دیوان پنجم غزل 1676
عشق ہمارے درپئے جاں ہے آئے گھر سے نکل کر ہم
سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم
بل کھائے ان بالوں سے کب عہدہ برآ ہوتے ہیں ہزار
تکلے کا سا بل نکلا ہے ٹک جو جلے تھے بل کر ہم
مت پوچھو کچھ پچھتاتے ہیں کیا کہیے گھبراتے ہیں
جی تو لیا ہے پاس بغل میں دل بیٹھے ہیں ڈل کر ہم
بے تگ و دو کیا سیری ہو دیدار کے ہم سے تشنوں کو
پانی بھی پی سکتے نہیں ٹک اپنی جگہ سے ہل کر ہم
عشق جو ہوتا واقع میں تو سیدھے جاتے تیغ تلے
راہ ہوس کی پھرلی ہم نے یعنی چلے ہیں ٹل کر ہم
ہائے جوانی شورکناں پا بوس کو اس کے پھرتے تھے
اب چپ بیٹھ رہے ہیں یکسو ہاتھ بہت سے مل کر ہم
آگے تو کچھ اس سے آہیں گرم شعلہ فشانی تھیں
اب تو ہوئے ہیں میر اک ڈھیری خاکستر کی جل کر ہم
میر تقی میر