہرے پر یہ بڑی ناک اس کو نظر آتی۔ مجید پھر سوچتا

’’یہ کبات ہے، ان پارسیوں کی ناکوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا گیا ہے۔ کتنی کوفت ہورہی ہے اس ناک سے۔ ‘‘

فوراً ہی اسے خیال آتا کہ یہ پارسی بڑا نیک آدمی ہے کیونکہ وہ اس کو ادھار دے دیتا تھا۔ جب اس کی جیب میں پیسے نہ ہوتے تو وہ کاؤنٹر کے پاس جاتا اور اس سے کہتا

’’سیٹھ آج مال پانی نہیں۔ کل!‘‘

سیٹھ مسکراتا۔

’’کوئی واندہ نہیں۔ ‘‘

یعنی کوئی حرج نہیں۔ پھر آجائیں گے۔ بیئر کی بوتل چودہ آنے میں آتی تھی۔ اس کو خالی کرکے اور پلیٹیں صاف کرکے وہ ہاتھ کے بڑے خوبصورت اشارے سے بیرے کوبل لانے کے لیے کہتا۔ بیرا بل لاتا تووہ اسے ایک روپیہ دیتا اور بڑی شان سے کہا۔

’’باقی دو آنے تم اپنے پاس رکھو۔ ‘‘

بیرا سلام کرتا۔ مجید بے حد مسرور اور شادماں اٹھتا اور پارسی سیٹھ کو

’’صاحب‘‘

کہہ کر دفتر کی طرف روانہ ہوتا۔ وہاں پہنچتے ہی اس کے قدم رک جائے۔ پڑوس کی گلی میں ایک چھوٹی سی تاریک کھولی میں مس لینا رہتی تھی۔ کسی زمانے میں بڑی مشہور ڈانسر تھی مگر اب بوڑھی ہو چکی تھی۔ یہودن تھی۔ اس کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایستھر اور ہیلن۔ ایستھر سولہ برس کی تھی اور ہیلن تیرہ برس کی۔ دونوں رات کو اپنی ماں کے پاس ایک لمبا کرتہ پہنے لیٹی ہوتی تھیں۔ صرف ایک پلنگ تھا۔ مس لینا فرش پر چٹائی بچھا کرسوتی تھی۔ رات کو بیئر پی کر مس لینا کے ہاں جانا مجید کا معمول بن گیا۔ وہ باہر ہوٹل والے کو تین چائے کا آرڈر دے کر گلی میں داخل ہوتا اور مس لینا کی کھولی میں پہنچ جاتا۔ اندر ٹین کی کپی جل رہی ہوتی۔ ایستھر اور ہیلن قریب قریب نیم برہنہ ہوتیں۔ مجید پہنچتا تو زور سے پکارتا

’’السلام علیکم۔ ‘‘

ماں بیٹیاں ٹھیٹ عربی لہجے میں وعلیکم السلام کہتیں اور وہ لوہے کی کرسی پر بیٹھ جاتا اور مس لیناسے کہتا

’’چائے کا آرڈر دے آیا ہوں۔ ‘‘

ایستھر باربک آواز کہتی

’’تھینک یو‘‘

چھوٹی بستر پر لوٹیں لگانا شروع کردیتی۔ مجید کو اس کی آڑو آڑو جتنی چھاتیوں اور ننگی ٹانگوں کی کئی جھلکیاں دکھائی دیتیں جو اس کے مسرور و مخمور دماغ کو بڑی فرحت بخشتیں۔ باہر والا چائے لے کر آتا تو ماں بیٹیاں پینا شروع کردیتیں۔ مجید خاموش بیٹھا رہتا اس تنگ و تار ماحول میں ایک عجیب و غریب سکون اس کو محسوس ہوتا۔ وہ چاہتا کہ ان تینوں کا شکریہ ادا کرے۔ اس دھواں دینے والی کپی کا بھی شکریہ ادا کرے جو دھیمی دھیمی روشنی پھیلا رہی تھی۔ وہ لوہے کی اس کرسی بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا جس نے اس کو نشست پیش کی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر وہ ماں بیٹیوں کے پاس بیٹھتا۔ دونوں لڑکیاں خوبصورت تھیں۔ ان کی خوبصورتی مجید کی آنکھوں میں بڑی پیاری نیند لے آتی۔ رخصت لے کروہ اٹھتا اور جھومتا جھامتا اپنے دفتر میں پہنچ جاتا اور کپڑے بدل کر بینچ پر لیٹتا اور لیٹتے ہی خوشگوار اور پرسکون نیند کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔ فرصت کے اوقات میں وسکی کے تین چار پیگ پی کر جب مجید اس زمانے کو یاد کرتا تو کچھ عرصے کے لیے سب کچھ بھول کر اس میں محوہو جاتا، نشہ کم ہوتا تو وہ بلیک مارکیٹ کے متعلق سوچنے لگتا۔ روپیہ کمانے کے نئے ڈھنگ تخلیق کرتا۔ ان عورتوں کے متعلق غور کرتا جن سے وہ جنسی رشتہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ مجید کا ماضی جنگ سے پہلے کی فضا میں گم ہو چکا تھا۔ ایک مدھم لکیر سی رہ گئی تھی جس کو مجید اب دولت سے پیٹ رہا تھا۔

سعادت حسن منٹو

ماتمی جلسہ

رات رات میں یہ خبر شہر کے اس کونے سے اس کونے تک پھیل گئی کہ اتاترک کمال مر گیا ہے۔ ریڈیو کی تھرتھراتی ہوئی زبان سے یہ سنسنی پھیلانے والی خبر ایرانی ہوٹلوں میں سٹے بازوں نے سنی جو چائے کی پیالیاں سامنے رکھے آنے والے نمبر کے بارے میں قیاس دوڑا رہے تھے اور وہ سب کچھ بھول کر کمال اتاترک کی بڑائی میں گم ہو گئے۔ ہوٹل میں سفید پتھر والے میز کے پاس بیٹھے ہوئے ایک سٹوری نے اپنے ساتھی سے یہ خبر سن کر لرزاں آواز میں کہا۔

’’مصطفےٰ کمال مر گیا!‘‘

اس کے ساتھی کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گرتے گرتے بچی۔

’’کیا کہا مصطفےٰ کمال مرگیا!‘‘

اس کے بعد دونوں میں اتاترک کمال کے متعلق بات چیت شروع ہو گئی۔ ایک نے دوسرے سے کہا۔

’’بڑے افسوس کی بات ہے، اب ہندوستان کا کیا ہو گا؟ میں نے سنا تھا یہ مصطفےٰ کمال یہاں پر حملہ کرنیوالا ہے۔ ہم آزاد ہو جاتے، مسلمان قوم آگے بڑھ جاتی۔ افسوس تقدیر کے ساتھ کسی کی پیش نہیں چلتی! دوسرے نے جب یہ بات سنی تو اس کے روئیں بدن پر چیونٹیوں کے مانند سرکنے لگے۔ اس پر ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کے دل میں جو پہلا خیال آیا، یہ تھا

’’مجھے کل جمعہ سے نماز شروع کردینی چاہیے۔ ‘‘

اس خیال کو بعد میں اُس نے مصطفےٰ کمال پاشا کی شاندار مسلمانی اور اس بڑائی میں تحلیل کردیا۔ بازار کی ایک تنگ گلی میں دو تین کوکین فروش کھاٹ پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ ایک نے پان کی پیک بڑی صفائی سے بجلی کے کھمبے پر پھینکی اور کہا۔

’’میں مانتا ہوں، مصطفےٰ کمال بہت بڑا آدمی تھا۔ لیکن محمد علی بھی کسی سے کم نہیں تھا۔ یہاں بمبئی میں تین چار ہوٹلوں کا نام اسی پر رکھا گیا ہے!‘‘

دوسرے نے جو اپنی ننگی پنڈلیوں پر سے ایک کھردرے چاقو سے میل اتارنے کی کوشش کررہا تھا۔ اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا۔

’’محمد علی کی موت پر تو بڑی شاندار ہڑتال ہُوئی تھی۔ ‘‘

’’ہاں بھئی تو کل ہڑتال ہورہی ہے کیا؟‘‘

تیسرے نے ایک کی پسلیوں میں کہنی سے ٹہوکا دیا۔ اس نے جواب دیا

’’کیوں نہ ہو گی۔ ارے اتنا بڑا مسلمان مر جائے اور ہڑتال نہ ہو۔ ‘‘

یہ بات ایک راہ گیر نے سُن لی، اس نے دوسرے چوک میں اپنے دوستوں سے کہی اور ایک گھنٹے میں ان سب لوگوں کو جو دن کو سونے اور رات کو بازاروں میں جاگتے رہنے کے عادی ہیں، معلوم ہو گیا کہ صبح ہڑتال ہورہی ہے۔ ابو قصائی رات کو دو بجے اپنی کھولی میں آیا۔ اس نے آتے ہی طاق میں سے بہت سی چیزوں کو ادھر ادھر الٹ پلٹ کرنے کے بعد ایک پڑیا نکالی اور ایک دیگچی میں پانی بھر کر اس کو اس میں ڈال کر گھولنا شروع کردیا۔ اس کی بیوی جو دن بھر کی تھکی ماندی ایک کونے میں ٹاٹ پر سو رہی تھی۔ برتن کی رگڑ سن کر جاگ پڑی۔ اس نے لیٹے لیٹے کہا۔

’’آگئے ہو؟‘‘

’’ہاں آگیا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر ابو نے اپنی قمیض اتار کر دیگچی میں ڈال دی اور اسے پانی کے اندر مسلنا شروع کردیا۔ اس کی بیوی نے پوچھا۔

’’پر یہ تم کیا کررہے ہو!‘‘

مصطفےٰ کمال مر گیا ہے، کل ہڑتال ہورہی ہے!‘‘

اس کی بیوی یہ سن کر گھبراہٹ کے مارے اٹھ کھڑی ہوئی

’’کیا مارا ماری ہو گی؟۔ میں تو ان ہر روز کے فسادوں سے بڑی تنگ آگئی ہوں۔ ‘‘

وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔

’’میں نے تجھ سے ہزار مرتبہ کہا ہے کہ تو ہندوؤں کے اس محلے سے اپنامکان بدل ڈال پر نہ جانے تو کب سنے گا!‘‘

ابو جواب میں ہنسنے لگا۔

’’اری پگلی۔ یہ ہندو مسلمانوں کا فساد نہیں۔ مصطفےٰ کمال مر گیا ہے۔ وہی جو بہت بڑا آدمی تھا۔ کل اس کے سوگ میں ہڑتال ہو گی!‘‘

’’جانے میری بلا یہ بڑا آدمی کون ہے۔ پر یہ تُو کیا کررہا ہے؟‘‘

بیوی نے پوچھا

’’سوتا کیوں نہیں ہے!‘‘

قمیض کو کالا رنگ دے رہا ہوں۔ صبح ہمیں ہڑتال کرانے جانا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے قمیض نچوڑ کر دو کیلوں کے ساتھ لٹکا دی جو دیوار میں گڑی ہُوئی تھیں۔ ‘‘

دوسرے روز صبح کو سیاہ پوش مسلمانوں کی ٹولیاں کالے جھنڈے لیے بازاروں میں چکر لگا رہی تھیں۔ یہ سیاہ پوش مسلمان دکانداروں کی دکانیں بند کرارہے تھے اور یہ نعرے لگا رہے تھے۔

’’انقلاب زندہ باد‘‘

’’انقلاب زندہ باد!‘‘

ایک ہندو نے جو اپنی دکان کھولنے کے لیے جارہا تھا یہ نعرے سنے اور نعرے لگانیوالوں کو دیکھا تو چپ چاپ ٹرام میں بیٹھ کر وہاں سے کھسک گیا۔ دوسرے ہندو اور پارسی دکانداروں نے جب مسلمانوں کے ایک گروہ کو چیختے چلاتے اور نعرے مارتے دیکھا تو انھوں نے جھٹ پٹ اپنی دکانیں بند کرلیں۔ دس پندرہ سیاہ پوش گپیں ہانکتے ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔

’’دوست ہڑتال ہُوئی تو خوب ہی پرویسی نہیں ہُوئی جیسی محمد علی کے ٹیم پر ہُوئی تھی۔ ٹرامیں تو اسی طرح چل رہی ہیں۔ ‘‘

اس ٹولی میں جو سب سے زیادہ جوشیلا تھا اور جس کے ہاتھ میں سیاہ جھنڈا تھا تنک کر بولا۔

’’آج بھی نہیں چلیں گی!‘‘

یہ کہہ کر وہ اس ٹرام کی طرف بڑھا جو لکڑی کے ایک شیڈ کے نیچے مسافروں کو اُتار رہی تھی۔ ٹولی کے باقی آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا اور ایک لمحہ کے اندر سب کے سب ٹرام کی سرخ گاڑی کے اردگرد تھے۔ سب مسافر زبردستی اُتار دیئے گئے۔ شام کو ایک وسیع میدان میں ماتمی جلسہ ہُوا۔ شہر کے سب ہنگامہ پسند جمع تھے۔ خوانچہ فروش اور پان بیڑی والے چل پھر کر اپنا سودا بیچ رہے تھے۔ جلسہ گاہ کے باہر عارضی دکانوں کے پاس ایک میلہ لگا ہوا تھا، چاٹ کے چنوں اور اُبلے ہُوئے آلوؤں کی خوب بکری ہورہی تھی۔ جلسہ گاہ کے اندر اور باہر بہت بھیڑ تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ اس ہجوم میں کئی آدمی ایسے بھی چل پھر رہے تھے جو یہ معلوم کرنیکی کوشش میں مصروف تھے کہ اتنے آدمی کیوں جمع ہورہے ہیں۔ ایک صاحب گلے میں دُور بین لٹکائے اِدھر اُدھر چکرکاٹ رہے تھے۔ دور سے اتنی بھیڑ دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ پہلوانوں کا دنگل ہورہا ہے وہ ابھی ابھی اپنے گھر سے نئی دور بین لے کر دوڑے دوڑے آرہے تھے اور اس کا امتحان لینے کے لیے بیتاب ہورہے تھے، میدان کے آہنی جنگلے کے پاس دو آدمی کھڑے آپس میں بات چیت کررہے تھے۔ ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔

’’بھئی یہ مصطفےٰ کمال توواقعی کوئی بہت بڑا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ میں جو صابن بنانے والا ہوں اس کا نام

’’کمال سوپ‘‘

رکھوں گا۔

’’کیوں کیسا رہے گا؟‘‘

دوسرے نے جواب دیا۔

’’وہ بھی بُرا نہیں تھا جو تم نے پہلے سوچا تھا۔

’’جناح سوپ‘‘

۔ یہ جناح مسلم لیگ کا بہت بڑا لیڈر ہے!‘‘

’’نہیں، نہیں۔ کمال سوپ‘‘

اچھا رہے گا۔ بھائی مصطفےٰ کمال اس سے بڑا آدمی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’آؤ چلیں جلسہ شروع ہونے والا ہے۔ ‘‘

وہ دونوں جلسہ گاہ کی طرف چل دیئے۔ جلسہ شروع ہوا۔ آغاز میں نظمیں گائی گئیں جن میں مصطفےٰ کمال کی بڑائی کا ذکر تھا پھر ایک صاحب تقریر کرنے کے لیے اٹھے۔ آپ نے کمال اتاترک کی عظمت بڑی بلند بانگ لفظوں میں بیان کرنا شروع کی۔ حاضرین جلسہ اس تقریر کو خاموشی سے سنتے رہے۔ جب کبھی مقرر کے یہ الفاظ گونجتے

’’مصطفےٰ کمال نے درہ دانیال سے انگریزوں کو لات مار کے باہر نکال دیا۔ ‘‘

یا کمال نے یونانی بھیڑوں کو اسلامی خنجر سے ذبح کر ڈالا۔ ‘‘

تو

’’اسلام زندہ باد‘‘

کے نعروں سے میدان کانپ کانپ اٹھتا۔ یہ نعرے مقرر کی قوتِ گویائی کو اور تیز کردیتے اور وہ زیادہ جوش سے اتاترک کمال کی عظیم الشان شخصیت پر روشنی ڈالنا شروع کردیتا۔ مقرر کا ایک ایک لفظ حاضرین جلسہ کے دلوں میں ایک جوش و خروش پیدا کررہا تھا۔

’’جب تک تاریخ میں گیلی پولی کا واقعہ موجود ہے برطانیہ کی گردن ٹرکی کے سامنے خم رہے گی۔ صرف ٹرکی ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے برطانوی حکومت کا کامیاب مقابلہ کیا۔ اور صرف مصطفےٰ کمال ہی ایسا مسلمان ہے جس نے غازی صلاح الدین ایوبی کی سپاہیانہ عظمت کی یاد تازہ کی۔ اس نے بہ نوک شمشیر یورپی ممالک سے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ ٹرکی کو یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا۔ مگر کمال نے اسے صحت اور قوت بخش کر مردِ آہن بنا دیا۔ ‘‘

جب یہ الفاظ جلسہ گاہ میں بُلند ہُوئے تو

’’انقلاب زندہ باد، انقلاب زندہ باد‘‘

کے نعرے پانچ منٹ تک متواتر بلند ہوتے رہے۔ اس سے مقرر کا جوش بہت بڑھ گیا۔ اس نے اپنی آواز کو اور بلند کرکے کہنا شروع کیا

’’کمال‘‘

کی عظمت مختصر الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی۔ اس نے اپنے ملک کے لیے وہ خدمات سرانجام دی ہیں جس کو بیان کرنے کے لیے کافی وقت چاہیے۔ اس نے ٹرکی میں جہالت کا دیوالیہ نکال دیا۔ تعلیم عام کردی۔ نئی روشنی کی شعاعوں کو پھیلایا۔ یہ سب کچھ اس نے تلوار کے زور سے کیا۔ اس نے دین کو جب علم سے علیحدہ کیا تو بہت سے قدامت پسندوں نے اس کی مخالفت کی مگر وہ سرِ بازار پھانسی پر لٹکا دیئے گئے۔ اس نے جب یہ فرمان جاری کیا کہ کوئی تُرک رومی ٹوپی نہ پہنے تو بہت سے جاہل لوگوں نے اس کے خلاف آواز اُٹھانا چاہی مگر یہ آواز ان کے گلے ہی میں دبا دی گئی۔ اس نے جب یہ حکم دیا کہ اذان ترکی زبان میں ہو تو بہت سے مُلّاؤں نے عدولِ حکمی کی مگر وہ قتل کردیئے گئے۔ ‘‘

’’یہ کُفر بکتا ہے۔ ‘‘

جلسہ گاہ میں ایک شخص کی آواز بُلند ہُوئی اور فوراً ہی سب لوگ مضطرب ہو گئے۔

’’یہ کافر ہے جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘

کے نعروں میں مقرر کی آواز گُم ہو گئی۔ پیشتر اس کے کہ وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرتا اس کے ماتھے پر ایک پتھر لگا اور وہ چکرا کر اسٹیج پر گر پڑا۔ جلسے میں ایک بھگدڑ مچ گئی۔ اسٹیج پر مقرر کا ایک دوست اس کے ماتھے پر سے خُون پونچھ رہا تھا اور جلسہ گاہ ان نعروں سے گونج رہی تھی۔

’’مصطفےٰ کمال زندہ باد، مصطفےٰ کمال زندہ باد۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

مائی نانکی

اس دفعہ میں ایک عجیب سی چیز کے متعلق لکھ رہا ہوں۔ ایسی چیز جو ایک ہی وقت میں عجیب و غریب اور زبردست بھی ہے۔ میں اصل چیز لکھنے سے پہلے ہی آپ کو پڑھنے کی ترغیب دے رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں آپ کل کو نہ کہہ دیں کہ ہم نے چند پہلی سطورہی پڑھ کر چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ وہ خشک سی تھیں۔ آج اس بات کو قریب قریب تین ماہ گزر گئے ہیں کہ میں مائی نانکی کے متعلق کچھ لکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح جلدی سے اُسے لکھ دُوں تاکہ آپ بھی مائی نانکی کی عجیب و غریب اور پُر اسرار شخصیت سے واقف ہو جائیں۔ ہوسکتا ہے آپ اس سے پہلے بھی مائی نانکی کو جانتے ہوں۔ کیونکہ اسے کشمیر اور جموں کشمیر کے علاقے کے سبھی لوگ جانتے ہیں۔ اور لاہور میں سید مٹھا اور ہیرا منڈی کے گرد ونواح میں رہنے والے لوگ بھی۔ کیونکہ اصل میں وہ رہنے والی جموں کی ہے اور آج کل راجہ دھیان سنگھ کی حویلی کے ایک اندھیرے کونے میں رہتی ہے۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ آپ بھی جموں یا ہیرا منڈی کے گرد و نواح میں رہتے ہوں اور مائی نانکی سے واقف ہوں۔ لیکن میں نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سی عورتیں دیکھی ہیں اور بڑی بڑی زہریلی قسم کی عورتیں لیکن میں آج تک کسی سے اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا اُس عورت سے۔ جیسا کہ میں اُوپر لکھ چکا ہوں وہ جموں کی رہنے والی ہے۔ وہاں وہ ایک دایہ کا کام کرتی تھی۔ اور اس کے کہنے کے مطابق وہ جموں اور کشمیر کی سب سے بڑی دایہ تھی۔ وہاں کے سب سے بڑے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے ہاں اس کا ہی چرچا رہتا تھا۔ اور جہاں کہیں کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوتا تو فوراً اُسے بُلایا جاتا۔ اس کے علاوہ وہاں کے بڑے بڑے راجے، مہا راجے، نواب، جج وکیل اور ملٹری کے بڑے بڑے افسر سب اس کے مداح اور مرید تھے۔ انھوں نے آج تک نہ کبھی اس کی بات ٹالی اور نہ اسے ناراض کیا۔ بلکہ جب بھی اُس کا جی چاہا اُس نے اُن سے ہزار ہا قسم کے کام نکالے۔ اس کے علاوہ وہ غالباً روزانہ اپنے کام سے تین چار سو روپے کے قریب کما لیتی تھی۔ روزانہ ان گنت بچے جناتی۔ ان میں کئی ایک مردہ۔ کئی ست ماہے اور باقی ٹھیک ٹھاک ہوتے۔ اس کے علاوہ وہاں اُس کا عالیشان مکان اور دو دکانیں تھیں۔ ایک طویلہ جس میں بارہ مہینے پانچ سات گائیں بھینسیں بندھی رہتیں۔ اس کا کنبہ جو ۲۵ افراد پر مشتمل تھا سب دُودھ مکھن کھاتے اور موج میں رہتے۔ کنبے کے لفظ پر ایک لطیفہ سنتے چلیے۔ اس کے کنبے کے سبھی آدمی اُس کے گھر کے نہیں تھے۔ ان پچیس افراد میں سے اس کا نہ کوئی لڑکا تھا نہ لڑکی، ماں نہ بہن صرف وہ ایک خود تھی یا اس کا شوہر اور باقی سب لڑکے لڑکیاں اُس نے دوسروں سے لے کر پالے ہوئے تھے۔ میں نے ایک روز اُس سے پوچھا کہ تم دوسروں کے بچے جناتی رہیں لیکن خود کیوں نہ جنا؟‘‘

کہنے لگی

’’ایک ہوا تھا میں نے اُسے مار دیا‘‘

میں نے پوچھا

’’کیوں؟‘‘

کہنے لگی

’’میری طبیعت کو اس کا رونا ناگوار گزرا تھا۔ بڑا خوبصورت تھا لیکن میں نے اُسے زمین پر رکھا اور اوپر سے لحاف اور رضائیوں کا ایک انبار گرا دیا اور وہ نیچے ہی دم گھٹ کے مر گیا۔ ‘‘

میں اُس کی زُبانی اس کے حالات آپ کو بتا رہا تھا اُس کے علاوہ وہ کہتی کہ میرے پاس کم از کم پچیس تیس ہزار کی مالیت کا زیور بھی تھا۔ بقول اُس کے وہ بڑی موج میں رہ رہی تھی کہ اچانک ہندوستان تقسیم ہو گیا اور کشمیر میں قتل و غارت شروع ہوئی۔ ڈوگرے مسلمانوں کو چن چن کے قتل کرنے لگے۔ چنانچہ اسی افرا تفری میں اُس نے اپنا گھر چھوڑا کیونکہ اس کے محلے میں بھی قتل و خون اور عصمت دری شروع ہو گئی تھی۔ لیکن اس بھاگ دوڑ میں اس کے گھر کے سبھی آدمی اسے چھوڑ گئے اور وہ اکیلی جان بچانے کو عیسائیوں کے محلے میں جا گھسی۔ آپ حیران ہوں گے وہ اس قیامت کے سمے میں بھی اپنا زیور اور گائے بھینس اور ضروری کپڑے اور سامان وغیرہ بھی اپنے ساتھ لے گئی اور وہاں سکونت پذیر ہوئی۔ لیکن جس واقف کار کے ہاں وہ ٹھہری تھی اُسے دوسرے روز اُس نے کہا کہ مائی ہم کو بھی قتل کروانے کی ٹھانی ہے۔ تم اپنا زیور سامان اور گائے بھینس یہیں چھوڑ کر پاکستان چلی جاؤ۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں کسی ڈوگرے نے دیکھ لیں تو تم کو ختم کر دے گا۔ چنانچہ وہ وہاں سے صرف اپنا دن رات کا رفیق حقہ اُٹھا کر باہر نکلی تھی کہ ساتھ والی عیسائن نے کہا

’’مائی تم میرے گھر میں آرہو۔ اگر کوئی تمھیں مارنے آیا تو پہلے ہم کو مارے گا۔ وہ رضا مند ہو گئی لیکن اُسی شام کو جموں کے مہا راجہ کا بھیجا ہوا ایک سپاہی آیا اور اُس نے اُس عیسائن سے سوال کیا

’’کیا دائی نانکی یہیں ہے‘‘

عیسائن نے جواب دیا کہ نہیں وہ یہاں کہاں۔ سپاہی اور عیسائن کے سوال و جواب وہ خود اندر سُن رہی تھی اور وہ کہتی ہے کہ میں خود باہر آئی اور سپاہی سے کہا

’’میں ہوں مہا راج۔ مائی نانکی میرا ہی نام ہے‘‘

سپاہی کہنے لگا

’’مہاراج کہتے ہیں نانکی یہیں ہمارے پاس رہے گی۔ پاکستان نہیں جائے گی اُس نے بتایا کہ سپاہی کا یہ فقرہ سُن کر مجھے جلال آگیا اور میں نے آنکھیں لال کر کے کہا

’’مہاراج سے کہوہم نے آپ سے اور آپ کی رعایا سے بہت کچھ انعام لے لیا ہے۔ اب ہمیں اور سُکھ نہیں چاہیے اور دیکھو مہاراج سے جا کر کہہ دو کہ مائی نانکی پاکستان ضرور جائے گی کیونکہ اگر پاکستان نہیں جائے تو کیا جہنم میں جائے گی۔ ‘‘

سپاہی یہ سُن کر واپس مہاراج کے پاس چلا گیا اور دوسرے ہی روز ملٹری کے ایک کرنل کی حفاظت میں مائی نانکی سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو رہی تھی۔ سرحد پر اُسے پتہ چلا کہ اُس کے کنبے کے پچیس افراد میں سے اٹھارہ جن میں لڑکے اور لڑکیاں تھیں شہید ہو چکے ہیں اور باقی کے تین لڑکے اور ایک بہو اور دو بچے پاکستان صحیح و سلامت جا چکے ہیں۔ وہ کہتی تھی میرے آنسو نہیں نکلے۔ میں نے اپنا بھرا بھرایا گھر دیا سات گائیں بھینسیں اور تیس ہزار کا زیور کشمیر کے ہندوؤں اور عیسائیوں نے چھین لیا۔ میرے اٹھارہ لاڈلے جن میں بڑے بڑے سورما تھے ان کافروں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ میں خود اُجڑی لیکن میرے آنسو نہیں نکلے۔ ہاں زندگی میں پہلی بار روئی وہ اس وقت جب میں نے مہاجرین کے کیمپ میں پاکستانیوں کو جوان لڑکیوں سے بدفعلی کرتے دیکھا اپنی بہو اور لڑکوں سمیت شہر بہ شہر پیٹ پالنے کی خاطر پھرتی رہی۔ آخر اپنے ایک عزیز کے ہاں جو کہ خوش قسمتی سے حویلی دھیان سنگھ میں رہتا تھا آگئی اور اس کے لڑکے موچی گری کرنے لگے اُس کے متعلق وہ کچھ پہلے بھی جانتے تھے۔ جموں کی ٹھاٹ دار زندگی اور اس کے تمام حالات وہیں رہ گئے۔ لیکن جہاں تک میں نے اُسے یہاں جس غربت کی حالت میں دیکھا ہے میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت ہی اونچے درجے کی عورت ہے۔ ایسی عورتیں بہت کم دنیا میں پیدا ہوتی ہیں۔ اُس کی ذات بہت ہی بلند اور بے مثال ہے۔ ۸۵ سال کی عمر ہونے کو آئی لیکن گھر کا سب کام کاج خود کرتی ہے۔ بیماری اور پریشانی میں بھی اس کا چہرہ پُر وقار اور پھول کی طرح کھلا رہتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے غمگین نہیں ہوتی اور نہ کسی گہری سوچ میں غرق رہتی ہے۔ چوبیس گھنٹے ہنستی اور مسکراتی رہتی ہے۔ اس بڑھاپے میں بھی بڑی بڑی بوجھل چیزیں خود اُٹھاتی ہے۔ بڑی اچھی باتیں سُناتی ہے۔ کسی بھی فقیر کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی۔ اور سب سے بڑی بات جو میں اب اُس کے متعلق بتانے لگا ہوں وہ یہ کہ وہ انتہا درجے کی غریب عورت ہوتے ہوئے بھی بڑے بڑے شہنشاہوں سے زیادہ امیر ہے۔ اس لیے کہ اس کا دل بادشاہ کا ہے۔ اگر محلے کی کسی عورت نے اس سے کچھ مانگ لیا تو بس بھر بھر کے دیتی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ خوش ہوتی جاتی ہے اور مجھے تو بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا شہنشاہ اپنی رعیت کو کائنات کی نعمتیں تقسیم کررہا ہو۔ کھانے کے معاملے میں وہ بہت تیز ہے اور اس عمر میں بھی دن میں وہ چار وقت پیٹ بھر کر کھانا کھاتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سارا سر سفید ہو گیا ہے لیکن اُس کے گالوں پر سُرخیاں ہنوز باقی ہیں۔ اس کا اپنا بیان ہے کہ وہ ایک دفعہ کسی زچہ کو دیکھنے گئی تو اتفاق سے وہاں گھر والوں نے گھی، سوجی پستے بادام اور دوسرے میوے ملا کر ایک قسم کی چوری تیار کی تھی جو کہ تین چار سیر کے قریب ہو گی۔ شامت اعمال لڑکی کی ماں نانکی کو ذرا چکھ کے دیکھنے کو کہہ بیٹھی۔ بس اس کا کہنا تھا کہ نانکی نے برتن تھام لیا اور ساری چوری چٹ کر گئی۔ اتنا کچھ کھا چکنے کے بعد وہ کہتی تھی مجھے کچھ خبر بھی نہ ہوئی اور وہ وہاں سے اُٹھ کر دوسری زچہ کے ہاں گئی جہاں سے اس نے ایک سیر کے قریب حلوہ پوری کھایا اُسی طرح کے کئی اور واقعات وہ ہنس ہنس کے سُناتی ہے۔ جہاں تک لباس کا تعلق ہے وہ عام پنجابی لباس یعنی قمیص اور شلوار پہنتی ہے لیکن اس عام میں ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی قمیص کو ہمیشہ شلوار کے اندر کر کے ازار بند باندھتی ہے۔ میں نے اُس سے استفسار کیا تو وہ کہنے لگی۔

’’تم ابھی بچے ہو۔ تمھیں کیا معلوم ہو۔ ‘‘

اور میں خاموش ہو گیا۔ پاؤں میں وہ مردانہ جوتا پہنتی ہے اور جب آدھی رات کو سب سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ غسل خانے میں جاتی ہے تو اُس کے پاؤں کی آواز بہت ہی مہیب معلوم ہوتی ہے۔ اب ذرا سا اُس کے لڑکوں کے متعلق سُن لیجیے۔ اُس کے سب سے بڑے لڑکے کا نام حبیب اللہ ہے جس کی ایک دکان جوتیوں کی ہے اور نانکی کا کہنا ہے کہ اُس لڑکے کو اس نے بڑے ناز و نعم سے پالا پوسا ہے اور وہی سب میں زیادہ خدمت گزار اور وفا شعار ہے وہ اُس کی خوب خدمت کرتا ہے اور نانکی اس پر بہت خوش ہے۔ حبیب اللہ اپنی سسرال کے مکان کی سب سے اوپر والی منزل کے دو کمروں میں ایک بیوی اور تین بچوں سمیت رہتا ہے۔ گرمیوں میں اُس کے بچوں کے پاؤں دھوپ میں جل جل جاتے ہیں اور سردیوں میں اوپر سکڑتے رہتے ہیں لیکن آج تک کبھی اس نے ماتھے پر بل نہیں ڈالا اور نہ اس کے ہونٹ مسکراہٹ سے بے خبر ہوئے ہیں بلکہ وہ اپنے دستور کے مطابق ہر اتوار کو نانکی کے لیے پانچ سات روپے کا پھل وغیرہ لے کر مسکراتا ہوا آتا ہے اور نانکی کی دُعائیں لے کر چلا جاتا ہے۔ اس سے چھوٹے لڑکے کا نام محمد حسین ہے جو بجلی اور ریڈیو کا کام اچھی طرح جانتا ہے اور اُسے دفتر روزگار سے کم از کم پانچ دفعہ کارڈ بنوانے کے باوجود آج سات سال سے کوئی نوکری نہیں ملی۔ مائی نانکی نے بڑی کوشش کی کہ جیتے جی اپنے ان پالے ہوئے لڑکوں کی شادیاں کر کے جائے تاکہ بعد میں وہ دربدر نہ ہوں اور اسے بھی قبر میں آرام نصیب ہو۔ لیکن بقول اُسی کے، غریب کو مر کے بھی آرام نہیں ملتا۔ شاید اسی لیے ابھی تک اُس کی شادی کا کوئی بندوبست نہیں ہوا۔ ایک دو جگہ دریافت کرنے پر لڑکی والوں نے کہا کہ کم از کم دو تین زیور لڑکی کو ڈالو تب لڑکی ملے گی ورنہ نہیں لیکن دوسری طرف یعنی نانکی کے پاس تو صرف اللہ کا نام اور اپنا بیٹا ہی ہے۔ نانکی کا کہنا ہے کہ اس کا لڑکا محمد حسین عقل کے لحاظ سے تو کسی بڑے لیڈر کے برابر ہے لیکن اُس کی اکڑ ٹنڈے لاٹ کی طرح ہے۔ محمد حسین سے چھوٹے لڑکے کا نام محمد یونس ہے جو خوبصورت اور دُبلا پتلا ہے اور اُس کی تعلیم سات جماعت تک ہے۔ سینکڑوں کام کرنے کی تجویزیں کر رہا ہے اور جن میں سب سے بڑی خواہش اُس کی یہ ہے کہ اُسے کوئی معمولی سی ملازمت مل جائے جہاں اسے صبح سے دوپہر تک کام کرنا پڑے اور شام کے وقت وہ کچھ پڑھ لے اور اس طرح اپنی تعلیم کو بڑھا سکے۔ لیکن آج تک اُس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ نانکی کا یہ خیال ہے کہ وہ جنات کی قوم سے ہے کیونکہ اُس میں غصے کا مادہ زیادہ ہے۔ مائی نانکی آج کل کچھ اداس اور غمگین سی رہنے لگی ہے ایک روز میں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی

’’بچے مجھے پاکستان نے بہت سی بیماریاں لگا دی ہیں۔ مجھے جموں میں کوئی بیماری نہیں تھی اور نہ کبھی میں نے کسی بات کے متعلق آج تک سوچا ہے۔ ہاں اپنی ساری زندگی میں ایک دفعہ میں نے ایک بات پر غور کیا تھا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے اصل میں قصہ یہ ہوا کہ جموں کی ایک باہمنی کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہوتا تھا بڑی بڑی کاریگر نرسوں اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ اور مصیبت یہ تھی کہ بچہ پیٹ میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا تھا اور ہمکتا بھی تھا۔ اس مشکل میں سبھی نے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ نانکی کو بُلاؤ۔ چنانچہ میں گئی اور دو ہاتھ لگانے سے ہی بچہ پیدا ہو گیا لیکن میرا رنگ اُڑ گیا اور اپنی جوانی میں میں پہلی بار سر سے پاؤں تک پسینے میں شرابور ہو گئی۔ ‘‘

یہاں تک کہہ کر وہ ذرا رکی۔ میں نے پوچھا

’’کیوں؟‘‘

کہنے لگی

’’کیونکہ بچے کے دو سر چار آنکھیں اور دونوں سروں میں دو دو سینگ تھے۔ میں نے آنکھیں لال کرتے ہوئے براہمن سے کہا

’’کیوں لالہ یہ کیا ظلم کیا تم نے۔ تم نے مجھے بتایا تک نہیں کہ یہ قصہ ہے۔ اگر میرے دل کی حرکت بند ہو جاتی تو؟‘‘

اس پر لالہ جی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے کہ کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔ جو جی چاہے لے لو۔ سو میں نے اُس سے سو روپے لیے۔ لیکن اب تو کئی اندیشے جان کو کھائے جارہے ہیں بچہ سب سے زیادہ اس بات کو سوچتی ہوں کہ میں پاکستان کی خاطر اپنا بھرا بھرایا گھر لُٹاکر آئی۔ اٹھارہ آدمی شہید ہوئے اور تیس ہزار کی مالیت کا زیور بھی وہیں رہ گیا۔ اس بے بسی اور غربت کی حالت میں ہم یہاں آئے۔ لیکن پاکستان والوں نے میرے نام کوئی مکان الاٹ کیا اور نہ کوئی دُکان۔ آج تک نہ کہیں سے راشن ملا اور نہ ہی کچھ مالی امداد۔ باغ کا مالی جس نے پاکستان کو بڑی مشکلوں سے بنایا تھا اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اب اُس کے بعد جتنے بھی ہیں آنکھیں بند کیے مست پڑے ہیں۔ اُن کو کیا خبر کہ ہم غریب کس حالت میں رہ رہے ہیں اس کی خبر یاہمارے اللہ کو ہے یا ہمیں۔ اس لیے اب ہر دم اپنے اللہ سے یہی دُعا کرتی ہوں کہ ایک دفعہ پھر سے سب کو مہاجر کر تاکہ غیر مہاجر لوگوں کو پتہ چلے کہ مہاجر کس طرح ہوتے ہیں اتنا کہہ کر اُس نے حقے کی نے منہ میں دبا لی۔ میں نے اُس سے کہا۔

’’مائی پہلے تو لوگ ہندوستان سے مہاجر ہوئے تو پاکستان آگئے۔ اب اگر یہاں سے مہاجر ہو گئے تو کہاں جائیں گے‘‘

وہ حقہ کی نے کو غصے سے جھٹک کر بولی

’’جہنم میں جائیں گے۔ کوئی پروا نہیں۔ لیکن ان کو معلوم تو ہو جائے گا کہ مہاجر کس کو کہتے ہیں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو ۲ نومبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

مائی جنتے

مائی جنتے سلیپر ٹھپٹھپاتی ‘ گھسٹتی کچھ اس انداز میں اپنے میلے چکٹ میں داخل ہوئی ہی تھی کہ سب گھر والوں کو معلوم ہو گیا کہ وہ آ پہنچی ہے۔ وہ رہتی اسی گھر میں تھی جو خواجہ کریم بخش مرحوم کا تھا‘ اپنے پیچھے کافی جائیداد ‘ ایک بیوہ اور دو جوان بچیاں چھوڑ گیا تھا‘ آدمی پرانی وضع کا تھا۔ جونہی یہ لڑکیاں نو دس برس کی ہوئیں ان کو گھر کی چار دیواری میں بٹھا دیا اور پہرہ بھی ایسا کہ وہ کھڑکی تک کے پاس کھڑی نہیں ہو سکتیں مگر جب وہ اﷲ کو پیارا ہوا تو ان کو آہستہ آہستہ تھوڑی سی آزادی ہو گئی‘ اب وہُ لک چھپ کے ناول بھی پڑھتی تھیں۔ اپنے کمرے کے دروازے بند کر کے پوڈر اور لپ اسٹک بھی لگاتی تھیں۔ ان کے پاس ولایت کی سی ہوئی انگیا بھی تھیں۔ معلوم نہیں یہ سب چیزیں کہاں سے مل گئی تں یھ۔ بہرحال اتنا ضرور ہے کہ ان کی ماں کو جو ابھی تک اپنے خاوند کے صدمے کو بھول نہ سکی تھی ‘ ان باتوں کا کوئی علم نہیں تھا۔ وہ زیادہ تر قرآن مجید کی تلاوت اور پانچ وقت کی نمازوں کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور اپنے مرحوم شوہر کی رُوح کو ثواب پہنچاتی رہتی۔ گھر میں کوئی مرد نوکر نہیں تھا۔ مرحوم کے باپ کی زندگی میں ‘ نہ مرحوم کے زمانے میں‘ یہ ان کی پرانی وضعداری کا ثبوت ہے۔ عام طور پر ایک یا دو ملازمائیں ہوتی تھیں جو باہر سے سودا سلف بھی لائیں اور گھر کا کام بھی کریں۔ دسویں جماعت خود مرحوم نے اپنی بچیوں کو پڑھا کر پاس کرائی تھی۔ کالج کی تعلیم کے وہ یکسر خلاف تھے‘ وہ ان کی فوراً شادی کر دینا چاہتے تھے مگر یہ تمنا ان کے دل ہی میں رہی ‘ ایک دن اچانک فالج گرا اس موذی مرض نے ان کے دل پر اثر کیا اور وہ ایک گھنٹے کے اندر اندر راہئ ملک عدم ہوئے۔ باپ کی وفات سے لڑکیاں بہت اُداس رہنے لگیں۔ انھوں نے ایک دن ماں سے التجا کی کہ وہ ان کو کسی کالج میں داخل کرا دیں ‘ پر جب زیادہ اصرار ہوا اور انھوں نے کئی دن کھانا نہ کھایا تو اُس نے مجبوراً ان کو ایک زنانہ کالج میں داخل کرا دیا۔ مائی جنتے نے وعدہ کیا کہ ہر روز ان کو صبح کالج چھوڑ آئے گی۔ سارا وقت وہیں رہے گی اور جب کالج بند ہو گا تو انھیں اپنے ساتھ لے آیا کرے گی۔ اس نے اپنی مالکن سے یہ وعدہ کچھ ایسے پُرخلوص انداز میں کیا کہ وحیدہ بانو مرحوم خواجہ کریم بخش کی بیوہ کی یہ بیٹیاں نہیں خود اس کی جنی ہیں۔ اس نے بہو بیٹیوں کو پردے میں رکھنے کی حمایت میں اپنے انداز میں مولویوں کی طرح ایک لمبی چوڑی تقریر بھی کی لیکن پھر یہ کہا:

’’تعلیم بھی ضروری ہے کہ اسلام اس سے منع نہیں کرتا‘ پر دیکھ بھال بہت ضروری ہے ‘ جوان جہاں ہیں‘ ان پر بڑی کڑی نگرانی ہونی چاہئیے۔ میں تو ان کے پاس کوئی مکھّی بھی نہ پھٹکنے دُوں‘ کوئی ایسی ویسی شرارت کریں گی تو وہ کان اینٹھوں کہ بلبلا اُٹھیں گی اور یاد کریں گی کس بڑھیا سے پالا پڑا ہے۔ لیکن یہ کیوں کرنے لگیں شریف خاندان کی ہیں۔ روزے نماز کی پابند ہیں۔ اور بے سمجھ بھی نہیں‘ نیک و بد اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ دونوں لڑکیوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا‘ ایک برس کے فرق کے بعد ہی چھوٹی جس کا نام نسرین تھا‘ پیدا ہوئی تھی‘ بڑی کا نام پروین تھا‘ دونوں خوبصورت تھیں ‘ چہرے مہرے سے خاصی اچھی۔ قد موزوں‘ شکل آپس میں کافی ملتی تھی‘ دونوں ہر وقت اکٹھی کھیلتیں مگر گڑیوں کا زمانہ عرصہ ہوا لَد چکا تھا‘ اب جوانی کی شرارتوں کے دن تھے۔ کالج میں جاتے ہی انھوں نے پر پرزے نکالے اور اِدھر اُدھر ان تتلیوں کی طرح جن کو کسی پھول کی تلاش ہو ‘ ادھر ادھر پھڑپھڑانا شروع کر دیا۔ مائی جنتے ساتھ ہوتی تھی۔ وہ کالج کی بوڑھی چپڑاسن کے ساتھ اس وقت حقہ پیتی رہتی جو پاس ہی کوارٹر میں رہتی تھی‘ دونوں ہم عُمری کے باعث بہت جلد گہری سہیلیاں بن گئی تھیں۔ جب دونوں ایک ساتھ بیٹھتیں تو اُس زمانے کی باتیں چھڑ جاتیں جبکہ وہ بھی جوان تھیں‘ چپڑاسن کو کسی لڑکی سے رغبت یا محبت نہیں تھی۔ وہ مائی جنتے کو بڑی پرانی کہانیاں سُناتی‘ فلاں سن میں ایک بیرسٹر کی لڑکی کو حمل ہو گیا تھا جو بڑی مشکل سے گرایا گیا۔ پرنسپل صاحب کو دس ہزار روپے رشوت کے ملے کہ اس کا منہ بند رہے۔ پار سال ایک لڑکی جو بڑے اونچے گھرانے کی تھی‘ اس سے دینیات کے مولوی صاحب کو عشق ہو گیا‘ چنانچہ موقع پا کر اس لونڈیا کو دبوچ لیا‘ پکڑے گئے اور کالج سے داڑھی اور برقعہ دونوں پولیس کے ہاتھوں میں‘ داڑھی تو پانچ سال کی قید بھگت رہی ہے۔ معلوم نہیں اس ریشمی برقعہ کاکیا ہوا۔ بوا‘ میں تو ایسی باتوں میں دھیان ہی نہیں دیتی۔ مجھے کیا غرض پڑی ہے کہ ان کتّیوں کے کارناموں پر اپنا وقت ضائع کروں‘‘

مائی جنتے نے حُقّے کی نَے منہ سے الگ کر دی

’’نہ بُوا‘ ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔ وہ کیا کہاوت ہے کہ کونسا شہسوار ہے جو نہیں گرا۔ اور وہ کون سا پتّا ہے جو نہیں ہلا۔ خدا تمہارا بھلا کرے۔ ہم لوگوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے اور اﷲ میاں سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ کسی کی بہو بیٹی کو بُرے کاموں کی طرف نہ لے جائے‘ اُن کی عزت آبرو اپنے کرم سے سنبھالے رکھے‘‘

چپڑاسن اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوئی کہ کتنی نیک عورت ہے۔ اس کو دل ہی میں بڑی ندامت ہوئی کہ اس نے اتنی لڑکیوں میں کیڑے ڈالے اور ان کے راز افشا کیے۔ اُس نے چنانچہ فوراً مائی جنتے سے معافی مانگی اور کانوں کو ہاتھ لگایا کہ آئندہ وہ ایسی باتوں سے دُور ہی رہے گی۔ کسی لڑکی کے بارے میں اسے کچھ پتہ بھی چل گیا تو وہ اپنی زبان بند رکھے گی۔ مائی جنتے نے اسے بڑی شاباشیاں دیں‘ اتنے میں کالج چھوٹ گیا‘ اس نے پروین اور نسرین کو ساتھ لیا اور گیٹ سے باہر جا کر اُس نے اُن سے کہا ‘ آج تمھیں شام کو یہاں نہیں آنا پڑے گا؟‘‘

پروین نے جواب دیا :

’’ہمیں تو کسی نے نہیں کہا‘‘

’’اصل میں تم دونوں بہت بیوقوف ہو۔ دھیان سے ہر بات سُنا کرو۔ میں تمھیں کسی سے پوچھ کر بتا دوں گی‘ گھر پہنچ کر مائی جنتے نے ان کے لیے چائے تیار کی اور بڑی پھرتی سے میز پر لگا دی۔ پھر وہ ان کی ماں کے پاس اپنی پیالی لے کر بیٹھ گئی اور چپڑاسن سے جو باتیں اس کی ہوئی تھیں، مِن و عن سُنا دیں۔ اُس نے آخر میں اس کو مشورہ دیا کہ پیدل آنا جانا ٹھیک نہیں۔ میرا خیال ہے آپ کسی ٹانگے کا بندوبست کر دیں تو ٹھیک رہے۔ پیدل چلو‘ تو کوئی غنڈہ کندھا ہی رگڑ دے بیٹیوں کے ساتھ۔ مائی جنتے کا یہ مشورہ بڑا معقول تھا چنانچہ ٹانگے کا بندوبست دوسرے ہی روز ہو گیا۔ مائی جنتے نے ایک ٹانگے والے سے مہینے بھر کا کرایہ طے کر لیا۔

’’دوسرے تیسرے روز اپنی مالکن وحیدہ بانو کو یہ خبر سنائی کہ پڑوس میں دیوار کے ساتھ جو جگہ خالی ہوئی تھی‘ اس میں نئے کرایہ دار آن بسے ہیں‘‘

وحیدہ بانو نے پوچھا :

’’کون لوگ ہیں؟‘‘

’’جانے ہماری۔ ہوں گے کوئی ایرے غیرے‘ نتّھو خیرے۔ میں نے تو کسی سے پوچھا نہیں‘‘

ایک دن دوسری طرف سے کوٹھے پر سے کسی شخص نے ایسے ہی جھانک کر ان کے صحن میں دیکھا۔ ایک ہنگامہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ مائی جنتے کہیں باہر گئی تھی‘ وحیدہ بیگم نے فوراً کواڑ کی اوٹ میں کھڑے ہو کر محلے کے ایک چھوٹے سے لڑکے کو بُلایا اور کہا

’’اگر پڑوس والے مکان میں جو نئے کرائے دار آئے ہیں ان میں کوئی عورت ہو تو ان سے کہو آپ کی ہمسائی بیگم صاحبہ آپ سے درخواست کرتی ہیں کہ دو گھڑی کے لیے تشریف لے آئیے۔ بڑی مہربانی ہو گی‘‘

لڑکا پیغام لے کر چلا گیا۔ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد دروازے پر دستک ہوئی ‘ پروین اور نسرین اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھیں اس لیے اُس نے خود دروازہ کھولا۔ دہلیز پر ایک سفید برقع پوش خاتون کھڑی تھی‘ اس نے بڑے ملائم لہجے میں وحیدہ بیگم سے پوچھا

’’کیا آپ ہی نے مجھے یاد فرمایا ہے؟‘‘

وحیدہ بیگم نے جواب دیا ’ جی ہاں۔ تشریف لے آئیے‘‘

وہ اندر چلی آئی‘ دونوں باہر بچھے ہوئے تخت پر بیٹھ گئیں۔ وحیدہ بیگم کی سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ گفتگو کا آغاز کیسے کرے۔ دونوں چند لمحات ایک دوسرے کی شکل صورت اور کپڑے لتّوں کا جائزہ لیتی رہیں‘ آخر ہمسائی ہی نے مُہرِ خاموشی توڑی اور پوچھا:

’’فرمائیے‘ آپ نے مجھے دولت خانے میں کیسے بُلایا‘‘

اس پر وحیدہ بیگم کو اپنی شکایت کے اظہار کا موقع مل گیا اور اس نے بڑی بُرد باری اور تحمل سے صبح کا حادثہ بیان کر دیا اور پوچھا

’’وہ کون صاحبزادے ہیں جو اس طرح پرائے گھر میں تاک جھانک کرتے ہیں؟‘‘

میرا لڑکا ہے بہن۔ وہ تو ایسا نہیں۔ بڑا شرمیلا ہے۔ چونکہ ہم نئے نئے اُٹھ کر یہاں آئے ہیں اسی لیے اس نے کوٹھے پر چڑھ کے دیکھا ہو گا کہ آس پاس کیا ہو گا۔ ویسے میں اس کو منع کر دوں گی کہ خبردار تم نے اِدھر کیا کسی بھی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا۔ بڑا برخوردار لڑکا ہے۔ ضرور میرے حکم کی تعمیل کرے گا‘ میں نے اگر اس کے باپ سے آپ کی شکایت کی تو وہ تو اُس کو مار مار کے کھال اُدھیڑ دیں گے۔ بڑے سخت گیر ہیں وہ وہ اس معاملے میں۔ ویسے مجھے افسوس ہے‘‘

’’نہیں‘ میں نے صرف آپ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی تھی کہ بدمزگی نہ ہو۔ یہ کہہ کر وحیدہ بیگم اٹھی اور پکاری

’’پروین‘۔ نسرین ادھر آؤ ذرا‘‘

دونوں لپک کر باہر نکلیں‘ لیکن ایک نادیدہ عورت کو دیکھ کر ٹھٹھک گئیں‘ دوپٹے کے بغیر فوراً اندر بھاگیں اور دوپٹے اوڑھ کر باہر آئیں‘ نووارد عورت کو جھک کر سلام کیا اور اپنی ماں سے پوچھا :

’’کیوں امی جان؟‘‘

وحیدہ بیگم نے اپنی ہمسائی سے اپنی بیٹیوں کو متعارف کرایا۔ اس نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور ان کی خوبصورتی کی بڑی تعریف کی کہ ماشاء اﷲ چندے آفتاب چندے ماہ تاب ‘ پھر اُس نے کہا

’’میرا سلیم بالکل انہی کی طرح شریف اور شرمیلا ہے۔ ‘‘

چند دنوں ہی میں وحیدہ اور ہمسائی جس کا نام نازلی بیگم تھا‘ بڑے گہرے مراسم ہو گئے‘ وحیدہ بیگم ان کے یہاں نہیں جاتی تھی۔ اس نے نازلی بیگم سے کہا

’’میں سر آنکھوں پر آتی۔ سوسو دفعہ آتی‘ پر جب سے خواجہ صاحب کاانتقال ہوا ہے کہ میں نے دل میں قسم کھا لی تھی اس گھر سے باہر ایک قدم نہ رکھوں گی۔ بہن دیکھو خدا کے لیے مجبور نہ کرنا‘‘

اس اثناء میں کالج میں شام کئی فنکشن ہوئے‘ کبھی کوئی مباحثہ ہے‘ کبھی لینڈن شوہے ‘ کبھی مشاعرہ۔ کبھی کچھ کبھی کچھ۔ پروین اور نسرین دونوں ان پروگراموں میں شامل ہوتی تھیں‘ مگر مائی جنتے ساتھ ہوتی اور ان کو لے کر بحفاظت واپس گھر آتی‘ خواہ جلدی خواہ دیر سے۔ عید سے چار روز پہلے سلیم واپس آیا‘ ساتھ اس کے اس کا بغلی دوست قادر تھا۔ نازلی بیگم نے اس کو مندرجہ بالا واقعہ کے بعد جب اُس نے اتفاقاً وحیدہ بیگم کے صحن کو ایک نظر دیکھ لیا‘ گوجرانوالہ بھیج دیا تھا جہاں اس کے والد کی آبائی اجداد و املاک تھیں۔ اس نے اب اسے خط لکھ کر بلایا تھا کہ عید سے پہلے پہلے یہاں لاہور چلے آؤ‘ وہ آ گیا اور ساتھ اپنے جگری دوست کو بھی لے آیا۔ گھر میں اسے سب جانتے تھے ‘ اس لیے کہ وہ اکٹھے سکول اور کالج میں پڑھے‘ یہاں لاہور میں اُٹھ آنے کی صرف ایک وجہ تھی کہ سلیم کے والد اس کے لیے اپنے اثرورسوخ سے کوئی اچھی ملازمت تلاش کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے روز شام کو قادر نے سلیم سے کہا

’’چلو یار ‘ آج عیاشی کریں۔ گوجرانوالہ میں کیا پڑا ہے‘‘

سلیم نے پوچھا

’’عیاشی کیسی؟‘‘

قادر مسکرایا‘

’’تم تو نرے کھرے چُغد۔ چلو آؤ باہر ‘ تمھیں بتاتا ہوں۔ دیکھیں گے‘ قسمت میں کیا لکھا ہے‘‘

دونوں دوست چلے گئے‘ اتنے میں وحیدہ بیگم کے پاس اس کی ہمسائی آئی۔ اُس نے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اپنا حرف مدعا بیان کر دیا کہ وہ اپنے سلیم کے لیے نسرین کا رشتہ مانگنے آئی ہے۔ زیادہ حیل و حجت کوئی بھی نہ ہوئی‘ وحیدہ ان لوگوں کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئی‘ چند رسمی باتیں ہوئیں اس کے بعد دونوں رضامند ہو گئیں کہ ان کا نکاح عید کی تقریبِ سعید پر ہو جائے اور رخصتی ایک ماہ کے بعد۔ رات کو سلیم دیر سے آیا مگر اس کی ماں نے کوئی باز پُرس نہ کی کیونکہ وہ خوش تھی کہ اتنی جلدی اس کے بیٹے کی شادی کا معاملہ نسرین ایسی حسین و جمیل اور باحیا لڑکی سے طے پا گیا۔ اُس نے چنانچہ سلیم کو یہ خوشخبری سنا دی ‘ وہ بھی بہت خوش ہوا۔ تجرّد کی زندگی اور بیکاری سے وہ تنگ آ گیا تھا‘ اس نے سوچا ‘ روپیہ پیسہ باپ کے پاس کافی ہے‘ کیا پرواہ ہے‘ ملازمت کی فکر ہوتی رہے گی۔ اُس کا دوست واپس گوجرانوالہ چلا آیا‘ اس لیے کہ اس نے عید اپنے گھر منانا تھی۔ سلیم نے اپنی ماں سے کہا

’’دیکھیے امی جان‘ میں نے آپ کی بات کتنی جلدی مان لی۔ اب آپ میری مانیے‘‘

اُس کی ماں نے پوچھا:

’’کیا بیٹا!‘‘

’’مجھے نسرین کی ایک جھلک دکھا دیجیے۔ خواہ وہ دور ہی سے کیوں نہ ہو‘‘

اس کے لہجے میں التجا تھی‘‘

میرا خیال ہے کہ وہ انکار کریں تو اس کا کوئی فوٹو ہی دکھا دیجیے۔ آخری وہ کل یا پرسوں میری ہونے والی ہے‘‘

اس کی ماں کو سلیم کی یہ درخواست ناپسند نہ ہوئی

’’میں پوری کوشش کروں گی بیٹا‘‘

عید آ گئی مگر تصویر نہ آئی۔ لیکن سلیم نے کسی خفگی کا اظہار نہ کیا۔ نکاح کی رسم بخیر و خوبی ختم ہو گئی‘ جب وہ باہر نکلا تو اس کی ماں نے کواڑ ذرا سا کھولا اور اس کو آواز دی۔ وہ ٹھہر گیا‘ ہاتھ باہر نکال کر اس نے سلیم سے کہا :

’’یہ لفافہ لے لو۔ دیکھو میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے‘‘

سلیم سمجھ گیا۔ آس پاس کوئی بھی نہیں تھا‘ اس میں تاب انتظار کیسے ہوتی۔ اس نے لفافہ وہیں کھڑے کھڑے کھولا۔ دھڑکتے ہوئے دل سے تصویر باہر نکالی۔ اِدھر اُدھر دیکھا اور تصویر پر پہلی نظر ڈالی۔ اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو گیا۔ تصویر اس کے کانپتے ہاتھوں سے گر پڑی۔ اتنے میں سامنے والا دروازہ جس میں سے اُس کی ماں نے ہاتھ نکالا تھا ‘ کھلا اور بڑھیا نکلی۔ سلیم نے اس کو حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھا

’’مائی! تم یہاں کیسے پہنچ گئیں؟۔ تو اُس رات تم ہی۔ ‘‘

اُس نے اس سے اور زیادہ کچھ نہ کہا اور تصویر زمین ہی پر چھوڑ کر تیز قدموں سے اپنے ایک دوست ڈاکٹر جمیل کے پاس گیا اور ساری بات بتا دی۔ جمیل نے اس کو ہسپتال میں داخل کرا دیا جہاں اِس کے جھوٹ موٹ کے مرض کا علاج ہوتا رہا۔ آخر ڈاکٹر جمیل نے سلیم کے والد کو بلا کر تخلیے میں کہا کہ یہ شادی نہ ہو‘ آپ کا لڑکا عورت کے قابل نہیں ہے۔ ۱۲ مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

لعنت ہے ایسی دوا پر

’’آپ کو آج اتنی کھانسی کیوں آرہی ہے؟‘‘

’’موسم کی تبدیلی کی وجہ سے گلا خراب ہو گیا ہے‘‘

’’یہ سب بہانے ہیں۔ مجھے معلوم ہے اس کھانسی کی اصل وجہ کیا ہے‘‘

’’تو بتا دو‘‘

’’مجھے کیا ضرورت پڑی ہے، جبکہ آپ اس کا علاج خود کرسکتے ہیں مجھ سے آپ نے کبھی اپنی ذاتی معاملوں کے متعلق مشورہ لیا ہے؟‘‘

’’کب نہیں لیا۔ ابھی کل ہی میں نے تم سے پوچھ کر، بلکہ تمہیں دُکان پر لے جا کر اپنے لیے

’’لوفرشو‘‘

خریدا تھا۔ اور تم نے اپنی مرضی کے مطابق ایک سینڈل لی تھی۔ حالانکہ وہ مجھے سخت ناپسند تھی۔ ‘‘

’’آپ کو تو میری پسند کی ہر چیز ناپسند ہوتی ہے‘‘

’’تم غلط کہتی ہو۔ پچھلے دنوں تم نمائش سے اپنے لیے بلاؤز کا کپڑا لائی تھیں تو میں نے بہت پسند کیا تھا۔ اور تمہارے ذوق اور انتخاب کی تعریف کی تھی‘‘

’’زندگی میں ایک دفعہ تعریف کردی تو بڑا احسان کیا‘‘

’’اس میں احسان کی کیا بات ہے۔ معلوم نہیں آج تمہارا مزاج کیوں بگڑ گیا ہے‘‘

’’مجھے کھانسی کی شکایت ہے۔ ساری رات کھانستی رہی ہوں‘‘

’’میں رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ صرف تمہارے خراٹوں کی آواز کے سوا میں نے تمہارے حلق سے اور کسی قسم کی آواز نہیں سنی‘‘

’’آپ ایک عرصہ سے بہرے ہو چکے ہیں۔ آپ کے کانوں کے پاس کوئی لاکھ چِلّائے، واویلا کرے، مگر آپ کو کبھی سنائی نہیں دے گا‘‘

’’یہ کیا گفتگو ہے؟۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر تم کہنا کیا چاہتی ہو‘‘

’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔ اور کہنا بھی چاہوں، تو آپ کان دھر کر سنیں گے کب‘‘

’’کیوں نہیں سنوں گا۔ مگرتم کچھ کہوتو۔ اب میں تمہارے دل کی بات کیسے بُوجھوں‘‘

’’دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ مگر یہاں یہ راہ سرے ہی سے غائب ہے‘‘

’’کیسی غائب ہو گئی یہ راہ، میرا مطلب ہے، تمہارا میرا کوئی رشتہ نہیں رہا‘‘

’’بس سمجھ لیجیے، کچھ ایسی ہی بات ہے‘‘

’’یہ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے، کہ مجھے جس بات کا وہم و گمان بھی نہیں، تم آج اس کا مجھ پر انکشاف کررہی ہو۔ داناؤں نے ٹھیک کہا ہے کہ عورت کو سمجھنا کارے دارد والا معاملہ ہے‘‘

’’جی۔ وہ دانا بھی تو ایسے مرد تھے۔ بھولی بھالی عورت میں ایسا کون سا پیچ ہے، جو ان کی دانائی کو شکست دے گیا۔ وہ غریب تو ایک سیدھی سڑک ہے جس میں کوئی خم ہے نہ موڑ‘‘

’’درست ہے۔ لیکن اس سیدھی سڑک پر ہر روز کئی

’’ایکسیڈنٹ‘‘

ہوتے ہیں۔ ہزاروں مرد اس سیدھی سڑک پر چلتے چلتے ایسے پھسلتے ہیں کہ سیدھے قبرستان میں پہنچ جاتے ہیں‘‘

’’آپ کیوں نہیں پہنچے ابھی تک وہاں؟‘‘

’’عنقریب پہنچ جاؤں گا۔ اگر تمہارا روّیہ اسی قسم کارہا‘‘

’’میرا روّیہ‘‘

۔ کیوں؟۔ میں نے آپ سے کیا بدسلوکی کی ہے؟۔ نوکرانی کی طرح آپ کی خدمت کرتی رہی ہوں، کیا آپ اس سے انکار کرسکتے ہیں؟‘‘

’’انکار کرنے کی مجال ہی نہیں، اس لیے کہ یہ ڈر ہے کہ تم آتش فشاں پہاڑ کی مانند پھٹ پڑو گی۔ اور اتنا لاوا اُگلو گی کہ مجھے ایک لمحے کے اندر کوئلہ بنا کررکھ دے گا۔ ‘‘

’’آتش فشاں پہاڑ تو آپ ہیں، جو آئے دن لاوا اُگلتے رہتے ہیں‘‘

’’یہ تمہارے اخبار کی نئی خبر ہے، جو میں تمہاری زُبان سے سن رہا ہوں۔ ورنہ اس سے پہلے۔ ‘‘

’’آپ اپنے اخبارمیں یہی مضمون چھاپتے رہتے تھے کہ عورتیں آگ کھاتی ہیں، انگارے بکتی ہیں۔ اور یہ جو مردوں کو کھانسی آتی ہے اس کی وجہ بھی عورت ہے‘‘

’’لو، تم نے کھانسی کا نام لیا تو میرے گلے میں خارش شروع ہو گئی۔ اچھا، اب بات مت کرو۔ دوا کا ایک ڈوز پینے کے بعد کسی قدر طبیعت بحال ہو گئی ہے‘‘

’’خدا آپ کی طبیعت بحال رکھے۔ میری تو یہی دعا ہے‘‘

’’تمہاری دعاؤں ہی سے تو میں اب تک زندہ ہوں، ورنہ کب کا مر چکا ہوتا‘‘

’’آپ کی یہ طنزیہ گفتگو مجھے پسند نہیں۔ مہین مہین چٹکیاں لینے میں جانے آپ کو کیا مزہ آتا ہے؟‘‘

’’سارا مزہ تم لے جاتی ہو۔ مہین مہین چٹکیوں کا فن تم بہتر جانتی ہو۔ میں اس سے بالکل کورا ہوں‘‘

’’آپ تو ہر چیز سے کورے ہیں۔ کورے برتن کی طرح۔ لیکن دنیا بھر کی آلائشیں اس برتن کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں‘‘

’’آج تم فلسفہ چھانٹنے لگی ہو‘‘

’’یہ اگر فلسفہ ہے، تو آپ خدا معلوم کیا چھانٹتے ہیں؟‘‘

’’۔ مجھے پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا ہے‘‘

’’آپ دوا کیوں نہیں پیتے؟‘‘

’’مجھے۔ مجھے اس سے نفرت ہے۔ اس میں بہت بُری بُو ہے‘‘

’’تو کیا ہوا۔ دوا آخر دوا ہوتی ہے۔ خوش ذائقہ ہو یا بد ذائقہ۔ اچھی بُو والی ہے یا بُری بُو والی۔ انسان کو پینی ہی پڑتی ہے۔ ‘‘

’’تم۔ تم اپنا لیکچر بند کرو۔ میں۔ میں۔ یااللہ میری توبہ۔ یہ کھانسی بھی کیا بلا ہے۔ سارا وجود متزلزل ہو جاتا ہے‘‘

’’آپ نے بدپرہیزی کی ہو گی‘‘

’’کون سی بدپرہیزی؟‘‘

’’چاٹ کھانے کی آپ کو چاٹ ہے۔ باہر ہی باہر کھاتے رہے ہوں گے‘‘

’’باہر باہر میں نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں کھائی‘‘

’’لیکن، گھر تو آپ ہر روز کھاتے رہے ہیں‘‘

’’یہ الزام تم مجھ پر کس شہادت کی بنا پر عائد کررہی ہو؟‘‘

’’جناب جب پچھلے ہفتے سرگودھا گئی تھی، تو واپسی پر مجھے معلوم ہوا کہ آپ خود اپنے ہاتھ سے

’’آلو چھولے‘‘

تیار کرکے کھاتے رہے ہیں۔ املی، امچور، انار دانہ، سُرخ اور کالی مرچیں اس قدر ڈالی جاتی تھیں کہ آدمی کی زبان جل جائے‘‘

’’لیکن تمہاری زبان نہیں جلی، یہ جھوٹ بولتے ہوئے۔ تم اچھی طرح جانتی ہو۔ ‘‘

’’میں آپ کے بارے میں ہر بات کے متعلق اچھی طرح جانتی ہوں۔ کھٹی چیزوں سے تو آپ کو خاص رغبت ہے۔ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ عورتیں کھٹی چیزیں پسند کرتی ہیں۔ لیکن آپ ان سے کئی رطیاں آگے بڑھے ہوئے ہیں‘‘

’’۔ کھانسی کا دورہ پھر شروع ہو گیا۔ ‘‘

’’ہونا ہی تھا۔ دوا لاؤں؟‘‘

’’۔ نہیں۔ نہیں۔ ‘‘

’’نہیں آپ کو پینا پڑے گی۔ ‘‘

’’بھئی، میں کہہ چکا ہوں کہ اس کی بو بہت بری ہے۔ اس کے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر کی۔ ڈاکٹر کی یہ ہدایت ہے کہ ایک ایک گھنٹے کے بعد خوراک پی جائے‘‘

’’تو آپ کو اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے‘‘

’’خاک عمل کروں۔ جب کہ دوا مجھے پسند ہی نہیں۔ میں ہر گھنٹے کے بعد عذاب سہنے کے لیے تیار نہیں‘‘

آپ جو کچھ بھی کہیں ٹھیک ہے، لیکن یہ دوا آپ کو ضرور پینا پڑے گی‘‘

’’اچھا بابا۔ میں ہارا، تم جیتیں۔ لاؤ گلاس‘‘

’’میں نے تیار کررکھا ہے۔ لیجیے‘‘

’’برف ڈال دی تھی اس میں؟‘‘

’’جی ہاں۔ آپ تو پہلے پانی ملا کر پیتے رہے ہیں۔ لیکن سرگودھا جانے سے پہلے، آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ ہدایت تھی کہ یہ دوا کھارے سوڈے کے ساتھ پی جائے۔ چنانچہ میں نے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ لاؤ، گلاس دومجھے کہ زہر مار کرلوں‘‘

’’یہ لیجیے۔ مگر آپ کا ہاتھ کانپ رہا ہے‘‘

’’کانپنے دو۔ دوا پینے کے بعد ٹھیک ہو جائے گا‘‘

’’کھانسی بھی انشاء اللہ دُورہو جائے گی‘‘

’’دیکھو جو اللہ کو منظور ہے۔ تویہ، کیسی بُری بُوہے اس کی۔ خوراک بھی اتنی بڑی ہے جو گھوڑوں کو دی جاتی ہو گی۔ بڑی بوتل میں بارہ کے نشان ہیں۔ یعنی دن میں بارہ مرتبہ اس واہیات چیز کو پانی یا سوڈے کے ساتھ ملا کر پیا جائے۔ یہ ڈاکٹر لوگ بھی عجیب قسم کے انسان ہیں۔ مریض کی نفسیات کے متعلق کچھ سوچتے ہی نہیں‘‘

’’نفسیات۔ یہ کیا چیز ہے‘‘

’’ٹھہرو۔ میں یہ دوا پی لوں، تو بتادوں گا کہ یہ کیا چیز ہے‘‘

’’۔ آپ کہتے تھے کہ یہ دوا بہت بری ہے، لیکن آپ سارا گلاس یوں پی گئے، جیسے کوئی بڑا مزے دار شربت ہو‘‘

’’تو کیا کرتا۔ مجبوری میں، انسان کو ہر مشکل خندہ پیشانی سے برداشت کرنا پڑتی ہے‘‘

’’اب گیارہ بجے ہیں۔ بارہ بجے آپ کو پھر یہی دوائی پینا ہے‘‘

’’پیوں گا۔ میرا باپ بھی پِیے گا۔ خدا اسے جنت نصیب کرے‘‘

’’اچھا، اب مجھے آرام کرنے دو۔ بارہ بجے اس واہیات دوا کی خواک لے آنا، جسے میں زہر مار کرلوں گا‘‘

’’کیا آپ سونا چاہتے ہیں؟‘‘

’’نہیں۔ سونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جب تک اس دوا کی بوتل ختم نہ ہو جائے‘‘

’’تو آپ لیٹے رہیں گے؟‘‘

’’نہیں۔ دوسرے کمرے میں جا کر کوئی کتاب یا رسالہ پڑھوں گا، جب تک بارہ بج جائیں گے‘‘

’’آپ کیا کھائیں گے؟‘‘

’’جو تم نے پکایا ہو گا۔ ویسے اگر گردے ہوں توبہت اچھے رہیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تھا کہ بھنے ہوئے گردے تمہارے گردوں کو جو کسی قدر کمزور ہیں، تقویت بخشیں گے‘‘

’’میں ابھی منگوا کر تیار کیے دیتی ہوں‘‘

’’آخری ڈوز کہاں گئی؟‘‘

’’وہ میں نے اپنی ہمسائی کو دے دی۔ اس کو بھی کھانسی کی شکایت تھی‘‘

’’لیکن۔ میرا مطلب یہ ہے کہ۔ اسے کچھ فائدہ ہوا؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں۔ اس پر اس کا الٹا اثر ہوا ہے۔ دوا کی خوراک پینے کے بعد واہی تباہی بکنے لگی۔ غالبؔ اور میر کے شعر اپنے خاوند کو سناتی رہی‘‘

’’میں اتنے دنوں سے یہ دوائی پی رہا ہوں۔ غالبؔ کا سارا کلام مجھے حفظ ہے، لیکن میں نے آج تک تمہیں اس کا کوئی بھی شعر نہیں سنایا‘‘

’’شعر تو نہیں سنایا ہے۔ لیکن رات کو آپ اکثر سیاسیات پر لیکچر دیا کرتے ہیں‘‘

’’لیکچر۔ ہاں۔ میرا خیال ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس دوا میں شراب کا جُز ہے‘‘

’’شراب کا جُز قطعاً نہیں۔ اس کا ہر قطرہ شراب ہے‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’جی، ساری چالاکی کا علم ہو گیا۔ میری ہمسائی کے خاوند نے جب ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے کہا کہ آپ کی عورت نے شراب پی ہے‘‘

’’تو لعنت ہے ایسی دوا پر‘‘

سعادت حسن منٹو

لتیکا رانی

وہ خوبصورت نہیں تھی۔ کوئی ایسی چیز اس کی شکل و صورت میں نہیں تھی جسے پرکشش کہا جاسکے، لیکن اس کے باوجود جب وہ پہلی بار فلم کے پردے پر آئی تو اس نے لوگوں کے دل موہ لیے اور یہ لوگ جو اسے فلم کے پردے پر ننھی منی اداؤں کے ساتھ بڑے نرم و نازک رومانوں میں چھوٹی سی تتلی کے مانند ادھر سے ادھر اور اُدھر سے اِدھر تھرکتے دیکھتے تھے، سمجھتے تھے کہ وہ خوبصورت ہے۔ اس کے چہرے مہرے اور اس کے ناز نخرے میں ان کو ایسی کشش نظر آتی تھی کہ وہ گھنٹوں اس کی روشنی میں مبہوت مکھیوں کی طرح بھنبھناتے رہتے تھے۔ اگر کسی سے پوچھا جاتا کہ تمہیں لتیکا رانی کے حسن و جمال میں کون سی سب سے بڑی خصوصیت نظر آتی ہے جو اسے دوسری ایکٹرسوں سے جدا گانہ حیثیت بخشتی ہے تو وہ بلا تامل یہ کہتا کہ اس کا بھولپن۔ اور یہ واقعہ ہے کہ پردے پر وہ انتہا درجے کی بھولی دکھائی دیتی تھی۔ اس کو دیکھ کر اس کے سوا کوئی اور خیال دماغ میں آ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ بھولی ہے، بہت ہی بھولی۔ اور جن رومانوں کے پس منظر کے ساتھ وہ پیش ہوتی ان کے تانے بانے یوں معلوم ہوتا تھا کسی جولاہے کی الھڑ لڑکی نے تیار کیے ہیں۔ وہ جب بھی پردے پر پیش ہوئی، ایک معمولی ان پڑھ آدمی کی بیٹی کے روپ میں چمکیلی دنیا سے دور ایک شکستہ جھونپڑا ہی جس کی ساری دنیا تھی۔ کسی کسان کی بیٹی، کسی مزدور کی بیٹی، کسی کانٹا بدلنے والے کی بیٹی اور وہ ان کرداروں کے خول میں یوں سما جاتی تھی جیسے گلاس میں پانی۔ لتیکا رانی کا نام آتے ہی آنکھوں کے سامنے، ٹخنوں سے بہت اونچھا گھگھرا پہنے، کھینچ کر اوپر کی ہوئی ننھی منی چوٹی والی، مختصر قد کی ایک چھوٹی سی لڑکی آجاتی تھی جو مٹی کے چھوٹے چھوٹے گروندے بنانے یا بکری کے معصوم بچے کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے۔ ننگے پاؤں، ننگے سر، پھنسی پھنسی چولی میں بڑے شاعرانہ انکسار کے ساتھ سینے کا چھوٹا سا ابھار، معتدل آنکھیں، شریف سی ناک، اس کے سراپا میں یوں سمجھیے کہ دوشیزدگی کا خلاصہ ہو گیا تھا جو ہر دیکھنے والے کی سمجھ میں آجاتا تھا۔ پہلے فلم میں آتے ہی وہ مشہور ہو گئی اور اس کی یہ شہرت اب تک قائم ہے حالانکہ اسے فلمی دنیا چھوڑے ایک مدت ہو چکی ہے۔ اپنی فلمی زندگی کے دوران میں اس نے شہرت کے ساتھ دولت بھی پیدا کی۔ اس نپے تلے انداز میں گویا اس کو اپنی جیب میں آنے والی ہر پائی کی آمد کا علم تھا اور شہرت کے تمام زینے بھی اس نے اسی انداز میں طے کیے کہ ہر آنے و الے زینے کی طرف اس کا قدم بڑے وثوق سے اٹھا ہوتا تھا۔ لتیکا رانی بہت بڑی ایکٹرس اور عجیب و غریب عورت تھی۔ اکیس برس کی عمر میں جب وہ فرانس میں تعلیم حاصل کررہی تھی تو اس نے فرانسیسی زبان کی بجائے ہندوستانی زبان سیکھنا شروع کردی۔ اسکول میں ایک مدراسی نوجوان کو اس سے محبت ہو گئی تھی، اس سے شادی کرنے کا وہ پورا پورا فیصلہ کر چکی تھی لیکن جب لنڈن گئی تو اس کی ملاقات ایک ادھیڑ عمر کے بنگالی سے ہوئی جو وہاں بیرسٹری پاس کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ لتیکا نے اپنا ارادہ بدل دیا اور دل میں طے کرلیا کہ وہ اس سے شادی کرے گی اور یہ فیصلہ اس نے بہت سوچ بچار کے بعد کیا تھا۔ اس نے بیرسٹری پاس کرنے والے ادھیڑ عمر کے بنگالی میں وہ آدمی دیکھا جو اس کے خوابوں کی تکمیل میں حصہ لے سکتا تھا۔ وہ مدراسی جس سے اس کو محبت تھی جرمنی میں پھیپھڑوں کے امراض کی تشخیص و علاج میں مہارت حاصل کررہا تھا۔ اس سے شادی کرکے زیادہ سے زیادہ اسے اپنے پھیپھڑوں کی اچھی دیکھ بھال کی ضمانت مل سکتی تھی، جو اسے درکار نہیں تھی۔ لیکن پرفلا رائے ایک خواب ساز تھا۔ ایسا خواب ساز جو بڑے دیرپا خواب بُن سکتا تھا اور لتیکا اس کے اردگرد اپنی نسوانیت کے بڑے مضبوط جالے تن سکتی تھی۔ پرفلا رائے ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا۔ بہت محنتی، وہ چاہتا تو قانون کی بڑی سے بڑی ڈگری تمام طالب علموں سے ممتاز رہ کر حاصل کرسکتا تھا مگر اسے اس علم سے سخت نفرت تھی۔ صرف اپنے ماں باپ کو خوش رکھنے کی غرض سے وہ ڈنرز میں حاضری دیتا تھا اور تھوڑی دیر کتابوں کا مطالعہ بھی کرلیتا تھا۔ ورنہ اس کا دل و دماغ کسی اور ہی طرف لگا رہتا تھا۔ کس طرف؟ یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ دن رات وہ کھویا کھویا سا رہتا۔ اس کو ہجوم سے سخت نفرت تھی، پارٹیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا سارا وقت قریب قریب تنہائی میں گزرتا۔ کسی چائے خانے میں یا اپنی بوڑھی لینڈ لیڈی کے پاس بیٹھا وہ گھنٹوں ایسے قلعے بناتا رہتا جن کی بنیادیں ہوتی تھیں نہ فصیلیں۔ مگر اس کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اس سے کوئی نہ کوئی عمارت ضرور بن جائے گی جس کو دیکھ کر وہ خوش ہوا کرے گا۔ لتیکا جب پروفلارائے سے ملی تو چند ملاقاتوں ہی میں اس کو معلوم ہو گیا کہ یہ بیرسٹری کرنے والابنگالی معمولی آدمی نہیں۔ دوسرے مرد اس سے دلچسپی لیتے رہے تھے، اس لیے کہ وہ جوان تھی، ان میں سے اکثر نے اس کے حسن کی تعریف کی تھی، لیکن مدت ہوئی وہ اس کا فیصلہ اپنے خلاف کر چکی تھی۔ اس کو معلوم تھا کہ ان کی تعریف محض رسمی ہے۔ مدراسی ڈاکٹر جو اس سے واقعی محبت کرتا تھا اس کو صحیح معنوں میں خوبصورت سمجھتا تھا مگر لتیکا سمجھتی تھی کہ وہ اس کی نہیں اس کے پھیپھڑوں کی تعریف کررہا ہے جو اس کے کہنے کے مطابق بے داغ تھے۔ وہ ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی تھی۔ بہت ہی معمولی شکل و صورت کی۔ جس میں ایک جاذبیت تھی نہ کشش، اس نے کئی دفعہ محسوس کیا کہ وہ ادھوری سی ہے۔ اس میں بہت سی کمیاں ہیں جو پوری تو ہوسکتی ہیں مگر بڑی چھان بین کے بعد اور وہ بھی اس وقت جب اس کو خارجی امداد حاصل ہو۔ پرفلا رائے سے ملنے کے بعد لتیکا نے محسوس کیا تھا کہ وہ جو بظاہر سگرٹ پر سگرٹ پھونکتا رہتا ہے اور جس کا دماغ ایسا لگتا ہے، ہمیشہ غائب رہتا ہے اصل میں سگرٹوں کے پریشان دھوئیں میں اپنے دماغ کی غیر حاضری کے باوجود اس کی شکل و صورت کے تمام اجزاء بکھیر کر ان کو اپنے طور پر سنوارنے میں مشغول ر ہتا ہے۔ وہ اس کے اندازِ تکلم، اس کے ہونٹوں کی جنبش اور اس کی آنکھوں کی حرکت کو صرف اپنی نہیں دوسروں کی آنکھوں سے بھی دیکھتا ہے، پھر ان کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور اپنے تصور میں تکلم کا نیا انداز، ہونٹوں کی نئی جنبش اور آنکھوں کی نئی حرکت پیدا کرتا ہے۔ ایک خفیف سی تبدیلی پر وہ بڑے اہم نتائج کی بنیادیں کھڑی کرتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے۔ لتیکا ذہین تھی، اس کو فوراً ہی معلوم ہو گیا تھا کہ پرفلارائے ایسا معمار ہے جو اسے عمارت کا نقشہ بنا کر نہیں دکھائے گا۔ وہ اس سے یہ بھی نہیں کہے گا کہ کون سی اینٹ اکھیڑ کر کہاں لگائی جائے گی تو عمارت کا سقم دور ہو گا۔ چنانچہ اس نے اس کے خیالات و افکار ہی سے سب ہدایتیں وصول کرنا شروع کردی تھیں۔ پرفلا رائے نے بھی فوراً ہی محسوس کرلیا کہ لتیکا اس کے خیالات کا مطالعہ کرتی ہے اور ان پر عمل کرتی ہے۔ وہ بہت خوش ہوا۔ چنانچہ اس خاموش درس و تدریس کا سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ پرفلارائے اور لتیکا دونوں مطمئن تھے، اس لیے کہ وہ دونوں لازم و ملزوم سے ہو گئے تھے۔ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل تھا۔ لتیکا کو خاص طور پر اپنی ذہنی و جسمانی کروٹ میں پرفلا کی کی خاموش تنیقد کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ وہ اس کے ناز و ادا کی کسوٹی تھا، اس کی بظاہر خلا میں دیکھنے والی نگاہوں سے اس کو پتہ چل جاتا کہ اس کی پلک کی کونسی نوک ٹیڑھی ہے۔ لیکن وہ اب یہ حقیقت معلوم کر چکی تھی۔ کہ وہ حرارت جو اس کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں میں ہے، اس کی آغوش میں نہیں تھی۔ لتیکا کے لیے یہ بالکل ایسی تھی جیسی کھری چارپائی۔ لیکن وہ مطمئن تھی، اس لیے کہ اس کے خوابوں کے بال وپر نکالنے کے لیے پرفلا کی آنکھوں کی حرارت ہی کافی تھی۔ وہ بڑی سیاق دان اور اندازہ گیر عورت تھی۔ اس نے دو مہینے کے عرصے ہی میں حساب لگا لیا تھا کہ ایک برس کے اندر اندر اس کے خوابوں کے تکمیل کی ابتداء ہو جائے گی۔ کیونکر ہو گی اور کس فضا میں ہو گی۔ یہ سوچنا پرفلارائے کا کام تھا اور لتیکا کو یقین تھا کہ اس کا سدا متحرک دماغ کوئی نہ کوئی راہ پیدا کریگا۔ چنانچہ دونوں جب ہندوستان جانے کے ارادے سے برلن کی سیر کو گئے اور پرفلا کا ایک دوست انھیں اون فلم اسٹوڈیوز میں لے گیا تو لتیکا نے پروفلا کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں کی گہرائیوں میں اپنے مستقبل کی صاف جھلک دیکھ لی۔ وہ ایک مشہور جرمن ایکٹرس سے محوِ گفتگو تھا مگر لتیکا محسوس کررہی تھی کہ وہ اس کے سراپا کو کنیوس کا ٹکڑا بنا کر ایکٹرس لتیکا کے نقش و نگار بنا رہاہے۔ بمبئی پہنچے تو تاج محل ہوٹل میں پرفلا رائے کی ملاقات ایک انگریز نائٹ سے ہوئی جو قریب قریب قلاش تھا۔ مگر اس کی واقفیت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ عمر ساٹھ سے کچھ اوپر، زبان میں لکنت، عادات و اطوار بڑی شستہ، پرفلا رائے اس کے متعلق کوئی رائے قائم نہ کرسکا۔ مگر لتیکا رانی کی اندازہ گیر طبیعت نے فوراً بھانپ لیا کہ اس سے بڑے مفید کام لیے جاسکتے ہیں، چنانچہ وہ نرس کی سی توجہ اور خلوص کے ساتھ اس سے ملنے جلنے لگی اور جیسا کہ لتیکا کو معلوم تھا ایک ڈن ڈنر پر ایک طرخ خود بخود طے ہو گیا کہ اس فلم کمپنی میں جو پرفلا رائے قائم کرے گا۔ وہ دو مہمان جوسر ہاورڈپسیکل نے مدعو کیے تھے ڈائرکٹر ہوں گے اور چند دن کے اندر اندر وہ تمام مراحل طے ہو گئے جو ایک لمیٹڈ کمپنی کی بنیادیں کھڑی کرنے میں درپیش آتے ہیں۔ سرہاورڈ بہت کام کا آدمی ثابت ہوا۔ یہ پرفلا کا رد عمل تھا، لیکن لتیکا شروع ہی سے جانتی تھی کہ وہ ایسا آدمی ہے جس کی افادیت بہت جلد پردہ ظہور پر آجائے گی۔ وہ جب اس کی خدمت گزاری میں کچھ وقت صرف کرتی تھی تو پرفلا حسد محسوس کرتا تھا، مگر لتیکا نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی قربت سے بڈھا سرہاورڈ ایک گونہ جنسی تسکین حاصل کرتا تھا، مگر وہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی۔ یوں تو وہ دو مالدار مہمان بھی اصل میں اسی کی وجہ سے اپنا سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہوئے تھے اور لتیکا کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس کے نزدیک یہ لوگ صرف اسی وقت تک اہم تھے جب تک ان کا سرمایہ ان کی تجوریوں میں تھا، وہ ان دونوں کا تصور بڑی آسانی سے کرسکتی تھی جب یہ مارواڑی سیٹھ اسٹوڈیوز میں اس کی ہلکی سی جھلک دیکھنے کے لیے بھی ترسا کریں گے لیکن یہ دن قریب لانے کیلیے اس کو کوئی عجلت نہیں تھی، ہر چیز اس کے حساب کے مطابق اپنے وقت پر ٹھیک ہورہی تھی۔ لمیٹڈ کمپنی کا قیام عمل میں آگیا۔ اس کے سارے حصے بھی فروخت ہو گئے۔ سرہاورڈ پیسکل کے وسیع تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے ایک پر فضا مقام پر اسٹوڈیو کے لیے زمین کا ٹکڑا بھی مل گیا۔ ادھر سے فراغت ہوئی تو ڈائرکٹروں نے پرفلا رائے سے درخواست کی کہ وہ انگلینڈ جا کر ضروری سازوسامان خرید لائے۔ انگلینڈ جانے سے ایک روز پہلے پرفلا نے ٹھیٹ یورپی انداز میں لتیکا سے شادی کی درخواست کی جو اس نے فوراً منظور کرلی۔ چنانچہ اسی دن ان دنوں کی شادی ہو گئی۔ دونوں انگلینڈ گئے۔ ہنی مون میں دونوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایک دوسرے کے جسم کے متعلق جو انکشافات ہونے تھے وہ عرصہ ہوا ان پر ہو چکے تھے، ان کو اب دھن صرف اس بات کی تھی کہ وہ کمپنی جو انھوں نے قائم کی ہے اس کے لیے مشینری خریدیں اور واپس بمبئی میں جا کر کام پر لگ جائیں۔ لتیکا نے کبھی اس کے متعلق نہ سوچا تھا کہ پرفلا جو فلم سازی سے قطعاً ناواقف ہے۔ اسٹوڈیو کیسے چلائے گا۔ اس کو اس کی ذہانت کا علم تھا۔ جس طرح اس نے خاموشی ہی خاموشی میں صرف اپنی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں سے اس کی نوک پلک درست کردی تھی۔ اسی طرح اس کو یقین تھا کہ وہ فلم سازی میں بھی کامیاب ہو گا۔ وہ اس کو جب اپنے پہلے فلم میں ہیروئن بنا کر پیش کرے گا تو ہندوستان میں ایک قیامت برپا ہو جائے گی۔ پرفلا رائے فلم سازی کی تکنیک سے قطعاً ناآشنا تھا۔ جرمنی میں صرف چند دن اس نے اوفا اسٹوڈیوز میں اس صنعت کا سرسری مطالعہ کیا تھا، لیکن جب وہ انگلینڈ سے اپنے ساتھ ایک کیمرہ مین اور ایک ڈائریکٹر لے کر آیا اور انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کا پہلا فلم سیٹ پر گیا تو اسٹوڈیوز کے سارے عملے پر اس کی ذہانت اور قابلیت کی دھاگ بیٹھ گئی۔ بہت کم گفتگو کرتا تھا۔ صبح سویرے اسٹوڈیو آتا تھا اور سارا دن اپنے دفتر میں فلم کے مناظر اور مکالمے تیار کرانے میں مصروف رہتا تھا۔ شوٹنگ کا ایک پروگرام مرتب تھا جس کے مطابق کام ہوتا تھا، ہر شعبے کا ایک نگران مقرر تھا جو پرفلا کی ہدایت کے مطابق چلتا تھا۔ اسٹوڈیو میں ہر قسم کی آوارگی ممنوع تھی۔ بہت صاف ستھرا ماحول تھا جس میں ہر کام بڑے قرینے سے ہوتا تھا۔ پہلا فلم تیار ہو کر مارکیٹ میں آگیا۔ پرفلا رائے کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں نے جو کچھ دیکھنا چاہتا تھا وہی پردے پر پیش ہوا۔ وہ زمانہ بھڑکیلے پن کا تھا۔ ہیروئن وہی سمجھی جاتی تھی جو زرق برق کپڑوں میں ملبوس ہو۔ اونچی سوسائٹی سے متعلق ہو۔ ایسے رومانوں میں مبتلا ہو حیققت سے جنھیں دور کا بھی واسطہ نہیں ایسی زبان بولے جو اسٹیج کے ڈراموں میں بولی جاتی ہے۔ لیکن پرفلا رائے کے پہلے فلم میں سب کچھ اس کارد تھا۔ فلم بینوں کے لیے یہ تبدیلی، یہ اچانک انقلاب بڑا خوشگوار تھا، چنانچہ یہ ہندوستان میں ہر جگہ کامیاب ہوا اور لتیکا رانی نے عوام کے دل میں فوراً ہی اپنا مقام پیدا کرلیا۔ پرفلا رائے اس کامیابی پر بہت مطمئن تھا۔ وہ جب لتیکا کے معصوم حسن اور اس کی بھولی بھالی اداکاری کے متعلق اخباروں میں پڑھتا تھا تو اس کو اس خیال سے کہ وہ ان کا خالق ہے بہت راحت پہنچتی تھی۔ لیکن لتیکا پر اس کامیابی نے کوئی نمایاں اکثر نہیں کیا تھا۔ اس کی اندازہ گیر طبیعت کے لیے یہ کوئی غیر متوقع چیز نہیں تھی۔ وہ کامیابیاں جو مستقبل کی کوکھ میں چھپی ہوئی تھیں، کھلی ہوئی کتاب کے اوراق کی مانند اس کے سامنے تھیں۔ پہلے فلم کی نمائش عظمیٰ پر وہ کیسے کپڑے پن کر سینما ہال میں جائے گی۔ اپنے خاوند پرفلا رائے سے دوسروں کے سامنے کس قسم کی گفتگو کرے گی۔ جب اسے ہار پہنائے جائیں گے تو وہ انھیں اتار کر خوش کرنے کے لیے کس کے گلے میں ڈالے گی۔ اس کے ہونٹوں کا کون سا کونہ کس وقت پر کس انداز میں مسکرائے گا یہ سب اس نے ایک مہینہ پہلے سوچ لیا تھا۔ اسٹوڈیو میں لتیکا کو ہر حرکت ہر ادا ایک خاص پلان کے ماتحت عمل میں آتی تھی۔ اس کا مکان پاس ہی تھا۔ سرہاورڈ پیسکل کو پرفلا رائے نے اسٹوڈیو کے بالائی حصے میں جگہ دے رکھی تھی۔ لتیکا صبح سویرے آتی اور کچھ وقت سرہاروڈ کے ساتھ گزارتی، جس کو باغبانی کا شوق تھا۔ نصف گھنٹے تک وہ اس بڈھے الکن نائٹ کے ساتھ پھولوں کے متعلق گفتگو کرتی رہتی۔ اس کے بعد گھر چلی جاتی اور اپنے خاوند سے اس کی ضروریات کے مطابق تھوڑا سا پیار کرتی۔ وہ اسٹوڈیو چلا جاتا اور لتیکا اپنے سادہ میک اپ میں جس کا ایک ایک خط، ایک ایک نقطہ پرفلا کا بنایا ہوا تھا، مصروف ہوجاتی۔ دوسرا فلم تیار ہوا، پھر تیسرا، اسی طرح پانچواں، یہ سب کامیاب ہوئے اتنے کامیاب کہ دوسرے فلم سازوں کو انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کے قائم کردہ خطوط پر بدرجہ مجبوری چلنا پڑا۔ اس نقل میں وہ کامیاب ہوئے یا ناکام، اس کے متعلق ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ لتیکا کی شہرت ہر نئے فلم کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ ہر جگہ انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کا شہرہ تھا۔ مگر پرفلا رائے کو بہت کم آدمی جانتے تھے۔ وہ جو اس کا معمار تھا، وہ جو لتیکا کا نصف بہتر تھا۔ لیکن پرلفا نے کبھی اس کے متعلق سوچا ہی نہیں تھا، اس کی خلا میں جھانکنے والی آنکھیں ہر وقت سگرٹ کے دھوئیں میں لتیکا کے نت نئے روپ بنانے میں مصروف رہتی تھیں۔ ان فلموں میں ہیرو کو کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پرفلا رائے کے اشاروں پر وہ کہانی میں اٹھتا، بیٹھتا اور چلتا تھا۔ اسٹوڈیو میں بھی اس کی شخصیت معمولی تھی۔ سب جانتے تھے کہ پہلا نمبر مسٹر رائے کا اور دوسرا مسز رائے کا۔ جو باقی ہیں سب فضول ہیں۔ لیکن اس کا ردعمل یہ شرع ہوا کہ ہیرونے پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ لتیکا کے ساتھ اس کا نام پردے پر لازم و ملزوم ہو گیا تھا۔ اس لیے اس سے اس نے فائدہ اٹھانا چاہا۔ لتیکا سے اسے دلی نفرت تھی، اس لیے کہ وہ اس کے حقوق کی پروا ہی نہیں کرتی تھی۔ اس کا اظہار بھی اس نے اب آہستہ آہستہ اسٹوڈیو میں کرنا شروع کردیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اچانک پرفلا رائے نے اپنے آئندہ فلم میں اس کو شامل نہ کیا۔ اس پر چھوٹا سا ہنگامہ برپا ہوا لیکن فوراً ہی دب گیا۔ نئے ہیرو کی آمد سے تھوڑی دیر اسٹوڈیو میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ لیکن یہ بھی آہستہ آہستہ غائب ہو گئیں۔ لتیکا اپنے شوہر کے اس فیصلے سے متفق نہیں تھی۔ لیکن اس سے اسے تبدیل کرانے کی کوشش نہ کی، جو حساب اس نے لگایا تھا اس کے مطابق تازہ فلم ناکام ثابت ہوا۔ اس کے بعد دوسرا بھی اور جیسا کہ لتیکا کو معلوم تھا، اس کی شہرت دبنے لگی اور ایک دن یہ سننے میں آیا کہ وہ نئے ہیرو کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اخباروں میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ لتیکا کا دامن حیرت ناک طور پر رومانس وغیہ سے پاک رہا تھا۔ لوگوں نے جب سنا کہ وہ نئے ہیرو کے ساتھ بھاگ گئی ہے تو اس کے عشق کی کہانیاں گھڑنی شروع کردیں۔ پرفلا رائے کوبہت صدمہ ہوا جو اس کے قریب تھے ان کا بیان ہے کہ وہ کئی بار بے ہوش ہوا۔ لتیکا کا بھاگ جانا اس کی زندگی کا بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس کا وجود اس کے لیے کینوس کا ایک ٹکڑا تھا۔ جس پر وہ اپنے خوابوں کی تصویر کشی کرتا تھا۔ اب ایسا ٹکڑا اسے اور کہیں سے دستیاب نہ ہوسکتا تھا۔ غم کے مارے وہ نڈھال ہو گیا اس نے کئی بار چاہا کہ اسٹوڈیو کو آگ لگا دے اور اس میں خود کو جھونک دے۔ مگر اس کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت تھی جو اس میں نہیں تھی۔ آخر پرانا ہیرو آگے بڑھا اور اس نے معاملہ سلجھانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس نے لتیکا کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات کیے کہ پرفلا بھونچکے رہ گیا۔ اس نے بتایا۔

’’لتیکا ایسی عورت ہے جو محبت کے لطیف جذبے سے قطعاً محروم ہے۔ نئے ہیرو کے ساتھ وہ اس لیے نہیں بھگای کہ اس کو اس سے عشق ہے۔ یہ محض اسٹنٹ ہے۔ ایک ایسی چال ہے جس سے وہ اپنی تنزل پذیر شہرت کو تھوڑے عرصے کے لیے سنبھالا دینا چاہتی ہے اور اس میں اس نے اپنا شریک کار نئے ہیرو کو اس لیے بنایا ہے کہ وہ میری طرح خود سر نہیں وہ اس کو اس طرح اپنے ساتھ لے گئی ہے جس طرح کسی نوکر کو لے جاتے ہیں۔ اگر اس نے مجھے منتخب کیا ہوتا تو اس کی اسکیم کبھی کامیاب نہ ہوتی۔ میں کبھی اس کے احکام پر نہ چلتا۔ وہ اس وقت واپس آنے کے لیے تیار ہے، کیونکہ اس کے حساب کے مطابق اس کی واپسی میں بہت دن اوپر ہو گئے ہیں۔ اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید میں یہ باتیں بھی اسی کے کہنے کے مطابق آپ کو بتا رہا ہوں۔ ‘‘

دوسرے تخلیقی فن کاروں کی طرح پرفلا رائے بھی پرلے درجے کا سکی تھا پرانے ہیرو کی یہ باتیں فوراً ذہن میں بیٹھ گئیں، لیکن جب لتیکا واپس آئی تو اس نے عاشق صادق کے سے گلے شکوے شروع کردیے اور اس کو بے وفائی کا مجرم قرار دیا۔ لتیکا خاموش رہی۔ اس نے اپنی بے گناہی کے جواز میں کچھ نہ کہا۔ پرانے ہیرو نے اس کے متعلق جو باتیں اس کے شوہر سے کی تھیں، اس نے ان پر بھی کوئی تبصرہ نہ کیا۔ اس کے کہنے کے مطابق پرانے ہیرو کی تنخواہ دوگنی ہو گئی۔ اب وہ اس سے باتیں بھی کرتی تھی، لیکن ان کے درمیان وہ فاصلہ بدستور قائم رہا۔ جس کی حدود شروع ہی سے مقرر کر چکی تھی۔ فلم پھر کامیاب ہوا۔ جو اس کے بعد پیش ہوا اسے بھی کامیابی نصیب ہوئی لیکن اس دوران میں انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کے خطوط پر چل اور کئی ادارے فلم سازی کی نئی راہیں کھول چکے تھے۔ متعدد نئے چہرے جو لتیکا کے مقابلے میں کئی گنا پرکشش تھے، اسکرین پر پیش ہو چکے تھے۔ پرانے ہیرو کا خیال تھا کہ لتیکا ضرور اپنے خاوند کو چھوڑ کر کسی اور فلم ساز کی آغوش میں چلی جائے گی جو اس کے وجود میں نئے جزیرے دریافت کرسکے۔ لیکن بہت دیر تک کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔ اسٹوڈیو میں لتیکا کے متعلق ہر روز مختلف باتیں ہوتی تھیں۔ سب یہ جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ خاوند کے ساتھ اس کے تعلقات کس قسم کے ہیں۔ ان کے بارے میں کئی روایتیں مشہور تھیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی کہ وہ اپنے سائیں کے ساتھ خراب ہے۔ یہ روایت پرانے ہیرو سے تھی۔ اس کو یقین تھا کہ لتیکا اپنے سائیں رام بھروسے کے ذریعے سے اپنی جسمانی خواہشات پوری کرتی ہے اور اپنے خاوند پرفلارائے سے اس کے تعلقات صرف نمائشی بستر تک محدود ہیں۔ ! پرانا ہیرو اپنے اس مفروضے کے جواز میں یہ کہتا تھا۔

’’لتیکا جیسی عورت اس کے قسم کے تعلقات صرف ادنےٰ قسم کے نوکر ہی سے پیدا کرسکتی ہے جو اس کے اشارے پر آئے اور اشارے ہی پر چلا جائے۔ جس کی گردن اس کے احسان تلے دبی رہے۔ اگروہ عشق ومحبت کرنے کی اہلیت رکھتی تو نئے ہیرو کے ساتھ بھاگ کر پھر واپس نہ آتی۔ یہ اس کا اسٹنٹ تھا اور اس کا پول کھل چکا ہے۔ تم یقین مانو کہ اس کے دن لد چکے ہیں اور سب جانتی ہے اور اچھی طرح سمجھتی ہے اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ مسٹر رائے کی تمام طاقتیں اسے بنانے اور سنوارنے میں ختم ہو چکی ہیں، اب وہ آم کی چسی ہوئی گٹھلی کے مانند ہے۔ اس میں وہ رس نہیں رہا جس سے وہ اتنی دیر امرت حاصل کرتی رہی تھی۔ تم دیکھ لینا، تھوڑے ہی عرصے کے بعد اپنی کایا کلپ کرانے کی خاطر وہ کسی اور فلم ساز کی آغوش میں چلی جائے گی۔ ‘‘

لتیکا کسی اور فلم سازش کی آغوش میں نہ گئی! ایسا معلوم ہوتا کہ یہ موڑ اس کے بنائے ہوئے نقشے میں نہیں تھا۔ نئے ہیرو کے ساتھ بھاگ جانے کے بعد اس میں بظاہر کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ سرہاورڈ پیسکل کے ساتھ صبح سویرے باغبانی میں مصروف وہ ابھی اسی طرح نظر آتی تھی۔ اسٹوڈیو میں اس کے بارے میں جو باتیں ہوتی تھیں، اس کے علم میں تھیں، مگر وہ خاموش رہتی تھی، اس طرح پُر تمکنت طور پر خاموش! دو لفم اور بنے جو بہت بری طرح ناکام ہوئے۔ انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کا روشن نام مدھم پڑنے لگا لتیکا پر اس کا کوئی رد عمل ظاہر نہ ہوا۔ اسٹوڈیو کا ہر آدمی جانتا تھا کہ مسٹررائے سخت پریشان ہیں۔ پرانے ہیرو جو اپنا آقا کی قدر کرتا تھا اور اس کا ہم درد بھی تھا۔ کئی بار اسے رائے دی کہ وہ کمپنی کے بکھیڑوں سے الگ ہو جائے۔ فلم سازی کا کام اپنے شاگردوں کو سونپ دے اور خود آرام و سکون کی زندگی بسر کرنا شروع کردے۔ مگر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ پرفلارائے ایک بار پھر اپنی خواب ساز دماغ کی منتشر اور مضمحل قپوتیں مجتمع کرنا چاہتا ہے اور لتیکا کے وجود کے ڈھیلے تانے بانے میں ایک نئے اور دیرپا خواب کے نقش ابھارنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ گھر کے نوکروں سے جو خبریں باہر آتی تھیں، ان سے پتہ چلتا تھا کہ مسٹر رائے کا مزاج بہت چڑچڑا ہو گیا ہے۔ ہر وقت جھنجھلایا رہتا ہے کبھی کبھی غصے میں آکر لتیکا کو گندی گندی گالیاں بھی دیتا ہے، مگر وہ خاموش رہتی ہے۔ رات کو جب مسٹررائے کو شب بیداری کی شکایت ہوتی ہے تو وہ اس کا سر سہلاتی ہے، پاؤں دباتی ہے اور سُلا دیتی ہے۔ پہلے مسٹررائے کبھی اصرار نہیں کرتے تھے کہ لتیکا ان کے پاس سوئے، پر اب وہ کئی بار راتوں کو اٹھ اٹھ کر اسے ڈھونڈتے تھے اور اس کو مجبور کرتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ سوئے۔ پرانے ہیرو کو جب ایسی باتیں معلوم ہوتی تھیں تو اسے بہت دکھ ہوتا تھا۔

’’مسٹر رائے بہت بڑا آدمی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس نے اپنا دماغ ایک ایسی عورت کے قدموں میں ڈال دیا جو کسی طرح بھی اس اعزاز کے قابل نہیں تھی۔ وہ عورت نہیں چڑیل تھی۔ میرے اختیار میں ہو تو میں اسے گولی سے اڑا دوں!۔ سب سے بڑی ٹریجڈی تو یہ ہے کہ مسٹررائے کو اب اس سے بہت زیادہ محبت ہو گئی ہے۔ ‘‘

جو زیادہ گہرائیوں میں اترنے والے تھے، ان کا یہ خیال تھا کہ پرفلا رائے میں چونکہ اب لتیکا کا کوئی اور رنگ روپ دینے کی قوت باقی نہیں رہی، اس لیے وہ جنجھلا کر اس کو خراب کردینا چاہتا ہے۔ اب تک وہ اسے ایک مقدس چیز سمجھتا رہا تھا جس پر اس نے گندگی اور نجاست کا ایک ذرہ تک بھی نہیں گرنے دیا تھا۔ مگر اب وہ اسے ناپاک کردینا چاہتا ہے، غلاظت میں لتھیڑ دینا چاہتا ہے، تاکہ جب وہ کسی کے منہ سے یہ سنے کہ تمہاری لتیکا کو ہم نے فلاں فلاں نجاست سے ملوث کیا ہے تو اسے زیادہ روحانی کوفت نہ ہو۔ وہ پہلے خوابوں کی نرم و نازک دنیا میں بستا تھا، اب حقیقت کے پتھروں کے ساتھ اپنا اور لتیکا کا سر پھوڑنا چاہتا ہے۔ وقت گزرتا گیا، انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کے بائیسویں فلم کی شوٹنگ جاری تھی، پرفلا رائے ایک بالکل نیا تجربہ کررہا تھا۔ لیکن اسٹوڈیو کے آدمیوں کو معلوم نہ تھا کہ وہ کس قسم کا ہے۔ رائے کے دفتر کی بتی رات کو دیر تک جلتی رہتی تھی۔ گھر جانے کے بجائے اب وہ اکثر وہیں سوتا تھا۔ کاغذوں کے انبار اس کی میز پر لگے رہتے تھے۔ جب اس کی ایش ٹرے صاف کی جاتی تو جلے ہوئے سگرٹوں کا ایک ڈھیر نکلتا۔ کہانی لکھی جارہی تھی۔ مگر کس نوعیت کی۔ اسی کے سینریو ڈیپارٹمنٹ کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ درزی خان کے لوگ قریب قریب بیکار تھے۔ ایک دن لیتکا وہاں نمودار ہوئی اور اس نے اپنے لیے لمبی آسینوں والا سیاہ بلاؤز بنانے کا حکم دیا۔ کپڑا اس کی پسند کے مطابق آیا، ڈیزائن بھی اس نے خود منتخب کیا، اس کے ساتھ ہی اس نے سیاہ جارجٹ کی ساڑھی منگوائی، پھر ہیئر ڈریسر مس ڈی میلو سے اپنے نئے ہیئر اسٹائل کے متعلق مفصل بات چیت کی۔ یہ باتیں جب اسٹوڈیو میں عام ہوئیں تو لوگوں نے نئے فلم کے متعلق اپنی اپنی فکر کے مطابق اندازے لگائے۔ پرانے ہیرو کا یہ خیال تھا کہ مسٹر رائے شاید اپنی زندگی کی ٹریجیڈی پیش کریں گے لیکن جب پہلی شوٹنگ کی اطلاع بورڈ پر لگی اور سیٹ پر کام شروع ہوا تو لوگوں کو بڑی ناامیدی ہوئی۔ وہی پرانا ماحول تھا اور وہی پرانے ملبوسات۔ شوٹنگ حسب معمول بڑے ہموار طریقے پر جاری رہی، لیکن اچانک ایک دن اسٹوڈیو میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ پرفلا رائے حسب معمول سیٹ پر نمودار ہوا۔ چند لمحات اس نے شوٹنگ دیکھی اور ایک دم کیمرہ مین پر برس پڑا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ زور کا تھپڑ اس کے کان پر جڑ دیا۔ جس کے باعث وہ بے ہوش ہو گیا۔ پہلے تو اسٹوڈیو کے آدمی خاموش رہے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسٹر رائے پر دیوانگی طاری ہے تو انھوں نے مل کر اسے پکڑ لیا اسے گھر لے گئے۔ اچھے سے اچھے ڈاکٹر بلائے گئے مگر پرفلا رائے کی دیوانگی بڑھتی گئی وہ بار بار لتیکا کو اپنے پاس بلاتا تھا مگر جب وہ اس کی نظروں کے سامنے آتی تھی تو اس کا جوش بڑھ جاتا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ اسے نوچ ڈالے، اتنی گالیاں دیتا تھا، ایسے ایسے برے ناموں سے اسے یاد کرتا تھا کہ سننے والے حیرت زدہ ایک دوسرے کا منہ تکتے لگنے تھے۔ پورے چار دن تک پرفلا رائے پر دیوانگی طاری رہی۔ بہت خطرناک قسم کی دیوانگی۔ پانچویں روز صبح سویرے جب کہ لتیکا سرہاورڈپیسکل کے ساتھ باغبانی میں مصروف تھی اور دبی دبی زبان میں اپنے خاوند کی افسوسناک بیماری کا ذکر کررہی تھی۔ یہ اطلاع پہنچی کہ مسٹرر ائے آخری سانس لے رہے ہیں۔ یہ سن کر لتیکا کو غوش آگیا۔ سرہاورڈ اور اسٹوڈیو کے دوسرے آدمی ان کو ہوش میں لانے کی کوشش میں مصروف تھے کہ دوسری اطلاع پہنچی کہ مسٹر رائے سورگباش ہو گئے۔ دس بجے کے قریب جب لوگ ارتھی اٹھانے کے لیے کوٹھی پہنچے تو لتیکا نمودار ہوئی۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ بال پریشان تھے۔ سیاہ ساڑھی اور سیاہ بلاؤز پہنے ہوئے تھے۔ پرانے ہیرو نے اس کو دیکھا اور بڑی نفرت سے کہا۔

’’کمبخت کو معلوم تھا کہ یہ سین کب شوٹ کیا جانے والا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

لال ٹین

میرا قیام

’’بٹوت‘‘

میں گو مختصر تھا۔ لیکن گوناگوں روحانی مسرتوں سے پُر۔ میں نے اس کی صحت افزا مقام میں جتنے دن گزارے ہیں ان کے ہر لمحہ کی یاد میرے ذہن کا ایک جزو بن کے رہ گئی ہے۔ جو بھلائے نہ بھولے گی۔ کیا دن تھے!۔ باربار میرے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز بلند ہوتی ہے اور میں کئی کئی گھنٹے اس کے زیر اثر بے خود مدہوش رہتا ہوں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ انسان اپنی گزشتہ زندگی کے کھنڈروں پر مستقبل کی دیواریں استوار کرتا ہے۔ ان دنوں میں بھی یہی کررہا ہوں یعنی بیتے ہوئے ایام کی یاد کو اپنی مضمحل رگوں میں زندگی بخش انجکشن کے طور پر استعمال کررہا ہوں۔ جو کل ہوا تھا اسے اگر آج دیکھا جائے تو اس کے اور ہمارے درمیان صدیوں کا فاصلہ نظر آئے گا اور جو کل ہونا ہی ہے اسکے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں۔ آج سے پورے چار مہینے کی طرف دیکھا جائے تو بٹوت میں میری زندگی ایک افسانہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسا افسانہ جس کا مسودہ صاف نہ کیا گیا ہو۔ اس کھوئی ہوئی چیز کو حاصل کرنا دوسرے انسانوں کی طرح میرے بس میں بھی نہیں۔ جب میں استقبال کے آئینہ میں اپنی آنے والی زندگی کا عکس دیکھنا چاہتا ہوں تو اس میں مجھے حال ہی کی تصویر نظر آتی ہے اور کبھی کبھی اس تصویر کے پس منظر میں ماضی کے دھندلے نقوش نظر آجاتے ہیں۔ ان میں بعض نقش اس قدر تیکھے اور شوخ رنگ ہیں کہ شاید ہی انھیں زمانہ کا ہاتھ مکمل طور پر مٹا سکے۔ زندگی کے اس کھوئے ہوئے ٹکڑے کو میں اس وقت زمانہ کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں جو شریر بچے کی طرح مجھے بار بار اس کی جھلک دکھا کر اپنی پیٹھ پیچھے چھپا لیتا ہے۔ اور میں اس کھیل ہی سے خوش ہوں۔ اسی کو غنیمت سمجھتا ہوں۔ ایسے واقعات کو جن کی یاد میرے ذہن میں اب تک تازہ ہے میں عام طور پر دہراتا رہتا ہوں، تاکہ ان کی تمام شدت برقراررہے۔ اور اس غرض کے لیے میں کئی طریقے استعمال کرتا رہتا ہوں۔ بعض اوقات میں یہ بیتے ہوئے واقعات اپنے دوستوں کوسنا کر اپنا مطلب حل کرلیتا ہوں۔ اگر آپ کو میرے ان دوستوں سے ملنے کا اتفاق ہو تو وہ آپ سے یقیناً یہی کہیں گے کہ میں قصہ گوئی اور آپ بیتیاں سنانے کا بالکل سلیقہ نہیں رکھتا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ داستان سنانے کے دوران میں مجھے سامعین کے تیوروں سے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوا ہے کہ میرا بیان غیر مربوط ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ چونکہ میری داستان میں ہمواری کم اور جھٹکے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے میں اپنے محسوسات کو اچھی طرح کسی کے دماغ پر منتقل نہیں کرسکتا اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں ایسا شاید ہی کرسکوں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ میں اکثر اوقات اپنی داستان سنانے سناتے جب ایسے مقام پر پہنچتا ہوں جسکی یاد میرے ذہن میں موجود نہ تھی اور وہ خیالات کی رو میں خود بخود بہہ کر چلی آئی تھی تو میں غیر ارادی طور پر اس نئی یاد کی گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میرے بیان کا تسلسل یک لخت منتشر ہو جاتا ہے اور جب میں ان گہرائیوں سے نکل کر داستان کے ٹوٹے ہوئے دھاگے کو جوڑنا چاہتا ہوں تو عجلت میں وہ ٹھیک طور سے نہیں جڑتا۔ کبھی کبھی میں یہ داستانیں رات کو سوتے وقت اپنے ذہن کی زبانی خود سنتا ہوں، لیکن اس دوران میں مجھے بہت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ میرے ذہن کی زبان بہت تیز ہے اور اس کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات چھوٹے چھوٹے واقعات اتنی تفصیل کے ساتھ خود بخود بیان ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ طبیعت اکتا جاتی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ کی یاد کسی دوسرے واقعہ کی یاد تازہ کردیتی ہے اور اسکا احساس کسی دوسرے احساس کو اپنے ساتھ لے آتا ہے اور پھر احساسات و افکار کی بارش زوروں پر شروع ہو جاتی ہے۔ اور اتنا شور مچتا ہے کہ نیند حرام ہو جاتی ہے۔ جس روز صبح کو میری آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نظر آئیں آپ سمجھ لیا کریں کہ ساری رات میں اپنے ذہن کی قصہ گوئی کا شکار بنا رہا ہوں۔ جب مجھے کسی بیتے ہوئے واقعے کو اس کی تمام شدتوں سمیت محفوظ کرنا ہوتا ہے تو میں قلم اُٹھاتا ہوں اور کسی گوشے میں بیٹھ کر کاغذ پر اپنی زندگی کے اس ٹکڑے کی تصویر کھینچ دیتا ہوں۔ یہ تصویر بھدی ہوتی ہے یا خوبصورت، اسکے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے ادبی نقاد میری ان قلمی تصویروں کے متعلق کیا رائے مرتب کرتے ہیں۔ دراصل مجھے ان لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اگر میری تصویر کشی سقیم اور خام ہے تو ہوا کرے مجھے اس سے کیا اور اگر یہ ان کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترتی ہے تو بھی مجھے اس سے کیا سروکار ہوسکتا ہے۔ میں یہ کہانیاں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے کچھ لکھنا ہوتا ہے۔ جس طرح عادی شراب خوردن ڈھلے شراب خانہ کا رخ کرتا ہے ٹھیک اسی طرح میری انگلیاں بے اختیار قلم کی طرف بڑھتی ہیں اور میں لکھنا شروع کردیتا ہُوں میرا روئے سخن یا تو اپنی طرف ہوتا یا ان چند افراد کی طرف جو میری تحریروں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ میں ادب سے دُور اور زندگی کے نزدیک تر ہُوں۔ زندگی۔ زندگی۔ آہ زندگی!!! میں زندگی زندگی پُکارتا ہُوں مگر مجھ میں زندگی کہاں؟۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنی عمر کی پٹاری کھول کر اس کی ساری چیزیں باہر نکالتا ہوں اور جھاڑ پونچھ کر بڑے قرینے سے ایک قطار میں رکھتا ہوں اور اس آدمی کی طرح جس کے گھر میں بہت تھوڑا سامان ہو ان کی نمائش کرتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے اپنا یہ فعل بہت بُرا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ مجبور ہوں۔ میرے پاس اگر زیادہ نہیں ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اگر مجھ میں سفلہ پن پیدا ہو گیا ہے تو اس کا ذمہ دار میں کیسے ہوسکتا ہوں۔ میرے پاس تھوڑا بہت جوکچھ بھی ہے غنیمت ہے۔ دنیا میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے جنکی زندگی چٹیل میدان کی طرح خشک ہے اور میری زندگی کے ریگستان پر تو ایک بار بارش ہو چکی ہے۔ گو میرا شباب ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے مگر میں ان دنوں کی یاد پر جی رہا ہوں جب میں جوان تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سارا بھی کسی روز جواب دے جائے گا اور اس کے بعد جو کچھ ہو گا، میں بتا نہیں سکتا۔ لیکن اپنے موجودہ انتشار کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میرا انجام چشم فلک کو بھی نمناک کردیگا۔ آہ خرابہ فکر کا انجام! وہ شخص جسے انجام کار اپنے وزنی افکار کے نیچے پس جانا ہے یہ سطور لکھ رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ایسی اور بہت سی سطریں لکھنے کی تمنا اپنے دل میں رکھتا ہے۔ میں ہمیشہ مغموم و ملول رہا ہوں۔ لیکن شبیر جانتا ہے کہ بٹوت میں میری آہوں کی زردی اور تپش کے ساتھ ساتھ ایک خوش گوار مسرت کی سرخی اور ٹھنڈک بھی تھی۔ وہ آب و آتش کے اس باہمی ملاپ کو دیکھ کر متعجب ہوتا تھا اور غالباً یہی چیز تھی جس نے اس کی نگاہوں میں میرے وجود کو ایک معما بنا دیا تھا۔ کبھی کبھی مجھے وہ سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور اس کوشش میں وہ میرے قریب بھی آجاتا تھا۔ مگر دفعتاً کوئی ایسا حادثہ وقوع پذیر ہوتا جس کے باعث اسے پھر پرے ہٹنا پڑتا تھا اور اس طرح وہ نئی شدت سے مجھے پُراسرار اور کبھی پُرتصنع انسان سمجھنے لگتا۔ اکرام صاحب حیران تھے کہ بٹوت جیسی غیر آباد اور غیر دلچسپ دیہات میں پڑے رہنے سے میرا کیا مقصد ہے۔ وہ ایسا کیوں سوچتے تھے؟ اس کی وجہ میرے خیال میں صرف یہ ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لیے اور کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ وہ اسی مسئلے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ وزیر کا گھر ان کے بنگلے کے سامنے بلند پہاڑی پر تھا اور جب انھوں نے اپنے نوکر کی زبانی یہ سنا کہ میں اس پہاڑی لڑکی کے ساتھ پہروں باتیں کرتا رہتا ہوں۔ تو انھوں نے یہ سمجھا کہ میری دکھتی ہوئی رگ ان کے ہاتھ آگئی ہے اور انھوں نے ایک ایسا راز معلوم کرلیا ہے جس کے افشا پر تمام دنیا کے دروازے مجھ پر بند ہو جائیں گے۔ لوگوں سے جب وہ اس

’’مسئلے‘‘

پر باتیں کرتے تھے تو یہ کہا کرتے تھے میں تعیش پسند ہُوں اور ایک بھولی بھالی لڑکی کو پھانس رہا ہوں اور ایک (دن) جب انھوں نے مجھ سے بات کی تو کہا۔

’’دیکھیے یہ پہاڑی لونڈیا بڑی خطرناک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس کے جال میں پھنس جائیں۔ ‘‘

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انھیں یا کسی اور کو میرے معاملات سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ وزیر کا کریکٹر بہت خراب تھا اور میرا کریکٹر بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں میری فکر میں مبتلا تھے اور پھر جو انکے من میں تھا صاف صاف کیوں نہیں کہتے تھے۔ وزیر پر میرا کوئی حق نہیں تھا اور نہ وہ میرے دباؤ میں تھی۔ اکرام صاحب یا کوئی اور صاحب اگر اس سے دوستانہ پیدا کرنا چاہتے تو مجھے اس میں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ دراصل ہماری تہذیب و معاشرت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ عام طور پر صاف گوئی کو معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ کھل کر بات ہی نہیں کی جاتی اور کسی کے متعلق اگر اظہار خیال کیا بھی جاتا ہے تو غلاف چڑھا کر۔ میں نے صاف گوئی سے کام لیا اور اس پہاڑی لونڈیا سے جسے بڑا خطرناک کہا جاتا، اپنی دلچسپی کا اعتراف کیا۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اپنے دل کی آواز کو دل ہی میں دبا دینے کے عادی تھے اس لیے میری سچی باتیں ان کو بالکل جھوٹی معلوم ہوئیں اور ان کا شک بدستور قائم رہا۔ میں انھیں کیسے یقین دلاتا کہ میں اگر وزیر سے دلچسپی لیتا ہوں تو اس کا باعث یہ ہے کہ میرا ماضی و حال تاریک ہے۔ مجھے اس سے محبت نہیں تھی اسی لیے میں اس سے زیادہ وابستہ تھا۔ وزیر سے میری دلچسپی اس محبت کا ریہرسل تھی جو میرے دل میں اس عورت کے لیے موجود ہے جو ابھی میری زندگی میں نہیں آئی۔ میری زندگی کی انگوٹھی میں وزیر ایک جھوٹا نگینہ تھی لیکن یہ نگینہ مجھے عزیز تھا اس لیے کہ اس کی تراش، اس کا ماپ بالکل اس اصلی نگینہ کے مطابق تھا جس کی تلاش میں مَیں ہمیشہ ناکام رہا ہوں۔ وزیر سے میری دل بستگی بے غرض نہیں تھی اس لیے میں غرض مند تھا۔ وہ شخص جو اپنے غم افزا ماحول کو کسی کے وجود سے رونق بخشنا چاہتا ہو۔ اس سے زیادہ خود غرض اور کون ہوسکتا ہے؟۔ اس لحاظ سے میں وزیر کا ممنون بھی تھا اور خدا گواہ ہے کہ میں جب کبھی اس کو یاد کرتا ہوں تو بے اختیار میرا دل اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ شہر میں مجھے صرف ایک کام تھا۔ اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے گھپ اندھیرے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہنا اور بس!۔ مگر بٹوت میں اس تاریکی کے اندر روشنی کی ایک شعاع تھی۔ وزیر کی لال ٹین! بھٹیارے کے یہاں رات کو کھانا کھانے کے بعد میں اور شبیر ٹہلتے ٹہلتے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ جاتے۔ یہ بنگلہ ہوٹل سے قریباً تین جریب کے فاصلے پر تھا۔ رات کی خنک اور نیم مرطوب ہوا میں اس چہل قدمی کا بہت لطف آتا تھا۔ سڑک کے دائیں بائیں پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر مکئی کے کھیت رات کے دھندلکے میں خاکستری رنگ کے بڑے بڑے قالین معلوم ہوتے تھے۔ اور جب ہوا کے جھونکے مئی کے پودوں میں لرزش پیدا کردیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آسمان سے بہت سی پریاں ان قالینوں پر اتر آئی ہیں اور ہولے ہولے ناچ رہی ہیں۔ آدھا راستہ طے کرنے پر جب ہم سڑک کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹے سے دو منزلہ چوبی مکان کے قریب پہنچتے تو شبیر اپنی مخصوص دُھن میں یہ شعر گاتا ہے ؂ ہر قدم فتنہ ہے قیامت ہے آسمان تیری چال کیا جانے یہ شعر گانے کی خاص وجہ یہ تھی۔ اس چوبی مکان کے رہنے والے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ میرے اور وزیر کے تعلقات اخلاقی نقطہ نگاہ سے ٹھیک نہیں، حالانکہ وہ اخلاق کے معانی سے بالکل ناآشنا تھے۔ یہ لوگ مجھ سے اور شبیر سے بہت دلچسپی لیتے تھے اور میری نقل و حرکت پر خاص طور پر نگرانی رکھتے تھے۔ وہ تفریح کی غرض سے بٹوت آئے ہوئے تھے اور انھیں تفریح کا کافی سامان مل گیا تھا۔ شبیر اوپر والا شعر گا کر ان کی تفریح میں مزید اضافہ کیا کرتا تھا۔ اس کو چھیڑ چھاڑ میں خاص لطف آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی رہائش گاہ کے عین سامنے پہنچ کر اس کو یہ شعر یاد آجاتا تھا اور وہ فوراً اسے بلند آواز میں گا دیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ اس کا عادی ہو گیا تھا۔ یہ شعر کسی خاص واقعے یا تاثر سے متعلق نہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسے صرف یہی شعر یاد تھا، یا ہو سکتا ہے کہ وہ صرف اسی شعر کو گا سکتا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ بار بار یہی شعر دہراتا۔ شروع شروع میں اندھیری راتوں میں سنسان سڑک پر ہماری چہل قدمی چوبی مکان کے چوبی ساکنوں پر( وہ غیر معمولی طور پر اجڈا اور گنوار واقع ہوئے تھے) کوئی اثر پیدا نہ کرسکی۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ان کے بالائی کمرے میں روشنی نظر آنے لگی۔ اور وہ ہماری آمد کے منتظر رہنے لگے اور جب ایک روز ان میں سے ایک نے اندھیرے میں ہمارا رخ معلوم کرنے کے لیے بیٹری روشن کی میں نے شبیر سے کہا۔

’’آج ہمارا رومان مکمل ہو گیا ہے۔ ‘‘

مگر میں نے دل میں ان لوگوں کی قابلِ رحم حالت پر بہت افسوس کیا، کیونکہ وہ بیکار دو دو تین تین گھنٹے تک جاگتے رہتے تھے۔ حسبِ معمول ایک رات شبیر نے اس مکان کے پاس پہنچ کر شعر گایا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ بیٹری کی روشنی حسب معمول چمکی اور ہم باتیں کرتے ہوئے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے دس بجے ہوں گے، ہُو کا عالم تھا، ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی، آسمان ہم پر مرتبان کے ڈھکنے کی طرح جھکا ہوا تھا اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ ہم کسی بند بوتل میں چل پھر رہے ہیں۔ سکوت اپنی آخری حد تک پہنچ کر متکلم ہو گیا تھا۔ بنگلے کے باہر برآمدے میں ایک چھوٹی سی میز پر لیمپ جل رہا تھا اور پاس ہی پلنگ پر اکرام صاحب لیٹے کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے۔ شبیر نے دور سے ان کی طرف دیکھا اور دفعتاً سادھوؤں کا مخصوص نعرہ مستانہ الکھ نرنجن بلند کیا۔ اس غیر متوقع شور نے مجھے اور اکرام صاحب دونوں کو چونکا دیا۔ شبیر کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ پھر ہم دونوں برآمدے میں داخل ہو کر اکرام صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔ میرا منہ سڑک کی جانب تھا۔ عین اس وقت جب میں نے حقہ کی نَے منہ میں دبائی۔ مجھے سامنے سڑک کے اوپر تاریکی میں روشنی کی ایک جھلک دکھائی دی۔ پھر ایک متحرک سایہ نظر آیا اور اس کے بعد روشنی ایک جگہ ساکن ہو گئی۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وزیر کا بھائی اپنے کتے کو ڈھونڈ رہا ہے۔ چنانچہ اُدھر دیکھنا چھوڑ کر میں شبیر اور اکرام صاحب کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول ہو گیا۔ دوسرے روز شبیر کے نعرہ بلند کرنے بعد پھر اخروٹ کے درخت کے عقب میں روشنی نمودار ہوئی اور سایہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔ تیسرے روز بھی ایسا ہوا۔ چوتھے روز صبح کو میں اور شبیر چشمے پر غسل کو جا رہے تھے کہ اوپر سے ایک کنکر گرا، میں نے بیک وقت سڑک کے اوپر جھاڑیوں کی طرف دیکھا۔ وزیر سر پر پانی کا گھڑا اُٹھائے ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسی اور شبیر سے کہنے لگی۔

’’کیوں جناب، یہ آپ نے کیا وطیرہ اختیار کیا ہے کہ ہر روز ہماری نیند خراب کریں۔ ‘‘

شبیر حیرت زدہ ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔ میں وزیر کا مطلب سمجھ گیا تھا۔ شبیر نے اس سے کہا

’’آج آپ پہلیوں میں بات کر رہی ہیں۔ ‘‘

وزیر نے سر پر گھڑے کا توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’میں اتنی اتنی دیر تک لال ٹین جلا کر اخروف کے نیچے بیٹھی رہتی ہوں اور آپ سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ پھوٹے منہ سے شکریہ ہی ادا کر دیں۔ بھلا آپ کی جوتی کو کیا غرض پڑی ہے۔ یہ چوکیداری تو میرے ہی ذمے ہے۔ آپ ٹہلنے کو نکلیں اور اکرام صاحب کے بنگلے میں گھنٹوں باتیں کرتے رہیں اور میں سامنے لال ٹیشن لیے اونگھتی رہوں۔ ‘‘

شبیر نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ بھئی میں تو کچھ نہ سمجھا، یہ کس دھن میں الاپ رہی ہیں؟‘‘

میں نے شبیر کو جواب نہ دیا اور وزیر سے کہا۔

’’ہم کئی دنوں سے رات گئے اکرام صاحب کے یہاں آتے ہیں۔ دو تین مرتبہ میں نے اخروٹ کے پیچھے تمہاری لال ٹیشن دیکھی، پر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم خاص ہمارے لیے آتی ہو۔ اس کی کیا ضرورت ہے۔ تم ناحق اپنی نیند کیوں خراب کرتی ہو؟‘‘

وزیر نے شبیر کو مخاطب کر کے کہا۔

’’آپ کے دوست بڑے ہی ناشکرے ہیں ایک تو میں ان کی حفاظت کروں اور اوپر سے یہی مجھ پر اپنا احسان جتائیں۔ ان کو اپنی جان پیاری نہ ہو پر‘‘

۔ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گئی اور بات کا رُخ یوں بدل دیا۔

’’آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں ان کے بہت دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔ پھر آپ انھیں کیوں نہیں سمجھاتے کہ رات کو باہر نہ نکلا کریں۔ ‘‘

وزیر کو واقعی میری بہت فکر تھی۔ بعض اوقات وہ مجھے بالکل بچہ سمجھ کر میری حفاظت کی تدبیریں سوچا کرتی تھی، جیسے وہ خود محفوظ و مامون ہے اور میں بہت سی بلاؤں میں گھرا ہوا ہوں۔ میں نے اسے کبھی نہ ٹوکا تھا اس لیے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے اس شغل سے باز رکھوں جس سے وہ لطف اٹھاتی ہے، اس کی اور میری حالت بعینہٖ ایک جیسی تھی۔ ہم دونوں ایک ہی منزل کی طرف جانے والے مسافر تھے جو ایک لق و دق صحرا میں ایک دوسرے سے مل گئے تھے۔ اسے میری ضرورت تھی اور مجھے اس کی۔ تاکہ ہمارا سفر اچھی طرح کٹ سکے۔ میرا اور اس کا صرف یہ رشتہ تھا جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ہم ہر شب مقررہ وقت پر ٹہلنے کو نکلتے۔ شبیر چوبی مکان کے پاس پہنچ کر شعر گاتا، پھر اکرام صاحب کے بنگلے سے کچھ دور کھڑے ہو کر نعرہ بلند کرتا، وزیر لال ٹین روشن کرتی اور اس کی روشنی کو ہوا میں لہرا کر ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ جاتی۔ شبیر اور اکرام صاحب باتیں کرنے میں مشغول ہو جاتے۔ اور میں لال ٹین کی روشنی میں اس روشنی کے ذرے ڈھونڈھتا رہتا جس سے میری زندگی منور ہو سکتی تھی۔ وزیر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھی نہ جانے کیا سوچتی رہتی؟

سعادت حسن منٹو

لائسنس

ابوکوچوان بڑا چھیل چھبیلا تھا۔ اس کا تانگہ گھوڑا بھی شہر میں نمبر ون تھا۔ کبھی معمولی سواری نہیں بٹھاتاتھا۔ اس کے لگے بندھے گاہک تھے جن سے اس کو روزانہ دس پندرہ روپے وصول ہو جاتے تھے جو ابو کے لیے کافی تھے۔ دوسرے کوچوانوں کی طرح نشہ پانی کی اسے عادت نہیں تھی۔ لیکن صاف ستھرے کپڑے پہننے اور ہر وقت بانکا بنے رہنے کا اسے بے حد شوق تھا۔ جب اس کا تانگہ کسی سڑک پر سے گھنگھرو بجاتا گزرتا تو لوگوں کی آنکھیں خود بخود اس کی طرف جاتیں۔

’’وہ بانکا ابو جارہا ہے۔ دیکھو تو کس ٹھاٹ سے بیٹھا ہے۔ ذرا پگڑی دیکھو کیسی ترچھی بندھی ہے۔ ‘‘

ابو لوگوں کی نگاہوں سے یہ باتیں سنتا تو اس کی گردن میں ایک بڑا بانکا خم پیدا ہو جاتا اور اس کے گھوڑے کی چال اور زیادہ پرکشش ہو جاتی۔ ابو کے ہاتھوں نے گھوڑے کی باگیں کچھ اس انداز سے پکڑی ہوتی تھیں جیسے ان کو اسے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ گھوڑا اشاروں کے بغیر چلا جارہا ہے۔ اس کو اپنے مالک کے حکم کی ضرورت نہیں۔ بعض وقت تو ایسا محسوس ہوتا کہ ابو اور اس کا گھوڑا چنی دونوں ایک ہیں، بلکہ سارا ٹانگہ ایک ہستی ہے اور وہ ہستی ابو کے سوا اور کون ہو سکتی تھی۔ وہ سواریاں جن کو ابو قبول نہیں کرتا تھا دل ہی دل میں اس کو گالیاں دیتی تھیں۔ بعض بددعا بھی دیتی تھیں

’’خدا کرے اس کا گھمنڈ ٹوٹے۔ اس کا ٹانگہ گھوڑا کسی دریا میں جاگرے۔ ‘‘

ابو کے ہونٹوں پر جو ہلکی ہلکی مونچھوں کی چھاؤں میں رہتے تھے خود اعتماد سی مسکراہٹ ناچتی رہتی تھی۔ اس کو دیکھ کر کئی کوچوان جل بھن جاتے تھے۔ ابو کی دیکھا دیکھی چند کوچوانوں نے اِدھر اُدھر سے قرض لے کر تانگے بنوائے۔ ان کو پیتل کے سازو سامان سے سجایا مگر پھر بھی ابو کی سی شان پیدا نہ ہوسکی۔ ان کو وہ گاہک نصیب نہ ہوسکے جو ابو کے اور اس کے ٹانگے گھوڑے کے شیدا تھے۔ ایک دن دوپہر کو ابو درخت کی چھاؤں میں ٹانگے پر بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں میں بھنبھنائی۔ ابو نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ایک عورت ٹانگے کے بمب کے پاس کھڑی تھی۔ ابو نے اسے بمشکل ایک نظر دیکھا مگر اس کی تیکھی جوانی ایک دم اس کے دل میں کھب گئی۔ وہ عورت نہیں جوان لڑکی تھی۔ سولہ سترہ برس کی۔ دبلی پتلی لیکن مضبوط۔ رنگ سانولا مگر چمکیلا۔ کانوں میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی بالیاں۔ سیدھی مانگ ستواں ناک۔ اس کی پُھننگ پر ایک چھوٹا سا چمکیلا تل۔ لمبا کرتا اور نیلا لاچا۔ سر پر چدریا۔ لڑکی نے کنواری آواز میں ابو سے پوچھا۔

’’ویرا، ٹیشن کا کیا لو گے؟‘‘

ابو کے ہونٹوں کی مسکراہٹ شرارت اختیار کر گئی۔

’’کچھ نہیں۔ ‘‘

لڑکی کے چہرے کی سنولاہٹ سرخی مائل ہو گئی۔

’’کیا لو گے ٹیشن کا۔ ‘‘

ابو نے اس کو اپنی نظروں میں سموتے ہوئے کہا۔

’’تجھ سے کیا لینا ہے بھاگ بھریے۔ چل آ بیٹھ ٹانگے میں۔ ‘‘

لڑکی نے گھبراتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے مضبوط سینے کو ڈھانکا حالانکہ وہ ڈھکا ہوا تھا۔

’’کیسی باتیں کرتے ہو تم۔ ‘‘

ابو مسکرایا۔

’’چل آ، اب بیٹھ بھی جا۔ لے لیں گے جو تو دے دیگی۔ ‘‘

لڑکی نے کچھ دیر سوچا، پھر پائیدان پر پاؤں رکھ کر ٹانگے میں بیٹھ گئی

’’جلدی لے چل ٹیشن۔ ‘‘

ابو نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

’’بڑی جلدی ہے تجھے سوہنیے۔ ‘‘

ہائے ہائے، تو تو۔ لڑکی کچھ اور کہتے کہتے رک گئی۔ ٹانگہ چل پڑا۔ اور چلتا رہا۔ کئی سڑکیں گھوڑے کے سموں کے نیچے سے نکل گئیں۔ لڑکی سہمی بیٹھی تھی۔ ابو کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ جب بہت دیر ہو گئی تو لڑکی نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’ٹیشن نہیں آیا ابھی تک؟‘‘

ابو نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔

’’آجائے گا۔ تیرا میرا ٹیشن ایک ہی ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

ابو نے پلٹ کر لڑکی کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’الہڑے۔ کیا تو اتنا بھی نہیں سمجھتی۔ تیرا میرا ٹیشن ایک ہی ہے۔ اس وقت ایک ہو گیا تھا جب ابو نے تیری طرف دیکھا تھا۔ تیری جان کی قسم تیرا غلام جھوٹ نہیں بولتا۔ ‘‘

لڑکی نے سر پر پلو ٹھیک کیا۔ اس کی آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ ابو کا مطلب سمجھ چکی ہے۔ اس کے چہرے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا تھا کہ اس نے ابو کی بات کا برا نہیں مانا۔ لیکن وہ اس کشمکش میں تھی کہ دونوں کا ٹیشن ایک ہو یا نہ ہو۔ ابو بانکا سجیلا تو ہے لیکن کیا وفادار بھی ہے۔ کیا وہ اپنا ٹیشن چھوڑ دے۔ جہاں اس کی گاڑی پتا نہیں کب کی جا چکی تھی۔ ابو کی آواز نے اس کو چونکا دیا۔

’’کیا سوچ رہی ہے بھاگ بھریئے۔ ‘‘

گھوڑا مست خرامی سے دمکی چل رہا تھا۔ ہوا خنک تھی۔ سڑک کے دورویہ اُگے ہوئے درخت بھاگ رہے تھے۔ ان کی ٹہنیاں جھوم رہی تھیں۔ گھنگھرؤں کی یک آہنگ جھنجھناہٹ کے سوا اور کوئی آواز نہیں تھی۔ ابو گردن موڑے لڑکی کے سانولے حسن کو دل ہی دل میں چوم رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے گھوڑے کی باگیں جنگلے کی سلاخ کے ساتھ باندھ دیں اور لپک کر پچھلی سیٹ پر لڑکی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ خاموش رہی۔ ابو نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے

’’دے دے اپنی باگیں میرے ہاتھ میں۔ ‘‘

لڑکی نے صرف اتنا کہا۔

’’چھوڑ بھی دے‘‘

لیکن وہ فوراً ہی ابو کے بازوؤں میں تھی۔ اس کے بعد اس نے مزاحمت نہ کی۔ اس کا دل البتہ زور زور سے پھڑپھڑا رہا تھا جیسے خود کو چھڑا کر اڑ جانا چاہتا ہے۔ ابو ہولے ہولے پیار بھرے لہجے میں اسے کہنے لگا۔

’’یہ ٹانگہ گھوڑا مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا، لیکن قسم گیارھویں والے پیر کی یہ بیچ دوں گا اور تیرے لیے سونے کے کڑے بنواؤں گا۔ آپ پھٹے پرانے کپڑے پہنوں گا، لیکن تجھے شزادی بنا کر رکھوں گا۔ قسم وحدہ لا شریک کی، زندگی میں یہ میرا پہلا پیار ہے۔ تم میری نہ بنیں تو میں تیرے سامنے گلا کاٹ لوں گا اپنا‘‘

پھر اس نے لڑکی کو اپنے سے علیحدہ کردیا

’’جانے کیا ہو گیا ہے مجھے۔ چلو تمہیں ٹیشن چھوڑ آؤں۔ ‘‘

لڑکی نے ہولے سے کہا۔

’’نہیں۔ اب تم مجھے ہاتھ لگا چکے ہو۔ ‘‘

ابو کی گردن جھک گئی۔

’’مجھے معاف کردو۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ ‘‘

’’نبھالو گے اس غلطی کو؟‘‘

لڑکی کے لہجے میں چیلنج تھا، جیسے کسی نے ابو سے کہا ہو۔

’’لے جاؤ گے اپنا ٹانگہ اس ٹانگے سے آگے نکال کے۔ ‘‘

اس کا جھکا ہوا سر اٹھا۔ آنکھیں چمک اٹھیں۔

’’بھاء بھریے۔ ‘‘

یہ کہہ اس نے اپنے مضبوط سینے پر ہاتھ رکھا۔

’’ابو اپنی جان دے دے گا۔ ‘‘

لڑکی نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔

’’تو یہ ہے میرا ہاتھ۔ ‘‘

ابو نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔

’’قسم اپنی جوانی کی۔ ابو تیرا غلام ہے۔ ‘‘

دوسرے روز ابو اور اس لڑکی کا نکاح ہو گیا۔ وہ ضلع گجرات کی موچن تھی نام اس کا عنایت یعنی نیتی تھا۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آئی تھی۔ وہ اسٹیشن پر اس کا انتظار کررہے تھے کہ ابو اور اس کی مڈبھیڑ ہو گئی جو فوراً ہی محبت کی ساری منزلیں طے کرگئی۔ دونوں بہت خوش تھے۔ ابو نے ٹانگہ گھوڑا بیچ کر تو نیتی کے لیے سونے کے کڑے نہیں بنوائے تھے لیکن اپنے جمع کیے پیسوں سے اس کو سونے کی بالیاں خرید دی تھیں۔ کئی ریشمی کپڑے بھی بنوا دیے تھے۔ لس لس کرتے ہوئے ریشمی لاچے میں جب نیتی، ابو کے سامنے آتی تو اس کا دل ناچنے لگتا۔

’’قسم پنچ تن پاک کی، دنیا میں تجھ جیسا سندر اور کوئی نہیں۔ ‘‘

اور یہ کہہ وہ اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتا۔

’’تو میرے دل کی رانی ہے۔ ‘‘

دونوں جوانی کی مستیوں میں غرق تھے۔ گاتے تھے، ہنستے تھے، سیریں کرتے تھے، ایک دوسرے کی بلائیں لیتے تھے۔ ایک مہینہ اسی طرح گزر گیا کہ دفعتاً ایک روز پولیس نے ابو کو گرفتار کرلیا۔ نیتی بھی پکڑی گئی۔ ابو پر اغواء کا مقدمہ چلا۔ نیتی ثابت قدم رہی لیکن پھر بھی ابو کو دو برس کی سزا ہو گئی۔ جب عدالت نے حکم سنایا تو نیتی ابو کے ساتھ لپٹ گئی۔ روتے ہوئے اس نے صرف اتنا کہا۔

’’میں اپنے ماں باپ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔ گھر بیٹھ کر تیرا انتظار کروں گی۔ ‘‘

ابو نے اس کی پیٹھ پر تھپکی دی

’’جیتی رہ۔ ٹانگہ گھوڑا میں نے دینے کے سپرد کیا ہوا ہے۔ اس سے کرایہ وصول کرتی رہنا۔ ‘‘

نیتی کے ماں باپ نے بہت زور لگایا مگر وہ ان کے ساتھ نہ گئی۔ تھک ہار کر انھوں نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ نیتی اکیلی رہنے لگی۔ دینا اسے شام کو پانچ روپے دے جاتا تھا جو اس کے خرچ کے لیے کافی تھے۔ اس کے علاوہ مقدمے کے دوران میں روزانہ پانچ روپے کے حساب سے جو کچھ جمع ہوا تھا وہ بھی اس کے پاس تھا۔ ہفتے میں ایک بار نیتی اور ابو کی ملاقات جیت میں ہوتی تھی جو کہ ان دونوں کے لیے بہت ہی مختصر تھی۔ نیتی کے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ ابو کو آسائشیں پہنچانے میں صرف ہو گئی۔ ایک ملاقات میں ابو نے نیتی کے بچے کانوں کی طرف دیکھا اور پوچھا

’’بالیاں کہاں گئی نیتی؟‘‘

نیتی مسکرا دی اور سنتری کی طرف دیکھ کر ابو سے کہا

’’گم ہو گئیں کہیں۔ ‘‘

ابو نے قدرے غصے ہوکرکہا۔

’’تم میرا اتنا خیال رکھا نہ کرو۔ جیسا بھی ہوں ٹھیک ہوں۔ ‘‘

نیتی نے کچھ نہ کہا۔ وقت پورا ہو چکا تھا۔ مسکراتی ہوئی وہاں سے چل دی۔ مگر گھر جا کر بہت روئی۔ گھنٹوں آنسو بہائے۔ کیونکہ ابو کی صحت بہت گر رہی تھی۔ اس ملاقات میں تو وہ اسے پہچان نہیں سکی تھی۔ گرانڈیل ابو اب گھل گھل کر آدھا ہو گیا تھا۔ نیتی سوچتی تھی کہ اس کو اس کا غم کھا رہا ہے۔ اس کی جدائی نے ابو کی یہ حالت کر دی ہے۔ لیکن اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ دق کا مریض ہے اور یہ مرض اسے ورثے میں ملا ہے۔ ابو کا باپ ابو سے کہیں زیادہ گرانڈیل تھا۔ لیکن دق نے اسے چند دنوں ہی میں قبر کے اندر پہنچا دیا۔ ابو کا بڑا بھائی کڑیل جوان تھا مگر عین جوانی میں اس مرض نے اسے دبوچ لیا تھا۔ خود ابو اس حقیقت سے غافل تھا چنانچہ جیل کے ہسپتال میں جب وہ آخری سانس لے رہا تھا، اس نے افسوس بھرے لہجے میں نیتی سے کہا۔

’’مجھے معلوم ہوتا کہ میں اتنی جلدی مر جاؤں گا تو قسم وحدہ لاشریک کی تجھے کبھی اپنی بیوی نہ بناتا۔ میں نے تیرے ساتھ بہت ظلم کیا۔ مجھے معاف کردے۔ اور دیکھ میری ایک نشانی ہے، میرا ٹانگہ گھوڑا۔ اس کا خیال رکھنا۔ اور چنی بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنا۔ ابو نے تجھے پیار بھیجا ہے۔ ‘‘

ابو مر گیا۔ نیتی کا سب کچھ مگر گیا۔ مگر وہ حوصلے والی عورت تھی۔ اس صدمے کو اس نے برداشت کر ہی لیا۔ گھر میں تن تنہا پڑی رہتی تھی۔ شام کو دینا آتا تھا اور اسے دم دلاسا دیتا تھا اور کہتا تھا۔

’’کچھ فکر نہ کرو بھابھی۔ اللہ میاں کے آگے کسی کی پیش نہیں چلتی۔ ابو میرا بھائی تھی۔ مجھ سے جو ہو سکتا ہے خدا کے حکم سے کروں گا۔ ‘‘

شروع شروع میں تو نیتی نہ سمجھی پر جب اس کے عدت کے دن پورے ہوئے تو دینے نے صاف لفظوں میں کہا کہ وہ اس سے شادی کرلے۔ یہ سن کر نیتی کے جی میں آئی کہ وہ اس کو دھکا دے کر باہر نکال دے مگر اس نے صرف اتنا کہا۔

’’بھائی مجھے شادی نہیں کرنی۔ ‘‘

اس دن سے دینے کے رویے میں فرق آگیا۔ پہلے شام کو بلاناغہ پانچ روپے ادا کرتا تھا۔ اب کبھی چار دینے لگا۔ کبھی تین۔ بہانہ یہ کہ بہت مندا ہے۔ پھر دو دو تین تین دن غائب رہنے لگا۔ بہانہ یہ کہ بیمار تھا یا ٹانگے کا کوئی کل پرزہ خوب ہو گیا تھا۔ اس لیے جو نہ سکا۔ جب پانی سر سے نکل گیا تو نیتی نے دینے سے کہا۔

’’بھائی دینے اب تم تکلیف نہ کرو۔ ٹانگہ گھوڑا میرے حوالے کردو۔ ‘‘

بڑی لیت و لعل کے بعد بالآخر دینے نے بادلِ ناخواستہ ٹانگا گھوڑا نیتی کی تحویل میں دے دیا۔ اس نے ماجھے کے سپرد کردیا جو ابو کا دوست تھا۔ اس نے بھی کچھ دنوں کے بعد شادی کی درخواست کی۔ نیتی نے انکار کیا تو اس کی آنکھیں بدل گئیں۔ ہمدردی وغیرہ سب ہوا ہو گئی۔ نیتی نے اس سے ٹانگا گھوڑا واپس لیا اور ایک انجانے کوچوان کے حوالے کردیا۔ اس نے تو حد ہی کردی۔ ایک شام پیسے دینے آیا تو شراب میں دھت تھا۔ ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی نیتی پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ نیتی نے اس کو خوب سنائیں۔ اور کام سے ہٹا دیا۔ آٹھ دس روز ٹانگا گھوڑا بیکار طویلے میں پڑا رہا۔ گھاس دانے کا خرچ علیحدہ۔ طویلے کا کرایہ علیحدہ۔ نیتی عجیب الجھن میں گرفتارتھی۔ کوئی شادی کی درخواست کرتا تھا، کوئی اس کی عصمت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا تھا۔ کوئی پیسے مار لیتا تھا۔ باہر نکلتی تو لوگ بری نگاہوں سے گھورتے تھے۔ ایک رات اس کا ہمسایہ دیوار پھاند کے آگیا اور دراز دستی کرنے لگا۔ نیتی سوچ سوچ کر پاگل ہو گئی کہ کیا کرے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اسے خیال آیا۔

’’کیوں نہ ٹانگا میں آپ ہی جوتوں۔ آپ ہی چلاؤں‘‘

۔ ابو کے ساتھ جب وہ سیر کو جایا کرتی تھی تو ٹانگا خود ہی چلایا کرتی تھی۔ شہر کے راستوں سے بھی واقف تھی۔ لیکن پھر اس نے سوچا

’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

۔ اس کے جواب میں اس کے دماغ نے کئی دلیلیں دیں۔

’’کیا حرج ہے۔ کیا عورتیں محنت مزدوری نہیں کرتیں۔ یہ کوئلے والیاں۔ یہ دفتروں میں جانے والی عورتیں۔ گھر میں بیٹھ کر کام کرنے والیاں توہزاروں ہوں گی۔ پیٹ کسی حیلے سے پالنا ہی ہے۔ ‘‘

نیتی نے کچھ دن سوچ بچار کیا۔ آخر میں فیصلہ کرلیا کہ وہ ٹانگہ خود چلائیگی۔ اس کو خود پر پورا اعتماد تھا، چنانچہ اللہ کا نام لے کروہ طویلے پہنچ گئی۔ ٹانگا جوتنے لگی تو سارے کوچوان ہکا بکا رہ گئے۔ بعض مذاق سمجھ کر خوب ہنسے۔ جو بزرگ تھے انھوں نے نیتی کو سمجھایا کہ دیکھو ایسا نہ کرو۔ یہ مناسب نہیں مگر نیتی نہ مانی۔ ٹانگا ٹھیک ٹھاک کیا۔ پیتل کا سازو سامان اچھی طرح چمکایا۔ گھوڑے کو خوب پیار کیا اور ابو سے دل ہی دل میں پیار کی باتیں کرتی طویلے سے باہر نکل گئی۔ کوچوان حیرت زدہ تھے، کیونکہ نیتی کے ہاتھ رواں تھے جیسے وہ ٹانگہ چلانے کے فن پر حاوی ہے۔ شہر میں ایک تہلکہ برپا ہو گیا کہ ایک خوبصورت عورت ٹانگہ چلا رہی ہے۔ ہر جگہ اسی بات کا چرچا تھا۔ لوگ سنتے تھے تو اس وقت کا اتنظار کرتے تھے جب وہ ان کی سڑک پر سے گزرے گا۔ شروع شروع میں تو مرد سواریاں جھجکتی تھیں مگر یہ جھجک تھوڑی دیر میں دور ہو گئی اور خوب آمدن ہونے لگی۔ ایک منٹ کے لیے بھی نیتی کا ٹانگہ بیکار نہ رہتا تھا۔ ادھر سوار اتری ادھر بیٹھی۔ آپس میں کبھی کبھی سواریوں کی لڑائی بھی ہو جاتی تھی۔ اس بات پر نیتی کو پہلے کس نے بلایا تھا۔ جب کام زیادہ ہو گیا تو نیتی نے ٹانگہ جوتنے کے اوقات مقرر کردیے صبح سات بجے سے بارہ بجے، دوپہر دو سے چھ بجے تک۔ یہ سلسلہ بڑا آرام دہ ثابت ہوا۔ چنی بھی خوش تھا مگر نیتی محسوس کررہی تھی کہ اکثر لوگ صرف اس کی قربت حاصل کرنے کیلیے اس کے ٹانگے میں بیٹھتے۔ بے مطلب بے مقصد اسے اِدھر اُدھر پھراتے تھے۔ آپس میں گندے گندے مذاق بھی کرتے تھے۔ صرف اس کو سنانے کیلیے باتیں کرتے تھے۔ اس کو ایسا لگاتھا کہ وہ تو خود کو نہیں بیچتی۔ لیکن لوگ چپکے چپکے اسے خرید رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ شہر کے سارے کوچوان اس کو بُرا سمجھتے ہیں۔ ان تمام احساسات کے باوجود مضطرب نہیں تھی۔ اپنی خود اعتمادی کے باعث وہ پرسکون تھی۔ ایک دن کمیٹی والوں نے نیتی کو بلایا اور اس کا لائسنس ضبط کرلیا۔ وجہ یہ بتائی کہ عورت ٹانگہ نہیں چلا سکتی۔ نیتی نے پوچھا۔

’’جناب، عورت ٹانگہ کیوں نہیں چلا سکتی۔ ‘‘

جواب ملا۔

’’بس، نہیں چلا سکتی۔ تمہارا لائسنس ضبط ہے۔ ‘‘

نیتی نے کہا۔

’’حضور، آپ گھوڑا ٹانگہ بھی ضبط کرلیں، پر مجھے یہ تو بتائیں کہ عورت کیوں ٹانگہ نہیں جوت سکتی، عورتیں چرخہ چلا کر اپنا پیٹ پال سکتی ہیں۔ عورتیں ٹوکری ڈھو کر روزی کما سکتی ہیں۔ عورتیں لینوں پر کوئلے چن چن کر اپنی روٹی پیدا کرسکتی ہیں۔ میں ٹانگہ کیوں نہیں چلا سکتی۔ مجھے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ ٹانگہ گھوڑا میرے خاوند کا ہے۔ میں اسے کیوں نہیں چلا سکتی۔ میں اپنا گزارہ کیسے کروں؟۔ حضور آپ رحم کریں۔ محنت مزدوری سے کیوں روکتے ہیں مجھے؟۔ میں کیا کروں، بتائے نا مجھے‘‘

افسر نے جواب دیا۔

’’جاؤ بازار میں جا کر بیٹھو۔ وہاں زیادہ کمائی ہے۔ ‘‘

یہ سن کر نیتی کے اندر جو اصل نیتی تھی جل کر راکھ ہو گئی۔ ہولے سے

’’اچھا جی‘‘

کہہ کر وہ چلی گئی۔ اونے پونے داموں ٹانگہ گھوڑا بیچا اور سیدھی ابو کی قبر پر گئی۔ ایک لحظے کے لیے خاموش کھڑی رہی۔ اس کی آنکھیں بالکل خشک تھیں، جیسے بارش کے بعد چلچلاتی دھوپ نے زمین کی ساری نمی چوس لی تھی۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ وا ہوئے اور وہ قبر سے مخاطب ہوئی۔

’’ابو۔ تیری نیتی آج کمیٹی کے دفتر میں مرگئی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ دوسرے دن عرضی دی۔ اس کو اپنا جسم بیچنے کا لائسنس مل گیا۔

سعادت حسن منٹو

گھوگا

میں جب ہسپتال میں داخل ہوا تو چھٹے روز میری حالت بہت غیر ہو گئی۔ کئی روز تک بے ہوش رہا۔ ڈاکٹر جواب دے چکے تھے لیکن خدا نے اپنا کرم کیا اور میری طبیعت سنبھلنے لگی۔ اس دوران کی مجھے اکثر باتیں یاد نہیں۔ دن میں کئی آدمی ملنے کے لیے آتے۔ لیکن مجھے قطعاً معلوم نہیں، کون آتا تھا، کون جاتا تھا، میرے بسترِ مرگ پر جیسا کہ مجھے اب معلوم ہوا، دوستوں اور عزیزوں کا جمگھٹا لگا رہتا، بعض روتے، بعض آہیں بھرتے، میری زندگی کے بیتے ہوئے واقعات دہراتے اور افسوس کا اظہار کرتے۔ جب میری طبیعت کسی قدر سنبھلی اور مجھے ذرا ہوش آیا تو میں نے آہستہ آہستہ اپنے گردوپیش کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ میں جنرل وارڈ میں تھا۔ دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ کا پہلا بیڈ میرا تھا۔ دیوار کے ساتھ لوہے کی الماری تھی۔ جس میں خاص خاص دوائیں اور آلاتِ جراحی تھے، دیگر سامان بھی تھا۔ مثلاً گرم پانی اور برف کی ربڑ کی تھیلیاں، تھرما میٹر، بستر کی چادریں، کمبل اور رُوئی وغیرہ۔ اس کے علاوہ اور بے شمار چیزیں تھیں، جن کا مصرف میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کئی نرسیں تھیں، صبح سات بجے سے دو بجے دوپہر تک۔ دو بجے سے شام کے سات بجے تک، چار چار نرسوں کی ٹولی، اس وارڈ میں کام کرتی۔ رات کو صرف ایک نرس ڈیوٹی پر ہوتی تھی۔ رات کو مجھے نیند نہیں آتی تھی۔ یوں تو اکثر آنکھیں بند کیے لیٹا رہتا۔ لیکن کبھی کبھی نیم مُندی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھ لیتا کہ کیا ہورہا ہے۔ ان دنوں جو نرس رات کی ڈیوٹی پر ہوتی تھی، وہ اس قدر مختصر تھی کہ اسے کوئی بھی اپنے بٹوے میں ڈال سکتا تھا۔ گہرا سانولا رنگ، ہر عضو ایک خلاصہ، ہر خدوخال تمہید کی فوری تمت، انتہا درجے کی غیر نسوانی لڑکی تھی، معلوم نہیں، قدرت نے اس کے ساتھ اس قسم کا غیر شاعرانہ سلوک کیوں کیا تھا کہ وہ شعر تھی نہ رباعی، نہ قطعہ۔ البتہ استاد امام دین کی تُک بندی معلوم ہوتی تھی۔ ہر نرس کا کوئی نہ کوئی چاہنے والا موجود تھا، مگر اس غریب کا کوئی بھی نہیں تھا۔ میں نرسنگ کے پیشے کو باوجود اس کی موجودہ گراوٹوں کے احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ اس لیے مجھے اس نرس سے جس کا نام مس جیکب تھا، بڑی ہمدردی تھی۔ اس سے کوئی مریض دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ ایک شام کو جب وہ آئی اورمیرے بستر کے پاس سے گزری تو میں نے اپنی نحیف آواز میں اس سے کہا:

’’السلام علیکم مس جیکب۔ ‘‘

اُس نے میری آواز سن لی۔ فوراً رُک کر اس نے جواب دیا

’’سلاما الیکم۔ ‘‘

بس اس کے بعد میرا یہ دستور ہو گیا کہ جب وہ شام کو ڈیوٹی پر آتی تو وارڈ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کو میری السلام علیکم سُنائی دیتی۔ مجھے نیند آنا شروع ہو گئی تھی، لیکن صبح ساڑھے پانچ بجے جاگ جاتا۔

’’مِس جیکب رات بھر کی جاگی ہوئی، مریضوں کے ٹمپریچر لینے میں مصروف ہوتی۔ جب میرے بستر کے پاس آتی تو میں پھر اسے سلام کرتا۔ السلام علیکم کایہ سلسلہ بڑا دلچسپ ہو گیا، وہ اس لحاظ سے چڑ گئی کہ پہل میں کیوں کرتا ہوں۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ وہ مجھ سے مسابقت لے جائے، مگر اسے ناکامی ہوئی، لیکن ایک روز صبح سویرے جب کہ زیادہ دیر تک جاگنے کے باعث میری آنکھ لگ گئی تھی۔ جب وہ میرا ٹمپریچر لینے کے لیے آئی، تو اس نے اپنی مہین پتلی آواز کو زور داربنا کر کہا

’’سلاما الیکم۔ ‘‘

میں چونک پڑا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ مِس جیکب کا مختصر وجود میرے سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ میں نے بڑی فراخ دلی سے اپنی شکست تسلیم کی اور اس کے مطابق مناسب و موزوں مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر پیدا کرکے جواب دیا۔

’’وعلیکم السلام مس جیکب۔ آج تو آپ نے کمال کردیا۔ ‘‘

وہ بے حد خوش ہوئی، چنانچہ اس خوشی میں اس نے میرا دو مرتبہ ٹمپریچر لیا کہ پہلی دفعہ اس نے تھرما میٹر اچھی طرح جھٹکا نہیں تھا۔ ایک رات جبکہ مجھے بالکل نیند آرہی تھی اور میں بار بار اپنی گھڑی دیکھ رہا تھا کہ دن ہونے میں کتنی دیر ہے۔ بارہ بجے کے قریب میں نے اپنی دُھندلی آنکھوں سے دیکھا کہ وارڈ کے وسط میں جو میز پڑا ہے، اس کے ساتھ کرسی پر مس جیکب اپنے تمام اختصار کے ساتھ بیٹھی ہے۔ اور ایک مریض جو موٹا تھا، اس سے ہم کلام ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ چونکہ خاموشی تھی، اس لیے میں اس کی گفتگو سُن سکتا تھا، وہ نرس سے بڑے یتیمانہ قسم کے عشق کا اظہار کرنے کی سعی کررہا تھا۔ پہلے وہ کچھ دیر چپڑاسیوں کے مانند جن کا صاحب اپنی مسند پر موجود ہو، کھڑا رہا۔ پھر وہ اس سے مخاطب ہوا۔ :

’’نرس صاحبہ۔ کیا اس وقت آپ مجھے اسپرین کی گولی دے سکتی ہیں؟‘‘

مس جیکب غالباً رپورٹ لکھنے میں مصروف تھی۔ اس نے اس موٹے مریض کی طرف دیکھا۔ قلم میز پر رکھ کراُٹھی اور اس الماری میں سے جو میرے بستر کے قریب تھی، اسپرین کو ایک گولی نکال کر اس کے حوالے کردی۔ رات کے دو بج گئے۔ میں جاگ رہا تھا لیکن میری آنکھیں بند تھیں۔ آہٹ ہوئی تو میں نے کروٹ بدل کر دیکھا کہ وہی موٹا مریض الماری کھول کر اسپرین کی گولیاں نکال رہا ہے، بالکل اس طرح جیسے کوئی چوری کررہا ہے۔ میں نے کوئی مداخلت نہ کی۔ میں نے دوسرے دن نرس نعیمہ حق سے جو ہر صبح میرا بدن چھوٹے چھوٹے تولیوں سے کنکنے پانی میں صابن کہ ساتھ صاف کیا کرتی تھی، اور پرلے درجے کی شریر تھی، پوچھا کہ

’’انیس نمبر کے بیڈ کا مریض کون ہے؟‘‘

اس کا سانولا چہرہ سوال بن گیا۔

’’آپ اُس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘

میں نے اس سے کہا:

’’تم جانتی ہو، میں افسانہ نگار ہوں، مجھے ہر شخص سے دلچسپی ہے، خواہ وہ مریض ہی کیوں نہ ہو؟‘‘

’’اس میں کیا بات ہے؟‘‘

’’جو تم میں ہے۔ تم شریر ہو، وہ چور ہے۔ ‘‘

’’نعیمہ حق کو میری یہ بات ناگوار معلوم ہوئی۔

’’شرارت اور چوری کو آپ ایک ہی بات سمجھتے ہیں۔ ‘‘

وہ میرے بالوں بھرے سینے پر تولیہ پھیر رہی تھی۔ میں نے اپنے کمزور ہاتھ سے اس کے گال پر ہولے سے چپت لگائی اور کہا:

’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ تم میرے سوال کا جواب دو کہ انیس نمبر کے بیڈ کا جو مریض ہے اس کا کیا نام ہے؟‘‘

نعیمہ نے جواب دیا

’’گھوگا۔ ‘‘

’’یہ کیا نام ہے؟‘‘

’’بس ہے۔ ہم نے رکھ دیا ہے۔ ‘‘

میں اس سے کچھ اور پوچھنے ہی والا تھا کہ نعیمہ نے اُبالی ہوئی سرنج پکڑی اور اس میں ایک سی سی وٹامن بی کمپلیکس ڈال کر سُوئی میرے سوکھے ہوئے بازو میں کھبو دی، مجھے سخت درد ہوا، اس لیے میں گھوگا کو بھول گیا۔ مگر اتنے میں عذرا آگئی۔ یہ نرس نعیمہ سے چار سی سی آگے تھی۔ ان دونوں میں جو گفتگو ہوئی، اس سے مجھے معلوم ہوا کہ انیس نمبر کے بیڈ کے مریض کا نام ان دونوں نے مل کر تجویز کیا ہے۔ عذرا نے پہلے میری خیریت پوچھی، پھر کہا:

’’خیریت تو ہے آپ گھوگے کے متعلق پوچھ رہے تھے۔ ‘‘

میں نے درد کے باعث ذرا تلخ لہجے میں کہا:

’’گھوگا جائے جہنم میں۔ اور تم بھی اس کے ساتھ۔ ‘‘

عذرا مسکرائی۔

’’میں تو اس کے ساتھ جہنم کی آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

نعیمہ نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

عذرا نے جواب دیا۔

’’وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ ‘‘

نعیمہ نے عذرا کے چٹکی لی، اور بڑے زور سے کہا:

’’وہ تو مجھ سے محبت کرتا ہے۔ چلو آؤ۔ ابھی فیصلہ کرلیں۔ گھوگا سے پوچھ لو، ابھی کل ہی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ اپنے دو مکان میرے نام لکھ دے گا۔ ‘‘

عذرا نے مکھی مار چھڑی نعیمہ کے سر پر ماری۔

’’وہ دو مکان کیا، دو اینٹیں بھی تمہارے نام نہیں لکھے گا۔ وہ گھوگا ہے۔ بہت بڑا گھوگا۔ تم اس کو ابھی تک نہیں پہچانی ہو۔ ‘‘

اس کے بعد مجھے چند روز میں اس موٹے مریض کے متعلق عجیب و غریب باتیں معلوم ہوئیں۔ جس کو نعیمہ اور عذرا نے گھوگے کا نام دے رکھا تھا۔ اس کا نام غلام محمد تھا۔ ماسٹر غلام محمد۔ بی اے، بی ٹی۔ کسی مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر، اس کو دمے کا مرض تھا، بڑی شدید قسم کا دمہ تھا۔ جب اسے دورہ پڑتا تو سارا وارڈ اس کے دھونکنی ایسے چلتے ہوئے سانسوں کے زیرو بم سے گھنٹوں گونجتا رہتا۔ لیکن اس حا لت میں بھی وہ نظر بازی سے نہ ٹلتا۔ اس کی عمر چالیس سے کچھ اوپر ہو گئی، مگر کنوارا تھا۔ میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ اس نے شادی اس لیے نہیں کی کہ وہ دمے کا مریض ہے۔ کسی لڑکی کی زندگی کیوں خراب کرئے۔ اس کی دو بہنیں تھیں جو عمر میں اس سے کچھ چھوٹی تھیں۔ یہ بھی کنواری تھیں۔ ان کے متعلق مجھے صرف اتناہی معلوم ہوا کہ بڑی ہیلتھ وزیٹر ہے اور چھوٹی استانی۔ یہ دونوں بلاناغہ آتیں اور گھوگے کے پاس اپنے برقعوں سمیت ایک آدھ گھنٹہ بیٹھ کر چلی جاتیں۔ وہ اس کے ناشتے اور دو وقت کے کھانے کے لیے پراٹھے اور سالن وغیرہ لایا کرتی تھیں۔ اس کو ایسے ٹیکے لگ رہے تھے جن سے اشتہا بڑھ جاتی ہے۔ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ مریض زیادہ نہ کھائے تاکہ اس کا وزن نہ بڑھے مگر گھوگا بلاخور تھا۔ گھر سے جو آتا چٹ کر جاتا۔ پھر اس کے ساتھ والے بیڈ پر ایک بنگالی نوجوان تھا جو عرصے سے ٹائی فائیڈ میں گرفتار تھا۔ اُس کو بھوک نہیں لگتی تھی۔ گھوگا اس کا کھانا بھی اپنے پیٹ میں ڈال لیتا۔ مگر نعیمہ نے مجھے بتایا کہ ہسپتال سے جو اُسے مفت کھانا ملتا ہے، اس کے علاوہ وہ اِدھر اُدھر سے اور اکٹھا کرتا ہے اور اپنی بہنوں کے حوالے کردیتا ہے۔ ایک رات جبکہ مجھے نیند آنے ہی والی تھی، میں نے دیکھا کہ گھوگا دبے پاؤں چلا آرہا ہے۔ رات کی نرس کسی دوسرے وارڈ کی نرس سے باتیں کرنے میں مشغول تھی۔ گھوگے نے الماری کھولی اور اس میں کئی چیزیں نکال کر اپنی جیب میں ڈال لیں۔ مجھے اس کی یہ حرکت بہت بُری معلوم ہوئی۔ لیکن میں اس سے کچھ نہ کہہ سکا اس لیے کہ مجھے کوئی فیصلہ کرنے میں دیر ہو گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہر روز الماری میں سے چیزیں چُراتا اور میں اسے ٹوک نہ سکتا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جب اسے دوائیں برابر ملتی ہیں تو وہ اور دوائیاں جو اس کے مرض دمے کا علاج نہیں تھیں، کیوں اس طریقے سے حاصل کرتا ہے؟ نعیمہ حق سے میں نے پوچھا تو اس نے مخصوص انداز میں گردن کو ایک خفیف سی جنبش دے کر اور اپنے سانولے ہونٹوں پر ان سے زیادہ گہرے رنگ کی مسکراہٹ پیدا کرکے کہا:

’’جناب اتنے بڑے رائٹر بنے پھرتے ہیں، آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ جتنی دوائیاں اور انجکشن چُراتا ہے، اپنی بہن کو جو کہ ہیلتھ وزیٹر ہے، دے دیتا ہے۔ اس کو روزانہ بیڈ کے لیے ایک روپیہ دینا پڑتا ہے۔ بہت بڑا گھوگا ہے، اس لیے وہ اس خرچ کی کسر یوں پوری کرلیتا ہے۔ بلکہ اس کو کچھ پروفٹ ہی ہوتا ہے۔ ‘‘

نعیمہ کا یہ کہنا درست تھا۔ اس لیے کہ میری بیوی کے بیان سے اس کی تصدیق ہو گئی۔ اس کو گھوگے سے سخت نفرت تھی۔ ہسپتال سے جو کچھ ملتا تو وہ اپنی بہن کے سپرد کردیتا، کھانا بھی۔ ایک اور نرس رفیقہ تھی۔ وہ اس مریض کا نام بھی نہیں لینا چاہتی تھی۔ شکل صورت کی معمولی مگر جوان تھی۔ ہر وقت اپنے سفید فراک کو پیٹی کے نیچے کھینچتی اور پھر اپنے سینے کے اُبھاروں کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتی مگر کردار کے لحاظ سے وہ دوسری نرسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط تھی، اس کو گھوگے سے اس لیے نفرت تھی کہ وہ اس سے بے معنی باتیں کرتا تھا۔ دراصل وہ ہر نرس سے بے معنی یا با معنی باتیں کرنے کا عادی تھا۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ پہلے اس نے کسی نرس سے رسمی بات چیت کی۔ اس کے بعد بستر پر سے اٹھ کر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کچھ اس بھونڈے طور پر کہ وہ غریب اکتا گئی، اور اس نے جو دوا مانگی، الماری میں سے نکال کر اس کو دے دی کہ چھٹکارا ملے۔ قریب قریب ہر نرس اس سے متنفّر تھی۔ مجھے خود وہ بہت ناپسند تھا، میرے بستر کی طرف رخ کرتا تو میں چادر اوڑھ لیتا کہ اس کو یہ معلوم ہو کہ میں سو رہا ہوں۔ اس کا بات چیت کا انداز مجھے کَھلتا تھا، یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے کبھی برداشت نہ کیا۔ مجھ سے دو تین مرتبہ اس نے چند روپے بطور قرض لیے اور واپس نہ دیے۔ مجھے اس کا کوئی خیال نہ تھا۔ لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ یہ پندرہ روپے اس نے مجھ سے اس لیے حاصل کیے تھے کہ اس کو دس ایک خاص دوا کے لیے خرچ کرنا پڑے تھے جو ہسپتال میں نہیں تو میری طبیعت بہت مکدّر ہوئی اور میں نے دل ہی دل میں اس کو سینکڑوں گالیاں دیں۔ پھر تمام ڈ اکٹروں پر اس کے ذلیل کردار کی وضاحت کردی۔ وہ پہلے میری بتائی ہوئی باتیں نہ مانے۔ انہوں نے کبھی ایسا مریض دیکھا تھا نہ سنا۔ مگر نرسوں سے پوچھ گچھ کے بعد ان کو حقیقت معلوم ہو گئی اور انہوں نے گھوگے کورخصت کردینے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھے اس کا علم تھا۔ چنانچہ میں نے محض اپنا دل ٹھنڈا کرنے کی خاطر اس کو اپنے پاس بُلایا اور کہا:

’’سنا ہے آپ کل پرسوں جانے والے ہیں۔ ‘‘

گھوگے نے اپنے نیم گنجے سر پر ہاتھ پھیرا اور تعجب کا اظہار کیا

’’بڑے ڈاکٹر صاحب نے تو مجھ سے کہا تھا کہ چُھٹی لے لو۔ اور میں ایک مہینے کی لے چکا ہوں۔ ‘‘

میرا دل ڈوبنے سا لگا۔ ایک مہینہ اور۔ تیس دن مزید۔ چوریوں کے۔ نرسوں کے پیچھے چلنے اور ہاتھ مَل مَل کے دوائیں مانگنے کے۔ بڑے ڈاکٹر صاحب بہت نرم دل تھے۔ میں نے سوچا یقیناً گھوگے نے اپنے مخصوص، لسوڑے کی لیس ایسے انداز میں ان کی منت خوشامد کی ہو گی اور انہوں نے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے اس کو ایک ماہ اور ہسپتال میں رہنے کی اجازت دے دی ہو گی۔ مگر اُسی دن گھوگا انتہائی افسردگی کے عالم میں میرے پاس آیا اور کہنے لگا

’’میں کل جارہا ہوں‘‘

مجھے بڑی خوشی ہوئی:

’’مگر ماسٹر صاحب آپ نے تو ایک مہینے کی چھٹی لی ہے، ابھی ابھی۔ ‘‘

اُس نے آہ بھر کر جواب دیا :

’’ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ تمہارا کافی علاج ہو چکا ہے۔ اب تم گھرمیں آرام کرو۔ ‘‘

میں نے کہا :

’’یہ بہتر ہے‘‘

لیکن گھوگے کا چہرہ بتا رہا تھا کہ گھرمیں اسے چرانے کے لیے دوائیں نہیں ملیں گی۔ نرسیں بھی نہ ہوں گی، جھک مارے گا وہاں۔ میں صبح چار ساڑھے چار بجے کے قریب سویا۔ دس بجے آنکھ کُھلی۔ نعیمہ حق میرے پاس کھڑی تھی، دراصل اسی نے مجھے جگایا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے کوئی خبر سنانا چاہتی ہے۔ مجھے زیادہ دیر تک انتظار نہ کرنا پڑا۔ مکھی مار چھڑی سے میرے بستر پر چند غیر مری مکھیاں مارنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا:

’’گھوگا گیا‘‘

میں نے کہا۔

’’ہاں سنا تھا کہ وہ جارہا ہے۔ ‘‘

نعیمہ کے سانولے ہونٹوں پر سکڑتی ہوئی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’اور وہ بھی گئی۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کون‘‘

نعیمہ نے جواب دیا۔

’’وہ۔ مس جیکب۔ جس کے متعلق آپ کہا کرتے تھے کہ اتنی مختصر ہے کہ بٹوے میں سما سکتی ہے۔ لیکن گھوگے کے پاس تو کوئی بٹوہ نہیں تھا۔ ‘‘

مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ مس جیکب کو گھوگے میں کیا نظر آیا یا گھوگے کومس جیکب میں کیا خوبی دکھائی دی۔ لیکن تیسرے روز جیکب نائٹ ڈیوٹی پر تھی۔ جب وہ صبح میرے بستر کے قریب آئی تومیں نے زور سے اسلام علیکم کہا۔ اس نے چونک کر دھیمی آواز میں اس سلام کا جواب دیا اور میرا ٹمپریچر لیے بغیر چلی گئی۔ سات بجے جب دوسری نرسیں آئیں تو نعیمہ نے میرا بدن پونچھنے کے لیے گرم پانی تیار کرتے ہوئے اپنے سانولے ہونٹوں پر کنکنی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے کہا۔

’’گھوگے کے پاس بٹوہ نہیں تھا، اس لیے آپ کی مس جیکب واپس تشریف لے آئی ہیں۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

نعیمہ نے گرم گرم پانی میں تر کیا ہوا تولیہ میرے بازو پر رکھ دیا،

’’کچھ خاص تو نہیں ہوا۔ صرف مِس جیکب کے کانوں کی دو سونے کی بالیاں گم ہو گئی ہیں۔ شاید گھوگے کی بہن کے کان بُچے ہوں گے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

گولی

شفقت دوپہرکو دفتر سے آیا تو گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ عورتیں تھیں جو بڑے کمرے میں بیٹھی تھیں۔ شفقت کی بیوی عائشہ ان کی مہمان نوازی میں مصروف تھی۔ جب شفقت صحن میں داخل ہوا تو اس کی بیوی باہر نکلی اور کہنے لگی۔

’’عزیز صاحب کی بیوی اور ان کی لڑکیاں آئی ہیں۔ ‘‘

شفقت نے ہیٹ اتار کر ماتھے کا پسینہ پونچھا۔

’’کون عزیز صاحب۔ ‘‘

عائشہ نے آواز دبا کر جواب دیا۔

’’ہائے، آپ کے ابا جی کے دوست۔ ‘‘

’’اوہ۔ عزیز چچا۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں وہی۔ ‘‘

شفقت نے ذرا حیرت سے کہا۔

’’مگر وہ تو افریقہ میں تھے۔ ‘‘

عائشہ نے منہ پر انگلی رکھی۔ ذرا آہستہ بات کیجیے۔ آپ تو چلانا شروع کردیتے ہیں۔ وہ افریقہ ہی میں تھے، لیکن جو افریقہ میں ہو کیا واپس نہیں آسکتا۔ ‘‘

لو، اب تم لگیں مین میخ کرنے۔

’’آپ تو لڑنے لگے، عائشہ نے ایک نظر اندر کمرے میں ڈالی۔ ‘‘

عزیز صاحب افریقہ میں ہیں، لیکن ان کی بیوی اپنی لڑکی کی شادی کرنے آئی ہیں۔ کوئی اچھابر ڈھونڈ رہی ہیں۔ ‘‘

اندر سے عزیز کی بیوی کی آواز آئی۔

’’عائشہ تم نے روک کیوں لیا شفقت کو۔ آنے دو۔ آؤ شفقت بیٹا، آؤ۔ تمہیں دیکھے اتنی مدت ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’آیا چچی جان‘‘

شفقت نے ہیٹ اسٹینڈ کی کھونٹی پر رکھا اور اندرکمرے میں داخل ہوا۔

’’آداب عرض چچی جان۔ ‘‘

عزیز کی بیوی نے اٹھ کر اس کو دعائیں دیں، سر پر ہاتھ پھیرا اور بیٹھ گئی۔ شفقت بیٹھنے لگا تو اس نے دیکھا کہ سامنے صوفے پر دو گوری گوری لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ ایک چھوٹی تھی، دوسری بڑی۔ دونوں کی شکل آپس میں ملتی تھی۔ عزیز صاحب بڑے وجیہہ آدمی تھے۔ ان کی یہ وجاہت ان لڑکیوں میں بڑے دلکش طور پر تقسیم ہوئی تھی۔ آنکھیں ماں کی تھیں۔ نیلی۔ بال بھورے اور کافی لمبے۔ دونوں کی دو چوٹیاں تھیں۔ چھوٹی کا چہرہ بڑی کے مقابلے میں زیادہ نکھرا ہوا تھا۔ بڑی کا چہرہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ ان کی ماں ان سے مخاطب ہوئی۔

’’بیٹا سلام کرو بھائی کو۔ ‘‘

چھوٹی نے اٹھ کر شفقت کو آداب عرض کیا۔ بڑی نے بیٹھے بیٹھے ذرا جھک کر کہا۔

’’تسلیمات۔ ‘‘

شفقت نے مناسب و موزوں جواب دیا۔ اس کے بعد عزیز صاحب اور افریقہ کے متعلق باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیروبی، ٹانگانیکا، د ارالسلام، کراتینا، یوگنڈا، ان سب کی باتیں ہوئیں۔ کہاں کا موسم اچھا ہے، کہاں کا خراب ہے، پھل کہاں اچھے ہوتے ہیں۔ پھلوں کا ذکر چھیڑا تو چھوٹی نے کہا۔

’’یہاں ہندوستان میں تو نہایت ہی ذلیل پھل ملتے ہیں۔ ‘‘

’’جی نہیں، بڑے اچھے پھل ملتے ہیں، بشرطیکہ موسم ہو۔ ‘‘

شفقت نے اپنے ہندوستان کی آبرو بچانا چاہی۔

’’غلط ہے۔ ‘‘

چھوٹی نے ناک چڑھائی۔

’’امی جان، یہ جو کل آپ نے مارکٹ سے مالٹے لیے تھے، کیا وہاں کے مچنگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ‘‘

لڑکیوں کی ماں بولی۔

’’شفقت بیٹا یہ صحیح کہتی ہے۔ یہاں کے مالٹے وہاں کے مچنگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ‘‘

عائشہ نے چھوٹی سے پوچھا۔

’’طلعت، یہ مچنگا کیا ہوتا ہے۔ نام تو بڑا عجیب و غریب ہے۔ ‘‘

طلعت مسکرائی۔

’’آپ ایک پھل ہے۔ مالٹے اور میٹھے کی طرح۔ اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتی۔ اور رس۔ ایک نچوڑیئے۔ یہ گلاس جو تپائی پر پڑا ہے، لبالب بھر جائے۔ ‘‘

شفقت نے گلاس کی طرف دیکھا اوراندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ پھل کتنا بڑا ہو گا۔

’’ایک مچنگے سے اتنا بڑا گلاس بھر جاتا ہے؟‘‘

طلعت نے بڑے فخریہ انداز میں جواب دیا۔

’’جی ہاں!‘‘

شفقت نے یہ سن کر کہا۔

’’تو پھل یقیناً بہت بڑا ہو گیا۔ ‘‘

طلعت نے سر ہلایا۔

’’جی نہیں۔ بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا۔ بس آپ کے یہاں کے بڑے مالٹے کے برابر ہوتا ہے۔ یہی تو اس کی خوبی ہے کہ رس ہی رس ہوتا ہے اس میں۔ اور امی جان وہاں کا انناس۔ بڑی روٹی کے برابر اس کی ایک قاش ہوتی ہے۔ ‘‘

دیر تک انناس کی باتیں ہوتی رہیں۔ طلعت بہت باتونی تھی۔ افریقہ سے اس کو عشق تھا۔ وہاں کی ہر چیز اس کو پسند تھی۔ بڑی جس کا نام نگہت تھا بالکل خاموش بیٹھی تھی۔ اس نے گفتگو میں حصہ نہ لیا۔ شفقت کو جب محسوس ہوا کہ وہ خاموش بیٹھی رہی ہے تو وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ کو غالباً ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘

نگہت نے اپنے ہونٹ کھولے۔

’’جی نہیں۔ سنتی رہی ہوں بڑی دلچسپی سے۔ ‘‘

شفقت نے کہا۔

’’لیکن آپ بولیں نہیں۔ ‘‘

عزیز کی بیوی نے جواب دیا۔

’’شفقت بیٹا اس کی طبیعت ہی ایسی ہے۔ ‘‘

شفقت نے ذرا بے تکلفی سے کہا۔

’’چچی جان۔ اس عمر میں لڑکیوں کو خاموشی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہو۔

’’پھر وہ نگہت سے مخاطب ہوا۔ جناب آپ کو بولنا پڑے گا۔ ‘‘

نگہت کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’بول تو رہی ہوں بھائی جان۔ ‘‘

شفقت مسکرایا۔

’’تصویروں سے دلچسپی ہے آپ کو۔ ‘‘

نگہت نے نگاہیں نیچی کرکے جواب دیا۔

’’جی ہے۔ ‘‘

’’تو اُٹھیے میں آپ کو اپنا البم دکھاؤں۔ دوسرے کمرے میں ہے۔

’’یہ کہہ کر شفقت اٹھا۔

’’چلیے۔ ‘‘

عائشہ نے شفقت کا ہاتھ دبایا۔ پلٹ کر اس نے اپنی بیوی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا جسے شفقت نہ سمجھ سکا۔ وہ متحیر تھا کہ خدا معلوم کیا بات تھی کہ اس کی بیوی نے اس کا ہاتھ دبایا اور اشارہ بھی کیا۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ طلعت کھٹ سے اٹھی۔

’’چلیے بھائی جان۔ مجھے دوسروں کے البم دیکھنے کا شوق ہے۔ میرے پاس بھی ایک کولکشن ہے۔ ‘‘

شفقت، طلعت کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ نگہت، خاموش بیٹھی رہی۔ شفقت، طلعت کو تصویریں دکھاتا رہا، حسب عادت طلعت بولتی رہی۔ شفقت کا دماغ کسی اور طرف تھا۔ وہ نگہت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہ اس قدر خاموش کیوں ہے۔ تصویریں دیکھنے اس کے ساتھ کیوں نہ آئی۔ جب اس نے اس کو چلنے کے لیے کہا تو عائشہ نے اس کا ہاتھ کیوں دبایا۔ اس اشارے کا کیا مطلب تھا جو اس نے آنکھوں کے ذریعے کیا تھا۔ تصویریں ختم ہو گئیں۔ طلعت نے البم اٹھایا اور شفقت سے کہا۔

’’باجی کو دکھاتی ہوں۔ ان کو بہت شوق ہے تصویریں جمع کرنے کا۔ ‘‘

شفقت پوچھنے ہی والا تھا کہ اگر ان کو شوق ہے تو وہ اس کے ساتھ کیوں نہ آئیں مگر طلعت البم اٹھا کر کر کمرے سے نکل گئی۔ شفقت بڑے کمرے میں داخل ہوا تو نگہت بڑی دلچسپی سے البم کی تصویریں دیکھ رہی تھی۔ ہر تصویر اس کو مسرت پہنچاتی تھی۔ عائشہ لڑکیوں کی ماں سے باتیں کرنے میں مشغول دیکھ رہی تھی۔ شفقت کنکھیوں سے دیکھتا رہا۔ اس کا چہرہ جو پہلے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی کی دھند میں لیٹا تھا۔ اب بشاش تھا۔ ایسا لگاتا تھا کہ تصویریں جو آرٹ کا بہترین نمونہ تھیں اس کو راحت بخش رہی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں اب چمک تھی۔ لیکن جب ایک گھوڑے اور صحت مند عورت کی تصویر آئی تو یہ چمک ماند پڑ گئی۔ ایک ہلکی سی آہ اس کے سینے میں لرزی اور وہیں دب گئی۔ تصویریں ختم ہوئیں تو نگہت نے شفقت کی طرف دیکھا اور بڑے پیارے انداز میں کہا۔

’’بھائی جان شکریہ!‘‘

شفقت نے البم نگہت کے ہاتھ سے لیا اور مینٹل پیس پر رکھ دیا۔ اس کے دماغ میں کُھد بُد ہورہی تھی۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ کوئی بہت بڑا اسرار اس لڑکی کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس نے سوچا، شاید کوئی نامکمل رومان ہو، یا کوئی نفسیاتی حادثہ۔ چائے آئی تو شفقت، نگہت سے مخاطب ہوا۔

’’اٹھیے، چائے بنائیے۔ یہ پرولج لیڈیز کا ہے۔ ‘‘

نگہت خاموش رہی لیکن طلعت پھدک کر اٹھی۔

’’بھائی جان میں بناتی ہوں۔ ‘‘

نگہت کا چہرہ پھر دھند میں ملفوف ہو گیا۔ شفقت کا تجسس بڑھتا گیا۔ ایک بار جب اس نے غیر ارادی طور پر نگہت کو گھور کے دیکھا تو وہ سٹ پٹا سی گئی۔ شفقت کو دل ہی دل میں اس بات کا افسوس ہوا کہ اس نے کیوں ایسی نازیبا حرکت کی۔ چائے پر ادھر ادھر کی بے شمار باتیں ہوئیں۔ طلعت نے ان میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ ٹینس کا ذکر آیا تو اس نے شفقت کوبڑے فخریہ انداز میں جو شیخی کی حد تک جا پہنچا تھا، بتایا کہ وہ نیروبی میں نمبرون ٹینس پلیئر تھی اور پندرہ بیس کپ جیت چکی تھی۔ نگہت بالکل خاموش رہی اس کی خاموشی بڑی اداس تھی۔ صاف عیاں تھا کہ اس کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ خاموش ہے۔ ایک بات جو شفقت نے خاص طور پر نوٹ کی یہ تھی کہ عزیز کی بیوی کی ممتا کا رخ زیادہ ترنگہت کی طرف تھا۔ اس نے خود اٹھ کر بڑے پیار محبت سے اس کو کریم رول دیے۔ منہ پونچھنے کے لیے اپنا رومال دیا۔ اس سے کوئی بات کرتی تھی تو تو اس میں پیار بھی ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھاکہ وہ باتوں کے ذریعے سے بھی اس کے سر پر محبت بھر ہاتھ پھیر رہی ہے یا اس کو چمکا رہی ہے۔ رخصت کا وقت آیا تو عزیز کی بیوی اٹھی، برقع اٹھایا، عائشہ سے گلے ملی۔ شفقت کو دعائیں دیں اور نگہت کے پاس جا کر آنکھوں میں آنسو لا دینے والے پیار سے کہا۔

’’چلو بیٹا چلیں۔ ‘‘

طلعت پھدک کر اٹھی۔ عزیز کی بیوی نے نگہت کا ایک بازو تھاما، دوسرا بازو طلعت نے پکڑا۔ اس کو اٹھایا گیا۔ شفقت نے دیکھا کہ اس کا نچلا دھڑ بالکل بے جان ہے۔ ایک لحظے کے لیے شفقت کا دل و دماغ ساکت ہو گیا جب وہ سنبھلا تو اسے اپنے اندر ایک ٹیس سی اٹھتی محسوس ہوئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں پرماں اور بہن کا سہارا لیے نگہت غیر یقینی قدم اٹھا رہی تھی۔ اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لے جا کر شفقت اور عائشہ کو آداب عرض کیا۔ کتنا پیارا انداز تھا۔ مگر اس کے ہاتھ نے شفقت کے دل پر جیسے گھونسہ مارا۔ سارا اسرار اس پر واضح ہو گیا تھا۔ سب سے پہلا خیال اس کے دماغ میں یہ آیا۔

’’قدرت کیوں اتنی بے رحم ہے۔ ایسی پیاری لڑکی اور اسکے ساتھ اس قدر ظالمانہ بہیمانہ سلوک۔ اس معصوم کا آخر گناہ کیا تھا۔ جس کی سزا اتنی کڑی دی گئی؟‘‘

سب چلے گئے۔ عائشہ ان کو باہر تک چھوڑنے گئی۔ شفقت ایک فلسفی بن کر سوچتا رہ گیا، اتنے میں شفقت کے دوست آگئے اور وہ بھی اپنی بیوی سے نگہت کے بارے میں کوئی بات نہ کرسکا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ تاش کھیلنے میں ایسا مشغول ہوا کہ نگہت اور اس کے روگ کو بھول گیا۔ جب رات ہو گئی اور عائشہ نے اسے نوکر کے ذریعے سے کھانے پر بلوایا تو اسے افسوس ہوا کہ اس نے محض ایک کھیل کی خاطر نگہت کوفراموش کردیا، چنانچہ اس کا ذکر اس نے عائشہ سے بھی کیا، لیکن اس نے کہا۔

’’آپ کھانا کھائیے، مفصل باتیں پھر ہو جائیں گی۔ ‘‘

میاں بیوی دونوں اکٹھے سوتے تھے۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی وہ کبھی رات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے تھے، اور ان کی شادی کو قریب قریب چھ برس ہو گئے تھے، مگر اس دوران میں کوئی بچہ نہ ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھاکہ عائشہ میں کچھ قصور ہے جو صرف آپریشن سے دور ہوسکتا ہے، مگر وہ اس سے بہت خائف تھی۔ میاں بیوی بہت پیار محبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے درمیان کوئی رنجش نہیں تھی۔ رات کو وہ اکٹھے لیٹتے۔ حسب معمول جب ایک دوسرے کے ساتھ لیٹے تو شفقت کو نگہت یاد آئی۔ اس نے ایک آہ بھر کر اپنی بیوی سے پوچھا۔

’’عائشہ، نگہت بے چاری کو کیا روگ ہے؟‘‘

عائشہ نے بھی آہ بھری اور بڑے افسوسناک لہجے میں کہا۔

’’تین برس کی ننھی منی بچی تھی کہ تپِ محرقہ ہوا۔ نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔ ‘‘

شفقت کے دل میں نگہت کے لیے ہمدردی کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوا۔ اس نے اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا اور کہا۔

’’عائشہ، خدا کیوں اتنا ظلم ہے؟‘‘

عائشہ نے کوئی جواب دنہ دیا۔ شفقت کو دن کے واقعات یاد آنے لگے۔ جب میں نے اس سے کہا تھا کہ چلو، میں تمہیں البم دکھاتا ہوں تو تم نے میرا ہاتھ اسی لیے دبایا تھا کہ۔ ‘‘

’’ہاں ہاں، اور کیا؟۔ آپ تو بار بار۔ ‘‘

’’خدا کی قسم مجھے معلوم نہ تھا۔ ‘‘

’’اس کو اس کا بہت احساس ہے کہ وہ اپاہج ہے۔ ‘‘

’’تم نے یہ کہا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوا ہے کہ میرے سینے میں کسی نے تیر مارا ہے‘‘

’’جب وہ آئی، تو خدا کی قسم مجھے بہت دکھ ہوا۔ بے چاری کو پیشاب کرنا تھا۔ ماں اور چھوٹی بہن ساتھ گئیں۔ ازار بند کھولا۔ پھر بند کیا۔ کتنی خوب صورت ہے۔ بیٹھی ہو۔ ‘‘

’’تو خدا کی قسم بالکل پتا نہیں چلتا کہ فالج زدہ ہے۔ ‘‘

’’بڑی ذہین لڑکی ہے۔ ‘‘

’’اچھا؟‘‘

’’ماں کہتی تھی کہ اس نے کہا تھا کہ امی جان میں شادی نہیں کروں گی، کنواری رہوں گی!‘‘

شفقت تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے انتہائی دکھ محسوس کرتے ہوئے کہا۔

’’تو اُس کو اس بات کا احساس ہے کہ اس سے شادی کرنے کے لیے کوئی رضا مند نہیں ہو گا۔ ‘‘

عائشہ نے شفقت کی چھاتی کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہا۔

’’شفقت صاحب کون شادی کرے گا ایک اپاہج سے؟‘‘

’’نہیں نہیں ایسا نہ کہو عائشہ!‘‘

’’اتنی بڑی قربانی کون کرسکتا ہے شفقت صاحب؟‘‘

’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ ‘‘

’’خوبصورت ہے، اچھے کھاتے پیتے ماں باپ کی لڑکی ہے۔ سب ٹھیک ہے، مگر۔ ‘‘

’’میں سمجھتا ہوں۔ لیکن۔ ‘‘

’’مردوں کے دل میں رحم کہاں؟‘‘

شفقت نے کروٹ بدلی۔

’’ایسا نہ کہو، عائشہ‘‘

عائشہ نے بھی کروٹ بدلی۔ دونوں روبرو ہو گئے۔

’’میں سب جانتی ہوں کوئی ایسا مرد ڈھونڈیئے جو اس بیچاری سے شادی کرنے پر آمادہ ہو۔ ‘‘

’’مجھے معلوم نہیں، لیکن۔ ‘‘

’’بڑی بہن ہے، غریب کوکتنا بڑا دکھ ہے کہ اس کی چھوٹی بہن کی شادی کی بات چیت ہورہی ہے۔ ‘‘

’’صحیح کہتی ہو تم!‘‘

عائشہ نے ایک لمبی آہ بھری۔

’’کیا بے چاری اسی طرح ساری عمر کڑھتی رہے گی۔ ‘‘

’’نہیں!‘‘

یہ کہہ کر شفقت اٹھ کر بیٹھ گیا۔ عائشہ نے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

’’تمہیں اس سے ہمدردی ہے؟‘‘

’’کیوں نہیں؟‘‘

’’خدا کی قسم کھا کرکہو۔ ‘‘

’’ہائے، یہ بھی کوئی قسم کھلوانے کی بات ہے، ہر انسان کو اس سے ہمدردی ہونی چاہیے۔ ‘‘

شفقت نے چند لمحات خاموش رہنے کے بعد کہا۔

’’تو میں نے ایک بات سوچی ہے؟‘‘

عائشہ نے خوش ہو کرکہا۔

’’کیا؟‘‘

’’مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ہے تم بہت بلند خیال عورت ہو۔ آج تم نے میرے اس خیال کو ثابت کردیا ہے۔ میں نے۔ خدا میرے اس ارادے کو استقامت بخشے۔ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں نگہت سے شادی کروں گا۔

