ٹیگ کے محفوظات: یاس

مُرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مُرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں
سوچو تو سِلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
صحرا کی بُود و باش ہے‘ اچھی نہ کیوں لگے
سُوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دُور کے
مصروف ہوں ابھی عملِ اِنعکاس میں
دھوکے سے اس حسیں کو اگر چُوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لَبوں کی مٹھاس میں
تارہ کوئی رِدائے شبِ ابر میں نہ تھا
بیٹھا تھا میں اداس بیابانِ یاس میں
جُوئے روانِ دشت! ابھی سُوکھنا نہیں
ساون ہے دُور اور وہی شدّت ہے پیاس میں
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہُوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر‘ شکیبؔ
رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں
شکیب جلالی

یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 49
یا پھونک سے چراغ، بجھا دے حواس کا
یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
دم گھُٹ گیا ہے لمسِ لطافت سے اے خدا
اعلان کر ہواؤں میں مٹی کی باس کا
ہر آب جُو پہ ریت کا پہرہ لگا ہوا
یہ زندگی ہے یا کوئی صحرا ہے پیاس کا
جب دے سکا نہ کوئی گواہی سرِ صلیب
جرمانہ شہر پر ہوا خوف و ہراس کا
گھر کے سکوت نے تو ڈرایا بہت مگر
وجہِ سکوں تھا شور میرے آس پاس کا
ہر دستِ پُر فسوں ، یدِ بیضا دکھائی دے
اے روشنی پرست! یہ منظر ہے یاس کا
دستک ہر اک مکان پہ دنیا پڑی مجھے
مقصود تھا سراغ مرے غم شناس کا
آفتاب اقبال شمیم

یاس

بربط دل کے تار ٹوٹ گئے

ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل

مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل

بزم ہستی کے جام پھوٹ گئے

چھن گیا کیف کوثر و تسنیم

زحمت گریہ و بکا بے سود

شکوۂ بخت نارسا بے سود

ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول

بند ہے مدتوں سے باب قبول

بے نیاز دعا ہے رب کریم

بجھ گئی شمع آرزوئے جمیل

یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل

انتظار فضول رہنے دے

راز الفت نباہنے والے

بار غم سے کراہنے والے

کاوش بے حصول رہنے دے

فیض احمد فیض

ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 115
پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا
ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا
عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے
صبح ، طلب کی بہتی کشتی، شب ،وسواس کا دریا
سورج ڈھالے جا سکتے تھے ہر قطرے سے لیکن
یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا
جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی
میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا
ہم ہیں آبِ چاہ شباں کے ہم حمام سگاں کے
شہر میں پانی ڈھونڈ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا
تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر
سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا
سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن
رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا
منصور آفاق

آسماں کے مگر ہے پاس ملا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 36
خاک کا ایک اقتباس ملا
آسماں کے مگر ہے پاس ملا
اپنی تاریخ کے وہ ہیرو ہیں
جن کو وکٹوریہ کراس ملا
دیکھتے کیا ہو زر کہ یہ مجھ کو
اپنے ہی قتل کا قصاص ملا
جلوہ بس آئینے نے دیکھا ہے
ہم کو تو حسنِ انعکاس ملا
میز پر اہلِ علم و دانش کی
اپنے بھائی کا صرف ماس ملا
کتنے جلدی پلٹ کے آئے ہو
کیا نگر کا نگر خلاص ملا
اس میں خود میں سما نہیں سکتا
کیسا یہ دامنِ حواس ملا
چاند پر رات بھی بسر کی ہے
ہر طرف آسمانِ یاس ملا
زخم چنگاریوں بھرا منصور
وہ جو چنتے ہوئے کپاس ملا
منصور آفاق