ٹیگ کے محفوظات: ہنر

ازل سے جاری بس اک ہی سفر کو دیکھتے ہیں

جہاں سے گزریں کبھی ہم، جدھر کو دیکھتے ہیں
ازل سے جاری بس اک ہی سفر کو دیکھتے ہیں
نہیں ہے اپنا ہی عجزِ ہنر نظر میں جب
تو لوگ کیوں مرے دستِ ہنر کو دیکھتے ہیں؟
وہ منزلوں پہ نظر رکھتے ہیں، مگر ہم لوگ
پڑاؤ کر کے فقط رہگزر کو دیکھتے ہیں
وداع کہہ کے پرندے شجر سے جب جائیں
ہر ایک پیڑ پہ ہم اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مذاقِ طبع کو، سننے کو پنچھیوں کی پکُار
جلا کے گھونسلے، آؤ شجر کو دیکھتے ہیں
شفق سے بہتا لہو دیکھتے ہیں جب پنچھی
تو کیوں گلِے سے وہ مجھ بے ضرر کو دیکھتے ہیں؟
یاور ماجد

چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے

خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہیے
چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے
مستقل دل میں موجود ہے اک چبھن، اب نہ وہ خوش دلی ہے نہ ویسا سخن
مضطرب ہے طبیعت بہت ان دنوں، کچھ علاج اس کا اے چارہ گر چاہیے
چاک عہدِ تمنا کے سب سل گئے، ہجر کے ساز سے دل کے سُر مل گئے
بس یہی ٹھیک ہے کاتبِ زندگی، عمر باقی اسی طرز پر چاہیے
ذوقِ تخلیق کی آبیاری کہاں، ہم کہاں اور یہ ذمہ داری کہاں
حسبِ توفیق محوِ سخن ہیں مگر، یہ نہیں جانتے کیا ہنر چاہیے
ہر کسی کو گلہ بیش و کم ہے یہی، آدمی کا ہمیشہ سے غم ہے یہی
جو ملا اُس کی ایسی ضرورت نہ تھی، جو نہیں مل سکا وہ مگر چاہیے
رنگ و خوشبو کا سیلاب کس کام کا، ایک لمحہ تو ہے عمر کے نام کا
یہ نظارا بہ قدرِ نظر چاہیے، یہ مہک بس ہمیں سانس بھر چاہیے
نخلِ دل کی ہر اک شاخ بے جان ہے، تازگی کا مگر پھر بھی امکان ہے
زندگی کی ذرا سی رمق چاہیے، اب نفس کا یہاں سے گزر چاہیے
کام کچھ خاص ایسا یہاں پر نہیں، قرض بھی اب کوئی جسم و جاں پر نہیں
یعنی اپنی طرف واپسی کے لیے، اب ہمیں صرف اذنِ سفر چاہیے
لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیارِ سخن میں گزر کے لیے
عاجزی چاہیے، آگہی چاہیے، دردِ دل چاہیے، چشمِ تر چاہیے
آپ کی در بہ در جبہ سائی کہاں، میرؔ کی خاکِ پا تک رسائی کہاں
آپ کو خلعتِ سیم و زر چاہیے، وہ بھی کچھ وقت سے پیشتر چاہیے
عرفان ستار

اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے

ایک دنیا کی کشش ہے جو اُدھر کھینچتی ہے
اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے
ایک جانب لیے جاتی ہے قناعت مجھ کو
ایک جانب ہوسِ لقمۂ تر کھینچتی ہے
اک بصیرت ہے کہ معلوم سے آگے ہے کہیں
اک بصارت ہے کہ جو حدِ نظر کھینچتی ہے
ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے
ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں
کیا مسافت ہے کہ بس گردِ سفر کھینچتی ہے
ایک خواہش ہے جسے سمت کا ادراک نہیں
اک خلش ہے جو نہ معلوم کدھر کھینچتی ہے
اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت
اک طرف حسرتِ تسکینِ نظر کھینچتی ہے
عرفان ستار

یا پیرہنِ گل میں، یا خون میں تر اٹھے

بے رنگ ترے در سے، کب خاک بسر اٹھے
یا پیرہنِ گل میں، یا خون میں تر اٹھے
چل آج پہ روتے ہیں، تھک ہار کے سوتے ہیں
پھر رنج اٹھائیں گے، کل صبح اگر اٹھے
تہذیب کے روگوں کا، احسان یہ لوگوں کا
ہم سے تو نہیں اٹھتا، تم دیکھو اگر اٹھے
مصرعوں کی یہ ہمواری، مفہوم کی تہداری
توفیق عطا ہو تو، یہ بارِ ہنر اٹھے
سمجھائیں کہ کیسی ہو، یکجائی تو ایسی ہو
جب زخم اُدھر آئے، اور درد اِدھر اٹھے
عرفان ستار

پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں

نگاہِ شوق سے راہِ سفر کو دیکھتے ہیں
پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہ جانے کس کے بچھڑنے کا خوف ہے اُن کو
جو روز گھر سے نکل کر شجر کو دیکھتے ہیں
یہ روز و شب ہیں عبارت اسی توازن سے
کبھی ہنر کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ہمارے طرزِ توجہ پہ خوش گمان نہ ہو
تجھے نہیں تری تابِ نظر کو دیکھتے ہیں
ہمارے سامنے دریا ہیں سلسلوں کے رواں
پہ کیا کریں کہ تری چشمِ تر کو دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرص و ہوس تجھ سے بے نیاز کہاں
دعا کے بعد دعا کے اثر کو دیکھتے ہیں
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی
وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں
ہمیں بھی اپنا مقلد شمار کر غالبؔ
کہ ہم بھی رشک سے تیرے ہنر کو دیکھتے ہیں
عرفان ستار

میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں

آج بامِ حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں
بے اماں سائے کا بھی رکھ بادِ وحشت کچھ خیال
دیکھ کر چل درمیانِ بام و در میں بھی تو ہوں
رات کے پچھلے پہر پُرشور سناٹوں کے بیچ
تُو اکیلی تو نہیں اے چشمِ تر میں بھی تو ہوں
تُو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بہ در
اپنی خاطر ہی سہی پر در بہ در میں بھی تو ہوں
تیری اس تصویر میں منظر مکمل کیوں نہیں
میں کہاں ہوں یہ بتا اے نقش گر میں بھی تو ہوں
سن اسیرِ خوش ادائی منتشر تُو ہی نہیں
میں جو خوش اطوار ہوں، زیر و زبر میں بھی تو ہوں
خود پسندی میری فطرت کا بھی وصفِ خاص ہے
بے خبر تُو ہی نہیں ہے بے خبر میں بھی تو ہوں
دیکھتی ہے جوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
روح کہتی ہے بدن سے، بے ہنر میں بھی تو ہوں
دشتِ حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا
اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہم سفر میں بھی تو ہوں
کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے اس چاک پر میں بھی تو ہوں
یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے
تجھ کو خوش رکھے خدا یونہی مگر میں بھی تو ہوں
عرفان ستار

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا
ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا
اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا
دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
عرفان ستار

خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے

ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے
وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہو گا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہَوں گے
جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے
نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ مرے خوں میں بھر گئے ہَوں گے
کوئی تَو منزلِ جاناں پہ سرخ رُو پہنچا
نہیں تھے ہم نہ سہی، ہَمسَفَر گئے ہَوں گے
ہر ایک تاج محل میں ہے دفن یہ بھی سوال
نجانے کتنوں کے دستِ ہُنَر گئے ہَوں گے
یونہی تو سر نہ ہوئی ہو گی منزلِ مقصود
ہزاروں راہِ طَلَب ہی میں مر گئے ہَوں گے
ہمارے بعد سکوں سب کو ہو گیا ہو گا
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اُتَر گئے ہَوں گے
فرازِ دار سے ضامنؔ! نظر نہ آیا کوئی
سکونِ قلب سے احباب گھر گئے ہَوں گے
ضامن جعفری

یا خرابے میں فقط خوف و خَطَر زندہ ہے

شہر آشوب بتا! کیا کوئی گھر زندہ ہے
یا خرابے میں فقط خوف و خَطَر زندہ ہے
قتل کر ڈالے ہیں ظلمت نے فَلَک پر انجم
کوئی خورشید ہے باقی نہ قَمَر زندہ ہے
آنکھ ہے در کی نہ اب کان ہیں دیواروں کے
ایسا لگتا ہے نہ دیوار نہ در زندہ ہے
مرگئے قافلے کیا حسرتِ منزل لے کر؟
پوچھتی رہتی ہے جو راہ گزر زندہ ہے
میں بھی سب جیسا ہُوں مجھ سے بھی کوئی بات کرے
مجھ کو آواز تَو دے کوئی اگر زندہ ہے
وہ ہے اِس فکر میں ہر ایک کا ترکہ لے لُوں
مجھ کو یہ فکر بچالُوں کوئی گر زندہ ہے
میں نے مانگی تھی دعا ہاتھ اُٹھا کر دونوں
میں یہ سمجھا تھا دعاؤں میں اَثَر زندہ ہے
نہ وہ مالی نہ وہ گلشن ہے نہ وہ شاخ و شَجَر
لوگ ہیں مطمئن و خوش کہ ثَمَر زندہ ہے
قصرِ تخریب کی تعمیر مکمّل نہ کرو
ورنہ کَٹ جائے گا جو دستِ ہُنَر زندہ ہے
خلق ہونے کو ہیں کچھ تازہ مناظر ضامنؔ
میں پریشاں ہُوں ابھی میری نظر زندہ ہے
ضامن جعفری

وہ تب ملے گا جب اپنی خبر نہ رکھئے گا

رہِ طلب میں امیدِ شجر نہ رکھئے گا
وہ تب ملے گا جب اپنی خبر نہ رکھئے گا
جھُکانا چاہے اگر سر تَو کاٹ کر لے جائے
کسی کے قدموں میں خود جا کے سر نہ رکھئے گا
ہمیشہ سر پہ بٹھائے گی بزمِ بے ہُنَراں
بس آرزوئے متاعِ ہنر نہ رکھئے گا
حَسین دل بھی ضروری ہے حُسنِ پیکر میں
نظر نہ آئے تَو حُسنِ نظر نہ رکھئے گا
یہ دردِ عشق دوا بھی ہے درد بھی، ضامنؔ
اِس ابتلا میں کبھی چارہ گر نہ رکھئے گا
ضامن جعفری

دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو

حسن کہتا ہے اِک نظر دیکھو
دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو
سن کے طاؤسِ رنگ کی جھنکار
ابر اُٹھا ہے جھوم کر دیکھو
پھول کو پھول کا نشاں جانو
چاند کو چاند سے اُدھر دیکھو
جلوئہ رنگ بھی ہے اِک آواز
شاخ سے پھول توڑ کر دیکھو
جی جلاتی ہے اوس غربت میں
پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو
جھوٹی امید کا فریب نہ کھاؤ
رات کالی ہے کس قدر دیکھو
نیند آتی نہیں تو صبح تلک
گردِ مہتاب کا سفر دیکھو
اِک کرن جھانک کر یہ کہتی ہے
سونے والو ذرا اِدھر دیکھو
خمِ ہر لفظ ہے گلِ معنی
اہلِ تحریر کا ہنر دیکھو
ناصر کاظمی

اِک دبستانِ ہنر کھولیں گے

اہلِ دل آنکھ جدھر کھولیں گے
اِک دبستانِ ہنر کھولیں گے
وہیں رُک جائیں گے تاروں کے قدم
ہم جہاں رختِ سفر کھولیں گے
بحرِ ایجاد خطرناک سہی
ہم ہی اب اس کا بھنور کھولیں گے
کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور
برف پگھلے گی تو پر کھولیں گے
آج کی رات نہ سونا یارو
آج ہم ساتواں در کھولیں گے
ناصر کاظمی

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اُداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اُتر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی

ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب

کرتے نہ ہم جو اہلِ وطن اپنا گھر خراب
ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب
اعمال کو پرکھتی ہے دنیا مآل سے
اچھا نہ ہو ثمر تو ہے گویا شجر خراب
اک بار جو اتر گیا پٹٹری سے دوستو
دیکھا یہی کہ پھر وہ ہوا عمر بھر خراب
منزل تو اک طرف رہی اتنا ضرور ہے
اک دوسرے کا ہم نے کیا ہے سفر خراب
ہوتی نہیں وہ پوری طرح پھر کبھی بھی ٹھیک
ہو جائے ایک بار کوئی چیز گر خراب
اے دل مجھے پتہ ہے کہ لایا ہے تو کہاں
چل خود بھی اب خراب ہو مجھ کو بھی کر خراب
اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش
پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب
اک دن بھی آشیاں میں نہ گزرا سکون سے
کرتے رہے ہیں مجھ کو مرے بال و پر خراب
رہ رہ کے یاد آتی ہے استاد کی یہ بات
کرتی ہے آرزوئے کمالِ ہنر خراب
اِس تیرہ خاکداں کے لیے کیا بِلا سبب
صدیوں سے ہو رہے ہیں یہ شمس و قمر خراب
لگتا ہے اِن کو زنگ کسی اور رنگ کا
کس نے کہا کہ ہوتے نہیں سیم و زر خراب
اک قدر داں ملا تو یہ سوچا کہ آج تک
ہوتے رہے کہاں مرے لعل و گہر خراب
خاموش اور اداس ہو باصرؔ جو صبح سے
آئی ہے آج پھر کوئی گھرسے خبر خراب
باصر کاظمی

