ٹیگ کے محفوظات: ہویدا

حسن خود محوِ تماشا ہو گا

عشق جب زمزمہ پیرا ہو گا
حسن خود محوِ تماشا ہو گا
سن کے آوازۂ زنجیرِ صبا
قفسِ غنچہ کا در وا ہو گا
جرسِ شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپرِ عنقا ہو گا
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
کون دیکھے گا طلوعِ خورشید
ذرّہ جب دیدۂ بینا ہو گا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بیدرد کوئی کیا ہو گا
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر کہیں برسا ہو گا
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دلِ حیرت زدہ تنہا ہو گا
پھر کسی صبحِ طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہو گا
گل زمینوں کے خنک رَمنوں میں
جشنِ رامش گری برپا ہو گا
پھر نئی رُت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بو چمن آرا ہو گا
گلِ شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلقِ صبح روانہ ہو گا
پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید
نکہتِ گل کا بسیرا ہو گا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہو گی
اک شرر پھول میں لرزا ہو گا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا
دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں
پتہ پتہ لبِ گویا ہو گا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اُترا ہو گا
ناصر کاظمی