ٹیگ کے محفوظات: ہے

مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی

سینہ ہے زَخم زخم تو ہونٹوں پہ خامشی
مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
اِک تارہ ٹوٹ کر، یمِ گردوں میں کھو گیا
اک چیخ، کائنات کے دل میں اتر گئی
کتنے ہی چاند تھے اُفقِ دل پہ جلوہ گر
یادوں سے جن کی آج بھی چھنتی ہے روشنی
کیا کیا نہ یاد آئے ہیں احساں بہار کے
جب دیکھتا ہوں کشتِ غمِ دل ہری بھری
تنہائیوں کے ساز پہ بجتا ہے دیپ راگ
جس دم ہواے شب سے سُلگتی ہے چاندنی
شا خو ! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چادرِ گُل بار کیا ہوئی!
وہ پھر رہے ہیں زخم بپا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جُھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بُو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر، سجائی گئی شاخِ دار بھی
(۱ سے ۵ اشعار’روشنی اے روشنی، میں
شامل ہیں یہاں مکمل غزل قارئین کی نذر ہے)
شکیب جلالی

یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا

ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا
گونجتے ہیں شکیبؔ آنکھوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
ثاند کی پر بہار وادی میں
ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
بات میری کہاں سمجھتے ہو
آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو
ہاۓ وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے
ہاۓ وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی
چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
مجھ کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پر خطر نہ ہو جائیں
خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں
پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے
کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں
خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے ، ہر دال سے موتی بین لیے
اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
اس گلبدن کی بوۓ قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اب انہیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی
بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دکھ پہنچا ہے
سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے
جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب
رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِٔ مظلوم صدا رکھتی ہے
کسی کا قرب اگر قربِ عارضی ہے شکیبؔ
فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے
ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا
تھکن سے چور ہیں پاؤں کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسن رہ گزار سہی
کمتر نہ جانیں لوگ اسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
یہ لطف زہر نہ بن جاۓ زندگی کے لیے
چلے تو آۓ ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا
سچ کہو میری یاد بھی آئی؟
جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا
سکوں بدوش کنارا بھی اب ابھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیبؔ
یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر
بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے
شکیب جلالی

ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں

تو اسیرِ بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالہِ نے نہیں
ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں
ترا ہر کمال ہے ظاہری ترا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا ترے دل میں آگ تو ہے نہیں
جسے سن کے رُوح مہک اُٹھے جسے پی کے درد چہک اُٹھے
ترے ساز میں وہ صدا نہیں ترے میکدے میں وہ مے نہیں
کہاں اب وہ موسمِ رنگ و بو کہ رگوں میں بول اُٹھے لہو
یونہی ناگوار چبھن سی ہے کہ جو شاملِ رگ وپے نہیں
ترا دل ہو درد سے آشنا تو یہ نالہ غور سے سن ذرا
بڑا جاں گسل ہے یہ واقعہ یہ فسانہِ جم و کے نہیں
میں ہوں ایک شاعرِ بے نوا مجھے کون چاہے مرے سوا
میں امیرِ شام و عجم نہیں میں کبیرِ کوفہ و رَے نہیں
یہی شعر ہیں مری سلطنت اِسی فن میں ہے مجھے عافیت
مرے کاسہِ شب و روز میں ترے کام کی کوئی شے نہیں
ناصر کاظمی

کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہوا وہ جبر دبانے کو مدعّا اب کے
کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے
وہ کیسا حبس تھا مہریں لبوں پہ تھیں جس سے
یہ کیسا شور ہے در در سے جو اُٹھا ہے اب کے
دَہن دَہن کی کماں اِس طرح تنی نہ کبھی،
بچا نہ تیر کوئی جو نہیں چلا اَب کے
شجر کے ہاتھ سے سایہ تلک کھسکنے لگا
وہ سنگ بارئِ طفلاں کی ہے فضا اب کے
خلاف ظلم سبھی کاوشیں بجا لیکن
سرِ غرور تو کچھ اور بھی اُٹھا اب کے
کوئی یہ وقت سے پوچھے کہ آخرش کیونکر
ہے آبِ نیل تلک بھی رُکا کھڑا اب کے
لبوں پہ خوف سے اِک تھرتھری سی ہے ماجدؔ
دبک گیا ہے کہیں کلمۂ دُعا اَب کے
ماجد صدیقی

ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
چھلکوں جو ساحلوں سے یہ حاجت نہیں مجھے
ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے
یا شاخِ سبز یا میں رہوں بن کے رزقِ خاک
منظور اور کوئی بھی صُورت نہیں مجھے
رشتہ ہے استوار شجر سے ابھی مرا
کچھ تُندئ ہوا سے شکایت نہیں مجھے
ہوں مشتِ خاک، ابرِ گریزاں نہیں ہوں میں
خلوت گزیں ہوں نشّۂ نخوت نہیں مجھے
ہمرہ بجائے سایہ ابھی ابر سر پہ ہے
صحرا کی وسعتوں سے بھی وحشت نہیں ہے مجھے
کچھ اِس پہ اور بھی تو یقیناً ہے مستزاد
اِک عجز ہی تو باعثِ عزّت نہیں مجھے
ماجدؔ ہوں موج، مجھ میں تموّج ضرور ہے
حاشا کسی سے کوئی عداوت نہیں مجھے
ماجد صدیقی

جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 86
اپنی خبر، نہ اُس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے
جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے
پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی
لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے، یہ عشق ہے
تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابینِ عقل و دل
بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے
بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون
اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے
کیا رمز جاننی ہے تجھے اصلِ عشق کی؟
جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے، یہ عشق ہے
شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد
اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے
زیرِ قبا جو حسن ہے، وہ حسن ہے خدا
بندِ قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے
ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض
اس کی دعا، نہ اس کی دوا ہے، یہ عشق ہے
شفّاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال
سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے
یعنی کہ کچھ بھی اُس کے سِوا سوجھتا نہیں؟
ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے
جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے
اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے
سجدے میں ہے جو محوِ دعا، وہ ہے بے دلی
یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے
ہوتااگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست
اِس کی رضا شکستِ انا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ماننے میں تاٗمل تجھے ہی تھا
میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ستار

فرد فرد

تعلق کو نبھانے کے بہت دُکھ سہہ چکے ہم
سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں
ایک ملال تو ہونے کا ہے، ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے
تحیر خیز موجیں ہیں نہ پُر ہیبت تلاطم
عجب اک بے تغیر بے کرانی رہ گئی ہے
تکمیل تو زوال کا پہلا پڑائو ہے
خود کو اسی سبب سے مکمل نہیں کیا
بے رنگ ترے در سے کب، خاک بسر اٹھے
یا پیراہنِ گُل میں، یا خون میں تر اٹھے
چلے آئے ہیں آنکھوں میں کسی کا عکس پا کر
یہ آنسو آج پھر کوئی تماشا چاہتے ہیں
جس دن سے روزگار کو سب کچھ سمجھ لیا
راتیں خراب ہو گئیں اور دن سنور گئے
کچھ آنکھ بھی ہے سطح سے آگے کی کھوج میں
کچھ دل بھی اک خیال میں ڈوبا ہوا سا ہے
بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
ہمیں بھی سودا کہاں تھا ایسا کہ اپنے دل میں ملا ل رکھتے
اگر تُو اپنا خیال رکھتا تو ہم بھی اپنا خیال رکھتے
بہارِ جاں سے تجھے باریاب کر دیں گے
نظر اٹھائیں گے چہرہ گلاب کر دیں گے
خیالِ ترکِ تعلق جو ہو، تو مل لینا
کسی دعا کو ترا ہم رکاب کر دیں گے
اک عکس کھو گیا ہے مرے دن کے پیچ میں
اک خواب میری رات سے الجھا ہوا ساہے
قدم جما نہ سکا رہگزارِ وقت پہ میں
میں اک اُچٹتا سا لمحہ، مری کہانی کیا
زندگی ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا
ہم جو مشّاطۂ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں
بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے روحِ وصال
آج ہم پیرہنِ خاک اتارے ہوئے ہیں
متفرق اشعار
عرفان ستار

فرد فرد

متفرق اشعار
خُوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
موجِ ہَوا کے ہاتھ میں اس کا سُراغ ہے

ہمیں خبر ہے ،ہَوا کا مزاج رکھتے ہو
مگر یہ کیا ، کہ ذرا دیر کو رُکے بھی نہیں

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے اُلجھ جاتی ہیں

میں جب بھی چاہوں ، اُسے چھُو کے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا

ہمارے عہد میں شاعر کے نرخ کیوں نہ بڑھیں
امیرِ شہر کو لاحق ہُوئی سخن فہمی

گھر کی ویرانی کی دوست
دیواروں پر اُگتی گھاس

حال پوُچھا تھا اُس نے ابھی
اور آنسو رواں ہو گئے

لو! میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں ، اب تم رخصت ہو
دل تو جانے کیا کہتا ہے،لیکن دل کا کہنا کیا
پروین شاکر

تعجّب سے وہ بولا یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 171
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجّب سے وہ بولا ’یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟‘
دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالب
نہ کر سرگرم اس کافر کو اُلفت آزمانے میں
مرزا اسد اللہ خان غالب

