ٹیگ کے محفوظات: ہمسفراں

جیسے اک فتنہ بیدار، رواں خواب میں تھا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 23
جانے نشّے میں کہ وہ آفت جاں خواب میں تھا
جیسے اک فتنہ بیدار، رواں خواب میں تھا
وہ سرِ شام، سمندر کا کنارا، ترا ساتھ
اب تو لگتا ہے کہ جیسے یہ سماں خواب میں تھا
جیسے یادوں کا دریچہ کوئی وا رہ جائے
اک ستارہ مری جانب نگراں خواب میں تھا
جب کھلی آنکھ تو میں تھا مری تنہائی تھی
وہ جو تھا قافلۂ ہمسفراں خواب میں تھا
ایسے قاتل کو کوئی ہاتھ لگاتا ہے فراز
شکر کر شکر کہ وہ دشمنِ جاں خواب میں تھا
احمد فراز

اس چپ میں بھی ہے جی کازیاں بولتے رہو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 98
کہتا ہے ہر مکیں سے مکاں بولتے رہو
اس چپ میں بھی ہے جی کازیاں بولتے رہو
ہر یاد، ہر خیال ہے لفظوں کا سلسلہ
یہ محفل نوا ہے یہاں بولتے رہو
موج صدائے دل پہ رواں ہے حصار زیست
جس وقت تک ہے منہ میں زباں بولتے رہو
اپنا لہو ہی رنگ ہے، اپنی تپش ہی بو
ہو فصل گل کہ دور خزاں بولتے رہو
قدموں پہ بار ہوتے ہیں سنسان راستے
لمبا سفر ہے ہمسفراں بولتے رہو
ہے زندگی بھی ٹوٹا ہوا آئنہ تو کیا
تم بھی بطرز شیشہ گراں بولتے رہو
باقیؔ جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو
باقی صدیقی

پھر جہان گزراں یاد آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 64
سود یاد آیا، زیاں یاد آیا
پھر جہان گزراں یاد آیا
ہوش آنے لگا دیوانے کو
عقل کا سنگ گراں یاد آیا
جرس غم نے پکارا ہم کو
کاروان دل و جاں یاد آیا
اک نہ اک زخم رہا پیش نظر
تم نہ یاد آئے جہاں یاد آیا
نیند چبھنے لگی بند آنکھوں میں
جب چراغوں کا دھواں یاد آیا
کوئی ہنگامۂ روز و شب میں
یاد آ کر بھی کہاں یاد آیا
دیکھ کر صورت منزل باقیؔ
دعویٔ ہمسفراں یاد آیا
باقی صدیقی