ٹھکانہ تھا جہاں اب وُہ شجر ،اچّھا نہیں لگتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
مری صورت ہے جو بے بال و پر ، اچّھا نہیں لگتا
ٹھکانہ تھا جہاں اب وُہ شجر ،اچّھا نہیں لگتا
ذرا سا بھی جو چہرے کو تکدّر آشنا کردے
اُنہیں ہم سا کوئی شوریدہ سر اچّھا نہیں لگتا
بہت کم گھر نفاذِ جبر پر چُپ تھے، سو اچّھے تھے
مگر یوں ہے کہ اب سارا نگر اچّھا نہیں لگتا
قدم بے سمت ہیں اور رہنما منصب سے بیگانہ
ہمیں درپیش ہے جو وُہ سفر اچّھا نہیں لگتا
مثالِ کودکاں بہلائے رکھنا بالغوں تک کو
ہنر اچُھا ہے لیکن یہ ہنر اچّھا نہیں لگتا
چہکنا شام کو چڑیوں کا ماتم ہے گئے دن کا
مگر ماتم یہ ہنگامِ سحر اچّھا نہیں لگتا
گلوں نے جن رُتوں سے ہیئتِ پیغام بدلی ہے
غضب یہ ہے ہَوا سا نامہ بر اچّھا نہیں لگتا
کہیں کیونکر نہ ماجِد زر سے ہی جب سُرخیٔ خوں ہے
نہیں لگتا ہمیں فقدانِ زر، اچّھا نہیں لگتا
ماجد صدیقی

تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
کر کے غاصب کو زیر و زبر چھین لے
تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے
ناز ہو ننّھی چڑیوں کے خوں پر جنہیں
اُن عقابوں سے تُو بال و پر چھین لے
جس کی بنیاد تیرے عرق سے اٹھی
اُس سپھل پیڑ سے برگ و بر چھین لے
نرم خُوئی تلک نرم خُو ہو، مگر
دستِ جارح سے تیغ و تبر چھین لے
حق ملے گا تجھے دشتِ وحشت میں کیا
چھین لے، چھین سکتا ہے گر، چھین لے
جس کا حقدار ہے تو وہ تکریمِ فن
تو بھی اے ماجدِ با ہنر! چھین لے
ماجد صدیقی

جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
سجل حویلیوں کی ، بام و در کی بات اور ہے
جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے
محال ہو گیا ہے، دھُند سے جسے نکالنا
چمن میں آرزو کے اُس شجر کی، بات اور ہے
صدف سے چشمِ تر کے، دفعتاً ٹپک پڑا ہے جو
گراں بہا نہیں ، پہ اُس گہر کی بات اور ہے
ہُوئی ہے روشنی سی، جگنوؤں کے اجتماع سے
لگی نہیں جو ہاتھ، اُس سحر کی بات اور ہے
کوئی کوئی ہے شہر بھر میں، تجھ سا ماجدِ حزیں
ہُوا جو تجھ پہ ختم ، اُس ہنر کی بات اور ہے
ماجد صدیقی

اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جو حق میں تمہارے بند رہیں وہ لب گنجینۂ زر کر دو
اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو
جو سادہ منش ہیں ان سب کو تم دین کے نام پہ دھوکا دو
جو کھولے ڈھول کا پول اُسے اسلام آباد بدر کر دو
جو رات وطن پر چھائی ہے تم سب کے بھاگ جگانے کو
کچھ جگنو چھوڑ کے وعدوں کے اُس میں اعلانِ سحر کر دو
جو کھیت ترستے ہیں نم کو اُن کھیتوں کے اِک کونے کو
خِفّت کے عرق سے تر کر کے وقفِ تشہیرِ ہُنر کر دو
جو ہاتھ اُٹھیں وہ کٹ جائیں جو آنکھ اٹھے وہ پھوٹ بہے
ہر چلتی سانس کچلنے کو پیمانۂ فتح و ظفر کر دو
ہاں پیڑ پہ بیٹھی چڑیوں پر، کاہے کو کرو تم وار بھلا
ہاں ان کا شور دبانے کو شاہو! تو بیِخ شجر کر دو
ماجد صدیقی

وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
دھوکا تھا ہر اِک برگ پہ ٹوٹے ہوئے پر کا
وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا
میں اشک ہوں، میں اوس کا قطرہ ہوں، شرر ہوں
انداز بہم ہے مجھے پانی کے سفر کا
کروٹ سی بدلتا ہے اندھیرا تو اُسے بھی
دے دیتے ہیں ہم سادہ منش، نام سحر کا
تہمت سی لئے پھرتے ہیں صدیوں سے سر اپنے
رُسوا ہے بہت نام یہاں اہلِ ہُنر کا
قائم نہ رہا خاک سے جب رشتۂ جاں تو
بس دھول پتہ پوچھنے آتے تھی شجر کا
جو شاہ کے کاندھوں کی وجاہت کا سبب ہے
دیکھو تو بھلا تاج ہے کس کاسۂ سر کا
اشکوں سے تَپاں ہے کبھی آہوں سے خنک ہے
اک عمر سے ماجد یہی موسم ہے، نگر کا
ماجد صدیقی

ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
خلق چاہے اُسے حسین کوئی، وقت با صورتِ دگر دے دے
ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے
اہلِ حق کو جو فتحِ مکہ دے اے خدا تجھ سے کچھ بعید نہیں
اشک ہیں جس طرح کے آنکھوں میں دامنوں کو وہی گہر دے دے
ہوں بھسم آفتوں کے پرکالے بُوندیوں میں بدل چلیں ژالے
جو بھی واماندگانِ گلشن ہیں رُت انہیں پھر سے بال و پر دے دے
لَوث جس کونہ چھُو کے گزری ہو جس میں خُو خضرِ دستگیر کی ہو
جس کے چہرے پہ لَو ضمیر کی ہو کوئی ایسا بھی رہبر دے دے
ہو مبارک ستم عقابوں کو کرگسوں کو نصیب آز رہے
فاختاؤں کو جو بہم ہے یہاں زندہ رہنے کا وہ ہُنر دے دے
ماجد صدیقی

وقت نجانے اور ابھی کیا کیا منظر دکھلائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
سچ کہنے پر شہر بدر ہوتے، بُوذرؓ دکھلائے گا
وقت نجانے اور ابھی کیا کیا منظر دکھلائے گا
اِک اِک گوشۂ شہر سے تو ہم خاک جبیں پر مَل لائے
خواہش کا عفریت ہمیں اَب کون سا در دکھلائے گا
سُورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ دمکتے اِک جیسے
کون مُبارک دن ایسا، جو سارے نگر دکھلائے گا
راہبروں کی سنگ دلی سے بچ نہ سکا جو دبنے سے
کون سا ایسا عزم ہمیں مائل بہ سفر دکھلائے گا
ہم بھاڑے کے وُہ مزدور ہیں پیٹ کا یہ تنّور جنہیں
دریاؤں کی تہہ میں چھپُا اِک ایک گہر دکھلائے گا
دُور لگے وُہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
ہاں وُہ شہر کہ جس کا اِک اِک باسی اُونچا سُنتا ہو
ماجدؔ ایسے شہر میں تو کیا رنگِ ہُنر دکھلائے گا
ماجد صدیقی

مختصر یہی جانو، جانگسل ہے جو منظر وہ مرے ہُنر میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
درد جاں بہ جاں اُترا، کرب کُو بہ کُو پھیلا، سب مری نظر میں ہے
مختصر یہی جانو، جانگسل ہے جو منظر وہ مرے ہُنر میں ہے
آنچ ہے جو سانسوں میں آخرش وُہ پُھونکے گی ہر سلاخ زنداں کی
کشت میں تمّنا کے پھول ہی اُگائے گی نم جو چشم تر میں ہے
کب تلک چھپائے گی بھینچ کر ورق اپنے وقت کی لغت آخر
فرق کیوں نہ آئے گا سامنے نگاہوں کے، وُہ جو اسپ وخر میں ہے
روک لو گے دریا کو پر جو نم سمائے گی خاک میں وہ کیا ہو گی
اُس کا کیا کرو گے تم زور جو کرن ایسا فکر کے سفر میں ہے
جو خبر بھی آتی ہے ساتھ اپنے لاتی ہے بات اِس قدریعنی
قافلہ اُمیدوں کا اب تلک یونہی لپٹا گردِ رہگزر میں ہے
طشتِ وقت میں ماجدؔ رکھکے جب بھی دیکھوں تو دل یہی کہے مجھ سے
اِک عجیب سی رفعت دُور دُور تک پھیلی اپنے بام و در میں ہے
ماجد صدیقی

بچّوں سا ہمیں آئے اظہارِ ہُنر کرنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
جگنو سے سرِمژگاں دہکا کے سحر کرنا
بچّوں سا ہمیں آئے اظہارِ ہُنر کرنا
کوندا سا دلا دینا آنکھوں کی چمک جیسا
ہونٹوں کو تبّسم سے ہمرنگِ شرر کرنا
جاں ہو کہ خیالوں کی بے نام سی بستی وُہ
تم زیرِ نگیں اپنے اِک ایک نگر کرنا
کر ڈالیں تمنّا کو دل ہی سے الگ، لیکن
شاہوں سا ہمیں آئے کب شہر بدر کرنا
ہیں جتنی خراشیں بھی دی ہیں یہ اِسے کس نے
اِس شیشۂ دل پر بھی بھولے سے نظر کرنا
ہم لوگ ہیں وُہ ماجدؔ بالائے زمیں جِن کے
لِکھا ہے نصیبوں میں کولہو کا سفر کرنا
ماجد صدیقی

میرے قدموں میں یہ ہنر کب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
کامراں شوق کا سفر کب ہے
میرے قدموں میں یہ ہنر کب ہے
ریگِ صحرا سے لفظ ہوں جس کے
خشک ہے وہ زبان، تر کب ہے
آئے بے وقت چاہنے پہ مرے
مہرباں اِس قدر سحر کب ہے
جِتناکرتی پھرے ہوا چرچا
اِتنا شاداب ہر شجر کب ہے
ہے خُود انساں خسارہ جُو، ورنہ
وقت بے رحم اِس قدر کب ہے
دھڑکنوں میں بسا ہے جو ماجدؔ
دل سے جاتا وُہ رُوٹھ کر کب ہے
ماجد صدیقی

بدن کو لگتا ہے زہر، سایہ ہر اک شجر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
کُھلا ہے در، دل پہ جب سے مارِسیہ کے ڈر کا
بدن کو لگتا ہے زہر، سایہ ہر اک شجر کا
ہمیں گوارا ہے عمر جیسے بھی کٹ رہی ہے
کسی سے کرنا ہے ذکر کیا کرب کے سفر کا
کھلی تھی جیسے بساط پہلے ہی ہم پہ اپنی
نہ پوچھ پائے پتہ جبھی یارکے نگر کا
حقیر دشمن دکھائی دیتا ہو جس کسی کو
سلوک کھلیان سے وہ پوچھے کبھی شرر کا
نمک کو جیسا مقام حاصل ہے کھیوڑے میں
ہمارے ہاں بھی ہے حال ایسا ہی کچھ ہنر کا
ہمیں ہی اقرار اب نگاہوں کے عجز کا ہے
ہمِیں نے دیکھا تھا خواب ماجدؔ کبھی سحرکا
ماجد صدیقی

اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
سحر تو ایک سی گُرگ و غزال پر اُترے
اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے
سنی پکار نہ آئی صدا سسکنے کی
نجانے کون سی گھاٹی میں ہم سفر اُترے
نکل کے چاند سے کیوں راہ بھول جاتی ہے
وُہ چاندنی کہ جو بیوہ کے بام پر اُترے
انہی پہ سانپ نگلتے ہیں ناتوانوں کو
سفیر بن کے سکوں کے ہیں گو شجر اُترے
مری بھی رُوح کا ساگر ہُوا کرم فرما
مری بھی آنکھ میں دیکھو تو ہیں گہر اُترے
سمیٹ لائے جہاں بھر کے رتجگے ماجدؔ
وہ ذہن جس پہ فلک سے کوئی ہُنر اُترے
ماجد صدیقی