سعادت حسن منٹو

گورمکھ سنگھ کی وصیت

پہلے چھرا بھونکنے کی اِکا دُکا واردات ہوتی تھیں، اب دونوں فریقوں میں باقاعدہ لڑائی کی خبریں آنے لگی جن میں چاقو چھریوں کے علاوہ کرپانیں، تلواریں اور بندوقیں عام استعمال کی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی دیسی ساخت کے بم پھٹنے کی اطلاع بھی ملتی تھی۔ امرتسر میں قریب قریب ہر ایک کا یہی خیال تھا کہ یہ فرقہ واردانہ فسادات دیر تک جاری نہیں رہیں گے۔ جوش ہے، جونہی ٹھنڈا ہوا، فضا پھر اپنی اصلی حالت پر آجائے گی۔ اس سے پہلے ایسے کئی فساد امرتسر میں ہو چکے تھے جو دیر پا نہیں تھے۔ دس سے پندرہ روز تک مار کٹائی کا ہنگامہ رہتا تھا، پھر خود بخود فرو ہو جاتا تھا۔ چنانچہ پرانے تجربے کی بنا پر لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ آگ تھوڑی دیر کے بعد اپنا زور ختم کرکے ٹھنڈی ہو جائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ بلووں کا زور دن بدن بڑھتا ہی گیا۔ ہندوؤں کے محلے میں جو مسلمان رہتے تھے بھاگنے لگے۔ اسی طرح وہ ہندو جو مسلمانوں کے محلے میں تھے اپنا گھر بار چھوڑ کے محفوظ مقاموں کا رخ کرنے لگے۔ مگر یہ انتظام سب کے نزدیک عارضی تھا، اس وقت تک کے لیے جب فضا فسادات کے تکدر سے پاک ہو جانے والی تھی۔ میاں عبدالحیی ریٹائرڈ سب جج کو تو سو فی صدی یقین تھا کہ صورتحال بہت جلد درست ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ پریشان نہیں تھے ان کا ایک لڑکا تھا گیارہ برس کا۔ ایک لڑکی تھی سترہ برس کی۔ ایک پرانا ملازم تھا جس کی عمر ستر کے لگ بھگ تھی۔ مختصر سا خاندان تھا۔ جب فسادات شروع ہوئے تو میاں صاحب نے بطور حفظِ ماتقدم کافی راشن گھر میں جمع کرلیا تھا۔ اس طرح سے وہ بالکل مطمئن تھے کہ اگر خدانخواستہ حالات کچھ زیادہ بگڑ گئے اور دکانیں وغیرہ بند ہو گئیں تو انھیں کھانے پینے کے معاملے میں تردو نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن ان کی جوان لڑکی صغریٰ بہت متردد تھی۔ ان کا گھر تین منزلہ تھا۔ دوسری عمارتوں کے مقابلے میں کافی اونچا۔ اس کی ممٹی سے شہر کا تین چوتھائی حصہ بخوبی نظر آتا تھا۔ صغریٰ اب کئی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ نزدیک دور کہیں نہ کہیں آگ لگی ہوتی ہے۔ شروع شروع میں تو فائر بریگیڈ کی ٹن ٹن سنائی دیتی تھی پر اب وہ بھی بند ہو گئی تھی، اس لیے کہ جگہ جگہ آگ بھڑکنے لگی تھی۔ رات کو اب کچھ اور ہی سماں ہوتا۔ گھپ اندھیرے میں آگ کے بڑے بڑے شعلے اٹھتے جیسے دیو ہیں جو اپنے منہ سے آگ کے فوارے سے چھوڑ رہے ہیں۔ پھر عجیب عجیب سی آوازیں آتیں جو ہر ہر مہادیو اور اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ مل کر بہت ہی وحشت ناک بن جاتیں۔ صغریٰ باپ سے اپنے خوف و ہراس کا ذکر نہیں کرتی تھی۔ اس لیے کہ وہ ایک بار گھر میں کہہ چکے تھے کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ میاں صاحب کی باتیں اکثر درست ہوا کرتی تھیں۔ صغریٰ کو اس سے ایک گونہ اطمینان تھا۔ مگرجب بجلی کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ساتھ ہی نلوں میں پانی آنا بند ہو گیا تو اس نے میاں صاحب سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ڈرتے ڈرتے رائے دی تھی کہ چند روز کے لیے شریف پورے اٹھ جائیں جہاں اڑوس پڑوس کے سارے مسلمان آہستہ آہستہ جارہے تھے۔ میاں صاحب نے اپنا فیصلہ نہ بدلا اور کہا۔

’’بیکار گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالات بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘

مگر حالات بہت جلدی ٹھیک نہ ہو جائے اور دن بدن بگڑتے گئے۔ وہ محلہ جس میں میاں عبدالحیی کا مکان تھا مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔ اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میاں صاحب پر ایک روز اچانک فالج گرا جس کے باعث وہ صاحبِ فراش ہو گئے۔ ان کا لڑکا بشارت بھی جو پہلے اکیلا گھرمیں اوپر نیچے طرح طرح کے کھیلوں میں مصروف رہتا تھا اب باپ کی چارپائی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور حالات کی نزاکت سمجھنے لگا۔ وہ بازار جو اُن کے مکان کے ساتھ ملحق تھا سنسنان پڑا تھا۔ ڈاکٹر غلام مصطفےٰ کی ڈسپنسری مدت سے بند پڑی تھی۔ اس سے کچھ دور ہٹ کر ڈاکٹر گوراندتامل تھے۔ صغریٰ نے شہ نشین سے دیکھا تھا کہ ان کی دکان میں بھی تالے پڑے ہیں۔ میاں صاحب کی حالت بہت مخدوش تھی۔ صغریٰ اس قدر پریشان تھی کہ اس کے ہوش و حواس بالکل جواب دے گئے تھے۔ بشارت کو الگ لے جا کر اس نے کہا۔

’’خدا کے لیے، تم ہی کچھ کرو۔ میں جانتی ہوں کہ باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں، مگر تم جاؤ۔ کسی کو بھی بلا لاؤ۔ اباجی کی حالت بہت خطرناک ہے۔ ‘‘

بشارت گیا، مگر فوراً ہی واپس آگیا۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ چوک میں نے اس نے ایک لاش دیکھی تھی، خون سے تر بتر۔ اور پاس ہی بہت سے آدمی ٹھاٹے باندھے ایک دکان لوٹ رہے تھے۔ صغریٰ نے اپنے خوفزدہ بھائی کو سینے کے ساتھ لگایا اور صبر شکر کے بیٹھ گئی۔ مگر اُس سے اپنے باپ کی حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ میاں صاحب کے جسم کا داہنا حصہ بالکل سن ہو گیا تھا جیسے اس میں جان ہی نہیں۔ گویائی میں بھی فرق پڑ گیا تھا اور وہ زیادہ تر اشاروں ہی سے باتیں کرتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ صغریٰ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ خدا کے فضل وکرم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ روزے ختم ہونے والے تھے۔ صرف دو رہ گئے تھے۔ میاں صاحب کا خیال تھا کہ عید سے پہلے پہلے فضا بالکل صاف ہو جائیگی مگر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید عید ہی کا روز روزِ قیامت ہو، کیونکہ ممٹی پر سے اب شہر کے قریب قریب ہر حصے سے دھوئیں کے بادل اٹھتے دکھائی دیتے تھے۔ رات کو بم پھٹنے کی ایسی ایسی ہولناک آوازیں آتی تھیں کہ صغریٰ اور بشارت ایک لحظے کے لیے بھی سو نہیں سکتے تھے۔ صغریٰ کو یوں بھی باپ کی تیمارداری کے لیے جاگنا پڑتا تھا، مگر اب یہ دھماکے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے دماغ کے اندر ہورہے ہیں۔ کبھی وہ اپنے مفلوج باپ کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے وحشت زدہ بھائی کی طرف۔ ستر برس کا بڈھا ملازم اکبر تھا جس کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ سارا دن اور ساری رات پر اپنی کوٹھڑی میں کھانستا کھنکارتا اور بلغم نکالتا رہتا تھا۔ ایک روز تنگ آکر صغریٰ اس پر برس پڑی۔

’’تم کس مرض کی دوا ہو۔ دیکھتے نہیں ہو، میاں صاحب کی کیا حالت ہے۔ اصل میں تم پرلے درجے کے نمک حرام ہو۔ اب خدمت کا موقعہ آیا ہے تو دمے کا بہانہ کرکے یہاں پڑے رہتے ہو۔ وہ بھی خادم تھے جو آقا کے لیے اپنی جان تک قربان کردیتے تھے۔ ‘‘

صغریٰ اپنا جی ہلکا کرکے چلی گئی۔ بعد میں اس کو افسوس ہوا کہ ناحق اس غریب کو اتنی لعنت ملامت کی۔ رات کا کھانا تھال میں لگا کر اس کی کوٹھڑی میں گئی تو دیکھا خالی ہے۔ بشارت نے گھر میں اِدھر اُدھر تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ باہر کے دروازے کی کنڈی کھلی تھی جس کا یہ مطلب تھا کہ وہ میاں صاحب کے لیے کچھ کرنے گیا ہے۔ صغریٰ نے بہت دعائیں مانگیں کہ خدا اُسے کامیاب کرے لیکن دو دن گزر گئے اور وہ نہ آیا۔ شام کا وقت تھا۔ ایسی کئی شامیں صغریٰ اور بشارت دیکھ چکے تھے۔ جب عید کی آمد آمد کے ہنگامے برپا ہوتے تھے جب آسمان پر چاند دیکھنے کے لیے ان کی نظریں جمی رہتی تھیں۔ دوسرے روز عید تھی۔ صرف چاند کو اس کا اعلان کرنا تھا۔ دونوں اس اعلان کے لیے کتنے بے تاب ہوا کرتے تھے۔ آسمان پر چاند والی جگہ پر اگر بادل کا کوئی ہٹیلا ٹکڑہ جم جاتا توکتنی کوفت ہوتی تھی انھیں مگر اب چاروں صرف دھوئیں کے بادل تھے۔ صغریٰ اور بشارت دونوں ممٹی پر چڑھے۔ دور کہیں کہیں کوٹھوں لوگوں کے سائے دھبوں کی صورت میں دکھائی دیتے تھے، مگر معلوم نہیں یہ چاند دیکھ رہے تھے یا جگہ جگہ سلگتی اور بھڑکتی ہوئی آگ۔ چاند بھی کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ دھوئیں کی چادر میں سے بھی نظر آگیا۔ صغریٰ نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی کہ خدا اپنا فضل کرے اور اس کے باپ کو تندرستی عطا فرمائے۔ بشارت دل ہی دل میں کوفت محسوس کررہا تھا کہ گڑ بڑ کے باعث ایک اچھی بھلی عید غارت ہو گئی۔ دن ابھی پوری طرح ڈھلا نہیں تھا۔ یعنی شام کی سیاہی ابھی گہری نہیں ہوئی تھی۔ میاں صاحب کی چارپائی چھڑکاؤ کیے ہوئے صحن میں بچھی تھی۔ وہ اس پر بے حس و حرکت لیٹے تھے اور دور آسمان پر نگاہیں جمائے جانے کیا سوچ رہے تھے۔ عید کا چاند دیکھ کر جب صغریٰ نے پاس آکر انھیں سلام کیا تو انھوں نے اشارے سے جواب دیا۔ صغریٰ نے سر جھکایا تو انھوں نے وہ بازو جو ٹھیک تھا اٹھایا اور اس پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ صغریٰ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تو میاں صاحب کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں، مگر انھوں نے تسلی دینے کی خاطر بمشکل اپنی نیم مفلوج زبان سے یہ الفاظ نکالے۔

’’اللہ تبارک و تعالیٰ سب ٹھیک کردے گا۔ ‘‘

عین اسی وقت باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ صغریٰ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس نے بشارت کی طرف دیکھا۔ جس کا چہرہ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میاں صاحب صغریٰ سے مخاطب ہوئے۔

’’دیکھو، کون ہے!‘‘

صغریٰ نے سوچا کہ شاید بڈھا اکبر ہو۔ اس خیال ہی سے اس کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔ بشارت کا بازو پکڑ کر اس نے کہا۔

’’جاؤ دیکھو۔ شاید اکبر آیا ہے۔ ‘‘

یہ سن کر میاں صاحب نے نفی میں یوں سر ہلایا جیسے وہ یہ کہہ رہے ہیں۔

’’نہیں۔ یہ اکبر نہیں ہے۔ ‘‘

صغریٰ نے کہا۔

’’تو اور کون ہو سکتا ہے ابا جی؟‘‘

میاں عبدالحیی نے اپنی قوتِ گویائی پر زور دے کر کچھ کہنے کی کوشش کی کہ بشارت آگیا۔ وہ سخت خوفزدہ تھا۔ ایک سانس اوپر، ایک نیچے، صغریٰ کو میاں صاحب کی چارپائی سے ایک طرف ہٹا کر اس نے ہولے سے کہا۔

’’ایک سکھ ہے!‘‘

صغریٰ کی چیخ نکل گئی۔

’’سکھ؟۔ کیا کہتا ہے؟‘‘

بشارت نے جواب دیا۔

’’کہتا ہے دروازہ کھولو۔ ‘‘

صغریٰ نے کانپتے ہوئے بشارت کو کھینچ کر اپنے ساتھ چمٹا لیا اور باپ کی چارپائی پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی طرف ویران نظروں سے دیکھنے لگی۔ میاں عبدالحیّ کے پتلے پتلے بے جان ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پیدا ہو گئی۔

’’جاؤ۔ گورمکھ سنگھ ہے!‘‘

بشارت نے نفی میں سر ہلایا۔

’’کوئی اور ہے؟‘‘

میاں صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

’’جاؤ صغریٰ وہی ہے!‘‘

صغریٰ اٹھی۔ وہ گورمکھ سنگھ کو جانتی تھی۔ پنشن لینے سے کچھ دیر پہلے اس کے باپ نے اس نام کے ایک سکھ کا کوئی کام کیا تھا۔ صغریٰ کو اچھی طرح یاد نہیں تھا۔ شاید اس کو ایک جھوٹے مقدمے سے نجات دلائی تھی۔ جب سے وہ ہر چھوٹی عید سے ایک دن پہلے رومالی سویوں کا ایک تھیلا لیکر آیا کرتا تھا۔ اس کے باپ نے کئی مرتبہ اس سے کہا تھا۔

’’سردار جی، آپ یہ تکلیف نہ کیا کریں۔ ‘‘

مگر وہ ہاتھ جوڑ کر جواب دیا کرتا تھا۔

’’میاں صاحب واہگورو جی کی کرپا سے آپ کے پاس سب کچھ ہے۔ یہ تو ایک تحفہ یہ جو میں جناب کی خدمت میں ہر سال لے کر آتا ہوں۔ مجھ پر جو آپ نے احسان کیا تھا۔ اس کا بدلہ تو میر ی سو پشت بھی نہیں چکا سکتی۔ خدا آپ خوش رکھے۔ ‘‘

سردار گورمکھ سنگھ کو ہر سال عید سے ایک روز پہلے سویوں کا تھیلا لاتے اتنا عرصہ ہو گیا تھا کہ صغریٰ کو حیرت ہوئی کہ اس نے دستک سن کر یہ کیوں خیال نہ کیا کہ وہی ہو گا، مگر بشارت بھی تو اس کو سینکڑوں مرتبہ دیکھ چکا تھا، پھر اس نے کیوں کہا کوئی اور ہے۔ اور کون ہو سکتا ہے۔ یہ سوچتی صغریٰ ڈیوڑھی تک پہنچی۔ دروازہ کھولے یا اندر ہی سے پوچھے، اس کے متعلق وہ ابھی فیصلہ ہی کررہی تھی کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ صغریٰ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ بمشکل تمام اس نے حلق سے آواز نکالی ہے۔

’’کون ہے؟‘‘

بشارت پاس کھڑا تھا۔ اس نے دروازے کی ایک درز کی طرف اشارہ کیا اور صغریٰ سے کہا۔

’’اس میں سے دیکھو؟‘‘

صغریٰ نے درز میں سے دیکھا۔ گورمکھ سنگھ نہیں تھا۔ وہ تو بہت بوڑھا تھا، لیکن یہ جو باہر تھڑے پر کھڑا تھا جوان تھا۔ صغریٰ ابھی درز پر آنکھ جمائے اس کا جائزہ لے رہی تھی کہ اس نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ صغریٰ نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا تھیلا تھا ویسا ہی جیسا گورمکھ سنگھ لایا کرتا تھا۔ صغریٰ نے درز سے آنکھ ہٹائی اور ذرا بلند آواز میں دستک دینے والا سے پوچھا۔

’’کون ہیں آپ؟‘‘

باہر سے آواز آئی۔

’’جی۔ جی میں۔ میں سردار گورمکھ سنگھ کا بیٹا ہوں۔ سنتو کھ!‘‘

صغریٰ کا خوف بہت حد تک دور ہو گیا۔ بڑی شائستگی سے اس نے پوچھا۔

’’فرمائیے۔ آپ کیسے آئے ہیں؟‘‘

باہرسے آواز آئی۔

’’جی۔ جج صاحب کہاں ہیں۔ ‘‘

صغریٰ نے جواب دیا۔

’’بیمار ہیں۔ ‘‘

سردار سنتوکھ سنگھ نے افسوس آمیز لہجے میں کہا۔

’’اوہ۔ پھر اس نے کاغذ کا تھیلا کھڑکھڑایا۔

’’جی یہ سویاں ہیں۔ سردار جی کا دیہانت ہو گیا ہے۔ وہ مر گئے ہیں!‘‘

صغریٰ نے جلدی سے پوچھا۔

’’مر گئے ہیں؟‘‘

باہر سے آواز آئی۔

’’جی ہاں۔ ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ مرنے سے پہلے انھوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ دیکھو بیٹھا، میں جج صاحب کی خدمت میں پورے دس برسوں سے ہر چھوٹی عید پر سویاں لے جاتا رہا ہوں۔ یہ کام میرے مرنے کے بعد اب تمہیں کرنا ہو گا۔ میں نے انھیں بچن دیا تھا۔ جو میں پورا کررہا ہوں۔ لے لیجئے سویاں۔ ‘‘

صغریٰ اس قدر متاثر ہوئی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ سردار گورمکھ سنگھ کے لڑکے نے سویوں کا تھیلا آگے بڑھادیا جو صغریٰ نے پکڑ لیا اور کہا۔

’’خدا سردار جی کو جنت نصیب کرے۔ ‘‘

گورمکھ سنگھ کا لڑکا کچھ توقف کے بعد بولا۔

’’جج صاحب بیمار ہیں؟‘‘

صغریٰ نے جواب دیا۔

’’جی ہاں!‘‘

’’کیا بیماری ہے؟‘‘

’’فالج‘‘

’’اوہ۔ سردار جی زندہ ہوتے تو یہ انھیں یہ سُن کر بہت دکھ ہوتا۔ مرتے دم تک انھیں جج صاحب کا احسان یاد تھا۔ کہتے تھے کہ وہ انسان نہیں دیوتا ہے۔ اللہ میاں انھیں زندہ رکھے۔ انھیں میرا سلام۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر وہ تھرے سے اتر گیا۔ صغریٰ سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ اسے ٹھہرائے اور کہے کے جج صاحب کے لیے کسی ڈاکٹر کا بندوبست کردے۔ سردار گورمکھ سنگھ کا لڑکا سنتوکھ جج صاحب کے مکان سے تھڑے سے اتر کر چند گز کے آگے بڑھا تو چار ٹھاٹا باندھے ہوئے آدمی اس کے پاس آئے۔ دوکے پاس جلتی مشعلیں تھیں اور دو کے پاس مٹی کے تیل کے کنستر اور کچھ دوسری آتش خیز چیزیں۔ ایک نے سنتوکھ سے پوچھا۔

’’کیوں سردار جی، اپنا کام کر آئے؟‘‘

سنتوکھ نے سر ہلا کر جواب دیا۔

’’ہاں کر آیا۔ ‘‘

اس آدمی نے ٹھاٹے کے اندر ہنس کر پوچھا۔

’’تو کردیں معاملہ ٹھنڈا جج صاحب کا۔ ‘‘

’’ہاں۔ جیسے تمہاری مرضی!‘‘

یہ کہہ کر سردار گورمکھ سنگھ کا لڑکا چل دیا۔ 5اکتوبر1951ء

سعادت حسن منٹو

گلگت خان

شہباز خان نے ایک دن اپنے ملازم جہانگیر کو جو اُس کے ہوٹل میں اندر باہر کا کام کرتا تھا اُس کی سست روی سے تنگ آ کر برطرف کر دیا۔ اصل میں وہ سست رو نہیں تھا۔ اس قدر تیز تھا کہ اُس کی ہر حرکت شہباز خان کو غیر متحرک معلوم ہوتی تھی۔ شہباز خان نے اس کو مہینے کی تنخواہ دی۔ جہانگیر نے اس کو سلام کیا اور ٹکٹ کٹا کر سیدھا بلوچستان چلا گیا جہاں کوئلے کی کانیں نکل رہی تھیں۔ اُس کے اور کئی دوست وہیں چلے گئے تھے۔ لیکن اُس نے گلگت اپنے بھائی حمزہ خان کو خط لکھا کہ وہ شہباز خان کے یہاں ملازمت کر لے کیونکہ اُسے اپنا یہ آقا پسند تھا۔ ایک دن حمزہ خان ٗ شہباز خان کے ہوٹل میں آیا اور ایک کارڈ دکھا کر اس نے کہا

’’خوام ملازمت چاہتا ہے۔ امارے بھائی نے لکھا ہے، تم اچھا اور نیک آدمی ہے۔ خوام بھی اچھا اور نیک ہے۔ تم کتنا پیسا دے گا‘‘

شہباز خان نے حمزہ خان کی طرف دیکھا۔ وہ جہانگیر کا بھائی کسی لحاظ سے بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ناٹا سا قد۔ ناک چوڑی چپٹی۔ نہایت بد شکل۔ شہباز خان نے اسے ایک نظر دیکھ کر اور جہانگیر کا خط پڑھ کر سوچا کہ اس کو نکال باہر کرے۔ مگر آدمی نیک تھا اس نے کسی سائل کو خالی نہیں جانے دیا تھا۔ حمزہ خان کو چنانچہ اس نے پندرہ روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا اور یہ ہدایت کر دی کہ جو کام اُس کے سپرد کیا جائے ایمانداری سے کرے۔ حمزہ خان نے اپنے بد نما ہونٹوں سے مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے شہباز خان کو یقین دلایا

’’خان بادشاہ۔ ام تم کو کبھی تنگ نہیں کرے گا۔ جو کہے گا مانے گا‘‘

شہباز خان یہ سُن کر خوش ہو گیا۔ حمزہ خان نے شروع شروع میں کچھ اتنا اچھا کام نہ کیا لیکن تھوڑے عرصے میں وہ سب کچھ سیکھ گیا۔ چائے کیسے بنائی جاتی ہے۔ شکر کے ساتھ گڑ کتنا ڈالا جاتا ہے۔ کوئلے والیوں سے کوئلے کیسے حاصل کیے جاتے ہیں اور مختلف گاہکوں کے ساتھ کس قسم کا سلوک روا رکھنا چاہیے۔ یہ اس نے سیکھ لیا۔ اس میں صرف ایک کمی تھی کہ وہ بے حد بد شکل تھا۔ بد تمیز بھی کسی حد تک تھا۔ اس لیے کہ اس کی شکل صورت دیکھ کر شہباز خان کے ہوٹل میں آنے جانے والے کچھ گھبرا سے جاتے۔ مگر جب گاہک آہستہ آہستہ اس کی بد صورتی سے مانوس ہو گئے تو انھوں نے اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا۔ بلکہ بعض لوگ تو اس سے دلچسپی لینے لگے اس لیے کہ وہ کافی دلچسپ چیز تھا۔ مگر اس دلچسپی سے حمزہ خان کو تسکین نہیں ہوتی تھی۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ محض ہنسی مذاق کی خاطر یہ لوگ جو ہوٹل میں چند گھنٹے گزارنے آتے ہیں اس سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں حمزہ خان گلگت خان کے نام سے مشہور ہو گیا تھا اس لیے کہ وہ کافی دیر گلگت میں رہا تھا اور اس ریاست کا ذکر بار بار کیا کرتا تھا۔ اس لیے ہوٹل میں آنے جانے والوں نے اس کا نام گلگت خان رکھ دیا، جس پر حمزہ خان کو اعتراض نہیں تھا۔ حمزہ کے کیا معنی ہوتے ہیں، اس کو معلوم نہیں تھا بلکہ گلگت کا مطلب وہ بخوبی سمجھتا تھا۔ شہباز خان کے ہوٹل میں آئے اس کے قریب قریب ایک برس ہو گیا۔ اس دوران میں اس نے محسوس کیا کہ اس کا مالک شہباز خان اس کی شکل صورت سے متنفر ہے یہ احساس اُسے کھائے جاتا تھا۔ ایک دن اُس نے ہوٹل کے باہر کتے کا پلا دیکھا جو اس سے بھی کہیں زیادہ بد صورت تھا۔ اُس کو اُٹھا کر وہ اپنی کوٹھری میں لے آیا جو اسے ہوٹل کی بالائی منزل پر رہنے سہنے کے لیے دی گئی تھی۔ یہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر کتے کا ایک اور پلا آجاتا تو وہ اس میں گلگت خان کے ساتھ سمانہ سکتا۔ اس کتے کے پلے کی ٹانگیں ٹیڑھی میڑھی تھیں۔ تھوتھنی بڑی واہیات تھی۔ عجیب بات ہے کہ گلگت خان کی ٹانگیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ اس کا نچلا دھڑ اس کے اوپر کے جسمانی حصے کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا۔ بالکل اُس کے مانند یہ پلا بھی مسخ شدہ صورت کا تھا۔ گلگت خان اس سے بہت پیار کرتا۔ شہباز خان نے اس سے کئی مرتبہ کہا کہ میں اس کتے کے بچے کو گولی مار دُوں گا۔ مگر گلگت خان اس کو کسی بھی حالت میں اپنے سے جدا کرنے پر راضی نہیں تھا۔ اُس نے شروع شروع میں تو اپنے آقا سے کچھ نہ کہا۔ خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا۔ آخر ایک روز اس سے صاف لفظوں میں اُس سے کہہ دیا

’’خو، تم۔ ہوٹل کے مالک ہو۔ میرے دوست ٹن ٹن کے مالک نہیں ہو‘‘

شہباز خان یہ سُن کر چپ ہو گیا۔ گلگت خان بڑا محنتی تھا۔ صبح پانچ بجے اُٹھتا دو انگیٹھیاں سُلگاتا سامنے والے نل سے پانی بھرتا اور پھر گاہکوں کی خدمت میں مصروف ہو جاتا۔ اس کا ٹن ٹن مہینوں بعد بڑا ہو گیا۔ وہ اس کے ساتھ کوٹھری میں سوتا تھا جو ہوٹل کی بالائی منزل پر تھی۔ سردیاں تھیں۔ اس لیے گلگت خان کو اپنے بستر میں اس کی موجودگی بُری نہیں معلوم ہوتی تھی۔ بلکہ وہ خوش تھا کہ وہ اس سے اس قدر پیار کرتا ہے کہ رات کو بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ ٹن ٹن نام گلگت خان کے ایک خاص گاہک نے رکھا تھا، جو اُس کی انتہائی بد صورتی کے باوجود اس سے دلچسپی لیتا۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ کتے کا وہ پلا جسے وہ سڑک پر سے اُٹھا کر اپنے پاس لے آیا تھا اور جس کی گردن میں اُس نے اپنی تنخواہ میں سے پیسے بچا کر ایک ایسا پٹا ڈالا تھا جس میں گھنگرو بندھے ہوئے تھے۔ اس خاص گاہک نے جو غالباً کسی روزنامے کا کالم نویس تھا ان گھنگروؤں کی آواز سُن کر اس کا نام ٹن ٹن رکھ دیا۔ ٹن ٹن جب بڑا ہوا تو اس کی ٹانگیں اور بھی زیادہ چھوٹی ہو گئیں۔ گلگت خان کی بھی یہی حالت تھی۔ اس کی ٹانگیں بھی دن بہ دن مختصر ہو رہی تھیں۔ اُوپر کا دھڑ مناسب و موزوں انداز میں بڑھ گیا تھا۔ شہباز خان کو گلگت خان کا یہ حلیہ پسند نہیں تھا مگر وہ محنتی تھا۔ گدھے کی مانند کام کرتا۔ صبح پانچ بجے سے لے کر رات کے گیارہ بارہ بجے تک ہوٹل میں رہتا۔ ایک گھڑی کے لیے بھی آرام نہ کرتا۔ لیکن اُس دوران میں وہ تین چار مرتبہ اوپر اپنی کوٹھڑی میں ضرور جاتا اور اپنے پیارے کتے کی جواب بڑا ہو گیا تھا دیکھ بھال کرتا تھا اس کو ہوٹل کا بچا کچھا کھانا دیتا۔ پانی پلاتا اور پیار کر کے فوراً واپس چلا آتا۔ ایک دن اس کا ٹن ٹن بیمار ہو گیا۔ ہوٹل میں اکثر میڈیکل اسٹوڈنٹ آیا کرتے تھے کیونکہ اُن کا کالج نزدیک ہی تھا۔ گلگت خان نے ان میں سے ایک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اگر پیٹ کی شکایت ہو تو مریض کو بٹیر یا مرغ کا گوشت کھلانا چاہیے۔ فاقہ دینا سخت حماقت ہے۔ اس نے اپنے ٹن ٹن کو صبح سے کوئی چیز کھانے کو نہیں دی تھی۔ اس لیے کہ اس کو بد ہضمی تھی۔ مگر جب اس نے اس میڈیکل اسٹوڈنٹس کی بات سُنی تو اس نے اِدھر اُدھر کوئی مرغ تلاش کرنا شروع کیا مگر نہ ملا۔ محلہ ہی کچھ ایسا تھا جس میں کوئی مُرغ مرغیاں نہیں پالتا تھا۔ شہباز خان کو بٹیر بازی کا شوق تھا۔ اس کے پاس ایک بٹیر تھا جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ گلگت خان نے تنکوں کا بنا ہوا پنجرہ کھولا اور ہاتھ ڈال کر یہ بٹیر پکڑی۔ کلمہ پڑھ کر اُس کو ذبح کیا اور اپنے ٹن ٹن کو کھلا دیا۔ شہباز خان نے جب پنجرہ خالی دیکھا تو بہت پریشان ہوا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ بٹیر اس میں سے کیسے اڑ گئی۔ وہ تو اس کے اشاروں پر چلتی تھی۔ کئی پالیاں اس نے بڑی شان سے جیتی تھیں۔ اس نے گلگت خان سے پوچھا تو اس نے کہا

’’خو مجھے کیا مالوم۔ تمہارا بٹیر کدھر گیا۔ بھاگ گیا ہو گا کدھر‘‘

شہباز خان نے جب زیادہ جستجو کی تو اُس نے دیکھا کہ اس کے ہوٹل کے سامنے جہاں بدرو تھی تھوڑا سا خون اور بچے ہوئے پر پڑے ہیں۔ یہ بلا شبہ اس کی بٹیر کے تھے وہ سر پیٹ کر رہ گیا اُس نے سوچا کوئی ظالم اس کو بھون کر کھا گیا ہے۔ بٹیر کے پر اُس کے جانے پہچانے تھے۔ اس نے ان کو بڑے پیار سے اکٹھا کیا اور اپنے ہوٹل کے پچھواڑے جہاں کھلا میدان تھا، چھوٹا سا گڑھا کھود کر انھیں دفن کر دیا، فاتحہ پڑھی۔ اس کے بعد اُس نے کئی غریبوں کو اپنے ہوٹل سے مُفت کھانا بھی کھلایا تاکہ مرحوم کی رُوح کو ثواب پہنچے۔ جب شہباز خان سے کوئی اس کی بٹیر کے متعلق پوچھا تو وہ کہتا

’’شہید ہو گیا ہے‘‘

گلگت خان یہ سنتا اور اپنے کان سمیٹے خاموش کام میں مشغول رہتا۔ اس کا ٹن ٹن اچھا ہو گیا۔ اس کو جو شکایت تھی رفع ہو گئی۔ گلگت خان بہت خوش تھا۔ اُس نے اپنے پیارے کتے کی صحت یابی پر دو بھکاریوں کو ہوٹل سے کھانا کھلایا۔ شہباز خان نے پوچھا کہ تم نے ان سے دام وصول کیوں نہیں کیے تو اس نے کہا

’’کبھی کبھی خیرات بھی دے دینا چاہیے خان‘‘

یہ سُن کر شہباز خان چپ ہو گیا۔ ایک دن مینا کا بچہ کہیں سے اُڑتا اُڑتا گلگت خان کے پاس آ گرا جب کہ وہ کالج کے کسی لڑکے کے لیے ناشتہ تیار کر کے لے جا رہا تھا اُس نے ناشتے کی ٹرے کو ایک طرف رکھا اور مینا کے بچے کو جو بے حد سہما ہوا تھا پکڑ کر اُس پنجرے میں ڈال دیا جس میں اس کے مالک شہباز خان کی بٹیر ہوتی تھی۔ مینا کو اُس نے سوا مہینے تک پالا پوسا۔ خاصی موٹی ہو گئی۔ خوب چہکتی تھی۔ ایک دن اس کا ٹن ٹن آگیا۔ اس نے مینا کو دیکھا تو بے تاب ہو گیا۔ چاہتا تھا کہ کسی طرح اس تک رسائی ہو جائے اور وہ اُسے چبا ڈالے۔ گلگت خان نے جب دیکھا کہ پنجرہ اوپر کھونٹی کے ساتھ ٹنگا ہے جہاں اس کا ٹن ٹن نہیں پہنچ سکتا۔ بڑی حسرت بھری نظروں سے اُسے دیکھ رہا ہے تو اُس نے پنجرے میں سے مینا کو نکالا۔ اس کے پر نوچے۔ گردن مروڑی اور اپنے عزیز کتے کے سپرد کر دی۔ ٹن ٹن نے اس بے بال و پر پرندے کی لاش کو دو تین مرتبہ سونگھا بڑے زور کی ایک چھینک اس کے نتھوں سے باہر نکلی اور وہاں سے دوڑ گیا۔ گلگت خان کو بڑا صدمہ ہوا۔ اُسی دن اُس کو کالج کی وہ دو لڑکیاں جو باقاعدہ چائے پینے کے لیے آتی تھیں اور جن کا وہ خاص طور پر خیال رکھتا تھا آئیں۔ پہلے وہ اس سے ہنس ہنس کے باتیں کیا کرتی تھیں۔ مگر اب انھیں جانے کیا ہو گیا کہ وہ اس سے خفا خفا نظر آتی تھیں۔ ایک نے جو گلگت خان کو بہت پسند تھی اُس سے پوچھا

’’تم نے مینا کیوں ماری؟‘‘

گلگت خان ایک لحظے کے لیے بوکھلا سا گیا۔ لیکن سنبھل کر اُس نے جواب دیا

’’، خو بی بی جی۔ ام نے اپنے کتے کو ڈالا تھا‘‘

’’خو حرام تخم نے اس کو سُونگھا اور چھوڑ دیا‘‘

لڑکی نے کہا

’’تو اس کو مارنے سے کیا فائدہ ہوا۔ تم نے پہلے بھی اس کو خان صاحب کی بٹیر ذبح کر کے دی تھی۔ کیا اس نے کھائی تھی؟‘‘

گلگت خان نے بڑے فخر سے جواب دیا

’’کھائی تھی۔ اس کی ہڈیاں بھی‘‘

شہباز خان پاس کھڑا تھا۔ اُس نے جب یہ سُنا تو بڑے زور کی ایک دُھول اُس کی گردن پر جمائی

’’تخم حرام۔ تم نے اب مانا ہے۔ پہلے کیوں انکار کرتا تھا۔ ‘‘

گلگت خان خاموش رہا۔ دونوں لڑکیوں نے قہقہے لگائے۔ گلگت خان کو دھول کا اتنا خیال نہیں تھا لیکن لڑکیوں کے ان قہقہوں نے اس کے دل کو زخمی کر دیا۔ شہباز خان کو بہت غصہ تھا۔ گلگت خان کے دُھول جما کر وہ اس پر برس پڑا۔ جتنی گالیاں اُسے یاد تھیں اپنے نوکر پر صرف کر دیں۔ آخر میں اس سے کہا

’’تم اس ٹن ٹن یا چن چن سے اتنا پیار کیوں کرتا ہے۔ حرام خور۔ وہ بھی کوئی کتا ہے۔ تم سے زیادہ بد شکل ہے۔ اتنا بد شکل کہ اس کو دیکھ کر نفرت پیدا ہوتا ہے‘‘

شہباز خان سے مار کھا کر اور اُس کی غصے کی ساری باتیں سُن کر گلگت خان اوپر اپنی کوٹھری میں گیا۔ اس کے کانوں میں کالج کی دونوں لڑکیوں کے قہقہے گونج رہے تھے۔ کوٹھڑی کے ایک کونے میں اس کا ٹن ٹن لیٹا تھا۔ کچھ عجیب انداز سے ٹانگیں دیوار کے ساتھ لگائے۔ جو اس قدر ٹیڑھی تھیں کہ اور زیادہ ٹیڑھی ہو ہی نہیں سکتی تھیں۔ اس نے کچھ دیر غور کیا۔ اس کے بعد اپنا کمالی والا چاقو نکالا اور ٹن ٹن کی طرف بڑھا مگر اسے کوئی خیال آیا۔ کمانی والا چاقو بند کر کے اپنی جیب میں رکھا اور کتے کو بڑے پیار سے بُلا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ جب گلگت خان اور ٹن ٹن ریلوے لائن کے پاس پہنچے تو گاڑی آرہی تھی۔ گلگت خان نے اپنے پیارے کتے کو حکم دیا کہ وہ پٹڑی کے عین درمیان کھڑا ہو جائے۔ اس حیوان نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی۔ گاڑی پوری رفتار سے آرہی تھی۔ ٹن ٹن پٹڑی میں کھڑا گلگت خان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایسی نگاہوں سے جن سے وفاداری ٹپک رہی تھی۔ گلگت خان نے ایک نظر اپنی طرف دیکھا اس نے محسوس کیا کہ اُس کا کتا اس سے کہیں زیادہ خوش شکل ہے۔ گاڑی قریب آئی تو اس نے ٹن ٹن کو دھکا دے کر پٹڑی سے باہر گرادیا اور خود اس کی جھپٹ میں آگیا۔ اُس کا بالکل قیمہ ہو گیا۔ کتے نے گوشت کے اس ڈھیر کو سُونگھا اور زور زور سے بڑی دردناک آواز میں رونے لگا۔ سعادت حسن منٹو ۶ جون ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

گرم سوٹ

گنڈا سنگھ نے چونکہ ایک زمانے سے اپنے کپڑے تبدیل نہیں کیے تھے۔ اس لیے پسینے کے باعث ان میں ایک عجیب قسم کی بُو پیدا ہو گئی تھی جو زیادہ شدّت اختیار کرنے پر اب گنڈا سنگھ کو کبھی کبھی اداس کردیتی تھی۔ اس کو اس بدبو نے بھی اتنا تنگ نہیں کیا تھا جتناکہ اب اس کے گرم سوٹ نے اسے تنگ کر رکھا تھا۔ اپنے کسی دوست کے کہنے پر وہ امرتسر چھوڑ کر دہلی چلا آیا تھا۔ جب اس نے امرتسر کو خیرباد کہا تو گرمیوں کا آغاز تھا، لیکن اب کے گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی، گنڈا سنگھ کو یہ گرم سوٹ بہت ستارہا تھا۔ اس کے پاس صرف چار کپڑے تھے۔ گرم پتلون، گرم کوٹ، گرم واسکٹ اور ایک سوتی قمیض۔ یہ گرم سوٹ اسے اس لیے دہلی کی شدید گرمیوں میں پہننا پڑتا تھا کہ اس کے پاس اور کوئی کپڑا ہی نہیں تھا اور سوٹ کے ساتھ کی واسکٹ اسے اس لیے پہننا پڑتی تھی کہ اسکے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ اسے احتیاط یا بداحتیاطی سے رکھ سکتا۔ یوں تو وہ اس واسکٹ کو یا کوٹ ہی کو دریبہ کلاں میں اپنے دوست کی دکان میں رکھ دیتا مگر وہاں اس نے پہلے روز ہی کئی چوہے دیکھے تھے۔ دہلی آنے کے دوسرے روز چاندنی چوک میں اس نے رس گُلے کھائے تھے۔ ان کا شیرہ جابجا کوٹ اور واسکٹ پر گِر پڑا تھا۔ اگر وہ یہ دونوں چیزیں اس دکان میں رکھ دیتا تو ظاہر ہے کہ جہاں شیرہ گرا تھا چوہے کپڑا کُتر جاتے اور گنڈا سنگھ نہیں چاہتا تھا کہ یہ سوٹ جو اسے تین ستمبر1939ء یعنی اس جنگ کے ابتدائی روز ملا تھا یوں بیکار چوہوں کی نذر ہو جائے۔ اس سوٹ کے ساتھ اتفاقیہ طور پر ایک ایسا دن منسوب ہو گیا تھا جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ گنڈا سنگھ کو چنانچہ اس لیے بھی اپنا سوٹ عزیزتھا کہ امرتسر میں جب اس نے اپنا یہ تاریخی سوٹ پہنا تھا تو دربار صاحب کے آس پاس اسکے جتنے ہاتھی دانت کا کام کرنے والے دوست رہتے تھے متحیر ہو گئے تھے۔ بلبیر نے جب اسے بازار میں دیکھا تھا تو متحرک خراد کو روک کر زور سے آواز دی تھی۔

’’گنڈا سیاں گنڈا سیاں ذرا ادھر تو آ۔ یہ آج تجھے کیا ہو گیا ہے؟‘‘

گنڈا سنگھ لباس کے معاملے میں از حد بے پروا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اپنے لباس کی طرف اس نے کبھی توجہ ہی نہ دی تھی۔ وہ پتلون اسی طرح پہنا کرتا تھا جس طرح کَچھ پہنی جاتی ہے یعنی بغیر کسی تکلف کے۔ اُس کے متعلق اُس کے دوستوں میں یہ بات عام مشہور تھی کہ اگر تن ڈھکنا ضروری نہ ہوتا تو گنڈا سنگھ بالکل ننگا رہتا۔ چھ چھ مہینے تک وہ نہاتا نہیں تھا۔ بعض اوقات اس کے پیروں پر اس قدر میل جم جاتا تھا کہ اور میل جمنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی۔ دور سے اگر آپ اسکے میلے پیروں کو دیکھتے تو یہی معلوم ہوتا کہ گنڈا سنگھ نے موزے پہن رکھے ہیں۔ گنڈا سنگھ کی غلاظت پسندی کی انتہا یہ تھی کہ وہ صبح کا ناشتہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر کرتا تھا اور سردیوں میں ایک ایسا لحاف اوڑھ کر سوتا تھا کہ اگر کوئی اسے کوڑے پر پھینک دے تو صبح جب بھنگی کوڑا کرکٹ اٹھانے آتا تو یہ لحاف دیکھ کر اس کو بھی گِھن آجاتی، پر لطف یہ ہے کہ اس کی ان تمام غلاظتوں کے باوجود لوگ اس سے محبت کرتے تھے اور امرتسر میں تو آپ کو ایسے کئی آدمی مل جائیں گے جو اس کو محبت کی حد تک پسند کرتے ہیں۔ گنڈا سنگھ کی عمر زیادہ سے زیادہ پچیس برس ہے۔ داڑھی اور مونچھوں کے بھوسلے بال اس کے چہرے کے دو تہائی حصے پر موبل آئل میں بھیگے ہوئے چیتھڑے کی طرح پھیلے رہتے ہیں۔ پگڑی کے نیچے اسکے کیسوں کی بھی یہی حالت رہتی ہے۔ کبھی کبھی جب اس کی پنڈلیاں کپڑا اٹھ جانے کے باعث ننگی ہو جاتی ہیں تو ان پر میل کھرنڈوں کی شکل میں جا بجا نظر آتا ہے، مگر لوگ ان تمام میلی اور گندی حقیقتوں سے با خبر ہونے پر بھی گنڈا سنگھ کو اپنے پاس بٹھاتے ہیں اور اس سے کئی کئی گھنٹے باتیں کرتے ہیں۔ امرت سر چھوڑ کرجب گنڈا سنگھ اپنے گرم سوٹ سمیت دہلی آیا تو اسے غیر شعوری طور پر معلوم تھا کہ یہاں بھی خود بخود اس کے دوست پیدا ہو جائیں گے۔ اگر اسکو اپنی غلاظت پسندیوں کا احساس ہوتا تو بہت ممکن ہے یہ احساس رکاوٹ بن جاتا اور دہلی میں اس کا کوئی دوست نہ بنتا۔ چند ہی دنوں میں بظاہر کسی وجہ کے بغیر آٹھ دس آدمی گنڈا سنگھ کے دوست بن گئے اور گنڈا سنگھ کو اس بات کا مطلق احساس نہ ہوا کہ اگر یہ آٹھ دس آدمی اس کے دوست نہ بنتے تو شہر دہلی میں وہ بھوکوں مرتا۔ روٹی کے مسئلے پر دراصل گنڈا سنگھ نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا اور نہ اس نے کبھی یہ جاننے کی تکلیف کی تھی کہ دوسرے اس کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ کھانا، پینا اور سونا، یہ تین چیزیں ایسی تھیں جو گنڈا سنگھ کو چلتے پھرتے کہیں نہ کہیں ضرور مل جاتی تھیں اور ایک زمانے سے چونکہ یہ چیزیں اسے بڑی باقاعدگی کے ساتھ مل رہی تھیں اس لیے ان کے متعلق وہ کبھی سوچتا ہی نہیں تھا۔ چاوڑی میں ہربنس سے ملنے گیا تو وہاں صبح کا ناشتہ مل گیا۔ ہربنس کے یہاں سے آیا تو راستے میں احمد علی نے اپنی دکان پر ٹھہرا لیا اور کہا۔

’’گنڈا سنگھ، بھئی تم خوب وقت پر آئے، میں نے دھنّا مل سے کچھ چاٹ منگوائی ہے، کھاکے جانا۔ ‘‘

احمد علی کی دکان پر چاٹ کھانے کے بعد گنڈا سنگھ کے دل میں خیال آیا کہ چلو ہیم چندر سے ملنے چلیں ہیم چندر بہت اچھا افسانہ نگار ہے اور گنڈا سنگھ کے دل میں اسکی بہت عزت ہے۔ چنانچہ جب اس سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں دوپہر کے کھانے کا وقت آگیا۔ دعوت دینے اور دعوت قبول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوا۔ کھانا آیا اور دونوں نے مل کر کھالیا۔ یہاں سے جب گنڈا سنگھ تمار پور کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں باغ آگیا۔ دھوپ چونکہ بہت کراری تھی، اس لیے گنڈا سنگھ جب کچھ دیر سستانے کے لیے نکلسن باغ کے ایک بنچ پر لیٹا تو پانچ بجے تک وہیں سویا رہا۔ آنکھیں مل کر اٹھا اور آہستہ آہستہ تمار پور کا رخ کیا جہاں اسکا دوست عبدالمجید رہتا تھا۔ چھ بجے کے قریب گنڈا سنگھ عبدالمجید کے گھر پہنچا۔ وہاں جنگ کی باتیں شروع ہوئیں، چنانچہ آٹھ بج گئے۔ عبدالمجید بہت ہوشیار آدمی تھا۔ ہندوستان کے ترقی پسند لٹریچر کے بارے میں اس کی معلومات کافی وسیع تھیں مگرجنگ کے متعلق اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ کوشش کرنے کے باوجود وہ چین اور جاپان، جاپان اور روس، روس اور جرمنی، جرمنی اور فرانس کے جغرافیائی رشتے کو نہ سمجھ سکا تھا۔ جب کبھی وہ دنیا کا نقشہ کھول کر اپنے سامنے رکھتا تو اس کی نگاہوں میں نقشے پر پھیلے ہوئے شہر اور ملک ایسے الجھاؤ کی صورت اختیار کرلیتے جو اکثر اوقات پتنگ اڑانے کے دوران میں اس کی ڈور میں پیدا ہو جایاکرتے تھے مگر گنڈا سنگھ کو دنیا کے جغرافیہ پر کافی عبور حاصل تھا۔ ایک بار اخبار پڑھ لینے کے بعد جنگ کا صحیح نقشہ اس کے ذہن میں آجاتا تھا اور وہ بڑے سہل انداز میں لوگوں کو سمجھا سکتا تھا کہ جنگ کے میدان میں کیا ہورہا ہے۔ عبدالمجید طبعاً نفاست پسند تھا، اس کو گنڈا سنگھ کی غلاظتیں بہت کُھٹکتی تھیں مگر وہ مجبور تھا اس لیے کہ گنڈا سنگھ ہی ایک ایسا آدمی تھاجو اسے جنگ کے تازہ حالات سمجھا سکتا تھا۔ اگر عبدالمجید کوجنگی خبریں سننے اور ان پر تفصیلی بحث کرنے کی عادت نہ ہوتی جو ایک بہت بڑی کمزوری کی شکل اختیار کر چکی تھی تو وہ یقیناً اس آدمی سے کبھی ملنا پسند نہ کرتا جو کھانا کھانیکے بعد سالن سے بھرے ہوئے ہاتھ اس کے کمرے میں لٹکے ہوئے پردوں سے صاف کرتا تھا۔ ایک دفعہ عبدالمجید نے پردوں کواس کے حملے سے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنا تولیہ آگے بڑھا دیا اور کہا۔

’’لو گنڈا سنگھ، اس سے ہاتھ صاف کرلو۔ کچھ دیر اگر ٹھہر سکو تو پانی اور صابن آرہا ہے۔ ‘‘

گنڈا سنگھ نے اس انداز سے تولیہ عبدالمجید سے لیا جیسے اس کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ایک منٹ میں اپنا منہ ہاتھ صاف کرکے اسے ایک طرف پھینک دیا۔

’’پانی وانی کی کوئی ضرورت نہیں، ہاتھ صاف ہی تھے۔ ‘‘

عبدالمجید نے جب زہر کے گھونٹ پی کر اپنے تولیے کی طرف دیکھا تو اسے ایسا معلوم ہُوا کہ منہ ہاتھ صاف کرنے کے بجائے کسی نے اس کے ساتھ سائیکل کی چین صاف کی ہے۔ عبدالمجید کی بیوی کو گنڈا سنگھ کی یہ مکروہ عادات سخت ناپسند تھیں۔ مگر وہ بھی مجبور تھی اس لیے کہ جس روز گنڈا سنگھ نہیں آتا تھا عبدالمجید اسے اپنے پاس بٹھا کر جنگ کے تازہ حالات پر ایک طویل لیکچر دینا شروع کردیتا تھا جو اس امن پسند عورت کو طوعاً و کرہاً سارے کا سارا سننا ہی پڑتا تھا۔ گنڈا سنگھ ذہین آدمی تھا۔ ادب اور سیاست کے بارے میں اسکی معلومات اوسط آدمی سے بہت زیادہ تھیں۔ امرتسر میں اسکے اس گرم سوٹ کا سودا بھی ان معلومات کے ذریعے ہی سے ہوا تھا۔ محمد عمر ٹیلر ماسٹر کو جنگی خبریں سننے کا خبط تھا، چنانچہ گنڈا سنگھ نے جنگ کے ابتدائی حالات سنا سنا کر محمد عمر کو اس قدر مرعوب کیا کہ اس نے یہ گرم سوٹ( جو کسی گاہک نے37ء میں تیارکرایا تھا اور دو برس سے اس کے پاس بیکار پڑا تھا چونکہ اس گاہک نے پھر کبھی شکل ہی نہیں دکھائی تھی) گنڈا سنگھ کے جسم پر فٹ کردیا اور اس کے ساتھ پانچ روپے ماہوار کی چھ قسطیں مقرر کرلیں۔ ان چھ قسطوں میں سے صرف تین قسطیں گنڈا سنگھ نے ادا کی تھیں، باقی تین قسطوں کے لیے محمد عمر کئی بار تقاضا کر چکا تھا مگر ان رسمی تقاضوں کے علاوہ محمد عمر نے گنڈا سنگھ پر کبھی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ اس لیے کہ جنگ کے حالات دن بدن دلچسپ ہوتے جارہے تھے۔ گنڈا سنگھ نے امرتسر کیوں چھوڑا۔ ایک لمبی کہانی ہے۔ دہلی میں جو اس کے نئے دوست بنے تھے اُن کو صرف اتنا معلوم تھا کہ امرتسر میں ایک پُرانے دوست کے کہنے پر وہ یہاں چلا آیا تھا کہ ملازمت تلاش کرے۔ دہلی آکر گنڈا سنگھ ملازمت کی جستجو کرتا مگر یہ کم بخت گرم سوٹ اسے چین نہیں لینے دیتا تھا۔ اس قدر گرمی پڑ رہی تھی کہ چیل انڈا چھوڑ دے۔ کچھ دنوں سے گرمی کی انتہا ہو گئی تھی۔ لوگ سن سڑوک سے مررہے تھے۔ گنڈا سنگھ کو موت کا اتنا خیال ہی نہیں تھا جتنا کہ اُسے اُس تکلیف کا خیال تھا جو گرمی کی شدت کے باعث اسے اٹھانا پڑ رہی تھی۔ بازاروں میں دُھوپ پگھلی ہوئی اگنی کی طرح پھیلی رہتی تھی۔ لُو اس غضب کی چلتی تھی کہ منہ پر آگ کے چانٹے سے پڑتے تھے۔ لُک پھری سڑکیں توے کے مانند تپتی رہتی تھیں۔ ان سب کے اوپر فضا کی وہ گرم گرم اداسی تھی جو گنڈا سنگھ کو بہت پریشان کرتی تھی۔ اگر اس کے پاس یہ گرم سُوٹ نہ ہوتا تو الگ بات تھی، شدید گرمیوں کا یہ موسم کسی نہ کسی حیلے کٹ ہی جاتا پر اس سوٹ کی موجودگی میں جس کا رنگ اسکی بُھوسلی داڑھی سے بھی زیادہ گہرا تھا۔ اب ایک دن بھی دہلی میں رہنا اسے دشوار معلوم ہوتا تھا۔ اس سوٹ کارنگ سردیوں میں بہت خوشگوار معلوم ہوتا تھا پر اب گنڈا سنگھ کو اس سے ڈر لگتا تھا۔ سوٹ کا کپڑا بہت کھردرا تھا، کوٹ کا کالر گھسنے کے باعث باکل ریگ مار کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ اس سے گنڈا سنگھ کو بہت تکلیف ہوتی تھی یہ گھسا ہوا کالر ہر وقت اوپر نیچے ہو کراسکی گردن کے بال مونڈتا رہتا تھا۔ ایک دو دفعہ جب غضب کی گرمی پڑی تو گنڈا سنگھ کے جی میں آئی کہ یہ گرم سوٹ اتار کر کسی ایسی جگہ پھینک دے کہ پھر اسے نظر نہ آئے مگر یہ سوٹ اگر وہ اتار دیتا تو اس کی جگہ پہنتا کیا۔ اس کے پاس تو اس سوٹ کے سوا اورکوئی کپڑا ہی نہیں تھا۔ یہ مجبوری گرمی کے احساس میں اور زیادہ اضافہ کردیتی تھی اور بے چارہ گنڈا سنگھ تلملا کے رہ جاتا تھا۔ دہلی میں اس کے چند دوستوں نے اس سے پوچھا تھا

’’بھئی گنڈا سنگھ تم یہ گرم سوٹ کیوں نہیں اتارتے کیا تمہیں گرمی نہیں لگتی؟‘‘

گنڈا سنگھ چونکہ ذہین آدمی تھا۔ اس لیے اس نے یوں جواب دیا تھا۔

’’گرم کپڑا گرمی کی شدت کو روکتا ہے اسی لیے میں یہ گرم سوٹ پہنتا ہُوں۔ سن اسٹروک کا اثر ہمیشہ گردن کے نچلے حصہ پر پڑتا ہے جہاں حرام مغز ہوتا ہے۔ اگرجسم کے اس حصے پر گرم کپڑے کی ایک موٹی سی تہہ جمی رہے تو سورج کے اس حملے کا بالکل خدشہ نہیں رہتا۔ افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں انگریز وغیرہ سولر ہیٹ کے پچھلے حصے کے ساتھ ایک کپڑا لٹکا دیتے ہیں کہ لُو سے بچے رہیں۔ عرب میں سر کے لیے ایک خاص پہناوا مروج ہے۔ ایک بڑا سا رومال ہوتا ہے جو گردن کو ڈھانپے رہتا ہے۔ ہندوستان کے ان حصوں میں جہاں شدید گرمی پڑتی ہے پگڑی کا استعمال اب تک چلا آرہا ہے۔ شملہ چھوڑنے کا دراصل مطلب یہی تھا کہ گردن لُو سے محفوظ رہے۔ مگر اب لوگوں نے شملہ چھوڑنا قریب قریب ترک کردیا ہے اس لیے کہ اسے فصول سمجھا گیا ہے۔ اور بغیر شملہ چھوڑے پگڑی باندھنا جدید فیشن بن گیا ہے۔ میں خود اس فیشن کا شکار ہُوں۔ ‘‘

یہ فاضلانہ جواب سُن کر اس کے دوست بہت مرعوب ہُوئے تھے، چنانچہ پھر کبھی انھوں نے گنڈا سنگھ سے اس کے سوٹ کے بارے میں استفسار نہ کیا تھا۔ گنڈا سنگھ جس کو اپنی معلومات کا مظاہرہ کرنیکا شوق تھا اس وقت یہ جواب دے کر بہت مسرور ہوا تھا مگر یہ مسرت فوراً ہی اس سوٹ کی تکلیف دہ گرمی نے غائب کردی تھی۔ عبدالمجید تمار پور یعنی شہر کے مضافات میں رہتا تھا جہاں کھلی فضا میسر آسکتی ہے۔ ایک رات جب تازہ جنگی حالات پر تبصرہ کرتے کرتے دیر ہو گئی تو عبدالمجید نے گنڈا سنگھ کے لیے برآمدے کے باہر ایک چارپائی بچھوا دی۔ کوٹ اور واسکٹ اتار کر وہ پتلون سمیت اس چارپائی پر صبح چھ بجے تک سویا رہا۔ رات بڑے آرام میں کٹی۔ کھلی فضا تھی اس لیے ساری رات خُنک ہوا کے جھونکے آتے رہے۔ گنڈا سنگھ کو یہ جگہ پسند آئی چنانچہ اس نے شام کو دیر سے آنا شروع کردیا۔ عبدالمجید کی بیوی نے دس بارہ روز تک گنڈا سنگھ کا وہاں سونا برداشت کیا۔ لیکن اس کے بعد اُس سے رہا نہ گیا۔ عبدالمجید سے اُس نے صاف صاف کہہ دیا۔

’’اصغر کے ابا۔ اب پانی سر سے گُزر چکا ہے۔ میں اس موئے گنڈا سنگھ کا آنا یہاں بالکل پسند نہیں کرتی۔ مکان ہے یا سرائے ہے؟۔ یعنی وہ عین کھانے کے وقت آجاتا ہے، ادھر ادھر کی باتیں آپ سے کرتا ہے اور چارپائی بچھوا کر سو جاتا ہے۔ میں اُس کی غلاظتیں برداشت کرسکتی ہوں مگر اس کا یہاں سونا بالکل برداشت نہیں کرسکتی۔ سنا آپ نے۔ اگر کل وہ یہاں آیا تو میں خود اس سے کہہ دونگی کہ سردار صاحب، جنگ کے متعلق آپ باتیں کرنا چاہتے ہیں، شوق سے کیجیے، کھانا حاضر ہے، تولیے، دروازوں کے پردے، گدیوں کے غلاف، یہ تمام چیزیں بڑے شوق سے منہ پونچھنے کے لیے استعمال کیجیے مگررات کو آپ یہاں ہرگز نہیں سو سکتے۔ اصغر کے ابا، میں خدا کی قسم کھا کے کہتی ہوں میں بہت تنگ آگئی ہُوں۔ ‘‘

عبدالمجید کو خود گنڈا سنگھ کا وہاں سونا بُرا معلوم ہوتا تھا اس لیے کہ اس کی بیوی پرلی طرف آنگن میں اکیلی پڑی رہتی تھی مگر وہ کیا کرتا جبکہ جنگ کی دلچسپ باتیں کرتے کرتے دیر ہو جاتی تھی اور گنڈا سنگھ بغیر کسی تکلیف کے جیسے کہ اس کا روزانہ کا معمول ہو۔ اس سے کہہ دیتا تھا۔

’’بھائی عبدالمجید اب تم سو جاؤ۔ صبح اٹھ کر تازہ اخبار دیکھیں گے تو نئے حالات کا کچھ پتہ چلے گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ برآمدے میں سے چارپائی نکالتا اور باہر بچھا کر سوجاتا۔ جب عبدالمجید کی بیوی اس پر بہت برسی تو اس نے کہا۔

’’جانِ من، میں خود حیران ہُوں کہ اس کو کس طرح منع کروں۔ یہاں دہلی میں اسکا کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں۔ مجھے تو اب اس بات کا خوف لاحق ہورہا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے میرے مکان کو اپنا اڈا بنا لے گا۔ آدمی بے حد اچھا ہے، یعنی لائق ہے، ذہین ہے پر۔ کوئی ایسی ترکیب سوچو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹُوٹے۔ ‘‘

یہ سن کر عبدالمجید کی بیوی نے کہا۔

’’تو یہ ترکیب تم ہی سوچو۔ میں تو صاف گو ہوں، اگر مجھ سے کہو گے تو میں کھلے لفظوں میں اس سے کہہ دوں گی کہ تمہارا یہاں رہنا مجھے بہت ناگوار معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

عبدالمجید نے اسی وقت تہیہ کرلیا کہ وہ گنڈا سنگھ سے اپنی مشکلات اور مجبوریاں صاف لفظوں میں بیان کردے گا۔ چنانچہ جب شام کو گنڈا سنگھ آیا تو جنگ کے تازہ حالات پر بحث شروع کرنے کے بجائے عبدالمجید نے اس سے کہا۔

’’گنڈا سنگھ میں تم سے ایک بات کہوں۔ بُرا تو نہیں مانو گے۔ ‘‘

گنڈا سنگھ نے ہمہ تن گوش ہو کر جواب دیا۔

’’بُرا ماننے کی بات ہی کیا ہے۔ آپ کہیے۔ ‘‘

اس پر عبدالمجید نے ایک مختصر سی رسمی تمہید شروع کی، پھر اس کے آخر میں کہا۔

’’۔ بات یہ ہے کہ سردیوں میں ایک سے زیادہ آدمیوں کی رہائش کا انتظام کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ اس موسم میں گنجائش نکل آتی ہے مگر ان گرمیوں میں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ مردوں کو اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ مستورات کو ہوتی ہے تم خود سمجھ سکتے ہو۔ ‘‘

گنڈا سنگھ مطلب سمجھ گیا چنانچہ اس نے پہلی مرتبہ اپنی تکلیفیں بیان کرنا شروع کیں۔ بھائی عبدالمجید میں تمہاری مہربانیوں کا بہت شکر گزار ہوں۔ رات کاٹنے کے لیے یوں تو مجھے بہت جگہیں مل سکتی ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ ایسی کھلی ہوا کہیں نہیں ملتی۔ سارا دن اس گرم سوٹ میں پگھلتا رہتا ہوں۔ چند راتیں جو میں نے تمہارے یہاں بسر کی ہیں، میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ مجھے تمہاری مجبوریوں اور تکلیفوں کا احساس اب ہُوا ہے اس لیے کہ جو آرام مجھے یہاں رات کو ملتا تھا اس قدر خوشگوار تھا کہ میں نے دوسرے پہلو پر کبھی غور ہی نہ کیا۔ تم میرے دوست ہو کوئی ایسی ترکیب نگا لوکہ اس گرم سوٹ سے مجھے نجات مل جائے، اس طور پر کہ یہ گرم سوٹ بھی میرے پاس رہے اور گرمیوں کا موسم بھی کٹ جائے۔ کیونکہ دو تین مہینے کے بعد پھر سردیاں آنے والی ہیں اور مجھے پھر اس سوٹ کی ضرورت ہو گی۔ سچ پوچھو تو اب میں دیوانگی کی حد تک اس سوٹ کی گرمی سے بیزار ہو گیا ہوں۔ تم خود سمجھتے ہو!‘‘

عبدالمجید سب سمجھ گیا، گنڈا سنگھ رخصت ہوا تو عبدالمجید نے اپنی بیوی سے بات چیت کی۔ دونوں دیر تک اس مسئلے پر گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں اس کی بیوی نے کہا۔

’’صرف ایک بات میرے ذہن میں آئی ہے اور وہ یہ ہے کہ گنڈا سنگھ کو کسی ایسی جگہ بھیج دیا جائے جہاں گرمی نہ ہو۔ ‘‘

یہ سن کر عبدالمجید نے کہا۔

’’ٹھیک ہے پر اس کے لیے رقم کی ضرورت ہے، اگر میرے پاس فالتو روپے ہوتے تو کیا میں نے اسے ٹھنڈے کپڑے نہ بنوا دیئے ہوتے۔ ‘‘

اس پر عبدالمجید کی بیوی نے کہا۔

’’تم پوری بات تو سن لیا کرو۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ اسے شملہ بھیج دیا جائے۔ میرا بھائی نصیر کل آنے والا ہے۔ اس سے کہہ دیں گے وہ گنڈا سنگھ کو بغیر ٹکٹ کے وہاں پہنچا دے گا۔ ایک دوبار وہ تمہیں بھی تو شملہ لے گیا تھا۔ ‘‘

عبدالمجید یہ بات سُن کر اس قدر خوش ہُوا کہ اس نے اپنی بیوی کا منہ چُوم لیا۔

’’بھئی کیا ترکیب سوچی ہے۔ یعنی سوٹ گنڈا سنگھ کے جسم پر ہی رہے گا اور وہ شملے پہنچ جائے گا۔ اس سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ ‘‘

دوسرے روز شام کو گنڈا سنگھ آیا تو عبدالمجید نے شملہ جانے کی رائے پیش کی۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہُوا۔ اس نے قطعاً نہ سوچا کہ شملے جا کر وہ بغیر روپے پیسے کے کس طرح گزارہ کرے گا۔ دراصل ایسی باتوں پر اس نے کبھی غورہی نہیں کیا تھا۔ تیسرے دن نصیر نے گنڈا سنگھ کو گاڑی میں سوار کردیا اور گارڈ سے جو اس کا دوست تھا کہہ دیا تھا کہ وہ اسے بحفاظت تمام شملے پہنچا دے۔

سعادت حسن منٹو

قیمے کی بجائے بوٹیاں

ڈاکٹر سعید میرا ہمسایہ تھا۔ اس کا مکان میرے مکان سے زیادہ سے زیادہ دو سو گز کے فاصلے پر ہو گا۔ اس کی گراؤنڈ فلور پر اس کا مطب تھا۔ میں کبھی کبھی وہاں چلا جاتا۔ ایک دو گھنٹے کی تفریح ہو جاتی۔ بڑا بذلہ سنج ٗ ادب شناس اور وضعدار آدمی تھا۔ رہنے والا بنگلور کا تھا۔ مگر گھر میں بڑی شُستہ و رفتہ اردو میں گفتگو کرتا تھا۔ اس نے اردو کے قریب قریب تمام بڑے شعرا کا مطالعہ کچھ ایسے ہی انہماک سے کیا تھا کہ جس طرح اس نے ایم بی بی ایس کورس کی جملہ کتابوں کا۔ میں کئی دفعہ سوچتا کہ ڈاکٹر سعید کو ڈاکٹر بننے کی بجائے کسی بھی مضمون میں ایم اے ایچ پی کی ڈگری حاصل کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ اس کی افتاد طبع کے لیے یہ نہایت موزوں و مناسب ہوتی۔ چنانچہ میں نے ایک روز اس سے کہا:

’’ڈاکٹر صاحب! آپ نے یہ پروفیشن کیوں اختیار کیا؟‘‘

’’کیوں‘‘

میں نے ان سے کہا:

’’آپ اردو ٗ فارسی زبان کے بڑے اچھے پروفیسر ہوتے۔ بڑے ہر دلعزیز۔ طالب علم آپ کے گرویدہ ہوتے۔ ‘‘

وہ مُسکرایا:

’’ایک ہی بات ہوتی۔ نہیں۔ زمین و آسمان کا فرق ہوتا میں یہاں اپنے مطب میں بڑے اطمینان سے بیٹھا ہر روز کم از کم سو سوا سو روپے بنا لیتا ہوں۔ اگر میں نے کوئی دوسرا پیشہ اختیار کیا ہوتا تو مجھے کیا ملتا۔ زیادہ سے زیادہ چھ سات سو روپے ماہوار۔ ‘‘

میں نے ڈاکٹر سے کہا :

’’بڑی معقول آمدنی ہے۔ ‘‘

’’آپ اسے معقول کہتے ہیں۔ سو روپے کے قریب تو میرا اپنا جیب خرچ ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں۔ کہ میں شراب پینے کا عادی ہوں ٗ اور وہ بھی ہر روز۔ قریب قریب پچھتر روپے تو اس پر اٹھ جاتے ہیں۔ پھر سگریٹ ہیں۔ دوست یاروں کی تواضع ہے۔ یہ سب خرچ کیا ایک لیکچرر ٗ پروفیسر ٗ ریڈر یا پرنسپل کی تنخواہ پورا کرسکتی ہے؟‘‘

میں قائل ہو گیا۔

’’جی نہیں۔ آپ ڈاکٹر نہ ہوتے۔ ادیب ہوتے ٗ مصور ہوتے۔ ‘‘

میری بات کاٹ کر انہوں نے ایک چھوٹا سا قہقہہ لگا کر کہا:

’’اور فاقہ کشی کرتا‘‘

میں بھی ہنس پڑا۔ ڈاکٹر سعید کے اخراجات واقعی بہت زیادہ تھے ٗاس لیے کہ وہ کنجوس نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اسے اپنے مطب سے فارغ ہو کر فرصت کے اوقات میں دوست یاروں کی محفل جمانے میں ایک خاص قسم کی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ شادی شُدہ تھا۔ اس کی بیوی بنگلور ہی کی تھی جس کے بطن سے دو بچے تھے۔ ایک لڑکی اور ایک لڑکا۔ اس کی بیوی اردو زبان سے قطعاً نا آشنا تھی ٗ اس لیے اسے تنہائی کی زندگی بسر کرنا پڑتی تھی۔ کبھی کبھی چھوٹی لڑکی آتی اور اپنی ماں کا پیغام ڈاکٹر کے کان میں ہولے سے پہنچا دیتی اور پھر دوڑتی ہوئی مطب سے باہر نکل جاتی۔ تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر سے میرا دوستانہ ہو گیا۔ بڑا بے تکلف قسم کا۔ اس نے مجھے اپنی گزشتہ زندگی کے تمام حالات و واقعات سنائے۔ مگر وہ اتنے دلچسپ نہیں کہ ان کا تذکرہ کیا جائے۔ اب میں نے باقاعدگی کے ساتھ ان کے ہاں جانا شروع کر دیا۔ میں بھی چونکہ بوتل کا رسیا تھا۔ اس لیے ہم دونوں میں گاڑھی چھننے لگی۔ ایک دو ماہ کے بعد میں نے محسوس کیا۔ کہ ڈاکٹر سعید الجھا سا رہتا ہے۔ اپنے کام سے اس کی دلچسپی دن بدن کم ہو رہی ہے۔ پہلے تو میں اسے ٹٹولتا رہا ٗ آخر میں نے صاف لفظوں میں اس سے پوچھا:

’’یار سعید۔ تم آج کئی دن سے کھوئے کھوئے سے کیوں رہتے ہو‘‘

ڈاکٹر سعید کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی :

’’نہیں تو۔ ‘‘

’’نہیں تو کیا۔ میں اتنا گدھا تو نہیں کہ پہچان بھی نہ سکوں کہ تم کسی ذہنی اُلجھن میں گرفتار ہو۔ ‘‘

ڈاکٹر سعید نے اپنا وسکی کا گلاس اُٹھایا اور ہونٹوں تک لے جا کر کہا :

’’محض تمہارا واہمہ ہے۔ یا تم اپنی نفسیات شناسی کا مجھ پر رعب گانٹھنا چاہتے ہو۔ ‘‘

میں نے ہتھیار ڈال دیے۔ حالانکہ اس کا لب و لہجہ صاف بتا رہا تھا کہ اس کے دل کا چور پکڑا جا چکا ہے۔ مگر اسے اپنی شکست کے اعتراف کا حوصلہ نہیں۔ بہت دن گزر گئے۔ اب وہ کئی کئی گھنٹے اپنے مطب سے غیر حاضر رہنے لگا۔ یہ جاننے کے لیے کہ وہ کہاں جاتا ہے، کیا کرتا ہے، اس کی ذہنی پریشانی کا باعث کیا ہے ٗ میرے دل و دماغ میں بڑی کھد بد ہو رہی تھی۔ اب اتفاقاً اگر اس سے ملاقات ہوتی تو میرا بے اختیار جی چاہتا کہ اس سے ایک بار پھر وہ سوالات کروں جن کے ٹل جواب سے میری ذہنی اُلجھن دور ہو اور ڈاکٹر سعید کے عقب میں جو کچھ بھی تھا، اس کی صحیح تصویر میری آنکھوں کے سامنے آ جائے۔ مگر ایسا کوئی تخلیے کا موقع نہ ملا۔ ایک دن شام کو جب میں اس کے مطب میں داخل ہوا۔ تو اس کے نوکر نے مجھے روکا

’’صاحب: ابھی اندر نہ جائیے۔ ڈاکٹر صاحب ایک مریض کو دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘

’’تو دیکھا کریں۔ ‘‘

نوکر نے مؤدبانہ عرض کی :

’’صاحب۔ وہ۔ وہ۔ میرا مطلب ہے۔ کہ مریض ٗ عورت ہے۔ ‘‘

’’اوہ۔ کب تک فارغ ہو جائیں گے۔ اس کے متعلق تمہیں کچھ معلوم ہے؟‘‘

نوکر نے جواب دیا :

’’جی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تقریباً ایک گھنٹے سے وہ بیگم صاحبہ کو دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘

میں تھوڑے توقف کے بعد مُسکرایا۔

’’تو مرض کوئی خاص معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر میں نے غیر ارادی طور پر ڈاکٹر سعید کے کمرہ ءِ تشخیص کا دروازہ کھول دیا۔ اور اندر داخل ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں۔ کہ سعید ایک ادھیڑ عمر کی عورت کے ساتھ بیٹھا ہے ٗ تپائی پر بیئر کی بوتل اور دو گلاس رکھے ہیں ٗ اور دونوں محو گفتگو ہیں ٗ سعید اور وہ محترمہ مجھے دیکھ کر چونک پڑے۔ میں نے ازرہِ تکلف ان سے معذرت طلب کی ٗ اور باہر نکلنے ہی والا تھا کہ سعید پکارا :

’’کہاں چلے۔ بیٹھو۔ ‘‘

میں نے سعید سے کہا:

’’میری موجودگی شاید آپ کی گفتگو میں مخل ہو‘‘

سعید نے اُٹھ کر مجھے کاندھوں سے پکڑ کر ایک کرسی پر بٹھا دیا۔

’’ہٹاؤ یار اس تکلف کو۔ ‘‘

پھر اس نے ایک خالی گلاس میں میرے لیے بیئر انڈیلی اور اسے میرے سامنے رکھ دیا:

’’لو ٗ پیو۔ ‘‘

میں نے دو گھونٹ بھرے تو سعید نے اس ادھیڑ عمر کی عورت سے جو لباس اور زیوروں سے کافی مالدار معلوم ہوتی تھی۔ تعارف کرایا۔

’’سلمےٰ رحمانی۔ اور یہ میرے عزیز دوست سعادت حسن منٹو۔ ‘‘

سلمےٰ رحمانی چند ساعتوں کے لیے مجھے بڑے غور اور تعجب سے دیکھتی رہی۔

’’سعید۔ کیا واقعی یہ سعادت حسن منٹو ہیں۔ جن کے افسانوں کے سارے مجموعے میں بڑے غور سے ایک نہیں ٗ دو دو ٗ تین تین مرتبہ پڑھ چکی ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر سعید نے اپنا گلاس اٹھایا۔

’’ہاں ٗ وہی ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ خیال کیا کہ اس سے تمہارا غائبانہ تعارف کرا دوں۔ پر میں نے سوچا تم اس نام سے یقیناًواقف ہو گی۔ شیطان کو کون نہیں جانتا۔ ‘‘

سلمےٰ رحمانی یہ سن کر پیٹ بھر کے ہنسی۔ اور اس کا پیٹ عام پیٹوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی بڑا تھا۔ اس کے بعد مس سلمےٰ رحمانی سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ پڑھی لکھی عورت تھی۔ بڑے اچھے گھرانے سے متعلق تھی۔ تفتیش کیے بغیر مجھے اس کے متعلق چند معلومات حاصل ہو گئیں کہ وہ تین خاوندوں سے طلاق لے چکی ہے۔ صاحبِ اولاد ہے۔ جہاں رہتی ہے۔ اس گھر میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے اور ایک غسل خانہ ہے ٗ وہاں اکیلی رہتی ہے۔ غیر منقولہ جائیداد سے اس کی آمدن چار پانچ سو روپے ماہوار کے قریب ہے۔ ہیرے کی انگوٹھیاں پہنتی ہے۔ ان انگوٹھیوں میں سے ایک میں نے دوسرے روز شام کو سعید کی انگلی میں دیکھی۔ تیسرے روز کو ڈاکٹر سعید کے مطب میں سلمےٰ رحمانی موجود تھی۔ دونوں بہت خوش تھے اور چہچہا رہے تھے۔ میں بھی ان کی بیئر نوشی میں شریک ہو گیا۔ پچھلے ایک ہفتے سے میں دیکھ رہا تھا کہ ڈاکٹر سعید کے کمرہ ءِ تشخیص سے کچھ دُور جو کمرے خالی پڑے رہتے ہیں ٗ ان کی بڑی توجہ سے مرمت کرائی جارہی ہے۔ ان کو سجایا بنایا جارہا ہے۔ فرنیچر جب لایا گیا تو وہی تھا جو میں نے سلمےٰ رحمانی کے گھر دیکھا تھا۔ اتوار کو ڈاکٹر سعید کی چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ کواڑ بند رہتے تاکہ اس کو تنگ نہ کیا جائے۔ مجھے تو وہاں ہر وقت آنے جانے کی اجازت تھی۔ ایک اور چور دروازہ تھا۔ اس کے ذریعے میں اندر پہنچا۔ اور سیدھا ان دو کمروں کا رخ کیا جن کی مرمت کرائی گئی تھی۔ دروازہ کھلا تھا۔ میں اندر داخل ہوا تو حسب توقع ڈاکٹر سعید کی بغل میں سلمےٰ رحمانی بیٹھی تھی۔ سعید نے مجھ سے کہا:

’’میری بیوی سلمےٰ رحمانی سے ملو۔ ‘‘

مجھے اس عورت سے کیا ملنا تھا۔ سینکڑوں بار مل چکا تھا۔ لیکن اگر کسی عورت کی شادی ہو تو اس کو کن الفاظ میں مبارکباد دینی چاہیے۔ اس کے بارے میں میری معلومات صفر کے برابر تھیں۔ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہوں۔ لیکن کہنا بھی کچھ ضرور تھا۔ اس لیے جو منہ میں آیا ٗ باہر نکال دیا :

’’تو آخر اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا۔ ‘‘

میاں بیوی دونوں ہنسے۔ سعید نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ بیئر پیش کی اور ہم شادی کے علاوہ دنیا کے ہر موضوع پر دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ میں شام پانچ بجے آیا تھا۔ گھڑی دیکھی تو نو بجنے والے تھے۔ میں نے سعید سے کہا:

’’لو بھئی۔ میں چلا۔ باتوں باتوں میں اتنی دیر ہو گئی ہے ٗ اس کا مجھے علم نہیں تھا۔ ‘‘

سعید کے بجائے سلمےٰ رحمانی۔ معاف کیجیے گا ٗ سلمےٰ سعید مجھ سے مخاطب ہوئیں :

’’نہیں ٗ آپ نہیں جاسکتے۔ کھانا تیار ہے۔ اگر آپ کہیں تو لگوا دیا جائے۔ ‘‘

خیر ٗ سعید اور اس کی نئی بیوی کے پیہم اصرار پر مجھے کھانا ٗ کھانا پڑا۔ جو بہت خوش ذائقہ اور لذیذ تھا۔ دو برس تک ان کی زندگی بڑی ہموار گزرتی رہی۔ ایک دن میں ناسازئ طبیعت کے باعث بستر ہی میں لیٹا تھا کہ نوکر نے اطلاع دی :

’’ڈاکٹر سعید صاحب تشریف لائے ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’اندر۔ جاؤ‘ ان کو اندر بھیج دو۔ ‘‘

سعید آیا تو میں نے محسوس کیا وہ بہت مضطرب اور پریشان ہے۔ اس نے مجھے کچھ پوچھنے کی زحمت نہ دی اور اپنے آپ بتا دیا کہ سلمےٰ سے اس کی ناچاقی شروع ہو گئی ہے ٗ اس لیے کہ وہ خود سر عورت ہے ٗ کسی کو خاطر ہی میں نہیں لاتی۔ میں نے صرف اس لیے اس سے شادی کر لی تھی کہ وہ اکیلی تھی۔ اس کے عزیز و اقربا اسے پوچھتے ہی نہیں تھے جب وہ بیمار ہوئی۔ اور یہ کوئی معمولی بیماری نہیں تھی۔ ڈپتھریا تھا جسے خناق کہتے ہیں۔ تو میں نے اپنا تمام کام چھوڑ کر اس کا علاج کیا اور خدا کے فضل و کرم سے وہ تندرست ہو گئی۔ پر اب وہ ان تمام باتوں کو پسِ پشت ڈال کر مجھ سے کچھ اس قسم کا سلوک کرتی ہے جو بے حد ناروا ہے۔ ‘‘

تو آغاز کا انجام شروع ہو گیا تھا۔ چونکہ ڈاکٹر سعید کا گھر میرے گھر کے بالکل پاس تھا ٗ اس لیے ان کی لڑائیوں کی اطلاعات ہمیں مختلف ذریعوں سے پہنچتی رہتی تھیں۔ سلمےٰ کے ساتھ دو نوکرانیاں تھیں ٗ بڑی تیز طرار اور ہٹی کٹی۔ ان دونوں کے شوہر تھے۔ وہ ایک طرح اس کے ملازم تھے۔ اس کے اشارے پر جان دے دینے والے۔ اور ڈاکٹر سعید بڑا نحیف اور مختصر مرد۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سعید اور سلمےٰ نے پی رکھی تھی کہ آپس میں دونوں کی چخ چخ ہو گئی۔ ڈاکٹر نے معلوم نہیں نشے میں کیا کہا کہ سلمےٰ آگ بگولا ہو گئی۔ اس نے اپنی دونوں نوکرانیوں کو آواز دی۔ وہ دوڑی دوڑی اندر آئیں۔ سلمےٰ نے ان کو حکم دیا کہ ڈاکٹر کی اچھی طرح مرمت کر دی جائے ٗ ایسی مرمت کہ ساری عمر یاد رکھے۔ یہ حکم ملنا تھا۔ کہ ڈاکٹر سعید کی مرمت شروع ہو گئی۔ ان دونوں نوکرانیوں نے اپنے شوہروں کو بھی اس سلسلے میں شامل کر لیا۔ لاٹھیوں ٗ گھونسوں اور دوسرے تھرڈ ڈگری طریقوں سے اسے خُوب مارا پیٹا گیا کہ اس کا کچومر نکل گیا۔ افتاں و خیزاں بھاگا وہاں سے ٗ اور اوپر اپنی پرانی بیوی کے پاس پہنچ گیا جس نے مستعد نرس کی طرح اس کی خدمت شروع کر دی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ اس نے ان دو کمروں کا رخ قریب قریب دو ماہ تک نہ کیا۔ اب وہ سلمےٰ سے کسی قسم کا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہو گیا۔ سو ہو گیا۔ اب اس کو اپنے گھر سے بہت زیادہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن کبھی کبھی اسے یہ محسوس ہوتا کہ یہ عورت جس سے میں نے شادی کا ڈھونگ رچایا تھا۔ کیوں ابھی تک اس کے سر پر مسلط ہے۔ اس کے گھر سے چلی کیوں نہیں جاتی۔ مگر اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایک دو ماہ اور گزر گئے۔ اس دوران ڈاکٹر سعید کو معلوم ہوا کہ اس کا یوپی کے تاجر سے معاشقہ چل رہا ہے۔ یہ شخص صرف نام ہی کا تاجر تھا۔ اس کے پاس کوئی دولت نہیں تھی۔ صرف ایک مکان تھا۔ جو اس نے ہجرت کرنے کے بعد اپنے نام الاٹ کرا لیا تھا۔ دونوں ہر روز شام کو میرے یہاں آتے۔ شعر و شراب کی محفلیں جمتیں۔ اور میرے سینے پر مونگ دلتی رہتیں۔ ایک دن اس سے یہ کہے بغیر نہ رہا جاسکا۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں اس سے کہا۔

’’اوّل تو تم نے یہ غلطی کی۔ کہ سلمےٰ سے شادی کی۔ دوسری غلطی تم یہ کر رہے ہو کہ اسے اپنے گھر سے باہر نہیں کرتے۔ کیا یہ اس کے باپ کا گھر ہے؟‘‘

ڈاکٹر سعید کی گردن شرمساری کے باعث جھک گئی۔

’’یار! چھوڑو اس قصّے کو۔ ‘‘

’’قصّے کو تو تم اور میں دونوں چھوڑنے کیلیے تیار ہیں۔ لیکن یہ قصّہ ہی تمہیں نہیں چھوڑتا۔ اور نہ چھوڑے گا۔ جبکہ تم کوئی بھی مردانہ وار کوشش نہیں کرتے۔ ‘‘

وہ خاموش رہا۔ میں نے اس پر ایک گولہ اور پھینکا

’’سچ پوچھو تو سعید۔ تم نامرد ہو۔ میں تمہاری جگہ ہوتا تو محترمہ کا قیمہ بنا ڈالتا۔ اصل میں تم ضرورت سے زیادہ ہی شریف ہو۔ ‘‘

سعید نے نقاہت بھری آواز میں صرف اتنا کہا:

’’میں بہت خطرناک مجرم بھی بن سکتا ہوں۔ تم نہیں جانتے‘‘

میں نے طنزاً کہا:

’’سب جانتا ہوں۔ اس سے اتنی مار کھائی۔ اتنے ذلیل ہوئے۔ میں صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ محترمہ تمہارے گھر سے جاتی کیوں نہیں۔ ؟ اس پر اس کا اب کیا حق ہے؟‘‘

سعید نے جواب دیا:

’’وہ چلی گئی ہے۔ اور اس کا سامان بھی۔ بلکہ میرا سامان بھی اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ ‘‘

میں بہت خوش ہوا:

’’لعنت بھیجو اپنے سامان پر۔ چلی گئی ہے۔ بس ٹھیک ہے تم خوش تمہارا خدا خوش۔ چلو اسی خوشی میں وہ بیئر کی یخ بستہ بوتلیں پئیں۔ جو میں اپنے ساتھ لایا ہوں۔ اس کے بعد کھانا کسی ہوٹل میں کھائیں گے۔ ‘‘

سلمےٰ کے جانے کے بعد ڈاکٹر سعید کم از کم ایک ماہ تک کھویا کھویا سا رہا۔ اس کے بعد وہ اپنی نارمل حالت میں آگیا۔ ہر شام اس سے ملاقات ہوتی۔ گھنٹو ں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اور ہنسی مذاق کرتے رہتے۔ کچھ دنوں سے میری طبیعت موسم کی تبدیلی کے باعث بہت مضمحل تھی۔ بستر میں لیٹا تھا کہ ڈاکٹر سعید کا ملازم آیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو یاد کرتے ہیں اور بُلا رہے ہیں۔ ایک ضروری کام ہے۔ میرا جی تو نہیں چاہتا تھا۔ کہ بستر سے اُٹھوں۔ مگر سعید کو نااُمید نہیں کرنا چاہتا تھا‘ اس لیے شیروانی پہن کر اس کے یہاں پہنچا۔ مکان کے باہر دیکھا۔ کہ چار دیگیں چڑھی ہیں۔ قصائی دھڑا دھڑ بوٹیاں کاٹ کاٹ کر صف کے ایک ٹکڑے پر پھینکے چلا جارہا ہے۔ آس پاس کے کئی آدمی جمع تھے۔ میں سمجھا شاید کوئی نذر نیاز دی جا رہی ہے۔ میں نے گوشت کا وہ بڑا سا لوتھڑا دیکھا۔ جس پر کلہاڑی چلائی جارہی تھی۔ اس کے ساتھ دو بانہیں تھیں۔ ! بالکل انسانوں کی مانند۔ ! میں نے پھر غور سے دیکھا۔ قطعی طور پر انسانی بانہیں تھیں۔ سمجھ میں نہ آیا۔ یہ قصہ کیا ہے قصائی کی چھری اور کلہاڑی چل رہی تھی۔ چار دیگوں میں پیاز سرخ کی جارہی تھی۔ اور میرا دل۔ دماغ ان دونوں کے درمیان پھنستا اور دھنستا چلا جارہا تھا۔ کہ ڈاکٹر سعید نمودار ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی پکارا:

’’آئیے۔ آئیے۔ آپ کے کہنے کے مطابق قیمہ تو نہ بن سکا۔ مگریہ بوٹیاں تیار کرالی گئی ہیں۔ ابھی اچھی طرح بھونی نہیں گئیں۔ ورنہ میں آپ کو ایک بوٹی پیش کرتا۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ مرچ مصالحہ ٹھیک ہے یا نہیں!‘‘

یہ سن کر پہلے مجھے متلی آئی۔ اور پھر میں بے ہوش ہو گیا۔

سعادت حسن منٹو

قرض کی پیتے تھے۔

ایک جگہ محفل جمی تھی۔ مرزا غالب وہاں سے اُکتا کر اُٹھے۔ باہر ہوا دار موجود تھا۔ اس میں بیٹھے اور اپنے گھر کا رخ کیا۔ ہوادارسے اتر کر جب دیوان خانے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ متھر ا داس مہاجن بیٹھا ہے۔ غالب نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔

’’اخاہ! متھر ا داس ! بھئی تم آج بڑے وقت پر آئے۔ میں تمہیں بلوانے ہی والا تھا!‘‘

متھر ا داس نے ٹھیٹ مہاجنوں کے انداز میں کہا۔

’’حضور روپوں کو بہت دن ہو گئے۔ فقط دو قسط آپ نے بھجوائے تھے۔ اس کے بعد پانچ مہینے ہو گئے، ایک پیسہ بھی آپ نے نہ دیا۔ ‘‘

اسد اللہ خان غالبؔ مسکرائے

’’بھئی، متھر ا داس دینے کو میں سب دے دوں گا۔ گلے گلے پانی دوں گا۔ دو ایک جائیداد ابھی میری باقی ہے۔ ‘‘

’’اجی سرکار! اس طرح بیوپار ہوچکا۔ نہ اصل میں سے نہ سود میں سے، پہلا ہی ڈھائی ہزار وصول نہیں ہوا۔ چھ سو چھپن سود کے ہو گئے ہیں۔ ‘‘

مرزا غالبؔ نے حقے کی نَے پکڑ کر ایک کش لیا۔

’’لالہ، جس درخت کا پھل کھانا منظور ہوتا ہے، اس کو پہلے پانی دیتے ہیں۔ میں تمہارا درخت ہوں پانی دو تو اناج پیدا ہو۔ ‘‘

متھر ا داس نے اپنی دھوتی کی لانگ ٹھیک کی۔

’’جی، دیوالی کو بارہ دن باقی رہ گئے ہیں۔ کھاتہ بند کیا جائے گا۔ آپ پہلے روپے کا اصل سُود ملا کر دستاویز بنا دیں تو آگے کا نام لیں۔ ‘‘

مرزا غالبؔ نے حقے کی نَے ایک طرف کی

’’لو، ابھی دستاویز لکھے دیتا ہوں۔ پر شرط یہ ہے کہ دو ہزار ابھی ابھی مجھے اور دو۔ ‘‘

متھرا داس نے تھوڑی دیر غورکیا۔

’’اچھا، میں اشٹام منگواتا ہوں۔ بہی ساتھ لایا ہوں۔ آپ منشی غلام رسول عرضی نویس کو بلالیں۔ پر سود وہی سوا روپیہ سینکڑہ ہو گا۔ ‘‘

’’لالہ کچھ تو انصاف کرو۔ بارہ آنے سود لکھوائے دیتا ہوں۔ ‘‘

متھرا داس نے اپنی دھوتی کی لانگ دوسری بار دُرست کی۔

’’سرکار بارہ آنے پر بارہ برس بھی کوئی مہاجن قرض نہیں دے گا۔ آج کل تو خود بادشاہ سلامت کو روپے کی ضرورت ہے۔ ‘‘

ان دنوں واقعی بہادر شاہ ظفر کی حالت بہت نازک تھی، اس کو اپنے اخراجات کے لیے روپے پیسے کی ہر وقت ضرورت رہتی تھی۔ بہادر شاہ تو خیر بادشاہ تھا لیکن مرزا غالب محض شاعر تھے۔ گو وہ اپنے شعروں میں اپنا رشتہ سپاہ گری سے جوڑتے تھے۔ یہ مرزا صاحب کی زندگی کے چالیسویں اور پینتالیسویں سال کے درمیانی عرصے کی بات ہے۔ جب متھرا داس مہاجن نے ان پر عدم ادائیگی قرضہ کے باعث عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کیا۔ مقدمے کی سماعت مرزا صاحب کے مربی اور دوست مُفتی صدر الدین آزردہ کو کرنا تھی۔ جو خود بہت اچھے شاعر اورغالبؔ کے مداح تھے۔ مُفتی صاحب کے مردھانے عدالت کے کمرے سے باہر نکل کر آواز دی۔

’’لالہ متھرا داس مہاجن مدعی اور مرزا اسد اللہ خان غالب مدعاعلیہ حاضر ہیں؟‘‘

متھرا داس نے مرزا غالب کی طرف دیکھا اور مردھے سے کہا۔

’’جی دونوں حاضر ہیں۔ ‘‘

مِردھے نے روکھے پن سے کہا۔ ‘‘

تو دونوں حاضرِ عدالت ہوں۔ ‘‘

مرزا غالب نے عدالت میں حاضر ہو کر مفتی صدر الدین آزردہ کو سلام کیا۔ مفتی صاحب مسکرائے۔

’’مرزا نوشہ، یہ آپ اس قدر قرض کیوں لیا کرتے ہیں۔ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟‘‘

غالب نے تھوڑے توقف کے بعد کہا۔

’’کیا عرض کروں۔ میری سمجھ میں بھی کچھ نہیں آتا۔ ‘‘

مفتی صدر الدین مسکرائے:

’’کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے۔ ‘‘

غالب نے برجستہ کہا۔

’’ایک شعر موزوں ہو گیا ہے مفتی صاحب۔ حکم ہو تو جواب میں عرض کروں۔ ‘‘

’’فرمائیے!‘‘

غالبؔ نے مفتی صاحب اور متھرا داس مہاجن کو ایک لحظے کے لیے دیکھا اور اپنے مخصوص انداز میں یہ شعرپڑھا ؂ قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی، ایک دن مفتی صاحب بے اختیار ہنس پڑے۔

’’خوب، خوب۔ کیوں صاحب! رسی جل گئی، پر بل نہ گیا۔ آپ کے اس شعر کی میں تو ضرور داد دوں گا۔ مگر چونکہ آپ کو اصل اور سود، سب سے اقرار ہے۔ عدالت مدعی کے حق میں فیصلہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ‘‘

مرزا غالبؔ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’مدعی سچا ہے، تو کیوں فیصلہ اس کے حق میں نہ ہو۔ اورمیں نے بھی سچی بات نثر میں نہ کہی، نظم میں کہہ دی۔ ‘‘

مفتی صدر الدین آزردہ نے کاغذات قانون ایک طرف رکھے اور مرزا غالب سے مخاطب ہوئے۔

’’اچھا، تو زرِ ڈگری میں ادا کردوں گا کہ ہماری آپ کی دوستی کی لاج رہ جائے۔ ‘‘

مرزا غالبؔ بڑے خود دار تھے۔ انہوں نے مفتی صاحب سے کہا۔

’’حضور ایسا نہیں ہو گا۔ مجھے متھرا داس کا روپیہ دینا ہے۔ میں بہت جلد ادا کردوں گا۔ ‘‘

مفتی صاحب مسکرائے۔

’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں۔ آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔ میں آپ کا مداح ہوں۔ مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔ ‘‘

غالبؔ بہت خفیف ہوئے۔

’’لاحول ولا۔ آپ میرے بزرگ ہیں۔ مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو، تم ایسی باتیں مت کرو۔ ‘‘

’’تو اور کیسی باتیں کروں‘‘

’’کوئی شعر سنائیے۔ ‘‘

’’سوچتا ہوں۔ ہاں ایک شعر رات کو ہو گیا تھا۔ عرض کیے دیتا ہوں۔ ‘‘

’’فرمائیے‘‘

’’ہم اور وہ سبب رنج آشنا دشمن‘‘

مُفتی صاحب نے اپنے قانونی قلم سے قانونی کاغذ پر یہ حروف لکھے

’’ہم اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن، کہ رکھتا ہے‘‘

مفتی صاحب بہت محظوظ ہوئے۔ یہ شعر آسانی سے سمجھ آسکنے والا نہیں۔ لیکن وہ خود بہت بڑے شاعر تھے۔ اس لیے غالبؔ کی دقیقہ بیانی کو فوراً سمجھ گئے۔ مرزا غالبؔ کچھ دیر خاموش رہے۔ غالباً ان کو اِس بات بے بہت کوفت ہوئی تھی کہ مفتی صاحب اُن پر ایک احسان کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب نے ان سے پوچھا:

’’حضرت آپ خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘

’’جی کوئی خاص بات نہیں ؂ ہے کچھ ایسی ہی بات جو چُپ ہوں ورنہ کیا بات کہ نہیں آتی

’’آپ کو باتیں کرنا تو ماشاء اللہ آتی ہیں۔ ‘‘

غالبؔ نے جواب دیا:

’’جی ہاں۔ لیکن بنانا نہیں آتیں۔ ‘‘

مفتی صدر الدین مسکرائے۔

’’اب آپ جاسکتے ہیں۔ زرِ ڈگری میں ادا کردوں گا۔ ‘‘

مرزا غالبؔ نے مفتی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔

’’آج آپ نے دوستی کے تمسک پر مہر لگا دی۔ جب تک زندہ ہوں، بندہ ہوں۔ ‘‘

مفتی صدر الدین آزردہ نے ان سے کہا۔

’’اب آپ تشریف لے جائیے۔ پر خیال رہے کہ روز روز زر ڈگری میں ادا نہیں کرسکتا، آئندہ احتیاط رہے۔ ‘‘

مرزا غالبؔ تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں غرق ہو گئے۔ مفتی صاحب نے اُن سے پوچھا۔

’’کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘

مرزا غالبؔ چونک کربولے۔

’’جی!میں کچھ بھی نہیں سوچ رہا تھا۔ شاید کچھ سوچنے کی کوشش کررہا تھا۔ کہ ؂ موت کا ایک دن متعین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی مفتی صاحب نے ان سے پوچھا۔

’’کیا آپ کو رات بھر نیند نہیں آتی؟‘‘

مرزا غالبؔ نے مسکرا کر کہا۔

’’کسی خوش نصیب ہی کو آتی ہو گی۔ ‘‘

مفتی صاحب نے کہا۔

’’آپ شاعری چھوڑیئے۔ بس آئندہ احتیاط رہے۔ ‘‘

مرزا غالبؔ اپنے انگرکھے کی شکنیں درست کرتے ہوئے بولے

’’آپ کی نصیحت پر چل کر ثابت قدم رہنے کی خدا سے دعا کروں گا۔ مفتی صاحب! مفت مفت کی زحمت آپ کو ہوئی۔ نقداً سوائے

’’شکر ہے‘‘

کے اور کیا ادا کرسکتا ہوں۔ خیر خدا آپ کو دس گُنا دُنیا میں، اور ستّر گُنا آخرت میں دے گا۔ ‘‘

یہ سُن کر مفتی صدر الدین آزردہ زیر لب مسکرائے۔

’’آخرت والے میں تو آپ کو شریک کرنا محال ہے۔ دنیا کے دس گنے میں بھی آپ کو ایک کوڑی نہیں دوں گا کہ آپ مے خواری کیجیے۔ ‘‘

مرزا غالبؔ ہنسے۔

’’مے خواری کیسی مفتی صاحب!‘‘

؂ مے سے غرض نشاط ہے کِس رو سیاہ کو اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے اور یہ شعر سُنا کر مرزا غالبؔ، عدالت کے کمرے سے باہر چلے گئے۔

سعادت حسن منٹو

قدرت کا اصول

قدرت کا یہ اصول ہے کہ جس چیز کی مانگ نہ رہے ٗ وہ خود بخود یا تو رفتہ رفتہ بالکل نابود ہو جاتی ہے ٗ یا بہت کم یاب۔ اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں سے کتنی اجناس غائب ہو گئی ہیں۔ اجناس کو چھوڑئیے ٗ فیشن لے لیجیے۔ کئی آئے اور کئی دفن ہوئے ٗ معلوم نہیں کہاں۔ دنیا کا یہ چکر بہر صورت اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ ایک آتا ہے ٗ ایک جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لڑکیاں انگیا کا استعمال بہت معیوب سمجھتی تھیں ٗ مگر اب یہ بہت ضروری سمجھا جاتا ہے کہ سہارا ہے۔ امریکہ اور انگلستان سے طرح طرح کی انگیاں آرہی ہیں۔ کچھ ایسی ہیں کہ ان میں کوئی اسٹریپ نہیں ہوتا۔ ایک انگیا جو سب سے قیمتی ہے

’’میڈن فوم‘‘

کہلاتی ہے اسے کوئی بُڑھیا بھی پہن لے تو جوان دکھائی دیتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ شدید انگیا نور جہاں فلم ایکٹریس نے

’’چن وے‘‘

میں پہنی تھی جس کی نمائش سے میرے جمالیاتی ذوق کو بہت صدمہ پہنچا تھا مگر میں کیا کرتا۔ ہر شخص کو اپنی پسند کی چیز کھانے اور پہننے کی آزادی ہے۔ تلون انسان کی فطرت ہے۔ وہ کبھی ایک چیز پر قائم نہیں رہتا اسی لیے اس کے گردو پیش کا ماحول بھی بدلتا رہتا ہے اگر آج اسے مرغیاں مرغوب ہیں تو مارکیٹ میں لاکھوں مرغیاں ایک دم آ جائیں گی۔ لیکن جب اس کا دل ان سے اُکتا جائے گا۔ تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مرغیاں یا تو انڈے دینا بند کر دیں گی۔ یا اسے سئیں گی نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر لوگ پانی پینا بند کر دیں تو سارے کنویں خشک ہو جائیں۔ دریا اپنے کو بیکار سمجھ کر اپنا رُخ بدل لیں۔ میں آج سے پندرہ برس پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ آرگنڈی ( جسے رفل کہا جاتا تھا ) کی بنی بنائی قمیصوں کا رواج عورتوں میں عام تھا لیکن دو تین برسوں کے بعد یہ قمیصیں ایسے غائب ہوئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اتنے برس گزر چکے تھے مگر اب یہ کپڑا جو حیوانوں کی کھال کے مانند اکڑا ہوتا تھا۔ کسی عورت کے بدن پر نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ اس کا بنانا یا تو یکسر بند کر دیا گیا ہے۔ یا بہت کم مقدار میں تیار کیا جاتا ہے۔ میں اب اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہم جنسیت کا بازار پنجاب میں ہر جگہ گرم تھا۔ مردوں کی اکثریت اس غیر فطری فعل سے شغل فرماتی تھی۔ اور ایسے لڑکے بہ افراط موجود تھے جن کی ادائیں دیکھ کر نوخیز لڑکیاں بھی شرمائیں۔ ان کی چال ڈھال کچھ ایسی قیامت خیز ہوتی تھی کہ تعیش پسند مرد۔ اپنی عورتوں کو بھول جاتے تھے۔ میں اسی زمانے کا ذکر کر رہا ہوں۔ جب لڑکیوں کے بدلے ان کی مخالف جنس کا دور دورہ تھا۔ میں اپنے مکان کی بیٹھک میں اپنے ایک ہندو دوست کے ساتھ تاش کھیل رہا تھا کہ باہر شور و غل کی آوازیں سنائی دیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کوئی بہت بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔ امر تسر میں ہنگامے ہونا ان دنوں معمولی بات تھی۔ میں نے سوچا کہ ہندو مسلم فساد ہو گیا ہے لیکن اپنے اس اندیشے کا ذکر ہندو دوست سے نہ کیا جو میرا ہم جماعت تھا۔ ہم دونوں گلی سے باہر نکلے۔ دیکھا کہ بازار میں سب دوکانیں بند ہیں۔ بڑی حیرت ہوئی کہ ماجرا کیا ہے۔ ہم گلی کے باہر کھڑے تھے کہ اتنے میں شہر کا ایک بہت بڑا غنڈا آیا۔ اس کے ہاتھ میں ہاکی تھی۔ خون سے لتھڑی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے سلام کیا۔ اس لیے کہ وہ مجھے پہچانتا تھا کہ میں ایک ذی اثر آدمی کا بیٹا ہوں۔ سلام کرنے کے بعد اس نے میرے دوست کی طرف دیکھا اور مجھ سے مخاطب ہوا:

’’میاں صاحب۔ بابوجی سے کہیے کہ یہاں کھڑے نہ رہیں۔ آپ انہیں اپنے مکان میں لے جائیں۔ ‘‘

بعد میں معلوم ہوا کہ جو خون خرابہ ہوا، اس کا باعث میرا دوست تھا‘ اس کے کئی طالب تھے۔ دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ جن میں اس کی وجہ سے لڑائی ہوئی جس میں کئی آدمی زخمی ہوئے۔ شہر کا جو سب سے بڑا غنڈا تھا، چوتھے پانچویں روز اسے دوسری پارٹی نے اس قدر زخمی کر دیا کہ دس دن اسے ہسپتال میں رہنا پڑا جو اس کی غنڈا گردی کا سب سے بڑا ریکارڈ تھا۔ اہلِ لاہور اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ یہاں ایک لڑکا ٹینی سنگھ کے نام سے منسوب تھا۔ جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا۔ اس کے ایک پرستار نے اسے ایک بہت بڑی موٹر کار دے رکھی تھی۔ وہ اس میں بڑے ٹھاٹ سے آتا اور دوسرے لڑکے جو اسی کے زُمرے میں آتے تھے۔ بہت جلتے۔ مگر لاہور میں اس وقت ٹینی سنگھ کا ہی طوطی بولتا تھا۔ میں نے اس کو دیکھا۔ واقعی خوبصورت تھا۔ اب یہ حال ہے کہ کوئی ٹینی سنگھ نظر نہیں آتا۔ کالجوں میں چلے جائیے ٗ وہاں آپ کو ایسا کوئی لڑکا نظر نہیں آئے گا جس میں نسوانیت کے خلاف کوئی چیلنج ہو، اس لیے کہ اب ان کی جگہ لڑکیوں نے لے لی ہے۔ قدرت نے ان کی انتہا کر دی۔

سعادت حسن منٹو

قبض

نئے لکھے ہُوئے مکالمے کا کاغذ میرے ہاتھ میں تھا۔ ایکٹر اور ڈائریکٹر کیمرے کے پاس سامنے کھڑے تھے۔ شوٹنگ میں ابھی کچھ دیر تھی۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو کے ساتھ والا صابن کا کارخانہ چل رہا تھا۔ ہر روز اس کارخانے کے شور کی بدولت ہمارے سیٹھ صاحب کا کافی نقصان ہوتا تھا۔ کیونکہ شوٹنگ کے دوران میں جب ایکا ایکی اس کارخانے کی کوئی مشین چلنا شروع ہو جاتی۔ تو کئی کئی ہزار فٹ فلم کا ٹکڑا بیکار ہوجاتا اور ہمیں نئے سرے سے کئی سینوں کی دوبارہ شوٹنگ کرنا پڑتی۔ ڈائریکٹر صاحب ہیرو اور ہیروئن کے درمیان کیمرے کے پاس کھڑے سگرٹ پی رہے تھے اور میں سستانے کی خاطر کرسی پر ٹانگوں سمیت بیٹھا تھا۔ وہ یوں کہ میری دونوں ٹانگیں کرسی کی نشست پر تھیں اور میرا بوجھ نشست کی بجائے ان پر تھا۔ میری اس عادت پر بہت لوگوں کو اعتراض ہے مگر یہ واقعہ ہے کہ مجھے اصلی آرام صرف اسی طریقے پر بیٹھنے سے ملتا ہے۔ نینا جس کی دونوں آنکھیں بھینگی تھیں ڈائریکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا۔

’’صاحب، وہ بولتا ہے کہ تھوڑا کام باقی رہ گیا ہے پھر شور بند ہو جائے گا۔ ‘‘

یہ روز مرہ کی بات تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی آدھ گھنٹے تک کارخانے میں صابن کٹتے اور ان پر ٹھپے لگتے رہیں گے۔ چنانچہ ڈائریکٹر صاحب ہیرو اور ہیروئن سمیت اسٹوڈیو سے باہر چلے گئے۔ میں وہیں کرسی پر بیٹھا رہا۔ سقفی لیمپ کی ناکافی روشنی میں سیٹ پر جو چیزیں پڑیں تھیں ان کا درمیانی فاصلہ اصلی فاصلے پر کچھ زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔ اور گیروے رنگ کے تھری پلائی وڈ کے تختے جو دیواروں کی صورت میں کھڑے تھے پست قد دکھائی دیتے تھے۔ میں اس تبدیلی پر غور کررہا تھا کہ پاس ہی سے آواز آئی

’’السلام علیکم۔ ‘‘

میں نے جواب دیا

’’وعلیکم السلام‘‘

اور مڑ کر دیکھا تو مجھے ایک نئی صورت نظر آئی۔ میری آنکھوں میں

’’تم کون ہو؟‘‘

کا سوال تیرنے لگا۔ آدمی ہوشیارتھا، فوراً کہنے لگا۔

’’جناب میں آج ہی آپ کی کمپنی میں داخل ہُوا ہُوں۔ میرا نام عبدالرحمن ہے۔ خاص دہلی شہر کا رہنے والا ہُوں۔ آپکا وطن بھی تو شاید دہلی ہی ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’جی نہیں۔ میں پنجاب کا باشندہ ہُوں۔ ‘‘

عبدالرحمن نے جیب سے عینک نکالی۔

’’معاف فرمائیے گا، چونکہ ڈائریکٹر صاحب نے عینک اتار دینے کا حکم دیا تھا اس لیے۔ ‘‘

اس دوران میں اُس نے عینک بڑی صفائی سے کانوں میں اٹکالی اور میری طرف پسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیا۔

’’واللہ میں تو یہی سمجھا تھا کہ آپ دہلی کے ہیں، یعنی آپ کی زبان میں قطعاً پنجابیت نہیں۔ ماشاء اللہ کیا مکالمہ لکھا ہے۔ قلم توڑ دیا ہے واللہ۔ یہ اسٹوری بھی تو آپ ہی نے لکھی ہے؟‘‘

عبدالرحمن نے جب یہ باتیں کیں تو اس کا قد بھی میری نظر میں تھری پلائی وڈ کے تختوں کی طرح پست ہو گیا۔ میں نے روکھے پن کے ساتھ کہا۔

’’جی نہیں۔ ‘‘

وہ اور زیادہ لچکیلا ہو گیا۔

’’عجب زمانہ ہے صاحب، جو اہلیتوں کے مالک ہیں ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ یہ بمبئی شہر بھی تو میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔ عجب اوٹ پٹانگ زبان بولتے ہیں یہاں کے لوگ، پندرہ دن مجھے یہاں آئے ہوئے ہو گئے ہیں مگر کیا عرض کروں سخت پریشان ہو گیا ہوں۔ آج آپ سے ملاقات ہو گئی۔ ‘‘

اس کے بعد اس نے اپنے ہاتھ ملکر اس روغن کی مروڑیاں بنانا شروع کردیں جو چہرے پر لگاتے وقت اسکے ہاتھوں پر رہ گیا تھا۔ میں نے جواب میں صرف

’’جی ہاں‘‘

کردیا اور خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے کاغذ کھولا اور رواروی میں لکھے ہُوئے مکالموں پر نظرثانی شروع کردی۔ چند غلطیاں تھیں جن کو درست کرنے کے لیے میں نے اپنا قلم نکالا۔ عبدالرحمن ابھی تک میرے پاس کھڑا تھا۔ مجھے اس کے کھڑے ہونے کے انداز سے ایسا محسوس ہُوا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ چنانچہ میں نے پوچھا۔

’’فرمائیے۔ ‘‘

اس نے بڑی لجاجت کے ساتھ کہا۔

’’میں ایک بات عرض کروں۔ ‘‘

’’بڑے شوق سے۔ ‘‘

’’آٰپ اس طرح ٹانگیں اوپر کرکے نہ بیٹھا کریں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

اس نے جھک کر کہا

’’بات یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے قبض ہو جایا کرتا ہے۔ ‘‘

’’قبض؟‘‘

میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔

’’قبض کیسے ہوسکتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر میرے جی میں آئی کہ اس سے کہوں

’’میاں ہوش کی دوا لو۔ گھاس تو نہیں کھا گئے۔ مجھے اس طرح بیٹھتے بیس برس ہو گئے۔ آج کیا تمہارے کہنے سے مجھے قبض ہو جائیگا۔ ‘‘

مگر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ بات بڑھ جائیگی اور مجھے بیکار کی مغز دردی کرنا پڑے گی۔ وہ مسکرایا۔ عینک کے شیشوں کے پیچھے اس کی آنکھوں کے آس پاس کا گوشت سکڑ گیا۔

’’آپ نے مذاق سمجھا ہے حالانکہ صحیح بات یہی ہے کہ ٹانگیں جوڑ کر پیٹ کے ساتھ لگا کر بیٹھنے سے معدے کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ میں نے تو اپنی ناچیز رائے پیش کی ہے۔ مانیں نہ مانیں یہ آپکو اختیار ہے۔ ‘‘

میں عجب مشکل میں پھنس گیا۔ اس کو اب میں کیا جواب دیتا۔ قبض۔ یعنی قبض ہو جائیگا۔ بیس برس کے دوران میں مجھے قبض نہ ہوا لیکن آج اس مسخرے کے کہنے سے مجھے قبض ہو جائیگا۔ قبض کھانے پینے سے ہوتا ہے نہ کہ کرسی یا کوچ پر بیٹھنے سے۔ جس طرح میں کرسی پر بیٹھتا ہوں اس سے تو آدمی کو راحت ہوتی ہے۔ دوسروں کو نہ سہی لیکن مجھے تو اس سے آرام ملتا ہے اور یہ سچی بات ہے کہ مجھے ٹانگیں جوڑ کر سینے کے ساتھ لگا دینے سے ایک خاص قسم کی فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اسٹوڈیو میں عام طور پر شوٹنگ کے دوران میں کھڑا رہنا پڑتا ہے جس سے آدمی تھک جاتا ہے۔ دوسرے نامعلوم کس طریقے سے اپنی تھکن دُور کرتے ہیں مگر میں تو اسی طریقے سے دُور کرتا ہوں۔ کسی کے کہنے پر میں اپنی یہ عادت کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ خواہ قبض کے بجائے مجھے سرسام ہو جائے۔ یہ ضد نہیں، دراصل بات یہ ہے کہ کرسی پر اس طرح بیٹھنے کا انداز میری عادت نہیں بلکہ میرے جسم کا ایک جائز مطالبہ ہے۔ جیسا کہ میں اس سے پہلے عرض کر چکا ہُوں اکثر لوگوں کو میرے اس طرح بیٹھے کے انداز پر اعتراض رہا ہے۔ اس اعتراض کی وجہ نہ میں نے ان لوگوں سے کبھی پوچھی ہے اور نہ انھوں نے کبھی خود بتائی ہے۔ اعتراض کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو میں اس معاملے میں اچھی طرح دلیل سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ کوئی آدمی مجھے قائل نہیں کرسکتا۔ جب عبدالرحمن نے مجھ پر نکتہ چینی کی تو میں بھنّا گیا اور اس کا یُوں شکریہ ادا کیا جیسے کوئی یہ کہے۔

’’لعنت ہو تم پر۔ ‘‘

اس شکریہ کی رسید کے طور پر اس نے اپنے موٹے ہونٹوں پر میلی سی مسکراہٹ پیدا کی اور خاموش ہو گیا۔ اتنے میں ڈائریکٹر ہیرو اور ہیروئن آگئے اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو اسی بہانے سے عبدالرحمن کے قبض سے نجات حاصل ہوئی۔ اس کی پہلی ملاقات پر ذیل کی باتیں میرے دماغ میں آئیں۔ -1 یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا بھرتی ہُوا ہے بہت بڑا چغد ہے۔ -2 یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا بھرتی ہُوا ہے سخت بد تمیز ہے۔ -3 یہ ایکسٹرا جو کمپنی نے نیا بھرتی کیا ہے پرلے درجہ کا مغز چاٹ ہے۔ -4 یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا داخل ہوا ہے مجھے اس سے بے حد نفرت پیدا ہو گئی ہے۔ اگر مجھے کسی شخص سے نفرت پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی زندگی کچھ عرصے کے لیے زیادہ متحرک ہو جائے گی۔ میں نفرت کرنے کے معاملے میں کافی مہارت رکھتا ہوں۔ آپ پوچھیں گے بھلا نفرت میں مہارت کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن میں آپ سے کہوں گا کہ ہر کام کرنے کے لیے ایک خاص سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے اور نفرت میں چونکہ شدت زیادہ ہے اس لیے اس کے عامل کا ماہر ہونا اشد ضروری ہے۔ محبت ایک عام چیز ہے۔ حضرت آدم سے لیکر ماسٹر نثار تک سب محبت کرتے آئے ہیں مگر نفرت بہت کم لوگوں نے کی ہے اور جنہوں نے کی ہے ان میں سے اکثر کو اس کا سلیقہ نہیں آیا۔ نفرت محبت کے مقابلے میں بہت زیادہ لطیف اور شفاف ہے۔ محبت میں مٹھاس ہے جو اگر زیادہ دیر تک قائم رہے تو دل کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔ مگر نفرت میں ایک ایسی ترشی ہے جو دل کا قوام دُرست رکھتی ہے۔ میں تو اس بات کا قائل ہُوں کہ نفرت اس طریقے سے کرنا چاہیے کہ اس میں محبت کرنے کا مزا ملے۔ شیطان سے نفرت کرنے کا جو سبق ہمیں مذہب نے سکھایا ہے مجھے اس سے سو فی صدی اتفاق ہے۔ یہ ایک ایسی نفرت ہے جو شیطان کی شان کے خلاف نہیں۔ اگر دنیا میں شیطان نام کی کوئی ہستی موجود ہے تو وہ یقیناًاس نفرت سے جو کہ اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے خوش ہوتی ہو گی اور سچ پوچھیے تو یہ عالمگیر نفرت ہی شیطان کی زندگی کا ثبوت ہے۔ اگر ہمیں اس سے نہایت ہی بھونڈے طریقے پر نفرت کرنا سکھایا جاتا تو دنیا ایک بہت بڑی ہستی کے تصور سے خالی ہوتی۔ میں نے عبدالرحمن سے نفرت کرنا شروع کردی جس کا نتیجہ یہ ہُوا، کہ میری اور اس کی دونوں کی زندگی میں حرکت پیدا ہو گئی۔ اسٹوڈیو میں اور اسٹوڈیو کے باہر جہاں کہیں اس سے میری ملاقات ہوتی میں اس کی خیریت دریافت کرتا اور اس سے دیر تک باتیں کرتا رہتا۔ عبدالرحمن کا قد متوسط ہے اور بدن گُٹھا ہُوا۔ جب وہ نیکر پہن کر آتا تو اس کی بے بال پنڈلیوں کا گوشت فٹ بال کے نئے کور کے چمڑے کی طرح چمکتا ہے۔ ناک موٹی جس کی کوٹھی اُبھری ہُوئی ہے۔ چہرے کے خطوط منگولی ہیں۔ ماتھا چوڑا جس پر گہرے زخم کا نشان ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی شیطان لڑکے نے اپنے ڈسک کی لکڑی میں چاقو سے چھوٹا سا گڑھا بنا دیا ہے۔ پیٹ سخت اور اُبھرا ہو۔ حافظ قرآن ہے۔ چنانچہ بات بات میں آیتوں کے حوالے دیتا ہے۔ کمپنی کے دوسرے ایکسٹرا اس کی اس عادت کو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انھیں احترام کے باعث چپ ہو جانا پڑتا ہے۔ ڈائریکٹر صاحب کو جب میری زبانی معلوم ہوا کہ عبدالرحمن صاف زبان بولتا ہے اور غلطی نہیں کرتا تو انھوں نے اسے ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایک ہی فلم میں اسے دس مختلف آدمیوں کے بھیس میں لایا گیا۔ سفید پوشاک پہنا کراسے ہوٹل میں بیرا بنا کر کھڑا کردیا گیا۔ سر پر لمبے لمبے بال لگا کر اور چمٹا ہاتھ میں دے کر ایک جگہ اس کو سادھو بنایا گیا۔ چپڑاسی کی ضرورت محسوس ہُوئی تو اس کے چہرے پر گوند سے لمبی داڑھی چپکا دی گئی۔ ریلوے پلیٹ فارم پر بڑی مونچھیں لگا کر اس کو ٹکٹ چیکر بنا دیا گیا۔ یہ سب میری بدولت ہوا، اس لیے کہ مجھے اس سے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ عبدالرحمن خوش تھا کہ چند ہی دنوں میں وہ اتنا مقبول ہو گیا اور میں خوش تھا کہ دوسرے ایکسٹرا اس سے حسد کرنے لگے ہیں، میں نے موقعہ دیکھ کر سیٹھ سے سفارش کی، چنانچہ تیسرے مہینے اس کی تنخواہ میں دس روپے کا اضافہ بھی ہو گیا۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ کمپنی کے پچیس ایکسٹراؤں کی آنکھوں میں وہ خار بن کے کھٹکنے لگا۔ لُطف یہ ہے کہ عبدالرحمن کو اس بات کی مطلق خبر نہ تھی کہ میری وجہ سے اس کی تنخواہ میں اضافہ ہُوا ہے اور میری سفارشوں کے باعث کمپنی کے دوسرے ڈائریکٹر اس سے کام لینے لگے ہیں۔ فلم کمپنی میں کام کرنے کے علاوہ میں وہاں کے ایک مقامی ہفتہ وار اخبار کو بھی ایڈٹ کرتا ہُوں۔ ایک روز میں نے اپنا اخبار عبدالرحمن کے ہاتھ میں دیکھا۔ جب وہ میرے قریب آیا تو مسکرا کر اس نے پرچے کی ورق گردانی شروع کردی۔

’’منشی صاحب۔ یہ رسالہ آپ ہی۔ ‘‘

میں نے فوراً ہی جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’ماشاء اللہ، کتنا خوبصورت پرچہ نکالتے ہیں آپ۔ کل رات اتفاق سے یہ میرے ہاتھ آگیا۔ بہت دلچسپ ہے، اب میں ہر ہفتے خریدا کروں گا۔ ‘‘

یہ اُس نے اس انداز میں کہا جیسے مجھ پر بڑا احسان کررہا ہے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کردیا، چنانچہ بات ختم ہو گئی۔ کچھ دنوں کے بعد جبکہ میں اسٹوڈیو کے باہر نیم کے پیڑتلے ایک ٹُوٹی ہُوئی کرسی پر بیٹھا اپنے اخبار کے لیے ایک کالم لکھ رہا تھا۔ عبدالرحمن آیا اور بڑے ادب کے ساتھ ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ میں نے اسکی طرف دیکھا اور پوچھا

’’فرمائیے۔ ‘‘

’’آپ فارغ ہو جائیں تو میں۔ ‘‘

’’میں فارغ ہُوں۔ فرمائیے آپکو کیا کہنا ہے۔ ‘‘

اس کے جواب اُس نے ایک رنگین لفافہ کو کھولا اور اپنی تصویر میری طرف بڑھا دی۔ تصویرہاتھ میں لیتے ہی جب میری نظر اس پر پڑی تو مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔ یہ ہنسی چونکہ بے اختیار آئی تھی۔ اس لیے میں اسے روک نہ سکا۔ بعد میں جب مجھے اس بات کا احساس ہُوا کہ عبدالرحمن کو یہ ناگوار معلوم ہُوئی ہو گی تو میں نے کہا۔

’’عبدالرحمن صاحب اتفاق دیکھیے میں صبح سے پریشان تھا کہ ٹائیٹل پیچ کے بعد کا صفحہ کیسے پُر ہو گا۔ دو تصویروں کے بلاک مل گئے تھے۔ مگر ایک کی کمی تھی۔ اس وقت بھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے اپنا فوٹو میری طرف بڑھا دیا۔ بہت اچھا فوٹو ہے۔ بلاک بھی اس کا خوب بنے گا۔ ‘‘

عبدالرحمن نے اپنے موٹے ہونٹ اندر کی طرف سکیڑ لیے۔

’’آپ کی بڑی عنایت ہے۔ تو۔ تو کیا یہ تصویر چھپ جائے گی؟‘‘

میں نے تصویرکو ایک نظر اور دیکھا اور مسکرا کرکہا۔

’’کیوں نہیں۔ اس ہفتے ہی کے لیے تو میں یہ کہہ رہا تھا۔ ‘‘

اس پر عبدالرحمن نے دوبارہ شکریہ ادا کیا۔ پرچے میں تصویر کے ساتھ ایک چھوٹا سا نوٹ نکل جائے تو میں اور بھی ممنون ہوں گا۔ جیسا آپ مناسب خیال فرمائیں۔ تو۔ تو۔ معاف کیجیے۔ میں آپ کے کام میں مخل ہو رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ آہستہ آہستہ ملتا ہُوا چلا گیا۔ میں نے اب تصویر کو غور سے دیکھا۔ آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی، ایک ہاتھ میں بمبئی کی بھاری بھر کم ڈائرکٹری تھی جس پر چھپے ہوئے حروف بتا رہے تھے کہ سن سولہ کی یہ کتاب فوٹو گرافر نے اپنے گاہکوں کو تعلیم یافتہ دکھانے کے لیے ایک یا دو آنے میں خریدی ہو گی۔ دوسرے ہاتھ میں جو اوپر کو اُٹھا ہوا تھا ایک بہت بڑا پائپ تھا۔ اس پائپ کی ٹونٹی عبدالرحمن نے اس انداز سے اپنے منہ کی طرف بڑھائی تھی کہ معلوم ہوتا تھا چائے کا پیالہ پکڑے ہے۔ لبوں پر چائے کا گھونٹ پیتے وقت جو ایک خفیف سا ارتعاش پیدا ہُوا کرتا ہے وہ تصویر میں اس کے ہونٹوں پر جما ہوا دکھائی دیتا تھا۔ آنکھیں کیمرے کی طرف دیکھنے کے باعث کُھل گئی تھیں، ناک کے نتھنے تھوڑے پھول گئے تھے۔ سینے میں ابھار پیدا کرنے کی کوشش رائیگاں نہیں گئی تھی۔ کیونکہ وہ اچھا خاصا کارٹون بن گیا تھا۔ یاد رہے کہ عبدالرحمن انگریزی لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتا اور تمباکو سے پرہیز کرتا ہے۔ میں نے اپنی گرہ سے دام خرچ کرکے اس کے فوٹو کا بلاک بنوایا اور وعدے کے مطابق ایک تعریفی نوٹ کیساتھ پرچے میں چھپوا دیا۔ دوسرے روز دس بجے کے قریب میں کمپنی کے غلیظ ریسٹوران میں بیٹھا کڑوی چائے پی رہا تھا کہ عبدالرحمن تازہ پرچہ جس میں اسکی تصویر چھپی تھی۔ ہاتھ میں لیے داخل ہُوا اور آداب عرض کرکے میری کرسی کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہونٹ اندر کی طرف سمٹ رہے تھے، آنکھوں کے آس پاس کا گوشت سکڑ رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ممنون ہورہا ہے۔ بغل میں پرچہ دبا کر اس نے ہاتھ بھی ملنے شروع کردیئے۔ شکریے کے کئی فقرے اس نے دل ہی دل میں بنائے ہونگے۔ مگر نا موزوں سمجھ کر انھیں منسوخ کردیا ہو گا۔ جب میں نے اسے اس اُدھیڑ بُن میں دیکھا توماتم پرسی کے انداز میں اس سے کہا۔

’’تصویر چھپ گئی آپ کی؟۔ نوٹ بھی پڑھ لیا آپ نے؟‘‘

’’جی ہاں۔ آپ۔ کی بڑی نوازش ہے۔ ‘‘

ایک دم میرے سینے میں درد کی ٹیس اٹھی میرا رنگ پیلا پڑ گیا۔ یہ درد بہت پرانا ہے۔ جس کے دورے مجھے اکثر پڑتے رہتے ہیں۔ میں اس کے دفیعے کے لیے سینکڑوں علاج کرچکا ہوں۔ مگر لاحاصل چائے پیتے پیتے یہ درد ایک دم اُٹھا اور سارے سینے میں پھیل گیا۔ عبدالرحمن نے میری طرف غور سے دیکھا اور گھبرائے ہُوئے لہجہ میں کہا۔

’’آپکے دشمنوں کی طبیعت ناساز معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

میں اس وقت ایسے موڈ میں تھا کہ دشمنوں کو بھی اس موذی مرض کا شکار ہوتے نہ دیکھ سکتا، چنانچہ میں نے بڑے روکھے پن کے ساتھ کہا۔

’’کچھ نہیں، میں بالکل ٹھیک ہُوں۔ ‘‘

’’جی نہیں، آپ کی طبیعت ناساز ہے۔ ‘‘

وہ سخت گھبرا گیا۔

’’میں۔ میں۔ میں آپ کی کیا خد مت کرسکتا ہوں؟‘‘

’’میں بالکل ٹھیک ہوں، آپ مطلق فکر نہ کریں۔ سینے میں معمولی سا درد ہے، ابھی ٹھیک ہو جائیگا۔ ‘‘

’’سینے میں درد ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گیا۔

’’سینے میں درد ہے تو۔ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو قبض ہے اور قبض۔ ‘‘

قریب تھا کہ میں بھنّا کر اس کو دو تین گالیاں سُنا دوں مگرمیں نے ضبط سے کام لیا۔

’’آپ۔ حد کرتے ہیں۔ آپ۔ سینے کے درد سے قبض کا کیا تعلق؟‘‘

’’جی نہیں۔ قبض ہو تو ایک سو ایک بیماری پیدا ہو جاتی ہے اور سینے کا درد تو یقیناً قبض ہی کا نتیجہ ہے۔ آپکی آنکھوں کی زردی صاف ظاہر کرتی ہے کہ آپکو پرانا قبض ہے اور جناب قبض کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو ایک دو روز تک اجابت نہ ہو۔ جی نہیں، آپ جس کو با فراغت اجابت سمجھتے ہیں ممکن ہے وہ قبض ہو۔ سینہ اور پیٹ تو پھر بالکل پاس پاس ہیں۔ قبض سے تو سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ۔ دراصل آپکی کمزوری کا باعث بھی یہی قبض ہے۔ ‘‘

عبدالرحمن چند لمحات کے لیے بالکل خاموش ہو گیا۔ لیکن فوراً ہی اس نے اپنے لہجہ میں زیادہ چکناہٹ پیدا کرکے کہا۔

’’آپ نے کئی ڈاکٹروں کا علاج کیا ہو گا۔ ایک معمولی سا علاج میرا بھی دیکھیے۔ خدا کے حکم سے یہ مرض بالکل دُور ہو جائیگا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کون سا مرض؟‘‘

عبدالرحمن نے زور زور سے ہاتھ ملے

’’یہی۔ یہی، قبض!‘‘

لاحول ولا، اس بیوقوف سے کس نہ کہہ دیا کہ مجھے قبض ہے، صرف میرے سینے میں درد ہے جوکہ بہت پرانا ہے اور سب ڈاکٹروں کی متفقہ رائے ہے کہ اس کا باعث اعصاب کی کمزوری ہے۔ مگریہ نیم حکیم خطرہ جان برابر کہے جارہا ہے کہ مجھے قبض ہے، قبض ہے، قبض ہے، کہیں ایسا نہ ہو میں اس کے سر پر غصے میں آکر چائے کا پیالہ دے ماروں۔ عجب نامعقول آدمی ہے، اپنی طبابت کا پٹارہ کھول بیٹھا ہے اور کسی کی سُنتا ہی نہیں۔ غصے کے باعث میں بالکل خاموش ہو گیا۔ اس خاموشی کا عبدالرحمن نے فائدہ اٹھایا اور قبض کا علاج بتانا شروع کردیا۔ خدا معلوم اس نے کیا کیا کچھ کہا۔

’’بات یہ ہے کہ پیٹ میں آپ کے سُدّے پڑ گئے ہیں۔ آپ کو روز اجابت تو ہو جاتی ہے مگر یہ سُدّے باہر نہیں نکلتے۔ معدے کا فعل چونکہ درست نہیں رہا اس لیے انتڑیوں میں خشکی پیدا ہو گئی ہے۔ رطوبت یعنی وہ لیسدار مادو جو فضلے کو نیچے پھسلنے میں مدد دیتا ہے آپکے اندر بہت کم رہ گیا ہے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ رفع حاجت کے وقت آپ کو ضرورت سے زیادہ زور لگانا پڑتا ہو گا۔ قبض کھولنے کے لیے عام طور پر جو انگریزی مسہل دوائیں بازار میں بِکتی ہیں بجائے فائدے کے نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس لیے کہ ان سے عادت پڑ جاتی ہے اور جب عادت پڑ جائے تو آپ خیال فرمائیے کہ ہرروز پاخانہ لانے کے لیے آپ کو تین آنے خرچ کرنے پڑیں گے۔ یونانی دوائیں اوّل تو ہم لوگوں کے مزاج کے موافق ہوتی ہیں دوسرے۔ ‘‘

میں نے تنگ آکر اس سے کہا۔

’’آپ چائے پئیں گے؟‘‘

اور اس کا جواب سنے بغیر ہوٹل والے کو آرڈر دیا

’’گُلاب، ان کے لیے ایک ڈبل چائے لاؤ۔ ‘‘

چائے فوراً ہی آگئی، عبدالرحمن کرسی گھسیٹ کربیٹھا تو میں اٹھ کھڑا ہوا

’’معاف کیجیے گا، مجھے ڈائریکٹر صاحب کے ساتھ ایک سین کے متعلق بات چیت کرنا ہے۔ پھر کبھی گفتگو ہو گی۔ ‘‘

یہ سب کچھ اس قدر جلدی میں ہوا کہ قبض کی باقی داستان عبدالرحمن کی زبان پر منجمد ہو گئی اور میں رسٹوران سے باہر نکل گیا۔ درد شروع ہونے کے باعث میری طبیعت خراب ہو گئی تھی، اس کی باتوں نے اس کی تکدر میں اور بھی اضافہ کردیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیوں اس بات پر مصر ہے کہ مجھے قبض ہے۔ میری صحت دیکھ کر وہ کہہ سکتا تھا کہ میں مدقوق ہُوں جیسا کہ عام لوگ میرے متعلق کہتے آئے ہیں۔ وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ مجھے سِل ہے۔ میری انتڑیوں میں ورم ہے۔ میرے معدے میں رسولی ہے، میرے دانت خراب ہیں۔ مجھے گٹھیا ہے مگر بار بار اس کا اس بات پر زور دینا کیا معنی رکھتا تھاکہ مجھے قبض ہورہا ہے یعنی اگر مجھے واقعی قبض تھا تو اس کا احساس مجھے پہلے ہونا چاہیے تھا نہ کہ حافظ عبدالرحمن کو؟۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ خواہ مخواہ مجھے قبض کا بیمار کیوں بنا رہا تھا۔ ہوٹل سے نکل کر میں ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ کرسی پر بیٹھے ہیرو، ولن اور تین چار ایکسٹریسوں کے ساتھ گپیں ہانک رہے تھے۔ آؤٹ ڈور شوٹنگ چونکہ بادلوں کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔ اس لیے سب کو چھٹی تھی۔ مجھے جب ہیرو کے پاس بیٹھے تین چار منٹ گزر گئے تو معلوم ہوا کہ حافظ عبدالرحمن کی باتیں ہورہی ہیں۔ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ ایک ایکسٹرا نے اس کے خلاف کافی زہر اُگلا۔ دوسرے نے اس کی مختلف عادات کا مضحکہ اڑایا۔ تیسرے نے اس کے مکالمہ ادا کرنے کی نقل اتاری۔ ہیرو کو حافظ عبدالرحمن کے خلاف یہ شکایت تھی کہ وہ اس کی بول چال میں زبان کی غلطیاں نکالتا رہتا ہے، ولن نے ڈائریکٹر صاحب سے کہا۔

’’بڑا واہیات آدمی ہے صاحب، کل ایک آدمی سے کہہ رہا تھا کہ میرا ایکٹنگ بالکل فضول ہے۔ آپ اس کو ایک بار ذرا ڈانٹ پلا دیجیے‘‘

ڈائریکٹر صاحب مسکرا کر کہنے لگے

’’تم سب کو اس کے خلاف شکایت ہے مگر اسے میرے خلاف ایک زبردست شکایت ہے۔ ‘‘

تین چار آدمیوں نے اکٹھے پوچھا۔

’’وہ کیا۔ ‘‘

ڈائریکٹر صاحب نے پہلی مسکراہٹ کو طویل بنا کر کہا

’’وہ کہتا ہے کہ مجھے دائمی قبض ہے جس کے علاج کی طرف میں نے کبھی غور نہیں کیا۔ میں اس کو کئی بار یقین دِلا چکا ہُوں کہ مجھے قبض وبض نہیں ہے لیکن وہ مانتا ہی نہیں، ابھی تک اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ مجھے قبض ہے۔ کئی علاج بھی مجھے بتا چکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ مجھے اس طرح ممنون کرنا چاہتا ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’وہ کیسے؟‘‘

’’یہ کہنے سے کہ مجھے قبض ہے اور پھر اس کا علاج بتانے سے۔ وہ مجھے ممنون ہی تو کرنا چاہتا ہے ورنہ پھر اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟۔ بات دراصل یہ ہے کہ اسے صرف اسی مرض کا علاج معلوم ہے یعنی اس کے پاس چند ایسی دوائیں موجود ہیں۔ جن سے قبض دور ہوسکتا ہے۔ چونکہ مجھے وہ خاص طور پر ممنون کرنا چاہتا ہے اس لیے ہر وقت اس تاک میں رہتا ہے کہ جونہی مجھے قبض ہو وہ فوراً علاج شروع کرکے مجھے ٹھیک کردے۔ آدمی دلچسپ ہے۔ ‘‘

ساری بات میری سمجھ میں آگئی اور میں نے زور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔

’’ڈائریکٹر صاحب۔ آپ کے علاوہ حافظ صاحب کی نظرِ عنایت خاکسار پر بھی ہے۔ میں نے کل ان کا فوٹو اپنے پرچے میں چھپوایا ہے۔ اس احسان کا بدلہ اُتارنے کے لیے ابھی ابھی ہوٹل میں انھوں نے مجھے یقین دلانے کی کوشش کی کہ مجھے زبردست قبض ہو رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں ان کے اس حملے سے بچ گیا اس لیے کہ مجھے قبض نہیں ہے۔ ‘‘

اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے قبض ہو گیا، یہ قبض ابھی تک جاری ہے یعنی اس کو پورے دو مہینے ہو گئے ہیں۔ میں کئی پیٹنٹ دوائیں استعمال کر چکا ہُوں۔ مگر ابھی تک اس سے نجات حاصل نہیں ہُوئی۔ اب میں سوچتا ہُوں کہ حافظ عبدالرحمن کو اپنی خواہش پوری کرنے کا ایک موقع دے ہی دُوں۔ کیا حرج ہے؟۔ مجھے اس سے محبت تو ہے نہیں۔

سعادت حسن منٹو

قاسم

باورچی خانہ کی مٹ میلی فضا میں بجلی کا اندھا سا بلب کمزور روشنی پھیلا رہا تھا۔ سٹوو پر پانی سے بھری ہوئی کیتلی دھری تھی۔ پانی کا کھولاؤ اور سٹوو کے حلق سے نکلتے ہوئے شعلے مل جل کر مسلسل شور برپا کررہے تھے۔ انگیٹھیوں میں آگ کی آخری چنگاریاں راکھ میں سوگئی تھیں۔ دور کونے میں قاسم گیارہ برس کا لڑکابرتن مانجھنے میں مصروف تھا۔ یہ ریلوے انسپکٹر صاحب کا بوائے تھا۔ برتن صاف کرتے وقت یہ لڑکا کچھ گنگنا رہا تھا۔ یہ الفاظ ایسے تھے جو اس کی زبان سے بغیر کسی کوشش کے نکل رہے تھے۔

’’جی آیا صاحب! جی آیا صاحب!۔ بس ابھی صاف ہو جاتے ہیں صاحب۔ ‘‘

ابھی برتنوں کو راکھ سے صاف کرنے کے بعد انھیں پانی سے دھو کر قرینے سے رکھنابھی تھا۔ اور یہ کام جلدی سے نہ ہوسکتا تھا۔ لڑکے کی آنکھیں نیند سے بند ہوئی جارہی تھیں۔ سر سخت بھاری ہورہا تھا مگر کام کیے بغیر آرام۔ یہ کیونکر ممکن تھا۔ سٹوو بدستور ایک شور کے ساتھ نیلے شعلوں کو اپنے حلق سے اُگل رہا تھا۔ کیتلی کا پانی اسی انداز میں کِھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ دفعتاً لڑکے نے نیند کے ناقابل مغلوب حملے کو محسوس کرکے اپنے جسم کو ایک جنبش دی۔ اور

’’جی آیا صاحب‘‘

گنگناتا پھرکام میں مشغول ہو گیا۔ دیوار گیریوں پرچُنے ہوئے برتن سوئے ہوئے تھے۔ پانی کے نل سے پانی کی بوندیں نیچے میلی سل پر ٹپک رہی تھیں اور اداس آواز پیدا کررہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فضا پر غنودگی سی طاری ہے۔ دفعتہً آواز بلند ہوئی۔

’’قاسم!۔ قاسم!‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘

لڑکا ان ہی الفاظ کی گردان کررہا تھا بھاگا بھاگا اپنے آقا کے پاس گیا۔ انسپکٹر صاحب نے گرج کرکہا۔

’’بیوقوف کے بچے آج پھر یہاں صراحی اور گلاس رکھنا بھول گیا ہے۔ ‘‘

’’ابھی لایا صاحب۔ ابھی لایا صاحب۔ ‘‘

کمرے میں صراحی اور گلاس رکھنے کے بعد وہ ابھی برتن صاف کرنے کے لیے گیا ہی تھا کہ پھر اُسی کمرے سے آواز آئی۔

’’قاسم۔ قاسم!‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘

قاسم بھاگتا ہوا پھر اپنے آقا کے پاس گیا۔

’’بمبئی کا پانی کس قدر خراب ہے۔ جاؤ پارسی کے ہوٹل سے سوڈا لیکر آؤ۔ بس بھاگے جاؤ۔ سخت پیاس لگ رہی ہے۔ ‘‘

’’بہت اچھا صاحب۔ ‘‘

قاسم بھاگا بھاگا گیا اور پارسی کے ہوٹل سے، جو گھر سے قریباً نصف میل کے فاصلے پر تھا، سوڈے کی بوتل لے آیا اور اپنے آقا کو گلاس میں ڈال کر دے دی۔

’’اب تم جاؤ۔ مگر اس وقت تک کیا کررہے ہو؟ برتن صاف نہیں ہوئے کیا؟‘‘

’’ابھی صاف ہو جاتے ہیں صاحب!‘‘

’’برتن صاف کرنے کے بعد میرے دونوں کالے شو پالش کردینا۔ مگر دیکھنا احتیاط رہے۔ چمڑے پر کوئی خراش نہ آئے۔ ورنہ۔ ‘‘

قاسم کو

’’ورنہ‘‘

کے بعد جملہ بخوبی معلوم تھا۔

’’بہت اچھا صاحب‘‘

کہہ کر وہ باورچی خانہ میں چلا گیا اور برتن صاف کرنے شروع کردیئے۔ اب نیند اس کی آنکھوں میں سمٹی چلی آرہی تھی۔ پلکیں آپس میں ملی جارہی تھیں، سر میں پگھلا ہوا سیسہ اتر رہا تھا۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ صاحب کے بوٹ بھی ابھی پالش کرنے ہیں قاسم نے اپنے سر کو زور سے جنبش دی اور وہی راگ الاپنا شروع کردیا۔

’’جی آیا صاحب۔ جی آیا صاحب! بوٹ صاف ہو جاتے ہیں صاحب۔ ‘‘

مگر نیند کا طوفان ہزار بند باندھنے پربھی نہ رکا۔ اب اسے محسوس ہوا کہ نیند ضرورغلبہ پاکے رہے گی۔ پرابھی برتنوں کو دھو کر انھیں اپنی جگہ پررکھنا باقی تھا۔ جب اس نے یہ سوچا تو ایک عجیب و غریب خیال اس کے دماغ میں آیا۔

’’بھاڑ میں جائیں برتن اور چولھے میں جائیں شو۔ کیوں نہ تھوڑی دیر اسی جگہ سو جاؤں اور پھر چند لمحہ آرام کرنے کے بعد۔ ‘‘

اس خیال کو باغیانہ تصور کرکے قاسم نے ترک کردیا۔ اور برتنوں پرجلدی جلدی راکھ ملنا شروع کردی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب نیند پھر غالب آئی تو اس کے جی میں آئی کہ ابلتا ہو ا پانی اپنے سر پر انڈیل لے۔ اور اس طرح اس غیر مرئی طاقت سے جو اس کام میں حارج ہورہی تھی نجات پا جائے۔ مگر پانی اتنا گرم تھا کہ اس کے بھیجے تک کو پگھلا دیتا۔ چنانچہ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار مار کر اس نے باقی ماندہ برتن صاف کیے۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب وہ آرام سے سو سکتا تھا اور نیند۔ وہ نیند، جس کے لیے اس کی آنکھیں اور دماغ اس شدت سے انتظار کررہے تھے اب بالکل نزدیک تھی۔ باورچی خانے کی روشنی گل کرنے کے بعد قاسم نے باہر برآمدے میں اپنا بستر بچھا لیا اور لیٹ گیا۔ اس سے پہلے کہ نیند اسے اپنے نرم نرم بازوؤں میں تھام لے اس کے کان

’’شو شو‘‘

کی آواز سے گونج اٹھے۔

’’بہت اچھا صاحب۔ ابھی پالش کرتا ہوں۔ ‘‘

قاسم ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔ ابھی قاسم شُو کا ایک پیر بھی اچھی طرح پالش کرنے نہ پایا تھا کہ نیند کے غلبہ نے اسے وہیں سلا دیا۔ سورج کی لال لال کرنیں مکان کے شیشوں سے نمودار ہوئیں۔ مگر قاسم سویا رہا۔ جب انسپکٹر صاحب نے اپنے نوکر کو باہر برآمدے میں اپنے کالے جوتوں کے پاس سویا دیکھا تو اسے ٹھوکر مار کے جگاتے ہوئے کہا۔

’’یہ سور کی طرح یہاں بے ہوش پڑا ہے اور مجھے خیال تھا کہ اس نے شو صاف کرلیے ہونگے۔

’’نمک حرام!۔ ابے قاسم۔ ‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘

قاسم فوراً اٹھ بیٹھا۔ ہاتھ میں جب اس نے پالش کرنے کا برش دیکھا اور رات کے اندھیرے کی بجائے دن کی روشنی دیکھی تو اس کی جان خطا ہو گئی۔

’’میں سو گیا تھا صاحب! مگر۔ مگر شُو ابھی پالش ہو جاتے ہیں صاحب۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے جلدی جلدی پالش کرنا شروع کردیا۔ پالش کرنے کے بعد اس نے اپنا بستر بند کیا اور اسے اوپر کے کمرے میں رکھنے چلا گیا۔

’’قاسم!‘‘

’’جی آیا صاحب!‘‘

قاسم بھاگا ہوا نیچے آیا۔ اور اپنے آقا کے پاس کھڑا ہو گیا۔

’’دیکھو آج ہمارے یہاں مہمان آئیں گے اس لیے باورچی خانہ کے تمام برتن اچھی طرح صاف کررکھنا۔ فرش دُھلا ہوا ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ تمہیں ڈرائنگ روم کی تصویریں، میزیں اور کرسیاں بھی صاف کرنا ہونگی۔ سمجھے! خیال رہے میری میز پر ایک تیز دھار والا چاقو پڑاہے، اسے مت چھیڑنا! میں اب دفتر جارہا ہوں۔ مگر یہ کام دو گھنٹے سے پہلے پہلے ہو جائے۔ ‘‘

’’بہت بہتر صاحب۔ ‘‘

انسپکٹر صاحب دفتر چلے گئے۔ قاسم باورچی خانہ صاف کرنے میں مشغول ہو گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی انتھک محنت کے بعد اس نے باورچی خانہ کا سارا کام ختم کردیا۔ اور ہاتھ پاؤں صاف کرنے کے بعد جھاڑن لے کر ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔ وہ ابھی کرسیوں کو جھاڑن سے صاف کررہا تھا کہ اس کے تھکے ہوئے دماغ میں ایک تصویر سی کھچ گئی۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس کے گرد برتن ہی برتن پڑے ہیں اور پاس ہی راکھ کا ایک ڈھیر لگ رہاہے۔ ہوا زوروں پر چل رہی ہے جس سے وہ راکھ اڑ اڑ کر فضا کو خاکستری بنا رہی ہے۔ یکایک اس ظلمت میں ایک سرخ آفتاب نمودار ہوا جس کی کرنیں سرخ برچھیوں کی طرح ہر برتن کے سینے میں گُھس گئیں۔ زمین خون سے شرابور ہو گئی۔ قاسم دہشت زدہ ہو گیا۔ اور اس وحشت ناک تصور کو دماغ سے جھٹک کر

’’جی آیا صاحب، جی آیا صاحب‘‘

کہتا پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے تصور میں ایک اور منتظر رقص کرنے لگا۔ چھوٹے چھوٹے لڑکے آپس میں کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔ دفعتہً آندھی چلنے لگی جس کے ساتھ ہی ایک بدنما اور بھیانک دیو نمودار ہوا۔ یہ دیو ان سب لڑکوں کو نگل گیا۔ قاسم نے خیال کہ وہ دیو اس کے آقا کے ہم شکل تھا۔ گو کہ قدوقامت کے لحاظ سے وہ اس سے کہیں بڑا تھا۔ اب اس دیو نے زور زور سے ڈکارنا شروع کیا۔ قاسم سرسے پیر تک لرز گیا۔ ابھی تمام کمرہ صاف کرنا تھا۔ اور وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ چنانچہ قاسم نے جلدی جلدی کرسیوں پر جھاڑن مارنا شروع کیا۔ کرسیوں کا کام ختم کرنے کے بعد وہ میز صاف کرنے کے لیے بڑھا تو اسے خیال آیا۔

’’آج مہمان آرہے ہیں۔ خدا معلوم کتنے برتن صاف کرنا پڑیں گے۔ نیند کمبخت پھر ستائے گی۔ مجھ سے تو کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔ ‘‘

وہ یہ سوچ رہا تھا اور میز پر رکھی ہوئی چیزوں کو پونچھ رہاتھا۔ اچانک اسے قلمدان کے پاس ایک کھلا ہوا چاقو نظر آیا۔ وہی چاقو جس کے متعلق اس کے آقا نے کہا تھا بہت تیز ہے، چاقو کا دیکھنا تھا کہ اس کی زبان پر یہ لفظ خود بخود جاری ہو گئے۔

’’چاقو تیز دھار چاقو! یہی تمہاری مصیبت ختم کرسکتا ہے۔ ‘‘

کچھ اور سوچے بغیر قاسم نے تیز دھار چاقو اٹھا کے اپنی انگلی پر پھیر لیا۔ اب وہ شام کو برتن صاف کرنے کی زحمت سے بہت دور تھا اور نیند۔ پیاری پیاری نیند اسے بآسانی نصیب ہوسکتی تھی۔ انگلی سے خون کی سرخ دھار بہہ رہی تھی۔ سامنے والی دوات کی سرخ روشنائی سے کہیں چمکیلی۔ قاسم اس خون کی دھار کو مسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اور منہ میں گنگنا رہا تھا۔

’’نیند، نیند۔ پیاری نیند۔ ‘‘

تھوڑی دیربعد وہ بھاگا ہوا اپنے آقا کی بیوی کے پاس گیا جو زنانخانہ میں بیٹھی سلائی کررہی تھی۔ اور اپنی انگلی دکھا کر کہنے لگا۔

’’دیکھیے بی بی جی‘‘

’’ارے قاسم یہ تو نے کیا کیا؟۔ کم بخت، صاحب کے چاقو کو چھیڑا ہو گا تو نے!‘‘

قاسم مسکرا دیا۔

’’بی بی جی۔ بس میز صاف کررہا تھا کہ اس نے کاٹ کھایا۔ ‘‘

’’سؤر اب ہنستا ہے، ادھر آ، میں اس پر کپڑا باندھ دوں۔ پر اب یہ تو بتا کہ آج یہ برتن تیرا باپ صاف کرے گا؟‘‘

قاسم اپنی فتح پر جی ہی جی میں بہت خوش ہوا۔ انگلی پر پٹی بندھوا کر قاسم پھر کمرے میں چلا آیا۔ میز پر سے خون کے دھبے صاف کرنے کے بعد اس نے خوشی خوشی اپنا کام ختم کردیا۔ سامنے طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا۔ اس کی طرف دیکھ کر قاسم نے مسرت بھرے لہجہ میں کہا۔

’’اب اس نمک حرام باورچی کو برتن صاف کرنے ہوں گے۔ اور ضرور صاف کرنے ہونگے۔ کیوں میاں مٹھو؟‘‘

شام کے وقت مہمان آئے اور چلے گئے۔ باورچی خانہ میں جھوٹے برتنوں کا ایک طومار سا لگ گیا۔ انسپکٹر صاحب قاسم کی انگلی دیکھ کر بہت برسے اور جی کھول کر اسے گالیاں دیں۔ مگر اسے مجبور نہ کرسکے۔ شاید اس وجہ سے کہ ایک بار ان کی اپنی انگلی میں قلم تراش چبھ جانے سے بہت درد ہوا تھا۔ آقا کی خفگی آنے والی مسرت نے بھلا دی اور قاسم کودتا پھاندتا اپنے بستر پر جالیٹا۔ تین چار روز تک وہ برتن صاف کرنیکی زحمت سے بچا رہا۔ مگر اس کے بعد انگلی کا زخم بھر آیا۔ اب وہی مصیبت پھر نمودار ہو گئی۔

’’قاسم۔ صاحب کی جُرابیں اور قمیض دھو ڈ الو۔ ‘‘

’’بہت اچھا بی بی جی۔ ‘‘

’’قاسم اس کمرے کا فرش کتنا میلا ہورہا ہے۔ پانی لاکر ابھی صاف کرو۔ دیکھنا کوئی داغ دھبہ باقی نہ رہے!‘‘

’’بہت اچھا صاحب۔ ‘‘

’’قاسم، شیشے کے گلاس کتنے چکنے ہورہے ہیں، انھیں نمک سے ابھی ابھی صاف کرو۔ ‘‘

’’ابھی کرتا ہوں بی بی جی۔ ‘‘

’’قاسم، ابھی بھنگن آرہی ہے۔ تم پانی ڈالتے جانا۔ وہ سیڑھیاں دھو ڈالے گی۔ ‘‘

’’بہت اچھا صاحب۔ ‘‘

’’قاسم ذرا بھاگ کے ایک آنہ کا دہی تو لے آنا!‘‘

’’ابھی چلا بی بی جی۔ ‘‘

پانچ روز اس قسم کے احکام سننے میں گزر گئے۔ قاسم کام کی زیادتی اور آرام کے قحط سے تنگ آگیا۔ ہر روز اسے نصف شب تک کام کرنا پڑتا۔ پھر بھی علی الصباح چار بجے کے قریب بیدار ہو کر ناشتے کے لیے چائے تیار کرنا پڑتی۔ یہ کام قاسم کی عمر کے لڑکے کے لیے بہت زیادہ تھا۔ ایک روز انسپکٹر صاحب کی میز صاف کرتے وقت اس کا ہاتھ خود بخود چاقو کی طرف بڑھا۔ اور ایک لمحہ کے بعد اس کی اگلی سے خون بہنے لگا۔ انسپکٹر صاحب اور ان کی بیوی قاسم کی اس حر کت پرسخت خفا ہوئے۔ چنانچہ سزا کی صورت میں اسے شام کا کھانا نہ دیا گیا۔ مگر قاسم خوش تھا۔ ایک وقت روٹی نہ ملی۔ انگلی پر معمولی سا زخم آگیا۔ مگر برتنوں کا انبار صاف کرنے سے تو نجات ملی گئی۔ یہ سودا کیا بُرا ہے؟ چند دنوں کے بعد اس کی انگلی کا زخم ٹھیک ہو گیا۔ اب پھر کام کی وہی بھرمار تھی۔ پندرہ بیس روز گدھوں کی سی مشقت میں گزر گئے۔ اس عرصہ میں قاسم نے بارہا ارادہ کیا کہ چاقو سے پھر انگلی زخمی کرلے۔ مگر اب میز پر سے وہ چاقو اٹھا لیا گیا تھا اور باورچی خانہ والی چھری کُند تھی۔ ایک روز باورچی بیمار پڑ گیا۔ اب قاسم کو ہر وقت باورچی خانہ میں رہنا پڑا۔ کبھی مرچیں پیستا، کبھی آٹا گوندھتا، کبھی کوئلے سلگاتا، غرض صبح سے لیکر شام تک اس کے کانوں میں

’’ابے قاسم یہ کر! ابے قاسم وہ کر!‘‘

کی صدا گونجتی رہتی۔ باورچی دو روز تک نہ آیا۔ قاسم کی ننھی سی جان اور ہمت جواب دے گئی۔ مگر سوائے کام کے اور چارہ ہی کیا تھا۔ ایک روز انسپکٹر صاحب نے اسے الماری صاف کرنے کو کہا۔ جس میں ادویات کی شیشیاں اور مختلف چیزیں پڑی تھیں۔ الماری صاف کرتے وقت اسے داڑھی مونڈنے کا ایک بلیڈ نظر آیا۔ بلیڈ پکڑتے ہی اس نے اپنی انگلی پر پھیر لیا۔ دھار تھی بہت تیز انگلی میں دور تک چلی گئی۔ جس سے بہت بڑا زخم بن گیا۔ قاسم نے بہت کوشش کی کہ خون نکلنا بند ہو جائے مگر زخم کا منہ بڑا تھا۔ سیروں خون پانی کی طرح بہہ گیا۔ یہ دیکھ کرقاسم کا رنگ کاغذ کی مانند سپید ہو گیا۔ بھاگا ہوا انسپکٹر صاحب کی بیوی کے پاس گیا۔

’’بی بی جی، میری انگلی میں صاحب کا استرا لگ گیا ہے۔ ‘‘

جب انسپکٹر صاحب کی بیوی نے قاسم کی انگلی کو تیسری مرتبہ زخمی دیکھا تو فوراً معاملے کو سمجھ گئی۔ چپ چاپ اٹھی اور کپڑا نکال کر اس کی انگلی پر باندھ دیا اور کہا۔

’’قاسم!اب تم ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتے۔ ‘‘

’’کیوں بی بی جی۔ ‘‘

یہ صاحب سے پوچھنا۔ صاحب کا نام سنتے ہی قاسم کارنگ اور پیلا پڑ گیا۔ چار بجے کے قریب انسپکٹر صاحب دفتر سے لوٹے اور اپنی بیوی سے قاسم کی نئی حرکت سن کر اسے فوراً اپنے پاس بلایا۔

’’کیوں میاں یہ انگلی ہر روز زخمی کرنے کیا معنی؟‘‘

قاسم خاموش کھڑارہا۔

’’تم نوکر لوگ یہ سمجھتے ہو کہ ہم اندھے ہیں اور ہمیں بار بار دھوکا دیا جاسکتا ہے۔ اپنا بوریہ بستر دبا کر ناک کی سیدھ میں یہاں سے بھاگ جاؤ۔ ہمیں تم جیسے نوکروں کی ضرورت نہیں ہے۔ سمجھے!‘‘

’’مگر۔ مگر صاحب۔ ‘‘

’’صاحب کا بچہ۔ بھاگ جا یہاں سے، تیری بقایا تنخواہ کا ایک پیسہ بھی نہیں دیا جائے گا۔ اب میں اور کچھ نہیں سننا چاہتا۔ ‘‘

قاسم کو افسوس نہ ہوا بلکہ اسے خوشی محسوس ہوئی کہ چلو کام سے کچھ دیر کے لیے چھٹی مل گئی۔ گھر سے نکل وہ اپنی زخمی انگلی سے بے پروا سیدھا چوپاٹی پہنچا اور وہاں ساحل کے پاس ایک بنچ پر لیٹ گیا اور خوب سویا۔ چند دنوں کے بعد اس کی انگلی کا زخم بد احتیاطی کے باعث سیپٹک ہو گیا۔ سارا ہاتھ سوج گیا۔ جس دوست کے پاس وہ ٹھہرا تھا اس نے اپنی دانست کے مطابق اس کا بہتر علاج کیا مگر تکلیف بڑھتی گئی۔ آخر قاسم خیراتی ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ جہاں اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اب جب کبھی قاسم اپنا کٹا ہوا ٹنڈ منڈ ہاتھ بڑھا کر فلورا فاؤنٹین کے پاس لوگوں سے بھیک مانگتا ہے تو اسے وہ بلیڈ یاد آجاتا ہے جس نے اسے بہت بڑی مصیبت سے نجات دلائی۔ اب وہ جس وقت چاہے سر کے نیچے اپنی گدڑی رکھ کر فٹ پاتھ پرسو سکتا ہے۔ اس کے پاس ٹین کا ایک چھوٹا سا بھبھکا ہے جس کو کبھی نہیں مانجھتا، اس لیے کہ اسے انسپکٹر صاحب کے گھر کے وہ برتن یاد آجاتے ہیں جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔

سعادت حسن منٹو

قادرا قصائی

عیدن بائی آگرے والی چھوٹی عید کو پیدا ہوئی تھی‘ یہی وجہ ہے کہ اس کی ماں زہرہ جان نے اس کا نام اسی مناسبت سے عیدن رکھا۔ زہرہ جان اپنے وقت کی بہت مشہور گانے والی تھی‘ بڑی دُور دُور سے رئیس اس کا مجرا سننے کے لیے آتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میرٹھ کے ایک تاجر عبداﷲ سے جو لاکھوں میں کھیلتا تھا ‘ اسے محبت ہو گئی‘ اُس نے چنانچہ اسی جذبے کے ماتحت اپنا پیشہ چھوڑ دیا۔ عبداﷲ بہت متاثر ہوا اور اس کی ماہوار تنخواہ مقرر کر دی کوئی تین سو کے قریب۔ ہفتے میں تین مرتبہ اُس کے پاس آتا، رات ٹھہرتا۔ صبح سویرے وہاں سے روانہ ہو جاتا۔ جو شخص زہرہ جان کو جانتے ہیں اور آگرے کے رہنے والے ہیں اُن کا یہ بیان ہے کہ اُس کا چاہنے والا ایک بڑھئی تھا مگر وہ اُسے منہ نہیں لگاتی تھی۔ وہ بیچارہ ضرورت سے زیادہ محنت و مشقت کرتا اور تین چار مہینے کے بعد روپے جمع کر کے زہرہ جان کے پاس جاتا مگر وہ اُسے دُھتکار دیتی۔ آخر ایک روز اُس بڑھئی کو زہرہ جان سے مفصل گفتگو کرنے کا موقعہ مل ہی گیا‘ پہلے تو وہ کوئی بات نہ کر سکا۔ اس لیے کہ اس پر اپنی محبوبہ کے حسن کا رعب طاری تھا لیکن اُس نے تھوڑی دیر کے بعد جرأت سے کام لیا اور اُس سے کہا:

’’زہرہ جان۔ میں غریب آدمی ہوں‘ مجھے معلوم ہے کہ بڑے بڑے دھن والے تمہارے پاس آتے ہیں اور تمہاری ہر ادا پر سینکڑوں روپے نچھاور کرتے ہیں۔ لیکن تمھیں شاید یہ بات معلوم نہیں کہ غریب کی محبت دھن دولت والوں کے لاکھوں روپوں سے بڑی ہوتی ہے۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ معلوم نہیں کیوں‘‘

زہرہ جان ہنسی‘ اس ہنسی سے بڑھئی کا دل مجروح ہو گیا

’’تم ہنستی ہو۔ میری محبت کا مذاق اُڑاتی ہو‘ اس لیے کہ یہ کنگلے کی محبت ہے جو لکڑیاں چیر کر اپنی روزی کماتا ہے۔ یاد رکھو یہ تمہارے لاکھوں میں کھیلنے والے تمھیں وہ محبت اور پیار نہیں دے سکتے جو میرے دل میں تمہارے لیے موجود ہے‘‘

زہرہ جان اُکتا گئی‘ اُس نے اپنے ایک میراثی کو بلایا اور اس سے کہا کہ بڑھئی کو باہر نکال دو ‘ لیکن وہ اس سے پہلے ہی چلا گیا۔ ایک برس کے بعد عیدن پیدا ہوئی۔ اس کا باپ عبداﷲ تھا یا کوئی اور‘ اس کے متعلق کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا‘ بعض کا خیال ہے کہ وہ غازی آباد کے ایک ہندو سیٹھ کے نطفے سے ہے۔ کسی کے نطفے سے بھی ہو مگر بلا کی خوبصورت تھی۔ اِدھر زہرہ جان کی عمر ڈھلتی گئی‘ اُدھر عیدن جوان ہوتی گئی‘ اُس کی ماں نے اُس کو موسیقی کی بڑی اچھی تعلیم دی‘ لڑکی ذہین تھی‘ کئی اُستادوں سے اُس نے سبق لیے اور اُن سے داد وصول کی۔ زہرہ جان کی عمر اب چالیس برس کے قریب ہو گئی‘ وہ اب اُس منزل سے گزر چکی تھی جب کسی طوائف میں کشش باقی رہتی ہے‘ وہ اپنی اکلوتی لڑکی عیدن کے سہارے جی رہی تھی‘ ابھی تک اُس نے اُس سے مجرا نہیں کرایا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ بہت بڑی تقریب ہو جس کا افتتاح کوئی راجہ نواب کرے۔ عیدن بائی کے حسن کے چرچے عام تھے۔ دُور دُور تک عیاش رئیسوں میں اس کے تذکرے ہوتے تھے‘ وہ اپنے ایجنٹوں کو زہرہ جان کے پاس بھیجتے اور عیدن کی نتھنی اُتارنے کے لیے اپنی اپنی پیش کش بھیجتے‘ مگر اُس کو اتنی جلدی نہیں تھی‘ وہ چاہتی تھی کہ مسّی کی رسم بڑی دھوم دھام سے ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے۔ اس کی لڑکی لاکھوں میں ایک تھی‘ سارے شہر میں اُس جیسی حسین لڑکی اور کوئی نہیں تھی۔ اُس کے حسن کی نمائش کرنے کے لیے وہ ہر جمعرات کی شام کو اُس کے ساتھ پیدل باہر سیر کو جاتی‘ عشق پیشہ مرد اس کو دیکھتے تو دل تھام تھام لیتے۔ پھنسی پھنسی چولی میں گدرایا ہوا جوبن‘ سڈول بانھیں‘ مخروطی انگلیاں جن کے ناخنوں پر جیتا جیتا لہو‘ ایسا رنگ ‘ ٹھمکا سا قد‘ گھنگریالے بال۔ قدم قدم پر قیامت ڈھاتی تھی۔ آخر ایک روز زہرہ جان کی اُمید بَر آئی۔ ایک نواب عیدن پر ایسا لٹّو ہوا کہ وہ منہ مانگے دام دینے پر رضامند ہو گیا۔ زہرہ جان نے اپنی بیٹی کی مسّی کی رسم کے لیے بڑا اہتمام کیا‘ کئی دیگیں پلاؤ اور متنجن کی چڑھائی گئیں۔ شام کو نواب صاحب اپنی بگھی میں آئے‘ زہرہ جان نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی۔ نواب صاحب بہت خوش ہوئے‘ عیدن دولہن بنی ہوئی تھی ‘ نواب صاحب کے ارشاد کے مطابق اُس کا مجرا شروع ہوا۔ پھٹ پڑنے والا شباب تھا جو محوِ نغمہ سرائی تھا۔ عیدن اُس شام بلا کی خوبصورت دکھائی دے رہی تھی‘ اُس کی ہر جنبش ‘ ہر ادا ‘ اس کے گانے کی ہر سُر زہد شکن تھی۔ نواب صاحب گاؤ تکیے کا سہارا لیے بیٹھے تھے۔ انھوں نے سوچا کہ آج رات وہ جنت کی سیر کریں گے جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک بے ہنگم سا آدمی اندر داخل ہوا اور زہرہ جان کے پاس بیٹھ گیا‘ وہ بہت گھبرائی‘ یہ وہی بڑھئی تھا۔ اُس کا عاشقِ راز‘ بہت میلے اور گندے کپڑے پہنے تھا۔ نواب صاحب کو جو بہت نفاست پسند تھے ‘ ابکائیاں آنے لگیں۔ انھوں نے زہرہ جان سے کہا :

’’یہ کون بدتمیز ہے؟‘‘

بڑھئی مسکرایا‘

’’حضور! میں ان کا عاشق ہوں‘‘

نواب صاحب کی طبیعت اور زیادہ مکدّر ہو گئی‘ زہرہ جان‘ نکالو اس حیوان کو باہر‘‘

بڑھئی نے اپنے تھیلے سے آری نکالی اور بڑی مضبوطی سے زہرہ جان کو پکڑ کر اُس کی گردن پر تیزی سے چلانا شروع کر دی‘ نواب صاحب اور میراثی وہاں سے بھاگ گئے ‘ عیدن بیہوش ہو گئی۔ بڑھئی نے اپنا کام بڑے اطمینان سے ختم کیا اور لہو بھری آری اپنے تھیلے میں ڈال کر سیدھا تھانے گیا اور اقبالِ جرم کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اُسے عمر قید ہو گئی تھی۔ عیدن کو اپنی ماں کے قتل ہونے کا اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ دو اڑھائی مہینے تک بیمار رہی۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ زندہ نہیں رہے گی مگر آہستہ آہستہ اس کی طبیعت سنبھلنے لگی اور وہ اس قابل ہو گئی کہ چل پھر سکے۔ ہسپتال میں اس کی تیمار داری صرف اُس کے استاد اور میراثی ہی کرتے تھے۔ وہ نواب اور رئیس جو اس پر اپنی جان چھڑکتے تھے‘ بُھولے سے بھی اس کو پوچھنے کے لیے نہ آئے۔ وہ بہت دل برداشتہ ہو گئی۔ وہ آگرہ چھوڑ کر دہلی چلی آئی۔ مگر اس کی طبیعت اتنی اُداس تھی کہ اس کا جی قطعاً مجرا کرنے کو نہیں چاہتا تھا۔ اُس کے پاس بیس پچیس ہزار روپے کے زیورات تھے جن میں آدھے اس کی مقتول ماں کے تھے وہ انھیں بیچتی رہی اور گزارہ کرتی رہی۔ عورت کو زیور بڑے عزیز ہوتے ہیں‘ اس کو بڑا دُکھ ہوتا تھا جب وہ کوئی چُوڑی یا نکلس اونے پونے داموں بیچتی تھی۔ عجب عالم تھا‘ خون پانی سے بھی ارزاں ہو رہا تھا۔ مسلمان دھڑا دھڑ پاکستان جا رہے تھے کہ ان کی جانیں محفوظ رہیں۔ عیدن نے بھی فیصلہ کر لیا کہ وہ دہلی میں نہیں رہے گی۔ لاہور چلی آئے گی۔ بڑی مشکلوں سے اپنے کئی زیورات بیچ کر وہ لاہور پہنچ گئی لیکن راستے میں اس کی تمام بیش قیمت پشوازیں اور باقی ماندہ زیور اس کے اپنے بھائی مسلمانوں ہی نے غائب کر دیے۔ جب وہ لاہور پہنچی تو وہ لُٹی پٹی تھی۔ لیکن اس کا حسن ویسے کا ویسا تھا۔ دہلی سے لاہور آتے ہوئے ہزاروں للچائی ہوئی آنکھوں نے اُس کی طرف دیکھا مگر اس نے بے اعتنائی برتی۔ وہ جب لاہور پہنچی تو اس نے سوچا کہ زندگی بسر کیسے ہو گی؟ اُس کے پاس تو چنے کھانے کے لیے بھی چند پیسے نہیں تھے لیکن لڑکی ذہین تھی‘ سیدھی اُس جگہ پہنچی جہاں ان کی ہم پیشہ رہتی تھیں‘ یہاں اس کی بڑی آؤ بھگت کی گئی۔ ان دنوں لاہور میں روپیہ عام تھا‘ ہندو جو کچھ یہاں چھوڑ گئے تھے‘ مسلمانوں کی ملکیت بن گیا تھا۔ ہیرا منڈی کے وارے نیارے تھے۔ عیدن کو جب لوگوں نے دیکھا تو وہ اس کے عاشق ہو گئے۔ رات بھر اُس کو سینکڑوں گانے سننے والوں کی فرمائشیں پوری کرنا پڑتیں۔ صبح چار بجے کے قریب جب کہ اُس کی آواز جواب دے چکی ہوتی وہ اپنے سامعین سے معذرت طلب کرتی اور اوندھے منہ اپنی چارپائی پر لیٹ جاتی۔ یہ سلسلہ قریب قریب ڈیڑھ برس تک جاری رہا۔ عیدن اس کے بعد ایک علیحدہ کوٹھا کرایے پر لے کر وہاں اُٹھ آئی‘ چونکہ جہاں وہ مقیم تھی‘ اس نائکہ کو اسے اپنی آدھی آمدن دینا پڑتی تھی۔ جب اُس نے علیحدہ اپنے کوٹھے پر مجرا کرنا شروع کیا تو اُس کی آمدن میں اضافہ ہو گیا۔ اب اسے ہر قسم کی فراغت حاصل تھی‘ اس نے کئی زیور بنا لیے‘ کپڑے بھی اچھے سے اچھے تیار کرا لیے۔ اُسی دوران میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو بلیک مارکیٹ کا بادشاہ تھا‘ اُس نے کم از کم دو کروڑ روپے کمائے تھے‘ خوبصورت تھا‘ اُس کے پاس تین کاریں تھیں ‘ پہلی ہی ملاقات پر وہ عیدن کے حسن سے اس قدر متاثر ہوا کہ اُس نے اپنی کھڑی سفید پیکارڈ اُس کے حوالے کر دی۔ اس کے علاوہ وہ ہر شام آتا اور کم از کم دو ڈھائی سو روپے اُس کی نذر ضرور کرتا۔ ایک شام وہ آیا تو چاندنی کسی قدر میلی تھی‘ اُس نے عیدن سے پوچھا

’’کیا بات ہے آج تمہاری چاندنی اتنی گندی ہے‘‘

عیدن نے ایک ادا کے ساتھ جواب دیا

’’آج کل لٹھا کہاں ملتا ہے؟‘‘

دوسرے دن اُس بلیک مارکیٹ بادشاہ نے چالیس تھان لٹھے کے بھجوا دیے‘ اُس کے تیسرے روز بعد اُس نے ڈھائی ہزار روپے دیے کہ عیدن اپنے گھر کی آرائش کا سامان خرید لے۔ عیدن کو اچھا گوشت کھانے کا بہت شوق تھا‘ جب وہ آگرے اور دلّی میں تھی تو اُسے عمدہ گوشت نہیں ملتا تھا مگر لاہور میں اُسے قادرا قصائی بہترین گوشت مہیا کرتا تھا۔ بغیر ریشے کے‘ ہر بوٹی ایسی ہوتی تھی جیسے ریشم کی بنی ہو۔

’’دُکان پر اپنا شاگرد بٹھا کر قادرا صبح سویرے آتا اور ڈیڑھ سیر گوشت جس کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی ہوتی‘ عیدن کے حوالے کر دیتا‘ اس سے دیر تک باتیں کرتا رہتا جو عام طور پر گوشت ہی کے بارے میں ہوتیں۔ بلیک مارکیٹ کا بادشاہ جس کا نام ظفر شاہ تھا‘ عیدن کے عشق میں بہت بُری طرح گرفتار ہو چکا تھا‘ اُس نے ایک شام عیدن سے کہا کہ وہ اپنی ساری جائیداد‘ منقولہ اور غیرمنقولہ اُس کے نام منتقل کرنے کے لیے تیار ہے‘ اگر وہ اس سے شادی کر لے۔ مگر عیدن نہ مانی‘ ظفر شاہ بہت مایوس ہوا۔ اُس نے کئی بار کوشش کی کہ عیدن اُس کی ہو جائے مگر ہر بار اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مجرے سے فارغ ہو کر رات کے دو تین بجے کے قریب باہر نکل جاتی تھی‘ معلوم نہیں کہاں۔ ایک رات جب ظفر شاہ اپنا غم غلط کر کے۔ یعنی شراب پی کر پیدل ہی چلا آ رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ سائیں۔ کے تکیے کے باہر عیدن ایک نہایت بدنما آدمی کے پاؤں پکڑے التجائیں کر رہی ہے کہ خدا کے لیے مجھ پر نظر کرم کرو‘ میں دل و جان سے تم پر فدا ہوں۔ تم اتنے ظالم کیوں ہو۔ اور وہ شخص جسے غور سے دیکھنے پر ظفر شاہ نے پہچان لیا کہ قادرا قصائی ہے‘ اُسے دُھتکار رہا ہے۔

’’جا۔ ہم نے آج تک کسی کنجری کو منہ نہیں لگایا۔ مجھے تنگ نہ کیا کر‘‘

قادرا اُسے ٹھوکریں مارتا رہا اور عیدن اُسی میں لذت محسوس کرتی رہی۔ ۲۴، مئی ۵۴ء

سعادت حسن منٹو

فوبھا بائی

حیدر آباد سے شہاب آیا تو اس نے بمبئے سنٹرل اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہلا قدم رکھتے ہی حنیف سے کہا۔

’’دیکھو بھائی۔ آج شام کو وہ معاملہ ضرور ہو گا ورنہ یاد رکھو میں واپس چلا جاؤں گا۔ ‘‘

حنیف کو معلوم تھا کہ

’’وہ معاملہ‘‘

کیا ہے۔ چنانچہ شام کو اس نے ٹیکسی لی۔ شہاب کو ساتھ لیا۔ گرانٹ روڈ کے ناکے پر ایک دلال کو بلایا اور اس سے کہا۔

’’میرے دوست حیدر آباد سے آئے ہیں۔ ان کے لیے اچھی چھوکری چاوئے۔ ‘‘

دلال نے اپنے کان سے اڑسی ہوئی بیڑی نکالی اور اس کو ہونٹوں میں دبا کر کہا۔

’’دکنی چلے گی؟‘‘

حنیف نے شہاب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ شہاب نے کہا نہیں بھائی۔ مجھے کوئی مسلمان چاہیے‘‘

’’مسلمان؟‘‘

دلال نے بیڑی کو چوسا

’’چلیے‘‘

اور یہ کہہ کر وہ ٹیکسی کی اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔ ڈرائیور اس نے کچھ کہا۔ ٹیکسی اسٹارٹ ہوئی اور مختلف بازاروں سے ہوتی ہوئی فورجٹ اسٹریٹ کی ساتھ والی گلی میں داخل ہوئی یہ گلی ایک پہاڑی پر تھی۔ بہت اونچان تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی کو فرسٹ گیئر میں ڈالا۔ حنیف کو ایسا محسوس ہوا کہ راستے میں ٹیکسی رک کر واپس چلنا شروع کردیگی۔ مگر ایسا نہ ہوا دلال نے ڈرائیور کو اونچان کے عین آخری سرے پر جہاں چوک سا بنا تھا رکنے کے لیے کہا۔ حنیف کبھی اس طرف نہیں آیا تھا۔ اونچی پہاڑی تھی جس کے دائیں طرف ایک دم ڈھلان تھی۔ جس بلڈنگ میں دلال داخل ہوا اس کی طرف دومنزلیں تھیں حالانکہ دوسری طرف کی بلڈنگ سب کی سب چار منزلہ تھیں۔ حنیف کو بعد میں معلوم ہوا کہ ڈھلان کے باعث اس بلڈنگ کی تین منزلیں نیچے تھیں جہاں لفٹ جاتی تھی۔ شہاب اور حنیف دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ انھوں نے کوئی بات نہ کی۔ راستے میں دلال نے اس لڑکی کی بہت تعریف کی تھی جس کو لانے وہ اس بلڈنگ میں گیا تھا۔ اس نے کہا تھا

’’بڑے اچھے خاندان کی لڑکی ہے۔ اسپیشل طور پر آپ کے لیے نکال رہا ہوں۔ ‘‘

دونوں سوچ رہے تھے یہ لڑکی کیسی ہو گی جو اسپیشل طور پر نکالی جارہی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دلال نمودار ہوا وہ اکیلا تھا۔ ڈرائیور سے اس نے کہا

’’گاڑی واپس کرو‘‘

یہ کہہ کر وہ اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گاڑی ایک چکر لے کر مڑی۔ تین چار بلڈنگ چھوڑ کر دلال نے ڈرائیور سے کہا

’’روک لو‘‘

پھر حنیف سے مخاطب ہوا

’’آرہی ہے۔ پوچھ رہی تھی کیسے آدمی ہیں، میں نے کہا نمبر ون‘‘

دس پندرہ منٹ کے بعد ایک دم ٹیکسی کا دروازہ کھلا۔ اور ایک عورت حنیف کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رات کا وقت تھا۔ گلی میں روشنی کم تھی۔ اس لیے شہاب اور حنیف دونوں اس کو اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس نے کہا

’’چلو‘‘

ٹیکسی تیزی سے نیچے اترنے لگی۔ حنیف کے پاس کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں کوئی معاملہ ہوسکے چنانچہ جیسا طے پایا تھا۔ وہ ڈاکٹر خاں صاحب کے ہاں چلے گئے وہ ملٹری ہاسپیٹل میں متعین تھا اور اس کو وہیں دو کمرے ملے ہوئے تھے۔ شہاب نے بمبئی آتے ہی اس کو فون کردیا تھا کہ وہ حنیف کے ساتھ رات کو اسکے پاس آئے گا اور معاملہ ساتھ ہو گا، چنانچہ ٹیکسی ملٹری ہسپتال میں پہنچی۔ دلال سو روپیہ لے کر گرانٹ روڈ پر اتر گیا۔ راستے میں بھی شہاب اور حنیف اس عورت کو اچھی طرح نہ دیکھ سکے۔ کوئی خاص باتیں بھی نہ ہوئیں۔ شہاب نے جب اس سے اپنے ٹھیٹ حیدر آبادی لہجے میں پوچھا

’’آپ کا اسمِ گرمی‘‘

تو اس عورت نے کہا۔

’’فوبھابائی‘‘

’’فوبھا بائی؟‘‘

حنیف سوچتا رہ گیا کہ یہ کیسا نام ہے۔ ڈاکٹر خان ان کا انتظار کررہا تھا سب سے پہلے شہاب کمرے میں داخل ہوا۔ دونوں گلے ملے اور خواب ایک دوسرے کو گالیاں دیں۔ ڈاکٹر خان نے جب ایک جوان عورت کو دروازے میں دیکھا تو ایک دم خاموش ہو گیا۔

’’آئیے آئیے‘‘

اس نے اپنے سینے پر ہاتھ ر کھا۔

’’ڈاکٹر خان۔ آپ؟‘‘

اُس نے شہاب کی طرف دیکھا۔ شہاب نے اس عورت کی طرف دیکھا۔ عورت نے کہا

’’فوبھا بائی‘‘

ڈاکٹر خان نے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا

’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘

فوبھا بائی مسکرائی

’’مجھے بھی خُفی ہوئی۔ ‘‘

شہاب اور حنیف نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر خان نے دروازہ بند کردیا اور اپنے دوستوں سے کہا

’’آپ دوسرے کمرے میں چلے جائیے۔ مجھے کچھ کام کرنا ہے۔ ‘‘

شہاب نے جب فوبھا بائی سے کہا

’’چلیے تو اس نے ڈاکٹر خان کا ہاتھ پکڑ لیا، نہیں آپ بھی تشریف لائیے‘‘

’’آپ تشریف لے چلیے میں آتا ہوں‘‘

یہ کہہ کر ڈاکٹر خان نے اپنا ہاتھ چُھڑا لیا۔ شہاب اور حنیف فوبھا بائی کو اندر لے گئے۔ تھوڑی دیر گفتگو ہوئی تو اس کو معلوم ہوا کہ اسکی زبان موٹی تھی۔ وہ شین اور سین ادا نہیں کرسکتی تھی۔ اس کے بدلے اس کے منہ سے فے نکلتی تھی۔ اس کا نام اس لحاظ سے شوبھا بائی تھا۔ لیکن کچھ دیر اور باتیں کرنے کے بعد ان کو پتہ چلا کہ شوبھا اس کا اصلی نام نہیں تھا۔ وہ مسلمان تھی جے پور اس کا وطن تھا جہاں سے وہ چار سال ہوئے بھاگ کر بمبئی چلی آئی تھی۔ اس سے زیادہ اس نے اپنے حالات نہ بتائے۔ معمولی شکل و صورت تھی۔ آنکھیں بڑی نہیں تھیں۔ ناک بھی خوش وضع تھی۔ بالائی ہونٹ کے عین درمیان ایک چھوٹے سے زخم کا نشان تھا۔ جب وہ بات کرتی تو یہ نشان تھوڑا سا پھیل جاتا۔ گلے میں اس نے جڑاؤ نکلس پہنا ہواتھا۔ دونوں ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں تھیں۔ بہت ہی باتونی عورت تھی۔ بیٹھتے ہی اس نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں۔ حنیف اور شہاب صرف ہوں ہاں کرتے رہے۔ پھر اس نے ان کے بارے میں پوچھنا شروع کیا کہ وہ کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں، کیا عمر ہے، فادی فدہ ہیں یا غیر فادی فدہ۔ حنیف اتنا دبلا کیوں ہے۔ فہاب نے دو مصنوعی دانت کیوں لگوائے ہیں۔ گوفت خورہ تھا تو اس کا علاج ڈاکٹر خاں سے کیوں نہ کرایا۔ فرماتا کیوں ہے۔ فعر کیوں نہیں گاتا۔ شہاب نے اسے کچھ شعر سنائے۔ شوبھا نے بڑے زوروں کی داد دی۔ شہاب نے یہ شعر سنایا ؂ کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا کچھ کر لو نوجوانو اٹھتی جوانیاں ہیں تو شوبھا اچھل پڑی۔

’’واہ جناب صاحب واہ۔ بہت اچھا فعر ہے۔ اٹھتی جوانیاں ہیں۔ واہ وا!‘‘

اس کے بعد شوبھا نے بے شمار شعر سنائے، بالکل بے جوڑے بے تکے۔ جن کا سر تھا نہ پیر۔ شعر سنا کر اس نے شہاب سے کہا

’’فہاب صاحب۔ مزا آیا آپ کو‘‘

شہاب نے جواب دیا۔

’’بہت‘‘

شوبھا نے سرما کر کہا

’’یہ فعر میرے تھے۔ مجھے فاعری کا بہت فوق ہے‘‘

شہاب اور حنیف دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرا دیے۔ اس کے بعد صرف ایک صحیح شعر شوبھا نے سنایا ؂ کبھی تو مرے درد دل کی خبر لے مرے درد سے آفنا ہونے الے یہ شعر حنیف کئی بار سن چکا تھا اور شاید پڑھ بھی چکا تھا۔ مگر شوبھا نے کہا۔

’’حنیف صاحب یہ فعر بھی میرا ہے۔ ‘‘

حنیف نے خوب داد دی۔

’’مافااللہ آپ تو کمال کرتی ہیں‘‘

شوبھا چونکی۔

’’معاف کیجیے گا، میری زبان میں تو کچھ خرابی ہے لیکن آپ نے کیوں مافا اللہ کے بدلے مافا اللہ کہا‘‘

حنیف اور شہاب دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔ شوبھا بھی ہنسنے لگی۔ اتنے میں ڈاکٹر خان آگیا۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہی شوبھا سے کہا

’’کیوں جناب اتنی ہنسی کس بات پر آرہی ہے۔ ‘‘

زیادہ ہنسنے کے باعث شوبھا کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ اس نے رومال سے ان کو پونچھا اور ڈاکٹر خان سے کہا

’’ایک بات ایسی ہوئی کہ ہم سب ہنف پڑے‘‘

ڈاکٹر خان نے بھی ہنسنا شروع کردیا۔ شوبھا نے اس سے کہا

’’آئیے بیٹھئے‘‘

چارپائی کے ایک طرف سرک کر اس نے ڈاکٹر خان کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔ پھر شعر و شاعری ہو گئی۔ شوبھا نے لمبی لمبی چار بے تکی غزلیں سنائیں۔ سب نے داد دی، شہاب اُکتا گیا۔ وہ معاملہ چاہتا تھا۔ حنیف اسکے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر بھانپ گیا۔ چنانچہ اس نے شہاب سے کہا

’’اچھا بھئی میں رخصت چاہتا ہوں انشاء اللہ کل صبح ملاقات ہو گی۔ ‘‘

وہ یہ کہہ کرکرسی پر سے اٹھا مگر شوبھا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

’’نہیں، آپ نہیں جاسکتے۔ ‘‘

حنیف نے جواب دیا۔

’’میں معذرت چاہتا ہوں۔ بیوی میرا انتظار کررہی ہو گی‘‘

’’اوہ!۔ لیکن نہیں۔ آپ تھوڑی دیر اور ضرور بیٹھیں۔ ابھی تو صرف گیارہ بجے ہیں‘‘

شوبھا نے اصرار کیا۔ شہاب نے ایک جمائی لی

’’بہت وقت ہو گیا ہے‘‘

شوبھا نے مسکرا کر شہاب کی طرف دیکھا

’’میں فاری رات آپ کے پاف ہوں‘‘

شہاب کا تکدر دور ہو گیا۔ حنیف تھوڑی دیر بیٹھا، پھر رخصت لی اور چلا گیا۔ دوسرے روز صبح نو بجے کے قریب شہاب آیا اوررات کی بات سنانے لگا، عجیب و غریب تھی تھی یہ فوبھا بائی۔ پیٹ پر بالشت پھر آپریشن کا نشان تھا۔ کہتی تھی کہ وہ ایک لکڑی والے سیٹھ کی داشتہ تھی اس نے ایک فلم کمپنی کھول دی تھی اسکے چیکوں پر دستخط شوبھا ہی کے ہوتے تھے۔ موٹر تھی جو اب تک موجود ہے۔ نوکر چاکر ہے۔ لکڑی والا سیٹھ اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ اس کے پیٹ کا آپریشن ہوا تو اس نے ایک ہزار روپیہ یتیم خانے کو دیا۔ ‘‘

حنیف نے پوچھا۔

’’یہ لکڑی والا سیٹھ اب کہاں ہے۔ ‘‘

شہاب نے جواب دیا

’’دوسری دنیا میں ٹال کھولے بیٹھا ہے۔ عورت خوب تھی یہ فوبھا بائی۔ میں دوسرے کمرے میں سو گیا۔ تو وہ ڈا کٹر خان کے ساتھ لیٹ گئی۔ صبح پانچ بجے خان نے اس سے کہا کہ اب جاؤ۔ شوبھانے کہا

’’اچھا میں جاتی ہوں، لیکن یہ میرے زیور تم اپنے پاس رکھ لو۔ میں اکیلی ان کے ساتھ باہر نہیں نکلتی۔ ‘‘

حنیف نے پوچھا

’’ڈاکٹر نے زیور رکھ لیے؟‘‘

شہاب نے سر ہلایا

’’ہاں۔ پہلے تو اس کا خیال تھا کہ نقلی ہیں۔ مگر دن کی روشنی میں جب اس نے دیکھا تو اصلی تھے۔ ‘‘

’’اور وہ چلی گئی۔ ‘‘

’’ہاں چلی گئی۔ یہ کہہ کر وہ کسی روز آکر اپنے زیور واپس لے جائے گی۔ ‘‘

’’یہ تم نے بڑے اچنبھے کی بات سنائی۔ ‘‘

’’خدا کی قسم حقیقت ہے‘‘

شہاب نے سگریٹ سلگایا

’’اسی لیے تو میں نے کہا یہ فوبھا بائی عجیب و غریب عورت ہے۔ ‘‘

حنیف نے پوچھا

’’ویسے کیسی عورت تھی؟‘‘

شہاب جھینپ سا گیا۔

’’بھئی مجھے ایسے معاملوں کا کچھ پتہ نہیں۔ یہ تم خان سے پوچھنا۔ وہ اکسپرٹ ہے۔ ‘‘

شام کودونوں خان سے ملے۔ زیور اس کے پاس محفوظ تھے۔ شوبھا لینے نہیں آئی تھی۔ خان نے بتایا

’’میرا خیال ہے شوبھا، کسی دماغی صدمے کا شکار ہے‘‘

شہاب نے پوچھا

’’تمہارا مطلب ہے پاگل ہے؟‘‘

خان نے کہا

’’نہیں۔ پاگل نہیں ہے لیکن اس کا دماغ یقیناً نورمل نہیں ہے۔ بے حد مخلص عورت ہے۔ ایک لڑکا ہے اس کا جے پور میں اس کو برابر دو سو روپے ماہوار بھیجتی ہے۔ ہر تیسرے مہینے اس سے ملنے جاتی ہے۔ جے پور پہنچتے ہی برقع اوڑھ لیتی ہے وہاں اسے پردہ کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

حنیف نے کہا۔

’’یہ تم نے کیسے سمجھا کہ اس کا دماغ نورمل نہیں۔ ‘‘

خان نے جواب دیا۔

’’بھئی میرا خیال ہے۔ نورمل عورت ہوتی تو اپنے ڈیڑھ دو ہزار کے زیور ایک اجنبی کے پاس کیوں چھوڑ جاتی۔ اسکے علاوہ اس کو مورفیا کے انجکشن لینے کی عادت ہے‘‘

شہاب نے پوچھا

’’نشہ ہوتا ہے ایک قسم کا؟‘‘

خان نے جواب۔

’’بہت ہی خطرناک قسم کا۔ شراب سے بھی بدتر!‘‘

’’اسکی عادت کیسے پڑی اسے‘‘

شہاب نے میز پر سے پیپر ویٹ اٹھا کر دوات پر رکھ دیا۔

’’آپریشن ہوا تو بگڑ گیا۔ درد شدت کا تھا۔ اس کا احساس کم کرنے کے لیے ڈاکٹر مورفیا کے انجکشن دیتے رہے۔ تقریباً دو مہینے تک۔ بس عادت ہو گئی۔ ‘‘

ڈاکٹر خان نے مورفیا اور اس کے خطرناک اثرات پر ایک لیکچرشروع کردیا۔ ایک ہفتہ ہو گیا۔ شوبھا نہ آئی۔ شہاب واپس حیدر آباد چلا گیا۔ ڈاکٹر خان زیور لے کر حنیف کے پاس آیا کہ چلو دے آئیں۔ دونوں نے گرانٹ روڈ کے ناکے پر اُس دلال کو بہت تلاش کیا جو شہاب اور حنیف کو شوبھا کے مکان کے پاس لے گیا تھا مگر وہ نہ ملا۔ حنیف کو اتنا معلوم تھا کہ گلی کون سی ہے اور بلڈنگ کون سی ہے۔ ڈاکٹر خان نے کہا

’’ٹھیک ہے۔ ہم پتا لگا لیں گے۔ یہ زیور میں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا۔ چوری ہو گئے تو کیا کروں گا۔ وہ تو عجیب بے پروا عورت ہے‘‘

دونوں ٹیکسی میں وہاں پہنچ گئے۔ ڈاکٹر خان کو حنیف نے بلڈنگ بتا دی اور کہا

’’میں نہیں جاؤں گی بھائی، تم تلاش کرو اسے‘‘

ڈاکٹر خان اکیلا اس بلڈنگ میں داخل ہوا تو ایک دو آدمیوں سے پوچھا مگر شوبھا کا کچھ پتہ نہ چلا نیچے سے لفٹ اوپر کو آئی تو ہوٹل کا چھوکرا پیالیاں اٹھائے باہر نکلا خان نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ

’’سب سے نچلی منزل کے آخری فلیٹ پر چلے جاؤ۔ ‘‘

لفٹ کے ذریعہ سے خان نیچے پہنچا آخری فلیٹ کی گھنٹی بجائی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک بڑھیا عورت نے دروازہ کھولا۔ خان نے اس سے پوچھا

’’شوبھا بائی ہیں؟‘‘

بڑھا نے جواب دیا۔

’’ہاں ہیں۔ ‘‘

خان نے کہا

’’جاؤ اس سے کہوڈاکٹر خان آئے ہیں۔ ‘‘

اندر سے شوبھا کی آواز آئی۔

’’آئیے ڈاکٹر صاحب آئیے‘‘

ڈاکٹر خان اندر داخل ہوا۔ چھوٹا سا ڈرائنگ روم تھا۔ چمکیلے فرنیچرسے بھرا ہوا۔ فرش پر قالین بچھے ہوئے تھے۔ بڑھیا دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ فوراً ہی شوبھا کی آواز آئی

’’ڈاکٹر صاحب اندر آجائیے۔ میں باہر نہیں آسکتی۔ ‘‘

ڈاکٹر خان دوسرے کمرے میں داخل ہوا۔ شوبھا چادر اوڑھے لیٹی تھی۔ ان نے اس سے پوچھا

’’کیا بات ہے‘‘

شوبھا مسکرائی

’’کچھ نہیں ڈاکٹر صاحب، تیل مالش کرا رہی تھی‘‘

ڈاکٹر پلنگ کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ جیب سے رومال نکالا جس میں زیور بندھے تھے کھول کر اسے پلنگ پر رکھ دیا

’’کب تک میں تمہارے ان زیوروں کی حفاظت کرتا رہوں گا۔ تم ایسی گئیں کہ پھر اُدھر کا رخ تک نہ کیا‘‘

شوبھا ہنسی،

’’مجھے بہت کام تھا۔ لیکن آپ نے کیوں تکلیف کی میں خود آکے لے جاتی‘‘

پھر اس نے بڑھیا سے کہا

’’چائے منگاؤ، ڈاکٹر کے لیے‘‘

ڈاکٹر نے کہا

’’نہیں مجھے اب جانا ہے۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’ہسپتال‘‘

’’ٹیکسی میں آئے ہیں آپ؟‘‘

’’ہاں‘‘

’’باہر کھڑی ہے‘‘

ڈاکٹر نے سر کے اشارے سے ہاں کی۔

’’تو آپ چلیے میں آتی ہوں

’’یہ کہہ کر اس نے زیور تکیے کے نیچے رکھ دیے اور رومال ڈاکٹر خان کو دیدیا۔ ڈاکٹر خان حنیف کے پاس پہنچا تو اس نے پوچھا

’’مل گئی؟‘‘

ڈاکٹر مسکرایا

’’مل گئی۔ آرہی ہے!‘‘

پندرہ بیس منٹ کے بعد شوبھا نے تیزی سے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر خان کے کمرے میں دیر تک فضول قسم کی شعر بازی ہوتی رہی۔ ہجرو وصال اور عشق و محبت کے بے شمار عامیانہ اشعار شوبھا نے سنائے اور انھیں اپنے نام سے منسوب کیا۔ ڈاکٹر خان اور حنیف نے خوب داد دی۔ شوبھا بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی

’’یعقوب فیٹھ گھنٹوں مجھ سے فعر فنا کرتے تھے۔ ‘‘

یعقوب فیٹھ وہ لکڑی والا سیٹھ تھا جس نے شوبھا کے لیے ایک فلم کمپنی کھولی تھی۔ ڈاکٹر خان اور حنیف ہنس پڑے۔ شوبھا بھی ہنسنے لگی۔ ڈاکٹر خان اور شوبھا کی دوستی ہو گئی۔ شر وع شروع میں تو وہ ہفتے میں دو بار آتی تھی۔ اب قریب قریب ہر روز آنے لگی۔ رات آتی۔ صبح سویرے چلی جاتی۔ شام کو بلاناغہ مورفیا کا انجکشن لیتی۔ ڈاکٹر انجکشن لگانے سے پہلے اس کے بازو پر بے حس کرنے والی دوا لگا دیتا تھا یہ ٹھنڈی ٹھنڈی چیز اسے بہت پسند تھی۔ تین مہینے گزرے تو شوبھا جے پور جانے کے لیے تیار ہوئی۔ موٹر اپنی ڈاکٹر خان کے حوالے کردی کہ وہ اس کا دھیان رکھے۔ ڈاکٹر اسے اسٹیشن پر چھوڑنے گیا۔ دیر تک گاڑی میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے۔ جب گاڑی چلنے لگی تو شوبھا نے ایک دم ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ کر کہا

’’مجھے کیوں ایک دم ایفا لگا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر خان نے کہا۔

’’کیا ہونے والا ہے۔ ‘‘

شوبھا کے چہرے سے وحشت برسنے لگی

’’معلوم نہیں میرا دل بیٹھا جارہا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر خان نے اُسے دم دلاسا دیا گاڑی چل دی۔ دور تک شوبھا کا ہاتھ ہلتا رہا۔ جے پور سے شوبھا کے دو خط آئے جن سے صرف اتنا پتہ چلتا تھا کہ وہ خیریت سے پہنچ گئی ہے۔ جب واپس آئے گی تو اس کے لیے بہت سے تحفے لائے گی۔ اس کے بعد ایک کارڈ آیا جس میں یہ لکھا تھا

’’میری اندھیری زندگی میں صرف ایک دیا تھا وہ کل خدا نے بجھا دیا۔ بھلا ہو اس کا؟‘‘

حنیف نے یہ الفاظ پڑھے تو اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بھلا ہو اس کا

’’میں بے پناہ غم تھا۔ ‘‘

بہت عرصہ گزر گیا شوبھا کا کوئی خط نہ آیا۔ پورا ایک برس بیت گیا۔ ڈاکٹر خان کو اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ شوبھا اپنی موٹر اس کے حوالے کرگئی تھی۔ اس بلڈنگ میں گیا جس کی سب سے نچلی منزل میں وہ رہا کرتی تھی۔ فلیٹ پر کوئی اور ہی قابض تھا ایک دلال قسم کا آدمی۔ ڈاکٹر خان آخر تھک ہار کر خاموش ہو گیا۔ موٹر اس نے ایک گراج میں رکھوا دی۔ ایک دن حنیف گھبرایا ہوا ہسپتال آیا اس کا چہرہ زرد تھا۔ ڈاکٹر خان کو ڈیوٹی سے ہٹا کر وہ ایک طرف لے گیا اور اس سے کہا

’’میں نے آج شوبھا کو دیکھا۔ ‘‘

ڈاکٹر خان نے حنیف کا بازو پکڑ کر ایک دم پوچھا

’’کہاں؟‘‘

’’چوپاٹی پر۔ میں اسے بالکل نہ پہنچانتا کیونکہ وہ محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی۔ ‘‘

ڈاکٹر خان کھوکھلی آواز میں بولا۔

’’ہڈیوں کا ڈھانچہ‘‘

حنیف نے سرد آہ بھری

’’شوبھا نہیں تھی اس کا سایہ تھا۔ آنکھیں اندرکو دھنسی ہوئیں۔ بال پریشان اور گرد آلود۔ یوں چلتی تھی کہ اپنے آپ کو گھسیٹ رہی ہے۔ میرے پاس آئی اور کہا

’’مجھے پانچ روپے دو۔ میں نے اسکو نہ پہچانا۔ پوچھا کیا کرو گی پانچ روپے لے کر۔ بولی مورفیا کا ٹیکہ لوں گی۔ ایک دم میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے بالائی ہونٹ پر زخم کا نشان موجود تھا۔ میں چلایا۔

’’شوبھا۔ اس نے تھکی ہوئی ویران آنکھوں سے مجھے دیکھا اور پوچھا، کون ہوتم۔ میں نے کہا حنیف۔ اس نے جواب دیا۔ میں کسی حنیف کو نہیں جانتی۔ میں نے تمہارا ذکر کیا کہ تم نے اسے بہت تلاش کیا، بہت ڈھونڈا۔ یہ سن کر اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور کہنے لگی، اس سے کہنا مت ڈھونڈے مجھے۔ میری طرف دیکھو۔ میں اتنی مدت سے اپنا کھویا ہوا لال ڈھونڈتی پھر رہی ہوں۔ یہ ڈھونڈنا بالکل بیکار ہے۔ کچھ نہیں ملتا۔ لاؤ پانچ روپے دو مجھے۔ میں نے اسے پانچ روپے دیے اور کہا، اپنی موٹر تو لے جاؤ ڈاکٹر خان سے

’’وہ قہقہے لگاتی ہوئی چلی گئی۔ ‘‘

خان نے پوچھا

’’کہاں؟‘‘

حنیف نے جواب دیا

’’معلوم نہیں۔ کسی ڈاکٹر کے پاس گئی ہو گی۔ ‘‘

ڈاکٹر خان نے بہت تلاش کیا مگر شوبھا کا کچھ پتہ نہ چلا۔ 12جون1950ء

سعادت حسن منٹو

فرشتہ

سرخ کھردرے کمبل میں عطاء اللہ نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی دبیز چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا یا شاید کمرہ تھا جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔ دور بہت دور، جہاں شاید کمرہ یا دالان ختم ہو سکتا تھا، ایک بہت بڑا تھا جس کا دراز قد چھت کو پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔ عطاء اللہ کو اس کا صرف نچلا حصہ نظر آرہا تھا جو بہت پُر ہیبت تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ موت کا دیوتا ہے جو اپنی ہولناک شکل دکھانے سے قصداً گریز کررہا ہے۔ عطاء اللہ نے ہونٹ گول کرکے اور زبان پیچھے کھینچ کر اس پُر ہیبت بت کی طرف دیکھا اور سیٹی بجائی، بالکل اس طرح جس طرح کتے کو بلانے کے لیے بجائی جاتی ہے۔ سیٹی کا بجنا تھا کہ اس کمرے یا دالان کی دھندلی فضا میں ان گنت دُمیں لہرانے لگیں۔ لہراتے لہراتے یہ سب بہت بڑے شیشے کے مرتبان میں جمع ہو گئیں جو غالباً اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مرتبان فضا میں بغیر کسی سہارے کے تیرتا، ڈولتا اس کی آنکھوں کے پاس پہنچ گیا۔ اب وہایک چھوٹا سا مرتبان تھا جس میں اسپرٹ کے اندر اس کا دل ڈبکیاں لگا رہا تھا اور دھڑکنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ عطاء اللہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی۔ اس مقام پر جہاں اس کا دل ہوا کرتا تھا، اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ رکھا اور بے ہوش ہو گیا۔ معلوم نہیں کتنی دیر کے بعد اسے ہوش آیا مگر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو کہرا غائب تھا۔ وہ دیوہیکل بت بھی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا اور برف کی طرح ٹھنڈا۔ مگر اس مقام پر جہاں اس کا دل تھا، ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔ اس آگ میں کئی چیزیں جل رہی تھیں، بے شمار چیزیں۔ اس کی بیوی اور بچوں کی ہڈیاں تو چٹخ رہی تھیں، مگر اس کے گوشت پوست اور اس کی ہڈیوں پرکوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ جھلسا دینے والی تپش میں بھی وہ یخ بستہ تھا۔ اس نے ایک دم اپنے برفیلے ہاتھوں سے اپنی زرد رو بیوی اور سوکھے کے مارے ہوئے بچوں کو اٹھایا اور پھینک دیا۔ اب آگ کے اس الاؤ میں عرضیاں کے پلندے کے پلندے جل رہے تھے۔ ہر زبان میں لکھی ہوئی عرضیاں۔ ان پر اس کے اپنے ہاتھ سے کیے ہوئے دستخط، سب جل رہے تھے، آواز پیدا کیے بغیر۔ آگ کے شعلوں کے پیچھے اسے اپنا چہرہ نظر آیا۔ پسینے سے۔ سرد پسینے سے تربتر۔ اس نے آگ کا ایک شعلہ پکڑا اور اس سے اپنے ماتھے کا پسینے پونچھ کر ایک طرف پھینک دیا۔ الاؤ میں گرتے ہی یہ شعلہ بھیگے ہوئے اسفنج کی طرف رونے لگا۔ عطاء اللہ کو اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت ترس آیا۔ عرضیاں جلتی رہیں اورعطاء اللہ دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی زرد رو بیوی نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں گندھے ہوئے آٹے کا تھال تھا۔ جلدی جلدی اس نے پیڑے بنائے اور آگ میں ڈالنا شروع کردیے جو آنکھ جھپکنے کی دیر میں کوئلے بن کر سلگنے لگے۔ انھیں دیکھ کر عطاء اللہ کے پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ جھپٹا مار کر اس نے تھال میں سے آخری پیڑا اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا۔ لیکن آٹا خشک تھا۔ ریت کی طرح۔ اس کا سانس رکنے لگا اور وہ پھر بے ہوش ہو گیا۔ اب اس نے ایک بے جوڑ خواب دیکھنا شروع کیا۔ ایک بہت بڑی محراب تھی جس پر جلی حروف میں یہ شعر لکھا تھا ؂ روز محشر کہ جاں گداز بود اولیں پرسش نماز بود وہ فوراً پتھریلے فرش پر سجدے میں گر پڑا۔ نماز بخشوانے کے لیے دعا مانگنا چاہی مگر بھوک اس کے معدے کو اس بری طرح ڈسنے لگی کہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں کسی نے بڑی بارعب آواز میں پکارا:

’’عطاء اللہ!‘‘

عطاء اللہ کھڑا ہو گیا۔ محرابوں کے پیچھے۔ بہت پیچھے، اونچے منبر پر ایک شخص کھڑا تھا۔ مادر زاد برہنہ، اس کے ہونٹ ساکت تھے مگر آواز آرہی تھی۔

’’عطاء اللہ! تم کیوں زندہ ہو؟ آدمی صرف اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اسے کوئی سہارا ہو۔ ہمیں بتاؤ، کوئی ایسا سہارا ہے جس کا تمہیں سہارا ہو؟۔ تم بیمار ہو۔ تمہاری بیوی آج نہیں تو کل بیمار ہو جائے گی۔ وہ جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، بیمار ہوتے ہیں۔ زندر درگور ہوتے ہیں۔ اس کا سہارا تم ہو جو بڑی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ تمہارے بچے بھی ختم ہو رہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خود اپنے آپ کو ختم نہیں کیا۔ اپنے بچوں اور اپنی بیوی کو ختم نہیں کیا۔ کیا اس خاتمے کے لیے بھی تمہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے؟۔ تم رحم و کرم کے طالب ہو۔ بے وقوف! کون تم پر رحم کرے گا۔ موت کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمہیں مصیبتوں سے نجات دلائے۔ اس کے لیے یہ مصیبت کیا کم ہے کہ وہ موت ہے۔ کس کس کو آئے۔ ایک صرف تم عطاء اللہ نہیں ہو، تم ایسے لاکھوں عطاء اللہ اس بھری دنیا میں موجود ہیں۔ جاؤ، اپنی مصیبتوں کا علاج خود کرو۔ دو مریل بچوں اور ایک فاقہ زدہ بیوی کو ہلاک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس بوجھ سے ہلکے ہو جاؤ تو موت شرمسار ہو کر خود بخود تمہارے پاس چلی آئے گی۔ ‘‘

عطاء اللہ غصے سے تھرتھرکانپنے لگا۔

’’تم۔ تم سب سے بڑے ظالم ہو۔ بتاؤ، تم کون ہو۔ اس سے پیشتر کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہلاک کروں، میں تمہارا خاتمہ کردینا چاہتا ہوں۔ ‘‘

مادر زاد برہنہ شخص نے قہقہہ لگایا اور کہا

’’میں عطاء اللہ ہوں۔ غور سے دیکھو۔ کیا تم اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتے؟‘‘

عطاء اللہ نے اس ننگ دھڑنگ آدمی کی طرف دیکھا اور اس کی گردن جھک گئی۔ وہ خود ہی تھا، بغیر لباس کے۔ ان کا خون کھولنے لگا۔ فرش میں سے اس نے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر ایک پتھر نکالا اور تان کر منبر کی طرف دیکھا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ ماتھے پرہاتھ رکھا تو اس میں سے لہو نکل رہا تھا۔ وہ بھاگا۔ پتھریلے صحن کو عبور کرکے جب باہر نکلا تو ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ ہجوم کا ہر فرد عطاء اللہ تھا۔ جس کا ماتھا لہولہان تھا۔ بڑی مشکلوں سے ہجوم کو چیر کر وہ باہر نکلا۔ ایک تنگ و تاریک سڑک پر دیر تک چلتا رہا۔ اس کے دونوں کناروں پر حشیش اور تھوہر کے پودے اگے ہوئے تھے۔ ان میں کہیں کہیں دوسری زہریلی بوٹیاں بھی جمی تھیں۔ عطاء اللہ نے جیب سے بوتل نکال کر تھوہر کا عرق جمع کیا۔ پھر زہریلی بوٹیوں کے پتے توڑ کر اس میں ڈالے اور انھیں ہلاتا ہلاتا اس موڑ پر پہنچ گیا جہاں سے کچھ فاصلے پر اس کا مکان تھا۔ شکستہ اینٹوں کا ڈھیر۔ ٹاٹ کا بوسیدہ پردہ ہٹا کر وہ اندر داخل ہوا۔ سامنے طاق میں مٹی کے تیل کی کُپی سے کافی روشنی نکل رہی تھی۔ اس مٹیالی روشنی میں اس نے دیکھا کہ جھلنگی پلنگڑی پر اس کے دونوں مریل بچے مرے پڑے ہیں۔ عطاء اللہ کوبہت ناامیدی ہوئی۔ بوتل جیب میں رکھ کر جب وہ پلنگڑی کے پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ پھٹی پرانی گدڑی جو اس کے بچوں پر پڑی ہے، آہستہ آہستہ ہل رہی ہے۔ عطاء اللہ بہت خوش ہوا۔ وہ زندہ تھے۔ بوتل جیب سے نکال کر وہ فرش پربیٹھ گیا۔ دونوں لڑکے تھے۔ ایک چار برس، دوسرا پانچ کا۔ دونوں بھوکے تھے۔ دونوں ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے۔ گدڑی ایک طرف ہٹا کر جب عطاء اللہ نے ان کو غور سے دیکھا تو اسے تعجب ہوا کہ اتنے چھوٹے بچے اتنی سوکھی ہڈیوں پر اتنی دیر سے کیسے زندہ ہیں۔ اس نے زہر کی شیشی ایک طرف رکھ دی اور انگلیوں سے ایک بچے کی گردن ٹٹولتے ٹٹولتے۔ ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔ ہلکی سی تڑاخ ہوئی اور اس بچے کی گردن ایک طرف لٹک گئی۔ عطاء اللہ بہت خوش ہوا کہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کام تمام ہو گیا۔ اسی خوشی میں اس نے اپنی بیوی کو پکارا۔

’’جیناں! جیناں۔ ادھر آؤ۔ دیکھو میں نے کتنی صفائی سے رحیم کو مار ڈالا ہے۔ کوئی تکلیف نہیں ہوئی اس کو۔ ‘‘

اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ زینب کہاں ہے؟۔ معلوم نہیں کہاں چلی گئی ہے؟۔ شاید بچوں کے لیے کسی سے کھانا مانگنے گئی ہو۔ یا ہسبپتال میں اس کی خیریت دریافت کرنے۔ عطاء اللہ ہنسا۔ مگر اس کی ہنسی فوراً دب گئی، جب دوسرے بچے نے کروٹ بدلی اور اپنے مردہ بھائی کو بلانا شروع کیا۔

’’رحیم۔ رحیم۔ ‘‘

وہ نہ بولا تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ہڈیوں کی چھوٹی چھوٹی سیاہ پیالوں میں اس کی آنکھیں چمکیں۔

’’ابا۔ تم آگئے۔ ‘‘

عطاء اللہ نے ہولے سے کہا۔

’’ہاں کریم، میں آگیا۔ ‘‘

کریم نے اپنے استخوانی ہاتھ سے رحیم کو جھنجھوڑا۔

’’اٹھو رحیم۔ ابا آگئے ہسپتال سے۔ ‘‘

عطاء اللہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

’’خاموش رہو۔ وہ سو گیا ہے۔ ‘‘

کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ ہٹایا۔

’’کیسے سو گیا ہے۔ ہم دونوں نے ابھی تک کچھ کھایا نہیں۔ ‘‘

’’تم جاگ رہے تھے؟‘‘

’’ہاں ابا۔ ‘‘

’’سو جاؤ گے ابھی تم۔ ‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’میں سلاتا ہوں تمہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کرعطاء اللہ نے اپنی سخت انگلیاں کریم کی گردن پر رکھیں اور اس کو مروڑ دیا۔ مگر تڑاخ کی آواز پیدا نہ ہوئی۔ کریم کو بہت درد ہوا۔

’’یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ ‘‘

’’کچھ نہیں۔ ‘‘

عطاء اللہ حیرت زندہ تھا کہ اس کا یہ دوسرا لڑکا اتنا سخت جان کیوں ہے۔

’’کیا تم سونا نہیں چاہتے؟‘‘

کریم نے اپنی گردن سہلاتے ہوئے جواب دیا۔

’’سونا چاہتا ہوں۔ کچھ کھانے کو دے دو۔ سو جاؤں گا۔ ‘‘

عطاء نے اللہ زہر کی شیشی اٹھائی۔

’’پہلے یہ دوا پی لو۔ ‘‘

’’اچھا۔ ‘‘

کریم نے اپنا منہ کھول دیا۔ عطاء اللہ نے ساری شیشی اس کے حلق میں انڈیل دی اور اطمینان کا سانس لیا۔

’’اب تم گہری نیند سو جاؤ گے۔ ‘‘

کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔

’’ابا۔ اب کچھ کھانے کو دو۔ ‘‘

عطاء اللہ کو بہت کوفت ہوئی۔

’’تم مرتے کیوں نہیں۔ ؟‘‘

کریم یہ سن کر سٹپٹا سا گیا۔

’’کیا ابا‘‘

’’تم مرتے کیوں نہیں۔ میرا مطلب ہے، اگر تم مر جاؤگے تو نیند بھی آجائے گی تمہیں۔ ‘‘

کریم کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا باپ کیا کہہ رہا ہے۔

’’مارتا تو اللہ میاں ہے ابا۔ ‘‘

اب عطاء اللہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔

’’مارا کرتا تھا کبھی۔ اب اس نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔ چلو اٹھو۔ ‘‘

پلنگڑی پر کریم تھوڑا سا اٹھا تو عطاء اللہ نے اسے اپنی گود میں لے لیا اور سوچنے لگا کہ وہ اللہ میاں کیسے بنے۔ ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر جب باہر گلی میں نکلا، اسے یوں محسوس ہوا جیسے آسمان اس پر جھکا ہوا ہے۔ اس میں جا بجا مٹی کے تیل کی کپٹیاں جل رہی تھیں۔ اللہ میاں خدا جانے کہاں تھا۔ اور زینب بھی۔ معلوم نہیں وہ کہاں چلی گئی تھی۔ کہیں سے کچھ مانگنے گئی ہو گی۔ عطاء اللہ ہنسنے لگا۔ لیکن فوراً اسے خیال آیا کہ اسے اللہ میاں بننا تھا۔ سامنے موری کے پاس بہت سے پتھر پڑے تھے۔ ان پر وہ اگر کریم کو دے مارے تو۔ مگر اس میں اتنی طاقت نہیں تھی۔ کریم اس کی گود میں تھا۔ اس نے کوشش کی کہ اسے اپنے بازوؤں میں اٹھائے اور سر سے اوپر لے جا کر پتھروں پر پٹک دے، مگر اسکی طاقت جواب دے گئی۔ اس نے کچھ سوچا اور اپنی بیوی کو آواز دی

’’جیناں۔ جیناں۔ ‘‘

زینب معلوم نہیں کہاں ہے۔ کہیں وہ اس ڈاکٹر کے ساتھ تو نہیں چلی گئی جو ہر وقت اس سے اتنی ہمدردی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ وہ ضرور اس کے فریب میں آگئی ہو گی۔ میرے لیے اس نے کہیں خود کو بیچ تو نہیں دیا۔ یہ سوچتے ہی اس کا خون کھول اٹھا۔ کریم کو پاس بہتی ہوئی بدرو میں پھینک کر وہ ہسپتال کی طرف بھاگا۔ اتنا تیز دوڑا کہ چند منٹ میں ہسپتال پہنچ گیا۔ رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ جب وہ اپنے و ارڈ کے برآمدے میں پہنچا تو دو آوازیں سنائی دیں۔ ایک اس کی بیوی کی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔

’’تم دغا باز ہو۔ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ اس سے جو کچھ تمہیں ملا ہے، تم نے اپنی جیب میں ڈال لیا ہے۔ ‘‘

کسی مرد کی آواز سنائی دی۔

’’تم غلط کہتی ہو۔ تم اس کو پسند نہیں آئیں اس لیے وہ چلا گیا۔ ‘‘

اس کی بیوی دیوانہ وار چلائی۔

’’بکواس کرتے ہو۔ ٹھیک ہے کہ میں دو بچوں کی ماں ہوں۔ میرا وہ پہلا سا رنگ روپ نہیں رہا۔ لیکن وہ مجھے قبول کرلیتا اگر تم بھانجی نہ مارتے۔ تم بہت ظالم ہو۔ بہت کٹھور ہو۔ ‘‘

اس کی آواز گلے میں رندھنے لگی۔

’’میں کبھی تمہارے ساتھ نہ چلتی۔ میں کبھی ذلت میں نہ گرتی اگر میرا خاوند بیمار اور میرے بچے کئی دنوں کے بھوکے نہ ہوتے۔ تم نے کیوں یہ ظلم کیا؟‘‘

اس مرد نے جواب دیا۔

’’وہ۔ وہ کوئی بھی نہیں تھا۔ میں خود تھا۔ جب تم میرے ساتھ چل پڑیں تو میں نے خود کو پہچانا۔ اور تم سے کہا کہ وہ چلا گیا ہے۔ وہ، جس کے لیے میں تمہیں لایا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارا خاوند مر جائے گا۔ تمہارے بچے مر جائیں گے۔ تم بھی مر جاؤ گی۔ لیکن۔ ‘‘

’’لیکن کیا۔ ‘‘

اس کی بیوی نے تیکھی آواز میں پوچھا۔

’’میں مرتے دم تک زندہ رہوں گا۔ تم نے مجھے اس زندگی سے بچا لیا ہے جو موت سے کہیں زیادہ خوف ناک ہوتی۔ چلو آؤ۔ عطاء اللہ ہمیں بلا رہا ہے۔ ‘‘

’’عطاء اللہ یہاں کھڑا ہے۔ ‘‘

عطاء اللہ نے بھینچی ہوئی آواز میں کہا۔ دو سائے پلٹے۔ اس سے کچھ فاصلے پر وہ ڈاکٹر کھڑا تھا جو زینب سے بڑی ہمدردی کا اظہارکیا کرتا تھا۔ اس کے منہ سے صرف اس قدر نکل سکا تھا۔

’’تم!‘‘

’’ہاں، میں۔ تمہاری سب باتیں سن چکا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر عطاء اللہ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔

’’جیناں۔ میں نے رحیم اور کریم دونوں کو مار ڈالا ہے۔ اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ ‘‘

زینب چیخی۔

’’مار ڈالا تم نے! دونوں بچوں کو؟‘‘

عطاء اللہ نے بڑے پرسکون لہجے میں کہا۔

’’ہاں۔ انھیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے تمہیں بھی کوئی تکلیف نہیں۔ ڈاکٹر صاحب موجود ہیں!‘‘

ڈاکٹر کانپنے لگا۔ عطاء اللہ آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا۔

’’ایسا انجکشن دے دو کہ فوراً مر جائے۔ ‘‘

ڈاکٹر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا بیگ کھولا اور سرنج میں زہر بھر کے زینب کے ٹیکہ لگا دیا۔ ٹیکہ لگتے ہی وہ فرش پر گری اور مر گئی۔ اس کی زبان پر آخری الفا٭۔ میرے بچے۔ میرے بچے‘‘

تھے، مگر اچھی طرح ادا نہ ہوسکے۔ عطاء اللہ نے اطمینان کا سانس لیا۔

’’چلو یہ بھی ہو گیا۔ اب میں باقی رہ گیا ہوں۔ ‘‘

’’لیکن۔ لیکن میرے پاس زہر ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر کے لہجے میں لکنت تھی۔ عطاء اللہ تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہو گیا، لیکن فوراً سنبھل کر اس نے ڈاکٹر سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں۔ میں اندر اپنے بستر پر لیٹتا ہوں، تم بھاگ کر زہر لے کر آؤ۔ ‘‘

بستر پر لیٹ کر سرخ کھردرے کمبل میں اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا نہ ختم ہونے والا دالان تھا۔ یا شاید کمرہ جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔ دور، بہت دور ایک فرشتہ کھڑا تھا۔ جب وہ آگے بڑھنے لگا تو چھوٹا ہوتا گیا۔ عطاء اللہ کی چارپائی کے پاس پہنچ کر وہ ڈاکٹر بن گیا۔ وہی ڈاکٹر جو اس کی بیوی سے ہر وقت ہمدردی کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اور اسے بڑے پیار سے دلاسا دیتا تھا۔ عطاء اللہ نے اسے پہچانا تو اٹھنے کی کوشش کی۔

’’آئیے ڈ اکٹر صاحب!‘‘

مگر وہ ایک دم غائب ہو گیا۔ عطاء اللہ لیٹ گیا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ کہرا دور ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہاں غائب ہو گیا تھا۔ اس کا دماغ بھی صاف تھا۔ ایک دم وارڈ میں شور بلند ہوا۔ سب سے اونچی آواز جو چیخ سے مشابہ تھی، زینب کی تھی، اس کی بیوی کی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی۔ معلوم نہیں کیا کہہ رہی تھی۔ عطاء اللہ نے اٹھنے کی کوشش کی۔ زینب کو آواز دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ دھند پھر چھانے لگی اور وارڈ لمبا۔ بہت لمبا ہوتا چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد زینب آئی۔ اس کی حالت دیوانوں کی سی ہورہی تھی۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے عطاء اللہ کو جھنجوڑنا شروع کیا۔

’’میں نے اسے مار ڈالا ہے۔ میں نے اس حرام زادے کو مار ڈالا ہے۔ ‘‘

’’کس کو؟‘‘

اسی کو مجھ سے اتنی ہمدردی جتایا کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ تمہیں بچا لے گا۔ وہ جھوٹا تھا۔ دغا باز تھا، اس کا دل توے کی کالک سے بھی زیادہ کالا تھا۔ اس نے مجھے۔ اس نے مجھے۔ ‘‘

اس کے آگے زینب کچھ نہ کہہ سکی۔ عطاء اللہ کے دماغ میں بے شمار خیالات آئے اور آپس میں گڈمڈ ہو گئے۔

’’تمہیں تو اس نے مار ڈالا تھا؟‘‘

زینب چیخی۔

’’نہیں۔ میں نے اسے مار ڈالا ہے۔ ‘‘

عطاء اللہ چند لمحے خلا میں دیکھتا رہا۔ پھر اس نے زینب کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹایا۔

’’تم ادھر ہو جاؤ۔ وہ آرہا ہے۔ ‘‘

’’کون؟‘‘

’’وہی ڈاکٹر۔ وہی فرشتہ۔ ‘‘

فرشتہ آہستہ آہستہ اس کی چارپائی کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں زہر بھری سرنج تھی۔ عطاء اللہ مسکرایا۔

’’لے آئے!‘‘

فرشتے نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’ہاں، لے آیا۔ ‘‘

عطاء اللہ نے اپنا لرزاں بازو اس کی طرف بڑھایا۔

’’تو لگا دو۔ ‘‘

فرشتے نے سوئی اس کے بازو میں گھونپ دی۔ عطاء اللہ مر گیا۔ زینب اسے جھنجوڑنے لگی۔

’’اٹھو۔ اٹھو کریم، رحیم کے ابا، اٹھو۔ یہ ہسپتال بہت بری جگہ ہے۔ چلو گھر چلیں۔ ‘‘

تھوڑی دیر کے بعد پولیس آئی اور زینب کو اس کے خاوند کی لاش پر سے ہٹا کر اپنے ساتھ لے گئی!

