چلے تھے ہم سے ٹکرانے بگولے
ہُوا کا رخ نہ پہچانے بگولے
یہی حاصل ہے ذوقِ رَہ رَوی کا
یہی دوچار ویرانے، بگولے
تمھاری جلوہ گاہیں لالہ و گُل
ہمارے آینہ خانے بگولے
اگر بیٹھا ہُوں سستانے کی خاطر
چلے آئے ہیں سمجھانے بگولے
مِرے قدموں کی مہریں رہ گزر پر
مری جُرأت کے افسانے بگولے
مزاجِ گردشِ دوراں نہ بدلا
رہے گردش میں پیمانے بگولے
مِرا مسلک، شکیبؔ، ان سے جُدا ہے
نہ جوڑیں مجھ سے یارانے بگولے
شکیب جلالی