ٹیگ کے محفوظات: یقیں

ذرا سی خشک ہے، بنجر نہیں، مری ہی طرح

ہوئی ہے زرد سی دیکھو زمیں، مری ہی طرح
ذرا سی خشک ہے، بنجر نہیں، مری ہی طرح
نسیمِ صبح کے جھونکوں میں جھومتا برگد
یہ کہہ رہا ہے کہو آفریں مری ہی طرح
اسے بھی اپنے درُوں کا کبھی تو گیان ملے
یہ آئنہ ہو اگر شعلہ بیں مری ہی طرح
بھنور میں ڈوب نہ جانا کہیں گمانوں کے
چلے ہو تم سُوئے بحرِ یقیں مری ہی طرح
اسے بھی شام نے آنچل میں اپنے ڈھانپ لیا
یہ دن بھی دیکھو ہوا احمریں، مری ہی طرح
افق بھی رات کی آمد کے خوف سے یاؔور
پٹخ رہا ہے زمیں پر جبیں، مری ہی طرح
یاور ماجد

عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور

کسی کے ساتھ رہو، دل میں ہو مکیں کوئی اور
عذاب ایسا کسی روح پر نہیں، کوئی اور
تجھے ہی بانہوں میں بھر کر تجھی کو ڈھونڈتا ہوں
کہاں ملے گا بھلا مجھ سا بے یقیں کوئی اور
خبر تو تھی، کوئی مجھ میں مرے سِوا ہے سو اب
نظر بھی آنے لگا ہے کہیں کہیں، کوئی اور
کوئی جو ایسا رسیلا سخن بھی کرتا ہو
مری نظر میں تو ایسا نہیں حسیں کوئی اور
اسی سے عشق حرارت کشید کرتا ہے
نہیں ہے تجھ سا کہیں لمسِ آتشیں کوئی اور
سنبھال رکھو یہ تم اپنے سب عذاب و ثواب
تمہارا اور ہے مذہب، ہمارا دیں کوئی اور
ہے کچھ تو مجھ میں جو ہے سخت نادرست میاں
کہ ایک چپ ہو تو ہوتا ہے نکتہ چیں کوئی اور
سبھی سے پوچھ چکا تو سمجھ میں آئی یہ بات
کہ مجھ پہ کھولے گا یہ رمزِ آخریں کوئی اور
جو دیکھتا تھا اُسے رنگ کی سمجھ ہی نہ تھی
سو زخم ڈھونڈ رہے ہیں تماش بیں کوئی اور
انیس و غالب و اقبال سب مجھے ہیں پسند
یہ بات سچ ہے مگر، میر سا نہیں کوئی اور
خدا کرے کہ مری آنکھ جب کھلے عرفان
تو آسمان کوئی اور ہو، زمیں کوئی اور
عرفان ستار

اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا
اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا
رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ
اب رنج صرف قلبِ حزیں کا نہیں رہا
دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی
جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا
تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی
میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا
سارا وجود محوِ عبادت ہے سر بہ سر
سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا
پاسِ خرد میں چھوڑ دیا کوچہءِ جنوں
یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا
وہ گردبادِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے
خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا
اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا
گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا
میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں
وہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رہا
ہر ذرۤہءِ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم
دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا
آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکانِ دل
اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا
عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے
گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا
عرفان ستار

مکان جس کا ہے وہ ہو گا خود مکیں کب تک

وفورِ شوق رہے دل میں جا گزیں کب تک
مکان جس کا ہے وہ ہو گا خود مکیں کب تک
سکونِ دل کی کرن کب افق سے پھوٹے گی
ترا طواف کروں کعبۂ یقیں کب تک
نشانِ سجدہ سجا تَو لِیا ہے ماتھے پر
اب اِس سے ہو گی منوّر تری جبیں کب تک
علامتِ رَمَقِ جاں ہے یہ غنیمت جان
ترا ضمیر کرے گا نہیں نہیں کب تک
یہیں عذاب ہیں دوزخ کو بھی یہیں لے آ
پڑی رہے گی وہ بیکار اور وہیں کب تک
رہیں گے عرش بَدَر تیرے کب تلک آباد
نظر فلک سے چُرائے گی یہ زمیں کب تک
کب اپنی ذات سے آزاد ہو گا یہ انساں
رہے گی اِس کی اَنا مارِ آستیں کب تک
نہ فلسفہ تری منزل نہ یہ علومِ جدید
نہ آزمائے گا ضامنؔ تُو راہِ دیں کب تک
ضامن جعفری

گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں

لبوں پہ ہاں نہیں دل میں مگر نہیں بھی نہیں
گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں
محبتوں کے تقاضے عجیب ہوتے ہیں
لُٹا کے بیٹھے ہیں سب کچھ، جبیں پہ چِیں بھی نہیں
تمہارے راندۂ درگاہ جائیں بھی تَو کہاں
دوائے درد تمہارے سِوا کہیں بھی نہیں
منانا چاہیں اُسے اور ہم منا نہ سکیں
دیارِ حسن میں ایسا کوئی حسیں بھی نہیں
نگاہ و دل کی حقیقت بھی کھُل گئی ضامنؔ
کہ اِن سے بڑھ کے کوئی مارِ آستیں بھی نہیں
ضامن جعفری

فَقَط نِگاہ تَو وجہِ یقیں نہیں ہوتی

حضور! ایسے محبّت کہیِں نہیں ہوتی
فَقَط نِگاہ تَو وجہِ یقیں نہیں ہوتی
خَیال و خواب کی دُنیا حَسیں سہی لیکن
خَیال و خواب سے دُنیا حَسیں نہیں ہوتی
جھُکا گیا ہے کِسی چشمِ نَم کا حُسنِ کلام
سَماعَتوں پہ تَو خَم یہ جبیں نہیں ہوتی
قَدَم ہی سَلطَنَتِ عشق میں نہ رَکھتے ہم
ہمارے واسطے گَر شہ نشیں نہیں ہوتی
میں ہر نَظَر سے زمانے کی خوب واقف ہُوں
کرے جو رُوح میں گھر وہ کہیں نہیں ہوتی
کسی کا حرفِ محبّت جو کان میں پَڑتا
ہمارے پاؤں تَلے پھِر زمیں نہیں ہوتی
میں اعترافِ محبّت کی سوچتا لیکن
قَدَم قَدَم پہ اَنا کی نہیں نہیں ہوتی
مَتاعِ عشق کو ضامنؔ سنبھال کر رَکھیے
یہ ہر نگاہ کے زیرِ نَگیں نہیں ہوتی
ضامن جعفری

اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 14
دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا
اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا
رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ
اب رنج صرف قلبِ حزیں کا نہیں رہا
دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی
جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا
تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی
میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا
سارا وجود محوِ عبادت ہے سر بہ سر
سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا
پاسِ خرد میں چھوڑ دیا کوچہءِ جنوں
یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا
وہ گردبادِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے
خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا
اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا
گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا
میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں
وہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رہا
ہر ذرۤہءِ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم
دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا
آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکانِ دل
اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا
عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے
گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا
عرفان ستار

مگر وہ زخم جو اُس دستِ شبنمیں سے ملیں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 59
متاعِ قلب و جگر ہیں ،ہمیں کہیں سے ملیں
مگر وہ زخم جو اُس دستِ شبنمیں سے ملیں
نہ شام ہے ، نہ گھنی رات ہے ، نہ پچھلا پہر
عجیب رنگ تری چشمِ سُرمگیں سے ملیں
میں اِس وصال کے لمحے کا نام کیا رکھوں
ترے لباس کی شِکنیں تری جبیں سے ملیں
ستائش مرے احباب کی نوازش ہیں
مگر صلے تو مجھے اپنے نکتہ چیں سے ملیں
تمام عُمر کی نامعتبر رفاقت سے
کہیں بھلا ہو کہ پَل بھر ملیں ،یقیں سے ملیں
یہی رہا ہے مقدر، مرے کسانوں کا
کہ چاند بوئیں اور ان کو گہن زمیں سے ملیں
پروین شاکر