سعادت حسن منٹو

غسل خانہ

صدر دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی سڑھیوں کے پاس ایک چھوٹی سی کوٹھڑی ہے جس میں کبھی اُپلے اور لکڑیاں کوئلے رکھے جاتے تھے۔ مگر اب اس میں نل لگا کر اس کو مردانہ غسل خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ فرش وغیرہ مضبوط بنا دیا گیا ہے تاکہ مکان کی بنیادوں میں پانی نہ چلا جائے۔ اس میں صرف ایک کھڑکی ہے جو گلی کی طرف کھلتی ہے۔ اس میں زنگ آلود سلاخیں لگی ہوئی ہیں۔ میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا جب یہ غسل خانہ میری زندگی میں د اخل ہوا۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ غسل خانے انسانوں کی زندگی میں کیونکر داخل ہو سکتے ہیں۔ غسل خانہ تو ایسی چیز ہے جس میں آدمی داخل ہوتا ہے اور دیر تک داخل رہتا ہے۔ لیکن جب آپ میری کہانی سُن لیں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ غسل خانہ واقعی میری زندگی میں داخل ہُوا اور اس کا ایک اہم ترین جزو بن کے رہ گیا۔ یوں تو میں اس غسل خانے سے اس وقت کا متعارف ہوں جب اس میں اُپلے وغیرہ پڑے رہتے تھے اور میری بلی نے اس میں بھیگے ہُوئے چوہوں کی شکل کے چار بچے دیے تھے۔ ان کی آنکھیں دس بارہ روز تک مندی رہی تھیں چنانچہ جب میرا چھوٹا بھائی پیدا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی دیکھ کر میں نے امی جان سے کہا تھا۔

’’امی جان میری بلی ٹیڈی نے جب بچے دیے تھے تو ان کی آنکھیں بند تھی اس کی کیوں کھلی ہوئی ہیںء‘‘

یعنی میں بچپن ہی سے اس غسل خانے کو جانتا ہُوں لیکن یہ میری زندگی میں اس وقت داخل ہوا۔ جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اور ایک بھاری بھر کم بستہ بغل میں دبا کر ہر روز اسکول جایا کرتا تھا۔ ایک روز کا ذکر ہے میں نے اسکول سے گھر آتے ہوئے سردار ودہا واسنگھ پھل فروش کی دکان سے ایک کابلی انار چُرایا۔ میں اور میرے دو ہم جماعت لڑکے ہر روز کچھ نہ کچھ اس دکان سے چرایا کرتے تھے لیکن بھائی ودہاواسنگھ جو پھلوں کے ٹوکروں میں گِھرا ایک بڑی سی پگڑی اپنے کیسوں پر رکھے سارا دن افیم کے نشے میں اونگھتا رہتا تھا کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔ مگر بات یہ ہے کہ ہم بڑی بڑی چیزیں نہیں چراتے تھے۔ کبھی انگور کے چند دانے اُٹھا لیے کبھی لوکاٹ کا ایک گُچھا لے اڑے۔ کبھی مٹھی بھر خوبانیاں اٹھائیں اور چلتے بنے۔ لیکن اس دفعہ چونکہ میں نے زیادتی کی تھی اس لیے پکڑا گیا۔ ایک دم بھائی ودہاوا سنگھ اپنی ابدی پینک سے چونکا اور اتنی پُھرتی سے نیچے اتر کر اس نے مجھے رنگوں ہاتھوں پکڑا کہ میں دنگ رہ گیا۔ ساتھ ہی میرے حواس باختہ ہو گئے۔ پہلے تو میں اس چوری کو کھیل سمجھا تھا لیکن جب میلی داڑھی والے سردار ووہاواسنگھ نے اپنی پھولی ہوئی رگوں والے ہاتھ سے میری گردن ناپی تو مجھے احساس ہُوا کہ میں چور ہوں۔ بچپن ہی سے مجھے اس بات کا خیال رہا ہے کہ لوگوں کے سامنے میری ذلت نہ ہو۔ چنانچہ سرِ بازار جب میں نے خود کو ذلیل ہوتے دیکھا تو فوراً بھائی ووہاوا سنگھ سے معافی مانگ لی۔ آدمی کا دل بہت اچھا تھا۔ انار میرے ہاتھ سے چھین کر اس نے وہ میل جو اس کے خیال کے مطابق انار کو لگ گیا تھا اپنے کرتے سے صاف کیا اور بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔

’’وکیل صاحب آئے تو میں ان سے کہونگاکہ آپ کے لڑکے نے اب چوری شروع کردی ہے۔ ‘‘

میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں تو سمجھا تھا کہ سستے چھوٹ گئے۔ وکیل صاحب یعنی میرے ابا جی سردار ودہاوا سنگھ نہیں تھے۔ وہ نہ افیم کا نشہ کرتے تھے اور نہ انھیں پھلوں ہی سے کوئی دلچسپی تھی۔ میں نے سوچا اگر اس کمبخت ودہاوا سنگھ نے ان سے میری چوری کا ذکر کردیا تو وہ گھر میں داخل ہوتے ہی امی جان سے کہیں گے۔

’’کچھ سنتی ہو۔ اب تمہارے اس برخوردار نے چوری چکاری بھی شروع کردی ہے۔ سردار ودہاواسنگھ نے جب مجھ سے کہا کہ وکیل صاحب آپکا لڑکا انار اٹھا کے بھاگ گیا تھا تو خدا کی قسم میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ میں نے آج تک اپنی ناک پرمکھی بیٹھنے نہیں دی۔ لیکن اس نالائق نے میری ساری عزت خاک میں ملا دی ہے۔ ‘‘

وہ مجھے دو تین طمانچے مار کر مطمئن ہو جاتے مگر امی جان کا ناک میں دم کردیتے۔ اس لیے کہ وہ ہماری طرف داری کرتی تھی۔ وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ ان کی اولاد( ہم چھ بیٹے تھے) سے کوئی چھوٹی سی لغزش ہو اور وہ آنگن میں اپنے گنجے سر کا پسینہ پونچھ پونچھ کر امی جان کو کوسنا شر وع کردیں جیسے سارا قصور ان کا ہے۔ کوسنے کے بعد بھی ان کا جی ہلکا نہیں ہوتا تھا۔ اس روز کھانا نہیں کھاتے تھے اور دیر تک خاموش آنگن میں سیمنٹ لگے فرش پر اِدھر اُدھر ٹہلتے رہتے تھے۔ جس وقت بھائی ودہاوا سنگھ نے وکیل صاحب کا نام لیا میری آنکھوں کے سامنے ابا جی کا گنجا سر آگیا جس پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں ان کو ہمیشہ غصے کے وقت اس جگہ پر پسینہ آتا ہے۔ بستہ میری بغل میں بہت وزنی ہو گیا۔ ٹانگیں بے جان سی ہو گئیں۔ دل دھڑکنے لگا۔ شرم کا وہ احساس جو چوری پکڑے جانے پر پیدا ہُوا مٹ گیا اور اس کی جگہ ایک تکلیف دہ خوف نے لے لی۔ ابا جی کا گنجا سر۔ اس پر چمکتی ہوئی پسینے کی ننھی ننھی بوندیں۔ آنگن کا سیمنٹ لگا فرش۔ اس پر ان کا غصے میں اِدھر اُدھر چھیڑے ہوئے بیر شیر کی طرح چلنا اور رک رک کر امی جان پر برسنا۔ سخت پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا غسل خانے کے پاس ٹھہر کر میں نے ایک بار سوچا کہ اگر اس کمبخت پھل فروش نے سچ مچ ابا جی سے کہہ دیا تو آفت ہی آجائے۔ دو تین روز کے لیے سارا گھر جہنم کا نمونہ بن جائے گا۔ ابا جی اور سب کچھ معاف کرسکتے تھے۔ لیکن چوری کبھی معاف نہیں کرتے تھے۔ ہمارے پرانے ملازم نبّو نے ایک بار دس روپے کا نوٹ امی جان کے پان دان سے نکال لیا تھا۔ امی جان نے تو اسے معاف کردیا تھا لیکن ابا جی کو جب اس چوری کا پتا چلا تو انھوں نے اسے نکال باہرکیا

’’میں اپنے گھرمیں کسی چور کو نہیں رکھ سکتا۔ ‘‘

ان کے یہ الفاظ میرے کانوں میں کئی بار گونج چکے تھے۔ میں نے اوپر جانے کے لیے زینے پر قدم ہی رکھا کہ ان کی آواز میرے کانوں میں آئی۔ جانے وہ میرے بڑے بھائی ثقلین سے کیا کہہ رہے تھے لیکن میں یہی سمجھا کہ وہ بنو کو گھر سے باہر نکال رہے ہیں اور اس سے غصے میں یہ کہہ رہے ہیں

’’میں اپنے گھر میں کسی چور کو نہیں رکھ سکتا۔ ‘‘

میرے قدم منوں بھاری ہو گئے۔ میں اور زیادہ سہم گیا اور اوپر جانے کے بجائے نیچے اُتر آیا۔ خدا معلوم کیا جی میں آئی کہ غسل خانے کے اندر جا کر میں نے صدقِ دل سے دعا مانگی کہ ابا جی کو میری چوری کا علم نہ ہو۔ یعنی ودہاوا سنگھ ان سے اس کا ذکر کرنا بھول جائے۔ دعا مانگنے کے بعد میرے جی کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا۔ چنانچہ میں اوپر چلا گیا۔ خدا نے میری دعا قبول کی۔ ودہاوا سنگھ اور اس کی دکان ابھی تک موجود ہے۔ لیکن اس نے ابا جی سے انار کی چوری کا ذکر نہیں کیا۔ غسل خانہ یہیں سے میری زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ ایک بارپھر ایسی ہی بات ہوئی۔ میں زیادہ لطف لینے کی خاطر پہلی دفعہ بازارمیں کھلے بندوں سگریٹ پیے جارہا تھا کہ ابا جی کے ایک دوست سے میری مڈبھیڑ ہو گئی۔ اس نے سگرٹ میرے ہاتھ سے چھین کرغصّے میں ایک طرف پھینک دیا اور کہا۔

’’تم بہت آوارہ ہو گئے ہو۔ بڑوں کا شرم و لحاظ اب تمہاری آنکھوں میں بالکل نہیں رہا۔ خواجہ صاحب سے کہہ کر آج ہی تمہاری اچھی طرح گوشمالی کراؤں گا۔ ‘‘

انار کی چوری کے مقابلے میں کھلے بندوں سگریٹ پینا اور بھی زیادہ خطرناک تھا۔ خواجہ صاحب یعنی میرے ابا جی خود سگریٹ پیتے تھے مگر اپنی اولاد کے لیے انھوں نے اس چیز کو قطعی طور پرممنوع قرار دے رکھا تھا۔ ایک روز میرے بڑے بھائی کی جیب میں سے انھیں سگرٹ کی ڈبیا مل گئی تھی جس پر انھوں نے ایک تھپڑ لگا کر فیصلہ کن لہجے میں یہ الفاظ کہے تھے۔

’’ثقلین اگر میں نے تمہاری جیب میں پھر سگریٹ کی ڈبیا دیکھی تو میں تمہیں اس روز گھر سے باہر نکال دوں گا۔ سمجھ گئے؟‘‘

ثقلین سمجھ گیا تھا۔ چنانچہ وہ ہر روز صرف ایک سگرٹ لاتا تھا اور پائخانے میں جا کر پیا کرتا تھا۔ میں ثقلین سے عمر میں تین برس چھوٹا ہُوں۔ ظاہر ہے کہ میرا سگریٹ پینا اور وہ بھی بازاروں میں کھلے بندوں۔ ابا جی کسی طرح برداشت نہ کرتے۔ ثقلین کو تو انھوں نے صرف دھمکی دی تھی مگر مجھے وہ یقیناًگھر سے باہر نکال دیتے۔ گھر میں داخل ہونے سے پہلے میں نے غسل خانے میں جا کرصدق دل سے دعا مانگی کہ اے خدا ابا جی کو میرے سگریٹ پینے کا کچھ علم نہ ہو۔ دُعا مانگنے کے بعد میرے دل پر سے خوف کا بوجھ ہلکا ہو گیا اور میں اوپر چلا گیا۔ آپ کہیں گے کہ میں خاص طور پر غسل خانے میں داخل ہو کر ہی کیوں دعا مانگتا تھا۔ دعا کہیں بھی مانگی جاسکتی ہے۔ درست ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ میں دل میں اگر کوئی بات سوچوں تو اس کے ساتھ اور بہت سی غیر ضروری باتیں خود بخود آجاتی ہیں۔ میں نے گھر لوٹتے ہوئے راستے میں دعا مانگی تھی مگر میرے دل میں کئی اوٹ پٹانگ باتیں پیدا ہو گئی تھیں۔ دعا اور یہ باتیں غلط ملط ہوکر ایک بے ربط عبارت بن گئی تھی۔

’’اللہ میاں۔ میں نے سگریٹ۔ بیڑا غرق ایک پوری ڈبیا سگرٹوں کی میرے نیکر کی جیب میں پڑی ہے۔ اگر کسی نے دیکھ لی تو کیا ہو گا۔ کہیں ثقلین ہی نہ لے اڑے۔ اللہ میاں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سگریٹ پینے میں کیا برائی ہے؟ ابا جی نے چھٹی جماعت سے پینے شروع کیے تھے۔ اللہ میاں۔ سگرٹ والے کے ساڑھے تیرہ آنے میری طرف نکلتے ہیں۔ ان کی ادائیگی کیسے ہو گی اور اسکول میں مٹھائی والے کے بھی چھ آنے دینا ہیں۔ مٹھائی اس کی بالکل واہیات ہے لیکن میں کھاتا کیوں ہوں؟۔ اللہ میاں مجھے معاف کردے۔ جو سگریٹ ابا جی پیتے ہیں ان کا مزا کچھ اور ہی قسم کا ہوتا ہے۔ پان کھا کر سگریٹ پینے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ اللہ میاں۔ اب کے نہر پہ جائیں گے تو سگریٹوں کا ڈبہ ضرور خریدیں گے۔ کب تک سگریٹ والا ادھار دیتا رہے گا۔ امی جان کا بٹوہ۔ اللہ میاں مجھے معاف کردے۔ ‘‘

میں دل ہی دل میں خاموش دعا مانگوں تو یہی گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مجھے غسل خانے کے اندر جانا پڑتا تھا۔ دروازہ بند کرکے میں وہاں اپنے خیالات کو آوارہ نہیں ہونے دیتا تھا۔ میلی چھت کی طرف نگاہیں اٹھائیں۔ سانس روکا اور ہولے ہولے دعا گنگنانا شروع کردی۔ عجیب بات ہے کہ جو دعا میں نے اس غلیظ غسل خانے میں مانگی، قبول ہوئی۔ انار کی چوری کا ابا جی کوکچھ علم نہ ہوا۔ سگریٹ پینے کے متعلق بھی وہ کچھ جان نہ سکے اس لیے کہ ان کا دوست اس روز شام کو کلکتے چلا گیا جہاں اس نے مستقل رہائش اختیار کرلی۔ غسل خانے سے میرا اعتقاد اور بھی پختہ ہو گیا۔ جب میں نے دسویں جماعت کا امتحان دینے کے دوران میں دعا مانگی اور وہ قبول ہُوئی۔ جیومیٹری کا پرچہ تھا۔ میں نے غسل خانے میں جا کر تمام پراپوزیشنیں کتاب سے پھاڑ کر اپنے پاس رکھ لیں اور دعا مانگی کہ کسی ممتحن کی نظر نہ پڑے اور میں اپنا کام اطمینان سے کرلوں۔ چنانچہ یہی ہُوا۔ میں نے پھاڑے ہُوئے اوراق نکال کرکاغذوں کے نیچے ڈیسک پر رکھ لیے اور اطمینان سے بیٹھا نقل کرتا رہا۔ ایک بار نہیں پچیسویں بارمیں نے اس غسل خانے میں حالات کی نزاکت محسوس کرکے دُعا مانگی جو قبول ہوئی۔ میرے بڑے بھائی ثقلین کو اس کا علم تھا مگر وہ میری ضعیف الاعتقادی سمجھتا تھا۔ بھئی کچھ بھی ہو۔ میرا تجربہ یہی کہتا ہے کہ اس غسل خانے میں مانگی ہوئی دعا کبھی خالی نہیں گئی۔ میں نے اور جگہ بھی دعائیں مانگ کر دیکھی ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی قبول نہیں ہوئی۔ کیوں؟۔ اس کا جواب نہ میں دے سکتا ہوں اور نہ میرا بڑا بھائی ثقلین۔ ممکن ہے آپ میں سے کوئی صاحب دے سکیں۔ چند برس پیچھے کا ایک دلچسپ واقعہ آپ کو سناتا ہوں۔ میرے چچا جان کی شادی تھی۔ آپ سنگاپور سے اس غرض کے لیے آئے تھے۔ چونکہ ان کا اور ہمارا گھر۔ بالکل ساتھ ساتھ ہے اس لیے جتنی رونق ان کے مکان میں تھی اتنی ہی ہمارے مکان میں بھی تھی بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی کہیے کیونکہ لڑکی والے ہمارے گھر آگئے تھے آدھی آدھی رات ڈھولک کے گیت گائے جاتے تھے۔ ہونے والی دلہن سے چھیڑ چھاڑ۔ عجیب و غریب رسمیں۔ تیل۔ مہندی اور خدا معلوم کیا کیا کچھ۔ بچوں کی چیخ و پکار۔ الہڑ لڑکیوں کی نئی گرگابیوں اور سینڈلوں میں ایک چلت پھرت۔ اوٹ پٹانگ کھیل۔ غرض کہ ہر وقت ایک ہنگامہ مچا رہتا تھا۔ جب اس قسم کی خوشگوار افراتفری پھیلی ہو تو لڑکیوں کو چھیڑنے کا بہت لطف آتا ہے بلکہ یُوں کہیے کہ شادی بیاہ کے ایسے ہنگاموں ہی پر لڑکیوں کو چھیڑنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے دور کے رشتہ دار شالباف تھے۔ ان کی لڑکی مجھے بہت پسند تھی۔ اس سے پہلے تین چار مرتبہ ہمارے یہاں آچکی تھی۔ اس کو دیکھ کر مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک رُکی ہوئی ہنسی ہے۔ نہیں۔ میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح بیان نہیں کر سکا۔ اس کا سارا وجود کھلکھلا کر ہنس اُٹھتا اگر اس کو ذرا سا چھیڑ دیا جاتا۔ بالکل ذرا سا یعنی اس کو اگر صرف چُھو لیا جاتا تو بہت ممکن ہے وہ ہنسی کا فوارہ بن جاتی۔ اس کے ہونٹوں اور اس کی آنکھوں کے کونوں میں۔ اس کی ناک کے ننھے ننھے نتھنوں میں۔ اس کی پیشانی کی مصنوعی تیوریوں میں۔ اس کے کان کی لووں میں ہنسی کے ارادے مرتعش رہتے تھے۔ میں نے اس کے چھیڑنے کا پورا تہیہ کرلیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سیڑھیوں کی بتی خراب ہو گئی۔ بلب فیوز ہوا یا کیا ہوا بہر حال اچھا ہوا کیونکہ وہ بار بار کہیں نیچے آتی تھی اور کبھی اوپر جاتی تھی۔ میں غسل خانے کے پاس اندھیرے میں ایک طرف ہوکرکھڑا ہو گیا۔ وہ اوپر جاتی یا نیچے آتی مجھ سے اسکی مڈبھیڑ ضرور ہوتی اور میں اندھیرے میں اس سے فائدہ اٹھا کر اپنا کام کر جاتا۔ بات معقول تھی چنانچہ میں کچھ دیر دم سادھے اسکا منتظر رہا۔ اور اس دوران میں اپنی آنکھوں کو تاریکی کا عادی بناتا رہا۔ کسی کے نیچے اترنے کی آواز آئی۔ کھٹ۔ کھٹ۔ کھٹ۔ میں تیار ہو گیا۔ ابا جی تھے۔ انھوں نے پوچھا۔ کون ہے؟۔ میں نے کہا۔

’’جی عباس‘‘

۔ انھوں نے اندھیرے میں ایک زور کا طمانچہ میرے منہ پر مارا اور کہا۔

’’تمہیں شرم نہیں آتی۔ یہاں چھپ کر لڑکیوں کو چھیڑتے ہو۔ ثریا ابھی ابھی اپنی ایک سہیلی سے تمہاری اس بیہودہ حرکت کا ذکر کررہی تھی۔ اگر اس نے اپنی ماں سے کہہ دیا تو جانتے ہو کیا ہو گا؟۔ واہیات کہیں کے!۔ تمہیں اپنی عزت کا خیال نہیں اپنے بڑوں کی آبرو ہی کا کچھ لحاظ کرو۔ اور ثریا کی ماں نے آج ہی ثریا کے لیے تمہیں مانگا ہے۔ لعنت ہو تم پر۔ ‘‘

کھٹ کھٹ کھٹ۔ کسی کے نیچے اُترنے کی آواز آئی۔ ابا جی نے میرے حیرت زدہ منہ پر ایک اور طمانچہ رسید کیا اور بڑبڑاتے چلے گئے۔ کھٹ کھٹ کھٹ۔ ثریا تھی۔ میرے پاس سے گزرتے ہوئے ایک لحظے کے لیے ٹھٹکی اور حیا آلود غصے کے ساتھ یہ کہتی چلی گئی۔

’’خبردار جو اب آپ نے مجھے چھیڑا۔ امی جان سے کہہ دونگی۔ ‘‘

میں اور بھی زیادہ متحیر ہو گیا۔ دماغ پر بہت زور دیا مگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔ اتنے میں غسل خانے کا دروازہ چرچراہٹ کے ساتھ کھلا اور ثقلین باہر نکلا۔ میں نے اس سے پوچھا۔

’’تم یہاں کیا کررہے تھے؟‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’دُعا مانگ رہا تھا۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کس لیے۔ ‘‘

مسکرا کر اس نے کہا۔

’’ثریا کو میں نے چھیڑا تھا۔ ‘‘

میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا۔ اس غسل خانے میں جو دعا مانگی جائے ضرور قبول ہوتی ہے۔

سعادت حسن منٹو

عورت ذات

مہاراجہ گ سے ریس کورس پر اشوک کی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دونوں بے تکلف دوست بن گئے۔ مہاراجہ گ کو ریس کے گھوڑے پالنے کا شوق ہی نہیں خبط تھا۔ اس کے اصطبل میں اچھی سے اچھی نسل کا گھوڑا موجود ت تھا۔ اور محل میں جس کے گنبد ریس کورس سے صاف دکھائی دیتے تھے۔ طرح طرح کے عجائب موجود تھے۔ اشوک جب پہلی بار محل میں گیا تو مہاراجہ گ نے کئی گھنٹے صرف کرکے اسکو اپنے تمام نوادر دکھائے۔ یہ چیزیں جمع کرنے میں مہاراجہ کو ساری دنیا کا دورہ کرنا پڑا تھا۔ ہر ملک کا کونہ کونہ چھاننا پڑا تھا۔ اشوک بہت متاثر ہوا۔ چنانچہ اس نے نوجوان مہاراجہ گ کے ذوقِ انتخاب کی خوب داد دی۔ ایک دن اشوک گھوڑوں کے ٹپ لینے کے لیے مہاراجہ کے پاس گیا۔ تو وہ ڈارک روم میں فلم دیکھ رہا تھا۔ اس نے اشوک کو وہیں بلوالیا۔ سکیٹن ملی میٹر فلم تھے جہا مہاراجہ نے خود اپنے کیمرے سے لیے تھے۔ جب پروجیکٹر چلا تو پچھلی ریس پوری کی پوری پردے سے دوڑ گئی۔ مہاراجہ کا گھوڑا اس ریس میں ون آیا تھا۔ اس فلم کے بعد مہاراجہ نے اشوک کی فرمائش پر اور کئی فلم دکھائے۔ سوئٹزرلینڈ، پیرس، نیویارک، ہونو لولو، ہوائی، وادی کشمیر۔ اشوک بہت محظوظ ہوا یہ فلم قدرتی رنگوں میں تھے۔ اشوک کے پاس بھی سکیٹن ملی میٹر کیمرہ اور پروجیکٹر تھا۔ مگر اس کے پاس فلموں کا اتنا ذخیرہ نہیں تھا۔ دراصل اس کو اتنی فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ اپنا یہ شوق جی بھر کے پورا کرسکے۔ مہاراجہ جب کچھ فلم دکھا چکا تو اس نے کیمرے میں روشنی کی اور بڑی بے تکلفی سے اشوک کی ران پر دھپا مار کرکہا۔

’’اور سناؤ دوست۔ ‘‘

اشوک نے سگریٹ سلگایا

’’مزا آگیا فلم دیکھ کر‘‘

’’اور دکھاؤں‘‘

’’نہیں نہیں‘‘

’’نہیں بھئی ایک ضرور دیکھو۔ مزا آجائے گاتمہیں‘‘

یہ کہہ کر مہاراجہ گ نے ایک صندوقچہ کھول کر ایک ریل نکالی اور پروجیکٹر پرچڑھا دی

’’ذرا اطمینان سے دیکھنا‘‘

اشوک نے پوچھا

’’کیا مطلب؟‘‘

مہاراجہ نے کمرے کی لائٹ اوف کردی

’’مطلب یہ کہ ہر چیز غور سے دیکھنا‘‘

یہ کہہ کر اس نے پروجیکٹر کا سوئچ دبا دیا۔ پردے پر چند ل لمحات صرف سفید روشنی تھرتھراتی رہی، پھر ایک دم تصویریں شروع ہو گئیں۔ ایک الف ننگی عورت صوفے پر لیٹی تھی۔ دوسری سنگار میز کے پاس کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی۔ اشوک کچھ دیر خاموش بیٹھا دیکھتا رہا۔ اس کے بعد ایک دم اسکے حلق سے عجیب و غریب آواز نکلی۔ مہاراجہ نے ہنس کر اس سے پوچھا

’’کیا ہوا؟‘‘

اشوک کے حلق سے آواز پھنس پھنس کر باہر نکلی

’’بند کرو یار بند کرو۔ ‘‘

’’کیا بند کرو؟‘‘

اشوک اٹھنے لگا مہاراجہ گ نے اسے پکڑ کربٹھا دیا

’’یہ فلم تمہیں پورے کا پورا دیکھنا پڑے گا۔ ‘‘

فلم چلتا رہا۔ پردے پر برہنگی منہ کھولے ناچتی رہی۔ مرد اور عورت کا جنسی رشتہ مادر زاد عریانی کے ساتھ تھرکتا رہا۔ اشوک نے ساراوقت بے چینی میں کاٹا۔ جب فلم بند ہوا اور پردے پر صرف سفید روشنی تھی تو اشوک کو ایسا محسوس ہوا کہ جو کچھ اس نے دیکھا تھا۔ پروجیکٹر کی بجائے اسکی آنکھیں پھینک رہی ہیں۔ مہاراجہ گ نے کمرے کی لائٹ اون کی اور اشوک کی طرف دیکھا اور ایک زور کا قہقہہ لگایا۔

’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟‘‘

اشوک کچھ سکڑ سا گیا تھا۔ ایک دم روشنی کے باعث اسکی آنکھیں بھینچی ہوئی تھیں۔ ماتھے پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے تھے۔ مہاراجہ گ نے زور سے اس کی ران پر دھپا مارا۔ اور اس قدر بے تحاشا ہنسا کہ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اشوک صوفے پرسے اٹھا۔ رومال نکال کر اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھا۔

’’کچھ نہیں یار۔ ‘‘

’’کچھ نہیں کیا۔ مزا نہیں آیا‘‘

اشوک کا حلق سوکھا ہوا تھا۔ تھوک نگل کر اس نے کہا۔

’’کہاں سے لائے یہ فلم؟‘‘

مہاراجہ نے صوفے پر لیٹتے ہوئے جواب دیا

’’پیرس سے۔ پے ری۔ پے ری!‘‘

اشوک نے سر کو جھٹکا سا دیا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یہ لوگ۔ میرا مطلب ہے کیمرے کے سامنے یہ لوگ کیسے۔ ‘‘

’’یہی تو کمال ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

’’ہے تو سہی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اشوک نے رومال سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔

’’ساری تصویریں جیسے میری آنکھوں میں پھنس گئی ہیں۔ ‘‘

مہاراجہ گ اٹھا۔

’’میں نے ایک دفعہ چنڈ لیڈیز کو یہ فلم دکھایا‘‘

اشوک چلایا۔

’’لیڈیز کو؟‘‘

’’ہاں ہاں۔ بڑے مزے لے لے کردیکھا انھوں نے‘‘

’’غلط‘‘

مہاراجہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔

’’سچ کہتا ہوں۔ ایک دفعہ دیکھ کر دوسری دفعہ پھر دیکھا۔ بھینچتی، چلاتی اور ہنستی رہیں۔ ‘‘

اشوک نے اپنے سر کو جھٹکا سا دیا

’’حد ہو گئی ہے۔ میں توسمجھتا تھا وہ۔ بے ہوش ہو گئی ہوں گی۔ ‘‘

’’میرا بھی یہی خیال تھا، لیکن انھوں نے خوب لطف اٹھایا۔ ‘‘

اشوک نے پوچھا

’’کیا یورپین تھیں؟‘‘

مہاراجہ گ نے کہا۔

’’نہیں بھائی۔ اپنے دیس کی تھیں۔ مجھ سے کئی باریہ فلم اور پروجیکٹر مانگ کر لے گئیں۔ معلوم نہیں کتنی سہیلیوں کو دکھا چکی ہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’اشوک کچھ کہتے کہتے رک گیا‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ایک دو روز کے لیے یہ فلم دے سکتے ہو مجھے؟‘‘

’’ہاں ہاں لے جاؤ!‘‘

یہ کہہ کر مہاراجہ نے اشوک کی پسلیوں میں ٹھونکا دیا۔

’’سالے کس کو دکھائے گا۔ ‘‘

’’دوستوں کو‘‘

’’دکھا جس کو بھی تیری مرضی!‘‘

یہ کہہ کر مہاراجہ گ نے پروجیکٹر میں سے فلم کا اسپول نکالا۔ اس کو دوسرے اسپول چڑھا دیا اور ڈبہ اشوک کے حوالے کردیا۔

’’لے پکڑ۔ عیش کر!‘‘

اشوک نے ڈبہ ہاتھ میں لے لیا تو اس کے بدن میں جُھرجھری سی دوڑ گئی۔ گھوڑوں کے ٹپ لینا بھول گیا اور چند منٹ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد چلا گیا۔ گھر سے پروجیکٹر لے جا کر اس نے کئی دوستوں کویہ فلم دکھایا۔ تقریباً سب کے لیے انسانیت کی یہ عریانی بالکل نئی چیز تھی۔ اشوک نے ہر ایک کارد عمل نوٹ کیا۔ بعض نے خفیف سی گھبراہٹ اور فلم کا ایک ایک انچ غور سے دیکھا۔ بعض نے تھوڑا سا دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ بعض آنکھیں کھلی رکھنے کے باوجود فلم کو تمام و کمال طور پر نہ دیکھ سکے۔ ایک برداشت نہ کرسکا اور اٹھ کرچلا گیا۔ تین چار روز کے بعد اشوک کو فلم لوٹانے کا خیال آیا تو اس نے سوچا کیوں نہ اپنی بیوی کو دکھاؤں چنانچہ وہ پروجیکٹر اپنے گھر لے گیا۔ رات ہوئی تو اس نے اپنی بیوی کو بلایا۔ دروازے بند کیے۔ پروجیکٹر کا کنکشن وغیرہ ٹھیک کیا۔ فلم نکالا۔ اس کو فِٹ کیا۔ کمرے کی بتی بجھائی اور فلم چلادیا۔ پردے پر چند لمحات سفید روشنی تھرتھرائی۔ پھر تصویریں شروع ہوئی۔ اشوک کی بیوی زور سے چیخی۔ تڑپی۔ اچھلی۔ اسکے منہ سے عجیب و غریب آواز نکلیں۔ اشوک نے اسے پکڑ کربٹھانا چاہا تو اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور چیخنا شروع کردیا۔

’’بند کرو۔ بند کرو‘‘

اشوک نے ہنس کر کہا

’’ارے بھئی دیکھ لو۔ شرماتی کیوں ہو‘‘

’’نہیں نہیں‘‘

یہ کہہ کر اس نے ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہا اشوک نے اسکو زور سے پکڑ لیا وہ ہاتھ جو اسکی آنکھوں پر تھا۔ ایک طرف کھینچا۔ اس کھینچا تانی میں دفعتہ اشوک کی بیوی نے رونا شروع کردیا۔ اشوک کے بریک سے لگ گئی۔ اس نے تو محض تفریح کی خاطر اپنی بیوی کو فلم دکھایا تھا۔ روتی اور بڑبڑاتی اسکی بیوی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ اشوک چند لمحات بالکل خالی الذہن بیٹھا ننگی تصویریں دیکھتا رہا۔ جو حیوانی حرکات میں مشغول تھیں، پھر ایک دم اس نے معاملہ کی نزاکت کو محسوس کیا۔ اس احساس نے اسے خجالت کے سمندر میں غرق کردیا۔ اس نے سوچا مجھ سے بہت ہی نازیبا حرکت سرزد ہوئی۔ لیکن حیرت ہے کہ مجھے اس کا خیال تک نہ آیا۔ دوستوں کو دکھایا تھا۔ ٹھیک تھا۔ گھر میں اور کسی کو نہیں، اپنی بیوی۔ اپنی بیوی کو۔ اس کے ماتھے پرپسینہ آگیا۔ فلم چل رہا تھا۔ مادر زار برہنگی مختلف آسن اختیار کرتی دوڑ رہی تھی۔ اشوک نے اٹھ کر سوئچ اوف کردیا۔ پردے پرسب کچھ بجھ گیا۔ مگر اس نے اپنی انگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔ اس کا دل و دماغ شرمساری میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ احساس اس کو چبھ رہا تھا کہ اس سے ایک نہایت ہی نازیبا۔ نہایت ہی واہیات حرکت سرزد ہوئی۔ اس نے یہاں تک سوچا کہ وہ کیسے اپنی بیوی سے آنکھ ملا سکے گا۔ کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔ ایک سگریٹ سلگا کر اس نے احساسِ ندامت کو مختلف خیالوں کے ذریعہ سے دورکرنے کی کوشش کی۔ مگر کامیاب نہ ہوا۔ تھوڑی دیر دماغ میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارتا رہا۔ جب چاروں طرف سے سرزنش ہوئی تو زچ بچ ہو گیا۔ اور ایک عجیب سی خواہش اسکے دل میں پیدا ہوئی کہ جس طرح کمرے میں اندھیرا ہے اسی طرح اسکے دماغ پربھی اندھیرا چھا جائے۔ بار بار اسے یہ چیز ستا رہی تھی۔

’’ایسی واہیات حرکت اور مجھے خیال تک نہ آیا۔ ‘‘

پھر وہ سوچتا

’’بات اگر ساس تک پہنچ گئی۔ سالیوں کو پتہ چل گیا۔ میرے متعلق کیا رائے قائم کریں گے یہ لوگ کہ ایسے گرے ہوئے اخلاق کا آدمی نکلا۔ ایسی گندی ذہنیت کہ اپنی بیوی کو۔ ‘‘

تنگ آکر اشوک نے سگریٹ سلگایا۔ وہ ننگی تصویریں جو وہ کئی بار دیکھ چکا تھا اسکی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں۔ ان کے عقب میں اسے اپنی بیوی کا چہرہ نظر آتا۔ حیران و پریشان، جس نے زندگی میں پہلی بار عفونت کا اتنا بڑا ڈھیر دیکھا ہو۔ سر جھٹک کر اشوک اٹھا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔ مگر اس سے بھی اس کا اضطراب دور نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دبے پاؤں کمرے سے باہر نکلا۔ ساتھ والے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ اسکی بیوی منہ سر لپیٹ کر لیٹی ہوئی تھی۔ کافی دیر کھڑا سوچتا رہا۔ کہ اندرجا کر مناسب و موزوں الفاظ میں اُس سے معافی مانگے۔ مگر خود میں اتنی جرأت پیدا نہ کرسکا۔ دبے پاؤں لوٹا اور اندھیرے کمرے میں صوفے پرلیٹ گیا۔ دیر تک جاگتا رہا، آخر سو گیا۔ صبح سویرے اٹھا۔ رات کا واقع اس کے ذہن میں تازہ ہو گیا۔ اشوک نے بیوی سے ملنا مناسب نہ سمجھا اور ناشتہ کیے بغیر نکل گیا۔ آفس میں اُس نے دل لگا کر کوئی کام نہ کیا۔ یہ احساس اس کے دل و دماغ کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا۔

’’ایسی واہیات حرکت اورمجھے خیال تک نہ آیا۔ ‘‘

کئی بار اس نے گھربیوی کو ٹیلی فون کرنے کا ارادہ کیا مگر ہر بار نمبر کے آدھے ہندسے گھما کرریسیور رکھ دیا۔ دوپہر کو گھر سے جب اس کا کھانا آیا۔ تو اس نے نوکر سے پوچھا

’’میم صاحب نے کھانا کھالیا؟‘‘

نوکر نے جواب دیا۔

’’جی نہیں۔ وہ کہیں باہر گئے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’معلوم نہیں صاحب!‘‘

’’کب گئے تھے؟‘‘

’’گیارہ بجے‘‘

اشوک کا دل دھڑکنے لگا۔ بھوک غائب ہو گئی۔ دو چار نوالے کھائے اور ہاتھ اٹھا لیا۔ اسکے دماغ میں ہلچل مچ گئی تھی۔ طرح طرح کے خیالات پیدا ہورہے تھے۔ گیارہ بجے۔ ابھی تک لوٹی نہیں۔ گئی کہاں ہے۔ ماں کے پاس؟ کیا وہ اسے سب کچھ بتا دیگی؟۔ ضرور بتائے گی۔ ماں سے بیٹی سب کچھ کہہ سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے بہنوں کے پاس گئی ہو۔ سنیں گی تو کیا کہیں گی؟۔ دونوں میری کتنی عزت کرتی تھیں۔ جانے بات کہاں سے کہاں پہنچے گی۔ ایسی واہیات حرکت اور مجھے خیال تک نہ آیا۔ ‘‘

اشوک آفس سے با ہر نکل گیا۔ موٹر لی اور اِدھر اُدھر آوارہ چکرلگاتا رہا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے موٹر کا رخ گھر کی طرف پھیر دیا۔

’’دیکھا جائے گا جوکچھ ہو گا۔ ‘‘

گھر کے پاس پہنچا تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ جب لفٹ ایک دھچکے کے ساتھ اوپر اٹھی تو اس کا دل اچھل کر اس کے منہ میں آگیا۔ لفٹ تیسری منزل پر رکی۔ کچھ دیر سوچ کر اُس نے دروازہ کھولا۔ اپنے فلیٹ کے پاس پہنچا تو اس کے قدم رک گئے۔ اس نے سوچا کہ لوٹ جائے۔ مگر فلیٹ کا دروازہ کھلا اور اس کا نوکر بیڑی پینے کے لیے باہر نکلا۔ اشوک کو دیکھ کر اس نے بیڑی ہاتھ میں چھپائی اور سلام کیا۔ اشوک کو اندر داخل ہونا پڑا۔ نوکر پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ اشوک نے پلٹ کر اس سے پوچھا۔

’’میم صاحب کہاں ہیں؟‘‘

نوکر نے جواب دیا۔

’’اندر کمرے میں؟‘‘

’’اور کون ہے؟‘‘

’’ان کی بہنیں صاحب۔ کولابے والے صاحب کی میم صاحب اور وہ پارٹی بائیاں!‘‘

یہ سن کر اشوک بڑے کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازہ بند تھا۔ اس نے دھکا دیا۔ اندر سے اشوک کی بیوی کی پتلی مگر تیز آواز آئی

’’کون ہے؟‘‘

نوکر بولا

’’صاحب‘‘

اندر کمرے میں ایک دم گڑ بڑ شروع ہو گئی۔ چیخیں بلند ہوئیں۔ دروازوں کی چٹخیاں کھلنے کی آوازیں آئیں۔ کھٹ کھٹ پھٹ پھٹ ہوئی۔ اشوک کو ری ڈور سے ہوتا پچھلے دروازے سے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ پروجیکٹر چل رہا اور پردے پردن کی روشنی میں دھندلی دھندلی انسانی شکلیں ایک نفرت انگیز مکانکی یک آہنگی کے ساتھ حیوانی حرکات میں مشغول ہیں۔ اشوک بے تحاشا ہنسنے لگا۔ 4جون1950ء

سعادت حسن منٹو

عقل داڑھ

’’آپ منہ سجائے کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘

’’بھئی دانت میں درد ہو رہا ہے۔ تم تو خواہ مخواہ۔ ‘‘

’’خواہ مخواہ کیا۔ آپ کے دانت میں کبھی درد ہو ہی نہیں سکتا‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’آپ بھول کیوں جاتے ہیں کہ آپ کے دانت مصنوعی ہیں۔ جو اصلی تھے وہ تو کبھی کے رخصت ہو چکے ہیں‘‘

لیکن بیگم بھولتی تم ہو۔ میرے بیس دانتوں میں صرف نو دانت مصنوعی ہیں باقی اصلی اور میرے اپنے ہیں۔ اگر تمھیں میری بات پر یقین نہ ہو تو میرا منہ کھول کر اچھی طرح معائنہ کر لو‘‘

’’مجھے یقین آگیا۔ مجھے آپ کی ہر بات پر یقین آجاتا ہے۔ پرسوں آپ نے مجھے یقین دلایا کہ آپ سینمانھیں گئے تھے تو میں مان گئی پر آپ کے کوٹ کی جیب میں ٹکٹ پڑا تھا۔ ‘‘

’’وہ کسی اور دن کا ہو گا۔ میرا مطلب ہے آج سے کوئی دو ڈھائی مہینے پہلے کا جب میں کسی دوست کے ساتھ پکچر دیکھنے چلا گیا ہوں گا۔ ورنہ تم جانتی ہو، مجھے فلموں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم تو خیر ہر فلم دیکھتی ہو‘‘

’’خاک!۔ مجھے فرصت ہی کہاں ہوتی ہے‘‘

’’فرصت ہی فرصت ہے۔ بچیوں کو اسکول بھیجا۔ پھر سارا دن تم کیا کرتی ہو۔ نوکر ان کو اسکول سے لے آتا ہے۔ کھانا کھلا دیتا ہے۔ تم یا تو اپنی کسی سہیلی یا رشتے دار کے ہاں چلی جاتی ہو یا میٹنی شو دیکھنے۔ شام کو پھر دورہ پڑتا ہے اور چلی جاتی ہو پھر کوئی اور فلم دیکھنے‘‘

’’یہ سفید جھوٹ ہے‘‘

’’یہ سفید ہے نہ کالا۔ حقیقت ہے!‘‘

’’آپ کے دانت کا درد بھی کیا حقیقت ہے؟۔ چٹاخ پٹاخ باتیں کررہے ہیں‘‘

سب سے بڑا درد تو تم ہو۔ اس کے سامنے دانت کا درد کیا حقیقت رکھتا ہے‘‘

تو آپ نے جس طرح اپنے دانت نکلوائے تھے اسی طرح مجھے بھی نکال باہر پھینکیے‘‘

’’مجھ میں اتنی ہمت نہیں۔ اس کے لیے بڑی جرأت کی ضرورت ہے‘‘

’’آپ جرأت کی بات نہ کریں۔ آپ کو مفت میں ایک نوکرانی مل گئی ہے جو دن رات آپ کی خدمت کرتی ہے اسے آپ برطرف کیسے کرسکتے ہیں‘‘

غضب خدا کا۔ تم نے دن رات میری کیا خدمت کی ہے۔ پچھلے مہینے، مجھے جب نمونیہ ہو گیا تھا تو تم مجھے بیماری کی حالت ہی میں چھوڑ کر سیالکوٹ چلی گئی تھیں‘‘

’’وہ تو بالکل جدابات ہے‘‘

’’جدا بات کیا ہے؟‘‘

’’مجھے، آپ کو معلوم ہے اپنی عزیز ترین سہیلی نے بُلایا تھا کہ اُس کی بہن کی شادی ہو رہی ہے‘‘

’’اور یہاں جو میری بربادی ہو رہی تھی‘‘

’’آپ اچھے بھلے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے پوچھ لیا تھا۔ اس نے میری تشفی کر دی تھی کہ تشویش کی کوئی ضرورت نہیں۔ نمونیہ کا اٹیک کوئی اتنا سیریس نہیں۔ پھر پنسلین کے ٹیکے دیے جارہے ہیں۔ انشاء اللہ دو ایک روز میں تندرست ہو جائیں گے۔ ‘‘

’’تم سیالکوٹ میں کتنے دن رہیں‘‘

’’کوئی دس پندرہ دن‘‘

’’اس دوران میں تم نے مجھے کوئی خط لکھا؟۔ میری خیریت کے متعلق پوچھا؟‘‘

’’اتنی فرصت ہی نہیں تھی کہ آپ کو ایک سطر بھی لکھ سکتی‘‘

’’لیکن تم نے اپنی والدہ مکرمہ کو چار خط لکھے۔ !‘‘

’’وہ تو بہت ضروری تھے‘‘

’’میں نے سب پڑھے ہیں‘‘

’’آپ نے کیوں پڑھے؟۔ یہ بہت بد تمیزی ہے‘‘

’’یہ بد تمیزی میں نے نہیں کی تمہاری والدہ مکرمہ نے مجھے خود ان کو پڑھنے کے لیے کہا۔ اور مجھے معلوم ہوا کہ وہ کس قدر ضروری تھے‘‘

’’کیا ضروری تھے‘‘

’’بہت ضروری تھے۔ اس لیے کہ خاوند کے پھیپھڑوں کے مقابلے میں دلہن کے جہیز کی تفصیلات بہت اہم تھیں۔ اس کے بالوں کی افشاں۔ اس کے گالوں پر لگایا گیا غازہ۔ اس کے ہونٹوں کی سُرخی۔ اس کی زربفت کی قمیص۔ اور جانے کیا کیا۔ یہ تمام اطلاعیں پہچانا واقعی اشد ضروری تھا ورنہ دنیا کے تمام کاروبار رُک جاتے۔ چاند اور سورج کی گردش بند ہو جاتی۔ دلہن کے گھونگھٹ کے متعلق اگر تم نہ لکھتیں کہ وہ کس طرح بار بار جھنجھلا کر اُٹھا دیتی تھی تو میرا خیال ہے یہ ساری دنیا ایک بہت بڑا گھونگھٹ بن جاتی‘‘

’’آج آپ بہت بھونڈی شاعری کررہے ہیں‘‘

’’بجا ہے۔ تمہاری موجودگی میں اگر غالبؔ مرحوم بھی ہوتے تو وہ اسی قسم کی شاعری کرتے‘‘

’’آپ میری توہین کررہے ہیں‘‘

’’تم نالش کر دو۔ مقدمہ دائر کر دو۔ ‘‘

’’میں ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتی‘‘

’’تو پھر کن چکروں میں پڑنا چاہتی ہو۔ مجھے بتا دو‘‘

’’آپ سے جو میری شادی ہوئی تو اس سے بڑا چکر اور کون ہوسکتا ہے۔ میرے بس میں ہوا تو اس میں سے نکل بھاگوں۔ ‘‘

’’تمہارے بس میں کیا کچھ نہیں۔ تم چاہو تو آج ہی اس چکر سے نکل سکتی ہو‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’یہ مجھے معلوم نہیں۔ تم ماشاء اللہ عقل مند ہو۔ کوئی نہ کوئی رستہ نکال لو تاکہ یہ روز روز کی بک بک اور جھک جھک ختم ہو۔ ‘‘

’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود یہ چاہتے ہیں کہ مجھے نکال باہر کریں‘‘

’’لاحول ولا۔ میں خود باہر نکالے جانے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

’’کہاں رہیں گے آپ؟‘‘

’’کہیں بھی رہوں۔ کسی دوست کے ہاں کچھ دیر ٹھہر جاؤں گا۔ یا شاید کسی ہوٹل میں چلا جاؤں۔ اکیلی جان ہو گی۔ میں تو بھئی فٹ پاتھ پر بھی سو کر گزارہ کر سکتا ہوں۔ کپڑے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ اُن کو کسی لانڈری کے حوالے کر دُوں گا۔ وہاں وہ اس گھر کے مقابلے میں کہیں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ شیشے کی الماریوں میں سجے ہوں گے۔ جب گئے ایک سوٹ نکلوایا اُس کی دُھلائی یا ڈرائی کلینگ کے پیسے ادا کیے اور خراماں خراماں۔ ‘‘

’’خراماں خراماں، کہاں گئے؟‘‘

’’کہیں بھی۔ لارنس گارڈن ہے۔ سنیما ہیں۔ ریستوران ہیں۔ بس جہاں جی چاہا چلے گئے۔ کوئی پابندی تو نہیں ہو گی اُس وقت‘‘

’’یہاں میں نے آپ پر کون سی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں؟۔ کھلے بندوں جو چاہے کرتے ہیں۔ میں نے آپ کو کبھی ٹوکا ہے؟‘‘

’’ٹوکا تو نہیں ہے۔ لیکن میرا ہر بار ایسا جھٹکا کیا ہے کہ مہینوں طبیعت صاف رہی‘‘

’’اگر طبیعت صاف رہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ طبیعت ہمیشہ صاف رہنی چاہیے۔ ‘‘

’’مانتا ہوں کہ طبیعت ہمیشہ صاف رہنی چاہیے۔ مگر طبیعت صاف کرنے والے کو اتنا خیال ضرور مد نظر رکھنا چاہیے کہ وہ ضرورت سے زیادہ صاف نہ ہو جائے۔ ‘‘

’’آپ کے دانت میں درد ہو رہا تھا؟‘‘

’’وہ درد اب دل میں چلا گیا ہے۔ ‘‘

’’کیسے۔ ‘‘

’’آپ کی گفتگو ہر قسم کے کرشمے کرسکتی ہے۔ داڑھ میں شدت کا درد تھا لیکن آپ خدا معلوم کیوں تشریف لے آئیں اور مجھ سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا کہ وہ داڑھ کا درد دل میں منتقل ہو گیا۔

’’میں یہ صرف پوچھنے آئی تھی کہ آپ کا منہ کیوں سوجا ہوا ہے۔ بس اس اتنی بات کا آپ نے بتنگڑ بنا دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کس کھوپڑی کے انسان ہیں۔ ‘‘

’’کھوپڑی تو مری ویسی ہے جیسی تمہاری یا دوسرے انسانوں کی۔ تمھیں اس میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے‘‘

’’فرق، ساخت کے متعلق کچھ محسوس نہیں ہوتا لیکن میں یہ وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ آپ کی کھوپڑی میں یقیناً کوئی نقص ہے‘‘

’’کس قسم کا؟‘‘

’’میں قسم کہاں بتا سکتی ہوں۔ کسی ڈاکٹر سے پوچھیے‘‘

’’پوچھ لوں گا۔ لیکن اب میرے دل میں درد ہو رہا ہے‘‘

’’یہ سب جھوٹ ہے۔ آپ کا دل مضبوط ہے‘‘

’’تمھیں کیسے معلوم ہوا‘‘

’’آج سے دو برس پہلے جب آپ ہسپتال میں داخل ہوئے تھے تو آپ کا ایکس رے لیا گیا تھا۔ ‘‘

مجھے معلوم نہیں‘‘

’’آپ کو اتنا ہوش ہی کہاں تھا۔ مجھے آپ کوئی نرس سمجھتے تھے۔ عجیب عجیب باتیں کرتے تھے۔ ‘‘

’’بیماری میں ہر خطا معاف کر دینی چاہیے۔ جب تم کہتی ہو کہ میں غشی کے عالم میں تھا تو بتاؤ میں صحیح باتیں کیسے کرسکتا تھا۔

’’میں آپ کے دل کے متعلق کہہ رہی تھی۔ ہسپتال میں جب آپ کے پانچ چھ ایکس رے لیے گئے تو۔ ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ یہ شخص صرف اپنے مضبوط دل کی وجہ سے جی رہا ہے۔ اس کے گردے کمزور ہیں۔ اس کی انتڑیوں میں ورم ہے۔ اس کا جگر خراب ہے۔ لیکن۔ ‘‘

’’لیکن کیا؟‘‘

’’انھوں نے یہ کہا تھا کہ نہیں مرے گا، اس لیے کے اس کے پھیپھڑے اور دل صحیح حالت میں ہیں‘‘

’’دل میں تو خیر تم بس رہی ہو۔ پھیپھڑوں میں معلوم نہیں کون رہتا ہے‘‘

’’رہتی ہو گی، آپ کی کوئی۔ ‘‘

’’کون؟۔ ‘‘

’’میں کیا جانوں‘‘

’’خدا کی قسم تمہارے سوا میں نے کسی اور عورت کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ‘‘

’’آنکھ جھکا کر دیکھا ہو گا۔ ‘‘

’’وہ تو خیر، دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ مگر کبھی بُرے خیال سے نہیں۔ بس ایک نظر دیکھا اور چل دئیے۔ ‘‘

’’لیکن ایک نظر دیکھنا کیا بہت ضروری ہے۔ شریعت میں لکھا ہے؟‘‘

’’اس بحث کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے کہنے کیا آئی تھیں۔ تمہاری عادت ہے کہ اپنا مطلب بیان کرنے سے پہلے تم جھگڑا ضرور شروع کر دیا کرتی ہو۔ ‘‘

’’مجھے آپ سے کچھ نہیں کہنا تھا۔ ‘‘

’’تو آپ تشریف لے جائیے۔ مجھے دفتر کے چند کام کرنے ہیں‘‘

’’میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘

’’تو پھر تم خاموش بیٹھی رہو۔ میں کام ختم کر لوں تو جو تمھیں اول جلول بکنا ہے بک لینا۔ میری داڑھ میں شدت کا درد ہو رہا ہے‘‘

’’میں کس لیے آپ کے پاس آئی۔ ‘‘

’’مجھے کیا معلوم‘‘

’’میری عقل داڑھ نکل رہی ہے؟‘‘

’’خدا کا شکر ہے۔ تم کو اب کچھ عقل تو آ جائے گی‘‘

’’بہت درد ہو رہاہے‘‘

’’کوئی بات نہیں۔ اس درد ہی سے عقل آرہی ہے‘‘

سعادت حسن منٹو ۲۱؍ اکتوبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

عشقیہ کہانی

میرے متعلق عام لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ میں عشقیہ کہانیاں نہیں لکھتا۔ میرے افسانوں میں چونکہ عشق و محبت کی چاشنی نہیں ہوتی، اس لیے وہ بالکل سپاٹ ہوتے ہیں۔ میں اب یہ عشقیہ کہانی لکھ رہا ہوں تاکہ لوگوں کی یہ شکایت کسی حد تک دور ہو جائے۔ جمیل کا نام اگر آپ نے پہلے نہیں سنا تو اب سن لیجیے۔ اس کا تعارف مختصر طور پر کرائے دیتا ہوں۔ وہ میرا لنگوٹیا تھا۔ ہم اکٹھے اسکول میں پڑھے، پھر کالج میں ایک ساتھ داخل ہوئے۔ میں ایف اے میں فیل ہو گیا اور وہ پاس۔ میں نے پڑھائی چھوڑ دی مگر اس نے جاری رکھی۔ ڈبل ایم۔ اے کیا اور معلوم نہیں کہاں غائب ہو گیا۔ صرف اتنا سننے میں آیا تھا کہ اس نے ایک پانچ بچوں والی ماں سے شادی کرلی تھی اور آبادان چلا گیا تھا۔ وہاں سے واپس آیا یا وہیں رہا، اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں۔ جمیل بڑا عاشق مزاج تھا۔ اسکول کے دنوں میں اس کا جی بے قراررہتا تھا کہ وہ کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جائے۔ مجھے ایسی گرفتاری سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن اس کی سرگرمیوں جو عشق سے متعلق ہوتیں، برابر حصہ لیا کرتا تھا۔ جمیل دراز قد نہیں تھا مگر اچھے خدوخال کا مالک تھا۔ میرا مطلب ہے کہ اسے خوبصورت نہ کہا جائے تو اس کے قبول صورت ہونے میں شک و شائبہ نہیں تھا۔ رنگ گورا اور سرخی مائل، تیز تیز باتیں کرنے والا، بلا کا ذہین، انسانی نفسیات کا طالب علم، بڑا صحت مند۔ اس کے دل و دماغ میں سن بلوغت تک پہنچنے سے کچھ عرصہ پہلے ہی عشق کرنے کی زبردست خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ اس کو غالب کے اس شعر کا مفہوم اچھی طرح معلوم تھا ؂ عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے مگر اس کے برعکس وہ یہ آگ خود اپنی ماچس سے لگانا چاہتا تھا۔ اس نے اس کوشش میں کئی ماچسیں جلائیں۔ میرا مطلب ہے کہ کئی لڑکیوں کے عشق میں گرفتار ہو جانے کے لیے نت نئے سوٹ سلوائے، بڑھیا سے بڑھیا ٹائیاں خریدیں، سینٹ کی سینکڑوں قیمتی شیشیاں استعمال کیں مگر یہ سوٹ، ٹائیاں اور سینٹ اس کی کوئی مدد نہ کرسکے۔ میں اور وہ، دونوں شام کو کمپنی باغ کا رخ کرتے۔ وہ خوب سجا بنا ہوتا۔ اس کے کپڑوں سے بہترین خوشبو نکل رہی ہوتی۔ باغ کی روشوں پر متعدد لڑکیاں بد صورت، خوبصورت، قبول صورت محو خرام ہوتی تھیں۔ وہ ان میں سے کسی ایک کو اپنے عشق کے لیے منتخب کرنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا۔

’’سعادت! میں نے آخر کار ایک لڑکی چن ہی لی ہے۔ خدا کی قسم چندے آفتاب، چندے ماہتاب ہے۔ میں کل صبح سیر کے لیے نکلا۔ بہت سی لڑکیاں مائی کے ساتھ اسکول جارہی تھیں۔ ان میں ایک برقع پوش لڑکی نے جو اپنی نقاب ہٹائی تو اس کا چہرہ دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ کیا حسن و جمال تھا! بس میں نے وہیں فیصلہ کرلیا کہ جمیل اب مزید تگ و دو چھوڑو، اس حسینہ ہی کے عشق میں تمہیں گرفتار ہونا چاہیے۔ ‘‘

ہونا کیا

’’تم ہو چکے ہو۔ ‘‘

اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ہر روز صبح اٹھ کر اس مقام پر جہاں اس نے اس کافرجمال حسینہ کو دیکھا تھا، پہنچ جایا کرے گا اور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے لیے اس کے ذہین دماغ نے بہت سے پلین سوچے تھے۔ ایک جودوسروں کے مقابلے میں زیادہ قابل عمل اور زود اثر تھا، اس نے مجھے بتا دیا تھا۔ اس نے حساب لگا کر سوچا تھا کہ دس دن متواتر اس لڑکی کو ایک ہی مقام پر کھڑے رہ کر دیکھنے اورگھورنے سے اتنا معلوم ہو جائے گا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ یعنی وہ کیا چاہتا ہے۔ اس مدت کے بعد وہ اس کا ردعمل ملاحظہ کرے گا اور اس تجزیئے کے بعد کوئی فیصلہ مرتب کرے گا۔ یہ اغلب تھا کہ وہ لڑکی اس کا دیکھنا گھورنا پسند نہ کرے۔ مائی سے یا اپنے والدین سے اس کے غیر اخلاقی رویئے کی شکایت کردے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ راضی ہو جاتی۔ اس کی ثابت قدمی اس پر اتنا اثر کرتی کہ اس کے ساتھ بھاگ جانے کو تیارہو جاتی۔ جمیل نے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرلیا تھا۔ شاید ضرورت سے زیادہ۔ اس لیے کہ دوسرے روز جب وہ الارم بجنے پر اٹھا تو اس نے اس مقام پر جہاں اس لڑکی سے اس کی پہلی مرتبہ مڈبھیڑ ہوئی تھی، جانے کا خیال ترک کردیا۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’’سعادت! میں نے یہ سوچا ہے کہ ہو سکتا ہے اسکول میں چھٹی ہو کیوں کہ جمعہ ہے۔ معلوم نہیں اسلامی اسکول میں پڑھتی ہے یا کسی گورنمنٹ اسکول میں۔ پھر یہ بھی ممکن تھا کہ اگر میں اسے زیادہ شدت سے گھورتا تو وہ بھنا جاتی۔ اس کے علاوہ اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ دس دن کے اندر اندر مجھے اس کا رد عمل یقینی طور پر معلوم ہو جائے گا۔ بفرض محال وہ رضا مند ہو جاتی، میرا مطلب ہے مجھے بالمشافہ گفتگو کا موقع دے دیتی، تو میں اس سے کیا کہتا!‘‘

میں نے کہا۔

’’یہی کہ تم اس سے محبت کرتے ہو۔ ‘‘

جمیل سنجیدہ ہو گیا۔

’’یار، مجھ سے کبھی کہا نہ جاتا۔ تم سوچو نا اگر یہ سن کر وہ میرے منہ پر تھپر دے مارتی کہ جناب آپ کو اس کا کیا حق حاصل ہے، تو میں کیا جواب دیتا۔ زیادہ سے زیادہ میں کہہ سکتا کہ حضور محبت کرنے کا حق ہر انسان کو حاصل ہے مگر وہ ایک اور تھپڑ میرے مار سکتی تھی کہ تم بکواس کرتے ہو، کون کہتا ہے کہ تم انسان ہو۔ قصہ مختصر یہ کہ جمیل اس حسین و جمیل لڑکی کی محبت میں خود کو اپنی تجزیہ خودی کے باعث گرفتار نہ کراسکا۔ مگر اس کی خواہش بدستور موجود تھی۔ ایک اور خوبرو لڑکی اس کی تلاش کرنے والی نگاہوں کے سامنے آئی اور اس نے فوراً تہیہ کرلیا کہ اس سے عشق لڑانا شروع کردے گا۔ جمیل نے سوچا کہ اس سے خط و کتابت کی جائے، چنانچہ اس نے پہلے خط کے کئی مسودے پھاڑنے کے بعد ایک آخری، عشق و محبت میں شرابور، تحریر مکمل کی، جو میں یہاں من و عن نقل کرتا ہوں: جان جمیل! اپنے دل کی دھڑکنیں سلام کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ حیران نہ ہو ئیے گا کہ یہ کون ہے جو آپ سے یوں بے دھڑک ہم کلام ہے۔ میں عرض کیے دیتا ہوں۔ کل شام کو سوا چھ بجے۔ نہیں، چھ بج کر گیارہ منٹ پر جب آپ امرت سینما کے پاس تانگے میں سے اتریں تو میں نے آپ کو دیکھا۔ بس ایک ہی نظر میں اُس نے مجھے مسحورکرلیا۔ آپ اپنی سہیلیوں کے ساتھ پکچر دیکھنے چلی گئیں اورمیں باہر کھڑا آپ کو اپنی تصور کی آنکھوں سے مختلف روپوں میں دیکھتا رہا۔ دو گھنٹے کے بعد آپ باہر نکلیں۔ پھر زیارت نصیب ہوئی اور میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کا غلام ہو گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا میں آپ کو اور کیا لکھوں۔ بس اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کیا آپ میری محبت کو اپنے حسن و جمال کے شایان سمجھیں گی یا نہیں۔ اگر آپ نے مجھے ٹھکرا دیا تو میں خود کشی نہیں کروں گا، زندہ رہوں گا تاکہ آپ کے دیدار ہوتے رہیں۔ آپ کے حسن و جمال کا پرستار جمیل یہ خط اس نے میرے گھر میں ایک خوشبودار کاغذ پر اپنی تحریر سے منتقل کیا تھا۔ لفافہ پھول دار اور خوشبودار تھاجس کو جمالیاتی ذوق نے پسند نہیں کیا تھا۔ چند روز کے بعد جمیل مجھ سے ملا تو معلوم ہوا کہ اس نے یہ خط اس لڑکی تک نہیں پہنچایا۔ اولاً اس لیے کہ عشق کا آغاز خط سے کرنا نامناسب ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ اس خط کی تحریر بے ربط اور بے اثر ہے۔ اس نے خود کو لڑکی متصور کرکے یہ خط پڑھا اور اس کو بہت مضحکہ خیز معلوم ہوا۔ ثالثاً اس لیے کہ تفتیش کرنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ لڑکی ہندو ہے۔ یہ مرحلہ بھی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اس کے گھر میں میرا آنا جانا تھا۔ مجھ سے کوئی پردہ وغیرہ نہیں تھا۔ ہم گھنٹوں بیٹھے پڑھائی یا گپ بازیوں میں مشغول رہتے۔ اس کی دو بہنیں تھیں۔ چھوٹی چھوٹی۔ ان سے بڑی بچگانہ قسم کی پرلطف باتیں ہوتیں۔ اس کی موسی کی ایک انتہا درجے کی سادہ لوح لڑکی عذرا تھی۔ عمر یہی کوئی سترہ اٹھارہ برس ہو گی۔ اس کا ہم دونوں بہت مذاق اڑایا کرتے تھے۔ جمیل کی جب دوسری کوشش بھی بار آور ثابت نہ ہوئی تو وہ دو مہینے تک خاموش رہا۔ اس دوران میں اس نے عشق میں گرفتار ہونے کی کوئی نئی کوشش نہ کی۔ لیکن اس کے بعد اس کو ایک دم دورہ پڑا اور اس نے ایک ہفتے کے اندر اندر پانچ چھ لڑکیاں اپنی عشق کی بندوق کے لیے نشانے کے طور پر منتخب کرلیں۔ پر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ صرف چار لڑکیوں کے متعلق مجھے اس کی عشقیہ مہم کے بارے میں علم ہے۔ پہلی نے جو اس کی دور دراز کی رشتے دار تھی، اپنی ماں کے ذریعے اس کی ماں تک یہ الٹی میٹم بھجوا دیا کہ اگر جمیل نے اس کو پھر بری نظر سے دیکھا تو اس کے حق میں اچھا نہ ہو گا۔ دوسری غور سے دیکھنے پر چیچک کے داغوں والی نکلی۔ تیسری کی چھٹے، ساتویں روز ایک قصائی سے منگنی ہو گئی۔ چوتھی کو اس نے ایک لمبا عشقیہ خط لکھا جو اس کی موسی کی بیٹی عذرا کے ہاتھ آگیا۔ معلوم نہیں کس طرح۔ پہلے جمیل اس کا مذاق اڑایا کرتا تھا، اب اس نے اڑانا شروع کردیا۔ اتنا کہ جمیل کا ناک میں دم آگیا۔ جمیل نے مجھے بتایا۔

’’سعادت! یہ عذرا جسے ہم بے وقوفی کی حد تک سادہ لوح سمجھتے ہیں، سخت ظالم ہے، سب سمجھتی ہے۔ جس لڑکی کو میں نے خط لکھا تھا اور غلطی سے اپنے میز کے دراز میں رکھ کر یہ سوچنے میں مشغول تھا کہ وہ اس کا کیا جواب لکھے گی، یہ کم بخت جانے کیسے لے اڑی۔ اب اس نے میرا ناطقہ بند کردیا۔ بعض اوقات ایسی تلخ باتیں کرتی ہے کہ مجھے رلاتی ہے اور خود بھی روتی ہے۔ میں تو تنگ آگیا ہوں۔ ‘‘

اس سے بہت زیادہ تنگ آکر اس نے اپنے عشق کی مہم اور تیز کردی۔ اب کی اس نے چودہ لڑکیاں چنیں مگر اچھی طرح غور کرنے کے بعد ان میں سے صرف ایک باقی رہ گئی۔ دس اس کے مکان سے بہت دور رہتی تھیں، جن کو ہر روز حتمی طور پر دیکھنے کے متعلق اس کا دل گواہی نہیں دیتا تھا۔ دو ایسی تھیں، جن کا خاندانی ہونے کے بارے میں اسے شبہ تھا۔ بارہ ہوئیں۔ تیرھویں نے ایک دن ایسی بری طرح گھورا کہ اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ چودھویں جو کہ چودھویں کا چاند تھی، ملتفت ہو جاتی مگر وہ کم بخت کمیونسٹ تھی۔ جمیل نے سوچا کہ اس کا التفات حاصل کرنے کے لیے وہ ضرور کمیونسٹ بن جاتا، کھادی کے کپڑے پہن کر مزدوروں کے حق میں دس بارہ تقریریں بھی کردیتا، مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کے والد صاحب ریٹائرڈ انجینئر تھے، ان کی پنشن یقیناً بند ہو جاتی۔ یہاں سے ناامیدی ہوئی تو اس نے سوچا کہ عشق بازی فضول ہے، شرافت یہی ہے کہ وہ کسی سے شادی کرلے۔ اس کے بعد اگر طبیعت چاہے تو اپنی بیوی کی محبت میں گرفتار ہو جائے۔ چنانچہ اس نے مجھے اس فیصلے سے آگاہ کردیا۔ طے یہ ہوا کہ وہ اپنی امی جان اور اپنے ابا جان سے بات کرے۔ بہت دنوں کی سوچ بچار کے بعد اس نے اس گفتگو کا مسودہ تیار کیا۔ سب سے پہلے اس نے اپنی امی سے بات کی۔ وہ خوش ہوئیں۔ ادھر ادھر اپنے عزیزوں میں انھوں نے جمیل کے لیے موزوں رشتہ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ پڑوس میں خان بہادر صاحب کی لڑکی تھی۔ ایم۔ اے۔ بڑی ذہین اور طبیعت کی بہت اچھی۔ مگر اس کی ناک چپٹی تھی۔ خالہ کی بیٹی حسن آراء تھی پر بے حد کالی۔ صغریٰ تھی مگر اس کے والدین بڑے خسیس تھے۔ جہیز میں جتنے جوڑے جمیل کی ماں چاہتی تھی، اس سے وہ آدھے دینے پر بھی رضا مند نہیں تھے۔ عذرا کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جمیل کی ماں نے بڑی کوششوں کے بعد راولپنڈی کے ایک معزز اور متمول خاندان کی لڑکی سے بات چیت طے کرلی۔ جمیل اپنی ناکام عشق بازیوں سے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اس نے اپنی ماں سے یہ بھی نہ پوچھا کہ شکل و صورت کیسی ہے۔ ویسے اس نے اپنے زندہ تصور میں اس کا اندازہ لگالیا تھا اور مفصل طور پر سوچ لیا تھا کہ وہ اس کی محبت میں کس طرح گرفتار ہو گا۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ میں خوش تھا کہ جمیل کی شادی ہورہی ہے۔ جس کا نام غالباً شریفہ تھا، اس کی منگنی ہو گئی۔ اس تقریب پر اسے سسرال کی طرف سے ہیرے کی انگوٹھی ملی، جو وہ ہر وقت پہنے رہتاتھا۔ اس پر اس نے ایک نظم بھی لکھی جس کا کوئی شعر مجھے یاد نہیں۔ ایک برس تک سوچتا رہا کہ اسے اپنی دلہن کو کب اپنے یہاں لانا چاہیے۔ آدمی چونکہ آزاد اور روشن خیال قسم کا تھا اس لیے اس کی خواہش تھی کہ ماں باپ سے علیحدہ اپنا گھر بنائے۔ یہ کیسا ہونا چاہیے، اس میں کس ڈیزائن کا فرنیچر ہو، نوکر کتنے ہوں، ماہوار خرچ کتنا ہو گا، ساس کے ساتھ اس کا کیا سلوک ہو گا، ان تمام امور کے بارے میں اس نے کافی سوچ بچار کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی والے تنگ آگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ رخصتی کا مرحلہ جلد از جلد طے ہو۔ جمیل اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ لیکن اس کی امی نے ایک تاریخ مقرر کردی۔ کارڈ وارڈ چھپ گئے۔ ولیمے کی دعوت کے لیے ضروری سامان کا بندوبست کرلیا گیا۔ اس کے والد بزرگوار شیخ محمد اسماعیل صاحب ریٹائرڈ انجینئر بہت مسرور تھے مگر جمیل بہت پریشان تھا۔ اس لیے کہ وہ اپنے بننے والے گھر کا آخری نقشہ تیار نہیں کرسکا تھا۔ رخصتی کی تاریخ9 اکتوبر کی صبح کو۔ منہ ادھیرے جمیل میرے پاس سخت اضطراب اور کرب کے عالم میں آیا اور اس نے مجھے یہ خبر سنائی کہ اس کی موسی کی لڑکی عذرا نے جو بیوقوفی کی حد تک سادہ لوح تھی، خودکشی کرلی ہے، اس لیے کہ اس کو جمیل سے والہانہ عشق تھا۔ وہ برداشت نہ کرسکی کہ اس کے محبوب و معبود کی شادی کسی اور لڑکی سے ہو۔ اس ضمن میں اس نے جمیل کے نام خط لکھا۔

’’جس کی عبارت بہت درد ناک تھی۔ میرا خیال ہے کہ یہ تحریریادگار کے طور پر اس کے پاس محفوظ ہو گی۔

سعادت حسن منٹو

عِشق حقیقی

عشق و محبت کے بارے میں اخلاق کا نظریہ وہی تھا جو اکثر عاشقوں اور محبت کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ وہ رانجھے پیر کا چیلا تھا۔ عشق میں مرجانا اسکے نزدیک ایک عظیم الشان موت مرنا تھا۔ اخلاق تیس برس کا ہو گیا۔ مگر باوجود کوششوں کے اس کو کسی سے عشق نہ ہوا لیکن ایک دن انگرڈ برگ مین کی پکچر

’’فور ہوم دی بل ٹونز‘‘

کا میٹینی شو دیکھنے کے دوران میں اس نے محسوس کیا کہ اس کا دل اس برقع پوش لڑکی سے وابستہ ہو گیا ہے۔ جو اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی اور سارا وقت اپنی ٹانگ ہلاتی رہی تھی۔ پردے پر جب سائے کم اور روشنی زیادہ ہوتی تو اخلاق نے اس لڑکی کو ایک نظر دیکھا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھے۔ ناک کی پھننگ پر چند بوندیں تھیں جب اخلاق نے اسکی طرف دیکھا تو اسکی ٹانگ ہلنا بند ہو گئی۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنے سیاہ برقعے کی جالی سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ یہ حرکت کچھ ایسی تھی کہ اخلاق کو بے اختیار ہنسی آگئی۔ اس لڑکی نے اپنی سہیلی کے کان میں کچھ کہا۔ دونوں ہولے ہولے ہنسیں۔ اس کے بعد اس لڑکی نے نقاب اپنے چہرے سے ہٹالیا۔ اخلاق کی طرف تیکھی تیکھی نظروں سے دیکھا اور ٹانگ ہلا کر فلم دیکھنے میں مشغول ہو گئی۔ اخلاق سگرٹ پی رہا تھا۔ انگرڈبرگ مین اسکی محبوب ایکٹرس تھیں۔

’’فور ہوم دی بل ٹولز‘‘

میں اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔ فلم کے آغاز میں جب اخلاق نے اسے دیکھا تو وہ بہت ہی پیاری معلوم ہوئی۔ لیکن ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی لڑکی دیکھنے کے بعد وہ انگرڈ برگ مین کو بھول گیا۔ یوں تو قریب قریب سارا فلم اس کی نگاہوں کے سامنے چلا مگر اس نے بہت ہی کم دیکھا۔ سارا وقت وہ لڑکی اس کے دل و دماغ پر چھائی رہی۔ اخلاق سگریٹ پر سگریٹ پیتا رہا۔ ایک مرتبہ اس نے راکھ جھاڑی۔ تو اسکا سگریٹ انگلیوں سے نکل کر اس لڑکی کی گود میں جا پڑا۔ لڑکی فلم دیکھنے میں مشغول تھی اس لیے اس کو سگریٹ گرنے کا کچھ پتہ نہ تھا۔ اخلاق بہت گھبرایا۔ اسی گھبراہٹ میں اس نے ہاتھ بڑھا کرسگریٹ اس کے برقعے پر سے اٹھایا اور فرش پرپھینک دیا۔ لڑکی ہڑبڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اخلاق نے فوراً کہا

’’معافی چاہتا ہوں آپ پرسگریٹ گر گیا تھا۔ ‘‘

لڑکی نے تیکھی تیکھی نظروں سے اخلاق کی طرف دیکھا اور بیٹھ گئی۔ بیٹھ کر اس نے اپنی سہیلی سے سرگوشی میں کچھ کہا۔ دونوں ہولے ہولے ہنسیں اورفلم دیکھنے میں مشغول ہو گئیں۔ فلم کے اختتام پر جب قائداعظم کی تصویر نمودار ہوئی تو اخلاق اٹھا۔ خدا معلوم کیا ہوا کہ اس کا پاؤں لڑکی کے پاؤں کے ساتھ ٹکرایا۔ اخلاق ایک بار پھر سرتا پا معذرت بن گیا۔

’’معافی چاہتا ہوں۔ جانے آج کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘

دونوں سہیلیاں ہولے ہولے ہنسیں۔ جب بھیڑ کے ساتھ باہر نکلیں تو اخلاق ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ وہ لڑکی جس سے اس کو پہلی نظر کا عشق ہوا تھا مڑ مڑ کر دیکھتی رہی۔ اخلاق نے اسکی پرواہ نہ کی۔ اور ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ وہ اس لڑکی کا مکان دیکھ کے رہے گا۔ مال روڈکے فٹ پاتھ پر وائی ایم سی اے کے سامنے اس لڑکی نے مڑ کر اخلاق کی طرف دیکھا اور اپنی سہیلی کا ہاتھ پکڑ کررک گئی۔ اخلاق نے آگے نکلنا چاہا تو وہ لڑکی اس سے مخاطب ہوئی

’’آپ ہمارے پیچھے پیچھے کیوں آرہے ہیں؟‘‘

اخلاق نے ایک لحظہ سوچ کر جواب دیا۔

’’آپ میرے آگے آگے کیوں جارہی ہیں۔ ‘‘

لڑکی کھکھلا کر ہنس پڑی۔ اس کے بعد اس نے اپنی سہیلی سے کچھ کہا۔ پھر دونوں چل پڑیں۔ بس اسٹینڈ کے پاس اس لڑکی نے جب مڑ کر دیکھا تو اخلاق نے کہا۔

’’آپ پیچھے آجائیے۔ میں آگے بڑھ جاتا ہوں۔ ‘‘

لڑکی نے منہ موڑ لیا۔ انار کلی کا موڑ آیا تو دونوں سہیلیاں ٹھہر گئیں۔ اخلاق پاس سے گزرنے لگا تو اس لڑکی نے اس سے کہا۔

’’آپ ہمارے پیچھے نہ آئیے۔ یہ بہت بری ہے۔ ‘‘

لہجے میں بہت سنجیدگی تھی۔ اخلاق نے

’’بہت بہتر‘‘

کہا اور واپس چل دیا۔ اس نے مڑ کر بھی ان کو نہ دیکھا۔ لیکن دل میں اسکو افسوس تھا کہ وہ کیوں اس کے پیچھے نہ گیا۔ اتنی دیرکے بعد اس کو اتنی شدت سے محسوس ہوا تھا کہ اس کو کسی سے محبت ہوئی ہے۔ لیکن اس نے موقعہ ہاتھ سے جانے دیا۔ اب خدا معلوم پھر اس لڑکی سے ملاقات ہو یا نہ ہو۔ جب وائی ایم سی کے پاس پہنچا تو ر ک کراس نے انار کلی کے موڑ کی طرف دیکھا۔ مگر اب وہاں کیا تھا۔ وہ تو اسی وقت انارکلی کی طرف چلی گئی تھیں۔ لڑکی کے نقش بڑے پتلے پتلے تھے۔ باریک ناک، چھوٹی سی ٹھوڑی، پھول کی پتیوں جیسے ہونٹ جب پردے پر سائے کم اور روشنی زیادہ ہوتی تھی تو اس نے اسکے بالائی ہونٹ پر ایک تل دیکھا تھا جو بے حد پیارا لگتا تھا۔ اخلاق نے سوچا تھا کہ اگر یہ تل نہ ہوتا تو شاید وہ لڑکی نامکمل رہتی۔ اس کا وہاں پر ہونا اشد ضروری تھا۔ چھوٹے چھوٹے قدم تھے جن میں کنوار پن تھا۔ چونکہ اس کو معلوم تھا کہ ایک مرد میرے پیچھے پیچھے آرہا ہے۔ اس لیے اُن کے ان چھوٹے چھوٹے قدموں میں ایک بڑی پیاری لڑکھڑاہٹ سی پیدا ہو گئی تھی۔ اس کا مڑ مڑ کر تو دیکھنا غضب تھا۔ گردن کو ایک خفیف سا جھٹکا دیکر وہ پیچھے اخلاق کی طرف دیکھتی اور تیزی سے منہ موڑ لیتی۔ دوسرے روز وہ انگرڈبرگ مین کا فلم پھر دیکھنے گیا۔ شو شروع ہوچکا تھا۔ والٹ ڈزنی کا کارٹون چل رہا تھا کہ وہ اندر ہال میں داخل ہوا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا تھا۔ گیٹ کیپرکی بیٹری کی اندھی روشنی کے سہارے اس نے ٹٹول ٹٹول کر ایک خالی سیٹ تلاش کی اور اس پر بیٹھ گیا۔ ڈزنی کا کارٹون بہت مزاحیہ تھا۔ ادھر ادھر کئی تماشائی ہنس رہے تھے۔ دفعتہً بہت ہی قریب سے اخلاق کو ایسی ہنسی سنائی دی جس کو وہ پہچانتا تھا۔ مڑ کر اس نے پیچھے دیکھا تو وہی لڑکی بیٹھی تھی۔ اخلاق کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ لڑکی کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا بیٹھا تھا۔ شکل و صورت کے اعتبار سے وہ اس کا بھائی لگتا تھا۔ اسکی موجودگی میں وہ کِس طرح باربار مڑکر دیکھ سکتا تھا۔ انٹرول ہو گیا۔ اخلاق کوشش کے باوجود فلم اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔ روشنی ہوئی تو وہ اٹھا۔ لڑکی کے چہرے پر نقاب تھا۔ مگر اس مہین پردے کے پیچھے اسکی آنکھیں اخلاق کو نظر آئیں جن میں مسکراہٹ کی چمک تھی۔ لڑکی کے بھائی نے سگریٹ نکال کر سلگایا۔ اخلاق نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس سے مخاطب ہوا

’’ذرا ماچس عنایت فرمائیے۔ ‘‘

لڑکی کے بھائی نے اس کوماچس دیدی۔ اخلاق نے اپنا سگریٹ سلگایا اور ماچس اس کو واپس دیدی

’’شکریہ!‘‘

لڑکی کی ٹانگ ہل رہی تھی۔ اخلاق اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ فلم کا بقایا حصہ شروع ہوا۔ ایک دو مرتبہ اس نے مڑ کر لڑکی کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کرسکا۔ فلم ختم ہوا۔ لوگ باہر نکلنے شروع ہوئے۔ لڑکی اور اس کا بھائی ساتھ تھے۔ اخلاق ان سے ہٹ کر پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اسٹینڈرڈ کے پاس بھائی نے اپنی بہن سے کچھ کہا۔ ایک ٹانگے والے کو بلایا لڑکی اس میں بیٹھ گئی۔ لڑکا اسٹینڈرڈ میں چلا گیا۔ لڑکی نے نقاب میں سے اخلاق کی طرف دیکھا۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ٹانگہ چل پڑا۔ اسٹینڈرڈ کے باہر اس کے تین چار دوست کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک کی سائیکل اس نے جلدی جلدی پکڑی اور ٹانگے کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ یہ تعاقب بڑا دلچسپ رہا۔ زور کی ہوا چل رہی تھی لڑکی کے چہرے پر سے نقاب اٹھ اٹھ جاتی۔ سیاہ جارجت کا پردہ پھڑپھڑا کر اسکے سفید چہرے کی جھلکیاں دکھاتا تھا۔ کانوں میں سونے کے بڑے بڑے جھومر تھے۔ پتلے پتلے ہونٹوں پر سیاہی مائل سرخی تھی۔ اور بالائی ہونٹ پر تِل۔ وہ اشد ضروری تِل۔ بڑے زور کا جھونکا آیا تو اخلاق کے سر پر سے ہیٹ اتر گیا اور سڑک پر دوڑنے لگا۔ ایک ٹرک گزر رہا تھا۔ اس کے و زنی پہیے کے نیچے آیا اور وہیں چت گیا۔ لڑکی ہنسی اخلاق مسکرا دیا۔ گردن موڑ کر ہیٹ کی لاش دیکھی جو بہت پیچھے رہ گئی تھی اور لڑکی سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’اس کو تو شہادت کا رتب مل گیا۔ ‘‘

لڑکی نے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔ اخلاق تھوڑی دیر کے بعد پھر اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ کو اعتراض ہے تو واپس چلے جاتا ہوں۔ ‘‘

لڑکی نے اس کی طرف دیکھا مگر کوئی جواب نہ دیا۔ انار کلی کی ایک گلی میں ٹانگہ رکا اور وہ لڑکی اتر کر اخلاق کی طرف بار بار دیکھتی نقاب اٹھا کر ایک مکان میں داخل ہو گئی۔ اخلاق ایک پاؤں سائیکل کے پیڈل پر اور دوسرا پاؤں دکان کے تھڑے پررکھے تھوڑی دیر کھڑا رہا۔ سائیکل چلانے ہی والا تھا کہ اس مکان کی پہلی منزل پر ایک کھڑکی کھلی۔ لڑکی نے جھانک کر اخلاق کو دیکھا۔ مگر فوراً ہی شرما کرپیچھے ہٹ گئی۔ اخلاق تقریباً آدھ گھنٹہ وہاں کھڑا رہا۔ مگر وہ پھر کھڑکی میں نمودار نہ ہوئی۔ دوسرے روز اخلاق صبح سویرے انارکلی کی اس گلی میں پہنچا۔ پندرہ بیس منٹ تک ادھر ادھر گھومتا رہا۔ کھڑکی بند تھی۔ مایوس ہو کر لوٹنے والا تھا کہ ایک فالسے بیچنے والا صدا لگاتا آیا۔ کھڑکی کھلی، لڑکی سر سے ننگی نمودا ہوئی۔ اس نے فالسے والے کو آواز دی۔

’’بھائی فالسے والے ذرا ٹھہرنا‘‘

پھر اسکی نگاہیں ایک دم اخلاق پر پڑیں۔ چونک کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ فالسے والے نے سر پر سے چھابڑی اتاری اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکی سر پر دوپٹہ لیے نیچے آئی۔ اخلاق کو اس نے کنکھیوں سے دیکھا۔ شرمائی اور فالسے لیے بغیر واپس چلی گئی۔ اخلاق کو یہ ادا بہت پسند آئی۔ تھوڑا سا ترس بھی آیا۔ فالسے والے نے جب اس کو گھور کے دیکھا تو وہ وہاں سے چل دیا۔

’’چلو آج اتنا ہی کافی ہے۔ ‘‘

چند دن ہی میں اخلاق اور اس لڑکی میں اشارے شروع ہو گئے۔ ہر روز صبح نو بجے وہ انار کلی کی اس گلی میں پہنچتا۔ کھڑکی کھلتی وہ سلام کرتا وہ جواب دیتی، مسکراتی۔ ہاتھ کے اشاروں سے کچھ باتیں ہوتیں۔ اسکے بعد وہ چلی جاتی۔ ایک روز انگلیاں گھما کر اس نے اخلاق کو بتایا کہ وہ شام کے چھ بجے کے شو سینما دیکھنے جارہی ہے۔ اخلاق نے اشاروں کے ذریعہ سے پوچھا۔

’’کون سے سینما ہاؤس میں‘‘

اس نے جواب میں کچھ اشارے کیے۔ مگر اخلاق نہ سمجھا۔ آخرمیں اس نے اشاروں میں کہا۔

’’کاغذ پر لکھ کر نیچے پھینک دو۔ ‘‘

لڑکی کھڑکی سے ہٹ گئی۔ چند لمحات کے بعد اس نے ادھر ادھر دیکھ کرکاغذ کی ایک مڑوری سی نیچے پھینک دی۔ اخلاق نے اسے کھولا۔ لکھا تھا۔

’’پلازا۔ پروین۔ ‘‘

شام کو پلازا میں اسکی ملاقات پروین سے ہوئی۔ اس کے ساتھ اسکی سہیلی تھی۔ اخلاق اسکے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ فلم شروع ہوا تو پروین نے نقاب اٹھا لیا۔ اخلاق سارا وقت اس کو دیکھتا رہا۔ اس کا دل دھک دھک کرتا تھا۔ انٹرول سے کچھ پہلے اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ کانپ اٹھی۔ اخلاق نے فوراً ہاتھ اٹھا لیا۔ دراصل وہ اس کو انگوٹھی دینا چاہتا تھا، بلکہ خود پہنانا چاہتا تھا جو اس نے اسی روز خریدی تھی۔ انٹرول ختم ہوا تو اس نے پھر اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس کے ہاتھ پررکھ دیا وہ کانپی لیکن اخلاق نے ہاتھ نہ ہٹایا۔ تھوڑی سی دیر کے بعد اس نے انگوٹھی نکالی اور اسکی ایک انگلی میں چڑھا دی۔ وہ بالکل خاموش رہی۔ اخلاق نے اسکی طرف دیکھا۔ پیشانی اور ناک پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھرتھرا رہے تھے۔ فلم ختم ہوا تو اخلاق اور پروین کی یہ ملاقات بھی ختم ہو گئی۔ باہر نکل کر کوئی بات نہ ہوسکی۔ دونوں سہیلیاں ٹانگے میں بیٹھیں۔ اخلاق کو دوست مل گئے۔ انھوں نے اُسے روک لیا لیکن وہ بہت خوش تھا۔ اس لیے کہ پروین نے اس کا تحفہ قبول کرلیا تھا۔ دوسرے روز مقررہ اوقات پر جب اخلاق پروین کے گھر کے پاس پہنچا تو کھڑکی کھلی تھی۔ اخلاق نے سلام کیا۔ پروین نے جواب دیا۔ اس کے داہنے ہاتھ کی انگلی میں اسکی پہنائی ہوئی انگوٹھی چمک رہی تھی۔ تھوڑی دیر اشارے ہوتے رہے اس کے بعد پروین نے ادھر ادھر دیکھ کر ایک لفافہ نیچے پھینک دیا۔ اخلاق نے اٹھایا۔ کھولا تو اس میں ایک خط تھا۔ انگوٹھی کے شکریے کا۔ گھر پہنچ کر اخلاق نے ایک طویل جواب لکھا۔ اپنا دل نکال کرکاغذوں میں رکھ دیا۔ اس خط کو اس نے پھول دار لفافے میں بند کیا۔ اس پر سینٹ لگایا اور دوسرے روز صبح نو بجے پروین کو دکھا کر نیچے لیٹر بکس میں ڈال دیا۔ اب اُن میں باقاعدہ خط و کتابت شروع ہو گئی۔ ہر خط عشق و محبت کا ایک دفتر تھا۔ ایک خط اخلاق نے اپنے خون سے لکھا جس میں اس نے قسم کھائی کہ وہ ہمیشہ اپنی محبت میں ثابت قدم رہے گا۔ اس کے جواب میں خونی تحریر ہی آئی۔ پروین نے بھی حلف اٹھایا کہ وہ مر جائے گی لیکن اخلاق کے سوا اور کسی کو شریک حیات نہیں بنائے گی۔ مہینوں گزر گئے۔ اس دوران میں کبھی کبھی کسی سینما میں دونوں کی ملاقات ہو جاتی تھیں۔ مل کربیٹھنے کا موقعہ انھیں نہیں ملتا تھا۔ پروین پر گھر کی طرف سے۔ بہت کڑی پابندیاں عائد تھیں۔ وہ باہر نکلتی تھی یا تو اپنے بھائی کے ساتھ یا اپنی سہیلی زہرہ کے س ساتھ۔ ان دو کے علاوہ اس کو اور کسی کے ساتھ باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اخلاق نے اسے کئی مرتبہ لکھا کہ زہرہ کے ساتھ وہ کبھی اسے بارہ دری میں جہانگیر کے مقبرے میں ملے۔ مگر وہ نہ مانی۔ اسکو ڈر تھا کہ کوئی دیکھ لے گا۔ اس اثنا میں اخلاق کے والدین نے اسکی شادی کی بات چیت شروع کردی۔ اخلاق ٹالتا رہا جب انھوں نے تنگ آکر ایک جگہ بات کردی تو اخلاق بگڑ گیا بہت ہنگامہ ہوا۔ یہاں تک کہ اخلاق کو گھر سے نکل کر ایک رات اسلامیہ کالج کی گراؤنڈ میں سونا پڑا۔ ادھر پروین روتی رہی۔ کھانے کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ اخلاق دھن کا بہت پکا تھا۔ ضدی بھی پرلے درجے کا تھا۔ گھر سے باہر قدم نکالا تو پھر ادھر رخ تک نہ کیا۔ اس کے والد نے اس کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔ ایک دفتر میں سو روپے ماہوار پر نوکری کرلی اور ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر لے کررہنے لگا۔ جس میں نل تھا نہ بجلی۔ ادھر پروین اخلاق کی تکلیفوں کے دکھ میں گُھل رہی تھی گھر میں جب اچانک اس کی شادی کی بات چیت شروع ہوئی تو اس پربجلی سی گری۔ اس نے اخلاق کو لکھا۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ لیکن پروین کو اس نے تسلی دی کہ وہ گھبرائے نہیں۔ ثابت قدم رہ۔ عشق انکا امتحان لے رہا ہے۔ بارہ دن گزر گئے۔ اخلاق کئی بار گیا۔ مگر پروین کھڑکی میں نظر نہ آئی۔ وہ صبر و قرار کھو بیٹھا نیند اسکی غائب ہو گئی۔ اس نے دفتر جانا چھوڑ دیا۔ زیادہ ناغے ہوئے تو اس کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ اس کو کچھ ہوش نہیں تھا۔ برطرفی کا نوٹس ملا تو وہ سیدھا پروین کے مکان کی چل پڑا۔ پندرہ دنوں کے طویل عرصے کے بعد اُسے پروین نظر آئی وہ بھی ایک لحظے کے لیے۔ جلدی سے لفافہ پھینک کر وہ چلی گئی۔ خط بہت طویل تھا۔ پروین کی غیر حاضری کا باعث یہ تھا کہ اس کا باپ اسکو ساتھ گوجرانوالہ لے گیا تھا جہاں اسکی بڑی بہن رہتی تھی۔ پندرہ دن وہ خون کے آنسو روتی رہی۔ اس کا جہیز تیار کیا جارہا تھا لیکن اس کو محسوس ہوتا تھا کہ اس کے لیے رنگ برنگے کفن بن رہے ہیں خط کے آخر میں لکھا۔ تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔ میری موت کی تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔ میں مرجاؤں گی۔ میں ضرور کچھ کھا کے مر جاؤں گی۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ مجھے دکھائی نہیں دیتا۔ نہیں نہیں ایک اور راستہ بھی ہے۔ لیکن میں کیا اتنی ہمت کرسکوں گی۔ تم بھی اتنی ہمت کرسکو گے۔ میں تمہارے پاس چلی آؤں گی۔ مجھے تمہارے پاس آنا ہی پڑے گا۔ تم نے میرے لیے گھر بار چھوڑا۔ میں تمہارے لیے یہ گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ جہاں میری موت کے سامان ہورہے ہیں۔ لیکن میں بیوی بن کر تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ تم شادی کا بندوبست کرلو۔ میں صرف تین کپڑوں میں آؤنگی۔ زیور وغیرہ سب اتار کر یہاں پھینک دوں گی۔ ۔ جواب جلدی دو، ہمیشہ تمہاری۔ پروین۔ اخلاق نے کچھ نہ سوچا، فوراً اس کو لکھا

’’میری باہیں تمہیں ا پنے آغوش میں لینے کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ میں تمہاری عزت و عصمت پر کوئی حرف نہیں آنے دوں گا۔ تم میری رفیقہ حیات بن کے رہو گی۔ زندگی بھر میں تمہیں خوش رکھوں گا۔ ‘‘

ایک دو خط اور لکھے گئے اس کے بعد طے کیا کہ پروین بدھ کو صبح سویرے گھر سے سے نکلے گی۔ اخلاق ٹانگہ لے کرگلی کے نکڑ پر اس کا انتظار کرے۔ بدھ کو منہ اندھیرے اخلاق ٹانگے میں وہاں پہنچ کر پروین کا انتظار کرنے لگا۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔ اخلاق کا اضطراب بڑھ گیا۔ لیکن وہ آگئی۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ گلی میں نمودار ہوئی۔ چال میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ جب وہ ٹانگے میں اخلاق کے ساتھ بیٹھی تو سرتا پا کانپ رہی تھی۔ اخلاق خود بھی کانپنے لگا۔ گھر پہنچے تو اخلاق نے بڑے پیارسے اس کے برقعے کی نقاب اٹھائی اور کہا

’’میری دولہن کب تک مجھ سے پردے کرے گی۔ ‘‘

پروین نے شرما کر آنکھیں جھکا لیں، اس کا رنگ زرد تھا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا۔ اخلاق نے بالائی ہونٹ کے تل کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹوں میں ایک بوسہ تڑپنے لگا۔ اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس نے تل والی جگہ کو چوما۔ پروین نے نہ کی اس کے ہونٹ کھلے۔ دانتوں میں گوشت خورہ تھا۔ مسوڑھے گہرے نیلے رنگ کے تھے۔ گلے ہوئے۔ سڑاند کا ایک بھبکا اخلاق کی ناک میں گھس گیا۔ ایک دھکا سا اس کو لگا۔ ایک اور بھبکا پروین کے منہ سے نکلا تو وہ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ پروین نے حیا آلود آواز میں کہا۔

’’شادی سے پہلے آپ کو ایسی باتوں کا حق نہیں پہنچتا۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اسکے گلے ہوئے مسوڑھے نمایاں ہوئے۔ اخلاق کے ہوش و ہواس غائب تھے دماغ سن گیا۔ دیر تک وہ دونوں پاس بیٹھے رہے۔ اخلاق کو کوئی بات نہیں سوجھتی تھی۔ پروین کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ جب اس نے انگلی کا ناخن کاٹنے کے لیے ہونٹ کھولے تو پھر ان گلے ہوئے مسوڑوں کی نمائش ہوئی۔ بو کا ایک بھبکا نکلا۔ اخلاق کو متلی آنے لگی۔ اٹھا اور

’’ابھی آیا‘‘

کہہ کر باہر نکل گیا۔ ایک تھڑے پر بیٹھ کر اس نے بہت دیر سوچا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو لائل پور روانہ ہو گیا۔ جہاں اس کا ایک دوست رہتا تھا۔ اخلاق نے سارا واقعہ سنایا تو اس نے بہت لعن طعن کی اور اس سے کہا۔

’’فوراً واپس چاؤ۔ کہیں بے چاری خود کشی نہ کرلے۔ ‘‘

اخلاق رات کو واپس لاہور آیا۔ گھرمیں داخل تو پروین موجود نہیں تھی۔ پلنگ پر تکیہ پڑا تھا۔ اس پر دو گول گول نشان تھے۔ گیلے! اس کے بعد اخلاق کو پروین کہیں نظر نہ آئی۔ 5جون1950ء

سعادت حسن منٹو

عزت کے لیے

چونی لال نے اپنی موٹر سائیکل اسٹال کے ساتھ روکی اور گدی پربیٹھے بیٹھے صبح کے تازہ اخباروں کی سرخیوں پر نظر ڈالی۔ سائیکل رکتے ہی اسٹال پر بیٹھے ہوئے دونوں ملازموں نے اسے نمستے کہی تھی۔ جس کا جواب چونی لال نے اپنے سر کی خفیف جنبش سے دے دیا تھا۔ سرخیوں پر سرسری نظر ڈال کرچونی لال نے ایک بندھے ہوئے بنڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا جو اسے فوراً دے دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی بی ایس اے موٹر سائیکل کا انجن اسٹارٹ کیا اور یہ جا وہ جا۔ موڈرن نیوز ایجنسی قائم ہوئے پورے چار برس ہوچلے تھے۔ چونی لال اس کا مالک تھا۔ لیکن ان چار برسوں میں وہ ایک دن بھی اسٹال پر نہیں بیٹھا تھا۔ وہ ہر روز صبح اپنی موٹر سائیکل پر آتا، ملازموں کی نمستے کا جواب سر کی خفیف جنبش سے دیتا۔ تازہ اخباروں کی سرخیاں ایک نظر دیکھتا ہاتھ بڑھا کر بندھا ہوا بنڈل لیتا اور چلا جاتا۔ چونی لال کا اسٹال معمولی اسٹال نہیں تھا۔ حالانکہ امرتسر میں لوگوں کو انگریزی اور امریکی رسالوں اور پرچوں سے کوئی اتنی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن موڈرن نیوز ایجنسی ہر اچھا انگریزی اور امریکی رسالہ منگواتی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چونی لال منگواتا تھا۔ حالانکہ اسے پڑھنے وڑھنے کا بالکل شوق نہیں تھا۔ شہر میں بہت کم آدمی جانتے تھے کہ موڈرن نیوز ایجنسی کھولنے سے چونی لال کا اصل مقصد کیا تھا۔ یوں تو اس سے چونی لال کو خاصی آمدن ہو جاتی تھی۔ اس لیے کہ وہ قریب قریب ہر بڑے اخبار کا ایجنٹ تھا۔ لیکن سمندر پار سے جو اخبار اوررسالے آتے بہت ہی کم تھے۔ پھر بھی ہرہفتے ولائت کی ڈاک سے موڈرن نیوز ایجنسی کے نام سے کئی خوبصورت بنڈل اور پیکٹ آتے ہی رہتے۔ اصل میں چونی لال یہ پرچے اور رسالے بیچنے کیلیے نہیں بلکہ مفت بانٹنے کے لیے منگواتا تھا۔ چنانچہ ہر روز صبح سویرے وہ ان ہی پرچوں کا بنڈل لینے آتا تھا جو اس کے ملازموں نے باندھ کر الگ چھوڑے ہوتے تھے۔ شہرکے جتنے بڑے افسر تھے سب چونی لال کے واقف تھے۔ بعض کی واقفیت صرف یہیں تک محدود تھی کہ ہر ہفتے ان کے یہاں جو انگریزی اور امریکی پرچے آتے ہیں۔ شہر میں کوئی ایک موڈرن نیوز ایجنسی ہے۔ اس کا مالک چونی لال ہے۔ وہ بھیجتا ہے اور بل کبھی روانہ نہیں کرتا۔ بعض ایسے بھی تھے جو اس کوبہت اچھی طرح جانتے تھے مثال کے طور پر ان کو معلوم تھا کہ چونی لال کا گھر بہت ہی خوبصورت ہے۔ ہے تو چھوٹا سامگر بہت ہی نفیس طریقے پر سجا ہے۔ ایک نوکر ہے راما، بڑا صاف ستھرا اور سو فی صدی نوکر۔ سمجھدار، معمولی سا اشارہ سمجھنے والا جس کو صرف اپنے کام سے غرض ہے۔ دوسرے کیا کرتے ہیں کیا نہیں کرتے اس سے اس کو دلچسپی نہیں۔ چونی لال گھر پر موجود ہو جب بھی ایک بات ہے۔ موجود نہ ہو جب بھی ایک بات ہے۔ مہمان کس غرض سے آیا ہے۔ یہ اس کو اُس کی شکل دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ کبھی ضرورت محسوس نہیں ہو گی کہ اس سے سوڈے برف کے لیے کہا جائے یا پانوں کا آرڈر دیا جائے۔ ہر چیز خودبخود وقت پر مل جائے گی اور پھرتاک جھانک کا کوئی خدشہ نہیں۔ اس بات کا بھی کوئی کھٹکا نہیں کہ بات کہیں باہر نکل جائے گی۔ چونی لال اور اس کا نوکر راما دونوں کے ہونٹ دریا کے دریا پینے پر بھی خشک رہتے تھے۔ مکان بہت ہی چھوٹا تھا۔ بمبئی اسٹائل کا۔ یہ چونی لال نے خود بنوایا تھا۔ باپ کی وفات پر اسے دس ہزار روپیہ ملا تھا۔ جس میں سے پانچ ہزار اس نے اپنی چھوٹی بہن روپا کو دے دیے تھے اور جدی مکان بھی اور خود علیحدہ ہو گیا تھا۔ روپا اپنی ماں کے ساتھ اس میں رہتی تھی اور چونی لال اپنے بمبئے اسٹائل کے مکان میں۔ شروع شروع میں ماں بہن نے بہت کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ رہے۔ ساتھ نہ رہے تو کم از کم ان سے ملتا ہی رہے مگر چونی لال کو ان دونوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اپنی ماں اور بہن سے نفرت تھی۔ دراصل اسے شروع ہی سے ان دونوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ باپ سے ضرور تھی کہ وہ تھانیدار تھا۔ لیکن جب وہ ریٹائر ہوا تو چونی لال کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہ رہی جس وقت اسے کالج میں کسی سے کہنا پڑتا کہ اس کے والد ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر ہیں تو اسے بہت کوفت ہوتی۔ چونی لال کو اچھی پوشش اور اچھے کھانے کا بہت شوق تھا۔ طبیعت میں نفاست تھی۔ چنانچہ وہ لوگ جو اس کے مکان میں ایک دفعہ بھی گئے۔ اس کے سلیقے کی تعریف اب تک کرتے ہیں۔ این ڈبلیو آر کے ایک نیلام میں اس نے ریل کے ڈبے کی ایک سیٹ خریدی تھی۔ اس کو اس نے اپنے دماغ سے بہت ہی عمدہ دیوان میں تبدیل کروالیا تھا۔ چونی لال کو یہ اس قدر پسند تھا کہ اسے اپنی خوابگاہ میں رکھوایا ہوا تھا۔ شراب اس نے کبھی چھوئی نہیں تھی۔ لیکن دوسروں کو پلانے کا بہت شوق تھا۔ ایرے غیرے کو نہیں، خاص الخاص آدمیوں کو۔ جن کی سوسائٹی میں اونچی پوزیشن ہو۔ جو کوئی مرتبہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی وہ اکثر دعوت کرتا۔ کسی ہوٹل یا قہوہ خانے میں انھیں اپنے گھر میں جواس نے خاص اپنے لیے بنوایا تھا۔ زیادہ پینے پر اگر کسی کی طبیعت خراب ہو جائے تو اسے کسی تردو کی ضرورت نہ ہوتی۔ کیونکہ چونی لال کے پاس ایسی چیزیں ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ جن سے نشہ کم ہو جاتا تھا۔ ڈر کے مارے کوئی گھر نہ جانا چاہے تو علیحدہ سجے سجائے دو کمرے موجود تھے۔ چھوٹا سا ہال تھا۔ اس میں کبھی کبھی مجرے بھی ہوتے تھے۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ چونی لال کے اس مکان میں اس کے دوست کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں اپنی سہیلیوں سمیت رہے۔ لیکن اس نے ان کو مطلق خبر نہ ہونے دی کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ البتہ جب اس کا کوئی دوست ان کی ان نوازشوں کا شکریہ ادا کرتا تو چونی لال غیر متوقع طور پر بے تکلف ہو کر کہتا۔

’’کیا کہتے ہو یار۔ مکان تمہارا اپنا ہے۔ ‘‘

عام گفتگو میں وہ اپنے دوستوں کے اونچے مرتبے کے پیشِ نظر ایسا تکلف کبھی نہیں برتتا تھا۔ چونی لال کا باپ لالہ گردھاری لال عین اس وقت ریٹائر ہوا جب چونی لال تھرڈ ڈویژن میں انٹرنس پاس کرکے کالج میں داخل ہوا۔ پہلے تو یہ تھا کہ صبح شام گھر پہ ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ڈالیوں پر ڈالیاں آرہی ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ تنخواہ بونس سیدھی بنک میں چلی جاتی تھی۔ لیکن ریٹائر ہونے پر کچھ ایسا پانسہ پلٹا کہ لالہ گردھاری لال کا نام جیسے بڑے آدمیوں کے رجسٹر سے کٹ گیا۔ یوں تو جمع پونجی کافی تھی۔ لیکن لالہ گردھاری لال نے بیکار مباش کچھ کیا کر، مکانوں کا سٹہ کھیلنا شروع کردیا اور دو برسوں ہی میں آدھی سے زیادہ جائیداد گنوا دی، پھر لمبی بیماری نے آگھیرا۔ ان تمام واقعات کا چونی لال پر عجیب و غریب اثر ہوا۔ لالہ گردھاری لال کا حال پتلا ہونے کے ساتھ چونی لال کے دل میں اپنا پرانا ٹھاٹ اور اپنی پرانی ساکھ قائم رکھنے کی خواہش بڑھتی گئی اور آخرمیں اس کے ذہن نے آہستہ آہستہ کچھ ایسی کروٹ بدلی کہ وہ بڑے آدمیوں کا بظاہر ہم جیلس تھا۔ ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا۔ لیکن اصل میں وہ ان سے بہت دور تھا۔ ان کے رتبے سے، ان کی جاہ و منزلت سے البتہ اس کا وہی رشتہ تھا۔ جو ایک بُت سے پجاری کا ہو سکتا ہے یا ایک آقا سے ایک غلام کا۔ ہوسکتا ہے کہ چونی لال کے وجود کے کسی گوشے میں بہت ہی بڑا آدمی بننے کی خواہش تھی جو وہیں کی وہیں دب گئی اور یہ صورت اختیار کرگئی۔ جو اب اس کے دل و دماغ میں تھی۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جو کچھ بھی وہ کرتا۔ اس میں انتہائی درجے کا خلوص تھا۔ کوئی بڑا آدمی اس سے ملے نہ ملے یہی کافی تھا کہ وہ اس کے دیے ہوئے امریکی اور انگریزی پرچے ایک نظر دیکھ لیتا ہے۔ فسادات ابھی شروع نہیں ہوئے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تقسیم کی بات بھی ابھی نہیں چلی تھی کہ چونی لال کی بہت دنوں کی مراد پوری ہوتی نظر آئی۔ ایک بہت ہی بڑے افسر تھے۔ جس سے چونی لال کی جان پہچان نہ ہوسکی تھی۔ ایک دفعہ اس کے مکان پر شہر کی سب سے خوبصورت طوائف کا مجرا ہوا۔ چند دوستوں کے ہمراہ اس بڑے افسر کا شرمیلا بیٹا ہربنس بھی چلا آیا۔ چنانچہ جب چونی لال کی اس نوجوان سے دوستی ہو گئی تو اس نے سمجھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے باپ سے بھی راہ و رسم پیدا ہو ہی جائے گی۔ ہربنس جس نے تعیش کی زندگی میں نیا نیا قدم رکھا تھا بہت ہی الھڑ تھا۔ چونی لال خود تو شراب نہیں پیتا تھا۔ لیکن ہربنس کا شوق پورا کرنے کے لیے اور اسے شراب نوشی کے ادب آداب سکھانے کے لیے ایک دو دفعہ اسے بھی پینی پڑی۔ لیکن بہت ہی قلیل مقدار میں۔ لڑکے کو شراب پینی آگئی۔ تو اس کا دل کسی اور چیز کو چاہا۔ چونی لال نے یہ بھی مہیا کردی اور کچھ اس انداز سے کہ ہربنس کو جھینپنے کا موقع نہ ملے۔ جب کچھ دن گزر گئے تو چونی لال کو محسوس ہوا کہ ہربنس ہی کی دوستی کافی ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعے سے وہ لوگوں کی سفارشیں پوری کرالیتا تھا۔ ویسے تو شہر میں چونی لال کے اثر و رسوخ کا ہر شخص قائل تھا۔ لیکن جب سے ہربنس اس کے حلقہ واقفیت میں آیا تھا اس کی دھاک اور بھی زیادہ بیٹھ گئی تھی۔ اکثر یہی سمجھتے تھے کہ چونی لال اپنے اثر و رسوخ سے ذاتی فائدہ اٹھاتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس نے اپنے لیے کبھی کسی سے سفارش نہیں کی تھی۔ اس کو شوق تھا دوسروں کے کام کرنے کا اور انھیں اپنا ممنونِ احسان بنانے کا بلکہ یوں کہیے کہ ان کے دل و دماغ پر کچھ ایسے خیالات۔ طارق کرنے کا کہ بھی کمال ہے۔ ایک معمولی سی نیوز ایجنسی کا مالک ہے لیکن بڑے بڑے حاکموں تک اس کی رسائی ہے۔ بعض یہ سمجھتے تھے کہ وہ خفیہ پولیس کا آدمی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، لیکن چونی لال حقیقت میں جو کچھ تھا بہت ہی کم آدمی جانتے تھے۔ ایک کو خوش کیجیے تو بہت سوں کو ناراض کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ چونی لال کے جہاں احسان مند تھے وہاں دشمن بھی تھے اور اس تاک میں رہتے تھے کہ موقعہ ملے اور اس سے بدلہ لیں۔ فسادات شروع ہوئے تو چونی لال کی مصروفیات زیادہ ہو گئیں۔ مسلمان اور ہندوؤں دونوں کے لیے اس نے کام کیا۔ لیکن صرف ان ہی کے لیے جن کا سوسائٹی میں کوئی درجہ تھا۔ اس کے گھر کی رونق بھی بڑھ گئی۔ قریب قریب ہر روز کوئی نہ کوئی سلسلہ رہتا۔ اسٹورروم جو سیڑھیوں کے نیچے تھا۔ شراب اور بیئر کی خالی بوتلوں سے بھرگیا تھا۔ ہربنس کا الھڑ پن اب بہت حد تک دور ہوچکا تھا۔ اب اسے چونی لال کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ بڑے آدمی کا لڑکا تھا۔ فسادات نے دستر خوان بچھا کر نت نئی چیزیں اس کے لیے چن دی تھیں۔ چنانچہ قریب قریب ہر روز وہ چونی لال کے مکان میں موجود ہوتا۔ رات کے بارہ بجے ہوں گے۔ چونی لال اپنے کمرے میں ریل گاڑی کی سیٹ سے بنائے ہوئے دیوان پر بیٹھا اپنے پستول پر انگلی گھما رہا تھا کہ دروازے پر زور کی دستک ہوئی۔ چونی لال چونک پڑا اور سوچنے لگا۔ بلوائی؟۔ نہیں!۔ راما؟۔ نہیں! وہ تو کئی دنوں سے کرفیو کے باعث نہیں آرہا تھا۔ دروازے پر پھر دستک ہوئی اور ہربنس کی سہمی ہوئی ڈری ہوئی آواز آئی۔ چونی لال نے دروازہ کھولا۔ ہربنس کارنگ ہلدی کے گابھے کی طرح زرد تھا۔ ہونٹ تک پیلے تھے چونی لال نے پوچھا۔

’’کیاہوا؟‘‘

’’وہ۔ وہ۔ ‘‘

آواز ہربنس کے سوکھے ہوئے گلے میں اٹک گئی۔ چونی لال نے اس کو دلاسا دیا۔

’’گھبرائیے نہیں۔ بتائیے کیا ہوا ہے۔ ‘‘

ہربنس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

’’وہ۔ وہ۔ لہو۔ بند ہی نہیں ہوتا لہو۔ ‘‘

چونی لال سمجھا تھا کہ شاید لڑکی مر گئی ہے۔ چنانچہ یہ سن کر اسے ناامیدی سی ہوئی۔ کیونکہ وہ لاش کو ٹھکانے لگانے کی پوری اسکیم اپنے ہوشیار دماغ میں تیار کر چکا تھا۔ ایسے موقعوں پر جب اس کے گھر میں اس کے مہمان کسی مشکل میں گرفتار ہو جائیں چونی لال کا دماغ غیر معمولی طورپر مستعد ہو جاتا تھا۔ مسکرا کر اس نے ہربنس کی طرف دیکھا جو کہ لرز رہا تھا

’’میں سب ٹھیک کیے دیتا ہوں۔ آپ گھبرائیے نہیں۔ ‘‘

یہ کہہ اس نے اس کمرے کا رخ کیا۔ جس میں ہربنس تقریباً سات بجے سے ایک لڑکی کے ساتھ جانے کیا کرتا رہا تھا۔ چونی لال نے ایک دم بہت سی باتیں سوچیں۔ ڈاکٹر۔ نہیں۔ بات باہر نکل جائے گی۔ ایک بہت بڑے آدمی کی عزت کا سوال ہے اور یہ سوچتے ہوئے اسے عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس ہوتی کہ وہ ایک بہت بڑے آدمی کے ننگ و ناموس کا محافظ ہے۔ راما؟۔ کرفیو کے باعث وہ کئی دنوں سے نہیں آرہا تھا۔ برف؟۔ ہاں برف ٹھیک ہے۔ ریفرجریٹر موجود تھا۔ لیکن سب سے بڑی پریشانی چونی لال کو یہ تھی کہ وہ لڑکیوں اور عورتوں کے ایسے معاملوں سے بالکل بے خبر تھا۔ لیکن اس نے سوچا کچھ بھی ہو۔ کوئی نہ کوئی اوپائے نکالنا ہی پڑے گا۔ چونی لال نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ ساگوان کے اسپرنگوں والے پلنگ پر ایک لڑکی لیٹی تھی اور سفید چادر خون میں لتھڑی ہوئی تھی۔ چونی لال کو بہت گھن آئی۔ لیکن وہ آگے بڑھا۔ لڑکی نے کروٹ بدلی اور ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی۔

’’بھیا!‘‘

چونی لال نے بھینچی ہوئی آواز میں کہا۔

’’روپا!‘‘

اور اس کے دماغ میں اوپر تلے سینکڑوں باتوں کا انبار سا لگ گیا۔ ان میں سب سے ضروری بات یہ تھی کہ ہربنس کو پتا نہ چلے کہ روپا اس کی بہن ہے چنانچہ اس نے منہ پر انگلی رکھ کر روپا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور باہر نکل کر معاملے پر غور کرنے کیلیے دروازہ کی طرف بڑھا۔ دہلیز میں ہربنس کھڑا تھا۔ اس کا رنگ اب پہلے سے بھی زرد تھا۔ ہونٹ بالکل بے جان ہو گئے تھے۔ آنکھوں میں وحشت تھی۔ چونی لال کو دو بدو دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ چونی لال نے دروازہ بھیڑ دیا۔ ہربنس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ چونی لال خاموش تھا۔ اس کے چہرے کا کوئی خط بگڑا ہوا نہیں تھا۔ اصل میں وہ سارے معاملے پرغور کررہا تھا۔ اس قدر لعمق سے غور کررہا تھا کہ وہ ہربنس کی موجودگی سے بھی غافل تھا۔ مگر ہربنس کو چونی لال کی غیر معمولی خاموشی میں اپنی موت دکھائی دے رہی تھی۔ چونی لال اپنے کمرے کی طرف بڑھا تو ہربنس زور سے چیخا اور دوڑ کر اس میں داخل ہوا۔ بہت ہی زور سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ریل گاڑی کی سیٹ والے دیوان پر سے پستول اٹھایا اور باہر نکل کر چونی لال کی طرف تان دیا۔ چونی لال پھر بھی کچھ نہ بولا وہ ابھی تک معاملہ سلجھانے میں مستغرق تھا۔ سوال ایک بہت بڑے آدمی کی عزت کا تھا۔ پستول ہربنس کے ہاتھ میں کپکپانے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد فیصلہ ہو جائے۔ لیکن وہ اپنی پوزیشن صاف کرنا چاہتا تھا۔ دونوں چونی لال اور ہربنس کچھ دیر خاموش رہے۔ لیکن ہربنس زیادہ دیر تک چپ نہ رہ سکا۔ اس کے دل و دماغ میں بڑی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دم اس نے بولنا شروع کیا۔

’’میں۔ میں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ یہ۔ کہ یہ تمہاری بہن ہے۔ یہ ساری شرارت اس مسلمان کی ہے۔ اس مسلمان سب انسپکٹر کی۔ کیا نام ہے اس کا۔ کیا نام ہے اس کا۔ محمد طفیل۔ ہاں ہاں محمد طفیل۔ نہیں نہیں۔ بشیر احمد۔ نہیں نہیں محمد طفیل۔ وہ طفیل جس کی ترقی تم نے رکوائی تھی۔ اس نے مجھے یہ لڑکی لا کر دی اور کہا مسلمان ہے۔ مجھے معلوم ہوتا تمہاری بہن ہے تو کیا میں اسے یہاں لے کر آتا۔ تم۔ تم۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ ‘‘

اور اس نے چلانا شروع کردیا۔

’’تم بولتے کیوں نہیں۔ تم مجھ سے بدلہ لینا چاہتے ہو۔ تم مجھ سے بدلہ لینا چاہتے ہو۔ لیکن میں کہتا ہوں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ ‘‘

چونی لال نے ہولے سے کہا۔

’’گھبرائیے نہیں۔ آپ کے پتا جی کی عزت کا سوال ہے۔ ‘‘

لیکن ہربنس چیخ چلا رہا تھا۔ اس نے کچھ نہ سنا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پستول داغ دیا۔ تیسرے روز کرفیو ہٹنے پر چونی لال کے دو نوکروں نے موڈرن نیوز ایجنسی کا اسٹال کھولا۔ تازہ اخبار اپنی اپنی جگہ پر رکھے۔ چونی لال کے لیے اخباروں اور رسالوں کا ایک بنڈل باندھ کر الگ رکھ دیا مگر وہ نہ آیا۔ کئی راہ چلتے آدمیوں نے تازہ اخباروں کی سرخیوں پر نظر ڈالتے ہوئے معلوم کیا کہ موڈرن نیوز ایجنسی کے مالک چونی لال نے اپنی سگی بہن کے ساتھ منہ کالا کیا اور بعد میں گولی مارکر خود کشی کرلی۔

سعادت حسن منٹو

صاحب کرامت

چوہدری موجو بوڑھے برگد کی گھنی چھاؤں کے نیچے کھری چارپائی پر بڑے اطمینان سے بیٹھا اپنا چموڑا پی رہا تھا۔ دھوئیں کے ہلکے ہلکے بقے اس کے منہ سے نکلتے تھے اور دوپہر کی ٹھہری ہوئی ہوا میں ہولے ہولے گم ہو جاتے تھے۔ وہ صبح سے اپنے چھوٹے سے کھیت میں ہل چلاتا رہا تھا اور اب تھک گیا تھا۔ دھوپ اس قدر تیز تھی کہ چیل بھی اپنا انڈا چھوڑ دے مگر اب وہ اطمینان سے بیٹھا اپنے چموڑے کا مزہ لے رہا تھا جو چٹکیوں میں اس کی تھکن دور کردیتا تھا۔ اس کا پسینہ خشک ہو گیا تھا۔ اس لیے ٹھہری ہوا اسے کوئی ٹھنڈک نہیں پہنچا رہی تھی مگر چموڑے کا ٹھنڈا ٹھنڈا لذیذ دھواں اس کے دل و دماغ میں ناقابل بیان سرور کی لہریں پیدا کررہا تھا۔ اب وقت ہو چکا تھا کہ گھر سے اس کی اکلوتی لڑکی جیناں روٹی لسی لے کر آجائے۔ وہ ٹھیک وقت پر پہنچ جاتی تھی۔ حالانکہ گھر میں اس کا ہاتھ بٹانے والا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کی ماں تھی جس کو دو سال ہوئے موجو نے ایک طویل جھگڑے کے بعد انتہائی غصے میں طلاق دے دی تھی۔ اس کی جوان اکلوتی بیٹی جیناں بڑی فرماں بردار لڑکی تھی۔ وہ اپنے باپ کا بہت خیال رکھتی تھی۔ گھر کا کاج جو اتنا زیادہ نہیں تھا۔ بڑی مستعدی سے کرتی تھی کہ جو خالی وقت ملے اس میں چرخہ چلائے اور پونیاں کاتے۔ یا اپنی سہیلیوں کے ساتھ جو گنتی کی تھیں ادھر ادھر کی خوش گپیوں میں گزاردے۔ چوہدری موجو کی زمین واجبی تھی مگر اس کے گزارے کے لیے کافی تھی۔ گاؤں بہت چھوٹا تھا۔ ایک دور افتادہ جگہ پر جہاں سے ریل کا گزر نہیں تھا۔ ایک کچی سڑک تھی جو اسے دورایک بڑے گاؤں کے ساتھ ملاتی تھی۔ چوہدری موجو ہر مہینے دو مرتبہ اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر اس گاؤں میں جاتا تھا۔ جس میں دو تین دکانیں تھیں اور ضرورت کی چیزیں لے آتا تھا۔ پہلے وہ بہت خوش تھا۔ اس کو کوئی غم نہیں تھا۔ دو تین برس اس کو اس خیال نے البتہ ضرور ستایا تھا کہ اس کے کوئی نرینہ اولاد نہیں ہوتی، مگر پھر وہ یہ سوچ کر شاکر ہو گیا کہ جو اللہ کو منظو ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ مگر اب جس دن سے اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر میکے رخصت کردیا تھا۔ اس کی زندگی سوکھا ہوا نیچہ سی بن کے رہ گئی تھی۔ ساری طراوت جیسے اس کی بیوی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ چوہدری موجو مذہبی آدمی تھا۔ حالانکہ اسے اپنے مذہب کے متعلق صرف دو تین چیزوں ہی کا پتہ تھا کہ خدا ایک ہے جس کی پرستش لازمی ہے۔ محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ جن کے احکام ماننا فرض ہے اور قرآن پاک خدا کا کلام ہے جو محمدؐ پر نازل ہوا اور بس۔ نماز روزے سے وہ بے نیاز تھا۔ گاؤں بہت چھوٹا تھا جس میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ دس پندرہ گھر تھے۔ وہ بھی ایک دوسرے سے دور دور۔ لوگ اللہ اللہ کرتے تھے۔ ان کے دل میں اس ذات پاک کا خوف تھا مگر اس سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ قریب قریب ہر گھر میں قرآن موجود تھا۔ مگر پڑھنا کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ سب نے اسے احتراماً جزدان میں لپیٹ کر کسی اونچے طاق میں رکھ چھوڑا تھا۔ اس کی ضرورت صرف اسی وقت پیش آتی تھی۔ جب کسی سے کوئی سچی بات کہلوانی ہوتی تھی یا کسی کام کے لیے حلف اٹھانا ہوتا تھا۔ گاؤں میں مولوی کی شکل اسی وقت دکھائی دیتی تھی۔ جب کسی لڑکے یا لڑکی شادی ہوتی تھی۔ مرگ پر جنازہ وغیرہ وہ خود ہی پڑھ لیتے تھے۔ اپنی زبان میں۔ چوہدری موجو ایسے موقعوں پر زیادہ کام آتا تھا۔ اس کی زبان میں اثر تھا۔ جس انداز سے وہ مرحوم کی خوبیاں بیان کرتا تھا اور اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتا تھا۔ وہ کچھ اسی کا حصہ تھا۔ پچھلے برس جب اس کے دوست دینو کا جوان لڑکا مر گیا تو اس کو قبر میں اتار کر اس نے بڑے موثر انداز میں یہ کہا تھا۔ ہائے، کیا شیں جوان لڑکا تھا۔ تھوک پھینکتا تھاتو بیس گز دور جاکے گرتی تھی۔ اس کی پیشاب کی دھار کا تو آس پاس کے کسی گاؤں کھیڑے میں بھی مقابلہ کرنے والا موجود نہیں تھا اور بینی پکڑنے میں تو جواب نہیں تھا اس کا۔ ہے گھسنی کا نعرہ مارنا اور دو انگلیوں سے یوں بینی کھولتا جیسے کرتے کا بٹن کھولتے ہیں۔ دینو یار، تجھ پر آج قیامت کا دن ہے۔ تو کبھی یہ صدمہ نہیں برداشت کرے گا۔ یارو اسے مر جانا چاہیے تھا۔ ایسا شیں جوان لڑکا۔ ایسا خوبصورت گبرو جوان۔ نیتی سنیاری جیسی سندر اور ہٹیلی ناری اس کو قابو کرنے کے لیے تعویذ دھاگے کراتی رہی۔ مگر بھئی مرحبا ہے دینو، تیرا لڑکا لنگوٹ کا پکا رہا۔ خدا کرے اس کو جنت میں سب سے خوبصورت حور ملے اور وہاں بھی لنگوٹ کا پکا رہے۔ اللہ میاں خوش ہو کر اس پر اپنی اور رحمتیں نازل کرے گا۔ آمین۔ ‘‘

یہ چھوٹی سی تقریر سن کر دس بیس آدمی جن میں دینو بھی شامل تھا۔ ڈھاریں مار مار کر رو پڑتے تھے۔ خود چوہدری موجو کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ مرجو نے جب اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہی تھی تو اس نے مولوی بلانے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔ اس نے بڑے بوڑھوں سے سن رکھا تھا کہ تین مرتبہ طلاق، طلاق، طلاق کہہ دو تو قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہ قصہ اس طرخ ختم کیا تھا۔ مگر دوسرے ہی دن اس کو بہت افسوس ہوا تھا۔ بڑی ندامت ہوئی تھی کہ اس نے یہ کیا غلطی کی۔ میاں بیوی میں جھگڑے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مگر طلاق تک نوبت نہیں آتی۔ اس کو درگزر کرنا چاہیے تھا۔ پھاتاں اس کو پسند تھی۔ گو وہ اب جوان نہیں تھی، لیکن پھر بھی اس کو اس کا جسم پسند تھا۔ اس کی باتیں پسند تھیں۔ اور پھر وہ اس کی جیناں کی ماں تھی۔ مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا جو واپس نہیں آسکتا تھا۔ چوہدری موجو جب بھی اس کے متعلق سوچتا تو اس کے چہیتے چموڑے کا دھواں اس کے حلق میں تلخ گھونٹ بن بن کے جانے لگتا۔ جیناں خوبصورت تھی۔ اپنی ماں کی طرح ان دو برسوں میں اس نے ایک دم بڑھنا شروع کردیا تھا اور دیکھتے دیکھتے جوان مٹیار بن گئی تھی جس کے انگ انگ سے جوانی پھوٹ پھوٹ کے نکل رہی تھی۔ چوہدری موجو کو اب اس کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر بھی تھی۔ یہاں پھر اس کی پھاتاں یاد آتی۔ یہ کام وہ کتنی آسان سے کرسکتی تھی۔ کھری کھاٹ پر چوہدری موجو نے اپنی نشست اور اپنا تہمد درست کرتے ہوئے چموڑے سے غیر معمولی لمبا کش لیا اور کھانسنے لگا۔ کھانسنے کے دوران میں کسی کی آواز آئی۔

’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ ‘‘

چوہدری موجو نے پلٹ کر دیکھا تو اسے سفید کپڑوں میں ایک دراز ریش بزرگ نظر آئے۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور سوچنے لگا کہ یہ شخص کہاں سے آگیا ہے۔ دراز ایش بزرگ کی آنکھیں بڑی بڑی اور با رعب تھیں جن میں سرمہ لگا ہوا تھا۔ لمبے لمبے پٹے تھے۔ ان اور داڑھی کے بال کھچڑی تھے۔ سفید زیادہ اور سیاہ کم۔ سر پر سفید عمامہ تھا۔ کاندھے پر ریشم کا کاڑھا ہوا بسنتی رومال۔ ہاتھ میں چاندی کی موٹھ والا موٹا عصا تھا۔ پاؤں میں لال کھال کا نرم ونازک جوتا۔ چوہدری موجو نے جب اس بزرگ کا سراپا غور سے دیکھا۔ تو اس کے دل میں فوراً ہی اس کا احترام پیدا ہو گیا۔ چارپائی پر سے جلدی جلدی اٹھ کر وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ کہاں سے آئے؟ کب آئے؟‘‘

بزرگ کی کتری ہوئی شرعی لبوں میں مسکراہٹ پیدا ہوئی۔

’’فقیر کہاں سے آئیں گے۔ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ ان کے آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ ان کے جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے جدھر حکم دیا چل پڑے۔ جہاں ٹھہرنے کا حکم ہوا وہیں ٹھہر گئے۔ ‘‘

چوہدری موجو پر ان الفاظ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر بزرگ کا ہاتھ بڑے احترام سے اپنے ہاتھوں میں لیا۔ چوما، آنکھوں سے لگایا۔

’’چوہدری موجو کا گھر آپ کا اپنا گھر ہے۔ ‘‘

بزرگ مسکرایا ہوا کھاٹ پر بیٹھ گیا اور اپنے چاندی کی موٹھ والے اعصا کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس پر اپنا سر جھکا دیا

’’اللہ جل شانہ، کو جانے تیری کون سی ادا پسند آگئی کہ اپنے اس حقیر اور عاصی بندے کو تیرے پاس بھیج دیا۔ ‘‘

چوہدری موجو نے خوش ہو کر پوچھا۔

’’تو مولوی صاحب آپ اس کے حکم سے آئے ہیں؟‘‘

مولوی صاحب نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا اور کسی قدر خشم آلود لہجے میں کہا۔

’’تو کیا ہم تیرے حکم سے آئے ہیں۔ ہم تیرے بندے ہیں یا اس کے جس کی عبادت میں ہم نے پورے چالیس برس گزار کر یہ تھوڑا بہت رتبہ حاصل کیا ہے۔ ‘‘

چوہدری موجو کانپ گیا۔ اپنے مخصوص گنوار لیکن پر خلوص انداز میں اس نے مولوی صاحب سے اپنی تقصیر معاف کرائی اور کہا۔

’’مولوی صاحب، ہم جیسے انسانوں سے جن کو نماز پڑھنی بھی نہیں آتی ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ہم گنہگار ہیں۔ ہمیں بخشوانا اور بخشنا آپ کا کام ہے۔ ‘‘

مولوی صاحب نے اپنی بڑی بڑی سرمہ لگی آنکھیں بند کیں اور کہا۔

’’ہم اسی لیے آئے ہیں۔ ‘‘

چوہدری موجو زمین پر بیٹھ گیا اور مولوی صاحب کے پاؤں دبانے لگا۔ اتنے میں اس کی لڑکی جیناں آگئی۔ اس نے مولوی صاحب کو دیکھا تو گھونگھٹ چھوڑ لیا۔ مولوی صاحب نے مندی آنکھوں سے پوچھا۔

’’کون ہے چوہدری موجو؟‘‘

’’میری بیٹی مولوی صاحب۔ جیناںٖ!‘‘

مولوی صاحب نے نیم وا آنکھوں سے جیناں کو دیکھا اور موجو سے کہا۔

’’ہم فقیروں سے کیا پردہ ہے۔ اس سے پوچھو۔ ‘‘

’’کوئی پردہ نہیں مولوی صاحب۔ پردہ کیسا ہو گا۔ ‘‘

پھرموجو جیناں سے مخاطب ہوا۔ ‘

’’یہ مولوی صاحب جیناں۔ اللہ کے خاص بندے۔ ان سے پردہ کیسا۔ اٹھا لے اپنا گھونگھٹ!‘‘

جیناں نے اپنا گھونگھٹ اٹھا لیا۔ مولوی صاحب نے اپنی سرمہ لگی نظریں بھر کے اس کی طرف دیکھا اور موجو سے کہا۔

’’تیری بیٹی خوبصورت ہے چوہدری موجو!‘‘

جیناں شرما گئی۔ موجو نے کہا۔

’’اپنی ماں پر ہے مولوی صاحب!‘‘

’’کہاں ہے اس کی ماں‘‘

مولوی صاحب نے ایک بار پھر جیناں کی جوانی کی طرف دیکھا۔ چوہدری موجو سٹپٹاگیا کہ جواب کیا دے۔ مولوی صاحب نے پھر پوچھا۔

’’اس کی ماں کہاں ہے چوہدری موجو۔ ‘‘

موجو نے جلدی سے کہا۔

’’مر چکی ہے جی!‘‘

مولوی صاحب کی نظریں جیناں پر گڑی تھیں۔ اس کا ردعمل بھانپ کر انھوں نے موجو سے کڑک کر کہا۔

’’تو جھوٹ بولتا ہے۔ ‘‘

موجو نے مولوی صاحب کے پاؤں پکڑ لیے اور ندامت بھری آواز میں کہا۔

’’جی ہاں۔ جی ہاں۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ مجھے معاف کردیجیے۔ میں بڑا جھوٹا آدمی ہوں۔ میں نے اس کو طلاق دے دی تھی مولوی صاحب۔ ‘‘

مولوی صاحب نے ایک لمبی’ہوں‘ کی اور نظریں جیناں کی چدریا سے ہٹالیں اور موجو سے مخاطب ہوئے۔

’’تو بہت بڑا گناہگار ہے۔ کیا قصور تھا اس بے زبان کا؟‘‘

موجو ندامت میں غرق تھا۔

’’کچھ نہیں معلوم مولوی صاحب۔ معمولی سی بات تھی جو بڑھتے بڑھتے طلا ق تک پہنچ گئی۔ میں واقعی گنہگار ہوں۔ طلاق دینے کے دوسرے دن ہی میں نے سوچا تھا کہ موجو تو نے یہ کیا جھک ماری۔ پر اس وقت کیا ہو سکتا تھا۔ چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ پچھتاوے سے کیا ہوسکتا تھا مولوی صاحب۔ ‘‘

مولوی صاحب نے چاندی کی موٹھ والا عصا موجو کے کاندھے پر رکھ دیا۔

’’اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے۔ وہ بڑا رحیم ہے، بڑا کریم ہے۔ وہ چاہے تو ہر بگڑی بنا سکتا ہے۔ اس کا حکم ہوا تویہ حقیر فقیر، ہی تیری نجات کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈ نکالے گا۔ ‘‘

ممنون و تشکر چوہدری موجو مولوی صاحب کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا اور رونے لگا۔ مولوی صاحب نے جیناں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے بھی اشک رواں تھے۔

’’ادھر آلڑکی۔ ‘‘

مولوی صاحب کے لہجے میں ایسا تحکم تھا۔ جس کو رد کرنا جیناں کے لیے ناممکن تھا۔ روٹی اور لسی ایک طرف رکھ کر وہ کھاٹ کے پاس چلی گئی۔ مولوی صاحب نے اس کو بازو سے پکڑا اور کہا۔

’’بیٹھ جا۔ ‘‘

جیناں زمین پر بیٹھنے لگی تو مولوی صاحب نے اس کا بازو اوپر کھینچا۔

’’ادھر میرے پاس بیٹھ۔ ‘‘

جیناں سمٹ کر مولوی صاحب کے پاس بیٹھ گئی۔ مولوی صاحب نے اس کی کمر میں ہاتھ دے کر اس کو اپنے قریب کرلیا اور ذرا دبا کر پوچھا۔

’’کیا لائی ہے تو ہمارے کھانے کے لیے۔ ‘‘

جیناں نے ایک طرف ہٹنا چاہا مگر گرفت مضبوط تھی۔ اس کو جواب دینا پڑا۔

’’جی۔ جی روٹیاں ہیں۔ ساگ ہے اور لسی۔ ‘‘

مولوی صاحب نے جیناں کی پتلی مضبوط کمر اپنے ہاتھ سے ایک بار پھر دبائی

’’چل کھول کھانا اور ہمیں کھلا۔ ‘‘

جیناں اٹھ کر چلی گئی تو مولوی صاحب نے موجو کے کندھے سے اپنا چاندی کی موٹھ والا عصا ننھی سی ضرب کے بعد اٹھا لیا۔

’’اٹھ موجو۔ ہمارے ہاتھ دھلا۔ ‘‘

موجو فوراً اٹھا۔ پاس ہی کنواں تھا۔ پانی لایا اور مولوی صاحب کے ہاتھ بڑے مریدانہ طور پر دھلائے جیناں نے چارپائی پر کھانا رکھ دیا۔ مولوی صاحب سب کا سب کھا گئے اور جیناں کو حکم دیا کہ وہ ان کے ہاتھ دھلائے۔ جیناں عدول حکمی نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ مولوی صاحب کی شکل و صورت اور ان کی گفتگو کا اندازہی کچھ ایسا تحکم بھرا تھا۔ مولوی صاحب نے ڈکار لے کر بڑے زور سے الحمدللہ کہا۔ داڑھی پر گیلا گیلا ہاتھ پھیرا۔ ایک اور ڈکار لی اور چارپائی پر لیٹ گئے اور ایک آنکھ بند کرکے دوسری آنکھ سے جیناں کی ڈھلکی ہوئی چدریا کی طرف دیکھتے رہے۔ اس نے جلدی جلدی برتن سمیٹے اور چلی گئی۔ مولوی صاحب نے آنکھ بند کی اور موجو سے کہا۔

’’چوہدری اب ہم سوئیں گے۔ ‘‘

چوہدری کچھ دیر ان کے پاؤں دابتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ سو گئے ہیں۔ تو ایک طرف جا کر اس نے اپلے سلگائے اور چلم میں تمباکو بھر کے بھوکے پیٹ چموڑا پینا شروع کردیا۔ مگر وہ خوش تھا۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ اس کی زندگی کا کوئی بہت بڑا بوجھ دورہو گیا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے مخصوص گنوار مگر مخلص انداز میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے اپنی جناب سے مولوی صاحب کی شکل میں فرشتہ رحمت بھیج دیا۔ پہلے اس نے سوچا کہ مولوی صاحب کے پاس ہی بیٹھا رہے کہ شاید ان کو کسی خدمت کی ضرورت ہو، مگر جب دیر ہو گئی اور وہ سوتے رہے، تو وہ اٹھ کر اپنے کھیت میں چلا گیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اس کو اس بات کا قطعاً خیال نہیں تھاکہ وہ بھوکا ہے۔ اس کو بلکہ اس بات کی بے حد مسرت تھی کہ اس کا کھانا مولوی صاحب نے کھایا اور اس کو اتنی بڑی سعادت ہوئی۔ شام سے پہلے پہلے جب وہ کھیت سے واپس آیا تو اس کو یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ مولوی صاحب موجود نہیں۔ اس نے خود کو بڑی لعنت ملامت کی کہ وہ کیوں چلا گیا۔ ان کے حضور بیٹھتا رہتا۔ شاید وہ ناراض ہو کر چلے گئے ہیں اور کوئی بددعا بھی دے گئی ہوں۔ جب چوہدری موجو نے یہ سوچا تو اس کی سادہ روح لرزگئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے ادھر ادھر مولوی صاحب کو تلاش کیا مگر وہ نہ ملے۔ گہری شام ہو گئی۔ پھر بھی ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ تھک ہار کر اپنے کو دل ہی دل میں کوستا اور لعنت ملامت کرتا۔ وہ گردن جھکائے گر کی طرف جارہا تھا کہ اسے دو جوان لڑکے گھبرائے ہوئے ملے۔ چوہدری موجو نے ان سے گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو انھوں نے پہلے تو ٹالنا چاہا، مگر پھر اصل بات بتادی کہ وہ گھرے میں دبا ہوا شراب کا گھڑا نکال کر پینے والے تھے کہ ایک نورانی صورت والے بزرگ ایک دم وہاں نمودار ہوئے اور بڑی غصب ناک نگاہوں سے ان کو دیکھ کر یہ پوچھا کہ وہ یہ کیا حرام کاری کررہے ہیں۔ جس چیز کو اللہ تبارک تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے وہ اسے پی کر اتنا بڑا گناہ کررہے ہیں جس کا کوئی کفارہ ہی نہیں ان لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ کچھ بولیں۔ بس سر پاؤں رکھ کے بھاگے اور یہاں آکے دم لیا۔ چوہدری موجو نے ان دونوں کو بتایا کہ وہ نورانی صورت والے واقعی اللہ کو پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ پھر اس نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب جانے اس گاؤں پر کیا قہرنازل ہو گا۔ ایک اس نے ان کو چھوڑ چلے جانے کی بُری حرکت کی، ایک انھوں نے کہ حرام شے نکال کر پی رہے تھے۔

’’اب اللہ ہی بچائے۔ اب اللہ ہی بچائے میرے بچو۔ ‘‘

یہ بڑبڑاتا چوہدری موجو گھر کی جانب روانہ ہوا۔ جیناں موجود تھی، پر اس نے اس سے کوئی بات نہ کی اور خاموش کھاٹ پر بیٹھ کر حقہ پینے لگا۔ اس کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس پر اور گاؤں پر ضرور کوئی خدائی آفت آئے گی۔ شام کا کھانا تیار تھا، جیناں نے مولوی صاحب کے لیے بھی پکا رکھا تھا۔ جب اس نے اپنے باپ سے پوچھا کہ مولوی صاحب کہاں ہیں تو اس نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔

’’گئے۔ چلے گئے۔ ان کا ہم گنہگاروں کے ہاں کیا کام!‘‘

جیناں کو افسوس ہوا کیونکہ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ وہ کوئی ایسا راستہ ڈھونڈنکالیں گے جس سے اس کی ماں واپس آجائے گی۔ پر وہ جا چکے تھے۔ اب وہ راستہ ڈھونڈے والا کون تھا۔ جیناں خاموشی سے پیڑھی پر بیٹھ گئی۔ کھانا ٹھنڈا ہوتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈیوڑھی میں آہٹ ہوئی۔ باپ بیٹی دونوں چونکے۔ موجو اٹھ کے باہر گیا اور چند لمحات میں مولوی صاحب اور وہ دونوں اندر صحن میں تھے۔ دیے کی دھندلی روشنی میں جیناں نے دیکھا کہ مولوی صاحب لڑکھڑا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا مٹکا ہے۔ موجو نے ان کو سہارے دے کر چارپائی پر بٹھایا۔ مولوی صاحب نے گھڑا موجو کو دیا اور لکنت بھرے لہجے میں کہا۔

’’آج خدا نے ہمارا بہت کڑا امتحان لیا۔ تمہارے گاؤں کے دو لڑکے شراب کا گھڑا نکال کر پینے والے تھے کہ ہم پہنچ گئے۔ وہ ہمیں دیکھتے ہی بھاگ گئے۔ ہم کو بہت صدمہ ہوا کہ اتنی چھوٹی عمر اور اتنا بڑا گناہ۔ لیکن ہم نے سوچا کہ اسی عمر میں تو انسان رستے سے بھٹکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور میں گڑگڑا کر دعا مانگی کہ ان کا گناہ معاف کیا جائے۔ جواب ملا۔ جانتے ہو کیا جواب ملا؟‘‘

موجو نے لرزتے ہوئے کہا۔

’’جی نہیں!‘‘

’’جواب ملا۔ کیا تو ان کا گناہ اپنے سر لیتا ہے۔ میں نے عرض کی۔ ہاں باری تعالیٰ۔ آواز آئی، تو جا یہ سارا گھڑا شراب کا تو پی۔ ہم نے ان لڑکوں کو بخشا!‘‘

موجو ایک ایسی دنیا میں چلا گیا جو اس کے اپنے تخیل کی پیداوار تھی۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

’’تو آپ نے پی۔ ‘‘

مولوی صاحب کا لہجہ اور زیادہ لکنت بھرا ہو گیا۔

’’ہاں پی۔ پی۔ ان کا گناہ اپنے سرلینے کے لیے پی۔ رب العزت کی آنکھوں میں سرخرو ہونے کے لیے پی۔ گھڑے میں اور بھی پڑی ہے۔ یہ بھی ہمیں پینی ہے۔ رکھ دے اسے سنبھال کے اور اور دیکھ اس کی ایک بوند ادھر ادھر نہ ہو۔ ‘‘

موجو نے گھڑا اٹھا کر اندرکوٹھڑی میں رکھ دیا اور اس کے منہ پر کپڑا باندھ دیا۔ واپس صحن میں آیا تو مولوی صاحب جیناں سے اپنا سر دبوا رہے تھے اور اس سے کہہ رہے تھے۔

’’جو آدمی دوسروں کے لیے کچھ کرتا ہے، اللہ جل شانہ، اس سے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تجھ سے بھی خوش ہے۔ ہم بھی تجھ سے خوش ہیں۔ ‘‘

اور اسی خوشی میں مولوی صاحب نے جیناں کو اپنے پاس بٹھا کر اس کی پیشانی چوم لی۔ اس نے اٹھنا چاہا۔ مگر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ مولوی صاحب نے اس کو اپنے گلے سے لگا لیا اور موجو سے کہا۔

’’چوہدری تیری بیٹی کا نصیبا جاگ اٹھا ہے۔ ‘‘

چوہدری سر تا پا ممنون و متشکر تھا۔

’’یہ سب آپ کی دعا ہے۔ آپ کی مہربانی ہے۔ ‘‘

مولوی صاحب نے جیناں کو ایک مرتبہ پھر اپنے سینے کے ساتھ بھنچا۔

’’اللہ مہربان سو کل مہربان۔ جیناں ہم تجھے ایک وظیفہ بتائیں گے۔ وہ پڑھا کرنا۔ اللہ ہمیشہ مہربان رہے گا۔ ‘‘

دوسرے دن مولوی صاحب بہت دیر سے اٹھے۔ موجو ڈر کے مارے کھیتوں پر نہ گیا۔ صحن میں ان کی چارپائی کے پاس بیٹھا رہا۔ جب وہ اٹھے تو ان کو مسواک، نہلایا دھلایا۔ اور ان کے ارشاد کے مطابق شراب کا گھڑا لا کران کے پاس رکھ دیا۔ مولوی صاحب نے کچھ پڑھا۔ گھڑے کا منہ کھول کر اس میں تین بار پھونکا اور دو تین کٹورے چڑھا گئے۔ اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ کچھ پڑھا اور بلند آواز میں کہا

’’ہم تیرے ہر امتحان میں پورے اتریں گے مولا۔ ‘‘

پھر وہ چوہدری سے مخاطب ہوئے

’’موجو جا۔ حکم ملا ہے ابھی جا اور اپنی بیوی کو لے آ۔ راستہ مل گیا ہے ہمیں۔ ‘‘

موجو بہت خوش ہوا۔ جلدی جلدی اس نے گھوڑی پر زین کسی اور کہا کہ وہ دوسرے روز صبح سویرے پہنچ جائے گا۔ پھر اس نے جیناں سے کہا کہ وہ مولوی صاحب کی ہر آسائش کا خیال رکھے اور خدمت گزاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ جیناں برتن مانجھنے میں مشغول ہو گئی۔ مولوی صاحب چارپائی پر بیٹھے اسے گھورتے اور شراب کے کٹورے پیتے رہے۔ اس کے بعد انھوں نے جیب سے موٹے موٹے دانوں والی تسبیح اٹھائی اور پھیرنا شروع کردی۔ جب جیناں کام سے فارغ ہو گئی تو انھوں نے اس سے کہا۔

’’جیناں دیکھو۔ وضو کرو۔ ‘‘

جیناں نے بڑے بھولپن سے جواب دیا۔

’’مجھے نہیں آتا مولوی جی۔ ‘‘

مولوی صاحب نے بڑے پیار سے اس کو سرزنش کی۔

’’وضو کرنا نہیں آتا۔ کیا جواب دے گی اللہ کو۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اس کو و ضو کرایا اور ساتھ ساتھ اس انداز سے سمجھاتے رہے کہ وہ اس کے بدن کے ایک ایک کونے کھدرے کو جھانک جھانک کر دیکھ سکیں۔ وضو کرانے کے بعد مولوی صاحب نے جا نماز مانگی۔ وہ نہ ملی تو پھر ڈانٹا، مگر اسی انداز میں۔ کھیس منگوایا اس کو اندر کی کوٹھڑی میں بچھایا اور جیناں سے کہا کہ باہر کی کنڈی لگا دے۔ جب کنڈی لگ گئی تو اس سے کہا کہ گھڑا اور کٹورا اٹھا کے اندر لے آئے۔ وہ لے آئی۔ مولوی صاحب نے آدھا کٹورا پیا اور آدھا اپنے سامنے رکھ لیا اور تسبیح پھیرنا شروع کردی جیناں ان کے پاس خاموش بیٹھی رہی۔ بہت دیر تک مولوی صاحب آنکھیں بند کیے اسی طرح وظیفہ کرتے رہے، پھر انھوں نے آنکھیں کھولیں۔ کٹورا جو آدھا بھرا تھا، اس میں تین پھونکیں ماریں اور جیناں کی طرف بڑھا دیا۔

’’پی جاؤ اسے۔ ‘‘

جیناں نے کٹورا پکڑ لیا مگر اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ مولوی صاحب نے بڑے جلال بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

’’ہم کہتے ہیں، پی جاؤ۔ تمہارے سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔ ‘‘

جیناں پی گئی، مولوی صاحب اپنی پتلی لبوں میں مسکرائے اور اس سے کہا

’’ہم پھر اپنا وظیفہ شروع کرتے ہیں۔ جب شہادت کی انگلی سے اشارہ کریں تو آدھا کٹورہ گھڑے سے نکال کر فوراً پی جانا۔ سمجھ گئیں۔ ‘‘

مولوی صاحب نے اس کو جواب کا موقعہ ہی نہ دیا اور آنکھیں بند کرکے مراقبے میں چلے گئے۔ جیناں کے منہ کا ذائقہ بے حد خراب ہو گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سینے میں آگ سی لگ گئی ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ اٹھ کر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی پیے۔ پر وہ کیسے اٹھ سکتی تھی۔ جلن کو حلق اور سینے میں لیے دیر تک بیٹھی رہی۔ اس کے بعد ایک دم مولوی صاحب کی شہادت کی انگلی زور سے اٹھی۔ جیناں کو جیسے کسی نے ہپناٹزم کردیا تھا۔ فوراً اس نے آدھا کٹورا بھرا اور پی گئی۔ تھوکنا چاہا مگر اٹھ نہ سکی۔ مولوی صاحب اسی طرح آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانے کھٹا کھٹ پھیرتے رہے۔ جیناں نے محسوس کیا کہ اس کا سر چکرا رہا ہے اور جیسے اس کو نیند آرہی ہے پھر اس نے نیم بے ہوشی کے عالم میں یوں محسوس کیا کہ وہ کسی بے داڑھی مونچھ والے جوان مرد کی گود میں ہے اور وہ اسے جنت دکھانے لے جارہا ہے۔ جیناں نے جب آنکھیں کھولیں تو وہ کھیس پر لیٹی تھی۔ اس نے نیم وا مخمور آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ اور یہاں کیوں لیٹی تھی، کب لیٹی تھی کے متعلق سوچنا شروع کیا تو اسے سب کچھ دھند میں لپٹا نظر آیا۔ وہ پھر سونے لگی۔ لیکن ایک دم اٹھ بیٹھی۔ مولوی صاحب کہاں تھے؟۔ اور وہ جنت؟ کوئی بھی نہیں۔ وہ باہر صحن میں نکلی تو دیکھا کہ دن ڈھل رہا ہے اور مولوی صاحب کھرے کے پاس بیٹھے وضو کررہے ہیں۔ آہٹ سن کر انھوں نے پلٹ کر جیناں کی طرف دیکھا اور مسکرائے۔ جیناں واپس کوٹھڑی میں چلی گئی اور کھیس پر بیٹھ کر اپنی ماں کے متعلق سوچنے لگی۔ جس کو لانے اس کا باپ گیا ہوا تھا۔ پوری ایک رات باقی تھی۔ ان کی واپسی میں۔ اور سخت بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے کچھ پکایا ریندھا نہیں تھا۔ اس کے چھوٹے سے مضطرب دماغ میں بے شمار باتیں آرہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب نمودار ہوئے اور یہ کہہ کرچلے گئے۔

’’مجھے تمہارے باپ کے لیے ایک وظیفہ کرنا ہے۔ ساری رات کسی قبر کے پاس بیٹھنا ہو گا۔ صبح آجاؤں گا۔ تمہارے لیے بھی دعا مانگوں گا۔ ‘‘

مولوی صاحب صبح سویرے نمودار ہوئے۔ ان کی بڑی بڑی آنکھیں جن میں سرمے کی تحریر غائب تھی بے حد سرخ تھیں۔ ان کے لہجے میں لکنت تھی اور قدموں میں لڑکھڑاہٹ۔ صحن میں آتے ہی انھوں نے مسکرا کر جیناں کی طرف دیکھا آگے بڑھ کر اس کو گلے سے لگایا۔ اس کو چوما اور چارپائی پر بیٹھ گئے۔ جیناں ایک طرف کونے میں پیڑھی پر بیٹھ گئی اور گزشتہ دھندلے واقعات کے متعلق سوچنے لگی۔ اس کو اپنے باپ کا بھی انتظار تھا۔ جس کو اس وقت تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ ماں سے بچھڑے ہوئے اس کو دو برس ہو چکے تھے۔ اور جنت۔ وہ جنت۔ کیسی تھی وہ جنت!!۔ کیا وہ مولوی صاحب تھے؟۔ مولوی صاحب تھوڑی دیر کے بعد اس سے مخاطب ہوئے۔

’’جیناں، ابھی تک موجو نہیں آیا۔ ‘‘

جیناں خاموش رہی۔ مولوی صاحب پھر اس سے مخاطب ہوئے۔

’’اور میں ساری رات ایک ٹوٹی پھوٹی قبر پر سرنیوڑھائے سنسنان رات میں اس کے لیے وظیفہ پڑھتا رہا۔ کب آئے گا وہ؟۔ کیا وہ لے آئے گا تمہاری ماں کو۔ ‘‘

جیناں نے صرف اس قدر کہا۔

’’جی معلوم نہیں۔ شاید آتے ہی ہوں۔ آجائیں گے۔ اماں بھی آجائے گی۔ پر ٹھیک پتا نہیں۔ ‘‘

اتنے میں آہٹ ہوئی۔ جیناں اٹھی۔ اس کی ماں نمودار ہوئی۔ وہ اسے دیکھتے ہی اس سے لپٹ گئی اور رونے لگی۔ موجو آیا تو اس نے مولوی صاحب کو بڑے ادب اور احترام کے ساتھ سلام کیا۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’پھاتاں۔ سلام کرو مولوی صاحب کو۔ ‘‘

پھاتاں اپنی بیٹی سے الگ ہوئی۔ آنسو پونچھتے ہوئے آگے بڑھی اور مولوی صاحب کو سلام کیا۔ مولوی صاحب نے اپنی لال لال آنکھوں سے اس کو گھور کے دیکھا اورموجو سے کہا۔

’’ساری رات قبر کے پاس تمہارے لیے وظیفہ کرتا رہا۔ ابھی ابھی اٹھ کے آیا ہوں۔ اللہ نے میری سن لی ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

چوہدری موجو نے فرش پر بیٹھ کر مولوی صاحب کے پاؤں د ابنے شروع کردیے وہ اتنا ممنون و متشکر تھا کہ کچھ نہ کہہ سکا۔ البتہ بیوی سے مخاطب ہو کر اس نے آنسوؤں بھری آواز میں کہا۔

’’ادھر آ پھاتاں۔ تو ہی مولوی صاحب کا شکریہ ادا کر۔ مجھے تو نہیں آتا۔ ‘‘

پھاتاں اپنے خاوند کے پاس بیٹھ گئی۔ پر وہ صرف اتنا کہہ سکی۔

’’ہم غریب کیا ادا کرسکتے ہیں۔ ‘‘

مولوی صاحب نے غور سے پھاتاں کو دیکھا۔

’’موجو چوہدری، تم ٹھیک کہتے تھے۔ تمہاری بیوی خوبصورت ہے۔ اس عمر میں بھی جوان معلوم ہوتی ہے۔ بالکل دوسری جیناں۔ اس سے بھی اچھی۔ ہم سب ٹھیک کردیں گے پھاتاں۔ اللہ کا فضل و کرم ہو گیا ہے۔ ‘‘

میاں بیوی دونوں خاموش رہے۔ موجو مولوی صاحب کے پاؤں دباتا رہا۔ جیناں چولھا سلگانے میں مصروف ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد مولوی صاحب اٹھے۔ پھاتاں کے سر پر ہاتھ سے پیار کیا اور موجو سے مخاطب ہوئے۔

’’اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور پھر اس کو اپنے گھر بسانا چاہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ پہلے وہ عورت کسی اور مرد سے شادی کرے۔ اس سے طلاق لے، پھر جائز ہے۔ ‘‘

موجو نے ہولے سے کہا۔

’’میں سن چکا ہوں مولوی صاحب۔ ‘‘

مولوی صاحب نے موجو کو اٹھایا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’لیکن ہم نے خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ ایسی کڑی سزا نہ دی جائے غریب کو۔ اس سے بھول ہو گئی ہے۔ آواز آئی۔ ہم ہرروز سفارشیں کب تک سنیں گے تو اپنے لیے جو بھی مانگ ہم دینے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے عرض کی، میرے شہنشاہ۔ بحروبر کے مالک۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں مانگتا۔ تیرا دیا میرے پاس بہت کچھ ہے۔ موجو چوہدری کو اپنی بیوی سے محبت ہے۔ ارشاد ہوا۔ تو ہم اس کی محبت اور تیرے ایمان کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ ایک دن کے لیے تو اس سے نکاح کرلے۔ دوسرے دن طلاق دے کر موجو کے حوالے کردے۔ ہم تیرے لیے بس صرف یہی کرسکتے ہیں کہ تو نے چالیس برس دل سے ہماری عبادت کی ہے۔ ‘‘

موجو بہت خوش ہوا۔

’’مجھے منظور ہے مولوی صاحب۔ مجھے منظور ہے‘‘

اور پھاتاں کی طرف اس نے تمتمائی انکھوں سے دیکھا۔

’’کیوں پھاتاں؟‘‘

مگر اس نے پھاتاں کے جواب کا انتظار نہ کیا۔

’’ہم دونوں کو منظور ہے۔ ‘‘

مولوی صاحب نے آنکھیں بندکیں۔ کچھ پڑھا۔ دونوں کے پھونک ماری اور آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں

’’اللہ تبارک تعالیٰ۔ ہم سب کو اس امتحان میں پورا اتارے۔ ‘‘

پھر وہ موجو سے مخاطب ہوا۔

’’اچھا موجو۔ میں اب چلتا ہوں۔ تم اور جیناں آج کی رات کہیں چلے جانا۔ صبح سویرے آجانا۔ ‘‘

یہ کہہ کر مولوی صاحب چلے گئے۔ جیناں اور موجو تیار تھے۔ جب شام کو مولوی صاحب واپس آئے تو انھوں نے ان سے بہت مختصر باتیں کیں۔ وہ کچھ پڑھ رہے تھے۔ آخر میں انھوں نے اشارہ کیا۔ جیناں اور موجو فوراً چلے گئے۔ مولوی صاحب نے کنڈی بند کردی اور پھاتاں سے کہا۔

’’تم آج کی رات میری بیوی ہو۔ جاؤ اندر سے بستر لاؤ اور چارپائی پر بچھاؤ۔ ہم سوئیں گے۔ ‘‘

پھاتاں نے اندر کوٹھڑی سے بستر لا کر چارپائی پر بڑے سلیقے سے لگا دیا۔ مولوی صاحب نے کہا۔

’’بی بی۔ تم بیٹھو۔ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ وہ کوٹھڑی میں چلے گئے۔ اندر دیا روشنی تھا۔ کونے میں برتنوں کے منارے کے پاس ان کا گھڑا رکھا تھا۔ انھوں نے اسے ہلا کر دیکھا۔ تھوڑی سی باقی تھی۔ گھڑے کے ساتھ ہی منہ لگا کر انھوں نے کئی بڑے بڑے گھونٹ پیے۔ کاندھے سے ریشمی پھولوں والا بسنتی رومال اتار کر مونچھیں اور ہونٹ صاف کیے اور دروازہ بھیڑ دیا۔ پھاتاں چارپائی پر بیٹھی تھی۔ کافی دیر کے بعد مولوی صاحب نکلے۔ ان کے ہاتھ میں کٹورا تھا۔ اس میں تین دفعہ پھونک کر انھوں نے پھاتاں کو پیش کیا۔

’’لو اسے پی جاؤ۔ ‘‘

پھاتاں پی گئی۔ قے آنے لگی تو مولوی صاحب نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا۔

’’ٹھیک ہو جاؤ گی فوراً۔ ‘‘

پھاتاں نے کوشش کی اور کسی قدر ٹھیک ہو گئی۔ مولوی صاحب لیٹ گئے۔ صبح سویرے جیناں اور موجو آئے تو انھوں نے دیکھا کہ صحن میں پھاتاں سورہی ہے مگر مولوی صاحب موجود نہیں۔ موجو نے سوچا۔ باہر گئے ہوں گے کھیتوں میں۔ اس نے پھاتاں کو جگایا۔ پھاتاں نے غوں غوں کرکے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ پھر بڑبڑائی۔

’’جنت۔ جنت۔ ‘‘

لیکن جب اس نے موجو کو دیکھا تو پوری آنکھیں کھول کر بستر میں بیٹھ گئی۔ موجو نے پوچھا۔

’’مولوی صاحب کہاں ہیں؟‘‘

پھاتاں ابھی تک پورے ہوش میں نہیں تھی۔

’’مولوی صاحب۔ کون مولوی صاحب۔ وہ تو۔ پتا نہیں کہاں گئے۔ یہاں نہیں ہیں؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

موجو نے کہا۔

’’میں دیکھتا ہوں انھیں باہر۔ ‘‘

وہ جارہا تھا کہ اسے پھاتاں کی ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ پلٹ کر اس نے دیکھا تکیے کے نیچے سے وہ کوئی کالی کالی چیز نکال رہی تھی۔ جب پوری نکل آئی تو اس نے کہا۔

’’یہ کیا ہے؟‘‘

موجو نے کہا۔

’’بال۔ ‘‘

پھاتاں نے بالوں کا وہ گچھا فرش پر پھینک دیا۔ موجو نے اسے اٹھا لیا اور غورسے دیکھا۔

’’داڑھی اور پٹے۔ ‘‘

جیناں پاس ہی کھڑی تھی۔ وہ بولی

’’مولوی صاحب کی داڑھی اور پٹے‘‘

پھاتاں نے وہیں چارپائی سے کہا۔

’’ہاں۔ مولوی صاحب کی داڑھی اور پٹے۔ ‘‘

موجو عجیب چکر میں پڑ گیا۔

’’اور مولوی صاحب کہاں ہیں؟‘‘

لیکن فوراً ہی اس کے سادہ اور بے لوث دماغ میں ایک خیال آیا۔

’’جیناں۔ پھاتاں، تم نہیں سمجھیں۔ وہ کوئی کرامات والے بزرگ تھے۔ ہمارا کام کرگئے اور یہ نشانی چھوڑ گئے۔ ‘‘

اس نے ان بالوں کو چوما۔ آنکھوں سے لگایا اور ان کوجیناں کے حوالے کرکے کہا۔

’’جاؤ، ان کو کسی صاف کپڑے میں لپیٹ کر بڑے صندوق میں رکھ دو۔ خدا کے حکم سے گھر میں برکت ہی برکت رہے گی۔ ‘‘

جیناں اندر کوٹھڑی میں گئی تو وہ پھاتاں کے پاس بیٹھ گیا اور بڑے پیار سے کہنے لگا۔

’’میں اب نماز پڑھنا سیکھوں گا اور اس بزرگ کے لیے دعا کیا کروں گا جس نے ہم دونوں کو پھر سے ملا دیا۔ ‘‘

پھاتاں خاموش رہی۔

سعادت حسن منٹو

شیرو

چیڑ اور دیو دار کے ناہموار تختوں کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا مکان تھا جسے چوبی جھونپڑا کہنا بجا ہے۔ دو منزلیں تھیں۔ نیچے بھٹیار خانہ تھا جہاں کھانا پکایا اور کھایا جاتا تھا۔ اوربالائی منزل مسافروں کی رہائش کے لیے مخصوص تھی۔ یہ منزل دو کمروں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے ایک کافی کشادہ تھا۔ جس کا دروازہ سڑک کی دوسری طرف کھلتا تھا۔ دوسرا کمرہ جو طول و عرض میں اس سے نصف تھا بھٹیار خانے کے عین اوپر واقع تھا۔ یہ میں نے کچھ عرصے کے لیے کرایہ پر لے رکھا تھا۔ چونکہ ساتھ والے حلوائی کے مکان کی ساخت بھی بالکل اسی مکان جیسی تھی اور ان دونوں جگہوں کے لیے ایک ہی سیڑھی بنائی گئی تھی۔ اس لیے اکثر اوقات حلوائی کی کتیا اپنے گھر جانے کے بجائے میرے کمرے میں چلی آتی تھی۔ اس عمارت کے تختوں کو آپس میں بہت ہی بھونڈے طریقے سے جوڑا گیا تھا۔ پیچ بہت کم استعمال کیے گئے تھے۔ شاید اس لیے کہ ان کو لکڑی میں داخل کرنے میں وقت صرف ہوتا ہے، کیلیں کچھ اس بے ربطی سے ٹھونکی گئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا اس مکان کو بنانے والا بالکل اناڑی تھا۔ کیلوں کے درمیان فاصلہ کی یکسانی کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا تھا۔ جہاں ہاتھ ٹھہر گیا وہیں پر کیل ایک ہی ضرب میں چت کردی گئی تھی۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا تھا کہ لکڑی پھٹ رہی ہے یا کیل ہی بالکل ٹیڑھی ہو گئی ہے۔ چھت ٹین سے پاٹی ہوئی تھی، جس کی قینچی میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ کمرے کے باقی تختوں کی طرح چھت کی کڑیاں بھی رنگ اور روغن سے بے نیاز تھیں البتہ ان پر کہیں کہیں چڑیوں کی سفید بیٹیں سفیدی کے چھینٹوں کے مانند نظر آتی تھیں۔ میرے کمرے میں تین کھڑکیاں تھیں۔ درمیانی کھڑکی کی طول و عرض میں دروازے کے برابر تھی۔ باقی دو کھڑکیاں چھوٹی تھیں ان کے کواڑوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ مالک مکان کا کبھی ارادہ تھا کہ ان میں شیشے جڑائے، پر اب ان کے بجائے ٹین کے ٹکڑے اور لکڑی کے موٹے موٹے ناہموار ٹکڑے جڑے تھے۔ کہیں کہیں لندن ٹائمز اور ٹریبیون اخبار کے ٹکڑے بھی لگے ہُوئے تھے۔ جن کا رنگ دھوئیں اور بارش کی وجہ سے خستہ بسکٹوں کی طرح بھوسلا ہو گیا تھا۔ یہ کھڑکیاں جنکی کی کنڈیاں ٹُوٹی ہوئیں تھیں۔ بازار کی طرف کھلتی تھیں اور ہمیشہ کھلی رہتی تھیں۔ اس لیے کہ ان کو بند کرنے کے لیے کافی وقت اور محنت کی ضرورت تھی۔ کھڑکیوں میں سے دُور نظر ڈالنے پر پہاڑیوں کے بیچوں بیچ ٹیڑھی بِنگی مانگ کی طرح

’’کشتواڑ‘‘

اور‘‘

بھدروا‘‘

جانے والی سڑک بل کھاتی ہُوئی چلی گئی اور آخر میں آسمان کی نیلاہٹ میں گھل مل گئی تھی۔ کمرے کا فرش خالص مٹی کا تھا جو کپڑوں کو چمٹ جاتی تھی اور دھوبی کی کوششوں کے باوجود اپنا گیروارنگ نہ چھوڑتی تھی۔ فرش پر پان کی پیک کے داغ جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں کونوں میں چچوڑی ہوئی ہڈیاں بھی پڑی رہتی تھیں جو ہر روز جھاڑوسے کسی نہ کسی طرح بچاؤ حاصل کرلیتی تھیں۔ اس کمرے کے ایک کونے میں میری چارپائی بچھی تھی جو بیک وقت میز، کرسی اور بستر کا کام دیتی تھی۔ اس کے ساتھ والی دیوار پر چند کیلیں ٹنگی ہوئی تھیں ان پر میں نے اپنے کپڑے وغیرہ لٹکا دیئے تھے۔ دن میں پانچ چھ مرتبہ میں ان کو لٹکاتا رہتا تھا اس لیے کہ ہوا کی تیزی سے یہ اکثر گرتے رہتے تھے۔ کشمیر جانے یا وہاں سے آنے والے کئی مسافر اس کمرے میں ٹھہرے ہونگے۔ بعض نے آتے جاتے وقت تختوں پر چاک کی ڈلی یا پنسل سے کچھ نشانی کے طور پر لکھ دیا تھا۔ سامنے کھڑکی کے ساتھ والے تختے پر کسی صاحب نے یادداشت کے طور پر پنسل سے یہ عبارت لکھی ہوئی تھی4/5/25ء سے دودھ شروع کیا اور ایک روپیہ پیشگی دیا گیا۔ اس طرح ایک اور تختے پر یہ مندرج تھا:۔ دھوبی کو کل پندرہ کپڑے دیئے گئے تھے جن میں سے وہ دو کم لایا۔ میرے سرہانے کے قریب ایک تختے پر یہ شعر لکھا تھا۔ در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں اس کے نیچے

’’علیم پنٹر‘‘

لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ نویسندہ کا نام ہو گا۔ یہی شعر کمرے کے ایک اور تختے پر لکھا تھا۔ مگر زرد چاک سے اس کے اوپر تاریخ بھی لکھ دی گئی تھی۔ ایک اور تختے پر یہ شعر مرقوم تھا ؂ میرے گھر آئے عنایت آپ نے مجھ پریہ کی میرے سر آنکھوں پر آؤ، تھی یہ کب قسمت میری اس سے دُور ایک کونے میں یہ مصرعہ لکھا تھا۔ ایک ہی شب گورہے لیکن گلوں میں ہم رہے اس مصرعے کے پاس ہی اسی خط میں پنجابی کے یہ شعر مرقوم تھے ؂ تیرے باہجہ نہ آسی قرار دل نوں، جذبہ پریم والا بے پناہ رہے گا لکھ اکھیاں تو ہوسیں دُور بانو اے پر دلاں نوں دلاندا راہ رہے گا تیرے میرے پیار دا رب جانے، مگونالے دا نیر گواہ رہے گا ترجمہ: تیرے بغیر میرے دل کو کبھی قرار نہیں آئے گا۔ جذبہ ءِ محبت بے پناہ رہے گا تو لاکھ میری آنکھوں سے دور ہو لیکن دل کو دل کی راہ رہے گی۔ تیرے اور میرے پریم کو صرف خدا جانتا ہے۔ لیکن

’’مگونالہ‘‘

کا پانی بھی اسکا گواہ رہے گا۔ میں نے اس اشعار کو غور سے پڑھا۔ ایک بار نہیں کئی بار پڑھا، نہ معلوم ان میں کیا جذبیت تھی کہ پڑھتے پڑھتے میں نے

’’ہیر‘‘

کی دلنواز دھن میں انھیں گانا شروع کردیا۔ لفظوں کا روکھا پن یوں بالکل دُورہو گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ لفظ پگھل کر اُس دُھن میں حل ہو گئے ہیں۔ یہ شعر کسی خاص واقعہ کے تاثرات تھے۔ مگونالہ ہوٹل سے ایک میل کے فاصلہ پر شہتوتوں اور اخروٹ کے درختوں کے بیچوں بیچ بہتا تھا۔ میں یہاں کئی بار ہو آیا تھا۔ اس کے ٹھنڈے پانی میں غوطے لگا چکا تھا۔ اس کے ننھے ننھے پتھروں سے گھنٹوں کھیل چکا تھا لیکن یہ بانو کون تھی؟۔ یہ بانو جس کا نام کشمیر کے بگوگوشے کی یاد تازہ کرتا تھا۔ میں نے اس بانو کو اس پہاڑی گاؤں میں ہر جگہ تلاش کیا مگر ناکام رہا۔ اگر شاعر نے اس کی کوئی نشانی بتا دی ہوتی تو بہت ممکن ہے مگونالے ہی کے پاس اسکی اور میری مڈبھیڑ ہو جاتی۔ اس مگونالے کے پاس جس کا پانی میرے بدن میں جھرجھری پیدا کردیتا تھا۔ میں نے ہر جگہ بانو کو ڈھونڈا مگر وہ نہ ملی۔ اس موہوم جستجو میں اکثر اوقات مجھے اپنی بیوقوفی پر بہت ہنسی آئی، کیونکہ بہت ممکن تھا کہ وہ اشعار سرے ہی سے مہمل ہوں اور کسی نوجوان شاعر نے اپنا من پرچانے کے لیے گھڑ دیئے ہوں مگر خدا معلوم کیوں مجھے اس بات کا دلی یقین تھا کہ بانو۔ وہ بانو جو آنکھوں سے دور ہونے پر بھی اس شاعر کے دل میں موجود ہے ضرور اس پہاڑی گاؤں میں سانس لے رہی ہے۔ سچ پوچھے تو میرا یقین اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ بعض اوقات مجھے فضا میں اس کا تنفس گھلا ہُوا محسوس ہوتا تھا۔ مگونالے کے پتھروں پر بیٹھ کر میں نے اس کا انتظار کیا کہ شاید وہ ادھر آنکلے اورمیں اسے پہچان جاؤں لیکن وہ نہ آئی۔ کئی لڑکیاں خوبصورت اور بدصورت میری نظروں سے گزریں مگر مجھے بانو دکھائی نہ دی۔ مگونالے کے ساتھ ساتھ اُگے ہوئے ناشپاتی کے درختوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں، اخروٹ کے گھنے درختوں میں پرندوں کی نغمہ ریزیاں اور گیلی زمین پر سبز اور ریشمیں گھاس، میرے دل و دماغ پر ایک خوش گو ارتکان پیدا کردیتی تھی اور میں بانو کے حسین تصور میں کھو جاتا تھا۔ ایک روز شام کو مگونالے کے ایک چوڑے چکلے پتھر پر لیٹا تھا خنک ہوا جنگلی بوٹیوں کی سوندھی سوندھی خوشبو میں بسی ہوئی چل رہی تھی۔ فضا کا ہر ذرّہ ایک عظیم الشان اور ناقابل بیان محبت میں ڈُوبا ہُوا معلوم ہوتا تھا۔ آسمان پر اُڑتی ہوئی ابابیلیں زمین پررہنے والوں کو گویا یہ پیغام دے رہی تھیں۔