مری محفل میں غالب گردشِ افلاک باقی ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 58
نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالب گردشِ افلاک باقی ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 56
اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 55
فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے
کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟
گر باغ گدائے مَے نہیں ہے
ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے
پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے
ہاں ، کھائیو مت فریبِ ہستی!
ہر چند کہیں کہ "ہے” ، نہیں ہے
شادی سے گُذر کہ ، غم نہ ہووے
اُردی جو نہ ہو ، تو دَے نہیں ہے
کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد !
مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے
ہستی ہے ، نہ کچھ عَدم ہے ، غالب!
آخر تُو کیا ہے ، ”اَے نہیں ہے؟“
مرزا اسد اللہ خان غالب

قیامت کشتۂٴ لعل بتاں کا خواب سنگیں ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 54
لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
قیامت کشتۂٴ لعل بتاں کا خواب سنگیں ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر، سو ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 53
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر، سو ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کہکشاں موجِ شفق میں تیغِ خوں آشام ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 52
مستعدِ قتلِ یک عالم ہے جلاّدِ فلک
کہکشاں موجِ شفق میں تیغِ خوں آشام ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے

دیوان اول غزل 505
نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے
تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے
وہی اک مندرس نالہ مبارک مرغ گلشن کو
وہ اس ترکیب نو کی نالہ و زاری کو کیا جانے
پڑے آسودگان خاک چونکو شور محشر سے
مرا جو کوئی بے خود ہے وہ ہشیاری کو کیا جانے
ستم ہے تیری خوے خشمگیں پر ٹک بھی دلجوئی
دل آزاری کی باتیں کر تو دلداری کو کیا جانے
گلہ اپنی جفا کا سن کے مت آزردہ ہو ظالم
نہیں تہمت ہے تجھ پر تو جفا کاری کو کیا جانے
پریشاں فوج فوج لخت دل نکلے ہے آنکھوں سے
نپٹ ناداں ہے………………
ترا ابرام اس کی سادگی پر میر میں مانا
بھلا ایسا جو ناداں ہو وہ عیاری کو کیا جانے
میر تقی میر

میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 100
وہ کون اور کہاں ہے ابھی یہ طے ہی نہیں
میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں
بغیر اُس کے کہاں کثرتیں اکائی بنیں
کہ سا زِ ہفتِ نوا میں وہ ایک لے ہی نہیں
فریبِ نشّہ بھی نشّے کی ایک صورت ہے
کہ پی رہا ہوں پیالے میں گرچہ مے ہی نہیں
نکال دے جو سمندر کو اپنے ساحل سے
سرِشتِ آب میں وہ موج پے بہ پے ہی نہیں
میں کائنات ہوں اپنے وجود کے اندر
مرے قریب یہ دنیا تو کوئی شے ہی نہیں
آفتاب اقبال شمیم

فیض احمد فیض ۔ قطعات

فیض احمد فیض ۔ قطعات
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
**
دل رہین غم جہاں ہے آج
ہر نفس تشنۂ فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفل ہستی
اے غم دوست! تو کہاں ہے آج

**

وقف حرمان و یاس رہتا ہے
دل ہے اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
**
فضائے دل پر اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریب زیست سے قدرت کا مدعا معلوم
یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
متفرق اشعار
فیض احمد فیض

فرد فرد

عرفان صدیقی ۔ فرد فرد
اب خدا چاہے تو کچھ اور ہوا چاہتا ہے
آج تک تو وہ ہوا ہے جو عدو نے چاہا
خدا نے ذہن میں لفظ و بیاں کو بھیج دیا
جو کچھ کمایا تھا میں نے سو ماں کو بھیج دیا

غزال آتے بھی ہیں زیر دام جانتا ہوں
مگر یہ رزق میں خود پر حرام جانتا ہوں

شہر نے اُمید کی چادر اوڑھی دُور اذان شام ہوئی
سوچ کی کہنہ سرائے میں روشن مشعل بام ہوئی

میرے انکار پرستش نے بچایا ہے مجھے
سر جھگا دوں تو ہر انسان خدا ہو جائے

کون پاگل اپنا سر دینے کی سرشاری میں ہے
فائدہ تو صرف اعلان وفاداری میں ہے

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہوتا
نہ ہوا ورنہ یہ نظارہ غضب کا ہوتا

میرا میدان غزل نیزہ و سر کا ٹھہرا
رہنے والا جو شہیدوں کے نگر کا ٹھہرا

غزل میں ہم سے غم جاں بیاں کبھی نہ ہوا
تمام عمر جلے اور دھواں کبھی نہ ہوا

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہو گا
کبھی ہو گا تو یہ نظارہ غضب کا ہو گا