ہر کہیں کس دن نہ تھا میں، ہر کہیں تو کب نہ تھا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 23
میں پریشاں گرد اور محفل نشیں تو کب نہ تھا
ہر کہیں کس دن نہ تھا میں، ہر کہیں تو کب نہ تھا
یاں سبک حرفِ ملامت، واں گراں عرضِ نیاز
سخت جاں میں کب نہ تھا اور نازنیں تو کب نہ تھا
ناصح و واعظ کے مطعوں اے صنم ہم کب نہ تھے
آفتِ جان و بلائے عقل و دیں تو کب نہ تھا
انتہا کی بات ہے یاں ابتدائے عشق ہے
ہم نہ تھے کب عجز گستر، خشمگیں تو کب نہ تھا
جستجو میں سرمۂ تسخیر کی ہم کب نہ تھے
چشمِ افسوں ساز سے سحر آفریں تو کب نہ تھا
تجھ کو شک الفت میں اپنی، ہم کو وہمِ ربطِ غیر
بدگماں ہم کب نہ تھے اور بے یقیں تو کب نہ تھا
نا شکیبا، مضطرب، وقفِ ستم، ہم کب نہ تھے
بے مروت، بے وفا، مصروفِ کیں تو کب نہ تھا
تیری ان باتوں پہ ہم طعنے اٹھاتے کب نہ تھے
اے ستم گر شیفتہ کا ہم نشیں تو کب نہ تھا
مصطفٰی خان شیفتہ

مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 111
یہ فرش و بام یہ دیوار و در سوال کریں
مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے
سمجھ میں آئے اگر شک پہ شک کیا جائے
اگر یقین پہ نہ آئے یقیں تو کیا کیجے
یہی ہے قصد و قضا، وقت کرتا رہتا ہے
نہیں کو ہاں کبھی ہاں کو نہیں تو کیا کیجے
آفتاب اقبال شمیم

ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 37
اُس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا
ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
آخرش وہ اور اس کی بوریا ہی رہ گئے
دل کی طغیانی نے شاہ و شہ نشیں کو دھو دیا
دل میں اُسکی شکل کے سو عکس اب بنتے نہیں
ایک ہی آنسو نے چشمِ بے یقیں کو دھو دیا
دھوپ کو ابرِ مقدس ارغوانی کر گیا
بوسۂ باراں نے ہر شے کی جبیں کو دھو دیا
ظلم برپا تو ہوا لیکن کہاں برپا ہوا
میری غفلت نے کسی کی آستیں کو دھو دیا
جسم پر چھائی ہوئی شہوت کے ابرِ نار کا
قہر وُہ برسا کہ ہر نقشِ حسیں کو دھو دیا
آفتاب اقبال شمیم

کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 33
میری سیر کی تمنا، تھی مگر کہیں زیادہ
کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ
ترا دستِ شعبدہ گر، کُھلا بعدِ وقت مجھ پر
ترے بازوؤں سے نکلی تری آستیں زیادہ
کبھی جیت کر نہ جیتے، کبھی ہار کر نہ ہارے
کہ دکھایا ظرف ہم نے کہیں کم کہیں زیادہ
ہے فراق میں بھی یوں تو، وُہ مہِ منیر جیسا
ہو اگر قریں زیادہ تو لگے حسیں زیادہ
بڑا سخت واقعہ تھا، جسے سہہ لیا ہے میں تو
میرے حوصلے سے شاید مرا غم نہیں زیادہ
ہے وہی حریفِ امکاں جو گماں سے منحرف ہو
وہ منکروں میں ٹھہرے جو کرے یقیں زیادہ
آفتاب اقبال شمیم

نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 17
سپردگی میں نکل گیا وہ زمیں سے آگے
نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے
رواں سمندر کا چلتا ساحل ہے آدمی بھی
اُسی کی زد میں کہیں سے پیچھے کہیں سے آگے
ضرور ہم بھی مسائل دل پہ غور کرتے
نکلنے پاتے کبھی جو نانِ جویں سے آگے
ابھی تو نو مشقِ جستجو ہوں ، ابھی سفر میں
ہے اور کچھ بھی حدودِ عقل و یقیں سے آگے
سفر کا خاکہ لگے کہ پَرکار سے بنا ہے
وہی ذرا سی نمود ہاں کی، نہیں سے آگے
پلٹ گیا خوش مشام طائر، سراغ پا کر
کہ بوئے سازش اڑی تھی جائے کمیں سے آگے
آفتاب اقبال شمیم

کوئی خنجر رگ گردن کے قریں آگیا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 326
شور کرنا ہمیں بے وجہ نہیں آگیا ہے
کوئی خنجر رگ گردن کے قریں آگیا ہے
کو بہ کو صید چلے آتے ہیں گردن ڈالے
شہر میں کون شکاری سرزیں آگیا ہے
اور کیجیے ہنر خوش بدناں کی تعریف
وہ بدن آگ لگانے کو یہیں آگیا ہے
دل برباد زمانے سے الگ ہے شاید
سارا عالم تو ترے زیر نگیں آگیا ہے
ان کے نزدیک یہ ساری سخن آرائی تھی
تجھ کو دیکھا ہے تو لوگوں کو یقیں آگیا ہے
اب کسی خیمہ گہ ناز میں جاتے نہیں ہم
بیچ میں کب سے کوئی خانہ نشیں آگیا ہے
عرفان صدیقی

درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 258
کہیں خرابۂ جاں کے مکیں نہیں جاتے
درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے
تھکے ہوئے کسی لمبے سفر سے لوٹے ہیں
ہوائے تازہ ابھی ہم کہیں نہیں جاتے
بہت یقیں ترے دستِ رفو پہ ہے لیکن
میں کیا کروں مرے زخمِ یقیں نہیں جاتے
یہ کون ہیں جو ببولوں سے چھاؤں مانگتے ہیں
اُدھر جو ایک شجر ہے وہیں نہیں جاتے
میں تم سے ملنے کو اس شہرِ شب سے آتا ہوں
جہاں تم ایسے ستارہ جبیں نہیں جاتے
یہ جانتے ہوئے ہم پانیوں میں اترے ہیں
کہ ڈرنے والے بھنور کے قریں نہیں جاتے
عرفان صدیقی

شکن اَبھی کوئی اَبروئے نکتہ چیں پہ نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 198
تو اُس کا دھیان مرے مصرعِ حسیں پہ نہیں
شکن اَبھی کوئی اَبروئے نکتہ چیں پہ نہیں
مکان چھوڑ گئے لوگ، ڈھونڈتے ہو کسے
کوئی ستارہ اَب اِس بامِ انجمن پہ نہیں
بہت ملی تھیں دُعائیں فلک نشینی کی
ہمارا کچھ بھی بدن کے سوا زمیں پہ نہیں
اَب ایسے شخص کو قاتل کہیں تو کیسے کہیں
لہو کا کوئی نشاں اُس کی آستیں پہ نہیں
اُداس خشک لبوں پر لرز رہا ہو گا
وہ ایک بوسہ جو اَب تک مری جبیں پہ نہیں
میں جل رہا ہوں حقیقت کی دُھوپ میں کب سے
کسی گماں کا بھی سایہ مرے یقیں پہ نہیں
عرفان صدیقی