’’اُٹھو، تم بھی ان بلندیوں میں پرواز کرو۔ ‘‘

میں نیچر ان کی سحر کاریوں کا لیٹے لیٹے تماشا کررہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے خشک ٹہنیوں کے ٹُوٹنے کی آواز آئی۔ میں نے لیٹے ہی لیٹے مڑ کر دیکھا۔ جھاڑیوں کے پیچھے کوئی بیٹھا خشک ٹہنیاں توڑ رہا تھا۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا، اور سلیپر پہن کر اس طرف روانہ ہو گیا کہ دیکھوں کون ہے۔ ایک لڑکی تھی جو خشک لکڑیوں کا ایک گٹھا بنا کر باندھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بھدی اور کن سری آواز میں

’’ماہیا‘‘

گارہی تھی۔ میرے جی میں آئی کہ آگے بڑھوں اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کے کہوں

’’کہ خدا کے لیے نہ گاؤ۔ لکڑیوں کا گٹھا اُٹھاؤ اور جاؤ مجھے اذّیت پہنچ رہی ہے۔ ‘‘

لیکن مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہ ہوئی، کیونکہ اس نے خود بخود گانا بندکردیا۔ گٹھا اُٹھانے کی خاطر جب وہ مڑی تو میں نے اسے دیکھا اور پہچان لیا یہ وہی لڑکی تھی جو بھٹیار خانے کے لیے ہر روز شام کو ایندھن لایا کرتی تھی۔ معمولی شکل و صورت تھی۔ ہاتھ پاؤں بے حد غلیظ تھے۔ سر کے بالوں میں بھی کافی میل جم رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور دیکھ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ میں جب اٹھ کر دیکھنے آیا تھا تو دل میں آئی کہ چلو اس سے کچھ باتیں ہی کرلیں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’یہ ایندھن جو تم نے اکٹھا کیا ہے! اسکا تمہیں جمّا کیا دیگا‘‘

جمّا اس بھٹیار خانے کے مالک کا نام تھا۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔

’’ایک آنہ‘‘

’’صرف ایک آنہ۔ ‘‘

’’کبھی کبھی پانچ پیسے بھی دے دیتا ہے۔ ‘‘

’’تو سارا دن محنت کرکے تم ایک آنہ یا پانچ پیسے کماتی ہو۔ ‘‘

اس نے گٹھے کی خشک لکڑیوں کو درست کرتے ہوئے کہا۔ نہیں، دن میں ایسے دو گٹھے تیار ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

’’تو دو آنے ہو گئے۔ ‘‘

’’کافی ہیں‘‘

’’تمہاری عُمر کیا ہے؟‘‘

اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے مجھے گھورکر دیکھا۔

’’تم وہی ہونا جو بھٹیار خانے کے اوپر رہتے ہو۔ ‘‘

میں نے جواب دیا،

’’ہاں وہی ہُوں۔ تم مجھے کئی بار وہاں دیکھ چکی ہو۔ ‘‘

’’یہ تم نے کیسے جانا۔ ‘‘

’’اس لیے کہ میں نے تمہیں کئی بار دیکھا ہے۔ ‘‘

’’دیکھا ہو گا۔ ‘‘

یہ کہہ وہ زمین پر بیٹھ کر گٹھا اُٹھانے لگی۔ میں آگے بڑھا۔

’’ٹھہرو میں اُٹھوا دیتا ہُوں۔ ‘‘

گٹھا اُٹھواتے ہُوئے لکڑی کا ایک نوکیلا ٹکڑا اس زور سے میری انگلی میں چبھا کہ میں نے دونوں ہاتھ ہٹا لیے۔ وہ سر پر رسی کو اٹکا کر گٹھے کو قریب قریب اُٹھا چکی تھی۔ میرے ہاتھ ہٹانے سے اس کا توازن قائم نہ رہا اور وہ لڑکھڑائی۔ میں نے فوراً اُسے تھام لیا۔ ایسا کرتے ہوئے میرا ہاتھ اس کی کمرسے لے کر اٹھے ہوئے بازو کی بغل تک گھسیٹتا چلا گیا وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ سر پر رسی کو اچھی طرح جمانے کے بعد اس نے میری طرف کچھ عجیب نظروں سے دیکھا اور چلی گئی۔ میری انگلی سے خون جاری تھا۔ میں نے جیب سے رومال نکال کر۔ اس پر باندھا اور مگو نالے کی طرف روانہ ہو گا۔ اس پتھر پر بیٹھ کر میں نے اپنی زخمی انگلی کو پانی سے دھو کر صاف کیا اور اس پر رومال باندھ کر سوچنے لگا۔

’’یہ بھی اچھی رہی بیٹھے بٹھائے اپنی انگلی لہولہان کرلی۔ خود ہی اٹھالیتی میں نے بھلا یہ تکلف کیوں کیا۔ ‘‘

یہاں سے میں اپنے ہوٹل، معاف کیجیے گا۔ بھٹیار خانے پہنچا اور کھانا وانا کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دیر تک کھانا ہضم کرنے کی غرض سے کمرے میں مَیں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا۔ پھر کچھ دیر تک لالٹین کی اندھی روشنی میں ایک واہیات کتاب پڑھتا رہا۔ سچ پوچھئے تو اردگرد ہر شے واہیات تھی۔ لال مٹی جو کپڑے کے ساتھ ایک دفعہ لگتی تھی تو دھوبی کے پاس جا کر بھی الگ نہ ہوتی تھی اور وہ آپس میں نہایت ہی بھونڈے طریقے پر جوڑے ہوئے تختے اور ان پر لکھے ہوئے غلط اشعار اور چچوڑی ہوئی ہڈیاں جو ہر روز جھاڑو کی زد سے کسی نہ کسی طرح بچ کر میری چارپائی کے پاس نظر آتی تھیں۔ کتاب ایک طرف رکھ کر میں نے لالٹین کی طرف دیکھا۔ مجھے اس میں اور اس لکڑیاں چننے والی میں ایک گونہ مماثلت نظر آئی۔ کیونکہ لالٹین کی چمنی کی طرح اس لڑکی کا لباس بھی بے حد غلیظ تھا۔ مجھے اس کو بجھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ میں نے سوچا، تھوڑی ہی دیر میں دھوئیں کی وجہ سے یہ اس قدر اندھی ہو جائے گی کہ خود بخود اندھیرا ہو جائے گا۔ کھڑکیاں خود بخود بند ہو گئی تھیں۔ میں نے ان کو بھی نہ کھولا اورچارپائی پر لیٹ گیا۔ رات کے نو یا دس بج چکے تھے۔ سونے ہی والا تھا کہ بازارمیں ایک کتا زور سے بھونکا جیسے اس کی پسلی میں یکا یکی درد اُٹھ کھڑا ہوا ہے میں نے دل ہی دل میں اس پر لعنتیں بھیجیں اور کروٹ بدل کر لیٹ گیا مگر فوراً ہی نزدیک و دُور سے کئی کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں ایک عجیب و غریب سبتک قائم ہو گیا۔ اگرکوئی کتا ایک سُر چھیڑتا تو سبتک کے سارے سُر فضا میں گونجنے لگے۔ میری نیند حرام ہو گئی۔ دیر تک میں نے صبر کیا۔ لیکن مجھ سے نہ رہا گیا تو میں اُٹھا دوسرے کمرے میں گیا اور اس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ نیچے بازار میں اُترا اور جو پتھر میرے ہاتھ میں آیا مارنا شروع کردیا۔ ایک دو پتھر کتوں کے لگے کیونکہ نہایت ہی مکروہ آوازیں بلند ہوئیں میں نے اس کامیابی پر اور زیادہ پتھر پھینکنے شروع کیے۔ دفعتہً کسی انسان کے

’’اُف‘‘

کرنے کی آواز سنائی دی۔ میرا ہاتھ وہیں پتھر بن گیا۔ آواز کسی عورت کی تھی۔ سڑک کے دائیں ہاتھ ڈھلوان تھی، ادھر تیز قدمی سے گیا تو میں نے دیکھا کہ نیچے ایک لڑکی دوہری ہو کر کراہ رہی تھی۔ میرے قدموں کی چاپ سُن کر وہ کھڑی ہو گئی۔ بدلی کے پیچھے چھپے ہُوئے چاند کی دُھندلی روشنی میں مجھے اپنے سامنے وہی ایندھن چننے والی لڑکی نظر آئی۔ اس کے ماتھے سے خون نکل رہا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا کہ میری غفلت کے باعث اُسے اتنی تکلیف ہوئی۔ چنانچہ میں نے اس ے کہا۔

’’مجھے معاف کردینا۔ لیکن تم یہاں کیا کررہی تھیں؟‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’میں اوپر چڑھ رہی تھی۔ ‘‘

’’رات کو اس وقت تمہیں کیا کام تھا۔ ‘’‘ اس نے کرتے کی آستین سے ماتھے کا خون صاف کیا اور کہا

’’اپنے کتے شیرو کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ‘‘

بے اختیار مجھے ہنسی آگئی۔

’’اور میں تمام کتوں کا خون کردینے کا تہیہ کرکے گھر سے نکلا تھا۔ ‘‘

وہ بھی ہنس دی۔

’’کہاں ہے تمہارا شیرو؟‘‘

’’اللہ جانے کہاں گیا ہے۔ یوں ہی سارا دن مارا مارا پھرتا ہے۔ ‘‘

’’تو اب کیسے تلاش کرو گی۔ ‘‘

’’یہیں سڑک پر مل جائے گا کہیں۔ ‘‘

’’میں بھی تمہارے ساتھ اسے تلاش کروں؟‘‘

نیند میری آنکھوں سے بالکل اُڑ چکی تھی اس لیے میں نے کہا کہ چلوکچھ دیر شغل رہے گا۔ لیکن اس نے سر ہلا کر کہا۔

’’نہیں میں اسے آپ ہی ڈھونڈ لُوں گی۔ مجھے معلوم ہے وہ کہاں ہو گا۔ ‘‘

’’ابھی ابھی تو تم کہہ رہی تھیں کہ تمہیں کچھ معلوم ہی نہیں۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے کہ تمہارے مکان کے پچھواڑے ہو گا۔ ‘‘

’’تو چلو مجھے بھی ادھرہی جانا ہے کیوں کہ میں پچھلا دروازہ کھول کر باہر نکلا تھا۔ ‘‘

ہم دونوں بھٹیار خانے کے پچھواڑے کی جانب سے روانہ ہوئے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جو کبھی کبھی بدن پر خوشگوار کپکپی طاری کردیتی تھی۔ چاند ابھی تک بادل کے پیچھے چھپا ہُوا تھا۔ روشنی تھی مگر بہت ہی دُھندلی جو رات کی خنکی میں بڑی پُر اسرار معلوم ہوتی تھی جی چاہتا تھا کہ آدمی کمبل اوڑھ کے لیٹ جائے اور اوٹ پٹانگ باتیں سوچے۔ سڑک طے کرکے ہم اوپڑ چڑھے اور بھٹیار خانے کے عقب میں پہنچ گئے۔ وہ میرے آگے تھی۔ ایک دم وہ ٹھٹکی اور منہ پھیر کر عجیب و غریب لہجے میں اس نے کہا۔

’’دُور دفان ہو نا مُراد!‘‘

ایک موٹا تازہ کتا نمودار ہُوا اور اپنے ساتھ حلوائی کی کتیا کوگھسیٹتا ہوا ہمارے پاس سے گُزر گیا۔ دروازہ کھلا تھا میں اسے اندر اپنے کمرے میں لے گیا۔ لالٹین کی چمنی ابھی مکمل طور پر سیاہ نہیں ہُوئی تھی، کیوں کہ ایک کونے سے جو اس کالک سے بچ گیا تھا تھوڑی تھوڑی روشنی باہر نکل رہی تھی۔ دو ڈھائی گھنٹے کے بعد ہم باہر نکلے۔ چاند اب بادل میں سے نکل آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ نیچے سڑک پر اس کا کتا شیرو بڑے سے پتھر کے پاس بیٹھا اپنا بدن صاف کررہا تھا۔ اس سے کچھ دُور حلوائی کی کتیا کھڑی تھی۔ جب وہ جانے لگی تو میں نے اس سے پوچھا

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’بانو۔ ‘‘

’’بانو!‘‘

۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اب اس نے پوچھا۔

’’تمہارا نام کیا ہے۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’شیرو۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

شیر آیا شیر آیا دوڑنا

اونچے ٹیلے پر گڈریے کا لڑکا کھڑا، دور گھنے جنگلوں کی طرف منہ کیے چلا رہا تھا

’’شیر آیا شیر آیا دوڑنا۔ ‘‘

بہت دیر تک وہ اپنا گلا پھاڑتا رہا۔ اس کی جوان بلند آواز بہت دیر تک فضاؤں میں گونجتی رہی۔ جب چلا چلا کر اس کا حلق سوکھ گیا تو بستی سے دو تین بڈھے لاٹھیاؒ ٹیکتے ہوئے آئے اور گڈریے کے لڑکے کو کان سے پکڑ کر لے گئے۔ پنچایت بلائی گئی۔ بستی کے سارے عقلمند جمع ہوئے اور گڈریے کے لڑکے کا مقدمہ شروع ہوا۔ فرد جرم یہ تھی کہ اس نے غلط خبر دی اور بستی کے امن میں خلل ڈالا۔ لڑکے نے کہا۔

’’میرے بزرگو، تم غلط سمجھتے ہو۔ شیر آیا نہیں تھا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ آ نہیں سکتا؟‘‘

جواب ملا۔

’’وہ نہیں آ سکتا۔ ‘‘

لڑکے نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

جواب ملا۔

’’محکمہ جنگلات کے افسر نے ہمیں چٹھی بھیجی تھی کہ شیر بڈھا ہو چکا ہے۔ ‘‘

لڑکے نے کہا۔

’’لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے تھوڑے ہی روز ہوئے کایا کلپ کرایا تھا۔ ‘‘

جواب ملا۔

’’یہ افواہ تھی۔ ہم نے محکمہ جنگلات سے پوچھا تھا اور ہمیں یہ جواب آیا تھا کہ کایا کلپ کرانے کی بجائے شیر نے تو اپنے سارے دانت نکلوا دیے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی زندگی کے بقایا دن اہنسا میں گزارنا چاہتا ہے۔ ‘‘

لڑکے نے جوش کے ساتھ کہا۔

’’میرے بزرگو! کیا یہ جواب جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

سب نے بیک زبان ہو کر کہا۔

’’قطعاً نہیں۔ ہمیں محکمہ جنگلات کے افسر پر پورا بھروسا ہے۔ اس لیے کہ وہ سچ بولنے کا حلف اٹھا چکا ہے۔ ‘‘

لڑکے نے پوچھا۔

’’کیا یہ حلف جھوٹا نہیں ہو سکتا؟‘‘

جواب ملا۔

’’ہرگز نہیں۔ تم سازشی ہو، ففتھ کالمسٹ ہو، کمیونسٹ ہو، غدار ہو، ترقی پسند ہو۔ سعادت حسن منٹو ہو۔ ‘‘

لڑکا مسکرایا۔

’’خدا کا شکر ہے کہ میں وہ شیر نہیں جو آنے والا ہے۔ محکمہ جنگلات کا سچ بولنے والا افسر نہیں۔ میں۔ ‘‘

پنچایت کے ایک بوڑھے آدمی نے لڑکے کی بات کاٹ کر کہا۔

’’تم اسی گڈریے کے لڑکے کی اولاد ہو، جس کی کہانی سالہا سال سے سکولوں کی ابتدائی جماعتوں میں پڑھائی جا رہی ہے۔ تمہارا حشر بھی وہی ہو گا جو اس کا ہوا تھا۔ شیر آئے گا تو تمہاری ہی تکا بوٹی اڑا دے گا۔ ‘‘

گڈریے کا لڑکا مسکرایا۔

’’میں تو اس سے لڑوں گا۔ مجھے تو ہر گھڑی اس کے آنے کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ تم کیوں نہیں سمجھتے ہو کہ شیر آیا شیر آیا والی کہانی جو تم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہو آج کی کہانی نہیں۔ آج کی کہانی میں تو شیر آیا شیر آیا کا مطلب یہ ہے کہ خبردار رہو۔ ہوشیار رہو۔ بہت ممکن ہے شیر کے بجائے کوئی گیدڑ دونوں نے نہیں ڈرتا، لیکن اس کی حیوانیت سے البتہ ضرور خائف رہتا ہوں اور اس حیوانیت کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو ہمیشہ تیار کھتا ہوں۔ میرے بزرگو، اسکولوں میں سے وہ کتاب اٹھا لو۔ جس میں شیر آیا شیر آیا والی پرانی کہانی چھپی ہے۔ اس کی جگہ یہ نئی کہانی پڑھاؤ۔ ‘‘

ایک بوڑھے نے کھانستے کھنکارتے ہوئے کہا۔

’’یہ لونڈا ہمیں گمراہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہمیں راہ مستقیم سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ‘‘

لڑکے نے مسکرا کر کہا۔

’’زندگی خط مستقیم نہیں ہے میرے بزرگو۔ ‘‘

دوسرے بڈھے نے فرط جذبات سے لرزتے ہوئے کہا۔

’’یہ ملحد ہے، یہ بے دین ہے، فتنہ پردازوں کا ایجنٹ ہے۔ اس کو فوراً زندان میں ڈال دو۔ ‘‘

گڈریے کے لڑکے کو زندان میں ڈال دیا گیا۔ اسی رات بستی میں شیر داخل ہوا۔ بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ بستی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ باقی شیر نے شکار کر لیے۔ مونچھوں کے ساتھ لگا ہوا خون چوستا جب شیر زندان کے پاس سے گزرا تو اس نے مضبوط آہنی سلاخوں کے پیچھے گڈریے کے لڑکے کو دیکھا اور دانت پیس کر رہ گیا۔ گڈریے کا لڑکا مسکرایا۔

’’دوست یہ میرے بزرگوں کی غلطی ہے ورنہ تم میرے لہو کا ذائقہ بھی چکھ لیتے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

شیدا

شیدے کے متعلق امر تسر میں یہ مشہور تھا کہ وہ چٹان سے بھی ٹکر لے سکتا ہے اس میں بلا کی پھرتی اور طاقت تھی گوتن و توش کے لحاظ سے وہ ایک کمزور انسان دکھائی دیتا تھا لیکن امر تسر کے سارے غنڈے اس سے خوف کھاتے اور اُس کو احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ فرید کا چوک، معلوم نہیں فسادات کے بعد اُس کی کیا حالت ہے عجیب و غریب جگہ تھی یہاں شاعر بھی تھے۔ ڈاکٹر اور حکیم بھی موچی اور جلا ہے، جواری اور بدمعاش، نیک اور پرہیز گار سبھی یہاں بستے تھے۔ ہر وقت گہما گہمی رہتی تھی۔ شیدے کی سرگرمیاں چوک سے باہر ہوتی تھیں یعنی وہ اپنے علاقے میں کوئی ایسی حرکت نہیں کرتا تھا جس پر اُس کے محلے والوں کو اعتراض ہو۔ اُس نے جتنی لڑائیاں لڑیں دوسرے غنڈوں کے محلے میں۔ وہ کہتا تھا اپنے محلے میں کسی دوسرے محلے کے غنڈے سے لڑنا نامردی کی نشانی ہے۔ مزا تو یہ ہے کہ دشمن کو اُس کی اپنی جگہ پر مارا جائے۔ اور یہ صحیح تھا۔ ایک بار پٹرنگوں سے اس کی ٹھن گئی۔ وہ کئی مرتبہ چوک فرید سے گزرے۔ بڑکیں مارتے، نعرے لگاتے شیدے کو گالیاں دیتے۔ وہ یہ سب سُن رہا تھا مگر اُس نے اُن سے بھڑنا مناسب نہ سمجھا اور خاموش رحمان

’’ماندرو کی دُکان میں بیٹھا رہا۔ لیکن دو گھنٹوں کے بعد وہ پٹرنگوں کے محلے کی طرف روانہ ہوا۔ اکیلا۔ بالکل اکیلا اور پھر غیر مسلح۔ وہاں جا کر اس نے ایک فلک شگاف نعرہ بلند کیا اور پٹرنگوں کو جو اپنے کام میں مصروف تھے للکارا نکلو باہر۔ تمہاری۔ ‘‘

دس پندرہ پٹرنگ لاٹھیاں لے کر باہر نکل آئے اور جنگ شروع ہو گئی میرا خیال ہے شیدا گتکے اور نبوٹ کا ماہر تھا۔ اُس پر لاٹھیاں برسائی گئیں لیکن اس نے ایک بھی ضرب اپنے پر نہ لگنے دی ایسے پینترے بدلتا رہا کہ پٹرنگوں کی سٹی گم ہو گئی۔ آخر اُس نے ایک پٹرنگ سے بڑی چابکدستی سے لاٹھی چینی اور حملہ آوروں کو مار مار کو ادھ موا کر دیا۔ دوسرے روز اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ دو برس قید با مشقت کی سزا ہوئی۔ وہ جیل چلا گیا جیسے وہ اُس کا اپنا گھر ہے۔ اُس دوران میں اُس کی بوڑھی ماں وقتاً فوقتاً ملاقات کے لیے آتی رہی۔ وہ مشقت کرتا تھا لیکن اُسے کوئی کوفت نہیں ہوتی تھی وہ سوچتا تھا کہ چلو ورزش ہو رہی ہے صحت ٹھیک رہے گی۔ اُس کی صحت باوجود اس کے کہ کھانا بڑا واہیات ہوتا تھا پہلے سے بہتر تھی اُس کا وزن بڑھ گیا تھا لیکن وہ بعض اوقات مغموم ہو جاتا اور اپنی کوٹھڑی میں ساری رات جاگتا رہتا۔ اس کے ہونٹوں پر پنجابی کی یہ بولی ہوتی ؂ کی کچیے تیری یاری مہناں مہناں ہو کے ٹُٹ گئی ایک برس گزر گیا مشقت کرتے کرتے۔ اب اُس کی افسردگی کا دور شروع ہوا۔ اُس نے مختلف بولیاں گانا شروع کر دیں مجھے ایک قیدی نے بتایا جو اُس کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تھا کہ وہ بولیاں گایا کرتا تھا۔ لبھ جان گے یار گواچے ٹھیکے لے لے پتناں دے اس کا مطلب یہ ہے کہ تجھے اپنا گُم شدہ محبوب مل جائے گا اگر تو دریا کے ساحل پر کشتیاں چلانے کا ٹھیکہ لے لے۔ گڈی کٹ جاندی جنھاں دی پریم والی مُنڈے لے جاندے اونہاں دی ڈور لُٹ کے یعنی جن کی محبت کا پتنگ کٹ جاتا ہے تو لڑکے بالے بڑا شور مچاتے ہیں اور اُن کی ڈور لُوٹ کر لے جاتے ہیں۔ میں اب اور بولیوں کا ذکر نہیں کروں گا۔ کیونکہ ان سب کا جو شیدے کے ہونٹوں پر ہوتی تھیں، ایک ہی قسم کا مفہوم ہے۔ اُس قیدی نے مجھ سے کہا ہم سمجھ گئے تھے کہ شیدا کسی کے عشق میں گرفتار ہے۔ کیونکہ ہم نے کئی مرتبہ اُسے آہیں بھرتے بھی دیکھا۔ مشقت کے دوران میں وہ بالکل خاموش رہتا، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی اور دنیا کی سیر کررہا ہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد ایک لمبی آہ بھرتا اور پھر اپنے خیالات میں کھو جاتا‘‘

ڈیڑھ برس کے بعد جب شیدا خودکشی کا ارادہ کر چکا تھا اور کوئی ایسی ترکیب سوچ رہا تھا کہ اپنی زندگی ختم کر دے کہ اُسے اطلاع ملی کہ ایک جوان لڑکی تم سے ملنے آئی ہے۔ اُس کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ جوان لڑکی کون ہو سکتی ہے۔ اس کی تو صرف ماں تھی جو اُس سے اپنی ممتا کے باعث ملنے آ جایا کرتی تھی۔ ملاقات کا انتظام ہوا۔ شیدا سلاخوں کے پیچھے کھڑا تھا۔ اُس کے ساتھ مسلح سپاہی۔ لڑکی کو بُلایا گیا شیدے نے سلاخوں میں سے دیکھا کہ ایک بُرقع پوش عورت آہنی پنجرے کی طرف بڑھ رہی ہے اُس کو ابھی تک یہ حیرت تھی کہ یہ عورت یا لڑکی کون ہو سکتی ہے۔ سفید برقع تھا جب وہ پاس آئی تو اُس نے نقاب اُٹھائی۔ شیدا چیخا‘‘

تم۔ تم کیسے۔ ‘‘

زُلیخا جو کہ پٹرنگوں کی لڑکی تھی زارو قطار رونے لگی اُس کے حلق میں لفظ اٹک اٹک گئے

’’میں تم سے ملنے آئی ہوں۔ لیکن۔ لیکن مجھے۔ معاف کر دینا اتنی دیر کے بعد آئی ہوں۔ تم خدا معلوم۔ اپنے دل میں میرے متعلق کیا سوچتے ہو گے۔ ‘‘

شیدے نے سلاخوں کے ساتھ سر لگا کرکہا

’’نہیں میری جان۔ میں تمہارے متعلق سوچتا ضرور رہا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ تم مجبور ہو، زُلیخا نے روتے ہوئے کہا

’’میں واقعی مجبور تھی۔ لیکن آج مجھے موقع ملا تو میں آگئی۔ سچ کہتی ہوں میرا دل کسی چیز میں نہیں لگتا تھا۔ ‘‘

’’یہ موقع تمھیں کیسے مل گیا؟‘‘

زُلیخا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے

’’میرے ابا کا انتقال ہو گیا ہے۔ کل اُن کا چالیسواں تھا۔ ‘‘

شیدا مرحوم سے اپنی ساری مخاصمت بھول گیا

’’خدا اُنھیں جنت بخشے۔ مجھے یہ خبر سُن کر بڑا افسوس ہوا۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

’’صبر کرو زُلیخا۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں‘‘

زُلیخا نے اپنے سفید بُرقعے سے آنسو پونچھے

’’میں نے بہت صبر کیا ہے شیدے، اب اور کتنی دیر کرنا پڑے گا۔ تم یہاں سے کب نکلو گے؟‘‘

بس چھ مہینے رہ گئے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ مجھے بہت پہلے ہی چھوڑ دیں گے۔ یہاں کے سب افسر مجھ پر مہربان ہیں۔ زُلیخا کی آواز میں محبت کا بے پناہ جذبہ پیدا ہو گیا

’’جلدی آؤ پیارے۔ مجھے اب تمہاری ہونے سے روکنے والا کوئی نہیں۔ خدا کی قسم اگر کسی نے تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں خود اُس سے نپٹ لوں گی۔ میں نہیں چاہتی کہ تم پھر اسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ۔ سنتری نے کہا کہ وقت ختم ہو گیا۔ چنانچہ اُن کی ملاقات بھی ختم ہو گئی۔ زلیخا روتی چلی گئی اور شیدا دل میں مسرت اور آنکھوں میں آنسو لیے جیل کے اندر چلا گیا جہاں اُس کو مشقت کرنا تھی اُس دن اُس نے اتنا کام کیا کہ جیلر دنگ رہ گئے۔ دو مہینوں کے بعد اُسے رہا کر دیا گیا۔ اس دوران میں زُلیخا دو مرتبہ ا س سے ملاقات کرنے آئی تھی۔ اس نے آخری ملاقات میں اُس کو بتا دیا تھا کہ وہ کس تاریخ کو جیل سے باہر نکلے گا چنانچہ وہ گیٹ کے پاس برقع پہنے کھڑی تھی۔ دونوں فرطِ محبت میں آنسو بہانے لگے۔ شیدے نے تانگہ لیا دونوں اُس میں سوار ہوئے اور شہر کی جانب چلے۔ لیکن شیدے کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ زُلیخا کو کہاں لے جائے گا۔ زُلیخا تمھیں کہاں جانا ہے‘‘

زُلیخا نے جواب دیا

’’مجھے معلوم نہیں۔ تم جہاں لے جاؤ گے ‘ وہیں چلی جاؤں گی‘‘

شیدے نے کچھ دیر سوچا اور زلیخا سے کہا

’’نہیں۔ یہ ٹھیک نہیں تم اپنے گھر جاؤ۔ دنیا مجھے گنڈہ کہتی ہے لیکن میں تمھیں جائز طریقے پر حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تم سے باقاعدہ شادی کروں گا۔ ‘‘

زُلیخا نے پوچھا

’’کب؟‘‘

’’بس ایک دو مہینے لگ جائیں گے۔ میں اپنی جوئے کی بیٹھک پھر سے قائم کر لوں اس عرصے میں اتنا روپیہ اکٹھا ہو جائے گا کہ میں تمہارے لیے زیور کپڑے خرید سکوں۔ ‘‘

زُلیخا بہت متاثر ہوئی تم کتنے اچھے ہو شیدے۔ جتنی دیر تم کہو گے میں اس گھڑی کے لیے انتظار کروں گی جب میں تمہاری ہو جاؤں گی۔ شیدا ذرا جذباتی ہو گیا

’’جانی، تم اب بھی میری ہو۔ میں بھی تمہارا ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں جو کام ہو طور طریقے سے ہو۔ میں اُن لوگوں سے نہیں جو دوسروں کی جوان کنواری کو روغلا کر خراب کرتے ہیں۔ مجھے تم سے محبت ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تمہاری خاطر میں نے مارکھائی اور قریب قریب دو برس جیل میں کاٹے۔ خدا وند پاک کی قسم کھا کے کہتا ہوں ہر وقت میرے ہونٹوں پر تمہارا نام رہتا تھا۔ زُلیخا نے کہا

’’میں نے کبھی نماز نہیں پڑھی تھی لیکن تمہارے لیے میں نے ایک ہمسائی سے سیکھی اور بلاناغہ پانچوں وقت پڑھتی رہی۔ ہر نماز کے بعد دُعا مانگتی کہ خدا تمھیں ہر آفت سے محفوظ رکھے‘‘

شیدے نے شہر پہنچتے ہی دوسرا تانگہ لے لیا اور زُلیخا سے جدا ہو گیا تاکہ وہ اپنے گھر جائے اور وہ اپنے۔ شیدے نے ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر ایک ہزار روپے پیدا کر لیے۔ ان سے اُس نے زلیخا کے لیے سونے کی چوڑیاں اور انگوٹھیاں بنوائیں۔ گلے کے لیے ایک نکلس بھی لیا۔ اب وہ پوری طرح لیس تھا۔ ایک دن وہ اپنے گھر میں اوپر پیڑھی پر بیٹھا کھانا کھانے لگا تھا کہ نیچے سے کسی عورت کے بین کرنے جیسی آواز آئی۔ وہ اسے پکار رہی تھی اور ساتھ ساتھ کوسنے بھی دے رہی تھی۔ شیدے نے اُٹھ کر کھڑکی میں سے نیچے جھانکا تو ایک بڑھیا تھی جو اُس کے محلے کی نہیں تھی اُس نے گردن اُٹھا کر اوپر دیکھا اور پوچھا کیا تم ہی شیدے ہو‘‘

’’ہاں ہاں‘‘

’’خدا کرے نہ رہو اس دُنیا کے تختے پر۔ تمہاری جوانی ٹُوٹے۔ تم پر بجلی گرے‘‘

شیدے نے کسی قدر غصے میں بڑھیا سے پوچھا بات کیا ہے؟‘‘

بڑھیا کا لہجہ اور زیادہ تلخ ہو گیا

’’میری بچی تم پر جان چھڑکے اور تمھیں کچھ پتا ہی نہیں‘‘

شیدے نے حیرت سے اُس بڑھیا سے سوال کیا کون ہے تمہاری بچی؟‘‘

’’زُلیخا اور کون؟‘‘

’’کیوں کیا ہوا اُس کو؟‘‘

بڑھیا رونے لگی

’’وہ تم سے ملتی تھی، تم غنڈے ہو، اس لیے ایک تھانیدار نے زبردستی اُس کے ساتھ اپنا منہ کالا کیا۔ ‘‘

شیدے کے ہوش و حواس ایک لحظے کے لیے غائب ہو گئے۔ مگر سنبھل کر اُس نے بڑھیا سے پوچھا کیا نام ہے اس تھانیدار کا؟‘‘

بڑھیا کانپ رہی تھی

’’کرم داد۔ تم یہاں اُوپر مزے میں بیٹھے ہو بہت بڑے غنڈے بنے پھرتے ہو۔ اگر تم میں تھوڑی سی غیرت ہے تو جاؤ اور اُس تھانیدار کا سر گنڈاسے سے کاٹ کے رکھ دو‘‘

شیدے نے کچھ نہ کہا کھڑکی سے ہٹ کر اُس نے بڑے اطمینان سے کھانا کھایا۔ پیٹ بھر کے دو گلاس پانی کے پیے اور ایک کونے میں رکھی ہوئی کلہاڑی لے کر باہر چلا گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد اُس نے زُلیخا کے گھر دروازے پر دستک دی۔ وہی بڑھیا باہر نکلی۔ شیدے کے ہاتھ میں خون آلود کلہاڑی تھی اُس نے بڑے پُر سکون لہجے میں اُس سے کہا

’’ماں۔ جوکام تم نے مجھ سے کہا تھا کر آیا ہوں۔ زُلیخا سے میرا سلام کہنا۔ میں اب چلتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ سیدھا کوتوالی گیا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ (۳۰؍ مئی ۵۴ ؁ء)

سعادت حسن منٹو

شہید ساز

میں گجرات کاٹھیا واڑ کا رہنے والا ہوں۔ ذات کا بنیا ہوں۔ پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان پر ٹنٹا ہوا تو میں بالکل بیکار تھا۔ معاف کیجیے گا میں نے لفظ ٹنٹا استعمال کیا۔ مگر اس کا کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ اردو زبان میں باہر کے الفاظ آنے ہی چاہئیں۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہوں۔ جی ہاں میں بالکل بیکار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا سا کاروبار چل رہا تھا جس سے کچھ آمدن کی صورت ہو جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا اور ادھر کے آدمی ادھر اور اُدھر کے اِدھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں۔ کوکین کا نہ ہی کوئی اور کاروبار شروع کردوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔ میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ کوئی موٹا کاروبارکروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الاٹ منٹوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ سکہ پالش مجھے آتا ہی تھا۔ چکنی چیڑی باتیں کیں۔ ایک دو آدمیوں کے ساتھ یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرالیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تو میں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرانے لگا۔ کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹ منٹوں کے سلسلے میں کافی تگ و دو کرنا پڑتی۔ کسی کے مسکہ لگایا۔ کسی کی مٹھی گرم کی، کسی کو کھانے کی دعوت، کسی کو ناچ رنگ کی، غرضیکہ بے شمار بکھیڑے تھے۔ دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا سا مکان تلا کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔ انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی۔ چنانچہ ایک برس کے اندر اندرمیں نے لاکھوں روپے پیدا کرلیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کا بہترین کوٹھی۔ بینک میں بے اندازہ مال پانی۔ معاف کیجیے گا۔ میں کاٹھیا واڑ گجرات کا روز مرہ استعمال کرگیا۔ مگر کوئی واندہ نہیں۔ اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں۔ جی ہاں، اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، نوکر چار، پیکارڈ موٹر بینک میں ڈھائی لاکھ روپے۔ کارخانے اور دکانیں الگ۔ یہ سب کچھ تھا۔ لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہئے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟ آدمی ذہین ہوں، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہو جائے تو میں اس کا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں۔ ٹھنڈے دل سے(حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا) میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑبڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟ عورت؟۔ ہو سکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں۔ جو تھی وہ کاٹھیا وار گجرات ہی میں اللہ کو پیاری ہو گئی تھی۔ لیکن دوسروں کی عورتیں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر اپنے مالی ہی کی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے۔ سچ پوچھیے تو عورت جوان ہونی چاہیے اور یہ ضروری نہیں کہ پڑھی لکھی ہو، ڈانس کرنا جانتی ہو۔ اپن کو تو ساری جوان عورتیں چلتی ہیں(کاٹھیا واڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اردو میں نعم البدل موجود نہیں) عورت کا تو سوال ہی اٹھ گیا اور دولت کا پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ بندہ زیادہ لالچی نہیں جو کچھ ہے اسی پر قناعت ہے۔ لیکن پھر یہ دل والی بات کیوں پیدا ہو گئی تھی۔ آدمی ذہین ہوں۔ کوئی مسئلہ سامنے آجائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دکانیں بھی چل رہی تھیں۔ روپیہ اپنے آپ پیدا ہورہا تھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجے پرپہنچا کہ دل کی گڑ بڑ صرف اس لیے ہے کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔ کاٹھیا واڑ گجرات میں تو میں نے بیسیوں نیک کام کیے تھے۔ مثال کے طورپر جب میرا دوست پانڈورنگ مر گیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر ڈال لیا اور دو برس تک اس کو دھندا کرنے سے روکے رکھا۔ وناٹک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خرید دی۔ تقریباً چالیس روپے اس پر اٹھ گئے تھے۔ جمنا بائی کو گرمی ہو گئی سالی۔ (معاف کیجیے گا) کچھ پتا ہی نہیں۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا۔ لیکن پاکستان آکر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا اور دل کی گڑ بڑ کی یہی وجہ تھی۔ ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔ میں نے سوچا۔ کیا کروں؟۔ خیرات دینے کا خیال آیا۔ لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب ہر شخص بھکاری ہے۔ کوئی بھوکا ہے۔ کوئی ننگا۔ کِس کِس کا پیٹ بھروں، کس کس کا انگ ڈھانکوں؟۔ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں لیکن ایک لنگر خانے سے کیا ہوتا اور پھر اناج کہاں سے لاتا؟ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہوا تو یہ سوال بھی ساتھ ہی پیدا ہو گیا کہ ایک طرف گناہ کرکے دوسری طرف کارِ ثواب کا مطلب ہی کیا ہے۔ ؟ گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دکھ درد سنے۔ سچ پوچھیے تو ہر شخص دکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں اور وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کام کا کوئی جوتا نہیں۔ موٹر میں بیٹھنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کار کا نیا ماڈل نہیں۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی۔ ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔ میں نے غالب کی ایک غزل اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر سے سنی تھی۔ ایک شعر یاد رہ گیا ہے ؂ کِس کی حاجت روا کرے کوئی۔ معاف کیجیے گا یہ اس کا دوسرا مصرعہ ہے اور ہو سکتا ہے پہلا ہی ہو۔ جی ہاں، میں کس کس کی حاجت روا کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے۔ میں نے پھر یہ بھی سوچا کہ خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ تو مجھے معلوم ہوا۔ کہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکما بنا دیا ہے۔ دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ تاش کھیل رہے ہیں۔ جگار ہورہی ہے( معاف کیجیے گا جُگار کا مطلب ہے جواء یعنی قمار بازی) گالیاں بک رہے ہیں اور فوگٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میں اسی نتیجہ پر پہنچا کہ بھیج دینا ہرگز ہرگز نیکی کا کام نہیں۔ لیکن پھر نیکی کے کام کے لیے اور کون سا رستہ ہے؟ کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مررہے تھے۔ کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوا دوں مگر سوچنے پر ارادہ ترک کردیا۔ پوری اسکیم تیار کر چکا تھا۔ عمارت کے لیے ٹینڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہو جاتا۔ اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کردیتا اور ٹنڈراس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پرصرف کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ستر ہزارروپے میں بلڈنگ کھڑی کردینا اور پورے تیس ہزار بچا لیتا مگر یہ ساری اسکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ جب میں نے سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہو گی۔ غور کیا جائے تویہ سارا لفڑا ہی فالتو آبادی کا ہے۔ لفڑا کا مطلب ہے جھگڑا، وہ جھگڑا جس میں فضیحتا بھی ہو۔ لیکن اس سے بھی اس لفظ کی پوری معنویت میں بیان نہیں کرسکا۔ جی ہاں غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی اس فالتو آبادی کا باعث ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جائیں گی۔ آسمان بھی ساتھ ساتھ پھیلنا جائے گا۔ بارشیں زیادہ ہوں گی۔ اناج زیادہ اگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پرپہنچا۔ کہ ہسپتال بنانا ہرگز ہرگز نیک کام نہیں۔ پھر سوچا مسجد بنوا دوں۔ لیکن اللہ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چلتے کر کا گایا ہوا ایک شعر یاد آگیا ؂ نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا۔ وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا۔ کس کم بخت کو نام و نمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اچھالنے کے لیے پل بناتے ہیں۔ نیکی کا کیا کام کرتے ہیں؟۔ خاک!۔ میں نے کہا نہیں یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہرگز مفید نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ عوام بٹ جاتے ہیں۔ تھک ہار کر میں حج کی تیاریاں کررہا تھا کہ اللہ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر میں ایک جلسہ ہوا۔ جب ختم ہوا تو لوگوں میں بدنظمی پھیل گئی۔ اتنی بھگدڑ مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔ میں نے سوچنا شروع کیا۔ سوچنے کے علاوہ میں کئی مولویوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔ انھیں شہادت کا رتبہ ملتا ہے یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ ہی نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ مرنے کی بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکل کارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہو جاتے تو کوئی بات بنتی۔ میں نے اس باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔ چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکر و تردد اور غم روزگار کے بوجھ تلے پسے ہوئے۔ دھنسی ہوئی آنکھیں بے جان چال۔ کپڑے تار تار ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح یا تو کسی ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں پڑے ہیں یا بازاروں میں بے مالک مویشیوں کی طرح منہ اٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں۔ کیوں جی رہے ہیں۔ کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں۔ اس کا کچھ پتہ نہیں۔ کوئی وبا پھیلی۔ ہزاروں لوگ مر گئے اور کچھ نہیں تو بھوک اور پیاس ہی سے گھل گھل رہے۔ سردیوں میں اکڑ گئے۔ گرمیوں میں سوکھ گئے۔ کسی کی موت پر کسی نے دوآنسو بہا دیے اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔ زندگی سمجھ میں نہ آئی، ٹھیک ہے۔ اس سے حظ نہ اٹھایا، یہ بھی ٹھیک ہے۔ وہ کس کا شعر ہے۔ اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر کیا درد بھری آواز میں گایا کرتی تھی ؂ مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سُسری پر۔ میں نے سوچا کیوں نہ بیچارے، یہ قسمت کے مارے، درد کے ٹھکرائے ہوئے انسان جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں۔ اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ جو وہ یہاں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے۔ وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں۔ اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے راضی ہوں گے؟ میں نے سوچا، کیوں نہیں۔ وہ کون مسلمان ہے جس میں ذوقِ شہادت نہیں۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندوؤں اور سکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کردیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت ناامیدی ہوئی جب میں نے ایک مریل سے آدمی سے پوچھا۔

’’کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو؟‘‘

تو اس نے جواب دیا۔

’’نہیں۔ ‘‘

سمجھ میں نہ آیا کہ وہ شخص جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو بڑے میاں، زیادہ سے زیادہ، زیادہ سے زیادہ تم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے چلنے کی تم میں سکت نہیں۔ کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہو تو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا۔ پھوٹی کوڑی تک تمہارے پاس نہیں۔ زندگی بھر تم نے سکھ نہیں دیکھا۔ مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر اور جی کر کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہوسکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کرکے یہیں بازار میں یا دیرے میں جہاں تم رات کو سوتے ہو، اپنی شہادت کا بندوبست کرلو۔ اس نے پوچھا۔

’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’یہ سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے۔ فرض کرلیا جائے کہ تم اس پر سے پھسل جاؤ۔ ظاہر ہے کہ تم مر جاؤ گے اور شہادت کا رتبہ پاؤ گے۔ ‘‘

یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ کہنے لگا۔

’’میں کیوں آنکھوں دیکھے کیلے کے چھلکے پر پاؤں دھرنے لگا۔ کیا مجھے اپنی عزیز نہیں‘‘

۔ اللہ اللہ کیا جان تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچا جھریوں کی گٹھڑی!! مجھے بہت افسسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا۔ جب میں نے سنا کہ وہ کم بخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رتبہ اختیار کرسکتا تھا۔ خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چارپائی پر کھانستا کھنکارتا مر گیا۔ ایک بڑھیا تھی منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ آخری سانس لے رہی تھی مجھے بہت ترس آیا۔ ساری عمر غریب کی مفلسی اوررنج و غم میں گزری تھی۔ میں اسے اٹھا کر ریل کے پاٹے پر لے گیا۔ معاف کیجیے گا۔ ہمارے یہاں پٹڑی کو پاٹا کہتے ہیں۔ لیکن جناب جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی۔ ہوش میں آگئی اور کُوک بھرے کھلونے کی طرح اٹھ کر بھاگ گئی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔ بنیا کا بیٹا اپنی دھن کا پکا ہوتا ہے۔ نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا۔ میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ مغلوں کے وقت کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا۔ اس میں ایک سو اکاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ بہت ہی خستہ حالت میں۔ میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیا اور اس میں ایک ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دیے۔ دو مہینے کرایہ وصول کیا۔ ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے۔ تیسرے مہینے جیسا کہ میرا اندازہ تھا۔ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کمروں کی چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے۔ شہید ہو گئے۔ وہ جو میرے دل پر بوجھ سا تھا کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی کم بھی ہو گئے۔ لیکن انھیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔ ادھر کا پلڑا بھاری ہی رہا۔ جب سے میں یہی کام کررہا ہوں۔ ہرروز حسبِ توفیق دو تین آدمیوں کو جامِ شہادت پلا دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں۔ کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا ہی پڑتی ہے۔ اللہ بخشے شولاپور کی امینہ بائی چتلے کر ایک شعر گایا کرتی تھی۔ لیکن معاف کیجیے گا وہ شعر یہاں ٹھیک نہیں بیھٹتا۔ کچھ بھی ہو، کہنا یہ ہے کہ مجھے کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا وجود چھکڑے کے پانچویں پہئے کی طرح بے معنی اور بیکار تھا۔ جام شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے لیکن موت کی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روز جا کروہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور شہید ہوا۔ آج کل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوا رہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے دو لاکھ کا ہے۔ اس میں سے پچھتر ہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرالیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے گی تو ساری بلڈنگ اڑا ڑا دھڑام گر پڑے گی۔ کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے۔ اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ پرلے درجے کا گناہگار ہے جس کی شہادت اللہ تبارک تعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔

سعادت حسن منٹو

شہ نشین پر

وہ سفید سلمہ لگی ساڑی میں شہ نشین پر آئی اور ایسا معلوم ہُوا کہ کسی نے نقرئی تاروں والا انار چھوڑ دیا ہے۔ ساڑی کے تھرکتے ہُوئے ریشمی کپڑے پر جب جگہ جگہ سلمہ کا کام ٹمٹمانے لگتا تو مجھے جسم پر وہ تمام ٹمٹماہٹیں گدگدی کرتی محسوس ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود ایک عرصہ سے میرے لیے گدگدی بنی ہوئی تھی۔ میں اس کو تقریباً دو سو مرتبہ دیکھ چکا ہوں۔ اور ان تمام درشنوں کے نقوش علیحدہ علیحدہ میرے دل و دماغ پر مرتسم ہیں۔ ایک بار میں نے اسے صحن میں تیتری کے پیچھے دوڑتے دیکھا تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ میری نگاہوں کے سامنے آئی اور گزر گئی۔ اور جب کبھی میں اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے اپنے دل میں ایک ایسے پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ جو ڈر کر ایکا ایکی اُڑجائے۔ اسی طرح ایک روز میں نے اسے شہ نشین پر دھوپ میں اپنے گیلے بال جھٹکتے دیکھا تھا۔ اور اب میں جس وقت اس تصویر کو اپنے ذہن کے پردے پر کھینچتا ہوں تو مجھے کبھی سیاہی نظر آتی ہے اور کبھی اُجالا۔ میں اس کو اتنا دیکھ چکا ہوں کہ اب میں اس کے سامنے آئے بغیر اسے جب چاہوں دیکھ سکتا ہوں۔ پہلے پہل مجھے اس کام میں دقّت محسوس ہوئی تھی مگر اب کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ ابھی کل شام کو جب مجھے ایک دوست کے یہاں بیٹھے بیٹھے اُسے دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ تو میں نے آنکھیں بند کیے بغیر اسے اپنے سامنے لا کھڑا کیا۔ وہ ہوبہو ویسی تھی جیسی کہ وہ ہے اور اس بات کا نہ میرے دوست کو پتہ چلا اور نہ اس کی بہن کو جو میرے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لیے اسے اپنے ذہن کی ڈبیا میں سے نکال کر دیکھا۔ اور فوراً ہی وہیں بند کر دیا۔ کسی کو معلوم تک نہ ہوا۔ کہ میں نے کیا کر دیا ہے۔ اس کو دیکھنے کے بعد میں نے یوں سلسلہ کلام شروع کیا۔ گویا میرا ذہن ایک لمحے کے لیے بھی غیر حاضر نہ ہوا تھا۔۔۔۔

’’جی ہاں سوکھی ہوئی مچھلیوں سے سخت بُو آتی ہے۔ نہ جانے یہ لوگ انھیں کھاتے کس طرح ہیں۔ میری تو ناک۔۔۔۔۔۔‘‘

اور اس کے بعد مختلف قسم کی ناکوں پر گفتگو شروع ہو گئی تھی۔ اس کی ناک مجھے بہت پسند ہے۔ میرے پاس ہلکے گلابی رنگ کاٹی سیٹ ہے جو مجھے صرف اس لیے عزیز ہے کہ اس کی پیالیوں کی دستی اس کی ناک سے ملتی جلتی ہے۔ آپ ہنسیں گے۔ مگر۔۔۔۔۔ ایک روز صبح کو جب میں نے اسے قریب سے دیکھا تو میرے دل میں عجیب و غریب خواہش پیدا ہُوئی کہ اس کی ناک پکڑ کر اس کے ہونٹوں کا رس پی لُوں۔ اس کے ہونٹ مجھے پیارے لگتے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ ہر وقت نم آلود رہتے تھے۔ یہ نمی ان میں سنگترے کی لڑیوں کی مانند چمک پیدا کر دیتی تھی۔ ان کے چومنے کی خواہش اگر میرے دل میں پیدا ہوتی تھی تو اس کا باعث یہ نہ تھا۔ کہ میں نے کتابوں میں پڑھا تھا۔ اور لوگوں سے سُنا تھا کے عورتوں کے ہونٹ چومے جاتے ہیں۔۔۔۔۔اگر مجھے یہ علم نہ ہوتا تو بھی میرے دل میں ان کو چومنے کی خواہش پیدا ہوتی اس کے ہونٹ ہی کچھ اس قسم کے تھے کہ وہ ایک نامکمل بوسہ معلوم ہوتے تھے۔ وہ میرے ہمسائے ڈاکٹر کی اکلوتی لڑکی تھی۔ سارا دن وہ نیچے اپنے باپ کی ڈسپنسری میں بیٹھی رہتی۔ کبھی کبھی جب میں اُسے بازار سے گزرتے ہوئے شیشوں میں سے دوائیوں کی الماری کے پاس کھڑی دیکھتا۔ تو مجھے وہ ایک لمبی گردن والی بوتل دکھائی دیتی جس میں کوئی خوش رنگ سیال مادہ اُبل رہا ہو۔ ایک روز میں ڈسپنسری میں ڈاکٹر صاحب سے دوا لینے کے لیے گیا۔ مجھے زکام کی شکایت تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اُس سے کہا۔

’’بیٹا! ان کے رومال پر یو کلپٹس آئیل کے چند قطرے ٹپکا دو۔ ‘‘

اُس نے میرا رومال لیا۔ اور الماری میں سے ایک چھوٹی سی بوتل نکال کر دوا کے قطرے ٹپکانے لگی۔ اس وقت میرے جی میں آئی کہ اٹھ کر اس کا ہاتھ تھام لوں اور کہوں۔ اس شیشی کو بند کر دیجیے اگر آپ اپنی آنکھوں کا ایک آنسو مجھے عنایت فرما دیں۔ تو میری بہت سی بیماریاں دُور ہو جائیں۔ ‘‘

لیکن میں خاموش بیٹھا دوا کے ان کے سفید قطروں کی طرف دیکھتا رہا۔ جو میرے رومال میں جذب ہو رہے تھے۔ جب سے میں نے اُسے دیکھنا شروع کیا ہے۔ میری دلی خواہش رہی ہے کہ وہ روئے اور میں اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے دیکھوں۔ میں نے تصّور میں کئی مرتبہ اس کی آنکھوں کو نمناک دیکھا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ میں اُسے سچ مچ روتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس کی گھنی پلکوں میں پھنسے ہوئے آنسو بہت اچھے معلوم ہوں گے۔ چق پر سے جب بارش کے قطرے رُک رُک کر نیچے پھسل رہے ہوں تو کتنے دلفریب دکھائی دیا کرتے ہیں۔ ممکن ہے عورت کی آنکھوں میں آپ آنسو ضروری خیال نہ کریں۔ پر میں آنسوؤں کو ہٹا کر عورت کی آنکھوں کا تصّور ہی نہیں کر سکتا۔ آنسو آنکھوں کا پسینہ ہے اور مزدور کی پیشانی صرف اسی صورت میں مزدور کی پیشانی ہو سکتی ہے۔ جب اس پر پسینے کے قطرے چمک رہے ہوں۔ اور عورت کی آنکھیں صرف اسی صورت میں عورت کی آنکھیں ہو سکتی ہیں۔ جب آنسوؤں سے ڈبڈبائی رہتی ہوں۔ وہ سفید سلمہ لگی ساڑی میں شہ نشین پر آئی اور ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے نقرئی تاروں والا انار چھوڑ دیا ہے۔ ساڑی کے تھرکتے ہُوئے ریشمی کپڑے پر جگہ جگہ سلمے کا کام ٹمٹما رہا تھا۔ اور مجھے اپنے جسم پر گدگدی ہو رہی تھی۔ اس نے ایکا ایکی پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ گویا اس کو فوراً ہی اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے علاوہ رات کی خاموشی میں کوٹھے پر کوئی اور متنفس بھی ہے۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں دو موتی رول رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔۔۔۔ میرے دیکھتے دیکھتے اور قبل اس کے کہ میں کچھ کر سکوں۔ اس کی آنکھوں سے اس کے شباب کے پہلے پسینے کے قطرے چھلکے اور۔۔۔۔۔۔ سنگین فرش پر پھسل گئے۔ وہ میری خلل انداز نگاہوں کی تاب نہ لا سکے۔ وہ دراصل چپ چاپ دوسروں کو خبر کیے بغیر نوزائیدہ بچوں کے مانند تھوڑی دیر ان دو نرم و نازک پنگوڑوں میں لیٹے رہنا چاہتے تھے۔ مگر میری نگاہوں کے شور سے مچل گئے۔ وہ رو رہی تھی۔ پر میں خوش تھا۔ اس کی نم آلود آنکھیں کہرے میں لپٹی ہوئی جھیلیں معلوم ہوتی تھیں۔ بڑی پُر اسرار بڑی فکر خیز، پانی کی پتلی سی تہ کے نیچے اس کی آنکھوں کی سفیدی اور سیاہی۔ ان ننھی ننھی مچھلیوں کی مانند جھلملا رہی تھیں۔ جو پانی کے اوپر آنے سے ڈرتی ہوں۔ میں نے اس کو دیکھنا چھوڑ کر اس کی آنکھوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ جس طرح دسمبر کی سرد اور گیلی رات میں کھلی فضا کے اندر دودئیے جل رہے ہوں۔ اس کی آنکھیں دُور سے بہت دور سے مجھے دیکھتی رہیں۔ میں نے ان کی طرف بڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔ دو آنسو بنے، گھنی پلکوں میں تھوڑی دیر پھنسے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے زرد گالوں پر ڈھلک گئے۔ داہنی آنکھ میں ایک اور آنسو بنا، باہر نکلا۔۔۔۔۔ گال کی ہڈی پر تھوڑ ی دیر کے لیے اس مسافر کی طرح جس کی منزل قریب ہو، ایک لحظے کے لیے سستایا اور پھسل کر تیزی سے اس کے لبوں کے ایک گوشے کے قریب سے ہو کر آگے دوڑنے والا ہی تھا کہ ہونٹوں کی نمی نے اُسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اور وہ ایک پتلی سی دھار بن کر پھسل گیا۔ دُھلی ہُوئی آنکھوں سے اس نے میری طرف غور سے دیکھا۔ اور پوچھا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

وہ جانتی تھی کہ میں کون ہُوں۔ اور یہ پوچھتے ہُوئے کہ میں کون ہُوں۔ وہ میرے بارے میں کچھ دریافت نہ کر رہی تھی۔ بلکہ وہ یہ پوچھ رہی تھی کہ وہ خود کون ہے۔ میں نے جواب دیا۔

’’تم شیلا ہو۔ ‘‘

اُس کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک خفیف ارتعاش کے ساتھ کھلے اور وہ سسکیوں میں کہنے لگی۔

’’شیلا۔۔۔۔ شیلا۔۔۔۔۔ شی۔ ‘‘

وہ شہ نشین پر بیٹھ گئی۔ وہ تھکی ہُوئی معلوم ہوتی تھی۔ لیکن ایکا ایکی اُسے کچھ خیال آیا اور جو خواب وہ دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنے دماغ سے جھٹک کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور گھبرائے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔ مَیں ۔۔۔۔۔ مَیں۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہی تھی؟ ۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔۔ میں اچھی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں یہاں کیسے چلی آئی؟‘‘

میں نے اسے بڑے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔

’’گھبراؤ نہیں شیلا۔۔۔۔۔ تم نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔۔۔ ایسی باتیں نہ کہی جاتی ہیں اور نہ سُنی جاتی ہیں۔ ‘‘

شیلا نے اس انداز سے میری جانب دیکھا۔ گویا میں نے اس کی کوئی چوری پکڑ لی ہے کیسی باتیں؟ ۔۔۔۔۔ کیسی باتیں؟ ۔۔۔۔۔ کوئی بات بھی تو ہو!‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’پرسوں جب تم نیچے ڈسپنسری میں لال لال جِیب نکال کر طوطے سے کھیل رہی تھیں۔ اور تمہاری بلّوریں انگلیاں بوتلوں سے ٹکرا کر ایک عجیب قسم کی جھنکار پیدا کر رہی تھیں۔ اس وقت تم ایک نامکمل عورت تھیں۔ پر آج جبکہ تمہاری آنکھیں رور رہی ہیں۔ تم مکمل عورت بن گئی ہو۔ کیا تمہیں یہ فرق محسوس نہیں ہوتا؟ ہوتا ہے، ضرور ہوتا ہے۔ وہ چیز جو کل تھی آج تم میں نہیں ہے اور جو آج ہے کل نہ رہے گی۔ پر وہ داغ جو مسّرت کا گرم لوہا تمہارے دل پر لگا گیا ہے۔ ہمیشہ ویسے کا ویسا رہے گا۔۔۔۔۔ یہ کتنی اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ تمہاری زندگی میں ایک ایسی چیز تو ہو گی۔ جو ساری کی ساری تمہاری ہو گی۔۔۔۔۔۔ ایک ایسی چیز جس کی ملکیت پر کسی کو رشک نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔ کاش میرا دل تمہارا دل ہوتا۔۔۔۔۔ کسی عورت کا دل ہوتا۔۔۔۔۔۔ جو ایک ہی داغ کو کافی سمجھتا ہے۔۔۔۔۔ عورت کے دل کی آبادی میں کئی ویرانے سما سکتے ہیں۔۔۔۔۔ ویرانوں کا یہ ہجوم بجائے خود ایک آبادی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خوش قسمت ہو۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن جس کے لیے تمہیں انتظار کرنا پڑتا۔ تم نے بہت جلد دیکھ لیا۔۔۔۔۔ تم خوش قسمت ہو۔ ‘‘

وہ میری طرف اس مرغی کی طرح حیرت سے دیکھنے لگی جس نے پہلی بار انڈا دیا ہو۔ وہ اپنے کو ٹٹولنے لگی۔

’’خوش قسمت!۔۔۔۔۔۔۔ میں خوش قسمت۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’جب پتنگ کٹ جائے اور کوٹھوں پر چڑھے ہُوئے لونڈے ڈور لُوٹنے کے لیے شور مچانا شروع کر دیں۔ تو کسی کے بتانے کی حاجت نہیں رہتی۔ کہ پتنگ کٹ گیا ہے۔۔۔۔ جو پتنگ تم نے ہوا کی بلندیوں میں اُڑایا تھا کہاں ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ کل تک اس کی ڈور تمہارے ہاتھ میں تھی، پر آج نظر نہیں آتی!‘‘

اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

’’۔۔۔۔۔۔۔ میں خوش قسمت ہوں‘‘

۔۔۔۔۔۔ آنسوؤں میں بھیگے ہُوئے لفظ اس کے مُنہ سے نکلے‘‘

میں خوش قسمت ہُوں۔۔۔۔۔ آپ ان لونڈوں سے جو ڈور لُوٹنے کے لیے کوٹھوں پر چڑھے رہتے ہیں، کم شور نہیں مچا رہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘

آنسو اتنی تیزی سے بہنے لگے۔ اس نے میری طرف اس بارش میں سے دیکھا اور کہا۔

’’میری آنکھوں سے آنسو نکال کر آپ کس کا حلق تر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ میں سب جانتی ہوں۔ یہ سوئیاں آپ مجھے کیوں چبھو رہے ہیں۔ ‘‘

اُس نے نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس کی عقل اس وقت اس چاقو کے پھل کی مانند تھی۔ جسے ضرورت سے زیادہ سان پر لگایا گیا ہو۔ میں نے اس سے بڑے اطمینان سے کہا۔

’’جو کچھ ہو چکا ہے۔ اس کا مجھے علم ہے۔ اور اگر اس وقت میں تم سے یہ سب بھول جانے کے لیے کہتا۔ تم سے مصنوعی الفاظ میں ہمدردی کرتا۔ مداریوں کے مانند ایک ہاتھ میں تمہارا درد، تمہارا سارا غم لے کر چھُو منتر کے ذریعے سے غائب کر دیتا۔ تو تم یقیناًمجھے اپنا دوست مانتیں، پر میں ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔ دل تمہارا ہے اور جو بھی اس پر گزرا ہے وہ تمہارا ہے۔ میں کیوں تمہارے دل کو اس نعمت سے محروم کروں، کیوں تمہیں اس درد کو بھول جانے کے لیے کہوں جو تمہارا سرمایہ ءِ حیات ہے۔ اسی درد پر اسی دُکھ دینے والے واقعہ پر جو بیت چکا ہے تمہیں اپنی زندگی کے آنے والے دنوں کی بنیادیں استوار کرنا ہوں گی۔۔۔۔۔ میں جھوٹ نہیں بولتا شیلا، پر اگر تم چاہتی ہو تو تمہاری تسکین کے لیے میں یہ بھی کر سکتا ہوں۔ بولو میں کیا کہوں؟‘‘

یہ سُن کر اس نے تیزی سے کہا۔

’’مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں!‘‘

’’میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ایسے حالات میں کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہُوا کرتی۔۔۔۔۔۔ آگ کے اندر کودنے والے کھیل میں ہدایت دینے والے کی کیا ضرورت؟ ۔۔۔۔ پریم کی ارتھی کو دوسرے کے کاندھوں سے کیا سروکار، یہ لاش تو زندگی بھر ہمیں اپنے ہی کاندھوں پر اُٹھائے پھرنا ہو گی۔۔۔۔۔۔‘‘

وہ بیچ میں بول اُٹھی۔

’’اُٹھاؤں گی۔۔۔۔۔ آپ کو اس سے کیا۔۔۔۔۔۔ ایسی ایسی بھیانک باتیں سُنا کر آپ مجھے کس لیے ڈرانا چاہتے ہیں!۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے محبت کی۔۔۔۔۔ اور کیا میں اب بھی اُس سے محبت نہیں کرتی!۔۔۔۔۔۔ اُس نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ میرے ساتھ فریب کیا ہے، پر یہ فریب اور دھوکا بھی تو اُسی نے دیا ہے جس سے میں محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ اُس نے میری زندگی برباد کر دی ہے۔ مجھے کہیں کا نہیں رکھا۔ لیکن پھر کیا ہُوا۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک بازی کھیلی اور ہار گئی۔۔۔۔۔ آپ مجھے ڈرانا چاہتے ہیں، مجھے طعنے دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے، جسے اب موت تک کی پروا نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ میں نے موت کا نام لیا ہے اور۔۔۔۔۔۔ دیکھیے آپ کے بدن پر کپکپی دوڑ گئی ہے، آپ موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر میری طرف دیکھیے میں موت سے نہیں ڈرتی!‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا، اُس کے لبوں پر ایک زبردستی کی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی پتلی تہ کے نیچے ایک عجیب قسم کی روشنی جل رہی تھی۔ اور وہ خود کانپ رہی تھی ہولے ہولے۔ میں نے دوبارہ اس کو غور سے دیکھا۔ اور کہا۔

’’موت سے ڈرتا ہُوں۔ اس لیے کہ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ تم موت سے نہیں ڈرتی، اس لیے کہ تمہیں زندہ رہنا نہیں آتا۔ جو شخص زندہ رہنے کا سلیقہ نہیں جانتے۔ اُن کے لیے زندہ رہنا بھی موت کے برابر ہے۔۔۔۔۔ اگر تم مرنا چاہتی ہو تو بڑے شوق سے مر جاؤ۔ ‘‘

وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگی۔ میں نے کہنا شروع کیا۔

’’تم مرنا چاہتی ہو۔ اس لیے کہ تم سمجھتی ہو کہ دُکھ کے اس پہاڑ کا بوجھ جو ایکا ایکی تم پر ٹوٹ پڑا ہے۔ تم سے اٹھایا نہ جائے گا۔۔۔۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔۔۔۔ جب تم محبت کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ تو اس کی شکست کے صدمے برداشت کرنے کی بھی قوت رکھتی ہو۔۔۔۔۔ وہ لذّت وہ حظ وہ مسّرت جو تم نے اس سے محبت کرکے حاصل کی، تمہاری زندگی کا عرق ہے اسے سنبھال کر رکھو۔ اور باقی تمام عمران چند گھونٹوں پر بسر کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مرد جس سے تم نے محبت کی، اتنا ضروری، اتنا اہم نہیں ہے، جتنی کہ تمہاری محبت ہے، جو اس سے تم کو ہے۔۔۔۔۔ اس مرد کو بھول جاؤ، لیکن اپنی محبت کو یاد رکھو، اس کی یاد پر جیو۔۔۔۔۔۔۔ ان لمحات کی یاد پر جن کو حاصل کرنے کے لیے تم نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی شے توڑ ڈالی۔۔۔۔۔۔ کیاتم ان لمحات کو بھول سکتی ہو، جس کی قیمت میں تم نے ایک بیش بہا موتی بہا دیا ہے۔۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔ مرد ایسے لمحات کو بھول سکتا ہے بھول جاتا ہے۔ اس لیے کہ اُسے کوئی قیمت ادا نہیں کرنا پڑتی۔۔۔۔۔۔ پر عورتیں نہیں بھول سکتیں۔ جنھیں چند گھڑیوں کی فرصت کے لیے اپنی ساری زندگی چکنا چُور کر دینا پڑتی ہے۔۔۔۔۔ تم مرنا چاہتی ہو!۔۔۔۔۔ کیا تم اس سرائے میں اتنے مہنگے داموں پر کمرہ اٹھا کر بھی اس کو چھوڑ دینا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔ زندہ رہو۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں اس زندگی کو استعمال کرو۔ ہمیں مرنا ضرور ہے۔ اسی لیے زندہ رہنا بھی ضروری ہے۔۔۔۔۔۔‘‘

میری باتوں نے اس پر تھکان سی طاری کر دی۔ وہ نڈھال ہو کر شہ نشین پر بیٹھ گئی اور کہنے لگ۔

’’میں تھک گئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’جاؤ، سو جاؤ۔۔۔۔۔ آرام کرو اور دوسری مصیبتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود میں ہمت پیدا کرو۔۔۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر میں چلنے ہی کو تھا۔ کہ مجھے دفعتاً ایک خیال آیا اور اس خیال کے آتے ہی تھوڑی دیر کے لیے میرا دل بیٹھ سا گیا۔ میں نے سوچا اگر اس نے اپنے آپ کو مار لیا تو۔۔۔۔۔ اور یہ سوچتے ہوئے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ مجھ میں ایک چیز کی کمی ہو جائے گی۔ چنانچہ میں پلٹا اور اس کے قریب جا کر اس سے التجائیہ لہجے میں کہا۔

’’شیلا! میں تم سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔‘‘

شیلا نے گردن اٹھا کر میری طرف دیکھا۔

’’دیکھو شیلا، میں تم سے التجا کرتا ہوں کہ خودکشی کے خیال سے باز آؤ۔۔۔۔۔ تم زندہ رہو، ضرور زندہ رہو۔ ‘‘

اُس نے میری بات سُنی اور پوچھا کیوں۔ ‘‘

’’کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تم مجھ سے کیوں پوچھتی ہو شیلا؟ تمہارا دل اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تم سے التجا کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اور نہ مجھے اپنے آپ سے کوئی شکایت ہے۔۔۔۔۔ بات یہ ہے۔ کہ میں نے جو بات شروع کی تھی۔ اب اُسے اختتام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ میں خود غرض ہوں۔۔۔۔۔ ہر انسان خود غرض ہے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے التجا کر رہا ہوں کہ تم نہ مرو، جؤ۔۔۔۔۔۔ یہ خود غرضی ہے۔۔۔۔۔۔ تم زندہ ہو گی تو میری محبت جوان رہے گی۔۔۔۔۔۔ تمہاری زندگی کے ہر دور کے ساتھ میں اپنی محبت کو وابستہ دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ پر تمہاری اجازت سے۔۔۔۔۔۔۔‘‘

وہ دیر تک سوچتی رہی۔ وہ اب زیادہ سنجیدہ ہو گئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد اُس نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔

’’مجھے زندہ رہنا ہو گا۔ !‘‘

اس کے اس دھیمے لہجے میں عزم کے آثار تھے۔ اس تھکی ہوئی جوانی کو اونگھتی ہوئی چاندنی میں چھوڑ کر میں نیچے اپنے فلیٹ پر چلا آیا اور سو گیا۔

سعادت حسن منٹو

شکاری عورتیں

میں آج آپ کو چند شکاری عورتوں کے قصّے سناؤں گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی کبھی ان سے واسطہ پڑا ہو گا۔ میں بمبئی میں تھا۔ فلمستان سے عام طور پربرقی ٹرین سے چھ بجے گھر پہنچ جایا کرتا تھا۔ لیکن اس روز مجھے دیر ہو گئی۔ اس لیے کہ

’’شکاری‘‘

کی کہانی پر بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ میں جب بمبئے سنٹرل کے اسٹیشن پر اترا، تو میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جو تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ سے باہر نکلی۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ ناک نقشہ ٹھیک تھا۔ اس کی چال بڑی انوکھی سی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ فلم کا منظر نامہ لکھ رہی ہے۔ میں اسٹیشن سے باہر آیا اور پل پر وکٹوریا گاڑی کا انتظارکرنے لگا۔ میں تیز چلنے کا عادی ہوں اس لیے میں دوسرے مسافروں سے بہت پہلے باہر نکل آیا تھا۔ وکٹوریا آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا۔ میں نے کوچوان سے کہا کہ آہستہ آہستہ چلے اس لیے کہ فلمستان میں کہانی پر بحث کرتے کرتے میری طبیعت مکدر ہو گئی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ وکٹوریا والا آہستہ آہستہ پُل پر سے اترنے لگا۔ جب ہم سیدھی سڑک پر پہنچے تو ایک آدمی سرپر ٹاٹ سے ڈھکا ہوا مٹکا اٹھائے صدا لگا رہا تھا۔

’’قلفی۔ قلفی!‘‘

جانے کیوں میں نے کوچوان سے وکٹوریہ روک لینے کے لیے کہا، اور اس قُلفی بیچنے والے سے کہا ایک قلفی دو۔ میں اصل میں اپنی طبیعت کا تکدر کسی نہ کسی طرح دور کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے ایک دونے (پتوں کا پیالہ) میں قلفی دی۔ میں کھانے ہی والا تھا کہ اچانک کوئی دھم سے وکٹوریا میں آن گھسا۔ کافی اندھیرا تھا۔ میں نے دیکھا تو وہی گہرے رنگ کی سانولی لڑکی تھی۔ میں بہت گھبرایا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ دونے میں میری قلفی پگھلنا شروع ہو گئی۔ اس نے قلفی والے سے بڑے بے تکلّف انداز میں کہا

’’ایک مجھے بھی دو۔ ‘‘

اس نے دے دی۔ گہرے سانولے رنگ کی لڑکی نے اسے ایک منٹ میں چٹ کردیا اور وکٹوریا والے سے کہا

’’چلو۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا

’’کہاں؟‘‘

’’جہاں بھی تم چاہتے ہو۔ ‘‘

’’مجھے تو اپنے گھر جانا ہے۔ ‘‘

’’تو گھر ہی چلو۔ ‘‘

’’تم ہو کون؟‘‘

’’کتنے بھولے بنتے ہو۔ ‘‘

میں سمجھ گیا کہ وہ کس قماش کی لڑکی ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’گھر جانا ٹھیک نہیں۔ اور یہ وکٹوریا بھی غلط ہے۔ کوئی ٹیکسی لے لیتے ہیں۔ ‘‘

وہ میرے اس مشورے سے بہت خوش ہوئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے نجات کیسے حاصل کروں۔ اسے دھکا دے کر باہر نکالتاتو اُودھم مچ جاتا۔ پھرمیں نے یہ سوچا کہ عورت ذات ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر کہیں وہ یہ واویلا نہ مچادے کہ میں نے اس سے ناشائستہ مذاق کیا ہے۔ وکٹوریا چلتی رہی اور میں سوچتا رہا کہ یہ مصیبت کیسے ٹل سکتی ہے۔ آخر ہم بے بی ہسپتال کے پاس پہنچ گئے۔ وہاں ٹیکسیوں کا اڈہ تھا۔ میں نے وکٹوریا والے کو اس کا کرایہ ادا کیا اور ایک ٹیکسی لے لی۔ ہم دونوں اس پر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے پوچھا

’’کدھر جانا ہے صاحب؟‘‘

میں اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے اس سے زیر لب کہا۔

’’مجھے کہیں بھی نہیں جانا ہے۔ یہ لو دس روپے۔ اس لڑکی کو تم جہاں بھی لے جانا چاہو لے جاؤ۔ ‘‘

وہ بہت خوش ہوا۔ دوسرے موڑ پر اس نے گاڑی ٹھہرائی اور مجھ سے کہا

’’صاحب آپ کو سگریٹ لینے تھے۔ اس ایرانی کے ہوٹل سے سستے مل جائیں گے۔ ‘‘

میں فوراً دروازہ کھول کرباہر نکلا۔ گہرے رنگ کی لڑکی نے کہا۔

’’دو پیکٹ لانا۔ ‘‘

ڈرائیور اس سے مخاطب ہوا۔

’’تین لے آئیں گے۔ ‘‘

اور اس نے موٹر اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ ۔ بمبئی ہی کا واقعہ ہے میں اپنے فلیٹ میں اکیلا بیٹھا تھا۔ میری بیوی شاپنگ کے لیے گئی ہوئی تھی کہ ایک گھاٹن جو بڑے تیکھے نقشوں والی تھی، بے دھڑک اندر چلی آئی۔ میں نے سوچا شاید نوکری کی تلاش میں آئی ہے۔ مگر وہ آتے ہی کرسی پر بیٹھ گئی۔ میرے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکالا اور اسے سُلگا کر مسکرانے لگی۔ میں نے اس سے پوچھا

’’کون ہو تم؟‘‘

’’تم پہچانتے نہیں۔ ‘‘

’’میں نے آج پہلی دفعہ تمہیں دیکھا ہے۔ ‘‘

’’سالا جھوٹ مت بولو۔ دو روز دیکھتا ہے۔ ‘‘

میں بڑی الجھن میں گرفتار ہو گیا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد میرا نوکر فضل دین آگیا۔ اس نے اس تیکھے نقشوں والی گھاٹن کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ ۔ یہ واقعہ لاہور کا ہے۔ میں اور میرا ایک دوست ریڈیو اسٹیشن جارہے تھے۔ جب ہمارا تانگہ اسمبلی ہال کے پاس پہنچا تو ایک تانگہ ہمارے عقب سے نکل کر آگے آگیا۔ اس میں ایک برقع پوش عورت تھی جس کی نقاب نیم وا تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی شرارت ناچنے لگی۔ میں نے اپنے دوست سے جو پچھلی نشست پر بیٹھا تھا، کہا۔

’’یہ عورت بد چلن معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’تم ایسے فیصلے ایک دم مت دیا کرو۔ ‘‘

’’بہت اچھا جناب۔ میں آئندہ احتیاط سے کام لوں گا۔ ‘‘

برقع والی عورت کا تانگا ہمارے تانگے کے آگے آگے تھا۔ وہ ٹکٹکی لگائے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ میں بڑا بزدل ہوں، لیکن اس وقت مجھے شرارت سُوجھی اور میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے آداب عرض کردیا۔ اس کے آدھ ڈھکے چہرے پر مجھے کوئی ردِّ عمل نظر نہ آیا جس سے مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ میرا دوست گٹکنے لگا۔ اس کو میری اس ناکامی سے بڑی مسرت ہوئی لیکن جب ہمارا ٹانگہ شملہ پہاڑی کے پاس پہنچ رہا تھا تو برقع پوش عورت نے اپنا ٹانگہ ٹھہرالیا اور(میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا) وہ نیم اٹھی ہوئی نقاب کے اندر مسکراتی ہوئی آئی اور ہمارے ٹانگے میں بیٹھ گئی۔ میرے دوست کے ساتھ۔ میری سمجھ میں نہ آیا کیا کیا جائے۔ میں نے اس برقع پوش عورت سے کوئی بات نہ کی، اور ٹانگے والے سے کہا کہ وہ ریڈیو اسٹیشن کا رُخ کرے۔ میں اسے اندر لے گیا۔ ڈائریکٹر صاحب سے میرے دوستانہ مراسم تھے۔ میں نے اس سے کہا۔

’’یہ خاتون ہمیں رستے میں پڑی ہوئی مل گئی۔ آپ کے پاس لے آیا ہوں، اور درخواست کرتا ہوں کہ انہیں یہاں کوئی کام دلوا دیجیے۔ ‘‘

انہوں نے اس کی آواز کا امتحان کرایا جو کافی اطمینان بخش تھا۔ جب وہ آڈیشن دے کر آئی تو اس نے برقع اتارا ہوا تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کی عمر پچیس کے قریب ہو گی۔ رنگ گورا آنکھیں بڑی بڑی۔ لیکن اس کا جسم ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے شکر قندی کی طرح بھوبل میں ڈال کر باہر نکالا گیا ہے۔ ہم باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں چپڑاسی آیا۔ اس نے کہا کہ باہر ایک ٹانگہ والا کھڑا ہے، وہ کرایہ مانگتا ہے۔ میں نے سوچا شاید زیادہ عرصہ گزرنے پر وہ تنگ آگیا ہے، چنانچہ میں باہر نکلا۔ میں نے اپنے تانگے والے سے پوچھا

’’بھئی کیا بات ہے۔ ہم کہیں بھاگ تو نہیں گئے۔ ‘‘

وہ بڑا حیران ہوا

’’کیا بات ہے سرکار۔ ‘‘

’’تم نے کہلا بھیجا ہے کہ میرا کرایہ ادا کرو۔ ‘‘

’’میں نے جناب کسی سے کچھ بھی نہیں کہا۔ ‘‘

اس کے تانگے کے ساتھ ہی ایک دوسرا تانگہ کھڑا تھا۔ اس کا کوچوان جو گھوڑے کو گھاس کھلا رہا تھا، میرے پاس آیا اور کہا

’’وہ عورت جو آپ کے ساتھ گئی تھی، کہاں ہے؟‘‘

’’اندر ہے۔ کیوں؟‘‘

’’جی اس نے دو گھنٹے مجھے خراب کیا ہے۔ کبھی ادھر جاتی تھی، کبھی ادھر۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کو معلوم ہی نہیں کہ اسے کہاں جانا ہے۔ ‘‘

’’اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’جی میں اپنا کرایہ چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’میں اسے لے کر آتا ہوں۔ ‘‘

میں اندرگیا۔ اس برقع پوش عورت سے جو اپنا برقع اتار چکی تھی، کہا۔

’’تمہارا تانگے والا کرایہ مانگتا ہے۔ ‘‘

وہ مسکرائی

’’میں دے دوں گی۔ ‘‘

میں نے اس کا پرس جو صوفے پر پڑا تھا، اٹھایا۔ اس کو کھولا۔ مگر اس میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔ بس کے چند ٹکٹ تھے اور دو بالوں کی پنیں۔ اور ایک واہیات قسم کی لپ اسٹک۔ میں نے وہاں ڈائریکٹر کے دفتر میں کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ ان سے رخصت طلب کی۔ باہر آکر اس کے تانگے والے کو دو گھنٹوں کا کرایہ ادا کیا، اور اس عورت کو اپنے دوست کی موجودگی میں کہا

’’تمہیں اتنا توخیال ہونا چاہیے تھا کہ تم نے تانگہ لے لیا ہے اور تمہارے پاس ایک کوڑی بھی نہیں۔ ‘‘

وہ کھسیانی ہو گئی

’’میں۔ میں۔ آپ بڑے اچھے آدمی ہیں۔ ‘‘

’’میں بہت برا ہوں۔ تم بڑی اچھی ہو۔ کل سے ریڈیو اسٹیشن آنا شروع کردو۔ تمہاری آمدن کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ یہ بکواس جو تم نے شروع کر رکھی ہے، اسے ترک کرو۔ ‘‘

میں نے اسے مزنگ کے پاس چھوڑ دیا۔ میرا دوست واپس چلا گیا۔ اتفاقاً مجھے ایک کام سے وہاں جانا پڑا۔ دیکھا کہ میرا دوست اور وہ عورت اکٹھے جارہے تھے۔ ۔ یہ بھی لاہور ہی کا واقعہ ہے۔ چند روز ہوئے، میں نے اپنے دوست کو مجبور کیا کہ وہ مجھے دس روپے دے۔ اس دن بنک بند تھے۔ اس نے معذوری کا اظہار کیا۔ لیکن جب میں نے اس پر زور دیا کہ وہ کسی نہ کسی طرح یہ دس روپے پیدا کرے۔ اس لیے کہ مجھے اپنی ایک علت پوری کرنا ہے، جس سے تم بخوبی واقف ہو، تو اس نے کہا

’’اچھا‘ میرا ایک دوست ہے وہ غالباً اس وقت کافی ہاؤس میں ہو گا۔ وہاں چلتے ہیں امید ہے کام بن جائے گا۔ ‘‘

ہم دونوں تانگے میں بیٹھ کر کافی ہاؤس پہنچے۔ مال روڈ پربڑے ڈاک خانے کے قریب ایک ٹانگہ جارہا تھا۔ اس میں ایک نسواری رنگ کا برقع پہنے ایک عورت بیٹھی تھی۔ اس کی نقاب پوری کی پوری اٹھی ہوئی تھی۔ وہ ٹانگے والے سے بڑے بے تکلف انداز میں گفتگو کررہی تھی۔ ہمیں اس کے الفاظ سنائی نہیں دیے۔ لیکن اس کے ہونٹوں کی جنبش سے جو کچھ مجھے معلوم ہونا تھا ہو گیا۔ ہم کافی ہاؤس پہنچے تو عورت کا تانگہ بھی وہیں رک گیا۔ میرے دوست نے اندر جا کے دس روپوں کا بندوبست کیا اور باہر نکلا۔ وہ عورت نسواری برقعے میں جانے کس کی منتظر تھی۔ ہم واپس گھر آنے لگے تو رستے میں خربوزوں کے ڈھیر نظر آئے۔ ہم دونوں تانگے سے اتر کر خربوزے پرکھنے لگے۔ ہم نے باہم فیصلہ کیا کہ اچھے نہیں نکلیں گے کیونکہ ان کی شکل و صورت بڑی بے ڈھنگی تھی۔ جب اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ نسواری برقع تانگے میں بیٹھا خربوزے دیکھ رہا ہے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا

’’خربوزہ خربوزے کو دیکھ کررنگ پکڑتا ہے۔ آپ نے ابھی تک یہ نسواری رنگ نہیں پکڑا۔ ‘‘

اس نے کہا

’’ہٹاؤ جی۔ یہ سب بکواس ہے۔ ‘‘

ہم وہاں سے اٹھ کر تانگے میں بیٹھے۔ میرے دوست کو قریب ہی ایک کیمسٹ کے ہاں جانا تھا۔ وہاں دس منٹ لگے۔ باہر نکلے تو دیکھا کہ نسواری برقع اسی تانگے میں بیٹھا جارہا تھا۔ میرے دوست کو بڑی حیرت ہوئی

’’یہ کیا بات ہے؟۔ یہ عورت کیوں بیکار گھوم رہی ہے؟‘‘

میں نے کہا

’’کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہو گی۔ ‘‘

ہمارا تانگہ ہال روڈ کو مڑنے ہی والا تھا کہ وہ نسواری برقع پھر نظر آیا۔ میرے دوست گو کنوارے ہیں، لیکن بڑے زاہد۔ ان کو جانے کیوں اُکساہٹ پیدا ہوئی کہ اس نسواری برقعے سے بڑی بلند آواز میں کہا۔

’’آپ کیوں آوارہ پھر رہی ہیں۔ آئیے ہمارے ساتھ۔ ‘‘

اس کے تانگے نے فوراً رُخ بدلا اور میرا دوست سخت پریشان ہو گیا۔ جب وہ نسواری برقع ہم کلام ہوا تو اس نے اس سے کہا

’’آپ کو تانگے میں آوارہ گردی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں آپ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

میرے دوست نے اس نسواری برقعے سے شادی کرلی۔

سعادت حسن منٹو

شو شو

گھر میں بڑی چہل پہل تھی۔ تمام کمرے لڑکے لڑکیوں، بچے بچیوں اور عورتوں سے بھرے تھے۔ اور وہ شور برپا ہو رہا تھا۔ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اگر اس کمرے میں دو تین بچے اپنی ماؤں سے لپٹے دودھ پینے کے لیے بلبلا رہے ہیں۔ تو دوسرے کمرے میں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ڈھولکی سے بے سُری تانیں اڑا رہی ہیں۔ نہ تال کی خبر ہے نہ لَے کی۔ بس گائے جا رہی ہیں۔ نیچے ڈیوڑھی سے لے کر بالائی منزل کے شہ نشینوں تک مکان مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ کیوں نہ ہو۔ ایک مکان میں دو بیاہ رچے تھے۔ میرے دونوں بھائی اپنی چاند سی دلہنیں بیاہ کر لائے تھے۔ رات کے گیارہ بجے کے لگ بھگ دونوں ڈولیاں آئیں۔ اور گلی میں اس قدر شور برپا ہوا کہ الامان مگر وہ نظارہ بڑا روح افزا تھا۔ جب گلی کی سب شوخ و شنگ لڑکیاں باہر نکل آئیں۔ اور تیتریوں کی طرح ادھر اُدھر پھڑپھڑانے لگیں۔ ساڑھیوں کی ریشمی سرسراہٹ۔ کلف لگی شلواروں کی کھڑکھڑاہٹ اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ ہوا میں تیرنے لگی۔ تمتماتے ہوئے مکھڑوں پر بار بار گرتی ہوئی لٹیں۔ ننھے ننھے سینوں پر زور دے کر نکالی ہوئی بلند آوازیں اونچی ایڑی کے بوٹوں پر تھرکتی ہوئی ٹانگیں لچکتی ہوئی انگلیاں، دھڑکتے ہوئے لہجے، پھڑکتی ہوئیں رگیں۔ اور پھر ان الّہڑ لڑکیوں کی آپس کی سرگوشیاں!۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ گلی کے پتھریلے فرش پر حُسن و شباب اپنے قلم سے معانی لکھ رہا ہے! عباس میرے پاس کھڑا تھا۔ ہم دونوں عورتوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے دفعتہ عباس نے گلی کے نکڑ پر نظریں گاڑ کر کہا۔

’’شو شو کہاں ہے؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’مجھے اس وقت تمہارے سوال کا جواب دینے کی فرصت نہیں ہے۔ ‘‘

میں اس ہجوم میں اس بھونرے کے مانند کھڑا تھا۔ جو پھولوں بھری کیاری دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کس پھول پر بیٹھے۔ عباس نے رونی آواز میں کہا۔

’’وہ نہیں آئی!‘‘

’’تو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ باقی تو سب موجود ہیں ۔۔۔۔۔ارے۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو تو وہ نیلی ساڑھی میں کون ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ شو شو۔ ‘‘

میں نے عباس کا ہاتھ دبایا۔ عباس نے غور سے دیکھا۔ نیلی ساڑھی میں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے مخصوص انداز میں میری طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔

’’علاج کراؤ اپنی آنکھوں کا۔۔۔۔۔۔ چغد کہیں کے، یہ شوشو ہے؟‘‘

’’کیوں وہ نہیں ہے کیا؟‘‘

میں نے پھر نیلی ساڑھی کی طرف غور سے دیکھا اور ایسا کرتے ہوئے میری نگاہیں ایکا ایکی اس لڑکی کی نگاہوں سے ٹکرائیں کچھ اس طور پر کہ اس کو ایک دھکا سا لگا۔ وہ سنبھلی اور فوراً منہ سے لال جِیب نکال کر میرا منہ چڑایا۔ اپنی سہیلی کے کان میں کچھ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔اس سہیلی نے کنکھیوں سے میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ عباس نے جو اپنا اطمینان کرنے کے لیے ایک بار پھر اس کی طرف دیکھ رہا تھا بلند آواز میں کہا۔

’’بخدا تم اس کی توہین کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔ گدھے کہیں کے۔۔۔۔۔۔ عورت کے معاملے میں نرے احمق ہو۔۔۔۔۔۔۔ کاٹھ کی کوئی پتلی نیلے رنگ میں لپیٹ لپاٹ کر تمہارے سامنے رکھ دی جائے۔ تم اسی کی بلائیں لینا شروع کر دو گے۔ ‘‘

یہ الفاظ اتنی اونچی آواز میں ادا کیے گئے تھے کہ اس نیلی ساڑھی والی نے سُن لیے جب وہ ہمارے پاس سے گزرنے لگی تو خود بخود ٹھٹک گئی۔ ایک لحظے کے لیے اس کے قدم رُکے۔ گویا ہم میں سے کسی نے اس کو مخاطب کیا ہے۔ پھر فوراً اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اور اس احساس کی پیدا کی ہوئی خفت دور کرنے کے لیے اُس نے یونہی پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ اور کہا۔

’’ارے۔۔۔۔۔۔ امینہ تو کہاں اُڑ گئی؟‘‘

! مجھے موقع ملا۔ میں جھٹ سے عباس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور اسے اچھی طرح دبا کر اس سے کہا۔

’’آپ سے مل کر بہت خوشی حاصل ہوئی۔ مگر میرا نام محمد امین ہے۔۔۔۔ مجھے نیل کنٹھ بھی کہتے ہیں!‘‘

جل ہی تو گئی۔ مگر ہم زیرِ لب مُسکراتے آگے بڑھ گئے۔ چند ہی قدم چلے ہوں گے کہ عباس نے اضطراب بھرے لہجے میں کہا۔

’’شو شو ابھی تک نہیں آئی۔ ‘‘

’’تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔ میرے سر پر نمدہ باندھ دیجیے۔ تو میں ابھی سرکار کے لیے اُسے تلاش کرکے لے آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر یہ کیا حماقت ہے بھئی۔ تم تماشا بھی دیکھنے دو گے یا کہ نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر جناب یہ تو بتائیے۔ اگر وہ یہاں موجود بھی ہو تو آپ اس سے ملاقات کیونکر کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آپ کوئی امریکی ناول نہیں پڑھ رہے۔ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے! عباس میری بات فوراً سمجھ گیا۔ وہ اتنا بے وقوف نہیں تھا۔ چنانچہ ہم دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھائے گلی سے نکل کر بازار میں چلے گئے۔ موڑ پر رام بھروسے پنواڑی کی دکان کُھلی تھی۔ جو بجلی کے قمقمے کے نیچے سرجھکائے اُونگھ رہا تھا۔ ہم نے اس سے دو پان بنوائے اور وہیں بازار میں کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔ دیر تک ہم ہندوستان میں مرد عورت کے درمیان جو اجنبیت چلی آ رہی ہے۔ اس کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ جب ایک بج گیا تو عباس جمائی لے کر اُٹھا اور کہنے لگا۔ بھئی اب نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ اس حسرت کو ساتھ لیے جا رہا ہوں کہ شو شو کو نہ دیکھ سکا۔ سچ کہتا ہوں امین وہ لڑکی۔۔۔۔۔۔۔ میں اب تمہیں کیا بتاؤں کہ وہ کیا ہے؟‘‘

عباس نے اپنے گھر کا رخ کیا اور میں نے اپنے گھر کا۔ راستے میں سوچتا رہا کہ عباس نے شو شو جیسی معمولی لڑکی میں ایسی کونسی غیر معمولی چیز دیکھی ہے جو ہر وقت اسی کا ذکر کرتا رہتا ہے۔ عباس کے مذاق کے متعلق میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بڑا اونچا ہے۔ مگر یہاں اسے کیا ہو گیا تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شو شو۔۔۔۔ شوشو۔۔۔۔۔ ارے یہ کیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ دو تین بار اس کا نام میری زبان پر آیا۔ تو میں نے یوں محسوس کیا کہ پیپر منٹ کی گولیاں چُوس رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ شو شو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو مرتبہ آپ بھی اسے دوہرایئے۔ ذرا جلدی جلدی۔۔۔۔۔ کیا آپ کو لذّت محسوس ہوئی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرور ہوئی ہو گی مگر کیوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں عباس کی محبوبہ شو شو کے بارے میں خوامخواہ کیوں غور کرنے لگاہوں؟ اس میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو غیر افروز ہو مگر۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ یہ شو شو نام میں دلچسپی ضرور تھی۔ اور کیا کہا تھا میں نے لذت بھی!‘‘

شو شو میں بانجو کے تھرکتے ہوئے تاروں کی جھنکار سی پائی جاتی ہے۔ آپ یہ نام پکارئیے تو ایسا معلوم ہو گا کہ آپ نے کسی ساز کے تنے ہوئے تاروں پر زور سے گز پھیر دیا ہے۔ شو شو۔۔۔۔۔۔۔۔ سو شیلا کا دوسرا نام ہے۔ یعنی اس کی بگڑی ہوئی شکل مگر اس کے باوجود اس میں کتنی موسیقی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سو شیلا۔۔۔۔۔۔۔۔ شو شو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔ سو شیلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلط۔۔۔۔۔۔۔ سو شیلا میں شوشو کی سی موسیقیت ہر گز نہیں ہو سکتی! فرنگی شاعر بائرن شکیل تھا۔ مگر اس میں وہ کون سی شے تھی۔ جو عورتوں کے سینے میں ہیجان برپا کر دیتی تھی؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اُس کا لنگڑا کر چلنا۔ گریٹا گاریو قطعاً خوش شکل نہیں ہے۔ مگر اس میں کون سی چیز ہے جو فلمی تماشائیوں پر جادو کا کام کرتی ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ اُس کا ذرا بگڑے ہوئے انگریزی لہجے میں باتیں کرنا۔۔۔۔۔۔یہ کیا بات ہے کہ بعض اوقات اچھی بھلی شے کو بگاڑنے سے اُس میں حسن پیدا ہو جاتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوشیلا پندرہ برس کی ایک معمولی لڑکی ہے۔ جو ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔ اس عمر میں ان تمام چیزوں کی مالک ہے۔ جو عام نوجوانوں کے سینے میں ہلچل پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ مگر عباس کی نظروں میں یہ کوئی خوبی نہ تھی۔ عام نوجوانوں کی طرح عباس کا دل گھاس کی پتی کے مانند نہیں تھا۔ جو ہوا کے ہلکے سے جھونکے کے ساتھ ہی کانپنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ خدا جانے وہ اس کی کس ادا پر مرتا تھا۔ جو میرے ذہن سے بالا تر تھی۔ میں نے سوشیلا کی شکل وصورت اور اس کی صناعانہ قدروقیمت کے متعلق کبھی غور نہیں کیا تھا۔ مگر نہ جانے میں اُس روز اس کے متعلق کیوں سوچتا رہا۔ بار بار وہ میرے ذہن میں آ رہی تھی۔ اور ہر بار میں سوشیلا کو چھوڑ کر اس کے مختصر نام شوشو کی موسیقی میں گم ہو جاتا تھا۔ انہی خیالات میں غرق گلی کے موڑ پر پہنچ گیا۔ اور مجھے اس چیز کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے دفعتہ وہاں کی فضا کو غیر معمولی طور پر خاموش پایا۔ مکان میری نظروں کے سامنے تھا۔ اس کے باہر گلی کی دیوار کے ساتھ ایک برقی قمقمہ لٹک رہا تھا۔ جس کی چوندھیا دینے والی روشنی ساری گلی میں بکھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس قمقمے کے

’’تجرد‘‘

پر بڑا ترس آیا۔ گلی بالکل سنسان تھی۔ اور وہ قمقمہ متحیّر معلوم ہوتا تھا۔ گھر میں داخل ہُوا۔ تو وہاں بھی خاموشی تھی۔ البتہ کبھی کبھار کسی بچے کے رونے کی لرزاں صدا اور پھر ساتھ ہی اس کی ماں کی خواب آلود آواز سنائی دیتی تھی۔ ڈیوڑھی کے ساتھ والا کمرہ کھول کر میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ پاس ہی تپائی پر

’’رومان‘‘

پڑا تھا۔ اُس کو اٹھا کرمیں نے ورق گردانی شروع کی۔ ورق الٹتے الٹتے اختر کی غزل پر نظریں جم گئیں۔ مطلع کس قدر حسین تھا۔ ؂ نہ بھولے گا ترا راتوں کو شرماتے ہُوئے آنا رسیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہُوئے آنا مجھے نیند آ گئی۔ کلاک کی طرف دیکھا۔ تو چھوٹی سوئی دو کے ہندسے کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اور اس کا اعلان کرنے کے لیے الارم میں ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ ٹن نن نن۔۔۔۔۔۔۔ ٹن نن نن۔۔۔۔۔۔۔ ن! دو بج گئے۔۔۔۔۔۔۔ میں اُٹھا اور سونے کے ارادے سے سیڑھیاں طے کرکے اپنی خوابگاہ میں پہنچا۔ بہار کے دن تھے۔ اور موسم خنک۔ میری خوابگاہ کی ایک کھڑکی باہر کی گلی میں کھلتی ہے۔ جس کے پیازی رنگ کے ریشمی پردے میں ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے بڑی پیاری لہریں پیدا کر رہے تھے۔ میں نے شب خوابی کا لباس پہنا اور سبز رنگ کا قمقمہ روشن کرکے بستر پر لیٹ گیا۔ میری پلکیں آپس میں ملنے لگیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں دُھنکی ہوئی روئی کے بہت بڑے انبار میں دھنسا جا رہا ہوں۔ نیند اور بیداری کے درمیان ایک لحظہ باقی رہ گیا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی کے بولنے کی گنگناہٹ آئی۔ اس پر ملتی ہوئی پلکیں کھل گئیں۔ اور میں نے غنودگی دُور کرتے ہُوئے غور سے سننا شروع کیا۔ ساتھ والے کمرے میں کوئی بول رہا تھا۔ یکایک کسی کی دلکش ہنسی کی ترنم آواز بلند ہوئی۔ اور پھلجھڑی کے نورانی تاروں کے مانند پُرسکوت فضا میں بکھر گئی۔ میں بستر پر سے اُٹھا اور دروازے کے ساتھ کان لگا کر کھڑا ہو گیا۔

’’دونوں دُلہنیں ماشاء اللہ بڑی خوبصورت ہیں۔ ‘‘

’’چندے آفتاب چندے ماہتاب‘‘

غالباً دو لڑکیاں آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ ان کے موضوع نے میری دلچسپی کو بڑھا دیا۔ اور میں نے زیادہ غور سے سُننا شروع کیا۔

’’تِلّے والی سُرخ ساڑھی میں نرگس کتنی بھلی معلوم ہوتی تھی۔۔۔۔۔ گورے گورے گالوں پر بکھری ہوئی مقیش۔۔۔۔۔۔۔۔ جی چاہتا تھا۔ بڑھ کر بلائیں لے لوں۔ ‘‘

’’بچاری سمٹی جا رہی تھی۔ ‘‘

’’سر تو اٹھایا ہی نہیں اُس نے۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔‘‘

’’پر یہ شرم و حیا کب تک رہے گی۔۔۔۔۔۔ آج رات۔۔۔۔۔‘‘

’’آج رات۔۔۔۔۔!

’’اُوئی اللہ۔۔۔۔۔ تو کیسی باتیں کر رہی ہے شوشو۔ اس کے ساتھ ہی کپڑے کی سرسراہٹ سُنائی دی۔ میرے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی۔۔۔۔۔۔ شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان میں سے ایک سوشیلا بھی تھی۔ میری دلچسپی اور بھی بڑھ گئی اور میں نے دروازے میں کوئی دراڑ تلاش کرنا شروع کی۔ کہ ان کی گفتگو کے ساتھ ساتھ ان کو دیکھ بھی سکوں۔ ایک کواڑ کے نچلے تختے سے چھوٹی سی گانٹھ نکل گئی تھی۔ اور اس طرح چونی کے برابر سوراخ پیدا ہو گیا تھا۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میں نے اس پر آنکھ جما دی۔ شو شو قالین پر بیٹھی بسکٹی رنگ کی ساڑھی سے اپنی ننگی پنڈلی کو ڈھانک رہی تھی۔ اس کے پاس عفّت شرمائی ہوئی سی گاؤ تکیے پر دونوں کہنیاں ٹیکے لیٹی تھی۔

’’اس وقت اُن گوری چٹی دلہنوں پر کیا بیت رہی ہو گی؟‘‘

شوشو یہ کہہ کر رُک گئی اور اپنی آواز دبا کر اُس نے عفّت کی چوڑیوں کو چھیڑ کر ان میں کھنکھناہٹ پیداکرتے ہوئے کہا۔

’’ذرا سوچو تو؟‘‘

عفت کے گال ایک لمحے کے لیے تھرتھرائے۔

’’کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو شوشو۔ ‘‘

’’جی ہاں۔۔۔۔۔۔ گویا ان باتوں سے دلچسپی نہیں میری بنّو کو۔ بس میں ہو تو ابھی سے ابھی اپنی شادی رچالو۔ ‘‘

عفّت نے سوشیلا کی بات کاٹ دی۔

’’پر یہ دلہنوں کو کہاں لے گئے ہیں شوشو؟‘‘

’’کہاں لے گئے ہیں؟‘‘

شوشو مسکرائی۔

’’سمندر کی تہ میں جہاں جل پریوں کا راج ہے۔۔۔۔۔ کوہ قاف کے غاروں میں جہاں سینگوں والے جنّ رہتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘

چند لمحات کے لیے ایک پُر اسرار سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد شوشو پھر بولی۔

’’کہاں لے گئے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔ لے گئے ہونگے اپنے اپنے کمروں میں!‘‘

’’بیچاریوں کو نیند کیسے آئے گی؟‘‘

ایک لڑکی نے جو ابھی تک خاموش بیٹھی تھی اور جس کا نام میں نہیں جانتا تھا۔ اپنا اندیشہ ظاہر کیا۔ شوشو کہنے لگی۔

’’بے چاریاں!۔۔۔۔۔۔ کوئی ذرا ان کے دل سے جا کر پوچھے کہ ان کی آنکھیں اس رت جگے کے لیے کتنی بے قرار تھیں؟‘‘

’’تو بہت خوش ہوں گی؟‘‘

’’اور کیا؟‘‘

’’پر میں نے یہ سُنا ہے کہ یہ لوگ بہت ستایا کرتے ہیں؟‘‘

عفّت سوشیلا کے پاس سرک آئی۔

’’میں پوچھتی ہوں‘‘

تمہیں اندیشہ کس بات کا ہو رہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ جب تمہارے وہ ستانے لگیں گے تو نہ ستانے دینا انھیں۔۔۔۔۔۔ ہاتھ پیر باندھ دینا اُن کے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی سے فکر میں کیوں گھلی جا رہی ہو۔ ‘‘

’’ہائیں ہائیں۔ ‘‘

عفّت نے تیزی سے کہا۔

’’تم کیسی باتیں کر رہی ہو شوشو۔ دیکھو تو میرا دل کتنے زور سے دھڑکنے لگا ہے‘‘

!؟ عفّت نے سوشیلا کا ہاتھ اٹھا کر دل کے مقام پر رکھ دیا۔

’’کیوں؟‘‘

شوشو نے عفّت کے دل کی دھڑکنیں غور سے سُنیں۔ اور بڑے پُر اسرار لہجے میں کہا۔

’’جانتی ہوں کیا کہہ رہا ہے؟‘‘

عفت نے جواب دیا۔

’’نہیں تو؟‘‘

’’یہ کہتا ہے عفت بانو غزنوی دُلہن بننا چاہتی ہے!۔۔۔۔۔۔‘‘

’’ہٹاؤ جی، لاج تو نہیں آتی تمہیں۔

’’عفت نے مسکرا کر کروٹ بدلی۔ ‘‘

دل اپنا چاہتا ہے تمہارا اور خواہ مخواہ یہ سب کچھ میرے سر منڈھ رہی ہو۔ ‘‘

پھر یکا یک اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اور سوشیلا سے پوچھنے لگی۔ ‘‘

ہاں، یہ تو بتاؤ شوشو تم بھلا کیسے آدمی سے شادی کرنا پسند کرو گی؟ ۔۔۔۔۔۔ میرے سر کی قسم، سچ سچ بتاؤ۔ مجھی کو ہائے ہائے کرو۔ اگر جھوٹ بولو!‘‘

میں کیوں بتاؤں۔ ‘‘

یہ کہہ کر سوشیلا نے تیزی سے اپنے سر کو حرکت دی۔ اور اس کا چہرہ (جو میری) نگاہوں سے پوشیدہ تھا، سامنے آگیا، میں نے غور سے دیکھا وہ مجھے بے حد حسین معلوم ہوئی۔ آنکھیں مست تھیں۔ اور ہونٹ تلوار کے تازہ زخم کے مانند کھلے ہُوئے تھے۔ سرکے چند پریشان بال برقی روشنی سے منّور فضا میں ناچ رہے تھے۔ چہرے کا گندمی رنگ نکھرا ہُوا تھا۔ اور سینہ پر سے ساڑھی کا پلّو نیچے ڈھلک گیا تھا۔ ہولے ہولے دھڑک رہا تھا۔ چوڑے ماتھے پر سرخ بندیا بڑی پیاری معلوم ہوتی تھی۔ عفّت نے اصرار کیا۔

’’تمہیں میرے سر کی قسم بتاؤ؟‘‘

شوشو نے کہا۔

’’پہلے تم بتاؤ۔ ‘‘

’’تو سنو، مگر کسی سے کہو گی تو نہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر عفّت کچھ شرما سی گئی۔ میں چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ میری شادی ایک ایسے نوجوان سے ہو۔۔۔۔۔۔۔ ایسے۔۔۔۔۔‘‘

شوشو بولی۔

’’توبہ اب کہہ بھی دو۔ ‘‘

عفّت نے پیشانی پر سے بال ہٹائے اور کہا‘‘

ایسے نوجوان سے ہو جس کا قد لمبا ہو جسم بڑے بھائی کی طرح سڈول ہو۔ انگلینڈ ریٹرنڈ ہو۔ انگریزی فرفر بولتا ہو۔۔۔۔۔۔ رنگ گورا اور نقش تیکھے ہوں۔ موٹر چلانا جانتا ہو۔ اور بیڈمنٹن بھی کھیلتا ہو۔ ‘‘

شوشو نے پوچھا۔

’’بس کہہ چکیں؟‘‘

’’ہاں عفّت نے نیم وا لبوں سے سوشیلا کی طرف غور سے دیکھنا شروع کیا۔

’’میری دعا ہے کہ پرماتما تمہیں ایسا ہی پتی عطا فرمائیں‘‘

سوشیلا کا چہرہ بڑا سنجیدہ تھا۔ اور لہجہ ایسا تھا۔ جیسے مندر میں کوئی مقدس منتر پڑھ رہی ہے۔ وہ لڑکی جو گفتگو میں بہت کم حصّہ لیتی تھی۔ بولی

’’عفّت! اب شوشو کی باری ہے۔ ‘‘

عفّت جو شوشو کی ساڑھی کا ایک کنارہ پکڑ کر اپنی انگلی کے گرد لپیٹ رہی تھی کہنے لگی۔

’’بھئی اب تم بتاؤ ہم نے تو اپنے دل کی بات تم سے کہہ دی۔ ‘‘

شوشو نے جواب دیا۔

’’سُن کے کیا کرو گی؟ ۔۔۔۔۔ میرے خیالات تم سے بالکل مختلف ہیں۔ ‘‘

’’مختلف ہوں یا ملتے ہوں۔ پر ہم سُنے بغیر تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ ‘‘

’’میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

سوشیلا نے چھت کی طرف دیکھا۔ اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی۔

’’میں۔۔۔۔۔۔۔۔ پر تم مذاق اڑاؤ گی عفّت!‘‘

’’ارے۔۔۔۔۔۔ تم سناؤ تو؟‘‘

سوشیلا نے ایک آہ بھری۔

’’میرے سپنے عجیب و غریب ہیں عفّت‘‘

۔۔۔۔۔۔ یہ میرے دماغ میں صابن کے رنگ برنگے بلبلوں کی طرح پیدا ہوتے ہیں۔ اور آنکھوں کے سامنے ناچ کر غائب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ میں سوچتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سوچتی ہُوں کہ میں کیوں سوچا کرتی ہوں۔ انسان جو کچھ چاہتا ہے۔ اگر ہو جایا کرے تو کتنی اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ لیکن پھر زندگی میں کیا رہ جائے گا۔۔۔۔۔۔ خواہشیں اور تمنائیں کہاں سے پیدا ہوں گی۔۔۔۔۔۔۔ ہم جس طرح جی رہے ہیں ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ جانتی ہوں کہ جو کچھ مانگ رہی ہوں۔ نہیں ملے گا۔ مگر دل میں مانگ تو رہے گی۔۔۔۔۔۔ کیا زندہ رہنے کے لیے یہی کافی نہیں؟‘‘

عفّت اور دوسری لڑکی خاموش بیٹھی تھیں۔ شوشو نے پھر کہنا شروع کیا۔

’’میں اپنا جیون ساتھی ایک ایسے نوجوان کو بنانا چاہتی ہوں۔ جو صرف عمر کے لحاظ سے ہی جوان نہ ہو، بلکہ اُس کا دل، اس کا دماغ۔۔۔۔۔۔ اُس کا رؤاں رؤاں جوان ہو۔۔۔۔۔ وہ شاعر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شکل و صورت کی قائل نہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے شاعر چاہیے جو میری محبت میں گرفتار ہو کر سرتاپا محبت بن جائے۔ جس کو میری ہر بات میں حُسن نظر آئے۔۔۔۔۔۔ جس کے ہر شعر میں میری اور صرف میری تصویر ہو۔۔۔۔۔۔۔ جو میری محبت کی گہرائیوں میں گُم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔ میں اسے ان تمام چیزوں کے بدلے میں اپنی نسوانیت کا وہ تخفہ دوں گی۔ جو آج تک کوئی عورت نہیں دے سکی۔ ‘‘

وہ خاموش ہو گئی۔ عفّت حیرت کے مارے اُس کا منہ تکنے لگی۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ سوشیلا کی گفتگو کا کوئی مطلب نہیں سمجھ سکی۔ میں خود متحیّر تھا۔ کہ پندرہ سولہ برس کی اس دُبلی پتلی لڑکی کے سینے میں کیسے کیسے خیالات کروٹیں لے رہے ہیں۔ اس کا ایک ایک لفظ دماغ میں گونج رہا تھا۔

’’اگر وہ مجھے نظر آ جائے‘‘

یہ کہہ کر سوشیلا آگے بڑھی اور عفت کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہنے لگی۔

’’تو میں اس کے استقبال کے لیے بڑھوں اور اس کے ہونٹوں پر وہ بوسہ دوں۔ جو ایک زمانے سے میرے ہونٹوں کے نیچے جل رہا ہے۔ ‘‘

اور شوشو نے عفّت کے حیرت سے کھلے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جما دیے۔۔۔۔۔۔۔ اور دیر تک ان کو جمائے رکھا۔ تعجب ہے کہ عفّت بالکل ساکت بیٹھی رہی۔ اور معترض نہ ہوئی۔ جب دونوں کے لب ایک مدھّم آواز کے جُدا ہُوئے اور ان کے چہرے مجھے نظر آئے۔ تو ایک عجیب و غریب نظارہ دیکھنے میں آیا۔ جس کو الفاظ بیان ہی نہیں کر سکتے۔ عفّت اُس شہد کی مکھی کی طرح مسرور متعجب معلوم ہوتی تھی جس نے پہلی مرتبہ پھول کی نازک پتیوں پر بیٹھ کر اس کا رس چوسنے کی لذت محسوس کی ہو۔۔۔۔۔ اور سوشیلا۔۔۔۔۔ وہ اور زیادہ پر اسرار ہو گئی تھی۔

’’آؤ اب سوئیں۔ ‘‘

یہ خواب آلود اور دھیمی آواز عفت کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی کپڑوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی اور میں خیالات کے گہرے سمندر میں غوطہ لگا گیا۔ گندمی رنگ کی ننھی سی گڑیا، اپنے چھوٹے سے دماغ میں کیسے کیسے انوکھے خیالات کی پرورش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اور وہ کون سا تحفہ اپنے دامنِ نسوانیت میں چھپائے بیٹھی تھی۔ جو آج تک کوئی عورت مرد کو پیش نہیں کر سکی؟ ۔۔۔۔۔۔ میں نے سوراخ میں سے دیکھا۔ شوشو۔ اور عفت دونوں ایک دوسری کے گلے میں باہیں ڈالے سو رہی تھیں۔ شوشو کے چہرے پر بال بکھرے ہُوئے تھے۔ اور اس کے سانس سے ان میں خفیف سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔ وہ کس قدر تروتازہ معلوم ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔ واقعی وہ اس قابل تھی کہ اس پر شعر کہے جائیں۔۔۔۔۔ لیکن عباس تو شاعر نہیں تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ پھر پھر۔۔۔۔۔!

سعادت حسن منٹو

شلجم

کھانا بھجوا دو میرا۔ بہت بھوک لگ رہی ہے‘‘

’’تین بج چکے ہیں اس وقت آپ کو کھانا کہاں ملے گا۔ ؟

’’تین بج چکے ہیں تو کیا ہوا۔ کھانا تو بہر حال ملنا ہی چاہیے۔ آخر میرا حصہ بھی تو اس گھر میں کسی قدر ہے۔

’’کس قدر ہے۔ ‘‘

’’تو اب تم حسابدان بن گئیں جمع تفریق کے سوال کرنے لگیں مجھ سے‘‘

’’جمع تفریق کے سوال نہ کروں تو یہ گھر کب کا اُجڑ گیا ہوتا۔ ‘‘

’’کیا بات ہے آپ کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے کھانا ملے گایا نہیں‘

’’آپ ہر روز تین بجے آئیں تو کھانا خاک ملے گا۔ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ اگر آپ اس وقت کسی ہوٹل میں جائیں تو وہاں سے بھی آپ کو دال روٹی نہیں مل سکے گی مجھے آپ کا یہ وطیرہ ہرگز پسند نہیں‘‘

’’کون سا وطیرہ۔ ‘‘

’’یہی کہ آپ تین بجے تشریف لائے ہیں کھانا پڑا جھک مارتا رہتا ہے میں الگ انتظار کرتی رہتی ہوں مگر آنجناب خدا معلوم کہاں غائب رہتے ہیں‘‘

’’بھئی دنیا میں انسان کو کئی کام ہوتے ہیں میں صرف دو دن ہی تو ذرا دیر سے آیا۔

’’ذرا دیر سے۔ ؟ ہر خاوند کو چاہیئے کہ وہ گھر میں بارہ بجے موجود ہو تاکہ اسے 1 بجے تک کھانا مل جائے ٗ اس کے علاوہ اسے اپنی بیوی کا تابع فرمان ہونا چاہیے اس لیے یہی بہتر ہے کہ وہ کسی ہوٹل میں جا رہے جہاں کے تمام نوکر اور بہرے اس کے تابع فرمان ہوں۔

’’آپ کا ارادہ تو یہی ہے جب ہی تو آپ کئی دن سے پر تول رہے ہیں میںآپ سے کہتی ہوں ابھی چلے جائیے۔

’’کھانا کھائے بغیر۔ ‘‘

’’جائیے ہوٹل میں آپ کو مل جائے گا۔

’’لیکن تم نے تو ابھی کہا تھا کہ اس وقت کسی ہوٹل میں بھی دال روٹی نہیں ملے گی بات کر کے بھول جاتی ہو۔ ‘‘

’’میرا دماغ خراب ہو چکا ہے بلکہ کر دیا گیا ہے‘‘

’’یہ تو صحیح ہے کہ تمہارا دماغ خراب ہے لیکن یہ خرابی کس نے پیدا کی‘‘

’’خدا نہ کرے تم مرد۔ لیکن مجھے یہ تو بتاؤ‘‘

میرے بغیر تمہارا گزارہ کیسے ہو گا۔ ‘‘

’’میں اپنی موٹر بیچ لُوں گی۔ ‘‘

اس سے تمھیں کتنا روپیہ مل جائے گا۔ ‘‘

’’چھ سات ہزار تو مل ہی جائیں گے‘‘

ان چھ سات ہزار روپوں میں تم کتنے عرصہ تک اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکو گی۔

’’میں آپ کی طرح لکھ لُٹ اور فضول خرچ نہیں آپ دیکھیے گا میں ان روپوں میں ساری عُمر گزار دُوں گی میرے بال بچے اسی طرح پلیں گے جس طرح اب پل رہے ہیں۔ یہ‘‘

’’یہ ترکیب مجھے بھی بتا دو مجھے یقین ہے کہ تمھیں کوئی ایسا منتر ہاتھ آگیا ہے جس سے تم نوٹ دُگنے بنا سکتی ہو ہر روز بٹوے سے نوٹ نکالے ان پر منتر پھونکا اور وہ دُگنے ہو گئے۔

’’آپ میرا مذاق اُڑا تے ہیں۔ شرم آنی چاہیے آپ کو۔

’’چلو ہٹاؤ اس قصے کو۔ کھانا دو مجھے۔ ‘‘

’’کھانا آپ کو نہیں ملے گا۔ ‘‘

’’بھئی آخر کیوں۔ میرا قصور کیا ہے‘‘

’’آپ کے قصور اور آپ کی خطائیں اگر میں گنوانا شروع کروں تو میری ساری عمر بیت جائے۔

’’آپ نے اور کس نے میری جان کا روگ بنے ہوئے ہیں مجھے نہ رات کا چین نصیب ہے نہ دن کا۔ دن کا تم چھوڑو رات کا چین آپ کو نصیب کیوں نہیں۔ بڑے اطمینان سے سوئی رہتی ہیں جیسے محاورے۔ کے مطابق کوئی گھوڑے بیچ کر سو رہا ہو۔ اپنے گھوڑے بیچ کر آدمی کیسے سو سکتا ہے کتنا واہیات محاورہ ہے‘‘

واہیات ہی سہی لیکن ابھی چند روز ہوئے تم نے گھوڑا اور اس کے ساتھ تانگہ بھی بیچ ڈالا تھا اور اُس دن تم رات بھر خراٹے لیتی رہی تھیں۔ مجھے تانگہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی، جب کہ آپ نے مجھے موٹر لے دی تھی اور خراٹے بھرنے کا الزام بھی غلط ہے۔

’’محترمہ جب آپ خواب خرگوش میں تھیں تو آپ کو کیسے پتہ چلتا کہ آپ خراٹے لیتی ہیں بخدا اس رات میں بالکل نہ سو سکا۔

’’اس کا اوّل جھوٹ اور اس کا آخر جھوٹ‘‘

’’چلیے تمہاری خاطر اب مان لیا۔ اب کھانا دو۔ ‘‘

’’کھانا نہیں ملے گا آج۔ آپ کسی ہوٹل میں جائیے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ وہیں بسیرا کر لیجیے۔

’’تم کیا کروگی۔ ‘‘

’’میں۔ میں مرتو نہیں جاؤں گی آپ کے بغیر۔ ‘‘

’’دیکھو بیگم اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ اگر تم نے کھانا نہ دیا تو میں اس گھر کو آگ لگا دُوں گا غضب خدا کا میرے پیٹ کا بھوک کے مارے بُرا حال ہو گیا ہے اور تم واہی تباہی بک رہی ہو مجھے کل اور آج ایک ضروری کام تھا اس لیے مجھے دیر ہو گئی اور تم نے مجھ پر الزام دھر دیا کہ میں ہر روز دیر سے آتا ہوں کھانا دو مجھے ورنہ۔ ‘‘

’’آپ مجھے ایسی دھونس نہ دیں، کھانا نہیں ملے گا آپ کو‘‘

’’یہ میرا گھر ہے میں جب چاہوں آؤں جب چاہوں جاؤں تم کون ہو کہ مجھ پر ایسی سختیاں کرو میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ تمہارا یہ مزاج تمہارے حق میں اچھا ثابت نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’آپ کا مزاج میرے حق میں تو بڑا اچھا ثابت ہوا ہے۔ دن رات کڑھ کڑھ کے میرا یہ حال ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’دس پاؤنڈ وزن اور بڑھ گیا ہے بس یہی حال ہوا ہے تمہارا۔ اور میں تمہاری زُود رنج اور چڑ چڑی طبیعت کے باعث بیمارہو گیا ہوں۔ ‘‘

’’کیا بیماری ہے آپ کو۔ ‘‘

’’تم نے کبھی پوچھا ہے کہ میں اس قدر تھکا تھکا کیوں رہتا ہے۔ کبھی تم نے غور کیا کہ سیڑھیاں چڑھتے وقت میرا سانس کیوں پھول جاتا ہے۔ کبھی تم کو اتنی توفیق ہوئی کہ میرا سر ہی دبائیں جو اکثر درد کے باعث پھٹنے کے قریب ہوتا ہے تم عجیب قسم کی رفیقہ ءِ حیات ہو‘‘

’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ایسا خاوند میرے پلے باندھ دیا جائے گا تو میں نے وہیں اپنے گھر پر ہی زہر پھانک لیا ہوتا۔ ‘‘

’’زہر تم اب بھی پھانک سکتی ہو۔ کہو تو میں ابھی لا دُوں‘‘

’’لے آئیے۔ ‘‘

’’لیکن مجھے پہلے کھانا کھلا دو‘‘

’’میں کہہ چکی ہوں وہ نہیں ملے گا آپ کو آج‘‘

’’کل سے تو خیر مل ہی جائے گا۔ اس لیے میں کوشش کرتا ہوں‘‘

’’آپ کیا کوشش کیجیے گا۔ ‘‘

’’خانساماں کو بُلاتا ہوں‘‘

’’آپ اُسے نہیں بلا سکتے۔ ‘‘

’’کیوں۔ ؟‘‘

’’بس میں نے کہہ جو دیا کہ آپ کو ان معاملوں میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں‘‘

’’حد ہو گئی۔ اپنے گھر میں اپنے خانساماں کو بھی نہیں بلا سکتا۔

’’نو کر کہاں ہے۔ ‘‘

’’جہنم میں۔ ‘‘

’’اس وقت میں بھی اُسی جگہ ہوں لیکن میں اس کو دیکھ نہیں پاتا ادھر ہٹو ذرا میں اسے تلاش کروں شاید مل جائے۔ ‘‘

’’اس سے کیا کہنا ہے آپ کو۔ ؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ صرف اتنا کہوں گا کہ تم علیحدہ ہو جاؤ تمہارے بدلے میں اس گھر کی نوکری خود کیا کروں گا۔ ‘‘

’’آپ کر چکے۔ ‘‘

’’سلام حضور۔ بیگم صاحب سالن تیار ہے صاحب لگا دُوں ٹیبل پر۔ ‘‘

’’تم دُور دفعان ہو جاؤ یہاں سے‘‘

’’لیکن بیگم صاحب آپ نے صبح جب خود باورچی خانے میں شلجم پکائے تو وہ سب کے سب جل گئے کہ آنچ تیز تھی اس کے بعد آپ نے آرڈر دیا کہ صاحب دیر سے آئیں گے اس لیے تم جلدی جلدی کوئی اور سالن تیار کر لو سو میں نے آپ کے حکم کے مطابق دو گھنٹوں کے اندر اندر دو سالن تیار کرلیے ہیں اب فرمائیں ٹیبل لگا دوں دونوں انگیٹیھوں پر دھرے ہیں ایسا نہ ہو آپ کے شلجموں کی طرح جل کر کوئلہ ہو جائیں۔ میں جاتا ہوں آپ جب بھی آرڈر دیں گی خادم ٹیبل لگا دے گا۔ ‘‘

’’تو یہ بات تھی۔ ‘‘

’’کیا بات تھی۔ میں اتنی دیر تک باورچی خانے کی گرمی میں جھلستی رہی اس کا آپ کو کچھ خیال ہی نہیں۔ آپ کو شلجم پسند ہیں تو میں نے سوچا خود اپنے ہاتھ سے پکاؤں کتاب ہاتھ میں تھی جس میں ساری ترکیب لکھی ہوئی تھی۔ کتاب پڑھتے پڑھتے میں سو گئی اور وہ کم بخت شلجم جل بھُن کر کوئلہ بن گئے۔ اب اس میں میرا کیا قصور ہے۔ ‘‘

’’کوئی قصور نہیں۔ ‘‘

’’چلیے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں‘‘

’’یہاں تو بڑے بڑے مگر مچھ دوڑ رہے ہیں‘‘

’’ہر بات میں مذاق۔ ‘‘

’’مذاق برطرف۔ ذرا ادھر آؤ۔ میں تمہارے شلجم دیکھنا چاہتا ہوں۔ کہیں وہ بھی کوئلہ نہیں بن گئے۔ ‘‘

’’کھانا کھانے کے بعد دیکھا جائے گا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

شغل

یہ پچھلے دنوں کی بات ہے جب ہم برسات میں سڑکیں صاف کرکے اپنا پیٹ پال رہے تھے۔ ہم میں سے کچھ کسان تھے اور کچھ مزدوری پیشہ، چونکہ پہاڑی دیہاتوں میں روپے کا منہ دیکھنا بہت کم نصیب ہوتا ہے۔ اس لیے ہم سب خوشی سے چھ آنے روزانہ پر سارا دن پتھر ہٹاتے رہتے تھے۔ جو بارشوں کے زور سے ساتھ والی پہاڑیوں سے لڑھک کر سڑک پر آ گرتے تھے۔ پتھروں کو سڑک پر سے پرے ہٹانا تو خیر اک معمولی بات تھی۔

ہم تو اس اُجرت پر ان پہاڑیوں کو ڈھانے پر بھی تیار تھے۔ جو ہمارے گردوپیش سیاہ اور ڈراؤنے دیوؤں کی طرح اکڑی کھڑی تھیں۔ دراصل ہمارے بازوسخت سے سخت مشقت کے عادی تھے۔ اس لیے یہ کام ہمارے لیے بالکل معمولی تھا۔ البتہ جب کبھی ہمیں سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے پتھر کاٹنا ہوتے، تو رات کو ہمیں بہت تکان محسوس ہوتی تھی۔ پٹھے اکڑ جاتے اور صبح کو بیدار ہوتے وقت ایسا محسوس ہوتا کہ وہ تمام پتھر جنھیں ہم گزشتہ روز کاٹتے اور پھوڑتے رہے ہیں۔ ہمارے جسموں پر بوجھ ڈالے ہوئے ہیں۔ مگر ایسا کبھی کبھی ہوتا تھا۔ ہمارا کام جو روز صبح سات بجے شروع ہوتا تھا۔ جب طلوع ہوتے ہوئے سورج کی طلائی کرنیں چیڑ کے دراز قد درختوں سے چھن چھن کر ہمارے پاس والے نالے کے خشم آلود پانی سے اٹکھیلیاں کر رہی ہوتیں۔ اور آس پاس کی جھاڑیوں میں ننھے ننھے پرندے اپنے گلے پھلا پھلا کر چیخ رہے ہوتے۔ یوں کہیے کہ ہم قدرت کو اپنے خواب سے بیدار ہوتا دیکھتے تھے۔ صبح کی ہلکی پھلکی ہوا میں شبنم آلود سبز جھاڑیوں کی دلنواز سرسراہٹ نانے میں سنگریزوں سے کھیلتے ہُوئے کف آلود پانی کا شور۔ اور برسات کے پانی میں بھیگی ہُوئی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو، چند ایسی چیزیں تھیں۔ جو ہمارے سنگین سینوں میں ایک ایسی طاقت پیدا کر دیتی تھیں۔ جو زندگی کے اس دوزخ میں ہمیں بہشت کے خواب دکھانے لگتی۔ ہمیں ہر روز بارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا۔ یعنی سارا دن ہم سڑک کی موریوں اور پتھروں کو صاف کرتے رہتے تھے۔

یہ کام دلچسپ نہ تھا۔ مگر ہم نے اس کی ناخوشگوار یک آہنگی کو دور کرنے کے لیے ایک طریقہ ایجاد کر لیا تھا جب ہم سب اس پہاڑی کے نیچے جمع شدہ ملبے کو اپنے بیلچوں سے ہٹا رہے ہوتے جس کے سنگریزے ہر وقت سڑک پر گرتے رہتے تھے۔ تو ہم ایک سُر میں کوئی پہاڑی گیت شروع کر دیتے، ملبے کے پتھروں سے ٹکرا کر ہمارے بیلچوں کی جھنکار اس گیت کی تال کا کام دیتی تھی۔ یہ گیت اس افسردگی کو دُور کر دیتا، جو یہ غیر دلچسپ کام کرنے سے ہمارے دلوں میں پیدا ہو جاتی ہے۔ جب تک اُس کے سُر ہماری چوڑی چھاتیوں میں سے نکلتے رہتے ہم محسوس تک نہ کرتے کہ اس دوران ہم نے ملبے کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو صاف کر لیا ہے۔ موٹر لاریوں کی آمدورفت سے بھی ہمارا دل بہلا رہتا تھا۔ جو رنگ برنگ مسافروں کو کشمیر سے واپس یا کشمیر کی طرف لے جاتی رہتی تھیں۔ جب کبھی کوئی لاری ہمارے پاس سے گزرتی تو ہم کچھ عرصہ کے لیے اپنی جھکی ہوئی کمریں سیدھی کرکے سڑک کے ایک طرف کھڑے ہو جاتے اور زمین پر اپنے بیلچے ٹیک کر اس کو سامنے والے موڑ کے عقب میں گُم ہوتے دیکھتے رہتے۔ ان لاریوں کو اتنی دور تک دیکھتے رہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تھوڑا سستا لیں۔ مگر بعض اوقات ان لاریوں کی شاندار اسباب سے لدی ہوئی چھتیں اور ان کی کھڑکیوں سے مسافروں کے لہراتے ہوئے ریشمی کپڑوں کی ایک جھلک ہمارے دلوں میں ایک ناقابل بیان تلخی پیدا کر دیتی تھی۔ اور ہم اپنے آپ کو ان پتھروں کی طرح فضول اور ناکارہ تصّور کرنے لگتے تھے۔ جن کو ہمارے بیلچوں کے دھکّے ادھر اُدھر ٹپکتے رہتے تھے۔ ان مسافروں کے طرح طرح کے لباس دیکھ کر جن پر یقیناًبہت سے روپے صرف آئے ہوں گے۔ ہم غیر ارادی طور پر اپنے کپڑوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے تھے۔ ہم میں سے اکثر کا لباس پٹّو کے تنگ پائجامے، گاڑھے کی قمیض اور لدھیانے کی صدری پر مشتمل تھا۔ سب کے پائجامے یا تو گھٹنوں پر سے گِھس گِھس کر اتنے باریک ہو گئے تھے کہ ان میں جسم کے بالوں کی پوری نمائش ہوتی تھی یا بالکل پھٹے ہوئے تھے۔ قمیضوں اور صدریوں کی بھی یہی حالت تھی۔ ان پر جگہ جگہ مختلف رنگ کے پیوند لگے ہوئے تھے۔ قریب قریب ہم سب کی قمیضوں کے بٹن غائب تھے۔ اس لیے سینے عام طور پر کھلے رہتے تھے۔ اور کام کرتے وقت ان پر پسینے کی بوندیں صاف نظر آتی تھیں۔ بارہ بجے کے قریب ہم کام چھوڑ کر کھانے کے لیے سڑک کے نیچے اُتر کر پیڑ کے سائے تلے بیٹھ جاتے تھے۔ یہ کھانا ہم صبح کپڑے میں باندھ کر اپنے ساتھ لاتے تھے۔ ’’تین ڈھوڈے‘‘ (مکی کی موٹی روٹیاں ) اور عام طور پر سرسوں کا ساگ ہوتا تھا جس کو ہم اپنے بھُوکے پیٹ میں ڈالتے تھے۔ کھانے کے بعد ہم پانی عموماً نالے سے پیا کرتے تھے۔ اور جس روز بارش کی زیادتی کے باعث اس کا پانی زیادہ گدلا ہو جائے تو ہم دُور سڑک کے اُس پار چلے جایا کرتے تھے جہاں صاف پانی کا ایک چشمہ پھوٹتا ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم فوراً کام شروع کر دیتے تھے۔

مگر ہمارا جی چاہتا تھا کہ نرم نرم گھاس پر لیٹ کر تھوڑی دیر سستا لیں اور پھر کام شروع کریں۔ مگر یہ کیونکر ہو سکتا تھا جب کہ ہمیں ہر وقت اس بات کا خیال رہتا تھا۔ کہ پورا کام کیے بغیر اُجرت نہ ملے گی۔ ہمارا مطمح نظر کام کرنا اور اس حیلے سے اپنا پیٹ پالنا تھا۔ اور چونکہ ہمیں معلوم تھا کہ ہم میں سے کسی نے اگر اپنے کام میں ذرا سی سُست رفتاری یا بے دلی کا اظہار کیا تو تاش کی گڈی سے ناکارہ جوکر کی طرح باہر پھینک دیا جائے گا۔ اس لیے ہم دل لگا کر کام کیا کرتے تھے تاکہ ہمارے افسروں کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمارے افسر ہم پر بہت خوش تھے۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بڑے آدمی ٹھہرے اس لیے ان کا جائز و ناجائز طور پر خفا ہونا بھی درست ہوتا ہے۔ کبھی یہ لوگ ایسے ہی ہمارے کام کا معائنہ کرتے وقت اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہُوئے ہم پر برس پڑتے تھے۔ لیکن ہم جو ان کی بڑائی کو بخوبی سمجھتے تھے۔ مہاراج، مہاراج کہہ کر ان کا غصّہ سرد کر دیا کرتے۔ ہم جانتے تھے، کہ ان کا غصّہ بالکل بے جا ہے لیکن یہ احساس ہمارے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا نہیں کرتا تھا۔ شاید اس لیے کہ کوزشوں نے ہم کو بالکل مُردہ بنا رکھا ہے۔ یا پھر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم کو یہ خوف دامن گیر رہتا تھا کہ اگر ہم اپنے موجودہ کام سے ہٹا دئیے گئے تو ہماری روزی بند ہو جائے گی۔ ہم اپنے کام سے مطمئن تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم تھوڑی مزدوری اور زیادہ کام کے مسئلے پر بہت کم غور کرتے تھے۔ اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام پڑھے لکھے آدمیوں کا ہے۔ اور ہم بالکل ان پڑھ اور جاہل تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہماری دنیا بالکل الگ تھلگ تھی جس کی سرحدیں پتھر توڑنے یا ان کو ہٹانے، بارہ بجے روٹی کھانے اور پھر کام کرنے اور اس کے بعد اپنے اپنے ڈیروں میں سو جانے تک ختم ہو جاتی تھیں۔ ہمیں ان حدود کے باہر کسی شے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ دوسرے الفاظ میں اپنا اور اپنے متعلقین کا پیٹ پالنے کے دھندے میں ہم کچھ ایسی بُری طرح پھنس کر رہ گئے تھے کہ اس کے باہر نکل کر ہم کسی اور شے کی خواہش کرنا ہی بھول گئے تھے۔ ہمارے کام پر سڑکوں کے محکمے کی طرف سے ایک نگران مقرر تھا۔ جو دن کا بیشتر حصہ سٹرک کے ایک طرف چارپائی بچھا کر بیٹھے رہنے میں وقت گزار دیتا۔ یہ ذات کا پنڈت تھا۔ اونچے طبقے کا امتیازی نشان سیندور کے تلک کی صورت میں ہر وقت اس کی سفید پیشانی پر چمکتا رہتا تھا۔ ہم اپنے نگران کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

اوّل اس لیے کہ وہ برہمن تھا اور دوسرے اس لیے کہ ہم اس کے ماتحت تھے۔ چنانچہ ادھر اُدھر کے دوسرے کاموں کے علاوہ ہم باری باری دن میں کئی بار اس کے پینے کے لیے حُقہ تازہ کیا کرتے تھے اور آگ بنا کر اس کی چلمیں بھرا کرتے تھے۔ پنڈت کا کام صرف یہ تھا کہ صبح چارپائی پر اپنے گیروے رنگ کی کلف لگی پگڑی اور ریشمی کوٹ اتار کر اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے ہماری حاضری لگائے۔ اور پھر ایک بڑے رجسٹر میں کچھ درج کرنے کے بعد ادھر اُدھر ٹہلتا رہے یا حقہ پیتا رہے وہ اپنے کام میں بہت کم دلچسپی لیتا تھا۔ البتہ جب کبھی معائنے کے لیے کسی افسر کی موٹر ادھر سے گزرتی تھی تو وہ اپنی چارپائی اٹھوا ہمارے پاس کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔ اس کی اس چالاکی پر ہم دل ہی دل میں بہت ہنسا کرتے تھے۔ ایک روز جبکہ صبح سے ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ اور ہم بارہ بجے کھانے سے فارغ ہو کر حسبِ معمول اپنے کام میں مشغول تھے۔ موٹر کے ہارن نے ہمیں چونکا دیا لاریوں کی نسبت ہم موٹروں کے دیکھنے کے بہت شائق تھے۔ اس لیے کہ ان میں ہماری بُھوکی نظروں کے دیکھنے کے لیے عجیب و غریب چیزیں نظر آتی تھیں۔ ہم کمریں سیدھی کرکے کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں موٹر کے عقب سے سبز رنگ کی ایک چھوٹی موٹر نمودار ہوئی جب یہ ہمارے قریب پہنچی۔ تو ہم نے دیکھا کہ اس کی باڈی بارش کے ننھے ننھے قطروں کے نیچے چمک رہی ہے بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ شاید اس لیے کہ پچھلی سیٹ پر جو دو صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک اپنی رانوں پر گراموفون رکھے بجا رہے تھے۔ جب یہ موٹر ہمارے مقابل آئی تو ریکارڈ کی آواز سڑک کے ساتھ والی پہاڑی کے پتھروں سے ٹکرا کر فضا میں گونجی۔ کوئی گا رہا تھا۔ نہ میں کسی کا، نہ کوئی میرا چھایا چاروں اور اندھیرا اب کچھ سوجھت ناہیں، موہے اب کچھ آواز میں بے حد درد تھا۔ ایک لمحے کے لیے ایسا معلوم ہوا کہ ہم شاید بحرِ ظلمات میں ڈُوب گئے۔ جب موٹر اپنی نیم وا کھڑکیوں سے اس گیت کے درد ناک سُر بکھیرتی ہوئی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ تو ہم سب نے ایک آہ بھر کر اپنا کام شروع کر دیا۔ شام کے قریب جب سُورج کی سرخ اور گرم ٹکیا پگھلے ہُوئے تانبے کا رنگ اختیار کرکے ایک سیاہ پہاڑی کے پیچے چھپ رہی تھی۔ اور اس کی عنابی کرنیں دراز قد درختوں کی چوٹیوں سے کھیل رہی تھیں۔ سبز رنگ کی وہی موٹر اس طرف سے واپس آتی دکھائی دی۔ جدھر وہ دوپہر کو گئی تھی۔ جب ہم نے اس کے ہارن کی آواز سنی تو کام چھوڑ کر اس کو دیکھنے لگے۔ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی وہ ہمارے آگے سے گزر گئی۔ اور پھر دفعتہ ہم سے آدھی جریب کے فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔ وہ باجا جو اس میں بج رہا تھا۔ خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پچھلی سیٹ سے ایک نوجوان دروازہ کھول کر باہر نکلا، اور اپنی پتلون کو کمر پر سے درست کرتا ہوا ہمارے پاس سے گزرا، اور آہستہ آہستہ اس پل کی طرف روانہ ہو گیا، جو سامنے نالے پر بندھا ہوا تھا۔ یہ خیال کرکے کہ وہ نالے کے پانی کا نظارہ کرنے کے لیے گیا ہے۔ جیسا کہ عام طور پر ادھر سے گزرنے والے مسافر کیا کرتے تھے۔ ہم اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ ابھی ہمیں اپنا کام شروع کیے پانچ منٹ سے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو گا کہ پُل کی طرف سے تالی کی آواز بلند ہُوئی۔ ہم نے مُڑ کر دیکھا۔ پتلون پوش نوجوان سڑک کے ساتھ پتھروں سے چُنی ہوئی دیوار کے پاس کھڑا غالباً موٹر میں اپنے ساتھیوں کو متوجہ کر رہا تھا۔ سنگین منڈیر پر اس نوجوان سے کچھ دُور ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ ہم میں سے ایک نے اپنے بیلچے کو بڑے زور سے موری کی گیلی مٹی میں گاڑتے ہُوئے کہا۔

’’یہ رام دئی ہے‘‘

کالو نے جو اس کے پاس کھڑا تھا۔ دریافت کیا

’’رام دئی؟‘‘

’’سنتو چمار کی لڑکی اور کون؟‘‘

۔ اس کے لہجے میں بیلچے کے لوہے ایسی سختی تھی۔ ہم باقی چار حیران تھے کہ اس گفتگو کا مطلب کیا ہے۔ اگر وہ لڑکی جو منڈیر پر بیٹھی ہے۔ سنتو چمار کی لڑکی ہے، تو کون سی اہم بات ہے، کہ ہمارا ساتھی اس قدر تیز بول رہا ہے۔ ہم غور کر رہے تھے۔ کہ فضل نے جو ہم سب سے عمر میں بڑا تھا۔ اور نماز روزے کا بہت پابند تھا۔ اپنی داڑھی کھجلاتے ہوئے نہایت ہی مفکرانہ لہجے میں کہا:۔

’’دنیا میں ایک اندھیر مچا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ خُدا معلوم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘

یہ سُن کر ہم باقی تین اصل معاملے سے آگاہ ہو کر سب کچھ سمجھ گئے۔ اور اس احساس نے ہمارے دلوں میں غم اور غصّے کی ایک عجیب کیفیت طاری کر دی۔ تالی کی آواز سُن کر موٹر کی پچھلی نشست سے پتلون پوش کے ساتھی نے اپنا سر باہر نکالا۔ اور یہ دیکھ کر کہ اس کا دوست اُسے بلا رہا ہے۔ دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ اور ہمارے قریب سے گزرتا ہوا پُل کی جانب روانہ ہو گیا۔ ہم بیوقوف بکریوں کی طرح اسے اپنے دوست کے پاس جاتا دیکھتے رہے۔ جب پتلون پوش نوجوان کا دوست اس کے پاس پہنچ گیا۔ تو وہ دونوں لڑکی کی طرف بڑھے۔ اور اس سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ یہ دیکھ کر کالو پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔ اور خشم آلود لہجے میں بولا:۔ بدمعاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !‘‘

فضل نے سرد آہ بھری اور مغموم لہجے میں کہنے لگا۔

’’جب سے یہ سڑک بنی ہے۔ اور ایسے بابوؤں کی آمدورفت زیادہ ہو گئی ہے۔ یہاں کے تمام علاقوں میں گندگی پھیل گئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں۔ کہ یہ سڑک بننے سے بہت آرام ہو گیا ہے۔ ہو گا مگر اس قسم کی بے شرمی کے نظارے پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا بچائے!‘‘

اس دوران میں پتلون پوش کے ساتھی نے لڑکی کو بازو سے پکڑ لیا۔ اور غالباً اس کو اُٹھ کر چلنے کے لیے کہا۔ مگر وہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہی۔ یہ دیکھ کر کالو سے نہ رہا گیا اور اس نے رام پرشاد سے کہا

’’آؤ یہ لوگ تو اب دست درازی کر رہے ہیں۔ ‘‘

کالو یہ کہہ کر اکیلا ہی اس جانب بڑھنے کو تھا۔ کہ ہم نے اسے روک دیا، اور یہ مشورہ دیا، کہ تمام معاملہ پنڈت کے گوش گزار کر دیا جائے۔ جو چارپائی پر سو رہا ہے اور پھر جو وہ کہے اس پر عمل کیا جائے۔ اس تجویز کو معقول خیال کرکے ہم سب پنڈت کے پاس گئے اور اسے جگا کر سارا قصّہ سنا دیا۔ اس نے ہماری گفتگو کو بڑی بے پروائی سے سُنا۔ جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ اور ان دو نوجوانوں کی طرف دیکھ کر جو اب رام دئی کو خدا معلوم کس طریقے سے منا کر اپنے ساتھ لا رہے تھے کہا۔

’’جاؤ تم اپنا کام کرو۔ میں ان سے خود دریافت کر لوں گا۔ ‘‘

یہ جواب سن کر ہم بے چارگی کی حالت میں اپنے کام پرآ گئے۔ لیکن ہم سب کی نگاہیں رام دئی اور ان دو نوجوانوں پر جمی ہوئی تھی۔ جو اب پُل طے کرکے پنڈت کی چارپائی کے قریب پہنچ رہے تھے۔ لڑکے آگے تھے۔ اور رام دئی تھکی ہوئی گھوڑی کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ جب وہ سب پنڈت کے آگے سے گزرنے لگے۔ تو وہ چارپائی پر سے اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔ دو تین منٹ تک ان سے کچھ باتیں کرنے کے بعد وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ جب پنڈت، رام دئی اور وہ نوجوان ہمارے پاس سے گزرے۔ تو ہم نے دیکھا کہ نوجوانوں کے چہروں پر ایک حیوانی جھلک ناچ رہی ہے۔ اور پنڈت بڑے ادب سے ان کے ساتھ چل رہا ہے۔ رام دئی کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ موٹر کے پاس پہنچ کر پنڈت نے آگے بڑھ کر اس کا دروازہ کھولا۔ پہلے پتلون پوش پھر رام دئی اور اس کے بعد دوسرا نوجوان موٹر میں داخل ہو گئے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے موٹر چلی اور نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اور ہم آنکھیں جھپکتے رہ گئے۔

’’شیطان، مردود!!‘‘

کالو نے بڑے اضطراب سے یہ دو لفظ ادا کیے۔ اتنے میں پنڈت آ گیا۔ اور ہم کو مضطرب دیکھ کر ایک مصنوعی آواز میں کہنے لگا۔ میں نے ان سے دریافت کیا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ وہ لڑکی کو ذرا موٹر کی سیر کرانا چاہتے تھے۔ انسپکٹر صاحب کے مہمان ہیں۔ اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہُوئے ہیں۔ تھوڑی دور لے جا کر اسے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امیر آدمی ہیں۔ ان کے شغل اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر پنڈت چلا گیا۔ ہم دیر تک خُدا معلوم کن گہرائیوں میں غرق رہے۔ کہ دفعتہ فضل کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔ دو مرتبہ زور سے تھوک کر اس نے اپنے ہاتھوں کو گیلا کیا۔ اور بیلچے کو سنگریزوں کے ڈھیر میں گاڑتے ہوئے کہا۔

’’اگر امیر آدمیوں کے یہی شغل ہیں تو ہم غریبوں کی بہو بیٹیوں کا اللہ بیلی ہے!‘‘

سعادت حسن منٹو

شریفن

جب قاسم نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا۔ تو اسے صرف ایک گولی کی جلن تھی جو اس کی دہنی پنڈلی میں گڑ گئی تھی۔ لیکن اندر داخل ہو کر جب اس نے اپنی بیوی کی لاش دیکھی تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ قریب تھا کہ وہ لکڑیاں پھاڑنے والے گنڈاسے کو اٹھا کر دیوانہ وار نکل جائے اور قتل و گری کا بازار گرم کردے کہ دفعتہً اسے اپنی لڑکی شریفن کا خیال آیا۔

’’شریفن، شریفن‘‘

اس نے بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔ سامنے دالان کے دونوں دروازے بند تھے۔ قاسم نے سوچا۔ شاید ڈر کے مارے اندر چھپ گئی ہو گی۔ چنانچہ وہ اس طرف بڑھا اور درز کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔

’’شریفن، شریفن۔ میں ہوں تمہارا باپ۔ ‘‘

مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ قاسم نے دونوں ہاتھوں سے کواڑ کو دھکا دیا۔ پَٹ کھلے اور وہ اوندھے منہ دالان میں گر پڑا۔ سنبھل کر جب اس نے اٹھنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی۔ قاسم چیخ کیساتھ بیٹھا۔ ایک گز کے فاصلے پر ایک جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ ننگی۔ بالکل ننگی گورا گورا سڈول جسم، چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے چھوٹے پستان۔ ایک دم قاسم کا سارا وجود ہل گیا۔ اس کی گہرائیوں سے ایک فلک شگاف چیخ اٹھی۔ لیکن اس کے ہونٹ اس قدر زور سے بھینچے ہوئے تھے کہ باہر نہ نکل سکی۔ اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو گئی تھیں۔ پھر بھی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ مردہ سی آواز اس کے منہ سے نکلی۔

’’شریفن۔ ‘‘

اور اس نے آنکھیں بند کیے دالان میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر کچھ کپڑے اٹھائے اور انھیں شریفن کی لاش پر گرا کر وہ یہ دیکھے بغیر ہی باہر نکل گیا کہ وہ اس سے کچھ دور گرے تھے۔ باہر نکل کر اس نے اپنی بیوی کی لاش نہ دیکھی۔ بہت ممکن ہے اسے نظر ہی نہ آئی ہو۔ اس لیے کہ اس کی آنکھیں شریفن کی ننگی لاش سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے کونے میں پڑا ہوا لکڑیاں پھاڑنے والا گنڈاسا اٹھایا اور گھرسے باہر نکل گیا۔ قاسم کی دہنی پنڈلی میں گولی گڑی ہوئی تھی۔ اس کا احساس گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے دل و دماغ سے محو ہو گیا تھا۔ اس کی وفادار پیاری بیوی ہلاک ہو چکی تھی۔ اس کا صدمہ بھی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں موجود نہیں تھا۔ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی تصویر آتی تھی۔ شریفن کی۔ ننگی شریفن کی۔ اور وہ نیزے کی انی بن بن کر اس کی آنکھوں کو چھیدتی ہوئی اس کی روح میں بھی شگاف ڈال دیتی۔ گنڈاسا ہاتھ میں لیے قاسم سنسان بازاروں میں ابلتے ہوئے لاوے کی طرح بہتا چلا جارہا تھا۔ چوک کے پاس اس کی مڈبھیڑ ایک سکھ سے ہوئی۔ بڑا کڑیل جوان تھا۔ لیکن قاسم نے کچھ ایسے بک تکے پن سے حملہ کیا اور ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ تیز طوفان میں اکھڑے ہوئے درخت کی طرح زمین پر آرہا۔ قاسم کی رگوں میں اس کا خون اور زیادہ گرم ہو گیا۔ اور بجنے لگا۔ تڑتڑ تڑ تڑ۔ جیسے جوش کھاتے ہوئے تیل پرپانی کا ہلکا سا چھینا پڑ جائے۔ دور سڑک کے اس پار اسے چند آدمی نظر آئے۔ تیرکی طرح وہ ان کی طرف بڑھا اسے دیکھ کر ان لوگوں نے

’’ہر ہر مہادیو‘‘

کے نعرے لگائے۔ قاسم نے جواب میں اپنا نعرہ لگانے کے بجائے انھیں ماں باپ کی موٹی موٹی گالیاں دیں اور گنڈاسا تانے ان میں گھس گیا۔ چند منٹوں ہی کے اندر تین لاشیں سڑک پر تڑپ رہی تھیں۔ دوسرے بھاگ گئے لیکن قاسم کا گنڈاسا دیر تک ہوا میں چلتا رہا۔ اصل میں اس کی آنکھیں بند تھیں۔ گنڈاسا گھماتے گھماتے وہ ایک لاش کے ساتھ ٹکرایا اور گر پڑا۔ اس نے سوچا کہ شاید اسے گرالیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے گندی گندی گالیاں دے کر چلانا شروع کیا۔

’’مار ڈالو مجھے، مار ڈالو مجھے۔ ‘‘

لیکن جب کوئی ہاتھ اسے گردن پر محسوس نہ ہوا اور کوئی ضرب اس کے بدن پر نہ پڑی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ سڑک پر تین لاشوں اور اس کے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک لحظے کے لیے قاسم کو مایوسی ہوئی۔ کیونکہ شاید وہ مرجانا چاہتا تھا لیکن ایک دم شریفن۔ ننگی شریفن کی تصویر اس کی آنکھوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اتر گئی اور اس کے سارے وجود کو بارود کا جلتا ہوا فلیتہ بنا گئی۔ وہ فوراً اٹھا۔ ہاتھ میں گنڈاسا لیا اور پھر کھولتے ہولے لاوے کی طرح سڑک پر بہنے لگا۔ جتنے بازار قاسم نے طے کیے سب خالی تھے۔ ایک گلی میں وہ داخل ہوا۔ لیکن اس میں سب مسلمان تھے۔ اس کو بہت کوفت ہوئی۔ چنانچہ اس نے اپنے لاوے کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔ ایک بازارمیں پہنچ کر اس نے اپنا گنڈاسا اونچا ہوا میں لہرایا اور ماں بہن کی گالیاں اگلنا شروع کیں۔ لیکن ایک دن اسے بہت ہی تکلیف دہ احسان ہوا کہ اب تک وہ صرف ماں بہن کی گالیاں ہی دیتا رہا تھا۔ چنانچہ اس نے فوراً بیٹی کی گالی دینا شروع کی اور ایسی جتنی گالیاں اسے یاد تھیں سب کی سب ایک ہی سانس میں باہر لاٹ دیں۔ پھر بھی اس کی تشفی نہ ہوئی۔ جھنجھلا کر وہ ایک مکان کی طرف بڑھا۔ جس کے دروازے کے اوپر ہندی میں کچھ لکھا تھا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ قاسم نے دیوانہ وار گنڈاسا چلانا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں کواٹر ریزہ ریزہ ہو گئے۔ قاسم اندر داخل ہوا۔ چھوٹا سا گھر تھا۔ قاسم نے اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر پھر گالیاں دینا شروع کیں۔

’’باہر نکلو۔ باہر نکلو۔ ‘‘

سامنے دالان کے دروازے میں چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ قاسم اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر گالیاں دیتا رہا۔ دروازہ کھلا۔ ایک لڑکی نمودار ہوئی۔ قاسم کے ہونٹ بھینچ گئے۔ گرج کر اس نے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

لڑکی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور جواب دیا۔

’’ہندو۔ ‘‘

قاسم تن کر کھڑا ہو گیا۔ شعلہ بار آنکھوں سے اس نے لڑکی کی طرف دیکھا جس کی عمر چودہ یا پندرہ برس کی تھی اور ہاتھ سے گنڈاسا گرادیا۔ پھر وہ عقاب کی طرح جھپٹا اور اس لڑکی کو دھکیل کر اندر دالان میں لے گیا۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے دیوانہ وار کپڑے نوچنے شروع کیے۔ دھجیاں اور چندیاں یوں اڑنے لگیں جیسے کوئی روئی دھنک رہا۔ تقریباً آدھ گھنٹہ قاسم اپناا نتقام لینے میں مصروف رہا۔ لڑکی نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس لیے کہ وہ فرش پر گرتے ہی بیہوش ہو گئی تھی۔ جب قاسم نے آنکھیں کھولیں تو اس کے دونوں ہاتھ لڑکی کی گردن میں دھنسے ہوئے تھے۔ ایک جھٹکے کے ساتھ انھیں علیحدہ کرکے وہ اٹھا پسینے میں غرق اس نے ایک نظر اس لڑکی کی طرف دیکھا تاکہ اس کی اور تشفی ہوسکے۔ ایک گز کے فاصلے پر اس جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ ننگی۔ بالکل ننگی۔ گورا گورا سڈول جسم چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے پستان۔ قاسم کی آنکھیں ایک دم بند ہو گئیں۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ بدن پر گرم گرم پسینہ برف ہو گیا اور اس کی رگوں میں کھولتا ہوا لاوا پتھر کی طرح منجمد ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی تلوار سے مسلح مکان کے اندر داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ دالان میں کوئی شخص آنکھیں بند کیے لرزتے ہاتھوں سے فرش پر پڑی ہوئی چیز پر کمبل ڈال رہا ہے۔ اس نے گرج کر اس سے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

قاسم چونکا۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں مگر اسے کچھ نظر نہ آیا۔ مسلح آدمی چلایا۔

’’قاسم!‘‘

قاسم ایک بار پھر چونکا۔ اس نے اپنے سے کچھ دور کھڑے آدمی کو پہچاننے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ مسلح آدمی نے گھبراتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

’’کیا کررہے ہو تم یہاں؟‘‘

قاسم نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے فرش پر پڑے ہوئے کمبل کی طرف ایارہ کیا اور کھوکھلی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’شریفن۔ ‘‘

جلدی سے آگے بڑھ کر مسلح آدمی نے کمبل ہٹایا۔ ننگی لاش دیکھ کر پہلے وہ کانپا، پھر ایک دم اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ

’’بملا بملا‘‘

کہتا لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

شراب

’’آپ کے منہ سے بُو کیوں آ رہی ہے‘‘

’’کیسی بو؟‘‘

’’جیسی پہلے آیا کرتی تھی۔ مجھے بنانے کی کوشش نہ کیجیے‘‘

’’لاحول ولا، تم بنی بنائی ہو، تمھیں کون بنا سکتا ہے‘‘

’’آپ بات ٹال کیوں رہے ہیں؟

’’میں نے تو آج تک تمہاری کوئی بات نہیں ٹالی‘‘

’’لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے لیکن آپ کو کچھ فکر ہی نہیں‘‘

’’یہ تم نے اچھی کہی۔ تمہارے پاس کم سے کم بارہ ساڑھیاں پندرہ قمیضیں سولہ بلاؤز دس شلواریں اور پانچ بنیانیں ہوں گی اور تم کہتی ہو کہ لتے بدن پر جھولنے کا زمانہ آگیا ہے۔ تم عورتوں کی فطرت ہی یہی ہے کہ ہمیشہ ناشکری رہتی ہو‘‘

’’آپ بس مجھے ہر وقت یہی طعنہ دیتے ہیں۔ بتائیے ان پچھلے چھے مہینوں میں آپ نے مجھے کتنا روپیہ دیا ہے‘‘

حساب تو میرے پاس نہیں لیکن اندازاً چھ سات ہزار روپے ہوں گے‘‘

’’چھ سات ہزار؟ آپ نے ان میں سے کتنے لیے‘‘

’’یہ مجھے یاد نہیں‘‘

’’آپ کو بھلا یہ کب یاد رہے گا۔ چور اُچکے ہیں اول درجے کے۔

’’یہ تمہاری بڑی مہربانی ہے کہ تم نے مجھے اوّل درجے کا رتبہ بخشا۔ بس اب چپ رہو اور سو جاؤ‘‘

’’سو جاؤں؟‘‘

نیند کس کم بخت کو آئے گی۔ جس کا شوہر ایسا گیا گزرا ہو۔ آپ کو کم از کم میرا نہیں تو اپنی ان بچیوں ہی کا کچھ خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے تن پر بھی کپڑے نہیں‘‘

ننگی پھرتی ہیں۔ ابھی دس روز ہوئے میں نے تمھیں ایک تھان پوپلین کا لا کر دیا تھا۔ اس سے تم نے تینوں بچیوں کے معلوم نہیں کتنے فراک بنائے۔ اب کہتی ہو کہ ان کے تن پر کپڑے ہی نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ غلط بیانی کیوں ہوتی ہے۔ کل کو تم یہ شکایت کرو گی کہ تمہارے پاس کوئی جوتا کوئی سینڈل نہیں۔ حالانکہ تمہاری الماری میں کئی جوتے اور سینڈلیں پڑی ہیں۔ چار روز ہوئے تمہارے لیے واکنگ شو لے کر آیا تھا۔ ‘‘

’’بڑا احسان کیا تھا آپ نے مجھ پر۔ ‘‘

’’احسان کی بات نہیں۔ میں ایک حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’آپ حقیقت بیان کررہے ہیں، تو اس حقیقت کا انکشاف بھی کر دیجیے کہ آج آپ کے منہ سے بو کیوں آرہی ہے‘‘

’’کیسی بو‘‘

’’اوہ۔ تو تمہارا مطلب ہے، میں نے شراب پی ہے‘‘

’’مطلب وطلب میں نہیں جانتی، جو بو آپ کے منہ سے میری ناک تک پہنچ رہی ہے صریحاً اسی خبیث چیز کی ہے‘‘

’’خواہ مخواہ تو کوئی شک نہیں کرتا۔ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ‘‘

’’بھئی کسی کی بھی قسم لے لو۔ میں نے نہیں پی۔ نہیں پی۔ ۔ نہیں پی‘‘

’’آپ کا اُکھڑا اُکھڑا لہجہ چغلی کھا رہا ہے۔ ‘‘

’’اس لہجے کو جھونکو جہنم میں۔ میں نے نہیں پی۔ !‘‘

’’خدا کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ آپ نے کم از کم آدھی بوتل پی ہے۔ ‘‘

’’یہ اندازہ تم نے کیسے لگایا؟‘‘

’’پندر برس ہو گئے ہیں آپ کے ساتھ زندگی گزارتے۔ کیا میں اتنا بھی نہیں سمجھ سکتی۔ آپ کو یاد ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے مجھے ٹیلی فون کیا تھا اور میں نے فوراً آپ کی آواز سے اندازہ لگا کر آپ سے کہاتھا کہ اس وقت آپ چار پیگ پیے ہوئے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ تھا؟‘‘

’’نہیں۔ اُس دن میں نے واقعی چار پیگ پیے تھے۔ ‘‘

’’اب میرا اندازہ یہ ہے کہ آپ نے آدھی بوتل پی رکھی ہے۔ اس لیے آپ ہوش میں ہیں‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ ‘‘

’’منطق ونطق میں نہیں جانتی۔ میں نے آپ کے ساتھ پندرہ برس گزارے ہیں میں اس دوران میں یہی دیکھتی رہی ہوں کہ آپ دو تین پیگ پئیں تو بہک جاتے ہیں اگر پوری بوتل یا اس کا نصف چڑھا جائیں تو ہوش مند ہو جاتے ہیں‘‘

’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی میں پیوں تو آدھے سے کم نہ پیوں‘‘

’’آپ کو تو مجھے ایک روز زہر پلانا پڑے گی تاکہ یہ قصہ ہی ختم ہوجائے‘‘

’’کون سا قصہ۔ زُلیخا کا؟‘‘

’’زلیخا کی ایسی کی تیسی۔ میرا نام کچھ اور ہے۔ غالباً آپ اس نشے کے عالم میں بھول گئے ہوں گے‘‘

’’میں تمہارا نام کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘

’’بتائیے کیا نام ہے میرا؟‘‘

’’تمہارا نام۔ تمہارا نام؟۔ لیکن نام میں کیا پڑا ہے چلو آج سے زلیخا ہی سہی‘‘

’’اورآپ یوسف!‘‘

’’قسم خدا کی، آج تم نے طبیعت صاف کر دی میری۔ لو یہ سو روپے کا نوٹ۔ آج اپنے لیے کوئی چیز خرید لو۔ ‘‘

’’یہ نوٹ آپ پاس ہی رکھیے۔ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ ایسے لمحات میں بہت فیاض ہو جایا کرتے ہیں۔

’’کون سے لمحات میں؟‘‘

’’یہی لمحات جب آپ نے پی رکھی ہو‘‘

’’یہ پی پی کی رٹ تم نے کیا لگا رکھی ہے تم سے سو دفعہ کہہ چکا ہوں کہ پچھلے چھے مہینوں سے میں نے ایک قطرہ بھی نہیں پیا لیکن تم مانتی ہی نہیں۔ اب اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟‘‘

’’اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپناعلاج کرائیے۔ کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ لیجیے تاکہ وہ آپ کی اس بد عادت کو دُور کرسکے۔ آپ کبھی غور و فکر کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی صحت کتنی گر چکی ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کے رہ گئے ہیں۔ میں ساری رات روتی رہتی ہوں۔ ‘‘

’’صرف ایک دو منٹ رونا کافی ہے، ساری رات رونے کی کیا ضرورت ہے اور پھر اتنا پانی آنکھوں میں کہاں سے آ جاتا ہے جو ساری رات تکیوں کوسیراب کرتا ہے۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے مذاق نہ کیجیے‘‘

’’میں مذاق نہیں کررہا۔ ساری رات کوئی عورت، کوئی مرد رو نہیں سکتا۔ البتہ اونٹ یہ سلسلہ کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے کوہان میں کافی پانی جمع ہوتا ہے، جو آنسو بن بن کے ان کی آنکھوں سے ٹپک سکتا ہے۔ مگر مچھ ہیں، جن کے آنسو مشہور ہیں۔ یہ پانی میں رہتے ہیں اس لیے ان کو متواثر پانی بہانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ میں آبی حیوان یا جانور نہیں، اور نہ تم ہو‘‘

’’آپ تو فلسفہ بکھیرنے لگتے ہیں‘‘

’’فلسفہ کوئی اور چیز ہے، جس کے متعلق تمہارے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہو گا۔ میں صرف ایسی باتیں بیان کررہا تھا جو عام آدمی سوچ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے، مگر افسوس ہے کہ تم نے انھیں نہ سمجھا اور ان پر فلسفے کا لیبل لگا دیا۔ ‘‘

’’میں جاہل ہوں۔ بیوقوف ہوں۔ ان پڑھ ہوں۔ مجھے یہ سب کچھ تسلیم ہے۔ جانے میری بلا کہ فلسفہ کیا ہے؟ میں تو صرف اتنا پوچھنا چاہتی تھی کہ آپ کے منہ سے وہ گندی گندی بو کیوں آرہی ہے؟‘‘

’’میں کیا جانوں۔ ہوسکتا ہے، میں نے آج دانت صاف نہ کیے ہوں‘‘

’’غلط ہے ہم دونوں نے اکٹھے صبح غسل خانے میں دانتوں پر برش کیا تھا۔ ٹوتھ پیسٹ ختم ہو گئی تھی۔ میں نے فوراً نوکر کو بھیجا اور وہ کولی نوس لے کر آیا۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں مجھے یاد آیا‘‘

’’آپ ہوش ہی میں نہیں۔ آپ کی یاد کو اب کب تک جگاتی رہوں گی۔ ‘‘

’’یاد کو چھوڑو کل صبح تم ٹھیک پانچ بجے جگا دینا۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ ‘‘

’’ضروری کام کیا ہے آپ کو؟ شراب کی بوتل کا بندوبست کرنا ہو گا۔ ‘‘

’’بھئی، مدت ہوئی میں اس چیز سے نا آشنا ہو چکا ہوں‘‘

’’آج تو آپ پوری طرح آشنا ہو کے آئے ہیں‘‘

’’یہ سراسر بہتان ہے۔ میں تمہاری قسم کھا کے۔ ‘‘

’’میری قسم آپ نہ کھائیے۔ آپ کیسی بھی قسم کھائیں، مجھے آپ کی کسی بات پریقین نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ شراب پینے کے بعد آپ کی کوئی بات قابل اعتماد نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’یعنی تم ابھی۔ ‘‘

’’آپ کو یہ ہچکی شروع کیوں ہو گئی۔ ‘‘

’’ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ مجھے معلوم نہیں۔ شاید ڈاکٹروں کو بھی نہ ہو۔ ‘‘

’’پانی لاؤں؟‘‘

’’نہیں۔ اندر میری الماری میں گلیسرین پڑی ہے، وہ لے آؤ‘‘

’’اس سے کیا ہو گا۔ ‘‘

’’وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا۔ ‘‘

’’آپ نشے میں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ گلیسرین کا استعمال غلط ہو جائے‘‘

’’جاؤ۔ اُس کے چار قطرے فوراً ہچکی بند کر دیں گے۔ ‘‘

’’لیکن آپ کے منہ سے یہ بو کس چیز کی آرہی ہے۔ ‘‘

’’میرے پیچھے۔ کیو۔ کیو۔ کیوں پڑی ہو؟ گلیسرین لاؤ۔ ‘‘

’’لاتی ہوں۔ یہ سب شراب پینے کی وجہ سے ہے۔ ‘‘

’’کس کم بخت نے پی ہے۔ اگر پی ہوتی تو یہ حال نہ ہوتا‘‘

’’لے آئی ہو گلیسرین‘‘

’’جی نہیں، وہاں آپ کی بوتل پڑی تھی۔ اُس میں سے یہ تھوڑی سی گلاس میں ڈال کر لے آئی ہوں۔ پانی کا گلاس بھی ساتھ ہے۔ آپ خود جتنا چاہیں اس میں ملا لیجیے۔ میرا خیال ہے گلیسرین سے آپ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچے گا جتنا اس چیز سے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

شاہ دولے کا چوہا

سلیمہ کی جب شادی ہوئی تو وہ اکیس برس کی تھی۔ پانچ برس ہو گئے مگر اُس کے اولاد نہ ہوئی۔ اُس کی ماں اور ساس کو بہت فکرتھی۔ ماں کو زیادہ تھی کہ کہیں اس کا نجیب دوسری شادی نہ کرلے۔ چنانچہ کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا مگر کوئی بات پیدا نہ ہوئی۔ سلیمہ بہت متفکر تھی۔ شادی کے بعد بہت کم لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو اولاد کی خواہش مند نہ ہو۔ اُس نے اپنی ماں سے کئی بار مشورہ کیا۔ ماں کی ہدایتوں پر بھی عمل کیا۔ مگر نتیجہ صفرتھا۔ ایک دن اُس کی ایک سہیلی جو بانجھ قرار دے دی گئی تھی۔ اس کے پاس آئی۔ سلیمہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اُس کی گود میں ایک گل گوتھنا لڑکا تھا۔ سلیمہ نے اُس سے بڑے بینڈے انداز میں پوچھا

’’فاطمہ تمہارے یہ لڑکا کیسے پیدا ہو گیا۔ ‘‘

فاطمہ اُس سے پانچ سال بڑی تھی۔ اُس نے مسکرا کر کہا۔

’’یہ شاہ دولے صاحب کی برکت ہے۔ مجھ سے ایک عورت نے کہا کہ اگر تم اولاد چاہتی ہو تو گجرات جاکر شاہ دولے صاحب کے مزار پر منت مانو۔ کہو کہ حضور میرے جو پہلے بچہ ہو گا وہ آپ کی خانقاہ پر چڑھا دوں گی۔ اس نے یہ بھی سلیمہ کو بتایا کہ جب شاہ دولے صاحب کے مزار پر ایسی منت مانی جائے تو پہلا بچہ ایسا ہوتا ہے جس کا سر بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ فاطمہ کی یہ بات سلیمہ کو پسند نہ آئی اور جب اس نے مزید کہاکہ پہلا بچہ اس خانقاہ میں چھوڑ کر آنا پڑتا ہے تو اس کو اور بھی دُکھ ہوا۔ اس نے سوچا کون ایسی ماں ہے جو اپنے بچے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے۔ اُس کا سر چھوٹا ہو۔ ناک چپٹی ہو۔ آنکھیں بھینگی ہوں۔ لیکن ماں اُس کو گھورے میں نہیں پھینک سکتی وہ کوئی ڈائن ہی ہوسکتی ہے۔ لیکن اُسے اولاد چاہیے تھی اس لیے وہ اپنی عمر سے زیادہ سہیلی کی بات مان گئی۔ وہ گجرات کی رہنے والی تو تھی ہی جہاں شاہ دولے کا مزار تھا۔ اُس نے اپنے خاوند سے کہا۔

’’فاطمہ مجبور کررہی ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اس لیے آپ مجھے اجازت دے دیجیے۔ ‘‘

اس کے خاوند کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ اس نے کہا۔

’’جاؤ مگر جلدی لوٹ آنا۔ ‘‘

وہ فاطمہ کے ساتھ گجرات چلی گئی۔ شاہ دولہ کا مزار جیسا کہ اُس نے سمجھا تھا کوئی عہد عتیق کی عمارت نہیں تھی۔ اچھی خاصی جگہ تھی۔ جو سلیمہ کو پسند آئی۔ مگر جب اُس نے ایک حجرے میں شاہ دولے کے چوہے دیکھے، جن کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا تھا اور ان کا دماغ بالکل ماؤف تھا تو کانپ کانپ گئی۔ ایک جوان لڑکی تھی پورے شباب پر مگر وہ ایسی حرکتیں کرتی تھی کہ سنجیدہ سے سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسی آسکتی تھی۔ سلیمہ اُس کودیکھ کرایک لمحے کے لیے ہنسی مگر فوراً ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سوچنے لگی اس لڑکی کا کیا ہو گا۔ یہاں کے مجاور اُسے کسی کے پاس بیچ دیں گے یا بندر بنا کر اُسے شہر بہ شہر پھرائیں گے۔ یہ غریب کی روزی کا ٹھیکرا بن جائے گی۔ اس کا سر بہت چھوٹا تھا۔ لیکن اُس نے سوچا کہ اگر سر چھوٹا ہے تو انسانی فطرت تو اتنی چھوٹی نہیں۔ وہ تو پاگلوں کے ساتھ بھی چمٹی رہتی ہے۔ اس شاہ دولے کی چوہیا کا جسم بہت خوبصورت تھا۔ اُس کی ہر قوس اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھی۔ مگر اُس کی حرکات ایسی تھیں جیسے کسی خاص غرض کے ماتحت اس کے حواس مختل کردیے گئے ہیں۔ وہ اس طریقے سے کھیلتی پھرتی اور ہنستی تھی جیسے کوئی کوک بھرا کھلونا ہو۔ سلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ اسی غرض کے لیے بنائی گئی ہے۔ لیکن ان تمام احساسات کے باوجود اُس نے اپنی سہیلی فاطمہ کے کہنے پر شاہ دولا صاحب کے مزار پر منت مانی کہ اگر اس کے بچہ ہوا تو وہ اُن کی نذر کردے گی۔ ڈاکٹری علاج سلیمہ نے جاری رکھا۔ دو ماہ بعد بچے کی پیدائش کے آثار پیدا ہو گئے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ مقررہ وقت پر اُس کے ہاں لڑکا ہوا، بڑا ہی خوبصورت۔ حمل کے دوران میں چونکہ چاند گرہن ہوا تھا اُس لیے اس کے داہنے گال پر ایک چھوٹا سا دھبا تھا جو بُرا نہیں لگتا تھا۔ فاطمہ آئی تو اُس نے کہاکہ اس بچے کو فوراً شاہ دولے صاحب کے حوالے کردینا چاہیے۔ سلیمہ خود یہی مان چکی تھی۔ کئی دنوں تک وہ ٹال مٹول کرتی رہی۔ اس کی ممتا نہیں مانتی تھی کہ وہ اپنا لختِ جگر وہاں پھینک آئے۔ اُس سے کہا گیا تھا کہ شاہ دولے سے جو اولاد مانگتا ہے اُس کے پہلے بچے کا سر چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن اُس کے لڑکے کا سر کافی بڑا تھا۔ اور فاطمہ نے اس سے کہا۔

’’یہ کوئی ایسی بات نہیں جو تم بہانے کے طور پر استعمال کرسکو۔ تمہارا یہ بچہ شاہ دولے صاحب کی ملکیت ہے تمہارا اس پر کوئی حق نہیں۔ اگر تم اپنے وعدہ سے پھر گئیں تو یاد رکھو تم پر ایسا عذاب نازل ہو گا کہ ساری عمر یاد رکھو گی۔ ‘‘

بادل نخواستہ سلیمہ کو اپنا پیارا گل گوتھنا سا بیٹا جس کے داہنے گال پر کالا دھبا تھا۔ گجرات جاکر شاہ دولے کے مزار کے مجاوروں کے حوالے کرنا پڑا۔ وہ اس قدر روئی۔ اُس کو اتنا صدمہ ہوا کہ بیمار ہو گئی۔ ایک برس تک زندگی اورموت کے درمیان معلق رہی۔ اُس کو اپنا بچہ بھولتا ہی نہیں تھا۔ خاص طور پر اُس کے داہنے گال پر کالا دھبا۔ جس کو اکثر چوما کرتی تھی۔ چونکہ وہ جہاں بھی تھا بہت اچھا لگتا تھا۔ اس دوران میں اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بچے کو فراموش نہ کیا۔ عجیب عجیب خواب دیکھتی۔ شاہ دولہ اُس کے پریشان تصور میں ایک بڑا چوہا بن کر نمودار ہوتا جو اُس کے گوشت کو اپنے تیز دانوں سے کترتا۔ وہ چیختی اور اپنے خاوند سے

’’مجھے بچائیے ! دیکھئے چوہا میرا گوشت کھا رہا ہے۔ ‘‘

کبھی اس کا مضطرب دماغ یہ سوچتا کہ اس کا بچہ چوہوں کے بل کے اندر داخل ہو رہا ہے۔ وہ اُس کی دُم کھینچ رہی ہے۔ مگر بِل کے اندر جو بڑ ے بڑے چوہے ہیں انھوں نے اُس کی تھوتھنی پکڑ لی۔ اس لیے وہ اُسے باہر نکال نہیں سکتی۔ کبھی اُس کی نظروں کے سامنے وہ لڑکی آتی جو پورے شباب پر تھی اور جس کو اُس نے شاہ دولے صاحب کے مزار کے ایک حجرے میں دیکھا تھا۔ سلیمہ ہنسنا شروع کردیتی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد رونے لگتی۔ اتنا روتی کے اس کے خاوند نجیب کو سمجھ میں نہ آتا کہ اُس کے آنسو کیسے خشک کرے۔ سلیمہ کو ہر جگہ چوہے نظر آتے تھے۔ بستر پر باورچی خانے میں۔ غسل خانے کے اندر۔ صوفے پر۔ دل میں کانوں میں بعض اوقات تو وہ یہ محسوس کرتی کہ وہ خود چوہیا ہے۔ اُس کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا ہے۔ وہ شاہ دولے کے مزار کے ایک حجرے میں اپنا چھوٹا بہت چھوٹا سر اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھائے ایسی حرکات کررہی ہے کہ دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ اُس کی حالت قابل رحم تھی۔ اُس کو فضا میں دھبے ہی دھبے نظر آتے۔ جیسے ایک بہت بڑا گال ہے جس پرسورج بجھ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوکے جگہ جگہ جم گیا ہے۔ بخار ہلکا ہوا تو سلیمہ کی طبیعت کسی قدر سنبھل گئی نجیب بھی قدرے مطمئن ہوا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کی بیوی کی علالت کا باعث کیا ہے۔ لیکن وہ ضعیف الاعتقاد تھا۔ اُس کواپنی پہلی اولاد کو بھینٹ چڑھائے جانے کا کوئی احساس نہیں تھا۔ جو کچھ کیا گیا تھا وہ اسے مناسب سمجھتا تھا۔ بلکہ وہ تو یہ سوچتا تھا کہ اس کے جو بیٹا ہوا تھا وہ اس کا نہیں شاہ دولے صاحب کا تھا۔ جب سلیمہ کا بخار اتر گیا اور اس کے دل و دماغ کا طوفان ٹھنڈا پڑگیا تو نجیب نے اُس سے کہا

’’میری جان۔ اپنے بچے کو بھول جاؤ۔ وہ صدقے کا تھا۔ ‘‘

سلیمہ نے بڑے زخم خوردہ لہجے میں کہا۔

’’میں نہیں مانتی۔ ساری عمر اپنی ممتا پر لعنتیں بھیجتی رہوں گی کہ میں نے اتنا بڑا گناہ کیوں کیا کہ اپنا لختِ جگر اس کے مجاورں کے حوالے کردیا۔ یہ مجاور ماں تو نہیں ہوسکتے۔ ‘ ایک دن وہ غائب ہو گئی۔ سیدھی گجرات پہنچی۔ ساتھ آٹھ روز وہاں رہی۔ اپنے بچے کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر کوئی اتا پتہ نہ ملا مایوس ہوکر واپس آگئی۔ اپنے خاوند سے کہا۔

’’میں اب اسے یاد نہیں کروں گی۔ ‘‘

یاد تو وہ کرتی رہی۔ لیکن دل ہی دل میں اس کے بچے کے داہنے گال کا دھبا اُس کے دل کا داغ بن کر رہ گیا تھا۔ ایک برس کے بعداُس کے لڑکی ہوئی۔ اس کی شکل اُس کے پہلوٹھی کے بچے سے بہت ملتی جلتی تھی۔ اس کے داہنے گال پر داغ نہیں تھا اس کا نام اس نے مجیب رکھا کیونکہ اپنے بیٹے کا نام اُس نے مجیب سوچا تھا۔ جب وہ دو مہینے کی ہوئی تو اُس نے اس کو گود میں اٹھایا اور سرمہ دانی سے تھوڑا سا سرمہ نکال کر اس کے داہنے گال پرایک بڑا ساتل بنا دیا اور مجیب کو یاد کر کے رونے لگی۔ اُس کے آنسو بچی کی گالوں پر گرے تو اُس نے اپنے دوپٹے سے پونچھے اور ہنسنے لگی۔ وہ کوشش کرنا چاہتی تھی کہ اپنا صدمہ بھول جائے۔ اس کے بعد سلیمہ کے دو لڑکے پیدا ہوئے۔ اُس کا خاوند اب بہت خوش تھا۔ ایک بار سلیمہ کو کسی سہیلی کی شادی کے موقع پر گجرات جانا پڑا تو اُس نے ایک بار پھر مجیب کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ مگر اُسے ناکامی ہوئی۔ اس نے سوچا شاید مر گیا ہے۔ چنانچہ اُس نے جمعرات کو فاتحہ خوانی بڑے اہتمام سے کرائی۔ اڑوس پڑوس کی سب عورتیں حیران تھی کہ یہ کس کی مرگ کے سلسلے میں اتنا تکلف کیا گیا ہے۔ بعض نے سلیمہ سے پوچھا بھی، مگر اُس نے کوئی جوا ب نہ دیا۔ شام کو اس نے اپنی دس برس کی لڑکی مجیبہ کا ہاتھ پکڑا۔ اندر کمرے میں لے گئی۔ سرے سے اُس کے داہنے گال پر بڑا سا دھبا بنایا اور اُس کو دیر تک چومتی رہی۔ وہ مجیب ہی کو اپنا گم شدہ مجیب سمجھتی تھی۔ اب اُس کے متعلق سوچنا چھوڑدیا، اس لیے کہ اُس کی فاتحہ خوانی کرانے کے بعد اُس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ اُس نے اپنے تصور میں ایک قبر بنا لی تھی۔ جس پر وہ تصور ہی میں پھول بھی چڑھایا کرتی۔ اس کے تین بچے اسکول میں پڑھتے تھے۔ ان کو ہر صبح سلیمہ تیار کرتی۔ ان کے لیے ناشتہ بنواتی۔ ہر ایک کو بناتی سنوارتی۔ جب وہ چلے جاتے تو ایک لحظہ کے لیے اسے اپنے مجیب کا خیال آتا کہ وہ اس کی فاتحہ خوانی کرا چکی تھی۔ دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ پھر بھی اُس کو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ مجیب کے داہنے گال کا سیاہ دھبا اُس کے دماغ میں موجود ہے۔ ایک دن اُس کے تینوں بچے بھاگے بھاگے آئے اور کہنے لگے

’’امی ہم تماشا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

اُس نے بڑی شفقت سے پوچھا۔

’’کیسا تماشا؟‘‘

اس لڑکی نے جو سب سے بڑی تھی کہا

’’امی جان ایک آدمی ہے وہ تماشا دکھاتا ہے۔ ‘‘

سلیمہ نے کہا۔

’’جاؤ اُس کو بُلا لاؤ۔ مگر گھر کے اندر نہ آئے۔ باہر تماشا کرے۔ ‘‘

بچے بھاگے ہوئے گئے اور اُس آدمی کو بُلا لائے اور تماشا دیکھتے رہے۔ جب یہ ختم ہو گیا تو مجیبہ اپنی ماں کے پاس گئی کہ پیسے دے دو۔ ماں نے اپنے پرس سے چونی نکالی اور باہر برآمدے میں گئی۔ دروازے کے پاس پہنچی تو شاہ دولہ کا ایک چوہا کھڑا عجیب احمقانہ انداز میں اپنا سر ہلا رہا تھا سلیمہ کو ہنسی آگئی۔ دس بارہ بچے اُس کے گرد جمع تھے جو بے تحاشا ہنس رہے تھے۔ اتنا شور مچا تھا کہ کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی تھی۔ سلیمہ چونی ہاتھ میں لیے آگے بڑھی اور اُس نے شاہ دولے کے اُس چوہے کو دینا چاہی تو اُس کا ہاتھ ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ جیسے بجلی کا کرنٹ چھو گیا۔ اُس چوہے کے داہنے گال پر سیاہ داغ تھا۔ سلیمہ نے غور سے اُس کی طرف دیکھا۔ اس کی ناک سے رینٹھ بہہ رہا تھا۔ مجیبہ نے جو اُس کے پاس کھڑی تھی، اپنی ماں سے کہا۔

’’یہ۔ یہ چوہا۔ امی جان اس کی شکل مجھ سے کیوں ملتی ہے۔ میں بھی کیا چوہیا ہوں۔ ‘‘

سلیمہ نے اس شاہ دولے کے چوہے کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے گئی۔ دروازے بند کرکے اُس کو چوما۔ اُس کی بلائیں لیں۔ وہ اس کا مجیب تھا۔ لیکن وہ ایسی احمقانہ حرکتیں کرتا تھا کہ سلیمہ کے غم واندوہ میں ڈُوبے ہوئے دل میں بھی ہنسی کے آثار نمودار ہو جاتے۔ اُس نے مجیب سے کہا۔

’’بیٹے میں تیری ماں ہوں۔ ‘‘

شاہ دولے کا چوہا بڑے بے ہنگم طور پر ہنسا۔ اپنی ناک کی رینٹھ آستین سے پونچھ کر اُس نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ پھیلایا

’’ایک پیسہ۔ ‘‘

ماں نے اپنا پرس کھولا۔ مگر اُس کی آنکھیں اپنی ساری نہریں، اس سے پہلے ہی کھول چکی تھیں۔ اُس نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور باہر جاکر اُس آدمی کو دیا۔ جو اُس کو تماشا بنائے ہوئے تھا۔ اس نے انکار کردیا کہ اتنی کم قیمت پر اپنی روزی کے ذریعے کو نہیں بیچ سکتا۔ سلیمہ نے اُسے بالآخر پانچ سو روپوں پر راضی کرلیا۔ یہ رقم ادا کر کے جب وہ اندر آئی تو مجیب غائب تھا، ۔ مجیبہ نے اُس کو بتایا کہ وہ پچھواڑے سے باہر نکل گیا ہے۔ سلیمہ کی کوکھ پکارتی رہی کہ مجیب واپس آجاؤ، مگر وہ ایسا گیا کہ پھر نہ آیا۔

سعادت حسن منٹو

شانتی

دو نوں پیرے ژین ڈیری کے باہر بڑے دھاریوں والے چھاتے کے نیچے کرسیوں پربیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ادھر سمندر تھا جس کی لہروں کی گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی۔ چائے بہت گرم تھی۔ اس لیے دونوں آہستہ آہستہ گھونٹ بھر رہے تھے موٹی بھوروں والی یہودن کی جانی پہچانی صورت تھی۔ یہ بڑا گول مٹول چہرہ، تیکھی ناک۔ موٹے موٹے بہت ہی زیادہ سرخی لگے ہونٹ۔ شام کو ہمیش درمیان والے دروازے کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی دکھائی دیتی تھی۔ مقبول نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور بلراج سے کہا۔

’’بیٹھی ہے جال پھینکنے۔ ‘‘

بلراج موٹی بھوؤں کی طرف دیکھے بغیر بولا۔

’’پھنس جائے گی کوئی نہ کوئی مچھلی۔ ‘‘

مقبول نے ایک پیسٹری منہ میں ڈالی۔

’’یہ کاروبار بھی عجیب کاروبارہے۔ کوئی دکان کھول کر بیٹھتی ہے۔ کوئی چل پھر کے سودا بیچتی ہے۔ کوئی اس طرح ریستورانوں میں گاہک کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔ جسم بیچنا بھی ایک آرٹ ہے، اور میرا خیال ہے بہت مشکل آرٹ ہے۔ یہ موٹی بھوؤں والی کیسے گاہک کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کیسے کسی مرد کو یہ بتاتی ہو گی کہ وہ بکاؤ ہے۔ ‘‘

بلراج مسکرایا۔

’’کسی روز وقت نکالو کہ کچھ دیر یہاں بیٹھو۔ تمہیں معلوم ہو جائیگا کہ نگاہوں ہی نگاہوں میں کیوں کر سودے ہوتے ہیں اس جنس کا بھاؤ کیسے چُکتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک مقبول کا ہاتھ پکڑا۔

’’اُدھر دیکھو، اُدھر۔ ‘‘

مقبول نے موٹی یہودن کی طرف دیکھا۔ بلراج نے اس کا ہاتھ دبایا۔

’’نہیں یار۔ اُدھر کونے کے چھاتے کے نیچے دیکھو۔ ‘‘

مقبول نے ادھر دیکھا۔ ایک دبلی پتلی، گوری چٹی لڑکی کرسی پر بیٹھ رہی تھی۔ بال کٹے ہوئے تھے۔ ناک نقشہ ٹھیک تھا۔ ہلکے زرد رنگ کی جارجٹ کی ساڑھی میں ملبوس تھی۔ مقبول نے بلراج سے پوچھا۔

’’کون ہے یہ لڑکی؟‘‘

بلراج نے اس لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

’’اماں وہی ہے جس کے بارے میں تم سے کہا تھا کہ بڑی عجیب و غریب ہے۔ ‘‘

مقبول نے کچھ دیر سوچا پھر کہا۔

’’کون سی یار تم، تم تو جس لڑکی سے بھی ملتے ہوعجیب وغریب ہی ہوتی ہے۔ ‘‘

بلراج مسکرایا۔

’’یہ بڑی خاص الخاص ہے۔ ذرا غور سے دیکھو۔ ‘‘

مقبول نے غور سے دیکھا۔ بریدہ بالوں کا رنگ بھوسلا تھا۔ ہلکے بسنتی رنگ کی ساڑھی کے نیچے چھوٹی آستینوں والا بلاؤز۔ پتلی پتلی بہت ہی گوری بانھیں۔ لڑکی نے اپنی گردن موڑی تو مقبول نے دیکھا کہ اس کے باریک ہونٹوں پر سرخی پھیلی ہوئی سی تھی۔

’’میں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر تمہاری اس عجیب و غریب لڑکی کو سرخی استعمال کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ اب اور غور سے دیکھا ہے تو ساڑھی کی پہناوٹ میں بھی خامیاں نظر آئی ہیں۔ بال سنوارنے کا انداز بھی ستھرا نہیں۔ ‘‘

بلراج ہنسا۔

’’تم صرف خامیاں ہی دیکھتے ہو۔ اچھائیوں پر تمہاری نگاہ کبھی نہیں پڑتی۔ ‘‘

مقبول نے کہا۔

’’جو اچھائیاں ہیں وہ اب بیان فرما دیجیے، لیکن پہلے یہ بتا دیجیے کہ آپ اس لڑکی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں یا۔ ‘‘

لڑکی نے جب بلراج کو دیکھا تو مسکرائی۔ مقبول رک گیا۔

’’مجھے جواب مل گیا۔ اب آپ محترمہ کی خوبیاں بتا دیجیے۔ ‘‘

سب سے پہلی خوبی اس لڑکی میں یہ ہے کہ بہت صاف گو ہے۔ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ جو اس اس نے اپنے لیے بنا رکھے ہیں ان پر بڑی پابندی سے عمل کرتی ہے۔ پرسنل ہائی جین کا بہت خیال رکھتی ہے۔ محبت و حبت کی بالکل قائل نہیں۔ اس معاملے میں دل اس کا برف ہے۔ ‘‘

بلراج نے چاہیے کا آخری گھونٹ پیا

’’کہیے کیا خیال ہے؟‘‘

مقبول نے لڑکی کو ایک نظر دیکھا۔

’’جو خوبیاں تم نے بتائی ہیں ایک ایسی عورت میں نہیں ہونی چاہئیں۔ جس کے پاس مرد صرف اس خیال سے جاتے ہیں کہ وہ ان سے اصلی نہیں تو مصنوعی محبت ضرور کرے گی۔ خود فریبی ہیں اگر یہ لڑکی کسی مرد کی مدد نہیں کرتی تو میں سمجھتا ہوں بڑی بے وقوف ہے۔ ‘‘

’’یہی میں نے سوچا تھا۔ میں تم سے کیا بیان کروں، روکھے پن کی حد تک صاف گو ہے۔ اس سے باتیں کرو توکئی بار دھکے سے لگتے ہیں۔ ایک گھنٹہ ہو گیا۔ تم نے کھلی کوئی کام کی بات نہیں کی۔ میں چلی، اور یہ جا وہ جا۔ تمہارے منہ سے شراب کی بو آتی ہے۔ جاؤ چلے جاؤ۔ ساڑھی کو ہاتھ مت لگاؤ میلی ہو جائے گی‘‘

یہ کہہ کر بلراج نے سگریٹ سلگایا۔

’’عجیب و غریب لڑکی ہے۔ پہلی دفعہ جب اس سے ملاقات ہوئی تو میں بائی گوڈ چکرا گیا۔ چھوٹتے ہی مجھ سے کہا۔ ففٹی سے ایک پیسہ کم نہیں ہو گا۔ جیب میں ہیں تو چلو ورنہ مجھے اور کام ہیں۔ ‘‘

مقبول نے پوچھا۔

’’نام کیا ہے اس کا۔ ‘‘

’’شانتی بتایا اس نے۔ کشمیرن ہے‘‘

مقبول کشمیری تھا۔ چونک پڑا

’’کشمیرن!‘‘

’’تمہاری ہم وطن۔ ‘‘

مقبول نے لڑکی کی طرف دیکھا۔ ناک نقشہ صاف کشمیریوں کا تھا۔

’’یہاں کیسے آئی؟‘‘

’’معلوم نہیں!‘‘

’’کوئی رشتے دار ہے اس کا؟‘‘

مقبول لڑکی میں دلچسپی لینے لگا۔

’’وہاں کشمیر میں کوئی ہو تو میں کہہ نہیں سکتا۔ یہاں بمبئی میں اکیلی رہتی ہے۔ ‘‘

بلراج نے سگریٹ ایش ٹرے میں دبایا

’’ہاربنی روڈ یر ایک ہوٹل ہے، وہاں اس نے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے۔ یہ مجھے ایک روز اتفاقاً معلوم ہو گیا ورنہ یہ اپنے ٹھکانے کا پتا کسی کو نہیں دیتی۔ جس کو ملنا ہوتا ہے یہاں پیرے ژین ڈیری میں چلا آتا ہے۔ شام کو پورے پانچ بجے آتی ہے یہاں!‘‘

مقبول کچھ دیرخاموش رہا۔ پھر بیرے کو اشارے سے بلایا اور اس سے بل لانے کے لیے کہا۔ اس دوران میں ایک خوش پوش نوجوان آیا اور اس لڑکی کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ مبقول بلراج سے مخاطب ہوا۔

’’اس سے کبھی ملاقات کرنی چاہیے۔ ‘‘

بلراج مسکرایا۔

’’ضرور ضرور۔ لیکن اس وقت نہیں۔ مصروف ہے۔ کبھی آجانا یہاں شام کو۔ اور ساتھ بیٹھ جانا۔ ‘‘

مقبول نے بل ادا کیا۔ دونوں دوست اٹھ کر چلے گئے۔ دوسرے روز مقبول اکیلا آیا اور چائے کا آرڈر دے کر بیٹھ گیا۔ ٹھیک پانچ بجے وہ لڑکی بس سے اتری اور پرس ہاتھ میں لٹکائے مقبول کے پاس سے گزری۔ چال بھدی تھی۔ جب وہ کچھ دور، کرسی پر بیٹھ گئی تو مقبول نے سوچا۔

’’اس میں جنسی کشش تو نام کو بھی نہیں۔ حیرت ہے کہ اس کا کاروبار کیونکر چلتا ہے۔ لپ اسٹک کیسے بے ہودہ طریقے سے استعمال کی ہے اس نے۔ ساڑھی کی پہناوٹ آج بھی خامیوں سے بھری ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ اس سے کیسے ملے۔ اس کی چائے میز پر آچکی تھی ورنہ اٹھ کر وہ اس لڑکی کے پاس جا بیٹھتا۔ اس نے چائے پینا شروع کردی۔ اس دوران میں اس نے ایک ہلکا سا اشارہ کیا۔ لڑکی نے دیکھا کچھ توقف کے بعد اٹھی اور مقبول کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ مقبول پہلے تو کچھ گھبرایا لیکن فوراً ہی سنبھل کر لڑکی سے مخاطب ہوا۔

’’چائے شوق فرمائیں گی آپ۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

اس کے جوابوں کے اس اختصار میں روکھا پن تھا۔ مبقول نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔

’’کشمیریوں کو تو چائے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ ‘‘

لڑکی نے بڑے بے ہنگم انداز میں پوچھا۔

’’تم چلنا چاہتے ہو میرے ساتھ۔ ‘‘

مقبول کو جیسے کسی نے اوندھے منہ گرا دیا۔ گھبراہٹ میں وہ صرف اس قدر کہہ سکا۔

’’ہا۔ ‘‘

لڑکی نے کہا۔

’’ففٹی روپیز۔ یس اور نو؟‘‘

یہ دوسرا ریلا تھا مگر مبقول نے اپنے قدم جما لیے

’’چلیے!‘‘

مقبول نے چائے کا بل ادا کیا۔ دونو اٹھ کر ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں اس نے کوئی بات نہ کی۔ لڑکی بھی خاموش رہی۔ ٹیکسی میں بیٹھے تو اس نے مقبول سے پوچھا۔

’’کہاں جائے گا تم؟‘‘

مقبول نے جواب دیا۔

’’جہاں تم لے جاؤ گی۔ ‘‘

’’ہم کچھ نہیں جانتا۔ تم بولو کدھر جائے گا؟‘‘

مقبول کو کوئی اور جواب نہ سوجھا تو کہا۔

’’ہم کچھ نہیں جانتا!‘‘

لڑکی نے ٹیکسی کا دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

’’تم کیسا آدمی ہے۔ خلی پیلی جوک کرتا ہے۔ ‘‘

مقبول نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

’’میں مذاق نہیں کرتا۔ مجھے تم سے صرف باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘

وہ بگڑ کربولی

’’کیا۔ تم تو بولا تھا ففٹی روپیز یس!‘‘

مقبول نے جیب میں ہاتھ ڈ الا اور دس دس کے پانچ نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیے۔

’’یہ لو گھبراتی کیوں ہو۔ ‘‘

اس نے نوٹ لے لیے۔

’’تم جائے گا کہاں۔ ‘‘

مقبول نے کہا۔

’’تمہارے گھر۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں نہیں۔ ‘‘

’’تم کو بولا ہے نہیں۔ ادھر ایسی بات نہیں ہو گی۔ ‘‘

مقبول مسکرایا۔

’’ٹھیک ہے۔ ایسی بات ادھر نہیں ہو گی۔ ‘‘

وہ کچھ متحیر سی ہوئی۔

’’تم کیسا آدمی ہے۔ ‘‘

’’جیسا میں ہوں۔ تم نے بولا ففٹی روپیز یس کہ نو۔ میں نے کہا یس اور نوٹ تمہارے حوالے کردیے۔ تم نے بولا اُدھر ایسی بات نہیں ہو گی۔ میں نے کہا بالکل نہیں ہو گی۔ اب اور کیا کہتی ہو۔ ‘‘

لڑکی سوچنے لگی۔ مقبول مسکرایا۔

’’دیکھو شانتی، بات یہ ہے۔ کل تم کو دیکھا۔ ایک دوست نے تمہاری کچھ باتیں سنائیں جو مجھے دلچسپ معلوم ہوئیں۔ آج میں نے تمہیں پکڑ لیا۔ اب تمہارے گھر چلتے ہیں۔ وہاں کچھ دیر تم سے باتیں کروں گا اور چلا جاؤں گا۔ کیا تمہیں یہ منظور نہیں۔ ‘‘

’’نہیں۔ یہ لو اپنے ففٹی روپیز۔ ‘‘

لڑکی کے چہرے پر جھنجلاہٹ تھی۔

’’تمہیں بس ففٹی روپیز کی پڑی ہے۔ روپے کے علاوہ بھی دنیا میں اور بہت سی چیزیں ہیں۔ چلو، ڈرائیور کو اپنا اڈریس بتاؤ۔ میں شریف آدمی ہوں۔ تمہارے ساتھ کوئی دھوکا نہیں کرونگا۔ ‘‘

