ٹیگ کے محفوظات: ہنستا

پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا

میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا
کتنی تیز اُداس ہوا تھی
دل کا چراغ بجھا جاتا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
میری پیاسی تنہائی پر
آنکھوں کا دریا ہنستا تھا
ریل چلی تو ایک مسافر
مرے سامنے آ بیٹھا تھا
سچ مچ تیرے جیسی آنکھیں
ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا
چاندی کا وہی پھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کھلا تھا
جانے کون تھی اُس کی منزل
جانے کیوں تنہا تنہا تھا
کیسے کہوں رُوداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا
ناصر کاظمی

بس یونہی رستا بھول گیا تھا

مجھ کو اور کہیں جانا تھا
بس یونہی رستا بھول گیا تھا
دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا
کیسی اندھیری شام تھی اُس دن
بادل بھی گھر کر چھایا تھا
رات کی طوفانی بارش میں
تو مجھ سے ملنے آیا تھا
ماتھے پر بوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ہنستا تھا
چاندی کا اک پھول گلے میں
ہاتھ میں بادل کا ٹکڑا تھا
بھیگے کپڑے کی لہروں میں
کندن سونا دمک رہا تھا
سبز پہاڑی کے دامن میں
اُس دن کتنا ہنگامہ تھا
بارش کی ترچھی گلیوں میں
کوئی چراغ لیے پھرتا تھا
بھیگی بھیگی خاموشی میں
مَیں ترے گھر تک ساتھ گیا تھا
ایک طویل سفر کا جھونکا
مجھ کو دُور لیے جاتا تھا
ناصر کاظمی

کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 4
ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا
اے میرے ابر گریزاں مری آنکھوں کی طرح
گر برسنا ہی تجھے تھا تو برستا جاتا
آج تک یاد ہے اظہار محبت کا وہ پل
کہ مری بات کی لکنت پہ وہ ہنستا جاتا
اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
گر ترسنا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا
احمد فراز

اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 53
اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دُھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالےآ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ،جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں !
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ،ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پُھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کِھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے،اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
پروین شاکر

کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 106
میں ہر اک محفل میں اس امید پر بیٹھا رہوں
کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں
دھوپ کی صورت مرے ہمراہ تو چلتا رہے
سائے کی مانند میں گھٹتا رہوں بڑھتا رہوں
ایک طوفاں کی طرح تو مجھ سے ٹکراتا رہے
اور ساحل کی طرح کٹ کٹ کے میں گرتا رہوں
تو لہو کی طرح میرے جسم میں گردش کرے
سانس کی مانند میں آتا رہوں جاتا رہوں
دشت دل سے تو صبا بن کے اگر گزرے تومیں
قطرہ بن کے نوک خار زیست پر ٹھہرا رہوں
دائرے آب رواں کے ٹوٹتے بنتے رہیں
اور اپنی شکل میں بیٹھا ہوا تکتا رہوں
زندگی کے مرحلے دنیا کی خاطر طے کروں
اور محبت کے لئے میں عمر بھر پیاسا رہوں
کر دیا ہے کام کیسا تو نے یہ میرے سپرد
رات بھر آوارہ قدموں کی صدا سنتا رہوں
میری حسرت کا تقاضا ہے کہ تیری آرزو
موسم گل میں شکستہ شاخ پر بیٹھا رہوں
زندگی دو حادثوں کے درمیاں اک حادثہ
میں کہاں تک حادثوں کے درمیاں بیٹھا رہوں
زندہ رہنے کا تو باقیؔ یہ بھی اک انداز ہے
بیٹھ کر غیروں میں اپنے آپ پر ہنستا رہوں
باقی صدیقی