ہم تمہارے نہیں! خدا حافظ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 202
حسنِ خلدِ بریں! خدا حافظ
ہم تمہارے نہیں! خدا حافظ
موت کا وار کامیاب ہوا
خنجرِ آستیں! خدا حافظ
جسم پر بار اب ہے زہرِ مگس
شہد کی سرزمیں! خدا حافظ
دل مچلتاہے سجدہ کرنے کو
سرکشیدہ جبیں! خدا حافظ
بھوک ہے قحط ہے، تمہارا بھی
پرورِ عالمیں! خدا حافظ
ہم نے انگشتری بدل لی ہے
آسماں کے نگیں! خدا حافظ
ہم اِدھر بھی نہیں اُدھر بھی نہیں
اے چناں اے چنیں! خدا حافظ
خوش رہو تم جہاں رہو ساتھی
کہہ رہے ہیں ہمیں! خدا حافظ
چھوڑدی پوجا آفتابوں کی
دینِ مہرِ مبیں! خدا حافظ
ہم حصارِ نظر سے باہر تھے
دیدہِ دل نشیں! خدا حافظ
اس کو دیکھا بھی ہے ٹٹولا بھی
صحبتِ بے یقیں! خدا حافظ
آرہا ہے قیام کو کوئی
اے غمِ جا گزیں! خدا حافظ
ہے لبِ یار پر تبسم سا
سوزِ طبعِ حزیں! خدا حافظ
زندگی سے لڑائی کیا کرنی
اے کمان و کمیں! خدا حافظ
تم مخالف نہیں حکومت کے
حلقۂ مومنیں! خدا حافظ
شاخ کی طرح خالی ہونا تھا
اے گلِ آخریں! خدا حافظ
چھوڑ آئے ہیں ہم بھرا میلہ
نغمۂ آفریں! خدا حافظ
یاد کے دشت نے پکارا ہے
چشمۂ انگبیں! خدا حافظ
آگ تم سے بھی اب نہیں جلتی
اے مئے آتشیں! خدا حافظ
تم کو بالشتیے مبارک ہوں
رفعتِ ملک و دیں! خدا حافظ
یہ تعلق نہیں ، نہیں منصور
تم کہیں ، ہم کہیں! خدا حافظ
منصور آفاق

میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 20
کھینچ لی میرے پاؤں سے کس نے زمیں ، میں نہیں جانتا
میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا
کیوں نہیں کانپتا بے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے
کس لیے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا
ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں
خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا
کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں
کس طرح، کب ہوا، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا
لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر
تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا
اس کے بے مہر دوزخ میں اپنی تو گزری ہیں تنہائیاں
اُس مبارک گلی کا بہشتِ بریں ، میں نہیں جانتا
کیا مرے ساتھ منصور چلتے ہوئے راستے تھک گئے
کس لیے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا
منصور آفاق

ہم کچھ بھی نہ کہہ سکے یقیں سے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 205
ظاہر تھا وہ غم تری ’’نہیں‘‘ سے
ہم کچھ بھی نہ کہہ سکے یقیں سے
روداد حیات کیا سنائیں
ہے یاد مگر کہیں کہیں سے
جیسے یہ تیری ہی رہگزر ہے
ہم بیٹھ گئے ہیں کس یقیں سے
رستے سے ہے گر پلٹ کےآنا
بہتر ہے پلٹ چلو یہیں سے
جذبات میں بہہ گئے ہیں باقیؔ
واقف تھے نہ ہم دل حزیں سے
باقی صدیقی

کتنے حسیں ہو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 97
چیں بہ جبیں ہو
کتنے حسیں ہو
اتنی خموشی
گویا نہیں ہو
وہ مہرباں ہیں
کیونکر یقیں ہو
دنیا سے کھیلو
ناز آفریں ہو
یہ بے حجابی
پردہ نشیں ہو
جیسا سنا تھا
ویسے نہیں ہو
سوچو تو باقیؔ
سب کچھ تمہیں ہو
باقی صدیقی

تیرے ٹوٹے ہوئے وعدے کا یقیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 23
ہے روایات محبت کا امیں
تیرے ٹوٹے ہوئے وعدے کا یقیں
کتنے اونچے تھے جہاں سے گویا
آسماں تھی ترے کوچے کی زمیں
ہم نے تیور تو بدلتے دیکھے
پھر کہا آپ نے کیا یاد نہیں
دیکھ کر رنگ تری محفل کا
ہم نے غیروں کی طرح باتیں کیں
حادثہ ہے کوئی ہونے والا
دل کی مانند دھڑکتی ہے زمیں
تنگ آ کر مری خاموشی سے
چیخ اٹھیں نہ در و بام کہیں
دور سے دیکھتے جائیں باقیؔ
زندگی کوئی تماشہ تو نہیں
باقی صدیقی