مقبول کے انداز گفتگو میں صداقت تھی۔ لڑکی متاثر ہوئی۔ اس نے کچھ دیر سوچا پھرکہا۔

’’چلو۔ ڈرائیور، ہاربنی روڈ!‘‘

ٹیکسی چلی تو اس نے نوٹ مقبول کی جیب میں ڈال دیے۔

’’یہ میں نہیں لوں گی۔ ‘‘

مقبول نے اصرار نہ کیا۔

’’تمہاری مرضی!‘‘

ٹیکسی ایک پانچ منزلہ بلڈنگ کے پاس رکی۔ پہلی اور دوسری منزل پر مساس خانے تھے۔ تیسری، چوتھی اور پانچویں منزل ہوٹل کے لیے مخصوص تھی۔ بڑی تنگ و تار جگہ تھی۔ چوتھی منزل پر سیڑھیوں کے سامنے والا کمرہ شانتی کا تھا۔ اس نے پرس سے چابی نکال کر دروازہ کھولا۔ بہت مختصر سامان تھا۔ لوہے کا ایک پلنگ جس پر اجلی چادر بچھی تھی۔ کونے میں ڈرسنگ ٹیبل۔ ایک اسٹول، اس پر ٹیبل فین۔ چار ٹرنک تھے وہ پلنگ کے نیچے دھرے تھے۔ مقبول کمرے کی صفائی سے بہت متاثر ہوا۔ ہر چیز صاف ستھری تھی۔ تکیے کے غلاف عام طور پر میلے ہوتے ہیں مگر اس کے دونوں تکیے بے داغ غلافوں میں ملفوف تھے۔ مقبول پلنگ پر بیٹھنے لگا تو شانتی نے اسے روکا۔

’’نہیں۔ ادھر بیٹھنے کا اجازت نہیں۔ ہم کسی کو اپنے بستر پر نہیں بیٹھنے دیتا۔ کرسی پر بیٹھو یہ کہہ کروہ خود پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مقبول مسکرا کر کرسی پر ٹک گیا۔ شانتی نے اپنا پرس تکیے کے نیچے رکھا اور مقبول سے پوچھا۔

’’بولو۔ کیا باتیں کرنا چاہتے ہو؟‘‘

مقبول نے شانتی کی طرف غور سے دیکھا۔

’’پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہیں ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانی بالکل نہیں آتی۔ ‘‘

شانتی نے برا نہ مانا۔ صرف اتنا کہا۔

’’مجھے مالوم ہے۔ ‘‘

’’اٹھو۔ مجھے لپ اسٹک دو میں تمہیں سکھاتا ہوں‘‘

یہ کہہ کر مقبول نے اپنا رومال نکالا۔ شانتی نے اس سے کہا۔

’’ڈرسنگ ٹیبل پر پڑا ہے، اٹھا لو۔ ‘‘

مقبول نے لپ اسٹک اٹھائی۔ اسے کھول کر دیکھا۔

’’ادھر آؤ، میں تمہارے ہونٹ پونچھوں۔ ‘‘

’’تمہارے رومال سے نہیں۔ میرا لو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ٹرنک کھولا اور ایک دھلا ہوا رومال مقبول کو دیا۔ مقبول نے اس کے ہونٹ پونچھے۔ بڑی نفاست سے نئی سرخی ان پر لگائی۔ پھر کنگھی سے اس کے بال ٹھیک کیے اور کہا۔

’’لو اب آئینہ دیکھو۔ ‘‘

شانتی اٹھ کر ڈرسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ بڑے غور سے اس نے اپنے ہونٹوں اور بالوں کا معائنہ کیا۔ پسندیدہ نظروں سے تبدیلی محسوس کی اور پلٹ کر مقبول سے صرف اتنا کہا۔

’’اب ٹھیک ہے‘‘

پھر پلنگ پر بیٹھ کر پوچھا۔

’’تمہارا کوئی بیوی ہے؟‘‘

مقبول نے جواب دیا۔

’’نہیں۔ ‘‘

کچھ دیر خاموشی رہی۔ مقبول چاہتا تھا باتیں ہوں چنانچہ اس نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

’’اتنا تو مجھے معلوم ہے کہ تم کشمیر کی رہنے والی ہو۔ تمہارا نام شانتی ہے۔ یہاں رہتی ہو۔ یہ بتاؤ تم نے ففٹی روپیز کا معاملہ کیوں شروع کیا؟‘‘

شانتی نے یہ بے تکلف جواب دیا۔

’’میرا فادر سری نگر میں ڈاکٹر ہے۔ میں وہاں ہوسپیٹل میں نرس تھا۔ ایک لڑکے نے مجھ کو خراب کردیا۔ میں بھاگ کر ادھر کو آگئی۔ یہاں ہم کو ایک آدمی ملا۔ وہ ہم کو ففٹی روپیز دیا۔ بولا ہمارے ساتھ چلو۔ ہم گیا۔ بس کام چالو ہو گیا۔ ہم یہاں ہوٹل میں آگیا۔ پرہم ادھر کسی سے بات نہیں کرتی۔ سب رنڈی لوگ ہے۔ کسی کو یہاں نہیں آنے دیتی۔ ‘‘

مقبول نے کرید کرید کر تمام واقعات معلوم کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ کچھ اور باتیں ہوئیں جن سے اسے پتا چلا کہ شانتی کو جنسی معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جب اس کا ذکر آیا تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا۔

’’آئی ڈونٹ لائک۔ یِٹ از بیڈ۔ ‘‘

اس کے نزدیک ففٹی روپیز کا معاملہ ایک کاروباری معاملہ تھا۔ سرینگر کے ہسپتال میں جب کسی لڑکے نے اس کو خراب کیا تو جاتے وقت دس روپے دینا چاہے۔ شانتی کو بہت غصہ آیا۔ نوٹ پھاڑ دیا۔ اس واقعے کا اس کے دماغ پر یہ اثر ہوا کہ اس نے باقاعدہ کاروبار شروع کردیا۔ پچاس روپے فیس خود بخود مقرر ہو گئی۔ اب لذت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ چونکہ نرس رہ چکی تھی اس لیے بڑی محتاط رہتی تھی۔ ایک برس ہو گیا تھا اسے بمبئی میں آئے ہوئے۔ اس دوران میں اس نے دس ہزار روپے بچائے ہوتے مگر اس کو ریس کھیلنے کی لت پڑ گئی۔ پچھلی ریسوں پر اس کے پانچ ہزار اڑ گئے لیکن اس کو یقین تھا کہ وہ نئی ریسوں پر ضرور جیتے گی۔

’’ہم اپنا لوس پورا کرلے گا۔ ‘‘

اس کے پاس کوڑی کڑوی کا حساب موجود تھا۔ سو روپے ر وزانہ کما لیتی تھی جو فوراً بنک میں جمع کرا دیے جاتے تھے۔ سو سے زیادہ وہ نہیں کمانا چاہتی تھی۔ اس کو اپنی صحت کا بہت خیال تھا۔ دو گھنٹے گزر گئے تو اس نے پانی گھڑی دیکھی اور مقبول سے کہا۔

’’تم اب جاؤ۔ ہم کھانا کھائے گا اور سو جائے گا۔ ‘‘

مقبول اٹھ کر جانے لگا تو اس نے کہا۔

’’باتیں کرنے آؤ تو صبح کے ٹائم آؤ۔ شام کے ٹائم ہمارا نقصان ہوتی ہے۔ ‘‘

مقبول نے

’’اچھا‘‘

کہا اور چل دیا۔ دوسرے روز صبح دس بجے کے قریب مقبول شانتی کے پاس پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اس کی آمد پسند نہیں کرے گی مگر اس نے کوئی ناگواری ظاہر نہ کی۔ مقبول دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا۔ اس دوران میں شانتی کو صحیح طریقے پر ساڑھی پہننی سکھائی۔ لڑکی ذہین تھی۔ جلدی سیکھ گئی۔ کپڑے اس کے پاس کافی تعداد میں اور اچھے تھے۔ یہ سب کے سب اس نے مقبول کو دکھائے۔ اس میں بچپنا تھا نہ بڑھاپا۔ شباب بھی نہیں تھا۔ وہ جیسے کچھ بنتے بنتے ایک دم رک گئی تھی، ایک ایسے مقام پر ٹھہر گئی تھی جس کے موسم کا تعین نہیں ہوسکتا۔ وہ خوبصورت تھی نہ بدصورت، عورت تھی نہ لڑکی۔ وہ پھول تھی نہ کلی۔ شاخ تھی نہ تنا۔ اس کو دیکھ کر بعض اوقات مقبول کو بہت الجھن ہوتی تھی۔ وہ اس میں وہ نقطہ دیکھنا چاہتا تھا۔ جہاں اس نے غلط ملط ہونا شروع کیا تھا۔ شانتی کے متعلق اور زیادہ جاننے کے لیے مقبول نے اس سے ہر دوسرے تیسرے روز ملنا شروع کردیا۔ وہ اس کی کوئی خاطر مدارت نہیں کرتی تھی۔ لیکن اب اس نے اس کو اپنے صاف ستھرے بستر پر بیٹھنے کی اجازت دے دی تھی۔ ایک دن مقبول کو بہت تعجب ہوا جب شانتی نے اس سے کہا۔

’’تم کوئی لڑکی مانگتا؟‘‘

مقبول لیٹا ہوا تھا چونک کر اٹھا۔

’’کیا کہا؟‘‘

شانتی نے کہا۔

’’ہم پوچھتی، تم کوئی لڑکی مانگتا تو ہم لا کر دیتا۔ ‘‘

مقبول نے اس سے دریافت کیا کہ یہ بیٹھے بیٹھے اسے کیا خیال آیا۔ کیوں اس نے یہ سوال کیا تو وہ خاموش ہو گئی۔ مقبول نے اصرار کیا تو شانتی نے بتایا کہ مقبول اسے ایک بیکار عورت سمجھتا ہے۔ اس کو حیرت ہے کہ مرد اس کے پاس کیوں آتے ہیں جبکہ وہ اتنی ٹھنڈی ہے۔ مقبول اس سے صرف باتیں کرتا ہے اور چلا جاتاہے۔ وہ اسے کھلونا سمجھتا ہے۔ آج اس نے سوچا، مجھ جیسی ساری عورتیں تو نہیں مقبول کو عورت کی ضرورت ہے، کیوں نہ وہ اسے ایک منگا دے۔ مقبول نے پہلی بار شانتی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ ایک دم وہ اٹھی اور چلانے لگی

’’ہم کچھ بھی نہیں ہے۔ جاؤ چلے جاؤ۔ ہمارے پاس کیوں آتا ہے تم۔ جاؤ۔ ‘‘

مقبول نے کچھ نہ کہا۔

’’خاموشی سے اٹھا اور چلا گیا۔ ‘‘

متواتر ایک ہفتہ دوپیرے ژین ڈیری جاتا رہا۔ مگر شانتی دکھائی نہ دی۔ آخر ایک صبح اس نے اس کے ہوٹل کا رخ کیا۔ شانتی نے دروازہ کھول دیا مگر کوئی بات نہ کی۔ مقبول کرسی پر بیٹھ گیا۔ شانتی کے ہونٹوں پر سرخی پرانے بھدے طریقے پر لگی تھی۔ بالوں کا حال بھی پرانا تھا۔ ساڑھی کی پہناوٹ تو اور زیادہ بدزیب تھی۔ مقبول اس سے مخاطب ہوا۔

’’مجھ سے ناراض ہو تم؟‘‘

شانتی نے جواب نہ دیا اور پلنگ پر بیٹھ گئی۔ مقبول نے تند لہجے میں پوچھا۔

’’بھول گئیں جو میں نے سکھایا تھا؟‘‘

شانتی خاموش رہی۔ مقبول نے غصے میں کہا۔

’’جواب دو ورنہ یاد رکھو ماروں گا۔ ‘‘

شانتی نے صرف اتنا کہا۔

’’مارو۔ ‘‘

مقبول نے اٹھ کر ایک زور کا چانٹا اس کے منہ پر جڑ دیا۔ شانتی بلبلا اٹھی۔ اس کی حیرت زدہ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ مقبول نے جیب سے اپنا رومال نکالا۔ غصے میں اس کے ہونٹوں کی بھدی سرخی پونچھی۔ اس نے مزاحمت کی لیکن مقبول اپنا کام کرتا رہا۔ لپ اسٹک اٹھا کر نئی سرخی لگائی۔ کنگھے سے اس کے بال سنوارے، پھر اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’ساڑھی ٹھیک کرو اپنی۔ ‘‘

شانتی اٹھی اور ساڑھی ٹھیک کرنے لگی مگر ایک دم اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا اور روتی روتی خود کو بستر پرگرا دیا۔ مقبول تھوڑی دیر خاموش رہا۔ جب شانتی کے رونے کی شدت کچھ کم ہوئی تو اس کے پاس جا کر کہا۔

’’شانتی اٹھو۔ میں جارہا ہوں۔ ‘‘

شانتی نے تڑپ کر کروٹ بدلی اور چلائی۔

’’نہیں نہیں۔ تم نہیں جاسکتے۔ ‘‘

اور دونوں بازو پھیلا کر دروازے کے درمیان میں کھڑی ہو گئی۔

’’تم گیا تو مار ڈالوں گی۔ ‘‘

وہ ہانپ رہی تھی۔ اس کا سینہ جس کے متعلق مقبول نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا جیسے گہری نیند سے اٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مقبول کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے شانتی نے تلے اوپر بڑی سرعت سے کئی رنگ بدلے۔ اس کی نمناک آنکھیں چمک رہی تھیں۔ سرخی لگے باریک ہونٹ ہولے ہولے لرز رہے تھے۔ ایک دم آگے بڑھ کر مقبول نے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ دونوں پلنگ پر بیٹھے تو شانتی نے اپنا سر نیوڑھا کر مقبول کی گود میں ڈال دیا۔ اس کے آنسو بند ہونے ہی میں نہ آتے تھے۔ مقبول نے اس کو پیار کیا۔ رونا بند کرنے کے لیے کہا تو وہ آنسوؤں میں اٹک اٹک کر بولی

’’ادھر سرینگر میں۔ ایک آدمی نے۔ ہم کو مار دیا تھا۔ ادھر ایک آدمی نے۔ ہم کو زندہ کردیا۔ ‘‘

دو گھنٹے کے بعد جب مقبول جانے لگا تو اس نے جیب سے پچاس روپے نکال کر شانتی کے پلنگ پر رکھے اور مسکرا کہا۔

’’یہ لو اپنے ففٹی روپیز!‘‘

شانتی نے بڑے غصے اور بڑی نفرت سے نوٹ اٹھائے اور پھینک دیے۔ پھر اس نے تیزی سے اپنی ڈرسنگ ٹیبل کا ایک دروازہ کھولا اور مقبول سے کہا۔

’’ادھر آؤ۔ دیکھو یہ کیا ہے؟‘‘

مقبول نے دیکھا۔ دراز میں سو سو کے کئی نوٹوں کے ٹکڑے پڑے تھے۔ مٹی بھر کے شانتی نے اٹھائے اور ہوا میں اچھالے۔

’’ہم اب یہ نہیں مانگتا!‘‘

مقبول مسکرایا۔ ہولے سے اس نے شانتی کے گال پر چھوٹی سی چپت لگائی اور پوچھا:

’’اب تم کیا مانگتا ہے!‘‘

شانتی نے جواب دیا۔

’’تم کو‘‘

یہ کہہ کر وہ مقبول کے ساتھ چمٹ گئی اور رونا شروع کردیا۔ مقبول نے اس کے بال سنوارتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔

’’روؤ نہیں۔ تم نے جو مانگا ہے وہ تمہیں مل گیا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

شاردا

نذیر بلیک مارکیٹ سے وسکی کی بوتل لانے گیا۔ بڑک ڈاک خانے سے کچھ آگے بندر گاہ کے پھاٹک سے کچھ ادھر سگرٹ والے کی دکان سے اس کو اسکوچ مناسب داموں پر مل جاتی تھی۔ جب اس نے پینتیس روپے ادا کرکے کاغذ میں لپٹی ہوئی بوتل لی تو اس وقت گیارہ بجے تھے دن کے۔ یوں تو وہ رات کو پینے کا عادی تھا مگر اس روز موسم خوشگوار ہونے کے باعث وہ چاہتا تھا کہ صبح ہی سے شروع کردے اور رات تک پیتا رہے۔ بوتل ہاتھ میں پکڑے وہ خوش خوش گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ بوری بندر کے اسٹینڈ سے ٹیکسی لے گا۔ ایک پیگ اس میں بیٹھ کر پیئے گا اور ہلکے ہلکے سرور میں گھر پہنچ جائے گا۔ بیوی منع کرے گی تو وہ اس سے کہے گا۔

’’موسم دیکھ کتنا اچھا۔ ‘‘

پھر وہ اسے وہ بھونڈا سا شعر سنائے گا ؂ کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند جو گناہ کیجیے ثواب ہے آج وہ کچھ دیر ضرور چخ کرے گی، لیکن بالآخر خاموش ہو جائے گی اور اس کے کہنے پر قیمے کے پراٹھے بنانا شروع کردے گی۔ دکان سے بیس پچیس گز دور گیا ہو گا کہ ایک آدمی نے اس کو سلام کیا۔ نذیر کا حافظہ کمزور تھا۔ اس نے سلام کرنے والی آدمی کو نہ پہچانا، لیکن اس پر یہ ظاہر نہ کیا کہ وہ اس کو نہیں جانتا، چنانچہ بڑے اخلاق سے کہا۔

’’کیوں بھئی کہاں ہوتے ہو۔ کبھی نظر ہی نہیں آئے۔ ‘‘

اس آدمی نے مسکرا کر کہا۔

’’حضور، میں تو یہیں ہوتا ہوں۔ آپ ہی کبھی تشریف نہیں لائے؟‘‘

نذیر نے اس کو پھر بھی نہ پہچانا۔

’’میں اب جو تشریف لے آیا ہوں۔ ‘‘

’’تو چلیے میرے ساتھ۔ ‘‘

نذیر اس وقت بڑے اچھے موڈ میں تھا۔

’’چلو۔ ‘‘

اس آدمی نے نذیر کے ہاتھ میں بوتل دیکھی اور معنی خیز طریقے پر مسکرایا۔

’’باقی سامان تو آپ کے پاس موجود ہے۔ ‘‘

یہ فقرہ سن کر نذیر نے فوراً ہی سوچا کہ وہ دلال ہے۔

’’تمہارا نام کیا ہے۔ ‘‘

’’کریم۔ آپ بھول گئے تھے!‘‘

نذیر کو یاد آگیا کہ شادی سے پہلے ایک کریم اس کے لیے اچھی اچھی لڑکیاں لایا کرتا تھا۔ بڑا ایماندار دلال تھا۔ اس کو غور سے دیکھا تو صورت جانی پہچانی معلوم ہوئی۔ پھر پچھلے تمام واقعات اس کے ذہن میں ابھر آئے۔ کریم سے اس نے معذرت چاہی۔

’’یار میں نے تمہیں پہچانا نہیں تھا۔ میرا خیال ہے۔ غالباً چھ برس ہو گئے ہیں تم سے ملے ہوئے۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’تمہار ا اڈہ تو پہلے گرانٹ روڈ کانا کا ہوا کرتا تھا؟‘‘

کریم نے بیڑی سلگائی اور ذرا فخر سے کہا۔

’’میں نے وہ چھوڑ دیا ہے۔ آپ کی دعا سے اب یہاں ایک ہوٹل میں دھندا شروع کررکھا ہے۔ ‘‘

نذیر نے اس کو داد دی۔

’’یہ بہت اچھا کیا تم نے؟‘‘

کریم نے اور زیادہ فخریہ لہجے میں کہا۔

’’دس چھوکریاں ہیں۔ ایک بالکل نئی ہے۔ ‘‘

نذیر نے اس کو چھیڑنے کے انداز میں کہا۔

’’تم لوگ یہی کہا کرتے ہو۔ ‘‘

کریم کو بُرا لگا۔

’’قسم قرآن کی، میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ سور کھاؤں اگر وہ چھوکری بالکل نئی نہ ہو۔ ‘‘

پھر اس نے اپنی آواز دھیمی کی اور نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔

’’آٹھ دن ہوئے ہیں جب پہلا پیسنجر آیا تھا۔ جھوٹ بولوں تو میرا منہ کالا ہو۔ ‘‘

نذیر نے پوچھا۔

’’کنواری تھی؟‘‘

’’جی ہاں۔ دو سو روپے لیے تھے اس پیسنجر سے؟‘‘

نذیر نے کریم کی پسلیوں میں ایک ٹھونکا دیا۔

’’لو، یہیں بھاؤ پکا کرنے لگے۔ ‘‘

کریم کو نذیر کی یہ بات پھر بُری لگی۔

’’قسم قرآن کی، سور ہوجو آپ سے بھاؤ کرے آپ تشریف لے چلیے۔ آپ جو بھی دیں گے مجھے قبول ہو گا۔ کریم نے آپ کا بہت نمک کھایا ہے۔ ‘‘

نذیر کی جیب میں اس وقت ساڑھے چار سو روپے تھے۔ موسم اچھا تھا۔ موڈ بھی اچھا تھا۔ وہ چھ برس پیچھے کے زمانے میں چلا گیا۔ بن پئے مسرور تھا۔

’’چلو یار آج تمام عیاشیاں رہیں۔ ایک بوتل کا اور بندوبست ہو جانا چاہیے۔ ‘‘

کریم نے پوچھا۔

’’آپ کتنے میں لائے ہیں یہ بوتل؟‘‘

’’پینتیس روپے میں۔ ‘‘

’’کون سا برانڈ ہے؟‘‘

’’جونی واکر!‘‘

کریم نے چھاتی پر ہاتھ مار کرکہا۔

’’میں آپ کو تیس میں لادوں گا۔ ‘‘

نذیر نے دس دس کے تین نوٹ نکالے اور کریم کے ہاتھ میں دے دیے۔

’’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ یہ لو۔ مجھے وہاں بٹھا کر تم پہلا کام یہی کرنا۔ تم جانتے ہو، میں ایسے معاملوں میں اکیلا نہیں پیا کرتا۔ ‘‘

کریم مسکرایا۔

’’اور آپ کو یاد ہو گا۔ میں ڈیڑھ پیگ سے زیادہ نہیں پیا کرتا۔ ‘‘

نذیر کو یاد آگیا کہ کریم واقعی آج سے چھ برس پہلے صرف ڈیڑھ پیگ لیا کرتا تھا۔ یہ یاد کرکے نذیر بھی مسکرایا۔

’’آج دور ہیں۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ ڈیڑھ سے زیادہ ایک قطرہ بھی نہیں۔ ‘‘

کریم ایک تھرڈ کلاس بلڈنگ کے پاس ٹھہر گیا۔ جس کے ایک کونے میں چھوٹے سے میلے بورڈ پر

’’میرینا ہوٹل‘‘

لکھا تھا۔ نام تو خوبصورت تھا۔ مگر عمارت نہایت ہی غلیظ تھی۔ سیڑھیاں شکستہ۔ نیچے سو خوار پٹھان بڑی بڑی شلواریں پہنے کھاٹوں پر لیٹے ہوئے تھے۔ پہلی منزل پر کرسچین آباد تھے۔ دوسری منزل پر جہاز کے بے شمار خلاصی۔ تیسری منزل ہوٹل کے مالک کے پاس تھی۔ چوتھی منزل پر کونے کا ایک کمرہ کریم کے پاس تھا جس میں کئی لڑکیاں مرغیوں کی طرح اپنے ڈربے میں بیٹھی تھیں۔ کریم نے ہوٹل کے مالک سے چابی منگوائی۔ ایک بڑا لیکن بے ہنگم سا کمرہ کھولا جس میں لوہے کی ایک چارپائی، ایک کرسی اور ایک تپائی پڑی تھی۔ تین اطراف سے یہ کمرہ کھلا تھا، یعنی بے شمار کھڑکیاں تھیں، جن کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے اور کچھ نہیں، لیکن ہوا کی بہت افراط تھی۔ کریم نے آرام کرسی جو کہ بے حد میلی تھی، ایک اس سے زیادہ میلے کپڑے سے صاف کی اور نذیر سے کہا۔

’’تشریف رکھئے، لیکن میں یہ عرض کردوں۔ اس کمرے کا کرایہ دس روپے ہو گا۔ ‘‘

نذیر نے کمرے کو اب ذرا غور سے دیکھا۔

’’دس روپے زیادہ ہیں یار؟‘‘

کریم نے کہا۔

’’بہت زیادہ ہیں، لیکن کیا کیا جائے۔ سالا ہوٹل کا مالک ہی بنیا ہے۔ ایک پیسہ کم نہیں کرتا۔ اور نذیر صاحب موج شوق کرنے والے آدمی بھی زیادہ کی پرواہ نہیں کرتے۔ ‘‘

نذیر نے کچھ سوچ کر کہا۔

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ کرایہ پیشگی دے دوں؟‘‘

’’جی نہیں۔ آٰپ پہلے چھوکری تو دیکھئے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے ڈربے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نہایت ہی شرمیلی لڑکی تھی۔ گھریلو قسم کی ہندو لڑکی سفید دھوتی باندھے تھی۔ عمر چودہ برس کے لگ بھگ ہو گی۔ خوش شکل تو نہیں تھی، لیکن بھولی بھالی تھی۔ کریم نے اس سے کہا۔

’’بیٹھ جاؤ۔ یہ صاحب میرے دوست ہیں۔ بالکل اپنے آدمی ہیں۔ ‘‘

لڑکی نظریں نیچے کیے لوہے کی چارپائی پر بیٹھ گئی۔ کریم یہ کہہ کر چلا گیا۔

’’اپنا اطمینان کرلیجئے نذیر صاحب۔ میں گلاس اور سوڈا لاتا ہوں۔ ‘‘

نذیر آرام کرسی پر سے اٹھ کر لڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ سمٹ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ نذیر نے اس سے چھ برس پہلے کے انداز میں پوچھا۔

’’آپ کا نام۔ ‘‘

لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ نذیر نے آگے سرک کر اس کے ہاتھ پکڑے اور پھر پوچھا۔

’’آپ کا نام کیا ہے جناب؟‘‘

لڑکی نے ہاتھ چھڑا کر کہا۔

’’شکنتلا۔ ‘‘

اور نذیر کو شکنتلا یاد آگئی۔ جس پر راجہ دشنیت عاشق ہوا تھا۔

’’میرا نام دشنیت ہے۔ ‘‘

نذیر مکمل عیاشی پر تُلا ہوا تھا۔ لڑکی نے اس کی بات سنی اور مسکرا دی۔ اتنے میں کریم آ گیا۔ اس نے نذیر کو سوڈے کی چار بوتلیں دکھائیں جو ٹھنڈی ہونے کے باعث پسینہ چھوڑ رہی تھیں۔

’’مجھے یاد ہے کہ آپ کو روجر کا سوڈا پسند ہے برف میں لگا ہوا لے کر آیا ہوں۔ ‘‘

نذیر بہت خوش ہوا۔

’’تم کمال کرتے ہو‘‘

پھر وہ لڑکی سے مخاطب ہوا۔

’’جناب آپ بھی شوق فرمائیں گی؟‘‘

لڑکی نے کچھ نہ کہا۔ کریم نے جواب دیا۔

’’نذیر صاحب۔ یہ نہیں پیتی۔ آٹھ دن تو ہوئے ہیں اس کو یہاں آئے ہوئے۔ ‘‘

یہ سن کر نذیر کو افسوس سا ہوا۔

’’یہ تو بہت بری بات ہے۔ ‘‘

کریم نے وسکی کی بوتل کھول کر نذیر کے لیے ایک بڑا پیگ بنایا اور اس کو آنکھ مار کر کہا۔

’’آپ راضی کرلیجئے اسے۔ ‘‘

نذیر نے ایک ہی جرعے میں گلاس ختم کیا۔ کریم نے آدھا پیگ پیا۔ فوراً ہی اُس کی آواز نشہ آلود ہو گئی۔ ذرا جھوم کر اس نے نذیر سے پوچھا۔

’’چھوکری پسند ہے نا آپ کو؟‘‘

نذیر نے سوچا کہ لڑکی اسے پسند ہے کہ نہیں۔ لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ اس نے شکنتلا کی طرف غور سے دیکھا۔ اگر اس کا نام شکنتلا نہ ہوتا بہت ممکن ہے وہ اسے پسند کرلیتا۔ وہ شکنتلا جس پر راجہ دشنیت شکار کھیلتے کھیلتے عاشق ہوا تھا۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ کم از کم کتابوں میں یہی درج تھا کہ وہ چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی۔ آہو چشم تھی۔ نذیر نے ایک بار پھر اپنی شکنتلا کی طرف دیکھا۔ اسکی آنکھیں بُری نہیں تھیں۔ آہو چشم تو نہیں تھی، لیکن اس کی آنکھیں اس کی اپنی آنکھیں تھیں۔ کالی کالی اور بڑی بڑی۔ اس نے اور کچھ سوچا اور کریم سے کہا۔

’’ٹھیک ہے یار۔ بولو معاملہ کہاں طے ہوتا ہے؟‘‘

کریم نے آدھا پیگ اپنے لیے اور انڈیلا اور کہا۔

’’سو روپئے!‘‘

نذیر نے سوچنا بند کردیا تھا۔

’’ٹھیک ہے!‘‘

کریم اپنا دوسرا آدھا پیگ پی کر چلا گیا۔ نذیر نے اٹھ کر دروازہ بند کردیا۔ شکنتلا کے پاس بیٹھا تو وہ گھبرا سی گئی۔ نذیر نے اس کا پیار لینا چاہا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی۔ نذیر کو اس کی یہ حرکت ناگوار محسوس ہوئی۔ لیکن اس نے پھر کوشش کی۔ بازو سے پکڑ کر اس کو اپنے پاس بٹھایا۔ زبردستی اس کو چوما۔ بہت ہی بے کیف سلسلہ تھا۔ البتہ وسکی کا نشہ اچھا تھا۔ وہ اب تک چھ پیگ پی چکا تھا اور اس کو افسوس تھا کہ اتنی مہنگی چیز بالکل بے کار گئی ہے اس لیے کہ شکنتلا بالکل الھڑ تھی۔ اس کو ایسے معاملوں کے آداب کی کوئی واقفیت ہی نہیں تھی۔ نذیر ایک اناڑی تیراک کے ساتھ اِدھر اُدھر بے کار ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ آخر اُکتا گیا۔ دروازہ کھول کر اس نے کریم کو آواز دی جو اپنے ڈربے میں مرغیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آواز سن کر دوڑا آیا۔

’’کیا بات ہے نذیر صاحب؟‘‘

نذیر نے بڑی ناامیدی سے کہا۔

’’کچھ نہیں یار۔ یہ اپنے کام کی نہیں ہے؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ ‘‘

کریم نے شکنتلاکو الگ لے جا کر بہت سمجھایا۔ مگر وہ نہ سمجھ سکی۔ شرمائی، لجائی، دھوتی سنبھالتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ کریم نے اس پر کہا۔

’’میں ابھی حاضر کرتا ہوں۔ ‘‘

نذیر نے اس کو روکا۔

’’جانے دو۔ کوئی اور لے آؤ۔

’’لیکن اس نے فوراً ہی ارادہ بدل لیا۔

’’وہ جو تمہیں روپے دیے تھے، اس کی بوتل لے آؤ اور شکنتلا کے سوا جتنی لڑکیاں اس وقت موجود ہیں انھیں یہاں بھیج دو۔ میرا مطلب ہے جو پیتی ہیں۔ آج اور کوئی سلسلہ نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کروں گا اور بس!‘‘

کریم نذیر کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے چار لڑکیاں کمرے میں بھیج دیں۔ نذیر نے ان سب کو سرسری نظر سے دیکھا، کیونکہ وہ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ پروگرام صرف پینے کا ہو گا۔ چنانچہ اس نے ان لڑکیوں کے لیے گلاس منگوائے اور ان کے ساتھ پینا شروع کردیا۔ دوپہر کا کھانا ہوٹل سے منگوا کر کھایا اور شام کے چھ بجے تک ان لڑکیوں سے باتیں کرتا رہا۔ بڑی فضول قسم کی باتیں، لیکن نذیر خوش تھا۔ جو کوفت شکنتلا نے پیدا کی تھی۔ دور ہو گئی تھی۔ آدھی بوتل باقی تھی، وہ ساتھ لے کر گھر چلا گیا۔ پندرہ روز کے بعد پھر موسم کی وجہ اس کا جی چاہا کہ سارا دن پی جائے۔ سگرٹ والے کی دکان سے خریدنے کے بجائے اس نے سوچا کیوں نہ کریم سے ملوں، وہ تیس میں دے دیگا۔ چنانچہ وہ اس کے ہوٹل میں پہنچا۔ اتفاق سے کریم مل گیا۔ اس نے ملتے ہی بہت ہولے سے کہا۔

’’نذیر صاحب، شکنتلا کی بڑی بہن آئی ہوئی ہے۔ آج صبح ہی گاڑی سے پہنچی ہے۔ بہت ہٹیلی ہے۔ مگر آپ اس کو ضرور راضی کرلیں گے۔ ‘‘

نذیر کچھ سوچ نہ سکا۔ اس نے اپنے دل میں اتنا کہا۔

’’چلو دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘

لیکن اس نے کریم سے کہا۔

’’تم پہلے یار وسکی لے آؤ۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے تیس روپے جیب سے نکال کر کریم کو دیے۔ کریم نے نوٹ لیکر نذیر سے کہا۔

’’میں لے آتا ہوں۔ آپ اندر کمرے میں بیٹھے۔ ‘‘

نذیر کے پاس صرف دس روپے تھے، لیکن وہ کمرے کا دروازہ کھلوا کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ وسکی کی بوتل لے کر ایک نظر شکنتلا کی بہن کو دیکھ کر چل دے گا۔ جاتے وقت دو روپے کریم کو دے دے گا۔ تین طرف سے کھلے ہوئے ہوادار کمرے میں نہایت ہی میلی کرسی پر بیٹھ کر اس نے سگریٹ سلگایا اور اپنی ٹانگیں رکھ دیں۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد آہٹ ہوئی۔ کریم داخل ہوا۔ اس نے نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کر ہولے سے کہا۔

’’نذیر صاحب آرہی ہے۔ لیکن آپ ہی رام کیجیے گا اُسے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ پانچ منٹ کے بعد ایک لڑکی جس کی شکل و صورت قریب قریب شکنتلا سے ملتی تھی۔ تیوڑی چڑھائے، شکنتلا کے سے انداز میں سفید دھوتی پہنے کمرے میں داخل ہوئی۔ بڑی بے پروائی سے اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لیجا کر

’’آداب‘‘

کہا اور لوہے کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ نذیر نے یوں محسوس کیا کہ وہ اس سے لڑنے آئی ہے۔ چھ برس پیچھے کے زمانے میں ڈبکی لگا کر وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ شکنتلا کی بہن ہیں۔ ‘‘

اس نے بڑے تیکھے اور خفگی آمیز لہجے میں کہا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

نذیر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد اس لڑکی کوجس کی عمر شکنتلا سے غالباً تین برس بڑی تھی۔ بڑے غور سے دیکھا۔ نذیر کی یہ حرکت اس کو بہت ناگوار محسوس ہوئی۔ وہ بڑے زور سے ٹانگ ہلا کر اس سے مخاطب ہوئی۔

’’آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

نذیر کے ہونٹوں پر چھ برس پیچھے کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’جناب آپ اس قدر ناراض کیوں ہیں؟‘‘

وہ برس پڑی۔

’’میں ناراض کیوں نہ ہوں۔ یہ آپ کا کریم میری بہن کو جے پور سے اڑا لایا ہے۔ بتائیے آپ میرا خون نہیں کھولے گا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو بھی وہ پیش کی گئی تھی؟‘‘

نذیر کی زندگی میں ایسا معاملہ کبھی نہیں آیا تھا۔ کچھ دیر سوچ کر اُس نے اس لڑکی سے بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔

’’شکنتلا کو دیکھتے ہی میں نے فیصلہ کرلیا تھا۔ کہ یہ لڑکی میرے کام کی نہیں۔ بہت الھڑ ہے۔ مجھے ایسی لڑکیاں بالکل پسند نہیں۔ آپ شاید بُرا مانیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں ان عورتوں کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں جو مرد کی ضروریات کو سمجھتی ہوں۔ ‘‘

اس نے کچھ نہ کہا۔ نذیر نے اس سے دریافت کیا۔

’’آپ کا نام۔ ‘‘

شکتنلا کی بہن نے مختصراً کہا۔

’’شاردا۔ ‘‘

نذیر نے پھر اس سے پوچھا۔

’’آپ کا وطن۔ ‘‘

’’جے پور۔ ‘‘

اس کا لہجہ بہت تیکھا اور خفگی آلود تھا۔ نذیر نے مسکرا کر اس سے کہا۔

’’دیکھیے آپ کو مجھ سے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں۔ کریم نے اگر کوئی زیادتی کی ہے تو آپ اس کو سزا دے سکتی ہیں، لیکن میرا کوئی قصور نہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اس کو اچانک اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہ کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ نذیر اس سے مخاطب ہوا

’’یہ قصور البتہ میرا ہے۔ اس کی سزا میں بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

لڑکی کے ماتھے پر بیشمار تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ اس نے تین چار مرتبہ زمین پر تھوکا۔ غالباً گالیاں دینے والی تھی، لیکن چپ ہو گئی۔ اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ لیکن فوراً ہی بیٹھ گئی۔ نذیر نے چاہا کہ وہ کچھ کہے۔

’’بتائیے، آپ مجھے کیا سزا دینا چاہتی ہیں۔ ‘‘

’’وہ کچھ کہنے والی تھی کہ ڈربے سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔ لڑکی اٹھی نذیر نے اسے روکا۔ کہاں جارہی ہیں آپ؟‘‘

وہ ایک دم ماں بن گئی۔

’’منی رو رہی ہے، دودھ کے لیے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ نذیر نے اس کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی مگر کچھ سوچ نہ سکا۔ اتنے میں کریم وسکی کی بوتل اور سوڈے لیکر آگیا۔ اس نے نذیر کے لیے چھوٹا ڈالا۔ اپنا گلاس ختم کیا اور نذیر سے رازدارانہ لہجے میں کہا۔

’’کچھ باتیں ہوئیں شاردا سے۔

’’میں نے تو سمجھا تھا کہ آپ نے پٹالیا ہو گا؟‘‘

نذیر نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’بڑی غصیلی عورت ہے!‘‘

’’جی ہاں۔ صبح آئی ہے، میری جان کھا گئی۔ آپ ذرا اس کو رام کریں۔ شکنتلا خود یہاں آئی تھی۔ اس لیے کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ چکا ہے اور اس شاردا کا معاملہ بھی ایسا ہے۔ اس کا پتی شادی کے فوراً بعد ہی اس کو چھوڑ کر خدا معلوم کہاں چلا گیا تھا۔ اب اکیلی اپنی بچی کے ساتھ ماں کے پاس رہتی ہے۔ آپ منا لیجئے نا اس کو؟‘‘

نذیر نے اس سے کہا۔

’’منانے کی کیا بات ہے؟‘‘

کریم نے اس کو آنکھ ماری۔

’’سالی مجھ سے تو مانتی نہیں۔ جب سے آئی ہے ڈانٹ رہی ہے۔ ‘‘

اتنے میں شاردا اپنی ایک سال کی بچی کو گود میں اٹھائے اندر کمرے میں آئی۔ کریم کو اس نے غصے سے دیکھا۔ اس نے آدھا پیگ پیا اور باہر چلا گیا۔ منی کو بہت زکام تھا۔ ناک بہت بری طرح بہہ رہی تھی۔ نذیر نے کریم کو بلایا اور اس کو پانچ کا نوٹ دیکر کہا۔

’’جاؤ، ایک وکس کی بوتل لے آؤ۔ ‘‘

کریم نے پوچھا۔

’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘

نذیر نے اس سے کہا۔

’’زکام کی دوا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک پرزے پر اس دوا کا نام لکھ دیا۔

’’کسی بھی اسٹور سے مل جائے گی۔ ‘‘

’’جی اچھا۔ ‘‘

کہہ کر کریم چلا گیا۔ نذیر منی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کو بچے بہت اچھے لگتے تھے۔ منی خوش شکل نہیں تھی۔ لیکن کم سنی کے باعث نذیر کے لیے دلکش تھی۔ اس نے اس کو گود میں لیا۔ ماں سے سو نہیں رہی تھی۔ سر میں ہولے ہولے انگلیاں پھیر کر اس کو سلا دیا اور شاردا سے کہا۔

’’اس کی ماں تو میں ہوں۔ ‘‘

شاردا مسکرائی۔

’’لائیے، میں اس کو اندرچھوڑ آؤں۔ ‘‘

شاردا اس کو اندر لے گئی اور چند منٹ کے بعد واپس آگئی۔ اب اس کے چہرے پر غصے کے آثار نہیں تھے۔ نذیر اسکے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ اس کے بعد اس نے شاردا سے پوچھا۔

’’کیا آپ مجھے اپنا پتی بننے کی اجازت دے سکتی ہیں۔ ‘‘

اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ شاردا نے غصے کا اظہار نہ کیا۔

’’جواب دیجیے جناب؟‘‘

شاردا خاموش رہی۔ نذیر نے اٹھ کر ایک پیگ پیا، تو شاردا نے ناک سکوڑ کر اس سے کہا۔

’’مجھے اس چیز سے نفرت ہے۔ ‘‘

نذیر نے ایک پیگ گلاس میں ڈالا۔ اس میں سوڈا حل کرکے اٹھایا اور شاردا کے پاس بیٹھ گیا۔

’’آپ کو اس سے نفرت ہے کیوں؟‘‘

شاردا نے مختصر سا جواب دیا۔

’’بس ہے۔ ‘‘

’’تو آج سے نہیں رہے گی۔ یہ لیجیے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے گلاس شاردا کی طرف بڑھا دیا۔

’’میں ہرگز نہیں پیوں گی۔ ‘‘

’’میں کہتا ہوں، تم ہرگز انکار نہیں کرو گی۔ ‘‘

شاردا نے گلاس پکڑ لیا۔ تھوڑی دیر تک اس کو عجیب نگاہوں سے دیکھتی رہی، پھر نذیر کی طرف مظلومانہ نگاہوں سے دیکھا۔ اور ناک انگلیوں سے بند کرکے ساتھ گلاس غٹا غٹ پی گئے۔ قے آنے کو تھی مگر اس نے روک لی۔ دھوتی کے پلو سے اپنے آنسو پونچھ کے اس نے نذیر سے کہا۔

’’یہ پہلی اور آخری بار ہے۔ ‘‘

’’لیکن میں نے کیوں پی؟‘‘

نذیر نے اس کے گیلے ہونٹ چومے اور کہا۔

’’یہ مت پوچھو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کردیا۔ شام کو سات بجے اس نے دروازہ کھولا۔ کریم آیا تو شاردا نظریں جھکائے باہر چلی گئی۔ کریم بہت خوش تھا۔ اس نے نذیر سے کہا۔

’’آپ نے کمال کردیا۔ آپ سے سو تو نہیں مانگتا، پچاس دے دیجیے۔ ‘‘

نذیر شاردا سے بے حد مطمئن تھا۔ اس قدر مطمئن کہ وہ گزشتہ تمام عورتوں کو بھول چکا تھا۔ وہ اس کے جنسی سوالات کا سو فی صدی صحیح جواب تھی۔ اس نے کریم سے کہا۔

’’میں کل ادا کردوں گا۔ ہوٹل کا کرایہ بھی کل چکاؤں گا۔ آج میرے پاس وسکی منگانے کے بعد صرف دس روپے باقی تھے۔ ‘‘

کریم نے کہا۔

’’کوئی واندہ نہیں ہے۔ میں تو اس بات سے بہت خوش ہوں کہ آپ نے شاردا سے معاملے طے کرلیا۔ حضور، میری جان کھا گئی تھی۔ اب شکنتلا سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتی!‘‘

کریم چلا گیا۔ شاردا آئی۔ اس کی گود میں منی تھی۔ نذیر نے اُس کو پانچ روپے دیے لیکن شاردا نے انکار کردیا۔ اس پر نذیر نے اس سے مکرما کر کہا۔

’’میں اس کاباپ ہوں۔ تم یہ کیا کررہی ہو۔ ‘‘

شاردا نے روپے لے لیے۔ بڑی خاموشی کے ساتھ۔ شروع شروع میں وہ بہت باتونی معلوم ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ باتوں کے دریا بہا دے گی۔ مگر اب وہ بات کرنے سے گریز کرتی تھی۔ نذیر نے اس کی بچی کو گود میں لیکر پیار کیا اور جاتے وقت شاردا سے کہا۔

’’لو بھئی شاردا، میں چلا۔ کل نہیں تو پرسوں ضرور آؤنگا۔ ‘‘

لیکن نذیر دوسرے روز ہی آگیا۔ شاردا کے جسمانی خلوص نے اس پر جادو سا کردیا تھا۔ اس نے کریم کو پچھلے روپے ادا کیے۔ ایک بوتل منگوائی اور شاردا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کو پینے کے لیے کہا تو وہ بولی۔

’’میں نے کہہ دیا تھا کہ وہ پہلا اور آخری گلاس تھا۔ ‘‘

نذیر اکیلا پیتا رہا۔ صبح گیارہ بجے سے وہ شام کے ساتھ بجے تک ہوٹل کے اس کمرے میں شاردا کے ساتھ رہا۔ جب گھر لوٹا تو وہ بے حد مطمئن تھا پہلے روزسے بھی زیادہ مطمئن۔ شاردا اپنی واجبی شکل و صورت اور کم گوئی کے باوجود اس کے شہوانی حواس پر چھا گئی تھی۔ نذیر بار بار سوچتا تھا۔

’’یہ کیسی عورت ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی خاموش، مگر جسمانی طور پر ایسی پُر گو عورت نہیں دیکھی۔ ‘‘

نذیر نے ہر دوسرے دن شاردا کے پاس جانا شروع کردیا۔ اس کو روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نذیر ساٹھ روپے کریم کو دیتا تھا۔ دس روپے ہوٹل والا لے جاتا تھا۔ باقی پچاس میں سے قریباً تیرہ روپے کریم اپنی کمیشن کے وضع کرلیتا تھا مگر شاردا نے اس کے متعلق نذیر سے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔ دو مہینے گزر گئے۔ نذیر کے بجٹ نے جواب دے دیا۔ اس کے علاوہ اس نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ شاردا اس کی ازدواجی زندگی میں بہت بُری طرح حائل ہورہی ہے۔ وہ بیوی کے ساتھ سوتا ہے تو اس کو ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ چاہتا کہ اس کے بجائے شاردا ہو۔ یہ بہت بری تھی۔ نذیر کو چونکہ اس کا احساس تھا اس لیے اس نے کوشش کی کہ شاردا کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح ختم ہو جائے۔ چنانچہ اس نے شاردا ہی سے کہا

’’شاردا میں شادی شدہ آدمی ہوں۔ میری جتنی جمع پونجی تھی ختم ہو گئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا، میں کیا کروں۔ تمہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا، حالانکہ میں چاہتا ہوں کہ ادھر کا کبھی رخ نہ کروں۔ ‘‘

شاردا نے یہ سنا تو خاموش ہو گئی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہا۔

’’جتنے روپے میرے پاس ہیں آپ لے سکتے ہیں۔ صرف مجھے جے پور کا کرایہ دے دیجیے تاکہ میں شکنتلا کو لے کر واپس چلی جاؤں۔ ‘‘

نذیر نے اس کا پیار لیا اور کہا۔

’’بکواس نہ کرو۔ تم میرا مطلب نہیں سمجھیں۔ بات یہ ہے کہ میرا روپیہ بہت خرچ ہو گیا ہے۔ بلکہ یوں کہو کہ ختم ہو گیا ہے میں یہ سوچتا ہوں کہ تمہارے پاس کیسے آسکوں گا۔ ‘‘

شاردا نے کوئی جواب نہ دیا۔ نذیر ایک دوست سے قرض لے کر جب دوسرے روز ہوٹل میں پہنچا تو کریم نے بتایا کہ وہ جے پور جانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ نذیر نے اُس کو بلایا۔ مگر وہ نہ آئی۔ کریم کے ہاتھ اس نے بہت سے نوٹ بھجوائے اور یہ کہا۔

’’آپ یہ روپے لے لیجیے۔ اور مجھے اپنا ایڈریس دے دیجیے۔ ‘‘

نذیر نے کریم کو اپنا ایڈریس لکھ کر دے دیا اور روپے واپس کردیے۔ شاردا آئی۔ گود میں منی تھی۔ اُس نے آداب عرض کیا، اور کہا۔

’’میں آج شام کو جے پور جارہی ہوں۔ ‘‘

نذیر نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

شاردا نے یہ مختصر جواب دیا۔

’’مجھے معلوم نہیں‘‘

اور یہ کہہ کروہ چلی گئی۔ نذیر نے کریم سے کہا اسے بلا کر لائے۔ مگر وہ نہ آئی۔ نذیر چلا گیا۔ اس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے بدن کی حرارت چلی گئی ہے۔ اس کے سوال کا جواب چلا گیا ہے۔ وہ چلی گئی، واقعی چلی گئی۔ کریم کواس کا بہت افسوس تھا۔ اس نے نذیر سے شکایت کے طور پر کہا۔

’’نذیر صاحب آپ نے کیوں اس کو جانے دیا؟‘‘

نذیر نے اس سے کہا۔

’’بھائی، میں کوئی سیٹھ تو ہوں نہیں۔ ہر دوسرے روز پچاس ایک، دس ہوٹل کے، تیس بوتل، اور اوپر کا خرچ علیحدہ۔ میرا تو دیوالہ پٹ گیا۔ خدا کی قسم مقروض ہو گیا ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر کریم خاموش ہو گیا۔ نذیر نے اس سے کہا

’’بھئی میں مجبور تھا، کہاں تک یہ قصہ چلاتا۔ ‘‘

کریم نے کہا۔

’’نذیر صاحب اس کو آپ سے محبت تھی۔ ‘‘

نذیر کو معلوم نہیں تھا کہ محبت کیا ہوتی۔ وہ فقط اتنا جانتا تھا کہ شاردا میں جسمانی خلوص ہے۔ وہ اس کے مردانہ سوالات کا بالکل صحیح جواب ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاردا کے متعلق اور کچھ نہیں جانتا تھا، البتہ اس نے مختصر الفاظ میں اس سے یہ ضرور کہا تھا کہ اس کا خاوند عیاش تھا اور اس کو صرف اس لیے چھوڑ گیا تھا کہ دو برس تک اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی۔ لیکن جب وہ اس سے علیحدہ ہوا تو نو مہینے کے بعد منی پیدا ہوئی جو بالکل اپنے باپ ہے۔ شکنتلا کو وہ اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ اس کا بیاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ شریفانہ زندگی بسر کرے۔ کریم نے نذیر کو بتایا کہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہے۔ کریم نے بہت کوشش کی تھی کہ شکنتلا سے پیشہ کرائے۔ کئی پیسنجر آتے تھے۔ ایک رات کے دو دو سو روپے دینے کے لیے تیار تھے۔ مگر شاردا نہیں مانتی تھی، کریم سے لڑنا شروع کردیتی تھی۔ کریم اس سے کہتا تھا۔

’’تم کیا کررہی ہو۔ ‘‘

وہ جواب دیتی۔

’’اگر تم بیچ میں نہ ہوتے تو میں ایسا کبھی نہ کرتی۔ نذیر صاحب کا ایک پیسہ خرچ نہ ہونے دیتی۔ ‘‘

شاردا نے نذیر سے ایک بار اس کا فوٹو مانگا تھا۔ جو اس نے گھر سے لا کر اس کو دے دیا تھا۔ یہ وہ اپنے ساتھ جے پور لے گئی تھی۔ اس نے نذیر سے کبھی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جب دونوں بستر پر لیٹے ہوتے تو وہ بالکل خاموش رہتی۔ نذیر اس کو بولنے پر اکساتا مگر وہ کچھ نہ کہتی۔ لیکن نذیر اس کے جسمانی خلوص کا قائل تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق تھا۔ وہ اخلاص کا مجسمہ تھی۔ وہ چلی گئی، نذیر کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ کیونکہ اس کی گھریلو زندگی میں بہت بُری طرح حائل ہو گئی تھی۔ اگر وہ کچھ دیر اور رہتی تو بہت ممکن تھا کہ نذیر اپنی بیوی سے بالکل غافل ہو جاتا۔ کچھ دن گزرے تو وہ اپنی اصلی حالت پر آنے لگا۔ شاردا کا جسمانی لمس اس کے جسم سے آہستہ آہستہ دور ہونے لگا۔ ٹھیک پندرہ دن کے بعد جب کہ نذیر گھرمیں بیٹھا۔ دفتر کا کام کررہا تھا۔ اس کی بیوی نے صبح کی ڈاک لا کر اسے دی۔ سارے خط وہی کھولا کرتی تھی۔ ایک خط اس نے کھولا اور دیکھ کر نذیر سے کہا۔

’’معلوم نہیں گجراتی ہے یا ہندی۔ ‘‘

نذیر نے خط لیکر دیکھا۔ اس کو معلوم نہ ہو سکا کہ ہندی ہے یا گجراتی۔ الگ ٹرے میں رکھ دیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد نذیر کی بیوی نے اپنی چھوٹی بہن نعیمہ کو آواز دی۔ وہ آئی تو وہ خط اٹھا کر اسے دیا۔

’’ذرا پڑھو تو کیا لکھا ہے۔ تم تو ہندی اور گجراتی پڑھ سکتی ہو۔ ‘‘

نعیمہ نے خط دیکھا اور کہا۔

’’ہندی ہے‘‘

اور یہ کہہ کر پڑھنا شروع کیا۔

’’جے پور۔ پڑھیے نذیر صاحب۔ ‘‘

اتنا پڑھ کر وہ رک گئی۔ نذیر چونکا۔ نعیمہ نے ایک سطر اور پڑھی۔

’’آداب۔ آپ تو مجھے بھول چکے ہوں گے۔ مگر جب سے میں یہاں آئی ہوں، آپ کو یاد کرتی رہتی ہوں۔ ‘‘

نعیمہ کا رنگ سرخ ہو گیا۔ اس نے کاغذ کا دوسرا رخ دیکھا۔

’’کوئی شاردا ہے۔ ‘‘

نذیر اٹھا۔ جلدی سے اس نے نعیمہ کے ہاتھ سے خط لیا اور اپنی بیوی سے کہا۔

’’خدا معلوم کون ہے۔ میں باہر جارہا ہوں۔ اس کو پڑھا کر اردو میں لکھوا لاؤں گا۔ ‘‘

اس نے بیوی کو کچھ کہنے کا موقعہ ہی نہ دیا اور چلا گیا۔ ایک دوست کے پاس جا کر اس نے شاردا کے خط جیسے کاغذ منگوائے اور ہندی میں ویسی ہی روشنائی سے ایک خط لکھوایا۔ پہلے فقرے وہی رکھے۔ مضمون یہ تھا کہ بمبے سنٹرل پر شاردا اس سے ملی تھی۔ اس کو اتنے بڑے مصور سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔ شام کو گھر آیا اس نے نیا خط بیوی کو دیا اور اردو کی نقل پڑھ کر سنا دی۔ بیوی نے شاردا کے متعلق اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا۔

’’عرصہ ہوا ہے میں ایک دوست کو چھوڑنے گیا تھا۔ شاردا کو یہ دوست جانتا تھا۔ وہاں پلیٹ فارم پر میرا تعارف ہوا۔ مصوری کا اسے بھی شوق تھا۔ ‘‘

بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن دوسرے روز شاردا کا ایک اور خط آگیا۔ اس کو بھی نذیر نے اسی طریقے سے گول کیا۔ اور فوراً شاردا کو تار دیا کہ وہ خط لکھنا بند کردے اور اس کے نئے پتے کا انتظار کرے۔ ڈاک خانے جا کر اس نے متعلقہ پوسٹ مین کو تاکید کردی کہ جے پور کا خط وہ اپنے پاس رکھے، صبح آکر وہ اس سے پوچھ لیا کرے گا۔ تین خط اس نے اس طرح وصول کیے۔ اس کے بعد شاردا اس کو اس کے دوست کے پتے سے خط بھیجنے لگی۔ شاردا بہت کم گو تھیٗ، لیکن خط بہت لمبے لکھتی تھی۔ اس نے نذیر کے سامنے کبھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن اس کے خط اظہار سے پُر ہوتے تھے۔ گلے شکوے، ہجر وفراق، اس قسم کی عام باتیں جو عشقیہ خطوں میں ہوتی ہیں۔ نذیر کو شاردا سے وہ محبت نہیں تھی جس کا ذکر افسانوں اور ناولوں میں ہوتا ہے، اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ جواب میں کیا لکھے، اس لیے یہ کام اس کا دوست ہی کرتا تھا۔ ہندی میں جواب لکھ کر وہ نذیر کو سنا دیتا تھا اور نذیر کہہ دیتا تھا۔

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

شاردا بمبئی آنے کے لیے بے قرار تھی۔ لیکن وہ کریم کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہتی تھی۔ نذیر اس کی رہائش کا اور کہیں بندوبست نہیں کرسکتا تھا۔ کیوں کہ مکان ان دنوں ملتے ہی نہیں تھے۔ اس نے ہوٹل کا سوچا۔ مگر خیال آیا، ایسا نہ ہو کہ راز فاش ہو جائے، چنانچہ اس نے شاردا کو لکھوا دیا کہ وہ ابھی کچھ دیر انتظار کرے۔ اتنے میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہو گئے۔ بٹوارے سے پہلے عجیب افراتفری مچی تھی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ وہ لاہور جانا چاہتی ہے۔

’’میں کچھ دیر وہاں رہونگی اگر حالات ٹھیک ہو گئے تو واپس آجاؤں گی، ورنہ آپ بھی وہیں چلے آئیے گا۔ ‘‘

نذیر نے کچھ دیر اسے روکا۔ مگر جب اس کا بھائی لاہور جانے کے لیے تیار ہوا تو وہ اور اس کی بہن اس کے ساتھ چلی گئیں اور وہ اکیلا رہ گیا۔ اس نے شاردا کو سرسری طور پر لکھا کہ وہ اب اکیلا ہے۔ جواب میں اس کا تار آیا کہ وہ آرہی ہے۔ اس تار کے مضمون کے مطابق وہ جے پور سے چل پڑی تھی۔ نذیر بہت سٹپٹایا۔ مگر اس کا جسم بہت خوش تھا۔ وہ شاردا کے جسم کا خلوص چاہتا تھا۔ وہ دن پھر سے مانگتا تھا۔ جب وہ شاردا کے ساتھ چمٹا ہوتا تھا۔ صبح گیارہ بجے سے لیکر شام کے سات بجے تک اب روپے کے خرچ کا سوال ہی نہیں تھا۔ کریم بھی نہیں تھا۔ ہوٹل بھی نہیں تھا۔ اس نے سوچا۔

’’میں اپنے نوکر کو راز دار بنا لوں گا۔ سب ٹھیک ہو جائیگا دس پندرہ روپے اس کا منہ بند کردیں گے۔ میری بیوی واپس آئی تو وہ اس سے کچھ نہیں کہے گا۔ ‘‘

دوسرے روز وہ اسٹیشن پہنچا۔ فرنٹیر میل ٓئی مگر شاردا، تلاشکے باوجود اسے نہ ملی۔ اس نے سوچا، شاید کسی وجہ سے رک گئی ہے۔ دوسرا تار بھیجے گی۔ اس سے اگلے روز وہ حسب معمول صبح کی ٹرین سے اپنے دفتر روانہ ہوا۔ وہ مہالکشمی اترتا تھا۔ گاڑی وہاں رکی تو اس نے دیکھا کہ پلیٹ فارم پر شاردا کھڑی ہے۔ اس نے زور سے پکارا۔

’’شاردا!‘‘

شاردا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

’’نذیر صاحب!‘‘

’’تم یہاں یہاں؟‘‘

شاردا نے شکایتاً کہا۔

’’آپ مجھے لینے نہ آئے تو میں یہاں آپ کے دفتر پہنچی۔ پتا چلا کہ آپ ابھی تک نہیں آئے۔ یہاں پلیٹ فارم پر اب آپ کا انتظار کررہی تھی۔ ‘‘

نذیر نے کچھ دیر سوچ کر اس سے کہا۔

’’تم یہاں ٹھہرو۔ میں دفتر سے چھٹی لیکر ابھی آتا ہوں۔ ‘‘

شاردا کو بنچ پر بٹھا کر جلدی جلدی دفتر گیا۔ ایک عرضی لکھ کر وہاں چپڑاسی کو دے آیا اور شاردا کو اپنے گھر لے گیا۔ راستے میں دونوں نے کوئی بات نہ کی، لیکن ان کے جسم آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ ایک دوسرے کی طرف کھنچتے رہے۔ گھر پہنچ کر نذیر نے شاردا سے کہا۔

’’تم نہا لو، میں ناشتے کا بندوبست کراتا ہوں۔ ‘‘

شاردا نہانے لگی۔ نذیر نے نوکر سے کہا

’’کہ اس کے ایک دوست کی بیوی آئی ہے۔ جلدی ناشتہ تیار کردے۔ اس سے یہ کہہ کر نذیر نے الماری سے بوتل نکالی۔ ایک پیگ جو دو کے برابر تھا گلاس میں انڈیلا اور پانی میں ملا کر پی گیا۔ وہ اسی ہوٹل والے ڈھنگ سے شاردا سے اختلاط چاہتا تھا۔ شاردا نہا دھو کر باہر نکلی اور ناشتہ کرنے لگی۔ اس نے اِدھر اُدھر کی بے شمار باتیں کیں۔ نذیر نے محسوس کیا جیسے وہ بدل گئی ہے۔ وہ پہلے بہت کم گو تھی۔ اکثر خاموش رہتی تھی، مگر اب وہ بات بات پر اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی۔ نذیر نے سوچا۔

’’یہ محبت کیا ہے۔ اگر یہ اس کا اظہار نہ کرے تو کتنا اچھا ہے مجھے اس کی خاموشی زیادہ پسند تھی۔ اس کے ذریعے سے مجھ تک بہت سی باتیں پہنچ جاتی تھیں، مگر اب اس کو جانے کیا ہو گیا ہے۔ باتیں کرتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے اپنے عشقیہ خط پڑھ کر سنا رہی ہے۔ ‘‘

ناشتہ ختم ہوا تو نذیر نے ایک پیگ تیار کیا اور شاردا کو پیش کیا۔ لیکن اس نے انکار کردیا۔ نذیر نے اصرار کیا تو شاردا نے اس کو خوش کرنے کی خاطر، ناک بند کرکے وہ پیگ پی لیا۔ بُرا سا منہ بنایا۔ پانی لے کر کلی کی۔ نذیر کو افسوس سا ہوا کہ شاردا نے کیوں پی۔ اس کے اصرار پر بھی انکار کیا ہوتا تو زیادہ اچھا تھا۔ مگر اس نے اس کے بارے میں زیادہ غور نہ کیا۔ نوکر کو بہت دور ایک کام پر بھیجا۔ دروازہ بند کیا اور شاردا کے ساتھ بستر پر لیٹ گیا۔

’’تم نے لکھا تھا کہ وہ دن پھر کب آئیں گے۔ لو آگئے ہیں پھر وہی دن، بلکہ راتیں بھی۔ ان دنوں راتیں نہیں ہوتی تھیں صرف دن ہوتے تھے۔ ہوٹل کے میلے کچیلے دن یہاں ہر چیز اجلی ہے۔ ہر چیز صاف ہے۔ ہوٹل کا کرایہ بھی نہیں۔ کریم بھی نہیں۔ یہاں ہم اپنے مالک آپ ہیں۔ شاردا نے اپنے فراق کی باتیں شروع کردیں۔ یہ زمانہ اس نے کیسے کاٹا۔ وہی کتابوں اور افسانوں والی فضول باتیں، گلے، شکوے، آہیں۔ راتیں تارے گن گن کر کاٹنا۔ نذیر نے ایک اور پیگ پیا اور سوچا۔

’’کون تارے گنتا ہے۔ گن کیسے سکتا ہے اتنے سارے تاروں کو۔ بالکل فضول ہے، بے ہودہ بکواس ہے۔ ‘‘

یہ سوچتے ہوئے اس نے شاردا کو اپنے ساتھ لگا گیا۔ بستر صاف تھا۔ شاردا صاف تھی۔ وہ خود صاف تھا۔ کمرے کی فضا بھی صاف تھی۔ لیکن کیا وجہ تھی، نذیر کے دل و دماغ پر وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تھی جو اس غلیظ ہوٹل میں لوہے کی چارپائی پر شاردا کی قربت میں ہوتی تھی۔ نذیر نے سوچا۔ شاید اس نے کم پی ہے۔ اٹھ کر اس نے ایک پیگ بنایا اور ایک ہی جرتے میں ختم کرکے شاردا کے ساتھ لیٹ گیا۔ شاردا نے پھر وہی لاکھ مرتبہ کہی ہوئی باتیں شروع کردیں۔ وہی ہجر وفراق کی باتیں۔ وہی گلے شکوے۔ نذیر اکتا گیا اور اس اکتاہٹ نے اس کے جسم کو کند کردیا۔ اس کو محسوس ہونے لگا کہ شاردا کی سان گھس کر بیکار ہو گئی ہے اس کے جسم کے جذبات اب وہ تیز نہیں کرسکتی۔ لیکن وہ پھر بھی اس کے ساتھ دیر تک لیٹا رہا۔ فارغ ہوا تو اس کا جی چاہا کہ ٹیکسی پکڑے اور اپنے گھر چلا جائے، اپنی بیوی کے پاس، مگر جب اس نے سوچا کہ وہ تو اپنے گھر میں ہے، اور اس کی بیوی لاہور میں تو دل ہی دل میں بہت جھنجھلایا۔ اس کو یہ خواہش ہوئی کہ اس کا گھر ہوٹل بن جائے وہ دس روپے کرائے کے دے۔ کریم کو پچاس روپے ادا کرے اور چلا جائے۔ شاردا کے جسم کا خلوص بدستور برقرار تھا، مگر وہ فضا نہیں تھی۔ وہ سودے بازی نہیں تھی۔ یہ سب چیزیں مل ملا کر جو ایک ماحول بناتی تھیں۔ وہ نہیں تھا۔ نذیر اپنے گھر میں تھا۔ اس بستر پر تھا جس پر اس کی سادہ لوح بیوی اس کے ساتھ سوتی تھی۔ یہ احساس کے تحت الشعور میں تھا، اسی لیے وہ سمجھ نہ سکتا تھا۔ کہ معاملہ کیا ہے۔ کبھی وہ یہ سوچتا تھا کہ وسکی خراب ہے، کبھی یہ سوچتا تھاکہ شاردا نے التفات نہیں برتا۔ اور کبھی یہ خیال کرتا تھا کہ وہ خاموش رہتی تو سب ٹھیک ہوتا۔ پھر وہ یہ سوچتا، اتنی دیر کے بعد ملی ہے۔ دل کی بھڑاس تو نکالنا تھی بے چاری کو۔ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائے گی، وہی پرانی شاردا بن جائے گی۔ ‘‘

پندرہ دن گزر گئے، مگر نذیرکو شاردا وہ پرانی ہوٹل والی شاردا محسوس نہ ہوئی۔ اس کی بچی جے پور میں تھی۔ ہوٹل میں وہ اس کے ساتھ ہوتی تھی۔ نذیر اس کے زکام کے لیے، اس کی پھنسیوں کے لیے، اس کے گلے کے لیے دوائیں منگوایا کرتا تھا۔ اب یہ چیز نہیں تھی۔ وہ بالکل اکیلی تھی۔ نذیر اس کو اور اسکی منی کو بالکل ایک سمجھتا تھا۔ ایک بار شاردا کی دودھ سے بھری ہوئی چھاتیوں پر دباؤ ڈ النے کے باعث نذیر کے بالوں بھرے سینے پر دودھ کے کئی قطرے چمٹ گئے تھے اور اس نے ایک عجیب قسم کی لذت محسوس کی تھی۔ اس نے سوچا تھا، ماں بننا کتنا اچھا ہے۔ اور یہ دودھ۔ مردوں میں یہ کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورتیں کھاتی ہیں اور کھلاتی بھی ہیں۔ کسی کو پالنا۔ اپنے بچے ہی کو سہی کتنی شاندار چیز ہے۔ ‘‘

اب منی، شاردا کے ساتھ نہیں تھی۔ وہ نامکمل تھی۔ اس کی چھاتیاں بھی نا مکمل تھیں اب ان میں دودھ نہیں تھا۔ وہ سفید سفید آبِ حیات۔ نذیر اب اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچتا تھا تو وہ اس کومنع نہیں کرتی تھی۔ شاردا، اب وہ شاردا نہیں تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاردا وہی شاردا تھی، بلکہ اس سے کچھ زیادہ تھی۔ یعنی اتنی دیر جدا رہنے کے بعد اس کا جسمانی خلوص تیز ہو گیا تھا۔ وہ روحانی طور پر بھی نذیر کو چاہتی تھی لیکن نذیر کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شادرا میں اب وہ پہلی سی کشش یا جو کچھ بھی تھا نہیں رہا۔ پندرہ دن لگا تار اس کے ساتھ گزارنے پر وہ اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ پندرہ دن دفتر سے غیر حاضری بہت کافی تھی۔ اس نے اب دفتر جانا شروع کردیا۔ صبح اٹھ کر دفتر جاتا اور شام کو لوٹتا۔ شاردا نے بالکل بیویوں کی طرح اس کی خدمت شروع کردی۔ بازار سے اون خرید کر اس کے لیے ایک سویٹر بن دیا۔ شام کو دفتر سے آتا تو اس کے لیے سوڈے منگوا کر رکھے ہوتے۔ برف، تھرموس میں ڈالی ہوتی۔ صبح اٹھ کر اس کا شیو کا سامان میز پررکھتی۔ پانی گرم کرا کے اس کو دیتی۔ وہ شیو کر چکتا تو سارا سامان صاف کردیتی۔ گھرکی صفائی کراتی۔ خود جھاڑو دیتی۔ نذیر اور بھی زیادہ اکتا گیا۔ رات کو وہ اکٹھے سوتے تھے۔ مگر اب اس نے یہ بہانہ کیا کہ وہ کچھ سوچ رہا ہے، اس لیے اکیلا سونا چاہتا ہے۔ شاردا دوسرے پلنگ پر سونے لگی۔ مگر یہ نذیر کے لیے ایک اور الجھن ہو گئی۔ وہ گہری نیند سوئی ہوتی اور وہ جاگتا رہتا۔ اور سوچتا کہ آخر یہ سب کچھ ہے کیا۔ یہ شاردا یہاں کیوں ہے؟۔ کریم کے ہوٹل میں اس نے اس کے ساتھ چند دن بڑے اچھے گزارے تھے، مگر یہ اس کے ساتھ کیوں چمٹ گئی ہے۔ آخر اس کا انجام کیا ہو گا۔ محبت وغیرہ سب بکواس ہے۔ جو ایک چھوٹی سی بات تھی وہ اب نہیں رہی۔ اس کو واپس جے پور جانا چاہیے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے یہ محسوس کرنا شروع کردیا کہ وہ گناہ کررہا ہے۔ وہ کریم کے ہوٹل میں بھی کرتا تھا۔ اس نے شادی سے پہلے بھی ایسے بے شمار کیے تھے، مگر ان کا اسکو احساس ہی نہیں تھا لیکن اب اس نے بڑی شدت سے محسوس کرنا شروع کیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے بے وفائی کررہا ہے اپنی سادہ لوح بیوی سے جس کو اس نے کئی بار شاردا کے خطوں کے سلسلے میں چکمہ دیا تھا۔ شاردا اب اور بھی زیادہ بے کشش ہو گئی۔ وہ اس سے روکھا برتاؤ کرنے لگا، مگر اس کے التفات میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اتنا جانتی تھی کہ آرٹسٹ لوگ موجی ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اس سے ا س کی بے التفاتی کا گلہ نہیں کرتی تھی۔ پورا ایک مہینہ ہو گیا۔ جب نذیر نے دن گنے تو اس کو بہت الجھن ہوئی۔

’’یہ عورت کیا پورا ایک مہینہ یہاں رہی ہے۔ میں کس قدر ذلیل آدمی ہوں۔ اور ادھر ہر روز میں اپنی بیوی کو خط لکھتا ہوں، جیسے بڑا وفادار شوہر ہوں۔ جیسے مجھے اس کا بہت خیال ہے۔ جیسے اس کے بغیر میری زندگی اجیرن ہے۔ میں کتنا بڑا فراڈ ہوں۔ ادھر اپنی بیوی سے غداری کررہا ہوں، ادھر شاردا سے۔ میں کیوں اس سے صاف صاف نہیں کہہ دیتا کہ بھئی اب مجھے تم سے لگاؤ نہیں رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے لگاؤ نہیں رہا، شاردا میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی؟‘‘

وہ اس کے متعلق سوچتا مگر اسے کوئی جواب نہ ملتا۔ اس کے ذہن میں عجیب افراتفری پھیلی تھی۔ وہ اب اخلاقیات کے متعلق سوچتا تھا۔ بیوی سے جو وہ غداری کررہا تھا، اس کا احساس ہر وقت اس پر غالب رہتا تھا۔ کچھ دن اور گزرے تو یہ احساس اور بھی زیادہ شدید ہو گیا۔ اور نذیر کو خود سے نفرت ہونے لگی۔

’’میں بہت ذلیل ہوں۔ یہ عورت میری دوسری بیوی کیوں بن گئی ہے۔ مجھے اس کی کب ضرورت تھی۔ یہ کیوں میرے ساتھ چپک گئی ہے۔ میں نے کیوں اس کو یہاں آنے کی اجازت دی۔ جب اس نے تار بھیجا تھا۔ لیکن وہ تار ایسے وقت پر ملا تھا کہ میں اس کو روک ہی نہیں سکتا تھا۔ ‘‘

پھروہ سوچتا کہ شاردا جو کچھ کرتی ہے، بناوٹ ہے۔ وہ اس کو اس بناوٹ سے اپنی بیوی سے جدا کرنا چاہتی ہے۔ اس سے اس کی نظروں میں شاردا اور بھی گر گئی۔ اس سے نذیر کا سلوک اور زیادہ روکھا ہو گیا۔ اس روکھے پن کو دیکھ کر شاردا بہت زیادہ ملائم ہو گئی۔ اس نے نذیر کے آرام و آسائش کا زیادہ خیال رکھنا شروع کردیا۔ لیکن نذیر کو اس کے اس رویے سے بہت الجھن ہوئی۔ وہ اس سے بے حدنفرت کرنے لگا۔ ایک دن اس کی جیب خالی تھی۔ بینک سے روپے نکلوانے اس کو یاد نہیں رہے تھے۔ دفتر بہت دیر سے گیا، اس لیے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جاتے وقت شاردا نے اس سے کچھ کہا تو وہ اس پر برس پڑا۔

’’بکواس نہ کرو۔ میں ٹھیک ہوں۔ بینک سے روپے نکلوانے بھول گیا ہوں اور سگریٹ میرے سارے ختم ہیں۔ ‘‘

دفتر کے پاس کی دکان سے اس کو گولڈ فلیک کا ڈبہ ملا۔ یہ سگریٹ اس کو ناپسند تھے مگر ادھار مل گئے تھے۔ اس لیے دو تین مجبوراً پینے پڑے۔ شام کو گھر آیا تو دیکھا۔ تپائی پر اس کا من بھاتا سگریٹ کا ڈبہ پڑا ہے۔ خیال کیا کہ خالی ہے۔ پھر سوچا شاید ایک دو اس میں پڑے ہوں۔ کھول کر دیکھا تو بھرا ہوا تھا۔ شاردا سے پوچھا۔

’’یہ ڈبہ کہاں سے آیا؟‘‘

شاردا نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’اندر الماری میں پڑا تھا۔ ‘‘

نذیر نے کچھ نہ کہا۔ اس نے سوچا، شاید میں نے کھول کر اندر الماری میں رکھ دیا تھا اور بھول گیا۔ لیکن دوسرے دن پھر تپائی پر سالم ڈبہ موجود تھا۔ نذیر نے جب شاردا سے اس کی بابت پوچھا تو اس نے مسکرا کر وہی جواب دیا۔ اندر الماری میں پڑا تھا۔ ‘‘

نذیر نے بڑے غصے کے ساتھ کہا۔

’’شاردا، تم بکواس کرتی ہو۔ تمہاری یہ حرکت مجھے پسند نہیں۔ میں اپنی چیزیں خود خرید سکتا ہوں۔ میں بھکاری نہیں ہوں جو تم میرے لیے ہر روز سگریٹ خریدا کرو۔ ‘‘

شاردا نے بڑے پیار سے کہا۔

’’آپ بھول جاتے ہیں، اسی لیے میں نے دو مرتبہ گستاخی کی۔ ‘‘

نذیر نے بے وجہ اور زیادہ غصے سے کہا۔

’’میرا دماغ خراب ہے۔ لیکن مجھے یہ گستاخی ہرگز پسند نہیں۔ ‘‘

شاردا کا لہجہ بہت ہی ملائم ہو گیا۔

’’میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔ ‘‘

نذیر نے ایک لحظے کے لیے خیال کیا کہ شاردا کی کوئی غلطی نہیں۔ اسے آگے بڑھ کر اس کا منہ چوم لینا چاہیے اس لیے کہ وہ اس کا اتنا خیال رکھتی تھی۔ مگر فوراً ہی اس کو اپنی بیوی کا خیال آیا کہ وہ غداری کررہا تھا، چنانچہ اس نے شاردا سے بڑے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔

’’بکواس نہ کرو۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں کل یہاں سے روانہ کردوں۔ کل صبح تمہیں جتنے روپئے دوکار ہوں گے دے دوں گا۔ ‘‘

لیکن یہ کہہ کر نذیر نے محسوس کیا جیسے وہ بڑا کمینہ اور رذیل ہے۔ شاردا نے کچھ نہ کہا۔

’’رات کو وہ نذیر کے ساتھ سوئی۔ ساری رات اس سے پیار کرتی رہی۔ نذیر کو اس سے الجھن ہوتی رہی مگر اس نے شاردا پر اس کا اظہار نہ کیا۔ صبح اٹھا تو ناشتے پر بے شمار لذیذ چیزیں تھی۔ پھر بھی اس نے شاردا سے کوئی بات نہ کی۔ فارغ ہو کر وہ سیدھا بنک گیا۔ جانے سے پہلے اس نے شاردا سے صرف اتنا کہا۔ میں بنک جارہا ہوں۔ ابھی واپس آتا ہوں۔ ‘‘

بنک کی وہ شاخ جس میں نذیر کا روپیہ جمع تھا بالکل نزدیک تھا۔ وہ دو سو روپے نکلوا کر فوراً ہی واپس آگیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ سب روپیہ شاردا کے حوالے کردے گا اور اس کو ٹکٹ وغیرہ لے کر رخصت کردے گا۔ مگر وہ جب گھر پہنچا تو اس کے نوکر نے بتایا کہ وہ چلی گئی ہے۔ اس نے پوچھا۔

’’کہاں؟‘‘

نوکر نے بتایا۔

’’جی مجھ سے انھوں نے کچھ نہیں کہا۔ اپنا ٹرنک اور بستر ساتھ لے گئی ہیں!‘‘

نذیر اندر کمرے میں آیا تو اس نے دیکھا کہ تپائی پر اس کے پسندیدہ سگرٹوں کا ڈبہ پڑا ہے۔ بھرا ہوا!‘‘

31جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

شادی

جمیل کو اپنا شیفر لائف ٹائم قلم مرمت کے لیے دینا تھا۔ اس نے ٹیلی فون ڈائریکٹری میں شیفر کمپنی کا نمبر تلاش کیا۔ فون کرنے سے معلوم ہوا کہ ان کے ایجنٹ میسرز ڈی، جے، سمتوئر ہیں جن کا دفتر گرین ہوٹل کے پاس واقع ہے۔ جمیل نے ٹیکسی اور فورٹ کی طرف چل دیا۔ گرین ہوٹل پہنچ کر اسے میسرز ڈی، جے، سمتوئر کا دفتر تلاش کرنے میں دقت نہ ہوئی۔ بالکل پاس تھا مگر تیسری منزل پر۔ لفٹ کے ذریعے جمیل وہاں پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی چوبی دیوار کی چھوٹی سی کھڑکی کے پیچھے اسے ایک خوش شکل اینگلو انڈین لڑکی نظر آئی، جس کی چھاتیاں غیر معمولی طور پر نمایاں تھیں۔ جمیل نے قلم اس کی کھڑکی کے اندر داخل کردیا اور منہ سے کچھ نہ بولا۔ لڑکی نے قلم اس کے ہاتھ سے لے لیا، کھول کر ایک نظر دیکھا اور ایک چٹ پر کچھ لکھ کر جمیل کے حوالے کردیا۔ منہ سے وہ بھی کچھ نہ بولی۔ جمیل نے چٹ دیکھی۔ قلم کی رسید تھی۔ چلنے ہی والا تھا کہ پلٹ کر اس نے لڑکی سے پوچھا۔

’’دس بارہ روز تک تیار ہو جائے گا، میرا خیال ہے۔ ‘‘

لڑکی بڑے زور سے ہنسی۔ جمیل کچھ کھسیانا سا ہو گیا۔

’’میں آپ کی اس ہنسی کا مطلب نہیں سمجھا۔ ‘‘

لڑکی نے کھڑکی کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔

’’مسٹر۔ آج کل وار ہے وار۔ یہ قلم امریکہ جائے گا۔ تم نو مہینے کے بعد پتا کرنا۔ ‘‘

جمیل بوکھلا گا۔

’’نو مہینے!‘‘

لڑکی نے اپنے بریدہ بالوں والا سر ہلایا۔ جمیل نے لفٹ کا رخ کیا۔ یہ نو مہینے کا سلسلہ خوب تھا۔ نو مہینے۔ اتنی مدت کے بعد تو عورت گل گوتھنا بچہ پیداکرکے ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ نو مہینے۔ نو مہینے تک اس چھوٹی سی چٹ کو سنبھالے رکھو۔ اوریہ بھی کون وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ نو مہینے تک آدمی یاد رکھ سکتا ہے کہ اس نے ایک قلم مرمت کے لیے دیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس دوران میں وہ کم بخت مرکھپ ہی جائے۔ جمیل نے سوچا، یہ سب ڈھکوسلا ہے۔ قلم میں معمولی سی خرابی تھی کہ اس کا فیڈر ضرورت سے زیادہ روشنائی سپلائی کرتا تھا۔ اس کے لیے اسے امریکہ کے ہسپتال میں بھیجنا صریحاً چالبازی تھی۔ مگر پھر اس نے سوچا، لعنت بھیجو اس قلم پر۔ امریکہ جائے یا افریقہ۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے یہ بلیک مارکیٹ سے ایک سو پچھتر روپے میں خریدا تھا۔ مگر اس نے ایک برس اسے خوب استعمال بھی تو کیا تھا۔ ہزاروں صفحے کالے کر ڈالے تھے۔ چنانچہ وہ قنوطی سے ایک دم رجائی بن گیا۔ اور رجائی بنتے ہی اسے خیال آیا کہ وہ فورٹ میں ہے اور فورٹ میں شراب کی بے شمار دکانیں۔ وسکی تو ظاہر ہے نہیں ملے گی لیکن فرانس کی بہترین کونک برانڈی تو مل جائے گی، چنانچہ اس نے قریب والی شراب کی دکان کا رخ کیا۔ برانڈی کی ایک بوتل خرید کر وہ لوٹ رہا تھا کہ گرین ہوٹل کے پاس آکے رک گیا۔ ہوٹل کے نیچے قد آدم شیشوں کا بنا ہوا قالینوں کا شو روم تھا۔ یہ جمیل کے دوست پیر صاحب کا تھا۔ اس نے سوچا چلو اندر چلیں۔ چنانچہ چند لمحات کے بعد ہی وہ شو روم میں تھا اور اپنے دوست پیر سے، جو عمر میں اس سے کافی بڑا تھا، اور ہنسی مذاق کی گفتگو کررہا تھا۔ برانڈی کی بوتل باریک کاغذ میں لپٹی دبیز ایرانی قالین پر لیٹی ہوئی تھی۔ پیر صاحب نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمیل سے کہا۔

’’یار اس دلہن کا گھونگٹ تو کھولو۔ ذرا اس سے چھیڑ خانی تو کرو۔ ‘‘

جمیل مطلب سمجھ گیا۔

’’سو پیر صاحب گلاس اور سوڈے منگوادئیے۔ پھر دیکھیے کیا رنگ جمتا ہے۔ ‘‘

فوراً گلاس اور یخ بستہ سوڈے آگئے۔ پہلا دور ہوا۔ دوسرا دور شروع ہونے ہی والا تھا کہ پیر صاحب کے ایک گجراتی دوست اندر چلے آئے اور بڑی بے تکلفی سے قالین پر بیٹھ گئے۔ اتفاق سے ہوٹل کا چھوکرا دو کے بجائے تین گلاس اٹھالایا تھا۔ پیر صاحب کے گجراتی دوست نے بڑی صاف اردو میں چند ادھر ادھر کی باتیں کیں اور گلاس میں یہ بڑا پیگ ڈال کر اس کو سوڈے سے لبالب بھر دیا۔ تین چار لمبے لمبے گھونٹ لے کر انھوں نے رومال سے اپنا منہ صاف کیا۔

’’سگریٹ نکالو یار!‘‘

پیر صاحب میں ساتوں عیب شرعی تھے۔ مگر وہ سگریٹ نہیں پیتے تھے۔ جمیل نے جیب سے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور قالین پر رکھ دیا۔ ساتھ ہی لائٹر۔ اس پر پیر صاحب نے جمیل سے اس گجراتی کا تعارف کرایا

’’مسٹر نٹورلال۔ آپ موتیوں کی دلالی کرتے ہیں۔ ‘‘

جمیل نے ایک لحظے کے لیے سوچا، کوئلوں کی دلالی میں تو انسان کا منہ کالا ہوتا ہے۔ موتیوں کی دلالی میں۔ پیر صاحب نے جمیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’مسٹر جمیل۔ مشہور سونگ رائٹر۔ ‘‘

دونوں نے ہاتھ ملایااور برانڈی کا نیا دور شروع ہوا اور ایسا شروع ہوا کہ بوتل خالی ہو گئی۔ جمیل نے دل میں سوچا یہ کم بخت موتیوں کا دلال بلا کا پینے والا ہے۔ میری پیاس اور سرور کی ساری برانڈی چڑھا گیا۔ خدا کرے اسے موتیا بند ہو۔ مگر جونہی آخری دور کے پیگ نے جمیل کے پیٹ میں اپنے قدم جمائے، اس نے نٹور لال کو معاف کردیا۔ اورآخر میں اس سے کہا۔

’’مسٹر نٹور! اٹھیے، ایک بوتل اور ہو جائے۔ ‘‘

نٹور لال فوراً اٹھا۔ اپنے سفید و گلے کی شکنیں درست کیں۔ دھوتی کی لانگ ٹھیک کی اور کہا۔

’’چلیے!‘‘

جمیل پیر صاحب سے مخاطب ہوا۔

’’ہم ابھی حاضر ہوتے ہیں۔ ‘‘

جمیل اور نٹور نے باہر نکل کر ٹیکسی لی اور شراب کی دکان پرپہنچے۔ جمیل نے ٹیکسی روکی مگر نٹور نے کہا۔

’’مسٹر جمیل۔ یہ دکان ٹھیک نہیں۔ ساری چیزیں مہنگی بیچتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ ٹیکسی ڈرائیور سے مخاطب ہوا۔

’’دیکھو کولابہ چلو!‘‘

کولابہ پہنچ کر نٹور، جمیل کوشراب کی ایک چھوٹی سی دکان میں لے گیا۔ جو برانڈ جمیل نے فورٹ سے لیا، وہ تو نہ مل سکا، ایک دوسرا مل گیا جس کی نٹور نے بہت تعریف کی کہ نمبر ون ہے۔ یہ نمبر ون چیز خرید کر دونوں باہر نکلے۔ ساتھ ہی بار تھی۔ نٹور رک گیا۔

’’مسٹر جمیل! کیا خیال ہے آپ کا، ایک دو پیگ یہیں سے پی کر چلتے ہیں۔ ‘‘

جمیل کو کوئی اعتراض نہیں تھا، اس لیے کہ اس کا نشہ حالت نزع میں تھا۔ چنانچہ دونوں بار کے اندر داخل ہوئے۔ معاً جمیل کو خیال آیا کہ بار والے تو کبھی باہر کی شراب پینے کی اجازت نہیں دیا کرتے۔

’’مسٹر نٹور آپ یہاں کیسے پی سکتے ہیں۔ یہ لوگ اجازت نہیں دیں گے۔ ‘‘

نٹور نے زور سے آنکھ ماری۔

’’سب چلتا ہے۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر ایک کیبن کے اندر گھس گیا۔ جمیل بھی اس کے پیچھے ہولیا۔ نٹور نے بوتل سنگین تپائی پر رکھی اور بیرے کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس کو بھی آنکھ ماری۔

’’دیکھو! دو سوڈے روجرز۔ ٹھنڈے۔ اور دو گلاس۔ ایک دم صاف‘‘

بیرا یہ حکم سن کر چلا گیا اور فوراً سوڈے اور گلاس حاضر کردیے۔ اس پر نٹور نے اسے دوسرا حکم دیا۔

’’فسٹ کلاس چپس اور ٹومیٹوسوس۔ اور فسٹ کلاس کٹلس!‘‘

بیرا چلا گیا۔ نٹور جمیل کی طرف دیکھ کر ایسے ہی مسکرایا۔ بوتل کا کارک نکالا اور جمیل کو گلاس میں اس سے پوچھے بغیر ایک ڈبل ڈال دیا۔ خود اس سے کچھ زیادہ۔ سوڈا حل ہو گیا تو دونوں نے اپنے گلاس ٹکرائے۔ جمیل پیا سا تھا۔ ایک جرعے میں اس نے آدھا گلاس ختم کردیا۔ سوڈا چونکہ بہت ٹھنڈا اور تیز تھا اس لیے پھوں پھوں کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد چپس اور کٹلس آگئے۔ جمیل صبح گھر سے ناشتہ کرکے نکلا تھا لیکن برانڈی نے اسے بھوک لگادی۔ چپس گرم گرم تھے، کٹلس بھی۔ وہ پل پڑا۔ نٹور نے اس کا ساتھ دیا۔ چنانچہ دو منٹ میں دونوں پلیٹیں صاف! دو پلیٹیں اور منگوائی گئیں۔ جمیل نے اپنے لیے چپس بھی منگوائے۔ دو گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ بوتل کی تین چوتھائی غائب ہو چکی تھی۔ جمیل نے سوچا کہ اب پیر صاحب کے پاس جانا بے کار ہے۔ نشے خوب جم رہے تھے، سرور خوب گھٹ رہے تھے۔ نٹور اور جمیل دونوں ہوا کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ایسے سواروں کو عام طور پر ایسی وادیوں میں جانے کی بڑی خواہش ہوتی ہے، جہاں انھیں عریاں بدن حسین عورتیں ملیں۔ وہ ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر گھوڑے پر بٹھالیں اور یہ جا، وہ جا۔ جمیل کا دل و دماغ اس وقت کسی ایسی وادی کے متعلق سوچ رہا تھا جہاں اس کی کسی ایسی خوبصورت عورت سے مڈبھیڑ ہو جائے جس کو وہ اپنے تپتے ہوئے سینے کے ساتھ بیھنچ لے، اس زور سے کہ اس کی ہڈیاں تک چٹخ جائیں۔ جمیل کو اتنا تو معلوم تھا کہ وہ ایسی جگہ پر ہے۔ مطلب ہے ایسے علاقے میں ہے جو اپنے بروتھلز(قحبہ خانے) کی وجہ سے ساری بمبئی میں مشہور ہے، جنھیں عیاشی کرنا ہوتی ہے وہ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ شہر سے بھی جس لڑکی کو لُک چھپ کر پیشہ کرنا ہوتا ہے، یہیں آتی ہے۔ ان معلومات کی بنا پر اس نے نٹورسے کہا۔

’’میں نے کہا۔ وہ۔ وہ۔ میرا مطلب ہے، ادھر کوئی چھوکری ووکری نہیں ملتی؟‘‘

نٹور نے اپنے گلاس میں ایک بڑا پیگ انڈیلا اور ہنسا۔

’’مسٹر جمیل! ایک نہیں ہزاروں۔ ہزاروں۔ ہزاروں۔ !‘‘

یہ ہزاروں کی گردان جاری رہتی اگر جمیل نے اس کی بات کاٹی نہ ہوتی۔

’’ان ہزاروں میں سے آج ایک ہی مل جائے تو ہم سمجھیں کہ نٹور بھائی نے کمال کردیا۔ ‘‘

نٹور بھائی مزے میں تھے۔ جھوم کرکہا۔

’’جمیل بھائی۔ ایک نہیں ہزاروں۔ چلو، اس کو ختم کرو۔ ‘‘

دونوں نے بوتل میں جو کچھ بچا تھا، آدھ گھنٹے کے اندر اندر ختم کردیا۔ بل ادا کرنے اور بیرے کو تکڑی ٹِپ دینے کے بعد دونوں باہر نکلے۔ اندر اندھیرا تھا۔ باہر دھوپ چمک رہی تھی۔ جمیل کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ایک لحظے کے لیے اسے کچھ نظر نہ آیا۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں تیز روشنی کی عادی ہوئیں تو اس نے نٹور سے کہا۔

’’چلو بھئی!‘‘

نٹور نے تلاشی لینے والی نگاہوں سے جمیل کی طرف دیکھا۔

’’مال پانی ہے نا؟‘‘

جمیل کے ہونٹوں پر نشیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نٹور کی پسلیوں میں کہنی سے ٹھوکا دے کر اس نے کہا۔

’’بہت۔ نٹور بھائی، بہت۔ ‘‘

اور اس نے جیب سے پانچ نوٹ سو سو کے نکالے۔

’’کیا اتنے کافی نہیں؟‘‘

نٹور کی باچھیں کھل گئیں۔

’’کافی۔ ؟ بہت زیادہ ہیں۔ چلو آؤ، پہلے ایک بوتل خرید لیں، وہاں ضرورت پڑے گی۔ ‘‘

جمیل نے سوچا بات بالکل ٹھیک ہے، وہاں ضرورت نہیں پڑے گی تو کیا کسی مسجد میں پڑے گی۔ چنانچہ فوراً ایک بوتل خرید لی گئی۔ ٹیکسی کھڑی تھی۔ دونوں اس میں بیٹھ گئے اور اس وادی کی سیاحی کرنے لگے۔ سینکڑوں بروتھلز تھے۔ ان میں سے بیس پچیس کا جائزہ لیا گیا، مگر جمیل کو کوئی عورت پسند نہ آئی۔ سب میک اپ کی موٹی اور شوخ تہوں کے اندر چھپی ہوئی تھیں۔ جمیل چاہتا تھا کہ ایسی لڑکی ملے جو مرمت شدہ مکان معلوم نہ ہو۔ جس کو دیکھ کر یہ احساس نہ ہو کہ جگہ جگہ اکھڑے ہوئے پلستر کے ٹکڑوں پر بڑے اناڑی پن سے سرخی اور چونا لگایا گیا ہے۔ نٹور تنگ آگیا۔ اس کے سامنے جو بھی عورت آتی تھی، وہ جمیل کا کندھا پکڑ کر کہتا۔

’’جمیل بھائی، چلے گی!‘‘

مگر جمیل بھائی اٹھ کھڑا ہوتا۔

’’ہاں چلے گی۔ اور ہم بھی چلیں گے!‘‘

دو جگہیں اور دیکھی گئیں مگر جمیل کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ سوچتا تھا کہ ان عورتوں کے پاس کون آتا ہے جو سؤر کے سوکھے ہوئے گوشت کے ٹکڑوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی ادائیں کتنی مکروہ ہیں۔ اٹھنے بیٹھنے کا انداز کتنا فحش ہے اور کہنے کو یہ پرائیویٹ ہیں یعنی ایسی عورتیں جو در پردہ پیشہ کراتی ہیں۔ جمیل کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ پردہ کہاں ہے جس کے پیچھے یہ دھندہ کراتی ہیں۔ جمیل سوچ ہی رہا تھا کہ اب پروگرام کیا ہونا چاہیے، کہ نٹور نے ٹیکسی رکوائی اور اتر کرچلا گیا کہ ایک دم اسے ایک ضروری کام یاد آگیا تھا۔ اب جمیل اکیلا تھا۔ ٹیکسی تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی۔ اس وقت ساڑھے چار بج چکے تھے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔

’’یہاں کوئی بھڑوا ملے گا؟‘‘

ڈرائیور نے جواب دیا۔

’’ملے گا جناب!‘‘

’’تو چلو اس کے پاس!‘‘

ڈرائیور نے دو تین موڑ گھومے اور ایک پہاڑی بنگلہ نما بلڈنگ کے پاس گاڑی کھڑی کردی۔ دو تین مرتبہ ہارن بجایا۔ جمیل کا سر نشے کے باعث سخت بوجھل ہورہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کیسے اور کس طرح، مگر جب اس نے ذرا دماغ کو جھٹکا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک پلنگ پر بیٹھا ہے اور اس کے پاس ہی ایک جوان لڑکی، جس کی ناک کی پھننگ پر چھوٹی سی پھنسی تھی، اپنے بریدہ بالوں میں کنگھی کررہی ہے۔ جمیل نے اس کو غور سے دیکھا۔ سوچنے ہی والا تھا کہ وہ یہاں کیسے پہنچا مگر اس کے شعور نے اس کو مشورہ دیا کہ دیکھو یہ سب عبث ہے۔ جمیل نے سوچا، یہ ٹھیک ہے لیکن پھر بھی اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر اندر ہی اندر نوٹ گن کر اور پاس پڑی ہوئی تپائی پر برانڈی کی سالم بوتل دیکھ کر اپنی تشفی کرلی کہ سب خیریت ہے۔ اس کا نشہ کسی قدر نیچے اترگیا۔ اٹھ کروہ اس گیسو بریدہ لڑکی کے پاس گیا اور کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ مسکرا کر اس سے کہا۔

’’کہیے، مزاج کیسا ہے؟‘‘

اس لڑکی نے کنگھی میز پر رکھی اور کہا۔

’’کہیے آپ کا کیسا ہے؟‘‘

’’ٹھیک ہوں!‘‘

یہ کہہ کر اس نے لڑکی کی کمر میں ہاتھ ڈالا۔

’’آپ کا نام؟‘‘

’’بتا تو چکی ایک دفعہ۔ آپ کو میرا خیال ہے یہ بھی یاد نہ رہا ہو گا کہ آپ ٹیکسی میں یہاں آئے۔ جانے کہاں کہاں گھومتے رہے ہوں گے کہ بل اڑتیس روپے بنا جو آپ نے ادا کیا اور ایک شخص کا نام شاید نٹور تھا، آپ نے اس کو بے شمار گالیاں دیں۔ ‘‘

جمیل اپنے اندر ڈوب کر سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرنے ہی والا تھا کہ اس نے سوچا کہ فی الحال اس کی ضرورت نہیں، میں بھول جایا کرتا ہوں۔ یا یوں سمجھیے کہ مجھے بار بار پوچھنے میں مزا آتا ہے۔ وہ صرف اتنا یاد کرسکا کہ اس نے ٹیکسی والے کا بل جو کہ اڑتیس روپے بنتا تھا، ادا کیا تھا۔ لڑکی پلنگ پر بیٹھ گئی۔

’’میرا نام تارہ ہے۔ ‘‘

جمیل نے اس کو لٹا دیا اور اس سے مصنوعی پیار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کو پیاس محسوس ہوئی تو اس نے تارہ سے کہا۔

’’دو یخ بستہ سوڈے اور گلاس!‘‘

تارہ نے یہ دونوں چیزیں فوراً حاضر کردیں۔ جمیل نے بوتل کھولی۔ اپنے لیے ایک پیگ ڈال کر اس نے دوسرا تارہ کے لیے ڈالا۔ پھر دونوں پینے لگے۔ تین پیگ پینے کے بعد جمیل نے محسوس کیا کہ اس کی حالت بہتر ہو گئی ہے۔ تارہ کو چومنے چاٹنے کے بعد اس نے سوچا کہ اب قصہ مختصر ہو جانا چاہیے۔

’’کپڑے اتار دو!‘‘

’’سارے؟‘‘

’’ہاں سارے!‘‘

تارہ نے کپڑے اتار دیے اور لیٹ گئی۔ جمیل نے اس کے ننگے جسم کو ایک نظر دیکھا اور یہ رائے قائم کی کہ اچھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خیالات کا ایک تانتا بندھ گیا۔ جمیل کا نکاح ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو دو تین مرتبہ دیکھا تھا۔ اس کا بدن کیسا ہو گا۔ کیا وہ تارہ کی طرح اس کے ایک مرتبہ کہنے پر اپنے سارے کپڑے اتار کر اس کے ساتھ لیٹ جائے گی؟ کیا وہ اس کے ساتھ برانڈی پیے گی؟ کیا اس کے بال کٹے ہوئے ہیں؟ پھرفوراً اس کا ضمیر جاگا جس نے اس کو لعنت ملامت شروع کردی۔ نکاح کا یہ مطلب تھا کہ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ صرف ایک مرحلہ باقی تھا کہ وہ اپنی سسرال جائے اور لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر لے آئے۔ کیا اس کے لیے یہ واجب تھا کہ ایک بازاری عورت کو اپنی آغوش کی زینت بنائے۔ خم کے خم لنڈھاتا پھرے۔ جمیل بہت خفیف ہوا اور اسی خفت میں اس کی آنکھیں مندنا شروع ہو گئیں اور وہ سو گیا۔ تارہ بھی تھوڑی دیر کے بعد خواب غفلت کے مزے لینے لگی۔ جمیل نے کئی بے ربط، اوٹ پٹانگ خواب دیکھے۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد جب کہ ایک بہت ہی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا، وہ ہڑبڑا کے اٹھا۔ جب اچھی طرح آنکھیں کھلیں تو اس نے دیکھا کہ وہ ایک اجنبی کمرے میں ہے اور اس کے ساتھ الف ننگی لڑکی لیٹی ہے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد واقعات آہستہ آہستہ اس کے دماغ کی دھند چیر کر نمودار ہونے لگے۔ وہ خود بھی الف ننگا تھا۔ بوکھلاہٹ میں اس نے الٹا پاجامہ پہن لیا، مگر اس کو احساس نہ ہوا۔ کرتا پہن کر اس نے جیبیں ٹٹولیں۔ نوٹ سب کے سب موجود تھے۔ اس نے سوڈا کھولا اور ایک پیگ بنا کر پیا۔ پھر اس نے تارہ کو ہولے سے جھنجھوڑا۔

’’اٹھو!‘‘

تارہ آنکھیں ملتی اٹھی۔ جمیل نے اس سے کہا

’’کپڑے پہن لو!‘‘

تارہ نے کپڑے پہن لیے۔ باہر گہری شام رات بننے کی تیاریاں کررہی تھی۔ جمیل نے سوچا، اب کُوچ کرنا چاہیے۔ لیکن وہ تارہ سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا، کیوں کہ بہت سی باتیں اس کے ذہن سے نکل گئیں تھیں۔

’’کیوں تارہ جب ہم لیٹے۔ میرا مطلب ہے جب میں نے تم سے کپڑے اتارنے کو کہا تو اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘

تارہ نے جواب دیا۔

’’کچھ نہیں۔ آپ نے اپنے کپڑے اتارے اور میرے بازو پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے سو گئے۔ ‘‘

’’بس؟‘‘

’’ہاں۔ لیکن سونے سے پہلے آپ دو تین مرتبہ بڑبڑائے اور کہا۔

’’میں گنہگار ہوں۔ میں گنہگار ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر تارہ اٹھی اور اپنے بال سنوارنے لگی۔ جمیل بھی اٹھا۔ گناہ کا احساس دبانے کے لیے اس نے ڈبل پیگ اپنے حلق میں جلدی جلدی انڈیلا۔ بوتل کو کاغذ میں لپیٹا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ تارہ نے پوچھا۔

’’چلے؟‘‘

’’ہاں، پھر کبھی آؤں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ لوہے کی پیچ دار سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ بڑے بازار کی طرف اس کے قدم اٹھنے ہی والے تھے کہ ہارن بجا اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ اس نے کہا چلو، اچھا ہوا، یہیں مل گئی۔ پیدل چلنے کی زحمت سے بچ گئے۔ اس نے ڈرائیور سے پوچھا۔

’’کیوں بھائی خالی ہے؟‘‘

ڈرائیور نے جواب دیا۔

’’خالی ہے کا کیا مطلب۔ لگی ہوئی ہے!‘‘

’’تو پھر۔ ‘‘

یہ کہہ کر جمیل مڑا، لیکن ڈرائیور نے اس کو پکارا۔

’’کدھر جاتا ہے سیٹھ؟‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’کوئی اور ٹیکسی دیکھتا ہوں۔ ‘‘

ڈرائیور باہر نکل آیا۔

’’مستک تو نہیں پھرے لا۔ یہ ٹیکسی تمہیں نے تو لے رکھی یہ!‘‘

جمیل بوکھلا گیا۔

’’میں نے؟‘‘

ڈرائیور نے بڑے گنوار لہجے میں اس سے کہا۔

’’ہاں تو نے۔ سالا دارو پی کرسب کچھ بھول گیا۔ ‘‘

اس پر تُو تُو میں میں شروع ہوئی۔ ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جمیل نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھ گیا۔

’’چلو!‘‘

ڈرائیور نے ٹیکسی چلائی۔

’’کدھر؟‘‘

جمیل نے کہا۔

’’پولیس اسٹیشن!‘‘

ڈرائیور نے اس پر جانے کیا واہی تباہی بکی۔ جمیل سوچ میں پڑ گیا۔ جو ٹیکسی اس نے لی تھی، اس کا بل جو اڑتیس روپے تھا، اس نے ادا کردیا تھا۔ اب یہ نئی ٹیکسی کہاں سے آن ٹپکی۔ گو وہ نشے کی حالت میں تھا مگر وہ یقینی طور پر کہہ سکتا تھا کہ یہ وہ ٹیکسی نہیں تھی، اور نہ یہ ڈرائیور وہ ڈرائیور جو اسے یہاں لایا تھا۔ پولیس اسٹیشن پہنچے۔ جمیل کے قدم بہت بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ سب انسپکٹر جو اس وقت ڈیوٹی پر تھا، فوراً بھانپ گیا کہ معاملہ کیا ہے۔ اس نے جمیل کو کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ ڈرائیور نے اپنی داستان شروع کردی جو سرتاپا غلط تھی۔ جمیل یقیناً اس کی تردید کرتا مگر اس میں زیادہ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ سب انسپکٹر سے مخاطب ہو کر اس نے کہا۔

’’جناب! میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ کیا قصہ ہے، جو ٹیکسی میں نے لی تھی، اس کا کرایہ میں نے اڑتیس روپے ادا کردیا تھا۔ اب معلوم نہیں کہ یہ کون ہے اور مجھ سے کیسا کرایہ مانگتا ہے؟‘‘

ڈرائیور نے کہا۔

’’حضور انسپکٹر بہادر! یہ دارو پئے ہے۔ ‘‘

اور ثبوت کے طور پر اس نے جمیل کی برانڈی کی بوتل میز پر رکھ دی۔ جمیل جھنجھلا گیا۔

’’ارے بھئی! کون سؤر کہتا ہے کہ اس نے نہیں پی۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ کہاں سے تشریف لے آئے۔ ‘‘

سب انسپکٹر شریف آدمی تھا۔ کرایہ ڈرائیور کے حساب سے بیالیس روپے بنتا تھا۔ اس نے پندرہ روپے میں فیصلہ کردیا۔ ڈرائیور بہت چیخا چلایا مگر سب انسپکٹر نے اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر تھانے سے نکلوا دیا۔ پھر اس نے ایک سپاہی سے کہا کہ وہ دوسری ٹیکسی لائے۔ ٹیکسی آئی تو اس نے ایک سپاہی جمیل کے ساتھ کردیا کہ وہ اسے گھر چھوڑ آئے۔ جمیل نے لکنت بھرے لہجے میں اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پوچھا۔

’’جناب کیا یہ گرانٹ روڈ پولیس اسٹیشن ہے؟‘‘

سب انسپکٹر نے زور کا قہقہہ لگایا اور پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

’’مسٹر! اب ثابت ہو گیا کہ تم نے خوب پی رکھی ہے۔ یہ کولابہ پولیس اسٹیشن ہے۔ جاؤ، اب گھر جا کر سو جاؤ۔ ‘‘

جمیل گھر جا کے کھانا کھائے اور کپڑے اتارے بغیر سو گیا۔ برانڈی کی بوتل بھی اس کے ساتھ سوتی رہی۔ دوسرے روز وہ دس بجے کے قریب اٹھا۔ جوڑ جوڑ میں درد تھا۔ سر میں جیسے بڑے بڑے و زنی پتھر تھے۔ منہ کا ذائقہ خراب۔ اس نے اٹھ کر دو تین گلاس فروٹ سالٹ کے پیے، چار پنچ پیالے چائے کے۔ تب کہیں شام کو جا کر طبیعت کسی قدر بحال ہوئی اور اس نے خود کو گزشتہ واقعات کے متعلق سوچنے کے قابل محسوس کیا۔ بہت لمبی زنجیر تھی۔ ان میں سے بعض کڑیاں تو سلامت تھیں، مگر بعض غائب۔ واقعات کا تسلسل شروع سے لے کر گرین ہوٹل اور وہاں سے لے کر کولابہ تک بالکل صاف تھا۔ اس کے بعد جب نٹور کے ساتھ خاص وادی کی سیاحی شروح ہوئی تھی، معاملہ گڈمڈ ہو جاتا تھا۔ چند جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں۔ بڑی واضح، مگر فوراً مبہم پرچھائیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ وہ کیسے اس لڑکی کے گھر پہنچا۔ اس کا نام جمیل کے حافظے سے پھسل کر جانے کس کھڈ میں جا گرا تھا۔ اس کی شکل و صورت اسے البتہ بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ وہ اس کے گھر کیسے پہنچا تھا۔ یہ جاننا بہت اہم تھا۔ اگر جمیل کا حافظہ اس کی مدد کرتا تو بہت سی چیزیں صاف ہو جاتیں۔ مگر بصد کوشش وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ اور یہ ٹیکسیوں کا کیا سلسلہ تھا۔ اس نے پہلی کوتوچھوڑ دیا تھا، مگر وہ دوسری کہاں سے ٹپک پڑی تھی؟ سوچ سوچ کے جمیل کا دماغ پاش پاش ہو گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ جتنے وزنی پتھر تھے، سب آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چُور چُور ہو گئے ہیں۔ رات کو اس نے برانڈی کے تین پیگ پئے، تھوڑا سا ہلکا کھانا کھایا اور گزشتہ واقعات کے متعلق سوچتاسوچتا سو گیا۔ وہ ٹکڑے جو گم ہو گئے تھے، ان کو تلاش کرنا اب جمیل کا شغل ہو گیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ اس روز ہوا، من و عن اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے اور یہ روز روز کی مغزپاشی دور ہو۔ اس کے علاوہ اس کو اس بات کا بھی بڑا قلق تھا کہ اس کا گناہ نامکمل رہ گیا۔ وہ سوچتا یہ ادھورا گناہ جائے گا کس کھاتے میں۔ وہ چاہتا تھا کہ بس ایک دفعہ اس کی بھی تکمیل ہو جائے۔ مگر تلاش بسیار کے باوجود وہ پہاڑی بنگلوں جیسا مکان جمیل کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ جب وہ تھک ہار گیا تو اس نے ایک دن سوچا کہ یہ سب خواب ہی تو نہیں تھا! مگر خواب کیسے ہو سکتا تھا۔ خواب میں آدمی اتنے روپے تو خرچ نہیں کرتا۔ اس روز اس کے کم از کم ڈھائی سو روپے خرچ ہوئے تھے۔ پیر صاحب سے اس نے نٹور کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ اس روز کے بعد دوسرے دن ہی سمندر پار کہیں چلا گیا ہے۔ غالباً موتیوں کے سلسلے میں۔ جمیل نے اس پر ہزار لعنتیں بھیجیں اورا پنی تلاش شروع کردی۔ اس نے جب اپنے حافظے پر بہت زور دیا تو اسے بنگلے کی دیوار کے ساتھ پیتل کی ایک پلیٹ نظر آئی۔ اس پرکچھ لکھا تھا۔ غالباً۔ ڈاکٹر۔ ڈاکٹر بیرام جی۔ آگے جانے کیا۔ ایک دن کولابہ کی گلیوں میں چلتے چلتے آخر وہ ایک ایسی گلی میں پہنچا جو اس کو جانی پہچانی معلوم ہوئی۔ دو رویہ اسی قسم کی بنگلہ نما عمارتیں تھیں۔ ہر عمارت کے باہر چھوٹے چھوٹے پیتل کے بورڈ لگے تھے۔ کسی پر چار کسی پر پانچ۔ کسی پر تین۔ وہ ادھر ادھر غور سے دیکھتا چلا جارہا تھا، مگر اس کے دماغ میں وہ خط گھوم رہا تھا جو صبح اس کی ساس کی طرف سے موصول ہوا تھا کہ اب انتظار کی حد ہو گئی ہے۔ میں نے تاریخ مقرر کردی ہے، آؤ اور اپنی دلہن کو لے جاؤ۔ اور وہ ادھر ایک نامکمل گناہ کومکمل بنانے کی کوشش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ جمیل نے کہا۔

’’ہٹاؤ جی اس وقت۔ پھرنے دو مارا مارا۔ ایک دم اس نے اپنا داہنے ہاتھ پیتل کا ایک چھوٹا سا بورڈ دیکھا۔ اس پر لکھا تھا۔ ڈاکٹر ایم بیرام جی۔ ایم ڈی۔ جمیل کانپنے لگا۔ یہ وہی بلڈنگ۔ بالکل وہی۔ وہی رنگ، وہی بل کھاتی ہوئی آہنی سیڑھیاں۔ جمیل بے دھڑک اوپر چلا گیا۔ اس کے لیے اب ہر چیز جانی پہچانی تھی۔ کوریڈور سے نکل کر اس نے سامنے والے دروازے پر دستک دی۔ ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔ اسی لڑکے نے جو اس روز سوڈا اور برف لایا تھا۔ جمیل نے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ پیدا کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔

’’بیٹا، بائی جی ہیں؟‘‘

لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’جی ہاں!‘‘

’’جاؤ، ان سے کہو، صاحب ملنے آئے ہیں۔ ‘‘

جمیل کے لہجے میں بے تکلفی تھی۔ لڑکا دروازہ بھیڑ کر اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا اور تارہ نمودار ہوئی۔ اس کو دیکھتے ہی جمیل نے پہچان لیا کہ وہ لڑکی ہے، مگر اب اس کی ناک پر پھنسی نہیں تھی۔

’’نمستے!‘‘

’’نمستے! کہیے مزاج کیسے ہیں؟‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔ جمیل نے جواب دیا۔

’’اچھے ہیں۔ میں پچھلے دنوں بہت مصروف رہا، اس لیے آ نہ سکا۔ کہو، پھر کیا ارادہ ہے؟‘‘

تارہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

’’معاف کیجیے، میری شادی ہو چکی ہے۔ ‘‘

جمیل بوکھلا گی۔

’’شادی۔ کب؟‘‘

تارہ نے اسی سنجیدگی سے جواب دیا۔

’’جی، آج صبح۔ آئیے میں آپ کو اپنے پتی سے ملاؤں۔ ‘‘

جمیل چکرا گیا اور کچھ کہے سنے بغیر کھٹا کھٹ نیچے اتر گیا۔ سامنے ٹیکسی کھڑی تھی۔ جمیل کا دل ایک لحظے کے لیے ساکت سا ہو گیا۔ تیز قدم اٹھاتا، وہ بڑے بازار کی طرف نکل گیا۔ معاً جمیل کو جاتے دیکھ کرڈرائیور نے زور سے کہا۔

’’سیٹھ صاحب ٹیکسی!‘‘

جمیل نے جھنجھلا کر کہا۔

’’نہیں کم بخت، شادی!‘‘

سعادت حسن منٹو

شاداں

خان بہادر محمد اسلم خان کے گھرمیں خوشیاں کھیلتی تھیں۔ اورصحیح معنوں میں کھیلتی تھی۔ ان کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک لڑکا۔ اگر بڑی لڑکی کی عمرتیرہ برس کی ہو گی تو چھوٹی کی یہی گیارہ ساڑھے گیارہ۔ اور جو لڑکا تھا گو سب سے چھوٹا مگر قد کاٹھ کے لحاظ سے وہ اپنی بڑی بہنوں کے برابر معلوم ہوتا تھا۔ تینوں کی عمر جیسا کہ ظاہر ہے اس دور سے گزررہی تھی جب کہ ہر آس پاس کی چیز کھلونا معلوم ہوتی ہے۔ حادثے بھی یوں آتے ہیں، جیسے ربڑ کے اڑتے ہوئے غبارے۔ ان سے بھی کھیلنے کو چاہتا ہے۔ خان بہادر محمد اسلم کا گھر خوشیوں کا گھر تھا۔ اس میں سب سے بڑی تین خوشیاں، اس کی اولاد تھیں۔ فریدہ، سعیدہ اور نجیب۔ یہ تینوں اسکول جاتے تھے جیسے کھیل کے میدان میں جاتے ہیں۔ ہنسی خوشی جاتے تھے۔ ہنسی خوشی واپس آتے تھے اور امتحان یوں پاس کرتے تھے جیسے کھیل میں کوئی ایک دوسرے سے بازی لے جائے۔ کبھی فریدہ فرسٹ آتی تھی، کبھی نجیب اور کبھی سعیدہ۔ خان بہادر محمد اسلم بچوں سے مطمئن، ریٹائرڈ زندگی بسر کررہے تھے انھوں نے محکمہ زراعت میں بتیس برس نوکری کی تھی۔ معمولی عہدہ سے بڑھتے بڑھتے وہ بلند ترین مقام پر پہنچ گئے۔ اس دوران میں انھوں نے بڑی محنت کی تھی، دن رات دفتری کام کیے تھے۔ اب وہ سستا رہے تھے۔ اپنے کمرے میں کتابیں لے کر پڑے رہتے اور ان کے مطالعے میں مصروف رہتے۔ فریدہ، سعیدہ اور نجیب کبھی کبھی ماں کا کوئی پیغام لے کر آتے تو وہ اس کا جواب بھجوا دیتے۔ ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے اپنا بستر وہیں اپنے کمرے میں لگا لیا تھا۔ دن کی طرح ان کی رات بھی یہیں گزرتی تھی۔ دنیا کے جھگڑے ٹنٹنوں سے بالکل الگ۔ کبھی کبھی ان کی بیوی جو ادھیڑ عمر کی عورت تھی ان کے پاس آجاتی اور چاہتی کہ وہ اس سے دو گھڑی باتیں کریں مگر وہ جلد ہی اسے کسی بہانے سے ٹال دیتے۔ یہ بہانہ عام طور پر فریدہ اور سعیدہ کے جہیز کے متعلق ہوتا

’’جاؤ، یہ عمر چونچلے بگھارنے کی نہیں۔ گھر میں دو جوان بیٹیاں ہیں، ان کے دان دہیج کی فکر کرو۔ سونا دن بدن مہنگا ہورہاہے۔ دس بیس تولے خرید کر کیوں نہیں رکھ لیتیں۔ وقت آئے گا تو پھر چیخو گی کہ ہائے اللہ، خالی زیوروں پر اتنا روپیہ اٹھ رہا ہے۔ ‘‘

یا پھر وہ کبھی اس سے یہ کہتے۔

’’فرخندہ خانم۔ میری جان ہم بڈھے ہو چکے ہیں۔ تمہیں اب میری فکر اور مجھے تمہاری فکر ایک بچے کی طرح کرنی چاہیے۔ میری ساری پگڑیاں لیرلیر ہو چکی ہیں مگر تمہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ململ کے دو تھان ہی منگوالو۔ دو نہیں چار۔ تمہارے اور بچیوں کے دوپٹے بھی بن جائیں گے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کیا چاہتی ہو؟۔ اور ہاں وہ میری مسواکیں ختم ہو گئی ہیں۔ ‘‘

فرخندہ، خان بہادر کے پلنگ پر بیٹھ جاتی اور بڑے پیار سے کہتی۔

’’ساری دنیا برش استعمال کرتی ہے۔ آپ ابھی تک پرانی لکیر کے فقیر بنے ہیں۔ ‘‘

خان بہادر کے لہجے میں نرمی آجاتی۔

’’نہیں فرخندہ جان۔ یہ برش اورٹوتھ پیسٹ سب واہیات چیزیں ہیں۔ ‘‘

فرخندہ کے ادھیڑ چہرے پر لکیروں کی کوڑیاں اور مولیاں سی بکھر جاتیں۔ مگر صرف ایک لحظے کے لیے خان بہادر اس کی طرف دیکھتے اور باہر صحن میں بچوں کی کھیل کود کا شور و غل سنتے ہوئے کہتے

’’فرخندہ۔ تو کل ململ کے تھان آجائیں۔ اور لٹھے کے بھی۔ ‘‘

لیکن فوراً ہی معلوم نہیں کیوں ان کے بدن پر جھرجھری سی دوڑ جاتی اور وہ فرخندہ کو منع کردیتے۔

’’نہیں نہیں، لٹھا منگوانے کی ابھی ضرورت نہیں۔ !‘‘

باہر صحن میں بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے۔ سہ پہر کو شاداں عموماً ان کے ساتھ ہوتی۔ یہ گو نئی نئی آئی تھی۔ لیکن ان میں فوراً ہی گھل مل گئی تھی۔ سعیدہ اور فریدہ تو اس کے انتظار میں رہتی تھیں کہ وہ کب آئے اور سب مل کر

’’لکن میٹی‘‘

یا کِھدو‘‘

کھیلیں۔ شاداں کے ماں باپ عیسائی تھے۔ مگر جب سے شاداں خان بہادر کے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ فریدہ کی ماں نے اس کا اصلی نام بدل کر شاداں رکھ دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ بڑی ہنس مکھ لڑکی تھی اور اس کی بچیاں اس سے پیار کرنے لگی تھیں۔ شاداں صبح سویرے آتی تو فریدہ، سعیدہ اور نجیب اسکول جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتے۔ وہ اس سے باتیں کرنا چاہتے مگر ماں ان سے کہتی

’’بچوجلدی کرو۔ اسکول کا وقت ہورہا ہے۔ ‘‘

اور بچے جلدی جلدی تیاری سے فارغ ہو کر شاداں کو سلام کہتے ہوئے اسکول چلے جاتے۔ سہ پہر کے قریب شاداں جلدی جلدی محلے کے دوسرے کاموں سے فارغ ہو کرآجاتی اور فریدہ، سعیدہ اور نجیب کھیل میں مشغول ہو جاتے اور اتنا شور مچتا کہ بعض اوقات خان بہادر کو اپنے کمرے سے نوکر کے ذریعے سے کہلوانا پڑتا کہ شور ذرا کم کیا جائے۔ یہ حکم سن کر شاداں سہم کر الگ ہو جاتی، مگر سعیدہ اور فریدہ اس سے کہتیں

’’کوئی بات نہیں شاداں۔ ہم اس سے بھی زیادہ شور مچائیں تو وہ اب کچھ نہیں کہیں گے۔ ایک سے زیادہ بار وہ کوئی بات نہیں کہا کرتے۔ ‘‘

اور کھیل پھر شروع ہو جاتا۔ کبھی لکن میٹی، کبھی کِھدو اور کبھی لوڈو۔ لوڈو، شاداں کو بہت پسند تھی، اس لیے کہ یہ کھیل اس کے لیے نیا تھا۔ چنانچہ جب سے نجیب لوڈو لایا تھا، شاداں اسی کھیل پر مصر ہوتی۔ مگر فریدہ، سعیدہ اور نجیب تینوں کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوتا۔ بس وہ جو

’’چٹو‘‘

سا ہوتا ہے، اس میں پانسہ ہلاتے اور پھینکتے رہو اور اپنی گوٹیں آگے پیچھے کرتے رہو۔ شاداں کھلی کھلی رنگت کی درمیانے قد کی لڑکی تھی۔ اس کی عمر فریدہ جتنی ہو گی مگر اس میں جوانی زیادہ نمایاں تھی۔ جیسے خود جوانی نے اپنی شوخیوں پر لال پنسل کے نشان لگا دیے ہیں۔ محض شرارت کے لیے۔ ورنہ فریدہ اور سعیدہ میں وہ تمام رنگ، وہ تمام لکیریں، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو اس عمر کی لڑکیوں میں ہوتی ہیں۔ لیکن فریدہ، سعیدہ اور شاداں جب پاس کھڑی ہوتیں تو شاداں کی جوانی زیر لب کچھ گنگناتی معلوم ہوتی۔ کھلی کھلی رنگت۔ پریشان بال اور دھڑکتا ہوا دوپٹہ جو کس کر اس نے اپنے سینے اور کمرکے اردگرد باندھا ہوتا۔ ایسی ناک، جس کے نتھنے گویا ہوا میں انجانی خوشبو میں ڈھونڈنے کے لیے کانپ رہے ہیں۔ کان ایسے جو ذرا سی آہٹ پر چونک کر سننے کے لیے تیار ہوں۔ چہرے کے خد وخال میں کوئی خوبی نہیں تھی۔ اگر کوئی عیب گننے لگتا تو بڑی آسانی سے گن سکتا تھا، صرف اسی صورت میں اگر اس کا چہرہ اس کے جسم سے الگ کرکے رکھ دیا جاتا۔ مگر ایسا کیا جانا ناممکن تھا، اس لیے کہ اس کے چہرے اور اس کے بقایا جسم کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ جس طرح چولی علیحدہ کرنے پر جسم کے آثار اس میں باقی رہ جاتے ہیں، اسی طرح اس کے چہرے پر بھی رہ جاتے اور اس کو پھر اس کی سالمیت ہی میں دیکھنا پڑتا۔ شاداں بے حد پھرتیلی تھی۔ صبح آتی اور یوں منٹا مٹنی میں اپنا کام ختم کرکے یہ جا وہ جا۔ سہ پہر کو آتی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کھیل کود میں مصروف رہتی۔ جب خان بہادر کی بیوی آخری بار چلا کر کہتی۔

’’شاداں، اب خدا کے لیے کام تو کرو۔ ‘‘

تو وہ وہیں کھیل بند کرکے اپنے کام میں مشغول ہو جاتی۔ ٹوکرہ اٹھاتی اور دو دو زینے ایک جست میں طے کرتی کوٹھے پر پہنچ جاتی۔ وہاں سے فارغ ہو کر دھڑ دھڑ دھڑ نیچے اترتی اور صحن میں جھاڑو شروع کردیتی۔ اس کے ہاتھ میں پھرتی اور صفائی دونوں چیزیں تھیں۔ خان بہادر اور اس کی بیوی فرخندہ کو صفائی کا بہت خیال تھا، لیکن مجال ہے جو شاداں نے کبھی ان کو شکایت کا موقع دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے کھیل کود پر معترض نہیں ہوتے تھے۔ یوں بھی وہ اس کو پیار کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ روشن خیال تھے، اس لیے چھوت چھات ان کے نزدیک بالکل فضول تھی۔ شروع شروع میں تو خان بہادر کی بیوی نے اتنی اجازت دی تھی کہ لکن میٹی میں اگر کوئی شاداں کو چھوئے تو لکڑی استعمال کرے اور اگر وہ چھوئے تو بھی لکڑی کا کوئی ٹکڑا استعمال کرے، لیکن کچھ دیر کے بعد یہ شرط ہٹا دی گئی اور شاداں سے کہا گیا کہ وہ آتے ہی صابن سے اپنا ہاتھ منہ دھو لیا کرے۔ جب شاداں کی ماں کمانے کے لیے آتی تھی تو خان بہادر اپنے کمرے کی کسی چیز سے اس کو چھونے نہیں دیتے تھے، مگر شاداں کو اجازت تھی کہ وہ صفائی کے وقت چیزوں کی جھاڑ پونچھ بھی کرسکتی ہے۔ صبح سب سے پہلے شاداں، خان بہادر کے کمرے کی صفائی کرتی تھی۔ وہ اخبار پڑھنے میں مشغول ہوتے۔ شاداں ہاتھ میں برش لیے آتی تو ان سے کہتی

’’خان بہادر صاحب۔ ذرا برآمدے میں چلے جائیے!‘‘

خان بہادر اخبارسے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھتے شاداں فوراً ان کے پلنگ کے نیچے سے ان کے سلیپر اٹھا کر ان کو پہنا دیتی اور وہ برآمدے میں چلے جاتے۔ جب کمرے کی صفائی اور جھاڑ پونچھ ہو جاتی تو شاداں دروازے کی دہلیز کے پاس ہی سے کمر میں ذرا سا جھانکنے کا خم پیدا کرکے خان بہادر کو پکارتی

’’آجائیے خان بہادر صاحب۔ ‘‘

خان بہادر صاحب اخبار اور سلیپر کھڑکھڑاتے اندر آجاتے۔ اور شاداں دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتی۔ شاداں کو کام پر لگے، دو مہینے ہو گئے تھے۔ یہ گزرے تو خان بہادر کی بیوی نے ایک دن یوں محسوس کیا کہ شاداں میں کچھ تبدیلی آگئی ہے۔ اس نے سرسری غور کیا تو یہی بات ذہن میں آئی کہ محلے کے کسی نوجوان سے آنکھ لڑ گئی ہو گی۔ اب وہ زیادہ بن ٹھن کے رہتی تھی۔ اگر وہ پہلے کوری ململ تھی۔ تو اب ایسا لگتاتھا کہ اسے کلف لگا ہوا ہے۔ مگر یہ کلف بھی کچھ ایسا تھا جو ململ کے ساتھ انگلیوں میں چنا نہیں گیا تھا۔ شادان دن بدن تبدیل ہو رہی تھی۔ پہلے وہ اترن پہنتی تھی، پر اب اس کے بدن پر نئے جوڑے نظر آتے تھے۔ بڑے اچھے فیشن کے بڑے عمدہ سلے ہوئے۔ ایک دن جب وہ سفید لٹھے کی شلوار اور پھولوں والی جارجٹ کی قمیض پہن کر آئی تو فریدہ کو باریک کپڑے کے نیچے سفید سفید گول چیزیں نظر آئیں۔ لکن میٹی ہورہی تھی۔ شاداں نے دیوار کے ساتھ منہ لگا کر زور سے اپنی آنکھیں میچی ہوئی تھیں۔ فریدہ نے اس کی قمیض کے نیچے سفید سفید گول چیزیں دیکھی تھیں۔ وہ بوکھلائی ہوئی تھی۔ جب شاداں نے پکارا

’’چھپ گئے؟‘‘

تو فریدہ نے سعیدہ کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کمرے میں لے گئی اور دھڑکتے ہوئے دل سے اس کے کان میں کہا۔

’’سعیدہ۔ تم نے دیکھا، اس نے کیا پہنا ہوا تھا؟‘‘

سعیدہ نے پوچھا۔

’’کس نے؟‘‘

فریدہ نے اس کے کان ہی میں کہا۔

’’شاداں نے؟‘‘

’’کیا پہنا ہوا تھا؟‘‘

فریدہ کی جوابی سرگوشی سعیدہ کے کان میں غڑاپ سے غوطہ لگا گئی۔ جب ابھری تو سعیدہ نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور ایک بھنچی بھنچی حیرت کی

’’میں‘‘

اس کے لبوں سے خود کو گھسیٹتی ہوئی باہر نکلی۔ دونوں بہنیں کچھ دیر کھسر پھسر کرتی رہیں۔ اتنے میں دھماکا سا ہوا اور شاداں نے ان کو ڈھونڈ لیا۔ اس پر سعیدہ اور فریدہ کی طرف سے قاعدے کے مطابق چخم ڈھاڑ ہونا چاہیے تھی مگر وہ چپ رہیں۔ شاداں کی خوشی کی مزید چیخیں اس کے حلق میں رک گئیں۔ فریدہ اور سعیدہ کمرے کے اندھیرے کونے میں کچھ سہمی سہمی کھڑی تھیں شاداں بھی قدرے خوفزدہ ہو گئی۔ ماحول کے مطابق اس نے اپنی آواز دبا کر ان سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

فریدہ نے سعیدہ کے کان میں کچھ کہا، سعیدہ نے فریدہ کے کان میں۔ دونوں نے ایک دوسری کو کہنیوں سے ٹھوکے دیے۔ آخر فریدہ نے کانپتے ہوئے لہجے میں شاداں سے کہا۔

’’یہ تم نے۔ یہ تم نے قمیض کے نیچے کیا پہن رکھا ہے!‘‘

شاداں کے حلق سے ہنسی کے گول گول ٹکڑے نکلے۔ سعیدہ نے پوچھا۔

’’کہاں سے لی تو نے یہ؟‘‘

شاداں نے جواب دیا۔

’’بازار سے؟‘‘

فریدہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

’’کتنے میں؟‘‘

’’دس روپے میں!‘‘

دونوں بہنیں ایک دم چلاتے چلاتے رک گئیں۔

’’اتنی مہنگی!‘‘

شاداں نے صرف اتنا کہا۔

’’کیا ہم غریب دل کو اچھی لگنے والی چیزیں نہیں خرید سکتے؟‘‘

اس بات نے فوراً ہی ساری بات ختم کردی۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی اس کے بعد پھر کھیل شروع ہو گیا۔ کھیل جاری تھا۔ مگر کہاں جاری تھا۔ یہ خان بہادر کی بیوی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اب تو شاداں بڑھیا قسم کا تیل بالوں میں لگاتی تھی۔ پہلے ننگے پاؤں ہوتی تھی، پر اب اس کے پیروں میں اس نے سینڈل دیکھے۔ کھیل یقیناً جاری تھا۔ مگر خان بہادر کی بیوی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اگر کھیل جاری ہے تو اس کی آواز شاداں کے جسم سے کیوں نہیں آتی۔ ایسے کھیل بے آواز اور بے نشان تو نہیں ہوا کرتے۔ یہ کیسا کھیل ہے جو صرف کپڑے کا گز بنا ہوا ہے۔ اس نے کچھ دیر اس معاملے کے بارے میں سوچا، لیکن پھر سوچا کہ وہ کیوں بیکار مغز پاشی کرے۔ ایسی لڑکیاں خراب ہوا ہی کرتی ہیں اور کتنی د استانیں ہیں جو ان کی خرابیوں سے وابستہ ہیں اور شہر کے گلی کوچوں میں ان ہی کی طرح رُلتی پھرتی ہیں۔ دن گزرتے رہے اور کھیل جاری رہا۔ فریدہ کی ایک سہیلی کی شادی تھی۔ اس کی ماں خان بہادر کی بیوی کی منہ بولی بہن تھی۔ اس لیے سب کی شرکت لازمی تھی۔ گھر میں صرف خان بہادر تھے سردی کا موسم تھا۔ رات کو خان بہادر کی بیوی کو معاً خیال آیا کہ اپنی گرم شال منگوالے۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ نوکر بھیج دے مگر وہ ایسے صندوق میں پڑی تھی۔ جس میں زیورات بھی تھے، اس لیے اس نے نجیب کو ساتھ لیا اور اپنے گھر آئی۔ رات کے دس بجے چکے تھے۔ اسکا خیال تھا کہ دروازہ بند ہو گا، چنانچہ اس نے دستک دی۔ جب کسی نے نہ کھولا تو نجیب نے دروازے کو ذرا سا دھکا دیا۔ وہ کھل گیا۔ اندر داخل ہوکر اس نے صندوق سے شال نکالی اور نجیب سے کہا۔

’’جاؤ، دیکھو تمہارے ابا کیا کررہے ہیں۔ ان سے کہہ دینا کہ تم تو ابھی تھوڑی دیر کے بعد لوٹ آؤ گے، لیکن ہم سب کل صبح آئیں گے۔ جاؤ بیٹا!‘‘

صندوق میں چیزیں قرینے سے رکھ کر وہ تالا لگا رہی تھی کہ نجیب واپس آیا اور کہنے لگا۔

’’ابا جی تو اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔ ‘‘

’’اپنے کمرے میں نہیں ہیں؟۔ اپنے کمرے میں نہیں ہیں تو کہاں ہیں؟

’’خان بہادرکی بیوی نے تالا بند کیا اور چابی اپنے بیگ میں ڈالی۔

’’تم یہاں کھڑے رہو، میں ابھی آتی ہوں!‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے شوہر کے کمرے میں گئی جو کہ خالی تھا مگر بتی چل رہی تھی۔ بستر پر سے چادر غائب تھی۔ فرش دھلا ہوا تھا۔ ایک عجیب قسم کی بُو کمرے میں بسی ہوئی تھی۔ خان بہادر کی بیوی چکرا گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ پلنگ کے نیچے جھک کر دیکھا، مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک چیز تھی۔ اس نے رینگ کر اسے پکڑا اور باہر نکل کر دیکھا۔ خان بہادر کی موٹی مسواک تھی۔ اتنے میں آہٹ ہوئی۔ خان بہادر کی بیوی نے مسواک چھپالی۔ خان بہادر اندر داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی مٹی کے تیل کی بو۔ ان کا رنگ زرد تھا جیسے سارا لہو نچڑ چکا ہے۔ کانپتی ہوئی آواز میں خان بہادر نے اپنی بیوی سے پوچھا۔

’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ شال لینے آئی تھی۔ میں نے سوچا، آپ کو دیکھتی چلوں۔ ‘‘

’’جاؤ!‘‘

خان بہادر کی بیوی چلی گئی۔ چند قدم صحن میں چلی ہو گی کہ اسے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی۔ وہ بہت دیر تک اپنے کمرے میں بیٹھی رہی پھر نجیب کو لے کر چلی گئی۔ دوسرے روز فریدہ کی سہیلی کے گھر خان بہادر کی بیوی کو یہ خبر ملی کہ خان بہادر گرفتار ہو گئے ہیں۔ جب اس نے پتا لیا تو معلوم ہوا کہ جرم بہت سنگین ہے۔ شاداں جب گھر پہنچی تو لہولہان تھی۔ وہاں پہنچتے ہی وہ بے ہوش ہو گئی۔ اس کے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے۔ پولیس ساتھ تھی۔ شاداں کو وہاں ایک لحظے کے لیے ہوش آیا اور اس نے صرف

’’خان بہادر‘‘

کہا۔ اس کے بعد وہ ایسی بے ہوش ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گئی۔ جرم بہت سنگین تھا۔ تفتیش ہوئی۔ مقدمہ چلا۔ استغاثے کے پاس کوئی عینی شہادت موجود نہیں تھی۔ ایک صرف شاداں کے لہو میں لتھرے ہوئے کپڑے تھے اور وہ دو لفظ جو اس نے مرنے سے پہلے اپنے منہ سے ادا کیے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اسغاثے کو پختہ یقین تھا کہ مجرم خان بہادر ہے، کیونکہ ایک گواہ ایسا تھا جس نے شاداں کو شام کے وقت خان بہادر کے گھر کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ صفائی کے گواہ صرف دو تھے۔ خان بہادر کی بیوی اور ایک ڈاکٹر۔ ڈاکٹر نے کہا کہ خان بہادر اس قابل ہی نہیں کہ وہ کسی عورت سے ایسا رشتہ قائم کرسکے۔ شاداں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ نابالغ تھی۔ اس کی بیوی نے اس کی تصدیق کی۔ خان بہادر محمد اسلم خان بری ہو گئے۔ مقدمے میں انھیں بہت کوفت اٹھانی پڑی۔ بری ہو کر جب گھر آئے تو ان کی زندگی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صرف انھوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا۔

سعادت حسن منٹو

سہائے

’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندومار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے، لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کرکے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے، مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ اسلام پر ایک ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جاسکتے ہیں۔ مذہب، دین، ایمان، دھرم، یقین، عقیدت۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں، روح میں ہوتا ہے۔ چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘

ممتاز اس روز بہت ہی پرجوش تھا۔ ہم صرف تین تھے جو اسے جہاز پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔ وہ ایک غیر متعین عرصے کے لیے ہم سے جدا ہو کر پاکستان جارہا تھا۔ پاکستان، جس کے وجود کے متعلق ہم میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ ہم تینوں ہندو تھے۔ مغربی پنجاب میں ہمارے رشتہ داروں کو بہت مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ممتاز ہم سے جدا ہورہا تھا۔ جگل کو لاہور سے خط ملا کہ فسادات میں اسکا چچا مارا گیا ہے تو اس کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اسی صدمے کے زیر اثر باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ممتاز سے کہا۔

’’میں سوچ رہا ہوں اگر ہمارے محلے میں فساد شروع ہو جائے تو میں کیا کروں گا۔ ‘‘

ممتاز نے اس سے پوچھا۔

’’کیاکرو گے؟‘‘

جگل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔

’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔ ‘‘

’’یہ سن کر ممتاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس کی یہ خاموش تقریباً آٹھ روز تک قائم رہی اور اس وقت ٹوٹی جب اس نے اچانک ہمیں بتایا کہ وہ پونے چار بجے سمندری جہاز سے کراچی جارہا ہے۔ ‘‘

ہم تینوں میں سے کسی نے اس کے اس ارادے کے متعلق بات چیت نہ کی۔ جگل کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ممتاز کی روانگی کا باعث اس کا یہ جملہ ہے۔

’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے، میں تمہیں مار ڈالوں‘‘

غالباً وہ اب تک یہی سوچ رہا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر ممتاز کو مار سکتا ہے یا نہیں۔ ممتاز کو جو کہاس کا جگری دوست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ خاموش تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ممتاز غیر معمولی طور پر باتونی ہو گیا تھا۔ خاص طور پر روانگی سے چند گھنٹے پہلے۔ صبح اٹھتے ہی اس نے پینا شروع کردی۔ اسباب وغیرہ کچھ اس انداز سے باندھا اور بندھوایا جیسے وہ کہیں سیر و تفریح کے لیے جارہا ہے۔ خود ہی بات کرتا تھا اور خود ہی ہنستا تھا۔ کوئی اور دیکھتا تو سمجھتا کہ وہ بمبئی چھوڑنے میں ناقابلِ بیان مسرت محسوس کررہا ہے، لیکن ہم تینوں اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ صرف اپنے جذبات چھپانے کیلیے ہمیں اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ اس سے اس کی یک لخت روانگی کے متعلق بات کروں۔ اشارۃً میں نے جگل سے بھی کہا کہ وہ بات چھیڑے مگر ممتاز نے ہمیں کوئی موقعہ ہی نہ دیا۔ جگل تین چار پگ پی کر اور بھی زیادہ خاموش ہو گیا اور دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ میں اور برج موہن اس کے ساتھ رہے۔ اسے کئی بل ادا کرنے تھے۔ ڈاکٹروں کی فیسیں دینی تھیں۔ لانڈری سے کپڑے لانے تھے۔ یہ سب کام اس نے ہنستے کھیلتے کیے، لیکن جب اس نے ناکے کے ہوٹل کے بازو والی دکان سے ایک پان لیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ برج موہن کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلتے ہوئے اس نے ہولے سے کہا۔

’’یاد ہے برج۔ آج سے دس برس پہلے جب ہمارا حال بہت پتلا تھا، گوبند نے ہمیں ایک روپیہ ادھار دیا تھا۔ ‘‘

راستے میں ممتاز خاموش رہا۔ مگر گھر پہنچتے ہی اس نے پھر باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا، ایسی باتوں کا جن کا سر تھا نہ پیر، لیکن وہ کچھ ایسی پرخلوص تھیں کہ میں اور برج موہن برابر ان میں حصہ لیتے رہے۔ جب روانگی کا وقت قریب آیا تو جگل بھی شامل ہو گیا، لیکن جب ٹیکسی بندرگاہ کی طرف چلی تو سب خاموش ہو گئے۔ ممتاز کی نظریں بمبئی کے وسیع اور کشادہ بازاروں کو الوداع کہتی رہتیں۔ حتیٰ کہ ٹیکسی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئی۔ بے حد بھیڑ تھی۔ ہزار ہار ریفیو جی جارہے تھے۔ خوشحال بہت کم اور بدحال بہت زیادہ۔ بے پناہ ہجوم تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اکیلا ممتاز جارہا ہے۔ ہمیں چھوڑ کر ایسی جگہ جارہا ہے جو اس کی دیکھی بھالی نہیں۔ جواس کے مانوس بنانے پر بھی اجنبی رہے گی۔ لیکن یہ میرا اپنا خیال تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ممتاز کیا سوچ رہا تھا۔ جب کیبن میں سارا سامان چلا گیا تو ممتاز ہمیں عرشے پر لے گیا۔ ادھر جہاں آسمان اور سمندر آپس میں مل رہے تھے، ممتاز دیر تک دیکھتا رہا، پھر اس نے جگل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ یہ محض فریبِ نظر ہے۔ آسمان اور سمندر کا آپس میں ملنا۔ لیکن یہ فریبِ نظر کس قدر دلکش ہے۔ یہ ملاپ!‘‘

جگل خاموش رہا۔ غالباً اس وقت بھی اس کے دل و دماغ میں اس کی یہ کہی ہوئی بات چٹکیاں لے رہی تھی۔ میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔ ‘‘

ممتاز نے جہاز کی بار سے برانڈی منگوائی، کیونکہ وہ صبح سے یہی پی رہا تھا۔ ہم چاروں گلاس ہاتھ میں لیے جنگلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ ریفیو جی دھڑا دھڑ جہاز میں سوار ہورہے تھے اور قریب قریب ساکن سمندر پر آبی پرندے منڈلا رہے تھے۔ جگل نے دفعتاً ایک ہی جرعے میں اپنا گلاس ختم کیا اور نہایت ہی بھونڈے انداز میں ممتاز سے کہا۔

’’مجھے معاف کردینا ممتاز۔ میرا خیال ہے میں نے اس روز تمہیں دکھ پہنچایا تھا۔ ‘‘

ممتاز نے تھوڑے توقف کے بعد جگل سے سوال کیا۔

’’جب تم نے کہا تھا میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مارڈ الوں۔ کیا اس وقت واقعی تم نے یہی سوچا تھا۔ نیک دلی سے اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔ ‘‘

جگل نے اثبات میں سر ہلایا

’’۔ لیکن مجھے افسوس ہیچ‘‘

’’تم مجھے مار ڈ التے تو تمہیں زیادہ افسوس ہوتا۔ ‘‘

ممتاز نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

’’لیکن صرف اس صورت میں اگر تم نے غور کیا ہوتا کہ تم نے ممتاز کو۔ ایک مسلمان کو۔ ایک دوست کو نہیں بلکہ ایک انسان کو مارا ہے۔ وہ اگر حرامزادہ تھا تو تم نے اس کی حرامزدگی کو نہیں بلکہ خود اس کو مار ڈالا ہے۔ وہ اگر مسلمان تھا تو تم نے اس کی مسلمانی کو نہیں اس کی ہستی کو ختم کیا ہے۔ اگر اس کی لاش مسلمانوں کے ہاتھ آتی تو قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو جاتا۔ لیکن دنیا میں ایک انسان کم ہو جاتا۔ ‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے پھر بولنا شر وع کیا۔

’’ہو سکتا ہے، میرے ہم مذہب مجھے شہید کہتے، لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلانا شروع کردیتا۔ مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں۔ مجھے یہ ڈگری نہیں چاہیے جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں۔ لاہور میں تمہارے چچا کو ایک مسلمان نے مار ڈالا۔ تم نے یہ خبر بمبئی میں سنی اور مجھے قتل کردیا۔ بتاؤ، تم اور میں کس تمغے کے مستحق ہیں؟۔ اور لاہور میں تمہارا چچا اور اس کا قاتل کس خلت کا حقدار ہے۔ میں تو یہ کہوں گا، مرنے والے کتے کی موت مرے اور مارنے والوں نے بیکار۔ بالکل بیکار اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔ ‘‘

باتیں کرتے کرتے ممتاز بہت جذباتی ہو گیا۔ لیکن اس زیادتی میں خلوص برابر کا تھا۔ میرے دل پر خصوصاً اس کی اس بات کا بہت اثر ہوا کہ مذہب، دین، ایمان، یقین، دھرم، عقیدت۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم کے بجائے روح میں ہوتا ہے۔ جو چھرے، چاقو اور گولی سے فنا نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ ‘‘

یہ سن کر ممتاز نے اپنے خیالات کا جائزہ لیا اور قدرے سے چبنی سے کہا۔

’’نہیں بالکل ٹھیک نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سب ٹھیک توہے۔ لیکن شاید میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اچھی طرح ادا نہیں کرسکا۔ مذہب سے میری مراد، یہ مذہب نہیں، یہ دھرم نہیں، جس میں ہم میں سے ننانوے فی صدی مبتلا ہیں۔ میری مراد اس خاص چیز سے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں جداگانہ حیثیت بخشتی ہے۔ وہ چیز جو انسان کو حقیقت میں انسان ثابت کرتی ہے۔ لیکن یہ چیز کیا ہے؟۔ افسوس ہے کہ میں اسے ہتھیلی پر رکھ کر نہیں دکھا سکتا‘‘

یہ کہتے کہتے ایک دم اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی اور اس نے جیسے خود سے پوچھنا شروع کیا

’’لیکن اس میں وہ کون سی خاص بات تھی؟۔ کٹر ہندو تھا۔ پیشہ نہایت ہی ذلیل لیکن اس کے باوجود اس کی روح کس قدر روشن تھی؟‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کس کی؟‘‘

’’ایک بھڑوے کی۔ ‘‘

ہم تینوں چونک پڑے۔ ممتاز کے لہجے میں کوئی تکلف نہیں تھا، اس لیے میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔

’’ایک بھڑوے کی؟‘‘

ممتاز نے اثبات میں سر ہلایا۔

’’مجھے حیرت ہے کہ وہ کیسا انسان تھا اور زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ عرفِ عام میں ایک بھڑوا تھا۔ عورتوں کا دلال۔ لیکن اس کا ضمیر بہت صاف تھا۔ ‘‘

ممتاز تھوڑی دیر کے لیے رک گیا، جیسے وہ پرانے واقعات اپنے دماغ میں تازہ کررہا ہے۔ چند لمحات کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا

’’اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں۔ کچھ سہائے تھا۔ بنارس کا رہنے والا۔ بہت ہی صفائی پسند۔ وہ جگہ جہاں وہ رہتا تھا گو بہت ہی چھوٹی تھی مگر اس نے بڑے سلیقے سے اسے مختلف خانوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ پردے کا معقول انتظام تھا۔ چارپائیاں اور پلنگ نہیں تھے۔ لیکن گدیلے اور گاؤ تکیے موجود تھے۔ چادریں اور غلاف وغیرہ ہمیشہ اجلے رہتے تھے۔ نوکر موجود تھا مگر صفائی وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ صرف صفائی ہی نہیں، ہر کام۔ اور وہ سر سے بلا کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ دھوکا اور فریب نہیں کرتا تھا۔ رات زیادہ گزر گئی ہے اور آس پاس سے پانی ملی شراب ملتی ہے تو وہ صاف کہہ دیتا تھا کہ صاحب اپنے پیسے ضائع نہ کیجیے۔ اگر کسی لڑکے متعلق اسے شک ہے تو وہ چھپاتا نہیں تھا۔ اور تو اور اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تین برس کے عرصے میں بیس ہزار روپے کما چکا ہے۔ ہر دس میں سے ڈھائی کمیشن کے لے لے کر۔ اسے صرف دس ہزار اور بنانے تھے۔ معلوم نہیں صرف دس ہزار اور کیوں، زیادہ کیوں نہیں۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تیس ہزار روپے پورے کرکے وہ واپس بنارس چلا جائے گا اور بزازی کی دکان کھولے گا۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف بزازی ہی کی دکان کھولنے کا آرزو مند کیوں تھا۔ ‘‘

میں یہاں تک سن چکا تو میرے منہ سے نکلا

’’عجیب و غریب آدمی تھا۔ ‘‘

ممتاز نے اپنی گفتگو جاری رکھی

’’۔ میرا خیال تھا کہ وہ سر تا پا بناوٹ ہے۔ ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ کون یقین کرسکتا ہے کہ وہ ان تمام لڑکیو ں کو جو اس کے دھندے میں شریک تھیں۔ اپنی بیٹیاں سمجھتا تھا۔ یہ بھی اس وقت میرے لیے بعید از وہم تھا کہ اس نے ہر لڑکی کے نام پر پوسٹ آفس میں سیونگ اکاؤنٹس کھول رکھا تھا اور ہر مہینے کل آمدنی وہاں جمع کراتا تھا۔ اور یہ بات تو بالکل ناقابل یقین تھی کہ وہ دس بارہ لڑکیوں کے کھانے پینے کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ اس کی ہر بات مجھے ضرورت سے زیادہ بناوٹی معلوم ہوتی تھی۔ ایک دن میں اس کے یہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا، مینہ اور سکینہ دونوں چھٹی پر ہیں۔ میں ہر ہفتے ان دونوں کو چھٹی دے دیتا ہوں تاکہ باہر جا کر کسی ہوٹل میں ماس وغیرہ کھا سکیں۔ یہاں تو آپ جانتے ہیں سب ویشنو ہیں۔ میں یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کہ مجھے بنا رہا ہے۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ احمد آباد کی اس ہندو لڑکی نے جس کی شادی اس نے ایک مسلمان گاہک سے کرادی تھی، لاہور سے خط لکھا ہے کہ داتا صاحب کے دربار میں اس نے ایک منت مانی تھی جو پوری ہوئی۔ اب اس نے سہائے کے لیے منت مانی ہے کہ جلدی جلدی اس کے تیس ہزار روپے پورے ہوں اور وہ بنارس جا کر بزازی کی دکان کھول سکے۔ یہ سن کر تو میں ہنس پڑا۔ میں نے سوچا، چونکہ میں مسلمان ہوں۔ اس لیے مجھے خوش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ‘‘

میں نے ممتاز سے پوچھا۔

’’تمہارا خیال غلط تھا؟‘‘

’’بالکل۔ ۔ اس کے قول و فعل میں کوئی بعد نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی خامی ہو، بہت ممکن ہے اس سے اپنی زندگی میں کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوں۔ مگر وہ ایک بہت ہی عمدہ انسان تھا۔ ‘‘

جگل نے سوال کیا۔

’’یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا!‘‘

’’اس کی موت پر‘‘

یہ کہہ کر ممتاز کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ادھر دیکھنا شروع کیا جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں سمٹے ہوئے تھے۔

’’فسادات شروع ہو چکے تھے۔ میں علی الصبح اٹھ کر بھنڈی بازار سے گزر رہا تھا۔ کرفیو کے باعث بازارمیں آمدورفت بہت ہی کم تھی۔ ٹریم بھی نہیں چلی رہی تھی۔ ٹیکسی کی تلاش میں چلتے چلتے جب میں جے جے ہسپتال کے پاس پہنچا، تو فٹ پاتھ پر ایک آدمی کو میں نے بڑے سے ٹوکرے کے پاس گھٹڑی سی بنے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کوئی پاٹی والا(مزدور) سو رہا ہے۔ لیکن جب میں نے پتھر کے ٹکڑوں پر خون کے لوتھڑے دیکھے تو رک گیا۔ واردات قتل کی تھی، میں نے سوچا اپنا راستہ لوں، مگر لاش میں حرکت پیدا ہوئی۔ میں پھر رک گیاآس پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے جھک کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے سہائے کا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، مگر خون کے دھبوں سے بھرا ہوا۔ میں اس کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا۔ اس کی ٹول کی سفید قمیض جو ہمیشہ بے داغ ہوا کرتی تھی لہو سے لھتڑی ہوئی تھی۔ زخم شاید پسلیوں کے پاس تھا۔ اس نے ہولے ہولے کراہنا شروع کردیا تو میں نے احتیاط سے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا جیسے کسی سوتے کو جگایا جاتا ہے۔ ایک دو بار میں نے اس کو نامکمل نام سے بھی پکارا۔ میں اٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ دیر تک وہ ان ادھ کھلی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر ایک دم اس کے سارے بدن میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے مجھے پہچان کر کہا۔

’’آپ؟۔ آپ؟‘‘

میں نے اس سے تلے اوپر بہت سی باتیں پوچھنا شروع کردی۔ وہ کیسے ادھر آیا۔ کس نے اس کو زخمی کیا۔ کب سے وہ فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ سامنے ہسپتال ہے، کیا میں وہاں اطلاع دوں؟

’’اس میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔ جب میں نے سارے سوال کر ڈالے تو کراہتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہے۔ میرے دن پورے ہو چکے تھے۔ بھگوان کو یہی منظور تھا!‘‘

بھگوان کو جانے کیا منظور تھا، لیکن مجھے یہ منظور نہیں تھا کہ میں مسلمان ہو کر، مسلمانوں کے علاقے میں ایک آدمی کو جس کے متعلق میں جانتا تھا کہ ہندو ہے، اس احساس کے ساتھ مرتے دیکھوں کہ اس مارنے والا مسلمان تھا اور آخری وقت میں اس کی موت کے سرہانے جو آدمی کھڑاتھا، وہ بھی مسلمان تھا۔ میں ڈرپوک تو نہیں، لیکن اس وقت میری حالت ڈرپوکوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف یہ خوف دامن گیر تھا، ممکن ہے میں ہی پکڑا جاؤں، دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ پکڑا نہ گیا تو پوچھ پچھ کے لیے دھیر لیا جاؤں گا۔ ایک بار خیال آیا، اگر میں اسے ہسپتال لے گیا تو کیا پتا ہے اپنا بدلہ لینے کی خاطر مجھے پھنسا دے۔ سوچے، مرنا تو ہے، کیوں نہ اسے ساتھ لے کر مروں۔ اسی قسم کی باتیں سوچ کر میں چلنے ہی والا تھا۔ بلکہ یوں کہئے کہ بھاگنے والا تھا کہ سہائے نے مجھے پکارا۔ میں ٹھہر گیا۔ نہ ٹھہرنے کے ارادے کے باوجود میرے قدم رک گئے۔ میں نے اس کی طرف اس انداز سے دیکھا، گویا اس سے کہہ رہا ہوں، جلدی کرو میاں مجھے جانا ہے۔ اس نے درد کی تکلیف سے دوہرا ہوتے ہوئے بڑی مشکلوں سے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اندر ہاتھ ڈالا، مگر جب کچھ اور کرنے کی اس میں ہمت نہ رہی تو مجھ سے کہا

’’۔ نیچے بنڈی ہے۔ ادھر کی جیب میں کچھ زیور اور بارہ سو روپے ہیں۔ یہ۔ یہ سلطانہ کا مال ہے۔ میں نے۔ میں نے ایک دوست کے پاس رکھا ہوا تھا۔ آج اسے۔ آج اسے بھیجنے والا تھا۔ کیونکہ۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ آپ اسے دے دیجیے گا اور۔ کہئے گا فوراً چلی جائے۔ لیک۔ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘

ممتاز خاموش ہو گیا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آواز، سہائے کی آواز میں جو جے جے ہسپتال کے فٹ پاتھ پر ابھری تھی، دور، اُدھر جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں مدغم تھے، حل ہورہی ہے۔ جہاز نے وسل دیا تو ممتاز نے کہا۔

’’میں سلطانہ سے ملا۔ اس کو زیور اور روپیہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ‘‘

جب ہم ممتاز سے رخصت ہو کر نیچے اترے تو وہ عرشے پر جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کا داہنا ہاتھ ہِل رہا تھا۔ میں جگل سے مخاطب ہوا۔

’’کیا تمہیں ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ممتاز، سہائے کی روح کو بلا رہا ہے۔ ہم سفر بنانے کے لیے؟‘‘

جگل نے صرف اتنا کہا۔

’’کاش، میں سہائے کی روح ہوتا!‘‘

سعادت حسن منٹو

سڑک کے کنارے

’’یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دھلا ہوا، نتھرا ہوا۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔ سہانے خوابوں کی طرح۔ مٹی کی باس بھی ایسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت میرے دل و دماغ میں رچ رہی ہے۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔ ‘‘

’’اسً نے مجھ سے کہا تھا۔ تم نے مجھے جو یہ لمحات عطا کیے ہیں یقین جانو۔ میری زندگی ان سے خالی تھی۔ جو خالی جگہیں تم نے آج میری ہستی میں پُر کی ہیں۔، تمہاری شکر گزار ہیں۔ تم میری زندگی میں نہ آتیں تو شاید وہ ہمیشہ ادھوری رہتی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں تم سے اور کیا کہوں۔ میری تکمیل ہو گئی ہے۔ ایسے مکمل طور پر کہ محسوس ہوتا ہے مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں رہی۔ اور وہ چلا گیا۔ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ ‘‘

’’میری آنکھیں روئیں۔ میرا دل رویا۔ میں نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے لاکھ مرتبہ پوچھا کہ میری ضرورت اب تمہیں کیوں نہیں رہی۔ جبکہ تمہاری ضرورت۔ اپنی تمام شدتوں کے ساتھ اب شروع ہوئیہے۔ ان لمحات کے بعد جنہوں نے بقول تمہارے، تمہاری ہستی کی خالی جگہیں پُر کی ہیں۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’تمہارے وجود کے جس جس ذرے کی میری ہستی کی تعمیر و تکمیل کو ضرورت تھی، یہ لمحات چن چن کر دیتے رہے۔ اب کہ تکمیل ہو گئی ہے تمہارا میرا رشتہ خود بخود ختم ہو گیا ہے۔ ‘‘

کس قدر ظالمانہ لفظ تھے۔ مجھے سے یہ پتھراؤ برداشت نہ کیا گیا۔ میں چیخ چیخ کر رونے لگی۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’یہ ذرے جن سے تمہاری ہستی کی تکمیل ہوئی ہے، میرے وجود کا ایک حصہ تھے۔ کیا ان کا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں۔ کیا میرے وجود کا بقایا حصہ ان سے اپنا ناطہ توڑ سکتا ہے؟۔ تم مکمل ہو گئے ہو۔ لیکن مجھے ادھورا کرکے۔ کیا میں نے اسی لیے تمہیں اپنا معبود بنایا تھا؟‘‘

اس نے کہا۔

’’بھونرے، پھولوں اور کلیوں کا رس چوس چوس کر شہید کشید کرتے ہیں، مگر وہ اس کی تلچھٹ تک بھی ان پھولوں اور کلیوں کے ہونٹوں تک نہیں لاتے۔ خدا اپنی پرستش کراتا ہے، مگر خود بندگی نہیں کرتا۔ عدم کے ساتھ خلوت میں چند لمحات بسر کرکے اس نے وجود کی تکمیل کی۔ اب عدم کہاں ہے۔ اس کی اب وجود کو کیا ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسی ماں تھی جو وجود کو جنم دیتے ہی زچگی کے بستر پر فنا ہو گئی تھی۔ ‘‘

عورت رو سکتی ہے۔ دلیلیں پیش نہیں کرسکتی۔ اس کی سب سے بڑی دلیل اس کی آنکھ سے ڈھلکا ہوا آنسو ہے۔ میں نے اس سے کہا۔

’’دیکھو۔ میں رو رہی ہوں۔ میری آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں تم جارہے ہو تو جاؤ، مگر ان میں سے کچھ آنسوؤں کو تو اپنے رومال کے کفن میں لپیٹ کر ساتھ لیتے جاؤ۔ میں تو ساری عمر روتی رہوں گی۔ مجھے اتنا تو یاد رہے گا کہ چند آنسوؤں کے کفن دفن کا سامان تم نے بھی کیا تھا۔ مجھ خوش کرنے کے لیے!‘‘

اس نے کہا۔

’’میں تمہیں خوش کرچکا ہوں۔ تمہیں اس ٹھوس مسرت سے ہمکنار کرچکا ہوں۔ جس کے تم سراب ہی دیکھا کرتی تھیں۔ کیا اس کا لطف اس کا کیف، تمہاری زندگی کے بقایا لمحات کا سہارا نہیں بن سکتا۔ تم کہتی ہوکہ میری تکمیل نے تمہیں ادھورا کردیا ہے۔ لیکن یہ ادھورا پن ہی کیا تمہاری زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے کافی نہیں۔ میں مرد ہوں۔ آج تم نے میری تکمیل کی ہے۔ کل کوئی اور کرے گا۔ میراوجود کچھ ایسے آب و گل سے بنا ہے جس کی زندگی میں ایسے کئی لمحات آئیں گے جب وہ خود کو تشنہ تکمیل سمجھے گا۔ وہ تم ایسی کئی عورتیں آئیں گی جو ان لمحات کی پیدا کی ہوئی خالی جگہیں پُر کریں گی۔ ‘‘

میں روتی رہی۔ جھنجھلاتی رہی۔ میں نے سوچا۔ یہ چند لمحات جو ابھی ابھی میری مٹھی میں تھے۔ نہیں۔ میں ان لمحات کی مٹھی میں تھی۔ میں نے کیوں خود کو ان کے حوالے کردیا۔ میں نے کیوں اپنی پھڑپھڑاتی روح ان کے منہ کھولے قفس میں ڈال دی۔ اس میں مزا تھا۔ ایک لطف تھا۔ ایک کیف تھا۔ تھا، ضرور تھا۔ اور یہ اس کے اور میرے تصادم میں تھا۔ لیکن۔ یہ کیا کہ وہ ثابت و سالم رہا۔ اورمجھ میں تریڑے پڑ گئے۔ یہ کیا، کہ وہ اب میری ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میں اور بھی شدت سے اس کی ضرورت محسوس کرتی ہوں۔ وہ طاقتور بن گیا ہے۔ میں نحیف ہو گئی ہوں۔ یہ کیا کہ آسمان پر دو بادل ہم آغوش ہوں۔ ایک رو رو کر برسنے لگا، دوسرا بجلی کا کوندا بن کر اس بارش سے کھیلتا، کدکڑے لگاتا بھاگ جائے۔ یہ کس کا قانون ہے؟۔ آسمانوں کا؟۔ زمینوں کا۔ یا ان کے بنانے والوں کا؟ میں سوچتی رہی اور جھنجھلاتی رہی۔ دو روحوں کا سمٹ کر ایک ہو جانا اور ایک ہو کر والہانہ وسعت اختیار کرجانا۔ کیا یہ سب شاعری ہے۔ نہیں، دو روحیں سمٹ کر ضرور اس ننھے سے نکتے پر پہنچتی ہیں جو پھیل کرکائنات بنتا ہے۔ لیکن اس کائنات میں ایک روح کیوں کبھی کبھی گھائل چھوڑ دی جاتی ہے۔ کیا اس قصور پر کہ اس نے دوسری روح کو اس ننھے سے نکتے پر پہنچنے میں مدد تھی۔ یہ کیسی کائنات ہے۔ یہی دن تھے۔ آسمان کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔ وہ موجود نہیں ہے۔ بجلی کا کوندا بن کر جانے وہ کن بدلیوں کی گریہ و زاری سے کھیل رہا ہے۔ اپنی تکمیل کر کے چلا گیا۔ ایک سانپ تھا جو مجھے ڈس کر چلا گیا۔ لیکن اب اس کی چھوڑی ہوئی لکیر کیوں میرے پیٹ میں کروٹیں لے رہی ہے۔ کیا یہ میری تکمیل ہورہی ہے؟ نہیں، نہیں۔ یہ کیسی تکمیل ہو سکتی ہے۔ یہ تو تخریب ہے۔ لیکن یہ میرے جسم کی خالی جگہیں پُر ہورہی ہیں۔ یہ جو گڑھے تھے کس ملبے سے پُر کیے جارہے ہیں۔ میری رگوں میں یہ کیسی سرسراہٹیں دوڑ رہی ہیں۔ میں سمٹ کر اپنے پیٹ میں کس ننھے سے نکتے پر پہنچنے کے لیے پیچ و تاب کھا رہی ہوں۔ میری ناؤ ڈوب کر اب کن سمندروں میں ابھرنے کے لیے اٹھ رہی ہے۔ ؟ یہ میرے اندر دہتے ہوتے چولھوں پر کس مہمان کے لیے دودھ گرم کیا جارہا ہے۔ یہ میرا دل میرے خن کو دھنک دھنک کر کس کے لیے نرم و نازک رضائیاں تیار کررہا ہے۔ یہ میرا دماغ میرے حالات کے رنگ برنگ دھاگوں سے کس کے لیے ننھی منی پوشاکیں بن رہا ہے؟ میرا رنگ کس کے لیے نکھر رہا ہے۔ میرے انگ انگ اور روم روم میں پھنسی ہوئی ہچکیاں لوریوں میں کیوں تبدیل ہورہی ہیں۔ یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ لیکن یہ آسمان اپنی بلندیوں سے اتر کر کیوں میرے پیٹ میں تن گیا ہے۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں کیوں میری رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں؟ میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں ایسی تقدیس کیوں آرہی ہے؟ نہیں، نہیں۔ یہ تقدیس کچھ بھی نہیں۔ میں ان محرابوں کو ڈھا دوں گی۔ میں اپنے اندر تمام چولھے سرد کردوں گی جن پر بن بلائے مہمان کی خاطر داڑیاں چڑھی ہیں۔ میں اپنے خیالات کے تمام رنگ برنگ دھاگے آپس میں الجھا دوں گی۔ یہی دن تھے۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ لیکن میں وہ دن کیوں یاد کرتی ہوں جن کے سینے پر سے وہ اپنے نقش قدم بھی اٹھا کر لے گیا تھا۔ لیکن یہ۔ یہ نقش قدم کس کا ہے۔ یہ جو میرے پیٹ کی گہرائیوں میں تڑپ رہا ہے۔ ؟۔ کیایہ میرا جانا پہچانا نہیں۔ میں اسے کھرچ دوں گی۔ اسے مٹادوں گی۔ یہ رسولی ہے۔ پھوڑا ہے۔ بہت خوفناک پھوڑا۔ لیکن مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پھاہا ہے۔ پھاہا ہے تو کس زخم کا؟۔ اس زخم کا جو وہ مجھے لگا کر چلا گیا تھا؟۔ نہیں نہیں۔ یہ تو ایسا لگتا ہے کسی پیدائشی زخم کے لیے ہے۔ ایسے زخم کے لیے جو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ جو میری کوکھ میں جانے کب سے سورہا تھا۔ یہ کوکھ کیا؟۔ فضول سی مٹی کی ہنڈکلیا۔ بچوں کا کھلونا۔ میں اسے توڑ پھوڑ دوں گی۔ لیکن یہ کون میرے کان میں کہتا ہے۔

’’یہ دنیا ایک چوراہا ہے۔ اپنا بھانڈا کیوں اس میں پھوڑتی ہے۔ یاد رکھ تجھ پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انگلیاں۔ ادھر کیوں نہ اٹھیں گی، جدھر وہ اپنی ہستی مکمل کرکے چلا گیا تھا۔ کیا ان انگلیوں کو وہ راستہ معلوم نہیں۔ یہ دنیا ایک چوراہا ہے۔ لیکن اس وقت تو وہ مجھے ایک دوراہے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ادھر بھی ادھورا پن تھا۔ اُدھر بھی ادھورا پن۔ اِدھر بھی آنسو، اُدھر بھی آنسو۔ لیکن یہ کس کا آنسو، میرے سیپ میں موتی بن رہا ہے۔ یہ کہاں بندھے گا؟ انگلیاں اٹھیں گی۔ جب سیپ کا منہ کھلے اور موتی پھسل کر باہر چوراہے میں گر پڑے گا تو انگلیاں اٹھیں گی۔ سیپی کی طرف بھی اور موتی کی طرف بھی۔ اور یہ انگلیاں سنپولیاں بن بن کر ان دونوں کو ڈسیں گی اور اپنے زہر سے ان کو نیلا کردیں گی۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ یہ گر کیوں نہیں پڑتا۔ وہ کون سے ستون ہیں جو اس کو تھامے ہوئے ہیں۔ کیا اس دن جو زلزلہ آیا تھا وہ ان ستونوں کی بنیادیں ہلا دینے کے لیے کافی نہیں تھا۔ یہ کیوں اب تک میرے سر کے اوپر اسی طرح تنا ہوا ہے؟ میری روح پسینے میں غرق ہے۔ اس کا ہر مسام کھلا ہوا ہے۔ چاروں طرف آگ دہک رہی ہے۔ میرے اندر کٹھالی میں سونا پگھل رہا ہے۔ دھونکنیاں چل رہی ہیں۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔ سونا، آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی طرح ابل رہا ہے۔ میری رگوں میں نیلی آنکھیں دوڑ دوڑ کر ہانپ رہی ہیں۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ کوئی آرہا ہے۔ کوئی آرہا ہے۔ بند کردو۔ بند کردو کواڑ۔ کٹھالی الٹ گئی ہے۔ پگھلا ہوا سونا بہہ رہا ہے۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ وہ آرہا ہے۔ میری آنکھیں مند رہی ہیں۔ نیلا آسمان گدلا ہو کر نیچے آرہا ہے۔ یہ کس کے رونے کی آواز ہے۔ اسے چپ کراؤ۔ اس کی چیخیں میرے دل پر ہتھوڑے مار رہی ہیں۔ چپ کراؤ۔ اسے چپ کراؤ۔ اسے چپ کراؤ۔ میں گود بن رہی ہوں۔ میں کیوں گودبن رہی ہوں۔ میری بانھیں کھل رہی ہیں۔ چولھوں پر دودھ ابل رہا ہے۔ میرے سینے کی گولائیاں پیالیاں بن رہی ہیں۔ لاؤ اس گوشت کے لوتھڑے کو میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں لٹا دو۔ مت چھینو۔ مت چھینو اسے۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھ سے جدا نہ کرو۔ انگلیاں۔ انگلیاں۔ اٹھنے دو انگلیاں۔ مجھے کوئی پروا نہیں۔ یہ دنیا چوراہا ہے۔ پھوٹنے دومیری زندگی کے تمام بھانڈے۔ میری زندگی تباہ ہو جائے گی؟۔ ہو جانے دو۔ مجھے میرا گوشت واپس دے دو۔ میری روح کا یہ ٹکڑا مجھ سے مت چھینو۔ تم نہیں جانتے یہ کتنا قیمتی ہے۔ یہ گوہر ہے جو مجھے ان چند لمحات نے عطا کیا ہے۔ ان چند لمحات نے جنہوں نے میرے وجود کے کئی ذرے چن چن کر کسی کی تکمیل کی تھی اور مجھے اپنا خیال میں ادھورا چھوڑ کے چلے گئے تھے۔ میری تکمیل آج ہوئی ہے۔ مان لو۔ مان لو۔ میرے پیٹ کے خلا سے پوچھو۔ میری دودھ بھری ہوئی چھاتیوں سے پوچھو۔ ان لوریوں سے پوچھو، جو میرے انگ انگ اور روم روم میں تمام ہچکیاں سلا کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان جھولنوں سے پوچھو جومیرے بازوؤں میں ڈالے جارہے ہیں۔ میرے چہرے کی زردیوں سے پوچھو جو گوشت کے اس لوتھڑے کے گالوں کو اپنی تمام سرخیاں چھپاتی رہی ہیں۔ ان سانسوں سے پوچھو، جو چھپے چوری اس کو اس کا حصہ پہنچاتے رہے ہیں۔ انگلیاں۔ اٹھنے دو انگلیاں۔ میں انھیں کاٹ ڈالوں گی۔ شور مچے گا۔ میں یہ انگلیاں اٹھا کر اپنے کانوں میں ٹھونس لوں گی۔ میں گونگی ہو جاؤں گی، بہری ہو جاؤں گی، اندھی ہو جاؤں گی۔ میرا گوشت، میرے اشارے سمجھ لیا کرے گا۔ میں اسے ٹٹول ٹٹول کر پہچان لیا کروں گی۔ مت چھینو۔ مت چھینو اسے۔ یہ میری کوکھ کی مانگ کا سیندھور ہے۔ یہ میری ممتا کے ماتھے کی بندیا ہے۔ میرے گناہ کا کڑوا پھل ہے؟۔ لوگ اس پرتھو تھو کریں گے؟۔ میں چاٹ لوں گی یہ سب تھوکیں۔ آنول سمجھ کر صاف کردوں گی۔ دیکھو، میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔ تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ میرے بھرے ہوئے دودھ کے برتن اوندھے نہ کرو۔ میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں آگ نہ لگاؤ۔ میری بانھوں کے جھولوں کی رسیاں نہ توڑو۔ میرے کانوں کو ان گیتوں سے محروم نہ کرو جو اس کے رونے میں مجھے سنائی دیتے ہیں۔ مت چھینو۔ مت چھینو۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھے اس سے جدا نہ کرو۔ لاہور21جنوری دھوبی منڈی سے پولیس نے ایک نوزائیدہ بچی کو سردی سے ٹھٹھرتے سڑک کے کنارے پڑی ہوئی پایا اور اپنے قبضے میں لے لیا۔ کسی سنگدل نے بچی کی گردن کو مضبوطی سے کپڑے میں جکڑ رکھا تھا اور عریاں جسم کو پانی سے گیلے کپڑے میں باندھ رکھا تھا تاکہ وہ سردی سے مر جائے۔ مگر وہ زندہ تھی۔ بچی بہت خوبصورت ہے۔ آنکھیں نیلی ہیں۔ اس کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔

سعادت حسن منٹو

سونے کی انگوٹھی

’’چھتے کا چھتہ ہو گیا آپ کے سر پر۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بال نہ کٹوانا کہاں کا فیشن ہے۔ ‘‘

’’فیشن ویشن کچھ نہیں۔ تمہیں اگر بال کٹوانے پڑیں تو قدرِ عافیت معلوم ہو جائے۔ ‘‘

’’میں کیوں بال کٹواؤں‘‘

’’کیا عورتیں کٹواتی نہیں۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسی موجود ہیں جو اپنے بال کٹواتی ہیں۔ بلکہ اب تو یہ فیشن بھی چل نکلا ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال رکھتی ہیں۔ ‘‘

’’لعنت ہے ان پر۔ ‘‘

’’کس کی۔ ‘‘

’’خدا کی اور کس کی۔ بال تو عورت کی زینت ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ عورتیں کیوں اپنے بال مردوں کی مانند بنوالیتی ہیں ٗ پھر پتلو نیں پہنتی ہیں۔ نہ رہے ان کا وجود دنیا کے تختے پر۔ ‘‘

’’وجود تو خیر آپ کی اس بد دعا سے ان نیک بخت عورتوں کا دنیا کے اس تختے سے کسی حالت میں بھی غائب نہیں ہو گا۔ ویسے ایک چیز سے مجھے تم سے کُلّی اتفاق ہے کہ عورت کو پتلون جسے سلیکس کہتے ہیں ٗ نہیں پہننی چاہیے۔ اور سگریٹ بھی نہ پینے چاہئیں‘‘

’’اور آپ ہیں کہ دن میں پورا ایک ڈبا پھونک ڈالتے ہیں۔ ‘‘

’’اس لیے کہ میں مرد ہوں۔ مجھے اس کی اجازت ہے‘‘

’’کس نے دی تھی یہ اجازت آپ کو۔ میں اب آئندہ سے ہر روز صرف ایک ڈبیا منگا کر دیا کروں گی۔ ‘‘

’’اور وہ جو تمہاری سہیلیاں آتی ہیں ٗ ان کو سگریٹ کہاں سے ملیں گے؟‘‘

’’وہ کب پیتی ہیں۔ ‘‘

’’اتنا سفید جھوٹ نہ بولا کرو۔ ان میں سے جب بھی کوئی آتی ہے تم میرا سگریٹ کا ڈبا اٹھا کر اندر لے جاتی ہو۔ ساتھ ہی ماچس بھی۔ آخر مجھے آواز دے کر تمہیں بلانا پڑتا ہے اور میرا ڈبا مجھے واپس ملتا ہے اس میں سے پانچ چھ سگریٹ غائب ہوتے ہیں۔ ‘‘

پانچ چھ سگریٹ۔ جھوٹ تو آپ بول رہے ہیں۔ وہ تو بیچاریاں مشکل سے ایک سگریٹ پیتی ہیں۔ ‘‘

’’ایک سگریٹ پینے میں انہیں مشکل کیا محسوس ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ آپ کو تو اور کوئی کام ہی نہیں ٗ سوائے بحث کرنے کے۔ ‘‘

’’ہزاروں کام ہیں۔ تم کون سے ہل چلاتی ہو۔ سارا دن پڑی سوئی رہتی ہو۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ آپ تو چوبیس گھٹنے جاگتے اور وظیفہ کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’وظیفے کی بات غلط ہے۔ البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں صرف رات کو چھ گھنٹے سوتا ہوں۔ ‘‘

’’اور دن کو۔ ‘‘

’’کبھی نہیں۔ بس آنکھیں بند کر کے تین چار گھنٹے لیٹا رہتا ہوں کہ اس سے آدمی کو بہت آرام ملتا ہے۔ ساری تھکن دور ہو جاتی ہے۔ ‘‘

’’یہ تھکن کہاں سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ کونسی مزدوری کرتے ہیں۔ ‘‘

’’مزدوری ہی تو کرتا ہوں۔ صبح سویرے اٹھتا ہوں۔ اخبار پڑھتا ہوں۔ ایک نہیں سپر۔ پھر ناشتہ کرتا ہوں۔ نہاتا ہوں اور پھر تمہاری روز مرہ کی چخ چخ کے لیے تیار ہو جاتا ہوں۔ ‘‘

’’یہ مزدوری ہوئی۔ اور آپ یہ تو بتائیے کہ روز مرہ کی چخ چخ کا الزام کہاں تک درست ہے۔ ‘‘

’’جہاں تک اسے ہونا چاہیے۔ شروع شروع میں۔ میرا مطلب شادی کے بعد دو برس تک بڑے سکون میں زندگی گزر رہی تھی لیکن پھر ایک دم تم پر کوئی ایسا دورہ پڑا کہ تم نے ہر روز مجھ سے لڑنا جھگڑنا اپنا معمول بنا لیا۔ پتہ نہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ ‘‘

’’وجہ ہی تو مردوں کی سمجھ سے ہمیشہ بالا تر رہتی ہے۔ آپ لوگ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ‘‘

’’مگر تم سمجھنے کی مہلت بھی دو۔ ہر روز کسی نہ کسی بات کا شوشہ چھوڑ دیتی ہو۔ بھلا آج کیا بات تھی جس پر تم نے اتنا چیخنا چلانا شروع کر دیا‘‘

’’گویا یہ کوئی بات ہی نہیں کہ آپ نے پچھلے چھ مہینوں سے بال نہیں کٹوائے ! اپنی اچکنوں کے کالر دیکھیے۔ میلے چِیکٹ ہو رہے ہیں۔ ‘‘

’’ڈرائی کلین کرا لوں۔ ‘‘

’’پہلے اپنا سر ڈرائی کلین کرایے۔ وحشت ہوتی ہے اللہ قسم آپ کے بالوں کو دیکھ کر۔ جی چاہتا ہے مٹی کا تیل ڈال کر ان کو آگ لگا دوں۔ ‘‘

’’تاکہ میرا خاتمہ ہی ہو جائے۔ لیکن مجھے تمہاری اس خواہش پر کوئی بھی اعتراض نہیں۔ لاؤ باورچی خانے سے مٹی کے تیل کی بوتل۔ آہستہ آہستہ میرے سر میں ڈالو اور ماچس کی تیلی جلا کر اس کو آگ دکھا دو۔ خس کم جہاں پاک۔ ‘‘

’’یہ کام آپ خود ہی کیجیے۔ میں نے آگ لگائی تو آپ یقیناًکہیں گے کہ تمہیں کسی کام کا سلیقہ نہیں۔ ‘‘

’’یہ تو حقیقت ہے کہ تمہیں کسی بات کا سلیقہ نہیں۔ کھانا پکانا نہیں جانتی ٗ سینا پرونا تمہیں نہیں آتا۔ گھر کی صفائی بھی تم اچھی طرح نہیں کرسکتیں ٗ بچوں کی پرورش ہے تو اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ بچوں کی پرورش تو اب تک ماشاء اللہ ٗ آپ ہی کرتے آئے ہیں ٗ میں تو بالکل ہی نکمی ہوں۔ ‘‘

’’میں اس معاملے میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا۔ تم خدا کے لیے اس بحث کو بند کرو‘‘

’’میں بحث کہاں کر رہی ہوں۔ آپ تو معمولی باتوں کو بحث کا نام دے دیتے ہیں‘‘

’’تمہارے نزدیک یہ معمولی باتیں ہوں گی ! تم نے میرا دماغ چاٹ لیا ہے۔ میرے سر پر ہمیشہ اتنے ہی بال رہے ہیں۔ اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ مجھے اتنی فرصت نصیب نہیں ہوتی کہ حجام کے پاس جاؤں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ آپ کو اپنی عیاشیوں سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔ ‘‘

’’کن عیاشیوں سے۔ ‘‘

’’آپ کام کیا کرتے ہیں۔ کہاں ملازم ہیں۔ کیا تنخواہ پاتے ہیں۔ آپ کو تو ہر وہ کام بہت بڑی لعنت معلوم ہوتا ہے جس میں آپ کو محنت مشقت کرنی پڑے۔ ‘‘

’’میں کیا محنت مشقت نہیں کرتا۔ ابھی پچھلے دنوں اینٹیں سپلائی کرنے کا میں نے جو ٹھیکہ لیا تھا ٗ جانتی ہو میں نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ ‘‘

’’گدھے کام کررہے تھے۔ آپ تو سوتے رہے ہوں گے۔ ‘‘

’’گدھوں کا زمانہ گیا۔ لاریاں کام کر رہی تھیں۔ اور مجھے ان کی نگرانی کرنا پڑتی تھی۔ دس کروڑ اینٹوں کا ٹھیکہ تھا۔ مجھے ساری رات جاگنا پڑتا تھا۔ ‘‘

’’میں مان ہی نہیں سکتی کہ آپ ایک رات بھی جاگ سکیں۔ ‘‘

’’اب اس کا کیا علاج ہے کہ تم نے میرے متعلق ایسی غلط رائے قائم کرلی ہے اور میں جانتا ہوں کہ تم ہزار ثبوت دینے پر بھی مجھ پر یقین نہیں کرو گی۔ ‘‘

’’میرا یقین آپ پر سے ٗ عرصہ ہوا اٹھ گیا ہے۔ آپ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں۔ ‘‘

’’بہتان تراشی میں تمہاری ہم پلہ اور کوئی عورت نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ ‘‘

’’ٹھہریے۔ پرسوں آپ نے مجھ سے کہا کہ آپ کسی دوست کے ہاں گئے تھے لیکن جب شام کو آپ نے تھوڑی سی پی۔ تو چہک چہک کر مجھے بتایا کہ آپ ایک ایکٹریس سے مل کر آئے ہیں۔ ‘‘

’’وہ ایکٹریس بھی تو اپنی دوست ہے۔ دشمن تو نہیں۔ میرا مطلب ہے اپنے ایک دوست کی بیوی ہے۔ ‘‘

’’آپ کے دوستوں کی بیویاں عموماً یا تو ایکٹریس ہوتی ہیں ٗ یا طوائفیں‘‘

’’اس میں میرا کیا قصور۔ ‘‘

’’قصور تو میرا ہے۔ ‘‘

’’وہ کیسے۔ ‘‘

’’ایسے کہ میں نے آپ سے شادی کر لی۔ میں ایکٹریس ہوں نہ طوائف۔ ‘‘

’’مجھے ایکٹریسوں اور طوائفوں سے سخت نفرت ہے۔ مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ عورتیں نہیں سلیٹیں ہیں جن پر کوئی بھی چند حروف یا لمبی چوڑی عبارت لکھ کر مِٹا سکتا ہے۔ ‘‘

’’تو اس روز آپ کیوں اس ایکٹریس کے پاس گئے۔ ‘‘

’’میرے دوست نے بلایا۔ میں چلا گیا۔ اس نے ایک ایکٹریس سے جو پہلے چار شادیاں کر چکی تھی ٗ نیا نیا بیاہ رچایا تھا مجھے اس سے متعارف کرایا گیا۔ ‘‘

’’چار شادیوں کے بعد بھی وہ خاصی جوان دکھائی دیتی تھی۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ وہ عام کنواری جوان لڑکیوں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے اچھی تھی۔ ‘‘

’’وہ ایکٹریسیں کس طرح خود کو چست اور جوان رکھتی ہیں۔ ‘‘

’’مجھے اس کے متعلق کوئی زیادہ علم نہیں۔ بس اتنا سنا ہے کہ وہ اپنے جسم اور جان کی حفاظت کرتی ہیں۔ ‘‘

’’میں نے تو سنا ہے کہ بڑی بد کردار ہوتی ہیں اول درجے کی فاحشہ۔ ‘‘

’’اللہ بہتر جانتا ہے۔ مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ ‘‘

’’آپ ایسی باتوں کا جواب ہمیشہ گول کر جاتے ہیں۔ ‘‘

’’جب مجھے کسی خاص چیز کے متعلق کچھ علم ہی نہ ہو تو میں جواب کیا دوں۔ میں تمہارے مزاج کے متعلق بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ ‘‘

’’دیکھئے ! آپ میرے متعلق کچھ نہ کہا کیجیے۔ آپ ہمیشہ میری بے عزتی کرتے رہتے ہیں۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی۔ ‘‘

’’میں نے تمہاری بے عزتی کب کی ہے۔ ‘‘

’’یہ بے عزتی نہیں کہ پندرہ برسوں میں آپ میرا مزاج نہیں جان سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں مخبوط الحواس ہوں۔ نیم پاگل ہوں ٗ جاہل ہوں اجڈ ہوں۔ ‘‘

’’یہ تو خیر تم نہیں۔ لیکن تمہیں سمجھنا بہت مشکل ہے۔ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تم نے میرے بالوں کی بات کس غرض سے شروع کی۔ اس لیے کہ جب بھی تم کوئی بات شروع کرتی ہو اس کے پیچھے کوئی خاص بات ضرور ہوتی ہے۔ ‘‘

’’خاص بات کیا ہو گی۔ بس آپ سے صرف یہی کہنا تھا کہ بال اتنے بڑھ گئے ہیں ٗ کٹوا دیجیے۔ حجام کی دکان یہاں سے کتنی دور ہے ٗ زیادہ سے زیادہ دو سو گز کے فاصلے پر ہو گی۔ جائیے۔ میں پانی گرم کرتی ہوں۔ ‘‘

’’جاتا ہوں۔ ذرا ایک سگریٹ پی لوں۔ ‘‘

’’سگریٹ وگریٹ آپ نہیں پئیں گے۔ لیجیے اب تک۔ ٹھہرئیے ٗ میں ڈبا دیکھ لوں۔ میرے اللہ۔ بیس سگریٹ پھونک چکے ہیں آپ۔ بیس۔ ‘‘

’’یہ تو کچھ زیادہ نہ ہوئے۔ بارہ بجنے والے ہیں۔ ‘‘

’’زیادہ باتیں مت کیجیے۔ سیدھے حجام کے پاس جائیے۔ اور یہ اپنے سر کا بوجھ اتروائیے۔ ‘‘

’’جاتا ہوں۔ کوئی اور کام ہو تو بتا دو۔ ‘‘

’’میرا کوئی کام نہیں۔ آپ اس بہانے سے مجھے ٹالنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا تو میں چلا۔ ‘‘

’’ٹھہرئیے۔ ‘‘

’’ٹھہر گیا۔ فرمائیے۔ ‘‘

’’آپ کے بٹوے میں کتنے روپے ہوں گے۔ ‘‘

’’پانچ سو کے قریب۔ ‘‘

تو یوں کیجیے۔ بال کٹوانے سے پہلے انار کلی سے سونے کی ایک انگوٹھی لے آئیے۔ آج میری ایک سہیلی کی سالگرہ ہے۔ دو ڈھائی سو روپے کی ہو۔ ‘‘

’’میری تو وہیں ٗ انار کلی ہی میں حجامت ہو جائے گی۔ میں جاتا ہوں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

سونورل

بشریٰ نے جب تیسری مرتبہ خواب آور دوا سونورل کی تین ٹکیاں کھا کر خود کشی کی کوشش کی تو میں سوچنے لگا کہ آخر یہ سلسلہ کیا ہے۔ اگر مرنا ہی ہے تو سنکھیا موجود ہے۔ افیم ہے۔ ان سُموم کے علاوہ اور بھی زہر ہیں جو بڑی آسانی سے دستیاب ہیں، ہر بار سو نورل، ہی کیوں کھائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خواب آور دوا زیادہ مقدار میں کھائی جائے تو موت کا باعث ہوتی ہے لیکن بشریٰ کا تین مرتبہ صرف اسے ہی استعمال کرنا ضرور کوئی معنی رکھتاتھا۔ پہلے میں نے سوچا چونکہ دو مرتبہ دوا کھانے سے اس کی موت واقع نہیں ہوئی اس لیے وہ احتیاطاً اسے ہی استعمال کرتی ہے اور اسے اپنے اقدامِ خود کشی سے جو اثر پیدا کرنا ہوتا ہے، موت کے اِدھر اُدھر رہ کر کرلیتی ہے۔ لیکن میں سوچتا تھا کہ وہ اِدھر اُدھر بھی ہوسکتی تھی۔ یہ کوئی سو فیصد محفوظ طریقہ نہیں تھا۔ تیسری مرتبہ جب اس نے بتیس گولیاں کھائیں تو اُس کے تیسرے شوہر کو جو پی ڈبلیو ڈی میں سب اوور سیر ہیں، صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب پتہ چلا کہ وہ فالج زدہ بھینس کی مانند بے حس و حرکت پلنگ پر پڑی تھی۔ اُس کو یہ خواب آور دوا کھائے غالباً تین چار گھنٹے ہوچکے تھے۔ سب اوور سیر صاحب سخت پریشان اور لرزاں میرے پاس آئے۔ مجھے سخت حیرت ہوئی، اس لیے کہ بشریٰ سے شادی کرنے کے بعد وہ مجھے قطعاً بھول چکے تھے۔ اس سے پہلے وہ ہر روز میرے پاس آتے اور دونوں اکٹھے بیئر یا وسکی پیا کرتے تھے۔ ان دنوں وہ مفلوک الحال تھے۔ سائیکل پر دفتر جاتے اور اسی پر گھر واپس آتے۔ مگر جب اُن کی بشریٰ سے دوستی ہوئی اور وہ اُس سے شادی کرکے اُسے اپنے گھر لائے تو نقشہ ہی بدل گیا۔ اُن کا بھی اور اُن کے گھرکا بھی۔ اب وہ بہت عمدہ سُوٹ پہنتے تھے۔ سواری کے لیے موٹر بھی آگئی۔ گھر بڑھیا سے بڑھیا فرنیچر سے آراستہ ہو گیا۔ ریس کھیلنے لگے۔ دیسی رم کے بجائے اب سکاچ وسکی کے دور ان کے یہاں چلتے تھے۔ بشریٰ بھی پینے والی تھی اس لیے دونوں بہت خوش رہتے تھے۔ سب اوورسیر قمر صاحب کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ بشریٰ ان سے غالباً پانچ برس بڑی تھی۔ کسی زمانے میں شاید اس کی شکل و صورت قابل قبول ہو۔ مگر اس عمر میں وہ بہت بھیانک تھی۔ چہرے کی جھریوں والی گال پر شوخ میک اپ، بال کالے کیے ہوئے، بند بند ڈھیلا جیسے اوس میں پڑی ہوئی پتنگ، ڈھلکا ہوا پیٹ، انگیا کے کرینوں سے اُوپر اُٹھائی ہوئی چھاتیاں۔ آنکھوں میں سُرمے کی بد خط تحریر۔ میں نے جب بھی اس کو دیکھا وہ مجھے نسوانیت کا ایک بھدا کارٹون سا دکھائی دی۔ قمر صاحب نے جیسا کہ ظاہر ہے اس میں اس کے سوا اور کیا خوبی دیکھی ہو گی کہ وہ مالدار تھی۔ اُس کا باپ پنجاب میں ایک بہت بڑا زمیندار تھا۔ جس سے وراثت میں اس کو بہت زمینیں ملی تھیں۔ ان سے چھ سات سو روپیہ ماہوار کی مستقل آمدن ہوجاتی تھی۔ اس کے علاوہ بینک میں بھی اس کا دس، پندرہ ہزار روپیہ موجود تھا۔ اور قمر صاحب ایک معمولی سب اوور سیر تھے۔ بیوی تھی چھ بچے تھے، جن میں دو لڑکے تھے جو کالج میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اُن کے گھر میں افلاس ہی افلاس تھا۔ ویسے شوقین مزاج تھے اور شاعر بھی۔ شام کو شراب بہت ضروری سمجھتے تھے اس لیے آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کے بال بچوں کے لیے کیا بچتا ہو گا۔ قمر صاحب نے یوں تو ظاہر کیا تھا کہ وہ بشریٰ کو شرعی طور پر اپنے رشتہ مناکحت میں لاچکے ہیں لیکن مجھے شک تھا اور اب بھی ہے کہ یہ محض ایک ڈھونگ تھا۔ قمر صاحب بڑے ہوشیار اور چالاک آدمی ہیں۔ اپنی زندگی کے پچاس برسوں میں نا جانے وہ کتنے پاپڑ بیل چکے ہیں۔ سرد و گرم چشیدہ ہیں۔ گرگ باراں دیدہ ہیں۔ بشریٰ سے شادی کا جھنجھٹ پالنا کیسے منظور کر سکتے تھے۔ بشریٰ سے شادی کرکے قمر صاحب کے گھر میں حالت بہت حد تک سدھر چکی تھی۔ اُن کی تین بچیاں جو سارا دن آوارہ پھرتی رہتی تھیں عیسائیوں کے کسی سکول میں داخل کرادی گئی تھیں۔ ان کی پہلی بیوی کے کپڑے کے صاف ستھرے ہو گئے تھے۔ کھانا پینا بھی اب عمدہ تھا۔ میں خوش تھاکہ چلو اب ٹھیک ہے۔ دوسری شادی کی ہے، کچھ بُرا نہیں ہوا۔ بشریٰ کو ایک خاوند مل گیا ہے باسلیقہ اور ہوشیار ہے اور قمر صاحب کو ایک ایسی عورت مل گئی جو بد صورت سہی مگر مالدار تو ہے۔ مگر ان کا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک مستحکم نہ رہا۔ کیونکہ ایک روز سننے میں آیا کہ ان کے درمیان بڑے زوروں کا جھگڑا ہوا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کے دونوں نے سونورل کافی مقدار میں کھالی۔ کمرے میں فرش پر قمر صاحب بے ہوش پڑے تھے اور ان کی اہلیہ محترمہ پلنگ پر لاش کی مانند لیٹی تھیں۔ فوراً دونوں کو ہسپتال داخل کرایاگیا۔ جہاں سے وہ ٹھیک ٹھاک ہوکر واپس آگئے مگر ابھی پندرہ روز بمشکل گزرے ہوں گے کہ پھر دونوں نے سونورل سے شغل فرمالیا۔ معلوم نہیں وہ ہسپتال پہنچائے گئے یا گھر میں ان کا علاج ہوا بہرحال بچ گئے۔ اس کے بعد غالباً ایک برس تک ان کے یہاں ایسا کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ لیکن ایک روزعلی الصبح مجھے پتہ چلا کہ بشریٰ نے سونورل کی بتیس ٹکیاں کھالی ہیں۔ قمر صاحب سخت پریشان اور لرزاں تھے۔ ۔ ان کے حواس باختہ تھے۔ میں نے فوراً ہسپتال ٹیلی فون کیا اور ایمبولنس گاڑی منگوائی، بشریٰ کو وہاں پہنچایاگیا۔ ہاؤس سرجن اپنے کوارٹر میں تھے میں نے ان کو وہاں سے نکالا اور سارا ماجرا سُنا کر جلدی ہسپتال چلنے کے لیے کہا۔ ان پر میری عجلت طلب درخواست کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بڑے بے رحم انداز میں کہنے لگے۔