اُس کا پیکر ہے مگر یاد آیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
دشت میں رہ کا شجر یاد آیا
اُس کا پیکر ہے مگر یاد آیا
پھر تمّنا نے کیا ہے رُسوا
پھر مسیحاؤں کا در یاد آیا
اُس کی آنکھوں سے لہو تک اُس کے
طے کیا تھا جو سفر یاد آیا
جب بھی بچّہ کوئی مچلا دیکھا
مجھ کو سپنوں کا نگر یاد آیا
ہم کو پنجرے سے نکلنا تھا کہ پھر
برق کو اپنا ہُنر یاد آیا
ابر ڈھونڈوں گا کہاں سر کے لئے
لُطف ماں باپ کا گر یاد آیا
کیا کرم اُس کا تھا ماجدؔ کہ جسے
یاد آنا تھا نہ ، پر یاد آیا
ماجد صدیقی

آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
کھُلتے ہوئے لگتے ہیں دریچے جو نظر کے
آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے
صُورت کوئی صّیاد نے چھوڑی ہی نہ باقی
میں سوچ رہا تھا ابھی امکان مفر کے
ہاں بھیک بھی پاؤگے تو ٹھوکر بھی کہیں سے
مصرف ہیں ابھی اور کئی کاسۂ سر کے
پھل ضربِ سرِ پا سے گرے صُورتِ باراں
اُترا تو مرے حصے میں پتّے تھے شجر کے
پہنچیں گے تہِ دام جو نکلے ہیں گُرِسنہ
منزل کا پتہ دیتے ہیں انداز سفر کے
کنکر وہ گرائے ہیں ابابیلِ جنوں نے
عاجز ہوئے انبوہ سبھی اہلِ خبر کے
کچھ دیکھ تو لینا تھا یہ کس شہر میں ماجدؔ
خالق ہُوئے تم شعر و سخن ایسے ہُنر کے
ماجد صدیقی

گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
فضائے تار میں تنہا نفس سفر کرتے
گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے
ہے اختلافِ نظر وجہِ خاموشی، ورنہ
ہم اُس کے پیار کا چرچا نگر نگر کرتے
یہ بات قرب کے منصب پہ منحصر تھی ترے
بچا کے رکھتے کہ دامن کو ہم بھی تر کرتے
درِ قفس پہ رُتیں دستکیں تو دیتی رہیں
ہُوا نہ ہم سے کہ ہم فکرِ بال و پر کرتے
جو تو نہیں تھا تو جل جل کے خود ہی بجھتے رہے
ہم اور نذر کسے شعلۂ نظر کرتے
تری نظر کا اشارہ نہ مل سکا، ورنہ
وہ اوج کون سا تھا ہم جسے نہ سر کرتے
ابھی تلک تو نہ مخدوم ہم ہوئے ماجدؔ
اگرچہ عُمر ہوئی خدمتِ ہنر کرتے
ماجد صدیقی

ڈھل کے حرفوں میں، تری شاخِ نظر ایسا ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
جی میں آتا ہے کوئی مصرعۂ تر ایسا ہو
ڈھل کے حرفوں میں، تری شاخِ نظر ایسا ہو
مشغلہ ہو پسِ دیوار تری تاک ایسا
لُطف ہو جس میں تری دِید کا، ڈر ایسا ہو
میں حدوں سے نہ ترے حسن کی باہر نکلوں
زندگی بھر مجھے درپیش سفر ایسا ہو
قوس در قوس ترا جسم ہو پابندِ قلم
تو اُتر آئے لکیروں میں ہُنر ایسا ہو
چین سے ایک بھی پل رہنے نہ دے تیرا خیال
شوق دل میں ترا، مٹھی میں شرر ایسا ہو
جس کے پہلو سے اُبھرتے ترا چہرہ دیکھوں
کوئی دیوار ہو ایسی کوئی در ایسا ہو
جس کا سایہ ہو اِن آنکھوں کا مداوا ماجدؔ
اِس رہِ زیست میں کوئی تو شجر ایسا ہو
ماجد صدیقی

ہر ایک رت کو رہا دعوئے ہنر کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
دئے جو روند نکھارے بھی ہیں شجر کیا کیا
ہر ایک رت کو رہا دعوئے ہنر کیا کیا
تھے کتنے خواب جو تعبیر کو ترستے رہے
قریبِ موسم گل کٹ گئے شجر کیا کیا
نہ اب وہ آنکھ میں جنبش نہ ابروؤں میں وہ خم
ترے بغیر ہیں سنسان بام و در کیا کیا
ہوا زمیں سے تمازت فلک سے درپے تھی
چلے ہیں اب کے برس شاخ پر تبر کیا کیا
ملی پناہ بھی آخر تو دستِ گلچیں میں
گلوں کو نرغۂِ صر صر سے تھا مفر کیا کیا
یہ آنسوؤں کے گہر بالیاں یہ آہوں کی
ملی ہمیں بھی ہے ورثے میں سیم و زر کیا کیا
ماجد صدیقی

ہُوئے اجنبی وہی بام و در ترے شہر میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
تھے جو آشنائے دل و نظر ترے شہر میں
ہُوئے اجنبی وہی بام و در ترے شہر میں
کبھی سر پہ میرے بھی باز بیٹھا تھا آن کے
کسی روز میں بھی تھا تاجور ترے شہر میں
وہ نظر کہ جس سے تھے دل کو تجھ سے معاملے
ہے اُجاڑ اب وہی راہگزر ترے شہر میں
وہ ستم کبھی سر عام جس کو رواج تھا
وہی اب روا ہے پسِ نظر ترے شہر میں
ہمیں تھے کبھی ترے نیّرِ اُفقِ نگاہ
ہمیں ذرّہ ذرّہ گئے بکھر ترے شہر میں
کیا اختیار سخن تو کب یہ گمان تھا
کہ کرے گا خوار یہی ہنر ترے شہر میں
ماجد صدیقی

جلوہ ترا برنگِ دِگر دیکھتا رہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
گہ تجھ کو، گاہ نورِ سحر دیکھتا رہوں
جلوہ ترا برنگِ دِگر دیکھتا رہوں
دِل کے دئیے سے اُٹھتی رہیں یاد کی لَویں
تیرا جمال شعلہ بہ سر دیکھتا رہوں
پل پل برنگِ برق ترا سامنا رہے
رہ رہ کے اپنی تابِ نظر دیکھتا رہوں
پہروں رہے خیال ترا ہمکنار دل
دن رات تیری راہگزر دیکھتا رہوں
ماجدؔ سناؤں شہر بہ تشریح اب کِسے
اِس سے تو آپ اپنا ہنر دیکھتا رہوں
ماجد صدیقی

مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
تھا نہ جانے کون سے بے رحم ڈر کا سامنا
مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا
کرچیاں اُتری ہیں آنکھوں میں اندھیری رات کی
اور اُدھر مژدہ کہ لو کیجو سحر کا سامنا
ننھی ننھی خواہشوں کا مدفنِ بے نُور سا
زندگی ہے اب تو جیسے اپنے گھر کا سامنا
تجربہ زنداں میں رہنے کا بھی مجھ کو دے گیا
بعد جانے کے ترے دیوار و در کا سامنا
پیرہن کیا جسم کا حصہ سمجھئے اَب اسے
تا بہ منزل ہے اِسی گردِ سفر کا سامنا
دیکھنے زیبا ہیں کب ایسے کھنڈر بعدِ خزاں
کون اب کرنے چلے شاخ و شجر کا سامنا
کچھ کہو یہ کس جنم کی ہے سزا ماجدؔ تمہیں
روز و شب کیوں ہے یہ تخلیق ہُنر کا سامنا
ماجد صدیقی

تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 75
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں‌ ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌‌
احمد فراز

عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 73
نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں
نہ پوچھ جب وہ گزرتا ہے بے نیازی سے
تو کس ملال سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں
تیرے جمال سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے
یہ سیر چشم مگر کب ادھر کو دیکھتے ہیں
عجب فسونِ خریدار کا اثر ہے کہ ہم
اسی کی آنکھ سے اپنے ہنر کو دیکھتے ہیں
کوئی مکاں کوئی زنداں سمجھ کے رہتا ہے
طلسم خانۂ دیوار و در کو دیکھتے ہیں
فراز در خورِ سجدہ ہر آستانہ نہیں
ہم اپنے دل کے حوالے سے در کو دیکھتے ہیں
وہ بے خبر میری آنکھوں کا صبر بھی دیکھیں
جو طنز سے میرے دامانِ تر کو دیکھتے ہیں
یہ جاں کنی کی گھڑی کیا ٹھہر گئی ہے کہ ہم
کبھی قضا کو کبھی چارہ گر کو دیکھتے ہیں
ہماری دربدری کا یہ ماجرا ہے کہ ہم
مسافروں کی طرح اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
فراز ہم سے سخن دوست، فال کے لئے بھی
کلامِ غالب آشفتہ سر کو دیکھتے ہیں
احمد فراز

جیسا بھی حال ہو نگہِ یار پر نہ کھول

احمد فراز ۔ غزل نمبر 40
آنسو نہ روک دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو نگہِ یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نم نہیں تھی تو اب چشمِ تر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن بچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پر نہ کھول
کچھ تو کڑی کٹھور مسافت کا دھیان کر
کوسوں سفر پڑا ہے ابھی سے کمر نہ کھول
عیسیٰ نہ بن کہ اس کا مقدر صلیب ہے
انجیلِ آگہی کے ورق عمر بھر نہ کھول
امکاں میں ہے تو بند و سلاسل پہن کے چل
یہ حوصلہ نہیں ہے تو زنداں کے در نہ کھول
میری یہی بساط کہ فریاد ہی کروں
تو چاہتا نہیں ہے تو بابِ اثر نہ کھول
تُو آئینہ فروش و خریدار کور چشم
اس شہر میں فراز دکانِ ہنر نہ کھول
احمد فراز

چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 102
خود سے غافل بہت دیر ہم رہ چکے اب ہمیں کچھ ہماری خبر چاہیے
چشمِ رمز آشنا، قلبِ عقدہ کشا، اک ذرا سی توجہ اِدھر چاہیے
مستقل دل میں موجود ہے اک چبھن، اب نہ وہ خوش دلی ہے نہ ویسا سخن
مضطرب ہے طبیعت بہت ان دنوں، کچھ علاج اس کا اے چارہ گر چاہیے
چاک عہدِ تمنا کے سب سل گئے، ہجر کے ساز سے دل کے سُر مل گئے
بس یہی ٹھیک ہے کاتبِ زندگی، عمر باقی اسی طرز پر چاہیے
ذوقِ تخلیق کی آبیاری کہاں، ہم کہاں اور یہ ذمہ داری کہاں
حسبِ توفیق محوِ سخن ہیں مگر، یہ نہیں جانتے کیا ہنر چاہیے
ہر کسی کو گلہ بیش و کم ہے یہی، آدمی کا ہمیشہ سے غم ہے یہی
جو ملا اُس کی ایسی ضرورت نہ تھی، جو نہیں مل سکا وہ مگر چاہیے
رنگ و خوشبو کا سیلاب کس کام کا، ایک لمحہ تو ہے عمر کے نام کا
یہ نظارا بہ قدرِ نظر چاہیے، یہ مہک بس ہمیں سانس بھر چاہیے
نخلِ دل کی ہر اک شاخ بے جان ہے، تازگی کا مگر پھر بھی امکان ہے
زندگی کی ذرا سی رمق چاہیے، اب نفس کا یہاں سے گزر چاہیے
کام کچھ خاص ایسا یہاں پر نہیں، قرض بھی اب کوئی جسم و جاں پر نہیں
یعنی اپنی طرف واپسی کے لیے، اب ہمیں صرف اذنِ سفر چاہیے
لفظ کافی نہیں ہیں سفر کے لیے، اس دیارِ سخن میں گزر کے لیے
عاجزی چاہیے، آگہی چاہیے، دردِ دل چاہیے، چشمِ تر چاہیے
آپ کی در بہ در جبہ سائی کہاں، میرؔ کی خاکِ پا تک رسائی کہاں
آپ کو خلعتِ سیم و زر چاہیے، وہ بھی کچھ وقت سے پیشتر چاہیے
عرفان ستار

اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 96
ایک دنیا کی کشش ہے جو اُدھر کھینچتی ہے
اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے
ایک جانب لیے جاتی ہے قناعت مجھ کو
ایک جانب ہوسِ لقمۂ تر کھینچتی ہے
اک بصیرت ہے کہ معلوم سے آگے ہے کہیں
اک بصارت ہے کہ جو حدِ نظر کھینچتی ہے
ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے
ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں
کیا مسافت ہے کہ بس گردِ سفر کھینچتی ہے
ایک خواہش ہے جسے سمت کا ادراک نہیں
اک خلش ہے جو نہ معلوم کدھر کھینچتی ہے
اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت
اک طرف حسرتِ تسکینِ نظر کھینچتی ہے
عرفان ستار

پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 45
نگاہِ شوق سے راہِ سفر کو دیکھتے ہیں
پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہ جانے کس کے بچھڑنے کا خوف ہے اُن کو
جو روز گھر سے نکل کر شجر کو دیکھتے ہیں
یہ روز و شب ہیں عبارت اسی توازن سے
کبھی ہنر کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ہمارے طرزِ توجہ پہ خوش گمان نہ ہو
تجھے نہیں تری تابِ نظر کو دیکھتے ہیں
ہمارے سامنے دریا ہیں سلسلوں کے رواں
پہ کیا کریں کہ تری چشمِ تر کو دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرص و ہوس تجھ سے بے نیاز کہاں
دعا کے بعد دعا کے اثر کو دیکھتے ہیں
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی
وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں
ہمیں بھی اپنا مقلد شمار کر غالبؔ
کہ ہم بھی رشک سے تیرے ہنر کو دیکھتے ہیں
عرفان ستار

میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 30
آج بامِ حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں
بے اماں سائے کا بھی رکھ بادِ وحشت کچھ خیال
دیکھ کر چل درمیانِ بام و در میں بھی تو ہوں
رات کے پچھلے پہر پُرشور سناٹوں کے بیچ
تُو اکیلی تو نہیں اے چشمِ تر میں بھی تو ہوں
تُو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بہ در
اپنی خاطر ہی سہی پر در بہ در میں بھی تو ہوں
تیری اس تصویر میں منظر مکمل کیوں نہیں
میں کہاں ہوں یہ بتا اے نقش گر میں بھی تو ہوں
سن اسیرِ خوش ادائی منتشر تُو ہی نہیں
میں جو خوش اطوار ہوں، زیر و زبر میں بھی تو ہوں
خود پسندی میری فطرت کا بھی وصفِ خاص ہے
بے خبر تُو ہی نہیں ہے بے خبر میں بھی تو ہوں
دیکھتی ہے جوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
روح کہتی ہے بدن سے، بے ہنر میں بھی تو ہوں
دشتِ حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا
اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہم سفر میں بھی تو ہوں
کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے اس چاک پر میں بھی تو ہوں
یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے
تجھ کو خوش رکھے خدا یونہی مگر میں بھی تو ہوں
عرفان ستار

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 3
پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا
ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا
اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا
دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
عرفان ستار

بچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 26
تمام لوگ اکیلے، کوئے رہبر ہی نہ تھا
بچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میں
وہ رات تھی کہ کہیں چاند کا گزر ہی نہ تھا
تمھارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی مگر
جہاں پہ دھوپ کھڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا
سمیٹ لیتی شکستہ گلاب کی خوشبو
ہوا کے ہاتھ میں ایسا کوئی ہنر ہی نہ تھا
میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی
کہ ترے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا
کہاں سے آتی کرن زندگی کے زنداں میں
وہ گھر ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا
بدن میں پھیل گیا شرخ بیل کی مانند
وہ زخم سوکھتا کیا، جس کا چارہ گر ہی نہ تھا
ہوا کے لائے ہوئے بیج پھر ہوا میں گئے
کھلے تھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا
قدم تو ریت پہ ساحل نے بھی رکھنے دیا
بدن کو جکڑے ہوئے صرف اک بھنور ہی نہ تھا
پروین شاکر

طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 72
مانا سحر کو یار اسے جلوہ گر کریں
طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں
تزئین میری گور کی لازم ہے خوب سی
تقریبِ سیر ہی سے وہ شاید گزر کریں
اب ایک اشک ہے دُرِ نایاب، وہ کہاں
تارِ نظر جو گریہ سے سلکِ گہر کریں
وہ دوست ہیں انہیں جو اثر ہو گیا تو کیا
نالے ہیں وہ جو غیر کے دل میں اثر کریں
آئے تو ان کو رنج، نہ آئے تو مجھ کو رنج
مرنے کی میرے کاش نہ ان کو خبر کریں
ہے جی میں سونگھیں نکہتِ گل جا کے باغ میں
بس کب تک التجائے نسیمِ سحر کریں
اب کے ارادہ ملکِ عدم کا ہے شیفتہ
گھبرا گئے کہ ایک جگہ کیا بسر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانیِ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں
واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں
مصطفٰی خان شیفتہ

غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 54
ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض
عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمتِ اہلِ نظر سے فیض
ہے عالمِ کبیر میں بھی یوں ہی جس طرح
دل سے جگر کو فیض ہے، دل کو جگر سے فیض
آزردہ جفائے "دے” و "تیر” کو نہیں
یک ذرہ آب و آتشِ لعل و گہر سے فیض
اپنی نہاد میں نہیں احساں فرامشی
پایا ہے ہم نے صاعقے کا ابرِ تر سے فیض
زر کسب کر کہ عشرتِ خسرو نصیب ہو
فرہاد کو سنا ہے، ہوا جو ہنر سے فیض؟
لگتے ہیں اس کے سینہ و بر سے مدام ہم
ہوتا ہے ہم کو روز مہِ سیم بر سے فیض
اربابِ خانقاہ ہیں محتاجِ اغنیا
کافی ہے ہم کو پیرِ مغاں! تیرے در سے فیض
بلبل ہمارے گھر وہ خود آتے ہیں رحم سے
افزوں ہے بے پری میں یہاں بال و پر سے فیض
خرم نہادِ مے کش و زاہد شگفتہ دل
ہے شیفتہ ہر ایک کو وقتِ سحر سے فیض
مصطفٰی خان شیفتہ

سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 143
منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی
سودائے رنگ وہ تھا کہ اترا خود اپنا رنگ
پھر یہ کہ ساری جنسِ ہنر اس میں گم ہوئی
وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی
دیوار کے سوا نہ رہا کچھ دلوں کے بیچ
ہر صورتِ کشایشِ در اس میں گم ہوئی
لائے تھے رات اس کی خبر قاصدانِ دل
دل میں وہ شور اٹھا کہ خبر اس میں گم ہوئی
اک فیصلے کا سانس تھا اک عمر کا سفر
لیکن تمام راہگزر اس میں گم ہوئی
بس جون کیا کہوں کہ مری ذاتِ نفع جو
جس کام میں یہاں تھا ضرور اس میں گم ہوئی
جون ایلیا

کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 52
شہر بہ شہر کر سفر زادِ سفر لیے بغیر
کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر
کوہ و کمر میں ہم صفیر کچھ نہیں اب بجز ہوا
دیکھیو پلٹیو نہ آج شہر سے پَر لیے بغیر
وقت کے معرکے میں تھیں مجھ کو رعایتیں ہوس
میں سرِ معرکہ گیا اپنی سِپر لیے بغیر
کچھ بھی ہو قتل گاہ میں حُسنِ بدن کا ہے ضرر
ہم نہ کہیں سے آئیں گے دو پر سر لیے بغیر
قریہء گریہ میں مرا گریہ ہنرورانہ ہے
یاں سے کہیں ٹلوں گا میں دادِ ہنر لیے بغیر
اُسکے بھی کچھ گِلے ہیں دل۔۔ان کا حساب تم رکھو
دید نے اس میں کی بسر اس کی خبر لیے بغیر
اُس کا سخن بھی جا سے ہے اور وہ یہ کہ جون تم
شہرہء شہر ہو تو کیا شہر میں گھر لیے بغیر
جون ایلیا

ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا

دیوان ششم غزل 1800
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا
رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے
وہ انتظارکشوں کو نہ ٹک نظر آیا
ہزار طرح سے آوے گھڑی جدائی میں
ملاپ جس سے ہو ایسا نہ یک ہنر آیا
ملا جو عشق کے جنگل میں خضر میں نے کہا
کہ خوف شیر ہے مخدوم یاں کدھر آیا
یہ لہر آئی گئی روز کالے پانی تک
محیط اس مرے رونے کو دیکھ تر آیا
نثار کیا کریں ہم خانماں خراب اس پر
کہ گھر لٹا چکے جب یار اپنے گھر آیا
نہ روؤں کیونکے علی الاتصال اس بن میں
کہ جی کے رندھنے سے جوں ابر دل بھی بھر آیا
جوان مارے ہیں بے ڈھنگی ہی سے ان نے بہت
ستم کی مشق کی پر خون اسے نہ کرآیا
لچک کمر کی جو یاد آئی اس کی بہ آوے
کہ پانی میر کے اشکوں کا تا کمر آیا
میر تقی میر

برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے

دیوان پنجم غزل 1729
جوں ابر بے کسانہ روتے اٹھے ہیں گھر سے
برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے
جمہور راہ اس کی دیکھا کرے ہے اکثر
محفوظ رکھ الٰہی اس کو نظرگذر سے
وحش اور طیر آنکھیں ہر سو لگا رہے ہیں
گرد رہ اس کی دیکھیں اٹھ چلتی ہے کدھر سے
شاید کہ وصل اس کا ہووے تو جی بھی ٹھہرے
ہوتی نہیں ہے اب تو تسکین دل خبر سے
مدت سے چشم بستہ بیٹھا رہا ہوں لیکن
وہ روے خوب ہرگز جاتا نہیں نظر سے
گو ہاتھ وہ نہ آوے دل غم سے خون کرنا
ہے لاگ میرے جی کو اس شوخ کی کمر سے
یہ گل نیا کھلا ہے لے بال تو قفس میں
کوئی کلی نہ نکلے مرغ چمن کے پر سے
دیکھو نہ چشم کم سے یہ آنکھ ڈبڈبائی
سیراب ابر ہوتے دیکھے ہیں چشم تر سے
گلشن سے لے قفس تک آواز ایک سی ہے
کیا طائر گلستاں ہیں نالہ کش اثر سے
ہر اک خراش ناخن جبہے سے صدر تک ہے
رجھواڑ ہو تو پوچھے کوئی ہمیں ہنر سے
یہ عاشقی ہے کیسی ایسے جیوگے کب تک
ترک وفا کرو ہو مرنے کے میر ڈر سے
میر تقی میر

گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے

دیوان پنجم غزل 1727
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے
گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے
میلان نہ آئینے کا اس کو ہے نہ گل کا
کیا جانیے اب روے دل یار کدھر ہے
اے شمع اقامت کدہ اس بزم کو مت جان
روشن ہے ترے چہرے سے تو گرم سفر ہے
اس عاشق دیوانہ کی مت پوچھ معیشت
دنداں بجگر دست بدل داغ بسر ہے
کیا آگ کی چنگاریاں سینے میں بھری ہیں
جو آنسو مری آنکھ سے گرتا ہے شرر ہے
ڈر جان کا جس جا ہے وہیں گھر بھی ہے اپنا
ہم خانہ خرابوں کو تو یاں گھر ہے نہ در ہے
کیا پرسش احوال کیا کرتے ہو اکثر
ظاہر ہے کہ بیمار اجل روز بتر ہے
رہتی ہیں الم ناک ہی وے آنکھیں جو اچھی
بدچشم کسو شخص کی شاید کہ نظر ہے
دیدار کے مشتاق ہیں سب جس کے اب اس کی
کچھ شورش ہنگامۂ محشر میں خبر ہے
سب چاہتے ہیں رشد مرا یوں تو پر اے میر
شاید یہی اک عیب ہے مانع کہ ہنر ہے
میر تقی میر

زردی رنگ و چشم تر ہے شرط

دیوان پنجم غزل 1642
عشق کو جرأت و جگر ہے شرط
زردی رنگ و چشم تر ہے شرط
بے خبر حال سے نہ رہ میرے
میں کہے رکھتا ہوں خبر ہے شرط
حج کو جاوے تو شیخ کو لے جا
کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط
پیسوں پر ریجھتے ہیں یہ لڑکے
عشق سیمیں تناں کو زر ہے شرط
خام رہتا ہے آدمی گھر میں
پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط
خبث یاروں کا کر فسانوں میں
عیب کرنے کو بھی ہنر ہے شرط
لعل پارے ہیں میر لخت جگر
دیکھ کر خون رو نظر ہے شرط
میر تقی میر

کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر

دیوان پنجم غزل 1608
کئی داغ ایسے جلائے جگر پر
کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر
گیا میری وادی سے سیلاب بچ کر
نظر یاں جو کی عشق کے شیرنر پر
سر رہ سے اس کے موئے ہی اٹھیں گے
یہ جی جا رہا ہے اسی رہگذر پر
سر اس آستاں پر رگڑتے گئے ہیں
ہوئے خون یاروں کے اس خاک در پر
ہم آتا اسے سن کے جیتوں میں آئے
بنا زندگانی کی ہے اب خبر پر
اسے لطف اس کا ہی لاوے تو لاوے
نہیں وصل موقوف کچھ زور و زر پر
سرکتے نہیں شوق کشتوں کے سر بن
قیامت سا ہنگامہ ہے اس کے در پر
اتر جو گیا دل سے روکش ہو اس کا
چڑھا پھر نہ خورشید میری نظر پر
بھری تھی مگر آگ دل میں دروں میں
ہوئے اشک سوزش سے اس کی شرر پر
گیا پی جو ان آنسوئوں کے تئیں میں
سراسر ہیں اب داغ سطح جگر پر
سرعجز ہر شام تھا خاک پر ہی
تہ دل تھی کیسی ہی آہ سحر پر
پلک اٹھے آثار اچھے نہ دیکھے
پڑی آنکھ ہرگز نہ روے اثر پر
طرف شاخ گل کی لچک کے نہ دیکھا
نظر میر کی تھی کسو کی کمر پر
غزل در غزل صاحبو یہ بھی دیکھو
نہیں عیب کرنا نظر اک ہنر پر
میر تقی میر

شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا

دیوان پنجم غزل 1556
جاذبہ میرا تھا کامل سو بندے کے وہ گھر آیا
شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا
بجلی سا وہ چمک گیا آنکھوں سے پھوئیں پڑنے لگیں
ابر نمط خفگی سے اس بن جی بھی رندھا دل بھر آیا
گل تھے سو سو رنگ پر ایسا شورطیور بلند نہ تھا
اس کے رنگ چمن میں کوئی شاید پھول نظر آیا
سیل بلا جوشاں تھا لیکن پانی پانی شرم سے تھا
ساحل دریا خشک لبی دیکھے سے میری تر آیا
کیا ہی خوش پرکار ہے دلبر نوچہ کشتی گیر اپنا
کوئی زبردست اس سے لڑ کر عہدے سے کب بر آیا
صنعت گریاں بہتیری کیں لیک دریغ ہزار دریغ
جس سے یار بھی ملتا ہم سے ایسا وہ نہ ہنر آیا
میر پریشاں خاطر آکر رات رہا بت خانے میں
راہ رہی کعبے کی اودھر یہ سودائی کدھر آیا
میر تقی میر

ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا

دیوان پنجم غزل 1540
منھ اپنا کبھو وہ ادھر کر رہے گا
ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا
جو دلبر ہے ایسا تو دل جا چکا ہے
کسو روز آنکھوں میں گھر کر رہے گا
ہر اک کام موقوف ہے وقت پر ہی
دل خوں شدہ بھی جگر کر رہے گا
نہ ہوں گو خبر مردماں حال بد سے
مرا نالہ سب کو خبر کر رہے گا
فن شعر میں میر صناع ہے وہ
دل اس کا کوئی تو ہنر کر رہے گا
میر تقی میر

جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے

دیوان چہارم غزل 1531
اب ترک کر لباس توکل ہی کر رہے
جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے
اس دشت سے غبار ہمارا نہ ٹک اٹھا
ہم خانماں خراب نہ جانا کدھر رہے
آنے سے اس طرف کے ترے میں نے غش کیا
شکوہ بھی اس سے کیجیے جس کو خبر رہے
دونوں طرف سے دیدہ درائی نہیں ہے خوب
اس چاہ کا ہے لطف جو آپس میں ڈر رہے
جب تک ہو خون دل میں جگر میں مژہ ہوں نم
تہ کچھ بھی جو نہ ہووے تو کیا چشم تر رہے
رہنا گلی میں اس کی نہ جیتے جی ہوسکا
ناچار ہوکے واں جو گئے اب سو مر رہے
عاشق خراب حال ترے ہیں گرے پڑے
جوں لشکر شکستہ پریشاں اتر رہے
عیب آدمی کا ہے جو رہے اس دیار میں
مطلق جہاں نہ میر رواج ہنر رہے
میر تقی میر

نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف

دیوان چہارم غزل 1416
نظر کیا کروں اس کے گھر کی طرف
نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف
چھپاتے ہیں منھ اپنا کامل سے سب
نہیں کوئی کرتا ہنر کی طرف
بڑی دھوم سے ابر آئے گئے
نہ کوئی ہوا چشم تر کی طرف
اندھادھند روتے ہیں آنکھوں سے خون
نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
رہا بے خبر گرچہ ہجراں میں میر
رہے گوش اس کی خبر کی طرف
میر تقی میر

بہ گیا خون ہو جگر افسوس

دیوان چہارم غزل 1402
اب نہیں ہوتی چشم تر افسوس
بہ گیا خون ہو جگر افسوس
دیدنی ہے یہ خستہ حالی لیک
ایدھر اس کی نہیں نظر افسوس
عیب ہی عیب میرے ظاہر ہیں
مجھ کو آیا نہ کچھ ہنر افسوس
میر ابتر بہت ہے دل کا حال
یعنی ویراں پڑا ہے گھر افسوس
میر تقی میر

تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1371
صورت پھرے نہ یار کی کیوں چشم تر کے بیچ
تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ
خوش سیرتی ہے جس سے کہ ہوتا ہے اعتبار
ہے چوب خشک بو جو نہ ہووے اگر کے بیچ
اس کے سمند ناز کا پامال تو رہوں
اے کاش میری گور کریں رہگذر کے بیچ
منھ اس کا دیکھ رہیے کہ رفتار ناز کو
سرتا قدم ہے لطف ہی اس خوش پسر کے بیچ
ہر دانۂ سرشک میں تار نگاہ ہے
اس رشتے کی روش کہ جو ہووے گہر کے بیچ
کیا دل کو خوں کیا کہ تڑپنے لگا جگر
یکتاے روزگار ہیں ہم اس ہنر کے بیچ
ایسا ہوا ہے قیمہ کہ اب ہے حساب پاک
کہیے جو کچھ بھی باقی ہو اپنے جگر کے بیچ
ہے اپنے خانوادے میں اپنا ہی شور میر
بلبل بھی اک ہی بولتا ہوتا ہے گھر کے بیچ
میر تقی میر

اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں

دیوان سوم غزل 1217
تاچند وہ ستم کرے ہم درگذر کریں
اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں
بے رو سے ایسی بات کے کرنے کا لطف کیا
وہ منھ کو پھیر پھیر لے ہم حرف سر کریں
کب تک ہم انتظار میں ہر لحظہ بے قرار
گھر سے نکل نکل کے گلی میں نظر کریں
فرہاد و قیس کوہکن و دشت گرد تھے
منھ نوچیں چھاتی کوٹیں یہی ہم ہنر کریں
سختی مسلم اس سے جدا رہنے میں ولے
سر سنگ سے نہ ماریں تو کیوں کر بسر کریں
وہ تو نہیں کہ دیکھیں اس آئینہ رو کو صبح
ہم کس امید پر شب غم کو سحر کریں
لاویں کہاں سے خون دل اتنا کہ میر ہم
جس وقت بات کرنے لگیں چشم تر کریں
میر تقی میر

جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں

دیوان سوم غزل 1215
مدت ہوئی کہ کوئی نہ آیا ادھر سے یاں
جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں
وہ آپ چل کے آوے تو شاید کہ جی رہے
ہوتی نہیں تسلی دل اب خبر سے یاں
پوچھے کوئی تو سینہ خراشی دکھایئے
سو تو نہیں ہے حرف و حکایت ہنر سے یاں
آگے تو اشک پانی سے آجاتے تھے کبھو
اب آگ ہی نکلنے لگی ہے جگر سے یاں
ٹپکا کریں ہیں پلکوں سے بے فاصلہ سرشک
برسات کی ہوا ہے سدا چشم تر سے یاں
اے بت گرسنہ چشم ہیں مردم نہ ان سے مل
دیکھیں ہیں ہم نے پھوٹتے پتھر نظر سے یاں
راہ و روش کا ہووے ٹھکانہ تو کچھ کہیں
کیا جانے میر آگئے تھے کل کدھر سے یاں
میر تقی میر

دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر

دیوان سوم غزل 1132
اے مرغ چمن صبح ہوئی زمزمہ سر کر
دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر
وہ آئینہ رو باغ کے پھولوں میں جو دیکھا
ہم رہ گئے حیران اسی منھ پہ نظر کر
ہے بے خبری مجھ کو ترے دیکھے سے ساقی
ہر لحظہ مری جان مجھے میری خبر کر
جس جاے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
فرہاد سے پتھر پہ ہوئیں صنعتیں کیا کیا
دل جا کے جگرکاوی میں کچھ تو بھی ہنر کر
پڑتے نگہ اس شوخ کی ہوتا ہے وہ احوال
رہ جاوے ہے جیسے کہ کوئی بجلی سے ڈر کر
معشوق کا کیا وصل ورے ایسا دھرا ہے
تاشمع پتنگا بھی جو پہنچے ہے تو مر کر
یک شب طرف اس چہرئہ تاباں سے ہوا تھا
پھر چاند نظر ہی نہ چڑھا جی سے اتر کر
کسب اور کیا ہوتا عوض ریختے کے کاش
پچھتائے بہت میر ہم اس کام کو کر کر
میر تقی میر

تو رک کے منھ تئیں کاہے کو شب جگر آتا

دیوان سوم غزل 1087
اگر وہ ماہ نکل گھر سے ٹک ادھر آتا
تو رک کے منھ تئیں کاہے کو شب جگر آتا
مرید پیرمغاں صدق سے نہ ہم ہوتے
جو حق شناس کوئی اور بھی نظر آتا
نہ پتھروں سے جو سر کو دو پارہ میں کرتا
زمانہ غم کا مرے کس طرح بسر آتا
کسو ہنر سے تو ملتے تھے باہم اگلے لوگ
ہمیں بھی کاشکے ایسا کوئی ہنر آتا
شراب خانے میں شب مست ہو رہا شاید
جو میر ہوش میں ہوتا تو اپنے گھر آتا
میر تقی میر

سدھ اپنی نہیں ہم کو کچھ تم کو خبر بھی ہے

دیوان دوم غزل 1046
آنکھیں نہیں یاں کھلتیں ایدھر کو نظر بھی ہے
سدھ اپنی نہیں ہم کو کچھ تم کو خبر بھی ہے
گو شکل ہوائی کی سر چرخ تئیں کھینچا
اے آہ شرر افشاں کچھ تجھ میں اثر بھی ہے
اس منزل دلکش کو منزل نہ سمجھیے گا
خاطر میں رہے یاں سے درپیش سفر بھی ہے
مجھ حال شکستہ کی تاچند یہ بے وقری
کچھ کسر میں اب میری اے شوخ کسر بھی ہے
یہ کیا ہے کہ منھ نوچے نے چاک کرے سینہ
کر عرض جو کچھ تجھ میں اے میر ہنر بھی ہے
میر تقی میر

ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ

دیوان دوم غزل 946
اب تو صبا چمن سے آتی نہیں ادھر کچھ
ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ
ذوق خبر میں ہم تو بے ہوش ہو گئے تھے
کیا جانے کب وہ آیا ہم کو نہیں خبر کچھ
یہ طشت و تیغ ہے اب یہ میں ہوں اور یہ تو
ہے ساتھ میرے ظالم دعویٰ تجھے اگر کچھ
وے دن گئے کہ بے غم کوئی گھڑی کٹے تھی
تھمتے نہیں ہیں آنسو اب تو پہر پہر کچھ
ان اجڑی بستیوں میں دیوار و در ہیں کیا کیا
آثار جن کے ہیں یہ ان کا نہیں اثر کچھ
واعظ نہ ہو معارض نیک و بد جہاں سے
جو ہوسکے تو غافل اپنا ہی فکر کر کچھ
آنکھوں میں میری عالم سارا سیاہ ہے اب
مجھ کو بغیر اس کے آتا نہیں نظر کچھ
ہم نے تو ناخنوں سے منھ سارا نوچ ڈالا
اب کوہکن دکھاوے رکھتا ہے گر ہنر کچھ
تلوار کے تلے ہی کاٹی ہے عمر ساری
ابروے خم سے اس کے ہم کو نہیں ہے ڈر کچھ
گہ شیفتہ ہیں مو کے گہ بائولے ہیں رو کے
احوال میر جی کا ہے شام کچھ سحر کچھ
میر تقی میر

کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں

دیوان دوم غزل 890
کوچے میں تیرے میر کا مطلق اثر نہیں
کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں
ہے عاشقی کے بیچ ستم دیکھنا ہی لطف
مر جانا آنکھیں موند کے یہ کچھ ہنر نہیں
کب شب ہوئی زمانے میں جو پھر ہوا نہ روز
کیا اے شب فراق تجھی کو سحر نہیں
ہر چند ہم کو مستوں سے صحبت رہی ہے لیک
دامن ہمارا ابر کے مانند تر نہیں
گلگشت اپنے طور پہ ہے سو تو خوب یاں
شائستۂ پریدن گلزار پر نہیں
کیا ہو جے حرف زن گذر دوستی سے آہ
خط لے گیا کہ راہ میں پھر نامہ بر نہیں
آنکھیں تمام خلق کی رہتی ہیں اس کی اور
مطلق کسو کو حال پہ میرے نظر نہیں
کہتے ہیں سب کہ خون ہی ہوتا ہے اشک چشم
راتوں کو گر بکا ہے یہی تو جگر نہیں
جاکر شراب خانے میں رہتا نہیں تو پھر
یہ کیا کہ میر جمعے ہی کی رات گھر نہیں
میر تقی میر

جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں

دیوان دوم غزل 874
اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں
جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں
شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں
گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں
ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں
رونے سے بھی نہ ہوا سبز درخت خواہش
گرچہ مرجاں کی طرح تھا یہ شجر پانی میں
موج گریہ کی وہ شمشیر ہے جس کے ڈر سے
جوں کشف خصم چھپا زیر سپر پانی میں
بیٹھنے سے کسو دل صاف کے سر مت تو چڑھے
خوب سا کر لے تامل تو اتر پانی میں
آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا
گرچہ لنکا سا تھا اس دیو کا گھر پانی میں
جوشش اشک میں شب دل بھی گیا سینے سے
کچھ نہ معلوم ہوا ہائے اثر پانی میں
بردباری ہی میں کچھ قدر ہے گو جی ہو فنا
عود پھر لکڑی ہے ڈوبے نہ اگر پانی میں
چشم تر ہی میں رہے کاش وہ روے خوش رنگ
پھول رہتا ہے بہت تازہ و تر پانی میں
روئوں تو آتش دل شمع نمط بجھتی نہیں
مجھ کو لے جاکے ڈبو دیویں مگر پانی میں
گریۂ زار میں بیتابی دل طرفہ نہیں
سینکڑوں کرتے ہیں پیراک ہنر پانی میں
برگ گل جوں گذر آب سے آتے ہیں چلے
رونے سے ووہیں مرے لخت جگر پانی میں
محو کر آپ کو یوں ہستی میں اس کی جیسے
بوند پانی کی نہیں آتی نظر پانی میں
وہ گہر آنکھ سے جاوے تو تھمے آنسو میر
اتنا رویا ہوں کہ ہوں تا بہ کمر پانی میں
میر تقی میر

کیا لہو اپنا پیا تب یہ ہنر آیا ہمیں

دیوان دوم غزل 873
دم بہ دم اس ڈھب سے رونا دیر کر آیا ہمیں
کیا لہو اپنا پیا تب یہ ہنر آیا ہمیں
گرچہ عالم جلوہ گاہ یار یوں بھی تھا ولے
آنکھیں جوں موندیں عجب عالم نظر آیا ہمیں
ہم تبھی سمجھے تھے اب اس سادگی پر حرف ہے
خط نکلنے سے جو نامہ بیشتر آیا ہمیں
پاس آتا یک طرف مطلق نہیں اب اس کے پاس
کچھ گئے گذرے سے سمجھا وہ پسر آیا ہمیں
تجھ تک اس بے طاقتی میں کیا پہنچنا سہل تھا
غش ترے کوچے میں ہر ہر گام پر آیا ہمیں
صبح نکلا تھا پسر تلوار جوں خورشید لے
دیکھ کر خونخوار سج اس کی خطر آیا ہمیں
کر چلا بے خود غم زلف دراز دلبراں
دور کا اے میر درپیش اب سفر آیا ہمیں
میر تقی میر

بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں

دیوان دوم غزل 870
جانا ادھر سے میر ہے ویسا ادھر کے تیں
بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں
کب ناخنوں سے چہرہ نچے اس صفا سے ہوں
رجھواڑ تم نہیں ہو جو دیکھو ہنر کے تیں
خستے کو اس نگہ کے طبیبوں سے کام کیا
ہمدم مجھے دکھا کسو صاحب نظر کے تیں
فردوس ہو نصیب پدر آدمی تھا خوب
دل کو دیا نہ ان نے کسو خوش پسر کے تیں
ٹک دل کی بے قراری میں جاتے ہیں جی جلے
ہر دم طپش سراہیے میرے جگر کے تیں
تم دل سے جو گئے سو خرابی بہت رہی
پھر بھی بسائو آ کے اس اجڑے نگر کے تیں
اللہ رے نازکی نہیں آتی خیال میں
کس کس طرح سے باندھتے ہیں اس کمر کے تیں
حالت یہ ہے کہ بے خبری دم بہ دم ہے یاں
وے اب تلک بھی آتے نہیں ٹک خبر کے تیں
مدت ہوئی کہ اپنی خبر کچھ ہمیں نہیں
کیا جانیے کہ میر گئے ہم کدھر کے تیں
میر تقی میر

اول گام ترک سر ہے شرط

دیوان دوم غزل 829
عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط
اول گام ترک سر ہے شرط
دعوی عشق یوں نہیں صادق
زردی رنگ و چشم تر ہے شرط
خامی جاتی ہے کوئی گھر بیٹھے
پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط
قصد حج ہے تو شیخ کو لے چل
کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط
قلب یعنی کہ دل عجب زر ہے
اس کی نقادی کو نظر ہے شرط
حق کے دینے کو چاہیے ہے کیا
یاں نہ اسباب نے ہنر ہے شرط
دل کا دینا ہے سہل کیا اے میر
عاشقی کرنے کو جگر ہے شرط
میر تقی میر

اب ضبط کریں کب تک منھ تک تو جگر آیا

دیوان دوم غزل 702
جی رک گئے اے ہمدم دل خون ہو بھر آیا
اب ضبط کریں کب تک منھ تک تو جگر آیا
تھی چشم دم آخر وہ دیکھنے آوے گا
سو آنکھوں میں جی آیا پر وہ نہ نظر آیا
بے سدھ پڑے ہیں سارے سجادوں پہ اسلامی
دارو پیے وہ کافر کاہے کو ادھر آیا
ہر خستہ ترا خواہاں یک زخم دگر کا تھا
کی مشق ستم تونے پر خون نہ کر آیا
گل برگ ہی کچھ تنہا پانی نہیں خجلت سے
جنبش سے ترے لب کی یاقوت بھی تر آیا
بالفعل تو ہے قاصد محو اس خط و گیسو کا
ٹک چیتے تو ہم پوچھیں کیا لے کے خبر آیا
تابوت پہ بھی میرے پتھر پڑے لے جاتے
اس نخل میں ماتم کے کیا خوب ثمر آیا
ہے حق بہ طرف اس کے یوں جس کے گیا ہو تو
سج ایسی تری دیکھی ہم کو بھی خطر آیا
کیا کہیے کہ پتھر سے سر مارتے ہم گذرے
یوں اپنا زمانہ تو بن یار بسر آیا
صنعت گریاں ہم نے کیں سینکڑوں یاں لیکن
جس سے کبھو وہ ملتا ایسا نہ ہنر آیا
در ہی کے تئیں تکتے پتھراگئیں آنکھیں تو
وہ ظالم سنگیں دل کب میر کے گھر آیا
میر تقی میر

بالیں کی جاے ہر شب یاں سنگ زیر سر تھا

دیوان دوم غزل 700
ان سختیوں میں کس کا میلان خواب پر تھا
بالیں کی جاے ہر شب یاں سنگ زیر سر تھا
ان ابرو و مژہ سے کب میرے جی میں ڈر تھا
تیغ و سناں کے منھ پر اکثر مرا جگر تھا
ان خوبصورتوں کا کچھ لطف کم ہے مجھ پر
یک عمر ورنہ اس جا پریوں ہی کا گذر تھا
تیشے سے کوہکن کے کیا طرفہ کام نکلا
اپنے تو ناخنوں میں اس طور کا ہنر تھا
عصمت کو اپنی واں تو روتے ملک پھریں ہیں
لغزش ہوئی جو مجھ سے کیا عیب میں بشر تھا
کل ہم وہ دونوں یکجا ناگاہ ہو گئے تھے
وہ جیسے برق خاطف میں جیسے ابرتر تھا
ہوش اڑ گئے سبھوں کے شور سحر سے اس کے
مرغ چمن اگرچہ یک مشت بال و پر تھا
پھر آج یہ کہانی کل شب پہ رہ گئی ہے
سوتا نہ رہتا ٹک تو قصہ ہی مختصر تھا
رشک اس شہید کا ہے خضر و مسیح کو بھی
جو کشتہ اس کی جانب دوگام پیشتر تھا
ہشیاری اس کی دیکھو کیفی ہو مجھ کو مارا
تا سن کے سب کہیں یہ وہ مست و بے خبر تھا
صد رنگ ہے خرابی کچھ تو بھی رہ گیا ہے
کیا نقل کریے یارو دل کوئی گھر سا گھر تھا
تھا وہ بھی اک زمانہ جب نالے آتشیں تھے
چاروں طرف سے جنگل جلتا دہر دہر تھا
جب نالہ کش ہوا وہ تب مجلسیں رلائیں
تھا میر دل شکستہ یا کوئی نوحہ گر تھا
میر تقی میر

گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا

دیوان دوم غزل 693
کل دل آزردہ گلستاں سے گذر ہم نے کیا
گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا
کر گئی خواب سے بیدار تمھیں صبح کی بائو
بے دماغ اتنے جو ہو ہم پہ مگر ہم نے کیا
سیدھے تلوار کے منھ پر تری ہم آئے چلے
کیا کریں اس دل خستہ کو سپر ہم نے کیا
نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں
سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا
پائوں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہو گی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا
کھا گیا ناخن سر تیز جگر دل دونوں
رات کی سینہ خراشی میں ہنر ہم نے کیا
کام ان ہونٹوں سے وہ لے جو کوئی ہم سا ہو
دیکھتے دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر ہم نے کیا
جیسے حسرت لیے جاتا ہے جہاں سے کوئی
آہ یوں کوچۂ دلبر سے سفر ہم نے کیا
بارے کل ٹھہر گئے ظالم خونخوار سے ہم
منصفی کیجے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا
اس رخ و زلف کی تسبیح ہے یاں اکثر میر
ورد اپنا یہی اب شام و سحر ہم نے کیا
میر تقی میر

کہ میں شکار زبوں ہوں جگر نہیں رکھتا

دیوان دوم غزل 684
وہ ترک مست کسو کی خبر نہیں رکھتا
کہ میں شکار زبوں ہوں جگر نہیں رکھتا
بلا سے آنکھ جو پڑتی ہے اس کی دس جاگہ
ہمارا حال تو مدنظر نہیں رکھتا
رہے نہ کیونکے یہ دل باختہ سدا تنہا
کہ کوئی آوے کہاں میں تو گھر نہیں رکھتا
جنھوں کے دم میں ہے تاثیر اور وے ہیں لوگ
ہمارا نالۂ جانکاہ اثر نہیں رکھتا
کہیں ہیں اب کے بہت رنگ اڑ چلا گل کا
ہزار حیف کہ میں بال و پر نہیں رکھتا
تو کوئی زور ہی نسخہ ہے اے مفرح دل
کہ طبع عشق میں ہرگز ضرر نہیں رکھتا
خدا کی اور سے ہے سب یہ اعتبار ارنہ
جو خوب دیکھو تو میں کچھ ہنر نہیں رکھتا
غلط ہے دعوی عشق اس فضول کا بے ریب
جو کوئی خشک لب اور چشم تر نہیں رکھتا
جدا جدا پھرے ہے میر سب سے کس خاطر
خیال ملنے کا اس کے اگر نہیں رکھتا
میر تقی میر

پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے

دیوان اول غزل 539
ڈھونڈا نہ پایئے جو اس وقت میں سو زر ہے
پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کار گاہ ساری دکان شیشہ گر ہے
ڈھاہا جنوں نے اس کو ان پر خرابی آئی
جانا گیا اسی سے دل بھی کسو کا گھر ہے
تجھ بن شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں
مجھ نالہ کش کے تو اے فریادرس کدھر ہے
صید افگنو ہمارے دل کو جگر کو دیکھو
اک تیر کا ہدف ہے اک تیغ کا سپر ہے
اہل زمانہ رہتے اک طور پر نہیں ہیں
ہر آن مرتبے سے اپنے انھیں سفر ہے
کافی ہے مہر قاتل محضر پہ خوں کے میرے
پھر جس جگہ یہ جاوے اس جا ہی معتبر ہے
تیری گلی سے بچ کر کیوں مہر و مہ نہ نکلیں
ہر کوئی جانتا ہے اس راہ میں خطر ہے
وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میر اب تو
آنکھوں میں لخت دل ہے یا پارئہ جگر ہے
میر تقی میر

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

دیوان اول غزل 509
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے
میخانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے
کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے
تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ
کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے
ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے
دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے
واعظ نہیں کیفیت میخانہ سے آگاہ
یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے
صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے
اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میر بلاکش ادھر آوے
مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے
میر تقی میر

ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے

دیوان اول غزل 492
تیری گلی سے جب ہم عزم سفر کریں گے
ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے
آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کروگے ہم گریہ سر کریں گے
عذر گناہ خوباں بدتر گنہ سے ہو گا
کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے
سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہوں گی
کیا تیری تیغ سے ہم قطع نظر کریں گے
اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اس کو کب تک خبر کریں گے
گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے تو ہم نشیں ہم
شام غم جدائی کیونکر سحر کریں گے
یہ ظلم بے نہایت دیکھو تو خوبرویاں
کہتے ہیں جو ستم ہے ہم تجھ ہی پر کریں گے
اپنے بھی جی ہے آخر انصاف کر کہ کب تک
تو یہ ستم کرے گا ہم درگذر کریں گے
صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے
جو میر جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے
میر تقی میر

جان کے دینے کو جگر چاہیے

دیوان اول غزل 484
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
جان کے دینے کو جگر چاہیے
قابل آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے
کم ہے شناساے زر داغ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے
سینکڑوں مرتے ہیں سدا پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہیے
عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل دست بسر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
جیسے جرس پارہ گلو کیا کروں
نالہ و افغاں میں اثر چاہیے
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بار دگر چاہیے
میر تقی میر

ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو

دیوان اول غزل 404
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو
پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال کہ ہے
جیسے بیمار اجل روز بتر مت پوچھو
مرنے میں بند زباں ہونا اشارت ہے ندیم
یعنی ہے دور کا درپیش سفر مت پوچھو
کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو گیا
دل گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
لذت زہر غم فرقت دلداراں سے
ہووے منھ میں جنھوں کے شہد و شکر مت پوچھو
دل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی
اپنے ناحق میں ہیں سب اور ہنر مت پوچھو
جوں توں کر حال دل اک بار تو میں عرض کیا
میر صاحب جی بس اب بار دگر مت پوچھو
میر تقی میر

آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

دیوان اول غزل 384
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اس منھ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراش جبیں جراحت ہے
ناخن شوق کا ہنر دیکھو
تھی ہمیں آرزو لب خنداں
سو عوض اس کے چشم تر دیکھو
رنگ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
میر تقی میر

زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 107
وہ شہرِ بے انا کو کثرتِ اشیا سے بھر دیں گے
زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے
کبھی تعبیر سے انکی کھلا تھا باغ دنیا کا
اگر یہ خواب سچے ہیں تو دوبارہ ثمر دیں گے
ترا پیغام برحق ہے، مگر تعمیل مشکل ہے
زیادہ سے زیادہ ہم تجھے دادِ ہنر دیں گے
کرشمے دیکھتے جاؤ خداوندانِ مغرب کے
کہ وہ انسان کو آخر میں نا انسان کر دیں گے
شکوہِ سبزِ بے موسم صلہ ہے سخت جانی کا
تمہیں اس کی گواہی برف زاروں کے شجر دیں گے
آفتاب اقبال شمیم

ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 99
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اُسے عمر بھر نہیں آنا
بس ایک اشک پسِ چشم تم چھپائے رکھو
بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا
ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی
وگرنہ تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اُسے لوٹ کر نہیں آنا
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے
اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا
کروں مسافتیں نا افریدہ راہوں کی
مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا
آفتاب اقبال شمیم

کہ میرے کیسۂِ خواہش میں زر زیادہ نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 80
فقیر ہوں مجھے لٹنے کا ڈر زیادہ نہیں
کہ میرے کیسۂِ خواہش میں زر زیادہ نہیں
کرن کی قید میں ہے آئینے کی بینائی
میں اس کو دیکھ تو سکتا ہوں پر زیادہ نہیں
ہمارے دور میں تو واقعہ بھی کرتب ہے
یہ ہم جو دیکھتے ہیں، معتبر زیادہ نہیں
اور ان میں ایک درِ مے کدہ بھی شامل ہے
غمعں سے بچ کے نکلنے کے در زیادہ نہیں
میں اس کی شکل بناتا ہوں، پر نہیں بنتی
قلم کی نوک میں تابِ ہنر زیادہ نہیں
میں اہلِ دل کی ثنا خوانیوں میں رہتا ہوں
بلا سے، نام مرا مشتہر زیادہ نہیں
آفتاب اقبال شمیم

اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 47
یہی نا! قدّوقامت میں ذرا سے مختصر ہوتے
اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے
انہیں اپنے لئے گملوں کی آسائش پسند آئی
یہ پودے رنج سہہ لیتے تو جنگل کے شجر ہوتے
عجب خواہش کہ فرشِ سنگ سے ڈھانپی زمینوں میں
گلوں کو شہرتیں ملتیں ، پرندے نامور ہوتے
اگر کھلتے نہ اِس آنگن میں باغیچے تماشوں کے
تو روز و شب مکانِ وقت میں کیسے بسر ہوتے
ہوا نے ساز شاخوں پر ابھی چھیڑا نہیں ، ورنہ
سماعت کی تہی جھولی میں نغموں کے ثمر ہوتے
جہاں خطاطِ زر لفظوں کی تقدیریں بناتا تھا
وہاں مقبول کیوں سادہ نویسوں کے ہنر ہوتے
آفتاب اقبال شمیم

گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 23
گرمیء شوقِ نظارہ کا اثر تو دیکھو
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو ، پندگرو، راہگزر تو دیکھو
وہ تو وہ ہے، تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی اُن کا جگر تو دیکھو
دامنِ درد کو گلزار بنا رکھا ہے
آؤ اِک دن دلِ پُر خوں کا ہنر تو دیکھو
صبح کی طرح جھمکتا ہے شبِ غم کا افق
فیض، تابندگیء دیدہء تر تو دیکھو
فیض احمد فیض

فرد فرد

عرفان صدیقی ۔ فرد فرد
اب خدا چاہے تو کچھ اور ہوا چاہتا ہے
آج تک تو وہ ہوا ہے جو عدو نے چاہا
خدا نے ذہن میں لفظ و بیاں کو بھیج دیا
جو کچھ کمایا تھا میں نے سو ماں کو بھیج دیا

غزال آتے بھی ہیں زیر دام جانتا ہوں
مگر یہ رزق میں خود پر حرام جانتا ہوں

شہر نے اُمید کی چادر اوڑھی دُور اذان شام ہوئی
سوچ کی کہنہ سرائے میں روشن مشعل بام ہوئی

میرے انکار پرستش نے بچایا ہے مجھے
سر جھگا دوں تو ہر انسان خدا ہو جائے

کون پاگل اپنا سر دینے کی سرشاری میں ہے
فائدہ تو صرف اعلان وفاداری میں ہے

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہوتا
نہ ہوا ورنہ یہ نظارہ غضب کا ہوتا

میرا میدان غزل نیزہ و سر کا ٹھہرا
رہنے والا جو شہیدوں کے نگر کا ٹھہرا

غزل میں ہم سے غم جاں بیاں کبھی نہ ہوا
تمام عمر جلے اور دھواں کبھی نہ ہوا

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہو گا
کبھی ہو گا تو یہ نظارہ غضب کا ہو گا

ہوا کے ہاتھ میں رکھ دی کسی نے چنگاری
تمام شہر اسے حادثہ سمجھتا رہا

کوئے قاتل کو تماشا گاہ سمجھا ہے حریف
کشتنی میری رقابت میں یہاں بھی آگیا

زمین گھوم رہی ہے ہمارے رُخ کے خلاف
اشارہ یہ ہے کہ سمت سفر بدل دیں ہم

اس کا پندار رہائی نہیں دیتا اس کو
نقش دیوار دکھائی نہیں دیتا اس کو

میں اک دعا ہوں تو دروازہ آسمان کا بھی کھول
اور اک نوا ہوں تو حسن قبول دے مجھ کو

سوچتے سوچتے زندگی کٹ گئی اس نے چاہا مجھے
وہم بھی ایک شئے ہے مگر اس کے لیے کچھ قرینہ تو ہو

وہاں ہونے کو ہو گی برف باری
پرندے پھر ادھر آنے لگے ہیں

شاعری سے کوئی قاتل راہ پر آتا نہیں
اور ہم کو دوسرا کوئی ہنر آتا نہیں

مری غزل کا یہ مضموں بدلنے والا نہیں
وہ ملنے والا نہیں، دل سنبھلنے والا نہیں

میں بھی تنہائی سے ڈرتا ہوں کہ خاکم بدہن
آدمی کوئی خدا ہے، کہ اکیلا رہ جائے

حکم یہ ہے کہ مجھے دشت کی قیمت دی جائے
میرے زنداں کے در و بام کو وسعت دی جائے

موتیوں سے منہ بھرے دیکھو تو یہ مت پوچھنا
لوگ کیوں چپ ہو گئے تاب سخن ہوتے ہوئے

آگ میں رقص کیا، خاک اُڑا دی ہم نے
اب کے تو شہر میں اک دھوم مچا دی ہم نے
آگ میں رقص کیا خاک اُڑا دی ہم نے
موج میں آئے تو اک دھوم مچا دی ہم نے

دل اک تپش میں پگھلتا رہے تو اچھا ہے
چراغ طاق میں جلتا رہے تو اچھا ہے

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچاتے تو زیاں نام و نسب کا ہوتا

موج خوں بھرتی رہی دشت کی تصویر میں رنگ
کبھی دریا نہ مرے دیدۂ تر کا ٹھہرا

کبھی طلب ہی نہ کی دوستوں سے قیمت دل
سو کاروبار میں ہم کو زیاں کبھی نہ ہوا

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچائیں تو زیاں نام و نسب کا ہو گا

بجا حضور، یہ ساری زمین آپ کی ہے
میں آج تک اسے ملک خدا سمجھتا رہا

میں نے تو اپنے ہی بام جاں پہ ڈالی تھی کمند
اتفاقاً اس کی زد میں آسماں بھی آگیا

اب آفتاب تو محور بدل نہیں سکتا
تو کیوں نہ زاویۂ بام و در بدل دیں ہم

کیا کسی خواب میں ہوں میں تہہ خنجر کہ یہاں
چیختا ہوں تو سنائی نہیں دیتا مجھ کو
نہ گرم دوستیاں ہیں نہ نرم دشمنیاں
میں بے اصول ہوں کوئی اصول دے مجھ کو

ہم ہوا کے سوا کچھ نہیں اس پہ یہ حوصلہ دیکھئے
آدمی ٹوٹنے کے لیے کم سے کم آبگینہ تو ہو

مرا گھر پاس آتا جا رہا ہے
وہ مینارے نظر آنے لگے ہیں

شہسوارو، اپنے خوں میں ڈوب جانا شرط ہے
ورنہ اس میدان میں نیزے پہ سر آتا نہیں

لہو میں لو سی بھڑکنے لگی، میں جانتا ہوں
کہ یہ چراغ بہت دیر جلنے والا نہیں

دل افسردہ کے ہر سمت ہے رشتوں کا ہجوم
جیسے انسان سمندر میں بھی پیاسا رہ جائے

کب تلک کوئی کرے حلقۂ زنجیر میں رقص
کھیل اگر دیکھ لیا ہو تو اجازت دی جائے

اب بدن سے موج خوں گزری تو اندازہ ہوا
کیا گزر جاتی ہے صحرا پہ چمن ہوتے ہوئے

درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم ہی دنیا سے اُٹھا دی ہم نے
درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم بہرحال اُٹھا دی ہم نے

وہ عشق ہو کہ ہوس ہو مگر تعلق کا
کوئی بہانہ نکلتا رہے تو اچھا ہے
عرفان صدیقی

گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 321
دست عصائے معجزہ گر بھی اسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے
میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں
میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے
لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے
کھلتا ہوا نشان قمر بھی اسی کا ہے
آب رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب
بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے
وہ خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے
منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوق نظر بھی اسی کا ہے
بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے
تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں
فریاد کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے
تیرا یقین سچ ہے مری چشم اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے
مجرم ہوں اور خرابۂ جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے
خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے
عرفان صدیقی

تو کائنات کو کیوں دردِ سر بنایا جائے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 245
یہ شہرِ ذات بہت ہے‘ اگر بنایا جائے
تو کائنات کو کیوں دردِ سر بنایا جائے
ذرا سی دیر کو رک کر کسی جزیرے پر
سمندروں کا سفر مختصر بنایا جائے
اب ایک خیمہ لگے دشمنوں کی بستی میں
دُعائے شب کو نشانِ سحر بنایا جائے
یہی کٹے ہوئے بازو علم کیے جائیں
یہی پھٹا ہوا سینہ سپر بنایا جائے
سنا یہ ہے کہ وہ دریا اتر گیا آخر
تو آؤ‘ پھر اسی ریتی پہ گھر بنایا جائے
عجب مصاف سکوت و سخن میں جاری ہے
کسے وسیلۂ عرضِ ہنر بنایا جائے
عرفان صدیقی

دستک جو دی تو سایۂ در نے کہا نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 195
احوال اس چراغ کا گھر نے کہا نہیں
دستک جو دی تو سایۂ در نے کہا نہیں
پائے طلب کنارِ زمیں تک پہنچ گئے
میں رک گیا تو وحشتِ سر نے کہا نہیں
دستِ رفو نے سینے کے سب زخم سی دیئے
اندر کا حال ناز ہنر نے کہا نہیں
خوش تھی ہوا کہ راہ کا ہر سنگ ہٹ گیا
تب سر اٹھا کے خاکِ گزر نے کہا نہیں
نوکِ سناں نے بیعتِ جاں کا کیا سوال
سر نے کہاں قبول‘ نظر نے کہا نہیں
مدت سے اک سکوت ہمارا نشان تھا
ہم حرف زن ہوئے تو اثر نے کہا نہیں
عرفان صدیقی

