ٹیگ کے محفوظات: ہل

سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم

دیوان پنجم غزل 1676
عشق ہمارے درپئے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم
سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم
بل کھائے ان بالوں سے کب عہدہ برآ ہوتے ہیں ہزار
تکلے کا سا بل نکلا ہے ٹک جو جلے تھے بل کر ہم
مت پوچھو کچھ پچھتاتے ہیں کیا کہیے گھبراتے ہیں
جی تو لیا ہے پاس بغل میں دل بیٹھے ہیں ڈل کر ہم
بے تگ و دو کیا سیری ہو دیدار کے ہم سے تشنوں کو
پانی بھی پی سکتے نہیں ٹک اپنی جگہ سے ہل کر ہم
عشق جو ہوتا واقع میں تو سیدھے جاتے تیغ تلے
راہ ہوس کی پھرلی ہم نے یعنی چلے ہیں ٹل کر ہم
ہائے جوانی شورکناں پا بوس کو اس کے پھرتے تھے
اب چپ بیٹھ رہے ہیں یکسو ہاتھ بہت سے مل کر ہم
آگے تو کچھ اس سے آہیں گرم شعلہ فشانی تھیں
اب تو ہوئے ہیں میر اک ڈھیری خاکستر کی جل کر ہم
میر تقی میر

لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا

دیوان پنجم غزل 1567
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا
لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا
دل جمع تھا جو غنچہ کے رنگوں خزاں میں تھا
اے کیا کہوں بہار گل زخم کھل گیا
بے دل ہوئے پہ کرتے تدارک جو رہتا ہوش
ہم آپ ہی میں آئے نہیں جب سے دل گیا
دیکھا نہیں پہاڑ گراں سنگ یا سبک
زوروں چڑھا تھا عشق میں فرہاد پل گیا
شبنم کی سی نمود سے تھا میں عرق عرق
یعنی کہ ہستی ننگ عدم تھی خجل گیا
غم کھینچتے ہلا نہیں جاگہ سے کیا کروں
دل جا لگے ہے دم بہ دم اودھر ہی ہل گیا
صورت نہ دیکھی ویسی کشادہ جبیں کہیں
میں میر اس تلاش میں چین و چگل گیا
میر تقی میر

پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 580
تُو پہلے لوح پہ لکھا ہوا بدل چل کے
پھر اس کے بعد زمانوں کو روند چل چل کے
اکیلا دیکھ کے تالاب کے کنارے پر
تسلی دینے مجھے آ گیا کنول چل کے
مجھے دکھا نہ دہکتے ہوئے پہر کا جلال
جا اپنی شام کی عبرت سرا میں ڈھل چل کے
صداؤں سے وہ سفینہ پلٹ نہیں سکتا
اِسی جزیرہ وحشت میں ہاتھ مل چل کے
نکال دشتِ تعلق سے اپنی تنہائی
کسی حبیب کے گھر جا، ذرا سنبھل چل کے
وہ سنگ زاد پگھلتا نہیں مگر پھر بھی
اسے سنا کوئی جلتی ہوئی غزل چل کے
طلوعِ حسن کی ساعت پہ تبصرہ کیا ہو
نکل رہا ہے کوئی آسماں کے بل چل کے
مزاجِ خانہء درویش کو خراب نہ کر
چراغ! اپنے حریمِ حرم میں جل چل کے
فسادِ خلقِ خدا پہ امید صبحوں کی
بغاوتوں کی کرن ہیں تماشے ہلچل کے
رکی ہے چرخ کی چرخی کسی خرابی سے
نکال وقت کے پہیے سے اب خلل چل کے
مثالِ تیر لپکتے ہوئے تعاقب میں
ابد میں ہو گیا پیوست خود ازل چل کے
اب اس کے بعد کہانی ترے کرم کی ہے
خود آ گیا ہے یہاں تک تو بے عمل چل کے
ندی کی پیاس بجھا ریت کے سمندر سے
کسی پہاڑ کی چوٹی سے پھر ابل چل کے
سنا ہے کھڑکیاں کھلتی ہیں چاند راتوں میں
کسی کو دیکھ مرے دل، کہیں مچل چل کے
مجھے بھی آتے دنوں کا شعور حاصل ہو
پڑھوں کہیں پہ گذشتہ کا ماحصل چل کے
بس ایک فون کی گھنٹی، بس ایک ڈور کی بیل
کسی کی آگ میں پتھر بدن !پگھل چل کے
عجب ہے حسنِ تناسب کی داستاں منصور
بنا ہے ‘ تاج محل‘ موت کا محل چل کے
منصور آفاق

یہ کہاں تک آ گئے ہیں ساتھ چل کے آئینے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 568
دیکھتا ہوں خواب میں تیرے محل کے آئینے
یہ کہاں تک آ گئے ہیں ساتھ چل کے آئینے
میں نے دیواروں پہ تیری شکل کیا تصویر کی
آ گئے کمرے میں آنکھوں سے نکل کے آئینے
آدمی نے اپنی صورت پر تراشے دیوتا
آپ اپنی ہی عبادت کی، بدل کے آئینے
ساڑھی کے شیشوں میں میرا لمسِ تازہ دیکھ کر
تیرے شانوں سے نظر کے ساتھ ڈھلکے آئینے
آخری نقطے تلک دیکھا تھا اپنی آنکھ میں
اور پھر دھندلا گئے تھے ہلکے ہلکے آئینے
ایک سورج ہے ترے مد مقابل آج رات
دیکھ اس کو دیکھ لیکن کچھ سنبھل کے آئینے
سینہء شب میں حرارت تھی کچھ اتنی چاند کی
پارہ پارہ ہو گئے ہیں دو پگھل کے آئینے
پھر برہنہ شخصیت ہونے لگی دونوں طرف
جب شرابوں سے بھرے کچھ دیر چھلکے آئینے
منصور آفاق

ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 13
اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل
ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل
لفظوں کے پھلوں پہ نہ جا
دیکھ سروں پر چلتے ہل
دنیا برف کا تودہ ہے
جتنا جل سکتا ہے جل
غم کی نہیں آواز کوئی
کاغذ کالے کرتا چل
بن کے لکیریں ابھرے ہیں
ماتھے پر راہوں کے بل
میں نے تیرا ساتھ دیا
میرے منہ پر کالک مل
آس کے پھول کھلے باقیؔ
دل سے گزرا پھر بادل
باقی صدیقی