ہوا کے ہاتھ میں رکھ دی کسی نے چنگاری
تمام شہر اسے حادثہ سمجھتا رہا

کوئے قاتل کو تماشا گاہ سمجھا ہے حریف
کشتنی میری رقابت میں یہاں بھی آگیا

زمین گھوم رہی ہے ہمارے رُخ کے خلاف
اشارہ یہ ہے کہ سمت سفر بدل دیں ہم

اس کا پندار رہائی نہیں دیتا اس کو
نقش دیوار دکھائی نہیں دیتا اس کو

میں اک دعا ہوں تو دروازہ آسمان کا بھی کھول
اور اک نوا ہوں تو حسن قبول دے مجھ کو

سوچتے سوچتے زندگی کٹ گئی اس نے چاہا مجھے
وہم بھی ایک شئے ہے مگر اس کے لیے کچھ قرینہ تو ہو

وہاں ہونے کو ہو گی برف باری
پرندے پھر ادھر آنے لگے ہیں

شاعری سے کوئی قاتل راہ پر آتا نہیں
اور ہم کو دوسرا کوئی ہنر آتا نہیں

مری غزل کا یہ مضموں بدلنے والا نہیں
وہ ملنے والا نہیں، دل سنبھلنے والا نہیں

میں بھی تنہائی سے ڈرتا ہوں کہ خاکم بدہن
آدمی کوئی خدا ہے، کہ اکیلا رہ جائے

حکم یہ ہے کہ مجھے دشت کی قیمت دی جائے
میرے زنداں کے در و بام کو وسعت دی جائے

موتیوں سے منہ بھرے دیکھو تو یہ مت پوچھنا
لوگ کیوں چپ ہو گئے تاب سخن ہوتے ہوئے

آگ میں رقص کیا، خاک اُڑا دی ہم نے
اب کے تو شہر میں اک دھوم مچا دی ہم نے
آگ میں رقص کیا خاک اُڑا دی ہم نے
موج میں آئے تو اک دھوم مچا دی ہم نے

دل اک تپش میں پگھلتا رہے تو اچھا ہے
چراغ طاق میں جلتا رہے تو اچھا ہے

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچاتے تو زیاں نام و نسب کا ہوتا

موج خوں بھرتی رہی دشت کی تصویر میں رنگ
کبھی دریا نہ مرے دیدۂ تر کا ٹھہرا

کبھی طلب ہی نہ کی دوستوں سے قیمت دل
سو کاروبار میں ہم کو زیاں کبھی نہ ہوا

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچائیں تو زیاں نام و نسب کا ہو گا

بجا حضور، یہ ساری زمین آپ کی ہے
میں آج تک اسے ملک خدا سمجھتا رہا

میں نے تو اپنے ہی بام جاں پہ ڈالی تھی کمند
اتفاقاً اس کی زد میں آسماں بھی آگیا

اب آفتاب تو محور بدل نہیں سکتا
تو کیوں نہ زاویۂ بام و در بدل دیں ہم

کیا کسی خواب میں ہوں میں تہہ خنجر کہ یہاں
چیختا ہوں تو سنائی نہیں دیتا مجھ کو
نہ گرم دوستیاں ہیں نہ نرم دشمنیاں
میں بے اصول ہوں کوئی اصول دے مجھ کو

ہم ہوا کے سوا کچھ نہیں اس پہ یہ حوصلہ دیکھئے
آدمی ٹوٹنے کے لیے کم سے کم آبگینہ تو ہو

مرا گھر پاس آتا جا رہا ہے
وہ مینارے نظر آنے لگے ہیں

شہسوارو، اپنے خوں میں ڈوب جانا شرط ہے
ورنہ اس میدان میں نیزے پہ سر آتا نہیں

لہو میں لو سی بھڑکنے لگی، میں جانتا ہوں
کہ یہ چراغ بہت دیر جلنے والا نہیں

دل افسردہ کے ہر سمت ہے رشتوں کا ہجوم
جیسے انسان سمندر میں بھی پیاسا رہ جائے

کب تلک کوئی کرے حلقۂ زنجیر میں رقص
کھیل اگر دیکھ لیا ہو تو اجازت دی جائے

اب بدن سے موج خوں گزری تو اندازہ ہوا
کیا گزر جاتی ہے صحرا پہ چمن ہوتے ہوئے

درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم ہی دنیا سے اُٹھا دی ہم نے
درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم بہرحال اُٹھا دی ہم نے

وہ عشق ہو کہ ہوس ہو مگر تعلق کا
کوئی بہانہ نکلتا رہے تو اچھا ہے
عرفان صدیقی