ہر زخمِ دل کو بزم میں عُریاں کِیا گیا
اچّھا یہ میرے درد کا درماں کِیا گیا
روزِ اَزَل ہی سے مجھے حیراں کِیا گیا
مسجود کر کے ہمسرِ یزداں کِیا گیا
آساں کتابِ زیست نہ تھی، اُس پہ مستزاد
اَوراقِ زندگی کو پریشاں کِیا گیا
دُشواریاں تھیں اِتنی اگر راہِ عشق میں
کیوں وصلِ یار داخلِ امکاں کِیا گیا
روشن شبِ فراق رہے تیرے خدّ و خال
ہر داغِ دل سے دل میں چراغاں کِیا گیا
بدلا تھا تُو نے خُود مِرا مفہومِ زندگی
اب خُود ہی کہہ رَہا ہے کہ احساں کِیا گیا
اِظہارِ عشق کیا ہے، تقاضائے حُسن ہے
خُود اُس طَرَف سے دِید کا ساماں کِیا گیا
ضامنؔ نے اِنتباہِ مسلسل کے باوجود
پِھر سچ کہا تَو داخلِ زنداں کِیا گیا
ضامن جعفری