ٹیگ کے محفوظات: یارانہ

بڑا مہنگا پڑا یارانۂ دل

خوب تھا رہتے جو بیگانۂ دل
بڑا مہنگا پڑا یارانۂ دل
ایک وہ جس کا ہے دل دیوانہ
ایک میں ہوں کہ ہوں دیوانۂ دل
خاک تو پہلے بھی اُڑتی تھی مگر
تجھ سے آباد تھا ویرانۂ دل
آج وہ گھر ہے کھنڈر سا ویراں
جس پہ تحریر تھا کاشانۂ دل
اک ذرا لہر اٹھی اور چھلکا
کیا بھرا رہتا تھا پیمانۂ دل
ابھی باقی ہے طلب آنکھوں میں
ہے ادھورا ابھی افسانۂ دل
جس قدر پی سکو پی لو باصرِؔ
بند ہونے کو ہے میخانۂ دل
باصر کاظمی

صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 188
ہر وقت فکرِ مرگِ غریبانہ چاہیے
صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے
دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو
رستے میں اک سلامِ رفیقانہ چاہیے
آنکھوں میں امڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ
ایسا بھی ایک دور کا یارانہ چاہیے
کیا پستیوں کی ذلتیں، کیا عظمتوں کے فوز
اپنے لیے عذاب جداگانہ چاہیے
اب دردِ شش بھی سانس کی کوشش میں ہے شریک
اب کیا ہو، اب تو نیند کو آ جانا چاہیے
روشن ترائیوں سے اترتی ہوا میں آج
دو چار گام لغزشِ مستانہ چاہیے
امجد ان اشکبار زمانوں کے واسطے
اک ساعتِ بہار کا نذرانہ چاہیے
مجید امجد

یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 200
آنسوئوں کے عکس دیواروں پہ بکھرانا غلط
یہ دیئے بے فائدہ یہ آئینہ خانہ غلط
وہ پرندوں کے پروں سے نرم، بادل سے لطیف
یہ چراغِ طور کے جلووں سے سنولانا غلط
جاگ پڑتے ہیں دریچے اور بھی کچھ چاپ سے
اس گلی میں رات کے پچھلے پہر جانا غلط
درد کے آتش فشاں تھم، کانپتی ہیں دھڑکنیں
یہ مسلسل دل کے کہساروں کا پگھلانا غلط
کون واشنگٹن کو دے گا ایک شاعر کا پیام
قیدیوں کو بے وجہ پنجروں میں تڑپانا غلط
ان دنوں غم ہائے جاناں سے مجھے فرصت نہیں
اے غمِ دوراں ترا فی الحال افسانہ غلط
ایک دل اور ہر قدم پر لاکھ پیمانِ وفا
اپنے ماتھے کو ہر اک پتھر سے ٹکرانا غلط
ایک تجریدی تصور ہے یہ ساری کائنات
ایسے الجھے مسئلے بے کار۔ سلجھانا غلط
وقت کا صدیوں پرانا فلسفہ بالکل درست
یہ لب و عارض غلط، یہ جام و پیمانہ غلط
کیا بگڑتا اوڑھ لیتا جو کسی تتلی کی شال
شاخ پر کھلنے سے پہلے پھول مرجھانا غلط
کچھ بھروسہ ہی نہیں کالے سمندر پر مجھے
چاند کا بہتی ہوئی کشتی میں کاشانہ غلط
زندگی کیا ہے۔ ٹریفک کا مسلسل اژدہام
اس سڑک پر سست رفتاری کا جرمانہ غلط
جس کے ہونے اور نہ ہونے کی کہانی ایک ہے
اُس طلسماتی فضا سے دل کو بہلانا غلط
منہ اندھیرے چن کے باغیچے سے کچھ نرگس کے پھول
یار بے پروا کے دروازے پہ دھر آنا غلط
پھر کسی بے فیض سے کر لی توقع فیض کی
پھر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ پہچانا غلط
زندگی جس کے لیے میں نے لگا دی داؤ پر
وہ تعلق واہمہ تھا، وہ تھا یارانہ غلط
میں انا الحق کہہ رہا ہوں اور خود منصور ہوں
مجھ سے اہل معرفت کو بات سمجھانا غلط
منصور آفاق