’’منٹو صاحب مرنے دیجیے اس کو۔ آپ کیوں گھبرا رہے ہیں۔ ‘‘

اُن کو معلوم تھا کہ بشریٰ اس سے پیشتر دو مرتبہ زہر خوری کے سلسلے میں ہسپتال آچکی ہے۔ میں نے ان سے بشریٰ کے بارے میں کچھ نہ پوچھا اور تھوڑی دیر بعد واپس گھر چلاآیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے بشریٰ کا حدود اربعہ معلوم نہیں تھا اور اُس کی زندگی کے سابقہ حالات میرے علم سے باہرتھے۔ میری اس کی متعدد مرتبہ ملاقات بھی ہوچکی تھی۔ وہ مجھے بھائی سعادت کہتی تھی۔ اس کے ساتھ کئی دفعہ پینے پلانے کا اتفاق بھی ہوچکا تھا۔ اس کی ایک لڑکی پرویز تھی۔ اس کی تصویر میں نے پہلی مرتبہ اُس روز دیکھی جب وہ قمر صاحب کے گھر میں بحیثیت بیوی آئی۔ نیچے دو کمروں میں سامان وغیرہ سجایا جارہا تھا۔ میں نے دیکھا ایک قبول صورت جوان لڑکی کا فوٹو معمولی سے فریم میں مینٹل پیس پر پڑا ہے۔ جب بیئر کا دور چلا تو میں نے بشریٰ سے پوچھا کہ یہ فوٹو کس کا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اُس کی لڑکی پرویز کاہے۔ جس نے خود کشی کرلی تھی۔ میں نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو مجھے قمر صاحب اور بشریٰ سے جو باتیں معلوم ہوئیں، ان کو اگر کہانی کے انداز میں بیان کیا جائے تو کچھ اس قسم کی ہوں گی۔ پرویز بشریٰ کی پہلوٹھی کی لڑکی تھی جو اس کے پہلے خاوند سے پیدا ہوئی۔ وہ بھی کافی دولت مند زمیندار تھا۔ وہ مرگیا۔ مجھے دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا کہ بشریٰ کا یہ پہلا خاوند جس کا نام اللہ بخش تھا اس سے شادی کے چند برسوں بعد ہی سخت متنفر ہو گیا تھا۔ اس لیے اس کی زندگی ہی میں بشریٰ نے کسی اور شخص سے آنکھ لڑانا شروع کردی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بشریٰ کو اپنے خاوند کی نفرت اور حقارت سے بچنے کے لیے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ مرتے وقت اللہ بخش نے بشریٰ کو ایک کوڑی نہ دی۔ لیکن اپنی بچی پرویز کے لیے کچھ جائیداد الگ کردی۔ بشریٰ نے دوسری شادی کرلی۔ چونکہ تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھی اس لیے پشاور کا ایک کامیاب بیرسٹر اُس کے دام میں گرفتار ہو گیا۔ اس سے اس کے یہاں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ مگر اس دوسرے شوہر کے ساتھ بھی وہ زیادہ دیر تک جم کے نہ رہ سکی۔ چنانچہ اس سے طلاق حاصل کرلی۔ دراصل وہ آزاد زندگی بسر کرنا چاہتی تھی۔ یہ بیرسٹر ابھی تک زندہ ہے۔ دونوں لڑکے جو اب جوان ہیں اُس کے پاس ہیں۔ یہ اپنی ماں سے نہیں ملتے۔ اس لیے کہ اس کا کردار اُنھیں پسند نہیں۔ یہ تو ہے بشریٰ کی زندگی کا مختصر خاکہ۔ اس کی بیٹی پرویز کی کہانی ذرا طویل ہے اس کا بچپن زیادہ تر دیہات کی کھلی فضاؤں میں گزرا۔ بڑ ی نرم و نازک بچی تھی۔ سارا دن سرسبز کھیتوں میں کھیلتی تھی۔ اس کا ہمجولی کوئی نہ تھا۔ مزارعوں کے بچوں سے میل جول اس کے والدین کو پسند نہیں تھا۔ جب وہ کچھ بڑی ہوئی تو اُسے لاہور کے ایک ایسے سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرادیاگیا جہاں بڑے بڑے امیروں کے بچے پڑھتے تھے۔ ذہین تھی۔ طبعیت میں جوہر تھا۔ جب سکول سے نکل کر کالج میں داخل ہوئی تو وہ ایک خوبصورت دوشیزہ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ جس کا مضطرب دل و دماغ ہر وقت آئیڈیل کی تلاش میں رہتا تھا۔ بہت سُریلی تھی۔ جب گاتی تو سننے والے اس کی آواز سے مسحور ہوجاتے۔ رقص بھی اُس نے سیکھا تھا۔ ناچتی تو دیکھنے والے مبہوت ہوجاتے۔ اس کے اعضا میں بلا کی لوچ تھی۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ ناچتی تو اُس کے اعضا کی خفیف سے خفیف حرکت بھی دیکھنے والوں سے ہم کلام ہوتی تھی۔ بہت بھولی بھالی تھی۔ اس میں وہی سادگی اور سادہ لوحی تھی جو گاؤں کے اکثر باشندوں میں ہوتی ہے۔ انگریزی سکول میں پڑھی تھی۔ کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اُس کی سہلیوں میں بڑی تیز، شریر اور کائیاں لڑکیاں موجود تھیں۔ مگر وہ ان سب سے الگ تھی۔ وہ بادلوں سے بھی اوپر اُس فضا میں رہتی تھی جو بڑی لطیف ہوتی ہے۔ اُس کو دھن دولت کی کو ئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ ایک ایسے نوجوان کے خواب دیکھتی تھی جس کو معبود بنا کر اُس کی ساری زندگی عبادت میں گزر جائے۔ عشق و محبت کی جائے نماز پر وہ مجسم سجدہ تھی۔ اس کی ماں اسے ایبٹ آباد لے گئی تو وہاں مردوں اور عورتوں سے ملی جلی محفل منعقد ہوئی۔ پرویز کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا رقص دکھائے۔ اُس نے حاضرین پر نگاہ دوڑائی۔ ایک خوش پوش پٹھان نوجوان دُور کونے میں کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر دمک تھی۔ ایک لمحے کے لیے پرویز کی نظریں اُس پر رُک گئیں۔ نوجوان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے کچھ کہا اور پرویز جو انکار کرنے والی تھی سب کچھ بھول کر بڑے دلفریب انداز میں رقص کرنے لگی۔ اس دوران میں اُس نے اپنے لچکیلے اور گداز جسم کے بھاؤ اور ہر رنگ سے اپنی رُوح کے اندر چھپی ہوئی خواہشوں کو ایک ایک کر کے باہر نکالا اور اُس پٹھان نوجوان کی محترم اور مسحور آنکھوں کے سامنے ترتیب وار سجادیا۔ اس نوجوان کا نام یوسف غلزئی تھا۔ اچھے دولت مند قبیلے کا ہونہار فرد۔ فارغ التحصیل ہوکر اب بڑھ چڑھ کے ملکی سیاست میں حصہ لے رہا تھا۔ عورت اس کے لیے عجوبہ نہیں تھی۔ لیکن پرویز نے اُسے موہ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کی شادی بڑے دھوم دھڑکے سے ہوئی اور وہ میاں بیوی بن کر ابیٹ آباد میں رہنے لگے۔ پرویز بہت خوش تھی۔ اس قدر خوش کہ اس کا جی چاہتا تھا ہر وقت رقصاں رہے۔ ہر وقت اُس کے ہونٹوں سے سہانے اور سماعت نواز گیت چشموں کی طرح پھوٹتے رہیں۔ وہ یوسف تھا۔ تو پرویز اُس کی زُلیخا تھی۔ اُس کی عبادت میں دن رات مصروف رہتی تھی۔ اس نے اپنی طرف سے اس کے قدموں میں تمام نسائیت کا جوہر نکال کر ڈال دیا تھا۔ اُس سے زیادہ کوئی عورت کیا کرسکتی ہے۔ شروع شروع میں وہ بہت خوش رہی، اتنی خوش اور مسرور کہ اُسے یہ محسوس تک نہ ہوا کہ اسے ازدواجی زندگی بسر کرتے ہوئے پورے تین برس گزر چکے ہیں۔ اُس کے ایک بچی ہوئی مگر وہ اپنے یوسف کی محبت میں اس قدر مستغرق تھی کہ کبھی کبھی اُس کے وجود سے بالکل غافل ہوجاتی تھی۔ عجیب بات ہے کہ جب یہ لڑکی پیدا ہوئی تو اُس نے یہ محسوس کیا کہ اُس کے پیٹ سے بچی کے بجائے یوسف نکلا ہے۔ اس کی محبت کو جنم دیا ہے۔ اس سے آپ پرویز کی والہانہ محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے معبود کے قدم ثابت نہ رہے۔ وہ طبعاً عیش پرست تھا۔ وہ مصری کی مکھی کی طرح نہیں بلکہ شہد کی مکھی کی طرح باغ کی ہر کلی کا رس چوسنا چاہتا تھا۔ چنانچہ کروٹ بدل کر اور پرویز کی محبت کی زنجیریں توڑنے کے بعد وہ پھر اپنے پہلے اشغال میں مصروف ہو گیا۔ اس کے پاس دولت تھی، جوانی تھی، پُرکشش شخصیت کا مالک تھا۔ ملکی سیاسیات میں سرگرم حصہ لینے کے باعث اس کانام دن بہ دن روشن ہو رہا تھا۔ اُس کو پرویز کی والہانہ محبت یکسر جہالت پر مبنی دکھائی دی۔ وہ اُس سے اُکتا گیا۔ ہر وقت کی چوما چاٹی، منٹ منٹ کی بھینچا بھانچی اس کو سخت کھلنے لگی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ پرویز اُسے مکڑی کی مانند اپنی محبت کے جالے میں بند کر دے جہاں وہ مرنڈا ہو جائے۔ اس کے بعد اُسے سفوف میں تبدیل کرکے نسوار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردے۔ پرویز کو جب معلوم ہوا کہ یوسف سالم کا سالم اُس کا نہیں تو اُسے سخت صدمہ ہوا۔ کئی دنوں تک وہ اس کے باعث گم سم اور نڈھال رہی۔ اُس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے آئیڈیل کو ہتھوڑوں کی ظالم ضربوں نے چکنا چور کر کے ڈھیر کردیا ہے۔ اُس نے یوسف سے کچھ نہ کہا۔ اُس کی بے اعتنائیوں اور بے وفائیوں کا کوئی ذکر نہ کیا۔ وہ کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔ طویل عرصے تک تنہائیوں میں رہ کر اس نے حالات پر غور کیا۔ یوسف سے چھٹکارا حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن وہ اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اُس کو معبود کا رتبہ عطا کرنے والی وہ خود تھی۔ خدا کو اس کا بندہ کیسے رد کرسکتا ہے۔ جب کہ وہ ایک بار صدقِ دل سے اُس کی خدائی تسلیم کرچکا ہو، اُس کے حضور ہر وقت سجدہ ریز رہاہو۔ اُس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ یوسف کے لیے نہیں صرف اپنے اس جذبے کی خاطر، جس نے یوسف کو خدائی کا رتبہ بخشا تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُس کے ساتھ رہے گی۔ وہ اس کے لیے بڑی سے بڑی قیمت دینے کے لیے بھی تیار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس بے چاری نے یوسف کی آغوش کے لیے ہر اس عورت کے لیے آسانیاں پیدا کیں جو اس میں تھوڑی دیر کے لیے حرارت محسوس کرناچاہتی تھی۔ یہ بڑی بے غیرتی تھی۔ مگر اُس نے اپنے ٹوٹے پھوٹے آئیڈیل کو مکمل شکست و ریخت سے بچانے کی خاطر فرار کا یہ عجیب و غریب راستہ اختیار کیا اور ہر قسم کی بے غیر تی برداشت کی۔ وہ اُس کی چند روزہ محبوباؤں سے بڑے پیار و محبت سے پیش آتی۔ اُن کی خاطر تواضع کرتی۔ ان کی عصمت باختہ تلون مزاجیوں کو سر آنکھوں پر رکھتی اور اُن کو اور اپنے خاوند کو ایسے موقع بہم پہنچاتی کہ اُس کی موجودگی ان کے عیش و عشرت میں مخل نہ ہو پاتی۔ ان عورتوں کے لیے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر وہ قسم قسم کے کھانے تیار کرتی، اس کا خاوند ان واہیات عورتوں کو خوش رکھنے کے لیے جب اُسے حکم دیتا کہ ناچے اور گائے تو وہ ضبط سے کام لے کر کسی بھی لمحے برس پڑنے والی مصنوعی آنکھیں خوش دکھاتی۔ زخمی دل پر بھاہے لگاتی۔ غم و غصے سے کانپتے ہوئے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹیں پیدا کرتی، مسرت و انبساط سے بھرے ہوئے گیت گاتی اور بڑے طربناک انداز میں رقص کرتی۔ اس کے بعد وہ تنہائی میں اس قدر روتی، اس قدر آہیں بھرتی کہ اُسے محسوس ہوتا کہ وہ اب نہیں جیئے گی۔ مگر ایسے طوفان کے بعد اُس میں ایک نئی قوتِ برداشت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ یوسف کی دلالی میں اپنا منہ کالا کرناشروع کردیتی تھی اور خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتی تھی کہ یہ کالک نہیں بڑا ہی خوش رنگ غازہ ہے۔ اس دوران میں اُس کی ماں اُس سے ملنے کے لیے کئی مرتبہ آچکی تھی۔ مگر اُس نے اپنے خاوند کے متعلق اُس سے کبھی شکایت نہیں کی تھی۔ وہ اپنے راز یا دُکھ میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان حالات میں وہ اپنے خاوند کی ذات کے ساتھ کسی اور کو کسی طریقے سے بھی وابستہ دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ یہ سوچتی کہ خاوند میرا ہے۔ وہ دُکھ بھی میرا ہے۔ جو وہ مجھے پہنچا رہا ہے وہ اگر دوسری عورتوں کو بھی اسی قسم کا دُکھ پہنچائے تو مجھے حسد ہو گا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔ اس لیے میں خوش ہوں۔ بشریٰ ان دنوں فارغ تھی۔ یعنی اُس نے کوئی اپنا شوہر نہیں کیا ہوا تھا۔ اس کا وقت سیرو تفریح میں گزر رہا تھا۔ دس پندرہ دن ایبٹ آباد پرویز کے ساتھ رہتی۔ یوسف کے ساتھ اِدھر اُدھر گھومتی پھرتی۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ وہ گھنٹوں علیحدہ کمرے میں بیٹھے تاش کھیلنے میں گزارتے اور پرویز ان کی خاطر تواضع میں مصروف رہتی۔ وہ چاہتی تھی کہ اُس کی ماں زیادہ دیر تک اس کے پاس ٹھہرے تاکہ سوسائٹی کی ان عورتوں کا جو چکلے کی رنڈیوں سے بھی بدتر ہیں، اس گھر میں داخلہ بند رہے۔ مگر وہ ایک جگہ بہت عرصے تک ٹک کر نہیں رہ سکتی تھی۔ جب وہ چلی جاتی تو دوسرے تیسرے روز یوسف بھی اپنی پرانی ڈگر اختیار کرلیتا۔ پرویز دوسرا روپ دھار لیتی اور اپنے خاوند کی نت نئی سہلیوں کے قدموں کے لیے پاانداز بن جاتی۔ اُس نے اس زندگی کو آہستہ آہستہ اپنا لیا ہے۔ اب اسے زیادہ کوفت نہیں ہوتی تھی۔ اس نے خود کو سمجھا بجھا کر راضی کرلیا تھا کہ اُسے زندگی کے ڈرامے میں یہی رول ادا کرنا تھا جو وہ کررہی تھی۔ چنانچہ اُس سے اُس کے دل و دماغ سے وہ کدورت جو پہلے پہلے بہت اذیت دہ تھی، قریب قریب دُھل گئی تھی، وہ خوش رہتی اور اپنی ننھی بچی کی طرف زیادہ توجہ دینے لگی تھی۔ ایک دن اُسے کسی ضروری کام سے اچانک لاہور جانا پڑا۔ دو دن کے بعد لوٹی تو شام کا وقت تھا۔ یوسف کا کمرہ بند تھا۔ مگر اس میں اُس کے مخمور قہقہوں کی آواز سُنائی دے رہے تھی۔ پرویز نے دروازے کی ایک درز سے جھانک کر دیکھا تو سرتا پا لرز گئی اُس کا پیازی رنگ ایک دم کاغذ کی مانند بے جان سفیدی اختیار کرگیا۔ یہ سارے واقعات مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوئے۔ بشریٰ نے مجھے جو کچھ بتایا اس سے مختلف تھا اس کا بیان ہے کہ دل ہی دل میں کڑھ کڑھ کر وہ اپنی جان سے بیزار ہو گئی تھی اُس نے یوسف کی خاطر بڑی سے بڑی ذلت قبول کرنا گوارا تو کر لیاتھا، مگر اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک رات اُس نے شراب کے نشے میں بدمست اپنی کسی چہیتی کو آغوش میں لیے پرویز سے کہاکہ ناچے اور ننگی ناچے وہ اس کے کسی حکم کو نہیں ٹالتی تھی۔ یوسف اُس کا خدا تھا، چنانچہ اُس نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اس کا عریاں بند رقصاں تھا۔ ناچ ختم ہوا تو اس نے خاموشی سے کپڑے پہنے اور باہر نکل کر زہر کھالیا اور مرگئی۔ معلوم نہیں حقیقت کیا تھی لیکن جو کچھ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا یہ ہے کہ جب پرویز نے یوسف کے کمرے میں جھانک کر دیکھا تو اُسی وقت فیصلہ کرلیا کہ وہ زندہ نہیں رہے گی، چنانچہ اُسی وقت وہ موٹر میں سیدھی ایک کیمسٹ کی دُکان پر گئی اور اُس نے سونورل کی پوری ڈبیہ طلب کی۔ قیمت ادا کرنے لگی تو اُسے معلوم ہوا کہ افراتفری کے عالم میں وہ اپنا پرس وہیں گھر پر بھول آئی ہے، چنانچہ اس نے کیمسٹ سے کہا کہ میں مسز یوسف غلزئی ہوں۔ پرس ساتھ نہیں لائی۔ بل بھیجوا دیجیے گا۔ یوسف صاحب ادا کردیں گے۔ گھر آ کے اُس نے خادمہ کو ڈبیہ کی ساری گولیاں دیں اور اس سے کہا اچھی طرح پیس کے لاؤ۔ یہ سفوف اُس نے گرم گرم دُودھ میں ڈالا اور پی گئی۔ تھوڑی دیر بعد نوکر آیا اور اُس نے پرویز سے کہاکہ آپ کی والدہ آئی ہیں یوسف صاحب آپ کو بلاتے ہیں۔ پرویز کی آنکھیں بالکل خشک تھیں۔ مگر ان میں غنودگی تھی۔ اس لیے کہ زہر کا اثر شروع ہو گیاتھا۔ منہ دھو کر اور بال سنوار کر وہ اندر گئی۔ اپنی ماں سے بغل گیر ہوئی اور یوسف کے ساتھ قالین پر بیٹھ گئی۔ ماں سے باتیں کرتے کرتے ایک دم پرویز کو چکر آیا اور وہ بے ہوش ہوکر ایک طرف لڑھک گئی۔ ماں نے تشویش کا اظہار کیا، اس لیے کہ اس کی بچی کا رنگ نیلا ہو رہا تھا۔ مگر یوسف نے جو نشے میں چور تھا، کسی قسم کے تردد کااظہار نہ کیا اور بشریٰ سے کہا

’’کچھ بھی نہیں ہوا اسے، بن رہی ہے۔ ‘‘

پھر اُس نے بڑے زور سے پرویز کا شانہ جھنجھوڑا اور حاکمانہ کہا

’’اُٹھ۔ ‘‘

مجھے یہ ایکٹنگ پسند نہیں۔ ‘‘

بشری نے بھی اُس کو آوازیں دیں اُس کو ہلایا جلایا۔ آخر ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ مگر وہ جب آیا تو پرویز اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ پرویز کی خودکشی کے متعلق کئی قصے مشہور ہیں۔ لیکن اس کا جو پہلو مجھے معتبر ذرائع سے منکشف ہوا میری سمجھ میں آگیا تھا۔ اس لیے میں خاموش رہا اور انتظار کرتا رہا کہ اس کی تصدیق کب ہوتی ہے۔ قمر صاحب بشریٰ کو ہسپتال سے واپس لائے تو میں ان سے ملا۔ ان کے پاس اب موٹر نہیں تھی۔ میں نے اس بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے شاعرانہ بے اعتنائی اختیار کرتے ہوئے جواب دیا

’’جس کی تھی لے گئی‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

جواب ملا۔

’’مطلب یہ کہ موٹر میری کب تھی۔ وہ تو ان محترمہ کی تھی۔ میں نے کچھ عرصہ سے اس کا استعمال ترک کردیا تھا۔ اپنی سائیکل پر دفتر جاتا اور اسی پر واپس آتا تھا۔ جب ان کو ضرورت ہوتی تو میں ڈرائیور کے فرائض ادا کرتا تھا۔ ‘‘

میں کچھ کچھ سمجھ گیا

’’کیا ناچاقی ہو گئی؟‘‘

’’ہاں کچھ ایسا ہی سمجھیے۔ میں نے ان کو طلاق دے دی ہے۔ ‘‘

بعد میں مجھے جب قمر صاحب سے مفصل گفتگو کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ نکاح وکاح کوئی نہیں ہوا تھا۔ طلاق نامہ انھوں نے صرف اس لیے لکھا کہ لوگوں میں اس بات کی تشہیر نہ ہو کہ وہ غیر شرعی طور پر ان کے ساتھ قریب قریب دو برس رہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ ان کے درمیان جو فیصلہ کن لڑائی جھگڑا ہوا اُس کی وجہ یہ تھی کہ بقول قمر صاحب، ان کی محترمہ نے حیدر آباد کے ایک ادھیڑ عمر کے مہاجر رئیس سے جسمانی رشتہ قائم کر لیا تھا اس لیے اُن کے لیے قمر صاحب کی ذات میں وہ کشش ختم ہو گئی تھی جو کسی زمانے میں اُن کو نظر آتی تھی۔ بلکہ یوں کہئے کہ جس کو دیکھ کر اُن کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔ مجھے افسوس ہوا، اس لیے کہ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ قمر صاحب نے اپنی تینوں ہونہار بچیوں کو سکول سے اُٹھا لیا ہے خود گولڈ فلیک کے بدلے بگلے کے سستے سگریٹ پیتے ہیں پہلے تفریح کے اتنے سامان مہیا تھے، پر اب شُتربے مہار کی طرح بے مطلب اِدھر اُدھر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ محترمہ بشریٰ کے متعلق انھوں نے مجھے بہت کچھ بتایا لیکن میں یہ نہ سمجھ سکا کہ جب علیحدگی کا فیصلہ ہوچکا تھا اور حیدر آباد کے مہاجر رئیس صاحب نے بشریٰ کے ساتھ باقاعدہ راتیں گزارنا شروع کر رکھی تھیں تو اُن کو سونورل کی بتیس گولیاں کھا کر خودکشی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ بظاہر خطرناک فعل قمر صاحب کے اس اعتراض کا ردِ عمل معلوم ہوتا ہے جو ان کو بشریٰ کے چال چلن پر تھا۔ لیکن ایمان کی بات ہے کہ مجھے اس کے عقب میں ایسا کوئی دل شکن عنصر نظر نہیں آتا جو انسان کو موت کی گود میں سو جانے پر مجبور کر دے۔ اس پر قمر صاحب بھی کوئی روشنی ڈالنے سے معذور ہیں۔ ایک دن باتوں باتوں میں ان سے میں آخر پوچھ ہی بیٹھا

’’سونورل کھانے کی روایت جو بشریٰ کی بیٹی پرویز نے قائم کی آپ نے اور بشریٰ نے جاری رکھی۔ لیکن آپ یہ بتائیے کہ وہ کونسی وجہ تھی جس نے اس غریب کو اتنے خطرناک اقدام کے لیے تیار کر دیا۔ آپ کئی بار مجھے بتا چکے ہیں کہ پرویز اپنے شوہر یوسف غلزئی کی حرام کاریوں کی عادی ہو چکی تھی۔ بلکہ وہ خود اس معاملے میں اس کی معاونت کرتی تھی۔ کوئی عورت جب اس حد تک پہنچ کر داشتہ بن جائے، خرابے کی انتہا کو پہنچ کر ضمیر کی نہایت ہی خوفناک صورت اختیار کرے، خودکشی کو وہ زبوں ترین فعل سمجھے، اس کو کبھی اس کا خیال تک نہیں آسکتا۔ میرا اپنا خیال ہے، بلکہ یقین ہے کہ اس کی ماں بشریٰ نے جسے آپ محترمہ کہتے ہیں یوسف سے ایسے تعلقات پیدا کر لیے تھے جنھیں عام لوگ ناجائز کہتے ہیں‘‘

قمر صاحب نے صرف ان الفاظ میں میری تصدیق کی

’’یہ بالکل دُرست ہے۔ ایک دن شراب کے نشے میں بشریٰ نے اس کا اقرار کیا تھا اور بہت روئی تھی۔ ‘‘

اُس دن شام کو معلوم ہوا کہ حیدر آباد کے مہاجر رئیس صاحب نے سونورل کی چوبیس گولیاں کھا لی ہیں۔ بشریٰ نے حسب معمول بتیس کھائی تھیں۔ دونوں ہسپتال میں بے ہوش پڑے تھے۔ دوسرے روز رئیس صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ چوبیس ہی میں ان کا کام تمام ہو گیا مگر بشریٰ بچ گئی۔ آج کل وہ مرحوم کا سوگ منارہی ہے۔ جس شخص کے پاس اُس نے موٹر بیچی تھی وہ دن رات اُس کے پاس دل جوئی کے لیے موجود رہتا ہے۔

سعادت حسن منٹو

سوراج کے لیے

مجھے سن یاد نہیں رہا۔ لیکن وہی دن تھے۔ جب امرتسر میں ہر طرف

’’انقلاب زندہ باد‘‘

کے نعرے گونجتے تھے۔ ان نعروں میں، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک عجیب قسم کا جوش تھا۔ ایک جوانی۔ ایک عجیب قسم کی جوانی۔ بالکل امرتسر کی گجریوں کی سی جو سر پر اوپلوں کے ٹوکرے اٹھائے بازاروں کو جیسے کاٹتی ہوئی چلتی ہیں۔ خوب دن تھے۔ فضا میں جو وہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کا اداس خوف سمویا رہتا تھا۔ اس وقت بالکل مفقود تھا۔ اب اس کی جگہ ایک بے خوف تڑپ نے لے لی تھی۔ ایک اندھا دھند جَست نے جو اپنی منزل سے ناواقف تھی۔ لوگ نعرے لگاتے تھے، جلوس نکالتے تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں دھڑادھڑ قید ہورہے تھے۔ گرفتار ہونا ایک دلچسپ شغل بن گیا تھا۔ صبح قید ہوئے۔ شام چھوڑ دیے گئے، مقدمہ چلا۔ چند مہینوں کی قید ہوئی، واپس آئے، ایک نعرہ لگایا، پھر قید ہو گئے۔ زندگی سے بھرپور دن تھے۔ ایک ننھا سا بلبلہ پھٹنے پر بھی ایک بہت بڑا بھنور بن جاتا تھا۔ کسی نے چوک میں کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا۔ ہڑتال ہونی چاہیے، چلیے جی ہڑتال ہو گئی۔ ایک لہر اٹھی کہ ہر شخص کو کھادی پہننی چاہیے تاکہ لنکا شائر کے سارے کارخانے بند ہو جائیں۔ بدیشی کپڑوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا اور ہر چوک میں الاؤ جلنے لگے، لوگ جوش میں آکر کھڑے کھڑے وہیں کپڑے اتارتے اور الاؤ میں پھینکتے جاتے، کوئی عورت اپنے مکان کے شہ نشین سے اپنی ناپسندیدہ ساڑھی اچھالتی تو ہجوم تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ لال کرلیتا۔ مجھے یاد ہے کوتوالی کے سامنے ٹاؤن ہال کے پاس ایک الاؤ جل رہا تھا۔ شیخو نے جو میرا ہم جماعت تھا جوش میں آکر اپنا ریشمی کوٹ اتارا اور بدیشی کپڑوں کی چتا میں ڈال دیا۔ تالیوں کا سمندر بہنے لگا۔ کیونکہ شیخو ایک بہت بڑے

’’ٹوڈی بچے‘‘

کا لڑکا تھا، اس غریب کا جوش اور بھی زیادہ بڑھ گیا، اپنی بوسکی کی قمیض اتار وہ بھی شعلوں کی نذر کردی، لیکن بعد میں خیال آیا کہ اس کے ساتھ سونے کے بٹن تھے۔ میں شیخو کا مذاق نہیں اڑاتا، میرا حال بھی ان دنوں بہت دگرگوں تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں سے پستول ہاتھ میں آجائے تو ایک دہشت پسند پارٹی بنائی جائے۔ باپ گورنمنٹ کا پنشن خوار تھا۔ اس کا مجھے کبھی خیال نہ آیا۔ بس دل و دماغ میں ایک عجیب قسم کی کُھد بُد رہتی تھی۔ بالکل ویسی ہی جیسی فلاش کھیلنے کے دوران میں رہا کرتی ہے۔ اسکول سے تو مجھے ویسے ہی دلچسپی نہیں تھی مگر ان دنوں تو خاص طور پر مجھے پڑھائی سے نفرت ہو گئی تھی۔ گھر سے کتابیں لے کر نکلتا اور جلیانوالہ باغ چلا جاتا، اسکول کا وقت ختم ہونے تک وہاں کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا یا کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر دورمکانوں کی کھڑکیوں میں عورتوں کو دیکھنا اور سوچتا کہ ضرور ان میں سے کسی کو مجھ سے عشق ہو جائے گا۔ یہ خیال دماغ میں کیوں آتا۔ اس کے متعلق میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ جلیانوالہ باغ میں خوب رونق تھی۔ چاروں طرف تنبو اور قناتیں پھیلی ہوئی تھیں، جو خیمہ سب سے بڑا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے روز ایک ڈکٹیٹر بناکے بٹھا دیا جاتا تھا۔ جس کو تمام والٹیر سلامی دیتے تھے۔ دو تین روز یا زیادہ سے زیادہ دس پندرہ روز تک یہ ڈکٹیٹر کھادی پوش عورتوں اور مردوں کی نمسکاریں ایک مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ وصول کرتا۔ شہر کے بنیوں سے لنگر خانے کے لیے آٹا چاول اکٹھا کرتا اور دہی کی لسّی پی پی کر جو خدا معلوم جلیانوالہ باغ میں کیوں اس قدر عام تھی، ایک دن اچانک گرفتار ہو جاتا۔ اور کسی قید خانے میں چلا جاتا۔ میرا ایک پرانا ہم جماعت تھا۔ شہزادہ غلام علی، اس سے میری دوستی کا اندازہ آپ کو ان باتوں سے ہوسکتا ہے کہ ہم اکٹھے دو دفعہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو چکے تھے اور ایک دفعہ ہم دونوں گھر سے بھاگ کربمبئی گئے، خیال تھا کہ روس جائیں گے مگر پیسے ختم ہونے پر جب فٹ پاتھوں پرسونا پڑا تو گھر خط لکھے، معافیاں مانگیں اور واپس چلے آئے۔ شہزادہ غلام علی خوبصورت جوان تھا۔ لمبا قد، گورا رنگ جو کشمیریوں کا ہوتا ہے۔ تیکھی ناک، کھلنڈری آنکھیں، چال ڈھال میں ایک خاص شان تھی جس میں پیشہ ور غنڈوں کی کجکلاہی کی ہلکی سی جھلک بھی تھی۔ جب وہ میرے ساتھ پڑھتا تھا تو شہزادہ نہیں تھا۔ لیکن جب شہرمیں انقلابی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اس نے دس پندرہ جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیا تو نعروں گیندے کے ہاروں، جوشیلے گیتوں اور لیڈی والنٹیرز سے آزادانہ گفتگوؤں نے اسے ایک نیم رس انقلابی بنا دیا، ایک روز اس نے پہلی تقریر کی۔ دوسرے روز میں نے اخبار دیکھے تو معلوم ہوا کہ غلام علی شہزادہ بن گیا ہے۔ شہزادہ بنتے ہی غلام علی سارے امرتسر میں مشہور ہو گیا۔ چھوٹا سا شہر ہے، وہاں نیک نام ہوتے یا بدنام ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو امرتسری عام آدمیوں کے معاملے میں بہت حرف گیر ہیں۔ یعنی ہر شخص دوسروں کے عیب ٹٹولنے اور کرداروں میں سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ لیکن سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے معاملے میں امرتسری بہت چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ ان کو دراصل ہر وقت ایک تقریر یا تحریک کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ انھیں نیلی پوش بنا دیجیے یا سیاہ پوش، ایک ہی لیڈر چولے بدل بدل کر امرتسر میں کافی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ تمام بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں تھے اور ان کی گدیاں خالی تھیں۔ اس وقت لوگوں کو لیڈروں کی کوئی اتنی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ تحریک جو کہ شروع ہوئی تھی اس کو البتہ ایسے آدمیوں کی اشد ضرورت تھی جو ایک دو روز کھادی پہن کر جلیانوالہ باغ کے بڑے تنبو میں بیٹھیں۔ ایک تقریر کریں اور گرفتار ہو جائیں۔ ان دنوں یورپ میں نئی نئی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی تھی ہٹلر اور مسولینی کا بہت اشتہار ہورہا تھا۔ غالباً اس اثر کے ماتحت کانگرس پارٹی نے ڈکٹیٹر بنانے شروع کردیے تھے۔ جب شہزادہ غلام علی کی باری آئی تو اس سے پہلے چالیس ڈکٹیٹر گرفتار ہو چکے تھے۔ جونہی مجھے معلوم ہوا کہ۔ اس طرح غلام علی ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو میں فوراً جلیانوالہ باغ میں پہنچا۔ بڑے خیمے کے باہر والنٹیروں کا پہرہ تھا۔ مگر غلام علی نے جب مجھے اندر سے دیکھا تو بلا لیا۔ زمین پر ایک گدیلہ تھا۔ جس پر کھادی کی چاندنی بچھی تھی۔ اس پر گاؤ تکیوں کا سہارا لیے شہزادہ غلام علی چند کھادی پوش بنیوں سے گفتگو کررہا تھا جو غالباً ترکاریوں کے متعلق تھی۔ چند منٹوں ہی میں اس نے یہ بات چیت ختم کی اور چند رضا کاروں کو احکام دے کروہ میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر میرے گدگدی سی ہو رہی تھی۔ جب رضا کار چلے گئے تو میں ہنس پڑا۔

’’سنا بے شہزادے۔ ‘‘

میں دیر تک اس سے مذاق کرتا رہا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ غلام علی میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہے۔ ایسی تبدیلی جس سے وہ باخبر ہے۔ چنانچہ اس نے کئی بار مجھ سے یہی کہا

’’نہیں سعادت۔ مذاق نہ اڑاؤ۔ میں جانتا ہوں میرا سر چھوٹا اور یہ عزت جو مجھے ملی ہے بڑی ہے۔ لیکن میں یہ کھلی ٹوپی ہی پہنے رہنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے دہی کی لسی کا ایک بہت بڑا گلاس پلایا اور میں اس سے یہ وعدہ کرکے گھر چلاگیا کہ شام کو اس کی تقریر سننے کے لیے ضرور آؤں گا۔ شام کو جلیانوالہ باغ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں چونکہ جلدی آیا تھا۔ اس لیے مجھے پلیٹ فارم کے پاس ہی جگہ مل گئی۔ غلام علی تالیوں کے شور کے ساتھ نمودار ہوا۔ سفید بے داغ کھادی کے کپڑے پہنے وہ خوبصورت اور پُر کشش دکھائی دے رہا تھا۔ وہ کجکلاہی کی جھلک جس کا میں اس سے پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ اس کی اس کشش میں اضافہ کررہی تھی۔ تقریباً ایک گھنٹے تک وہ بولتا رہا۔ اس دوران میں کئی بارے رونگٹے کھڑے ہوئے اور ایک دو دفعہ تو میرے جسم میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بم کی طرح پھٹ جاؤں۔ اس وقت میں نے شاید یہی خیال کیا تھا کہ یوں پھٹ جانے سے ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔ خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ بہتے ہوئے احساسات اور واقعات کی نوک پلک جو اس وقت وقت تھی، اب پوری صحت سے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ کہانی لکھتے ہوئے میں جب غلام علی کی تقریر کا تصور کرتا ہوں تو مجھے صرف ایک جوانی بولتی دکھائی دیتی تھی، جو سیاست سے بالکل پاک تھی۔ اس میں ایک ایسے نوجوان کی پُر خلوص بیباکی تھی جو ایک دم کسی راہ چلتی عورت کو پکڑلے اور کہے

’’دیکھو میں تمہیں چاہتا ہوں۔ ‘‘

اور دوسرے لمحے قانون کے پنجے میں گرفتار ہو جائے اس تقریر کے بعد مجھے کئی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ مگر وہ خادم دیوانگی، وہ سرپھری جوانی، وہ الھڑ جذبہ، وہ بے ریش و بروت للکار جو میں نے شہزادہ غلام علی کی آواز میں سنی۔ اب اس کی ہلکی سی گونج بھی مجھے کبھی سنائی نہیں دی۔ اب جو تقریریں سننے میں آتی ہیں۔ وہ ٹھنڈی سنجیدگی، بوڑھی سیاست اور شاعرانہ ہوشمندی میں لپٹی ہوتی ہیں۔ اس وقت دراصل دونوں پارٹیاں خامکار تھیں۔ حکومت بھی اور رعایا بھی۔ دونوں نتائج سے بے پروا، ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ حکومت قید کی اہمیت سمجھے بغیر لوگوں کو قید کررہی تھی اور جو قید ہوتے تھے۔ ان کو بھی قید خانوں میں جانے سے پہلے قید کا مقصد معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک دھاندلی تھی مگر اس دھاندلی میں ایک آتشیں انتشار تھا۔ لوگ شعلوں کی طرح بھڑکتے تھے، بجھتے تھے، پھر بھڑکتے تھے۔ چنانچہ اس بھڑکنے اور بجھنے، بجھنے اور بھڑکنے نے غلامی کی خوابیدہ اداس اور جمائیوں بھری فضا میں گرم ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ شہزادہ غلام علی نے تقریر ختم کی تو سارا جلیانوالہ باغ تالیوں اور نعروں کا دہکتا ہوا الاؤ بن گیا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ جب میں اس سے الگ جا کر ملا اور مبارکباد دینے کے لیے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا تو وہ کانپ رہا تھا یہ گرم کپکپاہٹ اس کے چمکیلے چہرے سے بھی نمایاں تھی۔ وہ کسی قدر ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پُرجوش جذبات کی دمک کے علاوہ مجھے ایک تھکی ہوئی تلاش نظر آئی۔ وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دم اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور سامنے چمبیلی کی جھاڑی کی طرف بڑھا۔ وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ کھادی کی بے داغ ساڑھی میں ملبوس۔ دوسرے روز مجھے معلوم ہوا کہ شہزادہ غلام علی عشق میں گرفتار ہے۔ وہ اس لڑکی سے جسے میں نے چمبیلی کی جھاڑی کے پاس باادب کھڑی دیکھا تھا۔ محبت کررہا تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں تھی کیونکہ نگار کو بھی اس سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نگار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک مسلمان لڑکی تھی۔ یتیم! زنانہ ہسپتال میں نرس تھی اور شاید پہلی مسلمان لڑکی تھی جس نے امرتسر میں بے پردہ ہوکر کانگریس کی تحریک میں حصہ لیا۔ کچھ کھادی کے لباس نے کچھ کانگرس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اور کچھ ہسپتال کی فضا نے نگار کی اسلامی خُوکو، اس تیکھی چیز کو جو مسلمان عورت کی فطرت میں نمایاں ہوتی ہے تھوڑا سا گھسا دیا تھا جس سے وہ ذرا ملائم ہو گئی تھی۔ وہ حسین نہیں تھی۔ لیکن اپنی جگہ نسوانیت کا ایک نہایت ہی دیدہ چشم منفرد نمونہ تھا۔ انکسار، تعظیم اور پرستش کا وہ ملا جلا جذبہ جو آدرش ہندو عورت کا خاصہ ہے نگار میں اس کی خفیف سی آمیزی نے ایک روح پر ور رنگ پیدا کردیا تھا۔ اس وقت تو شاید یہ کبھی میرے ذہن میں نہ آتا۔ مگر یہ لکھتے وقت میں نگار کا تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے نماز اور آرتی کا دلفریب مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ شہزادہ غلام علی کی وہ پرستش کرتی تھی اور وہ بھی اس پر دل و جان سے فدا تھا جب نگار کے بارے میں اس سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ کانگرس تحریک کے دوران میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے ملاپ سے وہ ایک دوسرے کے ہو گئے۔ غلام علی کا ارادہ تھا کہ قید ہونے سے پہلے پہلے وہ نگار کو اپنی بیوی بنالے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ قید سے واپس آنے پر بھی وہ اس سے شادی کرسکتا تھا۔ ان دنوں کوئی اتنی لمبی قید نہیں تھی۔ کم سے کم تین مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس۔ بعضوں کو تو پندرہ بیس روز کے بعد ہی رہا کردیا جاتا تھا تاکہ دوسرے قیدیوں کے لیے جگہ بن جائے۔ بہر حال وہ اس ارادے کو نگار پر بھی ظاہر کرچکا تھا اور وہ بالکل تیار تھی۔ اب صرف دونوں کو بابا جی کے پاس جا کر ان کا آشیرواد لینا تھا۔ بابا جی جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے بہت زبردست ہستی تھی۔ شہر سے باہر لکھ پتی صراف ہری رام کی شانداری کوٹھی میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یوں تو وہ اکثر اپنے آشرم میں رہتے جو انھوں نے پاس کے ایک گاؤں میں بنا رکھا تھا مگر جب کبھی امرتسر آتے تو ہری رام صراف ہی کی کوٹھی میں اترتے اور ان کے آتے ہی یہ کوٹھی بابا جی کے شیدائیوں کے لیے مقدس جگہ بن جاتی۔ سارا دن درشن کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دن ڈھلے وہ کوٹھی سے باہر کچھ فاصلے پر آم کے پیڑوں کے جھنڈ میں ایک چوبی تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو عام درشن دیتے، اپنے آشرم کے لیے چندہ اکٹھا کرے۔ آخر میں بھجن وغیرہ سن کر ہر روز شام کو یہ جلسہ ان کے حکم سے برخاست ہو جاتا۔ بابا جی بہت پرہیز گار، خدا ترس، عالم اور ذہین آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان، سکھ اور اچھوت سب ان کے گرویدہ تھے اور انھیں اپنا امام مانتے تھے۔ سیاست سے گو باباجی کو بظاہر کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ پنجاب کی ہر سیاسی تحریک انہی کے اشارے پر شروع ہوئی۔ اور انہی کے اشارے پر ختم ہوئی۔ گورنمنٹ کی نگاہوں میں وہ ایک عقدہ ءِ لاینحل تھے، ایک سیاسی چیستاں جسے سرکارِ عالیہ کے بڑے بڑے مدبر بھی نہ حل کرسکتے تھے۔ بابا جی کے پتلے پتلے ہونٹوں کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ہزار معنی نکالے جاتے تھے مگر جب وہ خود اس مسکراہٹ کا بالکل ہی نیا مطلب واضح کرتے تو مرعوب عوام اور زیادہ مرعوب ہو جاتے۔ یہ جو امرتسر میں سول نافرمانی کی تحریک جاری تھی اور لوگ دھڑا دھڑ قید ہوررہے تھے۔ اس کے عقب میں جیسا کہ ظاہر ہے بابا جی ہی کا اثر کارفرما تھا۔ ہر شام لوگوں کو عام درشن دیتے وقت وہ سارے پنجاب کی تحریک آزادی اور گورنمنٹ کی نت نئی سخت گیریوں کے متعلق اپنے پوپلے منہ سے ایک چھوٹا سا۔ ایک معصوم سا جملہ نکال دیا کرتے تھے، جسے فوراً ہی بڑے بڑے لیڈر اپنے گلے میں تعویذ بنا کرڈال لیتے تھے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ ان کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی قوت تھی، ان کی آواز میں ایک جادو تھا اور ان کا ٹھنڈا دماغ۔ ان کا وہ مسکراتا ہوتا دماغ جس کو گندی سے گندی گالی اور زہریلی سے زہریلی ظنز بھی ایک لحظے کے ہزارویں حصے کے لیے برہم نہیں کرسکتی تھی۔ حریفوں کے لیے بہت ہی الجھن کا باعث تھا۔ امرتسر میں بابا جی کے سینکڑوں جلوس نکل چکے تھے مگر جانے کیا بات ہے کہ میں نے اور تمام لیڈروں کو دیکھا۔ ایک صرف ان ہی کو میں نے دور سے دیکھا نہ نزدیک سے۔ اسی لیے جب غلام علی نے مجھ سے ان کے درشن کرنے اور ان سے شادی کی اجازت لینے کے متعلق بات چیت کی تو میں نے اس سے کہا کہ جب وہ دونوں جائیں تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں۔ دوسرے ہی روز غلام علی نے تانگے کا انتظام کیا اور ہم صبح سویرے لالہ ہری رام صراف کی عالیشان کوٹھی میں پہنچ گئے۔ بابا جی غسل اور صبح کی دعا سے فارغ ہو کر ایک خوبصورت پنڈتانی سے قومی گیت سن رہے تھے۔ چینی کی بے داغ سفید ٹائلوں والے فرش پر آپ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر بیٹھے تھے۔ گاؤ تکیہ ان کے پاس ہی پڑا تھا۔ مگر انھوں نے اس کا سہارا نہیں لیا تھا۔ کمرے میں سوائے ایک چٹائی کے جس کے اوپر بابا جی بیٹھے تھے اور فرنیچر وغیرہ نہیں تھا۔ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سفید ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ ان کی چمک نے قومی گیت گانے والی پنڈتانی کے ہلکے پیازی چہرے کو اور بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا۔ بابا جی گو ستر بہتر برس کے بڈھے تھے مگر ان کا جسم( وہ صرف گیروے رنگ کا چھوٹا سا تہمد باندھے تھے) عمر کی جھڑیوں سے بے نیاز تھا۔ جلد میں ایک عجیب قسم کی ملاحت تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہر روز اشنان سے پہلے روغن زیتون اپنے جسم پر ملواتے ہیں۔ شہزادہ غلام علی کی طرف دیکھ کروہ مسکرائے مجھے بھی ایک نظر دیکھا اور ہم تینوں کی بندگی کا جواب اسی مسکراہٹ کو ذرا طویل کرکے دیا اور اشارہ کیا کہ ہم بیٹھ جائیں۔ میں اب یہ تصویر اپنے سامنے لاتا ہوں تو شعور کی عینک سے یہ مجھے دلچسپ ہونے کے علاوہ بہت ہی فکر خیز دکھائی دیتی ہے۔ کھجور کی چٹائی پر ایک نیم برہنہ معمر جوگیوں کا آسن لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی بیٹھک ہے، اس کے گنجے سر سے، اس کی اَدھ کُھلی آنکھوں سے، اس کے سانولے ملائم جسم سے، اس کے چہرے کے ہر خط سے ایک پرسکون اطمینان، ایک بے فکر تیقن مترشح تھا کہ جس مقام پر دنیا نے اسے بٹھا دیا ہے۔ اب بڑے سے بڑا زلزلہ بھی اسے وہاں سے نہیں گرا سکتا۔ اس سے کچھ دور وادی کشمیر کی ایک نوخیز کلی، جھکی ہوئی، کچھ اس بزرگ کی قربت کے احترام سے، کچھ قومی گریت کے اثر سے کچھ اپنی شدید جوانی سے جو اس کی کھردردی سفید ساڑھی سے نکل کر قومی گیت کے علاوہ اپنی جوانی کا گیت بھی گانا چاہتی تھی، جو اس بزرگ کی قربت کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایسی تندرست اور جوان ہستی کی بھی تعظیم کرنے کی خواہشمند تھی جو اس کی نرم کلائی پکڑ کر زندگی کے دہکتے ہوئے الاؤ میں کود پڑے۔ اس کے ہلکے پیازی چہرے سے، اس کی بڑی بڑی سیاہ متحرک آنکھوں سے، اس کے کھادی کے کھردرے بلاؤز میں ڈھکے ہوئے متلاطم سینے سے اس معمر جوگی کے ٹھوس تیقن اور سنگین اطمینان کے تقابل میں ایک خاموش صدا تھی کہ آؤ، جس مقام پر میں اس وقت ہوں۔ وہاں سے کھینچ کر مجھے یا تو نیچے گرا دو یا اس سے بھی اوپر لے جاؤ۔ اس طرف ہٹ کر ہم تین بیٹھے تھے۔ میں، نگار اور شہزادہ غلام علی۔ میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ بابا جی کی شخصیت سے بھی متاثر تھا اور اس پنڈتانی کے بے د اغ حسن سے بھی۔ فرش کی چمکیلی ٹائلوں نے بھی مجھے مرعوب کیا تھا۔ کبھی سوچتا تھا کہ ایسی ٹائلوں والی ایک کوٹھی مجھے مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ پھر سوچتا تھا کہ یہ پنڈتانی مجھے اور کچھ نہ کرنے دے، ایک صرف مجھے اپنی آنکھیں چوم لینے دے۔ اس کے تصور سے بدن میں تھرتھری پیدا ہوتی تو جھٹ اپنی نوکرانی کا خیال آتا جس سے تازہ تازہ مجھے کچھ وہ ہوا تھا۔ جی میں آتا کہ ان سب کو، یہاں چھوڑ کر سیدھا گھر جاؤں۔ شاید نظر بچا کر اسے اوپر غسل خانے تک لے جانے میں کامیاب ہو سکوں، مگر جب بابا جی پر نظر پڑتی اور کانوں میں قومی گیت کے پرجوش الفاظ گونجتے تو ایک دوسری تھرتھری بدن میں پیدا ہوتی اور میں سوچتا کہ کہیں سے پستول ہاتھ آجائے تو سول لائن میں جا کر انگریزوں کو مارنا شروع کردوں۔ اس چغد کے پاس نگار اور غلام علی بیٹھے تھے۔ دو محبت کرنے والے دل، جو تنہا محبت میں دھڑکتے دھڑکتے اب شاید کچھ اکتا گئے تھے اور جلدی ایک دوسرے میں محبت کے دوسرے رنگ دیکھنے کے لیے مدغم ہونا چاہتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ بابا جی سے، اپنے مسلمہ سیاسی رہنما سے شادی کی اجازت لینے آئے تھے اور جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں کے دماغ میں اس وقت قومی گیت کے بجائے ان کی اپنی زندگی کا حسین ترین مگر اَن سُنا نغمہ گونج رہا تھا۔ گیت ختم ہوا بابا جی نے بڑے مشفقانہ انداز سے پنڈتائی کو ہاتھ کے اشارے سے آشیرواد دیا اور مسکراتے ہوئے نگار اور غلام علی کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے بھی انھوں نے ایک نظر دیکھ لیا۔ غلام علی شاید تعارف کے لیے اپنا اور نگار کا نام بتانے والا تھا مگر بابا جی کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی اپنی میٹھی آواز میں کہا۔

’’شہزادے ابھی تک تم گرفتار نہیں ہوئے؟‘‘

غلام علی نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔

’’جی نہیں۔ ‘‘

بابا جی نے قلمدان سے ایک پنسل نکالی اور اس سے کھیلتے ہوئے کہنے لگے۔

’’مگر میں تو سمجھتا ہوں۔ تم گرفتار ہو چکے ہو۔ ‘‘

غلام علی اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ لیکن بابا جی نے فوراً ہی پنڈتانی کی طرف دیکھا اور نگار کی طرف اشارہ کرکے۔

’’نگار نے ہمارے شہزادے کو گرفتار کرلیا ہے۔ ‘‘

نگار محجوب سی ہو گئی۔ غلام علی کا منہ فرطِ حیرت کھلا کا کھلا رہ گیا اور پنڈتانی کے پیازی چہرے پر ایک دعائیہ چمک سی آئی۔ اس نے نگار اور غلام علی کو کچھ اس طرح دیکھا جیسے یہ کہہ رہی ہے۔

’’بہت اچھا ہوا۔ ‘‘

بابا جی ایک بار پھر پنڈتانی کی طرف متوجہ ہوئے۔

’’یہ بچے مجھ سے شادی کی اجازت لینے آئے ہیں۔ تم کب شادی کررہی ہو کمل؟‘‘

تو اس پنڈتانی کا نام کمل تھا۔ بابا جی کے اچانک سوال سے وہ بوکھلا گئی۔ اس کا پیازی چہرہ سرخ ہو گیا۔ کانپتی ہوئی آواز میں اس نے جواب دیا۔

’’میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔ ‘‘

ایک ہلکی سی آہ بھی ان الفاظ میں لپٹ کرباہر آئی۔ جسے بابا جی کے ہشیار دماغ نے فوراً نوٹ کیا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر جوگیانہ انداز میں مسکرائے اور غلام علی اور نگار سے مخاطب ہو کرکہنے گا۔

’’تو تم دونوں فیصلہ کر چکے ہو۔ ‘‘

دونوں نے دبی زبان میں جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

بابا جی نے اپنی سیاست بھری آنکھوں سے ان کو دیکھا۔

’’انسان جب فیصلے کرتا ہے تو کبھی کبھی اُن کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔ ‘‘

پہلی دفعہ بابا جی کی بارعب موجودگی میں غلام علی نے انھیں اس کی الھڑ اور بیباک جوانی سے کہا۔

’’یہ فیصلہ اگر کسی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو بھی اپنی جگہ پر اٹل رہے گا۔ ‘‘

بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں اور جرح کے انداز میں پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

حیرت ہے کہ غلام علی بالکل نہ گھبرایا۔ شاید اس دفعہ نگارسے جو اسے پرخلوص محبت تھی وہ بول اٹھی۔

’’بابا جی ہم نے ہندوستان کو آزادی دلانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وقت کی مجبوریاں اسے تبدیل کرتی رہیں۔ مگر جو فیصلہ ہے وہ تو اٹل ہے۔ ‘‘

بابا جی نے جیسا کہ میرا اب خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا مناسب خیال نہ کیا چنانچہ وہ مسکرا دیے۔ اس مسکراہٹ کا مطلب بھی ان کی تمام مسکراہٹوں کی طرح ہر شخص نے بالکل الگ الگ سمجھا۔ اگر بابا جی سے پوچھا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا مطلب ہم سب سے بالکل مختلف بیان کرتے۔ خیر۔ اس ہزار پہلو مسکراہٹ کو اپنے پتلے ہونٹوں پر ذرا اور پھیلاتے ہوئے انھوں نے نگار سے کہا۔

’’نگار تم ہمارے آشرم میں آجاؤ۔ شہزادہ تو تھوڑے دنوں میں قید ہو جائے گا۔ ‘‘

نگار نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب۔

’’جی اچھا۔ ‘‘

اس کے بعد بابا جی نے شادی کا موضوع بدل کر جلیانوالہ باغ کیمپ کی سرگرمیوں کا حال پوچھنا شروع کردیا۔ بہت دیر تک غلام علی، نگار اور کمل گرفتاریوں، رہائیوں، دودھ، لسّی اور ترکاریوں کے متعلق باتیں کرتے رہے اور جو میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ یہ سوچ رہا تھا کہ بابا جی نے شادی کی اجازت دینے میں کیوں اتنی مین میخ کی ہے۔ کیا وہ غلام علی اور نگار کی محبت کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں؟۔ کیا انھیں غلام علی کے خلوص پرشبہ ہے؟ نگار کو انھوں نے کیا آشرم میں آنے کی اس لیے دعوت دی کہ وہاں رہ کر وہ اپنے قید ہونے والے شوہر کا غم بھول جائے گی؟۔ لیکن بابا جی کے اس سوال پر

’’کمل تم کب شادی کررہی ہو۔ ‘‘

کمل نے کیوں کہا تھا کہ میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں؟۔ آشرم میں کیا مرد عورت شادی نہیں کرتے؟۔ میرا ذہن عجب مخمصے میں گرفتار تھا۔ مگر اُدھر یہ گفتگو ہورہی تھی کہ لیڈی والنٹیرز کیا پانچ سو رضاکاروں کے لیے چپاتیاں وقت پر تیار کرلیتی ہیں؟ چولہے کتنے ہیں؟ اور توے کتنے بڑے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بہت بڑا چولہا بنالیا جائے اور اس پر اتنا بڑا توا رکھا جائے کہ چھ عورتیں ایک ہی وقت میں روٹیاں پکا سکیں؟ میں یہ سوچ رہا تھا کہ پنڈتانی کمل کیا آشرم میں جا کر باباجی کو بس قومی گیت اور بھجن ہی سنایا کرے گی۔ میں نے آشرم کے مرد والنٹیر دیکھے تھے۔ گر وہ سب کے سب وہاں کے قواعد کے مطابق ہر روز اشنان کرتے تھے، صبح اٹھ کر دانتن کرتے تھے، باہر کھلی ہوا میں رہتے تھے۔ بھجن گاتے تھے۔ مگر ان کے کپڑوں سے پسینے کی بو پھر بھی آتی تھی، ان میں اکثر کے دانت بدبودار تھے اور وہ جو کھلی فضا میں رہنے سے انسان پر ایک ہشاش بشاش نکھار آتا ہے۔ ان میں بالکل مفقود تھا۔ جُھکے جُھکے سے، دبے دبے سے۔ زرد چہرے، دھنسی ہوئی آنکھیں، مرعوب جسم۔ گائے کے نچڑے ہوئے تھنوں کی طرح بے حس اور بے جان۔ میں ان آشرم والوں کو جلیانوالہ باغ میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مرد جن سے گھاس کی بو آتی ہے۔ اس پنڈتانی کو جو دودھ، شہد اور زعفران کی بنی ہے۔ اپنی کیچڑ بھری آنکھوں سے گھوریں گے۔ کیا یہی مرد جن کا منہ اس قدر متعفن ہوتا ہے۔ اس لوبان کی مہک میں لپٹی ہوئی عورت سے گفتگو کریں گے؟ لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں ہندوستان کی آزادی شاید ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ میں ان

’’شاید‘‘

کو اپنی تمام حب الوطنی اور جذبہ ءِ آزادی کے باوجود نہ سمجھ سکا۔ کیونکہ مجھے نگار کا خیال آیا جو بالکل میرے قریب بیٹھی تھی اور بابا جی کو بتارہی تھی کہ شلجم بہت دیر میں گلتے ہیں۔ کہاں شلجم اور کہاں شادی جس کے لیے وہ اور غلام علی اجازت لینے آئے تھے۔ میں نگار اور آشرم کے متعلق سوچنے لگا۔ آشرم میں نے دیکھا نہیں تھا۔ مگر مجھے ایسی جگہوں سے جن کو آشرم، ودیالہ جماعت خانہ، تکیہ، یا درسگاہ کہا جائے ہمیشہ سے نفرت ہے۔ جانے کیوں؟ میں نے کئی اندھ ودیالوں اور اناتھ آشرموں کے لڑکوں اور ان کے متنظموں کو دیکھا ہے۔ سڑک میں قطار باندھ کرچلتے اور بھیک مانگتے ہوئے۔ میں نے جماعت خانے اور درس گاہیں دیکھی ہیں۔ ٹخنوں سے اونچا شرعی پائجامہ، بچپن ہی میں ماتھے پر محراب، جو بڑے ہیں ان کے چہرے پر گھنی داڑھی۔ جو نوخیر ہیں ان کے گالوں اور ٹھڈی پر نہایت ہی بدنما موٹے اور مہین بال۔ نماز پڑھتے جارہے ہیں لیکن ہر ایک کے چہرے پر حیوانیت۔ ایک ادھوری حیوانیت مصلے پر بیٹھی نظر آتی ہے۔ نگار عورت تھی۔ مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائی عورت نہیں۔ وہ صرف عورت تھی، نہیں عورت کی دعا تھی جو اپنے چاہنے والے کے لیے یا جسے وہ خود چاہتی ہے صدق دل سے مانگتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ بابا جی کے آشرم میں جہاں ہر روز قواعد کے مطابق دعا مانگی جاتی ہے۔ یہ عورت جو خود ایک دعا ہے۔ کیسے اپنے ہاتھ اٹھا سکے گی۔ میں اب سوچتا ہوں تو بالا جی، نگار، غلام علی، وہ خوبصورت پنڈتانی اور امرتسر کی ساری فضا جو تحریک آزادی کے رومان آفرین کیف میں لپٹی ہوئی تھی۔ ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا خواب جو ایک بار دیکھنے کے بعد جی چاہتا ہے آدمی پھر دیکھے۔ بابا جی کا آشرم میں نے اب بھی نہیں دیکھا مگر جو نفرت مجھے اس سے پہلے تھی اب بھی ہے۔ وہ جگہ جہاں فطرت کے خلاف اصول بنا کر انسانوں کو ایک لکیر پرچلایا جائے میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ آزادی حاصل کرنا بالکل ٹھیک ہے! اس کے حصول کے لیے آدمی مر جائے، میں اس کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن اس کے لیے اگر اس غریب کو ترکاری کی طرح ٹھنڈا اور بے ضرر بنا دیا جائے تو یہی میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔ جھونپڑوں میں رہنا، تن آسانیوں سے پرہیز کرنا، خدا کی حمد گانا، قومی نعرے مارنا۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر یہ کیا کہ انسان کی اس حِس کو جسے طلبِ حسن کہتے ہیں آہستہ آہستہ مردہ کردیا جائے۔ وہ انسان کیا جس میں خوبصورت اور ہنگاموں کی تڑپ نہ رہے۔ ایسے آشرموں، مدرسوں، ودیالوں اور مولیوں کے کھیت میں کیا فرق ہے۔ دیر تک بابا جی، غلام علی اور نگار سے جلیانوالہ باغ کی جملہ سرگرمیوں کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے اس جوڑے کو جو کہ ظاہر ہے کہ اپنے آنے کا مقصد بھول نہیں گیا تھا۔ کہا کہ وہ دوسرے روز شام کو جلیانوالہ باغ آئیں گے اور ان دونوں کو میاں بیوی بنا دیں گے۔ غلام علی اور نگار بہت خوش ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان کی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی تھی کہ بابا جی خود شادی کی رسم ادا کریں گے۔ غلام علی جیسا کہ اس نے مجھے بہت بعد میں بتایا اس قدر خوش ہوا تھا کہ فوراً ہی سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ شاید جو کچھ اس نے سنا ہے غلط ہے۔ کیونکہ بابا جی کے منحنی ہاتھوں کی خفیف سی جنبش بھی ایک تاریخی حادثہ بن جاتی تھی۔ اتنی بڑی ہستی ایک معمولی آدمی کی خاطر جو محض اتفاق سے کانگرس کا ڈکٹیٹر بن گیا ہے۔ چل کے جلیانوالہ باغ جائے اور اس کی شادی میں دلچسپی لے۔ یہ ہندوستان کے تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی جلی سرخی تھی۔ غلام علی کا خیال تھا بابا جی نہیں آئیں گے۔ کیونکہ وہ بہت مصروف آدمی ہیں لیکن اس کا یہ خیال جس کا اظہار دراصل اس نے نفسیاتی نقطہ نگاہ سے صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ ضرور آئیں، اس کی خواہش کے مطابق غلط ثابت ہوا۔ شام کے چھ بجے جلیانوالہ باغ میں جب رات کی رانی کی جھاڑیاں اپنی خوشبو کے جھونکے پھیلانے کی تیاریاں کررہی تھیں اور متعدد رضاکار دولہا دلہن کے لیے ایک چھوٹا تنبو نصب کرکے اسے چمیلی، گیندے اور گلاب کے پھولوں سے سجا رہے تھے۔ بابا جی اس قومی گیت گانے والی پنڈتانی، اپنے سیکرٹری اور لالہ ہری رام صراف کے ہمراہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے۔ اس کی آمد کی اطلاع جلیانوالہ باغ میں صرف اسی وقت پہنچی، جب صدر دروازے پر لالہ ہری رام کی ہری موٹر رکی۔ میں بھی وہیں تھا۔ لیڈی والنٹیرز ایک دوسرے تنبو میں نگار کو دلہن بنا رہی تھیں۔ غلام علی نے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا۔ سارا دن وہ شہر کے کانگرسی بنیوں سے رضا کاروں کے کھانے پینے کی ضروریات کے متعلق گفتگو کرتا رہا تھا۔ اس سے فارغ ہوکر اس نے چند لمحات کے لیے نگار سے تخلیے میں کچھ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس نے اپنے ماتحت افسروں سے صرف اتنا کہا تھا کہ شادی کی رسم ادا ہونے کے ساتھ ہی وہ اور نگار دونوں جھنڈا اونچا کریں گے۔ جب غلام علی کو بابا جی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو وہ کنوئیں کے پاس کھڑا تھا۔ میں غالباً اس سے یہ کہہ رہا تھا۔

’’غلام علی تم جانتے ہوں یہ کنواں، جب گولی چلتی تھی لاشوں سے لبالب بھر گیا تھا۔ آج سب اس کا پانی پیتے ہیں۔ اس باغ کے جتنے پھول ہیں۔ اس کے پانی نے سینچے ہیں۔ مگر لوگ آتے ہیں اور انھیں توڑ کر لے جاتے ہیں۔ پانی کے کسی گھونٹ میں لہو کا نمک نہیں ہوتا۔ پھول کی کسی پتی میں خون کی لالی نہیں ہوتی۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘

مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے یہ کہہ کر اپنے سامنے، اس مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھا جس میں کہا جاتا ہے کہ ایک نو عمر لڑکی بیٹی تماشا دیکھ رہی تھی اور جنرل ڈائر کی گولی کا نشانہ بن گئی تھی۔ اس کے سینے سے نکلے ہوئے خون کی لکیر چونے کی عمر رسیدہ دیوار پر دھندلی ہورہی تھی۔ اب خون کچھ اس قدر ارزاں ہو گیا کہ اس کے بہنے بہانے کا وہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے چھ سات مہینے بعد جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ہمارا ماسٹر ساری کلاس کو ایک دفعہ اس باغ میں لے گیا۔ اس وقت یہ باغ باغ نہیں تھا۔ اجاڑ، سنسان اور اونچی نیچی خشک زمین کا ایک ٹکڑا تھا جس میں ہر قدم پر مٹی کے چھوٹے بڑے ڈھیلے ٹھوکریں کھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیلا جس پر جانے پان کی پیک کے دھبے یا کیا تھا، ہمارے ماسٹر نے اٹھا لیا تھا اور ہم سے کہا تھا۔ دیکھو اس پر ابھی تک ہمارے شہیدوں کا خون لگا ہے۔ یہ کہانی لکھ رہا ہوں اور حافظے کی تختی پر سینکڑوں چھوٹی چھوٹی باتیں ابھر رہی ہیں مگر مجھے تو غلام علی اور نگار کی شادی کا قصہ بیان کرنا ہے۔ غلام علی کو جب بابا جی کی آمد کی خبر ملی تو اس نے دوڑ کر سب والنٹیر اکٹھے کیے جنہوں نے فوجی انداز میں ان کو سیلوٹ کیا۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ وہ غلام علی مختلف کیمپوں کا چکرلگاتے رہے۔ اس دوران میں بابا جی نے جن کی مزاحیہ حس بہت تیز تھی۔ لیڈی والنٹیرز اور دوسرے ورکرز سے گفتگوکرتے وقت کئی فقرے چُست کیے۔ ادھر ادھر مکانوں میں جب بتیاں جلنے لگیں اور دھندلا اندھیرا سا جلیانوالہ باغ پر چھا گیا تو رضا کار لڑکیوں نے ایک آواز ہو کر بھجن گانا شروع کیا۔ چند آوازیں سریلی، باقی سب کن سری تھیں۔ مگر ان کا مجموعی اثر بہت خوشگوار تھا۔ بابا جی آنکھیں بن کیے سن رہے تھے۔ تقریباً ایک ہزار آدمی موجود تھے۔ جو چبوترے کے اردگرد زمین پر بیٹھے تھے۔ بھجن گانے والی لڑکیوں کے علاوہ ہر شخص خاموش تھا۔ بھجن ختم ہونے پر چند لمحات تک ایسی خاموشی طاری رہی جو ایک دم ٹوٹنے کے لیے بے قرارہو۔ چنانچہ جب بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور اپنی میٹھی آواز میں کہا۔

’’بچو، جیسا کہ تمہیں معلوم ہے۔ میں یہاں آج آزادی کے دو دیوانوں کو ایک کرنے آیا ہوں۔ ‘‘

تو سارا باغ خوشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔ نگار دلہن بنی چبوترے کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ کھادی کی ترنگی ساری میں بہت بھلی دکھائی دے رہی تھی۔ بابا جی نے اشارے سے اسے بلایا اور غلام علی کے پاس بٹھا دیا۔ اس پر اور خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔ غلام علی کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتما رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ جب اس نے نکاح کا کاغذ اپنے دوست سے لے کربابا جی کو دیا تو اس کا ہاتھ لرز گیا۔ چبوترے پر ایک مولوی صاحب بھی موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جو ایسے موقعوں پر پڑھا کرتے ہیں۔ بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایجاب و قبول ختم ہوا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں دولھا دولہن کو آشیرواد دی اور جب چھوہاروں کی بارش شروع ہوئی تو انھوں نے بچوں کی طرح جھپٹ جھپٹ کر دس پندرہ چھوہارے اکٹھے کرکے اپنے پاس رکھ لیے۔ نگار کی ایک ہندو سہیلی نے شرمیلی مسکراہٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا غلام علی کو دی اور اس سے کچھ کہا۔ غلام علی نے ڈبیا کھولی اور نگار کی سیدھی مانگ میں سیندور بھر دیا۔ جلیانوالہ باغ کی خنک فضا ایک بار پھر تیالیوں کی تیز آواز سے گونج اٹھی۔ بابا جی اس شور میں اٹھے۔ ہجوم ایک دم خاموش ہو گیا۔ رات کی رانی اور چمیلی کی ملی جلی سوندھی سوندھی خوشبو شام کی ہلکی پھلکی ہوا میں تیر رہی تھی۔ بہت سہانا سماں تھا۔ بابا جی کی آواز آج اور بھی میٹھی تھی۔ غلام علی اور نگار کی شادی پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرنے کے بعد انھوں نے کہا۔ یہ دونوں بچے اب زیادہ تندہی اور خلوص سے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔ کیونکہ شادی کا صحیح مقصد مرد اور عورت کی پرخلوص دوستی ہے۔ ایک دوسرے کے دوست بن کر غلام علی اور نگار یکجہتی سے سوراج کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ یورپ میں ایسی کئی شادیاں ہوتی ہیں جن کا مطلب دوستی اور صرف دوستی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قابل احترام ہیں جو اپنی زندگی سے شہوت نکال پھینکتے ہیں۔ بابا جی دیر تک شادی کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ صحیح مزا صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب مرد اور عورت کا تعلق صرف جسمانی نہ ہو۔ عورت اور مرد کا شہوانی رشتہ ان کے نزدیک اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں آدمی کھاتے ہیں۔ اپنے ذائقے کی حس کو خوش کرنے کے لیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنا انسانی فرض ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کھاتے ہیں زندہ رہنے کے لیے۔ اصل میں صرف یہی لوگ ہیں۔ جو خوردونوش کے صحیح قوانین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ انھیں شادی کے مطہر جذبے کی حقیقت اور اس رشتے کی تقدیس معلوم۔ حقیقی معنوں میں ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بابا جی نے اپنے اس عقیدے کو کچھ اس وضاحت کچھ ایسے نرم و نازک خلوص سے بیان کیا کہ سننے والوں کے لیے ایک بالکل نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ میں خود بہت متاثر ہوا۔ غلام علی جو میرے سامنے بیٹھا تھا۔ بابا جی کی تقریر کے ایک ایک لفظ کو جیسے پی رہا تھا۔ بابا جی نے جب بولنا بند کیا تو اس نے نگار سے کچھ کہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اس نے کانپتی ہوئی آواز میں یہ اعلان کیا۔

’’میری اور نگار کی شادی اسی قسم کی آدرش شادی ہو گی، جب تک ہندوستان کو سوراج نہیں ملتا۔ میرا اور نگار کا رشتہ بالکل دوستوں جیسا ہو گا۔ ‘‘

جلیانوالہ باغ کی خنک فضا دیر تک تالیوں کے بے پناہ شور سے گونجتی رہی۔ شہزادہ غلام علی جذباتی ہو گیا۔ اس کے کشمیری چہرے پر سرخیاں دوڑنے لگیں۔ جذبات کی اسی دوڑ میں اس نے نگار کو بلند آواز میں مخاطب کیا۔

’’نگار! تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہو گا؟‘‘

نگار جو کچھ شادی ہونے پر اور کچھ بابا جی کی تقریر سن کر بوکھلائی ہوئی تھی۔ یہ کڑک سوال سن کر اور بھی بوکھلا گئی۔ صرف اتنا کہہ سکی۔

’’جی؟۔ جی نہیں۔ ‘‘

ہجوم نے پھر تالیاں پیٹیں اور غلام علی اور زیادہ جذباتی ہو گیا۔ نگار کو غلام بچے کی شرمندگی سے بچا کر وہ اتنا خوش ہوا کہ وہ بہک گیا اور اصل موضوع سے ہٹ کر آزادی حاصل کرنے کی پیچدار گلیوں میں جا نکلا۔ ایک گھنٹے تک وہ جذبات بھری آواز میں بولتا رہا۔ اچانک اس کی نظر نگار پر پڑی۔ جانے کیا ہوا۔ ایک دم اس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ جیسے آدمی شراب کے نشے میں بغیر کسی حساب کے نوٹ نکالتا جائے اور ایک دم بٹوہ خالی پائے۔ اپنی تقریر کا بٹوہ خالی پا کر غلام علی کو کافی الجھن ہوئی۔ مگر اس نے فوراً ہی بابا جی کی طرف دیکھا اور جھک کرکہا۔

’’بابا جی۔ ہم دونوں کو آپ کا آشیرواد چاہیے کہ جس بات کا ہم نے عہد کیا ہے، اس پر پورے رہیں۔ ‘‘

دوسرے روز صبح چھ بجے شہزادہ غلام علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کیونکہ اس تقریر میں جو اس نے سوراج ملنے تک بچہ پیدا نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد کی تھی۔ انگریزوں کا تختہ الٹنے کی دھمکی بھی تھی۔ گرفتار ہونے کے چند روز بعد غلام علی کو آٹھ مہینے کی قید ہوئی اور ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ وہ امرتسر کا اکیالیسواں ڈکٹیٹر تھا اور شاید چالیس ہزارواں سیاسی قیدی۔ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے۔ اس تحریک میں قید ہونے والے لوگوں کی تعداد اخباروں نے چالیس ہزار ہی بتائی تھی۔ عام خیال تھا کہ آزادی کی منزل اب صرف دو ہاتھ ہی دور ہے۔ لیکن فرنگی سیاستدانوں نے اس تحریک کا دودھ ابلنے دیا اور جب ہندوستان کے بڑے لیڈروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوا تو یہ تحریک ٹھنڈی لسی میں تبدیل ہو گئی۔ آزادی کے دیوانے جیلوں سے باہر نکلے تو قید کی صعوبتیں بھولنے اور اپنے بگڑے ہوئے کاروبار سنوارنے میں مشغول ہو گئے۔ شہزادہ غلام علی سات مہینے کے بعد ہی باہر آگیا تھا۔ گو اس وقت پہلا سا جوش نہیں تھا۔ پھر بھی امرتسر کے اسٹیشن پر لوگوں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کے اعزاز میں تین چار دعوتیں اور جلسے بھی ہوئے۔ میں ان سب میں شریک تھا۔ مگر یہ محفلیں بالکل پھیکی تھیں۔ لوگوں پر اب ایک عجیب قسم کی تھکاوٹ طاری تھی جیسے ایک لمبی دوڑ میں اچانک دوڑنے والوں سے کہہ دیا گیا تھا۔ ٹھہرو، یہ دوڑ پھر سے شروع ہو گی۔ اور اب جیسے یہ دوڑنے والے کچھ دیر ہانپنے کے بعد دوڑ کے مقام آغاز کی طرف بڑی بے دلی کے ساتھ واپس آرہے تھے۔ کئی برس گزر گئے۔ یہ بے کیف تھکاوٹ ہندوستان سے دور نہ ہوئی تھی۔ میری دنیا میں چھوٹے موٹے کئی انقلاب آئے۔ داڑھی مونچھی اگی، کالج میں داخل ہوا۔ ایف اے میں دوبارہ فیل ہوا۔ والد انتقال کرگئے، روزی کی تلاش میں ادھر ادھر پریشان ہوا۔ ایک تھرڈ کلاس اخبار میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کی، یہاں سے جی گھبرایا تو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور تین ہی مہینے بعد دق کا مریض ہو کرکشمیر کے دیہاتوں میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ وہاں سے لوٹ کر بمبئی کا رخ کیا۔ یہاں دو برسوں میں تین ہندو مسلم فساد دیکھے۔ جی گھبرایا تو دلی چلا گیا۔ وہاں بمبئی کے مقابلے میں ہر چیز سست رفتار دیکھی۔ کہیں حرکت نظر بھی آئی تو اس میں ایک زنانہ پن محسوس ہوا۔ آخر یہی سوچا کہ بمبئی اچھا ہے۔ کیا ہوا ساتھ والے ہمسائے کو ہمارا نام تک پوچھنے کی فرصت نہیں۔ جہاں لوگوں کو فرصت ہوتی ہے۔ وہاں ریا کاریاں اور چالبازیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ دلی میں دو برس ٹھنڈی زندگی بسر کرنے کے بعد سدا متحرک بمبئی چلا آیا۔ گھر سے نکلے اب آٹھ برس ہو چلے تھے۔ دوست احباب اور امرتسر کی سڑکیں گلیاں کس حالت میں ہیں۔ اس کا مجھے کچھ علم نہیں تھا کسی سے خط و کتابت ہی نہیں تھی۔ جو پتًہ چلتا۔ دراصل مجھے ان آٹھ برسوں میں اپنے مستقبل کی طرف سے کچھ بے پروائی سی ہو گئی تھی۔ کون بیتے ہوئے دنوں کے متعلق سوچے۔ جو آٹھ برس پہلے خرچ ہو چکا ہے۔ اس کا اب احساس کرنے سے فائدہ؟۔ زندگی کے روپے میں وہی پائی زیادہ اہم ہے جسے تم آج خرچنا چاہتے ہو یا جس پرکل کسی کی آنکھ ہے۔ آج سے چھ برس پہلے کی بات کررہا ہوں۔ جب زندگی کے روپے اور چاندی کے روپے سے جس پر بادشاہ سلامت کی چھاپ ہوتی ہے۔ پائی خارج نہیں ہوئی تھی۔ میں اتنا زیادہ قلاش نہیں تھا۔ کیونکہ فورٹ میں اپنے پاؤں کے لیے ایک قیمتی شو خریدنے جارہا تھا۔ آرمی اینڈ نیوی اسٹور کے صرف ہارنبی روڈ پر جوتوں کی ایک دکان ہے جس کی نمائشی الماریاں مجھے بہت دیر سے اس طرف کھینچ رہی تھی۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہے چنانچہ یہ دکان ڈھونڈنے میں کافی وقت صرف ہو گیا۔ یوں تو میں اپنے لیے ایک قیمتی شو خریدنے آیا تھا مگر جیسا کہ میری عادت ہے دوسری دکانوں میں سجی ہوئی چیزیں دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔ ایک اسٹور میں سگریٹ کیس دیکھے، دوسرے میں پائپ اسی طرح فٹ پاتھ پر ٹہلتا ہوا جوتوں کی ایک چھوٹی سی دکان کے پاس آیا اور اس کے اندر چلا گیا کہ چلو یہیں سے خرید لیتے ہیں، دکاندار نے میرا استقبال کیا اور پوچھا۔

’’کیا مانگتا ہے صاحب۔ ‘‘

میں نے تھوڑی دیر یاد کیا کہ مجھے کیا چاہیے۔

’’ہاں۔ کریپ سول شو۔ ‘‘

’’ادھر نہیں رکھتا ہم۔ ‘‘

مون سون قریب تھی۔ میں نے سوچا گم بوٹ ہی خرید لوں۔

’’گم بوٹ نکالو۔ ‘‘

’’بابو والے کی دکان سے ملیں گے۔ ربڑ کی کئی چیز ہم ادھر نہیں رکھتا۔ ‘‘

میں نے ایسے ہی پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

’’سیٹھ کی مرضی۔ ‘‘

یہ مختصر مگر جامع جواب سنکر میں دکان سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک خوش پوش آدمی پر میری نظر پڑی جو باہر فٹ پاتھ پر ایک بچہ گود میں اٹھائے پھل والے سے سنگترہ خرید رہا تھا۔ میں باہر نکلا اور وہ دکان کی طرف مڑا۔

’’ارے۔ غلام علی۔

’’سعادت یہ کہہ کر اس نے بچے سمیت مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ بچے کو یہ حرکت ناگوار معلوم ہوئی۔ چنانچہ اس نے رونا شروع کردیا۔ غلام علی نے اس آدمی کو بلایا۔ جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ربڑ کی کوئی چیز ادھر ہم نہیں رکھتا اور اسے بچہ دے کر کہا

’’جاؤ اسے گھر لے جاؤ۔ ‘‘

پھر وہ مجھ سے غاطب ہوا۔

’’کتنی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملے ہیں۔ ‘‘

میں نے غلام علی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ کجکلاہی، وہ ہلکا سا گنڈا پن جو اس کی امتیازی شان تھا۔ اب بالکل مفقود تھا۔ میرے سامنے آتشیں تقریریں کرنے والے کھادی پوش نوجوان کی جگہ ایک گھریلو قسم کا عام انسان کھڑا تھا۔ مجھے اس کی وہ آخری تقریر یاد آئی۔ جب اس نے جلیانوالہ باغ کی خنک فضا کو ان گرم الفاظ سے مرتعش کیا تھا۔

’’نگار۔ تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہو گا‘‘

۔ فوراً ہی مجھے اس بچے کا خیال آیا۔ جو غلام علی کی گود میں تھا۔ میں اس سے یہ پوچھا۔

’’یہ بچہ کس کا ہے؟‘‘

غلام علی نے بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

’’میرا۔ اس سے بڑا ایک اور بھی ہے۔ کہو، تم نے کتنے پیدا کیے۔ ‘‘

ایک لحظے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے غلام علی کے بجائے کوئی اور ہل بول رہا ہے۔ میرے دماغ میں سینکڑوں خیال اوپر تلے گرتے گئے۔ کیا غلام علی اپنی قسم بالکل بھول چکا ہے۔ کیا اس کی سیاسی زندگی اس سے قطعاً علیحدہ ہو چکی ہے۔ ہندوستان کو آزادی دلانے کا وہ جوش، وہ ولولہ کہاں گیا۔ اس بے ریش و بروت للکار کا کیا ہوا۔ نگار کہاں تھی؟۔ کیا اس نے دو غلام بچوں کی ماں بننا گوارا کیا۔ شاید وہ مرچکی ہو۔ ہو سکتا ہے۔ غلام علی نے دوسری شادی کرلی ہو۔

’’کیا سوچ رہے ہو۔ کچھ باتیں کرو۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔ ‘‘

غلام علی نے میرے کاندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔ میں شاید خاموش ہو گیا تھا۔ ایک دم چونکا اور ایک لمبی

’’ہاں‘‘

کرکے سوچنے لگا کہ گفتگو کیسے شروع کروں۔ لیکن غلام علی نے میرا انتظار نہ کیا اور بولنا شروع کردیا۔

’’یہ دکان میری ہے۔ دو برس سے میں یہاں بمبئی میں ہوں۔ بڑا اچھا کاروبار چل رہا ہے۔ تین چار سو مہینے کے بج جاتے ہیں۔ تم کیا کررہے ہو۔ سنا ہے کہ بہت بڑے افسانہ نویس بن گئے ہو۔ یاد ہے ہم ایک دفعہ یہاں بھاگ کے آئے تھے۔ لیکن یار عجیب بات ہے۔ اس بمبئی اور اس بمبئی میں بڑا فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ چھوٹی تھی اور یہ بڑی ہے۔ ‘‘

اتنے میں ایک گاہک آیا۔ جسے ٹینس شو چاہیے تھا۔ غلام علی نے اس سے کہا۔

’’ربڑ کا مال اِدھر نہیں ملتا۔ بازو کی دکان میں چلے جائیے۔ ‘‘

گاہک چلا گیا تو میں نے غلام سے پوچھا۔

’’ربڑ کا مال تم کیوں نہیں رکھتے میں بھی یہاں کریپ سول شو لینے آیا تھا۔ ‘‘

یہ سوال میں نے یونہی کیا تھا۔ لیکن غلام علی کا چہرہ ایک دم بے رونق ہو گیا۔ دھیمی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’مجھے پسند نہیں۔ ‘‘

’’کیا پسند نہیں؟‘‘

’’یہی ربڑ۔ ربڑ کی بنی ہوئی چیزیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ جب ناکام رہا تو زور سے خشک سا قہقہہ لگایا۔

’’میں تمہیں بتاؤں گا۔ ہے تو بالکل واہیات سی چیز، لیکن۔ لیکن میری زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ ‘‘

تفکر کی گہرائی غلام علی کے چہرے پر پیدا ہوئی۔ اس کی آنکھیں جن میں ابھی تک کھلنڈرا پن موجود تھا۔ ایک لحظے کے لیے دھندلی ہوئیں۔ لیکن پھر چمک اٹھیں۔

’’بکواس تھی یار وہ زندگی۔ سچ کہتا ہوں سعادت میں وہ دن بالکل بھول چکا ہوں۔ جب میرے دماغ پر لیڈری سوار تھی۔ چار پانچ برس سے اب بڑے سکون میں ہوں۔ بیوی ہے بچے ہیں، اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے۔ ‘‘

اللہ کے فضل و کرم سے متاثر ہو کر غلام علی نے بزنس کا ذکر شروع کردیا کہ کتنے سرمائے اس نے کام شروع کیا تھا۔ ایک برس میں کتنا فائدہ ہوا۔ اب بنک میں اس کا کتنا روپیہ ہے۔ میں نے اسے درمیان میں ٹوکا اور کہا۔

’’لیکن تم نے کسی واہیات چیز کا ذکر کیا تھا۔ جس کا تمہاری زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ ‘‘

ایک بار پھر غلام علی کا چہرہ بے رونق ہو گیا۔ اس نے ایک لمبی ہاں کی اور جواب دیا۔

’’گہرا تعلق تھا۔ شکر ہے کہ اب نہیں ہے۔ لیکن مجھے ساری داستان سنانی پڑے گی۔ ‘‘

اتنے میں اس کا نوکر آگیا۔ دکان اس کے سپرد کرکے وہ مجھے اندر اپنے کمرے میں لے گیا۔ جہاں بیٹھ کر اس نے مجھے اطمینان سے بتایا کہ اسے ربڑ کی چیزوں سے کیوں نفرت پیدا ہوئی۔

’’میری سیاسی زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔ اس کے متعلق تم اچھی طرح جانتے ہو۔ میرا کیریکٹر کیسا تھا۔ یہ بھی تمہیں معلوم ہے۔ ہم دونوں قریب قریب ایک جیسے ہی تھے۔ میرا مطلب ہے ہمارے ماں باپ کسی سے فخریہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہمارے لڑکے بے عیب ہیں۔ معلوم نہیں میں تم سے یہ کیوں کہہ رہا ہوں۔ لیکن شاید تم سمجھ گئے ہو کہ میں کوئی مضبوط کیریکٹر کا مالک نہیں تھا۔ مجھے شوق تھا کہ میں کچھ کروں۔ سیاست سے مجھے اسی لیے دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔ لیکن میں خدا کی قسم کھا کرکہتا ہوں کہ میں جھوٹا نہیں تھا۔ وطن کے لیے میں جان بھی دے دیتا۔ اب بھی حاضر ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں۔ بہت غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستان کی سیاست، اس کے لیڈر سب ناپختہ ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح میں تھا۔ ایک لہر اٹھتی ہے۔ اس میں جوش، زور، شورسبھی ہوتا ہے۔ لیکن فوراً ہی بیٹھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ لہر پیدا کی جاتی ہے، خود بخود نہیں اٹھتی۔ لیکن شاید میں تمہیں اچھی طرح سمجھا نہیں سکا۔ ‘‘

غلام علی کے خیالات میں بہت الجھاؤ تھا۔ میں نے اسے سگرٹ دیا۔ اسے سلگا کر اس نے زور سے تین کش لیے اور کہا۔

’’تمہارا کیا خیال ہے۔ کیا ہندوستان کی ہر کوشش جو اس نے آزادی حاصل کرنے کے لیے کی ہے۔ غیر فطری نہیں۔ کوشش نہیں۔ میرا مطلب ہے اس کا انجام کیا ہر بار غیر فطری نہیں ہوتا رہا۔ ہمیں کیوں آزادی نہیں ملتی۔ کیا ہم سب نامرد ہیں؟ نہیں، ہم سب مرد ہیں۔ لیکن ہم ایسے ماحول میں ہیں کہ ہماری قوت کا ہاتھ آزادی تک پہنچنے ہی نہیں پاتا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’تمہارا مطلب ہے آزادی اور ہمارے درمیان کوئی چیز حائل ہے۔ ‘‘

غلام علی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

’’بالکل۔ لیکن یہ کوئی پکی دیوار نہیں ہے۔ کوئی ٹھوس چٹان نہیں ہے۔ ایک پتلی سی جھلی ہے۔ ہماری اپنی سیاست کی، ہماری مصنوعی زندگی کی جہاں لوگ دوسروں کو دھوکا دینے کے علاوہ اپنے آپ سے بھی فریب کرتے ہیں۔ ‘‘

اس کے خیالات بدستور الجھے ہوئے تھے۔ میرا خیال ہے وہ اپنے گزشتہ تجربوں کو اپنے دماغ میں تازہ کررہا تھا۔ سگرٹ بجھا کر اس نے میری طرف دیکھا اور بلند آواز میں کہا۔

’’انسان جیسا ہے ایسے ویسا ہی ہونا چاہیے نیک کام کرنے کے لیے یہ کیا ضروری ہے کہ انسان اپنا سر منڈائے، گیروے کپڑے پہنے یا بدن پر راکھ ملے، تم کہو گے۔ یہ اس کی مرضی ہے۔ لیکن میں کہتاہو ں اس کی اس مرضی ہی سے اس کی اس نرالی چیز ہی سے گمراہی پھیلتی ہے۔ یہ لوگ اونچے ہو کر انسان کی فطری کمزوریوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ بالکل بھول جاتے ہیں کہ ان کے کردار۔ ان کے خیالات اور عقیدے تو ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔ لیکن ان کے منڈے ہوئے سر، ان کے بدن کی راکھ اور ان کے گیردے کپڑے سادہ لوح انسانوں کے دماغ میں رہ جائیں گے۔ ‘‘

غلام علی زیادہ جوش میں آگیا۔

’’دنیا میں اتنے مصلح پیدا ہوئے ہیں۔ ان کی تعلیم تو لوگ بھول چکے ہیں۔ لیکن صلیبیں، دھاگے، داڑھیاں، کڑے اور بغلوں کے بال رہ گئے ہیں۔ ایک ہزار برس پہلے جو لوگ یہاں بستے تھے۔ ہم ان سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ آج کے مصلح کیوں خیال نہیں کرتے کہ وہ انسان کی شکل مسخ کررہے ہیں۔ جی میں کئی دفعہ آتا ہے۔ بلند آواز میں چلانا شروع کردوں۔ خدا کے لیے انسان کو انسان رہنے دو۔ اس کی صورت کو تم بگاڑ چکے ہو، ٹھیک ہے۔ اب اس کے حال پر رحم کرو۔ تم اس کو خدا بنانے کی کوشش کرتے ہو، لیکن وہ غریب اپنی انسانیت بھی کھو رہا ہے۔ سعادت، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ یہ میرے دل کی آواز ہے۔ میں نے جو محسوس کیا ہے۔ وہی کہہ رہا ہوں۔ اگر یہ غلط ہے تو پھر کوئی چیز درست اور صحیح نہیں ہے۔ میں نے دو برس، پورے دو برس دماغ کے ساتھ کئی کشتیاں لڑی ہیں۔ میں نے اپنے دل، اپنے ضمیر، اپنے جسم، اپنے روئیں روئیں سے بحث کی ہے۔ مگر اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انسان کو انسان ہی رہنا چاہیے۔ نفس ہزاروں میں ایک دو آدمی ماریں۔ سب نے اپنا نفس مارلیا تو میں پوچھتا ہوں یہ کشتہ کام کس کے آئے گا؟‘‘

یہاں تک کہہ کر اس نے ایک اور سگرٹ لیا اور اسے سلگانے میں ساری تیلی جلا کر گردن کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔

’’کچھ نہیں سعادت۔ تم نہیں جانتے۔ میں نے کتنی روحانی اور جسمانی تکلیف اٹھائی ہے۔ لیکن فطرت کے خلاف جو بھی قدم اٹھائے گا۔ اسے تکلف برداشت کرنی ہی ہو گی۔ میں نے اس روز۔ تمہیں یاد ہو گا وہ دن۔ جلیانوالہ باغ میں اس بات کا اعلان کرکے کہ نگار اورمیں غلام بچے پیدا نہیں کریں گے ایک عجیب قسم کی برقی مسرت محسوس کی تھی۔ مجھے ایسا لگا تھا کہ اس اعلان کے بعد میرا سر اونچا ہو کر آسمان کے ساتھ جا لگا ہے۔ لیکن جیل سے واپس آنے کے بعد مجھے آہستہ آہستہ اس بات کا تکلیف دہ۔ بہت ہی اذیت رساں احساس ہونے لگا کہ میں نے اپنے جسم کا اپنی روح کا ایک بہت ہی ضروری حصہ مفلوج کردیا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے میں نے اپنی زندگی کے باغ کا سب سے حسین پھول مسل ڈالا ہے۔ شروع شروع میں اس خیال سے مجھے ایک عجیب قسم کا تسلی بخش فخر محسوس ہوتا رہا کہ میں نے ایسا کام کیا ہے جو دوسروں سے نہیں ہوسکتا۔ لیکن دھیرے دھیرے جب میرے شعور کے مسام کھلنے لگے تو حقیقت اپنی تمام تلخیوں سمیت میرے رگ و ریشے میں رچنے لگی۔ جیل سے واپس آنے پر میں نگار سے ملا۔ ہسپتال چھوڑ کر وہ بابا جی کے آشرم میں چلی گئی تھی۔ سات مہینے کے قید کے بعد جب میں اس سے ملا تو اس کی بدلی ہوئی رنگت، اس کی تبدیل شدہ جسمانی اور دماغی کیفیت دیکھ کر میں نے خیال کیا۔ شاید میری نظروں نے دھوکا کھایا ہے۔ لیکن ایک برس گزرنے کے بعد۔ ایک برس اس کے ساتھ۔ ‘‘

غلام علی کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ہاں ایک برس اس کے ساتھ رہنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس کا غم بھی وہی ہے جو میراہے۔ لیکن وہ مجھ پر ظاہر کرنا چاہتی ہے، نہ میں اس پر ظاہر کرنا چاہتی ہوں۔ ہم دونوں اپنے عہد کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ایک برس میں سیاسی جوش آہستہ آہستہ ٹھنڈاہو چکا تھا۔ کھادی کے لباس اور ترنگے جھنڈوں میں اب وہ پہلی سی کشش باقی نہ رہی تھی۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ اگر کبھی بلند ہوتا بھی تا تو اس میں وہ شان نظر نہیں آتی تھی۔ جلیانوالہ باغ میں ایک تنبو بھی نہیں تھا۔ پرانے کیمپوں کے کھونٹنے کہیں کہیں گڑے نظر آتے تھے۔ خون سے سیاست کی حرارت قریب قریب نکل چکی تھی۔ میں اب زیادہ وقت گھر ہی میں رہتا تھا، اپنی بیوی کے پاس‘‘

۔ ایک بار پھر غلام علی کے ہونٹوں پر وہی زخمی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ میں بھی چپ رہا۔ کیونکہ میں اس کے خیالات کا تسلسل توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ چند لمحات کے بعد اس نے اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھا اور سگرٹ بجھا کر کہنے لگا۔

’’ہم دونوں ایک عجیب قسم کی لعنت میں گرفتار تھے۔ نگار سے مجھے جتنی محبت ہے۔ تم اس سے واقف ہو۔ میں سوچنے لگا۔ یہ محبت کیا ہے؟۔ میں اس کو ہاتھ لگاتا ہوں تو کیوں اس کے رد عمل کو اپنی معراج پر پہنچنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میں کیوں ڈرتا ہوں کہ مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے گا۔ مجھے نگار کی آنکھیں بہت پسند ہیں۔ ایک روز جب کہ شاید میں بالکل صحیح حالت میں تھا، میرا مطلب ہے جیسا کہ ہر انسان کو ہونا چاہیے تھا۔ میں نے انھیں چوم لیا۔ وہ میرے بازوؤں میں تھی۔ یوں کہو کہ ایک کپکپی تھی جو میرے بازوؤں میں تھی۔ قریب تھا کہ میری روح اپنے پرچھڑا کر پھڑپھڑاتی ہوئی اونچے آسمان کی طرف اڑ جائے کہ میں نے۔ کہ میں نے اسے پکڑ لیا اور قید کردیا۔ اس کے بعد بہت دیر تک۔ کئی دنوں تک اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میرے اس فعل سے۔ میرے اس بہادرانہ کارنامے سے میری روح کو ایسی لذت ملی ہے جس سے بہت کم انسان آشنا ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اس میں ناکام رہا اور اس ناکامی نے جسے میں ایک بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہتا تھا۔ خدا کی قسم یہ میری دلی خواہش تھی کہ میں ایسا سمجھوں مجھے دنیا کا سب سے زیادہ دکھی انسان بنا دیا۔ لیکن جیسا کہ تم جانتے ہو۔ انسان حیلے بہانے تلاش کرلیتا ہے، میں نے بھی ایک راستہ نکال لیا۔ ہم دونوں سوجھ رہے تھے۔ اندر ہی اندر ہماری تمام لطافتوں پر پپڑی جم رہی تھی۔ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے غیر بن رہے تھے۔ نے سوچا۔ بہت دنوں کے غور و فکر کے بعد ہم اپنے عہد پر قائم رہ کر بھی۔ میرا مطلب ہے کہ نگار غلام بچے پیدا نہیں کرے گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس کے ہونٹوں پر تیسری بار وہ زخمی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ لیکن فوراً ہی ایک بلند قہقہے میں تبدیل ہو گئی۔ جس میں تکلیف دہ احساس کی چبھن نمایاں تھی۔ پھر فوراً ہی سنجیدہ ہو کروہ کہنے لگا۔

’’ہماری ازواجی زندگی کا یہ عجیب و غریب دور شروع ہوا۔ اندھے کو جیسے ایک آنکھ مل گئی۔ میں ایک دم دیکھنے لگا لیکن یہ بصارت تھوڑی دیر ہی کے بعد دھندلی ہونے لگی۔ پہلے پہل تو یہی خیال تھا۔ غلام علی موزوں الفاظ تلاش کرنے لگا۔

’’پہلے پہل تو ہم مطمئن تھے۔ میرا مطلب ہے شروع شروع میں ہمیں اس کا قطعاً خیال نہیں تھا کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد ہم نامطمئن ہو جائیں گے۔ یعنی ایک آنکھ تقاضا کرنے لگی کہ

’’دوسری آنکھ بھی ہو۔ آغاز میں ہم دونوں نے محسوس کیا تھا جیسے ہم صحت مند ہورہے ہیں، ہماری تندرستی بڑھ رہے۔ نگار کا چہرہ نکھر گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی تھی۔ میرے اعضا سے بھی خشک سا تناؤ دور ہو گیا تھا جو پہلے مجھے تکلیف دیا کرتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ہم دونوں پر عجیب قسم کی مردنی چھانے لگی۔ ایک برس ہی میں ہم دونوں ربڑ کے پتلے سے بن گئے۔ میرا احساس زیادہ شدید تھا۔ تم یقین نہیں کرو گے، لیکن خدا کی قسم اس وقت جب میں بازو کا گوشت چٹک میں لیتا تو بالکل ربڑ معلوم ہوتا۔ ایسا لگتا تھا کہ اندر خون کی نسیں نہیں ہیں۔ نگار کی حالت مجھ سے، جہاں تک میرا خیال ہے مختلف تھی۔ اس کے سوچنے کا زاویہ اور تھا، وہ ماں بننا چاہتی تھی۔ گلی میں جب بھی کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اسے بہت سی آہیں چھپ چھپ کر اپنے سینے کے اندر دفن کرنا پڑتی تھیں۔ لیکن مجھے بچوں کا کوئی خیال نہیں تھا، بچے نہ ہوئے تو کیا ہے۔ دنیا میں لاکھوں انسان موجود ہیں جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ میں اپنے عہد پر قائم ہوں۔ اس سے تسکین تو کافی ہو جاتی تھی مگر میرے ذہن پر جب ربڑ کا مہین مہین جالا تننے لگا تو میری گھبراہٹ بڑھ گئی۔ میں ہر وقت سوچنے لگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے دماغ کے ساتھ ربڑ کالمس چمٹ گیا۔ روٹی کھاتا تو لقمے دانتوں کے نیچے کچکچانے لگتے۔

’’یہ کہتے ہوئے غلام علی کو پھریری آگئی۔ ‘‘

بہت ہی واہیات اور غلط چیز تھی۔ انگلیوں میں ہرقت جیسے صابن سا لگا ہے۔ مجھے اپنے آپ سے نفرت ہو گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ میری روح کا سارا رس نچڑ گیا ہے اور اس چھلکا سا باقی رہ گیا ہے، استعمال شدہ۔ استعمال شدہ۔ غلام علی ہنسنے لگا۔ شکر ہے کہ وہ لعنت دور ہوئی۔ لیکن سعادت، کن اذیتوں کے بعد۔ زندگی بالکل سوکھے ہوئے چھیچھڑے کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ ساری حِسیں مردہ ہو گئی تھیں۔ لیکن لمس کی حس غیر فطری حد تک تیز ہو گئی تھی۔ تیز نہیں۔ اس کا صرف ایک رخ ہو گیا تھا۔ لڑکی میں، شیشے میں، لوہے میں، کاغذ میں، پتھر میں ہر جگہ ربڑ کی وہ مردہ، وہ ابکائی بھری ملائمی!!۔ یہ عذاب اور بھی شدید ہو جاتا جب میں اس کی وجہ کا خیال کرتا۔ میں دو انگلیوں سے اس لعنت کو اٹھا کرپھینک سکتا تھا، لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ میں چاہتا تھا مجھے کوئی سہارا مل جائے۔ عذاب کے اس سمندر میں مجھے ایک چھوٹا سا تنکا مل جائے جس کی مدد سے میں کنارے لگ جاؤں۔ بہت دیر تک میں ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ لیکن ایک روز جب کوٹھے پر دھوپ میں ایک مذہبی کتاب پڑھ رہا تھا، پڑھ کیا رہا تھا۔ ایسے ہی سرسری نظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک حدیث پر پڑی۔ خوشی سے اچھل پڑا۔ سہارا میری آنکھوں کے سامنے موجود تھا۔ میں نے بار بار وہ سطریں پڑھیں۔ میری خشک زندگی جیسے سراب ہونے لگی۔ لکھا تھا کہ شادی کے بعد میاں بیوی کے لیے بچے پیدا کرنے لازم ہیں۔ صرف اسی حالت میں ان کی پیدائش روکنے کی اجازت ہے۔ جب والدین کی زندگی خطرے میں ہو۔ میں نے دو انگلیوں سے اس لعنت کو اٹھایا اور ایک طرف پھینک دیا۔ ‘‘

یہ کہہ وہ بچوں کی طرح مسکرانے لگا میں بھی مسکرا دیا۔ کیونکہ اس نے دو انگلیوں سے سگرٹ کا ٹکڑا اٹھا کر ایک طرف ایسے پھینکا تھا جیسے وہ کوئی نہایت ہی مکروہ چیز ہے۔ مسکراتے مسکراتے غلام علی دفعتہً سنجیدہ ہو گیا۔

’’مجھے معلوم ہے سعادت۔ میں نے جو کچھ تم سے کہا ہے تم اس کا افسانہ بنا دو گے۔ لیکن دیکھو میرا مذاق مت اڑانا۔ خدا کی قسم میں نے کچھ محسوس کیا تھا وہی تم سے کہا ہے۔ میں اس معاملے میں تم سے بحث نہیں کروں گا۔ لیکن میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فطرت کی خلاف ورزی ہرگز ہرگز بہادری نہیں۔ یہ کوئی کارنامہ نہیں کہ تم فاقہ کشی کرتے کرتے مر جاؤ، یا زندہ رہو۔ قبر کھو کر اس میں گڑ جانا اور کئی کئی دن اس کے اندر دم سادھے رکھنا، نوکیلی کیلوں کے بستر پر مہینوں لیٹے رہنا، ایک ہاتھ برسوں اوپر اٹھائے رکھنا، حتیٰ کہ وہ سوکھ سوکھ کر لکڑی ہو جائے۔ ایسے مداری پنے سے خدا مل سکتا ہے نہ سوراج۔ اور میں تو سمجھتا ہوں۔ ہندوستان کو سوراج صرف اس لیے نہیں مل رہا کہ یہاں مداری زیادہ ہیں اور لیڈر کم۔ جو ہیں وہ قوانین فطرت کے خلاف چل رہے ہیں۔ ایمان اور صاف دلی کا برتھ کنٹرول کرنے کے لیے ان لوگوں نے سیاست ایجاد کرلی ہے اور یہی سیاست ہے جس نے آزادی کے رحم کا منہ بند کردیا ہے۔ ‘‘

غلام علی اس کے آگے بھی کچھ کہنے والا تھا کہ اس کا نوکر اندر داخل ہوا۔ اس کی گود میں شاید غلام علی کا دوسرا بچہ تھا۔ جس کے ہاتھ میں ایک خوشرنگ بیلون تھا۔ غلام علی دیوانوں کی طرح اس پر جھپٹا۔ پٹاخے کی سی آواز آئی۔ بیلون پھٹ گیا اور بچے کے ہاتھ میں دھاگے کے ساتھ ربڑ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لٹکتا رہ گیا۔ غلام علی نے دو انگلیوں سے اس ٹکڑے کو چھین کر یوں پھینکا جیسے وہ کوئی نہایت ہی مکروہ چیز تھی۔

سعادت حسن منٹو

سودا بیچنے والی

سہیل اورجمیل دونوں بچپن کے دوست تھے۔ ان کی دوستی کو لوگ مثال کے طور پر پیش کرتے تھے۔ دونوں اسکول میں اکٹھے پڑھے۔ پھر اس کے بعد سہیل کے باپ کا تبادلہ ہو گیا اور وہ راولپنڈی چلا گیا۔ لیکن ان کی دوستی پھر بھی قائم رہی۔ کبھی جمیل راولپنڈی چلا جاتا اور کبھی سہیل لاہور آجاتا۔ دونوں کی دوستی کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ حسن پسند تھے۔ وہ خوبصورت تھے۔ بہت خوبصورت لیکن وہ عام خوبصورت لڑکوں کی مانند بدکردار نہیں تھے۔ ان میں کوئی عیب نہیں تھا۔ دونوں نے بی اے پاس کیا۔ سہیل نے راولپنڈی کے گارڈن کالج اور جمیل نے لاہور کے گورنمنٹ کالج سے بڑے اچھے نمبروں پر۔ اس خوشی میں انھوں نے بہت بڑی دعوت کی۔ اس میں کئی لڑکیاں بھی شریک تھیں۔ جمیل قریب قریب سب لڑکیوں کو جانتا تھا، مگر ایک لڑکی کو جب اس نے دیکھا، جس سے وہ قطعاً ناآشنا تھا، تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے سارے خواب پورے ہو گئے ہیں۔ اس نے اس لڑکی کے متعلق، جس کا نام جمیلہ تھا، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سلمیٰ کی چھوٹی بہن ہے۔ سلمیٰ کے مقابلے میں جمیلہ بہت حسین تھی۔ سلمیٰ کی شکل و صورت سیدھی شادی تھی لیکن جمیلہ کا ہر نقش تیکھا اور دل کش تھا۔ جمیل اس کو دیکھتے ہی اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ اس نے فوراً اپنے دل کے جذبات سے اپنے دوست کو آگاہ کردیا۔ سہیل نے اس سے کہا۔

’’ہٹاؤ یار۔ تم نے اس لڑکی میں کیا دیکھا ہے جو اس بری طرح لٹو ہو گئے ہو؟‘‘

جمیل کو برا لگا:

’’تمہیں حسن کی پرکھ ہی نہیں۔ اپنا اپنا دل ہے۔ تمہیں اگر جمیلہ میں کوئی بات نظر نہیں آئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے دکھائی نہ دی ہو۔ ‘‘

سہیل ہنسا

’’تم ناراض ہورہے ہو۔ لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ تمہاری یہ جمیلہ برف کی ڈلی ہے، اس میں حرارت نام کو بھی نہیں۔ عورت کا دوسرا نام حرارت ہے۔ ‘‘

’’حرارت پیدا کرلی جاتی ہے۔ ‘‘

’’برف میں؟‘‘

’’برف بھی تو حرارت ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘

’’تمہاری یہ منطق عجیب وغریب ہے۔ اچھا بھئی جو چاہتے ہو، سو کرو۔ میں تو یہی مشورہ دوں گا کہ اس کا خیال اپنے دل سے نکال دو اس لیے کہ وہ تمہارے لائق نہیں ہے۔ تم اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو۔ ‘‘

دونوں میں ہلکی سی چخ ہوئی لیکن فوراً صلح ہو گئی۔ جمیل، سہیل کے مشورے کے بغیر اپنی زندگی میں کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ اس نے جب اپنے دوست پر یہ واضح کردیا کہ وہ جمیلہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تو سہیل نے اسے اجازت دے دی کہ جس قسم کی چاہے، جھک مار سکتا ہے۔ ‘‘

سہیل راولپنڈی چلا گیا۔ جمیل نے جو جمیلہ کے عشق میں بری طرح مبتلا تھا، اس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی، مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کی بڑی بہن سلمیٰ اس کو محبت کی نظروں سے دیکھتی تھی۔ اس نے ان کے گھر آنا جانا شروع کیا تو سلمیٰ بہت خوش ہوئی۔ وہ یہ سمجھتی تھی کہ جمیل اس کے جذبات سے واقف ہو چکا ہے اس لیے اس سے ملنے آتا ہے۔ چنانچہ اس نے غیر مبہم الفاظ میں اپنی محبت کا اظہار شروع کردیا۔ جمیل سخت پریشان تھا کہ کیا کرے۔ جب وہ ان کے گھر جاتا تو سلمیٰ اپنی چھوٹی بہن کو کسی نہ کسی بہانے سے اپنے کمرے سے باہر نکال دیتی اور جمیل دانت پیس کے رہ جاتا۔ کئی بار اس کے جی میں آئی کہ وہ سلمیٰ سے صاف صاف کہہ دے کہ وہ کس غرض سے آتا ہے۔ اس کواس سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ اس کی چھوٹی بہن سے محبت کرتا ہے۔ بے حد مختصر لمحات جو جمیل کو جمیلہ کی چند جھلکیاں دینے کے لیے نصیب ہوتے تھے، اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کئی باتیں کرنے کی کوشش کی اور یہ بار آورثابت ہوا۔ ایک دن اسے جمیلہ کا رقعہ ملا، جس کی عبارت یہ تھی:

’’میری بہن جس غلط فہمی میں گرفتار ہیں، اس کو آپ دور کیوں نہیں کرتے۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھ سے ملنے آتے ہیں لیکن باجی کی موجودگی میں آپ سے کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ البتہ آپ باہر جہاں بھی چاہیں، میں آسکتی ہوں۔ ‘‘

جمیل بہت خوش ہوا۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کون سی جگہ مقرر کرے اور پھر جمیلہ کو اس کی اطلاع کیسے دے۔ اس نے کئی محبت نامے لکھے اور پھاڑ دیے۔ اس لیے کہ ان کی ترسیل بڑی مشکل تھی۔ آخر اس نے یہ سوچا کہ سلمیٰ سے ملنے جائے اور موقع ملے تو جمیلہ کو اشارۃً وہ جگہ بتا دے، جہاں وہ اس سے ملنا چاہتا ہے۔ قریب قریب ایک مہینے تک وہ سلمیٰ سے ملنے جاتا رہا مگر کوئی موقع نہ ملا۔ لیکن ایک دن جب جمیلہ کمرے میں موجود تھی اور سلمیٰ اسے کسی بہانے سے باہر نکالنے والی تھی، جمیل نے بڑی بے ربطی سے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔

’’لارنس گارڈن۔ پانچ بجے۔ ‘‘

جمیلہ نے یہ سنا اور چلی گئی۔ سلمیٰ نے بڑی حیرت سے پوچھا

’’یہ آپ نے کیا کہا تھا؟‘‘

’’تم ہی سے تو کہا تھا۔ ‘‘

’’کیا کہا تھا؟‘‘

’’لارنس گارڈن۔ پانچ بجے‘‘

۔ میں چاہتا تھا کہ تم کل لارنس گارڈن میرے ساتھ چلو۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ایک پکنک ہو جائے۔ ‘‘

سلمیٰ خوش ہو گئی اور فوراً رضا مند ہو گئی کہ وہ جمیل کے ساتھ دوسرے روز شام کو پانچ بجے لارنس گارڈن میں ضرور جائے گی۔ وہ سینڈوچز بنانے میں مہارت رکھتی تھی، چنانچہ اس نے بڑے پیار سے کہا

’’چکن سینڈوچز کا انتظام میرے ذمے رہا۔ ‘‘

اسی شام کو پانچ بجے لارنس باغ میں جمیل اور جمیلہ سینڈوچ بنے ہوئے تھے۔ جمیل نے اس پر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا تو جمیلہ نے کہا۔

’’میں اس سے غافل نہیں تھی۔ پر کیا کروں، بیچ میں باجی حائل تھیں۔ ‘‘

’’تو اب کیا کیا جائے؟‘‘

’’ایسی ملاقاتیں زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکیں گی۔ ‘‘

’’یہ تو درست ہے۔ کل مجھے صرف اس ملاقات کی پاداش میں تمہاری باجی کے ساتھ یہاں آنا پڑے گا۔ ‘‘

’’اسی لیے تو میں سوچتی ہوں کہ اس کا کیا حل ہوسکتا ہے۔ ‘‘

’’تم حوصلہ رکھتی ہو؟‘‘

’’کیوں نہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟۔ میں ابھی آپ کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوں۔ بتائیے، کہاں چلنا ہے؟‘‘

’’اتنی جلدی نہ کرو۔ مجھے سوچنے دو۔ ‘‘

’’آپ سوچ لیجیے۔ ‘‘

’’کل شام کو چار بجے تم کسی نہ کسی بہانے سے یہاں چلی آنا، میں تمہارا انتظار کررہا ہوں گا۔ اس کے بعد ہم راولپنڈی روانہ ہو جائیں گے۔ ‘‘

’دطوفن بھی ہو تو میں کل اس مقررہ وقت پر یہاں پہنچ جاؤں گی۔ ‘‘

’’اپنے ساتھ زیور وغیرہ مت لانا۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں تمہیں خود خرید کے دے سکتا ہوں۔ ‘‘

’’میں اپنے زیور نہیں چھوڑ سکتی۔ باجی نے مجھے اپنی ایک بالی بھی آج تک پہننے کے لیے نہیں دی۔ میں اپنے زیور اس کے لیے چھوڑ جاؤں؟‘‘

دوسرے دن شام کو سلمیٰ سینڈوچز تیار کرنے میں مصروف تھی کہ جمیلہ نے الماری میں سے اپنے زیور اور اچھے اچھے کپڑے نکالے، انھیں سوٹ کیس میں بند کیا اور باہر نکل گئی۔ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوئی۔ سلمیٰ سینڈوچز تیار کرتی رہی اور جمیل اور جمیلہ دونوں ریل میں سوار تھے جو راولپنڈی کی طرف تیزی سے جارہی تھی۔ راولپنڈی پہنچ کر جمیل اپنے دوست سہیل کے پاس گیا جو اتفاق سے گھر میں اکیلا تھا۔ اس کے والدین ایبٹ آباد میں منتقل ہو گئے تھے۔ سہیل نے جب ایک برقعہ پوش عورت جمیل کے ساتھ دیکھی تو بڑا متحیر ہوا، مگر اس نے اپنے دوست سے کچھ نہ پوچھا۔ جمیل نے اس سے کہا

’’میرے ساتھ جمیلہ ہے۔ میں اسے اغوا کرکے تمہارے پاس لایا ہوں۔ ‘‘

سہیل نے پوچھا۔

’’اغوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’بڑا لمبا قصہ ہے۔ میں پھر کبھی سنادوں گا۔ ‘‘

پھر جمیل جمیلہ سے مخاطب ہوا۔

’’برقع اتار دو اور اس گھر کو اپنا گھر سمجھو۔ سہیل میرا عزیز ترین دوست ہے۔ ‘‘

جمیلہ نے برقع اتار دیا اور شرمیلی نگاہوں سے جن میں کسی اور جذبے کی بھی جھلک تھی، سہیل کی طرف دیکھا۔ سہیل کے ہونٹوں پر عجیب قسم کی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔

’’اب تمہارا ارادہ کیا ہے‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’شادی کرنے کا۔ لیکن فوراً نہیں۔ میں آج ہی واپس لاہور جانا چاہتا ہوں تاکہ وہاں کے حالات معلوم ہوسکیں۔ ہوسکتا ہے بہت گڑ بڑ ہو چکی ہو۔ میں اگر وہاں پہنچ گیا تو مجھ پر کسی کو شک نہیں ہو گا۔ دو تین روز وہاں رہوں گا۔ اس دوران میں تم ہماری شادی کا انتظام کردینا۔ ‘‘

سہیل نے ازراہ مذاق سے کہا۔

’’بڑے عقلمند ہوتے جارہے ہو تم۔ ‘‘

جمیل، جمیلہ کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔

’’یہ تمہاری صحبت ہی کا نتیجہ ہے۔ ‘‘

’’تم آج ہی چلے جاؤ گے؟‘‘

جمیل نے جواب دیا۔

’’ابھی۔ اسی وقت۔ مجھے صرف اپنے اس سرمایہ حیات کو تمہارے سپرد کرنا تھا۔ یہ میری امانت ہے۔ ‘‘

جمیل اپنی جمیلہ کو سہیل کے حوالے کرکے واپس لاہور آگیا۔ وہاں کافی گڑبڑ مچی ہوئی تھی۔ وہ سلمیٰ سے ملنے گیا۔ اس نے شکایت کی کہ وہ کہاں غائب ہو گیا تھا۔ جمیل نے اس سے جھوٹ بولا۔

’’مجھے سخت زکام ہو گیا تھا۔ افسوس ہے کہ میں تمہیں اس کی اطلاع نہ دے سکا، اس لیے کہ ہمارا ٹیلی فون خراب تھا اور نوکر کو امی جان نے کسی وجہ سے برطرف کردیا تھا۔ ‘‘

سلمیٰ جب مطمئن ہو گئی تو اس نے جمیل کو بتایا کہ اس کی بہن کہیں غائب ہو گئی ہے۔ بہت تلاش کی ہے مگر نہیں ملی۔ اپنے زیور کپڑے ساتھ لے گئی ہے۔ معلوم نہیں کس کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ جمیل نے بڑی ہمدردی کا اظہار کیا۔ سلمیٰ اس سے بڑی متاثر ہوئی اور اسے مزید یقین ہو گیا کہ جمیل اسے محبت کرتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جمیل نے محض رواداری کی خاطر اپنی جیب سے رومال نکال کر اس کی نمناک آنکھیں پونچھیں اور مصنوعی محبت کا اظہار کیا۔ سلمیٰ اپنی بہن کی گمشدگی کا صدمہ کچھ دیر کے لیے بھول گئی۔ جب جمیل کو اطمینان ہو گیا کہ اس پر کسی کو بھی شبہ نہیں تووہ ٹیکسی میں راولپنڈی پہنچا۔ بڑا بیتاب تھا۔ لاہور میں اس نے تین دن کانٹوں پر گزارے تھے۔ ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے جمیلہ کا حسین چہرہ رقص کرتا رہتا۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ وہ جب اپنے دوست کے گھر پہنچا تو اس نے جمیلہ کو آواز دی۔ اس کو یقین تھا کہ اس کی آواز سنتے ہی وہ اڑتی ہوئی آئے گی اور اس کے سینے کے ساتھ چمٹ جائے گی۔ مگر اسے ناامیدی ہوئی۔ اس کا دوست اس کی آواز سن کر آیا۔ دونوں ایک دوسرے کے گلے ملے۔ جمیل نے تھوڑے توقف کے بعد پوچھا۔

’’جمیلہ کہاں ہے؟‘‘

سہیل نے کوئی جواب نہ دیا۔ جمیل بڑا مضطرب تھا۔ اس نے پھر پوچھا۔

’’یار۔ جمیلہ کو بلاؤ۔ ‘‘

سہیل نے بڑے رقت آمیز لہجے میں کہا۔

’’وہ تو اسی روز چلی گئی تھی۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’جب تم یہاں اسے چھوڑ کر گئے تو وہ دو تین گھنٹوں کے غائب ہو گئی۔ اسے غالباً تم سے محبت نہیں تھی۔ ‘‘

جمیل پھر لاہور آیا۔ مگر سلمیٰ سے اسے معلوم ہوا کہ اس کی بہن ابھی تک غائب ہے، بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی۔ چنانچہ جمیل کو پھرراولپنڈی جانا پڑا تاکہ وہ اس کی تلاش وہاں کرے۔ وہ اپنے دوست کے گھر نہ گیا۔ اس نے سوچا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا چاہیے۔ جہاں سے مطلوبہ معلومات حاصل ہونے کی توقع ہو سکتی ہے۔ جب اس نے راولپنڈی کے ایک ہوٹل میں کمرے کرائے پر لیا تو اس نے دیکھا کہ جمیلہ ساتھ والے کمرے میں سہیل کی آغوش میں ہے۔ وہ اسی وقت اپنے کمرے سے نکل آیا۔ لاہور پہنچا۔ جمیلہ کے زیورات اس کے پاس تھے، یہ اس نے بیمہ کراکر اپنے دوست کو بھیج دیے اور صرف چند الفاظ ایک کاغذ پر لکھ کر ساتھ رکھ دیے۔

’’میں تمہاری کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ جمیلہ کو میرا سلام پہنچا دینا۔ ‘‘

دوسرے دن وہ سلمیٰ سے ملا۔ وہ اس کو جمیلہ سے کہیں زیادہ خوب صورت دکھائی دی۔ وہ اپنی بہن کی گمشدگی کے غم میں رو رہی تھی۔ جمیل نے اس کی آنکھیں چومیں اور کہا

’’یہ آنسو بیکار ضائع نہ کرو۔ انھیں ان اشخاص کے لیے محفوظ رکھو، جو ان کے مستحق ہیں۔ ‘‘

’’لیکن وہ میری بہن ہے۔ ‘‘

’’بہنیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اسے بھول جاؤ۔ ‘‘

جمیل نے سلمیٰ سے شادی کرلی۔ دونوں بہت خوش تھے۔ گرمیوں میں مری گئے تو وہاں انھوں نے جمیلہ کو دیکھا جس کا حسن ماند پڑ گیا تھا اور نہایت واہیات قسم کا میک اپ کیے تھے، پنڈی پوائنٹ پر یوں چل پھر رہی تھی جیسے اسے کوئی سودا بیچنا ہے۔

سعادت حسن منٹو

سو کینڈل پاور کا بلب

وہ چوک میں قیصر پارک کے باہر جہاں ٹانگے کھڑے رہتے ہیں۔ بجلی کے ایک کھمبے کے ساتھ خاموش کھڑا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے! یہی پارک جو صرف دو برس پہلے اتنی پُررونق جگہ تھی اب اجڑی پچڑی دکھائی تھی۔ جہاں پہلے عورت اور مرد شوخ و شنگ فیشن کے لباسوں میں چلتے پھرتے تھے۔ وہاں اب بے حد میلے کچیلے کپڑوں میں لوگ ادھر ادھر بیم قصد پھر رہے تھے۔ بازار میں کافی بھیڑ تھی مگر اس میں وہ رنگ نہیں تھا جو ایک میلے ٹھیلے کا ہوا کرتا تھا۔ آس پاس کی سیمنٹ سے بنی ہوئی بلڈنگیں اپنا روپ کھو چکی تھیں۔ سرجھاڑ منہ پھاڑ ایک دوسرے کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں۔ جیسے بیوہ عورتیں۔ وہ حیران تھا کہ وہ غازہ کہاں گیا۔ وہ سپندور کہاں اڑگیا۔ وہ سر کہاں غائب ہو گئے جو اس نے کبھی یہاں دیکھے اور سنے تھے۔ زیادہ عرصہ کی بات نہیں، ابھی وہ کل ہو تو(دو برس بھی کوئی عرصہ ہوتا ہے) یہاں آیا تھا۔ کلکتے سے جب اسے یہاں کی ایک فرم نے اچھی تنخواہ پر بلایا تھا تو اس نے قیصر پارک میں کتنی کوشش کی کہ اسے کرائے پر ایک کمرہ ہی مل جائے مگر وہ ناکام رہا تھا۔ ہزار فرمائشوں کے باوجود۔ مگراب اس نے دیکھا کہ جس کنجڑے، جولا ہے اور موچی کی طبیعت چاہتی تھی۔ فلیٹوں اور کمروں پر اپنا قبضہ جما رہا تھا۔ جہاں کسی شان دار فلم کمپنی کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ وہاں چولہے سلگ رہے ہیں۔ جہاں کبھی شہر کی بڑی بڑی رنگین ہستیاں جمع ہوتی تھیں۔ وہاں دھوبی میلے کپڑے دھو رہے ہیں۔ دو برس میں اتنا بڑا انقلاب! وہ حیران تھا۔ لیکن اس کو اس انقلاب کا پس منظر معلوم تھا۔ اخباروں کے ذریعہ سے اور ان دوستوں سے جو شہرمیں موجود تھے۔ اسے سب پتہ لگ چکا تھا کہ یہاں کیسا طوفان آیا تھا۔ مگر وہ سوچتا تھا کہ یہ کوئی عجیب و غریب طوفان تھا جو عمارتوں کا رنگ و روپ بھی چوس کر لے گیا۔ انسانوں نے انسان قتل کیے۔ عورتوں کی بے عزتی کی۔ لیکن عمارتوں کی خشک لکڑیوں اور ان کی اینٹوں سے بھی یہی سلوک کیا۔ اس نے سنا تھا کہ اس طوفان میں عورتوں کو ننگا کیا گیا تھا۔ ان کی چھاتیاں کاٹی گئی تھیں۔ یہاں اس کے آس پاس جو کچھ تھا۔ سب ننگا اور جوبن بریدہ تھا۔ وہ بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگا اپنے ایک دوست کا انتظار کررہا تھا۔ جس کی مدد سے وہ اپنی رہائش کا کوئی بندوبست کرنا چاہتا تھا۔ اس دوست نے اس سے کہا کہ تم قیصر پارک کے پاس جہاں تانگے کھڑے رہا کرتے ہیں میرا انتظار کرنا۔ دو برس ہوئے جب وہ ملازمت کے سلسلے میں یہاں آیا تو یہ ٹانگوں کا اڈا بہت مشہور جگہ تھی، سب سے عمدہ، سب سے بانکے ٹانگے صرف یہیں کھڑے رہتے تھے۔ کیونکہ یہاں سے عیاشی کا ہر سامان مہیا ہو جاتا تھا۔ اچھے سے اچھا ریسٹورنٹ اور ہوٹل قریب تھا۔ بہترین چائے، بہترین کھانا اور دوسرے لوازمات بھی۔ شہر کے جتنے بڑے دلال تھے وہ یہیں دستیاب ہوتے تھے۔ اس لیے کہ قیصر پارک میں بڑی بڑی کمپنیوں کے باعث روپیہ اور شراب پانی کی طرح بہتے تھے۔ اس کو یاد آیا کہ دو برس پہلے اس نے اپنے دوست کے ساتھ بڑے عیش کیے تھے۔ اچھی سے اچھی لڑکی ہر رات کو ان کی آغوش میں ہوتی تھی۔ اسکاچ جنگ کے باعث نایاب تھی مگر ایک منٹ میں درجنوں بوتلیں مہیا ہو جاتی تھیں۔ ٹانگے اب بھی کھڑے تھے مگر ان پروہ کلغیاں، وہ پھندنے، وہ پیتل کے پالش کیے ہوئے سازو سامان کی چمک دمک نہیں تھی۔ یہ بھی شاید دوسری چیزوں کے ساتھ اڑ گئی تھی۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ پانچ بج چکے تھے۔ فروری کے دن تھے۔ شام کے سائے چھانے شروع ہو گئے تھے۔ اس نے دل ہی دل میں اپنے دوست کو لعنت ملامت کی اور دائیں ہاتھ کے ویران ہوٹل میں موری کے پانی سے بنائی ہوئی چائے پینے کے لیے جانے ہی والا تھا کہ کسی نے اس کو ہولے سے پکارا۔ اس نے خیال کیا کہ شاید اس کا دوست آگیا۔ مگر جب اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک اجنبی تھا۔ عام شکل و صورت کا، لٹھے کی نئی شلوار میں جس میں اب اور زیادہ شکنوں کی گنجائش نہیں تھی۔ نیلی پاپلین کی قمیض جو لانڈری میں جانے کے لیے بیتاب تھی۔ اس نے پوچھا

’’کیوں بھئی۔ تم نے مجھے بلایا؟‘‘

اس نے ہولے سے جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

اس نے خیال کہ مہاجر ہے بھیک مانگنا چاہتا ہے۔

’’کیا مانگتے ہو؟‘‘

اس نے اسی لہجے میں جواب دیا۔

’’جی کچھ نہیں۔ ‘‘

پھر قریب آکر کہا۔

’’کچھ چاہیے آپ کو؟‘‘

’’کیا؟‘‘

’’کوئی لڑکی وڑکی۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے سینے میں ایک تیر سا لگا کہ دیکھو اس زمانے میں بھی یہ لوگوں کے جنسی جذبات ٹٹولتا پھرتا ہے۔ اور پھر انسانیت کے متعلق اوپر تلے اس کے دماغ میں بڑے حوصلہ شکن خیالات آئے۔ انہی خیالات کے زیر اثر اس نے پوچھا۔

’’کہاں ہے؟‘‘

اس کا لہجہ دلال کے لیے امید افزا نہیں تھا۔ چنانچہ قدم اٹھاتے ہوئے اس نے کہا۔

’’جی نہیں آپ کو ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ ‘‘

اس نے اس کو روکا۔

’’یہ تم نے کس طرح جانا۔ انسان کو ہر وقت اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو تم مہیا کرسکتے ہو۔ وہ سولی پر بھی۔ جلتی چتا میں بھی۔ ‘‘

وہ فلسفی بننے ہی والا تھا کہ رک گیا۔

’’دیکھو۔ اگر کہیں پاس ہی ہے تو میں چلنے کے لیے تیار ہوں۔ میں نے یہاں ایک دوست کو وقت دے رکھا ہے۔ ‘‘

دلال قریب آگیا۔

’’پاس ہی۔ بالکل پاس۔ ‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’یہ سامنے والی بلڈنگ میں۔ ‘‘

اس نے سامنے والی بلڈنگ کو دیکھا۔

’’اس میں۔ اس بڑی بلڈنگ میں؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

وہ لرز گیا۔

’’اچھا۔ تو۔ ؟‘‘

سنبھل کر اس نے پوچھا۔

’’میں بھی چلوں؟‘‘

’’چلیے۔ لیکن میں آگے آگے چلتا ہوں۔ ‘‘

اور دلال نے سامنے والی بلڈنگ کی طرف چلنا شروع کردیا۔ وہ سینکڑوں روح شگاف باتیں سوچتا اس کے پیچھے ہولیا۔ چند گزوں کا فاصلہ تھا۔ فوراً طے ہو گیا۔ دلال اور وہ دونوں اس بڑی بلڈنگ میں تھے۔ جس کی پیشانی پر ایک بورڈ لٹک رہا تھا۔ اس کی حالت سب سے خستہ تھی، جگہ جگہ اکھڑی ہوئی اینٹوں، کٹے ہوئے پانی کے نلوں اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیرتھے۔ اب شام گہری ہو گئی تھی۔ ڈیوڑھی میں سے گزر کر آگے بڑھے تو اندھیرا شروع ہو گیا۔ چوڑا چکلا صحن طے کرکے وہ ایک صرف مڑا۔ عمارت بنتے بنتے رک گئی تھی۔ ننگی اینٹیں تھیں۔ چونہ اور سیمنٹ ملے ہوئے سخت ڈھیر پڑے تھے اور جا بجا بجری بکھری ہوئی تھی۔ دلال نامکمل سیڑھیاں چڑھنے لگا کہ مڑ کر اس نے کہا۔

’’آپ یہیں ٹھہریئے۔ میں اب آیا۔ ‘‘

وہ رک گیا۔ دلال غائب ہو گیا۔ اس نے منہ اوپر کرکے سیڑھیوں کے اختتام کی طرف دیکھا تو اسے تیز روشنی نظر آئی۔ دو منٹ گزر گئے تو دبے پاؤں وہ بھی اوپر چڑھنے لگا۔ آخری زینے پر اسے دلال کی بہت زور کی کڑک سنائی دی۔

’’اٹھتی ہے کہ نہیں؟‘‘

کوئی عورت بولی۔

’’کہہ جودیا مجھے سونے دو۔ ‘‘

اس کی آواز گھٹی گھٹی سی تھی۔ دلال پھر کڑکا۔

’’میں کہتا ہوں اٹھ۔ میرا کہا نہیں مانے گی تو یاد رکھ۔ ‘‘

عورت کی آوازئی۔

’’تو مجھے مار ڈال۔ لیکن میں نہیں اٹھوں گی۔ خدا کے لیے میرے حال پر رحم کر۔ ‘‘

دلال نے پچکارا۔

’’اٹھ میری جان۔ ضد نہ کر۔ گزارہ کیسے چلے گا۔ ‘‘

عورت بولی۔

’’گزارہ جائے جہنم میں۔ میں بھوکی مر جاؤں گی۔ خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کر۔ مجھے نیند آرہی ہے۔ ‘‘

دلال کی آواز کڑی ہو گئی۔

’’تو نہیں اٹھے گی۔ حرامزادی، سور کی بچی۔ ‘‘

عورت چلانے لگی۔

’’میں نہیں اٹھوں گی۔ نہیں اٹھوں گی۔ نہیں اٹھوں گی۔ ‘‘

دلال کی آواز بھنچ گئی۔

’’آہستہ بول۔ کوئی سن لے گا۔ لے چل اٹھ۔ تیس چالیس روپے مل جائیں گے۔ ‘‘

عورت کی آواز میں التجا تھی دیکھ میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔ میں کتنے دنوں سے جاگ رہی ہوں۔ رحم کر۔ خدا کے لیے مجھ پر رحم کر۔ ‘‘

’’بس ایک دو گھنٹے کے لیے۔ پھر سو جانا۔ نہیں تو دیکھ مجھے سختی کرنی پڑے گی‘‘

تھوڑی دیر کے لیے خاموشی طاری ہو گئی۔ اس نے دبے پاؤں آگے بڑھ کر اس کمرے میں جھانکا جس میں بڑی تیز روشنی آرہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی ہے جس کے فرش پر ایک عورت لیٹی ہے۔ کمرے میں دو تین برتن ہیں، بس اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ دلال اس عورت کے پاس بیٹھا اس کے پاؤں داب رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے اس عورت سے کہا۔

’’لے اب اٹھ۔ قسم خدا کی ایک دو گھنٹے میں آجائے گی۔ پھر سو جانا۔ ‘‘

وہ عورت ایک دم یوں اٹھی جیسے آگ دکھائی ہوئی چھچھوندر اٹھتی ہے اور چلائی۔

’’اچھا اٹھتی ہوں۔ ‘‘

وہ ایک طرف ہٹ گیا۔ اصل میں وہ ڈر گیا تھا۔ دبے پاؤں وہ تیزی سے نیچے اتر گیا۔ اس نے سوچا کہ بھاگ جائے۔ اس شہر ہی سے بھاگ جائے۔ اس دنیا سے بھاگ جائے۔ مگر کہاں؟‘‘

پھر اس نے سوچا کہ یہ عورت کون ہے؟ کیوں اس پر اتنا ظلم ہورہا ہے؟۔ اور یہ دلال کون ہے؟۔ اس کا کیا لگتا ہے اور یہ اس کمرے میں اتنا بلب جلا کر جو سوکینڈل پاور سے کسی طرح بھی کم نہیں تھا۔ کیوں رہتے ہیں۔ کب سے رہتے ہیں؟ اس کی آنکھوں میں اس تیز بلب کی روشنی ابھی تک گھسی ہوئی تھی۔ اس کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مگر وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی تیز روشنی میں کون سو سکتا ہے؟۔ اتنا بڑا بلب؟۔ کیا وہ چھوٹا نہیں لگا سکتے۔ یہی پندرہ پچیس کینڈل پاور کا؟ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ آہٹ ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ دو سائے اس کے پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے جو دلال کا تھا۔ اس سے کہا۔

’’دیکھ لیجیے۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’دیکھ لیا ہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے نا؟‘‘

ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’چالیس روپے ہوں گے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’دے دیجیے۔ ‘‘

وہ اب سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ جیب میں اس نے ہاتھ ڈالا اور کحھ نوٹ نکال کر دلال کے حوالے کردیے۔

’’دیکھ لو کتنے ہیں!‘‘

نوٹوں کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔ دلال نے کہا۔

’’پچاس ہیں۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’پچاس ہی رکھو۔ ‘‘

’’صاحب سلام۔ ‘‘

اس کے جی میں آئی کہ ایک بہت بڑا پتھر اٹھا کر اس کو دے مارے۔ دلال بولا۔

’’تو لے جائیے اسے۔ لیکن دیکھیے تنگ نہ کیجیے گا اور پھر ایک دو گھنٹے کے بعد چھوڑ جائیے گا۔ ‘‘

’’بہتر۔ ‘‘

اس نے بڑی بڈنگ کے باہر نکلنا شروع کیا جس کی پیشانی پر وہ کئی بار ایک بہت بڑا بورڈ پڑھ چکا تھا۔ باہر ٹانگہ کھڑا تھا۔ وہ آگے بیٹھ گیا اور عورت پیچھے۔ دلال نے ایک بار پھر سلام کیا اور ایک بار پھر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ایک بہت بڑا پتھر اٹھا کر اس کے سر پر دے مارے۔ ٹانگہ چل پڑا۔ وہ اسے پاس ہی ایک ویران سے ہوٹل میں لے گیا۔ دماغ کو حتی المقدور اس تکدر سے جو اسے پہنچ چکا تھا نکال کر اس نے اس عورت کی طرف دیکھا جو سرسے پیر تک اجاڑ تھی۔ اس کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔ آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ اس کا اوپر کا دھڑ بھی سارے کا سارا خمیدہ تھا جیسے وہ ایک ایسی عمارت ہے جو پل بھر میں گر جائے گی۔ وہ اس سے مخاطب ہوا۔

’’ذرا گردن تو اونچی کیجیے۔ ‘‘

وہ زور سے چونکی۔

’’کیا؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ کوئی بات تو کیجیے۔ ‘‘

اس کی آنکھیں سرخ بوٹی ہورہی تھیں جیسے ان میں مرچیں ڈالی گئی ہوں۔ وہ خاموش رہی۔

’’آپ کا نام؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں؟‘‘

اس کے لہجے میں تیزاب کی سی تیزی تھی۔

’’آپ کہاں کی رہنے والی ہیں؟‘‘

’’جہاں کی بھی تم سمجھ لو۔ ‘‘

’’آپ اتنا روکھا کیوں بولتی ہیں۔ ‘‘

عورت اب قریب قریب جاگ پڑی اور اس کی طرف لال بوٹی آنکھوں سے دیکھ کر کہنے لگی۔

’’تم اپنا کام کرو۔ مجھے جانا ہے۔ ‘‘

اس نے پوچھا۔

’’کہاں؟‘‘

عورت نے بڑی روکھی بے اعتنائی سے جواب دیا۔

’’جہاں سے مجھے تم لائے ہو۔ ‘‘

’’آپ چلی جائیے۔ ‘‘

’’تم اپنا کام کرونا۔ مجھے تنگ کیوں کرتے ہو؟‘‘

اس نے اپنے لہجے میں دل کا سارا درد بھر کے اس سے کہا۔

’’میں تمہیں تنگ نہیں کرتا۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ ‘‘

وہ جھلاّ گئی۔

’’مجھے نہیں چاہیے کوئی ہمدرد۔ ‘‘

پھر قریب قریب چیخ پڑی۔

’’تم اپنا کام کرو اور مجھے جانے دو۔ ‘‘

اس نے قریب آکر اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا چاہا تو اس عورت نے زور سے ایک طرف جھٹک دیا۔

’’میں کہتی ہوں۔ مجھے تنگ نہ کرو۔ میں کئی دنوں سے جاگ رہی ہوں۔ جب سے آئی ہوں۔ جاگ رہی ہوں۔ ‘‘

وہ سر تا پا ہمدردی بن گیا۔

’’سو جاؤ یہیں۔ ‘‘

عورت کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ تیز لہجے میں بولی۔

’’میں یہاں سونے نہیں آئی۔ یہ میرا گھر نہیں۔ ‘‘

’’تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے تم آئی ہو؟‘‘

عورت اور زیادہ خشمناک ہو گئی۔

’’اف۔ بکواس بند کرو۔ میرا کوئی گھر نہیں۔ تم اپنا کام کرو ورنہ مجھے چھوڑ آؤ اور اپنے روپے لے لو اس۔ اس۔ ‘‘

وہ گالی دیتی دیتی رہ گئی۔ اس نے سوچا کہ اس عورت سے ایسی حالت میں کچھ پوچھنا اور ہمدردی جتانا فضول ہے۔ چنانچہ اس نے کہا۔

’’چلو، میں تمہیں چھوڑ آؤں۔ ‘‘

اور وہ اسے اس بڑی بلڈنگ میں چھوڑ آیا۔ دوسرے دن اس نے قیصر پارک کے ایک ویران ہوٹل میں اس عورت کی ساری داستان اپنے دوست کو سنائی۔ دوست پر رقت طاری ہو گئی۔ اس نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور پوچھا:

’’کیا جوان تھی؟‘‘

اس نے کہا۔

’’مجھے معلوم نہیں۔ میں اسے اچھی طرح بالکل نہ دیکھ سکا۔ میرے دماغ میں تو وقت یہ خیال آتا تھا کہ میں نے وہیں سے پتھر اٹھا کر دلال کا سر کیوں نہ کچل دیا۔ ‘‘

دوست نے کہا۔

’’واقعی بڑے ثواب کا کام ہوتا۔ ‘‘

وہ زیادہ دیر تک ہوٹل میں اپنے دوست کے ساتھ نہ بیٹھ سکا۔ اس کے دل و دماغ پر پچھلے روز کے واقعہ کا بہت بوجھ تھا۔ چنانچہ چائے ختم ہوئی تو دونوں رخصت ہو گئے۔ اس کا دوست چپکے سے ٹانگوں کے اڈے پر آیا۔ تھوڑی دیر تک اس کی نگاہیں اس دلال کو ڈھونڈتی رہی مگر وہ نظر نہ آیا۔ چھ بج چکے تھے۔ بڑی بلڈنگ سامنے تھی چند گزوں کے فاصلے پر۔ وہ اس طرف چل دیا اور اس میں داخل ہو گیا۔ لوگ اندر آجارہے تھے۔ مگر وہ بڑے اطمینان سے اس مقام پر پہنچ گیا۔ کافی اندھیرا تھا مگر جب وہ ان سیڑھیوں کے پاس پہنچا تو اسے روشنی دکھائی دی اوپر دیکھا اور دبے پاؤں اوپر چڑھنے لگا۔ کچھ دیر وہ آخری زینے پر خاموش کھڑا رہا۔ کمرے سے تیز روشنی آرہی تھی۔ مگر کوئی آواز، کوئی آہٹ اسے سنائی نہ دی۔ آخری زینہ طے کرکے وہ آگے بڑھا۔ دروازے کے پٹ کھلے تھے۔ اس نے ذرا ادھر ہٹ کر اندر جھانکا۔ سب سے پہلے اسے بلب نظر آیا۔ جس کی روشنی اس کی آنکھوں میں گھس گئی۔ ایک دم وہ پرے ہٹ گیا تاکہ تھوڑی دیر اندھیرے کی طرف منہ کرکے اپنی آنکھوں سے چکا چوند نکال سکے۔ اس کے بعد وہ پھر دروازے کی طرف بڑھا مگر اس انداز سے کہ اس کی آنکھیں بلب کی تیز روشنی کی زد میں نہ آئیں۔ اس نے اندر جھانکا۔ فرش کا جو حصہ اسے نظر آیا۔ اس پر ایک عورٹ چٹائی پر لیٹی تھی۔ اس نے اسے غور سے دیکھا۔ سو رہی تھی۔ منہ پر دوپٹہ تھا۔ اس کا سینہ سانس کے اتار چڑھاؤ سے ہل رہا تھا۔ وہ ذرااور آگے بڑھا۔ اس کی چیخ نکل گئی مگر اس نے فوراً ہی دبالی۔ اس عورت سے کچھ دور ننگے فرش پر ایک آدمی پڑا تھا۔ جس کا سر پاش پاش تھا۔ پاس ہی خون آلود اینٹ پڑی تھی۔ یہ سب اس نے ایک نظر دیکھا۔ اور سیڑھیوں کی طرف لپکا۔ پاؤں پھسلا اور نیچے۔ مگر اس نے چوٹوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور ہوش و حواس قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بمشکل اپنے گھر پہنچا اور ساری رات ڈراؤنے خواب دیکھتا رہا۔

سعادت حسن منٹو

سنترپنچ

میں لاہور کے ایک اسٹوڈیو میں ملازم ہوا۔ جس کا مالک میرا بمبئی کا دوست تھا۔ اس نے میرا استقبال کیا۔ میں اس کی گاڑی میں اسٹوڈیو پہنچا تھا ٗ بغل گیر ہونے کے بعد اس نے اپنی شرافت بھری مونچھوں کو جو غالباً کئی دنوں سے ناتراشیدہ تھیں۔ تھرکاکر کہا:

’’کیوں خواجہ ! چھوڑ دی۔ ‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’چھوڑنی پڑی۔ ‘‘

اسٹوڈیو کا مالک جو اچھا فلم ڈائریکٹر بھی ہے ( میں اسے سہولت کی خاطر گیلانی کہوں گا) مجھے اپنے خاص کمرے میں لے گیا۔ ادھر ادھر کی بے شمار باتیں کرنے کے بعد اس نے چائے منگوائی جو نہایت ذلیل تھی ٗ زبردستی پلائی۔ کئی سگریٹ اس دوران خود پھونکے اور مجھ سے پھنکوائے۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’یار ٗ چھوڑو اب چائے کی بکواس کو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے آج اتنے برسوں کے بعد کیسے یاد کر لیا‘‘

’’بس ایک دن اچانک یاد آگئے۔ بُلالیا۔ بتاؤ اب صحت کیسی ہے۔ ‘‘

’’تمہاری دعا سے ٹھیک ہے۔ ‘‘

میرے لہجے میں دوستانہ طنز تھا۔ وہ ہنسا۔

’’واہ ٗ میرے مولوی صاحب۔ میرا خیال ہے کہ جب سے تم خشک خشک ہوئے ہو۔ تمہاری ہر وقت شگفتہ رہنے والی طبیعت ٹھہرے پانی کی طرح ٹھہر گئی ہے۔ ‘‘

’’ہو گا ایسا ہی۔ ‘‘

’’ہو گا کیا۔ ہے ہی ایسا معاملہ۔ لیکن خدا نہ کرے ٗ ایسی ذہانت جس کے سب معترف ہیں۔ اس کا بھی یہی حشر ہو۔ کیا تم اب بھی فلم کہانی کا ڈھانچہ تیار کر سکتے ہو۔ فرسٹ کلاس کہانی۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا:

’’فرسٹ ٗ سیکنڈٗ انٹر اور تھرڈ میں نہیں جانتا۔ البتہ کہانی ضرور ہو گی۔ تم سوچتے ہو فرسٹ کی کہانی وہ اسکرین پر آتے ہی تھرڈ نہ بن جائے۔ یا تھرڈ جس کو تم نے ڈبوں میں بند کر کے گودام میں رکھ چھوڑا تھا۔ وہ گولڈن جوبلی فلم ثابت ہو۔ کیا درست نہیں۔ خیر اِن باتوں کو چھوڑو تم یہ بتاؤ کہ چاہتے کیا ہو۔ ‘‘

اس نے مجھے ایک سگریٹ سلگا کر دیا اور سنجیدگی سے کہا:

’’دیکھو منٹو۔ میں ایک کہانی چاہتا ہوں۔ بڑا دلچسپ رومان ہو اور تم مجھے اس کا مفصل اسکیچ ایک ہفتے کے اندر اندر دے دو۔ کیونکہ میں فلم ڈسٹری بیوٹر سے کنٹریکٹ کر چکا ہوں تم بتاؤ کتنی دیر میں لکھ لو گے۔ ‘‘

’’فراغت سے ایک مہینے کے بعد۔ ‘‘

سردیوں کا موسم تھا اس نے اپنے ہاتھ ایک دوسرے کے ساتھ بڑے زور کے ساتھ ملے۔ اس کے اس عمل سے دو چیزیں ظاہر ہوتی تھیں اول یہ کہ اس کے ہاتھ گرم ہو گئے ہیں۔ دوم یہ کہ اس کے سر کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے کہ اس کو کہانی وقت پر مل جائے گی اور وہ جو کہ میری طرح تیزی سے کام کرنے والا ہے ٗ اسے وقت مقررہ کے اندر اندر ڈائریکٹ کر کے اس کے پرنٹ ڈسٹری بیوٹر کے حوالے کر دے گا اور کنٹریکٹ کی رو سے جو بقایا رقم اس کے نام نکلتی تھی ٗ اسی وقت میز پر دھروالے گا۔ اس نے چند لمحات غور کیا۔

’’کل ہی کام شروع کر دے گا۔ ‘‘

میں نے جواب دیا:

’’کام تو میں شروع کر دوں۔ لیکن یہاں میرے لیے کوئی علیحدہ کمرہ ہونا چاہیے۔ ‘‘

’’ہو جائے گا۔ ‘‘

’’اور ایک اسسٹنٹ۔ ‘‘

’’مل جائے گا۔ تو کل سے آنا شروع کر دو گے۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا:

’’دیکھو گیلانی۔ میرے گھر سے اور تمہارے اسٹوڈیو تک کا فاصلہ کافی ہے۔ تانگے میں آؤں تو قریب قریب ڈیڑھ گھنٹہ۔ بس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘

اس نے پوچھا

’’کیوں۔ ‘‘

’’یعنی اس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بس اسٹینڈ پر کھڑے رہو۔ خدا خدا کر کے پانچ نمبر کی بس آگئی۔ مسافروں سے بھری ہوئی اور وہ بغیر ٹھہرے چل دی اور تم خود کو دنیا کا کم ترین انسان محسوس کرتے ہو۔ جی میں آتا ہے کہ خودکشی کر لو۔ یا پھر دنیا والوں کی بے رخی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سنیاس دھارلوں۔ ‘‘

گیلانی نے اپنی شرارت بھری مونچھیں تھرکائیں۔

’’میں شرط بدنے کیلیے تیار ہوں کہ تم کبھی دنیا تیاگ نہیں سکتے جس دنیا میں ہر قسم کی شراب ملتی ہے۔ اور خوبصورت عورتیں بھی۔ ‘‘

میں نے چڑ کر کہا:

’’عورتیں جائیں جہنم میں۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں بمبئی کے ہر اسٹوڈیو میں ٗ جہاں میں نے کام کیا ٗ ان سے دور ہی رہا۔ ‘‘

’’تم تو خیر اپنے وقت کے ڈون جو آن Donjyan ہو۔ ‘‘

’’مذاق اُڑاتے ہو تم خواجہ میرا۔ ‘‘

میں نے سنجیدگی کے ساتھ اس سے کہا:

’’نہیں گیلانی ع یہ رُتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔ یایوں کہہ لو ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ گیلانی مسکرایا۔

’’خدائے بخشندہ تو بڑے عرصے سے تمہیں مرحوم و مغفور کر چکا ہے۔ تم بخشی ہوئی روح ہو۔ ‘‘

میں نے کہا:

’’اس سے کیا ہوتا ہے۔ میں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’فلسفہ مت بگھارو یار۔ یہ بتاؤ کیا ابھی تک تمہارے پاس وہ اردو ٹائپ رائٹر موجود ہے۔ ‘‘

’’اچھا تو یہ بتاؤ کہ وہ ایکٹریس جس سے تم نے کلکتہ میں شادی کی تھی ٗ ابھی تک تمہارے پاس موجود ہے۔ ‘‘

گیلانی نے فخریہ انداز میں جواب دیا:

’’موجود کیوں نہیں ہو گی۔ گویا تمہاری نظر میں ایکٹریس اور ٹائپ رائٹر میں کوئی فرق نہیں۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا:

’’کیا فرق ہے۔ ایک فلم پر ٹائپ کرتی ہے۔ دوسری کاغذ پر۔ دونوں کسی وقت بھی بگڑ سکتی ہیں۔ ‘‘

گیلانی میری ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔ آخر میں نے اس کو دلاسا دیا۔

’’یار ٗ یہ سب مذاق تھا۔ تو میں کل آجاؤں۔ میرا مطلب ہے تم گاڑی بھیج دو گے؟‘‘

گیلانی صوفے پر سے اٹھا۔ اس کے ساتھ میں بھی۔ اس نے کہا:

’’ہاں۔ ہاں بھئی۔ کب چاہیے تمہیں گاڑی۔ ‘‘

’’کوئی وقت بھی مقرر کر لو۔ ساڑھے نو بجے صبح۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’تم کاغذ وغیرہ آج ہی منگوا لینا۔ تاکہ میں اسٹوڈیو پہنچتے ہی کام شروع کر دُوں۔ اور تم سے الٹا نہ سنوں کہ دیکھو تم نے مجھے لیٹ ڈاؤن دیا۔ میرا اتنے ہزار روپے کا نقصان ہو گیا ہے۔ ‘‘

گیلانی نے بڑے پیار سے کہا:

’’کیا بکتے ہو یار۔ میں تمہاری طبیعت سے کیا واقف نہیں۔ کبھی کبھی تم ڈبکی لگا جایا کرتے ہو۔ ‘‘

میں نے اُس کو یقین دلایا:

’’نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ تم مطمئن رہو۔ ہاں میرا ٹائپ رائٹر یہاں محفوظ تو رہے گا؟‘‘

گیلانی کی عادت ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر چِڑ جاتا ہے۔

’’محفوظ نہیں رہے گا تو کیا غنڈے اغواہ کرنے آ جائیں گے۔ اپنے کسی عاشق کے ساتھ تمہاری مشین بھاگ نکلے گی۔ ‘‘

میں بہت ہنسا۔ ہنستے ہنساتے ہم دونوں نے اسٹوڈیو کا چکر لگایا۔ اس کے بعد اس نے مجھے الوداع کہی اور میں اسی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ جہاں پہنچتے ہی میں نے ٹائپ رائٹر کی جھاڑ پونچھ کی۔ اس لیے کہ ایک مدت سے میں نے اسے استعمال نہیں کیا تھا کیونکہ فلمی کہانی لکھنے کا اس دوران میں کوئی موقع ہی میسر نہ آیا۔ بِگڑا ہوا مکینک یا مستری آرٹسٹ بن جاتا ہے ٗ یہ میرا اپنا ذاتی اختراع کردہ محاورہ ہے۔ گیلانی شروع شروع میں مکینک تھا۔ بگڑ کر وہ آرٹسٹ بن گیا ٗ پر وہ محنتی تھا۔ جب وہ مستری تھا تو اسے زیادہ سہولتیں میسر نہیں تھیں لیکن جب کیمرہ قلی سے ترقی کرتا کرتا کیمرہ مین بن گیا تو اس نے کیمرے کے ہر پیچ کے متعلق اپنی خداداد ذہانت اور جستجو طلب طبیعت کی بدولت یہ دریافت کر لیا کہ ان کا لوہے کے اس چوکھٹے میں اپنی اپنی جگہ کیا مصرف ہے۔ کیمرے کو وہ الٹا کرتا۔ کبھی سیدھا۔ کبھی اس کا گیٹ کھول کر بیٹھ جاتا اور گھنٹوں اس سے اپنے مختلف سائز کے پیچ پُرزوں کے ذریعے بوس و کنار میں مشغول رہتا۔ فرصت کے اوقات۔ یعنی جب شوٹنگ نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنی سائیکل پر شہر پہنچتا اور سارا دن کباڑیوں کی دکانوں پر صرف کرتا۔ اس کو دنیا کے تمام کباڑیوں سے محبت ہے ٗ اور ان کے کباڑ خانوں کو وہ بڑی مقدس جگہیں تصوّر کرتا تھا۔ وہ ان دُکانوں میں بیٹھ کر منصوبہ تیار کرتا رہتا کہ سلائی مشین کا ہینڈل جو بیکار پڑا ہے اگر لوہے کے فلائی ٹکڑے کے ساتھ ویلڈ کر دیا جائے اور اس کے فلاں کے اندر چھوٹے پنکھے جو نکڑوالی دکان میں موجود ہیں ٗ لگا دئیے جائیں تو فرسٹ کلاس دھونکنی بن سکتی ہے۔ خدا معلوم وہ کیا کیا سوچتا تھا۔ ان دنوں در اصل ذہنی ورزش کر رہا تھا۔ یہ وہ تیاری تھی جو وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کیلیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ایڈیٹنگ بھی اسی طرح سیکھی۔ آس پاس کی ہر ننھی سے ننھی شے کا مطالعہ کیا ٗ اور آخر ایک دن اس نے اسٹوڈیو کی ایک فلم کی ایسی عمدہ ایڈیٹنگ کی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سیٹھ نے سوچا۔ کہ اچھے کیمرہ مین تو مل جائیں گے مگر ایسا با کمال ایڈیٹر جو سیلو لائیڈ کے چھوٹے بڑے فیتے کے ٹکڑوں کو اس چابک دستی سے جوڑتا ہے کہ پھر اس میں مزید کتربیونت ہو ہی نہیں سکتی۔ چنانچہ ایڈیٹنگ ڈیپارٹ منٹ کاہیڈبنا دیا۔ تنخواہ اس کی وہی رہی جو بحیثیت کیمرہ مین تھی۔ وہ اپنا کام بڑی محنت اور تندہی سے کرتا رہا ٗ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ لیبارٹری سے بھی دلچسپی لیتا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں اُس نے اس کے کل پرزوں میں چند اصلاحات اور ترکیبیں پیش کیں جو بڑی ردّ و کد کے بعد قبول کر لی گئیں۔ نتیجہ دیکھا گیا تو بڑا حوصلہ افزا تھا۔ سیٹھ نے ایک دن سوچا

’’کیوں نہ گیلانی کو ایک فلم ڈائریکٹ کرنے کا موقع دیا جائے‘‘

جب اس سے پوچھا:

’’تم کوئی فلم ڈائریکٹ کر لو گے۔ ‘‘

تو اس نے بڑی خود اعتمادی سے جواب دیا:

’’ہاں سیٹھ۔ پر اس میں کوئی دخل نہ دے!‘‘

کہانی آدھی گیلانی نے خود بنائی۔ آدھی اِدھر اُدھر کے منشیوں سے لکھوائی اور اللہ کا نام لے کر شوٹنگ شروع کر دی۔ یہ فلم ختم ہوا اور نمائش کیلیے مقامی سینما ہاؤس میں پیش کیا گیا تو اس نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اس کے بعد اس نے لاہور میں دو فلم بنائے۔ یہ بھی سلور جوبلی ہٹ ثابت ہوئے۔ ایک کلکتہ جا کر پھر بنایا۔ وہ بھی کامیاب تھا۔ یہاں وہ بمبئی پہنچا۔ کیونکہ وہاں کے فلمسازوں نے بڑی تکڑی تکڑی آفریں بھیجی تھیں۔ چنانچہ ایک جگہ اس نے آفر قبول کر کے کنٹریکٹ پر دستخط کر دئیے اور کہانی

’’چن وے‘‘

کا منظر نامہ خود لکھا۔ فلم بن گیا۔ اور اتنا بڑا باکس آفس ثابت نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ بٹوارے کے باعث دوسرے شہروں کے مانند بمبئی میں بھی فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے جس طرح دوسرے مسلمان ہجرت کررہے تھے اس طرح گیلانی بھی بمبئی چھوڑ کر کراچی چلا گیا۔ یہاں سے وہ لاہور پہنچا اور ایک اسٹوڈیو کی داغ بیل رکھی۔ ساؤنڈ ریکارڈ سٹ سے لے کر کیلیں ٹھوکنے والے تک کو اس کی ذاتی نگرانی میں کام کرنا پڑتا تھا۔ قصّہ مختصر کہ اسٹوڈیو تیار ہو گیا۔ لاہور کے مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے۔ جب یہ اسٹوڈیو بنا تو ان کی جان میں جان آئی۔ چنانچہ یہاں شوٹنگ شروع ہو گئی۔ اس کے بعد یہ چل نکلا۔ گیلانی اس دوران میں اسٹیج اور اِدھر اُدھر کے متعلقہ سامان کو درست اور مرمت کرانے میں مشغول رہا اس کا دست راست لاہور ہی کا ایک نوجوان سراج دین تھا۔ جو قریب قریب آٹھ برس سے اس کے ساتھ تھا۔ نے کہا ٹائپ رائٹر کی دال لے کر کھا لو۔ اس کے بعد گیلانی نے خود میرے ٹائپ رائٹر کا معائنہ کیا اور فیصلہ صادر کر دیا کہ مشین میں کوئی نقص نہیں۔ مگر سراج اپنے تجربے کے بل بوتے پر مصر تھا۔

’’نہیں حضور۔ یہ اب مرمت طلب ہو چکی ہے۔ بڑے اور چھوٹے رولر سب نئے لگوانے پڑیں گے۔ اوور ہالنگ ہو گی۔ اس کا کتا بھی ناقص ہو چکا ہے ٗ وہ بھی پڑے گا۔ ‘‘

’’تمہاری ٹانگوں پر۔ ‘‘

’’آپ میرا مذاق نہ اُڑائیے۔ اچھا۔ خیر آپ ہی صحیح کہتے ہیں‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے گنجے سر پر ٹوپی درست کرتا ہوا چلا گیا۔ گیلانی نے اپنا خاص ٹول بکس منگوایا اور مشین کے سب پرزے الگ الگ کر کے رکھ دیے کوئی پرزہ پتھر پر گھسایا۔ کوئی ریگمال پر۔ کسی کے سریش لگائی۔ کسی کو تیل۔ اور ان کو دوبارہ فٹ کر کے فتح مندانہ انداز میں میری طرف دیکھا اور کہا:

’’کیوں صاحب ! ٹھیک ہو گئی یا نہیں۔ ‘‘

میں نے ایسے ہی کہہ دیا

’’ہاں ٗ اب ٹھیک ہے۔ ‘‘

گیلانی نے اپنے پاس کھڑے اسسٹنٹ کو بلایا:

’’جاؤ ٗ اس اُلو کے پٹھے ایکسپرٹ سراج کو بلا کر لاؤ۔ ‘‘

چند منٹ میں سراج حاضر ہو گیا۔ اس نے مشین چلائی تو دس پندرہ بار ٹپ ٹپ کرنے کے بعد ہی خاموش ہو گئی سراج نے گیلانی سے کچھ نہ کہا۔ تھوڑے وقفے کے بعد گیلانی بڑے تحکمانہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوا

’’اچھا تم اسے بناؤ۔ دیکھیں تم کیا تیر مارتے ہو۔ ‘‘

مجھے اپنی پندرہ سالہ عزیز مشین کی اس درگت پر ترس آرہا تھا۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ جب اس کے انجر پنجر ڈھیلے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے پڑے تھے۔ دوسرے دن سراج نے اپنا ٹول بکس ریکارڈنگ میں سے منگوایا اور میری مشین پر اپنی ماہرانہ سرجری شروع کر دی۔ ضروری پرزے نکال کر اس نے علیحدہ رکھ لیے اور باقی حصّے پٹرول میں ڈال دیے اب ان کی چتا جلانے کیلیے صرف ماچس کی ایک تیلی ہی کافی تھی۔ میں خاموش رہا۔ یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ کتے کے جبڑوں کو ایک پلاس کے ساتھ زور سے پکڑا اور میری طرف کرتے ہوئے بولا:

’’لو دیکھ لو۔ میں نہ کہتا تھا۔ کتا کام نہیں کر رہا۔ اس کا تو سنترپنچ ہی خراب ہے۔ ‘‘

’’سنتر پنچ۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

اور سراج ایک بار پھر اس کا سنتر پنچ ٹھیک کرنے لگا۔

سعادت حسن منٹو

سگریٹ اور فاؤنٹین پن

’’میرا پارکر ففٹی ون کا قلم کہاں گیا۔ ‘‘

’’جانے میری بلا۔ ‘‘

’’میں نے صبح دیکھا کہ تم اُس سے کسی کو خط لکھ رہی تھیں اب انکار کر رہی ہو‘‘

’’میں نے خط لکھا تھا مگر اب مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں غارت ہو گیا۔ ‘‘

’’یہاں تو آئے دن کوئی نہ کوئی چیز غارت ہو تی ہی رہتی ہے مینٹل پیس پر آج سے دس روز ہوئے میں نے اپنی گھڑی رکھی صرف اس لیے کہ میری کلائی پر چند پھنسیاں نکل آئی تھیں دوسرے دن دیکھا وہ غائب تھی۔ ‘‘

’’کیا میں نے چرا لی تھی۔ ‘‘

’’میں نے یہ کب کہا سوال تو یہ ہے کہ وہ گئی کہاں۔ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میں نے یہ گھڑی وہیں رکھی ہے اُس کے ساتھ ہی دس روپے آٹھ آنے تھے وہ تو رہے لیکن گھڑی جس کی قیمت دو سو پچھتر روپے تھی وہ غائب ہو گئی۔ تم پر میں نے چوری کا الزام کب لگایا۔ ؟‘‘

’’ایک گھڑی آپ کی پہلے بھی گم ہو گئی تھی۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’میں تو یہ کہتی ہوں کہ آپ نے خود انھیں بیچ کھایا ہے‘‘

’’بیگم تم ایسی بے ہُودہ باتیں نہ کیا کرو مجھے وہ دونوں گھڑیاں بہت عزیز تھیں۔ جس کے علاوہ ان کو بیچنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا تم جانتی ہو کہ میری آمدنی اللہ کے فضل سے کافی ہے بینک میں اس وقت میرے دس ہزار سے کچھ اُوپر روپے جمع ہیں گھڑیاں بیچنے کی ضرورت مجھے کیسے پیش آسکتی تھی۔ ‘‘

’’کسی دوست کو دے دی ہو گی‘‘

’’کیوں مجھے اِن کی ضرورت نہیں تھی۔ میں تو گھڑی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسا چھکڑا ہوں جس میں کوئی پہیہ نہیں وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا گھر میں کلاک ہے مگر وہ تمہاری طرح نازک مزاج ہے ذرا موسم بدلے تو جناب بند ہو جاتے ہیں پھر جب موسم ان کے مزاج کے موافق ہو تو چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ‘‘

’’یعنی میں کلاک ہوں۔ ‘‘

’’میں نے صرف تشبیہ کے طور پر کہا تھا۔ کلاک تو بہت کام کی چیز ہے‘‘

’’اور میں کسی کام کی چیز نہیں۔ شرم نہیں آتی آپ کو ایسی باتیں کرتے۔ ‘‘

’’میں نے تو صرف مذاق کے طورپر یہ کہہ دیا تھا تم خواہ مخواہ ناراض ہو گئی ہو۔ ‘‘

’’میں آج تک کبھی آپ سے خواہ مخواہ ناراض ہوئی ہوں آپ خود ایسے موقعے دیتے ہیں کہ مجھے ناراض ہونا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’تو چلیے اب صلح ہو جائے۔ ‘‘

’’صلح ولح کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی ان برسوں میں آپ سے میں پندرہ ہزار مرتبہ صلح صفائی کر چکی ہوں مگر نتیجہ کیا نکلا ہے۔ وہی ڈھاک کے تین پات‘‘

’’ڈھاک کے تین پاتوں کو چھوڑو تم مجھے میرا پارکر قلم لا کے دے دو مجھے چند بڑے ضروری خط لکھنے ہیں۔ ‘‘

’’مجھے کیا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے؟ لے گیا ہو گا کوئی اُٹھا کر۔ اب میں ہر چیزکا دھیان تونہیں رکھ سکتی۔ ‘‘

’’تو پھر تم کس مرض کی دوا ہو‘‘

’’میں نہیں جانتی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ آپ میری زندگی کا سب سے بڑا روگ ہیں‘‘

’’تو یہ روگ دُور کرو ہر روگ کا کوئی نہ کوئی علاج موجود ہوتا ہے‘‘

’’خدا ہی بہتر کرے گا یہ روگ یہ کسی حکیم یا ڈاکٹر سے دُور ہونیوالا نہیں‘‘

’’اگر تمہاری یہی خواہش ہے کہ مرجاؤں تو میں اس کے لیے تیار ہوں میرے پاس اتفاق سے اس وقت قاتل زہر موجود ہے میں کھا کر مر جاتا ہوں۔ ‘‘

’’مر جائیے۔ ‘‘

’’اِس کے لیے تو میں تیار ہوں تاکہ روز روز کی بک بک اور جھک جھک ختم ہو جائے۔ ‘‘

’’آپ تو چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے چھٹکارا ملے۔ بیوی بچے جائیں بھاڑ میں آپ آرام سے قبر میں سوتے رہیں لیکن میں آپ سے کہے دیتی ہوں کہ وہاں کا عذاب یہاں کے عذاب سے ہزار گنا زیادہ ہو گا۔ ‘‘

’’ہوا کرے۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر قائم ہوں۔ ‘‘

’’آپ کبھی اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہے‘‘

’’یہ سب جھوٹ ہے میں جب کوئی فیصلہ کرتا ہوں تو اس پر قائم رہتا ہوں ابھی پچھلے دنوں میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں سگریٹ نہیں پیوں گا چنانچہ اب تک اس پر قائم ہوں۔ ‘‘

’’پاخانے میں سگریٹ کے ٹکڑے کہاں سے آتے ہیں۔ ‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔ تم پیتی ہو گی۔ ‘‘

’’میں مجھے تو اس چیز سے سخت نفرت ہے‘‘

’’ہو گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاخانہ بھی کوئی ایسی معقول جگہ ہے جہاں پرسگریٹ پیے جائیں۔ ‘‘

’’چوری چھپے جو پینا ہوا پاخانے کے علاوہ اور موزوں و مناسب جگہ کیا ہوسکتی ہے آپ میرے ساتھ فراڈ نہیں کرسکتے۔ میں آپ کی رگ رگ کو پہچانتی ہوں۔ ‘‘

’’یہ تم نے مجھ سے آج ہی کہا کہ میں پاخانے میں چھپ چھپ کر سگریٹ پیتا ہوں‘‘

’’میں نے اس لیے اس کا ذکر آپ سے نہیں کیا تھا۔ آپ چونکہ تمباکو کے عادی ہو چکے ہیں اس لیے سگریٹ نوشی آپ ترک نہیں کرسکتے لیکن یہ بہر حال بہتر ہے کہ آپ دو ایک سگریٹ دن میں پی لیتے ہیں جہاں آپ پچاس کے قریب پھونکتے تھے۔ ‘‘

’’میں نے ڈھائی برس میں ایک سگریٹ بھی نہیں پیا۔ بھنگی پیتا ہو گا۔ ‘‘

’’بھنگی گولڈ فلیک اور کریون اے نہیں پی سکتا۔ ‘‘

’’حیرت ہے‘‘

’’کس بات کی۔ حیرت تو مجھے ہے کہ آپ صاف انکار کر رہے ہیں مجھے بنا رہے ہیں‘‘

’’نہیں میں سوچ رہا ہوں کہ یہ سگریٹ وہاں کون پیتا ہے‘‘

’’آپ کے سوا اور کون پی سکتا ہے مجھے تو اس کے دُھوئیں سے کھانسی ہو جاتی ہے مجھے تو اس سے سخت نفرت ہے معلوم آپ لوگ کس طرح دُھواں اپنے اندر کھینچتے ہو۔ ‘‘

’’خیر اس کو چھوڑو۔ میرا پار کر قلم مجھے دو۔ ‘‘

’’میرے پاس نہیں ہے‘‘

’’تمہارے پاس نہیں ہے تو کیا میرے پاس ہے آج صبح تم خدا معلوم کسے خط لکھ رہی تھیں تمہاری انگلیوں میں میرا ہی قلم تھا۔ ‘‘

’’تھا۔ لیکن مجھے کیا معلوم کہاں گیا۔ میں نے آپ کے میز پر رکھا ہو گا۔ اور آپ نے اُٹھا کر کسی دوست کو دے دیا ہو گا۔ آپ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھو بیگم میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ قلم میں نے کسی دوست کو نہیں دیا ہو سکتا ہے کہ تم نے اپنی کسی سہیلی کو دے دیا ہو‘‘

’’میں کیوں اتنی قیمتی چیز کسی سہیلی کو دینے لگی۔ وہ تو آپ ہیں کہ ہزاروں اپنے دوستوں میں لُٹا دیتے ہیں۔ ‘‘

’’اب سوال یہ ہے کہ وہ قلم ہے کہاں مجھے چند ضروری خط لکھنے ہیں جاؤ میری جان ذرا تھوڑی سی تکلیف کرو ممکن ہے ڈھونڈنے سے مل جائے۔ ‘‘

’’نہیں ملے گا۔ آپ فضول مجھے تکلیف دینا چاہتے ہیں‘‘

’’تو ایسا کرو دوات اور پن ہولڈر لے آؤ۔ ‘‘

’’دوات تو صبح آپ کی بچی نے توڑ دی پن ہولڈر بھانجے کے بیٹے نے‘‘

’’اتنے پن ہولڈر تھے کہاں گئے۔ ‘‘

’’آپ ہی استعمال کرتے ہیں‘‘

’’میں نے آج تک پن ہولڈر کبھی استعمال نہیں کیا کبھی کبھی تم کیا کرتی ہو۔ ‘‘

’’آپ کی بچیاں آفت کی پتلیاں ہیں وہی توڑ پھوڑ کے پھینک دیتی ہوں گی۔ ‘‘

’’تم دھیان کیوں نہیں دیتیں‘‘

’’کس کس چیز کا دھیان رکھوں مجھے گھر کے کام کاج سے فرصت نہیں ہے‘‘

’’اسی لیے تو میری دو گھڑیاں غائب ہو گئیں۔ جب دیکھو لیٹی رہتی ہو۔ خدا معلوم گھر کا کام کاج لیٹے لیٹے کرتی ہو۔ ‘‘

’’گھر کا سارا کام تو آپ کرتے ہیں‘‘

’’میں اس کا دعوےٰ نہیں کرتا بہر حال جو کچھ میں کرسکتا ہوں کرتا رہتا ہوں‘‘

’’کیا کرتے ہیں آپ؟‘‘

’’ہفتے میں ایک دو دفعہ مارکیٹ جاتا ہوں مرغی اور مچھلی خرید کر لاتا ہوں انڈے بھی کوئلے کا پرمٹ بھی حاصل کرتا ہوں گھی کا بندوبست کرتا ہوں اب میں اور کیا کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’مصروف آدمی ہوں دفتر میں جاتا ہوں وہاں نہ جاؤں تو مہینہ ختم ہونے کے بعد سات سو روپے کیسے آسکتے ہیں۔ ‘‘

’’ان سات سو روپوں میں سے آپ مجھے کتنے دیتے ہیں‘‘

’’پورے سات سو روپے‘‘

’’ٹھیک ہے لیکن آپ اپنا گزارہ کس طرح کرتے ہیں۔ ؟‘‘

’’اللہ بہتر جانتا ہے‘‘

’’رشوت لیتے ہیں اور کیا ورنہ ساری تنخواہ مجھے دینے کے بعد آپ پانچ سو پچپن کے سگریٹ نہیں پی سکتے۔ ‘‘

’’میں نے سگریٹ پینے ترک کر دیے ہیں‘‘

’’آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔ ‘‘

’’میں بحث نہیں کرنا چاہتا۔ تم میرا پارکر قلم ذرا ڈھونڈ کے نکالو‘‘

’’میں آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میرے پاس نہیں ہے۔ ‘‘

’’تو اور کس کے پاس ہے‘‘

’’مجھے کیا معلوم میں نے صبح خط لکھ کر سینٹل پیس پر رکھ دیا۔ ‘‘

’’وہاں تو اس کا نام و نشان نہیں‘‘

’’آپ نے کسی دوست کو بخش دیا ہو گا۔ گیارہ بجے آپ کے چند دوست آئے تھے۔ ‘‘

’’میرے دوست کہاں تھے۔ صرف ملاقات کرنے آئے تھے۔ میں تو ان کا نام بھی نہیں جانتا۔ ‘‘

’’میرا نام بھی آپ بھول گئے ہوں گے بتائیے کیا ہے۔ ‘‘

’’تمہارا نام۔ لیکن بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تم۔ تم ہو۔ بس۔ ؟‘‘

’’ان پندرہ برسوں میں آپ کو میرا نام بھی یاد نہیں رہا میری سمجھ میں نہیں آتا آپ کس قسم کے انسان ہیں۔ ‘‘

’’قسمیں پوچھو گی تو حیران رہ جاؤ گی ایک کروڑ سے زیادہ ہوں گی اب جاؤ میرا قلم ڈھونڈو۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتی کہاں ہے۔ ‘‘

’’یہ قمیص تم نے نئی سلوائی ہے‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’گریبان بہت خوبصورت ہے ارے یہ اس میں تو میرا قلم اٹکا ہوا ہے‘‘

’’سچ میں نے یہاں اُڑس لیا ہو گا۔ معاف کیجیے گا۔ ‘‘

’’ٹھہرو میں خود نکال لیتا ہوں۔ ممکن ہے تم قمیص پھاڑ ڈالو‘‘

’’یہ کیا گرا ہے‘‘

’’یہ کیا ہے۔ ارے یہ تو پانچ سو پچپن سگرٹوں کا ڈبہ ہے کہاں سے آگیا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

سرکنڈوں کے پیچھے

کون سا شہر تھا، اس کے متعلق جہاں تک میں سمجھتا ہوں، آپ کو معلوم کرنے اور مجھے بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ جگہ جو اس کہانی سے متعلق ہے، پشاور کے مضافات میں تھی۔ سرحد کے قریب۔ اور جہاں وہ عورت تھی، اس کا گھر جھونپڑا نما تھا۔ سرکنڈوں کے پیچھے۔ گھنی باڑھ تھی، جس کے پیچھے اس عورت کا مکان تھا، کچی مٹی کا بنا ہوا، چونکہ یہ باڑھ سے کچھ فاصلے پر تھا، اس لیے سرکنڈوں کے پیچھے چھپ سا گیا تھا کہ باہر کچی سڑک پر سے گزرنے والا کوئی بھی اسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ سرکنڈے بالکل سوکھے ہوئے تھے مگر وہ کچھ اس طرح زمین میں گڑے ہوئے تھے کہ ایک دبیز پردہ بن گئے تھے۔ معلوم نہیں اس عور ت نے خود وہاں پیوست کیے تھے یا پہلے ہی سے موجود تھے۔ بہر حال، کہنا یہ ہے کہ وہ آہنی قسم کے پردہ پوش تھے۔ مکان کہہ لیجئے یا مٹی کا جھونپڑا، صرف چھوٹی چھوٹی تین کوٹھڑیاں تھیں۔ مگر صاف ستھری۔ سامان مختصر تھا مگر اچھا۔ پچھلے کمرے میں ایک بہت بڑا نواڑی پلنگ تھا۔ اس کے ساتھ ایک طاقچہ تھا جس میں سرسوں کے تیل کا دیا رات بھر جلتا رہتا تھا۔ مگر یہ طاقچہ بھی صاف ستھرا رہتا تھا۔ اور وہ دیا بھی جس میں ہر روز نیا تیل اور بتی ڈالی جاتی تھی۔ اب میں آپ کو اس عورت کا نام بتادوں جو اس مختصر سے مکان میں جو سرکنڈوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، اپنی جوان بیٹی کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ مختلف روایتی ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اس کی بیٹی نہیں تھی۔ ایک یتیم لڑکی تھی جس کو اس نے بچپن سے گود لے کرپال پوس کر بڑا کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کی ناجائز لڑکی تھی۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ اس کی سگی بیٹی تھی۔ حقیقت جو کچھ بھی ہے، اس کے متعلق وثوق سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ کہانی پڑھنے کے بعد آپ خودبخود کوئی نہ کوئی رائے قائم کرلیجئے گا۔ دیکھیے، میں آپ کو اس عورت کا نام بتانا بھول گیا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ اس کا نام کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اس کا نام آپ کچھ بھی سمجھ لیجیے، سکینہ، مہتاب، گلشن یا کوئی اور۔ آخر نام میں کیا رکھا ہے لیکن آپ کی سہولت کی خاطر میں اسے سردار کہوں گا۔ یہ سردار، ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ کسی زمانے میں یقیناخوبصورت تھی۔ اس کے سرخ و سفید گالوں پر گو کسی قدر جھریاں پڑ گئی تھیں، مگر پھر بھی وہ اپنی عمر سے کئی برس چھوٹی دکھائی دیتی تھی۔ مگر ہمیں اس کے گالوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی بیٹی، معلوم نہیں وہ اس کی بیٹی تھی یا نہیں، شباب کا بڑا دلکش نمونہ تھی۔ اس کے خدوخال میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ وہ فاحشہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کی ماں اس سے پیشہ کراتی تھی اور خوب دولت کما رہی تھی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس لڑکی کو جس کا نام پھر آپ کی سہولت کی خاطر نواب رکھے دیتا ہوں، کو اس پیشے سے نفرت نہیں تھی۔ اصل میں اس نے آبادی سے دور ایک ایسے مقام پر پرورش پائی تھی کہ اس کو صحیح ازدواجی زندگی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ جب سردار نے اس سے پہلا مرد بستر پر۔ نواڑی پلنگ پر متعارف کروایا تو غالباً اس نے یہ سمجھا کہ تمام لڑکیوں کی جوانی کا آغاز کچھ اسی طرح ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی اس کسبیانہ زندگی سے مانوس ہو گئی تھی اور وہ مرد جو دور دور سے چل کر اس کے پاس آتے تھے اور اس کے ساتھ اس بڑے نواڑی پلنگ پر لیٹتے تھے، اس نے سمجھا تھا کہ یہی اس کی زندگی کا منتہیٰ ہے۔ یوں تو وہ ہر لحاظ سے ایک فاحشہ عورت تھی، ان معنوں میں جن میں ہماری شریف اور مطہر عورتیں ایسی عورتوں کو دیکھتی ہیں، مگر سچ پوچھیے تو اس امر کا قطعاً احساس نہ تھا کہ وہ گناہ کی زندگی بسر کررہی ہے۔ وہ اسکے متعلق غور بھی کیسے کرسکتی تھی جب کہ اس کو اس کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ اس کے جسم میں خلوص تھا۔ وہ ہر مرد کو جو اس کے پاس ہفتے ڈیڑھ ہفتے کے بعد طویل مسافت طے کرکے آتا تھا، اپنا آپ سپرد کردیتی تھی، اس لیے کہ وہ یہ سمجھتی تھی کہ ہر عورت کا یہی کام ہے۔ اور وہ اس مرد کی ہر آسائش اس کے ہر آرام کا خیال رکھتی تھی۔ وہ اس کی کوئی ننھی سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کو شہر کے لوگوں کے تکلفات کا علم نہیں تھا۔ وہ یہ قطعاً نہیں جانتی تھی کہ جو مرد اس کے پاس آتے ہیں، صبح سویرے اپنے دانت برش کے ساتھ صاف کرنے کے عادی ہیں اور آنکھیں کھول کر سب سے پہلے بستر میں چائے کی پیالی پیتے ہیں، پھر رفع حاجت کے لیے جاتے ہیں، مگر اس نے آہستہ آہستہ بڑے الہڑ طریقے پر ان مردوں کی عادات سے کچھ واقفیت حاصل کرلی تھی۔ پر اسے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ سب مرد ایک طرح کے نہیں ہوتے تھے۔ کوئی صبح سویرے اٹھ کر سگریٹ مانگتا تھا، کوئی چائے اور بعض ایسے بھی ہوتے جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ کچھ ساری رات جاگتے رہتے اور صبح موٹر میں سوار ہو کر بھاگ جاتے تھے۔ سردار بے فکر تھی۔ اس کو اپنی بیٹی پر، یا جو کچھ بھی وہ تھی، پورا اعتماد تھا کہ وہ اپنے گاہکوں کو سنبھال سکتی ہے، اس لیے وہ افیم کی ایک گولی کھا کرکھاٹ پر سوئی رہتی تھی۔ کبھی کبھار جب اس کی ضرورت پڑتی۔ مثال کے طور پر جب کسی گاہک کی طبیعت زیادہ شراب پینے کے باعث یکدم خراب ہوئے تو وہ غنودگی کے عالم میں اٹھ کر نواب کو ہدایات دے دیتی تھی کہ اس کو اچار کھلادے یا کوشش کرے کہ وہ نمک ملا گرم گرم پانی پلا کر قے کرادے اور بعد میں تھپکیاں دے کر سلا دے۔ سردار اس معاملے میں بڑی محتاط تھی کہ جونہی گاہک آتا، وہ اس سے نواب کی فیس پہلے وصول کرکے اپنے نیفے میں محفوظ کرلیتی تھی اور اپنے مخصوص انداز میں دعائیں دے کر کہ تم آرام سے جھولے جھولے، افیم کی ایک گولی ڈبیا میں سے نکال کر منہ میں ڈال کر سو جاتی۔ جو روپیہ آتا، اس کی مالک سردار تھی۔ لیکن جو تحفے تحائف وصول ہوتے، وہ نواب ہی کے پاس رہتے تھے۔ چونکہ اس کے پاس آنے والے لوگ دولت مند ہوتے، اس لیے وہ بڑھیا کپڑا پہنتی اور قسم قسم کے پھل اور مٹھائیاں کھاتی تھی۔ وہ خوش تھی۔ مٹی سے لپے پتے اس مکان میں جو صرف تین چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیوں پر مشتمل تھا۔ وہ اپنی دانست کے مطابق بڑی دلچسپ اور خوشگوار زندگی بسر کررہی تھی۔ ایک فوجی افسر نے اسے گرامو فون اور بہت سے ریکارڈلا دیے تھے۔ فرصت کے اوقات میں وہ ان کو بجا بجا کر فلمی گانے سنتی اور ان کی نقل اتارنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ اس کے گلے میں کوئی رس نہیں تھا۔ مگر شاید وہ اس سے بے خبر تھی۔ سچ پوچھیے تو اس کو کسی بات کی خبر بھی نہیں تھی اور نہ اس کو اس بات کی خواہش تھی کہ وہ کسی چیز سے باخبر ہو۔ جس راستے پر وہ ڈال دی گئی تھی، اس کو اس نے قبول کرلیا تھا۔ بڑی بے خبری کے عالم میں۔ سرکنڈوں کے اس پار کی دنیا کیسی ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتی تھی سوائے اس کہ ایک کچی سڑک ہے جس پر ہر دوسرے تیسرے دن ایک موٹر دھول اڑاتی ہوئی آتی ہے اور رک جاتی ہے۔ ہارن بجتا ہے۔ اس کی ماں یا جو کوئی بھی وہ تھی، کھٹیا سے اٹھتی ہے اور سرکنڈوں کے پاس جا کر موٹر والے سے کہتی ہے کہ موٹر ذرا دور کھڑی کرکے اندر آ جائے۔ اور وہ اندر آجاتا ہے اور نواڑی پلنگ پر اس کے ساتھ بیٹھ کر میٹھی میٹھی باتوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اس کے ہاں آنے جانے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ یہی پانچ چھ ہوں گے مگر یہ پانچ چھ مستقل گاہک تھے اور سردار نے کچھ ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ ان کا باہم تصادم نہ ہو۔ بڑی ہوشیار عورت تھی۔ وہ ہر گاہک کے لیے خاص دن مقرر کردیتی، اور ایسے سلیقے سے کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملتاتھا۔ اس کے علاوہ ضرورت کے وقت وہ اس کا بھی انتظام کرتی رہتی کہ نواب ماں نہ بن جائے۔ جن حالات میں نواب اپنی زندگی گزار رہی تھی، ان میں اس کا ماں بن جانا یقینی تھا۔ مگر سردار دو ڈھائی برس سے بڑی کامیابی کے ساتھ اس قدرتی خطرے سے نبٹ رہی تھی۔ سرکنڈوں کے پیچھے یہ سلسلہ دو ڈھائی برس سے بڑے ہموار طریقے پر چل رہا تھا۔ پولیس والوں کو بالکل علم نہیں تھا۔ بس صرف وہی لوگ جانتے تھے جو وہاں آتے تھے۔ یا پھر سردار اور اس کی بیٹی نواب، یا جو کوئی بھی وہ تھی۔ سرکنڈوں کے پیچھے، ایک دن مٹی کے اس مکان میں ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ ایک بہت بڑی موٹر جو غالباً ڈوج تھی وہاں آکے رکی۔ ہارن بجا۔ سردار باہر آئی تو اس نے دیکھا کوئی اجنبی ہے۔ اس نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ اجنبی نے بھی اس سے کچھ نہ کہا۔ موٹر دور کھڑی کرکے وہ اترا اور سیدھا ان کے گھر میں گھس گیا جیسے برسوں کا آنے جانے والا ہو۔ سردار بہت سٹپٹائی، لیکن دروازے کی دہلیز پر نواب نے اس اجنبی کا بڑی پیاری مسکراہٹ سے خیر مقدم کیا اور اسے اس کمرے میں لے گئی جس میں نواڑی پلنگ تھا۔ دونوں اس پر ساتھ ساتھ بیٹھے ہی تھے کہ سردار آگئی۔ ہوشیار عورت تھی۔ اس نے دیکھا کہ اجنبی کسی دولت مند گھرانے کا آدمی ہے۔ خوش شکل ہے، صحت مند ہے۔ اس نے اندر کوٹھڑی میں داخل ہو کر سلام کیا اور پوچھا۔

’’آپکو ادھر کاراستہ کس نے بتایا؟‘‘

اجنبی مسکرایا اور بڑے پیار سے نواب کے گوشت بھرے گالوں میں اپنی انگلی چبھو کرکہا۔

’’اس نے؟‘‘

نواب تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی، ایک ادا کے ساتھ کہا۔

’’ہائیں۔ میں تو کبھی تم سے ملی بھی نہیں؟‘‘

اجنبی کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر اور زیادہ پھیل گئی۔

’’ہم تو کئی بار تم سے مل چکے ہیں۔ ‘‘

نواب نے پوچھا۔

’’کہاں۔ کب؟‘‘

حیرت کے عالم میں اس کا چھوٹا سا منہ کچھ اس طور پر وا ہوا کہ اس کے چہرے کی دلکشی میں اضافے کا موجب ہو گیا۔ اجنبی نے اس کا گدگدا ہاتھ پکڑ لیا اور سردار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’تم یہ باتیں ابھی نہیں سمجھ سکتیں۔ اپنی ماں سے پوچھو۔ ‘‘

نواب نے بڑے بھول پن کے ساتھ اپنی ماں سے پوچھا کہ یہ شخص اس سے کب اور کہاں ملا تھا۔ سردار سارا معاملہ سمجھ گئی کہ وہ لوگ جو اس کے یہاں آتے ہیں، ان میں سے کسی نے اس کے ساتھ نواب کا ذکر کیا ہو گا اور سارا اتا پتا بتا دیا ہو گا چنانچہ اس نے نواب سے کہا۔

’’میں بتادوں گی تمہیں۔ ‘‘

اور یہ کہہ کروہ باہر چلی گئی۔ کھٹیا پر بیٹھ کر اس نے ڈبیا میں سے افیم کی گولی نکالی اور لیٹ گئی۔ وہ مطمئن تھی کہ آدمی اچھا ہے گڑ بڑ نہیں کرے گا۔ وثوق سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن اغلب یہی ہے کہ اجنبی جس کا نام ہیبت خان تھا اور ضلع ہزارہ کا بہت بڑارئیس تھا، نواب کے الہڑ پن سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے رخصت ہوتے وقت سردار سے کہا کہ آئندہ نواب کے پاس اور کوئی نہ آیا کرے۔ سردار ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ہیبت خان سے کہا۔

’’خان صاحب! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کیا آپ اتنا روپیہ دے سکیں گے کہ۔ ‘‘

ہیبت خان نے سردار کی بات کاٹ کر جیب میں ہاتھ اور سو سو کے نوٹوں کی ایک موٹی گڈی نکالی اور نواب کے قدموں میں پھینک دی۔ پھر اس نے اپنی ہیرے کی انگوٹھی انگلی سے نکالی اور نواب کو پہنا کر تیزی سے سرکنڈوں کے اس پار چلا گیا۔ نواب نے نوٹوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ بس دیر تک اپنی سجی ہوئی انگلی کودیکھتی رہی جس پر کافی بڑے ہیرے سے رنگ رنگ کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ موٹر اسٹارٹ ہوئی اور دھول اڑاتی چلی گئی۔ اس کے بعد وہ چونکی اور سرکنڈوں کے پاس آئی، مگر اب گردوغبار کے سوا سڑک پر کچھ نہ تھا۔ سردار نوٹوں کی گڈی اٹھا کر انھیں گن چکی تھی۔ ایک نوٹ اور ہوتا تو پورے دو ہزار تھے۔ مگر اس کو اس کا افسوس نہیں تھا۔ سارے نوٹ اس نے اپنی گھیرے دار شلوے کے نیفے میں بڑی صفائی سے اڑسے اور نواب کو چھوڑ کر اپنی کھٹیا کی طرف بڑھی اور ڈبیا میں سے افیم کی ایک بڑی گولی نکال کر اس نے منہ میں ڈالی اور بڑے اطمینان سے لیٹ گئی اور دیر تک سوتی رہی۔ نواب بہت خوش تھی۔ بار بار اپنی اس انگلی کو دیکھتی تھی جس پر ہیرے کی انگوٹھی تھی۔ تین چار روز گزرگئے۔ اس دوران میں اس کا ایک پرانا گاہک آیا جس سے سردار نے کہہ دیا کہ پولیس کا خطرہ ہے، اس لیے اس نے یہ دھندہ بند کردیا ہے۔ یہ گاہک جو خاصا دولت مند تھا، بے نیل و مرام واپس چلا گیا۔ سردار کو ہیبت خان نے بہت متاثر کیا تھا۔ اس نے افیم کھا کر پینک کے عالم میں سوچا تھا کہ اگر آمدن اتنی ہی رہے جتنی کہ پہلے تھی اور آدمی صرف ایک ہوتو بہت اچھا ہے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ باقیوں کو آہستہ آہستہ یہ کہہ کرٹرخا دے گی کہ پولیس والے اس کے یپچھے ہیں اور یہ نہیں دیکھ سکتی کہ ان کی عزت خطرے میں پڑے۔ ہیبت خان ایک ہفتے کے بعد نمودار ہوا۔ اس دوران میں سردار دو گاہکوں کو منع کر چکی تھی کہ وہ اب ادھر کا رخ نہ کریں۔ وہ اسی شان سے آیا جس شان سے پہلے روز آیا تھا۔ آتے ہی اس نے نواب کو اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچ لیا۔ سردار نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ نواب اسے۔ بلکہ یوں کہیے کہ ہیبت خان اسے اس کوٹھڑی میں لے گیا جہاں نواڑی پلنگ تھا۔ اب کے سردار اندر نہ آئی اور اپنی کھٹیا پر افیم کی گولی کھا کر اونگھتی رہی۔ ہیبت خان بہت محظوظ ہوا۔ اس کو نواب کا الہڑ پن اور بھی زیادہ پسند آیا۔ وہ پیشہ ور رنڈیوں کے چلتروں سے قطعاً ناواقف تھی۔ اس میں وہ گھریلو پن بھی نہیں تھا جو عام عورتوں میں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات تھی جو خود اس کی اپنی تھی۔ دوسروں سے مختلف۔ وہ بستر میں اس کے ساتھ اس طرح لیٹتی تھی، جس طرح بچہ اپنی ماں کے ساتھ لیٹتا ہے۔ اس کی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرتا ہے۔ اس کی ناک کے نتھنوں میں انگلیاں ڈالتا ہے، اس کے بال نوچنا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سو جاتا ہے۔ ہیبت خان کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ اس کے لیے عورت کی یہ قسم بالکل نرالی، دلچسپ اور فرحت بخش تھی۔ وہ اب ہفتے میں دوبار آنے لگا تھا۔ نواب اس کے لیے ایک بے پناہ کشش بن گئی تھی۔ سردار خوش تھی کہ اس کے نیفے میں اڑسنے کے لیے کافی نوٹ مل جاتے ہیں۔ لیکن نواب اپنے الہڑ پن کے باوجود بعض اوقاس سوچتی تھی کہ ہیبت خان ڈرا ڈرا سا کیوں رہتا ہے۔ اگر کچی سڑک پر سے، سرکنڈوں کے اس پار کوئی لاری یا موٹر گزرتی ہے تو وہ کیوں سہم جاتا ہے۔ کیوں اس سے الگ ہو کرباہر نکل جاتا ہے اور چھپ چھپ کر دیکھتا ہے کہ کون تھا۔ ایک رات بارہ بجے کے قریب سڑک پرسے کوئی لاری گزری۔ ہیبت خان اور نواب دونوں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے سورہے تھے کہ ایک دم ہیبت خان بڑے زور سے کانپا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ نواب کی نیند بڑی ہلکی تھی۔ وہ کانپا تو وہ سر سے پیر تک یوں لرزی جیسے اس کے اندر زلزلہ آگیا ہے۔ چیخ کر اس نے پوچھا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

ہیبت خان اب کسی قدر سنبھل چکا تھا۔ اس نے خود کو اور زیادہ سنبھال کر اس سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں۔ میں۔ میں شاید خواب میں ڈرگیا تھا۔ ‘‘

لاری کی آواز دور سے رات کی خاموشی میں ابھی تک آرہی تھی۔ نواب نے اس سے کہا۔

’’نہیں خان۔ کوئی اور بات ہے۔ جب بھی کوئی موٹر یا لاری سڑک پر سے گزرتی ہے، تمہاری یہی حالت ہوتی ہے۔ ‘‘

ہیبت خان کی شاید یہ دکھتی رگ تھی جس پر نواب نے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس نے اپنا مردانہ وقار قائم رکھنے کے لیے بڑے تیز لہجے میں کہا۔

’’بکتی ہو تم۔ موٹروں اور لاریوں سے ڈرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟‘‘

نواب کا دل بہت نازک تھا۔ ہیبت خان کے تیزلہجے سے اس کو ٹھیس لگی اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ ہیبت خان نے جب اس کو چپ کرایا تووہ اپنی زندگی کے ایک لطیف ترین خط سے آشنا ہوا اور اس کا جسم نواب کے جسم سے اور زیادہ قریب ہو گیا۔ ہیبت خان اچھے قد کاٹھ کا آدمی تھا۔ اس کا جسم گٹھا ہوا تھا۔ خوبصورت تھا۔ اس کی بانھوں میں نواب نے پہلی بار بڑی پیاری حرارت محسوس کی تھی۔ اس کو جسمانی لذت کی الف بے اسی نے سکھائی تھی۔ وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی۔ یوں کہیے کہ وہ شے جو محبت ہوتی ہے، اس کے معانی اب اس پر آشکار ہورہے تھے۔ وہ اگر ایک ہفتہ غائب رہتا تو نواب گراموفون پر دردیلے گیتوں کے ریکارڈ لگا کر خود ان کے ساتھ گاتی اور آہیں بھرتی تھی۔ مگر اس کو اس بات کی بڑی الجھن تھی کہ ہیبت خان موٹروں کی آمدورفت سے کیوں گھبراتا ہے۔ مہینوں گزر گئے۔ نواب کی سپردگی اور اس کے التفات میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر ادھر اس کی الجھن بڑھتی گئی کہ اب ہیبت خان چند گھنٹوں کے لیے آتا اور افراتفری کے عالم میں واپس چلا جاتا تھا۔ نواب محسوس کررہی تھی کہ یہ سب کسی مجبوری کی وجہ سے ہے، ورنہ ہیبت خان کا جی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ دیر ٹھہرے۔ اس نے کئی مرتبہ اس سے اس بارے میں پوچھا۔

’’مگر وہ گول کرگیا۔ ایک دن صبح سویرے اس کی ڈوج سرکنڈوں کے پار رکی۔ نواب سو رہی تھی۔ ہارن بجا تو چونک کر اٹھی۔ آنکھیں ملتی ملتی باہر آئی۔ اس وقت تک ہیبت خان اپنی موٹر دور کھڑی کرکے مکان کے پاس پہنچ چکا تھا۔ نواب دوڑ کر اس سے لپٹ گئی۔ وہ اسے اٹھا کر اندر کمرے میں لے گیا جہاں نواڑ کا پلنگ تھا۔ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے۔ پیار محبت کی باتیں۔ معلوم نہیں نواب کے دل میں کیا آئی کہ اس نے اپنی زندگی کی پہلی فرمائش کی۔

’’خان۔ مجھے سونے کے کڑے لادو۔ ‘‘

ہیبت خان نے اس کی موٹی موٹی گوشت بھری سرخ و سفید کلائیوں کو کئی مرتبہ چوما اور کہا۔

’’کل ہی آجائیں گے۔ تمہارے لیے تو میری جان بھی حاضر ہے۔ ‘‘

نواب نے ایک ادا کے ساتھ، مگر اپنے مخصوص الہڑ انداز میں کہا۔

’’خان صاحب۔ جانے دیجیے۔ جان تو مجھے ہی دینی پڑے گی۔ ‘‘

ہیبت خان یہ سن کر کئی بار اس کے صدقے ہوا۔ اور بڑا پرلطف وقت گزار کے چلا گیا، اور وعدہ کر گیا کہ وہ دوسرے دن آئے گا اور سونے کے کڑے اس کے نرم نرم ہاتھوں میں خود پہنائے گا۔ نواب خوش تھی۔ اس رات وہ دیر تک مسرت بھرے ریکارڈ بجا بجا کر اس چھوٹی سی کوٹھڑی میں ناچتی رہی جس پر نواڑی پلنگ تھا۔ سردار بھی خوش تھی۔ اس رات اس نے پھر اپنی ڈبیا سے افیم کی ایک بڑی گولی نکالی اور اسے نگل کرسو گئی۔ دوسرے دن نواب اور زیادہ خوش تھی کہ سونے کے کڑے آنے والے ہیں اور ہیبت خان خود اس کو پہنانے والا ہے۔ وہ سارا دن منتظر رہی پر وہ نہ آیا۔ اس نے سوچا شاید موٹر خراب ہو گئی ہو۔ شاید رات ہی کو آئے۔ مگر وہ ساری رات جاگتی رہی اور ہیبت خان نہ آیا۔ اس کے دل کو، جو بہت نازک تھا، بڑی ٹھیس پہنچی۔ اس نے اپنی ماں کو، یا جو کچھ بھی وہ تھی، بار بار کہا

’’دیکھو، خان نہیں آیا، وعدہ کرکے پھر گیا ہے۔ ‘‘

لیکن پھر وہ سوچتی اور کہتی

’’ایسا نہ ہو، کچھ ہو گیا ہو‘‘

اور وہ سہم جاتی۔ کئی باتیں اس کے دماغ میں آتی تھیں۔ موٹر کا حادثہ، اچانک بیماری، کسی ڈاکو کا حملہ۔ لیکن بار بار اس کو لاریوں اور موٹروں کی آوازوں کا خیال آتا تھا۔ جن کو سن کر ہیبت خان ہمیشہ بوکھلا جاتا تھا۔ وہ اس کے متعلق پہروں سوچتی تھی، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ اس دوران میں اس کا کوئی پرانا گاہک بھی نہ آیا، اس لیے کہ سردار ان سب کو منع کر چکی تھی۔ تین چار لاریاں اور دو موٹریں البتہ اس کچی سڑک پر سے دھول اڑاتی گزریں۔ نواب کا ہر بار یہی جی چاہا کہ دوڑتی ہوئی ان کے پیچھے جائے اور ان کو آگ لگا دے۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہیبت خان کے یہاں آنے میں رکاوٹ کا باعث ہیں، مگر پھر سوچتی کہ موٹریں اور لاریاں رکاوٹ کا کیا باعث ہو سکتی ہیں، وہ اپنی کم عقلی پر ہنستی۔ لیکن یہ بات اس کے فہم سے بالاتر تھی کہ ہیبت خان جیسا تنومند مرد ان کی آواز سن کر سہم کیوں جاتا ہے۔ اس حقیقت کو اس کے دماغ کی پیدا کی ہوئی دلیل جھٹلا نہیں سکتی تھی۔ اور جب ایسا ہوتا تو بے حد رنجیدہ اور مغموم ہو جاتی اور گراموفون پر دردیلے ریکارڈ لگا کر سننا شروع کردیتی اور اس کی آنکھیں نمناک ہو جاتیں۔ ایک ہفتے کے بعد دوپہر کو جب نواب اور سردار کھانا کھا کر فارغ ہو چکی تھیں اور کچھ دیر آرام کرنے کی سوچ رہی تھیں کہ اچانک باہر سڑک پر سے موٹر کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ دونوں یہ آواز سن کر چونکیں کیوں کہ ہیبت خان کی ڈوج کے ہارن کی آواز نہیں تھی۔ سردار باہر لپکی کہ دیکھے کون ہے، پرانا آدمی ہوا تو اسے ٹرخا دے گی۔ مگر جب وہ سرکنڈوں کے پاس پہنچی تو اس نے دیکھا کہ ایک نئی موٹر میں ہیبت خان بیٹھا ہے۔ پچھلی نشست پر ایک خوش پوش اور خوبصورت عورت ہے۔ ہیبت خان نے موٹر کچھ دور کھڑی کی اور باہر نکلا۔ اس کے ساتھ ہی پچھلی نشست سے وہ عورت۔ دونوں ان کے مکان کی طرف بڑھے۔ سردار نے سوچا کہ یہ کیا سلسلہ ہے۔ عورت کے لیے تو ہیبت اتنی دور سے چل کر یہاں آتا ہے، پھر یہ عورت جو اتنی خوبصورت ہے، جوان ہے، قیمتی کپڑوں میں ملبوس ہے، اس کے ساتھ یہاں کیا کرنے آئی ہے۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ہیب خان اس خوبصورت کے ساتھ جس نے بیش قیمت زیور پہنے ہوئے تھے، مکان میں داخل ہو گیا۔ وہ ان کے پیچھے پیچھے چلی۔ اس کی طرف ان دونوں میں سے کسی نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ جب وہ اندر گئی تو ہیبت خان، نواب اور وہ عورت تینوں نواڑی پلنگ پر بیٹھے تھے اور خاموشی طاری تھی۔ عجیب قسم کی خاموشی۔ زیوروں سے لدی پھندی عورت البتہ کسی قدر مضطرب نظر آتی تھی کہ اس کی ایک ٹانگ بڑے زور سے ہل رہی تھی۔ سردار دہلیز کے پاس ہی کھڑی ہو گئی۔ اس کے قدموں کی آہٹ سن کر جب ہیبت خان نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے سلام کیا۔ ہیبت خان نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ سخت بوکھلایا ہوا تھا۔ اس عورت کی ٹانگ ہلنا بند ہوئی اور وہ سردار سے مخاطب ہوئی۔