دستِ دادار بڑا شعبدہ گر ہے سائیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 149
دیکھ لے، خاک ہے کاسے میں کہ زر ہے سائیں
دستِ دادار بڑا شعبدہ گر ہے سائیں
تو مجھے اس کے خم و پیچ بتاتا کیا ہے
کوئے قاتل تو مری راہ گزر ہے سائیں
یہ جہاں کیا ہے بس اک صفحۂ بے نقش و نگار
اور جو کچھ ہے ترا حسنِ نظر ہے سائیں
شہر و صحرا تو ہیں انسانوں کے رکھے ہوئے نام
گھر وہیں ہے دلِ دیوانہ جدھر ہے سائیں
ہم نے پہلے بھی مآلِ شبِ غم دیکھا ہے
آنکھ اب کے جو کھلے گی تو سحر ہے سائیں
پاؤں کی فکر نہ کر بارِ کم و بیش اتار
اصل زنجیر تو سامانِ سفر ہے سائیں
آگے تقدیر پرندے کی جہاں لے جائے
حدِّ پرواز فقط حوصلہ بھر ہے سائیں
شاعری کون کرامت ہے مگر کیا کیجے
درد ہے دل میں سو لفظوں میں اثر ہے سائیں
عشق میں کہتے ہیں فرہاد نے کاٹا تھا پہاڑ
ہم نے دن کاٹ دیئے یہ بھی ہنر ہے سائیں
عرفان صدیقی

سو منتظر اسی لمس ہنر کا میں بھی ہوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 147
ہوں مشتِ خاک مگر کوزہ گر کا میں بھی ہوں
سو منتظر اسی لمس ہنر کا میں بھی ہوں
کبھی ہوائے سرِ شاخسار ادھر بھی دیکھ
کہ برگِ زرد ہوں لیکن شجر کا میں بھی ہوں
یہ تیز روشنیوں کا دیار ہے‘ ورنہ
چراغ تو کسی تاریک گھر کا میں بھی ہوں
تمہارے زخموں سے میرا بھی ایک رشتہ ہے
لہو نہیں ہوں مگر چشمِ تر کا میں بھی ہوں
مجھے کھنچی ہوئی تلوار سونپنے والے
میں کیا کروں کہ طرفدار سر کا میں بھی ہوں
اب آگئی ہے سحر اپنا گھر سنبھالنے کو
چلوں‘ کہ جاگا ہوا رات بھر کا میں بھی ہوں
عرفان صدیقی

ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 48
اپنے آنگن ہی میں تھا، راہ گزر میں کیا تھا
ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا
سبز پتوں نے بہت راز چھپا رکھے تھے
رُت جو بدلی تو یہ جانا کہ شجر میں کیا تھا
تھا کمیں گاہ میں سنّاٹے کا عالم، لیکن
اِک نیا رنگ یہ ٹوٹے ہوئے پَر میں کیا تھا
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
اور کیا دیکھتی دُنیا ترے چہرے کے سوا
کم سے کم رَنگ تھا سُرخی میں، خبر میں کیا تھا
تم یہ دیکھو کہ فقط خاک ہے پیراہن پر
یہ نہ پوچھو کہ مرے رختِ سفر میں کیا تھا
تم نہ ہوتے تو سمجھتی تمہیں دُنیا عرفانؔ
فائدہ عرضِ ہنر میں تھا، ہنر میں کیا تھا
عرفان صدیقی

آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 38
ہو چکا کھیل بہت جی سے گزر جانے کا
آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا
ہم بھی زندہ تھے مسیحا نفسوں کے ہوتے
سچ تو یہ ہے کہ وہی وقت تھا مر جانے کا
بے سروکار فلک بے در و دیوار زمیں
سر میں سودا ہے مری جان کدھر جانے کا
ہم یہاں تک خس و خاشاک بدن کو لے آئے
آگے اب کوئی بھی موسم ہو بکھر جانے کا
کوئی دشوار نہیں شیوۂ شوریدہ سری
ہاں اگر ہے تو ذرا خوف ہے سر جانے کا
اب تلک بزم میں آنا ہی تھا اک کار ہنر
ہم نے آغاز کیا کار ہنر جانے کا
عرفان صدیقی

اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 32
طوفاں میں تا بہ حد نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
کچھ خاک تھی سو وقت کی آندھی میں اُڑ گئی
آخر نشان سوز جگر کچھ نہیں بچا
ہر شئے کو ایک سیل بلاخیز لے گیا
سودا نہ سر، چراغ نہ در، کچھ نہیں بچا
سب جل گیا جو تھا ہمیں پیارا جہان میں
خوشبو نہ گل، صدف نہ گہر، کچھ نہیں بچا
مٹی بھی نذر حسرت تعمیر ہو گئی
گھر میں سوائے برق و شرر کچھ نہیں بچا
اُس پار ساحلوں نے سفینے ڈبو دیے
سب کچھ بچا لیا تھا مگر کچھ نہیں بچا
یا بازوئے ستم میں ہے یہ تیغ آخری
یا دست کشتگاں میں ہنر کچھ نہیں بچا
ڈرتے رہے تو موج ڈراتی رہی ہمیں
اَب ڈوب جائیے کہ خطر کچھ نہیں بچا
کچھ نقدِ جاں سفر میں لٹانا بھی ہے ضرور
کیا کیجئے کہ زادِ سفر کچھ نہیں بچا
یہ کاروبارِ عرضِ تمنا فضول ہے
دل میں لہو، دُعا میں اثر کچھ نہیں بچا
اب اور کوئی راہ نکالو کہ صاحبو
جس سمت جا رہے تھے اُدھر کچھ نہیں بچا
یہ کون چیختا ہے اگر مر گیا ہوں میں
یہ کیا تڑپ رہا ہے اگر کچھ نہیں بچا
عرفان صدیقی

آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 428
اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ
آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ
حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے
اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ
رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے
جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ
وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں
اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ
میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر
جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ
سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا
اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ
منصور آفاق

عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 292
آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں
عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں
اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل
مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں
درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن
قطرہ پہ گزری ہے کیا، قطرہ گہر ہو تو کہوں
ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے
کوئی بستی، کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں
کوئی شہ نامہء شب، کوئی قصیدئہ ستم
معتبر کوئی کہیں صاحبِ زر ہو تو کہوں
قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا
آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں
کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر
کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں
یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی
موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں
کون بے چہرگیِ وقت پہ تنقید کرے
سر بریدہ ہے یہ دنیا، مرا سر ہو تو کہوں
رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے
کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں
کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے
کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں
ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے
کوئی سایہ سا، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں
دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے
بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں
زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے
زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا
آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں
سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے
سینہء درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں
میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے
دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں
تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو ا
کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں
رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں
رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں
پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے
کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں
پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں
کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں
عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے
یہ بلائیں ہیں اگر ماہِ صفر ہو تو کہوں
اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری
کوئی سسکاری کوئی دیدئہ تر ہو تو کہوں
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
"یہ تو وقفہ ہے کوئی ، ان کو خبر ہو تو کہوں
کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے
نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں
یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے
جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں
مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے
موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں
آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن
قریہء وقت کبھی زیر و زبر ہو تو کہوں
ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کر پایا
خود کو شاعر کبھی تکمیلِ ہنر ہو تو کہوں
اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور
حاکمِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں
زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور
میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں
پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں
منصور آفاق

فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 277
میں رابطوں کے مکاں معتبر بناتا ہوں
فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں
اڑان دیکھ مرے آہنی پرندوں کی
مسیح میں بھی ہوں لوہے کے پر بناتا ہوں
فروغ دیدئہ ابلاغ کے وسیلے سے
یہ اپنے آپ کو کیا باخبر بناتا ہوں
خدا کی شکل بنانی پڑے گی کاغذ پر
میں اپنا باطنی چہرہ اگر بناتا ہوں
سمٹ گئے ہیں جہاں تو مرے ہتھیلی میں
سو اب میں ذات کے اندر سفر بناتا ہوں
یونہی یہ لفظ چمکتے نہیں اندھیرے میں
جلا جلا کے کتابیں شرر بناتا ہوں
نکل پڑے نہ زمانہ مرے تعاقب میں
سو نقش پا بھی بہت سوچ کر بناتا ہوں
بس ایک صرف سناتا ہوں آیتِ منسوخ
فروغ خیر سے تہذیبِ شر بناتا ہوں
مرے دماغ میں بس عنکبوت رہتے ہیں
میں وہم بنتا ہوں خوابوں میں ڈر بناتا ہوں
اکھیڑ دیتا ہوں نقطے حروف کے منصور
میں قوسیں کاٹ کے تازہ ہنر بناتا ہوں
منصور آفاق

رات خاموش ہے تکمیلِ ہنر ہونے تک

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 259
وقت کی فاختہ اڑتی نہیں پر ہونے تک
رات خاموش ہے تکمیلِ ہنر ہونے تک
ختم ہوجائے گی منزل پہ تری بانگِ درا
گرمی ء ذوق عمل ہو گا سفر ہونے تک
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
یہ تو وقفہ ہے فقط ان کو خبر ہونے تک
ایک لمحہ ہے قیامت کا بس اپنے ہمراہ
دیر کتنی ہے جہان زیر و زبر ہونے تک
قتل گہ میں ہیں چراغوں کی کروڑوں لاشیں
کتنے مصلوب دئیے ہونگے سحر ہونے تک
کوئی حرکت ہی دکھائی نہیں دیتی منصور
راکھ ہوجائیں گے ہم رات بسر ہونے تک
منصور آفاق

تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 74
کرشمے تیری گرفتِ نظر کے دیکھوں گا
تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا
پتہ کروں گا نہ ہونے میں کیسا ہونا ہے
مقامِ صفر پہ کچھ دن ٹھہر کے دیکھوں گا
نکل کے کمرے سے جاؤں گا صحن میں اپنے
مناظر اپنے شکستہ سے گھر کے دیکھوں گا
رکھا درخت کے بالکل ہے سامنے سورج
ابھی میں پھیلتے سائے اُدھر کے دیکھوں گا
جہاں جہاں ترے پہلو میں کھل اٹھا تھا بدن
میں بار بار وہیں سے گزر کے دیکھوں گا
سہار د ستِ دعانے تو لی ہے چھت لیکن
مگر فلک کی طرف روز ڈر کے دیکھوں گا
ہے ہمکلام بھی مائل بھی اور اکیلا بھی
سوہاتھ زانوئے جاناں پہ دھر کے دیکھوں گا
سناہے اسکے لبوں سے جھڑے مسیحائی
سومیں بھی یار کی چوکھٹ پہ مر کے دیکھوں گا
اے چشمِ یار کی تیرہ سواد کاجلی شب
تجھے میں آنکھ میں مہتاب بھر کے دیکھوں گا
بنا ہوا ہوں ازل سے زمین کا قیدی
میں سارے دائرے دا مِ سفر کے دیکھوں گا
ذرا سی اور ٹھہر جائے رات پہلو میں
سبھی چراغ بجھا کر سحر کے دیکھوں گا
ہوا وصال میں مہکے توچاندنی !تجھ سے
میں کھول کھول کے سائے شجر کے دیکھوں گا
مجھے یقیں ہے کہ تیرا سروپ ہے اسمیں
اب آئینہ بھی ہمیشہ سنور کے دیکھوں گا
تم اپنے خول سے باہر نکل کے آ ؤ تو
فرازِ عرش سے میں بھی اتر کے دیکھوں گا
مرے لبوں کو بھی تتلی کی نرمیاں چھو لیں
گلاب کی طرح میں بھی نکھر کے دیکھوں گا
خود اپنی آنکھ سے اپنی سویر کی کرنیں
کسی کے بامِ افق پر ابھر کے دیکھوں گا
یہ اور بات کہ موسم بدل نہیں سکتا
میں برگ برگ ہوا میں بکھر کے دیکھوں گا
ابھی لکھوں گا قصیدہ کسی کے چہرے کا
تماشا اپنے ہی حسنِ نظر کے دیکھوں گا
وہ گنگنائے گی اک دن مری غزل منصور
عجب وصال میں اپنے ہنر کے دیکھوں گا
منصور آفاق

یعنی ہجراں کا بدن مثلِ سحر نازل ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 67
اک مسلسل رتجگا سورج کے گھر نازل ہوا
یعنی ہجراں کا بدن مثلِ سحر نازل ہوا
زندگی میری رہی مثبت رویوں کی امیں
میری آنکھوں پر مرا حسن نظر نازل ہوا
اس پہ اترا بات کو خوشبو بنا دینے کا فن
مجھ پہ اس کو نظم کرنے کا ہنر نازل ہوا
کوئی رانجھے کی خبر دیتی نہیں تھی لالٹین
خالی بیلا رات بھر بس ہیر پر نازل ہوا
اس محبت میں تعلق کی طوالت کا نہ پوچھ
اک گلی میں سینکڑوں دن کا سفر نازل ہوا
وقت کی اسٹیج پر بے شکل ہو جانے کا خوف
مختلف شکلیں بدل کر عمر بھر نازل ہوا
جاتی کیوں ہے ہر گلی منصور قبرستان تک
یہ خیالِ زخم خوردہ دربدر نازل ہوا
منصور آفاق