ٹیگ کے محفوظات: ہیرا

لوگ مٹی میں رُلے جاتے ہیں کیا ہیرا سے

خوف آنے لگا یارب ہمیں اِس دنیا سے
لوگ مٹی میں رُلے جاتے ہیں کیا ہیرا سے
یا تو اک لمحے میں ہو جائے طبیعت بیزار
اور لگ جائے تو بھرتا نہیں جی دنیا سے
اُس کو ماضی میں بھی آرام کی صُورت نہ ملی
جس نے منہ پھیر لیا آئینہء فردا سے
تم بہت دیر سے بیکار ہو اے قلب و جگر
آؤ ملواؤں تمہیں ایک غمِ تازہ سے
اب جو چھایا ہے تو پھر کھُل کے برس ابرِ خیال
کھیت اشعار کے مدت سے پڑے ہیں پیاسے
چین سے بیٹھے ہو اک گوشہء تنہائی میں
اور کیا چاہیے باصرِؔ تمہیں اس دنیا سے
باصر کاظمی

مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت ہی خیرا

دیوان دوم غزل 711
آیا ہے ابر جب کا قبلے سے تیرا تیرا
مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت ہی خیرا
خجلت سے ان لبوں کے پانی ہوبہ چلے ہیں
قند و نبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا
مجنوں نے حوصلے سے دیوانگی نہیں کی
جاگہ سے اپنی جانا اپنا نہیں وتیرا
اس راہزن سے مل کر دل کیونکے کھو نہ بیٹھیں
انداز و ناز اچکّے غمزہ اٹھائی گیرا
کیا کم ہے ہولناکی صحراے عاشقی کی
شیروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرا
آئینے کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو
حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا
نیت پہ سب بنا ہے یاں مسجد اک بڑی تھی
پیر مغاں موا سو اس کا بنا حظیرا
ہمراہ خوں تلک ہو ٹک پائوں کے چھوئے سے
ایسا گناہ مجھ سے وہ کیا ہوا کبیرا
غیرت سے میر صاحب سب جذب ہو گئے تھے
نکلا نہ بوند لوہو سینہ جو ان کا چیرا
میر تقی میر