ٹیگ کے محفوظات: یاری

کہ کارِبےکار و بےقراری میں لگ گیا ہوں

حضور! شہرت کی آب کاری میں لگ گیا ہوں
کہ کارِبےکار و بےقراری میں لگ گیا ہوں
میں نفسیاتی ضیافتوں کا شکار ہو کر
ترے تقرب کی آب یاری میں لگ گیا ہوں
یہ دنیاداری مجھے گوارا نہیں پرندو
مرے مریدو! میں خاکساری میں لگ گیا ہوں
زمیں کی ساری غلیظ رسموں سے ہاتھ کرکے
زہے فراغت کہ شرمساری میں لگ گیا ہوں
غریب ہوتی ہوئی محبت مجھے منا لے
برائے حجت میں اشکباری میں لگ گیا ہوں
افتخار فلک

دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 42
اُس وفا کی مجھ سے پھر امیدواری ہے عبث
دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث
دشمنی کو جو کہ احساں جانتا ہو ناز سے
اس ستم ایجاد سے امیدِ یاری ہے عبث
غمزہ ہائے دوست بعد از مرگ بھی نظروں میں ہیں
وہمِ راحت سے عدو کو بے قراری ہے عبث
سرو میں کب پھل لگا، تاثیر کیا ہو آہ میں
چشمِ تر کی صورتِ ابر اشک باری ہے عبث
ہم نے غافل پا کے تجھ کو اور کو دل دے دیا
اے ستم گر اب تری غفلت شعاری ہے عبث
ہجر میں چرخ و اجل نے گر نہ کی یاری تو کیا
دشمنوں سے شیفتہ امیدواری ہے عبث
مصطفٰی خان شیفتہ

کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 207
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے
کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے
زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے
گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے
شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے
ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے
کس طرح کاٹے کوئی شبہائے تارِ برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے
گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے
عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دزد غمزوں کی ویسی عیاری

دیوان ششم غزل 1902
وے سیہ موئی و گرفتاری
دزد غمزوں کی ویسی عیاری
اب کے دل ان سے بچ گیا تو کیا
چور جاتے رہے کہ اندھیاری
اچھا ہونا نہیں مریض عشق
ساتھ جی کے ہے دل کی بیماری
کیوں نہ ابر بہار پر ہو رنگ
برسوں دیکھی ہے میری خوں باری
شور و فریاد و زاری شب سے
شہریوں کو ہے مجھ سے بیزاری
چلے جاتے ہیں رات دن آنسو
دیدئہ تر کی خیر ہے جاری
مر رہیں اس میں یا رہیں جیتے
شیوہ اپنا تو ہے وفاداری
کیونکے راہ فنا میں بیٹھیے گا
جرم بے حد سے ہے گراں باری
واں سے خشم و خطاب و ناز و عتاب
یاں سے اخلاص و دوستی یاری
میر چلنے سے کیوں ہو غافل تم
سب کے ہاں ہو رہی ہے تیاری
میر تقی میر

جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے

دیوان پنجم غزل 1765
جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزاری ہے
جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے
کارواں گاہ جہاں میں نہیں رہتا کوئی
جس کے ہاں دیکھتے ہیں چلنے کی تیاری ہے
چیز و ناچیز کا آگاہ کو رہتا ہے لحاظ
سارے عالم میں حقیقت تو وہی ساری ہے
آئینہ روبرو رکھنے کو بھی اب جاے نہیں
صورتوں سے اسے ہم لوگوں کی بیزاری ہے
مر گئے عشق میں نازک بدنوں کے آخر
جان کا دینا محبت کی گنہگاری ہے
پلکیں وے اس کی پھری جی میں کھبی جاتی ہیں
آنکھ وہ دیکھے کوئی شوخی میں کیا پیاری ہے
بے قراری میں نہ دلبر سے اٹھا ہرگز ہاتھ
عشق کرنے کے تئیں شرط جگرداری ہے
وائے وہ طائر بے بال ہوس ناک جسے
شوق گل گشت گلستاں میں گرفتاری ہے
جرم بے جرم کھنچی رہتی ہے جس کی شمشیر
اس ستم گار جفاجو سے ہمیں یاری ہے
آنکھ مستی میں کسو پر نہیں پڑتی اس کی
یہ بھی اس سادہ و پرکار کی ہشیاری ہے
واں سے جز ناز و تبختر نہیں کچھ یاں سے میر
عجز ہے دوستی ہے عشق ہے غم خواری ہے
میر تقی میر

ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے

دیوان چہارم غزل 1508
ہماری تیری مودت ہے دوست داری ہے
ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے
گئی وہ نوبت مجنوں کہ نام باجے تھا
ہمارا شور جنوں اب ہے اپنی باری ہے
کریں تو جاکے گدایانہ اس طرف آواز
اگر صدا کوئی پہچانے شرمساری ہے
مسافران رہ عشق ہیں شکیب سے چپ
وگرنہ حال ہمارا تو اضطراری ہے
خرابی حال کی دل خواہ جو تمھارے تھی
سو خطرے میں نہیں خاطر ہمیں تمھاری ہے
ہمیں ہی عشق میں جینے کا کچھ خیال نہیں
وگرنہ سب کے تئیں جان اپنی پیاری ہے
نگاہ غور سے کر میر سارے عالم میں
کہ ہووے عین حقیقت وہی تو ساری ہے
میر تقی میر

لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے

دیوان سوم غزل 1281
شب اگر دل خواہ اپنے بے قراری کیجیے
لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے
ایک دن ہو تو کریں احوال گیری دل کی آہ
مر گئے ہم کب تلک تیمارداری کیجیے
نوچیے ناخن سے منھ یا چاک کریے سب جگر
جی میں ہے آگے ترے کچھ دستکاری کیجیے
جایئے اس شہر ہی سے اب گریباں پھاڑ کر
کیجیے کیا غم سے یوں ماتم گذاری کیجیے
یوں بنے کب تک کہ بے لعل لب اس کے ہر گھڑی
چشمہ چشمہ خون دل آنکھوں سے جاری کیجیے
کنج لب اس شوخ کا بھی ریجھنے کی جاے ہے
صرف کیجے عمر تو اس جاے ساری کیجیے
کوہ غم سر پر اٹھا لیجے نہ کہیے منھ سے کچھ
عشق میں جوں کوہکن کچھ بردباری کیجیے
گرچہ جی کب چاہتا ہے آپ کا آنے کو یاں
پر کبھو تو آئیے خاطر ہماری کیجیے
آشنا ہو اس سے ہم مر مر گئے آئندہ میر
جیتے رہیے تو کسو سے اب نہ یاری کیجیے
میر تقی میر

مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 104
نام کی خواہش مرے وجدان پر بھاری نہیں
مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں
سوچتا ہوں کس سے لکھواؤں سند پہچان کی
شہر کے شہرت نویسوں سے میری یاری نہیں
دے خداوندا مجھے بعدِ بصیرت کا سراغ
آنکھ کا یہ زخم گہرا ہے مگر کاری نہیں
شعرِ مشکل کی سماعت نا پسند آئے انہیں
اور آساں ہو تو کہتے ہیں کہ تہ داری نہیں
مشکلیں سہنے کا جینے میں سلیقہ آ گیا
اب تو مر جانے میں مجھ کو کوئی دشواری نہیں
خیر ہو اے یار! تیری دلبری کی خیر ہو
عاشقوں نے ہار کر بازی ابھی ہاری نہیں
آفتاب اقبال شمیم

اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 51
شہر کے شہر میں بیداری تھی
اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی
دستِ قاتل کو ملے دادِ کمال
ضرب ہلکی تھی مگر کاری تھی
میں جو سمجھا وُہ نہیں تھا شاید
لفظ میں حکمتِ تہ داری تھی
میں پگھلتا ہی، پگھلتا ہی گیا
عشق کی اوّلین سرشاری تھی
نصف افلاک سے میں لوٹ آیا
اپنی مٹی سے مری یاری تھی
یاس کیسی کہ یہ بازی ہم نے
کبھی جیتی تھی کبھی ہاری تھی
مر گئے ہوتے اگر مر سکتے
ایک اقرار کی دشواری تھی
آفتاب اقبال شمیم

دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 265
کشتی تو اپنی خود ہی جلا دی، بستی ہماری دریا کنارے
دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے
برفیلی رُت نے جب بھی تمہاری مٹّی کا دانہ پانی چرایا
دیکھو پرندو‘ رب نے تمہاری روزی اتاری دریا کنارے
تم بھی مسافر کتنے دلاور‘ ہم بھی مسافر کیسے شناور
آندھی کے پیچھے جنگل سے ناتا‘ دریا سے یاری دریا کنارے
ریتی کے پیلے دامن پہ ہم بھی رنگِ حنا سے بکھرے پڑے ہیں
موجِ بہاراں‘ آئے گی کب تک تیری سواری دریا کنارے
تمثیل سمجھو یا استعارہ اتنا سا لوگو، قصہ ہمارا
آنکھوں میں اپنی پھولوں سے چہرے، چہروں کی کیاری دریا کنارے
عرفان صدیقی

اب تعلق میں بردباری چھوڑ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 256
وحشتیں اوڑھ، انتظاری چھوڑ
اب تعلق میں بردباری چھوڑ
دیکھنا چاند کیا سلاخوں سے
کج نظر سارتر سے یاری چھوڑ
دستِ ابلیس سے ثواب نہ پی
یہ تہجد کی بادہ خواری چھوڑ
زندہ قبروں پہ پھول رکھنے آ
مرنے والوں کی غم گساری چھوڑ
مردہ کتے کا دیکھ لے انجام
مشورہ مان، شہریاری چھوڑ
کچھ تو اعمال میں مشقت رکھ
یہ کرم کی حرام کاری چھوڑ
صبح کی طرح چل! برہنہ ہو
یہ اندھیرے کی پردہ داری چھوڑ
توڑ دے ہجر کے کواڑوں کو
اب دریچوں سے چاند ماری چھوڑ
بھونک اب جتنا بھونک سکتا ہے
ظلم سے التجا گزاری چھوڑ
آج اس سے تُو معذرت کر لے
یہ روایت کی پاس داری چھوڑ
رکھ بدن میں سکوت مٹی کا
یہ سمندر سی بے قراری چھوڑ
چھوڑ آسانیاں مصائب میں
دشت میں اونٹ کی سواری چھوڑ
یہ سفیدی پھری ہوئی قبریں
چھوڑ عیسیٰ کے یہ حواری چھوڑ
شہرِ غالب سے بھاگ جا منصور
میر جیسی غزل نگاری چھوڑ
منصور آفاق

مُکھڑے مکھڑے اکو جیہی بے زاری اے

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 109
ویلے نے کُجھ ایداں دی مت ماری اے
مُکھڑے مکھڑے اکو جیہی بے زاری اے
رُکھ اپنی چھاں دُوجے رُکھ نوں دیندا نئیں
انت نوں سبھناں ایہو گل نتاری اے
گلی گلی وچ ہوکا دیوے اُسّے دا
جس جس دے سر اُتے جیہڑی کھاری اے
پَتّر نَم نوں رُکھ چھانواں نوں سِکدے نیں
دَین رُتاں دی ہرتھانویں ہکساہری اے
کون کسے دا، جنہوں ویکھو، اُنّھے اُئی
اپنے آل دوالے کندھ اُساری اے
کدے نہ پھیرا پاوے اجڑیاں تھانواں ول
کَنیاں دی رُت وی شاہ دی اسواری اے
نویں وکھالی دیون دے لئی چڑیاں نوں
سپ نے اپنی پہلی کُنج اُتاری اے
اوڑک اوہنوں پنجرہ کھِچ ائی لیاندا اے
دَھون دوالے جس پکھنو دے دھاری اے
حرص دی ایس بھاجڑ وچ کِنّھے بچنا ایں
سڑکاں اُتّے لاری پچھے لاری اے
سُولی تیک وی ایہو حرف پُجاندے نیں
ماجدُ جنہاں دے سنگ تیری یاری اے
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)