’’ہم آئے ہیں۔ کھانے پینے کا تو بندوبست کرو۔ ‘‘

سردار نے سرتاپا مہمان نواز بن کر کہا۔

’’جو تم کہو، ابھی تیار ہو جاتا ہے۔ ‘‘

اس عورت نے جس کے خدوخال سے صاف مترشح تھا کہ بڑی دھڑلے کی عورت ہے، سردار سے کہا۔

’’تو چلو تم باورچی خانے میں۔ چولہا سلگاؤ۔ بڑی دیگچی ہے گھرمیں؟‘‘

’’ہے!‘‘

سردار نے اپنا وزنی سرہلایا۔

’’تو جاؤ اس کو دھو کرصاف کرو۔ میں ابھی آئی۔ ‘‘

وہ عورت پلنگ پر سے اٹھی اور گراموفون کو دیکھنے لگی۔ سردار نے معذرت بھرے لہجے میں اس سے کہا۔

’’گوشت وغیرہ تو، یہاں نہیں ملے گا۔ ‘‘

اس عورت نے ایک ریکارڈ پر سوئی رکھی

’’مل جائے گا۔ تم سے جو کہا ہے، وہ کرو۔ اور دیکھو آگ کافی ہو۔ ‘‘

سردار یہ احکام لے کر چلی گئی۔ اب وہ خوش پوش عورت مسکرا کر نواب سے مخاطب ہوئی۔

’’نواب! ہم تمہارے لیے سونے کے کڑے لے کر آئے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنا وینٹی بیگ کھولا اور اس میں سے باریک سرخ کاغذ میں لپٹے ہوئے کڑے نکالے جو کافی وزنی اور خوبصورت تھے۔ نواب اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے خاموش ہیبت خان کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے کڑوں کو ایک نظر دیکھا اور اس سے بڑی نرم و نازک مگر سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’خان یہ کون ہے؟‘‘

اس کا اشارہ اس عورت کی طرف تھا۔ وہ عورت کڑوں سے کھیلتے ہوئے بولی۔

’’میں کون ہوں۔ میں ہیبت خان کی بہن ہوں۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر اس نے ہیبت خان کی طرف دیکھا جو اس کے اس جواب پر سکڑ گیا تھا۔ پھر وہ نواب سے مخاطب ہوئی۔

’’میرا نام ہلاکت ہے۔ ‘‘

نواب کچھ نہ سمجھی۔ مگر وہ اس عورت کی آنکھوں سے خوف کھا رہی تھی جو یقیناً خوبصورت تھیں مگر بڑے خوفناک طور پر کھلی۔ ان میں جیسے آگ برس رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور اس نے سمٹی ہوئی، سہمی ہوئی نواب کی کلائیاں پکڑیں اور اس میں کڑے ڈالنے لگی۔ لیکن اس نے اس کی کلائیاں چھوڑ دیں اور ہیبت خان سے مخاطب ہوئی۔

’’تم جاؤ ہیت خان۔ میں اسے اچھی طرح سجا بنا کر تمہاری خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

ہیبت خان مبہوت تھا۔ جب وہ نہ اٹھا تو ہ عورت جس نے اپنا نام ہلاکت بتاتا تھا، ذرا تیزی سے بولی۔

’’جاؤ۔ تم نے سنا نہیں؟‘‘

ہیبت خان، نواب کی طرف دیکھتا ہوا باہر چلا گیا۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کہاں جائے اور کیا کرے۔ مکان کے باہر جو برآمدہ ساتھا، اس کے ایک کونے میں ٹاٹ لگا باورچی خانہ تھا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سردارآگ سلگا چکی ہے۔ اس نے اس سے کوئی بات نہ کی اور سرکنڈوں کے اس پار سڑک پر چلا گیا۔ اس کی حالت نیم دیوانوں کی سی تھی۔ ذرا سی آہٹ پر بھی وہ چونک اٹھتا تھا۔ جب اس کو دور سے ایک لاری آتی ہوئی دکھائی دی تو اس نے سوچا کہ وہ اسے روک لے اور اس میں بیٹھ کر وہاں سے غائب ہو جائے۔ مگر جب وہ پاس آئی تو ایسی دھول اڑی کہ وہ اس میں غائب ہو گیا۔ اس نے آوازیں دیں، مگر گرد کے باعث اس کا حلق اس قابل ہی نہیں تھا کہ بلند آواز نکال سکے۔ گردوغبار کم ہوا تو ہیبت خان نیم مردہ تھا۔ اس نے چاہا کہ سرکنڈوں کے پیچھے اس مکان میں جائے جہاں اس نے کئی دن اور کئی راتیں نواب کے الہڑ پہلو میں گزاری تھیں، مگر وہ نہ جاسکا۔ اس کے قدم ہی نہیں اٹھتے تھے۔ وہ بہت دیر تک کچی سڑک پر کھڑا سوچتا رہا کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ وہ عورت جو اس کے ساتھ آئی تھی، اس کے ساتھ اس کے کافی پرانے تعلقات تھے، صرف اس بنا پر کہ بہت دیر ہوئی، وہ اس کے خاوند کی موت کا افسوس کرنے گیا تھا جو اس کا لنگوٹیا تھا۔ مگر اتفاق سے یہ ماتم پرسی ان دنوں کے باہمی تعلق میں تبدیل ہو گئی۔ خاوند کی موت کے دوسرے ہی دن وہ اس کے گھر میں تھا، اور اس عورت نے اس کو ایسے تحکم سے اندر بلا کر اپنا آپ اس کے سپرد کیا تھا جیسے وہ اس کا نوکر ہے۔ ہیبت خان عورت کے معاملے میں بالکل کورا تھا۔ جب شاہینہ نے اس سے اپنے عجیب و غریب تحکم بھرے التفات کا اظہار کیا تو اس کے لیے یہی بڑی بات تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہینہ کے پاس بے اندازہ دولت تھی۔ کچھ اپنی اور کچھ اپنے مرحوم خاوند کی، مگر اسے اس دولت سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس کو شاہینہ سے صرف یہی دلچسپی تھی کہ وہ اس کی زندگی کی سب سے پہلی عورت تھی۔ وہ اس کے تحکم کے نیچے شاید اس لیے دب کے رہ گیا تھا کہ وہ بالکل اناڑی تھا۔ بہت دیر تک وہ کچی سڑک پر کھڑا سوچتا رہا۔ آخر اس سے نہ رہا گیا۔ سرکنڈوں کے پیچھے مکان کی طرف بڑھا تو اس نے برآمدے میں ٹاٹ لگے باورچی خانے میں سردار کو کچھ بھونتے ہوئے دیکھا۔ اندر اس کمرے کی طرف گیا جہاں نواڑ کا پلنگ تھا تو دروازہ بند پایا۔ اس نے ہولے سے دستک دی۔ چند لمحات کے بعد دروازہ کھلا۔ کچے فرش پر اس کو سب سے پہلے خون ہی خون نظر آیا۔ وہ کانپ اٹھا۔ پھر اس نے شاہینہ کو دیکھا جو دروازہ کے پٹ کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے ہیبت خان سے کہا۔

’’میں نے تمہاری نواب کو سجا بنا دیا ہے!‘‘

ہیبت خان نے اپنے خشک گلے کو تھوک سے کسی قدر تر کرکے اس سے پوچھا

’’کہاں ہے؟‘‘

شاہینہ نے جواب دیا۔

’’کچھ تو اس پلنگ پر ہے۔ لیکن اس کا بہترین حصہ باورچی خانہ میں ہے۔ ‘‘

ہیبت خان پر اس کا مطلب سمجھے بغیر ہیبت طاری ہو گئی۔ وہ کچھ کہہ نہ سکا۔ وہیں دہلیز کے پاس کھڑا رہا۔ مگر اس نے دیکھا کہ فرش پر گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے بھی ہیں اور۔ ایک تیز چھری بھی پڑی ہے۔ اور نواڑی پلنگ پر کوئی لیٹا ہے جس پر خون آلود چادرپڑی ہے۔ شاہینہ نے مسکرا کر کہا۔

’’چادر اٹھا کر دکھاؤں۔ تمہاری سجی بنی نواب ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے سنگھار کیا ہے۔ لیکن تم پہلے کھانا کھا لو۔ بہت بھوک لگی ہو گی، سردار بڑا لذیذ گوشت بھون رہی ہے۔ اس کی بوٹیاں میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹی ہیں۔ ہیبت خان کے پاؤں لڑکھڑائے۔ زور سے چلایا۔

’’شاہینہ تم نے یہ کیا کیا!‘‘

شاہینہ مسکرائی۔

’’جان من!یہ پہلی مرتبہ نہیں۔ دوسری مرتبہ ہے۔ میرا خاوند، اللہ اسے جنت نصیب کرے، تمہاری طرح ہی بے وفا تھا۔ میں نے خود اس کو اپنے ہاتھوں سے مارا تھا اور اس کا گوشت پکا کر چیلوں اور کوؤں کو کھلایا تھا۔ تم سے مجھے پیار ہے، اس لیے میں نے تمہارے بجائے۔ ‘‘

اس نے فقرہ مکمل نہ کیا اور پلنگ پر سے خون آلود چادر ہٹادی۔ ہیبت خان کی چیخ اس کے حلق کے اندر ہی دھنسی رہی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ شاہینہ کار چلا رہی ہے اور وہ غیر علاقے میں ہیں۔

سعادت حسن منٹو

سُرمہ

فہمیدہ کی جب شادی ہوئی تو اس کی عمر انیس برس سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کا جہیز تیار تھا۔ اس لیے اس کے والدین کو کوئی دِقت محسوس نہ ہوئی۔ پچیس کے قریب جوڑے تھے اور زیورات بھی، لیکن فہمید نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ سُرمہ جو خاص طور پر اُن کے یہاں آتا ہے، چاندی کی سرمے دانی میں ڈال کر اُسے ضرور دیں۔ ساتھ ہی چاندی کا سرمچو بھی۔ فہمیدہ کی یہ خواہش فوراً پوری ہو گئی۔ اعظم علی کی دکان سے سرمہ منگوایا۔ برکت کی دکان سے سرمے دانی اور سرمچو لیا اور اس کے جہیز میں رکھ دیا۔ فہمیدہ کو سرمہ بہت پسند تھا۔ وہ اس کو معلوم نہیں، کیوں اتنا پسند تھا۔ شاید اس لیے کہ اس کا رنگ بہت زیادہ گورا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ تھوڑی سی سیاہی بھی اس میں شامل ہو جائے۔ ہوش سنبھالتے ہی اُس نے سُرمے کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ اُس کی ماں اُس سے اکثر کہتی۔

’’فہمی۔ یہ تمھیں کیا خبط ہو گیا ہے۔ جب نہ تب آنکھوں میں سرمہ لگاتی رہتی ہو۔ ‘‘

فہمیدہ مسکراتی۔

’’امی جان۔ اس سے نظر کمزور نہیں ہوتی۔ آپ نے عینک کب لگوائی تھی؟‘‘

’’بارہ برس کی عمر میں۔ ‘‘

فہمیدہ ہنسی۔

’’اگر آپ نے سرمے کا استعمال کیا ہوتا، تو آپ کو کبھی عینک کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اصل میں ہم لوگ کچھ زیادہ ہی روشن خیال ہو گئے ہیں لیکن روشنی کے بدلے ہمیں اندھیرا ہی اندھیرا ملتا ہے۔ ‘‘

اس کی ماں کہتی۔

’’جانے کیا بک رہی ہو‘‘

’’میں جو کچھ بک رہی ہوں صحیح ہے۔ آج کل لڑکیاں نقلی بھویں لگاتی ہیں۔ کالی پنسل سے خدا معلوم اپنے چہرے پر کیا کچھ کرتی ہیں۔ لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ چڑیل بن جاتی ہیں۔ ‘‘

اس کی ماں کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔

’’جانے کیا کہہ رہی ہو۔ میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا‘‘

فہمیدہ کہتی۔

’’امی جان! آپ کو اتنا سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں صرف خاک ہی خاک نہیں۔ کچھ اور بھی ہے۔ ‘‘

اس کی ماں اس سے پوچھتی۔

’’اور کیا ہے؟‘‘

فہمیدہ جواب دیتی۔

’’بہت کچھ ہے۔ خاک میں بھی سونے کے ذرے ہوسکتے ہیں۔ ‘‘

خیر۔ فہمیدہ کی شادی ہو گئی۔ پہلی ملاقات میاں بیوی کی بڑی دل چسپ تھی۔ جب فہمیدہ کا خاوند اس سے ہم کلام ہوا، تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی آنکھوں میں سیاہیاں تیر رہی ہیں۔ اُس کے خاوند نے پوچھا۔

’’یہ تم اتنا سرمہ کیوں لگاتی ہو؟‘‘

فہمیدہ جھینپ گئی اور جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کے خاوند کو یہ ادا پسند آئی اور وہ اُس سے لپٹ گیا۔ لیکن فہمیدہ کی سرمہ بھری آنکھوں سے ٹپ ٹپ کالے کالے آنسو بہنے لگے۔ اس کا خاوند بہت پریشان ہو گیا،

’’تم رو کیوں رہی ہو ؟‘‘

فہمیدہ خاموش رہی۔ اُس کے خاوند نے ایک بار پھر پوچھا

’’کیا بات ہے۔ آخر رونے کی وجہ کیا ہے۔ میں نے تمھیں کوئی دُکھ پہنچایا؟

’’جی نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر رونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟‘‘

’’کوئی بھی نہیں۔ ‘‘

اُس کے خاوند نے اس کے گال پر ہولے ہولے تھپکی دی اور کہا

’’جان من جو بات ہے مجھے بتا دو۔ اگر میں نے کوئی زیادتی کی ہے تو اُس کی معافی چاہتا ہوں۔ دیکھو تم اس گھر کی ملکہ ہو۔ میں تمہارا غلام ہوں۔ لیکن مجھے یہ رونا دھونا اچھا نہیں لگتا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم سدا ہنستی رہو۔ ‘‘

فہمیدہ روتی رہی۔ اس کے خاوند نے اس سے ایک بار پھر پوچھا

’’آخر اس رونے کی وجہ کیا ہے؟‘‘

فہمیدہ نے جواب دیا۔

’’کوئی وجہ نہیں ہے، آپ پانی کا ایک گلاس دیجیے مجھے‘‘

اس کا خاوند فوراً پانی کا ایک گلاس لے آیا۔ فہمیدہ نے اپنی آنکھوں میں لگا ہوا سرمہ دھویا۔ تولیے سے اچھی طرح صاف کیا۔ آنسو خود بخود خشک ہو گئے اس کے بعد وہ اپنے خاوند سے ہم کلام ہوئی۔

’’میں معذرت چاہتی ہوں کہ آپ کو میں نے اتنا پریشان کیا۔ اب دیکھیے میری آنکھوں میں سرمے کی ایک لکیر بھی باقی نہیں رہی۔ ‘‘

اس کے خاوند نے کہا ’ مجھے سرمے پر کوئی اعتراض نہیں۔ تم شوق سے اس کو استعمال کرو۔ مگر اتنا زیادہ نہیں کہ آنکھیں ابلتی نظر آئیں۔ ‘‘

فہمیدہ نے آنکھیں جھکا کر کہا۔

’’مجھے آپ کا ہر حکم بجا لانا ہے۔ آئندہ میں کبھی سرمہ نہیں لگاؤں گی۔ ‘‘

’’نہیں نہیں۔ میں تمھیں اس کے استعمال سے منع نہیں کرتا۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ۔ میرا مطلب ہے کہ اس چیز کو بقدر کفایت استعمال کیا جائے۔ ضرورت سے زیادہ جو بھی چیز استعمال میں آئے گی، اپنی قدر کھو دے گی۔ ‘‘

فہمیدہ نے سرمہ لگانا چھوڑ دیا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی چاندی کی سرمے دانی اور چاندی کے سرمچو کو ہر روز نکال کر دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ یہ دونوں چیزیں اُس کی زندگی سے کیوں خارج ہو گئی ہیں، وہ کیوں ان کو اپنی آنکھوں میں جگہ نہیں دے سکتی۔ صرف اس لیے کہ اُس کی شادی ہو گئی ہے؟ صرف اس لیے کہ وہ اب کسی کی ملکیت ہو گئی ہے؟ یا ہوسکتا ہے کہ اس کی قوتِ ارادی سلب ہو گئی ہو۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی تھی۔ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی تھی۔ ایک برس کے بعد اس کے ہاں چاند سا بچہ آگیا۔ فہمیدہ نڈھال تھی لیکن اسے اپنی کمزوری کا کوئی احساس نہیں تھا اس لیے کہ وہ اپنے لڑکے کی پیدائش پر نازاں تھی۔ اُسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس نے کوئی بہت بڑی تخلیق کی ہے۔ چالیس دنوں کے بعد اُس نے سرمہ منگوایا اور اپنے نومولود لڑکے کی آنکھوں میں لگایا۔ لڑکے کی آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ ان میں جب سرمہ کی تحریر ہوئی تو وہ اور بھی زیادہ بڑی ہو گئیں۔ اس کے خاوند نے کوئی اعتراض نہ کیا کہ وہ بچے کی آنکھوں میں سرمہ کیوں لگاتی ہے۔ اس لیے کہ اُسے بڑی اور خوب صورت آنکھیں پسند تھیں۔ دن اچھی طرح گزر رہے تھے۔ فہمیدہ کے خاوند شجاعت علی کو ترقی مل گئی تھی۔ اب اس کی تنخواہ ڈیڑھ ہزار روپے کے قریب تھی۔ ایک دن اُس نے اپنے لڑکے، جس کا نام اس کی بیوی نے عاصم رکھا تھا، سرمہ لگی آنکھوں کے ساتھ دیکھا۔ وہ اُس کو بہت پیارا لگا، اس نے بے اختیار اُس کو اُٹھایا چوما چاٹا اور پلنگڑی پر ڈال دیا۔ وہ ہنس رہا تھا، اور اپنے ننھے منے ہاتھ پاؤں اِدھر اُدھر مار رہا تھا۔ اس کی سالگرہ کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ فہمیدہ نے ایک بہت بڑے کیک کا آرڈر دے دیا تھا۔ محلے کے سب بچوں کو دعوت دی گئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کے لڑکے کی پہلی سالگرہ بڑی شان سے منائی جائے۔ سالگرہ یقیناً شان سے منائی جاتی، مگر دو دن پہلے عاصم کی طبیعت نا ساز ہو گئی اور ایسی ہوئی کہ اسے تشنج کے دورے پڑنے لگے۔ ! اُسے ہسپتال لے گئے، وہاں ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا۔ تشخیص کے بعد معلوم ہوا کہ اسے ڈبل نمونیا ہو گیا ہے۔ فہمیدہ رونے لگی۔ بلکہ سر پیٹنے لگی

’’ہائے میرے لال کو یہ کیا ہو گیا ہے۔ ہم نے تو اُسے پھولوں کی طرح پالا ہے۔ ‘‘

ایک ڈاکٹر نے اس سے کہا

’’میڈم یہ بیماریاں انسان کے احاطہ اختیار میں نہیں۔ ویسے بحیثیت ڈاکٹر میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ بچے کے جینے کی کوئی امید نہیں۔ ‘‘

فہمیدہ نے رونا شروع کر دیا۔

’’میں تو خود مر جاؤں گی۔ خدا کے لیے، ڈاکٹر صاحب ! اسے بچا لیجیے، آپ علاج کرنا جانتے ہیں۔ مجھے اللہ کے گھر سے اُمید ہے کہ میرا بچہ ٹھیک ہو جائے گا۔

’’آپ اتنے نا امید کیوں ہیں؟‘‘

میں نا امید نہیں۔ لیکن میں آپ کو جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہتا۔ ‘‘

’’جھوٹی تسلیاں، آپ مجھ کو کیوں دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ میرا بچہ زندہ رہے گا۔ ‘‘

خدا کرے کہ ایسا ہی ہو‘‘

مگر خدا نے ایسا نہ کیا اور وہ تین روز کے بعد ہسپتال میں مر گیا۔ فہمیدہ پر دیر تک پاگل پن کی کیفیت طاری رہی اس کے ہوش و حواس گم تھے کوئلے اٹھاتی انھیں پیستی اور اپنے چہرے پر ملنا شروع کر دیتی۔ اس کا خاوند سخت پریشان تھا۔ اُس نے کئی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا۔ دوائیں بھی دیں لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ فہمیدہ کے دل و دماغ میں سرمہ ہی سرمہ تھا۔ وہ ہر بات کا لک کے ساتھ سوچتی تھی۔ اُس کا خاوند اس سے کہتا

’’کیا بات ہے تم اتنی افسردہ کیوں رہتی ہو‘‘

وہ جواب دیتی

’’جی، کوئی خاص بات نہیں۔ مجھے آپ سرمہ لا دیجیے‘‘

اس کا خاوند اُس کے لیے سرمہ لے آیا، مگر فہمیدہ کو پسند نہ آیا۔ چنانچہ وہ خود بازار گئی اور اپنی پسند کا سرمہ خرید کر لائی۔ اپنی آنکھوں میں لگایا اور سو گئی۔ جس طرح وہ اپنے بیٹے عاصم کے ساتھ سویا کرتی تھی۔ صبح جب اُس کا خاوند اٹھا اور اور اس نے اپنی بیوی کو جگانے کی کوشش کی تو وہ مردہ پڑی تھی اس کے پہلو میں ایک گڑیا تھی جس کی آنکھیں سرمے سے لبریز تھیں۔ سعادت حسن منٹو ۱۱۔ دستمبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

سراج

ناگپاڑہ پولیس چوکی کے اس طرف جو چھوٹا سا باغ ہے۔ اس کے بالکل سامنے ایرانی کے ہوٹل کے باہر، بجلی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر ڈھونڈو کھڑا تھا۔ دن ڈھلے، مقررہ وقت پر وہ یہاں آجاتا اور صبح چار بجے تک اپنے دھندے میں مصروف رہتا۔ معلوم نہیں، اس کا اصل نام کیا تھا۔ مگر سب اسے ڈھونڈو کہتے تھے، اس لحاظ سے تو یہ بہت مناسب تھا کہ اس کا کام اپنے موکلوں کے لیے ان کی خواہش اور پسند کے مطابق ہر نسل اور ہر رنگ کی لڑکیاں ڈھونڈتا تھا۔ یہ دھندہ وہ قریب قریب دس برس سے کررہا تھا۔ اس دوران میں ہزاروں لڑکیاں اس کے ہاتھوں سے گزر چکی تھیں۔ ہر مذہب کی، ہر نسل کی، ہر مزاج کی۔ اس کا اڈہ شروع سے یہی رہا تھا۔ ناگپاڑہ پولیس چوکی کے اس طرف۔ باغ کے بالکل سامنے۔ ایرانی ہوٹل کے باہر بجلی کے کھمبے کے ساتھ۔ کھمبا اس کا نشان بن گیا تھا۔ بلکہ مجھے تو وہ ڈھونڈو ہی معلوم ہوتا تھا۔ میں جب کبھی ادھر سے گزرتا اور میری نظر اس کھمبے پر پڑتی۔ جس پر جگہ جگہ چونے اور کتھے کی انگلیاں پونچھی گئی تھیں تو مجھے ایسا لگتا کہ ڈھونڈو کھڑا ہے اور کالے کانڈی اور سینکے لی سوپاری والا پان چبا رہا ہے۔ یہ کھمبا کافی اونچا تھا۔ ڈھونڈو بھی دراز قد تھا۔ کھمبے کے اوپر بجلی کے تاروں کا ایک جال سا بچھا تھا۔ کوئی تار دور تک دوڑتا چلا گیا تھا اور دوسرے کھمبے کے تاروں کے الجھاؤ میں مدغم ہو گیا تھا۔ کوئی تار کسی بڈنگ میں اور کوئی کسی دکان میں چلا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کھمبے کی پہنچ دور دور تک ہے۔ وہ دوسرے کھمبوں سے مل کر گویا سارے شہر پر چھایا ہوا ہے۔ اس کھمبے کے ساتھ ٹیلیفون کے محکمے نے ایک بکس لگا رکھا تھا جس کے ذریعے سے وقتاً فوقتاً تاروں کی درستی وغیرہ کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ اکثر سوچتا تھا کہ ڈھونڈو بھی اسی قسم کا ایک بکس ہے جو لوگوں کی جنسی جانچ پڑتال کے لیے کھمبے کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ کیونکہ اسے آس پاس کے علاقے کے علاوہ دور دور کے علاقوں کے ان تمام سیٹھوں کا پتا تھا جن کو وقفوں کے بعد یا ہمیشہ ہی اپنی جنسی خواہشات کے تنے ہوئے یا ڈھیلے تار درست کرانے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اسے ان تمام چھوکریوں کا بھی پتا تھا جو اس دھندے میں تھیں۔ وہ ان کے جسم کے ہر خدوخال سے واقف تھا۔ ان کی ہر نبض سے آشنا تھا۔ کون کس مزاج کی ہے اور کس وقت اور کس گاہک کے لیے موزوں ہے۔ اس کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ لیکن ایک صرف اس کو سراج کے متعلق ابھی تک کوئی اندازہ نہیں ہوا تھا۔ وہ اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ ڈھونڈو کئی بار مجھ سے کہہ چکا تھا۔

’’سالی کا مستک پھرے لا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا منٹو صاحب، کیسی چھوکری ہے۔ گھڑی میں ماشہ گھڑی میں تولا۔ کبھی آگ، کبھی پانی۔ ہنس رہی ہے۔ قہقہے لگا رہی ہے۔ لیکن ایک دم رونا شروع کردے گی۔ سالی کی کسی سے نہیں بنتی۔ بڑی جھگڑالو ہے۔ ہر پسنجر سے لڑتی ہے۔ سالی سے کئی بار کہہ چکا کہ دیکھ، اپنا مستک ٹھیک کر، ورنہ جان جہاں سے آئی ہے۔ انگ پر تیرے کوئی کپڑا نہیں۔ کھانے کو تیرے پاس ڈیڑھیا نہیں۔ مارا ماری اور دھاندلی سے تو میری جان کام نہیں چلے گا۔ پر وہ ایک تخم ہے۔ کسی کی سنتی ہی نہیں‘‘

میں نے سراج کو ایک دو مرتبہ دیکھا ہے۔ بڑی دبلی پتلی لڑکی تھی مگر خوبصورت۔ اس کی آنکھیں ضرورت سے زیادہ بڑی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس کے بیضوی چہرے پر صرف اپنی بڑائی جتانے کی خاطر چھائی ہوئی ہیں۔ میں نے جب اس کو پہلی مرتبہ کلیئر روڈ پر دیکھا تھا تو مجھے بڑی الجھن ہوئی تھی۔ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ اس کی آنکھوں سے کہوں کہ بھئی تم تھوڑی دیر کے لیے ذرا ایک طرف ہٹ جاؤ تاکہ میں سراج کو دیکھ سکوں۔ لیکن میری اس خواہش کے باوجود جو یقیناً میری آنکھوں نے اس کی آنکھیں تک پہنچا دی ہو گی، وہ اسی طرح اس کے سفید بیضوی چہرے پرچھائی رہیں۔ مختصر سی تھی، مگر اس اختصار کے باوجود بڑی جامع معلوم ہوتی تھی۔ ایسالگتا تھا کہ وہ ایک صراحی ہے جس میں ایک حجم سے زیادہ پانی ملی ہوئی شراب بھرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نتیجے کے طور پر سیال چیز دباؤ کے باعث ادھر ادھر، تڑپ کر بہہ گئی ہے۔ میں نے پانی ملی ہوئی شراب اس لیے کہا ہے کہ اس میں تلخی تھی، وہ جو تیز و تند شراب کی ہوتی ہے، مگر ایسا لگتا تھا کسی دھوکے باز نے اس میں پانی ملا دیا ہے، تاکہ مقدار زیادہ ہو جائے۔ مگر سراج میں لسانیت کی جو مقدار تھی، ویسی کی ویسی موجود تھی اور اس جھنجھلاہٹ سے جو اس کے گھنے بالوں سے اس کی تیکھی ناک سے، اس کے بھنچے ہوئے ہونٹوں سے اور اس کی انگلیوں سے، جو نقشہ نویسوں کی نوکیلی اور تیز تیز پنسلیں معلوم ہوتی تھیں، میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ وہ ہر چیز سے ناراض ہے۔ ڈھونڈو سے۔ اس کھمبے سے جس کے ساتھ لگ کر وہ کھڑا رہتا تھا۔ ان گاہکوں سے جو اس کے لیے لائے جاتے تھے۔ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے بھی جو اس کے سفید بیضوی چہرے پر قبضہ جمائے رکھتی تھیں۔ اس کی پتلی پتلی، نوکیلی انگلیاں جو نقشہ نویسوں کی پنسلوں کی طرح تیز تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان سے بھی ناراض ہے۔ شاید اس لیے کہ جو نقشہ سراج بنانا چاہتی تھی وہ نہیں بنا سکتی تھیں۔ یہ تو ایک افسنہ نگار کے تاثرات میں جو چھوٹے سے تل میں سنگِ اسود کی تمام سختیاں بیان کرسکتا ہے۔ آپ ڈھونڈو کی زبانی سراج کے متعلق سنیے اس نے مجھ سے ایک دن کہا۔

’’منٹو صاحب۔ آج سالی نے پھر ٹنٹا کردیا۔ وہ تو جانے کس دن کا ثواب کام آگیا اور آپ کی دعا سے یوں بھی ناگپاڑہ چوکی کے سب افسر مہربان ہیں، ورنہ کل ڈھونڈو اندر ہوتا۔ وہ دھمال مچائی کہ میں تو باپ رے باپ کہتا رہ گیا۔ ‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا بات ہوئی تھی؟‘‘

’’وہی جو ہوا کرتی ہے۔ میں نے لاکھ لعنت بھیجی اپنی ہشت پشت پر کہ حرامی جب تو اس چھوکری کو اچھی طرح جانتا ہے تو پھر کیوں انگلی لیتا ہے۔ کیوں اس کو نکال کر لاتا ہے۔ تیری ماں لگتی ہے یا بہن۔ میری تو کوئی عقل کام نہیں کرتی منٹو صاحب!‘‘

ہم دونوں ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ ڈھونڈو نے کوفی ملی چائے پرچ میں انڈیلی اور سڑپ سڑپ پینے لگا۔

’’اصل بات یہ ہے کہ سالی سے مجھے ہمدردی ہے۔ ‘‘

میں نے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

ڈھونڈو نے سر کو ایک جھٹکا دیا۔

’’جائے کیوں۔ یہ سالا معلوم ہو جائے تو یہ روز کا ٹنٹا ختم نہ ہو۔ ‘‘

پھر اس نے ایک دم پرچ میں پیالی اوندھی کرکے مجھ سے کہا۔

’’آپ کو معلوم ہے۔ ابھی تک کنواری ہے۔ ‘‘

یقین مانیے کہ میں ایک لحظے کے لیے چکرا گیا۔

’’کنواری۔ ‘‘

’’آپ کی جان کی قسم‘‘

میں نے جیسے اس کو اپنی بات پر نظرثانی کرنے کے لیے کہا۔

’’نہیں ڈھونڈو۔ ‘‘

ڈھونڈو کو میرا یہ شک ناگوار معلوم ہوا۔

’’میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا منٹو صاحب۔ سولہ آنے کنواری ہے۔ آپ مجھ سے شرط لگا لیجیے۔ ‘‘

میں صرف اسی قدر کہہ سکا۔

’’مگر ایسا کیونکر ہوسکتا ہے۔ ‘‘

ڈھونڈو نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا۔

’’ایسا کیوں ہونے کو نہیں سکتا۔ سراج جیسی چھوکری تو اس دھندے میں بھی رہ کر ساری عمر کنواری رہ سکتی ہے۔ سالی کسی کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیتی۔ مجھے اس کی ساری ہشٹری معلوم نہیں۔ انتا جانتا ہوں۔ پنجابن ہے۔ لیمنگٹن روڈ پر میم صاحب کے پاس تھی۔ وہاں سے نکالی گئی کہ ہر پیسنجر سے لڑاتی تھی۔ دو تین مہینے نکل گئے کہ مڈام کے پاس دس بیس اور چھوکریاں تھیں۔ پر منٹو صاحب کوئی کب تک کسے کھلاتا ہے۔ اس نے ایک دن تین کپڑوں میں نکال باہر کیا۔ یہاں سے فارس روڈ میں دوسری مڈام کے پاس پہنچی۔ وہاں بھی اس کا مستک ویسے کا ویسا تھا۔ ایک پیسنجر کے کاٹ کھایا۔ دو تین مہینے یہاں گزرے۔ پر سالی کے مزاج میں تو جیسے آگ بھری ہوئی ہے اب کون اسے ٹھنڈا کرتا پھرے۔ پھر خدا آپ کا بھلا کرے، کھیت و اڑی کے ایک ہوٹل میں رہی۔ پر یہاں بھی وہی دھمال۔ منیجر نے تنگ آکر چلتا کیا۔ کیا بتاؤں منٹو صاحب۔ نہ سالی کو کھانے کا ہوش ہے نہ پینے کا۔ کپڑوں میں جوئیں پڑی ہیں۔ سر دو دو مہینے سے نہیں دھویا۔ چرس کے ایک دو سگرٹ مل جائیں کہیں سے تو پھونک لیتی ہے۔ یا کسی ہوٹل سے دور کھڑی ہو کر، فلمی ریکارڈ سنتی رہتی ہے۔ ‘‘

میرے لیے یہ تفصیل کافی تھی۔ اس کے رد عمل سے میں آپ کو آگاہ نہیں کرنا چاہتا کہ افسانہ نگار کی حیثیت سے یہ نامناسب ہے۔ میں نے ڈھونڈو سے محض سلسلہ گفتگو قائم رکھنے کے لیے پوچھا۔

’’تم اسے واپس کیوں نہیں بھیج دیتے۔ جب کہ اسے اس دھندے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کرایہ تم مجھ سے لے لو!‘‘

ڈھونڈو کو یہ بات بھی ناگوار معلوم ہوئی۔

’’منٹو صاحب کرائے سالے کی کیا بات ہے۔ میں نہیں دے سکتا۔ ‘‘

میں نے ٹوہ لینی چاہی۔

’’پھر اسے واپس کیوں نہیں بھیجتے؟‘‘

ڈھونڈو کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ کان میں اڑے ہوئے سگرٹ کا ٹکڑہ نکال کر اس نے سلگایا اور دھوئیں کو ناک کے دونوں نتنھوں سے باہر پھینک کر اس نے صرف اتنا کہا۔

’’میں نہیں چاہتا کہ وہ جائے۔ ‘‘

میں نے سمجھا۔ الجھے ہوئے دھاگے کا ایک سرا میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔

’’کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟‘‘

ڈھونڈو پر اس کا شدید رد عمل ہوا۔

’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں منٹو صاحب۔ ‘‘

۔ پھر اس نے دونوں کان پکڑ کر کھینچے۔

’’قرآن کی قسم میرے دل میں ایسا پلید خیال کبھی نہیں آیا۔ مجھے بس۔ ‘‘

وہ رک گیا۔

’’مجھے بس، کچھ اچھی لگتی ہے!‘‘

میں نے بڑا صحیح سوال کیا۔

’’کیوں؟‘‘

ڈھونڈو نے بھی اس کا بڑا صحیح جواب دیا۔

’’اس لیے۔ اس لیے کہ وہ دوسروں جیسی نہیں۔ باقی جتنی ہیں۔ سب پیس کی پیر ہیں۔ حرامی ہیں اول درجے کی۔ پر یہ جو ہے نا۔ کچھ عجیب و غریب ہے۔ نکال کے لاتا ہوں تو راضی ہو جاتی ہے۔ سودا ہو جاتا ہے۔ ٹیکسی یا وکٹوریہ میں بیٹھ جاتی ہے۔ اب منٹو صاحب، پیسنجر سالا موج شوق کے لیے آتا ہے۔ مال پانی خرچ کرتا ہے۔ ذرا دبا کے دیکھتا ہے۔ یا ویسے ہی ہاتھ لگا کے دیکھتا ہے۔ بس دھمال مچ جاتی ہے۔ مارا ماری شروع کردیتی ہے۔ آدمی شریف ہو تو بھاگ جاتا ہے۔ پیے والا ہو۔ یا موالی ہو تو آفت۔ ہر موقعے پر مجھے پہنچنا پڑتا ہے۔ پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں اور ہاتھ پیر الگ جوڑنے پڑتے ہیں۔ قسم قرآن کی صرف سراج کی خاطر۔ اور منٹو صاحب آپ کی جان کی قسم اسی سالی کی وجہ سے میرا دھندا آدھا رہ گیا ہے‘‘

۔ ! میرے ذہن نے سراج کا جو عقبی منظر تیار کیا تھا، میں اس کا ذکر کرنا نہیں چاہتا، لیکن اتنا ہے کہ جو کچھ ڈھونڈو نے مجھے بتایا وہ اس کے ساتھ ٹھیک طور پر جمتا نہیں تھا۔ میں نے ایک دن سوچا کہ ڈھونڈو کو بتائے بغیر سراج سے ملوں۔ وہ بائی کلہ اسٹیشن کے پاس ہی ایک نہایت واہیات جگہ میں رہتی تھی۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے۔ آس پاس کا تمام فضلہ تھا۔ کارپوریشن نے یہاں غریبوں کے لیے جست کے بے شمار جھونپڑے بنا دیے تھے۔ میں یہاں ان بلند بام عمارتوں کا ذکر کرنا نہیں چاہتا جو اس غلاظت گاہ سے تھوڑی دور ایستا دہ تھیں۔ کیونکہ ان کا اس افسانے سے کوئی تعلق نہیں۔ دنیا نام ہی نشیب و فراز کا ہے۔ یا رفعتوں اورپستیوں کا۔ ڈھونڈو سے مجھے اس کے جھونپڑے کا اتا پتا معلوم تھا۔ میں وہاں گیا۔ اپنے خوش وضع کپڑوں کو اس ماحول سے چھپائے ہوئے۔ لیکن یہاں میری ذات متعلق نہیں۔ بہر حال میں وہاں گیا۔ جھونپڑے کے باہر ایک بکری بندھی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو ممیائی۔ اندرسے ایک بڑھیا نکلی۔ جیسے پرانی داستانوں کے کرم خوردہ انبار سے کوئی کٹنی لاٹھی ٹیکتی ہوئی۔ میں لوٹنے ہی والا تھا کہ ٹاٹ کے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے پردے کے پیچھے مجھے دو بڑی بڑی آنکھیں نظر آئیں۔ بالکل اسی طرح پھٹی ہوئی جس طرح وہ ٹاٹ کا پردہ تھا۔ پھر میں نے سراج کا سفیدی بیضوی چہرہ دیکھا اور مجھے ان غاصب آنکھوں پر بڑا غصہ آیا۔ اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ معلوم نہیں اندر کیا کام کررہی تھی۔ فوراً سب چھوڑ چھاڑ کر باہر آئی۔ اس نے بڑھیا کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور مجھ سے کہا۔

’’آپ یہاں کیسے آئے؟‘‘

میں نے مختصراً کہا۔

’’تم سے ملنا تھا۔ ‘‘

سراج نے بھی اختصار ہی کے ساتھ کہا۔

’’آؤ اندر!‘‘

میں نے کہا۔

’’نہیں میرے ساتھ چلیے۔ ‘‘

اس پر کرم خوردہ داستانوں کی کرم خوردہ کٹنی بڑے دکاندارانہ انداز میں بولی۔

’’دس روپے ہوں گے۔ ‘‘

میں نے بٹوہ نکال کر دس روپے اس بڑھیا کو دے دیے اور سراج سے کہا۔

’’آؤ سراج‘‘

۔ ! سراج کی بڑی بڑی آنکھوں نے ایک لحظے کے لیے میری نگاہوں کو راستہ دیا کہ اس کے چہرے کی سڑک پر چند قدم چل سکیں۔ میں ایک بار پھر اسی نتیجے پر پہنچا کہ وہ خوبصورت تھی۔ سکڑی ہوئی خوبصورتی۔ حنوط لگی خوبصورتی۔ صدیوں کی محفوظ و مامون اور مدفون کی ہوئی خوبصورتی۔ میں نے ایک لحظے کے لیے یوں محسوس کیا کہ میں مصر میں ہوں اور پرانے دفینوں کی کھدائی پر مامور کیا گیا ہوں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ سراج میرے ساتھ تھی۔ ہم دونوں ایک ہوٹل میں تھے۔ وہ میرے سامنے، اپنے غلیظ کپڑوں میں ملبوس بیٹھی تھی اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے بیضوی چہرے پر قبضہ مخالفانہ کیے تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انھوں نے صرف سراج کے چہرے ہی کو نہیں، اس کے سارے وجود کو ڈھانپ لیا ہے کہ میں اس کے کسی روئیں کو بھی نہ دیکھ سکوں۔ بڑھیا نے جو قیمت بتائی تھی، میں نے ادا کردی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے چالیس روپے اور سراج کو دیے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے بھی اسی طرح لڑے جھگڑے، جس طرح وہ دوسروں کے ساتھ لڑتی جھگڑتی ہے۔ چنانچہ اسی غرض سے میں نے اس سے کوئی ایسی بات نہ کی جس سے محبت اور خلوص کی بو آئے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے بھی میں خائف تھا۔ وہ اتنی بڑی تھیں کہ میرے علاوہ میرے اردگرد کی ساری دنیا بھی دیکھ سکتی تھیں۔ وہ خاموش تھی۔ واہیات طریقے پر اسے چھیڑنے کے لیے ضروری تھا کہ میرے جسم اور ذہن میں غلط قسم کی حرارت ہو۔ چنانچہ نے وسکی کے چار پیگ پیے اور اس کو عام پیسنجروں کی طرح چھیڑا۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ میں نے ایک زبردست فضول حرکت کی۔ میرا خیال تھا کہ وہ بارود جو اس کے اندر بھری پڑی ہے، اس کو بھک سے اڑانے کے لیے یہ چنگاری کافی ہے۔ مگر حیرت ہے کہ وہ کسی قدر پرسکون ہو گئی۔ اٹھ کر اس نے مجھے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے پھیلاؤ میں سمیٹتے ہوئے کہا۔

’’چرس کا ایک سگریٹ منگوا دو مجھے!‘‘

’’شراب پیو!‘‘

’’نہیں۔ چرس کا سگرٹ پیوں گی!‘‘

میں نے اسے چرس کا سگرٹ منگوا دیا۔ اسے ٹھیٹ چرسیوں کے انداز میں پی کر اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں اب اپنا تسلط چھوڑ چکی تھیں۔ مگر اسی طرح جس طرح کوئی غاصب چھوڑتا ہے۔ اس کا چہرہ مجھے ایک اجڑی ہوئی، ایک بربادشدہ سلطنت نظر آیا۔ تاخت و تاراج ملک، اس کا ہر خط، ہر خال۔ ویرانی کی ایک لکیر تھی۔ مگر یہ ویرانی کیا تھی؟۔ کیوں تھی؟۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آبادیاں ہی ویرانوں کا باعث ہوتی ہیں۔ کیا وہ اسی قسم کی آبادی تھی جو شروع ہونے کے بعد کسی حملہ آور کے باعث ادھوری رہ گئی تھی اور آہستہ آہستہ اس کی دیواریں جو ابھی گز بھر بھی اوپر نہیں اٹھی تھیں کھنڈر بن گئی تھیں۔ میں چکر میں تھا، لیکن آپکو میں اس چکر میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ میں نے کیا سوچا، کیا نتیجہ برآمد کیا۔ اس سے آپ کو کیا مطلب۔ سراج کنواری تھا یا نہیں۔ میں اس کے متعلق جاننا نہیں چاہتا تھا۔ سلفے کے دھوئیں میں، البتہ اس کی محزون و مخمور آنکھوں میں مجھے ایک ایسی جھلک نظر آئی تھی جس کو میرا قلم بھی بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے اس سے باتیں کرنا چاہیں مگر اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں نے چاہا کہ وہ مجھ سے لڑے جھگڑے، مگر یہاں بھی اس نے مجھے ناامید کیا۔ میں اسے گھر چھوڑ آیا۔ ڈھونڈوکو جب میرے اس خفیہ سلسلے کا پتہ چلا تو وہ بہت ناراض ہوا۔ اس کے دوستانہ اور تاجرانہ جذبات دونوں بہت بری طرح مجروح ہوئے تھے۔ اس نے مجھے صفائی کا موقعہ نہ دیا۔ صرف اتنا کہا۔

’’منٹو صاحب آپ سے یہ امید نہ تھی!‘‘

اور یہ کہہ کر وہ کھمبے سے ہٹ کر ایک طرف چلا گیا۔ عجیب بات ہے کہ دوسرے روز شام کو وقتِ مقررہ پر وہ مجھے اپنے اڈے پر نظر نہ آیا۔ میں سمجھا شاید بیمار ہے۔ مگر اس سے اگلے روز بھی وہ موجود نہیں تھا۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ وہاں سے میرا صبح شام آنا جانا ہوتا تھا۔ میں جب اس کھمبے کو دیکھتا۔ مجھے ڈھونڈویاد آتا۔ میں بائی کلہ اسٹیشن کے پاس ہی جو واہیات جگہ تھی وہاں بھی گیا۔ یہ دیکھنے کے لیے سراج کہاں ہے۔ مگر وہاں اب صرف وہ کرم خوردہ کٹنی رہتی تھی۔ میں نے اس سے سراج کے متعلق پوچھا تووہ پوپلی مسکراہٹ میں لاکھوں برس کی پرانی جنسی کروٹیں بدل کر بولی۔

’’وہ گئی۔ اور ہیں۔ منگواؤں!‘‘

میں نے سوچا، اس کا کیا مطلب ہے۔ ڈھونڈو اور سراج دونوں غائب ہیں اور وہ بھی میری اس خفیہ ملاقات کے بعد۔ لیکن میں اس ملاقات کے متعلق اتنا متردو نہیں تھا۔ یہاں پھر میں اپنے خیالات آپ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا لیکن مجھے یہ حیرت ضرور تھی کہ وہ دونوں غائب کہاں ہو گئے۔ ان میں محبت کی قسم کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ڈھونڈو ایسی چیزوں سے بالاتر تھا۔ اس کی بیوی تھی بچے تھے اور وہ ان سے بے حد محبت کرتا تھا، پھر یہ سلسلہ کیا تھا کہ دونوں بیک وقت غائب تھے۔ میں نے سوچا۔ ہوسکتا ہے کہ اچانک ڈھونڈو کے دماغ میں یہ خیال آگیا ہو کہ سراج کو واپس گھر جانا چاہیے۔ اس کے متعلق وہ پہلے فیصلہ نہیں کرسکا تھا، پر اب اچانک کرلیا ہو۔ غالباً ایک مہینہ گزر گیا۔ ایک شام اچانک مجھے ڈھونڈو نظر آیا۔ اسی کھمبے کے ساتھ، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے بڑی دیر کرنٹ فیل رہنے کے بعد ایک دم واپس آگیا ہے اس کھمبے میں جان پڑ گئی۔ ٹیلی فون کے ڈبے میں بھی۔ چاروں طرف، اوپر تاروں کے پھیلے ہوئے جال، ایسا لگتا تھا آپس میں سرگوشیاں کررہے ہیں۔ میں اس کے پاس سے گزرا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ ہم دونوں ایرانی کے ہوٹل میں تھے۔ میں نے اس سے کچھ نہ پوچھا۔ اس نے اپنے لیے کوفی ملی چائے اور میرے لیے سادہ چائے منگوائی اور پہلو بدل کر اس نے ایسی نشست قائم کی کہ جیسے وہ مجھے کوئی بہت بڑی بات سنانے والا ہے، مگر اس نے صرف اتنا کہا

’’اور سناؤ منٹو صاحب۔ ‘‘

’’’کیا سنائیں ڈھونڈو۔ بس گزر رہی ہے۔ ‘‘

ڈھونڈو مسکرایا۔

’’ٹھیک کہا آپ نے۔ بس گزر رہی ہے۔ اور گزرتی جائے گی۔ لیکن یہ سالا گزرتے رہنا یا گزرنا بھی عجیب چیز ہے۔ سچ پوچھیے تو اس دنیا میں ہر چیز عجیب ہے۔ ‘‘

میں نے صرف اتنا کہا۔

’’تم ٹھیک کہتے ہو ڈھونڈو۔ ‘‘

چائے آئی اور ہم دونوں نے پینا شروع کی۔ ڈھونڈو نے پرچ میں اپنی کوفی ملی چائے انڈیلی اور مجھ سے کہا۔

’’منٹو صاحب۔ اس نے مجھے بتا دی تھی ساری بات۔ کہتی تھی، وہ سیٹھ جو تمہارا دوست ہے اس کا مستک پھرے لا ہے۔ ‘‘

میں ہنسا۔

’’کیوں؟‘‘

’’بولی۔ مجھے ہوٹل لے گیا۔ اتنے روپے دیے۔ پر سیٹھوں والی کوئی بات نہ کی۔ ‘‘

میں اپنے اناڑی پن پر بہت خفیف ہوا۔

’’وہ قصہ ہی کچھ ایسا تھا ڈھونڈو‘‘

اب ڈھونڈو پیٹ بھر کے ہنسا۔

’’میں جانتا ہوں۔ مجھے معاف کردینا کہ میں اس روز تم سے ناراض ہو گیا تھا۔ ‘‘

اس کے اندازِ گفتگو میں ان جانے میں بے تکلفی پیدا ہو گئی۔

’’پر اب وہ قصہ خلاص ہو گیا ہے!‘‘

’’کون سا قصہ؟‘‘

’’اس سالی کا سراج کا۔ اور کس کا؟‘‘

میں نے پوچھا کیا۔

’’کیا ہوا؟‘‘

ڈھونڈو گٹکنے لگا۔

’’جس روز آپ کے ساتھ گئی۔ واپس آکر مجھ سے کہنے لگی۔ میرے پاس چالیس روپے ہیں۔ چلو مجھے لاہور لے چلو۔ میں بولا سالی، یہ ایک دم تیرے سر پر کیا بھوت سوار ہوار۔ بولی، نہیں۔ چل ڈھونڈو، تجھے میری قسم۔ اور منٹو صاحب، آپ جانتے ہیں۔ میں سالی کی کوئی بات نہیں ٹال سکتا کہ مجھے اچھی لگتی ہے۔ میں نے کہا چل۔ سو ٹکٹ کٹا کے ہم دونوں گاڑیوں میں سوارہوئے۔ لاہور پہنچ کر ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ مجھ سے بولی۔ ڈھونڈو۔ ایک برخا لا دے میں لے آیا۔ اسے پہن کر وہ لگی سڑک سڑک اور گلی گلی گھومنے۔ کئی دن گزر گئے۔ میں بولا۔ یہ بھی اچھی رہی ڈھونڈو۔ سراج سالی کا مستک تو پھرے لا تھا۔ سالا تیرا بھی بھیجا پھر گیا جو تو اتنی دور اس کے ساتھ آگیا۔ منٹو صاحب۔ آخر ایک دن اس نے ٹانگہ رکوایا اور ایک آدمی کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہنے لگی۔ ڈھونڈو۔ اس آدمی کو میرے پاس لے آ۔ میں چلتی ہوں واپس سرائے میں۔ میری عقل جواب دے گئی۔ میں ٹانگے سے اترا تو وہ غائب۔ اب میں اس آدمی کے پیچھے پیچھے۔ آپ کی دعا سے اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے۔ میں آدمی آدمی کو پہچانتا ہوں۔ دو باتیں کیں اور میں تاڑ گیا کہ موج شوق کرنے والا ہے۔ میں بولا بمبئی کا خاص مال ہے۔ بولا، ابھی چلو۔ میں بولا۔ نہیں پہلے مال پانی دکھاؤ۔ اس نے اتنے سارٹ نوٹ دکھائے۔ میں دل میں بولا۔ چلو ڈھونڈو۔ یہاں بھی اپنا دھندا چلتا رہے۔ پر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ سراج سالی نے سارے لاہور میں اسی کو کیوں چُنا۔ میں نے کہا، چلتا ہے۔ ٹانگہ لیا اور سیدھا سرائے میں۔ سراج کو خبر کی۔ وہ بولی۔ ابھی ٹھہر۔ میں ٹھہر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس آدمی کو جو اچھی شکل کا تھا اندر لے گیا۔ سراج کو دیکھتے ہی وہ سالا یوں بدکا جیسے گھوڑا۔ سراج نے اس کو پکڑ لیا۔ ‘‘

ڈھونڈو نے یہاں پہنچ کر پیالی سے اپنی ٹھنڈی کوفی ملی چائے ایک ہی جرعے میں ختم کی اور بڑی سلگانے لگا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’سراج نے اس کو پکڑ لیا۔ ‘‘

ڈھونڈو نے بلند آواز میں کہا۔

’’ہاں جی۔ پکڑ لیا اس سالے کو۔ کہنے لگی۔ اب کہاں جاتا ہے۔ میرا گھر چھڑا کر تو مجھے اپنے ساتھ کس لیے لایا تھا۔ میں تجھ سے محبت کرتی تھی۔ تو نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا کہ تُو مجھ سے محبت کرتا ہے۔ پر جب میں اپنا گھر بار، اپنا ماں باپ چھوڑ کر تیرے ساتھ بھاگ نکلی اور امرتسر سے ہم دونوں یہاں آئے۔ اسی سرائے میں آکر ٹھہرے تو رات ہی رات تو بھاگ گیا۔ مجھے اکیلی چھوڑ کر۔ کس لیے لایا گیا تو مجھے یہاں۔ کس لیے بھگایا تھا تو نے مجھے۔ میں ہر چیز کے لیے تیار تھی۔ پر تو میری ساری تیاریاں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ آ۔ اب میں نے تمہیں بلایا ہے۔ میری محبت ویسی کی ویسی قائم ہے۔ آ۔ اور منٹو صاحب، وہ اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ اس سالے کے آنسو ٹپکنے لگے۔ رو رو کر معافیاں مانگنے لگا۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں ڈر گیا تھا۔ میں اب کبھی تم سے علیحدہ نہیں ہوں گا۔ قسمیں کھاتا رہا۔ جانے کیا بکتا رہا۔ سراج نے مجھے اشارہ کیا۔ میں باہر چلا گیا۔ صبح ہوئی تو میں باہر کھاٹ پر سو رہا تھا۔ سراج نے مجھے جگایا اور کہا۔ چلو ڈھونڈو۔ میں بولا۔ کہاں؟۔ بولی، واپس بمبئی۔ میں بولا۔ وہ سالا کہاں ہے۔ سراج نے کہا۔ سورہا ہے۔ میں اس پر اپنا بُرخا ڈال آئی ہوں۔ ‘‘

ڈھونڈو نے اپنے لیے دوسری کوفی ملی چائے کا آرڈر دیا تو سراج اندر د اخل ہوئی۔ اس کا سفید بیضوی چہرہ نکھرا ہوا تھا اور اس پر اس کی بڑی بڑی آنکھیں دو گرے ہوئے سگنل معلوم ہوتی تھیں۔

سعادت حسن منٹو

سجدہ

گلاس پربوتل جھکی تو ایک دم حمید کی طبیعت پر بوجھ سا پڑ گیا۔ ملک جو اسکے سامنے تیسرا پیگ پی رہا تھا فوراً تاڑ گیا کہ حمید کے اندر روحانی کشمکش پیدا ہو گئی ہے۔ وہ حمید کو سات برس سے جانتا تھا، اوران سات برسوں میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے جن کا مطلب اس کی سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہا تھا، لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتا تھا کہ اس کے لاغر دوست کے سینے پر کوئی بوجھ ہے ایسا بوجھ جس کا احساس شراب پینے کے دوران میں کبھی کبھی حمید کے اندر یوں پیداہوتا ہے جیسے بے دھیان بیٹھے ہوئے آدمی کی پسلیوں میں کوئی زور سے ٹہوکا دے دے۔ حمید بڑا خوش باش انسان تھا۔ ہنسی مذاق کا عادی، حاضر جواب، بذلہ سنج اس میں بہت سی خوبیاں تھیں جو زیادہ نزدیک آکر اسکے دوست ملک نے معلوم کی تھیں۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بے حد مخلص تھا، اس قدر مخلص کہ بعض اوقات اس کا اخلاص ملک کے لیے عہد عتیق کا رومانی افسانہ بن جاتا تھا۔ حمید کے کردار میں ایک عجیب وغریب بات جوملک نے نوٹ کی یہ تھی کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ناآشنا تھیں۔ یوں تو ملک بھی رونے کے معاملے میں بڑا بخیل تھا مگر وہ جانتا تھا کہ جب کبھی رونے کا موقع آئے گا وہ ضرور رو دے گا۔ اس پر غم افزا باتیں اثر ضرور کرتی تھیں مگر وہ اس اثر کو اتنی دیر اپنے دماغ پر بیٹھنے کی اجازت دیتا تھا جتنی دیر گھوڑا اپنے تنے ہوئے جسم پر مکھی کو۔ غموں سے دور رہنے والے اور ہر وقت ہنسی مذاق کے عادی حمید کی زندگی میں نہ جانے ایسا کون سا واقعہ الجھا ہوا تھا کہ وہ کبھی کبھی قبرستان کی طرح خاموش ہو جاتا تھا۔ ایسے لمحات جب اس پر طاری ہوتے تو اس کا چہرہ ایسی رنگت اختیار کرلیتا تھا جو تین دن کی باسی شراب میں بے جان سوڈا گھولنے سے پیدا ہوتی ہے۔ سات برس کے دوران میں کئی بار حمید پر ایسے دورے پڑ چکے تھے مگر ملک نے آج تک اس سے ان کی وجہ دریافت نہ کی تھی۔ اس لیے نہیں کہ ان کی وجہ دریافت کرنے کی خواہش اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ دراصل بات یہ ہے کہ ملک پرلے درجے کا سُست اور کاہل واقع ہوا تھا۔ اس خیال سے بھی وہ حمید کے ساتھ اس معاملے میں بات چیت نہیں کرتا تھا کہ ایک طول طویل کہانی اسے سننا پڑے گی اور اس کے چوتھے پیگ کا سارا سرور غارت ہو جائے گا۔ شراب پی کر لمبی چوڑی آپ بیتیاں سننا یا سنانا اس کے نزدیک بہت بڑی بدذوقی تھی۔ اس کے علاوہ وہ کہانیاں سننے کے معاملے میں بہت ہی خام تھا۔ اسی خیال کی وجہ سے کہ وہ اطمینان سے حمید کی داستان نہیں سن سکے گا اس نے آج تک اُس سے اُن دوروں کی بابت دریافت نہیں کیا تھا۔ کرپارام نے حمید کے گلاس میں تیسرا پیگ ڈال کر بوتل میز پر رکھ دی اور ملک سے مخاطب ہوا

’’ملک، اسے کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘

ملک خاموش رہا لیکن حمید مضطرب ہو گیا۔ اس کے اعصاب زور سے کانپ اٹھے۔ کرپا رام کی طرف دیکھ کر اُس نے مسکرانے کی کوشش کی، اس میں جب ناکامی ہوئی تو اس کا اضطراب اور بھی زیادہ ہو گیا۔ حمید کی یہ بہت بڑی کمزوری تھی کہ وہ کسی بات کو چھپا نہیں سکتا تھا اور اگر چھپانے کی کوشش کرتا تو اس کی وہی حالت ہوتی جو آندھی میں صرف ایک کپڑے میں لپٹی ہُوئی عورت کی ہوتی ہے۔ ملک نے اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور اس فضا کو جو کچھ عرصہ پہلے طرب افزا باتوں سے گونج رہی تھی اپنی بے محل ہنسی سے خوشگوار بنانے کے لیے اس نے کرپا رام سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’کرپا۔ تم مان لو اسے اشوک کمار کا فلمی عشق ہو گیا ہے۔ بھئی یہ اشوک کمار بھی عجیب چیز ہے۔ پردے پر عشق کرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کاسٹرآئل پی رہا ہے۔ ‘‘

کرپا رام، اشوک کمارکو اتنا ہی جانتا تھا جتنا کہ مہاراجہ اشوک اور اسکی مشہور آہنی لاٹھ کو۔ فلم اور تاریخ سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ وہ انکے فوائد سے ضرور آگاہ تھا۔ کیونکہ وہ عام طور پر کہا کرتا تھا۔

’’مجھے اگر کبھی بے خوابی کا عارضہ لاحق ہو جائے تو میں یا تو فلم دیکھنا شروع کردوں گا یا چکرورتی کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھنا شروع کردوں گا۔ ‘‘

وہ ہمیشہ حساب دان چکرورتی کو مورخ بنا کر اپنی مسرت کے لیے ایک بات پیدا کرلیا کرتا تھا۔ کرپا رام چار پیگ پی چکا تھا۔ چار پیالہ پیگ، نشہ اس کے دماغ کی آخری منزل تک پہنچ چکا تھا آنکھیں سیکڑ کر اس نے حمید کی طرف اس اندازسے دیکھا جیسے وہ کیمرے کا فوکس کررہا ہے۔

’’تمہارا گلاس ابھی تک ویسے کا ویسا پڑا ہے۔ ‘‘

حمید نے دردِ سر کے مریض کی سی شکل بنا کرکہا۔

’’بس۔ اب مجھ سے زیادہ نہیں پی جائے گی۔ ‘‘

’’تم چُغد ہو۔ نہیں چُغد نہیں کچھ اور ہو۔ تمہیں پینا ہو گی۔ سمجھے، یہ گلاس اور اس بوتل میں جتنی پڑی ہے سب کی سب تمہیں پینا ہو گی۔ شراب سے جو انکار کرے وہ انسان نہیں حیوان ہے۔ حیوان بھی نہیں، اس لیے کہ حیوانوں کو اگر انسان بنا دیا جائے تووہ بھی اس خوبصورت شے کو کبھی نہ چھوڑیں تم سُن رہے ہو ملک۔ ملک نے اگر یہ ساری شراب اس کے حلق میں نہ انڈیل دی تو میرا نام کرپا رام نہیں گھسیٹا رام آرٹسٹ ہے۔ ‘‘

گھسیٹا رام آرٹسٹ سے کرپا رام کو سخت نفرت تھی صرف اس لیے کہ آرٹسٹ ہوکر اس کا نام گھسیٹا رام تھا۔ ملک کا منہ سوڈا ملی وسکی سے بھرا ہوا تھا۔ کرپا رام کی بات سن کر وہ بے اختیار ہنس پڑا جس کے باعث اس کے منہ سے ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

’’کرپا رام خدا کے لیے تم گھسیٹا رام آرٹسٹ کا نام نہ لیا کرو۔ میری انتڑیوں میں ایک طوفان سا مچ جاتا ہے۔ لاحول ولا۔ میری پتلون کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ لو بھئی، حمید، اب تو تمہیں پینا ہی پڑے گی۔ کرپا رام، گھسیٹا رام بنے یا نہ بنے لیکن میں ضرور کرپا رام بن جاؤں گا اگرتم نے یہ گلاس خالی نہ کیا۔ لو پیو۔ پی جاؤ۔ ارے میرا منہ کیا دیکھتے ہو۔ یہ تمہارے چہرے پر یتامت کیسی برس رہی ہے۔ کرپا رام اٹھو۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ زبردستی کرنا ہی پڑے گی۔ ‘‘

کرپا رام اور ملک دونوں اٹھے اور حمید کو زبردستی پلانے کی کوشش کرنے لگے۔ حمید کو روحانی کوفت تو ویسے ہی محسوس ہورہی تھی، جب کرپا رام اور ملک نے اس کو جھنجھوڑنا شروع کیا تو اس کو جسمانی اذّیت بھی پہنچی جس کے باعث وہ بے حد پریشان ہو گیا۔ اس کی پریشانی سے کرپا رام اور ملک بہت محظوظ ہُوئے۔ چنانچہ انھوں نے ایک کھیل سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنا شروع کیا۔ کرپا رام نے گلاس پکڑ کر اس کے سر میں تھوڑی سی شراب ڈال دی۔ اور نائیوں کے انداز میں جب اس نے حمید کا سر سہلایا تو وہ اس قدر پریشان ہوا کہ اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آگئے۔ اس کی آواز بھرّا گئی۔ اس کے سارے جسم میں تشنج سا پیدا ہوا اور ایک دم کاندھے ڈھیلے کرکے اس نے رونی اور مُردہ آواز میں کہا۔

’’میں بیمار ہُوں۔ خدا کے لیے مجھے تنگ نہ کرو۔ ‘‘

کرپا رام اسے بہانہ سمجھ کر حمید کو اور زیادہ تنگ کرنے کے لیے کوئی نیا طریقہ سوچنے ہی والا تھا کہ ملک نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے پرے ہٹا دیا۔

’’کرپا، اس کی طبیعت واقعی خراب ہے۔ دیکھو تو رو رہا ہے۔ ‘‘

کرپا رام نے اپنی موٹی کمر جھکا کر غور سے دیکھا۔

’’ارے۔ تم تو سچ مچ رو رہے ہو۔ ‘‘

حمید کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے، جس پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔

’’کیا ہو گیا ہے تمہیں؟۔ خیر تو ہے؟‘‘

’’یہ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘

’’بھئی حد ہو گئی۔ ہم تو صرف مذاق کررہے تھے۔ ‘‘

’’کچھ سمجھ میں بھی تو آئے۔ کیا تکلیف ہے تمہیں؟‘‘

ملک اس کے پاس بیٹھ گیا۔

’’بھئی مجھے معاف کردو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ ‘‘

حمید نے جیب سے رومال نکال کر اپنے آنسو پونچھے اور کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔ جذبات کی شدت کے باعث اسکی قوتِ گویائی جواب دے گئی۔ تیسرے پیگ سے پہلے اسکے چہرے پر رونق تھی، اسکی باتیں سوڈے کے بُلبُلوں کی طرح تروتازہ اور شگفتہ تھیں مگر اب وہ باسی شراب کی طرح بے رونق تھا۔ وہ سکڑ سا گیا تھا۔ اس کی حالت ویسی ہی تھی جیسی بھیگی ہُوئی پتلون کی ہوتی ہے۔ کرسی پر وہ اس انداز سے بیٹھا تھا گویا وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہے۔ اپنے آپ کو چھپانے کی بھونڈی کوشش میں وہ ایک ایسا بے جان لطیفہ بن کے رہ گیا تھا جو بڑے ہی خام انداز میں سنایا گیا ہو۔ ملک کو اس کی حالت پربہت ترس آیا۔

’’حمید، لو اب خدا کے لیے چپ ہو جاؤ۔ واللہ تمہارے آنسوؤں سے مجھے روحانی تکلیف ہورہی ہے۔ مزا تو سب کِرکرا ہو ہی گیا تھا۔ مگر یوں تمہارے ایکا ایکی آنسو بہانے سے میں بہت مغموم ہو گیا ہوں۔ خدا جانے تمہیں کیا تکلیف ہے۔ ؟‘‘

’’کچھ نہیں، میں بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔ کبھی کبھی مجھے ایسی تکلیف ہو جایا کرتی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ اٹھا۔

’’اب میں اجازت چاہتا ہوں۔ ‘‘

کرپا رام بوتل میں بچی ہُوئی شراب کو دیکھتا رہا اور ملک یہ ارادہ کرتا رہا کہ حمید سے آج پوچھ ہی لے کہ وقتاً فوقتاً اسے یہ دورے کیوں پڑتے ہیں مگر وہ جا چکا تھا۔ حمید گھر پہنچا تو اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی۔ کمرے میں چونکہ اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا اس لیے وہ رو بھی نہ سکتا تھا۔ اسکی آنسوؤں سے لبالب بھری ہُوئی آنکھوں کو کرسیاں اور میزیں نہیں چھلکا سکتی تھیں۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کے پاس کوئی آدمی موجود ہو جس کے چھیڑنے سے وہ جی بھر کے رو سکے مگر ساتھ ہی اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ بالکل اکیلا ہو۔ ایک عجیب کشمکش اس کے اندر پیدا ہو گئی تھی۔ وہ کرسی پر اس انداز سے اکیلا بیٹھا تھا جیسے شطرنج کا پٹا ہوا مہرہ بساط سے بہت دُور پڑا ہے۔ سامنے میز پر اس کی ایک پرانی تصویر چمکدار فریم میں جڑی رکھی تھی۔ حمید نے اداس نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو سات برس اس تصویر اور اس کے درمیان تھان کی طرح کھلتے چلے گئے۔ ! ٹھیک سات برس پہلے برسات کے اِنہی دنوں میں رات کو وہ ریلوے رسٹوران میں ملک عبدالرحمن کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اُس وقت کے حمید اور اِس وقت کے حمید میں کتنا فرق تھا۔ کتنا فرق تھا۔ حمید نے یہ فرق اس شدت سے محسوس کیا کہ اسے اپنی تصویر میں ایک ایسا آدمی نظر آیا جس سے ملے اس کو ایک زمانہ گزر گیا ہے۔ اس نے تصویر کو غور دیکھا تو اُس کے دل میں یہ تلخ احساس پیدا ہوا کہ انسانیت کے لحاظ سے وہ اس کے مقابلے میں بہت پست ہے۔ تصویر مں ہ جو حمید ہے اس حمید کے مقابلے میں بدرجہا افضل و برتر ہے جوکرسی پر سرنیوڑھائے بیٹھا ہے۔ چنانچہ اس احساس نے اُسکے دل میں حسد بھی پیدا کردیا۔ ایک سجدے۔ صرف ایک سجدے نے اسکا ستیاناس کردیا تھا۔ آج سے ٹھیک سات برس پہلے کا ذکرہے۔ برسات کے یہی دن تھے۔ رات کو ریلوے رسٹوران میں اپنے دوست ملک عبدالرحمن کے ساتھ بیٹھا تھا۔ حمید کویہ شرارت سوجھی تھی کہ بغیر بُوکی شراب جن کا ایک پورا پیگ لیمونیڈ میں ملا کر اسکو پلادے اور جب وہ پی جائے تو آہستہ سے اسکے کان میں کہے۔

’’مولانا ایک پورا پیگ آپ کے ثوابوں بھرے پیٹ میں داخل ہو چکا ہے۔ ‘‘

بَیرے سے مل ملا کر اس نے اس بات کا انتظام کردیا تھا کہ آرڈر دینے پر لیمونیڈ کی بوتل میں جن کا ایک پیگ ڈال کر ملک کو دے دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہُوا کہ حمید نے وِسکی پی اور ملک بظاہر بے خبری کی حالت میں جن کا پورا پیگ چڑھا گیا۔ حمید چونکہ تین پیگ پینے کا ارادہ رکھتا تھا اس لیے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اُس نے پوچھا۔

’’ملک صاحب، آپ یوں بیکار نہ بیٹھیے میں تیسرا پیگ بڑی عیاشی سے پیا کرتا ہوں۔ آپ ایک اور لیمونیڈ منگوا لیجیے۔ ‘‘

ملک رضا مند ہو گیا، چنانچہ ایک اور لیمونیڈ آگیا۔ اس بیرے نے اپنی طرف سے جن کا ایک پیگ ملا دیا تھا۔ ملک سے حمید کی نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حمید اس شرارت سے باز رہتا مگر اُن دنوں وہ اس قدر زندہ دل اور شرارت پسند تھا کہ جب بیرا ملک کے لیے لیمونیڈ کا دوسرا گلاس لایا اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا تووہ اس خیال سے بہت خوش ہُوا کہ ایک کے بجائے دو پیگ ملک کے پیٹ کے اندر چلے جائیں گے۔ ملک آہستہ آہستہ لیمونیڈ ملی جِن پیتا رہا اور حمید دل ہی دل میں اس کبوترکی طرح گٹگٹاتا رہا جس کے پاس ایک کبوتری آبیٹھی ہو۔ اس نے جلدی جلدی اپنا تیسرا پیگ ختم کیا اور ملک سے پوچھا۔

’’اور پئیں گے آپ۔ ‘‘

ملک نے غیرمعمولی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا

’’نہیں۔ ‘‘

پھر اُس نے بڑے روکھے انداز میں کہا۔

’’اگر تمہیں اور پینا ہے تو پیو، میں جاؤنگا۔ مجھے ایک ضروری کام ہے۔ ‘‘

اس مختصر گفتگو کے بعد دونوں اٹھے۔ حمید نے دوسرے کمرے میں جا کر بل ادا کیا۔ جب وہ رسٹوران سے باہر نکلے تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ حمید کے دل میں یہ خواہش چٹکیاں لینے لگی کہ وہ ملک پراپنی شرارت واضح کردے مگر اچھے موقع کی تلاش میں کافی وقت گزر گیا۔ ملک بالکل خاموش تھا اور حمید کے اندر پُھلجھڑی سی چھوٹ رہی تھی۔ بے شمار ننھی ننھی خوبصورت اور شوخ و شنگ باتیں اس کے دل و دماغ میں پیدا ہو ہو کر بُجھ رہی تھیں۔ وہ ملک کی خاموشی سے پریشان ہورہا تھا اور جب اُس نے اپنی پریشانی کا اظہار نہ کیا تو آہستہ آہستہ اُس کی طبیعت پر ایک افسردگی سی طاری ہو گئی۔ وہ محسوس کرنے لگا کہ اسکی شرارت اب دُم کٹی گلہری بنکر رہ گئی ہے۔ دیر تک دونوں بالکل خاموش چلتے رہے۔ جب کمپنی باغ آیا تو ملک ایک بنچ پر مفکرانہ انداز میں بیٹھ گیا۔ چند لمحات ایسی خاموشی میں گزرے کہ حمید کے دل میں وہاں سے اُٹھ بھاگنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر اس وقت زیادہ دیر تک دبے رہنے کے باعث اس کی تمام تیزی اور طراری ماند پڑ چکی تھی۔ ملک بنچ پر سے اُٹھ کھڑا ہوا۔

’’حمید تم نے آج مجھے روحانی تکلیف پہنچائی ہے۔ تمہیں یہ شرارت نہیں کرنی چا ہیے تھے۔ ‘‘

اس آواز میں اور درد پیدا ہو گیا۔

’’تم نہیں جانتے کہ تمہاری اس شرارت سے مجھے کس قدر روحانی تکلیف پہنچی ہے۔ اللہ تمہیں معاف کرے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ چلا گیا اورحمید نے اپنے آپ کو بڑی شدت گناہگار محسوس کرنے لگا۔ معافی مانگنے کا خیال اس کو آیا تھا مگر ملک باغ سے نکل کر باہر سڑک پر پہنچ چکا تھا۔ ملک کے چلنے جانے کے بعد حمید گناہ اور ثواب کے چکر میں پھنس گیا۔ شراب کے حرام ہونے کے متعلق اس نے جتنی باتیں لوگوں سے سنی تھیں سب کی سب اس کے کانوں میں بھنبھنانے لگیں۔

’’شراب اخلاق بگاڑ دیتی ہے۔ شراب، خانہ خراب ہے، شراب پی کر آدمی بے ادب اور بے حیا ہو جاتا ہے۔ شراب اسی لیے حرام ہے۔ شراب صحت کا ستیاناس کردیتی ہے۔ اس کے پینے سے پھیپھڑے چھلنی ہو جاتے ہیں۔ شراب۔ ‘‘

شراب، شراب کی ایک لامتناہی گردان حمید کے دماغ میں شروع ہو گئی۔ اور اس کی تمام بُرائیاں ایک ایک کرکے اس کے سامنے آگئیں۔

’’سب سے بڑی بُرائی تو یہ ہے۔ ‘‘

حمید نے محسوس کیا۔

’’کہ میں نے بے ضرر شرارت سمجھ کر ایک شریف آدمی کو دھوکے سے شراب پلا دی ہے۔ ممکن ہے وہ پکا نمازی اور پرہیزگار ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلطی میری ہے اور سارا گناہ میرے ہی سر ہو گا مگر اُسے جو روحانی تکلیف پہنچی ہے اس کا کیا ہو گا؟ واللہ باللہ میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ اُسے تکلیف پہنچے۔ میں اس سے معافی مانگ لونگا اور۔ لیکن اس سے معافی مانگ کر بھی تو میرا گناہ ہلکا نہیں ہو گا۔ ایک میں نے شراب پی اُوپر سے اُسکو دھوکا دیکر پلائی۔ ‘‘

وسکی کا نشہ اس کے دماغ میں جمائیاں لینے لگا جس سے اس کا احساس گناہ گھناؤنی شکل اختیار کرگیا۔

’’مجھے معافی مانگنی چاہیے۔ مجھے شراب چھوڑ دینی چاہیے۔ مجھے گناہوں سے پاک زندگی بسرکرنی چاہیے۔ ‘‘

اس کو شراب شروع کیے صرف دو برس ہوئے تھے۔ ابھی تک وہ اُس کا عادی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ اُس نے گھر لوٹتے ہوئے راستے میں دوسری باتوں کے ساتھ اس پر بھی غور کیا۔

’’میں شراب کو ہاتھ تک نہیں لگاؤنگا۔ یہ کوئی ضروری چیز نہیں۔ میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں۔ دنیا کہتی ہے۔ دنیا کہتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ منہ سے لگی ہوئی یہ چُھٹ ہی نہیں سکتی۔ میں اسے بالکل چھوڑ دوں گا۔ میں اس خیال کو غلط ثابت کردونگا۔ ‘‘

یہ سوچتے ہوئے حمید نے خود کو ایک ہیرو محسوس کیا۔ پھر ایک دم اُس کے دماغ میں خدا کا خیال آیا جس نے اسے تباہی سے بچا لیا تھا۔

’’مجھے شکر بجا لانا چاہیے کہ میرے سینے میں نور پیدا ہو گیا ہے۔ میں نہ جانے کتنی دیر تک اس کھائی میں پڑا رہتا۔ ‘‘

وہ اپنی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ اوپر آسمان پر گدلے بالوں میں چاند صابن کے جھاگ لگے گالوں کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ ہوا خُنک تھی۔ فضا بالکل خاموش تھی۔ حمید پر خدا کے رعب اور شراب نوشی سے بچ جانے کے احساس نے رقت طاری کر دی۔ اس نے شکرانے کا سجدہ کرنا چاہا۔ وہیں پتھریلی زمین پر اس نے گھٹنے ٹیک کر اپنا ماتھا رگڑنا چاہا اس خیال سے کہ اسے کوئی دیکھ لے گا وہ کچھ دیر کے لیے ٹھٹک گیا مگر فوراً ہی یہ سوچ کر کہ یُوں خدا کی نگاہوں میں اس کی وقعت بڑھ جائے گی وہ ڈبکی لگانے کے انداز میں جُھکا اوراپنی پیشانی گلی کے ٹھنڈے ٹھنڈے پتھریلے فرش کے ساتھ جوڑ دی۔ جب وہ اُٹھا تو اس نے اپنے آپ کو ایک بہت بڑا آدمی محسوس کیا۔ ا س نے جب آس پاس کی اونچی دیواروں کو دیکھا تو وہ اسے اپنے قد کے مقابلے میں بہت پست معلوم ہوئیں۔ اس واقعہ کے ڈیڑھ مہینے بعد اسی کمرے میں جہاں اب حمید بیٹھا اپنی سات برس کی پرانی تصویر پر رشک کھا رہا تھا۔ اس کا دوست ملک آیا۔ اندر آتے ہی اس نے اپنی جیب سے بلیک اینڈ وائٹ کا ادھا نکالا اور زور سے میز پر رکھ کر کہا

’’حمید آؤ۔ آج پئیں اور خوب پئیں۔ یہ ختم ہو جائے گی تو اور لائیں گے۔ ‘‘

حمید اس قدر متحیر ہُوا کہ وہ اس سے کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ ملک نے دوسری جیب سے سوڈے کی بوتل نکالی، تپائی پر سے گلاس اٹھا کر اس میں شراب اُنڈیلی۔ سوڈے کی بوتل انگوٹھے سے کھولی، اور حمید کی متحیر آنکھوں کے سامنے وہ دو پیگ غٹاغٹ پی گیا۔ حمید نے تتلاتے ہوئے کہا۔

’’لیکن۔ لیکن۔ اُس روز تم نے مجھے اِتنا بُرا بھلا کہا تھا۔ ‘‘

ملک نے ایک قہقہہ بلند کیا۔

’’تم نے مجھ سے شرارت کی۔ میں نے بھی اس کے جواب میں تم سے شرارتاً کچھ کہہ دیا۔ مگر بھئی ایمان کی بات ہے جو مزہ اس روز جِن کے دو پیگ پینے میں آیا ہے زندگی بھر کبھی نہیں آئے گا۔ لو اَب چھوڑو اس قصے کو۔ وِسکی پیو۔ جِن وِن بکواس ہے۔ شراب پینی ہو تو وِسکی پینی چاہیے۔ ‘‘

یہ سُن کر حمید کو ایسا محسوس ہوا تھا کہ جو سجدہ اس نے گلی میں کیا تھا ٹھنڈے فرش سے نکل کر اس کی پیشانی پر چپک گیا ہے۔ یہ سجدہ بھوت کی طرح حمید کی زندگی سے چمٹ گیا تھا۔ اس نے اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے پھر پینا شروع کیا۔ مگر اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہُوا۔ اُن سات برسوں میں جو اس کی پرانی تصویر اور اس کے درمیان کھلے ہُوئے تھے یہ ایک سجدہ بے شمار مرتبہ حمید کو اس کی اپنی نگاہوں میں ذلیل و رسوا کر چکا تھا۔ اس کی خودی، اس کی تخلیقی قوت، اُس کی زندگی کی وہ حرارت جس سے حمید اپنے ماحول کو گرما کے رکھنا چاہتا تھا اس سجدے نے قریب قریب سرد کردی تھی۔ یہ سجدہ اس کی زندگی میں ایک ایسی خراب بریک بن گئی تھی جو کبھی کبھی اپنے آپ اُس کے چلتے ہُوئے پہیوں کو ایک دھچکے کے ساتھ ٹھہرا دیتی تھی۔ سات برس کی پرانی تصویر اُس کے سامنے میز پر پڑی تھی۔ جب سارا واقعہ اس کے دماغ میں پوری تفصیل کے ساتھ دہرایا جا چکا تھا تو اس کے اندر ایک ناقابل بیان اضطراب پیدا ہو گیا۔ وہ ایسا محسوس کرنے لگا جیسے اُسکو قے ہونے والی ہے۔ وہ گھبرا کر اُٹھا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ اس نے اپنا ماتھا رگڑنا شروع کردیاجیسے وہ اس سجدے کا نشان مٹانا چاہتا ہے۔ اس عمل سے اسے جب جسمانی تکلیف پہنچی تو وہ پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ سر جُھکا کر اور کاندھے ڈھیلے کرکے اس نے تھکی ہُوئی آواز میں کہا۔

’’اے خدا، میرا سجدہ مجھے واپس دیدے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

سبز سینڈل

’’آپ سے اب میرا نباہ بہت مشکل ہے۔ مجھے طلاق دے دیجیے‘‘

’’لاحول ولا کیسی باتیں منہ سے نکال رہی ہو۔ تم میں سب سے بڑا عیب ایک یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً تم پر ایسے دورے پڑتے ہیں کہ ہوش و حواس کھو دیتی ہو‘‘

’’آپ تو بڑے ہوش و حواس کے مالک ہیں۔ چوبیس گھنٹے شراب کے نشے میں دُھت رہتے ہیں‘‘

’’میں شراب ضرور پیتا ہوں لیکن تمہاری طرح بِن پئے مدہوش نہیں رہتا۔ واہی تباہی نہیں بکتا۔ ‘‘

’’گویا میں واہی تباہی بک رہی تھی‘‘

’’یہ میں نے کب کہا۔ لیکن تم خود سوچو یہ طلاق لینا کیا ہے‘‘

’’بس میں لینا چاہتی ہوں۔ جس خاوند کو اپنی بیوی کا ذرا بھر خیال نہ ہو اس سے طلاق نہ مانگی جائے تو اور کیا مانگا جائے؟‘‘

’’تم طلاق کے علاوہ اور سب چیزیں مجھ سے مانگ سکتی ہو‘‘

’’آپ مجھے دے ہی کیا سکتے ہیں؟‘‘

’’یہ ایک نیا الزام تم نے مجھ پر دھرا۔ تمہاری ایسی خوش نصیب عورت اور کون ہو گی۔ گھر میں۔ ‘‘

’’لعنت ہے ایسی خوش نصیبی پر‘‘

’’اس پر لعنت نہ بھیجو۔ معلوم نہیں تم کس بات پر ناراض ہو۔ لیکن میں تمھیں خلوصِ دل سے یقین دلاتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے‘‘

’’خدا مجھے اس محبت سے پناہ دے‘‘

’’اچھا۔ چھوڑو ان جلی کٹی باتوں کو۔ بتاؤ، بچیاں اسکول چلی گئیں‘‘

’’آپ کو ان سے کیا دلچسپی ہے۔ اسکول جائیں یا جہنم میں۔ میں تو دُعا کرتی ہوں مر جائیں۔ ‘‘

’’کسی روز تمہاری زبان مجھے جلتے چمٹے سے باہر کھینچنا پڑے گی۔ شرم نہیں آتی کہ اپنی اولاد کے لیے ایسی بکواس کر رہی ہو۔ ‘‘

’’میں نے کہا میرے ساتھ ایسی بد کلامی نہ کیجیے۔ شرم آپ کو آنی چاہیے کہ ایک عورت سے جو آپ کی بیوی ہے اور جس کا احترام آپ پر فرض ہے اس سے آپ بازاری انداز میں گفتگو کررہے ہیں۔ اصل میں یہ سب آپ کی بُری سُوسائٹی کا قصور ہے‘‘

’’اور جو تمہارے دماغ میں خلل ہے اُس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’آپ اور کون؟‘‘

’’قصور وار ہمیشہ مجھے ہی ٹھہراتی ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا تمھیں کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’مجھے کیا ہوا ہے۔ جو ہوا ہے صرف آپ کو ہوا ہے۔ ہر وقت میرے سر پر سوار رہتے ہیں۔ میں آپ سے کہہ چکی ہوں۔ مجھے طلاق دے دیجیے۔ ‘‘

’’کیا دوسری شادی کرنے کا ارادہ ہے۔ مجھ سے اُکتا گئی ہو‘‘

’’تھو ہے آپ پر۔ مجھے کوئی ایسی ویسی عورت سمجھا ہے۔ ‘‘

’’طلاق لے کر کیا کرو گی؟‘‘

’’جہاں سینگ سمائے چلی جاؤں گی۔ محنت مزدوری کروں گی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گی‘‘

’’تم محنت مزدوری کیسے کر سکو گی۔ صبح نو بجے اٹھتی ہو۔ ناشتہ کر کے پھر لیٹ جاتی ہو۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد کم از کم تین گھنٹے سوتی ہو۔ خود کو دھوکا تو نہ دو‘‘

’’جی ہاں، میں تو ہر وقت سوئی رہتی ہوں۔ آپ ہیں کہ ہر وقت جاگتے رہتے ہیں۔ ابھی کل آپ کے دفتر سے ایک آدمی آیا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے افسر صاحب کو جب دیکھو میز پر سر رکھے انٹا غفیل ہوتے ہیں‘‘

’’وہ کون تھا اُلو کا پٹھا‘‘

’’آپ اپنی زُبان درست کیجیے‘‘

’’بھئی مجھے تاؤ آگیا تھا۔ غصے میں آدمی کو اپنی زبان پر قابو نہیں رہتا‘‘

’’مجھے آپ پر اتنا غصہ آرہا ہے لیکن میں نے ایسا کوئی غیر مہذب لفظ استعمال نہیں کیا۔ انسان کو ہمیشہ دائرہ ءِ تہذیب میں رہنا چاہیے۔ مگر یہ سب آپ کی بری سوسائٹی کی وجہ ہے جو آپ ایسے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں‘‘

’’میں تم سے پوچھتا ہوں، میری بُری سُوسائٹی کون سی ہے‘‘

’’وہ کون ہے جو خود کو کپڑے کا بہت بڑا تاجر کہتا ہے۔ اُس کے کپڑے آپ نے کبھی ملاحظہ کیے۔ بڑے ادنیٰ قسم کے اور وہ بھی میلے چکٹ۔ یوں تو وہ بی اے ہے، لیکن اس کی عادات و اطوار اٹھنا بیٹھنا ایسا واہیات ہے کہ گھن آتی ہے‘‘

’’وہ مرد مجذوب ہے‘‘

’’یہ کیا بلا ہوتی ہے‘‘

’’تم نہیں سمجھو گی۔ مجھے بیکار وقت ضائع کرنا پڑے گا‘‘

’’آپ کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ ہمیشہ ایک بات کرنے پر بھی ضائع ہو جاتا ہے‘‘

’’تم اصل میں کہنا کیا چاہتی ہو‘‘

’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔ جو کہنا تھا، کہہ دیا۔ بس مجھے طلاق دے دیجیے تاکہ میری جان چھٹے۔ ان ہر روز کے جھگڑوں سے میری زندگی اجیرن ہو گئی ہے‘‘

’’تمہاری زندگی تو محبت سے بھرے ہوئے ایک کلمے سے بھی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اس کا کیا علاج ہے؟‘‘

’’اس کا علاج صرف طلاق ہے‘‘

’’تو بُلاؤ کسی مولوی کو۔ تمہاری اگر یہی خواہش ہے تو میں انکار نہیں کروں گا۔ ‘‘

’’میں کہاں سے بُلاؤں مولوی کو‘‘

’’بھئی طلاق تم چاہتی ہو۔ اگر مجھے لینا ہوتی تو میں دس مولوی چٹکیوں میں پیدا کر لیتا۔ مجھ سے تم کو اس سلسلے میں کسی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے تم جانو، تمہارا کام جانے‘‘

’’آپ میرے لیے اتنا کام بھی نہیں کرسکتے‘‘

’’جی نہیں‘‘

’’آپ تو اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ آپ کو مجھ سے بے پناہ محبت ہے‘‘

’’درست ہے۔ رفاقت کی حد تک۔ مفارقت کے لیے نہیں‘‘

’’تو میں کیا کروں‘‘

’’جو جی میں آئے کرو۔ اور دیکھو مجھے اب زیادہ تنگ نہ کرو۔ کسی مولوی کو بلوا لو۔ وہ طلاق نامہ لکھ دے میں اس پردستخط کر دُوں گا۔ ‘‘

’’حق مہر کا کیا ہو گا؟‘‘

’’طلاق چونکہ تم خود طلب کر رہی ہو اس لیے اس کے مطالبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘

’’واہ جی واہ‘‘

’’تمہارے بھائی بیرسٹر ہیں۔ ان کو خط لکھ کر پوچھ لو۔ جب عورت طلاق چاہے تو وہ اپنا حق مہر طلب نہیں کرسکتی‘‘

’’تو ایسا کیجیے کہ آپ مجھے طلاق دے دیں‘‘

’’میں ایسی بے وقوفی کیوں کرنے لگا۔ مجھے تو تم سے پیار ہے‘‘

’’آپ کے یہ چونچلے مجھے پسند نہیں۔ پیار ہوتا تو مجھ سے ایسا سلوک کرتے؟‘‘

’’تم سے میں نے کیا بد سلوکی کی ہے‘‘

’’جیسے آپ جانتے ہی نہیں۔ ابھی پرسوں کی بات ہے آپ نے میری نئی ساڑھی سے اپنے جوتے صاف کیے‘‘

’’خدا کی قسم نہیں‘‘

’’تو اور کیا فرشتوں نے کیے تھے‘‘

’’میں اتنا جانتا ہوں کہ آپ کی تینوں بچیاں اپنے جوتوں کی گرد آپ کی ساڑھی سے جھاڑ رہی تھیں۔ میں نے ان کو ڈانٹا بھی تھا‘‘

’’وہ ایسی بد تمیز نہیں ہیں‘‘

’’کافی بد تمیز ہیں۔ اس لیے کہ تم ان کو صحیح تربیت نہیں دیتی ہو۔ اسکول سے واپس آئیں تو اُن سے پوچھ لینا کہ وہ ساڑھی کا ناجائز استعمال کر رہی تھیں یا کہ نہیں‘‘

’’مجھے ان سے کچھ پوچھنا نہیں ہے‘‘

’’تمہارے دماغ کو آج معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔ اصل وجہ معلوم ہو جائے تو میں کوئی نتیجہ قائم کر سکوں۔ ‘‘

’’آپ نتیجے قائم کرتے رہیں گے لیکن میں اپنا نتیجہ قائم کر چکی ہوں۔ بس آپ مجھے طلاق دے دیجیے۔ جس خاوند کو اپنی بیوی کا مطلقاً خیال نہ ہو اس کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ ٗ‘

’’میں نے ہمیشہ تمہارا خیال رکھا ہے‘‘

’’آپ کو معلوم ہے کل عید ہے‘‘

’’معلوم ہے۔ کیوں؟۔ کل ہی تو میں بچیوں کے لیے بُوٹ لایا ہوں اور ان کے فراکوں کے لیے میں نے آج سے آٹھ روز پہلے تمھیں ساٹھ روپے دیے تھے‘‘

’’یہ روپے دے کر آپ نے بڑا میرے باپ پر احسان کیا‘‘

’’احسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بات کیا ہے‘‘

’’بات یہ ہے کہ ساٹھ روپے کم تھے۔ تین بچوں کے لیے آرکنڈی چالیس روپے میں آئی۔ فی فراک درزی نے سات روپے لیے۔ بتائیے آپ نے مجھ پر اور ان بچیوں پر کون سا کرم کیا‘‘

’’باقی روپے تم نے ادا کر دیے‘‘

’’ادا نہ کرتی تو فراک سلتے کیسے؟‘‘

’’تو یہ روپے مجھ سے ابھی لے لو۔ میرا خیال ہے ساری ناراضی اسی بات کی تھی‘‘

’’میں کہتی ہوں کل عید ہے‘‘

’’ہاں ہاں! مجھے معلوم ہے۔ میں دو مُرغ منگوا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ سویاں بھی۔ تم نے بھی کچھ انتظام کیا؟‘‘

’’میں خاک انتظام کروں گی‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں چاہتی تھی کل سبز ساڑھی پہنوں۔ سبز سینڈل کے لیے آرڈر دے آئی تھی، آپ سے کئی مرتبہ کہا کہ جائیے اور چینیوں کی دکان سے دریافت کیجیے کہ وہ سینڈل ابھی تک بنے ہیں یا نہیں۔ مگر آپ کو مجھ سے کوئی دلچسپی ہو تو آپ وہاں جاتے‘‘

’’لاحول ولا۔ یہ جھگڑا سارا سبز سینڈل کا تھا؟۔ جناب آپ کے یہ سینڈل میں پرسوں ہی لے آیا تھا۔ آپ کی الماری میں پڑے ہیں۔ آپ تو سارا وقت سوئی رہتی ہیں۔ آپ نے الماری کھولی ہی نہیں ہو گی۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو ۱۱۔ اگست ۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

ساڑھے تین آنے

’’میں نے قتل کیوں کیا۔ ایک انسان کے خون میں اپنے ہاتھ کیوں رنگے، یہ ایک لمبی داستان ہے۔ جب تک میں اس کے تمام عواقب و عواطف سے آپ کو آگاہ نہیں کروں گا، آپ کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ مگر اس وقت آپ لوگوں کی گفتگو کا موضوع جرم اور سزا ہے۔ انسان اور جیل ہے۔ چونکہ میں جیل میں رہ چکا ہوں، اس لیے میری رائے نادرست نہیں ہوسکتی۔ مجھے منٹو صاحب سے پورا اتفاق ہے کہ جیل، مجرم کی اصلاح نہیں کرسکتی۔ مگر یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔ اور یہ لطیفہ نہیں کہ اس حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے بھی ہزار ہا جیل خانے موجود ہیں۔ ہتھکڑیاں ہیں اور وہ ننگِ انسانیت بیڑیاں۔ میں قانون کا یہ زور پہن چکا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر رضوی نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے موٹے موٹے حبشیوں کے سے ہونٹ عجیب انداز میں پھڑکے۔

’’اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھیں، جو قاتل کی آنکھیں لگی تھیں چمکیں۔ ہم سب چونک پڑے تھے۔ جب اس نے یکا یک ہماری گفتگو میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ وہ ہمارے قریب کرسی پر بیٹھا کریم ملی ہوئی کوفی پی رہا تھا۔ جب اس نے خود کو متعارف کرایا تو ہمیں وہ تمام واقعات یاد آگئے جو اس کی قتل کی واردات سے وابستہ تھے۔ وعدہ معاف گواہ بن کر اس نے بڑی صفائی سے اپنی اور اپنے دوستوں کی گردن پھانسی کے پھندے سے بچا لی تھی۔ وہ اسی دن رہا ہوکر آیا تھا۔ بڑے شائستہ انداز میں وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’معاف کیجیے گا منٹو صاحب۔ آپ لوگوں کی گفتگو سے مجھے دلچسپی ہے۔ میں ادیب تو نہیں، لیکن آپ کی گفتگو کا جو موضوع ہے اس پر اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں کچھ نہ کچھ ضرور کہہ سکتا ہوں۔ پھر اس نے کہا۔

’’میرا نام صدیق رضوی ہے۔ لنڈا بازار میں جو قتل ہوا تھا، میں اس سے متعلق تھا۔ ‘‘

میں نے اس قتل کے متعلق صرف سرسری طور پر پڑھا تھا۔ لیکن جب رضوی نے اپنا تعارف کرایا تو میرے ذہن میں خبروں کی تمام سرخیاں ابھر آئیں۔ ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ آیا جیل مجرم کی اصلاح کرسکتی ہے۔ میں خود محسوس کررہا تھا۔ ہم ایک باسی روٹی کھا رہے ہیں۔ رضوی نے جب یہ کہا۔

’’یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔

’’تو مجھے بڑی تسکین ہوئی۔ میں نے یہ سمجھا جیسے رضوی نے میرے خیالات کی ترجمانی کردی ہے۔ کریم ملی ہوئی کوفی کی پیالی ختم کرکے رضوی نے اپنی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا۔ منٹو صاحب آدمی جرم کیوں کرتا ہے۔ جرم کیا ہے، سزا کیا ہے۔ میں نے اس کے متعلق بہت غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے۔ زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکرا ہوتا ہے، بہت اچھا ہوا، ٹیڑھا میڑھا۔ میں نفسیات کا ماہر نہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انسان سے خود جرم سرزد نہیں ہوتا۔ حالات سے ہوتا ہے!‘‘

نصیر نے کہا۔

’’آپ نے بالکل درست کہا ہے۔ ‘‘

رضوی نے ایک اور کافی کا آرڈر دیا اور نصیر سے کہا۔

’’مجھے معلوم نہیں جناب، لیکن میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اپنے مشاہدات کی بنا پر عرض کیا ہے ورنہ یہ موضوع بہت پرانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وکٹر ہیوگو۔ فرانس کا ایک مشہور ناولسٹ تھا۔ شاید کسی اور ملک کا ہو۔ آپ تو خیر جانتے ہی ہوں گے، جرم اور سزا پر اس نے کافی لکھا ہے۔ مجھے اس کی ایک تصنیف کے چند فقرے یاد ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو صاحب، غالباً آپ ہی کا ترجمہ تھا۔ کیا تھا؟۔ وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کوجرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن میں سوچتا کہ وہ سیڑھی کون سی ہے۔ اس کے کتنے زینے ہیں۔ کچھ بھی ہو، یہ سیڑھی ضرور ہے، اس کے زینے بھی ہیں، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں، بے شمار ہیں، ان کو گننا، ان کا شمار کرنا ہی سب سے بڑی بات ہے

’’منٹو صاحب، حکومتیں رائے شماری کرتی ہیں، حکومتیں اعداد و شمار کرتی ہیں، حکومتیں ہر قسم کی شماری کرتی ہیں۔ اس سیڑھی کے زینوں کی شماری کیوں نہیں کرتیں۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں۔ میں نے قتل کیا۔ لیکن اس سیڑھی کے کتنے زینے طے کرکے کیا۔ حکومت نے مجھے وعدہ معاف گواہ بنا لیا، اس لیے کہ قتل کا ثبوت اس کے پاس نہیں تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ میں اپنے گناہ کی معافی کس سے مانگوں۔ وہ حالات جنہوں نے مجھے قتل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اب میرے نزدیک نہیں ہیں، ان میں اور مجھ میں ایک برس کا فاصلہ ہے۔ میں اس فاصلے سے معافی مانگوں یا ان حالات سے جو بہت دور کھڑے میرا منہ چڑا رہے ہیں۔ ‘‘

ہم سب رضوی کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ وہ بظاہر تعلیم یافتہ معلوم نہیں ہوتا تھا، لیکن اس کی گفتگو سے ثابت ہوا کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ میں نے اس سے کچھ کہا ہوتا، لیکن میں چاہتا تھا کہ وہ باتیں کرتا جائے اور میں سنتا جاؤں۔ اسی لیے میں اس کی گفتگو میں حائل نہ ہوا۔ اس کے لیے نئی کوفی آگئی تھی۔ اسے بنا کر اس نے چند گھونٹ پیے اور کہنا شروع کیا۔

’’خدا معلوم میں کیا بکواس کرتا رہا ہوں، لیکن میرے ذہن میں ہر وقت ایک آدمی کا خیال رہا ہے۔ اس آدمی کا، اس بھنگی کا جو ہمارے ساتھ جیل میں تھا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔ ‘‘

نصیر نے حیرت سے پوچھا۔ صرف ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر؟‘‘

رضوی نے یخ آلود جواب دیا۔

’’جی ہاں۔ صرف ساڑھے تین آنے کی چوری پر۔ اور جو اسکو نصیب نہ ہوئے، کیونکہ وہ پکڑا گیا۔ یہ رقم خزانے میں محفوظ ہے اور پھگو بھنگی غیر محفوظ ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ پھر پکڑا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس کا پیٹ پھر اسے مجبور کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے گُو مُوت صاف کرانے والے اس کی تنخواہ نہ دے سکیں، کیونکہ ہو سکتا ہے اس کو تنخواہ دینے والوں کو اپنی تنخواہ نہ ملے۔ یہ ہو سکتا ہے کا سلسلہ منٹو صاحب عجیب وغریب ہے۔ سچ پوچھئے تو دنیا میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ رضوی سے قتل بھی ہوسکتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کروہ تھوڑے عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ نصیر نے اس سے کہا۔

’’آپ پھگو بھنگی کی بات کررہے تھے۔ ؟‘‘

رضوی نے اپنی چھدری مونچھوں پرسے کوفی رومال کے ساتھ پونچھی۔

’’جی ہاں۔ پھگو بھنگی چور ہونے کے باوجود، یعنی وہ قانون کی نظروں میں چور تھا۔ لیکن ہماری نظروں میں پورا ایماندار۔ خدا کی قسم میں نے آج تک اس جیسا ایماندار آدمی نہیں دیکھا، ساڑھے تین آنے اس نے ضرور چرائے تھے، اس نے صاف صاف عدالت میں کہہ دیا تھا کہ یہ چوری میں نے ضرور کی ہے، میں اپنے حق میں کوئی گواہی پیش نہیں کرنا چاہتا۔ میں دو دن کا بھوکا تھا، مجبوراً مجھے کریم درزی کی جیب میں ہاتھ ڈالنا پڑا۔ اس سے مجھے پانچ روپے لینے تھے۔ دو مہینوں کی تنخواہ۔ حضور اس کا بھی کچھ قصور نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے کئی گاہکوں نے اس کی سلائی کے پیسے مارے ہوئے تھے۔ حضور، میں پہلے بھی چوریاں کر چکا ہوں۔ ایک دفعہ میں نے دس روپے ایک میم صاحب کے بٹوے سے نکال لیے تھے۔ مجھے ایک مہینے کی سزا ہوئی تھی۔ پھر میں نے ڈپٹی صاحب کے گھر سے چاندی کا ایک کھلونا چرایا تھا اس لیے کہ میرے بچے کو نمونیا تھا اور ڈاکٹر بہت فیس مانگتا تھا۔ حضور میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا۔ میں چور نہیں ہوں۔ کچھ حالات ہی ایسے تھے کہ مجھے چوریاں کرنی پڑیں۔ اور حالات ہی ایسے تھے کہ میں پکڑا گیا۔ مجھ سے بڑے بڑے چور موجود ہیں لیکن وہ ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔ حضور، اب میرا بچہ بھی نہیں ہے، بیوی بھی نہیں ہے۔ لیکن حضور افسوس ہے کہ میرا پیٹ ہے، یہ مر جائے تو سارا جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے، حضور مجھے معاف کردو۔ لیکن حضور نے اس کو معاف نہ کیا اور عادی چور سمجھ کر اس کو ایک برس قید بامشقت کی سزا دے دی۔ ‘‘

رضوی بڑے بے تکلف انداز میں بول رہا تھا۔ اس میں کوئی تصنع، کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ الفاظ خود بخود اس کی زبان پر آتے اور بہتے چلتے جارہے ہیں۔ میں بالکل خاموش تھا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پی رہا تھا اور اس کی باتیں سن رہا تھا۔ نصیر پھر اس سے مخاطب ہوا۔

’’آپ پھگو کی ایمانداری کی بات کررہے تھے؟‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

رضوی نے جیب سے بیٹری نکال کر سلگائی۔

’’میں نہیں جانتا قانون کی نگاہوں میں ایمانداری کیا چیز ہے، لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے بڑی ایمانداری سے قتل کیا تھا۔ اور میرا خیال ہے کہ پھگو بھنگی نے بھی بڑی ایمانداری سے ساڑھے تین آنے چرائے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایماندار کو صرف اچھی باتوں سے کیوں منسوب کرتے ہیں، اور سچ پوچھیے تو میں اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ اچھائی اور برائی ہے کیا۔ ایک چیز آپ کے لیے اچھی ہو سکتی ہے، میرے لیے بری۔ ایک سوسائٹی میں ایک چیز اچھی سمجھی جاتی ہے، دوسری میں بری۔ ہمارے مسلمانوں میں بغلوں کے بال بڑھانا گناہ سمجھا جاتا ہے، لیکن سکھ اس سے بے نیاز ہیں۔ اگریہ بال بڑھانا واقعی گناہ ہے تو خدا ان کو سزا کیوں نہیں دیتا اگر کوئی خدا ہے تو میری اس سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے تم یہ انسانوں کے قوانین توڑ دو، ان کی بنائی ہوئی جیلیں ڈھا دو۔ اور آسمانوں پر اپنی جیلیں خود بناؤ۔ خود اپنی عدالت میں ان کو سزا دو، کیونکہ اور کچھ نہیں تو کم از کم خدا تو ہو۔ ‘‘

رضوی کی اس تقریر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی خامکاری ہی اصل میں تاثر کا باعث بھی۔ وہ باتیں کرتا تھا تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ہم سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے دل ہی دل میں گفتگو کررہا ہے۔ اس کی بیڑی بجھ گئی تھی، غالباً اس میں تمباکو کی گانٹھ اٹکی ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اس نے پانچ چھ مرتبہ اس کو سلگانے کی کوشش کی۔ جب نہ سلگی تو پھینک دی اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’منٹو صاحب، پھگو مجھے اپنی تمام زندگی یاد رہے گا۔ آپ کو بتاؤں گا تو آپ ضرورکہیں گے کہ جذباتیت ہے، لیکن خدا کی قسم جذباتیت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ وہ میرا دوست نہیں تھا۔ نہیں وہ میرا دوست تھا کیونکہ اس نے ہر بار خود کو ایسا ہی ثابت کیا۔ ‘‘

رضوی نے جیب میں سے دوسری بیڑی نکالی مگر وہ ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا تو اس نے قبول کرلیا۔

’’شکریہ۔ منٹو صاحب، معاف کیجیے گا، میں نے اتنی بکواس کی ہے حالانکہ مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی اس لیے کہ ماشاء اللہ آپ۔ ‘‘

میں نے اس کی بات کاٹی۔

’’رضوی صاحب، میں اس وقت منٹو نہیں ہوں صرف سعادت حسن ہوں۔ آپ اپنی گفتگو جاری رکھئے۔ میں بڑی دلچسپی سے سن رہا ہوں۔ ‘‘

رضوی مسکرایا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ آپ کی بڑی نوازش ہے۔ پھر وہ نصیرسے مخاطب ہوا۔

’’میں کیا کہہ رہا تھا۔ ‘‘

میں نے اس سے کہا۔

’’آپ پھگو کی ایمانداری کے متعلق کچھ کہنا چاہتے تھے۔ ‘‘

’’جی ہاں‘‘

یہ کہہ کراس نے میرا پیش کیا ہوا سگریٹ سلگایا۔

’’منٹو صاحب، قانون کی نظروں میں وہ عادی چور تھا۔ بیڑیوں کے لیے ایک دفعہ اس نے آٹھ آنے چرائے تھے۔ بڑی مشکلوں سے، دیوار پھاند کر جب اس نے بھاگنے کی کوشش کی تھی تو اس کے ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ قریب قریب ایک برس تک وہ اس کا علاج کراتا رہا تھا، مگر جب میرا ہم الزام دوست جرجی بیس بیڑیاں اسکی معرفت بھیجتا تو وہ سب کی سب پولیس کی نظریں بچا کر میرے حوالے کردیتا۔ وعدہ معاف گوا ہوں پر بہت کڑی نگرانی ہوتی ہے، لیکن جرجی نے پھگو کو اپنا دوست اور ہمراز بنا لیا تھا۔ وہ بھنگی تھا، لیکن اس کی فطرت بہت خوشبودار تھا۔ شروع شروع میں جب وہ برجی کی بیڑیاں لے کر میری پاس آیا تو میں نے سوچا، اس حرامزادے چور نے ضرور ان میں سے کچھ غائب کرلی ہوں گی، مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ قطعی طور پر ایماندار تھا۔ بیڑی کے لیے اس نے آٹھ آنے چراتے ہوئے اپنے ٹخنے کی ہڈی تڑوا لی تھی مگر یہاں جیل میں اس کو تمباکو کہیں سے بھی نہیں مل سکتا تھا، وہ جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں تمام و کمال میرے حوالے کردیتا تھا، جیسے وہ امانت ہوں۔ پھر وہ کچھ دیر ہچکچانے کے بعد مجھ سے کہتا، بابو جی، ایک بیڑی تو دیجیے اور میں اس کو صرف ایک بیڑی دیتا۔ انسان بھی کتنا کمینہ ہے!‘‘

رضوی نے کچھ اس انداز سے اپنا سر جھٹکا جیسے وہ اپنے آپ سے متنفر ہے۔

’’جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مجھ پر بہت کڑی پابندیاں عائد تھیں۔ وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرجی البتہ میرے مقابلے میں بہت آزاد تھا۔ اس کو رشوت دے دلا کر بہت آسانیاں مہیا تھیں۔ کپڑے مل جاتے تھے۔ صابن مل جاتا تھا۔ بیڑیاں مل جاتی تھیں۔ جیل کے اندر رشوت دینے کے لیے روپے بھی مل جاتے تھے۔ پھگو بھنگی کی سزا ختم ہونے میں صرف چند دن باقی رہ گئے تھے، جب اس نے آخری بار جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں مجھے لا کر دیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ جیل سے نکلنے پر خوش نہیں تھا۔ میں نے جب اس کو مبارکباد دی تو اس نے کہا۔

’’بابو جی، میں پھر یہاں آجاؤں گا۔ بھوکے انسان کو چوری کرنی ہی پڑتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھوکے انسان کو کھانا کھاناہی پڑتا ہے۔ بابو جی آپ بڑے اچھے ہیں، مجھے اتنی بیڑیاں دیتے رہے۔ خدا کرے آپ کے سارے دوست بری ہو جائیں۔ جرجی بابو آپ کو بہت چاہتے ہیں۔ ‘‘

نصیر نے یہ سن کر غالباً اپنے آپ سے کہا۔

’’اور اس کو صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں سزا ملی تھی۔ ‘‘

رضوی نے گرم کافی کا ایک گھونٹ پی کر ٹھنڈے انداز میں کہا۔

’’جی ہاں صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں۔ اور وہ بھی خزانے میں جمع ہیں۔ خدا معلوم ان سے کس پیٹ کی آگ بجھے گی!‘‘

رضوی نے کافی کا ایک اور گھونٹ پیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’ہاں منٹو صاحب، اس کی رہائی میں صرف ایک دن رہ گیا تھا۔ مجھے دس روپوں کی اشد ضرورت تھی۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے یہ روپے ایک سلسلے میں سنتری کو رشوت کے طور پر دینے تھے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے کاغذ پنسل مہیا کرکے جرجی کو ایک خط لکھا تھا اور پھگو کے ذریعہ سے اس تک بھجوایا تھا کہ وہ مجھے کسی نہ کسی طرح دس روپے بھیج دے۔ پھگو ان پڑھ تھا۔ شام کو وہ مجھ سے ملا۔ جرجی کا رقعہ اس نے مجھے دیا۔ اس میں دس روپے کا سرخ پاکستانی نوٹ قید تھا۔ میں نے رقعہ پڑھا۔ یہ لکھا تھا۔ رضوی پیارے دس روپے بھیج تو رہا ہوں، مگر ایک عادی چور کے ہاتھ، خدا کرے تمہیں مل جائیں۔ کیونکہ یہ کل ہی جیل سے رہا ہو کر جارہاہے۔ ‘‘

میں نے یہ تحریر پڑھی تو پھگو بھنگی کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔ میں سوچنے لگااگر اس نے دس روپے چرائے ہوتے تو ساڑھے تین آنے فی برس کے حساب سے اس کو کیا سزا ملتی؟‘‘

یہ کہہ کررضوی نے کافی کا آخری گھونٹ پیا اور رخصت مانگے بغیر کافی ہاؤس سے باہر چلا گیا۔ 26جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

رشوت

احمد دین کھاتے پیتے آدمی کا لڑکا تھا۔ اپنے ہم عمر لڑکوں میں سب سے زیادہ خوش پوش مانا جاتا تھا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ بالکل خستہ حال ہو گیا۔ اس نے بی اے کیا اور اچھی پوزیشن حاصل کی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس کے والد خان بہادر عطاء اللہ کا ارادہ تھا کہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ پاسپورٹ لے لیا گیا تھا۔ سوٹ وغیرہ بھی بنوا لیے گئے تھے کہ اچانک خان بہادر عطاء اللہ نے جو بہت شریف آدمی تھے، کسی دوست کے کہنے پر سٹہ کھیلنا شروع کر دیا۔ شروع میں انہیں اس کھیل میں کافی منافع ہوا۔ وہ خوش تھے کہ چلو میرے بیٹے کی اعلیٰ تعلیم کا خرچ ہی نکل آیا۔ مگر لالچ بری بلا ہے۔ انہوں نے یہ سمجھا کہ ان کی پشت پر چوگنی ہے۔ جیتتے ہی چلے جائیں گے۔ ان کا وہ دوست جس نے ان کو اس راستے پر لگایا تھا بار بار ان سے کہتا تھا:

’’خان صاحب۔ ماشاء اللہ آپ قسمت کے دھنی ہیں۔ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جائے۔ ‘‘

اور وہ اس قسم کی چاپلوسیوں کے ذریعے خان بہادر سے سو دو سو روپے اینٹھ لیتا۔ خان بہادر کو بھی کوئی تکلیف محسوس نہ ہوتی اس لیے کہ انہیں بغیر محنت کے ہزاروں روپے مل رہے تھے۔ احمد دین ذہین اور باشعور لڑکا تھا۔ اس نے ایک دن اپنے باپ سے کہا:

’’ابا جی! یہ آپ نے جو سٹہ بازی شروع کی ہے۔ معاف کیجیے گا، اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ ‘‘

خان بہادر نے تیز لہجے میں اس سے کہا:

’’برخوردار ! تمہیں میرے کاموں میں دخل دینے کی جرأت نہیں ہونی چاہیے میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک ہے۔ جتنا روپیہ آرہا ہے، وہ میں اپنے ساتھ قبر میں لے کر نہیں جاؤں گا۔ یہ سب تمہارے کام آئے گا۔ ‘‘

احمد دین نے بڑی معصومیت سے پوچھا:

’’لیکن ابا جی ٗ یہ کب تک آتا رہے گا۔ ہوسکتا ہے کل کو یہ جانے بھی لگے۔ ‘‘

خان بہادر بھِنّا گئے۔

’’بکو مت۔ آتا ہی رہے گا۔ ‘‘

روپیہ آتا رہا۔ لیکن ایک دن خان بہاد نے کئی ہزار روپے کی رقم داؤ پر لگا دی۔ لیکن نتیجہ صفر نکلا۔ دس ہزار ہاتھ سے دینے پڑے۔ تاؤ میں آ کر انہوں نے بیس ہزار روپے کا سٹہ کھیلا۔ ان کو یقین تھا کہ ساری کسر پوری ہو جائے گی۔ لیکن صبح جب انہوں نے اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ بیس ہزار بھی گئے۔ خان بہادر ہمت ہارنے والے نہیں تھے انہوں نے اپنا ایک مکان گروی رکھ کر پچاس ہزار روپے لیے ٗ اور سب کا سب اللہ کا نام لے کر چاندی کے سٹے پر لگا دیے۔ اللہ نام تو خیر اللہ کا نام ہے۔ وہ چاندی اور سونے کی مارکیٹ پر کیا کنٹرول کرسکتا ہے۔ صبح ہوئی تو خان بہادر کو معلوم ہوا کہ چاندی کا بھاؤ ایک دم گر گیاہے۔ ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ دل کے دورے پڑنے لگے۔ احمد دین نے ان سے کہا

’’ابا جی۔ چھوڑ دیجیے اس بکواس کو۔ ‘‘

خان بہادر نے بڑے غصے میں اپنے بیٹے سے کہا:

’’تم بکواس مت کرو۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں ٹھیک ہے۔ ‘‘

احمد دین نے مودّبانہ کہا: لیکن ابا جان۔ یہ جو آپ کو دل کی تکلیف شروع ہو گئی ہے ٗ اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ایسے عارضے انسان کو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ‘‘

احمد دین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:

’’جی ہاں۔ انسان کو ہر قسم کے عارضے ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی کوئی وجہ بھی تو ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی ایسی چیز کھا لیں جس میں ہیضے کے جراثیم ہوں اور۔ ‘‘

خان بہادر کو اپنے بیٹے کی یہ گفتگو پسند نہیں تھی۔

’’تم چلے جاؤ یہاں سے۔ میرا مغز مت چاٹو۔ میں ہر چیز سے واقف ہوں۔ ‘‘

احمد دین نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہا :

’’یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ کوئی انسان بھی ہر چیز سے واقف ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ‘‘

احمد دین چلا گیا۔ خان بہادر اندرونی طور پر خود کو بہت بڑا چغد سمجھنے لگے تھے۔ لیکن وہ اپنے اس احساس کو اپنے لڑکے پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ بستر پر لیٹے انہوں نے بار بار خود سے کہا:

’’خان بہادر عطاء اللہ۔ تم خان بہادر بنے پھرتے ہو۔ لیکن اصل میں تم اوّل درجے کے بیوقوف ہو۔ ‘‘

’’تم اپنے بیٹے کی بات پر کان کیوں۔ نہیں دھرتے۔ جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے صحیح ہے۔ ‘‘

’’جتنا روپیہ تم نے حاصل کیا تھا ٗ اس سے دگنا روپیہ تم ضائع کر چکے ہو۔ کیا یہ درست ہے؟‘‘

خان بہادر جھنجھلا گئے اور بڑ بڑانے لگے:

’’سب درست ہے۔ سب درست ہے۔ ایک میں ہی غلط ہوں لیکن میرا غلط ہونا ہی صحیح ہو گا۔ بعض اوقات غلطیاں بھی صحت کا سامان مہیا کر دیتی ہیں۔ ‘‘

پندرہ دن بستر پر لیٹے اور علاج کرانے کے بعد جب وہ کسی قدر ہی تندرست ہوئے تو انہوں نے اپنا ایک اور مکان بیچ دیا۔ یہ پچیس ہزار روپے میں بکا۔ خان صاحب نے یہ سب روپے سٹے پر لگا دیے۔ ان کو پوری امید تھی کہ وہ اپنی اگلی پچھلی کسر پوری کر لیں گے مگر قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ ان پچیس ہزار روپوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ احمد دین پیچ و تاب کھا کے رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اپنے باپ کو کس طرح سمجھائے۔ وہ اس کی کوئی بات سنتے ہی نہیں تھے۔ احمد دین نے آخری کوشش کی۔ اور ایک دن جب اس کا باپ اپنے کمرے میں حقہ پی رہا تھا اور معلوم نہیں کس سوچ میں غرق تھا کہ اس سے ڈرتے ڈرتے مخاطب ہوا:

’’ابا جی۔ ‘‘

خان بہادر صاحب سوچ میں اس قدر غرق تھے کہ انہوں نے اپنے لڑکے کی آواز ہی نہیں سُنی۔ احمد دین نے آواز کو ذرا بلند کیا:

’’ابا جی۔ ابا جی !‘‘

خان بہادر چونکے۔

’’کیا ہے۔ ‘‘

احمد دین کانپ گیا۔

’’کچھ نہیں ابا جی۔ مجھے۔ مجھے آپ سے ایک بات کہنا تھی‘‘

خان بہادر نے حقے کی نڑی اپنے منہ سے جدا کی۔

’’کہو ٗ کیا کہنا ہے۔ ‘‘

احمد دین نے بڑی لجاجت سے کہا:

’’مجھے یہ عرض کرنا ہے۔ یہ درخواست کرنا تھی۔ کہ۔ آپ سٹہ کھیلنا بند کر دیں۔ ‘‘

حقے کا ایک زور دار کش لے کر وہ احمد دین پر برس پڑے۔

’’تم کون ہوتے ہو مجھے نصیحت کرنے والے۔ میں جانوں میرا کام۔ کیا اب تک تمہارے ہی مشورے سے میں سارے کام کرتا رہا ہوں۔ دیکھو ٗ میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ آئندہ میرے معاملے میں کبھی دخل نہ دینا۔ مجھے یہ گستاخی ہرگز پسند نہیں۔ سمجھے!‘‘

احمد دین کی گردن جھکی ہوئی تھی:

’’جی میں سمجھ گیا۔ ‘‘

اور یہ کہہ کر وہ اپنے باپ کے کمرے سے نکل گیا۔ سٹے کی لت شراب کی عادت سے بھی کہیں زیادہ بری ہوتی ہے۔ خان بہادر اس میں کچھ ایسے گرفتار ہوئے کہ جائیداد۔ سب کی سب اس خطرناک کھیل کی نذر ہو گئی۔ مرحوم بیوی کے زیور تھے۔ وہ بھی بک گئے۔ اور نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ان کے دل کے عارضے نے کچھ ایسی شکل اختیار کی کہ وہ ایک روز صبح سویرے غسل خانے میں داخل ہوتے ہی دھم سے گرے اور ایک سیکنڈ کے اندر اندر دم توڑ دیا۔ احمد دین کو ظاہر ہے کہ اپنے باپ کی وفات کا بہت صدمہ ہوا۔ وہ کئی دن نڈھال رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرئے۔ بی اے پاس تھاٗ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ مگر اب سارا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ اس کے باپ نے ایک پھوٹی کوڑی بھی اس کیلیے نہیں چھوڑی تھی۔ مکان۔ جس میں وہ تنہا رہتا تھا۔ رہن تھا۔ یہاں سے اس کو کچھ عرصے کے بعد نکلنا پڑا گھر کی مختلف چیزیں بیچ کر اس نے چار پانچ سو روپے حاصل کیے اور ایک غلیظ محلے میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا مگر پانچ سو روپے کب تک اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ایک برس تک بڑی کفایت شعاری سے گزارا کر لیتا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوتا۔ احمد دین نے سوچا:

’’مجھے ملازمت کر لینی چاہیے ! چاہے وہ کیسی بھی ہو۔ پچاس ساٹھ روپے ماہوار مل جائیں۔ تو گزارا ہو جائے گا۔ ‘‘

اس کی ماں کو مرے اتنے ہی برس ہو گئے تھے جتنے اس کو جیتے ٗ احمد دین نے حالانکہ اس کی شکل تک نہیں دیکھی تھی۔ نہ اس کو دودھ پینا نصیب ہوا تھا۔ پھر بھی وہ اکثر اس کو یاد کر کے آنسو بہاتا رہتا۔ احمد دین نے ملازمت حاصل کرنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اتنے بے روزگار اور بے کار آدمی تھے کہ وہ خود کو اس بے روزگاری اور بے کاری کے سمندر میں ایک قطرہ سمجھتا تھا۔ لیکن اس احساس کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری۔ اور اپنی تگ و دو جاری رکھی۔ بہت دنوں کے بعد اسے معلوم ہوا کہ اگر کسی افسر کی مٹھی گرم کی جائے تو ملازمت ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے لیکن وہ مٹھی گرم کرنے کا مسالا کہاں سے لاتا۔ ایک دفتر میں جب وہ ملازمت کے سلسلے میں گیا تو ہیڈ کلرک نے اس سے شفیقانہ انداز میں کہا:

’’دیکھو برخوردار۔ یوں خالی خولی کام نہیں چلے گا۔ جس اسامی کے لیے تم نے درخواست دی ہے ٗ اس کے لیے پہلے ہی دو سو پچاس درخواستیں وصول ہو چکی ہیں۔ میں بڑا صاف گو آدمی ہوں۔ پانچ سو روپے اگر تم دے سکتے ہو تو یہ ملازمت تمہیں یقیناً مل جائے گی۔ ‘‘

اب احمد دین پانچ سو روپے کہاں سے لاتا۔ اس کے پاس بمشکل بیس یا تیس روپے تھے۔ چنانچہ اس نے ہیڈ کلرک سے کہا:

’’جناب ! میرے پاس اتنے روپے نہیں۔ آپ ملازمت دلوا دیجیے تنخواہ میں سے آدھی رقم آپ لے لیا کریں۔ ‘‘

ہیڈ کلرک ہنسا۔

’’تم ہمیں بیوقوف بناتے ہو۔ جاؤ، چلتے پھرتے بنو۔ ‘‘

احمد دین بہت دیر تک چلتا پھرتا رہا۔ مگر اسے اطمینان سے کہیں بیٹھنے کا موقع نہ ملا۔ جہاں جاتا، رشوت کا سوال سامنے ہوتا۔ دنیا شاید رشوت ہی کی وجہ سے عالم وجود میں آئی ہے۔ شاید خدا کو کسی نے رشوت دی ہو اور اس نے یہ دنیا بنا دی ہو۔ احمد دین کے پاس جب پیسہ بھی نہ رہا تو مزدوری شروع کر دی۔ بوجھ اٹھاتا اور ہر روز دوروپے کما لیتا۔ مہنگائی کا زمانہ تھا۔ گو دونوں وقت کا کھانا بھٹیار خانے میں کھاتا لیکن اسے کافی خرچ برداشت کرنا پڑتا۔ زیادہ سے زیادہ ایک آنہ بچ رہتا۔ احمد دین مزدوری کرتا۔ مگر اس کے دل و دماغ پر رشوت کا چکر گھومتا رہتا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی لعنت تھی۔ اور وہ چاہتا تھا کہ اس سے کسی طرح نجات حاصل کرئے۔ اور مزدوری چھوڑ کر کوئی ایسی ملازمت اختیار کرے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ آخر وہ بی اے پاس تھا۔ فرسٹ کلاس فرسٹ۔ اس نے سوچا کہ نماز پڑھنا شروع کر دے۔ خدا سے دعا مانگے کہ وہ اس کی سنے! چنانچہ اس نے باقاعدہ پانچ وقت کی نماز شروع کر دی۔ یہ سلسلہ ایک وقت تک جاری رہا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ اس دوران میں اس کے پاس تیس روپے جمع ہو چکے تھے۔ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ ڈاک خانے گیا تیس روپے کا پوسٹل آرڈر لیا اور لفافے میں ڈال کر ساتھ ہی ایک رقعہ بھی رکھ دیا جس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا:۔

’’اللہ میاں۔ میں سمجھتا ہوں تم بھی رشوت لے کر کام کرتے ہو۔ میرے پاس تیس روپے ہیں جو تمہیں بھیج رہا ہوں۔ مجھے کہیں اچھی سی ملازمت دلوا دو۔ بوجھ اٹھا اٹھا کر میری کمر دوہری ہو گئی ہے۔ ‘‘

لفافے پر اس نے پتہ لکھا :

’’بخدمت جناب اللہ میاں۔ مالکِ کائنات‘‘

چند روز بعد احمد دین کو ایک خط ملا جو

’’کائنات‘‘

اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا۔ اس کا نام محمد میاں تھا ٗ خط کے ذریعے اس نے احمد دین کو بلایا تھا۔ وہ

’’کائنات‘‘

کے دفتر گیا جہاں مترجم کی حیثیت سے سو روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔ احمد دین نے سوچا۔ آخر رشوت کام آ ہی گئی۔

سعادت حسن منٹو

رحمتِ خداوندی کے پھول

زمیندار، اخبار میں جب ڈاکٹر راتھر پر رحمت خدا وندی کے پھول برستے تھے تو یار دوستوں نے غلام رسول کا نام ڈاکٹر راتھر رکھ دیا۔ معلوم نہیں کیوں، اس لیے کہ غلام رسول کو ڈاکٹرراتھر سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایم۔ بی بی۔ ایس میں تین بار فیل ہو چکا تھا۔ مگر کہاں ڈاکٹرراتھر، کہاں غلام رسول۔ ڈاکٹرراتھر ایک اشتہاری ڈاکٹر تھا جو اشتہاروں کے ذریعے سے قوتِ مردمی کی دوائیں بیچتا تھا۔ خدا اور اس کے رسول کی قسمیں کھا کھا کر اپنی دواؤں کو مجرب بتاتا تھا اور یوں سینکڑوں روپے کماتا تھا۔ غلام رسول کو ایسی دوائیوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ شادی شدہ تھا، اور اس کو قوت مردمی بڑھانے والی چیزوں کی کوئی حاجت نہیں تھی، لین پھر بھی اس کے یار دوست اس کو ڈاکٹر راتھر کہتے تھے۔ اس کا یا کلپ کو اس نے تسلیم کرالیا تھا۔ اس لیے کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ یہ نہیں تھا۔ اس کے دوستوں کو یہ نام پسند آگیا تھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ غلام رسول کے مقابلے میں ڈاکٹرراتھر کہیں زیادہ موڈرن ہے۔ اب غلام رسول کو ڈاکٹر راتھر ہی کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ اس لیے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے۔ ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ سب سے بڑی خوبی اس میں یہ تھی کہ وہ ڈاکٹر نہیں تھا اور نہ بننا چاہتا تھا۔ وہ ایک اطاعت مند بیٹے کی طرح اپنے ماں باپ کی خواہش کے مطابق میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا۔ اتنے عرصے سے کہ اب کالج کی عمارت اس کی زندگی کا ایک جزو بن گئی تھی۔ وہ یہ سمجھنے لگا تھا کہ کالج اس کے کسی بزرگ کا گھر ہے جہاں اس کو ہر روز سلام عرض کرنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔ اس کے والدین مصر تھے کہ وہ ڈاکٹری پاس کرے۔ اس کے والد کو یقین تھا کہ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اپنے بڑے لڑکے کے متعلق مولوی صباح الدین نے اپنی بیوی سے پیش گوئی کی تھی کہ وہ بیرسٹر ہو گا۔ چنانچہ جب اس کو ایل، ایل، بی پاس کراکے لندن بھیجا گیا توہ بیرسٹر بن کر ہی آیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی پریکٹس دوسرے بیرسٹوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تھی۔ گو ڈاکٹر راتھر تین مرتبہ ایم۔ بی بی۔ ایس کے امتحان میں فیل ہو چکا تھا، مگر اس کے بات کو یقین تھا کہ وہ انجام کاربہت بڑا ڈاکٹر بنے گا اور ڈاکٹر راتھر اپنے باپ کا اس قدر فرماں بردار تھا کہ اس کو بھی یقیناًتھا کہ ایک روز وہ لنڈن کے ہارلے اسٹریٹ میں بیٹھا ہو گا اور اس کی ساری دنیا میں دھوم مچی ہو گی۔ ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ ایک خوبی یہ تھی کہ سادہ لوح تھا۔ لیکن سب سے بڑی برائی اس میں یہ تھی کہ پیتا تھا اور اکیلا پیتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس نے بہت کوشش کی کہ اپنے ساتھ کسی اور کو نہ ملائے لیکن یار دوستوں نے اس کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ ان کو اس کا ٹھکانا معلوم ہو گیا۔

’’سیوائے بار‘ میں شام کو سات بجے پہنچ جائے مجبوراً ڈاکٹر راتھر کو نہیں اپنے ساتھ پلانا پڑتی۔ یہ لوگ اس کا گن گاتے، اس کے مستقبل کے متعلق بھی حوصلہ افزا باتیں کرتے۔ راتھر نشے کی ترنگ میں بہت خوش ہوتا اوراپنی جیب خالی کردیتا۔ پانچھ چھ مہینے اسی طرح گزر گئے۔ اس کو اپنے باپ سے دو سوروپے ماہوار ملتے تھے۔ رہتا الگ تھا۔ مکان کا کرایہ بیس روپے ماہانہ تھا۔ دن اچھے تھے۔ روز راتھر کی بیوی کو فاقے کھینچنے پڑتے، لیکن پھر بھی اس کا ہاتھ تنگ ہو گیا اس لیے کہ راتھر کو دوسروں کو پلانا پڑتی تھی۔ ان دنوں شراب بہت سستی تھی۔ آٹھ روپے کی ایک بوتل۔ ادھر چار روپے آٹھ آنے میں ملتا تھا۔ مگر ہرروز ایک ادھار لینا، یہ ڈاکٹر راتھر کی بساط سے باہر تھا اس نے سوچا کہ گھرمیں پیا کرے۔ مگر یہ کیسے ممکن تھا۔ اس کی بیوی فوراً طلاق لے لیتی اس کو معلوم ہی تھا کہ اس کا خاوند شراب کا عادی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو شرابیوں سے سخت نفرت تھی، نفرت ہی نہیں، ان سے بہت خوف آتا تھا۔ کسی کی سرخ آنکھیں دیکھتی توڈر جاتی، ہائے، ڈاکٹر صاحب، کتنی ڈراؤنی آنکھیں تھیں اس آدمی کی۔ ایسا لگتا تھا کہ شرابی ہے۔ ‘‘

اور ڈاکٹرراتھر دل ہی دل میں سوچتا کہ اس کی آنکھیں کیسی ہیں، کیا پی کر آنکھوں میں سرخ ڈورے آتے ہیں؟۔ کیا اس کی بیوی کو اس کی آنکھیں ابھی تک سرخ نظر نہیں آئیں؟۔ کب تک اس کاراز راز رہے گا؟۔ منہ سے بو تو ضرور آتی ہو گی۔ کیا وجہ ہے کہ اس کی بیوی نے کبھی نہیں سونگھی۔ پھر وہ یہ سوچتا

’’نہیں‘‘

میں بہت احتیاط برتتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ منہ پرے کرکے اس سے بات کی ہے۔ ایک دفعہ اس نے پوچھا تھا کہ آپ کی آنکھیں آج سرخ کیوں ہیں تو میں نے اس سے کہا تھا، دھول پڑی گئی ہے۔ اسی طرح ایک بار اس نے دریافت کیا تھا، یہ بو کسی ہے، تو میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا، آج سیگار پیا تھا۔ بہت بو ہوتی ہے کم بخت میں۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر اکیلا پینے کا عادی تھا۔ اس کو ساتھی نہیں چاہیے تھے۔ وہ کنجوس تھا۔ اس کے علاوہ اس کی جیب بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ دوستوں کو پلائے اس نے بہت سوچا کہ ایسی ترکیب کیا ہوسکتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی یہ مسئلہ کچھ اس طرح حل ہو کہ وہ گھرمیں پیا کرے جہاں اس کے دوستوں کو شرکت کرنے کی جرات نہیں ہوسکتی تھی۔ ڈاکٹر راتھر، پورا ڈاکٹر تو نہیں تھا، لیکن اس کو ڈاکٹری کی چند چیزوں کا علم ضرور تھا۔ وہ اتنا جانتا تھا کہ دوائیں بوتلوں میں ڈال کر دی جاتی ہیں۔ اور ان پر اکثر یہ لکھا ہوتا ہے۔

’’شیک دی بوٹل بی فور یوز‘‘

۔ اس نے اتنے علم میں اپنی ترکیب کی دیواریں استوار کیں۔ آخر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نے یہ سوچا کہ وہ گھر ہی میں پیا کرے گا۔ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ وہ دوا کی بوتل میں شراب ڈلوا کر گھر رکھ دے گا۔ بیوی سے کہے گا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اس کے استاد ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ نے اپنے ہاتھ سے یہ نسخہ دیاہے اور کہا ہے کہ شام کو ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک خوراک پانی کے ساتھ پیا کرے، انشاء اللہ شفا ہو جائے گی۔ یہ ترکیب تلاش کرلینے پر ڈاکٹر راتھر بے حد خوش ہوا۔ اپنی زندگی میں پہلی بار اس نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے ایک نیا امریکا دریافت کرلیا ہے، چنانچہ صبح سویرے اٹھ کر اس نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’نسیمہ، آج میرے سرد میں بڑا درد ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے پھٹ جائے گا۔ نسیمہ نے بڑے تردو سے کہا۔

’’کالج نہ جائیے آج۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر مسکرایا۔

’’پگلی، آج تو مجھے ضرور جانا چاہیے۔ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ صاحب سے پوچھوں گا۔ ان کے ہاتھ میں بڑی شفاہے۔ ‘‘

’’ہاں ہاں، ضرور جائیے۔ میرے متعلق بھی ان سے بات کیجیے گا۔ ‘‘

نسیمہ کو سلان الرحم کی شکایت تھی جس سے ڈاکٹر راتھر کو کوئی دلچسپی نہیں تھی، مگر اس نے کہا۔

’’ہاں ہاں بات کروں گا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ میرے لیے کوئی نہایت ہی کڑی اور بدبو دار دوا تجویز کردیں گے۔ ‘‘

’’آپ خوڈد ڈاکٹر ہیں، دوائیں مٹھائیاں تو نہیں ہوتیں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، لیکن بدبو دار دواؤں سے مجھے نفرت ہے۔ ‘‘

’’آپ دیکھیے تو سہی کیسی دوا دیتے ہیں۔ ابھی سے کیوں ایسی رائے قائم کررہے ہیں آپ؟‘‘

’’اچھا‘‘

کہہ کر ڈاکٹر راتھر اپنے سر کو دباتا کالج چلا گیا۔ شام کو وہ دوا کی بوتل میں وسکی ڈلوا کر لے آیا اور اپنی بیوی سے کہا۔

’’میں نے تم سے کہا تھا نا کہ ڈاکٹر سیدرمضان علی شاہ ضرور کوئی ایسی دوا لکھ کر دیں گے۔ جو بے حد کڑی اور بدبودار ہو گی۔ لو، ذرا سے سونگھو۔

’’بوتل کا کارک اتار کر اس نے بوتل کا منہ اپنی بیوی کی ناک کے ساتھ لگا دیا۔ اس نے سونگھا اور ایک دم ناک ہٹا کر کہا۔

’’بہت واہیات سی بو ہے۔ ‘‘

’’اب ایسی دوا کون پیے؟‘‘

’’نہیں نہیں۔ آپ ضرور پئیں گے۔ سر کا درد کیسے دور ہو گا۔ ‘‘

’’ہو جائے گا اپنے آپ۔ ‘‘

’’اپنے آپ کیسے دور ہو گا۔ یہی تو آپ کی بری عادت ہے۔ دوا لاتے ہیں مگر استعمال نہیں کرتے۔ ‘‘

’’یہ بھی کوئی دوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے شراب ہے۔ ‘‘

’’آپ تو جانتے ہی ہیں کہ انگریزی دواؤں میں شراب ہوا کرتی ہے۔ ‘‘

’’لعنت ہے ایسی دواؤں پر!‘‘

ڈاکٹر راتھر کی بیوی نے خوراک کے نشان دیکھے اور حیرت سے کہا۔

’’اتنی بڑی خوراک!‘‘

ڈاکٹر راتھر نے بُرا سا منہ بنایا۔

’’یہی تو مصیبت ہے!‘‘

’’آپ مصیبت مصیبت نہ کہیں، اللہ کا نام لے کر پہلی خوراک پئیں۔ پانی کتناڈ النا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے بوتل اپنی بیوی کے ہاتھ سے لی اورمصنوعی طور پر بادل ناخواستہ کہا۔

’’سوڈا منگوانا پڑے گا۔ عجیب و غریب دوا ہے۔ پانی نہیں سوڈا۔ ‘‘

یہ سن کر نسیمہ نے کہا۔

’’سوڈا اس لیے کہا ہو گا کہ آپ کا معدہ خراب ہے۔ ‘‘

’’خدا معلوم کیا خراب ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کرڈاکٹر راتھر نے ایک خوراک گلاس میں ڈالی۔

’’بھئی خدا کی قسم میں نہیں پیوں گا۔ ‘‘

بیوی نے بڑے پیار سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’نہیں نہیں۔ پی جائیے۔ ناک بند کرلیجیے۔ میں اسی طرح فیور مکسچر پیا کرتی ہوں۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے بڑے نخروں کے ساتھ شام کا پہلا پیگ پیا۔ بیوی نے اس کو شاباش دی اور کہا۔

’’پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک۔ خدا کے فضل و کرم سے درد یوں چٹکیوں میں دورہو جائے گا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے سارا ڈھونگ کچھ ایسے خلوص سے رچایا تھا کہ اس کومحسوس ہی نہ ہوا کہ اس نے دوا کے بجائے شراب پی ہے، لیکن جب ہلکا سا درد اس کے دماغ میں نمودار ہوا تو وہ دل ہی دل میں خوب ہنسا۔ ترکیب خوب تھی۔ اس کی بیوی نے عین پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک گلاس میں انڈیلی۔ اس میں سوڈا ڈالا اور ڈاکٹر راتھر کے پاس لے آئی۔

’’یہ لیجئے دوسری خوراک۔ کوئی ایسی بری بُو تو نہیں ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے گلاس پکڑ کر بڑی بددلی سے کہا، تمہیں پینا پڑے تو معلوم ہو۔ خدا کی قسم شراب کی سی بُو ہے۔ ذرا سونگھ کر تو دیکھو!‘‘

’’آپ تو بالکل میری طرح ضد کرتے ہیں۔ ‘‘

’’نسیمہ، خدا کی قسم ضد نہیں کرتا۔ ضد کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے، لیکن۔ خیر، ٹھیک ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے گلاس منہ سے لگایا اور شام کا دوسرا پیگ غٹاغٹ چڑھا گیا۔ تین خوراکیں ختم ہو گئیں۔ ڈاکٹرراتھر نے کسی قدر افاقہ محسوس کیا، لیکن دوسرے روز پھر سر میں درد عود کر آیا۔ ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی سے کہا۔

’’ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ مرض آہستہ آہستہ دور ہو گا، لیکن دوا کا استعمال برابر جاری رہنا چاہیے۔ خدا معلوم کیا نام لیا تھا انھوں نے بیماری کا۔ کہا تھا معمولی سر کا درد ہوتا تو دو خوراکوں ہی سے دور ہو جاتا۔ مگر تمہارا کیس ذرا سیریس ہے۔

’’یہ سن کر نسیمہ نے تردو سے کہا۔

’’تو آپ کو دوا اب باقاعدہ پینی پڑے گی۔ ‘‘

’’میں نہیں جانتا۔ تم وقت پر دے دیا کرو گی تو قہر درویش برجان درویش پی لیا کروں گا۔ ‘‘

نسیمہ نے ایک خوراک سوڈے میں حل کرکے اس کو دی۔ اس کی بو ناک میں گھسی تو متلی آنے لگی مگر اس نے اپنے خاوند پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا۔ کیونکہ اس کو ڈر تھا کہ وہ پینے سے انکار کردے گا۔ ڈاکٹر راتھر نے تین خوراکیں اپنی بیوی کے بڑے اصرار پر پیں۔ وہ بہت خوش تھی کہ اس کا خاوند اس کا کہا مان رہا ہے، کیونکہ بیوی کی بات ماننے کے معاملے میں ڈاکٹر بہت بدنام تھا۔ کئی دن گزر گئے۔ خوراکیں یپنے اور پلانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ ڈاکٹر راتھر بڑا مسرور تھا کہ اس کی ترکیب سود مند ثابت ہوئی۔ اب اسے دوستوں کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ ہر شام گھر میں بسر ہوتی۔ ایک خوراک پیتا اور لیٹ کر کوئی افسانہ پڑھنا شروع کردیا۔ دوسری خوراک عین پندرہ منٹ کے بعد اس کی بیوی تیار کرکے لے آتی۔ اسی طرح تیسری خوراک اس کو من مانگے مل جاتی۔ ڈاکٹر راتھر بے حد مطمئن تھا۔ اتنے دن گزر جانے پر اس کے اور اس کی بیوی کے لیے یہ دوا کا سلسلہ ا یک معمول ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر راتھر اب ایک پوری بوتل لے آیا تھا۔ اس کا لیبل وغیرہ اتار کر اس نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔

’’کیمسٹ میرا دوست ہے۔ اس نے مجھ سے کہا۔ آپ ہر روز تین خوراکیں لیتے ہیں، دوا آپ کو یوں مہنگی پڑتی ہے۔ پوری بوتل لے جائیے۔ اس میں سے چھوٹی نشانوں والی بوتل میں ہر روز تین خوراکیں ڈال لیا کیجیے۔ بہت سستی پڑے گی اس طرح آپکو یہ دوا!‘‘

یہ سن کر نسیمہ کوخوش ہوئی کہ چلو بچت ہو گئی۔ ڈاکٹر راتھر بھی خوش تھا کہ اس کے کچھ پیسے بچ گئے، کیونکہ روزانہ تین پیگ لینے میں اسے زیادہ دام دینے پڑے تھے۔ اور بوتل آٹھ روپوں میں مل جاتی تھی۔ کالج سے فارغ ہو کر ڈاکٹر راتھر ایک دن گھر آیا تو اس کی بیوی لیٹی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر راتھر نے اس سے کہا۔

’’نسیمہ کھانا نکالو، بہت بھوک لگی ہے۔ ‘‘

نسیمہ نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا۔

’’کھانا۔ کیا آپ کھانا کھا نہیں چکے۔ ‘‘

’’نہیں تو۔ ‘‘

’’نسیمہ نے ایک لمبی، نہیں‘ کہی۔

’’آپ۔ کھانا کھا چکے ہیں۔ میں نے آپ کو دیا تھا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے حیرت سے کہا۔

’’کب دیا تھا۔ میں ابھی ابھی کالج سے آرہا ہوں۔ ‘‘

نسیمہ نے ایک جمائی لی۔

’’جھوٹ ہے۔ آپ کالج تو گئے ہی نہیں۔ ‘‘

ڈاکٹرراتھر نے سمجھا، نسیمہ مذاق کررہی ہے، چنانچہ مسکرایا۔

’’چلو اٹھو، کھانا نکالوسخت بھوک لگی ہے۔ ‘‘

نسیمہ نے ایک اور لمبی

’’نہیں‘‘

کہی۔ آپ جھوٹ بولتے ہیں میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔

’’کب؟۔ حد ہو گئی ہے۔ چلو اٹھو، مذاق نہ کرو۔

’’یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی کا بازو پکڑا۔

’’خدا کی قسم میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ ‘‘

نسیمہ کھکھلا کر ہنسی۔

’’چوہے۔ آپ یہ چوہے کیوں نہیں کھاتے؟‘‘

ڈاکٹرراتھرنے بڑے تعجب سے پوچھا۔

’’کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ ‘‘

نسیمہ نے سنجیدگی اختیار کرکے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے خاوند سے کہا۔

’’میں۔ میں۔ سرد میں درد تھا میرے۔ آپکی دوا کی دو خو۔ خو۔ خوراکیں پی ہیں۔ چوہے۔ چوہے بہت ستاتے ہیں۔ ان کو مارنے والی گولیاں لے آئیے۔ کھانا؟۔ نکالتی ہوں کھانا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی سے صرف اتنا کہا۔

’’تم سو جاؤ، میں کھانا کھا چکا ہوں۔ ‘‘

نسیمہ زور سے ہنسی۔

’’میں نے جھوٹ تو نہیں کہا۔ ‘‘

ڈاکٹر راتھر نے جب دوسرے کمرے میں جا کر مضطرب حالت میں زمیندار کا تازہ پرچہ کھولا تو اس کو ایک خبر کی سرخی نظر آئی۔ ڈاکٹر راتھر پر رحمت خداوندی کے پھول۔ ‘‘

اس کے نیچے یہ درج تھا کہ پولیس نے اس کو دھوکا دہی کے سلسلے میں گرفتار کرلیا ہے۔ غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر نے یہ خبر پڑھ کر یوں محسوس کیا کہ اس پر رحمت خدا وندی کے پھول برس رہے ہیں۔ 25جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو

رَتی، ماشہ، تولہ

زینت اپنے کالج کی زینت تھی۔ بڑی زیرک ٗ بڑی ذہین اور بڑے اچھے خدو خال کی صحتمند نوجوان لڑکی۔ جس طبیعت کی وہ مالک تھی اس کے پیشِ نظر اُس کی ہم جماعت لڑکیوں کو کبھی خیال بھی نہ آیا تھا۔ کہ وہ اتنی مقدار پشد عورت بن جائے گی۔ ویسے وہ جانتی تھیں کہ چائے کی پیالی میں صرف ایک چمچ شکر ڈالنی ہے زیادہ ڈالدی جائے تو پینے سے انکار کر دیتی ہے قمیص اگر آدھا انچ بڑی یا چھوٹی سِل جائے تو کبھی نہیں پہنے گی۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ شادی کے بعد وہ اپنے خاوند سے بھی نپی تلی محبت کرے گی۔ زینت سے ایک لڑکے کو محبت ہو گئی وہ اس کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا بلکہ یوں کہیے کہ اُس کا اور زینت کا مکان آمنے سامنے تھا ایک دن اُس لڑکے نے جس کا نام جمال تھا اُسے کوٹھے پر اپنے بال خشک کرتے دیکھا تو وہ سر تاپا محبت کے شربت میں شرابور ہو گیا۔ زینت وقت کی پابند تھی صبح ٹھیک چھ بجے اُٹھتی۔ اپنی بہن کے دو بچوں کو سکول کے لیے تیار کرتی اس کے بعد خود نہاتی اور سر پر تولیہ لپیٹ کر اوپر کوٹھے پر چلی جاتی اور اپنے بال جو اُس کے ٹخنوں تک آتے تھے سُکھاتی کنگھی کرتی اور نیچے چلی جاتی جوڑا وہ اپنے کمرے میں کرتی تھی۔ اس کی ہر حرکت اور اس کے ہر عمل کے وقت معین تھے۔ جمال گر صبح ساڑھے چھ بجے اُٹھتا اور حوائج ضروری سے فارغ ہو کر اپنے کوٹھے پر پہنچتا تو اُسے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑتا اس لیے کہ زینت اپنے بال سُکھا کر نیچے چلی گئی ہوتی تھی ایسے لمحات میں وہ اپنے بالوں میں اُنگلیوں سے کنگھی کرتا اور ادھر ادھر دیکھ کے واپس نیچے چلا جاتا اس کو سیڑھیاں اُترتے ہوئے یوں محسوس ہوتا کہ ہر زینہ کنگھی کا ایک دندانہ ہے جو اُترتے ہوئے ایک ایک کر کے ٹوٹ رہا ہے۔ ایک دن جمال نے زینت کو ایک رقعہ بھیجا وقت پر وہ کوٹھے پر پہنچ گیا تھا جبکہ زینت اپنے ٹخنوں تک لمبے بال سُکھا رہی تھی اس نے یہ تحریر جو خوشبودار کاغذ پر تھی روڑے میں لپیٹ کر سامنے کوٹھے پر پھینک دی زینت نے یہ کاغذی پیراہن میں ملبوس پتھر اُٹھایا۔ کاغذ اپنے پاس رکھ لیا اور پتھر واپس پھینک دیا۔ لیکن اُس کو جمال کی شوخئ تحریر پسند نہ آئی اور وہ سر تا پا فریاد بن گئی اُس نے لکھا تھا۔ زلف برہم سنبھال کر چلیے راستہ دیکھ بھال کر چلیے موسمِ گُل ہے اپنی بانھوں کو میری بانھوں میں ڈال کر چلیے موسمِ گل قطعاً نہیں تھا۔ اس لیے اس آخری شعر نے اُس کو بہت کوفت پہنچائی اس کے گھر میں کئی گملے تھے جن میں بوٹے لگے ہوئے تھے یہ سب کے سب مرجھائے ہوئے تھے جب اس نے یہ شعر پڑھا تو اس کا ردّعمل یہ ہوا کہ اس نے مُرجھائے بے گُل بُوٹے اکھاڑے اور اس کنستر میں ڈال دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ جمع کیا جاتا تھا۔ ایک زُلف اس کی برہم رہتی تھی۔ لیکن راستہ دیکھ بھال کر چلنے کا سوال کیا پیدا ہوتا تھا زینت نے سوچا کہ یہ محض شاعرانہ تُک بندی ہے لیکن اس کے بال ٹخنوں تک لمبے تھے۔ اسی دن جب اس کو یہ رقعہ ملا تو نیچے سیڑھیاں اُترتے ہوئے جب ایک زینے پر اپنی ایک بھانجی کے کان سے گری ہوئی سونے کی بالی اُٹھانی پڑی تو وہ اس کی سینڈل سے اُلجھ گئے اور گرتے گرتے بچی۔ چنانچہ اُس دن سے اُس نے راستہ دیکھ بھال کر چلنا شروع کیا۔ مگر اس کی بانھوں میں بانھیں ڈال کر چلنے میں سخت اعتراض تھا۔ وہ اسے زیادتی سمجھتی تھی اس لیے کہ موسم گل نہیں تھا موسم گل بھی ہوتا تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ پھولوں سے بانہوں کا کیا تعلق ہے اس کے نزدیک بانہوں میں بانھیں ڈال کر چلنا بڑا واہیات بلکہ سوقیانہ ہے چنانچہ جب وہ دوسرے روز صبح ۶ بجے اُٹھی اور اپنی بھانجیوں کو اسکول کے لیے تیار کرنا چاہا تو اُسے معلوم ہوا کہ اتوار ہے اس کے دل و دماغ میں وہ دو شعر سوار تھے۔ اُس نے اُسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بچیوں کو تیار کرے گی اس کے بعد نہائے گی اور اپنے کمرے میں جا کر جمال کا رقعہ پڑھ کر اُسے جی ہی میں کوسے گی مگر اتوار ہونے کے باعث اس کا یہ تہیہ درہم برہم ہو گیا۔ اُسے وقت سے پہلے غسل کرنا پڑا حالانکہ وہ اپنے روز مرہ کے اوقات کے معاملے میں بڑی پابند تھی۔ اُس نے غسل خانے میں ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا دو بالٹیوں سے پہلے نہاتی تھی دو بالٹیوں سے اب بھی نہائی۔ لیکن آہستہ آہستہ اُس نے نہاتے وقت اپنی بانھوں کو دیکھا۔ جو سڈول اور خوبصورت تھیں پھر اُسے جمال کی بانھوں کا خیال آیا لیکن اس نے ان کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ قمیص کی آستینوں کے اندر چھپی رہتی تھیں ان کے متعلق وہ کیا رائے قائم کرسکتی تھی بہر حال وہ اپنے گدرائے ہوئے بازو دیکھ کر مطمئن ہو گئی اور جمال کو بھول گئی۔ غسل میں کچھ زیادہ ہی دیر ہو گئی۔ اس لیے کہ وہ اپنے حسن و جمال کے متعلق اندازہ کرنے بیٹھ گئی تھی اس نے کافی دیر غور کرنے پر یہ نتیجہ نکالا کہ وہ زیادہ حسین تو نہیں لیکن قبول صورت اور جوان ضرور ہے۔ جوان وہ بلا شبہ تھی۔ وہ چھوٹی مختصر سی ریشمی چیز جو اُس نے اپنے بدن سے اُتار کر لکس صابن کی ہوائیوں میں دھوئی تھی اُس کے سامنے ٹنگی تھی۔ یہ گیلی ہونے کے باوجود بہت سی چغلیاں کھا رہی تھی۔ اس کے بعد روڑے میں لپٹا ہوا ایک اور خط آیا اُس میں بے شمار اشعار تھے شعروں سے اُسے نفرت تھی اس لیے کہ وہ انھیں محبت کا عامیانہ ذریعہ سمجھتی تھی خط آتے رہے زینت وصول کرتی رہی لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ محبت کے شدید جذبے کی قائل نہیں تھی اس کو جمال پسند تھا اس لیے کہ وہ خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اُس کے متعلق وہ لوگوں سے بھی سُن چکی تھی کہ وہ بڑے اچھے خاندان کا لڑکا ہے شریف ہے اس کو اور کسی لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں رہا غالباً یہی وجہ تھی ایک دن اُس نے اپنی نوکرانی کے دس سالہ بچے کے ہاتھ اس کو یہ رقعہ لکھ کر بھیج دیا۔

’’آپ کی رقعہ نویسی پر مجھے اس کے سوا اور کوئی اعتراض نہیں کہ یہ شعروں میں نہ ہوا کرے مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مجھے چاندی اور سونے کے ہتھوڑوں سے کُوٹ رہا ہے۔ یہ خط ملنے کے بعد جمال نے اشعار لکھنے بند کر دیے لیکن اُس کی نثر اُس سے بھی کہیں زیادہ جذبات سے پُر ہوتی تھی زینت کی طبع پر یہ بھی گراں گزرتی۔ وہ سوچتی یہ کیسا آدمی ہے وہ رات کو سوتی تو اپنا کمرہ بند کر کے قمیص اتار دیتی تھی اس لیے کہ اس کی نیند پر یہ ایک بوجھ سا ہوتا تھا۔ مگر جمال تو اُس کی قمیص کے مقابلے میں کہیں زیادہ بوجھل تھا۔ وہ اُسے کبھی برداشت نہ کرسکتی لیکن اُس کو اس بات کا مل احساس تھا کہ وہ اس سے والہانہ محبت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زینت نے جمال کو کئی موقع دیے کہ وہ اس سے ہمکلام ہوسکے وہ اس سے جب پہلی بار ملا تو کانپ رہا تھا۔ کانپتے کانپتے اور ڈرتے ڈرتے اُس نے ایک ناول بغیر عنوان کے اپنی جیب سے نکالا اور زینت کو پیش کیا اسے پڑھیے میں۔ میں۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور کانپتا لرزتا زینت کے گھر سے نکل گیا۔ زینت کو بڑا ترس آیا۔ لیکن اُس نے سوچا کہ اچھا ہوا۔ اس لیے کہ اُس کے پاس زیادہ وقت تخلیے کے لیے نہیں تھا۔ اس کے ابا ٹھیک ساڑھے سات بجے آنے والے تھے اور جمال سوا سات بجے چل دیا تھا۔ اس کے بعد جمال نے ملاقات کی درخواست کی تو زینت نے اسے کہلا بھیجا کہ وہ اس سے پلازہ میں شام کا پہلا شو شروع ہونے سے دس منٹ پہلے مل سکے گی۔ زینت وہاں پندرہ منٹ پہلے پہنچی جو سہیلی اُس کے ساتھ تھی اُس کو کسی بہانے اِدھر اُدھر کر دیا دس منٹ اس نے باہر گیٹ کے پاس جمال کا انتظار کیا جب وہ نہ آیا تو کسی تکدر کے بغیر وہاں سے ہٹی اور اپنی سہیلی کو تلاش کر کے اندر سینما میں چلی گئی۔ جمال اُس وقت پہنچا جب وہ فرسٹ کلاس میں داخل ہو رہی تھی زینت نے اُسے دیکھا اس کے ملتجی چہرے اور اس کی معافی کی خواستگار آنکھوں کو مگر اُس نے اُس کو گیٹ کیپر کی بھی حیثیت نہ دی اور اندر داخل ہو گئی شو چونکہ شروع ہو چکا تھا اس لیے اس نے اتنی نوازش کی کہ جمال کی طرف دیکھ کر گیٹ کیپر سے کہا

’’معاف کیجیے گا ہم لیٹ ہو گئے‘‘

جمال شو ختم ہونے تک باہر کھڑا رہا جب لوگوں کا ہجوم سینما کی بلڈنگ سے نکلا تو اس نے زینت کو دیکھا آگے بڑھ کے اس سے بات کرنا چاہی مگر اُس نے اُس کے ساتھ بالکل اجنبیوں سا سلوک کیا چنانچہ اُسے مایوس گھر لوٹنا پڑا۔ اُس کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ بال بنوانے اور نہا دھو کر کپڑے پہننے میں اسے دیر ہو گئی تھی۔ اُس نے رات کو بڑی سوچ بچار کے بعد ایک خط لکھا جو معذرت نامہ تھا۔ وہ زینت کو پہنچا دیا یہ خط پڑھ کر جب وہ مقررہ وقت پر کوٹھے پر آئی تو جمال نے اس کے تیوروں سے محسوس کیا کہ اسے بخش دیا گیا ہے۔ اس کے بعد خط و کتابت کا سلسلہ دیر تک جاری رہا زینت کو جمال سے شکایت رہتی کہ وہ خط بہت لمبے لکھتا ہے جو ضرورت سے زیادہ جذبات سے پُر ہوتے ہیں۔ وہ اختصار کی قائل تھی محبت اُس کو بھی جمال سے ہو چکی تھی مگر وہ اُس کے اظہار میں اپنی طبیعت کے موافق برتتی تھی آخر ایک دن ایسا آیا کہ زینت شادی پر آمادہ ہو گئی مگر ادھر دونوں کے والدین رضا مند نہیں ہوتے تھے بہر حال بڑی مشکلوں کے بعد یہ مرحلہ طے ہوا اور جمال کے گھر زینت دلہن بن کے پہنچ گئی حجلہ ءِ عروسی سجا ہوا تھا ہر طرف پھول ہی پھول تھے جمال کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا عشق و محبت کا اُس نے چنانچہ عجیب و غریب حرکتیں کیں زینت کو سر سے پاؤں تک اپنے ہونٹوں کی سجدہ گاہ بنا ڈالا۔ زینت کو جذبات کا یہ بے پناہ بہاؤ پسند نہ آیا وہ اکتا گئی ٹھیک دس بجے سو جانے کی عادی تھی اُس نے جمال کے تمام جذبات ایک طرف جھٹک دئیے اور سو گئی۔ جمال نے ساری رات جاگ کر کاٹی زینت حسبِ معمول صبح ٹھیک چھ بجے اٹھی اور غسلخانے میں چلی گئی باہر نکلی تو اپنے ٹخنوں تک لمبے بالوں کا بڑی چابک دستی سے جوڑا بنانے میں مصروف ہو گئی اس دوران میں وہ صرف ایک مرتبہ جمال سے مخاطب ہوئی۔

’’ڈارلنگ مجھے بڑا افسوس ہے۔ ‘‘

جمال اس ننھے سے جملے سے ہی خوش ہو گیا جیسے کسی بچے کو کھلونا مل گیا ہو۔ اُس نے دل ہی دل میں اس فضا ہی کو چومنا شروع کر دیا جس میں زینت سانس لے رہی تھی وہ اُس سے والہانہ طور پر محبت کرتا۔ اس قدر شدید انداز میں کہ زینت کی مقدار پسند طبیعت برداشت نہیں کرتی تھی وہ چاہتی تھی کہ ایک طریقہ بن جائے جس کے مطابق محبت کی جائے۔ ایک دن اس نے جمال سے کہا۔ آپ مجھ سے یقیناًناراض ہو جاتے ہوں گے کہ میری طرف سے محبت کا جواب تار کے سے اختصار سے ملتا ہے لیکن میں مجبور ہوں میری طبیعت ہی کچھ ایسی ہے آپ کی محبت کی میں قدر کرتی ہوں۔ لیکن پیار مصیبت نہیں بن جانا چاہیے آپ کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ جمال نے بہت خیال رکھا۔ ناپ تول کر بیوی سے محبت کی مگر ناکام رہا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں میں ناچاقی ہو گئی۔ زینت نے بہت سوچا کہ طلاق ہی بہتر صورت ہے جو بد مزگی دُور کرسکتی ہے چنانچہ جمال سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد اُس نے طلاق کے لیے جمال کو کہلوا بھیجا اس نے جواب دیا کہ مر جائے گا مگر طلاق نہیں دے گا۔ وہ اپنی محبت کا گلا ایسے بے رحم طریقے سے گھونٹنا نہیں چاہتا۔ زینت کے لیے جمال کی یہ محبت بہت بڑی مصیبت بن گئی تھی اُس نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت میں پہلے روز جب فریقین حاضر ہوئے تو عجیب تماشا ہوا جمال نے زینت کو دیکھا تو اس کی حالت غیر ہو گئی اُس کے وکیل نے مجسٹریٹ سے درخواست کی سماعت اور کسی تاریخ پر ملتوی کر دی جائے۔ زینت کو بڑی کوفت ہوئی وہ چاہتی تھی کہ جلد کوئی فیصلہ ہو۔ اگلی تاریخ پر جمال حاضر عدالت نہ ہوا۔ کہ وہ بیمار ہے۔ دوسرے مہینے کی تاریخ پر بھی وہ نہ آیا تو زینت نے ایک رقعہ لکھ کر جمال کو بھیجا کہ وہ اُسے پریشان نہ کرے اور جو تاریخ مقرر ہوئی ہے اس پر وہ ٹھیک وقت پر آئے۔ تاریخ سولہ اگست تھی رات سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی زینت حسبِ معمول صبح چھ بجے اٹھی نہا دھو کر کپڑے پہنے اور اپنے وکیل کے ساتھ تانگے میں عدالت پہنچ گئی اُس کو یقین تھا کہ جمال وہاں موجود ہو گا اس لیے کہ اس نے اس کو لکھ بھیجا تھا کہ وقت پر پہنچ جائے۔ مگر جب اُس نے اِدھر اُدھر دنظر دوڑائی اور اسے جمال نظر نہ آیا تو اُس کو بہت غصہ آیا۔ مقدمہ اُس دن سر فہرست تھا۔ مجسٹریٹ نے عدالت میں داخل ہوتے ہی تھوڑی دیر کے بعد جمال اور زینت کو بلایا۔ زینت اندر جانے ہی والی تھی کہ اُس کو جمال کی آواز سنائی دی اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُس کا چہرہ خون میں لِتھڑا ہوا تھا بالوں میں کیچڑ کپڑوں میں خون کے دھبے لڑکھڑاتا ہوا وہ اس کے پاس آیا اور معذرت بھرے لہجے میں کہا۔ زینت مجھے افسوس ہے۔ میری موٹر سائیکل پھسل گئی اور میں۔ ‘‘

جمال کے ماتھے پر گہرا زخم تھا جس سے خون نکل رہا تھا۔ زینت نے اپنا دوپٹہ پھاڑا اور پٹی بنا کر اس پر باندھ دی اور جمال نے جذبات سے مغلوب ہو کر وہیں عدالت کے باہر اس کا منہ چوم لیا۔ اُس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ بلکہ وکیل سے کہا کہ وہ طلاق لینا نہیں چاہتی مقدمہ واپس لے لیا جائے۔ ‘‘

جمال دس دن ہسپتال میں رہا۔ اس دوران میں زینت اس کی بڑی محبت سے تیمار داری کرتی رہی آخری دن جب جمال مشین پر اپنا وزن دیکھ رہا تھا تو اس نے زینت سے دبی زُبان سے پوچھا۔ میں اب تم سے کتنی محبت کرسکتا ہوں‘‘

’’زینت مسکرائی۔ ایک من۔ ‘‘

جمال نے وزن کرنے والی مشین کی سوئی دیکھی اور زینت سے کہا۔

’’مگر میرا وزن تو ایک من تیس سیر ہے۔ میں یہ فالتو تیس سیر کہاں غائب کروں‘‘

زینت ہنسنے لگی۔

سعادت حسن منٹو

رامیشگر

میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا آیا پرویز مجھے پسند ہے یا نہیں۔ کچھ دنوں سے میں اس کے ایک ناول کا بہت چرچا سُن رہا تھا۔ بوڑھے آدمی، جن کی زندگی کا مقصد دعوتوں میں شرکت کرنا ہے اس کی بہت تعریف کرتے تھے اور بعض عورتیں جو اپنے شوہروں سے بگڑ چکی تھیں اس بات کی قائل تھیں کہ وہ ناول مصنف کی آئندہ شاندار ادبی زندگی کا پیش خیمہ ہے۔ میں نے چند ریویو پڑھے۔ جو قطعاً متضاد تھے۔ بعض ناقدوں کا خیال تھا کہ مصنف ایسا معیاری ناول لکھ کر بہتر ناول نگاروں کی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ میں نے جان بوجھ کر یہ ناول نہ پڑھا۔ کیونکہ میرے ذہن میں یہ خیال سما گیا ہے کہ کسی ایسی کتاب کو جو ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دے ایک سال ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ میعاد گزر جانے پر آپ اسے عموماً نظر انداز کر دیں گے۔ میری پرویز سے ایک دعوت میں ملاقات ہوئی۔ میری میزبان دو ادھیڑ عمرکی عورتیں تھیں۔ دعوت میں ایک جوان لڑکی بھی شریک تھی، جو غالباً میزبان کی چھوٹی بہن تھی۔ اس کا نام عفت تھا۔ وہ خاصی تندرست اور قد آور تھی وہ ذرا زیادہ توانا اور لمبی ہوتی تو اور بھی بھلی معلوم ہوتی۔ پرویز بھی میرے پاس بیٹھا تھا۔ عمر یہی کوئی بائیس تیئس سال درمیانہ قد جسم کی بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ وہ ناٹامعلوم ہوتا۔ اس کی جلد سُرخ تھی جو اس کے چہرے کی ہڈیوں پر اکڑی ہوئی سی دکھائی دیتی تھی۔ ناک لمبی، آنکھیں نیلگوں اور سر کے بال بھورے رنگ کے۔ وہ بھورے رنگ کی جیکٹ اور گرے پتلون پہنے تھا۔ اُس کے لب و لہجے اور حرکات میں کوئی دلکشی نہ تھی اُسے صرف اپنی زُبان سے اپنی تعریف کرنے کی عادت تھی۔ اُسے اپنے ہمعصروں سے سخت نفرت تھی۔ اُس کی فطرت میں مزاح کی کمی نہ تھی۔ لیکن میں اُس سے پوری طرح محفوظ نہ ہوسکا۔ کیونکہ وہ تینوں عورتیں اُس کی ہر ایک بات پر یونہی لوٹ پوٹ ہو جاتیں۔ میں نہیں کہہ سکتا وہ ذہین تھا یا نہیں۔ اچھا ناول لکھ لینا کوئی ذہانت کی نشانی نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ وہ ظاہری طور پر عام انسانوں سے ذرا مختلف دکھائی دیتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے دو تین دن بعد اس کا ناول میرے ہاتھ لگا۔ میں نے اُسے پڑھا اُس میں آپ بیتی کا رنگ نمایاں تھا کرداروں کا تعلق درمیانے طبقہ کے ان لوگوں سے تھا جو تھوڑی آمدن ہونے پر بھی شاندار طریقے سے رہنے سہنے کی کوشش کرتے ہیں مزاح کا معیار بہت عامیانہ تھا۔ کیونکہ اس میں ان لوگوں کا صرف اس لیے منہ چڑایا گیا تھا کہ وہ غریب اور بوڑھے ہیں۔ پرویز کو اس بات کا قطعاً کوئی احساس نہ تھا کہ ان لوگوں کے مسائل کس درجہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ اس ناول کی مقبولیت کا سبب محبت کا وہ افسانہ ہے جو اُس کے پلاٹ کی جان ہے۔ انداز بیان میں کوئی ایسی پختگی نہ تھی۔ لیکن اُس کے مطالعے سے پڑھنے والے کے ذہن میں جنسیت کے شدید احساس کا پیدا ہو جانا یقینی تھا۔ میں نے پرویز کو کتاب کے بارے میں اپنی رائے لکھی اور ساتھ ہی لنچ پر بھی مدعو کیا۔ وہ بہت شرمیلا تھا۔ میں نے اُسے بیئر کا گلاس پیش کیا۔ اُس کی گفتگو سے مجھے احساس ہوا کہ اُس کے اندر ایک حجاب سا پیدا ہو گیا ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہا تھا مجھے وہ آداب سے عاری نظر آیا۔ وہ فضول سی باتیں کہہ کر اپنی الجھن کو مٹانے کے لیے قہقہہ لگاتا۔ اس کا مقصد اپنے ہمعصروں کے خیالات کی شدید مخالفت کرنا تھا۔ وہ قابل نفرت انسان تھا۔ ایسے انسان دنیا سے کچھ لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اُنھیں اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کے ہاتھ پھیلے نظر نہیں آتے۔ وہ شہرت حاصل کرنے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں۔ پرویز اپنے ناول کے متعلق خاموش تھا۔ پر جب میں نے اُس کی تعریف کی تو مارے شرم کے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اُسے اس کی اشاعت سے تھوڑے پیسے نصیب ہوئے تھے اور اب پبلشر اُسے آئندہ ناول لکھنے کے لیے کچھ رقم ماہانہ دے رہے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی ایسے پُرسکون مقام پر پہنچ کر اسے مکمل کرے جہاں زندگی کی ضروریات سستی میسر ہوسکیں۔ میں نے اُسے اپنے پاس چند دن بسر کرنے کی دعوت دی۔ اس دعوت نے اُس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا کر دی۔

’’میری موجودگی سے آپ کو تکلیف تو نہ ہو گی‘‘

’’قطعاً نہیں۔ میں تمہارے لیے خوراک اور ایک کمرے کا بندوبست کر دُوں گا۔

’’شکریہ۔ میں آپ کو اپنے ارادے سے جلد مطلع کر دُوں گا۔ ‘‘

یہ سچ ہے کہ اس وقت میں نے اسے دعوت دے دی۔ لیکن چار ہفتے گزرنے پر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ فضول انسان ہے اور اُسے اپنے پاس بلانا ٹھیک نہیں وہ یقیناًمیری خاموش زندگی میں مخل ہو گا۔ اُس نے اپنے خط میں جو مجھے اُس نے چار ہفتوں کے بعد لکھا تھا اس میں مایوس دورِ زندگی کا ذکر کیا تھا اور اُسی کے زیرِ اثر میں نے اُسے تار دے کر بُلا لیا۔ وہ آیا اور بہت مسرور ہوا۔ شام کو ڈنر سے فارغ ہو کر باغ میں بیٹھے۔ اس نے اپنے ناول کا ذکر چھیڑا اس کا پلاٹ ایک نوجوان مصنف اور ایک مغنیہ کارومان تھا۔ وہی پرانا تخیل۔ یہ ٹھیک ہے کہ پرویز کا ارادہ اس افسانے کو ایک نئے انداز سے لکھنے کا تھا اس نے اس کے متعلق بہت کچھ کہا اُسے ہرگز احساس نہ تھا کہ وہ اپنے ہی خوابوں کو افسانہ کی صورت دینا چاہتا تھا۔ ایک ایسے خیالی نوجوان کے خواب جو یونہی اپنے ذہن میں اپنی ذات سے محبت کرنے والی ایک حد درجہ حسین اور نازک محبوبہ کے تخیل کو پالتا ہے۔ مجھے یہ نا پسند نہ تھا کہ وہ اپنی قوتِ بیان سے خون کو گرما کر شاعرانہ رنگ دے رہا ہے۔ میں نے اُس سے پوچھا۔ کیا تم نے کبھی کسی مغنیہ کو دیکھا‘‘

’’نہیں میں نے بہت سی آپ بیتیاں ضروری پڑھی ہیں۔ اور اُس کے ایک ایک نقطہ اور مختلف واقعات کوجانچنے کی کوشش کی ہے‘‘

’’اس سے کیا تمہارا مقصد پورا ہو گیا؟‘‘

’’غالباً‘‘

اُس نے اپنی خیالی مغنیہ کو میرے سامنے پیش کیا۔ وہ جوان تھی حسین تھی مگر بڑی کائیاں۔ موسیقی اُس کی جان تھی۔ اُس کی آواز اور اُس کے خیالات موسیقی سے لبریز تھے وہ آرٹ کی مداح تھی۔ اور اگر کوئی گانے والی اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتی وہ اس کے گیت سن کر اُس کی خطا کو معاف کر دیتی بہت فیاض تھی۔ اور کسی کی دُکھ بھری داستان سُن کر اپنا سب کچھ قربان کر دیتی۔ وہ گہری محبت کرنے والی تھی اور اپنے محبوب کی خاطر اگر ساری دُنیا سے ٹھن جائے تو اُسے پروانہ تھی۔

’’کیوں نہ تمہاری مغنیہ سے ملاقات کرادی جائے؟‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’تم الماس کو جانتے ہو کیا‘‘

’’بے شک۔ میں نے اُس کا ذکر اکثر سُنا ہے۔ ‘‘

’’یہیں پاس ہی اُس کا مکان ہے۔ میں اُسے کھانے پر بُلاؤں گا۔ ‘‘

’’سچ؟‘‘

’’اگر وہ تمہارے معیار پر پوری نہ اُترے تو مجھے الزام نہ دینا۔ ‘‘

’’میں واقعی اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

الماس کس سے چھپی تھی۔ وہ فلموں کے لیے گانا ترک کر چکی تھی۔ لیکن اب بھی اُس کی آواز میں وہی لوچ تھی اور وہی ترنم۔ اُس سے میری ملاقات چند سال پہلے ہوئی۔ جو شیلے مزاج کی عورت تھی۔ اور گانے کے علاوہ اپنے محبت کے رومانوں کے سبب مشہور تھی۔ اکثر مجھے اپنی محبت کے انوکھے افسانے سُناتی اور مجھے یقین ہے کہ وہ سچائی سے خالی نہ تھے۔ اُس نے تین چار دفعہ اپنی شادی رچائی۔ کیونکہ ہر بار چند ہی ماہ بعد یہ رشتہ ٹُوٹ جاتا تھا۔ وہ لکھنؤ کی رہنے والی تھی بہت شستہ اُردو بولتی تھی۔ وہ مجرد آرٹ کی مداح تھی۔ لیکن اُسے ایک فریب سے تعبیر کرتی۔ اس لیے کہ یہ اُس کی آنکھوں میں بہت گھلتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس مغنیہ سے پرویز کی ملاقات میرے لیے تفریح کا باعث ہو گی۔ اُسے میرے ہاں کا کھانا پسند تھا۔ سبز رنگ کا نیم عریاں لباس پہنے آئی۔ گلے میں موتیوں کی مالا اُنگلیوں میں جگمگاتی انگوٹھیاں اور بانھوں میں ہیرے جڑی چوڑیاں تھی۔

’’تم کتنی بھلی معلوم دیتی ہو۔ بہت بن ٹھن کے آئی ہو‘‘

الماس نے کہا

’’ضیافت ہی تو ہے۔ تم نے کہا تھا کہ تمہارا دوست ایک ذہین مصنف ہے اور حسن پرست ہے۔ ‘‘

میں نے اُسے شیری کا ایک چھوٹا گلاس پیش کیا۔ میں اُسے لمی کے نام سے پُکارتا اور وہ مجھے ماسٹر کہہ کر مخاطب کرتی۔ وہ پینتیس سال کی معلوم ہوتی تھی۔ اُس کے چہرے کے خطوط سے اُس کی صحیح عمر کا اندازہ مشکل تھاوہ کبھی اسٹیج پر بہت حسین دکھائی دیتی تھی اور اب اپنی لمبی ناک اور گوشت بھرے چہرے کے باوصف خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ ‘‘

وہ بے وقوف تھی۔ البتہ اُسے ایک خاص رنگ میں باتیں کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ جس سے لوگ پہلی ملاقات میں بہت متاثر ہوتے۔ یہ محض ایک تماشہ تھا۔ کیونکہ در اصل اُسے اس قسم کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ڈرائنگ روم میں ہم کھانا کھا رہے تھے۔ نیچے باغ میں سنگترے کے پودوں سے بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ وہ ہمارے درمیان بیٹھی شیری کی تعریف کررہی تھی۔ بار بار اُس کی نگاہیں چاند کی طرف اُٹھتیں۔

’’اللہ رے قدرت کی رنگینی اس وقت گانا کسے سوجھ سکتا ہے۔ ‘‘

پرویز نے خاموشی سے اُس کے الفاظ سُنے۔ شیری کے دو گلاس نے اس پر نشہ طاری کر دیا تھا۔ بڑی باتونی تھی۔ اس کی باتوں سے ظاہر تھا کہ وہ ایک ایسی عورت ہے جس سے دنیا نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ اُس کی زندگی حوادث کے خلاف ایک مسلسل جدو جہدتھی۔ گانے کے جلسوں کے منیجر اُس سے فریب کرتے رہے۔ مختلف گویوں نے اُسے برباد کرنے کی کوشش کی۔ اُس کے وہ محبوب جن کی خاطر اُس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اُسے ٹھکرا کر چل دئیے۔ یہ سب کچھ ہوا لیکن اپنی چالاکی اور ذہانت سے اُس نے سب کے منصوبے خاک میں مِلائے۔ میں حیران ہوں وہ کس طرح مجھے اپنے متعلق اپنی زبان سے یہ ہتک آمیز باتیں سناتی رہی۔ اسے ہرگز احساس نہ تھا کہ وہ خود اپنے عیار اور خود غرض ہونے کا اعتراف کر رہی ہے۔ میں نے نظریں چرا کر پرویز کی طرف دیکھا۔ وہ یقیناً اس کا اپنی خیالی مغنیہ سے مقابلہ کر کے دل ہی دل میں کوئی فیصلہ کر چکا تھا۔ اس عورت کا سینہ دل سے خالی تھا۔ جب وہ رخصت ہوئی تو میں نے پرویز سے کہا۔

’’کہو پسند آئی؟‘‘

’’بہت۔ بڑے کام کی چیز ہے۔ ‘‘

’’سچ؟‘‘

’’میری مغنیہ ایسی ہی ہے۔ اسے کیا خبر کہ اس ملاقات سے پہلے میں اس کا ذہنی نقش تیار کر چکا ہوں‘‘

میں نے حیران نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’آرٹ کی پرستار ہے۔ اُس کی رُوح میں کتنی پاکیزگی ہے۔ تنگ نظر انسان اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ارادوں کی بلندی بالآخر اسے کامیاب بنا دیتی ہے۔ یقین جانو میری مغنیہ کی الماس زندہ تصویر ہے۔ ‘‘

میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ لیکن لب تک آئی بات وہیں رُک گئی۔ پرویز نے اُس عورت میں اپنی خیالی مغنیہ کو اصل شکل میں دیکھ لیا تھا۔ دو تین دن کے بعد وہ رخصت ہو گیا۔ دن گزرتے گئے۔ پرویز کا دوسرا ناول شائع ہوا تو اسے وہ پہلی سی کامیابی نصیب نہ ہوسکی۔ نقاد جنھوں نے اُس کے پہلے ناول کی بے جا تعریف کی تھی اب اسے یونہی کوسنے لگے۔ اپنی ذات یا ایسے انسانوں کے متعلق جنھیں ہم بچپن سے جانتے ہیں ناول لکھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن اپنے تخلیق کیے ہوئے کرداروں کو ناول میں جگہ دینا بڑا کام ہے۔ اُس کے ناول میں کافی رطب و یا بس تھا۔ لیکن اُس کا رومان سے بھرا ہوا پلاٹ شدید جذبات کا مظہر تھا۔ اس دعوت کے بعد۔ ایک سال تک الماس سے ملنا نہ ہوسکا۔ وہ کلکتے میں رقص و سُرور کے دورے پر چلی گئی اور گرمیوں کے آخر میں لوٹی ایک دفعہ اس نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ وہاں اس کی باورچن کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر اُس پر برس پڑتی۔ لیکن اُس کے بغیر اُس کا گزارہ بھی نہ تھا۔ وہ ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ سر کے بال سفید ہو چکے تھے اور چہرے کی جھریوں نے بڑھاپے کو اور بھی نمایاں کر دیا تھا۔ وہ انوکھی وضع کی عورت تھی اور اپنی مالکن کی رگ رگ سے واقف تھی۔ الماس نیلے لباس میں بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ گلے میں مالا اور ہاتھوں میں چوڑیاں۔ جھول جھول کر اپنے سفر کے حالات سُنا رہی تھی۔ اس کی زبان میں لوچ تھی اور باتوں سے ظاہر تھا کہ اُسے اس دورے میں کافی رقم ہاتھ لگی ہے۔ اُس نے اپنی نوکرانی سے کہا۔

’’میری باتیں سچی ہیں نا؟‘‘

’’ایک حد تک۔ ‘‘

’’کلکتے میں جس شخص سے ملاقات ہوئی تھی اُس کا کیا نام تھا؟‘‘

’’کونسا شخص؟‘‘

’’بے وقوف۔ جس سے میری ایک بار شادی ہوئی تھی‘‘

نوکرانی نے منہ بنا کر جواب دیا۔

’’وہ سیٹھ جوہری‘‘

’’ہاں وہی کوئی قلاش تھا۔ احمق انسان مجھے ہیروں کی مالا دے کر واپس لینا چاہتا تھا۔ صرف اس لیے کہ وہ اُس کی ماں کی ملکیت تھی۔ ‘‘

’’بہتر ہوتا اگر تم سچ مچ لوٹا دیتیں۔ ‘‘

’’لوٹا دیتی! تم کیا پاگل ہو گئی ہو!‘‘

پھر اُس نے مجھ سے کہا

’’آؤ باہر چلیں۔ اگر میرے اندر کا جذبہ نرم نہ ہوتا تو میں اس بڑھیا کو کبھی کا نکال چکی ہوتی‘‘

ہم دونوں باہر نکل کر برآمدے میں بیٹھ گئے۔ باغیچہ میں صنوبر کی شاخیں تاروں بھرے آسمان کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔ ایکا ایکی الماس بول اٹھی

’’تمہارا وہ پگلا دوست اور اُس کا ناول۔ ؟‘‘

میں اس کا مفہوم جلدی نہ سمجھ سکا۔

’’کیا کہہ رہی ہو؟‘‘

’’پگلے نہ بنو۔ وہی حونق جس نے میرے متعلق ناول لکھا تھا‘‘

’’لیکن ناول سے تمہارا کیا تعلق؟‘‘

’’کیوں نہیں میں کوئی پگلی تھوڑی ہوں اُس نے مجھے ایک نسخہ بھیجنے کی بھی حماقت کی تھی۔ ‘‘

’’لیکن تم نے اسے شرفِ قبولیت بخشا ہو گا۔ ‘‘

’’مجھے کیا اتنی فرصت ہے کہ ٹکے ٹکے کے مصنفوں کو خط لکھتی پھروں۔ تمھیں کوئی حق نہ تھا کہ دعوت پر پُلا کر اُس سے میرا تعارف کراتے۔ میں نے صرف تمہاری خاطر دعوت قبول کی تھی۔ لیکن تم نے ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ افسوس کہ اب پرانے دوستوں پر بھی اعتبار کرنا محال ہو گیا ہے۔ میں آئندہ تمہارے ساتھ کبھی کھانا نہ کھاؤں گی۔

’’یہ تم کیا چھیڑ بیٹھی ہو۔ اس ناول میں گانے والی کے کردار کا خاکہ وہ تمہاری ملاقات سے پہلے تیار کر چکا تھا اور بھلا تمہاری اس سے مشابہت ہی کیا ہے!‘‘

’’کیوں نہیں میرے دوستوں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ میری ہی تصویر ہے‘‘

’’پر تم کو اُس کا یقین کیوں ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ میں نے ایک دوست کو یہ کہتے سُنا کہ یہ میری ہی کہانی ہے‘‘

’’لیکن ناول کی ہیروئین کی عمر تو صرف پچیس سال ہے‘‘

’’مجھ ایسی عورت کے لیے عمر کوئی چیز نہیں‘‘

’’وہ سراپا موسیقی ہے۔ فاختہ کی طرح خاموش اور بے غرض۔ کیا تمہاری بھی اپنے متعلق یہی رائے ہے؟‘‘

’’اور تمہاری میرے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘

’’ناخن کی طرح سخت۔ سنگدل۔ ‘‘

اُس نے مجھے ایک ایسے نام سے پکارا جسے عورتیں کسی شریف مرد کو مخاطب کرتے وقت بہت کم استعمال کرتی ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں چمک تھی لیکن یہ ظاہر تھا کہ وہ ناراض نہیں۔

’’ہیرے کی انگوٹھی کی کہو۔ کیا میں نے اُسے یہ قصّہ سُنایا؟‘‘

قصّہ یہ ہے کہ ایک بڑی ریاست کے شہزادے نے تحفے کے طور پر ایک ہیرا الماس کی نذر کیا۔ ایک شب دونوں میں تکرار ہو گئی اور گالی گلوچ تک نوبت پہنچی۔ اُس نے وہ انگوٹھی اُتار آگ میں پھینک دی۔ شہزادہ چھوٹے دل کا تھا۔ گھٹنوں کے بل ہو کر آگ میں انگوٹھی تلاش کرنے لگا۔ الماس بڑی نفرت آمیز نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھتی رہی۔ شہزادے کو انگوٹھی مل گئی لیکن وہ الماس سے چھن گئی۔ اس کے بعد وہ اس سے محبت نہ کر سکی۔ یہ واقعہ رنگین تھا۔ اور پرویز نے اس کا بڑے دلکش انداز میں ذکر کیا تھا۔

’’میں نے تمھیں اپنا سمجھ کر یہ واقعہ سُنایا تھا۔ بھلا یہ کہاں کی شرافت ہے کہ اسے لوگوں کے پڑھنے کے لیے بیان کر دیا جائے۔ ‘‘

’’میں تو کئی بار یہی واقعہ دوسروں کی زُبانی سُن چکا ہوں۔ یہ تو بڑی پرانی حکایت ہے۔ ‘‘

ایک لمحہ کے لیے اس نے حیران نگاہوں سے میری طرف دیکھا۔

’’کئی بار ایسا ہوا ہے۔ میں غلط نہیں کہہ رہی۔ یہ ظاہر ہے کہ عورتیں غصیلی ہوتی ہیں اور مرد کمینہ فطرت، وہ ہیرا میں اب بھی تمھیں دکھا سکتی ہوں۔ اس واقعہ کے بعد مجھے اُسے دوبارہ چرانا پڑا۔ میں تمھیں اب اورواقعہ سُناتی ہوں۔ بڑا دلچسپ ہے لیکن دیکھو کسی کو سنانہ دینا۔ ‘‘

میں نے کہا

’’سُناؤ ضرور سُناؤ۔ تمہاری زندگی کا ہر واقعہ دلچسپ ہوتا ہے‘‘

’’میں نے تمھیں کبھی موتیوں والا قصّہ نہیں سُنایا؟‘‘

’’میں یہ قصہ اس سے بیشتر سُن چکا ہوں‘‘

موتیوں کا ایک بڑا دولت مند عرب تھا۔ وہ ایک مدت تک الماس پر لٹو رہا۔ ہم جس مکان میں بیٹھے باتیں کررہے تھے اس کا دیا ہوا تھا۔ الماس نے کہنا شروع کیا

’’پون ہل پر بمبئی میں میرے راگ سے متاثر۔ ہو کر ایک عرب نے موتیوں کی مالا میرے گلے میں ڈالی۔ تم تو شاید اُسے نہیں جانتے!‘‘

’’نہیں‘‘

’’وہ کوئی اتنا بڑا نہ تھا۔ لیکن بڑا حاسد۔ ایک برطانوی افسر کی بات پر اُس سے ٹھن گئی۔ میں دنیا میں ایک ایسی عورت ہوں کہ ہر کسی کی رسائی ممکن ہے لیکن اپنی عزت کا کسے خیال نہیں۔ میں نے غصے میں وہ موتیوں کی مالا اُتار کر دہکتی ہوئی انگیٹھی میں پھینک دی۔ وہ چیخ اُٹھا کہ یہ تو پچاس ہزار روپوں کی چیز ہے۔ اُس کا رنگ زرد ہو گیا۔ میں نے ذرا تُنک کر کہا

’’صرف تمہاری محبت کی وجہ سے مجھے یہ مالا عزیزتھی‘‘

اور منہ پھیر لیا۔ ‘‘

’’تم نے کتنی حماقت کی‘‘

میں نے کہا۔

’’چوبیس گھنٹے تک میں نے اُس سے کلام نہ کیا۔ اور جب ہم شملے پہنچے تو اُس نے فوراً ہی نئی موتیوں کی مالا خرید دی۔ ‘‘

وہ زیر لب مسکرانے لگی

’’تم نے کیا کہا تھا کہ میں بیوقوف ہوں؟۔ میں نے سچے موتیوں کی مالا تو وہیں بنک میں رکھ دی تھی اور ایک نقلی خرید کر لی۔ جسے میں نے انگیٹھی میں پھینک دیا۔ ‘‘

وہ بچے کی طرح فرطِ مسرت سے ہنسنے لگی۔ یہ بھی اُس کا ایک فریب تھا۔

’’مرد کتنے پگلے ہوتے ہیں‘‘

اُس نے کہا وہ دیر تک ہنستی رہی۔ اور شاید اس وجہ سے اُس پر ایک مستی سی چھانے لگی۔

’’میں گانا چاہتی ہوں پیانو تو بجاؤ‘‘

الماس دھیمے سروں میں گانے لگی اور جونہی اُسے ہونٹوں سے نکلتی ہوئی آواز کا احساس ہوا وہ بے خود ہو گئی۔ گیت ختم ہوا۔ ماحول۔ پر ایک سکوت چھانے لگا وہ کھڑکی میں کھڑی ہو کر دریا کا نظارہ کرنے لگی۔ رات کا سماں دلفریب تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا میری رانوں پر ایک کپکپی طاری ہو رہی ہے الماس پھر گانے لگی۔ یہ موت کا راگ تھا۔ وہ راگ رنگ کی محفلوں میں اکثر اس کی نمائش کر چکی تھی۔ اُس کی سریلی آواز ساکن ہوا کو چیر کر پہاڑوں میں ارتعاش پیدا کررہی تھی اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھ پر وجد طاری ہو گیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میری زبان گنگ ہو گئی۔ وہ بھی ابھی تک کھڑکی میں کھڑی باہر خلا میں دیکھ رہی تھی۔ کتنی عجیب عورت تھی۔ پرویز نے اُسے خوبیوں کا مجسمہ تصورکیا۔ لیکن مجھے وہ اپنی زندگی کی تمام تر نفرتوں سمیت پیاری تھی۔ لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ مجھے ایسے لوگ کیوں پسند ہیں جو ضرورت سے زیادہ برے ہوتے ہیں۔ وہ قابل نفرت ضرور تھی۔ لیکن اُس کی ذات میں دلکشی اُس سے کہیں سوا تھی۔ سعادت حسن منٹو ۱۲؍اکتوبر۱۹۵۴ء

سعادت حسن منٹو

رام کھلاون

کھٹمل مارنے کے بعد میں ٹرنک میں پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ سعید بھائی جان کی تصویر مل گئی۔ میز پر ایک خالی فریم پڑا تھا۔ میں نے اس تصویر سے اس کو پُر کردیا اور کرسی پر بیٹھ کر دھوبی کا انتظارکرنے لگا۔ ہر اتوار کو مجھے اسی طرح انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہفتے کی شام کو میرے دھلے ہوئے کپڑوں کا اسٹاک ختم ہو جاتا تھا۔ مجھے اسٹاک تو نہیں کہنا چاہیے اس لیے کہ مفلسی کے اس زمانے میں میرے صرف اتنے کپڑے تھے جو بمشکل چھ سات دن تک میری وضعداری قائم رکھ سکتے تھے۔ میری شادی کی بات چیت ہورہی تھی اور اس سلسلے میں پچھلے دو تین اتواروں سے میں ماہم جارہا ہے۔ دھوبی شریف آدمی تھا۔ یعنی دھلائی نہ ملنے کے باوجودہر اتوار کو باقاعدگی کے ساتھ پورے دس بجے میری کپڑے لے آتا تھا، لیکن پھر پھر بھی مجھے کھٹکا تھا کہ ایسا نہ ہو میری نادہندگی سے تنگ آ کر کسی روز میرے کپڑے چور بازار میں فروخت کردے اورمجھے اپنی شادی کی بات چیت میں بغیر کپڑوں کے حصہ لینا پڑے جو کہ ظاہر ہے بہت ہی معیوب بات ہوتی۔ کھولی میں مرے ہوئے کھٹملوں کی نہایت ہی مکروہ بُو پھیلی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے کس طرح دباؤں کہ دھوبی آگیا۔

’’ساب سلام۔ ‘‘

کرکے اس نے اپنی گٹھڑی کھولی اور میرے گنتی کے کپڑے میز پر رکھ دیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی نظر سعید بھائی جان کی تصویر پر پڑی۔ ایک دم چونک کر اس نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کردیا۔ اور ایک عجیب اور غریب آواز حلق سے نکالی۔

’’ہے ہے ہے ہیں؟‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے دھوبی؟‘‘

دھوبی کی نظریں اس تصویر پر جمی رہیں۔

’’یہ تو ساعیدشالیم بالشٹر ہے؟‘‘

’’کون؟‘‘

دھوبی نے میری طرف دیکھا اور بڑے وثوق سے کہا۔

’’ساعیدشالیم بالشٹر۔ ‘‘

’’تم جانتے ہو انھیں؟‘‘

دھوبی نے زور سے سر ہلایا۔

’’ہاں۔ دو بھائی ہوتا۔ ادھر کولابا میں ان کا کوٹھی ہوتا۔ ساعیدشالیم بالشٹر۔ میں ان کا کپڑا دھوتا ہوتا۔ ‘‘

میں نے سوچا یہ دو برس پہلے کی بات ہو گی کیونکہ سعید حسن اور محمد حسن بھائی جان نے فجی آئی لینڈ جانے سے پہلے تقریباً ایک بمبے میں پریکٹس کی تھی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’دو برس پہلے کی بات کرتے ہوتم۔ ‘‘

دھوبی نے زور سے سرہلایا۔

’’ہاں۔ ساعیدشالیم بالشٹر جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی دیا۔ ایک دھوتی دیا۔ ایک کرتہ دیا۔ نیا۔ بہت اچھا لوگ ہوتا۔ ایک کا داڑھی ہوتا۔ یہ بڑا۔ ‘‘

اس نے ہاتھ سے داڑھی کی لمبائی بتائی اور سعید بھائی جان کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے کہا:

’’یہ چھوٹا ہوتا۔ اس کا تین بلوا لوگ ہوتا۔ دو لڑکا، ایک لڑکی۔ ہمارے سنگ بہت کھیلتا ہوتا۔ کولابے میں کوٹھی ہوتا۔ بہت بڑا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’دھوبی یہ میرے بھائی ہیں۔ ‘‘

دھوبی نے حلق سے عجیب و غریب آواز نکالی۔

’’ہے ہے ہے ہیں؟۔ ساعیدشالیم بالشٹر؟ ؟‘‘

میں نے اس کی حیرت دورکرنے کی کوشش کی اور کہا۔

’’یہ تصویر سعید حسن بھائی جان کی ہے۔ داڑھی والے محمد حسن ہیں۔ ہم سب سے بڑے۔ ‘‘

دھوبی نے میری طرف گھور کے دیکھا، پھر میری کھولی کی غلاظت کا جائزہ لیا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی بجلی لائٹ سے محروم۔ ایک میز تھا۔ ایک کرسی اور ایک ٹاٹ کی کوٹ جس میں ہزارہا کھٹمل تھے۔ دھوبی کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں ساعیدشالیم بالشٹر کا بھائی ہوں۔ لیکن جب میں نے اس کو ان کی بہت سی باتیں بتائیں تو اس نے سر کو عجیب طریقے سے جنبش دی اور کہا۔

’’ساعیدشالیم بالشٹر کولابے میں رہتا اور تم اس کھولی میں!‘‘

میں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

’’دنیا کے یہی رنگ ہیں دھوبی۔ کہیں دھوپ کہیں چھاؤں۔ پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ ‘‘

’’ہاں ساب۔ تم بروبر کہتا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر دھوبی نے گٹھڑی اٹھائی اور باہر جانے لگا۔ مجھے اس کے حساب کا خیال آیا۔ جیب میں صرف آٹھ آنے تھے جو شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم تک آنے جانے کے لیے بمشکل کافی تھے۔ صرف یہ بتانے کے لیے میری نیت صاف ہے میں نے اسے ٹھہرایا اور کہا۔

’’دھوبی۔ کپڑوں کا حساب یاد رکھنا۔ خدا معلوم کتنی دھلائیاں ہو چکی ہیں۔ ‘‘

دھوبی نے اپنی دھوتی کا لانگ درست کیا اور کہا۔

’’ساب ہم حساب نہیں رکھتے۔ ساعیدشالیم بالشٹر کا ایک برس کام کیا۔ جو دے دیا، لے لیا۔ ہم حساب جانتے ہی نا ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ وہ چلا گیا اور میں شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ بات چیت کامیاب رہی۔ میری شادی ہو گئی۔ حالات بھی بہتر ہو گئے اور میں سکینڈ پیر خان اسٹریٹ کی کھولی سے جس کا کرایہ نو روپے ماہوار تھا کلیئر روڈ کے ایک فلیٹ میں جس کا کرایہ پینتیس روپے ماہوار تھا، اٹھ آیا اور دھوبی کو ماہ بماہ باقاعدگی سے اس کی دھلائیوں کے دام ملنے لگے۔ دھوبی خوش تھا کہ میرے حالات پہلے کی بہ نسبت بہتر ہیں چنانچہ اس نے میری بیوی سے کہا۔

’’بیگم ساب۔ ساب کا بھائی ساعیدشالیم بالشٹر بہت بڑا آدمی ہوتا۔ ادھر کولابہ میں رہتا ہوتا۔ جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔ تمہارا ساب بھی ایک دن بڑا آدمی بنتا ہوا۔ ‘‘

میں اپنی بیوی کو تصویر والا قصہ سنا چکا تھا اور اس کو یہ بھی بتا چکا تھا کہ مفلسی کے زمانے میں کتنی دریا دلی سے دھوبی نے میرا ساتھ دیا تھا۔ جب دے دیا، جو دے دیا۔ اس نے کبھی شکایت کی ہی نہ تھی۔ لیکن میری بیوی کو تھوڑے عرصے کے بعد ہی اس سے یہ شکایت پیدا ہو گئی کہ وہ حساب نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کہا۔

’’چار برس میرا کام کرتا رہا۔ اس نے کبھی حساب نہیں کیا۔ ‘‘

جواب یہ ملا۔

’’حساب کیوں کرتا۔ ویسے دوگنے چوکنے وصول کرلیتا ہو گا۔ ‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’آپ نہیں جانتے۔ جن کے گھروں میں بیویاں نہیں ہوتیں ان کو ایسے لوگ بے وقوف بنانا جانتے ہیں۔ ‘‘

قریب قریب ہر مہینے دھوبی سے میری بیوی کی چخ چخ ہوتی تھی کہ وہ کپڑوں کا حساب الگ اپنے پاس کیوں نہیں رکھتا۔ وہ بڑی سادگی سے صرف اتنا کہہ دیتا۔

’’بیگم ساب۔ ہم حساب جانت نا ہیں۔ تم جھوٹ نا ہیں بولتے گا۔ ساعیدشالیم بالشٹر جو تمہارے ساب کا بھائی ہوتا۔ ہم ایک برس اس کا کام کیا ہوتا۔ بیگم ساب بولتا دھوبی تمہارا اتنا پیسہ ہوا۔ ہم بولتا، ٹھیک ہے!‘‘

ایک مہینے ڈھائی سو کپڑے دھلائی میں گئے۔ میری بیوی نے آزمانے کے لیے اس سے کہا۔

’’دھوبی اس مہینے ساٹھ کپڑے ہوئے۔ ‘‘

اس نے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ بیگم ساب، تم جھوٹ نا ہیں بولے گا۔ ‘‘

میری بوی نے ساٹھ کپڑوں کے حساب سے جب اس کو دام دیے تو اس نے ماتھے کے ساتھ روپے چھوا کر سلام کیا اور چلا گیا۔ شادی کے دو برس بعد میں دلی چلا گیا۔ ڈیڑھ سال وہاں رہا، پھر واپس بمبئی آگیا اور ماہم میں رہنے لگا۔ تین مہینے کے دوران میں ہم نے چار دھوبی تبدیل کیے کیونکہ بے حد ایمان اور جھگڑالو تھے۔ ہر دھلائی پر جھگڑا کھڑا ہو جاتا تھا۔ کبھی کپڑے کم نکلتے تھے، کبھی دلائی نہایت ذلیل ہوتی تھی۔ ہمیں اپنا پرانی دھوبی یاد آنے لگا۔ ایک روز جب کہ ہم بالکل بغیر دھوبی کے رہ گئے تھے وہ اچانک آگیا اور کہنے لگا۔ ساب کو ہم نے تک دن بس میں دیکھا۔ ہم بولا، ایسا کیسا۔ ساب تو دلی چلا گیا تھا۔ ہم نے ادھر بائی کھلہ میں تپاس کیا۔ چھاپہ والا بولا، اُدھر ماہم میں تپاس کرو۔ باجو والی چالی میں ساب کا دوست ہوتا۔ اس سے پوچھا اور آگیا۔ ‘‘

ہم بہت خوش ہوئے اور ہمارے کپڑوں کے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔ کانگرس برسر اقتدار آئی تو امتناعِ شراب کا حکم نافذ ہو گیا۔ انگریزی شراب ملتی تھی لیکن دیسی شراب کی کشید اور فروخت بالکل بند ہو گئی۔ ننانوے فی صدی دھوبی شراب کے عادی تھے۔ دن بھر پانی میں رہنے کے بعد شام کو پاؤ آدھ پاؤ شراب ان کی زندگی کا جزو بن چکی تھی۔ ہمارا دھوبی بیمار ہو گیا۔ اس بیماری کا علاج اس نے اس زہریلی شراب سے کیا جو ناجائز طور پر کشید کرکے چھپے چوری بکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے معدے میں خطرناک گڑ بڑ پیدا ہو گئی جس نے اس کو موت کے دروازے تک پہنچا دیا۔ میں بے حد مصروف تھا۔ صبح چھ بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات کو دس ساڑھے دس بجے لوٹتا تھا۔ میری بیوی کو جب اس کی خطرناک بیماری کا علم ہوا تو وہ ٹیکسی لے کر اس کے گھر گئی۔ نوکر اور شوفر کی مدد سے اس کو گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر بہت متاثر ہوا چنانچہ اس نے فیس لینے سے انکار کردیا۔ لیکن میری بیوی نے کہا۔

’’ڈاکٹر صاحب؛، آپ سارا ثواب حاصل نہیں کرسکتے۔ ‘‘

ڈاکٹر مسکرایا۔

’’تو آدھا آدھا کرلیجیے۔ ‘‘

ڈاکٹر نے آدھی فیس قبول کرلی۔ دھوبی کا باقاعدہ علاج ہوا۔ معدے کی تکلیف چند انجکشنوں ہی سے دور ہو گئی۔ نقاہت تھی، وہ آہستہ آہستہ مقوی دواؤں کے استعمال سے ختم ہو گئی۔ چند مہینوں کے بعد وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اور اٹھتے بیٹھتے ہمیں دعائیں دیتا تھا۔ بھگوان ساب کو ساعیدشالیم بالشٹر بنائے۔ ادھر کولابے میں ساب رہنے کو جائے۔ باوا لوگ ہیں۔ بہت بہت پیسہ ہو۔ بیگم ساب دھوبی کو لینے آیا۔ موٹر میں۔ ادھر کِلے(قلعے) میں بہت بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس کے پاس میم ہوتا۔ بھگوان بیگم ساب کو خُس رکھے۔ ‘‘

کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی سیاسی انقلاب آئے۔ دھوبی بلاناغہ اتوار کو آتا رہا۔ اس کی صحت اب بہت اچھی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے پر بھی وہ ہمارا سلوک نہیں بھولا تھا۔ ہمیشہ دعائیں دیتا تھا۔ شراب قطعی طور پر چھوٹ چکی تھی۔ شروع میں وہ کبھی کبھی اسے یاد کیا کرتا تھا۔ پر اب نام تک نہ لیتا تھا۔ سارا دن پانی میں رہنے کے بعد تھکن دور کرنے کے لیے اب اسے دارو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تھے۔ بٹوارہ ہوا تو ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ ہندوؤں کے علاقوں میں مسلمان اور مسلمانوں کے علاقوں میں ہندو دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں ہلاک کیے جانے لگے۔ میری بیوی لاہور چلی گئی۔ جب حالات اور زیادہ خراب ہوئے تو میں نے دھوبی سے کہا۔

’’دیکھو دھوبی اب تم کام بند کردو۔ یہ مسلمانوں کا محلّہ ہے، ایسا نہ ہو کوئی تمہیں مار ڈالے۔ ‘‘

دھوبی مسکرایا۔

’’ساب اپن کو کوئی نہیں مارتا۔ ‘‘

ہمارے محلے میں کئی وارداتیں ہوئیں مگر دھوبی برابر آتا رہا۔ ایک اتوار میں گھر میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کھیلوں کے صحفے پر کرکٹ کے میچوں کا اسکور درج تھا اور پہلے صفحات پر فسادات کے شکار ہندوؤں اور مسلمانوں کے اعداد و شمار۔ میں ان دونوں کی خوفناک مماثلت پر غور کررہا تھا کہ دھوبی آگیا۔ کاپی نکال کر میں نے کپڑوں کی پڑتال شروع کردی تو دھوبی نے ہنس ہنس کے باتیں شروع کردیں۔ ساعیدشالیم بالشٹر بہت اچھا آدمی ہوتا۔ یہاں سے جاتا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتہ دیا ہوتا۔ تمہارا بیگم ساب بھی ایک دم اچھا آدمی ہوتا۔ باہر گام گیا ہے نا؟۔ اپنے ملک میں؟۔ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔ موٹر لے کر آیا ہماری کھولی میں۔ ہم کو اتنا جلاب آنا ہوتا۔ ڈاکٹر نے سوئی لگایا۔ ایک دم ٹھیک ہو گیا۔ ادھر کاگج لکھو توہمارا سلام بولو۔ بولو رام کھلاون بولتا ہے، ہم کو بھی کاگج لکھو۔ ‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کر ذرا تیزی سے کہا۔

’’دھوبی۔ دارو شروع کردی؟‘‘

دھوبی ہنسا

’’دارو؟۔ دارو کہاں سے ملتی ہے ساب؟‘‘

میں نے اور کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے میلے کپڑوں کی گٹھڑی بنائی اور سلام کرکے چلا گیا۔ چند دنوں میں حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے۔ لاہور سے تار پر تار آنے لگے کہ سب کچھ چھوڑو اور جلدی چلے آؤ۔ میں نے ہفتے کے روز ارادہ کرلیا کہ اتوار کو چل دوں گا۔ لیکن مجھے صبح سویرے نکل جانا تھا۔ کپڑے دھوبی کے پاس تھے۔ میں نے سوچا کرفیو سے پہلے پہلے اس کے ہاں جا کر لے آؤں، چنانچہ شام کو وکٹوریہ لے کر مہاکشمی روانہ ہو گیا۔ کرفیو کے وقت میں بھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اس لیے آمدورفت جاری تھیں۔ ٹریمیں چل رہی تھیں۔ میری وکٹوریہ پل کے پاس پہنچی تو ایک دم شور برپا ہوا۔ لوگ اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے سانڈوں کی لڑائی ہورہی یہ۔ ہجوم چھدرا ہوا تو دیکھا، دو بھینسوں کے پاس بہت سے دھوبی لاٹھیاں ہاتھ میں لیے ناچ رہے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے ہیں۔ مجھے ادھر ہی جانا تھا مگر وکٹوریہ والے نے انکارکردیا۔ میں نے اس کو کرایہ ادا کیا اور پیدل چل پڑا۔ جب دھوبیوں کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک دھوبی سے پوچھا۔

’’رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

ایک دھوبی جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی جھومتا ہوا اس دھوبی کے پاس آیا جس سے میں نے سوال کیا۔

’’کیا پوچھت ہے؟‘‘

’’پوچھت ہے رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

شراب سے دھت دھوبی نے قریب قریب میرے اوپر چڑھ کر پوچھا۔

’’تم کون ہے؟‘‘

’’میں؟۔ ر ام کھلاون میرا دھوبی ہے۔ ‘‘

’’رام کھلاون تہار دھوبی ہے۔ تو کس دھوبی کا بچہ ہے۔ ‘‘

ایک چلایا۔

’’ہندو دھوبی یا مسلمین دھوبی کا۔ ‘‘

تمام دھوبی جو شراب کے نشے میں چور تھے مکے تانتے اور لاٹھیاں گھماتے میرے اردگرد جمع ہو گئے۔ مجھے ان کے صرف ایک سوال کا جواب دینا تھا۔ مسلمان ہوں یا ہندو؟۔ میں بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ میں ان میں گھرا ہوا تھا۔ نزدیک کوئی پولیس والا بھی نہیں تھا۔ جس کو مدد کیلیے پکارتا۔ اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو بے جوڑ الفاظ میں ان سے گفتگو شروع کردی۔ رام کھلاون ہندو ہے۔ ہم پوچھتا ہے وہ کدھر رہتا ہے۔ اس کی کھولی کہاں ہے۔ دس برس سے وہ ہمارا دھوبی ہے۔ بہت بیمار تھا۔ ہم نے اس کا علاج کرایا تھا۔ ہماری بیگم۔ ہماری میم صاحب یہاں موٹر لے کر آئی تھی۔ یہاں تک میں نے کہا کہ تو مجھے اپنے اوپر بہت ترس آیا۔ دل ہی دل میں بہت خفیف ہوا کہ انسان اپنی جان بچانے کے لیے کتنی نیچی سطح پر اتر آتا ہے اس احساس نے جرأت پیدا کردی چنانچہ میں نے ان سے کہا

’’میں مسلمین ہوں۔ ‘‘

’’مار ڈالو۔ مار ڈالو‘‘

کا شوربلند ہوا۔ دھوبی جو کہ شراب کے نشے میں دھت تھا ایک طرف دیکھ کرچلایا۔

’’ٹھہرو۔ اسے رام کھلاون مارے گا۔ ‘‘

میں نے پلٹ کردیکھا۔ رام کھلاون موٹا ڈنڈا ہاتھ میں لیے لڑکھڑا رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسلمانوں کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیں۔ ڈنڈا سر تک اٹھا کر گالیاں دیتا ہوا وہ میری طرف بڑھا۔ میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔

’’رام کھلاون۔ ‘‘

رام کھلاون دہاڑا۔

’’چپ کر بے رام کھلاون کے۔ ‘‘

میری آخری امید بھی ڈوب گئی۔ جب وہ میرے قریب آپہنچا تو میں نے خشک گلے سے ہولے سے کہا۔

’’مجھے پہچانتے نہیں رام کھلاون؟‘‘

رام کھلاون نے وار کرنے کے لیے ڈنڈا اٹھایا۔ ایک دم اس کی آنکھیں سکڑیں، پھر پھیلیں، پھر سکڑیں۔ ڈنڈا ہاتھ سے گرا کر اس نے قریب آکر مجھے غور سے دیکھا اور پکارا۔

’’ساب!‘‘

پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا

’’یہ مسلمین نہیں۔ ساب ہے۔ بیگم ساب کا ساب۔ وہ موٹر لے کر آیا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ نے میرا جلاب ٹھیک کیا تھا۔ ‘‘

رام کھلاون نے اپنے ساتھیوں کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے۔ سب شرابی تھے۔ تُوتُو میں میں شرع ہو گئی۔ کچھ دھوبی رام کھلاون کی طرف ہو گئے اور ہاتھا پائی پر نوبت آگئی۔ میں نے موقع غنیمت سمجھا اور وہاں سے کھسک گیا۔ دوسرے روز صبح نو بجے کے قریب میرا سامان تیار تھا۔ صرف جہاز کے ٹکٹوں کا انتظار تھا جو ایک دوست بلیک مارکیٹ سے حاصل کرنے گیا تھا۔ میں بہت بے قرار تھا۔ دل میں طرح طرح کے جذبات ابل رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی ٹکٹ آجائیں اور میں بندرگاہ کی طرف چل دوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو میرا فلیٹ مجھے اپنے اندر قید کرلے گا۔ دروازہ پر دستک ہوئی۔ میں نے سوچا ٹکٹ آگئے۔ دروازہ کھولا تو باہر دھوبی کھڑاتھا۔

’’ساب سلام!‘‘

’’سلام‘‘

’’میں اندر آجاؤں؟‘‘

’’آؤ‘‘

وہ خاموشی سے اندر داخل ہوا۔ گٹھڑی کھول کر اس نے کپڑے نکال پلنگ پر رکھے۔ دھوتی سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور گلو گیر آواز میں کہا۔

’’آپ جارہے ہیں ساب؟‘‘

’’ہاں‘‘

اس نے رونا شروع کردیا۔ ساب، مجھے ماف کردو۔ یہ سب دارو کا قصور تھا۔ اور دارو۔ دارو آج کل مفت ملتی ہے۔ سیٹھ لوگ بانٹتا ہے کہ پی کر مسلمین کو مارو۔ مفت کی دارو کون چھوڑتا ہے ساب۔ ہم کو ماف کردو۔ ہم پئے لا تھا۔ ساعیدشالیم بالشٹر ہمارا بہت مہربان ہوتا۔ ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔ تمہارا بیگم ساب ہمارا جان بچایا ہوتا۔ جلاب سے ہم مرتا ہوتا۔ وہ موٹر لے کر آتا۔ ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ اتنا پیسہ خرچ کرتا۔ ملک ملک جاتا۔ بیگم صاب سے مت بولنا۔ رام کھلاون۔ ‘‘

اس کی آواز گلے میں رٍُندھ گئی۔ گٹھڑی کی چادر کاندھے پر ڈال کر چلنے لگا تو میں نے روکا

’’ٹھہرو رام کھلاون۔ ‘‘

لیکن وہ دھوتی کا لانگ سنبھالتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

سعادت حسن منٹو

راجو

سن اکتیس کے شروع ہونے میں صرف رات کے چند برفائے ہوئے گھنٹے باقی تھے۔ وہ لحاف میں سردی کی شدت کے باعث کانپ رہا تھا۔ پتلون اور کوٹ سمیت لیٹا تھا، لیکن اس کے باوجود سردی کی لہریں اُس کی ہڈیوں تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی سبز روشنی میں جو سردی میں اضافہ کررہی تھی، زور زور سے ٹہلنا شروع کردیا کہ اس کا دوران خون تیز ہوجائے۔ تھوڑی دیر یوں چلنے پھرنے کے بعد جب اُس کے جسم کے اندر تھوڑی سی حرارت پیدا ہو گئی تو وہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سُلگا کر اپنے دماغ کو ٹٹولنے لگا۔ اس کا دماغ چونکہ بالکل خالی تھا، اس لیے اُس کی قوتِ سامعہ بہت تیز تھی۔ کمرے کی ساری کھڑکیاں بند تھیں، مگروہ باہر گلی میں ہوا کی مدھم سے مدھم گنگناہٹ بڑی آسانی سے سن سکتا تھا۔ اس گنگناہٹ میں اُسے انسانی آوازیں سُنائی دیں۔ ایک دبی دبی چیخ دسمبر کی آخری رات کی خاموشی میں چابک کے اول کی طرح ابھری، پھر کسی کی التجائیہ آواز لرزی۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور اُس نے کھڑکی کی درزمیں سے باہر کی طرف دیکھا۔ وہی۔ وہی لڑکی یعنی سوداگروں کی نوکرانی میونسپلٹی کی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ صرف ایک سفید بُنیان پہنے۔ لیمپ کی روشنی میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اُس کے بدن پر برف کی ایک پتلی سی تہہ جم گئی ہے۔ اُس کے بُنیان کے نیچے، اس کی بدنما چھاتیاں، ناریلوں کے مانند لٹکی ہوئی تھیں۔ وہ اس انداز میں کھڑی تھی، گویا ابھی ابھی کشتی سے فارغ ہوئی ہے۔ ایسی حالت میں دیکھ کر سعید کے صناعانہ جذبات کو دھچکا سا لگا۔ اتنے میں کسی مرد کی بھنچی بھنچی آواز سنائی دی۔

’’خدا کے لیے اندر چلی آؤ۔ کوئی دیکھ لے گا تو آفت ہی آ جائے گی‘‘

وحشی بلی کی طرح اس نے غرا کر جواب دیا۔

’’میں نہیں آؤں گی۔ بس ایک بار جو کہہ دیا کہ نہیں آؤں گی۔ ‘‘

سوداگر کے بچے نے التجا کے طور اُس سے کہا۔

’’خدا کے لیے اونچے نہ بولو، کوئی سُن لے گا، راجو۔ ‘‘

تو اُس کا نام راجو تھا۔ راجو نے اپنی لنڈوری چٹیا کو جھٹکا دے کر کہا۔

’’سُن لے۔ ساری دنیا سُن لے۔ خدا کرے ساری دنیا سُن لے۔ اگر تم مجھے یوں ہی اپنے کمرے کے اندر آنے کو کہتے رہو گے، تو میں خود محلے بھر کو جگا کر سب کچھ کہہ دُوں گی۔ ‘‘

راجو اُس کو نظر آرہی تھی، مگر وہ جس سے مخاطب تھی وہ اُس کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اُس نے بڑی درز سے راجو کو دیکھا، اس کے بدن پر جھرجھری سی طاری ہو گی۔ اگر وہ ساری کی ساری ننگی ہوتی تو شاید اُس کے صناعانہ جذبات کو ٹھیس نہ پہنچتی۔ لیکن اُس کے جسم کے وہ حصے جوننگے تھے، دوسرے مستور حصوں کو عریانی کی دعوت دے رہے تھے۔ راجو میونسپلٹی کی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی اور اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عورت کے متعلق اُس کے جذبات اپنے کپڑے اُتار رہے ہیں۔ راجو کی غیر متناسب بانھیں، جو کاندھوں تک ننگی تھیں، نفرت انگیز طورپر لٹک رہی تھیں۔ مردانہ بنیان اور گول گلے میں سے اُس کی نیم پختہ ڈبل روٹی ایسی موٹی اور نرم چھاتیاں، کچھ اس انداز سے باہر جھانک رہی تھیں، گویا سبزی ترکاری کی ٹُوٹی ہوئی ٹوکری میں سے گوشت کے ٹکڑے دکھائی دے رہے ہوں۔ زیادہ استعمال سے گھسی ہوئی پتلی بنیان کا نچلا گھیراخود بخود اُوپر کو اُٹھ گیا (تھا) اور راجو کی ناف کا گڑھا، اُس کے خمیرے آٹے ایسے پھولے ہوئے پیٹ پر یوں دکھائی دیتا تھا۔ جیسے کسی نے انگلی کھبودی ہو۔ یہ نظارہ دیکھ کر اُس کے دماغ کا ذائقہ خراب ہو گیا۔ اُس نے چاہا کہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنے بستر پر لیٹ جائے، اور سب کچھ بھول بھال کر سو جائے لیکن جانے کیوں، وہ سوراخ پر آنکھیں جمائے کھڑا رہا؟ راجو کو اس حالت میں دیکھ کر اُس کے دل میں کافی نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ شاید وہ اسی نفرت کی وجہ سے اُس سے دلچسپی لے رہا تھا۔ سوداگر کے سب سے جھوٹ لڑکے نے جس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہو گی، ایک بار پھر التجائیہ لہجے میں کہا۔

’’راجو خدا کے لیے اندر چلی آؤ۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی تمھیں نہیں ستاؤں گا۔ لو اب مان جاؤ۔ یہ تمہاری بغل میں وکیلوں کا مکان ہے، ان میں سے کسی نے دیکھا یا سُن لیا تو بڑی بدنامی ہو گی۔ ‘‘

راجو خاموش رہی لیکن تھوڑی دیر کے بعد بولی۔

’’مجھے میرے کپڑے لادو۔ بس اب میں تمہارے گھر میں نہیں رہوں گی۔ تنگ آ گئی ہوں۔ کل سے وکیلوں کے ہاں نوکری کر لوں گی۔ سمجھے؟۔ اب اگر تم نے مجھ سے کچھ اور کہا تو خدا کی قسم شور مچانا شروع کردوں گی۔ میرے کپڑے چپ چاپ لا کے دے دو۔ ‘‘

سوداگر کے لڑکے کی آواز آئی۔

’’لیکن تم رات کہاں کاٹو گی؟‘‘

راجو نے جواب دیا۔

’’جہنم میں۔ تمھیں اس سے کیا۔ جاؤ تم اپنی بیوی کی بغل گرم کرو۔ میں کہیں نہ کہیں سو جاؤں گی۔ ‘‘

اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ سچ مچ رو رہی تھی۔ سوراخ پر سے آنکھ ہٹا کر وہ پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔ راجو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اُسے عجیب قسم کا صدمہ ہوا تھا۔ اُس میں کوئی شک نہیں کہ اس صدمے کے ساتھ وہ نفرت بھی لپٹی ہوئی تھی جو راجو کو اس حالت میں دیکھ کر اُس کے دل میں پیدا ہوئی تھی، مگر غایت درجہ نرم دل ہونے کے باعث وہ پگھل سا گیا۔ راجو کی کھلاڑی آنکھوں میں جو شیشے کے مرتبان میں چمک دار مچھلیوں کی طرح سدا متحرک رہتی تھیں آنسو دیکھ کر اُس کا جی چاہا کہ انھیں تھپکا کر دلاسا دے۔ راجو کی جوانی کے چار قیمتی برس سوداگر بھائیوں نے معمولی چٹائی کی طرح استعمال کیے تھے ان برسوں میں تینوں بھائیوں کے نقش قدم کچھ اس طرح خلط ملط ہو گئے تھے کہ ان میں سے کسی کو اس بات کا خوف نہیں رہا تھا کہ کوئی ان کے پیروں کے نشان پہچان لے گا اور راجو کے متعلق بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتی تھی نہ دوسروں کے۔ اسے بس چلتے جانے کی دُھن تھی کسی بھی طرف۔ پر اب شاید اُس نے مُڑ کے دیکھا تھا۔ مُڑ کے اُس نے کیا دیکھا تھا جو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ اُس کو معلوم نہیں تھا باہر سن تیس کی آخری رات دم توڑ رہی تھی اور اُس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہاں کہاں گئی؟۔ کیا وہ اندر چلی گئی؟۔ کیا وہ مان گئی تھی؟۔ مگر سوال یہ تھا کہ وہ کس بات پر جھگڑی تھی؟۔ راجو کے کانپتے ہوئے نتھنے ابھی تک اُس کو نظر آ رہے تھے۔ ضروراس کے اور سوداگر کے لڑکے کے درمیان جن کا نام محمود تھا کسی بات پر جھگڑا ہوا تھا جبھی تو وہ دسمبر کی خون منجمد کردینے والی رات میں صرف ایک بنیان اور شلوار کے ساتھ باہر نکل آئی تھی اور اندر جانے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راجو کو دُکھی دیکھ کر اُس کے ایک نامعلوم جذبے کو تسکین پہنچی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی اُس کے دل میں رحم کے جذبات بھی پیدا ہوئے تھے۔ کسی عورت سے اس نے کبھی ہمدری کا اظہار نہیں کیا تھا۔ شاید اسی لیے وہ راجو کو دکھی دیکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ اُس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرسکے۔ اُسے یقین تھا کہ اگروہ راجو کے قریب ہونا چاہے گا تو وہ جنگلی گھوڑی کی طرح بدکے گی نہیں۔ راجو غلاف چڑھی عورت نہیں تھی۔ وہ جیسی بھی تھی دُور سے نظر آجاتی تھی۔ اُس کی بھدی اور موٹی ہنسی جو اکثر اُس کے مٹ میلے ہونٹوں پر بچوں کے ٹُوٹے ہوئے گھروندے کے مانند نظر آتی تھی اصلی ہنسی تھی۔ بڑی صحت مند۔ اور اب اُس کی بھونرے جیسی متحرک آنکھوں نے آنسو اُگلے تھے، تو ان میں کوئی مصنوعی پن نہیں تھا۔ راجو کو وہ ایک مدت سے جانتا تھا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کے چہرے کے تمام خطوط تبدیل ہوئے تھے اور وہ غیر محسوس طریق پر لڑکی سے عورت بننے کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تین سوداگر بھائیوں کو ہجوم نہیں سمجھتی تھی۔ یہ ہجوم اُسے پسند نہیں تھا اس لیے کہ ایک عورت کے ساتھ وہ صرف ایک مرد منسلک دیکھنے کا قائل تھا۔ مگر یہاں۔ یعنی راجو کے معاملے میں اُسے پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے درمیان رُک جانا پڑتا تھا۔ اس واقعے کے دوسرے روز جب وہ جاگ رہا تھا لحاف اوڑھے لیٹا تھا کہ راجو آئی اُ س نے کمرہ صاف کیا اُس نے یہ سمجھا کہ شاید جمعدار ہے۔ جو آج جلدی آگیا ہے۔ چنانچہ اُس نے لحاف کے اندر سے کہا۔

’’دیکھو بھئی۔ گرد مت اُڑانا۔ ‘‘

ایک نسوانی آواز اُس کو سنائی دی

’’جی میں۔ جی میں میں تو۔ ‘‘

اس نے لحاف اپنے سے جدا کیا اور دیکھا کہ راجو ہے۔ وہ بہت متحیر ہوا۔ چند لمحات وہ اُس کو دیکھتا رہا۔ اُس کے بعد اُس سے مخاطب ہوا۔

’’تم یہاں کیسے آئی ہو؟‘‘

راجو نے جھاڑن اپنے کاندھے پر رکھا اور جواب دیا۔

’’میں آج صبح یہاں آئی ہوں۔ سوداگروں کی نوکری میں نے چھوڑ دی ہے۔ ‘‘

اُس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ بہرحال اُس نے اتنا کہہ دیا۔

’’اچھا کیا۔ اب کیا تم نے ہمارے یہاں ملازمت اختیار کرلی ہے؟‘‘

’’جی ہاں‘‘

۔ یہ اس کا مختصر جوا ب تھا۔ اُس کو راجو سے سخت نفرت تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے گھر میں اس کا کسی قسم کا دخل نہ ہو لیکن اس کی والدہ نے جو بہت رحمدل تھیں اور جنھیں نوکرانی کی ضرورت بھی تھی راجو کو ملازم رکھ لیا تھا۔ اُس کو بڑی اُلجھن محسوس ہوئی کہ وہ رات کا تماشا دیکھ چکا تھا۔ اُسے اُس سے نفرت تھی۔ اس قدر نفرت کو وہ چاہتا تھا کہ وہ اُس کی نظروں کے سامنے نہ آئے۔ مگر وہ آتی تھی۔ صبح ناشتہ لے کر آتی۔ شیو کا سامان لے کر آتی۔ دوپہرکا کھانا پیش کرتی۔ مگر اس کو یہ سب باتیں بہت ناگوار گزرتیں۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ راجو اُس سے اس قسم کا سلوک کرے۔ چنانچہ ایک دن اُس نے تنگ آکر اس سے کہا۔

’’دیکھو راجو مجھے تمہاری ہمدردیاں پسند نہیں۔ میں اپنا کام خود کرسکتا ہوں۔ تم مہربانی کرکے تکلیف نہ کیا کرو۔ ‘‘

راجو نے بڑی متانت سے کہا۔

’’سرکار۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ میں تو آپ کی باندی ہوں۔ ‘‘

وہ جھینپ سا گیا۔

’’ٹھیک ہے۔ تم نوکرانی ہو۔ بس اس کا خیال رکھو۔ ‘‘

راجو نے تپائی کا کپڑا ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔

’’جی مجھے ہر چیز کا خیال ہے۔ مجھے اس بات کا بھی خیال ہے کہ آپ مجھے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ ‘‘

وہ لوٹ پوٹ گیا۔

’’میں۔ میں تمھیں اچھی نظروں سے کیوں نہیں دیکھتا۔ یہ تم نے کیسے جانا؟‘‘

راجو مسکرائی۔

’’حضور آپ امیر آدمی ہیں۔ آپ کو ہم غریبوں کے دُکھ درد کا کوئی احساس نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

اُس کو راجو سے اور نفرت ہو گئی۔ وہ سمجھنے لگا کہ یہ لڑکی جو اُس کے گھر میں اُس کی والدہ کی نرم طبیعت کی وجہ سے آگئی ہے بہت واہیات ہے۔ راجو بڑی باقاعدگی سے کا م کرتی رہی۔ اُس کا کوئی نقص نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ جب اُس کی شادی کا سوال اُٹھا تو وہ بہت مضطرب ہوا۔ وہ اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے والدین سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مجھے یہ جھنجھٹ ابھی نہیں چاہیے۔ اُس کے والدین نے بہت زور دیا کہ وہ شادی کرلے مگر وہ نہ مانا۔ اُسے کوئی لڑکی پسند نہیں آتی تھی۔ ایک دن وہ گھر سے غائب ہو گیا۔ اُس کے ساتھ راجو بھی۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ وہ میاں بیوی بن چکے ہیں۔ سعادت حسن منٹو ۱۲جنوری۱۹۵۵ء

سعادت حسن منٹو

دیکھ کبیرا رویا

نگر نگر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جو آدمی بھیک مانگے گا اس کو گرفتار کرایا جائے۔ گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ ایک بہت پرانی لعنت دور ہو گئی۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لوگوں نے پوچھا۔ اے جولاہے تو کیوں روتا ہے؟ کبیر نے رو کر کہا۔

’’کپڑا جو چیزوں سے بنتا ہے۔ تانے اور پیٹے سے۔ گرفتاریوں کا تانا تو شروع ہو گیا پر پیٹ بھرنے کا پیٹا کہاں ہے؟‘‘

ایک ایم اے۔ ایل ایل بی کو دو سو کھڈیاں الاٹ ہو گئیں۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایم اے۔ ایل ایل بی نے پوچھا۔

’’اے جولاہے کے بچے تو کیوں روتا ہے؟۔ کیا اس لیے کہ میں نے تیرا حق غصب کرلیا ہے؟‘‘

کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا۔

’’تمہارا قانون تمہیں یہ نکتہ سمجھاتا ہے کہ کھڈیاں پڑی رہنے دو، دھاگے کا جو کوٹا ملے اسے بیچ دو۔ مفت کی کھٹ کھٹ سے کیا فائدہ۔ لیکن یہ کھٹ کھٹ ہی جولاہے کی جان ہے!‘‘

چھپی ہوئی کتاب کے فرمے تھے۔ جن کے چھوٹے بڑے لفافے بنائے جا رہے تھے۔ کبیر کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے وہ تین لفافے اٹھائے اور ان پر چھپی ہوئی تحریر پڑھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے لفافے بننے والے نے حیرت سے پوچھا۔

’’میاں کبیرتم کیوں رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا۔

’’ان کاغذوں پر بھگت سُورداس کی کویتا چھپی ہے۔ لفافے بنا کر اس کی بے عزتی نہ کرو۔ ‘‘

لفافے بنانے والے نے حیرت سے کہا۔

’’جس کا نام سُورداس ہے۔ وہ بھگت کبھی نہیں ہوسکتا۔ ‘‘

کبیر نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ ایک اونچی عمارت پر لکشمی کا بہت خوبصورت بت نصب تھا۔ چند لوگوں نے جب اسے اپنا دفتر بنایا تو اس بُت کو ٹاٹ کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ دفتر کے آدمیوں نے اسے ڈھارس دی اور کہا۔

’’ہمارے مذہب میں یہ بت جائز نہیں۔ ‘‘

کبیر نے ٹاٹ کے ٹکڑوں کی طرف اپنی نمناک آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’خوبصورت چیز کو بدصورت بنا دینا بھی کسی مذہب میں جائز نہیں۔ ‘‘

دفتر کے آدمی ہنسنے لگے۔ کبیر ڈھاریں مار مارکر رونے لگا۔ صف آرا فوجوں کے سامنے جرنیل نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔

’’اناج کم ہے، کوئی پروا نہیں۔ فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ کوئی فکر نہیں۔ ہمارے سپاہی دشمن سے بھوکے ہی لڑیں گے۔ ‘‘

دو لاکھ فوجیوں نے زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ کبیر چلا چلا کے رونے لگا۔ جرنیل کو بہت غصہ آیا۔ چنانچہ وہ پکار اٹھا۔

’’اے شخص، بتا سکتا ہے، تو کیوں روتا ہے؟‘‘

کبیر نے رونی آواز میں کہا۔

’’اے میرے بہادر جرنیل۔ بھوک سے کون لڑے گا۔ ‘‘

دو لاکھ آدمیوں نے کبیر مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔

’’بھائیو، داڑھی رکھو مونچھیں کترواؤ اور شرعی پاجامہ پہنو۔ بہنو، ایک چوٹی کرو، سرخی سفیدہ نہ لگاؤ، برقع پہنو!‘‘

۔ بازار میں ایک آدمی چلا رہا تھا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ چلّانے والے آدمی نے اور زیادہ چلّا کر پوچھا۔

’’کبیر تو کیوں رونے لگا؟‘‘

کبیر نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔

’’تیرا بھائی ہے نہ تیری بہن، اور یہ جو تیری داڑھی ہے۔ اس میں تو نے وسمہ کیوں لگا رکھا ہے۔ کیا سفید اچھی نہیں تھی۔ ‘‘

چلّانے والے نے گالیاں دینی شروع کردیں۔ کبیر کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ایک جگہ بحث ہورہی تھی۔

’’ادب برائے ادب ہے۔ ‘‘

’’محض بکواس ہے، ادب برائے زندگی ہے۔ ‘‘

’’وہ زمانہ لد گیا۔ ادب، پروپیگنڈے کا دوسرا نام ہے۔ ‘‘

’’تمہاری ایسی کی تیسی۔ ‘‘

’’تمہارے اسٹالن کی ایسی کی تیسی۔ ‘‘

’’تمہارے رجعت پسند اور فلاں فلاں بیماریوں کے مارے ہوئے فلابیئر اور بادلیئر کی ایسی کی تیسی‘‘

کبیر رونے لگا بحث کرنے والے بحث چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک نے اس سے پوچھا۔

’’تمہارے تحت الشعور میں ضرور کوئی ایسی چیز تھی جسے ٹھیس پہنچی۔ ‘‘

دوسرے نے کہا۔

’’یہ آنسو بورژوائی صدمے کا نتیجہ ہیں۔ ‘‘

کبیر اور زیادہ رونے لگا۔ بحث کرنے والوں نے تنگ آکر بیک زبان سوال کیا۔

’’میاں، یہ بتاؤ کہ تم روتے کیوں ہو؟‘‘

کبیر نے کہا۔

’’میں اس لیے رویا تھا کہ آپ کی سمجھ میں آجائے، ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی۔ ‘‘

بحث کرنے والے ہنسنے لگے۔ ایک نے کہا۔

’’یہ پرولتاری مسخرہ ہے۔ ‘‘

دوسرے نے کہا۔

’’نہیں یہ بورژوائی بہروپیا ہے۔ ‘‘

کبیر کی آنکھوں میں پھر آنسو آگئے۔ حکم نافذ ہو گیا کہ شہر کی تمام کسبی عورتیں ایک مہینے کے اندر شادی کرلیں اور شریفانہ زندگی بسر کریں۔ کبیر ایک چکلے سے گزرا تو کسبیوں کے اڑے ہوئے چہرے دیکھ کر اس نے رونا شروع کردیا۔ ایک مولوی نے اس سے پوچھا۔

’’مولانا۔ آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘

کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا

’’اخلاق کے معلّم ان کسبیوں کے شوہروں کے لیے کیا بندوبست کریں گے‘‘

مولوی کبیر کی بات نہ سمجھا اور ہنسنے لگا۔ کبیر کی آنکھیں اور زیادہ اشک بار ہو گئیں۔ دس بارہ ہزار کے مجمع میں ایک آدمی تقریر کررہا تھا۔

’’بھائیو۔ بازیافتہ عورتوں کا مسئلہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہمیں سب سے پہلے سوچنا ہے اگر ہم غافل رہے۔ تو یہ عورتیں قحبہ خانوں میں چلی جائیں گی۔ فاحشہ بن جائیں گی۔ سن رہے ہو، فاحشہ بن جائیں گی۔ تمہارا فرض ہے کہ تم ان کو اس خوفناک مستقبل سے بچاؤ اور اپنے گھروں میں ان کے لیے جگہ پیدا کرو۔ اپنے اپنے بھائی، یا اپنے بیٹے کی شادی کرنے سے پہلے تمہیں ان عورتوں کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں کرناچاہیے۔ کبیر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تقریر کرنے والا رُک گیا۔ کبیر کی طرف اشارہ کرکے اس نے بلند آواز میں حاضرین سے کہا۔

’’دیکھو اس شخص کے دل پر کتنا اثر ہوا ہے۔ ‘‘

کبیر نے گلو گیر آواز میں کہا۔

’’لفظوں کے بادشاہ، تمہاری تقریر نے میرے دل پرکچھ اثر نہیں کیا۔ میں نے جب سوچا کہ تم کسی مالدار عورت سے شادی کرنے کی خاطر ابھی تک کنوارے بیٹھے ہو تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ‘‘

ایک دکان پر یہ بورڈ لگا تھا۔

’’جناح بوٹ ہاؤس۔ ‘‘

کبیر نے اسے دیکھا۔ تو زار و قطار رونے لگا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کٹ مرا ہے۔ بورڈ پر آنکھیں جمی ہیں اور روئے جارہا ہے۔ انھوں نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔

’’پاگل ہے۔ پاگل ہے!‘‘

ملک کا سب سے بڑا قائد چل بسا تو چاروں طرف ماتم کی صفیں بچھ گئیں۔ اکثر لوگ بازوؤں پر سیاہ بلے باندھ کر پھرنے لگے۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیاہ بلّے والوں نے اس سے پوچھا۔

’’کیا دکھ پہنچا جو تم رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا۔

’’یہ کالے رنگ کی چندیاں اگر جمع کرلی جائیں تو سینکڑوں کی سترپوشی کرسکتی ہیں۔ ‘‘

سیاہ بلّے والوں نے کبیر کو پیٹنا شروع کردیا۔ تم کمیونسٹ ہو، ففتھ کالمسٹ ہو۔ پاکستان کے غدار ہو۔ ‘‘

کبیر ہنس پڑا۔

’’لیکن دوستو، میرے بازو پر تو کسی رنگ کا بلّا نہیں۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

دیوالی کے دِیے

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دِیے ہانپتے ہوئے بچوں کے دل کی طرح دھڑک رہے تھے۔ مُنی دوڑتی ہوئی آئی۔ ا پنی ننھی سی گھگری کو دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھائے چھت کے نیچے گلی میں موری کے پاس کھڑی ہو گئی۔

اس کی روتی ہوئی آنکھوں میں منڈیرپر پھیلے ہوئے دِیوں نے کئی چمکیلے نگینے جڑ دیے۔ اس کا ننھا سا سینہ دیے کی لو کی طرح کانپا، مسکرا کر اس نے اپنی مٹھی کھولی، پسینے سے بھیگا ہوا پیسہ دیکھا اور بازار میں دیے لینے کے لیے دوڑ گئی۔

چھت کی منڈیر پر شام کی خنک ہوا میں دیوالی کے دیے پھڑپھڑاتے رہے۔ سریندر دھڑکتے ہوئے دل کو پہلو میں چھپائے چوروں کی مانند گلی میں داخل ہوا اور منڈیر کے نیچے بے قراری سے ٹہلنے لگا۔ اس نے دِیوں کی قطار کی طرف دیکھا۔ اسے ہوا میں اچھلتے ہوئے یہ شعلے اپنی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کے رقصاں قطرے معلوم ہوئے۔

دفعتہً سامنے والی کھڑکی کھلی۔ سریندر سرتا پا نگاہ بن گیا۔ کھڑکی کے ڈنڈے کا سہارا لیکر ایک دوشیزہ نے جھک کرگلی میں دیکھا اور فوراً اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔

کچھ اشارے ہوئے۔ کھڑکی چوڑیوں کی کھنکناہٹ کے ساتھ بند ہوئی اور سریندر وہاں سے مخموری کی حالت میں چل دیا۔ چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے دلہن کی ساڑھی میں ٹکے ہوئے تاروں کی طرح چمکتے رہے۔ سرجو کمہار لاٹھی ٹیکتا ہوا آیا اور دم لینے کے لیے ٹھہر گیا۔ بلغم اس کی چھاتی میں سڑکیں کوٹنے والے انجن کی مانند پھر رہا ہے۔

گلے کی رگیں دمے کے دورے کے باعث دھونکنی کی طرح کبھی پھولتی تھیں کبھی سکڑ جاتی تھیں۔ اس نے گردن اٹھا کر جگمگ جگمگ کرتے دیوں کی طرف اپنی دھندلی آنکھوں سے دیکھا اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ دور۔ بہت دور۔ بہت سے بچے قطار باندھے کھیل کود میں مصروف ہیں۔ سرجُو کمہار کی لاٹھی منوں بھاری ہو گئی بلغم تھوک کروہ پھر چیونٹی کی چال چلنے لگا۔ چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے جگمگاتے رہے۔ پھر ایک مزدور آیا۔ پھٹے ہوئے گریبان میں سے اس کی چھاتی کے بال برباد گھونسلوں کی تیلیوں کے مانند بکھر رہے تھے۔

دِیوں کی قطار کی طرف اس نے سر اٹھا کردیکھا اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ آسمان کی گدلی پیشانی پر پسینے کے موٹے موٹے قطرے چمک رہے ہیں۔ پھر اسے اپنے گھر کے اندھیارے کا خیال آیا اور وہ ان تھرکتے ہوئے شعلوں کی روشنی کنکھیوں سے دیکھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

چھت کی منڈیر پر دیوالی کے دیے آنکھیں جھپکتے رہے۔ نئے اور چمکیلے بوٹوں کی چرچراہٹ کے ساتھ ایک آدمی آیا۔ اور دیوار کے قریب سگریٹ سلگانے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس کا چہرہ اشرفی پر لگی ہوئی مہر کے مانند جذبات سے عاری تھا۔ کالر چڑھی گردن اٹھا کر اس نے دِیوں کی طرف دیکھا۔ اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ بہت سی کٹھالیوں میں سونا پگھل رہا ہے۔ اس کے چرچراتے ہوئے چمکیلے جوتوں پر ناچتے ہوئے شعلوں کا عکس پڑ رہا تھا۔

وہ ان سے کھیلتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ چھت کے منڈیر پر دیوالی کے دیے جلتے رہے۔ جو کچھ انھوں نے دیکھا، جو کچھ انھوں نے سنا، کسی کو نہ بتایا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔ اور سب دیے ایک کرکے بُجھ گئے۔

سعادت حسن منٹو

دُھواں

وہ جب اسکول کی طرف روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا، جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس ٹوکرے میں دو تازہ ذبح کیے ہُوئے بکرے تھے کھالیں اُتری ہُوئی تھیں، اور ان کے ننگے گوشت میں سے دُھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جسکو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں۔ پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اسکی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔ اس وقت سوا نو بجے ہوں گے مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی، لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سما وار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دُھواں نکل رہا تھا۔ ہر شے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہُوئی ہے۔ موسم کچھ ایسی ہی کیفیت کا حامل تھا۔ جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہو۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمدورفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے آوازیں مدھم تھیں۔ جیسے سرگوشیاں ہورہی ہیں، چپکے چپکے، دھیرے دھیرے باتیں ہورہی ہیں، ہولے ہولے لوگ قدم اُٹھا رہے ہیں کہ زیادہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔ مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جارہا تھا۔ آج اس کی چال بھی سست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کیے ہُوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دُھواں اُٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہُوئی۔ اس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بُن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دُھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔ فضا میں اجلا پن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دُھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہرشے پر چڑھی ہُوئی تھی جس سے فضا میں گدلا پن پیدا ہو گیا تھا۔ یہ گدلا پن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا اس لیے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔ مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کرکے قطعی طور پر خوشی نہ ہُوئی کہ اسکول سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کردیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے۔ کچھ چھٹی کا پتہ معلوم کرتے ہی گھر چلے گئے۔ کچھ آرہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔ مسعود نے جب سُنا کہ سکتر صاحب مر گئے ہیں تو اسے بالکل افسوس نہ ہُوا۔ اس کا دل جذبات سے بالکل خالی تھا۔ البتہ اُس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے د ادا جان کا انتقال ان ہی دنوں میں ہُوا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دِقت ہِوئی تھی اس لیے کہ بارش شروع ہو گئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کُھدی ہُوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدّت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبے پڑ جاتے تھے۔ ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر آکر ہاتھ پاؤں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ۔ یہ سب کچھ اس کو اچھی طرح یاد تھا، چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سُنی تو اسے یہ بیتی ہوئی باتیں یاد آگئیں اور اس نے سوچا، جب سکتر صاحب کا جنازہ اُٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بِلبِلا اٹھیں گے۔ مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنے کمرے کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے ڈسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو کہ اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں اس میں رکھیں اور باقی بستہ اُٹھا کرگھر کی جانب چل پڑا۔ راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیے ہُوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا۔ دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعو د دکان پر سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا چھو کر دیکھے، چنانچہ آگے بڑھ کر اس نے انگلی سے بکرے کے اس حصّے کو چھوکر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا، گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بہت بھلی معلوم ہُوئی۔ قصائی دکان کے اندر چُھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سُنائی تو اسے معلوم ہُوا کہ اس کے ابا جی انہی کے جنازے کے ساتھ گئے ہیں۔ اب گھرمیں صرف دو آدمی تھے۔ ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانہ میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کررہی تھی۔ چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے۔ جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں پڑا تھا۔ اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابا جی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش طاق میں پڑا تھا مگر اس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لُوڈو اور اسی قسم کے دوسرے کھیل جو اس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی ان کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاً ایسے کھیلوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سُنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اس نے سبزسبز پتوں کا گیلا گیلا ڈھیر اُٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اس میں سے سفید سفید دُھواں اُٹھنے لگا۔ اس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آگیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا۔

’’امی جان، آج میں نے قصائی کی دکان پر دو بکرے دیکھے۔ کھال اُتری ہوئی تھی اور ان میں سے دُھواں نکل رہا تھا بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتاہے۔ ‘‘

’’اچھا۔ !‘‘

یہ کہہ کر اُس کی ماں چولھے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔

’’ہاں اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔ ‘‘

’’اچھا۔ !‘‘

یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانہ سے باہر چلی گئی۔

’’اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا بھی تھا۔ ‘‘

’’اچھا۔ ‘‘

مسعود کی بڑی بہن نے درباری سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

’’کیسے پھڑکتا تھا؟‘‘

’’یوں۔ یوں۔ ‘‘

مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کرکے اپنی بہن کو دکھائی۔

’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘

یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا۔

’’پھر کیا ہونا تھا، میں نے تو ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھو کر بھی دیکھا تھا۔ گرم تھا۔ ‘‘

’’گرم تھا۔ اچھا مسعود یہ بتاؤ تم میرا ایک کام کرو گے۔ ‘‘

’’بتائیے۔ ‘‘

’’آؤ، میرے ساتھ آؤ۔ ‘‘

’’نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے۔ ‘‘

’’تم آؤ تو سہی میرے ساتھ۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ آپ پہلے کام بتائیے۔ ‘‘

’’دیکھو میری کمر میں بڑا درد ہورہا ہے۔ میں پلنگ پر لیٹتی ہوں، تم ذرا پاؤں سے دبا دینا۔ اچھے بھائی جو ہوئے۔ اللہ کی قسم بڑا درد ہورہا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کردیں۔

’’یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے۔ جب دیکھو درد ہورہا ہے، اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں، کیوں نہیں اپنی سہیلیوں سے کہتیں۔ ‘‘

مسعود اُٹھ کھڑا ہُوا۔

’’چلیے، لیکن یہ آپ سے کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دباؤنگا۔ ‘‘

’’شاباش۔ شاباش۔ ‘‘

اس کی بہن اُٹھ کھڑی ہُوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔ صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دُکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اُوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جُھکے ہُوئے تھے۔

’’مسعود، آج ضرور بارش ہو گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔ جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کرگھڑی میں وقت دیکھا۔

’’دیکھئے باجی گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دونگا۔ ‘‘

’’بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آکر جلدی کمر دباؤ ورنہ یاد رکھو بڑے زور سے کان اینٹھوں گی۔ ‘‘

کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پاؤں سے اس کی کمر دباناشروع کردی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہو گیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔ کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا، جب مسعود کا پاؤں اس حصے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کیے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر، وہ ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل نہیں تھا۔ ایک دوبار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے، اسی قسم کی حرکت جو اُس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بدولی سے کمر دبانا شروع کی تھی مگر اب اسے اِس کام میں لذت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھینچی بھینچی آواز جو کہ مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی اس گمنام سی لذت میں اضافہ کررہی تھی۔ ٹائم پیس میں گیارہ بج گئے مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی۔ شاباش مسعود، شاباش۔ لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو، بالکل اسی طرح۔ شاباش میرے بھائی۔ ‘‘

مسعود نے دیوار کا سہارا لیکر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں سی تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہو گئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا، لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی وہ تڑپ منجمد سی ہو گئی۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوارکا سہارا لیکر اپنی بہن کی رانیں دبائے، چنانچہ اس نے کہا۔

’’یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کردیا۔ سیدھی لیٹ جائیے۔ میں آپکی ٹانگیں دبا دوں۔ ‘‘

کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں اِدھر اُدھر ہونے کے باعث جو گُدگُدی پیدا ہوئی تھی اس کا اثر ابھی تک اس کے جسم میں باقی تھا۔

’’نابھائی میرے گُدگُدی ہوتی ہے۔ تم اوٹ پٹانگ طریقے سے دباتے ہو۔ ‘‘

مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ نہیں، اب کی دفعہ میں پُورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں گا۔ آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دباؤں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ ‘‘

دیوار کا سہارا لیکر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ کہیں غائب ہو گیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے اپنے پیر چلانے شروع کیے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر اِدھر اُدھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازیگر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازیگر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا اسی طرح پھسلتا ہو گا۔ اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں مگر وہ لذت جو کہ اسے اب محسوس ہورہی تھی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا

’’کلثوم کو اگر ذبح کردیا جائے تو کھال اُتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟‘‘

لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپکو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کردیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔

’’بس بس۔ ‘‘

کلثوم تھک گئی۔

’’بس بس۔ ‘‘

مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گُدگُدی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارادہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہورہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دلنواز حرارت محسوس کررہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اسکے گالوں کے ساتھ مس ہُوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کی ناک پر پڑیں تو ایک جھرجھری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے کوٹھے کی دیوار پر ایک کبوتر اور کبوتری پاس پاس پَر پھلائے بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہُوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گل داؤدی اور نازبو کے ہرے ہرے پتے اُوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں گھلی ہُوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔ مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا۔ جن کا مطلب اسکی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چُھو کردیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا، پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اُسے آرہا تھا۔ بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کَس لیں اور اُن کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانہ میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اُس نے پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آگیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اُٹھ کر فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی کیونکہ اب ہَوا بھی چل رہی تھی، مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہُوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کوراحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شِیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اسکے پٹھوں میں ہلکی ہلکی سی دُکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصّے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں، کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہُوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اسکا سارا جسم کھنچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔ دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اُٹھا اور باورچی خانہ سے ہوتا ہوا صحن میں آنکلا۔ نہ کوئی باورچی خانہ میں تھا اور نہ صحن میں۔ اِدھر اُدھر جتنے کمرے تھے سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رُک گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کردیا۔ ایک بار جب اس نے زور سے ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پرلگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی۔

’’کون؟‘‘

’’جی میں ہُوں مسعود!‘‘

اندر سے آواز آئی۔

’’کیا کررہے ہو؟‘‘

’’جی کھیل رہا ہوں۔ ‘‘

’’کھیلو۔ ‘‘

پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا۔

’’تمہاری ماں میرا سردبا رہی ہے۔ زیادہ شور نہ مچانا۔ ‘‘

یہ سُن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اسکا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم وا۔ مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم وا دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھی، خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔ بملا کے بلاؤز کے بٹن کُھلے ہوئے تھے اور کلثوم اُس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔ مسعود کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے دماغ میں دُھواں سا چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاً اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا۔ جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کردی۔ بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پرہاکی میں خم پیدا ہوجائے گا، اور زیادہ زور لگانے پر ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زورلگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کُشتی لڑتا رہا۔ جب وہ تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔

سعادت حسن منٹو

دوقومیں

مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر کوٹھے پر کٹا ہوا پتنگ لینے گیا تو اسے جھرنوں میں سے ایک جھلک دکھائی دی۔ سامنے والے مکان کی بالائی منزل کی کھڑکی کھلی تھی۔ ایک لڑکی ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی۔ مختار کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ لڑکی کہاں سے آگئی، کیونکہ سامنے والے مکان میں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ جو تھیں، بیاہی جا چکی تھیں۔ صرف روپ کور تھی۔ اس کا پلپلا خاوند کالو مل تھا۔ اس کے تین لڑکے تھے اور بس۔ مختار نے پتنگ اٹھایا اور ٹھٹھک کے رہ گیا۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی اس کے ننگے بدن پر سنہرے روئیں تھے۔ ان میں پھنسی ہوئی پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں چمک رہی تھیں۔ اس کا رنگ ہلکا سانولا تھا، سانولا بھی نہیں۔ تانبے کے رنگ جیسا، پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں ایسی لگتی تھیں جیسے اس کا بدن پگھل کر قطرے قطرے بن کر گر رہا ہے۔ مختار نے جھرنے کے سوراخوں کے ساتھ اپنی آنکھیں جما دیں اور اس لڑکی کے جو ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی، دلچسپی اور غور سے دیکھنا شروع کردیا۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ سولہ برس کی تھی گیلے سینے پر اس کی چھوٹی چھوٹی گول چھاتیاں جن پر پانی کے قطرے پھسل رہے تھے بڑی دلفریب تھیں۔ اس کو دیکھ کر مختار کے دل و دماغ میں سفلی جذبات پیدا نہ ہوئے۔ ایک جوان، خوبصورت، اور بالکل ننگی لڑکی اس کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مختار کے اندر شہوانی ہیجان برپا ہو جاتا، مگر وہ بڑے ٹھنڈے انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کسی مصور کی تصویر دیکھ رہا ہے۔ لڑکی کے نچلے ہونٹ کے اختتامی کونے پر بڑا سا تل تھا۔ بے حد متین، بے حد سنجیدہ، جیسے وہ اپنے وجود سے بے خبر ہے، لیکن دوسرے اس کے وجود سے آگاہ ہیں، صرف اس حد تک کہ اسے وہیں ہونا چاہیے تھا جہاں کہ وہ تھا۔ بانھوں پر سنہرے روئیں پانی کی بوندوں کے ساتھ لپٹے ہوئے چمک رہے تھے اس کے سر کے بال سنہرے نہیں، بھوسلے تھے جنہوں نے شاید سنہرے ہونے سے انکار کردیا جسم سڈول اورگدرایا ہوا تھا لیکن اس کو دیکھنے سے اشتعال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مختار دیر تک جھرنے کے ساتھ آنکھیں جمائے رہا۔ لڑکی نے بدن پر صابن ملا۔ مختار تک اس کی خوشبو پہنچی۔ سلونے، تانبے جیسے رنگ والے بدن پر سفید سفید جھاگ بڑے سہانے معلوم ہوتے تھے۔ پھر جب یہ جھاگ پانی کے بہاؤ سے پھسلے تو مختار نے محسوس کیا جیسے اس لڑکی نے اپنا بلبلوں کا لباس بڑے اطمینان سے اتار کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ غسل سے فارغ ہو کر لڑکی نے تولیے سے اپنا بدن پونچھا۔ بڑے سکون اور اطمینان سے آہستہ آہستہ کپڑے پہنے۔ کھڑکی کے ڈنڈے پر دونوں ہاتھ رکھے اور سامنے دیکھا۔ ایک دم اس کی آنکھیں شرماہٹ کی جھیلوں میں غرق ہو گئیں اس نے کھڑکی بند کردی۔ مختار بے اختیار ہنس پڑا۔ لڑکی نے فوراً کھڑکی کے پٹ کھولے اور بڑے غصے میں جھرنے کی طرف دیکھا۔ مختار نے کہا

’’میں قصور وار بالکل نہیں۔ آپ کیوں کھڑکی کھول کر نہا رہی تھیں۔ ‘‘

لڑکی نے کچھ نہ کہا۔ غیض آلود نگاہوں سے جھرنے کو دیکھا اور کھڑکی بند کرلی۔ چوتھے دن روپ کور آئی۔ اس کے ساتھ یہی لڑکی تھی۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں سلائی اور کروشیے کے کام کی ماہر تھیں، گلی کی اکثر لڑکیاں ان سے یہ کام سیکھنے کیلیے آیا کرتی تھیں۔ روپ کور بھی اس لڑکی کو اسی غرض سے لائی تھی کیونکہ اس کو کروشیے کے کام کا بہت شوق تھا۔ مختار اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا تو اس نے روپ کور کو پرنام کیا۔ لڑکی پر اس کی نگاہ پڑی تو وہ سمٹ سی گئی۔ مختار مسکرا کر وہاں سے چلا گیا۔ لڑکی روزانہ آنے لگی۔ مختار کو دیکھتی تو سمٹ جاتی۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ رد عمل دور ہوا اور اس کے دماغ سے یہ خیال کسی قدر محو ہوا کہ مختار نے اسے نہاتے دیکھا تھا۔ مختار کو معلوم ہوا کہ اس کا نام شاردرا ہے۔ روپ کور کے چچا کی لڑکی ہے یتیم ہے۔ چیچو کی ملیاں میں ایک غریب رشتہ دار کے ساتھ رہتی تھی۔ روپ کور نے اس کو اپنے پاس بلالیا۔ انٹرنس پاس ہے۔ بڑی ذہین ہے، کیونکہ اس نے کروشیے کا مشکل سے مشکل کام یوں چٹکیوں میں سیکھ لیا تھا۔ دن گزرتے تھے۔ اس دوران میں مختار نے محسوس کیا کہ وہ شاردا کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ دھیرے دھیرے ہوا۔ جب مختار نے اس کو پہلی بار جھرنے میں سے دیکھا تھا تو اس وقت اس کے سامنے ایک نظارہ تھا بڑا فرحت ناک نظارہ۔ لیکن اب شاردا آہستہ آہستہ اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی، مختار نے کئی دفعہ سوچا تھا کہ یہ محبت کا معاملہ بالکل غلط ہے، اس لیے کہ شاردا ہندو ہے۔ مسلمان کیسے ایک ہندو لڑکی سے محبت کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔ مختار نے اپنے آپ کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے محبت کے جذبے کو مٹا نہ سکا۔ شاردا اب اس سے باتیں کرنے لگی تھی مگر کھل کے نہیں اس کے دماغ میں مختار کو دیکھتے ہی یہ احساس بیدار ہو جاتا تھا کہ وہ ننگی نہا رہی تھی اور مختار جھرنے میں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایک روز گھر میں کوئی نہیں تھا۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں کسی عزیز کے چالیسویں پر گئی ہوئی تھیں۔ شاردا حسب معمول اپنا تھیلا اٹھائے صبح دس بجے آئی۔ مختار صحن میں چارپائی پر لیٹا اخبار پڑھ رہا تھا۔ شاردا نے اس سے پوچھا۔

’’بہن جی کہاں ہیں۔ ‘‘

مختار کے ہاتھ کانپنے لگے۔

’’وہ۔ وہ کہیں باہر گئی ہے۔ ‘‘

شاردا نے پوچھا۔

’’ماتا جی؟‘‘

مختار اٹھ کر بیٹھ گیا۔

’’وہ۔ وہ بھی اس کے ساتھ ہی گئی ہیں۔ ‘‘

’’اچھا!‘ یہ کہہ کر شاردا نے کسی قدر گھبرائی ہوئی نگاہوں سے مختار کو دیکھا اور نمستے کرکے چلنے لگی۔ مختار نے اس کو روکا

’’ٹھہرو شاردا!‘‘

شاردرا کو جیسے بجلی کے کرنٹ نے چھو لیا۔ چونک کر رک گئی۔

’’جی؟‘‘

مختار چارپائی پر سے اٹھا

’’بیٹھ جاؤ۔ وہ لوگ ابھی آجائیں گے!‘‘

’’جی نہیں۔ میں جاتی ہوں‘‘

یہ کہہ کر بھی شاردرا کھڑی رہی۔ مختار نے بڑی جرات سے کام لیا۔ آگے بڑھا۔ اس کی ایک کلائی پکڑی اور کھینچ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ مختار اور شادرا دونوں کو ایک لخطے کے لیے بالکل پتا نہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد دونوں لرزنے لگے۔ مختار نے صرف اتنا کہا۔

’’مجھے معاف کردینا!‘‘

شاردرا خاموش کھڑی رہی۔ اس کا تانبے جیسا رنگ سرخی مائل ہو گیا۔ ہونٹوں میں خفیف سی کپکپاہٹ تھی جیسے وہ چھیڑے جانے پر شکایت کررہے ہیں۔ مختار اپنی حرکت اور اس کے نتائج بھول گیا۔ اس نے ایک بار پھر شاردرا کو اپنی طرف کھینچا اور سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ شاردا نے مزاحمت نہ کی۔ وہ صرف مجسمہ حیرت بنی ہوئی تھی۔ وہ ایک سوال بن گئی تھی۔ ایک ایسا سوال جو اپنے آپ سے کیا گیا ہو۔ وہ شاید خود سے پوچھی رہی تھی یہ کیا ہوا ہے۔ یہ کیا ہورہا ہے؟۔ کیا اسے ہونا چاہیے تھا۔ کیا ایسا کسی اور سے بھی ہوا ہے؟ مختار نے اسے چارپائی پر بٹھا لیا اور پوچھا

’’تم بولتی کیوں نہیں ہو شادرا؟‘‘

شادرا کے دوپٹے کے پیچھے اس کا سینہ دھڑک رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مختار کو اس کا یہ سکوت بہت پریشان کن محسوس ہوا۔

’’بولو شاردرا۔ اگر تمہیں میری یہ حرکت بری لگی ہے تو کہہ دو۔ خدا کی قسم میں معافی مانگ لوں گا۔ تمہاری طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھوں گا میں نے کبھی ایسی جرات نہ کی ہوتی، لیکن جانے مجھے کیا ہو گیا ہے۔ دراصل۔ دراصل مجھے تم سے محبت ہے۔ ‘‘

شاردرا کے ہونٹ ہلے جیسے انھوں نے لفظ

’’محبت‘‘

ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختار نے بڑی گرمجوشی سے کہنا شروع کیا۔

’’مجھے معلوم نہیں تم محبت کا مطلب سمجھتی ہو کہ نہیں۔ میں خود اس کے متعلق زیادہ واقفیت نہیں رکھتا، صرف اتنا جانتا ہوں کہ تمہیں چاہتا ہوں۔ تمہاری ساری ہستی کو اپنی اس مٹھی میں لے لینا چاہتا ہوں۔ اگر تم چاہو تو میں اپنی ساری زندگی تمہارے حوالے کردوں گا۔ شاردا تم بولتی کیوں نہیں ہو؟‘‘

شاردا کی آنکھیں خواب گو ہو گئیں۔ مختار نے پھر بولنا شروع کردیا۔

’’میں نے اس روز جھرنے میں سے تمہیں دیکھا۔ نہیں۔ تم مجھے خود دکھائی دیں۔ وہ ایک ایسا نظارہ تھا جو میں تا قیامت نہیں بھول سکتا۔ تم شرماتی کیوں ہو۔ میری نگاہوں نے تمہاری خوبصورت چرائی تو نہیں۔ میری آنکھوں میں صرف اس نظارے کی تصویر ہے۔ تم اسے زندہ کردو تو میں تمہارے پاؤں چوم لوں گا۔ ‘‘

یہ کہہ کر مختار نے شادرا کا ایک پاؤں چوم لیا۔ وہ کانپ گئی۔ چارپائی پر سے ایک دم اٹھ کر اس نے لرزاں آواز میں کہا۔

’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟۔ ہمارے دھرم میں۔ ‘‘

مختار خوشی سے اچھل پڑا۔

’’دھرم ورم کو چھوڑے۔ پریم کے دھرم میں سب ٹھیک ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے شاردا کو چومنا چاہا۔ مگر وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹی اور بڑے شرمیلے انداز میں مسکراتی بھاگ گئی۔ مختار نے چاہا کہ وہ اڑ کر ممٹی پر پہنچ جائے۔ وہاں سے نیچے صحن میں کودے اور ناچنا شروع کردے۔ مختار کی والدہ اور بہن آگئیں تو شاردا آئی۔ مختار کو دیکھ کر اس نے فوراً نگاہیں نیچی کرلیں۔ مختار وہاں سے کھسک گیا کہ راز افشا نہ ہو۔ دوسرے روز اوپر کوٹھے پر چڑھا۔ جھرنے میں سے جھانکا تو دیکھا کہ شاردا کھڑکی کے پاس کھڑی بالوں میں کنگھی کررہی ہے۔ مختار نے اس کو آواز دی۔

’’شاردا۔ ‘‘

شادرا چونکی۔ کنگھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گلی میں جاگری۔ مختار ہنسا۔ شاردرا کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ مختار نے اس سے کہا

’’کتنی ڈرپوک ہو تم۔ ہولے سے آواز دی اور تمہاری کنگھی چھوٹ گئی۔ ‘‘

شاردرا نے کہا۔

’’اب لا کے دیجیے نئی کنگھی مجھے۔ یہ تو موری میں جاگری ہے۔ ‘‘

مختار نے جواب دیا۔

’’ابھی لاؤں۔ ‘‘

شاردرا نے فوراً کہا۔

’’نہیں نہیں۔ میں نے تو مذاق کیا ہے۔ ‘‘

’’میں نے بھی مذاق کیا تھا۔ تمہیں چھوڑ کر میں میں کنگھی لینے جاتا؟۔ کبھی نہیں!‘‘

شاردرا مسکرائی۔

’’میں بال کیسے بناؤں۔ ‘‘

مختار نے جھرنے کے سوراخوں میں اپنی انگلیاں ڈالیں۔

’’یہ میری انگلیاں لے لو!‘‘

شاردرا ہنسی۔ مختار کا جی چاہا کہ وہ اپنی ساری عمر اس ہنسی کی چھاؤں میں گزار دے۔

’’شاردا، خدا کی قسم، تم ہنسی ہو، میرا رؤاں رؤاں شادماں ہو گیا ہے۔ تم کیوں اتنی پیاری ہو؟۔ کیا دنیا میں کوئی اور لڑکی بھی تم جتنی پیاری ہو گی۔ یہ کم بخت جھرنے۔ یہ مٹی کے ذلیل پردے۔ جی چاہتا ہے ان کو توڑ پھوڑ دوں۔ ‘‘

شاردا پھر ہنسی۔ مختار نے کہا۔

’’یہ ہنسی کوئی اور نہ دیکھے، کوئی اور نہ سنے۔ شاردا صرف میرے سامنے ہنسنا۔ اور اگر کبھی ہنسنا ہو تومجھے بلا لیا کرو۔ میں اس کے اردگرد اپنے ہونٹوں کی دیواریں کھڑی کردوں گا۔ ‘‘

شاردرا نے کہا۔

’’آپ باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں۔ ‘‘

’’تو مجھے انعام دو۔ محبت کی ایک ہلکی سی نگاہ ان جھرنوں سے میری طرف پھینک دو۔ میں اسے اپنی پلکوں سے اٹھا کر اپنی آنکھوں میں چھپا لوں گا۔ ‘‘

مختار نے شاردا کے عقب میں دور ایک سایہ سا دیکھا اور فوراً جھرنے سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو کھڑکی خالی تھا۔ شاردرا جا چکی تھی۔ آہستہ آہستہ مختار اور شاردرا دونوں شیر و شکر ہو گئے۔ تنہائی کا موقعہ ملتا تو دیر تک پیار محبت کی باتیں کرتے رہتے۔ ایک دن روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالو مل کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ مختار گلی میں سے گزر رہا تھا کہ اس کو ایک کنکر لگا۔ اس نے اوپر دیکھا شاردا تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔ مختار اس کے پاس پہنچ گیا۔ پورا تخلیہ تھا۔ خوب گھل مل کے باتیں ہوئیں۔ مختار نے اس سے کہا۔

’’اس روز مجھ سے گستاخی ہوئی تھی اور میں نے معافی مانگ لی تھی۔ آج پھر گستاخی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن معافی نہیں مانگوں گا‘‘

اور اپنے ہونٹ شاردرا کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پررکھ دیے۔ شاردرا نے شرمیلی شرارت سے کہا۔

’’اب معافی مانگئے۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ اب یہ ہونٹ آپ کے نہیں۔ میرے ہیں۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔ ‘‘

شاردا نے نگاہیں نیچی کرکے کہا۔

’’یہ ہونٹ کیا۔ میں ہی آپ کی ہوں۔ ‘‘

مختار ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔

’’دیکھو شاردا۔ ہم اس وقت ایک آتش فشاں پہاڑ پر کھڑے ہیں تم سوچ لو، سمجھ لو۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا کہ تمہارے سوا میری زندگی میں اور کوئی عورت نہیں آئے گی۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ زندگی بھر میں تمہارا رہوں گا۔ میری محبت ثابت قدم رہے گی۔ کیا تم بھی اس کا عہد کرتی ہو!‘‘

شاردرا نے اپنی نگاہیں اٹھا کر مختار کی طرف دیکھا۔

’’میرا پریم سچا ہے۔ ‘‘

مختار نے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا اور کہا۔

’’زندہ رہو۔ صرف میرے لیے، میری محبت کے لیے وقف رہو۔ خدا کی قسم شاردا۔ اگر تمہارا التفات مجھے نہ ملتا تو میں یقیناً خود کشی کرلیتا۔ تم میری آغوش میں ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی خوشیوں سے میری جھولی بھری ہوئی ہے۔ میں بہت خوش نصیب ہوں۔ ‘‘

شاردا نے اپنا سر مختار کے کندھے پر گرا دیا۔

’’آپ باتیں کرنا جانتے ہیں۔ مجھ سے اپنے دل کی بات نہیں کہی جاتی۔ ‘‘

دیر تک دونوں ایک دوسرے میں مدغم رہے۔ جب مختار وہاں سے گیا تو اس کی روح ایک نئی اور سہانی لذت سے معمور تھی۔ ساری رات وہ سوچتا رہا دوسرے دن کلکتے چلا گیا جہاں اس کا باپ کاروبار کرتا تھا۔ آٹھ دن کے بعد واپس آیا۔ شاردا حسبِ معمول کروشیے کا کام سیکھنے مقررہ وقت پر آئی۔ اس کی نگاہوں نے اس سے کئی باتیں کیں۔ کہاں غائب رہے اتنے دن؟۔ مجھ سے کچھ نہ کہا اور کلکتے چلے گئے؟۔ محبت کے بڑے دعوے کرتے تھے؟۔ میں نہیں بولوں گی تم سے۔ میری طرف کیا دیکھتے ہو، کیا کہنا چاہتے ہو مجھ سے؟۔ مختار بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر تنہائی نہیں تھی۔ وہ کافی طویل گفتگو اس سے کرنا چاہتا تھا۔ دو دن گزر گئے، موقعہ نہ ملا۔ نگاہوں ہی نگاہوں میں گونگی باتیں ہوتی رہیں۔ آخر تیسرے روز شاردا نے اسے بلایا۔ مختار بہت خوش ہوا۔ روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالہ مل گھر میں نہیں تھے۔ شاردا سیڑھیوں میں ملی۔ مختار نے وہیں اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگانا چاہا، وہ تڑپ کر اوپر چلی گئی۔ ناراض تھی۔ مختار نے اس سے کہا۔

’’دیکھ میری جان، میرے پاس بیٹھو، میں تم سے بہت ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ایسی باتیں جن کا ہماری زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ ‘‘

شاردا اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی۔

’’تم بات ٹالو نہیں۔ بتاؤ مجھے بتائے بغیر کلکتے کیوں گئے۔ سچ میں بہت روئی۔ ‘‘

مختار نے بڑھ کر اس کی آنکھیں چومیں۔

’’اس روز میں جب سے گیا تو ساری رات سوچتا رہا۔ جو کچھ اس روز ہوا اس کے بعد یہ سوچ بچار لازمی تھی۔ ہماری حیثیت میاں بیوی کی تھی۔ میں نے غلطی کی۔ تم نے کچھ نہ سوچا۔ ہم نے ایک ہی جست میں کئی منزلیں طے کرلیں اور یہ غور ہی نہ کیا کہ ہمیں جانا کس طرف ہے۔ سمجھ رہی ہو نا شاردرا۔ ‘‘

شاردا نے آنکھیں جھکالیں۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’میں کلکتے اس لیے گیا تھا کہ ابا جی سے مشورہ کروں۔ تمہیں سن کر خوشی ہو گی میں نے ان کو راضی کرلیا ہے۔

’’مختار کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ شاردا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے کہا۔

’’میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے۔ میں اب تم سے شادی کرسکتا ہوں۔ ‘‘

شاردا نے ہولے سے کہا۔

’’شادی۔ ‘‘

’’ہاں شادی۔ ‘‘

شاردرا نے پوچھا۔

’’کیسے ہو سکتی ہے ہماری شادی؟‘‘

مختار مسکرایا۔

’’اس میں مشکل ہی کیا ہے۔ تم مسلمان ہو جانا!‘‘

شاردرا ایک دم چونکی۔

’’مسلمان۔ ‘‘

مختار نے بڑے اطمینان سے کہا۔

’’ہاں ہاں۔ اس کے علاوہ اور ہوہی کیا سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گھر والے بڑا ہنگامہ مچائیں گے لیکن میں نے اس کا انتظار کرلیا ہے۔ ہم دونوں یہاں سے غائب ہو جائینگے سیدھے کلکتے چلیں گے۔ باقی کام ابا جی کے سپرد ہے جس روز وہاں پہنچیں گے اسی روز مولوی بلا کر تمہیں مسلمان بنا دیں گے۔ شادی بھی اسی وقت ہو جائے گی۔ ‘‘

شاردا کے ہونٹ جیسے کسی نے سی دیے۔ مختار نے اس کی طرف دیکھا۔

’’خاموش کیوں ہو گئیں۔ ‘‘

شاردا نہ بولی۔ مختار کو بڑی الجھن ہوئی۔

’’بتاؤ شاردا کیا بات ہے؟‘‘

شاردا نے بہ مشکل اتنا کہا۔

’’تم ہندو ہو جاؤ۔ ‘‘

’’میں ہندو ہو جاؤں؟‘‘

مختار کے لہجے میں حیرت تھی۔ وہ ہنسا

’’میں ہندو کیسے ہو سکتا ہوں۔ ‘‘

’’میں کیسے مسلمان ہو سکتی ہوں۔ ‘‘

شاردا کی آوار مدھم تھی۔

’’تم کیوں مسلمان نہیں ہوسکتیں۔ میرا مطلب ہے کہ۔ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ اس کے علاوہ اسلام سب سے اچھا مذہب ہے۔ ہندو مذہب بھی کوئی مذہب ہے۔ گائے کا پیشاب پیتے ہیں۔ بت پوجتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ ٹھیک ہے اپنی جگہ یہ مذہب بھی۔ مگر اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

’’مختار کے خیالات پریشان تھے۔ ‘‘

تم مسلمان ہو جاؤ گی تو بس۔ میرا مطلب ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

شاردرا کے چہرے کا تانبے جیسا زرد رنگ زرد پڑ گیا۔

’’آپ ہندو نہیں ہونگے؟‘‘

مختار ہنسا۔

’’پاگل ہو تم؟‘‘

شاردا کا رنگ اور زرد پڑ گیا۔

’’آپ جائیے۔ وہ لوگ آنے والے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ پلنگ پر سے اٹھی۔ مختار متحیر ہو گیا۔ ‘‘

لیکن شاردا۔ ‘‘

’’نہیں نہیں جائیے آپ۔ جلدی جائیے۔ وہ آجائیں گے۔ ‘‘

شاردا کے لہجے میں بے اعتنائی کی سردی تھی۔ مختار نے اپنے خشک حلق سے بہ مشکل یہ الفاظ نکالے

’’ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔

’’شاردا تم ناراض کیوں ہو گئیں؟‘‘

’’جاؤ۔ چلے جاؤ۔ ہمارا ہندو مذہب بہت برا ہے۔ تم مسلمان بہت اچھے ہو۔

’’شاردا کے لہجے میں نفرت تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کردیا۔ مختار اپنا اسلام سینے میں دبائے وہاں سے چلا گیا۔

سعادت حسن منٹو

دودا پہلوان

اسکول میں پڑھتا تھا تو شہر کا حسین ترین لڑکامتصور ہوتا تھا۔ اس پر بڑے بڑے امرد پرستوں کے درمیان بڑی خونخوار لڑائیاں ہوئیں۔ ایک دو اسی سلسلے میں مارے بھی گئے۔ وہ واقعی حسین تھا۔ بڑے مالدار گھرانے کا چشم و چراغ تھا اس لیے اس کو کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ مگر جس میدان وہ کود پڑا تھا اس کو ایک محافظ کی ضرورت تھی جو وقت پر اس کے کام آسکے۔ شہر میں یوں تو سینکڑوں بدمعاش اور غنڈے موجود تھے جو حسین و جمیل صلاحو کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کو تیار تھے، مگر دودے پہلوان میں ایک نرالی بات تھی۔ وہ بہت مفلس تھا، بہت بدمزاج اور اکھڑ طبیعت کا تھا، مگر اس کے باوجود اس میں ایسا بانکپن تھا کہ صلاحو نے اس کو دیکھتے ہی پسند کرلیا اور ان کی دوستی ہو گئی۔ صلاحو کو دودے پہلوان کی رفاقت سے بہت فائدے ہوئے۔ شہر کے دوسرے غنڈے جو صلاحو کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہوسکتے تھے، دودے کی وجہ سے خاموش رہے۔ اسکول سے نکل کر صلاحو کالج میں داخل ہوا تو اس نے اوپر پر پرزے نکالے اور تھوڑے ہی عرصے میں اس کی سرگرمیاں نیا رخ اختیار کرگئیں۔ اس کے بعد خدا کر کرنا ایسا ہوا کہ صلاحو کا باپ مر گیا۔ اب وہ اس کی تمام جائیداد، املاک کا واحد مالک تھا۔ پہلے تو اس نے نقدی پر ہاتھ صاف کیا۔ پھر مکان گروی رکھنے شروع کیے۔ جب دو مکان بک گئے تو ہیرا منڈی کی تمام طوائفیں صلاحو کے نام سے واقف تھیں۔ معلوم نہیں اس میں کہاں تک صداقت ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ ہیرا منڈی میں بوڑھی نائکائیں اپنی جوان بیٹیوں کو صلاحو کی نظروں سے چُھپا چُھپا کر رکھتی تھیں۔ مبادا وہ اس کے حسن کے چکر میں پھنس جائیں۔ لیکن ان احتیاطی تدابیر کے باوجود جیاس کہ سننے میں آیا ہے، کئی کنواری طوائف زادیاں اس کے عشق میں گرفتار ہوئیں اور الٹے رستے پر چل کر اپنی زندگی کے سنہرے ایام اس کے تلون کی نذر کر بیٹھیں۔ صلاحو کُھل کھیل رہا تھا۔ دودے کو معلوم تھا کہ یہ کھیل دیر تک جاری نہیں رہے گا۔ وہ عمر میں صلاحو سے دگنا بڑا تھا۔ اس نے ہیرا منڈی میں بڑے بڑے سیٹھوں کی خاک اڑتے دیکھی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ہیرا منڈی ایک ایسا اندھا کنواں ہے جس کو دنیا بھر کے سیٹھ مل کر بھی اپنی دولت سے نہیں بھر سکتے۔ مگر وہ اس کو کوئی نصیحت نہیں دیتا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ جہاندیدہ ہونے کے باعث اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جو بھوت اس کے حسین و جمیل بابو کے سر پر سوار ہے، اسے کوئی ٹونا ٹوٹکا اتار نہیں سکتا۔ دودا پہلوان ہر وقت صلاحو کے ساتھ ہوتا تھا۔ شروع شروع میں جب صلاحو نے ہیرا منڈی کا رخ کیا تو اس کا خیال تھا کہ دودا بھی اس کے عیش میں شریک ہو گا مگر آہستہ آہستہ اسے معلوم ہوا کہ اس کو اس قسم کے عیش سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جس میں وہ دن رات غرق رہتا تھا۔ وہ گانا سنتا تھا، شراب پیتا تھا۔ طوائفوں سے فحش مذاق بھی کرتا تھا۔ مگر اس سے آگے کبھی نہیں گیا تھا۔ اس کا بابو رات رات بھر اندر کسی معشوق کو بغل میں دبائے پڑا رہتا اور وہ باہر کسی پہرے دار کی طرح جاگتا رہتا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ دودے نے اپنا گھر بھر لیا ہے۔ دولت کی لوٹ مچی ہے۔ اس میں اس نے یقیناً اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب صلاحو داد عیش دینے کو نکلتا تھا ہزاروں نوٹ دودے ہی کی تحویل میں ہوتے تھے۔ مگر یہ صرف اسی کو معلوم تھا کہ پہلوان نے ان میں سے ایک پائی بھی کبھی اِدھر اُدھر نہیں کی۔ اس کو صرف صلاحو سے دلچسپی تھی، جس کو اپنا آقا سمجھتا تھا اور یہ لوگ بھی جانتے تھے کہ دودا کس حد تک اس کا غلام ہے۔ صلاحو اس کو ڈانٹ ڈپٹ لیتا تھا۔ بعض اوقات شراب کے نشے میں اسے مار پیٹ بھی لیتا تھا مگر وہ خاموش رہتا۔ حسین و جمیل صلاحو اس کا معبود تھا۔ وہ اس کے حضور کوئی گستاخی نہیں کرسکتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے دو دا بیمار تھا۔ صلاحو رات کو حسب معمول عیش کرنے کے لیے ہیرا منڈی پہنچا۔ وہاں کسی طوائف کے کوٹھے پر گانا سننے کے دوران میں اس کی جھڑپ ایک تماش بین سے ہو گئی اور ہاتھا پائی میں اس کے ماتھے پر ہلکی سی خراش آگئی۔ دودے کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے دیوار کے ساتھ ٹکر مار مار کر اپنا سارا سر زخمی کرلیا۔ خود کو بے شمار گالیاں دیں۔ بہت برا بھلا کہا۔ اس کو اتنا افسوس ہوا کہ دس پندرہ دن تک صلاحو کے سامنے اس کا سرجھکا رہا۔ ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکلا۔ اس کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس سے کوئی بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے۔ چنانچہ لوگوں کا بیان ہے کہ وہ بہت دیر تک نمازیں پڑھ پڑھ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا رہا۔ صلاحو کی وہ اس طرح خدمت کرتا تھا جس طرح پرانے قصے کہانیوں کے وفادار نوکر کرتے ہیں۔ وہ اس کے جوتے پالش کرتا تھا۔ اس کے پاؤں دابتا تھا۔ اس کے چمکیلے بدن پر مالش کرتا تھا۔ اس کے ہر آرام اور آسائش کا خیال رکھتا تھا جیسے اس کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ کبھی کبھی صلاحو ناراض ہو جاتا۔ یہ وقت دودے پہلوان کے لیے بڑی آزمائش کا وقت ہوتا تھا۔ دنیا سے بیزار ہو جاتا۔ فقیروں کے پاس جا کر تعویذ گنڈے لے لیتا۔ خود کو طرح طرح کی جسمانی تکلیف پہنچاتا۔ آخر جب صلاحو موج میں آکر اسے بلاتا تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ دونوں جہان مل گئے ہیں۔ دودے کو اپنی طاقت پر ناز نہیں تھا، اسے یہ بھی گھمنڈ نہیں تھا کہ وہ چھری مارنے کے فن میں یکتا ہے۔ اس کو اپنی ایمانداری اور اپنے خلوص پر بھی کوئی فخر نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنی اس بات پر بہت نازاں تھا کہ لنگوٹ کا پکا ہے۔ وہ اپنے دوستوں، یاروں کو بڑے فخر و امتیاز سے بتایا کرتا تھا کہ اس کی جوانی میں سینکڑوں مرد عورتیں آئیں، چلتروں کے بڑے بڑے منتر اس پر پھونکے مگر وہ۔ شاباش ہے اس کے استاد کو، لنگوٹ کا پکا رہا۔ یہ بڑ نہیں تھی۔ ان لوگوں کو جو دودے پہلوان کے لنگوٹیے تھے، اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا دامن عورت کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔ متعدد بار کوشش کی گئی کہ وہ گمراہ ہو جائے مگر ناکامی ہوئی۔ وہ ثابت قدم رہا۔ خود صلاحو نے کئی بار اس کا امتحان لیا۔ اجمیر کے عرس پر اس نے میرٹھ کی ایک کافر ادا طوائف انوری کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ دودے پہلوان پر ڈورے ڈالے۔ اس نے اپنے تمام گُر استعمال کرڈالے مگر دودے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ عرس ختم ہونے پر جب وہ لاہور روانہ ہوئی تو گاڑی میں اس نے صلاحو سے کہا۔

’’باؤ! بس اب میرا کوئی امتحان نہ لینا۔ یہ سالی انوری بہت آگے بڑھ گئی تھی۔ تمہارا خیال تھا ورنہ گلا گھونٹ دیتا حرام زادی کا۔ ‘‘

اس کے بعد صلاحو نے اس کا اور کوئی امتحان نہ لیا۔ دودے کے یہ تنبیہی الفاظ کافی تھے جو اس نے بڑے سنگین لہجے میں ادا کیے تھے۔ صلاحو عیش و عشرت میں بدستور غرق تھا۔ اس لیے کہ ابھی تین چار مکان باقی تھے۔ ہیرا منڈی کی تمام قابل ذکر طوائفیں ایک ایک کرکے اس کے پہلو میں آچکی تھیں۔ اب اس نے چھوٹے جاموں کا دور شروع کردیا تھا۔ اسی دوران میں ایک دم کہیں سے ایک طوائف الماس پیدا ہو گئی جو ایک دم ساری ہیرا منڈی پر چھا گئی۔ ہاتھ لگائے میلی ہوتی ہے۔ پانی پیتی ہے تو اس کے شفاف حلق میں سے نظر آتا ہے۔ ہرنی کی سی آنکھیں ہیں جن میں خدا نے اپنے ہاتھ سے سرمہ لگایا ہے۔ بدن ایسا ملائم ہے کہ نگاہیں پھسل پھسل جاتی ہیں۔ صلاحو جہاں بھی جاتا ہے، اس پری چہرہ اور حور شمائل معشوقہ کے حسن و جمال کی باتیں سنتا تھا۔ دودے پہلوان نے فوراً پتہ لگایا اور اپنے بابو کو بتایا کہ یہ الماس کشمیر سے آئی ہے۔ واقعی خوب صورت ہے، ادھیڑ عمر کی ماں اس کے ساتھ ہے جو اس پر بہت کڑی نگرانی رکھتی ہے۔ اس لیے کہ وہ لاکھوں کے خواب دیکھ رہی ہے۔ جب الماس کا مجرا شروع ہوا تو اس کے کوٹھے پر صرف وہی صاحب ثروت جاتے تھے جن کا لاکھوں کا کاروبار تھا۔ صلاحو کے پاس اب اتنی دولت نہیں تھی کہ وہ ان تکڑے دولت مند عیاشوں کا مقابلہ خم ٹھونک کے کرسکے۔ آٹھ دس مجروں ہی میں اس کی حجامت ہوجاتی۔ چنانچہ وہ اسی خیال کے تحت خاموش رہا اور پیچ و تاب کھاتا رہا۔ دودا پہلوان اپنے بابو کی یہ بے چارگی دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا۔ مگر وہ کیا کرسکتا تھا۔ اس کے پاس تھا ہی کیا۔ ایک صرف اس کی جان تھی مگر وہ اس معاملے میں کیا کام دے سکتی تھی۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخر دودے نے ایک ترکیب سوچی جو یہ تھی کہ صلاحو، الماس کی ماں اقبال سے رابطہ پیدا کرے۔ اس پر یہ ظاہر ہے کہ وہ اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے۔ اس طرح جب موقع ملے تو الماس کو اپنے قبضے میں کرلے۔ صلاحو کو یہ ترکیب پسند آئی۔ چنانچہ فوراً اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اقبال بہت خوش ہوئی کہ اس ڈھلتی عمر میں اسے صلاحو جیسا خوبرو چاہنے والا مل گیا۔ یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ اس دوران سینکڑوں مرتبہ الماس صلاحو کے سامنے آئی۔ بعض اوقات اس کے پاس بیٹھ کر باتیں بھی کرتی رہی اور اس کے حسن سے کافی متاثر ہوئی۔ اس کو حیرت تھی کہ وہ اس کی ماں سے کیوں دلچسپی لے رہا ہے جب کہ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ لیکن اس کی یہ حیرت بہت دیر تک قائم نہ رہی۔ جب اس کو صلاحو کی حرکات و سکنات سے معلوم ہو گیا ہے کہ وہ چال چل رہا ہے، اس انکشاف سے اسے خوشی ہوئی۔ اندرونی طور پر اس کے احساس جوانی کو بڑی ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ باتوں باتوں میں ایک دن صلاحو کا ذکر آیا تو الماس نے اس کی خوبصورتی کی تعریف ذرا چٹخارے کے ساتھ بیان کی جو اس کی ماں اقبال کو بہت ناگوار معلوم ہوئی۔ چنانچہ ان دونوں میں خوب چخ چخ ہوئی۔ الماس نے اپنی ماں سے صاف صاف کہہ دیا کہ صلاحو اسے بیوقوف بنا رہا ہے۔ اقبال کو بہت دکھ ہوا۔ یہاں اب بیٹی کا سوال نہیں تھا بلکہ رقیب کا یا موت کا۔ چنانچہ دوسرے روز جب صلاحو آیا تو اس نے سب سے پہلے اس سے پوچھا۔

’’آپ کسے پسند کرتے ہیں، مجھے یا میری بیٹی الماس کو؟‘‘

صلاحو عجب مخمصے میں گرفتار ہو گیا۔ سوال بڑا ٹیڑھا تھا۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس کو بآلاخر یہی کہنا پڑا

’’تمہیں، میں تو صرف تمہیں پسند کرتا ہوں‘‘

اور پھر اسے اقبال کو مزید یقین دلانے کے لیے اور بہت سی باتیں گھڑنا پڑیں۔ اقبال یوں تو بہت چالاک تھی مگر اس کو کسی حد تک یقین آہی گیا۔ شاید اس لیے کہ وہ اپنی عمر کے ایسے موڑ پر پہنچ چکی تھی جہاں اسے چند جھوٹی باتوں کو بھی سچا سمجھنا ہی پڑتا تھا۔ جب یہ بات الماس تک پہنچی تو وہ بہت جزبز ہوئی۔ جونہی اسے موقع ملا، اس نے صلاحو کو پکڑ لیا اور اس سے سچ اگلوانے کی کوشش کی۔ صلاحو زیادہ دیر تک اس کی جرح برداشت نہ کرسکا۔ آخر اسے ماننا ہی پڑا کہ اسے اقبال سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اصل میں تو الماس کا حصول ہی اس کے پیش نظر ہے۔ یہ قبولوانے پر الماس کی تسلی ہوئی، مگر وہ لگاؤ جو اس کے دل و دماغ میں صلاحو کے متعلق پیدا ہوا تھا، غائب ہو گیا اور اس نے ٹھیٹ طوائف بن کر اپنی ماں کو سمجھایا کہ بچپنا چھوڑ دو اوراس سے میرے دام وصول کرو، تمہیں وہ کیا دے گا۔ اپنی لڑکی کی یہ عقل والی بات اقبال کی سمجھ میں آگئی اور وہ صلاحو کو دوسری نظر سے دیکھنے لگی۔ صلاحو بھی سمجھ گیا کہ اس کا وار خالی گیا ہے۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ نیلام میں الماس کی سب سے بڑھ کر بولی دے۔ دودے پہلوان نے ادھر ادھر سے کرید کر معلوم کیا کہ الماس کی نتھنی اتر سکتی ہے اگر صلاحو پچیس ہزار روپے اس کی ماں کے قدموں میں ڈھیر کردے۔ صلاحو اب پوری طرح جکڑا جا چکا تھا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔ اس نے دو مکان بیچے اور پچیس ہزار روپے حاصل کرکے اقبال کے پاس پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اتنی رقم پیدا نہیں کرسکے گا۔ جب وہ لے آیا، تو وہ بوکھلا سی گئی۔ الماس سے مشورہ کیا تو اس نے کہا اتنی جلدی کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ پہلے اس سے کہو کہ ہمارے ساتھ کلیر شریف کے عرس پر چلے۔ صلاحو کو جانا پڑا اور نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ پورے پندرہ ہزار روپے مجروں میں اڑ گئے۔ اس کی ان تماش بینوں پر جو عرس میں شریک ہوئے تھے، دھاک تو بیٹھ گئی مگر اس کے پچیس ہزار روپوں کو دیمک لگ گئی۔ واپس آئے تو باقی کا روپیہ آہستہ آہستہ الماس کی فرمائشوں کی نذر ہو گیا۔ دودا اندر ہی اندر غصے سے کھول رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اقبال اور الماس، دونوں کا سر اڑا دے۔ مگر اسے اپنے بابو کا خیال تھا۔ اس کے دل میں بہت سی باتیں تھیں جو وہ صلاحو کو بتانا چاہتا تھا، مگر بتا نہیں سکتا تھا۔ اس سے اسے اور بھی جھنجھلاہٹ ہوتی۔ صلاحو بہت بری طرح الماس پر لٹو تھا۔ پچیس ہزار روپے ٹھکانے لگ چکے تھے۔ اب وہ دس ہزار روپے اس مکان کو گروی رکھ کر اجاڑ رہا تھا جس میں اس کی نیک سیرت ماں رہتی تھی۔ یہ روپیہ کب تک اس کا ساتھ دیتا۔ اقبال اور الماس دونوں جونک کی طرح چمٹی ہوئی تھی۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب اس پر نالش ہوئی اور عدالت نے اسے قرقی کا حکم دے دیا۔ صلاحو بہت پریشان ہوا، اسے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کوئی ایسا آدمی جو اسے قرض دیتا۔ لے دے کر ایک مکان تھا، سو وہ بھی گروی تھا اور قرقی آئی ہوئی تھی، اور بیلف صرف دودے پہلوان کی وجہ سے رُکے ہوئے تھے جس نے ان کو یقین دلایا تھا کہ وہ بہت جلد روپے کا بندوبست کردے گا۔ صلاحو بہت ہنسا تھا کہ دودا کہاں سے روپے کا بندوبست کرے گا۔ سو دو سو روپے کی بات ہوتی تو اسے یقین آجاتا۔ مگر سوال پورے دس ہزار روپے کا تھا۔ چنانچہ اس نے پہلوان کا بڑی بے دردی سے مذاق اڑایا تھا کہ وہ اس کو طفل تسلیاں دے رہا ہے۔ پہلوان نے یہ لعن طعن خاموشی سے برداشت کی اور چلا گیا۔ دوسرے روز آیا تو اس کا شنگرف ایسا چہرہ زرد تھا۔ ایسا معلوم تھا کہ وہ بستر علالت پر سے اٹھ کر آیا ہے۔ سرنیوڑھا کر اس نے اپنے ڈب میں سے رومال نکالا جس میں سوسو کے کئی نوٹ تھے اور صلاحو سے کہا

’’لے باؤ۔ لے آیا ہوں۔ ‘‘

صلاحو نے نوٹ گنے۔ پورے دس ہزار تھے۔ ٹکر ٹکر پہلوان کا منہ دیکھنے لگا۔

’’یہ روپیہ کہاں سے پیدا کیا تم نے؟‘‘

دودے نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔

’’ہو گیا پیدا کہیں سے۔ ‘‘

صلاحو قرقی کو بھول گیا۔ اتنے سارے نوٹ دیکھے تو اس کے قدم پھر الماس کے کوٹھے کی طرف اٹھنے لگا۔ مگر پہلوان نے اسے روکا۔

’’نہیں باؤ۔ الماس کے پاس نہ جاؤ۔ یہ روپیہ قرقی والوں کو دو۔ ‘‘

صلاحو نے بگڑے ہوئے بچے کی مانند کہا۔

’’کیوں؟۔ میں جاؤں گا الماس کے پاس۔ ‘‘

دودے نے کڑے لہجے میں کہا۔

’’تو نہیں جائے گا!‘‘

صلاحو طیش میں آگیا۔

’’تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا!‘‘

دودے کی آواز نرم ہو گئی۔

’’میں تیرا غلام ہوں باؤ۔ پر اب الماس کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ‘‘

دودے کی آواز میں لرزش پیدا ہو گئی۔

’’نہ پوچھ باؤ۔ یہ روپیہ مجھے اسی نے دیا ہے۔ ‘‘

صلاحو قریب قریب چیخ اٹھا۔

’’یہ روپیہ الماس نے دیا ہے۔ تمہیں دیا ہے؟‘‘

’’ہاں باؤ۔ اسی نے دیا ہے۔ مجھ پر بہت دیر سے مرتی تھی سالی، پر میں اس کے ہاتھ نہیں آتا تھا۔ تجھ پر تکلیف کا وقت آیا تو میرے دل نے کہا دودے چھوڑ اپنی قسم کو۔ تیرا باؤ تجھ سے قربانی مانگتا ہے۔ سو میں کل رات اس کے پاس گیا اور۔ اور۔ اور اس سے یہ سودا کرلیا۔ ‘‘

دودے کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

سعادت حسن منٹو

دس روپے

وہ گلی کے اس نکڑ پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اور اس کی ماں اسے چالی (بڑے مکان جس میں کئی منزلیں اور کئی چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ہیں) میں ڈھونڈ رہی تھی۔ کشوری کو اپنی کھولی میں بٹھا کر اور باہر والے سے کافی چائے لانے کے لیے کہہ کروہ اس چالی کی تینوں منزلوں میں اپنی بیٹی کو تلاش کر چکی تھی۔ مگر جانے وہ کہاں مر گئی تھی۔ سنڈاس کے پاس جا کر بھی اس نے آواز دی۔

’’اے سریتا۔ سریتا!‘‘

مگر وہ تو چالی میں تھی ہی نہیں اور جیسا کہ اس کی ماں سمجھ رہی تھی۔ اب اسے پیچش کی شکایت بھی نہیں تھی۔ دوا پِیے بغیر اس کو آرام آچکا تھا۔ اور وہ باہر گلی کے اس نکڑ پر جہاں کچرے کا ڈھیر پڑا رہتا ہے، چھوٹی چھوٹی لڑکیوں سے کھیل رہی تھی اور ہر قسم کے فکر و تردّد سے آزاد تھی۔ اس کی ماں بہت متفکر تھی۔ کشوری اندر کھولی میں بیٹھا تھا۔ اور جیسا کہ اس نے کہا تھا، دو سیٹھ باہر بڑے بازار میں موٹر لیے کھڑے تھے لیکن سریتا کہیں غائب ہی ہو گئی تھی۔ موٹر والے سیٹھ ہر روز تو آتے ہی نہیں، یہ تو کشوری کی مہربانی ہے کہ مہینے میں ایک دو بار موٹی اسامی لے آتا ہے۔ ورنہ ایسے گندے محلے میں جہاں پان کی پیکوں اور جلی ہوئی بیڑیوں کی ملی جلی بو سے کشوری گھبراتا ہے، سیٹھ لوگ کیسے آسکتے ہیں۔ کشوری چونکہ ہوشیار ہے اس لیے وہ کسی آدمی کو مکان پر نہیں لاتا بلکہ سریتا کو کپڑے وپڑے پہنا کر باہر لے جایا کرتا ہے اور ان لوگوں سے کہہ دیا کرتا ہے کہ

’’صاحب لوگ آج کل زمانہ بڑا نازک ہے۔ پولیس کے سپاہی ہر وقت گھات میں لگے رہتے ہیں۔ اب تک دو سو دھندا کرنے والی چھوکریاں پکڑی جاچکی ہیں۔ کورٹ میں میرا بھی ایک کیس چل رہا ہے۔ اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘

سریتا کی ماں کو بہت غصہ آرہا تھا۔ جب وہ نیچے اتری تو سیڑھیوں کے پاس رام دئی بیٹھی بیڑیوں کے پتے کاٹ رہی تھی۔ اس سے سریتا کی ماں نے پوچھا۔

’’تو نے سریتا کو کہیں دیکھا ہے۔ جانے کہاں مر گئی ہے، بس آج مجھے مل جائے وہ چار چوٹ کی مار دوں کہ بند بند ڈھیلا ہو جائے۔ لوٹھا کی لوٹھا ہو گئی ہے پر سارا دن لونڈوں کے ساتھ کدکڑے لگاتی رہتی ہے۔ ‘‘

رام دئی بیڑیوں کے پتے کاٹتی رہی۔ اور اس نے سریتا کی ماں کو جواب نہ دیا۔ دراصل رام دئی سے سریتا کی ماں نے کچھ پوچھا ہی نہیں تھا۔ وہ یونہی بڑبڑاتی ہوئی اس کے پاس سے گزر گئی۔ جیسا کہ اس کا عام دستور تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن اسے سریتا کو ڈھونڈنا پڑتا تھا اور رام دئی کو جو کہ سارا دن سیڑھیوں کے پاس پٹاری سامنے رکھے بیڑیوں پر لال اور سفید دھاگے لپیٹی رہتی تھی مخاطب کرکے یہی الفاظ دہرایا کرتی تھی۔ ایک اور بات وہ چالی کی ساری عورتوں سے کہا کرتی تھی۔

’’میں تو اپنی سریتا کا کسی بابو سے بیاہ کروں گی۔ اسی لیے تو اس سے کہتی ہوں کہ کچھ پڑھ لکھ لے۔ یہاں پاس ہی ایک اسکول منسی پالٹی(میونسپلٹی) نے کھولا ہے۔ سوچتی ہوں اس میں سریتا کو داخل کرادوں، بہن اس کے پِتا کو بڑا شوق تھا کہ میری لڑکی لکھی پڑھی ہو۔ ‘‘

اس کے بعد وہ ایک لمبی آہ بھر کر عام طور پر اپنے مرے ہوئے شوہر کا قصہ چھیڑ دیتی تھی۔ جو چالی کی ہر عورت کو زبانی یاد تھا۔ رام دئی سے اگر آپ پوچھیں کہ اچھا جب سریتا کے باپ کو جو ریلوائی میں کام کرتا تھا۔ بڑے صاحب نے گالی دی تو کیا ہوا تو رام دئی فوراً آپ کو بتا دے گی کہ سریتا کے باپ کے منہ میں جھاگ بھر آیا۔ اور وہ صاحب سے کہنے لگا۔

’’میں تمہارا نوکر نہیں ہوں۔ سرکار کا نوکر ہوں۔ تم مجھ پر رعب نہیں جما سکتے۔ دیکھو اگر پھر گالی دی تو یہ دونوں جبڑے حلق کے اندر کردوں گا۔ ‘‘

بس پھر کیا تھا۔ صاحب تاؤ میں آگیا، اور اس نے ایک اور گالی سنا دی۔ اس پر سریتا کے باپ نے غصے میں آکر صاحب کی گردن پر دھول جما دی کہ اس کا ٹوپ دس گزپر جا گرا اور اس کو دن میں تارے نظر آگئے۔ مگر پھر بھی وہ بڑا آدمی تھا آگے بڑھ کر اس نے سریتا کے باپ کے پیٹ میں اپنے فوجی بوٹ سے اس زور کی ٹھوکر ماری کہ اس کی تلی پھٹ گئی اور وہیں لائنوں کے پاس گر کر اس نے جان دے دی۔ سرکار نے صاحب پر مقدمہ چلایا۔ اور پورے پانچ سو روپے سریتا کی ماں کو اس سے دلوائے مگر قسمت بُری تھی۔ اس کو سٹہ کھیلنے کی چاٹ پڑ گئی۔ اور پانچ مہینے کے اندر اندر سارا روپیہ برباد ہو گیا۔ سریتا کی ماں کی زبان پر ہرقت یہ کہانی جاری رہتی تھی لیکن کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ۔ چالی میں سے کسی آدمی کو بھی سریتا کی ماں سے ہمدردی نہ تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ سب کے سب خود ہمدردی کے قابل تھے، کوئی کسی کا دوست نہیں تھا۔ اس بلڈنگ میں اکثر آدمی ایسے رہتے تھے جو دن بھر سوتے تھے اور رات کو جاگتے تھے۔ کیونکہ انھیں رات کو پاس والی مل میں کام پر جانا ہوتا تھا۔ اس بلڈنگ میں سب آدمی بالکل پاس رہتے تھے۔ لیکن کسی کو ایک دوسرے سے دلچسپی نہ تھی۔ چالی میں قریب قریب سب لوگ جانتے تھے کہ سریتا کی ماں اپنی جوان بیٹی سے پیشہ کراتی ہے لیکن چونکہ وہ کسی کے ساتھ اچھا بُرا سلوک کرنے کے عادی ہی نہ تھے، اس لیے سریتا کی ماں کو کوئی جھٹلانے کی کوشش نہ کرتا تھا جب وہ کہا کرتی تھی میری بیٹی کو تو دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں۔ البتہ ایک روز صبح سویرے نل کے پاس جب تکا رام نے سریتا کو چھیڑا تھا تو سریتا کی ماں بہت چیخی چلائی تھی۔ اس موئے گنجے کو تو کیوں سنبھال کے نہیں رکھتی۔ پرماتما کرے دونوں آنکھوں سے اندھا ہو جائے۔ جن سے اس نے میری کنواری بیٹی کی طرف بُری نظروں سے دیکھا۔ سچ کہتی ہوں۔ ایک روز ایسا فساد ہو گا کہ اس تیری سوغات کا مارے جوتوں کے سر پلپلا کردوں گی۔ باہر جو چاہے کرتا پھرے یہاں اسے بھلے مانسوں کی طرح رہنا ہو گا۔ سنا!‘‘

اور یہ سن کر تکا رام کی بھینگی بیوی دھوتی باندھتے باندھتے باہر نکل آئی۔

’’خبردار موئی چڑی جو تو نے ایک لفظ بھی اور زبان سے نکالا۔ یہ تیری دیوی تو ہوٹل کے چھوکروں سے بھی آنکھ مچولی کھیلتی ہے اور تو کیا ہم سب کو اندھا سمجھتی ہے کیا ہم سب جانتے نہیں کہ تیرے گھر میں نت نئے بابو کس لیے آتے ہیں۔ اور یہ تیری سریتا آئے دن بن سنور کر باہر کیوں جاتی ہے۔ بڑی آئی عزت آبرو والی۔ جا جا دور دفان ہو یہاں سے۔ ‘‘

تکارام کی بھینگی بیوی کے متعلق بہت سی باتیں مشہور تھیں۔ لیکن یہ بات خاص طور پر سب لوگوں کو معلوم تھی کہ گھانسلیٹ والا(مٹی کا تیل بیچنے والا) تیل دینے کے لیے آتا ہے تو وہ اسے اندر بلا کر دروازہ بند کرلیا کرتی ہے۔ چنانچہ سریتا کی ماں نے اس خاص بات پر بہت زور دیا۔ وہ بار بار نفرت بھرے لہجے میں اس سے کہتی۔

’’وہ تیرا یار گھانسلیٹ۔ دو دو گھنٹے اسے کھولی میں بٹھا کر کیا تو اس کا گھانسلیٹ سونگھتی رہتی ہے؟‘‘

تکا رام کی بیوی سے سریتا کی ماں کی بول چال زیادہ دیر تک بند نہ رہی تھی کیونکہ ایک روز سریتا کی ماں نے رات کو اپنی اس پڑوسن کو گھپ اندھیرے میں کسی سے میٹھی میٹھی باتیں کرتے پکڑ لیا تھا اور دوسرے ہی روز تکا رام کی بیوی نے جب وہ رات کو پانے دھونی کی طرف سے آرہی تھی۔ سریتا کو ایک جنٹلمین آدمی کے ساتھ موٹر میں بیٹھے دیکھ لیا۔ چنانچہ ان دونوں کا آپس میں سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ اسی لیے سریتا کی ماں نے تکا رام کی بیوی سے پوچھا۔

’’تو نے کہیں سریتا کو نہیں دیکھا؟‘‘

تکا رام کی بیوی نے بھینگی آنکھ سے گلی کے نکڑ کی طرف دیکھا۔

’’وہاں گھورے کے پاس پٹواری کی لونڈیا سے کھیل رہی ہے۔ ‘‘

پھر اس نے آواز دھیمی کرکے اس سے کہا۔

’’ابھی ابھی کشوری اوپر گیا تھا کہ تجھ سے ملا؟‘‘

سریتا کی ماں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ہولے سے کہا۔

’’اوپر بٹھا آئی ہوں پر یہ سریتا ہمیشہ وقت پر کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ کچھ سوچتی نہیں۔ بس دن بھر کھیل کود چاہیے۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ گھورے کی طرف بڑھی اور جب سیمنٹ کی بنی ہوئی موتری(پیشاب گاہ) کے پاس آئی تو سریتا فوراً اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے چہرے پر افسردگی کے آثار پیدا ہو گئے۔ جب اس کی ماں نے خشم آلود لہجے میں اس کا بازو پکڑ کر کہا۔

’’چل گھرمیں چل کے مَر۔ تجھے تو سوائے اچھل کود کے اور کوئی کام ہی نہیں۔ ‘‘

پھر راستے میں اس نے ہولے سے کہا۔

’’کشوری بڑی دیر سے آیا بیٹھا ہے، ایک موٹر والے سیٹھ کو بلایا ہے۔ چل تو بھاگ کے اوپر چل اور جلدی جلدی تیار ہو جا۔ اور سن۔ وہ نیلی جارجٹ کی ساڑھی پہن۔ اور دیکھ یہ تیرے بال بھی بہت بُری طرح بکھر رہے ہیں۔ تو جلدی تیار ہو۔ کنگھی میں کردوں گی۔ ‘‘

یہ سن کر کہ موٹر والے سیٹھ آئے ہیں، سریتا بہت خوش ہوئی۔ اسے سیٹھ سے اتنی دلچسپی نہیں تھی جتنی کہ موٹر سے تھی۔ موٹر کی سواری اسے بہت پسند تھی۔ جب موٹر فراٹے بھرتی کھلی کھلی سڑکوں پر چلتی اور اس کے منہ پر ہوا کے طمانچے پڑتے، تو اس کے دل میں ایک ناقابلِ بیان مسرت ابلنا شروع ہو جاتی۔ موٹر میں بیٹھ کر اس کو ہر شے ایک ہوائی چکر دکھائی دیتی اور سمجھتی کہ وہ خود ایک بگولا ہے جو سڑکوں پر اڑتا چلا جارہا ہے۔ سریتا کی عمر زیادہ سے زیادہ پندرہ برس کی ہو گی۔ مگر اس میں بھنپا تیرہ برس کی لڑکیوں کا سا تھا۔ عورتوں سے ملنا جلنا اور ان سے باتیں کرنا بالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ سارا دن چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ اونٹ پٹانگ کھیلوں میں مصروف رہتی۔ ایسے کھیل جن کا کوئی مطلب ہی نہ ہو۔ مثال کے طور پر وہ گلی کے کالے لُک پھرے فرش پر کھریا مٹی سے لکیریں کھینچنے میں بہت دلچسپی لیتی تھی اور اس کھیل میں وہ اس انہماک سے مصروف رہتی۔ جیسے سڑک پر یہ ٹیڑھی بنگی لکیریں اگر نہ کھینچی گئیں تو آمدورفت بند ہو جائے گی، اور پھر کھولی سے پرانے ٹاٹ اٹھا کروہ اپنی ننھی ننھی سہیلیوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹے ان کو فٹ پاتھ پر جھٹکنے صاف کرنے، بچھانے اور ان پر بیٹھنے کے غیر دلچسپ کھیل میں مشغول رہتی تھی۔ سریتا خوبصورت نہیں تھی۔ رنگ اس کا سیاہی مائل گندمی تھا۔ بمبئی کے مرطوب موسم کے باعث اس کے چہرے کی جلد ہر وقت چکنی رہتی تھی۔ اورپتلے پتلے ہونٹوں پر جو چیکو( ایک پھل جس کا رنگ گندمی ہوتا ہے) کے چھلکے دکھائی دیتے تھے، ہر وقت خفیف سی لرزش طاری رہتی تھی۔ اوپر کے ہونٹ پر پسینے کی تین چار ننھی ننھی بوندیں ہمیشہ کپکپاتی رہتی تھیں۔ اس کی صحت اچھی تھی۔ غلاظت میں رہنے کے باوجود اس کا جسم سڈول اور متناسب تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ا س پر جوانی کا حملہ بڑی شدت سے ہوا ہے جس نے مخالف قوتوں کو دبا کے رکھ دیاہے۔ قد چھوٹا تھا جو اس کی تندرستی میں اضافہ کرتا تھا۔ سڑک پر پھرتی سے ادھر ادھر چلتے ہوئے جب اس کی میلی گھگری اوپر کو اٹھ جاتی تو کئی راہ چلنے والے مردوں کی نگاہیں اس کی پنڈلیوں کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ جن میں جوانی کے باعث تازہ رندہ کی ہوئی ساگوان کی لکڑی جیسی چمک دکھائی دیتی تھی۔ ان پنڈلیوں پر جو بالوں سے بالکل بے نیاز تھیں۔ مساموں کے ننھے ننھے نشان دیکھ کر ان سنگتروں کے چھلکے یاد آجاتے تھے جن کے چھوٹے چھوٹے خلیوں میں تیل بھرا ہوتا ہے اور جو تھوڑے سے دباؤ پر فوارے کی طرح اوپر اٹھ کر آنکھوں میں گھس جایا کرتا ہے۔ سریتا کی باہیں بھی سڈول تھیں۔ کندھوں پر ان کی گولائی موٹے اور بڑے بیڈھب طریقے پر سلے ہوئے بلاؤز کے باوجود باہر جھانکتی تھی۔ بال بڑے گھنے اور لمبے تھے۔ ان میں سے کھوپرے کے تیل کی بو آتی رہتی تھی۔ ایک موٹے کوڑے کے مانند اس کی چوٹی پیٹھ کو تھپکتی رہتی تھی۔ سریتا اپنے بالوں کی لمبائی سے خوش نہیں تھی کیونکہ کھیل کود کے دوران میں اس کی چوٹی اسے بہت تکلیف دیا کرتی تھی اور اسے مختلف طریقوں سے اس کو قابو میں رکھنا پڑتا تھا۔ سریتا کا دل و دماغ ہر قسم کے فکر و تردّد سے آزاد تھا۔ دونوں وقت اسے کھانے کو مل جاتا تھا۔ اس کی ماں گھر کا سب کام کاج کرتی تھی۔ صبح کو سریتا دو بالٹیاں بھر کر اندر رکھ دیتی اور شام کو ہر روز لیمپ میں ایک پیسے تیل بھروالاتی۔ کئی برسوں سے وہ یہ کام بڑی باقاعدگی سے کررہی تھی۔ چنانچہ شام کو عادت کے باعث خود بخود اس کا ہاتھ اس پیالے کی طرف بڑھتا جس میں پیسے پڑے رہتے تھے اور لیمپ اٹھا کر وہ نیچے چلی جاتی۔ کبھی کبھی یعنی مہینے میں چار پانچ بار جب کشوری سیٹھ لوگوں کو لاتا تھا۔ تو ان کے ساتھ ہوٹل میں یا باہر اندھیرے مقاموں پر جانے کو وہ تفریح خیال کرتی تھی۔ اس نے اس باہر جانے کے سلسلے کے دوسرے پہلوؤں پرکبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ شاید یہ سمجھتی تھی کہ دوسری لڑکیوں کے گھر میں بھی کشوری جیسے آدمی آتے ہوں گے اور ان کو سیٹھ لوگوں کے ساتھ باہر جانا پڑتا ہو گا۔ اوروہاں رات کو ورلی کے ٹھنڈے ٹھنڈے بنچوں پر یا جوہو کی گیلی ریت پر جو کچھ ہوتا ہے سب کے ساتھ ہوتا ہو گا۔ چنانچہ اس نے ایک بار اپنی ماں سے کہا تھا۔

’’ماں اب تو شانتا بھی کافی بڑی ہو گئی۔ اس کو بھی میرے ساتھ بھیج دو نا۔ یہ سیٹھ جو اب آئے ہیں۔ ابلے انڈے کھانے کو دیا کرتے ہیں۔ اور شانتا کو انڈے بہت بھاتے ہیں۔ ‘‘

اس پر اس کی ماں نے بات گول مول کردی تھی۔

’’ہاں ہاں کسی روز اس کو بھی تمہارے ساتھ بھیج دوں گی۔ اس کی ماں پونہ سے واپس تو آجائے۔ ‘‘

اور سریتا نے دوسرے روز ہی شانتا کو جب وہ سنڈاس سے نکل رہی تھی، یہ خوش خبری سنائی تھی۔

’’تیری ماں پُونہ سے آجائے تو سب معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔ تو بھی میرے ساتھ ورلی جایا کرے گی۔ ‘‘

اور اس کے بعد سریتا نے اس کو رات کی بات کچھ اس طریقے پر سنانا شروع کی تھی جیسے اس نے ایک ہی پیارا سپنا دیکھا ہے۔ شانتا کو جو سریتا سے دو برس چھوٹی تھی یہ باتیں سن کر ایسا لگا تھا جیسے اس کے سارے جسم کے اندر ننھے ننھے گھنگھرو بج رہے ہیں۔ سریتا کی سب باتیں سن کر بھی اس کو تسلی نہ ہوئی تھی اور اس کا بازو کھینچ کر اس نے کہا تھا۔

’’چل نیچے چلتے ہیں۔ وہاں باتیں کریں گے۔ ‘‘

اور نیچے اس موتری کے پاس جہاں گردھاری بنیا نے بہت سے ٹاٹوں پر کھوپرے کے میلے ٹکڑے سکھانے کے لیے ڈال رکھے تھے، وہ دونوں دیر تک کپکپی کرنے والی باتیں کرتی رہی تھیں۔ اس وقت بھی جب کہ سریتا دھوتی کے پردے کے پیچھے نیلی جارجٹ کی ساڑھی پہن رہی تھی۔ کپڑے کے مس ہی سے اس کے بدن پر گدگدی ہورہی تھی اور موٹر کی سیر کا خیال اس کے دماغ میں پرندوں کی سی پھڑپھڑاہٹیں پیدا کررہا تھا۔ اب کی بار سیٹھ کیسا ہو گا اور اسے کہاں لے جائے گا۔ یہ اور اسی قسم کے اور سوال اس کے دماغ میں نہیں آرہے تھے۔ البتہ جلدی جلدی کپڑے بدلتے ہوئے اس نے ایک دو مرتبہ یہ ضرور سوچا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ موٹر چلے اور چند ہی منٹوں میں کسی ہوٹل کے دروازے پر ٹھہر جائے اور ایک بند کمرے میں سیٹھ شراب پینا شروع کردیں اور اس کا دم گھٹنا شروع ہو جائے۔ اسے ہوٹلوں کے بند کمرے پسند نہیں تھے۔ جن میں عام طور پر لوہے کی دو چارپائیاں اس طور بچھی ہوتی تھیں گویا ان پر جی بھر کے سونے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ جلدی جلدی اس نے جارجٹ کی ساڑھی پہنی اور اس کی شکنیں درست کرتی ہوئی ایک لمحے کے لیے کشوری کے سامنے آکھڑی ہوئی۔

’’کشوری، ذرا دیکھو۔ پیچھے سے ساڑھی ٹھیک ہے نا؟‘‘

اور جواب کا انتظار کیے بغیر وہ لکڑی کے اس ٹوٹے ہوئے بکس کی طرف بڑھی جس میں اس نے جاپانی سرخی رکھی ہوئی تھی۔ ایک دھندلے آئینے کو کھڑکی کی سلاخوں میں اٹکا کر اس نے دوہری ہو کر اپنے گالوں پر پوڈر لگایا۔ اور سرخی لگا کر جب بالکل تیار ہو گئی تو مسکرا کر کشوری کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ شوخ رنگ کی نیلی ساڑھی میں، ہونٹوں پر بے ترتیبی سے سرخی کی دھڑی جمائے اور سانولے گالوں پر پیازی رنگ کا پوڈر ملے وہ مٹی کا ایک ایسا کھلونا معلوم ہوئی جو دیوالی پر کھلونے بیچنے والوں کی دکان میں سب سے زیادہ نمایاں دکھائی دیا کرتاہے۔ اتنے میں اس کی ماں آگئی۔ اس نے جلدی جلدی سریتا کے بال درست کیے اور کہا۔

’’دیکھو بٹیا اچھی اچھی باتیں کرنا۔ اور جو کچھ وہ کہیں مان لینا۔ یہ سیٹھ جو آئے ہیں نا بڑے آدمی ہیں موٹر ان کی اپنی ہے۔ ‘‘

پھر کشوری سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’اب تو جلدی سے لے جا اسے۔ بچارے کب کے کھڑے راہ دیکھ رہے ہوں گے۔ ‘‘

باہر بڑے بازار میں جہاں ایک کارخانے کی لمبی دیوار دور تک چلی گئی ہے۔ ایک پیلے رنگ کی موٹر میں تین حیدرآبادی نوجوان اپنی اپنی ناک پر رومال رکھے کشوری کا انتظار کررہے تھے۔ وہ موٹر آگے لے جاتے مگر مصیبت یہ ہے کہ دیوار دور تک چلی گئی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی پیشاب کا سلسلہ بھی۔ جب گلی کے موڑ سے ان نوجوان کو جو موٹر کا ہینڈل تھامے بیٹھا تھا۔ کشوری نظر آیا تو اس نے اپنے باقی دو ساتھیوں سے کہا۔

’’لو بھئی آگئے۔ یہ ہے کشوری۔ اور۔ اور۔ ‘‘

اس نے موٹر کی طرف نگاہیں جمائے رکھیں۔ اور۔ اور۔ ارے یہ تو بالکل ہی چھوٹی لڑکی ہے۔ ذرا تم بھی دیکھو نا۔ ارے بھئی وہ۔ وہ نیلی ساڑھی میں۔ ‘‘

جب کشوری اور سریتا دونوں موٹر کے پاس آگئے تو پچھلی سیٹ پر جو دو نوجوان بیٹھے تھے۔ انھوں نے درمیان میں سے اپنے ہیٹ وغیرہ اٹھا لیے۔ اور جگہ خالی کردی کشوری نے آگے بڑھ کے موٹر کے پچھلے حصے کا دروازہ کھولا اور پھرتی سے سریتا کو اندر داخل کردیا۔ دروازہ بند کرکے کشوری نے اس نوجوان سے جو موٹر کا ہینڈل تھامے تھا۔ کہا۔

’’معاف کیجیے گا دیر ہو گئی۔ یہ باہر اپنی کسی سہیلی کے پاس گئی ہوئی تھی۔ تو۔ تو؟‘‘

نوجوان نے مڑ کر سریتا کی طرف دیکھا۔ اور کشوری سے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ لیکن دیکھو۔ ‘‘

سرک کر موٹر کی اس کھڑی میں سے اس نے اپنا سر باہر نکالا اور ہولے سے کشوری کے کان میں کہا۔

’’شور وور تو نہیں مچائے گی؟‘‘

کشوری نے اس کے جواب میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کرکہا۔

’’سیٹھ، آپ مجھ پر بھروسہ رکھیے۔ ‘‘

یہ سن کر اس نوجوان نے جیب میں سے دو روپے نکالے اور کشوری کے ہاتھ میں تھما دیے۔

’’جاؤ عیش کرو۔ ‘‘

کشوری نے سلام کیا اور موٹر اسٹارٹ ہوئی۔ شام کے پانچ بجے تھے۔ بمبئی کے بازاروں میں گاڑیوں، ٹراموں، بسوں اور لوگوں کی آمدورفت بہت زیادہ تھی۔ سریتا خاموشی سے دو آدمیوں کے بیچ میں دبکی بیٹھی رہی۔ بار بار اپنی رانوں کو جوڑ کراوپر ہاتھ رکھ دیتی اور کچھ کہتے کہتے خاموش ہو جاتی۔ وہ دراصل موٹر چلانے والے نوجوان سے کہنا چاہتی تھی۔

’’سیٹھ جلدی جلدی موٹر چلاؤ۔ میرا تویوں دم گھٹ جائے گا۔ ‘‘

بہت دیر تک موٹر میں کسی نے ایک دوسرے سے بات نہ کی۔ موٹر والا موٹر چلاتا رہا۔ اور پچھلی سیٹ پر دونوں حیدرآبادی نوجوان اپنی اچکنوں میں وہ اضطراب چھپاتے رہے جو پہلی دفعہ ایک نوجوان لڑکی کو بالکل اپنے پاس دیکھ کر انھیں محسوس ہورہا تھا۔ ایسی نوجوان لڑکی جو کچھ عرصے کے لیے ان کی اپنی تھی یعنی جس سے وہ بلا خوف و خطر چھیڑ چھاڑ کر سکتے تھے۔ وہ نوجوان جوموٹر چلا رہا تھا۔ دو برس سے بمبئی میں قیام پذیر تھا اور سریتا جیسی کئی لڑکیاں دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں دیکھ چکا تھا۔ اس کی پیلی موٹر میں مختلف رنگ و نسل کی چھوکریاں داخل ہو چکی تھیں۔ اس لیے اسے کوئی خاص بے چینی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ حیدر آباد کے اس کے دو دوست آئے تھے، ان میں سے ایک جس کا نام شہاب تھا۔ جو بمبئی میں پوری طرح سیر و تفریح کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے کفایت نے یعنی موٹر کے مالک نے ازراہ دوست نوازی کشوری کے ذریعہ سے سریتا کا انتظام کردیا تھا۔ دوسرے دوست انور سے کفایت نے کہا کہ بھئی تمہارے لیے بھی ایک رہے تو کیا ہرج ہے۔ مگر اس میں چونکہ اخلاقی قوت کم تھی۔ اس لیے شرم کے مارے وہ یہ نہ کہہ سکا کہ ہاں بھئی میرے لیے بھی ایک رہے۔ کفایت نے سریتا کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کیونکہ کشوری بہت دیر کے بعد یہ نئی چھوکری نکال کر لایا تھا۔ لیکن اس نئے پن کے باوجود اس نے ابھی تک اس سے دلچسپی نہ لی تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ ایک وقت میں صرف ایک کام کرسکتا تھا۔ موٹر چلانے کے ساتھ ساتھ وہ سریتا کی طرف دھیان نہیں دے سکتا تھا۔ جب شہر ختم ہو گیا اور موٹر مضافات کی سڑک پر چلنے لگی تو سریتا اچھل پڑی۔ وہ دباؤ جو اب تک اس نے اپنے اوپر ڈال رکھا تھا، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں اور اڑتی ہوئی موٹر نے ایک دم اٹھا دیا۔ اور سریتا کے اندر بجلیاں سی دوڑ گئیں۔ وہ سر تا پا حرکت بن گئی۔ اس کی ٹانگیں تھرکنے لگیں۔ بازو ناچنے لگے، انگلیاں کپکپانے لگیں اور وہ اپنے دونوں طرف بھاگتے ہوئے درختوں کو دوڑتی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ اب انور اور شہاب آرام محسوس کررہے تھے۔ شہاب نے جو سریتا پر اپنا حق سمجھتا تھا۔ ہولے سے اپنا بازو اس کی کمر میں حائل کرنا چاہا۔ ایک دم سریتا کے گدگدی اٹھی۔ تڑپ کر وہ انور پر جا گری۔ اور پیلی موٹر کی کھڑکیوں میں سے دور تک سریتا کی ہنسی بہتی گئی۔ شہاب نے جب ایک بار پھر اس کی کمر کی طرف ہاتھ بڑھایا تو سریتا دوہری ہو گئی اور ہنستے ہنستے اس کا بُرا حال ہو گیا۔ انور ایک کونے میں دبکا رہا اور منہ میں تھوک پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ شہاب کے دل و دماغ میں شوخ رنگ بھر گئے۔ اس نے کفایت سے کہا۔

’’واللہ بڑی کراری لونڈیا ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے زور سے سریتا کی ران میں چٹکی بھری۔ سریتا نے اس کے جواب میں انور کا ہولے سے کان مروڑ دیا۔ اس لیے کہ وہ اس کے بالکل پاس تھا۔ موٹر میں قہقہے ابلنے لگے۔ کفایت بار بار مڑ مڑ کر دیکھتا تھا۔ حالانکہ اسے اپنے سامنے چھوٹے سے آئینے میں سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ قہقہوں کے زور کا ساتھ دینے کی خاطر اس نے موٹر کی رفتاربھی تیز کردی۔ سریتا کا جی چاہا کہ باہر نکل کر موٹر کے منہ پر بیٹھ جائے جہاں لوہے کی اُڑتی ہوئی پری لگی تھی۔ وہ آگے بڑھی۔ شہاب نے اسے چھیڑا، سو سنبھلنے کی خاطر اس نے کفایت کے گلے میں اپنی باہیں حمائل کردیں۔ کفایت نے غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ چوم لیے۔ ایک سنسنی سی سریتا کے جسم میں دوڑ گئی اور پھاند کر اگلی سیٹ پر کفایت کے پاس بیٹھ گئی۔ اور اس کی ٹائی سے کھیلنا شروع کردیا۔

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

اس نے کفایت سے پوچھا۔

’’میرا نام!‘‘

کفایت نے پوچھا۔

’’میرا نام کفایت ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے دس روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ سریتا نے اس کے نام کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور نوٹ اپنی چولی میں اڑس کر بچوں کی طرح خوش ہو کر کہا۔

’’تم بہت اچھے آدمی ہو۔ تمہاری یہ ٹائی بہت اچھی ہے۔ ‘‘

اس وقت سریتا کو ہر شے اچھی نظر آرہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ جو بُرے بھی ہیں اچھے ہو جائیں۔ اور۔ اور۔ پھر ایسا ہو، ایسا ہو۔ کہ موٹر تیز دوڑتی رہے اور ہر شے ہوائی بگولا بن جائے۔ ایک دم اس کا جی چاہا کہ گائے، چنانچہ اس نے کفایت کی ٹائی سے کھیلنا بند کرکے گانا شروع کردیا ؂ تمہیں نے مجھ کو پریم سکھایا سوئے ہوئے ہر دے کو جگایا کچھ دیر یہ فلمی گیت گانے کے بعد سریتا ایک دم پیچھے مڑی اور انور کو خاموش دیکھ کر کہنے لگی۔

’’تم کیوں چپ چاپ بیٹھے ہو۔ کوئی بات کرو۔ کوئی گیت گاؤ۔ ‘‘

یہ کہتی ہوئی وہ اچک کر پچھلی سیٹ پر چلی گئی اور شہاب کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگی۔

’’آؤ ہم دونوں گائیں۔ تمہیں یاد ہے وہ گانا جو دیویکا رانی نے گایا تھا۔ میں بن کے چڑیا بن کے بولوں رے۔ دیویکا رانی کتنی اچھی ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنی تھوڑی کے نیچے رکھ لیے اور آنکھیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ اشوک کمار اور دیویکا رانی پاس پاس کھڑے تھے۔ دیویکا رانی کہتی تھی۔ میں بن کی چڑیا بن کے بن بن بولوں رے۔ اور اشوک کمار کہتا تھا۔ تم کہو نا۔ ‘‘

سریتا نے گانا شروع کردیا۔ میں بن کی چڑیا بن کے بولوں رے۔ شہاب نے بھدی آواز میں گایا۔

’’میں بن کا پنچھی بن کے بن بن بولوں رے۔ ‘‘

اور پھر باقاعدہ ڈؤٹ شروع ہو گیا۔ کفایت نے موٹر کا ہارن بجا کرتال کا ساتھ دیا۔ سریتا نے تالیاں بجانا شروع کردیں۔ سریتا کا باریک سر، شہاب کی پھٹی ہوئی آواز، ہارن کی پوں پوں، ہوا کی سائیں سائیں اور موٹر کے انجن کی پُھرپھراہٹ یہ سب مل جل کر ایک آرکسٹرا بن گئے۔ سریتا خوش تھی، شہاب خوش تھا، کفایت خوش تھا۔ ان سب کو خوش دیکھ کر انور کو بھی خوش ہونا پڑا۔ وہ دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ خواہ مخواہ اس نے اپنے کو قید کر رکھا ہے۔ اس کے بازوؤں میں حرکت پیدا ہوئی۔ اس کے سوئے ہوئے جذبات نے انگڑائیاں لیں اور وہ سریتا، شہاب اور کفایت کی شور افشاں خوشی میں شریک ہونے کے لیے تیار ہو گیا۔ گاتے گاتے سریتا نے انور کے سر سے اس کا ہیٹ اتار کر اپنے سر پہن لیا اور یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے سر پر کیسا لگتا ہے، اچک کر اگلی سیٹ پر چلی گئی اور ننھے سے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگی۔ انور سوچنے لگا کہ کیا موٹر میں وہ شروع ہی سے ہیٹ پہنے بیٹھا تھا۔ سریتا نے زور سے کفایت کی موٹی ران پر طمانچہ مارا۔

’’اگر میں تمہاری پتلون پہن لوں۔ اور قمیض پہن کر ایسی ٹائی لگالوں تو کیا پورا صاحب نہ بن جاؤں؟‘‘

یہ سن کر شہاب کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے۔ چنانچہ اس نے انور کے بازوؤں کو جھنجھوڑ دیا۔

’’واللہ تم نرے چغد ہو۔ ‘‘

اور انور نے تھوڑی دیر کے لیے محسوس کیا کہ وہ واقعی بہت بڑا چغد ہے۔ کفایت نے سریتا سے پوچھا۔

’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’میرا نام‘‘

سریتا نے ہیٹ کے فیتے کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے جماتے ہوئے کہا۔

’’میرا نام سریتا ہے۔ ‘‘

شہاب پچھلی سیٹ سے بولا۔

’’سریتا تم عورت نہیں پھلجھڑی ہو۔ ‘‘

انور نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر سریتا نے اونچے سروں میں گانا شروع کردیا۔ ؂ پریم نگر میں بناؤں گی گھر میں تج کے سب سن سا آ آر کفایت اور شہاب کے دل میں بیک وقت یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ موٹر یونہی ساری عمر چلتی رہے۔ انور پھر سوچ رہا تھا کہ وہ چغد نہیں ہے تو کیا ہے۔ ؂ پریم نگر میں بناؤں گی گھر میں تج کے سب سن سا آ آر سنسار کے ٹکڑے دیر تک اڑتے رہے۔ سریتا کے بال جو اس کی چوٹی کی گرفت سے آزاد تھے۔ یوں لہرا رہے تھے جیسے گاڑھا دھواں ہوا کے دباؤ سے بکھر رہا ہے۔ وہ خوش تھی۔ شہاب خوش تھا، کفایت خوش تھا اور اب انور بھی خوش ہونے کا ارادہ کررہا تھا۔ گیت ختم ہو گیا۔ اور سب کو تھوڑی دیر کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ جو زور کی بارش ہورہی تھی۔ ایکا ایکی تھم گئی ہے۔ کفایت نے سریتا سے کہا۔

’’کوئی اور گیت گاؤ۔ ‘‘

شہاب پچھلی سیٹ سے بولا۔

’’ہاں ہاں ایک اور رہے۔ یہ سینما والے بھی کیا یاد کریں گے۔ ‘‘

سریتا نے گانا شروع کردیا ؂ مورے آنگنا میں آئے آلی میں چال چلوں متوالی موٹر بھی متوالی چال چلنے لگی۔ آخر کار سڑک کے سارے پیچ ختم ہو گئے اور سمندر کا کنارا آگیا۔ دن ڈھل رہا تھا۔ اور سمندر سے آنے والی ہوا خنکی اختیار کررہی تھی۔ موٹر رُکی۔ سریتا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور ساحل کے ساتھ ساتھ دور تک بے مقصد دوڑتی چلی گئی۔ کفایت اور شہاب بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ کھلی فضا میں، بے پایاں سمندر کے پاس، تاڑ کے اونچے اونچے پیڑوں تلے گیلی گیلی ریت پر سریتا سمجھ نہ سکی کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ بیک وقت فضا میں گُھل مل جائے، سمندر میں پھیل جائے، اتنی اونچی ہو جائے کہ تاڑ کے درختوں کو اوپر سے دیکھے۔ ساحل کی ریت کی ساری نمی پیروں کے ذریعے سے اپنے اندر جذب کرلے اور پھر۔ اور پھر۔ وہی موٹر ہو اور وہی اڑانیں وہی تیز تیز جھونکے اور وہی مسلسل پوں پوں۔ وہ بہت خوش تھی۔ جب تینوں حیدرآبادی نوجوان ساحل کی گیلی گیلی ریت پر بیٹھ کر بیئر پینے لگے تو کفایت کے ہاتھ سے سریتا نے بوتل چھین لیا۔

’’ٹھہرو میں ڈالتی ہوں۔ ‘‘

سریتا نے اس انداز سے گلاس میں بیئر انڈیلی کہ جھاگ ہی جھاگ پیدا ہو گئے۔ سریتا یہ تماشا دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ سانولے سانولے جھاگوں میں اس نے اپنی انگلی کھبوئی۔ اور منہ میں ڈال لی۔ جب کڑوی لگی تو بہت بُرا منہ بنایا۔ کفایت اور شہاب بے اختیار ہنس پڑے جب دونوں کی ہنسی بند ہوئی تو کفایت نے مڑ کر اپنے پیچھے دیکھا۔ انور بھی ہنس رہا تھا۔ بیئر کی چھ بوتلیں کچھ تو جھاگ بن کر ساحل کی ریت میں جذب ہو گئیں اور کچھ کفایت، شہاب اور انور کے پیٹ میں چلی گئیں۔ سریتا گاتی رہی۔ انور نے ایک بار اس کی طرف دیکھا اور خیال کیا کہ سریتا بیئر کی بنی ہوئی ہے۔ اس کے سانولے گال سمندر کی نم آلود ہوا کے مس سے گیلے ہورہے تھے۔ وہ بے حد مسرور تھی۔ اب انور بھی خوش تھا۔ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ سمندر کا سب پانی بیئر بن جائے اور وہ اس میں غوطے لگائے، سریتا بھی ڈبکیاں لگائے۔ دو خالیں بوتلیں لے کر سریتا نے ایک دوسرے سے ٹکرا دیں، جھنکار پیدا ہوئی اور سریتا نے زور زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ کفایت، شہاب اور انور بھی ہنسنے لگے۔ ہنستے ہنستے سریتا نے کفایت سے کہا۔

’’آؤ موٹر چلائیں۔ ‘‘

سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ خالی بوتلیں گیلی گیلی ریت پر اوندھی پڑی رہیں اور وہ سب بھاگ کر موٹر میں بیٹھ گئے۔ پھر وہی ہوا کے تیز تیز جھونکے آنے لگے۔ وہی مسلسل پوں پوں شروع ہوئی اور سریتا کے بال پھر دھوئیں کی طرح بکھرنے لگے۔ گیتوں کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔ موٹر ہوا میں آرے کی طرح چلتی رہی۔ سریتا گاتی رہی۔ پچھلی سیٹ پر شہاب اور انور کے درمیان سریتا بیٹھی تھی۔ انور اونگھ رہا تھا۔ سریتا نے شرارت سے شہاب کے بالوں میں کنگھی کرنا شروع کی۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سو گیا، سریتا نے جب انور کی طرف رخ کیا تو اسے ویسا ہی سویا ہوا پایا۔ ان دونوں کے بیچ میں سے اٹھ کر وہ اگلی سیٹ پر کفایت کے پاس بیٹھ گئی اور آواز دبا کر ہولے سے کہنے لگے۔ آپ کے دونوں ساتھیوں کو سُلا آئی ہوں۔ اب آپ بھی سو جائیے۔ ‘‘

کفایت مسکرایا۔

’’پھر موٹر کون چلائے گا۔ ‘‘

سریتا بھی مسکرائی۔

’’چلتی رہے گی۔ ‘‘

دیر تک کفایت اور سریتا آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اتنے میں وہ بازار آگیا۔ جہاں کشوری نے سریتا کو موٹر کے اندر داخل کیا تھا۔ جب وہ دیوار آئی جس پر

’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘

کے کئی بورڈ لگے تھے۔ تو سریتا نے کفایت سے کہا۔

’’بس یہاں روک لو۔ ‘‘

موٹر رُکی۔ پیشتر اس کے کہ کفایت کچھ سوچنے یا کہنے پائے۔ سریتا موٹر سے باہر تھی اس نے اشارے سے سلام کیا اور چل دی۔ کفایت ہینڈل پر ہاتھ رکھے غالباً سارے واقعہ کو ذہن میں تازہ کرنے کی کوشش کررہا تھاکہ سریتا کے قدم رُکے۔ مڑی اور چولی میں سے دس روپے کا نوٹ نکال کر کفایت کے پاس سیٹ پر رکھ دیا۔ کفایت نے حیرت سے نوٹ کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

’’سریتا یہ کیا؟‘‘

’’یہ۔ یہ روپے میں کس بات کے لوں؟‘‘

کہہ کر سریتا پُھرتی سے دوڑ گئی اور کفایت سیٹ کے گدے پر پڑے ہوئے نوٹ کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ اس نے مڑ کر پچھلی سیٹ کی طرف دیکھا۔ شہاب اور انور بھی نوٹ کی طرح سو رہے تھے۔

سعادت حسن منٹو

خوشیا

خوشیا سوچ رہا تھا۔ بنواری سے کالے تمباکو والا پان لے کر وہ اس کی دکان کے ساتھ اُس سنگین چبوترے پر بیٹھا تھا۔ جو دن کے وقت ٹائروں اور موٹروں کے مختلف پرزوں سے بھرا ہوتا ہے۔ رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب موٹر کے پُرزے اور ٹائر بیچنے والوں کی یہ دکان بند ہو جاتی ہے۔ اور اس کا سنگین چبوترہ خوشیا کے لیے خالی ہو جاتا ہے۔ وہ کالے تمباکو والا پان آہستہ آہستہ چبا رہا تھا۔ اور سوچ رہا تھا۔ پان کی گاڑھی تمباکو ملی پیک اس کے دانتوں کی ریخوں سے نکل کر اس کے منہ میں ادھر اُدھر پھسل رہی تھی۔ اور اسے ایسا لگتا تھا کہ اس کے خیالی دانتوں تلے پیس کر اس کی پیک میں گھل رہے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اسے پھینکنا نہیں چاہتا تھا۔ خوشیا پان کی پیک منہ میں پلپلا رہا تھا۔ اور اس واقعہ پر شور کر رہا تھا جو اس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یعنی آدھ گھنٹہ پہلے۔ وہ اسے سنگین چبوترے پر حسبِ معمول بیٹھنے سے پہلے کھیت واڑی کی پانچویں گلی میں گیا تھا۔ بنگلور سے جو نئی چھوکری کانتا آئی تھی۔ اُسی گلی کے نکڑ پر رہتی تھی۔ خوشیاسے کسی نے کہا تھا کہ وہ اپنا مکان تبدیل کر رہی ہے چنانچہ وہ اسی بات کا پتہ لگانے کے لیے وہاں گیا تھا۔ کانتا کی کھولی کا دروازہ اس نے کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی

’’کون ہے؟‘‘

اس پر خوشیا نے کہا۔

’’میں خوشیا‘‘

آواز دوسرے کمرے سے آئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھُلا خوشیا اندر داخل ہُوا۔ جب کانتا نے دروازہ اندر سے بند کیا۔ تو خوشیا نے مُڑ کر دیکھا۔ اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے کانتا کو بالکل ننگا دیکھا۔ بالکل ننگا۔ ہی سمجھو۔ کیونکہ وہ اپنے انگ کو صرف ایک تولیے سے چھپائے ہُوئے تھی چھپائے ہُوئے بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ چھپانے کی جتنی چیزیں ہوتی ہیں۔ وہ تو سب کی سب خوشیا کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے تھیں۔

’’کہو خوشیا کیسے آئے؟ ۔۔۔۔۔ میں بس اب نہانے والی ہی تھی۔ بیٹھو بیٹھو۔۔۔۔۔۔ باہر والے سے اپنے لیے چائے کا تو کہہ آئے ہوتے۔۔۔۔۔۔ جانتے تو ہو وہ مواراما یہاں سے بھاگ گیا ہے۔ ‘‘

خوشیا جس کی آنکھوں نے کبھی عورت کو یوں، چاتک طور پر ننگا نہیں دیکھا تھا۔ بہت گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے؟ اس کی نظریں جو ایک دم عریانی سے دو چار ہو گئی تھیں۔ اپنے آپ کو کہیں چھپانا چاہتی تھیں۔ اس نے جلدی جلدی صرف اتنا کہا۔

’’جاؤ۔ جاؤ تم سنا لو، پھر ایک دم اس کی زبان کھل گئی۔

’’پر جب تم ننگی تھیں تو دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اندر سے کہہ دیا ہوتا میں پھر آ جاتا۔ لیکن جاؤ۔ تم نہا لو۔ ‘‘

کانتا مسکرائی جب تم نے کہا خوشیا ہے۔ تو میں نے سوچا۔ کیا ہرج ہے۔ اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو۔ ‘‘

کانتا کی یہ مسکراہٹ، بھی تک خوشیا کے دل و دماغ میں تیر رہی تھی۔ اس وقت بھی کانتا کا ننگا جسم موم کے پتلے کی مانند اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑا تھا اور پگھل پگھل کر اس کے اندر جارہا تھا۔ اس کا جسم خوبصورت تھا۔ پہلی مرتبہ خوشیا کو معلوم ہوا کہ جسم بیچنے والی عورتیں بھی ایسا سڈول بدن رکھتی ہیں۔ اس کو اس بات پر حیرت ہوئی تھی۔ پر سب سے زیادہ تعجب اسے اس بات پر ہوا تھا کہ ننگ دھڑنگ وہ اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اور اس کو لاج تک نہ آئی۔ کیوں؟ اس کا جواب کانتا نے یہ دیا تھا۔

’’جب تم نے کہا خوشیا ہے۔ تو میں نے سوچا کیا ہرج ہے اپنا خوشیا ہی تو ہے۔ آنے دو۔ ‘‘

کانتا اور خوشیا ایک ہی پیشے میں شریک تھے۔ وہ اس کا دلال تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسی کا تھا۔ پر یہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس کے سامنے ننگی ہو جاتی۔ کوئی خاص بات تھی۔ کانتا کے الفاظ میں خوشیا کوئی اور ہی مطلب کرید رہا تھا۔ یہ مطلب بیک وقت اس قدر صاف اور اس قدر مبہم تھا کہ خوشیا کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا تھا۔ اس وقت بھی وہ کانتا کے ننگے جسم کو دیکھ رہا تھا، جو ڈھولکی پر منڈھے ہوئے چمڑے کی طرح تنا ہوا تھا۔ اس کی لڑھکتی ہوئی نگاہوں سے بالکل بے پروا! کئی بارحیرت کے عالم میں بھی اس نے اس کے سانولے سلونے بدن پر ٹوہ لینے والی نگاہیں گاڑی تھیں مگر اس کا ایک رواں تک بھی نہ کپکپایا تھا۔ بس سانولے پتھر کی مُورتی کی مانند کھڑی رہی۔ جو احساس سے عاری ہو۔

’’بھئی! ایک مرد اس کے سامنے کھڑا تھا۔ مرد جس کی نگاہیں کپڑوں، میں بھی عورت کے جسم تک پہنچ جاتی ہیں اور جو پرماتما جانے خیال ہی خیال میں کہاں کہاں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن وہ ذرا بھی نہ گھبرائی اور۔ اور اس کی آنکھیں ایسا سمجھ لو کہ ابھی لانڈری سے دُھل کر آئی ہیں۔ اس کو تھوڑی سی لاج تو آنی چاہیے تھی۔ ذرا سی سُرخی تو اس کے دیدوں میں پیدا ہونی چاہیے۔ مان لیا۔ کیسی تھی۔ پر کسبیاں یوں ننگی تو نہیں کھڑی ہو جاتیں۔ ‘‘

دس برس اُس کو دلالی کرتے ہو گئے تھے۔ اور ان دس برسوں میں وہ پیشہ کرانے والی لڑکیوں کے تمام رازوں سے واقف ہو چکا تھا۔ مثال کے طور پر اُسے یہ معلوم تھا کہ پائے دھونی کے آخری سرے پر جو چھوکری ایک نوجوان لڑکے کو بھائی بنا کر رہتی ہے۔ اس لیے اچھوت کنیا کا ریکارڈ ہے کرتا مورکھ پیار پیار‘‘

اپنے ٹوٹے ہوئے باجے پر بجایا کرتی ہے کہ اُسے اشوک کمار سے بہت بُری طرح عشق ہے۔ کئی من چلے لونڈے اشوک کمار سے اُس کی ملاقات کرانے کا جھانسہ دے کر اپنا اُلّو سیدھا کر چکے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا۔ کہ داور میں جو پنجابن رہتی ہے صرف اس لیے کوٹ پتلون پہنتی ہے کہ اُس کے ایک یار نے اس سے کہا تھا کہ تیری ٹانگیں تو بالکل اس انگریز ایکٹرس کی طرح ہیں جس نے

’’مراکو عرف خونِ تمنّا‘‘

میں کام کیا تھا۔ یہ فلم اُس نے کئی بار دیکھی۔ اور جب اس کے یار نے کہا کہ مارلین ڈیٹرچ اس لیے پتلون پہنتی ہے کہ اس کی ٹانگیں بہت خوبصورت ہیں۔ اور ان ٹانگوں کا اس نے دو لاکھ کا بیمہ کرا رکھا ہے۔ تو اس نے بھی پتلون پہننی شروع کر دی۔ جو اس کے چوتڑوں میں بہت پھنس کر آتی تھی۔ اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ

’’مز گاؤں‘‘

والی دکھشنی چھوکری صرف اس لیے کالج کے خوبصورت لونڈوں کو پھانستی ہے کہ اسے ایک خوبصورت بچے کی ماں بننے کا شوق ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ وہ کبھی اپنی خواہش پوری نہ کر سکے گی، اس لیے کہ بانجھ ہے۔ اور اس کالی مدراسن کی بابت جو ہر وقت کانوں میں ہیرے کی بوٹیاں پہنے رہتی تھی اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اس کا رنگ کبھی سفید نہیں ہو گا۔ اور وہ ان دواؤں پر بیکار روپیہ برباد کر رہی ہے۔ جو آئے دن خریدتی رہتی ہے۔ اس کو ان تمام چھوکریوں کا اندر باہر کا حال معلوم تھا۔ جو اس کے حلقے میں شامل تھیں۔ مگر اس کو یہ خبر نہ تھی کہ ایک روز کانتا کماری جس کا اصلی نام اتنا مشکل تھا کہ وہ عمر بھر یاد نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کے سامنے ننگی کھڑی ہو جائیگی۔ اور اس کو زندگی کے سب سے بڑے تعجب سے دوچار کرائے گی۔ سوچتے سوچتے اس کے منہ میں پان کی پیک اس قدر جمع ہو گئی تھی۔ کہ اب وہ مشکل سے چھالیا کے ان ننھے ننھے ریزوں کو چبا سکتا تھا۔ جو اس کے دانتوں کی ریخوں میں سے ادھر اُدھر پھسل کر نکل جاتے تھے۔ اس کے تنگ ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہو گئی تھیں۔ جیسے ململ میں پنیر کو آہستہ سے دبا دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اُس کے مردانہ وقار کو دھکا سا پہنچا تھا جب وہ کانتا کے ننگے جسم کو اپنے تصور میں لاتا تھا۔ اُسے محسوس ہوتا تھا۔ جیسے اُس کا اپمان ہوا ہے۔ ایک دم اُس نے اپنے دل میں کہا۔

’’بھئی یہ اپمان نہیں ہے تو کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک چھوکری ننگ دھڑنگ سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور کہتی ہے اس میں حرج ہی کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ تم خوشیا ہی تو ہو۔۔۔۔۔۔۔ خوشیا نہ ہوا، سالا وہ بلا ہو گیا۔ جو اُس کے بستر پر ہر وقت اُونگھتا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟‘‘

اب اسے یقین ہونے لگا کہ سچ مچ اس کی ہتک ہوئی ہے۔ وہ مرد تھا۔ اور اس کو اس بات کی غیر محسوس طریق پر توقع تھی۔ کہ عورتیں خواہ شریف ہوں یا بازاری اُس کو مرد ہی سمجھیں گی۔ اور اس کے اور اپنے درمیان وہ پردہ قائم رکھیں گی جو ایک مدت سے چلا آ رہا ہے۔ وہ تو صرف یہ پتہ لگانے کے لیے کانتا کے یہاں گیا تھا کہ وہ کب مکان تبدیل کر رہی ہے؟ اور کہاں جا رہی ہے؟ کانتا کے پاس اُس کا جانا یکسر بزنس سے متعلق تھا۔ اگر خوشیا کانتا کی بابت سوچتا کہ جب وہ اس کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ تو وہ اندر کیا کر رہی ہو گی۔ تواس کے تصّور میں زیادہ سے زیادہ اتنی باتیں آ سکتی تھیں۔ سر پر پٹی باندھے لیٹ رہی ہو گی۔ بّلے کے بالوں میں سے پِسّو نکال رہی ہو گی۔ اُس بال صفا پوڈر سے اپنی بغلوں کے بال اڑا رہی ہو گی۔ جو اتنی باس مارتا تھا کہ خوشیا کی ناک برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ پلنگ پر اکیلی بیٹھی تاش پھیلائے پبشینس کھیلنے میں مشغول ہو گی۔ بس اتنی چیزیں تھیں جو اس کے ذہن میں آتیں۔ گھر میں وہ کسی کو رکھتی نہیں تھی۔ اس لیے اس بات کا خیال ہی نہیں آ سکتا تھا۔ پر خوشیا نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو کام سے وہاں گیا تھا۔ کہ اچانک کانتا۔۔۔۔۔ یعنی کپڑے پہننے والی کانتا۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ کہ وہ کانتا جس کو وہ ہمیشہ کپڑوں میں دیکھا کرتا تھا۔ اس کے سامنے بالکل ننگی کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔۔ بالکل ننگی ہی سمجھو۔ کیونکہ ایک چھوٹا سا تولیہ سب کچھ تو چھپا نہیں سکتا۔ خوشیا کو یہ نظارہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوا تھا جیسے چھلکا اس کے ہاتھ میں رہ گیا ہے اور کیلے کا گوداپُرچ کر کے اُس کے سامنے آ گرا ہے۔ نہیں اُسے کچھ اور ہی محسوس ہوا تھا۔ جیسے۔۔۔۔۔ جیسے وہ خود ننگا (ہو) گیا ہے۔ اگر بات یہاں تک ہی ختم ہو جاتی تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ خوشیا اپنی حیرت کو کسی نہ کسی حیلے سے دُور کر دیتا۔ مگر یہاں مصیبت یہ آن پڑی تھی کہ اُس لونڈیا نے مُسکرا کر یہ کہا تھا۔

’’جب تم نے کہا۔ خوشیا ہے تو میں نے سوچا اپنا خوشیا ہی تو ہے آنے دو‘‘

۔۔۔۔۔۔ یہ بات اُسے کھائے جا رہی تھی۔

’’سالی مُسکرا رہی تھی‘‘

۔۔۔۔۔۔ وہ بار بار بڑبڑاتا جس طرح کانتا ننگی تھی اسی طرح کی مسکراہٹ خوشیا کو ننگی نظر آئی تھی یہ مسکراہٹ ہی نہیں اسے کانتا کا جسم بھی اس حد تک نظر آیا تھا۔ گویا اس پر رندا پھرا ہوا ہے۔ اسے بار بار بچپن کے وہ دن یاد آ رہے تھے۔ جب پڑوس کی ایک عورت اس سے کہا کرتی تھی۔

’’خوشیا بیٹا جا دوڑ کے جا، یہ بالٹی پانی سے بھر لا جب وہ بالٹی بھرکے لایا کرتا تھا تو وہ دھوتی سے بنائے پردے کے پیچھے سے کہا کرتی تھی‘‘

اندر آکے یہاں میرے پاس رکھ دے۔ میں نے منہ پر صابن ملا ہُوا ہے۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا‘‘

وہ دھوتی کا پردہ ہٹا کر بالٹی اس کے پاس رکھ دیا کرتا تھا۔ اس وقت صابن کے جھاگ میں لپٹی ہوئی ننگی عورت اُسے نظر آیا کرتی تھی مگر اس کے دل میں کسی قسم کا ہیجان پیدا نہیں ہوتا تھا۔

’’بھئی میں اُس وقت بچہ تھا۔ بالکل بھولا بھالا۔ بچے اور مرد میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بچوں سے کون پردہ کرتا ہے۔ مگر اب تو میں پورا مرد ہوں۔ میری عمر اس وقت اٹھائیس برس کے قریب ہے۔ اور اٹھائیس برس کے جوان آدمی کے سامنے تو کوئی بوڑھی عورت بھی ننگی کھڑی نہیں ہوتی۔ ‘‘

کانتا نے اسے کیا سمجھا تھا۔ کیا اس میں وہ تمام باتیں نہیں تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہوتی ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کانتا کو یک بیک ننگ دھڑنگ دیکھ کر بہت گھبرایا تھا لیکن چور نگاہوں سے کیا اس نے کانتا کی اُن چیزوں کا جائزہ نہیں لیا۔ جو روزانہ استعمال کے باوجود اصلی حالت پر قائم تھیں۔ اور کیا تعجب کے ہوتے ہوئے اس کے دماغ میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ دس روپے میں کانتا بالکل مہنگی نہیں۔ اور دسہرے کے روز بنک کا وہ منشی جو دو روپے کی رعایت نہ ملنے پر واپس چلا گیا تھا۔ بالکل گدھا تھا؟ ۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ ان سب کے اوپر، کیا ایک لمحے کے لیے اس کے تمام پٹھوں میں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ پیدا نہیں ہو گیا تھا۔ اور اس نے ایک ایسی انگڑائی نہیں لینا چاہی تھی۔ جس سے اُس کی ہڈیاں چٹخنے لگیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا وجہ تھی کہ منگلور کی اس سانولی چھوکری نے اس کو مرد نہ سمجھا اور صرف۔۔۔۔۔۔۔ صرف خوشیا سمجھ کر اس کو اپنا سب کچھ دیکھنے دیا؟ اُس نے غصّے میں آکر پان کی گاڑھی پیک تھوک دی جس نے فٹ پاتھ پر کئی بیل بوٹے بنا دیے۔ پیک تھوک کر وہ اٹھا اور ٹرام میں بیٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔ گھر میں اس نے نہا دھو کر نئی دھوتی پہنی جس بلڈنگ میں رہتا تھا اس کی ایک دکان میں سیلون تھا۔ اس کے اندر جا کر اُس نے آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ پھر فوراً ہی کچھ خیال آیا۔ تو کُرسی پر بیٹھ گیا۔ اور بڑی سنجیدگی سے اس نے داڑھی مونڈنے کے لیے حجام سے کہا۔

’’آج چونکہ وہ دوسری مرتبہ داڑھی منڈوا رہا تھا۔ اس لیے حجام نے کہا۔

’’ارے بھئی خوشیا بھول گئے کیا؟ صبح ہی میں نے ہی تو تمہاری داڑھی مونڈی تھی اس پر خُوشیا نے بڑی متانت سے داڑھی پر الٹا ہاتھ پھیرتے ہُوئے کہا۔

’’کھونٹی اچھی طرح نہیں نکلی۔۔۔۔۔۔‘‘

اچھی طرح کھونٹی نکلوا کر اور چہرے پر پوڈر ملوا کر وہ سیلون سے باہر نکلا۔ سامنے ٹیکسیوں کا اڈا تھا۔ بمبے کے مخصوس انداز میں اُس نے

’’چھی چھی‘‘

کرکے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور انگلی کے اشارے سے اُسے ٹیکسی لانے کے لیے کہا۔ جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ گیا تو ڈرائیور نے مڑ کر اس سے پوچھا۔

’’صاحب کہاں جانا ہے صاحب؟‘‘

ان چار لفظوں نے اور خاص طور پر

’’صاحب‘‘

نے خوشیا کو بہت مسرُور کیا۔ مُسکرا کر اس نے بڑے دوستانہ لہجہ میں جواب دیا۔

’’بتائیں گے، پہلے تم‘‘

اکپرا ہاؤس کی طرف چلو۔۔۔۔۔۔ لیمنگٹن روڈ سے ہوتے ہوئے۔ سمجھیے!‘‘

ڈرائیور نے میٹر کی لال جھنڈی کا سر نیچے دبا دیا۔ ٹن ٹن ہوئی اور ٹیکسی نے لیمنگٹن روڈ کا رخ کیا۔ لیمنگٹن روڈ کا جب آخری سرا آ گیا۔ تو خوشیا نے ڈرائیور کو ہدایت دی

’’بائیں ہاتھ موڑ لو‘‘

ٹیکسی بائیں ہاتھ مڑ گئی۔ ابھی ڈرائیور نے گیئر بھی نہ بدلا تھا کہ خوشیا نے کہا یہ سامنے والے کھمبے کے پاس روک لیناذرا۔ ‘‘

ڈرائیور نے عین کھمبے کے پاس ٹیکسی کھڑی کر دی۔ خوشیا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ اور ایک پان والے کی دکان کی طرف بڑھا۔ یہاں سے اُس نے ایک پان لیا۔ اور اس آدمی سے جو کہ دکان کے پاس کھڑا تھا۔ چند باتیں کیں۔ اور اُسے اپنے ساتھ ٹیکسی میں بٹھاکر ڈرائیور سے کہا۔

’’سیدھے لے چلو۔ ‘‘

دیر تک ٹیکسی چلتی رہی۔ خوشیا نے جدھر اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے ادھر ہینڈل پھرا دیا۔ مختلف پُررونق بازاروں میں سے ہوتے ہوئے ٹیکسی ایک نیم روشن گلی میں داخل ہوئی۔ جس میں آمدورفت بہت کم تھی۔ کچھ لوگ سڑک پر بستر جمائے لیٹے تھے۔ ان میں سے کچھ بڑے اطمینان سے چمپی کرا رہے تھے۔ جب ٹیکسی ان چمپی کرانے والوں کے آگے نکل گئی۔ اور ایک کاٹھ کے بنگلہ نما مکان کے پاس پہنچی۔ تو خوشیا نے ڈرائیور کو ٹھیرنے کے لیے کہا۔

’’بس اب یہاں رک جاؤ۔ ٹیکسی ٹھہر گئی۔ تو خوشیا نے اس آدمی سے جس کو وہ پان والے کی دکان سے اپنے ساتھ لیا تھا۔ آہستہ سے کہا۔

’’جاؤ۔۔۔۔۔ میں یہاں انتظار کرتا ہوں۔ ‘‘

وہ آدمی بیوقوفوں کی طرح خوشیا کی طرف دیکھتا ہوا ٹیکسی سے باہر نکلا۔ اور سامنے والے چوبی مکان میں داخل ہو گیا۔ خوشیا جم کر ٹیکسی کے گدے پر بیٹھ گیا۔ ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر اس نے جیب سے بیڑی نکال کر سلگائی اور ایک دو کش لے کر باہر پھینک دی۔ وہ بہت مضطرب تھا۔ اس لیے اسے ایسا لگا۔ کہ ٹیکسی کا انجن بند نہیں ہُوا اس کے سینے میں چونکہ پھڑپھڑاہٹ سی ہو رہی تھی۔ اس لیے وہ سمجھا کہ ڈرائیور نے بل بڑھانے کی غرض سے پٹرول چھوڑ رکھا ہے چنانچہ اس نے تیزی سے کہا۔

’’یوں بیکار انجن چالو رکھ کر تم کتنے پیسے اور بڑھا لو گے؟‘‘

ڈرائیور نے مُڑ کر خوشیا کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’سیٹھ انجن تو بند ہے۔ ‘‘

جب خوشیا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ تو اس کا اضطراب اور بھی بڑھ گیا اور اس نے کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ چبانے شروع کر دیے۔ پھر ایکا ایکی سر پر وہ کشتی نما کالی ٹوپی پہن کر جو اب تک اس کی بغل میں دبی ہوئی تھی۔ اس نے ڈرائیور کا شانہ ہلایا اور کہا۔

’’دیکھو، ابھی ایک چھوکری آئے گی۔ جونہی اندر داخل ہو تم موٹر چلا دینا۔۔۔۔۔ سمجھے۔۔۔۔۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ معاملہ ایسا ویسا نہیں۔ ‘‘

اتنے میں سامنے چوبی مکان سے دو آدمی باہر نکلے۔ آگے آگے خوشیا کا دوست تھا اور اس کے پیچھے کا نتا جس نے شوخ رنگ کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ خوشیا جھٹ اُس طرف کو سرک گیا۔ جدھر اندھیرا تھا۔ خوشیا کے دوست نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور کانتا کو اندر داخل کرکے دروازہ بند کر دیا۔ فوراً ہی کانتا کی حیرت بھری آواز سنائی دی۔ جو چیخ سے ملتی جلتی تھی

’’خوشیا تم‘‘

’’ہاں میں۔۔۔۔۔۔ لیکن تمہیں روپے مل گئے ہیں نا؟‘‘

خوشیا کی موٹی آواز بُلند ہُوئی۔

’’دیکھو ڈرائیور۔۔۔۔ جو ہولے چلو۔ ‘‘

ڈرائیور نے سلف دبایا۔ انجن پھڑپھڑانا شروع ہوا۔ وہ بات جو کانتا نے کہی۔ سنائی نہ دے سکی ٹیکسی ایک دھچکے کے ساتھ آگے بڑھی۔ اور خوشیا کے دوست کو سڑک کے بیچ حیرت زدہ چھوڑ کر نیم روشن گلی میں غائب ہو گئی۔ اس کے بعد کسی نے خوشیا کو موٹروں کی دکان کے سنگین چبوترے پر نہیں دیکھا۔

سعادت حسن منٹو

خوشبو دار تیل

’’آپ کا مزاج اب کیسا ہے؟‘‘

’’یہ تم کیوں پوچھ رہی ہو۔ اچھا بھلا ہوں۔ مجھے کیا تکلیف تھی۔ ‘‘

’’تکلیف تو آپ کو کبھی نہیں ہوئی۔ ایک فقط میں ہوں جس کے ساتھ کوئی نہ کوئی تکلیف یا عارضہ چمٹا رہتا ہے۔ ‘‘

’’یہ تمہاری بد احتیاطیوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ورنہ آدمی کو کم از کم سال بھر میں دس مہینے تو تندرست رہنا چاہیے۔ ‘‘

’’آپ تو بارہ مہینے تندرست رہتے ہیں ٗ ابھی پچھلے دنوں دو مہینے ہسپتال میں رہے۔ میرا خیال ہے اب پھر آپ کا وہیں جانے کا ارادہ ہو رہا ہے۔ ‘‘

’’ہسپتال میں جانے کا ارادہ کون کرتا ہے؟‘‘

’’آپ ایسے آدمی۔ اور کس کا دماغ پھرا ہے کہ وہ بیمار ہو کر وہاں پر جائے اور اپنے عزیزوں کی جان کا عذاب بن جائے۔ ‘‘

’’تو گویا میں اپنے سب رشتہ داروں کی جان کا عذاب بنا بیٹھا ہوں۔ میرا تو یہ نظریہ ہے کہ ہر رشتہ دار خود جان کا بہت بڑا عذاب ہوتا ہے‘‘

’’آپ کو تو رشتہ داروں کی کوئی پروا نہیں۔ حالانکہ وہی ہمیشہ آپ کے آڑے وقت میں کام آتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’کون سے آڑے وقت میں کام آتے رہے ہیں۔ ‘‘

’’پچھلے برس جب آپ بیمار ہوئے۔ تو کس نے آپ کے علاج پر روپیہ خرچ کیا تھا۔ ‘‘

’’مجھے معلوم نہیں۔ میرا خیال ہے تمہیں نے کیا ہو گا۔ ‘‘

’’آپ کا حافظہ کمزور ہو گیا ہے۔ یا آپ جان بوجھ کر اپنے رشتہ داروں کی مدد کو فراموش کررہے ہیں۔ ‘‘

’’میں اپنے کسی رشتہ دار کی امداد کا محتاج نہیں رہا‘ اور نہ رہوں گا۔ اچھا خاصا کما لیتا ہوں۔ کھاتا ہوں۔ پیتا ہوں۔ ‘‘

’’جتنا کھا سکتا ہوں کھاتا ہوں۔ جتنی پی سکتا ہوں پیتا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کو معلوم نہیں کہ پینا حرام ہے۔ ‘‘

’’معلوم ہے۔ آج کل تو جینا بھی حرام ہے۔ مگر چچا غالبؔ کہہ گئے ہیں۔ ‘‘

مئے سے غرض نشاط ہے کس رُوسیاہ کو اِک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

’’یہ چچا غالبؔ کون تھے۔ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ میں نے تو آج پہلی مرتبہ ان کا نام سنا ہے۔ ‘‘

’’وہ سب کے چچا تھے۔ بہت بڑے شاعر۔ ‘‘

’’شاعروں پر خدا کی لعنت۔ بیڑا غرق کرتے ہیں لوگوں کا۔ ‘‘

’’بیگم! یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ انہی کے دم سے تو زندگی کی رونق قائم ہے۔ یہ نہ ہوں تو چاروں طرف خشکی خشکی ہی نظر آئے۔ یہ لوگ پھول ہوتے ہیں۔ صاف و شفاف پانی کے دھارے ہوتے ہیں جو انسانوں کے ذہن کی آبیاری کرتے ہیں۔ یہ نہ ہوں تو ہماری زندگی بے نمک ہو جائے‘‘

’’بے نمک ہو جائے۔ کیسے بے نمک ہو جائے۔ یہاں نمک کی کوئی کمی ہے۔ جتنا چاہے ٗ لے لیجیے۔ اور وہ بھی سستے داموں پر۔ ان لوگوں کو جنہیں آپ شاعر کہتے ہیں۔ میں تو چاہتی ہوں کہ ان کو کھیوڑے کی کسی کان میں زندہ دفن کر دیا جائے ٗ تاکہ وہ بھی نمک بن جائیں اور آپ ان کو چاٹتے رہیں۔ ‘‘

’’یہ آج تم نے کیسے پر پرزے نکال لیے۔ ‘‘

’’پر پرزوں کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی۔ میں تو اتنا جانتی ہوں۔ کہ جب آپ سے کوئی معاملے کی بات کرے تو آپ بھِنّا جاتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں۔ میں نے کبھی آپ کی ذات پر تو حملہ نہیں کیا۔ ہمیشہ سیدھی سادی بات کر دی۔ ‘‘

’’تمہاری سیدھی باتیں ہمیشہ ٹیڑھی ہوتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ دو برس سے تم ہر وقت میرے سر پر سوار رہتی ہو۔ ‘‘

ان برسوں میں مجھے آپ نے کیا سکھ پہنچایا ہے۔ ‘‘

’’بھئی معاف کرو مجھے۔ میں سونا چاہتا ہوں۔ ساری رات ہی جاگتا رہا ہوں۔ ‘‘

’’کیا تکلیف تھی آپ کو؟ مجھے بھی تو کچھ اس کا علم ہو۔ ‘‘

’’تمہیں اگر اس کا علم بھی ہو جائے۔ تو اس کا مداوا کیا کرو گی۔ ‘‘

’’میں تو سخت نا اہل ہوں۔ کسی کام کی بھی نہیں۔ بس ایک صرف آپ ہیں جو دنیا کی ساری حکمت جانتے ہیں۔ ‘‘

’’بھئی میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ لیکن عورت ذات ہمیشہ خود کو افضل سمجھتی ہے۔ حالانکہ وہ عام طور پر کم عقل ہوتی ہے۔ ‘‘

’’دیکھیے، آپ طعن طروز پر اتر آئے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ ‘‘

’’میں معافی چاہتا ہوں۔ تم نے چونکہ مجھے اُکسایا تو یہ لفظ میری زبان سے نکل گئے ٗ ورنہ تم جانتی ہو کہ میں گفتگو کے معاملے میں بڑا محتاط رہتا ہوں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ رہتے ہوں گے۔ مجھ سے تو آپ نے ہمیشہ ہی نو کرانیوں کا سا سلوک کیا۔ ‘‘

’’یہ سراسر بہتان ہے۔ تُم تُو میری ملکہ ہو۔ ‘‘

’’آپ بادشاہ کیسے بن بیٹھے۔ آپ کی سلطنت کہاں ہے؟‘‘

’’میری سلطنت یہ میرا گھر ہے۔ ‘‘

’’اور آپ یہاں کے شہنشاہ ہیں۔ ‘‘

’’اس میں کیا شک ہے۔ تم نے طنزاً کہا ہے ٗ لیکن حقیقت میں اس سلطنت کا حکمران میں ہی ہوں۔ ‘‘

’’حکمران تو میں ہوں۔ اس لیے کہ اس گھر کا سارا بندوبست مجھے ہی کرنا پڑتا ہے۔ سب دیکھ بھال مجھے ہی کرنا پڑتی ہے۔ ‘‘

’’تم میری ملکہ ہو۔ اور ملکہ کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ نہیں رہنا چاہیے۔ اپنی ملکیت کا دھیان رکھنا چاہیے۔ اس لیے تم بھی یہاں کی حکمران ہوٗ اس لیے کہ تم اس کا نظم بر قرار رکھتی ہو۔ نوکروں کی دیکھ بھال وغیرہ ٗ اچھے سے اچھا کھانا پکوانا۔ سارا دن پلنگ پر لیٹی آرام کرتی رہتی ہو۔ ‘‘

’’میں تو جو آرام کرتی ہوں ٗ سو کرتی ہوں۔ پر آپ مجھے یہ بتائیے۔ ‘‘

’’کیا۔ ‘‘

’’کچھ نہیں۔ آپ اس گھر کے حکمران ہیں۔ اب میں آپ سے کیا کہوں۔ ‘‘

’’تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو ٗ بلا خوف و خطر کہو۔ تمہیں اندیشہ کس بات کا ہے۔ ‘‘

’’کہیں جہاں پناہ بگڑ نہ جائیں۔ ‘‘

’’مذاق برطرف رکھو۔ یہ بتاؤ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ ‘‘

’’کہنا تو میں بہت کچھ چاہتی ہوں۔ مگر آپ میں ٹھنڈے دل سے سننے کا مادہ ہی کہاں ہے۔ ‘‘

’’مادہ تو تم ہو۔ میں نر ہوں۔ ‘‘

’’اب آپ نے واہیات قسم کی گفتگو شروع کر دی۔ ‘‘

’’کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ایسی باتیں بھی کر لینی چاہئیں۔ اس لیے کہ طبیعت میں انقباض پیدا نہ ہو۔ ‘‘

’’آپ کی طبیعت میں کئی دنوں سے انقباض ہے۔ سیدھے منہ کوئی بات ہی نہیں کرتے۔ ‘‘

’’میں تو چنگا بھلا ہوں۔ مجھے ایسی کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارے نفس نے بہت اونچی پرواز کی ہو۔ اگر ایسا ہی ہے تو کوئی مسہل تجویز کر دو تاکہ تمہاری تشفی ہوجائے۔ ‘‘

’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ صرف اتنا پوچھنا چاہتی ہوں۔ ‘‘

’’بھئی پوچھ لو جو کچھ پوچھنا ہے۔ مجھے اب زیادہ تنگ نہ کرو۔ ‘‘

’’آپ تو ذراسی بات پر تنگ آ جاتے ہیں۔ ‘‘

’’یہ ذرا سی بات ہے کہ تم نے مجھ سے اتنی بکواس کرائی۔ یہی وقت میں کہیں صرف کرتا تو کچھ فائدہ بھی ہوتا۔ ‘‘

’’کیا فائدہ ہوتا۔ بڑے لاکھوں کما لیے ہیں آپ نے ٗ بغیر اس بکواس کے۔ ‘‘

’’کمائے تو ہیں۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ کہنا کیا چاہتی ہو۔ ‘‘

’’میں کہنا چاہتی تھی کہ جب سے نئی نوکرانی آئی ہے ٗ آپ کی طبیعت کیوں خراب رہنے لگی ہے۔ ‘‘

’’نئی نوکرانی کو کوئی بیماری ہے۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ بیماری تو نہیں۔ لیکن میں نے اسے آج رخصت کر دیا ہے۔ ‘‘

’’کیوں۔ وہ تو بڑی اچھی تھی۔ ‘‘

’’آپ کی نظروں میں ہو گی۔ میں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ وہ بیس روپے ماہوار میں اتنے اچھے کپڑے کیسے پہن سکتی تھی۔ بالوں میں خوشبودار تیل کہاں سے ڈالتی تھی۔ ‘‘

’’مجھے کیا معلوم۔ ‘‘

’’آپ کو سب کچھ معلوم ہے۔ آپ کے بالوں سے بھی اسی تیل کی خوشبو آتی ہے۔ معلوم نہیں یہ تیل آپ نے کہاں چھپا رکھا ہے !‘‘

سعادت حسن منٹو

خورشٹ

ہم دلی میں تھے۔ میرا بچہ بیمار تھا۔ میں نے پڑوس کے ڈاکٹر کاپڑیا کو بلایا وہ ایک کبڑا آدمی تھا۔ بہت پست قد، لیکن بے حد شریف۔ اس نے میرے بچے کا بڑے اچھے طریقے پر علاج کیا۔ اس کو فیس دی تو اس نے قبول نہ کی۔ یوں تو وہ پارسی تھا لیکن بڑی شستہ ور فتہ اردو بولتا تھا، اس لیے کہ وہ دلی ہی میں پیدا ہوا تھا اور تعلیم اس نے وہیں حاصل کی تھی۔ ہمارے سامنے کے فلیٹ میں مسٹر کھیش والا رہتا تھا۔ یہ بھی پارسی تھا۔ اسی کے ذریعے سے ہم نے ڈاکٹر کاپڑیا کو بلایا تھا۔ تین چار مرتبہ ہمارے یہاں آیا تو اس سے ہمارے تعلقات بڑھ گئے۔ ڈاکٹر کے ہاں میرا اور میری بیوی کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے ہماری ملاقات اپنے لڑکے سے کرائی اس کا نام ساوک کاپڑیا تھا۔ وہ بہت ہی ملنسار آدمی تھا۔ رنگ بے حد زرد ایسا لگتا تھا کہ اس میں خون ہے ہی نہیں۔ سنگر مشین کمپنی میں ملازم تھا۔ غالباً پانچ چھ سو روپے ماہوار پاتا تھا۔ بہت صاف ستھرا رہتا تھا۔ اس کا گھر جو ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا بہت نفاست سے سجا ہوا تھا۔ مجال ہے کہ گردوغبار کا ایک ذرہ بھی کہیں نظر آجائے۔ جب میں اور میری بیوی شام کو ان کے ہاں جاتے تو وہ اس کی بیوی خورشید جس کو پارسیوں کی زبان میں خورشٹ کہا جاتا تھا۔ بڑے تپاک سے پیش آتے اور ہماری خوب خاطر تواضع کرتے۔ خورشید یعنی خورشٹ لمبے قد کی عورت تھی۔ عام پارسیوں کی طرح اس کی ناک بدنما نہیں تھی، لیکن خوبصورت بھی نہیں۔ موٹی پکوڑا ایسی ناک تھی، لیکن رنگ سفید تھا اس لیے گوارا ہو گئی تھی۔ بال کٹے ہوئے تھے۔ چہرہ گول تھا۔ خوش پوش تھی اس لیے اچھی لگی تھی۔ میری بیوی سے چند ملاقاتوں ہی میں دوستی ہو گئی۔ چنانچہ ہم ان کے ہاں اکثر جانے لگے۔ وہ دونوں میاں بیوی بھی ہر دوسرے تیسرے روز ہمارے ہاں آجاتے تھے اور دیر تک بیٹھے رہتے تھے۔ ہم جب بھی ساوک کے ہاں گئے، ایک سکھ کو ان کے ہاں دیکھا۔ یہ سکھ ایک تنومند آدمی تھا۔ بہت خوش خلق۔ ساوک نے مجھے بتایا کہ سردار زور آور سنگھ اس کا بچپن کا دوست ہے۔ دونوں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ایک ساتھ انھوں نے بی اے پاس کیا۔ لیکن شکل و صورت کے اعتبار سے سردار زور آور سنگھ، ساوک کے مقابلے میں زیادہ معمر نظر آتا تھا۔ ساوک شاید خون کی کمی کے باعث بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی عمر اٹھارہ برس سے زیادہ نہیں، لیکن سردار زور آور سنگھ چالیس کے اوپر معلوم ہوتا تھا۔ سردار زور آور سنگھ کنوارا تھا۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ اس نے گورنمنٹ سے کئی ٹھیکے لے رکھے تھے۔ اس کا باپ بہت پرانا گورنمنٹ کنٹریکٹر تھا۔ لیکن باپ بیٹے میں بنتی نہیں تھی۔ سردار زور آور سنگھ آزاد خیال تھا لیکن وہ اپنے باپ ہی کے ساتھ رہتا تھا پر وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے۔ البتہ اس کی ماں اس سے بہت پیار کرتی تھی جیسے وہ چھوٹا سا بچہ ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ماں کا اکلوتا لڑکا تھا۔ تین لڑکیاں تھیں، وہ اپنے گھر میں آباد ہو چکی تھیں۔ اب اس کی خواہش تھی کہ وہ شادی کرلے اور اس کے کلیجے کوٹھنڈک پہنچائے، مگر اس وہ کے متعلق بات کرنے کیلیے تیار ہی نہیں تھا۔ میں نے ایک دفعہ اس سے دریافت کیا۔

’’سردار صاحب آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

اس نے مونچھوں کے اندر ہنس کر جواب دیا۔

’’اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘

میں نے پوچھا۔

’’آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘

اس نے کہا۔

’’آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میرے خیال کے مطابق آپ کی عمر غالباً چالیس برس ہو گی۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔

’’آپ کا اندازہ غلط ہے!‘‘

’’آپ فرمائیے، آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘

سردار زور آور سنگھ پھر مسکرایا۔

’’میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں۔ عمر کے لحاظ سے بھی۔ میں ابھی پرسوں انتیس اگست کو پچیس برس کا ہوا ہوں۔ ‘‘

میں نے اپنے غلط اندازے کی معافی چاہی۔

’’لیکن آپ کی شکل صورت سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی عمر پچیس برس ہے۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ ہنسا۔

’’میں سکھ ہوں۔ اور بڑا غیر معمولی سکھ۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے غور سے مجھے دیکھا،

’’منٹو صاحب آپ حجامت کیوں نہیں کراتے۔ اتنے بڑے بالوں سے آپ کو وحشت نہیں ہوتی۔ ‘‘

میں نے گردن پر ہاتھ پھیرا۔ بال واقعی بہت بڑھے ہوئے تھے۔ غالباًتین مہینے ہو گئے تھے جب میں نے بال کٹوائے تھے۔ سردار زور آور سنگھ نے بات کی تو مجھے سر پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا۔

’’یاد ہی نہیں رہا۔ اب آپ نے کہا ہے تو مجھے وحشت محسوس ہوئی ہے۔ خدا معلوم مجھے کیوں بال کٹوانے یاد نہیں رہتے۔ یہ سلسلہ ہے ہی کچھ واہیات۔ ایک گھنٹہ نائی کے سامنے سرنیوڑھائے بیٹھے رہو۔ وہ اپنی خرافات بکتا ر ہے اور آپ مجبوراً کان سمیٹے سنتے رہیں۔ فلاں ایکٹرس ایسی ہے، فلاں ایکٹرس ویسی ہے۔ امریکہ نے ایٹم بم ایجا کرلیا ہے۔ روس کے پاس اس کا بہت ہی تکڑا جواب موجود ہے۔ یہ ایٹلی کون ہے؟۔ اور وہ مسولینی کہاں گیا۔ اب میں اگر اس سے کہوں کہ جہنم میں گیا ہے تو وہ ضرور پوچھتا کہ صاحب کیسے گیا، کس راستے سے گیا۔ کون سے جہنم میں گیا۔ ‘‘

میری اتنی لمبی چوڑی بات سن کر سردار زور آور سنگھ نے اپنی سفید پگڑی اتاری۔ مجھے سخت حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ اس کے کیس ندارد تھے۔ ان کے بجائے ہلکے خسخسی بال تھے۔ لیکن وہ پگڑی کچھ اس انداز سے باندھتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے کیس ہیں اور ثابت و سالم ہیں۔ بڑی صفائی سے پگڑی اتار کر اس نے میری تپائی پر رکھی اور مسکرا کرکہا۔

’’میں تو اس سے بڑے بال کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘

میں نے اس کے بالوں کے متعلق کوئی بات نہ کی؛، اس لیے کہ میں نے مناسب خیال نہ کیا۔ اس نے بھی ان کے متعلق کوئی بات نہ چھیڑی۔ پگڑی تپائی پر رکھ دینے کے بعد اس نے صرف اتنا کہا تھا۔

’’میں تو اس سے بڑے بال کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘

اس کے بعد اُس نے گفتگو کا موضوع بدل دیا۔ اور کہا۔

’’منٹو صاحب، خورشید کے لیے آپ کچھ کیجیے؟‘‘

میں کچھ نہ سمجھا۔

’’کون خورشید؟‘‘

سردار زور آور سنگھ نے پگڑی اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔

’’خورشید کاپڑیا کے لیے۔ ‘‘

’’میں ان کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’اس کو گانے کا بہت شوق ہے۔ ‘‘

مجھے معلوم نہیں تھا۔ کہ خورشٹ گاتی ہے۔

’’کیسا گاتی ہیں؟‘‘

سردار زور آور سنگھ نے خورشٹ کی گائگی کے بارے میں اتنی تعریف کی کہ مجھے یہ سب مبالغہ معلوم ہوا۔

’’منٹو صاحب بہت اچھی آواز پائی ہے۔ خصوصاً ٹھمری ایسی اچھی گاتی ہے کہ آپ وجد میں آجائیں گے۔ آپ کو ایسا معلوم ہو گا کہ خاص صاحب عبدالکریم کو سن رہے ہیں۔ اور لطف یہ کہ خورشید نے کسی کی شاگردی نہیں کی۔ بس جو ملا ہے قدرت سے ملا ہے۔ آپ آج شام کو آئیے۔ مسز منٹو بھی ضرور تشریف لائیں۔ میں خورشید کو بلاؤں گا۔ آپ ذرا اسے سنئے گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’ضرور، ضرور۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ گاتی ہیں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ نے سفارش کے طور پر کہا۔

’’آپ ریڈیو اسٹیشن میں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ خورشید کو ہر مہینے کچھ پروگرام مل جایا کریں۔ روپئے کی اس کو کوئی خواہش نہیں ہے۔ ‘‘

’’لیکن اگر ان کو پروگرام ملے گا تو معاوضہ بھی ضرور ملے گا۔ گورنمنٹ ان کا معاوضہ کس کھاتے میں ڈالے گی؟‘‘

یہ سن کر سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔

’’تو ٹھیک ہے۔ لیکن اسے پروگرام ضرور دلوائیے گا۔ مجھے یقین ہے کہ سننے والے اسے بہت پسند کریں گے۔ ‘‘

اس گفتگو کے بعد ہم تیسرے روز ساوک کے ہاں گئے۔ وہ موجود نہیں تھا لیکن ڈرائنگ روم میں سردار زور آور سنگھ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ پارسیوں میں سگرٹ پینا منع ہے، سکھ بھی سگرٹ نہیں پیتے، لیکن وہ بڑے اطمینان اور ٹھاٹ سے کش پہ کش لے رہا تھا۔ میں اور میری بیوی کمرے میں داخل ہوئے تو اس نے سگرٹ پینا بند کردیا۔ ایش ٹرے میں اس کی گردن مروڑ کر اس نے ہمیں خالص اسلامی انداز میں سلام کیا اور کہا۔

’’خورشید کی طبیعت آج کچھ ناساز ہے۔ ‘‘

خورشید کچھ دیر کے بعد آئی تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت قطعاً ناساز نہیں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ تو اس نے اپنے موٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کرکے کہا۔

’’ذرا زکام تھا۔ ‘‘

مگر اس کو زکام نہیں تھا۔ سردار زور آور سنگھ نے بڑے زور دار انداز میں خورشید سے اس کا حال پوچھا، زکام کے لیے کم از کم دس دوائیں تجویز کیں، پانچ ڈاکٹروں کے حوالے دیے، مگر وہ خاموش رہی، جیسے وہ اس قسم کی بکواس سننے کی عادی ہے۔ اتنے میں خورشید کا خاوند ساوک کاپڑیا آگیا۔ دفتر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے اسے دیر ہو گئی تھی۔ مجھ سے اورمیری بیوی سے اس نے معذرت چاہی، سردار زور آور سنگھ سے کچھ دیر مذاق کیا اور ہم سے چند منٹ کی رخصت لے کر اندر چلا گیا، اس لیے کہ اسے اپنی بچی کو دیکھنا تھا۔ اس کی پلوٹھی کی بچی بہت پیاری تھی۔ میاں بیوی کی بس یہی ایک اولاد تھی۔ قریباً ڈیڑھ سال کی تھی۔ رنگ باپ کی طرح زرد۔ کچھ نقش ماں پر تھے۔ باقی معلوم نہیں کس کے تھے۔ بہت ہنس مکھ تھی۔ ساوک اس کو گود میں اٹھا کر لایا اور ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ اس کو اپنی بچی سے بے حد پیار تھا۔ دفتر سے واپس آکر وہ سارا وقت اس کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ میرا خیال ہے قریب قریب ہر ہفتے وہ اس کے لیے کھلونے لاتا تھا۔ شیشوں والی بڑی الماری تھی۔ جو ان کھلونوں سے بھری ہوئی تھی۔ سردار زور آور سنگھ کے متعلق بات چھڑی تو ساوک نے اس کی بہت تعریف کی۔ اس نے مجھ سے اور میری بیوی سے کہا۔

’’سردار زور آور میرا بہت پرانا دوست ہے۔ ہم دونوں لنگوٹیے ہیں۔ اس کے والد صاحب اور میرے والد صاحب اسی طرح لنگوٹیے تھے۔ دونوں اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ پہلی جماعت سے لیکر اب تک ہم دونوں ہر روز ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ ہم اسکول ہی میں پڑھ رہے ہیں۔ ‘‘

سردارزور آور سنگھ مسکراتارہا۔ اس کے سر پر سکھوں کی بہت بڑی پگڑی تھی، مگر مجھے اس کے ہوتے ہوئے اس کے سر کی خسخسی بال نظر آرہے تھے۔ اور مجھے اپنے سر اپنے بالوں کا بوجھ محسوس ہورہا تھا۔ سردار زور آور سنگھ کے پیہم اصرار پر خورشید نے باجا منگا کر ہمیں گانا سنایا۔ وہ کن سُری تھی، لیکن خورشید، اس کے خاوند، اور سردار زور آور سنگھ کی خاطر مجھے اس کے گانے کی مجبوراً تعریف کرنا پڑی۔ میں نے صرف اتنا کہا۔

’’ماشاء اللہ آپ خوب گاتی ہیں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ نے بڑے زور سے تالی بجائی اور کہا۔

’’خورشید، آج تو تم نے کمال کردیا ہے۔ ‘‘

پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’اس کو آفتابِ موسیقی کا خطاب مل چکا ہے منٹو صاحب۔ ‘‘

میں نے تو کچھ نہ کہا، لیکن میری بیوی نے پوچھا۔

’’کب؟‘‘

سردار زور آور سنگھ نے کہا۔

’’اخبار کا وہ کٹنگ لانا۔ ‘‘

خورشید اخبار کا کٹنگ لائی۔ کوئی خوشامدی قسم کا رپورٹر تھا جس نے چھ مہینے پہلے ایک پرائیویٹ محفل میں خورشید کا گانا سن کر اسے آفتابِ موسیقی کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ میں یہ کٹنگ پڑھ کر مسکرایا اور شرارتاً خورشید سے کہا۔

’’آپ کا یہ خطاب غلط ہے!‘‘

سردار زور آور سنگھ نے مجھ سے پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

میں نے پھر شرارتاً کہا۔

’’عورت کے لیے آفتاب نہیں۔ آفتابہ ہونا چاہیے۔ خورشید صاحبہ، آفتابِ موسیقی نہیں۔ آفتابہ موسیقی ہیں۔ ‘‘

میرا مذاق سب کے سر پرسے گزر گیا۔ میں نے خدا کا شکر کیا، کیونکہ یہ مذاق کرنے کے بعد میں نے فوراً ہی سوچا تھا کہ اور کوئی نہیں تو سردار زور آور سنگھ ضرور اس کو سمجھ جائے گا، مگر وہ مسکرایا۔

’’یہ اخبار والے ہمیشہ غلط زبان لکھتے ہیں۔ آفتاب کی جگہ آفتابہ ہونا چاہیے تھا۔ آپ بالکل صحیح فرماتے ہیں۔ ‘‘

میں نے اور کچھ نہ کہا، اس لیے کہ مجھے احساس تھا کہ کہیں میرا مذاق فاش نہ ہو جائے۔ ساوک کچھ اور ہی خیالات میں غرق تھا۔ اس کو سردار زور آور سنگھ کی دوستی کے واقعات یاد آرہے تھے۔

’’مسٹر منٹو، ایسا دوست مجھے کبھی نہیں ملے گا۔ اس نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ہمیشہ میرے ساتھ انتہائی خلوص برتا ہے پچھلے دنوں میں ہسپتال میں بیمار تھا۔ اس نے نرسوں سے بڑھ کر میری خدمت کی۔ میرے گھر بار کا خیال رکھا۔ خورشید اکیلی گھبرا جاتی، مگر اس نے ہر طرح اس کی دلجوئی کی۔ میری بچی کو گھنٹوں کھلاتا رہا۔ اس کے علاوہ میرے پاس بیٹھ کر کئی اخبار پڑھ کر سناتا رہا۔ میں اس کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔ ‘‘

یہ سن کر سردار زور آور سنگھ مسکرایا اور خورشید سے مخاطب ہوا۔

’’خورشید آج تمہارا خاوند بہت سنٹی مینٹل ہورہا ہے۔ میں نے کیا کیا تھا جو یہ میری اتنی تعریف کررہا ہے۔ ‘‘

ساوک نے کہا۔

’’بکواس نہ کرو۔ تمہاری تعریف میں کر ہی نہیں سکتا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری دوستی پر مجھے ناز ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بچپن سے لے کر اب تک تم ایک سے رہے۔ میرے ساتھ تمہارے سلوک میں کبھی فرق نہیں آیا۔ ‘‘

میں نے سردار زور آور سنگھ کی طرف دیکھا۔ وہ یہ تعریفی کلمات یوں سن رہا تھا۔ جیسے ریڈیو سے خبریں۔ جب ساوک بول چکا تو اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’تو خورشید کو پروگرام مل جائیں گے نا؟‘‘

میں نے چونک کر جواب دیا۔

’’جی؟۔ میں کوشش کروں گا۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ نے ذرا حیرات سے کہا۔

’’کوشش؟۔ یعنی ان کے لیے پروگرام حاصل کرنے کے لیے آپ کوکوشش کرنی پڑے گی۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ کل صبح ان کو اپنے ساتھ لے جائیے۔ میرا خیال ہے ان کا گانا سنتے ہی میوزک ڈائریکٹر اسی مہینے میں ان کو کم از کم دو پروگرام دے دے گا۔ ‘‘

میں نے اس کی دل شکنی مناسب نہ سمجھی اور کہا۔

’’یقیناً۔ ‘‘

لیکن خورشید نے سردار زور آور سے کہا۔

’’میں صبح نہیں جاسکتی۔ بے بی صبح کو میرے بغیر گھر میں نہیں رہ سکتی۔ دوپہر کو البتہ جاسکتی ہوں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مجھ سے مخاطب ہوا۔

’’منٹو صاحب، واقعی بچی اس کو صبح بہت تنگ کرتی ہے۔ میں خود سے روز خورشید کو دوپہر کے وقت ریڈیو اسٹیشن لے آؤں گا۔ ‘‘

خورشید کو دوپہر کے وقت ریڈیو اسٹیشن لانے کی نوبت نہ آئی۔ کیونکہ میں نے دوسرے روز ہی ایک دم ارادہ کیا کہ میں دلی چھوڑ کر بمبئی چلا جاؤں گا، چنانچہ میں اس سے اگلے دن استعفےٰ دے کربمبئی روانہ ہو گیا۔ میری بیوی مجھ سے کچھ دن بعد چلی آئی۔ ہم مسز خورشٹ کاپڑیا اور سردار زور آور سنگھ کو بھول گئے۔ میں ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا۔ بیماری کے باعث اتفاق سے ایک روز میں وہاں نہ گیا۔ دوسرے روز وہاں پہنچا تو گیٹ کیپر نے مجھے ایک کاغذ دیا کہ کل ایک صاحب آپ سے ملنے یہاں آئے تھے۔ وہ یہ دے گئے ہیں۔ میں نے رقعہ پڑھا۔ سردار زور آور سنگھ کا تھا۔ مختصر سی تحریر تھی، میں اور میری بیوی آپ سے ملنے یہاں آئے، مگر آپ موجود نہیں تھے۔ ہم تاج ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ اگر آپ تشریف لائیں تو ہمیں بڑی خوشی ہو گی۔ مسز منٹو کو ضرور ساتھ لائیے گا۔ ‘‘

کمرے کا نمبر وغیرہ درج تھا۔ میں اور میری بیوی اسی شام ٹیکسی میں تاج ہوٹل گئے۔ کمرہ تلاش کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ سردار زور آور سنگھ وہاں موجود تھا۔ ہم جب اندر کمرے میں داخل ہوتے تو وہ اپنے چھوٹے چھوٹے خسخسی بالوں میں کنگھی کررہا تھا۔ بڑے تپاک سے ملا۔ میری بیوی اس کی بیوی دیکھنے کے لیے بے قرار تھی، چنانچہ اس نے پوچھا۔

’’سردار صاحب، آپ کی مسز کہاں ہیں۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔

’’ابھی آتی ہیں۔ باتھ روم میں ہیں۔ ‘‘

اس نے یہ کہا اور دوسرے کمرے سے خورشٹ نمودار ہوئی۔ میری بیوی اٹھ کر اس سے گلے ملی اور سب سے پہلا سوال اس سے یہ کیا۔

’’بچی کیسی ہے خورشید۔ ‘‘

خورشٹ نے جواب دیا۔

’’اچھی ہے۔ ‘‘

پھر میری بیوی نے اس سے پوچھا۔

’’ساوک کہاں ہیں؟‘‘

خورشٹ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب وہ اور میری بیوی پاس پاس بیٹھ گئیں تو میں نے سردار زور آور سنگھ سے پوچھا۔

’’سردار صاحب، آپ اپنی بیوی کو تو باہر نکالیے۔ ‘‘

سردار زور آور سنگھ مسکرایا۔ خورشٹ کی طرف دیکھ کر اس نے کہا۔

’’خورشید میری بیوی کو باہر نکالو۔ ‘‘

خورشٹ میری بیوی سے مخاطب ہو کر مسکرائیں۔

’’میں نے سردار زور آور سنگھ سے شادی کرلی ہے۔ ہم یہاں ہنی مون منانے آئے ہیں۔ ‘‘

میری بیوی نے یہ سنا تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہے۔ اٹھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہا۔

’’چلیے سعادت صاحب‘‘

۔ اور ہم کمرے سے باہر تھے۔ خدا معلوم سردار زور آور سنگھ اور خورشٹ نے ہماری اس بدتمیزی کے متعلق کیا کہا ہو گا۔ 28جولائی1950ء

سعادت حسن منٹو